اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)20%

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 196

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 196 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 89954 / ڈاؤنلوڈ: 5104
سائز سائز سائز
اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)

اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

دوسری فصل

اہل بیت کی عظمت سنت کی روشنی میں

۱)اہل بیت کا وجود نور الہٰی ہے

قرآن کریم میں خدا نے اپنی ذات گرامی کو نور سے تعبیر کیاہے جیسے( الله نور السموٰات والارض ) یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ پورے آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔

نیز حضرت پیغمبر اسلام (ص) کے وجود مبارک کو اور خود قرآن کریم کو بھی نور سے یاد کیاگیا ہے، اسی طرح احادیث نبوی(ص)میں علم اور نمازتہجد اور احادیث متواترہ میں اہل بیت کے وجود بابرکت کو نور سے تعبیر کیا گیاہے۔

ابن مسعود (ع)نے کہا:

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم :اعلم ان الله خلقنی و علیاً من نور عظیم قبل خلق الخلق بالفی عام اذ لا تسبیح و لا تقدیس ( ۱ )

____________________

( ۱ ) ۔قندوزی،ینابیع المودۃ،ج۱ص ۷۰

۸۱

''پیغمبر اکرم (ص)نے مجھ سے فرمایا:(اے ابن مسعود (ع)) جان لو! خدا نے کائنات کو خلق کرنے سے دو ہزار سال پہلے مجھے اور علی (ع)کو ایک عظیم نور سے خلق فرمایا تھا جبکہ اس وقت خدا کی تقدیس اور تسبیح کےلئے کوئی مخلوق نہ تھا۔

اس روایت سے دو نکتے واضح ہوجاتے ہیں:

۱۔کائنات کی خلقت سے پہلے پیغمبر (ص)اور حضرت علی (ع)کی خلقت ہوئی تھی اگرچہ اس کا تصور کرنا اس صدی کے افراد کی ذہنیت سے دور ہے کیونکہ اس صدی کے انسان کا ذہن مادی اشیاء سے زیادہ مانوس ہے۔ لہٰذاماورائے مادہ و مادیات کا تصور اور خاکہ اس کے ذہن میں ڈالنا اتنی علمی ترقی اور عقل و شعور کے باوجود بہت مشکل ہے ۔لیکن اگر انسان کا عقیدہ اور ایمان مضبوط ہو تو یہ سمجھنا آسان ہے کہ کائنات کی خلقت سے پہلے پیغمبر اکرم (ص)اور حضرت علی (ع)کے نور کو خلق کرنا خدا کے لئے مشکل کام نہیںتھا۔کیا اللہ تعالیٰ اس پر قادر نہ تھا؟کیا اس طرح کا خلق کرنا ممکن نہیں ہے کیا کائنات کی خلقت حضرت پیغمبر (ص) اور حضرت علی (ع)کی خلقت کےلئے علت تامہ ہے؟ لہٰذا یہ کہنا کہ پیغمبر اکرم (ص)اور حضرت علی (ع)کی خلقت کےلئے مکان و زمان یا اس رائج مادی سسٹم کی ضرورت ہے۔اس طرح تصور کرناحقیقت میں کائنات کے حقائق سے بے خبر ہونے کے مترادف ہے۔

۸۲

۲۔اس حدیث سے پیغمبر اکرم (ص)اور حضرت علی (ع)کے وجود مبارک کے نور ہونے کا پتہ چلتا ہے جس کی حقیقت یہ ہے کہ ان کے وجود میں کسی بشر کے لئے کوئی ضرر یا نقصان قابل تصور نہیں ہے۔ کیونکہ خدا کی ذات نور ہے قرآن نور ہے،علم وعبادات نور ہیں،اہل بیت کا وجود بھی نور ہے، اور یہ چیزیں انسان کے تکامل و ترقی کا ذریعہ ہیں۔تکامل و ترقی کےلئے رکاوٹ کا تصور محال ہے۔

نیز جناب عبد الرضی بن عبد السلام نے نزہۃ المجالس میں جناب جابر بن عبد اللہ (ع)سے روایت کی ہے:

عن النبی صلی الله علیه وآله وسلم ان الله خلقنی و خلق علی (ع) نورین بین یدی العرش نسبح الله و نقدسه قبل ان یخلق آدم بالفی عام فلما خلق الله آدم اسکننا فی صلبه ثم خلقنا من صلب طیب و بطن طاهر حتیٰ اسکننا فی صلب ابراهیم(ع)ثم نقلنا من صلب ابراهیم الیٰ صلب طیب و بطن طاهر حتیٰ اسکننا فی صلب عبد المطلب ثم افترق النور فی عبد المطلب فصار ثلثاه فی عبد الله و ثلثه فی ابی طالب (ع) ثم اجتمع النور منی و من علی (ع) فی فاطمة (ع) فالحسن و ال حسین (ع) نوران من نور ربّ العالمین ( ۱ )

____________________

( ۱ ) ۔نزہۃ المجالس ج ۲ص۲۳ ۰ ۔

۸۳

جناب جابر (ع)نے پیغمبر اکرم (ص)سے روایت کی ہے کہ آپنے فرمایا: بتحقیق خدا نے مجھے اور علی (ع)کو حضرت آدم (ع)کی خلقت سے دوہزار سال پہلے دو نور کی شکل میں عرش کے سامنے خلق کیا اور ہم خدا کی تسبیح و تقدیس کرتے تھے ۔جب خدا نے حضرت آدم (ع)کو خلق فرمایا تو ہمارے نورکو ان کے صلب مبارک میں قرار دے دیا پھر ان کے صلب سے پاک و پاکیزہ اصلاب کے ذریعہ منتقل کرکے حضرت ابراہیم(ع)کے صلب میں ٹھہرایا،پھر ان کے صلب اور پشت سے نکال کر جناب عبد المطّلب- کے صلب میں منتقل کیا پھر جناب عبد المطلب (ع)کے صلب سے یہ نور اس طرح تقسیم ہواکہ دو حصے حضرت عبد اللہ بن عبد المطّلب- کے صلب میں قرار دیا گیاجبکہ ایک حصہ جناب ابو طالب بن عبد المطلب +کے صلب میں قرار دیاگیا،پھر اس نور کے دونوں حصے فاطمہ (س)کے وجود مبارک میں جمع ہوئے لہٰذا حسن- و حسین- اللہ تعالیٰ کے دو نور ہیں۔

اس روایت پر غور کیا جانا چاہے کیونکہ گذشتہ روایت میں حضرت پیغمبر اکرم (ص)اور حضرت علی (ع)کے نور کا کائنات کی خلقت سے پہلے موجود ہونے کو بتایا گیا ۔ اس روایت میں حضرت آدم(ع)کی خلقت سے پہلے حضرت پیغمبر (ص) اور حضرت علی (ع)کا نورخلق ہونے کی خبر دی۔

۸۴

نیز جناب سلمان فارسی (ع)نے فرمایا:

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم: یا سلمان!فهل علمت من نقبائی و من الانثیٰ عشر الذین اختارهم الله للامامة بعدی فقلت الله و رسوله اعلم قال یا سلمان خلقنی الله من صفوةٍ نوره و دعانی فا طعت و خلق من نوری علیاً فدعاه واطاعه وخلق من نوری و نور علی فاطمه فدعاها فاطاعته و خلق منی و من علی و فاطمة الحسن و الحسین فدعاهما فاطاعاه فسمانا بالخمسة الاسماء من اسمائه الله المحمود و انا محمد والله اعلٰی وهٰذا علی و الله فاطر وهٰذه فاطمة والله ذوالاحسان وهٰذا الحسن والله المحسن وهٰذا الحسین ثم خلق منا ومن صلب الحسین تسعة ائمة فدعاهم فاطاعوه قبل ان یخلق الله سماء مبنیة وارضا مدحیة او هواء او ماء او ملکاً او بشراً وکنّا بعلمه نوراً نسبحه و نقدسه و نطیع ( ۱ )

پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:اے سلمان (ع)! کیا تو جانتے ہو کہ میرے جانشین کون ہیں؟ اور وہ بارہ افراد جنہیں خدا نے میرے بعد امامت کےلئے چن لیا ہے کون ہیں؟سلمان (ع)نے کہا:اللہ اور اس کا رسول (ص) بہترجانتے ہیں۔ اس وقت رسول خدا ؐنے فرمایا: اے سلمان (ع)جان لو!خدا نے مجھے اپنے

