امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت21%

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 271

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 271 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 116653 / ڈاؤنلوڈ: 4490
سائز سائز سائز
امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

کرتی ہیں۔ہم یہاں پر ان احادیث میں سے چند نمونے پیش کرتے ہیں:

پہلی حدیث:

ابرھیم بن محمدبن مؤیدجومنی(۱) کتاب”فرائدالسبطین(۲) ‘ میں اپنے اسناد سے اورشیخ صدوق ابن بابویہ قمی کتاب”کمال الدین(۳) ‘ میں سلیم بن قیس سے روایت کرتے ہیں:

”میں نے خلافت عثمان کے زمانہ میں مسجد النبی (ص)میں دیکھا کہ حضرت علی(علیہ السلام)مسجد میں تشریف فر ماتھے اور کچھ لوگ آپس میں گفتگو کرنے میں مشغول تھے۔وہ قریش اوران کے فضائل نیز ان کے سوابق اور جوکچھ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قریش کے بارے میں فرمایا ہے، کے بارے میں گفتگو کرر ہے تھے اوراسی طرح انصار کی فضیلت اوران کے شاندار ماضی اورقرآن مجید میں ان کے بارے میں خدا وند متعال کی تعریف و تمجیدکا ذکر رہے تھے اورہر گروہ اپنی اپنی فضیلت گنوا رہا تھا۔

اس گفتگو میں دوسو سے زیادہ لوگ شریک تھے ان میں حضرت علی(علیہ السلام)سعد بن ابی وقاص،عبدالرحمن بن عوف،طلحہ،زبیر،مقداد،ابوذر،حسن وحسین )علیہما السلام)اورابن عباس-بھی شامل تھے۔

____________________

۱۔ذہبی ،کتاب”المعجم المختص بالمحدثین“ص۶۵،طبع مکتبةالصدیق سعودی،طائفمیں لکھاہے:”ابراھیم بن محمد۔۔۔الامام الکبیر المحدث شیخ المشایخ“ یعنی:بہت بڑے امام محدث اور استادالاسا تذہ ۶۴۴ئ ہجری میں پیدا ہوئے اور۷۲۲ئ ہجری میں خراسان میں و فات پائی ۔ابن حجرکتاب”الدررالکامنہ“ج۱،ص۶۷ میں کہتے ہیں:“وسمع بالحلة وتبریز-----وله رحلة واسعة وعنی بهذاالشان وکتب وحصل وکان دینا وقوراً ملیح الشکل جید القرا ۔۔۔“یعنی: حلہ اور تبریزمیں )حدیث کے اساتذہ کے دوسرے شہروں کے بارے میں )سنا ہے۔۔۔ علم حدیث کے بارے میں ایک خاص مہارت رکھتے تھے۔۔۔اور متدین ،باوقار،خوبصورت اوراچھی قرائت کے مالک تھے۔

۲۔فرائدالبطین ،ج۱،ص۲۱۲،مؤسسہ المحمودی للطباعة والنشر،بیروت اسماعیل با شا کتاب ایضاح المکنون میں کشف الظنون،ج۴،ص۱۸۲،دارالفکر کے ذیل میں کہتا ہے:فرائد السبطین،فی فضائل المرتضیٰ والبتول والسبطین لابی عبداللّٰہ ابراھیم بن سعد الدین محمد بن ابی بکر بن محمدبن حمویہ الجوینی۔۔۔فرغ منہ سنة۷۱۶

۳۔کمال الدین،ص۲۷۴

۱۲۱

یہ جلسہ صبح سے ظہرتک جاری رہا اورعلی) علیہ السلام) بدستور خاموش بیٹھے رہے یہاں تک کہ لوگوں نے آپ(ع) کی طرف مخاطب ہوکر آپ سے کچھ فرمانے کی خواہش ظاہر کی۔

حضرت علی(علیہ السلام)نے فرمایا:تم دونوں گروہوں میں سے ہرایک نے اپنی فضیلت بیان کی اور اپنی گفتگو کا حق ادا کیا۔میں قریش وانصاردونوں سے یہ پوچھنا چاہتاہوں:خدا وند متعال نے یہ فضیلت تمھیں کس کے ذریعہ عطاکی ہے؟ کیا تم لوگ اپنی اوراپنے قبیلے کی خصوصیات کی وجہ سے ان فضیلتوں کے مالک بنے ہو؟ یاکسی دوسرے کی وجہ سے یہ فضیلتیں تمھیں عطا کی گئی ہیں؟

انہوں نے کہا:خدا وندمتعال نے محمد (ص)اورآپ کے اہل بیت)علیہم السلام)کے طفیل میں ہمیں یہ فضیلتیں عطا کی ہیں۔

حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا:صحیح کہاتم لوگوں نے اے گروہ انصار وقریش!کیا تم نہیں جانتے ہو کہ جوکچھ تم کوخیر دینا وآخرت سے ملا ہے وہ صرف ہم اہل بیت(ع)کی وجہ سے تھا؟ اس کے بعدحضرت علی (علیہ السلام)نے اپنے اور اپنے اہل بیت )علیہم السلام)کے بعض فضائل گنوائے اوران سے تصدیق اور گواہی چاہی انہوں نے گواہی دی،آپ(ع)نے من جملہ فرمایا:

فانشدکم اللّٰہ،اتعلمون حیث نزلت( یااٴیّهاالذین آمنوا اٴطیعواللّٰه واٴطیعواالرسّول واٴُولی الاٴمر منکم ) (۱) وحیث نزلت ا( ٕنّماولیّکم اللّٰه ورسوله والّذین آمنواالذین یقیمون الصلوة ویؤ تون الزکوة وهمصراکعون ) (۲) وحیث نزلت( اٴم حسبتم اٴن تترکواولماّ یعلم اللّٰه الّذیم جاهدوامنکم ولم یتّخذ وا من دون اللّٰه ولا رسوله ولاالمؤمنین ولیجة ) (۳) قال الناس:یا رسول اللّٰه،خاصة فی بعض

____________________

۱۔نساء/۵۹ ۲۔مائدہ/۵۵

۳۔توبہ/۱۶

۱۲۲

المؤمنین اٴم عامة لجمیعهم؟فاٴمراللّٰه - عزّوجلّ - نبیّه( ص) اٴن یُعلّمهم ولاةاٴمرهم واٴن یفسّر لهم من الولایة مافسّرلهم من صلا تهم وزکاتهم وحجهم،فینصبنی للناس بغدیر خمثمّ خطب وقال:اٴیّهاالنّاس،إنّ اللّٰه اٴرسلنی برسالة ضاق بها صدری وظننت اٴن الناس مکذبیفاوعدنی لاُ بلّغها اٴولیعذّبنیثمّ اٴمرفنودی بالصلاة جامعةثمّ خطب فقال:اٴیّهاالناس،اٴتعلمون اٴنّاللّٰه - عزّوجل - مولای اٴنامولی المؤمنین،واٴنا اٴولی بهم من اٴنفسهم؟

قالوا:بلی یارسول اللّٰهقال:قُم یاعلیّفقمت فقال:”من کنت مولاه فهذاعلیّ مولاه،اللّهمّ وال من والاه،وعادمن عاداه“

فقام سلمان فقال:یارسول اللّٰه،ولاء کماذا؟فقال:ولاء کولایتی، منکنت اٴولی به من نفسه فاٴنزل اللّٰه تعالی ذکره:( الیوم اٴکملت لکم دینکم واٴتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الإسلام دیناً ) (۱)

فکبّرالنبّی( ص) وقال:اللّٰه اٴکبر!تمام نبوّتی وتمام دین اللّٰه علیُّ بعدیفقام اٴبوبکر و عمر فقالا: یارسول اللّٰه،هؤلاء الآیات خاصّةفی علیّ؟قال:بلی،فیه وفی اٴوصیائی إلی یوم القیامةقالا:یارسول اللّٰه، بیّنهم لناقال:علیّ اٴخی ووزیری ووارثی ووصیّی وخلیفتی فی اُمّتی وولّی کل ّمؤمن بعدی ثمّ ابنی الحسن ثمّ الحسین ثمّ تسعة من ولدابنی الحسین واحد بعد واحد،القرآن معهم وهم مع القرآن لایفارقونه ولایفارقهم حتی

____________________

۱۔مائدہ/۳

۱۲۳

یردوا علیّ الحوض

فقالوا کلّهم:اللّهمّ نعم،قد سمعناذلک وشهدناکماقلت سواء وقال بعضهم:قدحفظناجلّ ماقلت ولم نحفظه کلّه،وهؤلاء الّذین حفظوااٴخیارناواٴفاضلنا

یعنی:میں تمھیں خدا کی قسم دلاتاہوں،کیا تم جانتے ہو کہ جبخداوندمتعال کا یہ فر مان:( یا اٴیّهاالذین آمنوااٴطیعواللّٰه واٴطیعوا الرّسول واولی الاٴمرمنکم ) نازل ہوا اورجب یہ آیہء شریفہ نازل ہوئی:( إنّما ولیّکم اللّٰه ورسول ) ۔۔۔ )یعنی بس تمہاراولی اللہ ہے اوراس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان جو نمازقائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰة دیتے ہیں)اسی طرح جب یہ آیہء شریفہ نازل ہوئی:( اٴم حسبتم اٴن تترکوا ) ۔۔۔ )یعنی :کیاتمہارا خیال ہے کہ تم کواسی طرح چھوڑدیا جائے گا جب کہ ابھی ان لو گوں نے کہ جنھوں نے تم میں سے جہاد کیا ہے اور خدا و رسول نیز مومنین کے علا وہ کسی کو اپنا محرم راز نہیں بنا یا ہے مشخص نہیں ہو ئے ہیں؟ تو لوگوں نے کہا:یارسول اللہ!کیا یہ آیتیں بعض مؤمنین سے مخصوص ہیں یا عام ہیں اوران میں تمام مؤ منین شامل ہیں؟