____________________

( ۱ ) ۔بحار الانوارج ۱۵ ص ۹ ۔

۸۵

خالص نور سے خلق فرمایا اور مجھے اپنی اطاعت کی دعوت دی تو میں نے اطاعت کی پھر میرے نور سے علی (ع)کو خلق کیا اور ان کو بھی اپنی طرف دعوت دی انہوں نے بھی اطاعت کی اور میرے اور علی (ع)کے نور سے فاطمہ زہرا(س) کو خلق کیا ان کو بھی اطاعت کی دعوت دی انہوں نے لبیک کہا پھر میرے،علی (ع)اور فاطمہ (س)کے نور سے حسن و حسین (ع) کو خلق فرمایا ان کو بھی اپنی طرف دعوت دی انہوں نے قبول کیا پھر خدا نے ہمیں اپنے پانچ اسماء حسنیٰ سے موسوم فرمایا پس خدا محمود ہے میں محمد،خدا اعلیٰ ہے اور یہ علی (ع)،خدا فاطر ہے اور یہ فاطمہ (س) ،خدا صاحب احسان ہے اور یہ حسن (ع)،خدا محسن ہے اور یہ حسین-۔اس کے بعد خدا نے میرے حسین(ع)کے صلب سے نو ہستیوں کو امام اور پیشوا بناکر خلق فرمایا ان کو بھی اپنی طرف دعوت دی تو سب نے خدا کی اطاعت کی،اس وقت آسمان،زمین،ہوا،پانی،فرشتے اور بشر میں سے کوئی چیز خلق نہیں ہوئی تھی صرف ہمارا نور تھا جو خدا کی تسبیح و تقدیس اور اطاعت کر رہا تھا۔

۸۶

فضل نے کہا:

قال الصادق علیه السلام:ان الله تبارک وتعالیٰ خلق اربعة عشر نوراً قبل خلق الخلق باربعة عشر الف عام فهی ارواحنا فقیل له یابن رسول الله ومن الاربعة عشر قال محمد(ص)و علی (ع) و فاطمه والحسن والحسین والائمة من ولد الحسین آخرهم القائم الذی یقوم بعد غیبة فیقتل الدجال و یطهر الارض من کل جور و ظلم ......( ۱ )

امام جعفر صادق (ع)فرماتے ہیں:بتحقیق خدا نے کائنات کو خلق کرنے سے چودہ ہزار سال پہلے چودہ نور کو خلق فرمایا،اوروہ ہم اہل بیت کی ارواح تھیں آپ (ع)سے پوچھا گیا یابن رسول خدا! وہ چودہ ہستیاں کون ہیں؟آپ- نے فرمایا:وہ حضرت محمد(ص)،حضرت علی (ع)،حضرت فاطمہ (س) ،حضرت حسن-حضرت حسین- اور امام حسین(ع)کی نسل سے نوامام ہیںجن میں سے آخری امام قائم عج ہوگا جو غیبت کے بعد ظہور کرے گااور دجال کو قتل کرکے زمین کو ہر قسم کے ظلم و جور سے پاک کردے گا۔

تحلیل:

مذکورہ روایتوں سے معلوم ہوجاتاہے کہ اہل بیت شیعہ امامیہ کے

عقید ے کے مطابق چودہ ہیں جوچودہ معصومین کے نام سے مشہور ہیں ان کی خلقت حضرت آدم (ع)کی خلقت سے پہلے نور کی شکل میں عالم ذر اور عالم نفس میں ہوئی تھی۔

____________________

( ۱ ) ۔بحار الانوار ج ۱۵،ص۲۳۔

۸۷

جب حضرت آدم (ع)کی خلقت ہوئی تو خدا نے ان کے نور کو پاک و پاکیزہ صلبوں سے منتقل کرکے حضرت عبد اللہ(ع)اورحضرت ابو طالب-کے صلب تک پہنچا دیا پھراس مادی دنیامیں بشر کی شکل میں وجود کا لباس پہنایا۔

نیز امام سجاد (ع)نے فرمایا:

حدثنا عمّی حسن قال سمعت جدی رسول الله یقول خلقت من نور الله عز وجل و خلق اهل بیتی من نوری و خلق محبهم من نورهم و سائر الناس فی النار ( ۱ )

میں نے اپنے تایاامام حسن مجتبیٰ (ع)سے سنا کہ آپ-نے فرمایا:میرے نانا رسول خدا ؐنے فرمایا: میرا وجود خدا کے نور سے خلق ہوا اور میرے اہل بیت کو میرے نور سے خلق کیا گیا اور ان کے دوستوں کو اہل بیت کے نور سے خلق کیا گیا ۔ اوران کے ساتھ بغض رکھنے والوں کو منہ کے بل جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔

اہم نکات:

اگر اس صدی کا بشر اہل بیت کی عظمت اور فضیلت کے بارے میں صرف اہل سنت کے منابع کا مطالعہ کرے توحقیقت واضح ہونے کے علاوہ بہت

____________________

( ۱ ) ۔ینابیع المودۃ ج ۱ص۱ ۰ ۔

۸۸

ساری مشکلات کا حل بھی مل سکتا ہے۔اور اہل بیت کی عظمت بیان کرنے والی احادیث کو کسی اضافہ اور مبالغہ گوئی کے بغیر پیش کیا جائے تو اہل بیت کی خلقت اور دیگر انسانوں کی خلقت میں بڑا فرق نظر آئے گا۔ اگر ہم ان کی خلقت کا حضرت آدم (ع)کی خلقت یا کائنات کی خلقت سے پہلے ہونے کی خبر کسی ایسے معاشرے میں بیان کریں جہاں سالوں سال سے مادی نظام رائج ہو تو ہمارا مذاق اڑایا جائے گا ۔کیونکہ ان کی ذہنیت مادہ اور مادیات سے مانوس ہوچکی ہے۔لہٰذا ان کا نظام ہر غیر مادی شیء کی نفی کرتا ہے ۔اسی لئے ایسے افراد کے ذہن میں ایسے حقائق کا بٹھانا بہت مشکل کام ہے۔لیکن اگر کوئی شخص اسلامی فلسفہ سے آگاہ ہو تو بخوبی اس مطلب کو درک کرسکتا ہے۔کیونکہ اسلامی فلسفہ تین قسم کے عالم میں وجود کو ثابت کرتا ہے:

۱۔عالم ذہن

۲۔عالم خارج

۳۔عالم نفس الامر

ہم وجودذہنی اور وجود خارجی کی خصوصیات سے مانوس ہیں لیکن وجود نفس الامری کی خصوصیات سے بے خبر ہیں۔اس لئے جب چودہ معصومین کے وجود مبارک کا نور ہونے یا حضرت آدم (ع)اور کائنات کی خلقت سے پہلے عالم ذر اور عالم نفس الامرمیں موجود ہونے کی خبر دی جاتی ہے تو اس کا درک کرنا مشکل ہوتا ہے۔

کسی مذہب یاعقیدے پر تنقیدکرنے سے پہلے ان کی دلیل اور اس عقیدہ کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے،پھر اشکال بھی کرے اور جواب بھی سنے۔

۸۹

۲)اہل بیت کے نورکاانبیاء نے مشاہدہ کیاہے

اہل بیت اور چودہ معصومین یقیناً اس عالم مادی میں انبیاء الہٰی کی خلقت کے بعد آئے ہیںلیکن بہت ساری روایات اور احادیث سے واضح ہوجاتا ہے کہ خدا نے اہل بیت کا نور حضرت آدم (ع)کو عالم ذر میں دکھایا اورحضرت ابراہیم(ع)کے بارے میں فرماتے ہیں کہ انہوں نے نمرود کے ظلم و ستم کے وقت پنجتن پاک کے نور مبارک کامشاہدہ فرمایا اور خدا سے ان کاواسطہ دے کر دعا کی تو خدا نے یا نار کونی برداً وسلاماً علیٰ ابراہیم کہہ کر نجات دی ۔ اسی طرح حضرت یحییٰ (ع)اور حضرت نوح (ع)وغیرہ کے حالات متعدد روایات میں تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر نبی (ع)نے مشکل وقت میںچودہ معصومین کا واسطہ دے کر خدا سے کامیابی کی درخواست کی ہے اور خدا نے ان کی درخواست قبول فرمایا۔ان تمام واقعات سے معلوم ہوجاتا ہے اہل بیت کے نور مبارک کاتمام انبیاء الہٰی نے مشاہدہ فرمایا جن کے صدقے میں وہ کامیاب ہوئے ۔جب حضرت آدم-کو ترک اولیٰ کے نتیجہ میں خدا نے سزا دی حضرت آدم-نے پنجتن پاک کا واسطہ دے کر معافی مانگی تو خدا نے ان کو معاف کردیا( ۱ )

نیز مفضل بن عمر بن عبد اللہ نے پیغمبر اکرم (ص)سے روایت کی ہے:

انه قال:لما خلق ابراهیم علیه السلام و کشف الله عن بصره فنظر الیٰ جانب العرش نوراً فقال الهیٰ و سیدی ما هٰذا النور؟ قال یا ابراهیم هٰذا نور محمد صفوتی قال الهٰی و سیدی و ارایٰ نوراً الیٰ جانبه قال یا ابراهیم هٰذا نور علی ناصر دینی قال الهٰی و سیدی واریٰ نوراً ثالثاً یلی النورین قال یا ابراهیم هٰذا نور فاطمة تلی اباها و بعلها فطمت بها محبها من النار قال الهیٰ و سیدی واریٰ نورین یلیان ثلاثة انواراً قال یا ابراهیم هٰذا الحسن و الحسین یلیان نور ابیهما وامهما و جدهما قال الهیٰ و سیدی و اریٰ تسعة انواراً قد احلقوا بالخمسة انواراً قال یا ابراهیم هٰؤلآء الائمة من ولد هم قال الهٰی و سیدی وبماذا یعرفون؟قال یا ابراهیم اولهم علی بن الحسین و محمد بن علی و جعفر ابن محمد وموسیٰ ابن جعفر و علی ابن موسیٰ و محمد بن علی

____________________

( ۱ ) ۔مناقب ص٦۳ ،ینابیع المودۃج۱ص ۹ ۵۔

۹۰

وعلی بن محمد والحسن بن علی والمهدی بن الحسن صاحب الزمان قال الهٰی وسیدی واریٰ انواراً لا یحصی عددها الا انت قال یا ابراهیم هٰؤلآء شیعتهم و محبیهم قال یا ابراهیم یصلون احدی و خمسین والتختم فی الیمین و الجهر ببسم الله الرحمن الرحیم والقنوت قبل الرکوع والسجود و سجدة الشکر قال ابراهیم: الهٰی اجعلنی من شیعتهم ومحبیهم فانزل الله فی القرآن وان من شیعته لابراهیم اذجاء ربه بقلب سلیم ( ۱ )

مفضل ابن عمر نے کہا : پیغمبر (ص)نے فرمایا جب خدا نے حضرت ابراہیم (ع)کو خلق فرمایا اور ان کی آنکھوں سے پردے ہٹادیئے تو حضرت ابراہیم- کی نظر عرش کے کنارے ایک نور پر پڑی عرض کیا :پروردگارا!یہ نور کیا ہے؟نداء آئی: اے ابراہیم-! یہ محمد(ص) کا نور ہے جو میرا برگزیدہ بندہ ہے حضرت ابراہیم(ع) نے کہا:خدایا! اس نور کے ساتھ جو نور نظر آرہا ہے وہ کس کا ہے؟جواب ملا اے ابراہیم! وہ نور، علی مرتضیٰ کا ہے جو میرے دین کا مددگار ہے۔حضرت ابراہیم نے کہا:اے میرے آقا و مولا ان دونوں کے پیچھے تیسرا نور کس کا ہے؟ جواب ملا اے ابراہیم (ع)! یہ حضرت فاطمہ (س)کا نورہے جو اپنے پدر بزرگوار اور شوہر کے کنارے

____________________

( ۱ ) ۔ ابن عساکر:الاربعین ص۳ ۸ ۔

۹۱

نظر آرہا ہے۔جس کے صدقے میں ان کے دوستداروںکو جہنم کی آگ سے نجات ملے گی۔حضرت ابراہیم (ع)نے کہا اے میرے مولا و آقا !ان نوروں کے پیچھے دو نور نظر آرہے ہیں وہ کون ہیں؟جواب ملا اے ابرہیم! وہ حسن و حسین (ع) ہیںجو انکے جد بزرگوار،مادر گرامی اور پدر بزرگوار کے پیچھے نظر آرہے ہیں۔پھر حضرت ابراہیم نے کہا اے میرے مولا و آقا ان پانچ نوروں کے ساتھ مزید نو نور نظر آرہے ہیں جو حلقے کی شکل میں ہیں،وہ کون ہیں؟خدا نے فرمایا:یہ ان کی اولاد ہیں جو ان کے بعد لوگوں کے امام اور پیشویٰ ہونگے۔حضرت ابراہیم نے سوال کیا اے میرے مولا و آقا ان کو کیسے اور کس نام سے یاد کروں ؟خدا نے فرمایا: اے ابراہیم! ان میں سے پہلا علی بن ال حسین (ع)ہے ان کے بعد محمدبن علی (ع) پھر جعفر ابن محمد پھر موسی بن جعفر اور پھر علی بن موسی پھر محمدبن علی اور پھر علی بن محمد پھر حسن بن علی ا ور آخری کا نام مہدی صاحب الزمان(عجّل اللہ تعالی فرجہ) ہوگا۔

اس کے بعد حضرت ابراہیم (ع)نے کہا:اے خدا ان کے علاوہ بہت سارے نور کا مشاہدہ کر رہا ہوں ،جن کی تعداد سوائے تیری ذات کے کوئی اور نہیں جانتا،یہ کس کے نور ہیں؟۔خدا نے فرمایا: یہ ان ہستیوں کے ماننے والوں اور دوستوں کا نور ہے ۔حضرت ابراہیم (ع)نے خدا سے دعا کی پروردگارا! مجھے بھی ان کے ماننے والے دوستوں میں سے قرار دے۔اسی لئے قرآن مجید میں ارشاد الہٰی

ہے:

وان من شیعته لابراهیم اذ جاء ربه بقلب سلیم ۔

۹۲

تحلیل:

اس حدیث کواہل سنت کی معتبر کتاب سے نقل کرنے کا ہدف یہ ہے کہ اس حدیث سے پیغمبر اکرم (ص)کے بارہ جانشین اور اہل بیت کا مصداق چودہ معصومین کے ہونے کا علم ہوجاتا ہے جو شیعہ امامیہ کے عقیدہ کے مطابق ہے۔نیز انبیاء کا ان کے نور کو مشاہدہ کرنے کی خبرکے ساتھ ان کے اسماء بھی اس روایت میں موجود ہیں اور ان کے ماننے والوں کے برحق ہونے کی دلیل بھی کیونکہ حضرت ابراہیم (ع)خدا کے نبی ہونے کے باوجود خدا سے درخواست کرتے ہیں کہ خدایا مجھے بھی ان کے ماننے والوں میں سے قرار دے۔لہٰذا خدا نے قرآن پاک میں ان کے حق میں فرمایا کہ ابراہیم- ان کے سچے ماننے والوں میں سے ہے۔لہٰذا جب حضرت ابراہیم (ع)سے خدا نے امتحان لیا اور خواب میں دکھایا کہ حضرت اسماعیل (ع)کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کررہے ہیں آپ- اسماعیل (ع)کو قربان گاہ کی طرف لے گئے ،ہاتھ پیر باندھ دیئے اور ذبح کرنے لگے تو خدا کی جانب سے وحی نازل ہوئی اے ابراہیم(ع)!قد صدقت الرؤیا ان کے بدلے میں دنبے کو ذبح کردے۔اس وقت حضرت ابراہیم (ع)نے اسماعیل(ع)کو چھوڑ دیا گوسفند کو ذبح کیا لیکن بہت زیادہ رونے لگے جبرئیل حضرت ابراہیم(ع)کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھنے لگے اے ابراہیم (ع)کیوں رو رہے ہو؟جبکہ خدا نے حضرت اسماعیل(ع)کو ذبح ہونے سے بچالیاہے حضرت ابراہیم (ع)نے فرمایا اے جبرائیل (ع)! میں اس لئے رورہا ہوںکہ اگر میرے ہاتھوں خدا کے حکم سے میرا بیٹا ذبح ہوتا تو روز قیامت انبیاء کے درمیاں فخر سے سر بلند ہوتا،لیکن میں اس سے محروم رہا ۔اس وقت جبرائیل (ع)نے حضرت ابراہیم (ع)سے پوچھا اے ابراہیم(ع)آپ کی نظر میں آپ افضل ہیں یا حضرت محمد(ص)؟حضرت ابراہیم (ع)نے فرمایا:حضرت محمد(ص)افضل ہیں۔پھر جبرئیل (ع)نے پوچھا اے ابراہیم(ع)آپ کی ذریہ افضل ہیں یا حضرت محمد(ص) کی؟فرمایا:حضرت محمد(ص)کی ذریہ۔ان کی ذریہ پر میری اولاد قربان ہو ۔ جبرئیل (ع)نے کہا آپ کی نظر میں اسماعیل افضل ہے یا حضرت حسین-؟آپ نے فرمایا:حضرت امام حسین-افضل ہیں۔ جبرئیل (ع)کہنے لگے اے ابراہیم(ع)یہی حسین- ؑہے جو کربلا کی سرزمین پربے دردی کے ساتھ ذبح کیاجائے گا تو اپنے فرزند اسماعیل-کی قربانی نہ ہونے پر گریہ کرنے کی جگہ حسین ابن علی (ع)کی قربانی پر گریہ کرو۔یہ سن کر حضرت ابراہیم (ع)بے اختیار رونے لگے( ۱ ) اس طرح کی روایات اس بات کی دلیل ہے کہ اہل بیت ؑکی عظمت اور فضیلت کے تمام انبیاء

____________________

( ۱ ) اشتہاردی محمد:داستان و دوستان ،ج۲ص۲ ۸ ۔

۹۳

قائل تھے ۔اہل سنت کی کتابوں سے منقول مذکورہ روایت سے معلوم ہوا کہ اہل بیت کے نور کا مشاہدہ سارے انبیاء الہیٰ نے کیا ہے۔سارے انبیائ ان کے وسیلہ سے امتحان الہٰی میں کامیاب ہوئے۔