خداوند متعال نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا:تاکہ ان)مو منین) کے امور کے سلسلہ میں ان کے سرپرست کا اعلان کردیں اورجس طرح نماز،زکوٰةاورحج کی ان کے لئے تفسیربیان کی ہے،مسئلہ ولایت وسر پرستی کو بھی ان کے لئے واضح کردیں۔)اورخدا نے حکم دیا)تاکہ غدیر خم میں مجھے اپنا جا نشین منصوب کریں۔

اس کے بعدپیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ پڑھااورفرمایا:

”اے لوگو!خدا وند متعال نے مجھے ایک ایسی رسالت سونپی ہے کہ جس کی وجہ سے میرا سینہ تنگی محسوس کر رہا ہے اورمیں نے گمان کیا کہ لوگ میری اس رسالت کو جھٹلادیں گے۔پھر مجھے خدا نے تہدید دی کہ یا میں اس)رسالت) کوپہنچاؤں یا اگر نہیں پہونچاتا تووہ مجھے عذاب کرے گا۔“

۱۲۴

اس کے بعد پیغمبراکرم (ص)نے حکم دیا اورلوگ جمع ہو گئے اورآپنے خطبہ پڑھا اور فرمایا: اے لوگو! کیاتم جانتے ہوکہ خداوند متعال میرامولا)میراصاحب اختیار)ہے اورمیں مؤمنین کامولاہوں اورمجھے ان کی جانوں پرتصرف کا زیادہ حق ہے ؟انہوں نے کہا:ہاں،یارسول اللہ۔فرمایا:اے علی(علیہ السلام)کھڑے ہوجاؤ!میں کھڑا ہوا۔فرمایا:جس جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی(ع)بھی مولا ہیں۔خداوندا!اس کو دوست رکھ جو علی(ع)کودوست رکھے اوراس کو اپنا دشمن قرار دے جوعلی(ع)سے دشمنی کرے۔

سلمان اٹھے اورکہا:یارسول اللہ!یہ کونسی ولایت ہے؟پیغمبر (ص)نے فرمایا:یہ ولایت وہی ہے جو میں رکھتاہوں ۔جس کی جان کے بارے میں ،میں اولیٰ ہوں علی(ع)بھی اسی طرح اس کی جان کے بارے میں اولیٰ ہے۔اس کے بعدخدا وند متعال نے یہ آیہء شریفہ نازل فرمائی:( الیوم اٴکملت لکم دینکم ) ۔۔۔ یعنی:”آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیااوراپنی نعمتوں کوتمام کردیاہے اورتمہارے لئے دین اسلام کو پسندکر لیا۔“

اس کے بعد ابوبکراورعمراٹھے اورکہا:یارسول اللہ ! کیا یہ آیتیں علی(ع)سے مخصوص ہیں؟فرمایا:جی ہاں،یہ علی(ع)اور میرے قیامت تک کے دوسرے اوصیاء سے مخصوص ہیں۔انہوں نے کہا:یارسول اللہ!ان کو ہمارے لئے بیان کر دیجئے آنحضرت نے فرمایا: میرابھائی علی،امت کے لئے میراوزیر،وارث،وصی اورجانشین ہے اورمیرے بعد ہرمؤمن کا سرپرست ہے۔اس کے بعد میرے فرزندحسن وحسین(ع)اس کے بعد یکے بعد دیگرے میرے حسین(ع)کے نوفرزند ہیں۔قرآن مجید ان کے ساتھ ہے اور وہ قرآن مجید کے ساتھ ہیں۔وہ قرآن مجید سے جدا نہیں ہوں گے اورقرآن مجیدان سے جدا نہیں ہوگا یہاں تک کہ حوض کوثرپرمجھ سے ملیں گے۔اس کے بعد علی علیہ السلام نے اس مجمع میں موجود ان لوگوں سے،کہ جومیدان غدیر میں موجوتھے اورپیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ان با توں کواپنے کا نوں سے سن چکے تھے،کہا کہ اٹھ کراس کی گواہی دیں۔

۱۲۵

زیدبن ارقم،براء بن عازب،سلمان،ابوذراورمقداداپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور کہا :ہم شہادت دیتے ہیں اورپیغمبر (ص)کے بیانات یاد ہیں کہ آنحضرت منبرپرکھڑے تھے اوران کے ساتھ آپ(ع)بھی ان کی بغل میں کھڑے تھے اورآنحضرتفرمارہے تھے:

”اے لوگو! خداوند متعال نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہارے لئے امام کہ جو میرے بعد تم لوگوں کی رہنمائی اور سر پرستی کرے اورمیراوصی اورجانشین ہو،کو نصب کروں،اس کونصب کروں جس کی اطاعت کوخداوند متعال نے اپنی کتاب میں واجب قراردیا ہے نیزاس کی اطاعت کواپنی اورمیری اطاعت کے برابرقراردیا ہے کہ جس سے)آیہ اولوالامرکی طرف اشارہ ہے) اے لوگو!خداوند متعال نے تمھیں نماز،زکوٰة،روزہ اورحج کا حکم دیا ۔میں نے تمہارے لئے اس کی تشریح ووضاحت کی ۔اوراس نے تمھیں ولایت)کا ایمان رکھنے) کابھی حکم دیااورمیں ، تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ یہ ولایت اس)شخص)سے مربوط ہے )یہ جملہ بیان فرماتے وقت آنحضرت اپنادست مبارک علی(ع)کے شانہ پر رکھے ہوئے تھے)اوران کے بعداس کے دونوں بیٹوں)حسن وحسین(ع))اوران کے بعد ان کے فرزندوں میں سے ان کے جانشیوں سے مربوط ہے--“

حدیث مفصل و طولانی ہے۔ہم نے اس میں سے فقط اتنے ہی حصہ پراکتفا کیا کہ جوآیہء شریفہ”اولوالامر“سے مربوط ہے ۔محققین مذکورہ منابع میں مفصل حدیث کا مطلعہ کرسکتے ہیں۔

دوسری حدیث

یہ وہ حدیث ہے جسے مرحوم شیخ صدوق نے ”کمال الدین(۱) ‘ میں جابر بن یزید جعفی سے روایت کی ہے وہ کہتا ہے:

”میں نے سنا کہ جابر بن عبداللہ انصاری کہتے تھے:جب خدا وند متعال نے اپنے پیغمبر (ص)پر یہ آیہء شریفہ:( یاایّهاالذین آمنوااٴطیعواللّٰه واٴطیعواالرسول واولی الاٴمرمنکم ) نازل فرمائی،تو میں نے کہا:یارسول اللہ!ہم نے خدا اوراس کے رسولتو کو پہچان لیا۔اب وہ اولوالامرکہ جن کی اطاعت کو خداوندمتعال نے آپ کی اطاعت سے مربوط قراردیا ہے،وہ کون ہیں؟

آنحضرت (ص)نے فرمایا:”اے جابر!وہ میرے جانشین ہیں اورمیرے بعد مسلمانوں کے امام ہیں۔ان میں سب سے پہلے علی بن ابیطالب، پھرحسن وحسین،پھر علی بن حسین،پھر محمد بن علی،جوتوریت میں باقر کے نام سے معروف

____________________

۱۔کمال الدین،ص۲۵۳

۱۲۶

ہیں اوراے جابر!تم جلدی ہی اس سے ملاقات کروگے لہذاجب انھیں دیکھنا توانھیں میرا سلام پہنچانا۔پھرصادق جعفر بن محمد،پھر موسیٰ بن جعفر،پھر علی بن موسیٰ،پھر محمدبن علی،پھر علی بن محمد،پھرحسن بن علی،پھر میراہم نام اورہم کنیت)جو)زمین پر خدا کی حجت اورخدا کی طرف سے اس کے بندوں کے در میان باقی رہنے والا حسن بن علی)عسکری)کا فر زندہے،جس کے ذریعہ خدا وند متعال مشرق ومغرب کی زمین کو فتح کرے گا۔وہ شیعوں او ر ان کے چاہنے والوں کی نظروں سے غائب ہوگا۔وہ ایسی غیبت ہوگی کہ ان کی امامت پر خدا کی طرف سے ایمان کے سلسلہ میں آزمائے گئے دلوں کے علاوہ کوئی ثابت قدم نہیں رہے گا“

تیسری حدیث:

یہ حدیث اصول کافی ۱ میں برید عجلی سے روایت کی گئی ہے وہ کہتے ہیں:

”امام باقر(علیہ السلام) نے فرمایا:خدا وند متعال نے)آیہء شریفہ)( یا اٴیّها الذین آمنوا اٴطیعو اللّٰه و اٴطیعوا الرسول و اولی الاٴمر منکم ) کے بارے میں صرف ہماراقصد کیاہے۔تمام مؤمنین کو قیامت تک ہماری)ائمہ معصومین) اطاعت کرنے کا کاحکم دیا ہے۔“

اس کے علاوہ شیعہ وسنی منابع میں اوربھی احادیث نقل کی گئی ہیں جن میں ”اولوالامر“سے مراد ائمہء معصو مین کو لیا گیا ہے۔اہل تحقیق،”فرائد السمطین“اور”ینا بیع المودة“جیسی سنی کتابوں اور”اصول کافی“،”غا یةالمرام“اور”منتخب الاثر“ جیسی شیعوں کی کتابوں کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

____________________

۱۔اصول کافی،ج۱،ص۲۱۷

۱۲۷

چوتھا باب:

امامت آیہء ولایت کی روشنی میں

( ( إنّماولیکم اللّٰه ورسوله والّذین آمنواالّذین یقیمون الصلوٰةویؤ تون الزکوٰة وهم راکعون ) ) ( مائدہ/۵۵)

”بس تمہاراولی اللہ ہے اوراس کا رسول اوروہ صاحبان ایمان ہیں،جونمازقائم کرتے ہیں اورحالت رکوع میں زکوٰةدیتے ہیں“۔

امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی امامت اوربلافصل ولایت کے سلسلہ میں شیعہ امامیہ کی ایک اوردلیل آیہء شریفہ ولایت ہے۔آیہء شریفہ کے استدلال کی تکمیل کے سلسلہ میں پہلے چندمو ضوعات کا ثابت کرنا ضروری ہے:

۱ ۔آیہ شریفہ میں ”إنما“ حصر کے لئے ہے۔

۲ ۔آیہ ئ شریفہ میں لفظ ”ولی“ حص کے معنی اولی بالتصرف اورصاحب اختیار نیزسرپرست ہو نے کے ہے۔