نیز حضرت یحیی (ع)کے بارے میں لکھا ہے کہ خدا نے حضرت یحیی(ع)کو نبوت کے منصب پر مبعوث فرمایا پھر انہیں پنجتن پاک کا نام سنایا ۔حضرت یحییٰ(ع)غور سے سنتے رہے، جب حسین (ع)کا نام لیا گیا تو بے اختیار آنسو بہنے لگے۔خدا سے پوچھا:پالنے والے! جب آپ نے حسین- کا نام لیا تو مجھ پر غم کی حالت طاری ہوگئی اس کی وجہ کیا ہے؟خدا نے فرمایا:اے یحییٰ! یہ حسین (ع)ہے جوکربلاکی سرزمین پربے دردی سے ذبح کیاجائے گا اس لئے ان کا نام سنتے ہی ہر مومن کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتا ہے۔یہ روایت بھی اہل بیت کی عظمت کی بہترین دلیل ہے۔

۹۴

۳) اہل بیت سے محبت کا نتیجہ

آیات و روایات اور احادیث نبوی میں محبت اہل بیت کی اہمیت بہت ہی واضح الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔چنانکہ روایت ہے کہ ولدزنا اور منافق کے سوا کوئی بھی اہل بیت سے بغض اور دشمنی نہیں رکھتا ،خدا نے ان کی محبت کو لازم قرار دیا ۔اور ان کے وجود مبارک کو ہی تخلیق کائنات کا ہدف اور انسان کی ترقی و تکامل کا ذریعہ قرار دیا ہے۔اسی لئے ایک حدیث میں فرمایا کہ ایک لحظہ کےلئے

بھی محبت اہل بیت سے کائنات خالی نہیں ہوسکتی۔اگر ایک لحظہ کےلئے بھی کائنات محبت اہل بیت سے خالی ہو تو پوری کائنات نابود ہوجائے گی۔لہٰذا کلام مجید میں فرمایا:''لکل قوم ھادٍ''اس جملے کی تفسیر میں کئی احادیث اور روایات وارد ہوئی ہیں کہ ''ھاد ''سے محبت اہل بیت مراد ہے۔لہٰذا محبت اہل بیت کے نتائج اور ثمرات کی طرف بھی اشارہ کرنا مناسب ہوگا۔

جناب ابن عباس (رض)سے روایت ہے:

''قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم: لا تزول قدماً عبد یوم القیامة حتیٰ یسأل عن اربعٍ عن عمره فیما افناه وعن جسده فیما ابلاه وعن ماله فیما انفقه و من این کسبه و عن حب اهل البیت'' ۔( ۱ )

ابن عباس (رض)نے کہا : پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا کوئی بھی انسان قیامت کے دن اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتا جب تک چار چیزوں کے بارے میں پوچھا نہ جائے:

۱۔اپنی زندگی کو دنیا میں کس چیز میں سرگرم رکھا؟

۲۔ بدن اور جسم کو کیسے بڑھاپے کی حالت تک پہنچا دیا؟

____________________

( ۱ ) ۔ینابیع المودۃ ج۲۔ص ۹ ٦،

۹۵

۳۔دولت اور ثروت کو کیسے جمع کیااورکہا ںخرچ کیا؟

۴۔اہل بیت سے دوستی و محبت کی یا نہیں؟

تحلیل:

اس حدیث سے اہل بیت کی محبت کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے یعنی روز قیامت خدا سب سے پہلے اہل بیت سے دوستی اور محبت کے بارے میں سوال کریگا۔اگر اہل بیت سے دوستی اور محبت کے متعلق مثبت جواب ملا تو دوسرے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔اگر محبت اہل بیت کے بارے میں مثبت جواب نہ ملا تو باقی سارے اعمال بھی خدا کی نظر میں قابل قبول نہیں ہے۔

۴) اہل بیت سے محبت،مومن کی علامت ہے

انسان عقیدہ کے حوالے سے تین دستوں میں تقسیم ہوتا ہے:

۱۔کافر۔

۲۔منافق۔

۳۔مومن۔

مومن کی علامتیں قرآن مجید اور احادیث میں کئی چیزیں بیان ہوئی ہیں ان کو تفصیل سے بیان کرنا اس کتاب کی گنجائش سے باہر ہے لہٰذا صرف چند ایک روایات کو بیان کرنے پر اکتفاء کریں گے:

۹۶

عن سلمان قال:قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم: لا یومن احد حتی یحب اهل بیتی لحبیفقال عمر ابن الخطاب وما علامة حب اهل بیتک؟،قال هٰذا وضرب بیده علیٰ علی (ع)، ( ۱ )

سلمان فارسی (ع)نے کہا:پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:جب تک میرے اہل بیت سے میری محبت کے واسطے محبت اور دوستی نہ کرے وہ شخص مومن نہیں کہلاسکتا۔اس وقت عمر ابن الخطاب نے پوچھا:آپ کے اہل بیت کی

محبت کی علامت کیا ہے؟ آنحضرت (ص)نے دست مبارک کو امیر المومنین (ع)پر رکھتے ہوئے فرمایا :یہ میرے اہل بیت کی محبت کی علامت ہے۔

تحلیل:

اگر ہم اس حدیث کے مضمون کو صحیح معنوں میں سمجھ لیں تو بہت سارے مطالب واضح ہوجاتے ہیں:

۱۔ آنحضرت (ص)نے اس حدیث کو کسی مجمع میں بیان فرمایا کہ جس میں حضرت علی (ع)، حضرت عمر اور حضرت سلمان جیسے بزرگ صحابہ بیٹھے ہوئے تھے۔

۲۔حضرت عمر کامحبت اہل بیت کی علامت کے بارے میں پوچھنے کا

____________________

( ۱ ) ۔ینابیع المودۃ ص۳ ۷ ۲۔

۹۷

مقصد یہ تھا کہ شاید کہیں پیغمبر اکرم (ص) حضرت علی (ع)کو اہل بیت کے دائرے سے نکال کر کسی اور کو محبت اہل بیت کی علامت قرار دے۔لیکن پیغمبر اکرم (ص) ان کے اہداف اور مقاصد سے بخوبی آگاہ تھے۔لہٰذا فرمایا:

هٰذا و ضرب بیده علیٰ علیّ علیه السلام

اگرچہ'' ھٰذا'' کا لفظ اشارہ کےلئے کافی تھا لیکن پیغمبر اکرم (ص)نے'' ھٰذا'' کہہ کر اپنے دست مبارک کو علی (ع)پر رکھااس کا فلسفہ یہ تھا کہ کہیں کوئی یہ خیال نہ کرے کہ ھٰذا سے کوئی اور مراد ہو، تب ہی توپیغمبر اکرم (ص)نے ''ھٰذا'' کہتے ہوئے حضرت علی (ع)کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر اس قسم کے شک و شبہہ کی گنجائش ختم کردی۔

۵)اہل بیت ،صراط سے عبور کا ذریعہ ہیں

مسلمانوں کے عقائد میں سے ایک صراط( ۱ ) ہے جس کی خصوصیات اور حالات آیات اور احادیث نبویؐ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ صراط ایک پُل ہے جس سے قیامت کے دن ہر جنتی کا گزرنا یقینی ہے جس کی تعریف روایات نبوی(ص) اور احادیث ائمہ میں اس طرح کی گئی ہے کہ وہ آگ سے زیادہ

____________________

( ۱ ) صراط کی حقیقت اور اوصاف سے آگاہی کیلئے مطالعہ کریں: آیت اللہ سیّد محمدحسین تہرانی :معاد شناسی

۹۸

گرم،تلوار سے زیادہ تیز،بال سے زیادہ باریک ہے۔

لہٰذا جو شخص ایسے مشکل راستہ سے بہ آسانی عبور کرنا چاہتاہے تو اسے چاہے کہ دنیا میں اہل بیت کے ساتھ دوستی اور محبت رکھے۔

چنانچہ اس مطلب کو حسن بصری نے ابن مسعود (ع)سے روایت کی ہے:ابن مسعود (ع)نے کہا:۔

''قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم: اذا کان یوم القیامة یقعد علی (ع) علی الفردوس وهو جبل قریب علیٰ الجنة و فوقه علی العرش رب العالمین ومن سفحه یتفجر انهار الجنة ویتفرق فی الجنان و علی (ع)جالس علیٰ کرسیٍّ من نورٍ یجری بین یدیه النسیم لا یجوز احد الصراط الا و معه سند بولایة علی و ولایة اهل بیته فید خل محبیه الجنة و مبغضیه النار'' ( ۱ )

پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:روز قیامت حضرت علی (ع)فردوس پر تشریف فرما ہونگے جوجنت کے قریب ایک بلند پہاڑ کا نام ہے جس کے اوپر پروردگار عالم کا عرش ہے اور اس پہاڑ کے دامن سے جنت کی نہریں باغوں کی

____________________

( ۱ ) ۔ینابیع المودۃ ج ۱۔ص ۸ ٦۔

۹۹

طرف جاری ہیں اور حضرت علی (ع)نور سے بنی ہوئی ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے ہونگے ان کے سامنے تسنیم کا چشمہ جاری ہوگا اور کوئی بھی شخص صراط سے عبور نہیں کر سکتا ہے جب تک ولایت علی (ع)اور ولایت اہل بیت کی سند اس کے ساتھ نہ ہو اور جو ان کے دوستوں میں سے ہونگے انہیں جنت اور جو ان کے دشمنوں میں سے ہونگے انہیں جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

تحلیل:

اس حدیث کی مانند بہت ساری روایات شواہد التنزیل( ۱ ) اور فرائد السمطین میں موجود ہیں جن سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ اہل بیت کی ولایت اور سرپرستی کو قبول کئے بغیر صراط سے گذرنے کا دعویٰ غلط اور اشتباہ ہے۔کیونکہ صراط سے عبور کا وسیلہ صرف اعمال صالح کا انجام دینا نہیں ہے بلکہ اس کا ذریعہ ولایت اہل بیت کو قبول کرنا ہے۔یعنی چاہے دنیوی مشکل ہو یا اخروی،اس کے حل کا ذریعہ ولایت اہل بیت ہے۔

٦) اہل بیت سے محبت ،اعمال کی قبولیت کی شرط۔

بہت سی روایات نبوی(ص)سے واضح ہوجاتا ہے کہ اہل بیت کی محبت کے بغیر کوئی بھی عمل خدا کی نظر میں قابل قبول نہیں ہے۔

____________________

( ۱ ) ج ۲ ص ۱ ۰۷ حدیث ۷۸۸

۱۰۰

چنانچہ اس مطلب کو جابر بن عبد اللہ (ع)نے پیغمبر اکرم (ص)سے یوں نقل کیا ہے:

'' خطبنا رسول الله فقال:من ابغضنا اهل البیت حشره الله یوم القیامة یهودیاً وان صام و صلیٰ ( ۱ )

پیغمبر اکرم (ص)نے ہم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:اگر کوئی شخص ہم اہل بیت سے بغض اور عداوت رکھے تو روز قیامت خدا اس کو یہودی بنا کر محشور کرے گا اگرچہ اس نے نماز پڑھی ہو اور روزہ رکھا ہو۔

نیز حافظ نور الدین علی بن ابی بکر،کتاب مجمع الزوائد میں روایت کرتے ہیں:

''قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم: .... وان صام و صلی و زعم انه مسلم ،( ۲ )

اگر کوئی ہم اہل بیت سے بغض اور دشمنی رکھے تو اس کے اعمال قابل قبول نہیں،اگرچہ وہ روزہ رکھے ،نماز پڑھے اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھے۔

تیسری روایت میں فرمایا:

''ان رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم،قال:والذی

____________________

( ۱ ) ۔میزان الاعتدال ج ۱ ص۲٦ ۹ ۔

( ۲ ) ۔مجمع الزوائد ج ۹ ص۱۱ ۸ ۔

۱۰۱

نفسی بیده لا ینفع عبد عمله الا بمعرفته حقنا ( ۱ )

پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:اللہ کی قسم،کسی بھی انسان کا عمل خیراسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا جب تک ہم اہل بیت کے حقوق کی رعایت اور شناخت نہ کرے۔

تحلیل اور اہم نکات:

مذکورہ احادیث میں ،جو اہل سنت کی معتبر کتابوں سے نقل کی گئیں،واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ نماز، روزہ اور دیگر اعمال کی قبولیت کی جو شرط رکھی گئی ہے وہ اہل بیت کی محبت اور ان کی ولایت و معرفت ہے۔یعنی اگرہم اہل بیت کی محبت، معرفت، ولایت اور ان کے حقوق کی رعایت کئے بغیر دیگر اصول و فروع کے پابند بھی ہوں تو ان روایات و احادیث کی روشنی میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان اعمال کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہوگا۔

اگر کوئی شخص کہدے کہ فقہی کتابوں میں اعمال صالحہ کی قبولیت کے شرائط میں سے محبت و ولایت اہل بیت کے ہونے کو شیعہ و سنی فقہاء میں سے کسی ایک مجتہد یا مفتی نے بھی ذکر نہیں کیا ہے۔لہٰذا س قسم کی روایات کو کسی اور معنیٰ پر محمول کرنا ہوگا۔

____________________

( ۱ ) ۔،مجمع الزوائد ج ۹ ،ص۱ ۷ ۲

۱۰۲

اس کا جواب یوں دیا جاسکتا ہے کہ ولایت ومحبت اہل بیت کا مسئلہ،مسائل فقہی میں سے نہیںتاکہ علماء اس کو فقہی مسائل میں بیان کریں ۔بلکہ بنیادی عقیدتی مسائل میں سے ہے۔جیسا کہ اگر کوئی شخص خدا اور رسول (ص)یا معاد اور دیگر اصولوں کے معتقد ہوئے بغیر نماز پڑھے یا روزہ رکھے تو اس کی نماز کیا نماز کہلائے گی؟اس کا روزہ کیا قابل قبول ہوگا؟

خدا کی مخلوقات میں سے عابد ترین مخلوق فرشتے ہیں۔جب فرشتوں نے اپنے اعمال کی قبولیت کے بارے میں پیغمبر اکرم (ص)سے سوال کیا تو پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا: اس وقت تمہارے اعمال خدا کی نظر میں قابل قبول ہیں جب تم ولایت علی ابن ابی طالب (ع)کے قائل ہوں۔

۷) اہل بیت سے محبت کے بغیر جنت ملنامحال ہے

اگرچہ بہت سارے انسان ملحد ہیں جو جنت اور جہنم کے قائل نہیں بلکہ اسی دنیوی زندگی کو آخری زندگی سمجھتے ہیں۔جبکہ تمام الہٰی ادیان کے پیروکار بہشت و جہنم کے معتقد ہیں اور جنت و جہنم کو برحق سمجھتے ہیں۔عقلی اورلفظی دلیلوںکے ذریعے ملحدین کو قائل کرانے کی کوشش بھی کرتے ہیں ،کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو جنتی بننے کےلئے صرف صوم و صلاۃ اور دیگر فروع دین کے پابند ہونے کو کافی سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے بلکہ فروع دین کے مسائل کا انجام دینا اس وقت کارساز اور مفید ہے جب ہم پہلے بنیادی مسائل کو ٹھیک کریں۔اور اصول دین کا صحیح طریقہ سے معتقد ہوں ۔

۱۰۳

لہٰذا اگر کوئی شخص توحید ،نبوت اور معاد کے معتقد ہوئے بغیر مسائل فرعی کو انجام دے تو یقیناً وہ جنت کا حقدار نہیں بن سکتا۔اسی طرح اگرتوحید ،نبوت اور معاد کا معتقد ہو،لیکن محبت اہل بیت دل میں نہ ہو پھر بھی وہ جنتی نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ خدا نے محبت اہل بیت کو توحید نبوت اور معاد کے بعد بنیادی شرط قرار دیا ہے۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صرف محبت اہل بیت دلوں میں رکھیں باقی دستورات الہٰی کو انجام نہ دیں۔ بلکہ محبت اہل بیت دلوں میں ہونے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ان کی سیرت پر چلیں۔ان کی سیرت پر عمل کرنے کا مطلب دستورات الہٰی کو انجام دینا ہے۔اسی لئے اہل بیت کی محبت کے بغیر جنت کا ملنا نا ممکن ہے۔

چنانچہ اس مطلب کو نافع بن عمر نے یوں نقل کیا ہے:

''قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم:من اراد التوکل علیٰ الله فلیحب اهل بیتی و من اراد ان ینجوامن عذاب القبر فلیحب اهل بیتی ومن اراد الحکمة فلیحب اهل بیتی ومن اراد دخول الجنة بغیر حساب فلیحب اهل بیتی'' ۔( ۱ )

____________________

( ۱ ) ۔مقتل الخوارزمی ص۵ ۹ ۔

۱۰۴

پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:اگر کوئی خدا پر بھروسہ،عذاب قبر سے نجات،حکمت اور بغیر حساب کے جنت میں جانے کا خواہاں ہو تو اسے چاہے کہ میرے اہل بیت سے محبت و دوستی رکھیں-

نیز جابر بن عبد اللہ(ع)نے پیغمبر اکرم (ص)سے روایت کی ہے:

''قال توسلوا بمحبتنا الی الله تعالی- واستشفعوا بنا فانّ بنا تکرمون و بنا تحبون و بنا ترزقون و محبونا وامثالنا غدا فهم فی الجن -( ۱ )

پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:(لوگو!) خدا سے ہم اہل بیت کی محبت اور دوستی کے ذریعہ متوسل ہوجاؤ-اور ہماری محبت کے وسیلہ سے شفاعت مانگو کیونکہ ہم اہل بیت کے صدقے میں تمہارا اکرام ہوتا ہے اور تمہیں روزی دی جارہی ہے اور ہم سے محبت کرنے والے روز قیامت جنت میں داخل ہونگے-

نیز شیخ سعود السجستانی نے اپنی کتاب میں ابن زیاد مطرف سے روایت کی ہے:

''قال سمعت النبی(ص) یقول:من احبّ ان یحیی حیاتی و یموت مماتی و یدخل الجن- التی وعدنی ربی بها وهی جن- الخلد

فلیتول علی بن ابی طالب و ذریته من بعده''-(۲)

____________________

( ۱ ) -ینابیع المود-ج-۲ ص۶۸

( ۲ ) -کنز العمال ج ۱۱ ص۶۱۱-

۱۰۵

ابن زیاد مطرف نے کہا:کہ میں نے پیغمبر خدا (ع)سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا:جو شخص ہماری مانند جینا اور مرنا چاہتا ہے اور اس جنت خلد میں جانے کا خواہشمند ہو جس کامیرے پروردگار نے وعدہ دیا ہے تو اسے چاہے کہ حضرت علی (ع)اور ان کی ذریت کی ولایت و سرپرستی کو مان لے-

اسی طرح اور روایت میں پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:

''من سرّه ان یحیی حیاتی و یموت مماتی و یسکن جن- عدن التی غرسها ربی فلیتول علیاً بعدی'' -( ۱ )

جناب ابوذر (ع)نے کہا کہ پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:اگر کوئی شخص میری طرح جینا اور مرنا چاہتا ہے اور جنات عدن کہ جس کو خدا تبارک وتعالی- نے تیار رکھا ہے،میں رہنا چاہتا ہے تو اسے چاہے کہ وہ میرے بعد حضرت علی –کی ولایت کو قبول کرلے-

توضیح:

ان احادیث سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ جنت عدن یا جنت خلد میں داخل ہونے کی شرط محبت اہل بیت ہے،ان کی سرپرستی اور ولایت کو قبول کرنا ہے-

مندرجہ بالا روایات کا خلاصہ :

____________________

( ۱ ) -ترجمہ امام علی (ع)ج ۲ ص۹۸-

۱۰۶

۱-محبت اہل بیت کے بغیر مرنا اور جینا محبت کے ساتھ جینے اور مرنے کے ساتھ فرق کرتا ہے-

۲-محبت اور سرپرستی اہل بیت کے بغیر جنت میں داخل ہونے کا تصور صحیح نہیں ہے-

۳-محبت اور ولایت اہل بیت کے بغیرخدا پر توکل کا دعوی- کرنا یا حکمت اور شفاعت کا دعویدار ہونا اشتباہ ہے-

۴-شفاعت ،اہل بیت کی محبت کے بغیر نا ممکن ہے،نیز اہل بیت کی محبت اور سرپرستی کے بغیر گناہوں کی معافی کا خیال کرنا فضول ہے-

۵-اہل بیت کی محبت کے نتیجے میں پیغمبروں کی شفاعت حاصل ہوگی اگرچہ قرآن کریم کے مسلّم مسائل میں سے ایک مسئلہ شفاعت ہے مگر اس بارے میںمسلمانوں کے درمیان اختلاف نظرا (ع)تا ہے (ع)لیکن اگر ہم احادیث نبوی کا صحیح مطالعہ کریں تو معلوم ہوجاتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص)کی شفاعت روز قیامت ان لوگوں کےلئے ہے جنہوں نے دنیا میں اہل بیت سے محبت اور دوستی رکھی ہو-چنانچہ علامہ بغدادی اس طرح نقل کرتے ہیں:

''قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم: شفاعتی لامتی من احب اهل بیتی و هم شیعتی'' -( ۱ )

____________________

( ۱ ) تاریخ بغدادی ج ۳ ص۱۴۶

۱۰۷

پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا: میری شفاعت میری امت میں سے صرف ان کو نصیب ہوگی جو میرے اہل بیت سے محبت رکھے-کیونکہ وہی میرے سچے پیروکار ہیں-

نیز پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:

''عاهدنی ربی ان لا یقبل ایمان عبد الا بمحبته لاهل بیتی'' -( ۲ )

آنحضرت (ص) نے فرمایا:میرے پروردگار نے مجھ سے عہد کیا ہے کہ کسی بھی بندے کا ایمان اور عقیدہ اہل بیت کی محبت اور دوستی کے بغیر قبول نہیں ہوگ-

تحلیل:

اگرچہ محبت اہل بیت کے بغیر پیغمبر اکرم (ص)کی شفاعت نصیب نہ ہونے کے حوالہ سے احقاق الحق اور کنز العمال جیسی کتابوںمیں بہت زیادہ احادیث ہیں لیکن اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے صرف مذکورہ حدیث پر اکتفاء کر یں گے- آج کل کچھ ایسے دانشمند اور علماء نظر آتے ہیں جو اپنے حریف اور مقابل کو ناکام بنانے اور اسے غلط فہمی میں ڈالنے کی خاطر فوراً حدیث کی سند پر حملہ کردیتے

____________________

( ۲ ) المناقب ا لمرتضویہ ص۹۹

۱۰۸

ہیں کہ یہ حدیث آپ کے موضوع پر دلیل نہیں بن سکتی (ع)

کیونکہ سند ضعیف ہے لیکن کسی مسئلہ پر کسی حدیث کو دلیل کے طور پر قبول کرنے کے لئے صرف سند کا صحیح ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ بہت ساری احادیث سند کے حوالہ سے ضعیف ہے لیکن حدیث کی عبارت یا دوسرے قرینوںسے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ حدیث ،صحیح ہے اگرچہ سند ضعیف ہی کیوں نہ ہو-کیونکہ ایسی حدیث کی عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ غیر معصوم سے ایسی فصاحت و بلاغت پر مشتمل کلام کا صادر ہونا ناممکن ہے-

ہم نے بہت ساری روایات کو اپنے مدعی- کی دلیل کے طور پر ذکر کیا ہے-اگرچہ سند ضعیف ہے لیکن اس کے الفاظ ہی حدیث نبوی ہونے کی شہادت دیتے ہیں-کیونکہ معصوم کے کلام اور دوسرے لوگوں کے کلام میں فصاحت و بلاغت کے علاوہ بنیادی فرق یہ ہے کہ معصوم کے کلام کا سرچشمہ قرآن مجید ہونے کی وجہ سے فطرت اور عقل سے ہمآہنگ ہوا کرتا ہے جبکہ دوسرے انسانوں کا کلام یا قرآن کا مخالف ہوگا یا اگر قرآن کے موافق ہے تو فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے اس میں نقص ہوگ-لہ-ذا غیر معصوم کے کلام میں بہت سارے اشتباہات کا مشاہدہ ہوتا ہے جبکہ معصوم کے کلام میں نہ صرف اشتباہ نظر نہیں آتا بلکہ زمانے کی ترقی اور تکامل کے ساتھ ساتھ ان کی حقانیت زیادہ سے زیادہ اجاگر ہوجاتی ہے-

۱۰۹

لہ-ذا اگر کوئی اہل سنت کی کتابوں سے فضائل اہل بیت اور ان کی حقانیت پر کوئی روایت اورحدیث بیان کرے تو اس کو ضعیف السند قرار دینا کافی نہیں ہے-بلکہ روایات اور احادیث سے استدلال اس وقت غلط ہے جب وہ حدیث ضعیف- السند ہواور اس کے معصوم سے صادر ہونے پر کوئی قرینہ نہ ہومتواترہ نہ ہو مضمون حدیث کا شر چشمہ قرآن اور عقل نہ ہو لیکن اگر ان قرینوں میں سے کوئی ایک قرینہ بھی کسی حدیث کے ساتھ ہوتو اسے ضعیف السند قرار دے کر ردکرناجہالت اورنافہمی کی علامت ہے (ع)فرقین کے علم رجال کی کتابوں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ کہاں حدیث سے استدلال غلط ہے کہاں استدلال صحیح ہے پس اگر کوئی اندھی تقلید اورجاہلانہ تعصب سے ہٹ کر پیغمبر اکرم (ص)کے ان ارشادات پر اور خدا کی طرف سے محبت اہل بیت کو اجر رسالت قرار دئیے جانے پر غور کرے تو نتیجہ یہ ملتاہے کہ پیغمبر اکرم (ص) دشمن اہل بیت کی شفاعت نہیںفرمائیں گے، کیونکہ شفاعت پیغمبر اکرم (ص)نصیب ہونے میں خدا نے اہل بیت کی محبت کو شرط قرار دی ہے اور شرط کے بغیرمشروط کا پانا عقل کے خلاف ہے-لہ-ذااہل بیت کی محبت کے بغیر کوئی عمل اورکام خدا کی نظر میں قابل قبول نہیں اگرچہ ایمان کے دعوی- کے ساتھ زبان پر شہادتین کا اقرار بھی کرے (ع)