۳ ۔آیت میں ”راکعون“سے مراد نماز میں رکوع ہے، نہ کہ خضوع وخشوع۔

۴ ۔اس آیہء شریفہ کے شان نزول میں ، کہ جوامیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں ہے، ذکر ہواہے کہ حضرت(ع)نے رکوع کی حالت میں زکوٰةدی ،)یعنی اپنے مال کوخداکی راہ میں انفاق کیاہو)ثابت ہو۔

اس باب میں ہم ان موضوعات کوثابت کرنے کی کوشش کریں گے اورآخر پر اس آیہء شریفہ سے مربوط چند سوالا ت کا جواب دیں گے۔

لفظ”إنما“کی حصر پر دلالت

علما ئے لغت اورادبیات نے اس بات کی تاکید کیہے کہ لفظ”إنما“حصرپر دلالت کرتا ہے۔یعنی عربی لغت میں یہ لفظ حصر کے لئے وضع کیا گیا ہے۔

۱۲۸

ابن منظورنے کہاہے:اگر ”إنّ“پر”ما“کا اضافہ ہو جائے تو تعیین وتشخیص پر دلالت کرتاہے۔جیسے خداوند متعال کا قول ہے:( إنّماالصدقات للفقراء والمساکین ) ۔۔۔(۱) چونکہ اس کی دلا لت اس پر ہے کہ حکم مذکور کو ثابت کرتا ہے اوراس کے غیر کی نفی کرتا ہے۔(۲)

جوہری نے بھی اسی طرح کی بات کہی ہے۔(۳)

فیروزآبادی نے کہاہے:”انّما“،”إنّما“کے مانند مفید حصرہے۔

اور یہ دونوں لفظ آیہء شریفہء:( قل إنّمایوحی إلیّ اٴنّماإلٰهکم إلٰه واحد ) (۴) میں جمع ہوئے ہیں۔(۵)

ابن ہشام نے بھی ایساہی کہا ہے۔(۶)

اس لئے اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ لغت کے اعتبار سے لفظ”إنّما“کوحصرکے لئے وضع کیا گیاہے۔اگرکوئی قرینہ موجو ہوتواس قرینہ کی وجہ سے غیرحصرکے لئے استفادہ کیا

جاسکتا ہے،لیکن اس صورت میں ”إنّما“کااستعمال مجازی ہوگا۔

”ولیّ“کے معنی کے بارے میں تحقیق

”ولّی“ولایت سے مشتق ہے۔اگرچہ یہ لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے لیکن اس کے موارد استعمال کی جستجو و تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا اصلی معنی سر پرستی ،اولویت

____________________

۱۔توبہ/۶۰

۲۔لسان العرب،ج۱،ص۲۴۵

۳۔صحاح اللغة،ج۵،ص۲۰۷۳

۴۔انبیاء/۱۰۸ ۵۔القاموس المحیط،ج۴،ص۱۹۸،دارالمعرفة،بیروت۔

۶۔مغنی اللبیب ،ج۱،ص۸۸،دارالکتب العلمیة بیروت

۱۲۹

اورصاحب اختیار ہو نے کے ہے۔

ابن منظورکا”لسان العرب“میں کہنا ہے”الولیّ ولیّ الیتیم الّذی یلی اٴمره ویقوم بکفایته،وولیّ المرئةالّذی یلی عقدالنکاح علیهاوفی الحدیث:اٴیّماامرئة نکحت بغیرإذن مولیها فنکاحهاباطلوفی روایة:”ولیّها“اٴی متولّی اٴمرها(۱)

یتیم کا ولی وہ ہے جو یتیم کے امور اور اس کی کفالت کا ذمہ دار ہے اوراس کے امورکی نگران کرتا ہے۔عورت کا ولی وہ ہے کہ جس کے اوپر اس کے عقد ونکاح کی ذمہ داری ہو۔

حدیث میں آیا ہے:جوبھی عورت اپنے مولا)سرپرست)کی اجازت کے بغیرشادی کرے تواس کا نکاح باطل ہے۔ایک روایت میں لفظ”ولیھا‘ ‘کے بجائے لفظ”مولیھا“آیا ہے کہ جس کے معنی سرپرست اورصاحب اختیار کے ہیں۔

فیومی”المصباح المنیر“میں کہتا ہے:

الولیّ فعیل به معنی فاعل من ولیه إذقام بهومنه اللّٰه ولیّ الّذین آمنوا ،والجمع اٴولیاء،قال ابن فارس:وکلّ من ولی اٴمراٴحد فهوولیّهوقد یطلق الولیّ اٴیضاًعلی المعتق والعتیق،وابن العم والناصروالصدّیقویکون الولیّ بمعنی مفعول فی حق المطیع،فیقال:المؤمن ولیّ اللّٰه“ ۔(۲)

”فعیل)کے وزن پر(ولی فاعل کے معنی میں ہے ) ۔(۳) کہا جاتا ہے):ولیہ یہ اس

_____________________

۱۔لسان العرب ،ج۱۵،ص۱۰۴،دار احیاء التراث العربی ،بیروت

۲۔المصباح المنیر،ج۲،ص۳۵۰،طبع مصطفی البابی الحلبی واولادہ بمصر

۳۔”فعیل“صفت مشبہ ہے۔کبھی فاعل کے معنی میں بھی استعمال ہوتاہے، جیسے ”شریف“ اورکبھی مفعول کے معنی میں آتا ہے۔فیومی نے اپنے بیان میں اس کی طرف اشار ہ کیا ہے کہ آیہء شریفہ میں ”فعیل“فاعل کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔چنانچہ مؤمن کو کہا جاتا ہے”ولی خدا“ یعنی جس کے امورکی تدبیر خدا کے ہاتھ میں ہے اور وہ ا سے اپنے الطاف سے نواز تا ہے۔

۱۳۰

صورت میں ہے جب کسی کے امو ر کے لئے عملاً قیام کرے اس کے کام کواپنے ذمہ لے لے۔ آیہء شریفہ:( اللّٰه ولیّ الذین آمنوا ) میں ولایت اسی کی ہے۔یعنی خداوند متعال مؤمنین کے امور کے حوالے سے صاحب اختیارا ور اولی بالتصرف ہے۔ابن فارس نے کہا ہے:جو بھی کسی کے امورکاذمہ دار ہوگا وہ اس کا ”ولی“ہوگا۔اور بعض اوقات”ولی“)دوسرے معانی میں جیسے) غلام کوآزاد کرنے والا،آزاد شدہ غلام ،چچازاد بھائی،یاوراوردوست کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔

ان بزرگ ماہرین لغت کے بیان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے کہ یاور اوردوست جیسے مفاہیم ولی کے حقیقی معنی نہیں ہیں بلکہ کبھی کبھی ان معنوں میں استعمال ہو تا ہے اوراس قسم کا استعمال مجازی ہے۔

”ولی“کے معنی میں یہ جملہ معمولاًلغت ۱ کی کتابوں میں بہ کثرت نظر آتا ہے وہ ناقابل اعتناء ہے ”من ولی امر احدفہوولیہ“یعنی:”جو کسی کے کام کی سر پرستی اپنے ذمہ لے لے وہ اس کا ولی ہے“

ان معانی کے پیش نظر،ایسا لگتا ہے کہ لفظ”ولی“کا حقیقی اور معروف ومشہور معنی وہی صاحب اختیاروسر پرست ہو ناہے۔ قرآن مجید میں اس لفظ کے استعمال پر جستجو و تحقیق بھی اسی مطلب کی تائید کرتی ہے۔

ہم لفظ”ولی“کے قرآن مجید میں استعما ل ہونے کے بعض موارد کا ذکر کرکے بعض دوسرے موارد کی طرف اشارہ کرتے ہیں:(۱)

____________________

۱۔لسان العرب،ج۱۵،ص۴۱۰،المصباح المنیر،ج۲،ص۳۵۰طبع مصطفٰی البابی الحلبی بمصر،النہا یةج۵،ص۲۲۸المکتبة العلمیة،بیروت،منتہی الارب ،ج۴،ص۱۳۳۹،انتشارات کتابخانہ سنائی،مجمع البحرین،ج۲ص۵۵۴،دفتر نشر فرھنگ اسلامی،الصحاح،ص۲۵۲۹،دارالعلم للملابین، المفردات، ص۵۳۵، دفتر نشر کتابمعجم مقا ییس اللغة،ج۶،ص۱۴۱۔

۱۳۱

چند بنیادی نکات کی یاد دہانی

یہاں پر چند نکات کی طرف اشارہ کرناضروری ہے:

پہلانکتہ:عام طور پر لغت کی کتابوں میں ایک لفظ کے لئے بہت سے موارداستعمال اور مختلف معانی ذکر کئے جاتے ہیں۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ لفظ ہر معانی کے لئے الگ الگ وضع کیا گیا ہے اوروہ لفظ مشترک ہے اوران معانی میں سے ہرایک،اس کا حقیقی معنی ہے لفظی اشتراک)یعنی ایک لفظ کے کئی معانی ہوں اور ہر معنی حقیقی ہو )اصول کے خلاف ہے۔اور علم لغت اورادبیات کے ماہرین نے جس کی وضاحت کی ہے وہ یہ ہے کہ اصل عدم اشتراک ہے۔

۱ ۔قرآن مجید میں لفظ”ولی“کے استعمال کے مواقع:

الف۔( اٴللّٰه ولی الذّین آمنوا یخرجهم من الظلمات إلی النور ) (بقرہ/ ۲۵۷)” اللہ صاحبان ایمان کا ولی ہے وہ انہیں تاریکوں سے نکال کرروشنی میں لے آ تاہے۔“

ب۔( انّ ولی اللّٰه الذّی نزل الکتاب و هو یتولّی الصالحین ) (اعراف/ ۱۹۶)” بیشک میرا مالک ومختار وہ خدا ہے جس نے کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک بندوں کاولی ووارث ہے۔“