۱۱۰

۸) اہل بیت اہل زمین کے محافظ ہیں

امامیہ مذہب کا عقیدہ یہ ہے کہ کائنات کا حدوث وبقاء ہی اہل بیت کے صدقے میں ہے ،جیساکہ ہمارے برادران اہل سنت کی کتابوں میں بھی کچھ اس طرح کی حدیثیں نظر آتی ہیں کہ اہل بیت اہل زمین کے محافظ ہیں یعنی جس طرح آسمانی مخلوقات چاہے نوری ہو یاخاکی جاندار ہو یابے جان ،خدا نے ان کی حفاظت کے لئے ستاروں کو خلق فرمایا ہے اسی طرح اہل زمین کی حفاظت کی خاطر اہل بیت کو خلق فرمایا ہے چنانچہ اس مطلب کو پیغمبر اکرم (ص)نے یوں بیان فرمایاہے :

''النجوم امان لاهل السماء فاذا ذهبت النجوم ذهبت السماء واهل بیتی امان لاهل الارض فاذا ذهبت اهل بیتی ذهبت الارض -''( ۱ )

ستارے آسمانی مخلوقات کی نجات اور حفاظت کاذریعہ ہیں لہ-ذا اگر ستارے

ختم ہوجائے تو آسمانی مخلوقات نابود ہوںگی اورمیرے اہل بیت انسانوں اوراہل زمین کی نجات اور امان کا ذریعہ ہیںلہذا اگر زمین میرے اہل بیت سے خالی ہوجائے تواہل زمین نابود ہونگے (ع)

نیز حموینی نے اپنی سند کے ساتھ اعمش سے وہ امام جعفر صادق(ع)سے اور آپ- اپنے آباء واجداد میں سے حضرت علی بن حسین(ع)سے روایت کرتے ہے:

____________________

( ۱ ) -ینابع المود-ج۱،ص،۱۹،-

۱۱۱

''قال :نحن ائم- المسلمین وحجج اللّه علی العالمین وساد- المؤمنین قاد- الغر المحجلین وموال المسلمین ونحن امان لاهل الارض کماان النّجوم امان لاهل السماء ونحن الذین بناء تمسک السماء ان تقع علی الارض الاباذن الله وبناینزل الغیث وتنزل الرحم- ، وتخرج برکات الارض ولولاماعلی الارض منّا لانساخت باهلها ثم قال ولم تخل الارض منذ خلق اللّه آدم علیه السلام من حج- اللّه فیها ظاهر ومشهود او غائب مستور ولاتخلوا الی ان تقوم الساع- من حج- فیها ولولا ذالک لم یعبداللّه '' -( ۱ )

حضرت امام سجاد (ع)نے فرمایا: ہم (اہل بیت ) مسلمانوں کے پیشوا اور کائنات پر خدا کی طرف سے حجت ،مومنین کے مولی- وآقا اورمسلمانوں کے سردار ہیں اور جس طرح ستارے آسمانی مخلوقات کے محافظ ہیں اس طرح ہم اہل زمین کے محافظ ہیں ہماری وجہ سے خدا نے آسمان کو زمین پر گر کرتباہی مچانے سے روک رکھا ہے اور ہمارے صدقے میں بارشیں اور رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور زمین کی برکتیں نکالی جاتی ہے- اگر کرہ ارض ایک لحظہ کے لئے اہل بیت سے خالی ہوجائے تو

____________________

( ۱ ) -ینابیع المود-، ج۱،ص۲۰،

۱۱۲

زمین اہل زمین سمیت نابود ہوجائے گی (ع)اسی لئے خدا نے جب سے آدم(ع)کو خلق کیا ہے زمین کوحجت خدا سے خالی نہیں رکھا (ع)چاہے حجت خدا کھلم کھلا لوگوں کے درمیان موجود ہوںیالوگوں کی نظروں سے پوشیدہ اور مخفی ہوںاوریہ سلسلہ تاروز قیامت جاری رہے گا (ع)اگر ایسا نہ ہوتا تو کبھی خدا کی عبادت اور پرشتش نہ ہوتی (ع)

اہم نکات:

مذکورہ حدیث سے ستاروں اور کہکشانوں کی خلقت اور اہل بیت کی خلقت کا فلسفہ سمجھ میں آتا ہے ، یعنی ستاروں کو خدا نے آسمانی مخلوقات کےلئے امان بنا کرخلق کیاہے جبکہ اہل بیت کو بشر اوراہل زمین کےلئے امان بنا کر خلق کیاہے لہ-ذا ستاروں سے آسمانی مخلوقات کی حفاظت ہوتی ہے اور اہل بیت کے اہل زمین کی حفاظت ہوتی ہے-

خلاصہ کلام یہ کہ اگر بشر ایسی انسان سازاحادیث کا غور سے مطالعہ کرے تو کئی مطالب واضح ہوجاتے ہیں ، کائنات کے تمام مسائل میں اہل بیت کی نمایندگی اور رہنمائی ضروری ہے اوران کی ہدایت کے بغیر انحراف اور مفاسد کے علاوہ کچھ نہیں ہے(ع)چاہے اعتقادی مسائل ہوں یافقہی ، سیاسی ہوںیاسماجی ، اخلاقی ہوںیافلسفی ہرمسئلہ کا سرچشمہ اہل بیت کوقرار نہ دینے کی صورت میں ہماری ہدایت اور تکامل ناممکن ہے(ع)کیونکہ اہل بیت کے وجود کافلسفہ ہماری قیادت اور ہدایت ہے انکی سیرت کو ہمیشہ کے لئے نمونہ عمل قرار نہ دینے کی صورت میں پشیمانی اورندامت سے دوچار ہوگ-

۱۱۳

نیز پیغمبر اکرم (ص)سے روایت کی ہے ،آنحضرت (ص)نے فرمایا: آسمانی مخلوقات کے محافظ ستارے ہیں جبکہ اہل بیت ،اہل زمین کےلئے امان کا ذریعہ ہیں:

''النجوم امان لاهل السماء واهل بیتی(ع)امان لاهل الارض'' ( ۱ )

تب ہی تو قرآن مجید میں خدا نے اہل بیت کو وسیلہ نجات اور ان کے اقوال وافعال کو نمونہ عمل قرار دیا ہے لہذا ان کے بغیرروز قیامت نجات ملنے کا تصور کرنا یادنیا میںکامیاب انسان ہونے کا سوچ فضول ہے (ع)

پیغمبر اکرم (ص)نے صاف لفظوں میں فرمایا: میری رسالت کاصلہ صرف میری اہل بیت کی محبت ہے میری شفاعت صرف میرے اہل بیت سے دوستی اور محبت رکھنے کی صورت میں نصیب ہوگی جس سے واضح ہو جاتاہے حقیقی مسلمان وہ ہے جواہل بیت کو اپنے کاموں میں اسوہ اور نمونہ قرار دے(ع)لہذا ابوذر (ع)نے پیغمبر اکرم (ص)سے روایت کی ہے کہ جس طرح نوح (ع)کی امت کے لئے نوح (ع)کی کشتی نجات کاذریعہ تھا ، اسی طرح امت محمدی- کی نجات کاذریعہ اہل بیت ہیں-

____________________

( ۱ ) -فرائدالسمطین ، ج۲،ص،۲۵۲حدیث۵۲۱-

۱۱۴

فرمایا:ان مثل اهل بیتی فیکم مثل سفین- نوح من رکبها نجا ومن تخلف عنها هلک (ع) ( ۱ )

میرے اہل بیت ،حضرت نوح(ع)کی کشتی کی مانند ہے جو اس پر سوار ہوا وہ نجات پاگیا جس نے اس سے منہ پھیرا وہ ہلاک ہوگی-

اہم نکات:

اس حدیث سے بخوبی درک کرسکتے ہیں کہ حضرت نوح (ع)کی امت کو جب نوح(ع)نے ہزار بار سمجھایا مگر ایمان نہ لائے تو آخر خدا سے دعا کی پالنے والے یہ امت قابل ہدایت نہیں ہے میں کیا کروں؟ خدا کی طرف سے حکم ہوا کشتی بناو(ع)کشتی تیار کی ،جو اس پر سوار ہوا وہ زندہ رہا (ع)جس نے اس سے منہ پھیرا وہ ہلاک اور نابود ہوگی- اس طر ح اگر ہم اہل بیت کو مانیں اور ان کی معرفت اور شناخت حاصل کرلیں تو قیامت کے دن ہم بھی نجات پاسکتے ہیں لیکن اگر ان سے منہ پھیرا

تو یقینا نابود ی ہی ہمارا مقدر ہوگا (ع)

جیساکہ پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:

'' یاعلی سعد من اطاعک وشقی من عصاک وربح من تولاک وخسر من عاداک فاز من رکبها نجی--ومن تخلف عنها

____________________

( ۱ ) - ینا بیع المود-ج۱،ص۲۶ ،

۱۱۵

غرق مثلک کمثل النجوم کلما غاب النجوم طلع نجم الی یوم القیام - (ع)''( ۱ )

پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:(یاعلی (ع)!) تیری اطاعت کرنے والا سعادتمند اورنافرمانی کرنے والا بد بخت ہے(ع)جس نے تیری سرپرستی اور ولایت کو قبول کیا اس نے نفع پایا ،جس نے تجھ سے دشمنی کی اس نے نقصان اٹھای-جو تجھ سے متمسک رہا وہ کامیاب ہے اورجس نے تیری مخالفت کی وہ ہلاک ہو- اے علی (ع)تو اور تیرے جانشین حضرت نوح(ع)کی کشتی کی مانند ہیں جواس پر سوار ہوا وہ نجات پاگیا جس نے منہ پھیرا وہ غرق ہوگی- اے علی (ع)! تو ستاروں کی مانندہے کہ روز قیامت تک ایک ستارہ غروب کرجائے تو دوسرا طلوع کرتا رہے گ-

نیز ابو ہریرہ نے پیغمبراکرم (ص)سے روایت کی ہے :

قال رسول الله : اناا للّه المحمود وهذا محمد وانا العالی وهذا علی واناالفاطروهذه فاطم- واناالاحسان وهذا الحسن وانا المحسن وهذا الحسین آلیت بعزتی انّه لایأتیی احد بمثقال حب- من خردل من بغض احدهم الا ادخله ناری ولاابالی یاآدم ه-ولآء صفوتی بهم انجّیهم وبهم اُهْلِکُهم فاذا کان لک اليّ حاج- فبه-و

____________________

( ۱ ) -ینابیع المود- ج۱،ص ۱۳۰-

۱۱۶

ئل-اء توسل فقال النبی(ص) نحن سفین- النج- من تعلق بها نجاومن عاد عنها هلک فمن کان له الی الله حاج- فلیسال عن اهل بیت ( ۱ )

حضرت پیغمبراکرم (ص)نے فرمایاکہ اللہ تبارک وتعالی نے حضرت آدم-کو ان پانچ نوروں کا نام بتایا کہ جن کاحضرت آدم (ع)نے مشاہدہ کیا تھا اے آدم (ع)ان پانچ کانام میرے نام سے مشتق ہے یعنی میں محمود ہوں یہ محمد(ص) ہے میں عالی ہوںیہ علی (ع)ہے میں فاطر ہوں یہ فاطمہ (س) ہے میں احسان ہوں یہ حسن (ع)-ہے میں محسن ہوں یہ حسین(ع)ہے پھر فرمایا اپنی ذات کی قسم ایک ذرہ بھی جس کے دل میں ان کی دشمنی اور کینہ ہو اسے جہنم میں ڈال دوں گا اور مجھے ایسا کرنے پر کوئی پروا نہ ہوگی (ع)اے آدم (ع)! یہ میرے برگزیدہ بندے ہیں ان کے صدقے میں لوگ نجات پائےںگے (یعنی ان سے محبت اور دوستی کرنے کے نتیجے

میں نجات ملے گی اور ان سے دشمنی اوربغض رکھنے کانتیجہ ہلاکت اور نابودی ہوگا) جب تجھے مجھ سے کوئی حاجت ہو توان کے وسیلہ سے مانگو پھر پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا: ہم نجات کی کشتی ہیں جو اس سے منسلک رہا وہ نجات پاگیااور جو اس سے جدا رہا وہ نابود اور ہلاک ہو- لہذا جس کو خدا سے کوئی حاجت ہو توہم اہل بیت کے وسیلہ سے مانگیں-

____________________

( ۱ ) -فرائدالسمطین ، ج۲،ص،۲۵۲حدیث۵۲۱-

۱۱۷

تحلیل :

مذکورہ حدیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے اہل بیت کو وسیلہ بنا کر خدا سے مانگنے کو بدعت قرار دینا غلط ہے کیونکہ خدا نے ہی اہل بیت کواپنے اور بندوںکے درمیان وسیلہ قرار دیاہے، اہل بیت کے وسیلہ کے بغیر حاجت روائی نہیں ہوسکتی- لہذا اہل بیت کے وسیلہ سے خدا سے طلب حاجت کرنا نہ صرف بدعت نہیں ہے بلکہ اہل بیت کو وسیلہ قرار دینا خدا اور اس کے رسول کے حکم کی اطاعت ہے اوراہل بیت کو وسیلہ قرار دینا حاجت روائی کی شرط ہے (ع)

علامہ قندوزی نے روایت کی ہے :

قال علی (ع): قال رسول اللّه: من احب ان یرکب سفین- النج- ویتمسک بالعرو- الوثقی ویعتصم بحبل اللّه المتین فیوال علیاً ویعاد عدوه ولیأتم بالائم- الهد- من ولده فانّهم خلفائی واوصیائی وحجج الله علی خلقه من بعدی وسادات امتی وقواد الاتقیاء الی- الجن- حزبهم حزبی وحزب الله وحزب اعدائهم حزب الشیطان (ع)( ۱ )

____________________

( ۱ ) -ینابیع المود- ، ص۴۴۵

۱۱۸

حضرت علی (ع)فرماتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:جونجات کی کشتی پر سوار ہونا اور اللہ تبارک وتعالی کی مضبوط رسی سے متمسک رہنا چاہتا ہے تو اسے چاہیئے کہ علی بن ابی طالب (ع)سے محبت اور دوستی رکھے اور ان کے دشمنوں سے دشمنی رکھے اور ان کی نسل سے آنے والے اماموں کی پیروی کرے (ع)کیونکہ وہ میرے بعد حجت خدااور خلیفہ الہی اور میرے وصی وجانشین ہیںاور یہی لوگ میری امت کے سردار اور بہشت کی طرف دعوت دینے والے پیشوا ہیں ان کی جماعت میری جماعت ہے، میری جماعت، اللہ کی جماعت ہے اور ان کے دشمنوںکی جماعت شیطان کی جماعت ہے (ع)

تحلیل :

اس حدیث سے درج ذیل مطالب واضح ہوجاتے ہیں :

اہل بیت ، پیغمبراکرم (ص)کے جانشین ہیں(ع)اہل بیت ، خلیفہ الہی ہیں- اہل بیت سے تمسک، خدا اور رسول (ص)سے تمسک ہے- جو اہل بیت سے بغض رکھے وہ شیطان کی جماعت کا رکن ہے-

۱۱۹

۹)اہل بیت کی محبت، دین کی بنیادہے

احادیث نبوی میں دین اسلام کو شجرہ طیبہ، نور، پہاڑ، خزانہ اور کبھی دریااور سمندر وغیرہ سے تشبیہ دی گئی ہے (ع)اگر ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان الفاظ او تشبیہات کا معنی صحیح طور پر سمجھ لیںتو مسلمانوںکے بہت سارے اختلافی مسائل چاہے اعتقادی ہویافقہی یااخلاقی ،کاحل بخوبی واضح ہوجاتا ہے کیونکہ اسلام اور قرآن وسنت کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہم حقیقی مسلمان بن جائےں اورہمارے درمیان یک جہتی اور اتفاق ہواگرچہ صوم اور صلو- یادیگر فقہی مسائل میں اختلاف ہی کیوں نہ ہوں (ع)کیونکہ اسلام اور دین صرف مسائل فقہی کے مجموعہ کانام نہیں بلکہ اسلام ایک ایسا ضابطہ ئحیات ہے جو مادی اور معنوی تمام دستورات پر مشتمل ہونے کے ساتھ عقل اور فطرت کے عین مطابق ہے لہذا اگر ہم احادیث نبوی(ص)کو صحیح معنوں میں سمجھ لیں تو کوئی ایسا مسئلہ نہیں کہ جس کا حل اسلام میں نہ ہو (ع)ہاں کچھ مسائل اس طرح کے ہیں کہ جن کو قبول نہ کرنے کی صورت میں باقی سب کچھ ضائع ہوجاتا ہے اورخدا کی نظر میں قابل قبول نہیں رہتا ان بنیادی مسائل میں سے ایک محبت اہل بیت ہے،کیونکہ محبت اہل بیت کے بغیر کوئی بھی عمل اور عقیدہ خدا کی نظر میں قابل قبول نہیں (ع)چنانچہ اس مطلب کو علامہ ابن حجرمکی نے یوں نقل کیا ہے :

قال سمعت رسول اللّه یقول لکل شیءٍ اساس واساس الدین حبنّا اهل البیت - ( ۱)

جناب جابر (ع)نے کہا کہ : میں نے پیغمبر اکرم (ص)کو یہ فرماتے

____________________

( ۱ ) -مناقب المرتضویہ ص۳۱۴-

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196