ج۔( ام إتّخذ وا من دونه اٴولیائ فاللّٰه هوالولی وهو یحیی الموتی ) (شوریٰ/ ۹)” کیاان لوگو ں نے اس کے علاوہ کو اپنا سر پرست بنایا ہے جب کہ وہی سب کاسرپرست ہے اور وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے۔“

د۔( قل اٴغیراللّٰه اٴتخذوا ولیاًفاطرالسموات والارض وهو یطعم ولا یطعم ) ۔۔۔ (انعام/ ۱۴)” آپ کہئے کہ کیا میں خد ا کے علاوہ کسی اورکواپنا ولی بنالوں جب کہ زمین وآسمان کاپیداکرنے والا وہی ہے، وہی سب کوکھلاتاہے اس کوکوئی نہیں کھلاتاہے۔“

۱۳۲

ہ ۔( و انت ولینا فاغفر لنا وارحمنا وانت خیرالغافرین ) )اعراف/ ۱۵۵)” توہمارا ولی ہے،ہمیں معاف کردے اورہم پررحم کر کہ توبڑابخشنے والاہے۔“

و۔( فإن کان الذی علیه الحق سفیهاًاو ضعیفاًاولا یستطیع ان یمل هو فلیملل ولیه بالعدل ) )بقرہ/ ۲۸۲)” اب اگر حق اس کے خلاف ہو اوروہ نادان یاکمزورہو اور اس کو لکھنے کی صلا حیت نہ ہو تو اس کے ولی کو چاہئیے کہ عدل و انصاف کے ساتھ اسے لکھے۔

ز۔( ومن قتل مظلوماً فقدجعلنا لولیه سلطاناً ) )اسراء/ ۳۳)” جومظلوم قتل ہوتاہے ہم اس کے ولی کوبدلہ کااختیاردیتے ہیں۔

دوسر ی آیات: یوسف/ ۱۰۱ ، ہود/ ۱۱۳ ، شوریٰ/ ۴۶ ،فصلت/ ۳۱ ، نحل/ ۶۳ ، بقرہ/ ۱۰۷ و ۱۲۰ توبہ/ ۷۴ و ۱۱۶ ، عنکبوت/ ۲۲ ،شوریٰ/ ۸ و ۳۱ ،نساء/ ۴۵ ،

۷۵،۸۹،۱۲۳ و ۱۷۳ ،احزاب/ ۱۷ و ۶۵ ،فتح/ ۲۲) مذکورہ ۱۵ آیات میں ولی اورنصیرایک ساتھ استعمال ہوئے ہیں نساء/ ۱۱۹ ، مریم/ ۵ ،سباء/ ۴۱ ، نمل ۴۹ ،نساء/ ۱۳۹ ،یونس/ ۶۲ ، اسراء/ ۹۷ ،الزمر/ ۳ ، شوریٰ/ ۶ ، ممتحنہ/ ۱ ،آل عمران/ ۱۷۵ ،انفال/ ۴۰ ،محمد/ ۱۱ بقرہ/ ۲۸۶ ،توبہ/ ۵۱ ،حج/ ۷۸ ۔

کتاب”مغنی اللبیب“کے مصنف،جمال الدین ابن ہشام مصری،جواہل سنت میں علم نحو کے بڑے عالم مانے جاتے ہیں جب آیہء شریفہ( إنّ اللّه وملائکته یصلّون علی

۱۳۳

النّبی ) (۱) میں قرائت رفع(ملائکتُہ)کی بنیاد پر بعض علمائے نحو جو”إنّ“کی خبر)یصلّی ہے)کو محذوف اورمقدر جانتے ہیں،نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں:

واماّقول الجماعةفبعیدمن جهات:إحداهااقتضاؤه للإشترا والاٴصل عدمه لما فیه من الإلباس حتیّ إنّ قوماًنفوهثمّ المثبتون له یقولون:متی عارضه غیره ممّایخالف الاٴصل کالمجاز قدّم علیه (۲)

”ان کی بات کئی جہتوں سے حقیقت سے بعید ہے۔اول اس لحاظ سے کہ ان کے بیان کا لازمہ یہ ہے کہ صلاة کو مشترک لفظی تسلیم کریں جبکہ اشتراک خلاف اصل ہے یہاں تک کہ بعض نے اسے بنیادی طو ر پر مسترد کیا ہے اور جنہوں نے اسے ثابت جا نا ہے انھوں نے اسے مجاز اور اشتراک کی صورت میں مجاز کو اشتراک پر مقدم جانا ہے۔“

فیروزآبادی،صاحب قاموس نے بھی صلوٰت کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے کہ جس میں آیہء شریفہ( إنّ اللّه وملا ئکته یصلّون علی النبیّ ) ۔۔۔ کے بارے میں تحقیق کی ہے اورمذکورہ بیان کو ابن ہشام سے نقل کیا ہے۔(۳)

اس بناء پر،ولایت کے مفہوم میں )جو کئی معانی ذکر ہوئے ہیں)سے جو معنی قدر متیقّن اوریقینی ہیں وہ سرپرستی اورصاحب اختیار ہو نے کے ہیں،اور دوسرے معانی جیسے،دوستی اوریاری اس کے حقیقی معنی کے حدود سے خارج ہیں اور ان کے بارے میں اشتراک لفظی کا سوال ہی پیدا

____________________

۱۔احزاب/۵۶

۲۔مغنی اللبیب،ج۲،باب پنجم،ص۳۶۵

۳۔الصلوةوالبشرفی الصلوة علی خیرالبشر،ص۳۳،دار الکتب العلمیة،بیروت

۱۳۴

نہیں ہوتا۔

لہذا اگر مادئہ ”ولی“قرینہ کے بغیر استعمال ہو تو وہ سرپرستی اورصاحب اختیار ہو نے کے معنی میں ہوگا۔

دوسر ا نکتہ بعض اہل لغت نے مادہ ”و لی“کو ایک اصل پر مبنی جانا ہے اورمفہوم کا اصلی ریشہ)جڑ) کو ”قرب“ قراردیا ہے۔اور بعض مفسرین نے کلمہ”ولی“کو اسی بنیاد پرذکر کیا ہے، اس سلسلہ میں چندمطالب کی طرف توجہ کر نا ضروری ہے:

سب سے پہلے اس بات کو ملحوظ رکھناچاہئے کہ لغوی معنی کے اس طرح کی تحلیل اوراس کاتجزیہ ایک حدس وگمان اور خوامخواہ کے اجتہاد کے سواء کچھ نہیں ہے اوراس پرکوئی دلیل نہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ وہ چیز جومعنی کے سمجھنے اوراس لفظ سے تبادر کے لئے معیار ہے وہ اس کے استعمال کازمانہ ہے۔بیشک بہت سے مواقع پر”ولی“کے معنی سے قرب کامفہوم ذہن میں پیدا نہیں ہوتاہے۔بعض مواقع پرکہ جہاں قرینہ موجودہوجیسے”المطرالولی“)وہ بارش جوپہلی بارش کے بعدیااس کے بہت قریب واقع ہو ئی ہو )میں اس قسم کے استعمال کوقبول کیا جاسکتا ہے۔

اس بناپراگرفرض بھی کر لیاجائے کہ”قرب“اس معنی کی اصلی بنیادتھی اورآغاز میں لفظ”ولی“کامفہوم”قرب“کے معنی میں استعمال ہوتا تھا،لیکن موجودہ استعمال میں وہ معنی متروک ہو چکاہے اوراب اس کااستعمال نہیں ہے۔

تیسرا بعض اہل لغت جیسے ابن اثیرنے”النہایة ۱“ میں اورابن منظورنے”لسان العرب ۲“ میں ”ولی“ کے معنی بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”ولی“ خداکے

____________________

۱۔النہا یة،ج۵،ص۲۲۸

۲۔لسان العرب ،ج۱۵،ص۱۰۶

۱۳۵

ناموں میں سے ایک نام ہے اوریہ ناصرکے معنی میں ہے اورکہاگیاہے کہ اس کے معنی امورجہان کے متولی و منتظم کے ہیں۔

اس بیان سے استفادہ ہوتاہے کہ”ولی“جوخداکے ناموں میں سے ایک نام ہے،ان کے نزدیک ناصرکے معنی میں ہے،جبکہ مطلب صحیح نہیں ہے کیو نکہ اگر ”ولی“کے معنی ناصر کے

ہوں گے)چونکہ”ولی“کاایک مادہ اورایک ہیئت ہے،اوراس کامادہ”ولی“”ول ی“وہیئت فعیل ہے)تواس کاتقاضایہ ہے کہ مادہ”ولی“نصرکے معنی میں اوراس کی ہیئت)ہیئت فعیل) فاعل کے معنی میں ہے۔

ایک بات یہ کہ یہ دونوں نظریہ، بغیردلیل کے ہیں اوردوسرے یہ کہ:فعیل صفت مشبہ ہے جس کی دلا لت ثبوت پرہے جبکہ فاعل حدوث پردلالت کرتاہے اوریہ دونوں مفہوم کے اعتبار سے ایک دوسرے کے متغائیرہ ہیں۔

اس لئے”ولی“اسم الہی، اسی صاحب اختیاراورکائنات کے امورمیں متولی کے معنی میں ہے کہ جس کو دونوں اھل لغت نے اپنے مختارنظریہ کے بعد“قیل“کے عنوان سے بیان کیاہے۔

چوتھانکتہ:قرآن مجیدکی بہت سی آیتوں میں ”ولی“،”نصیر“ کے مقابلہ میں آیاہے، جیسے( ومالکم من دون اللّٰه من ولیّ ولانصیرا ً ) (۱) تمہارے لئے اس کے علاوہ نہ کوئی سرپرست ہے اورنہ مددگار“

اگر”نصیر“،”ولی“کے معنی میں ہوتاتواس کے مقابلہ میں قرارنہیں دیا جا تااوران دونوں لفظوں کاایک دوسرے سے مقابلہ میں واقع ہو نااس بات کی دلیل ہے کہ مفہوم کے لحاظ سے یہ دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

_____________________

۱۔بقرہ/۱۰۷

۱۳۶

پانچواں نکتہ:بعض افرادنے قرآن مجید کی بہت سی آیات کے بارے میں یہ تصورکیا ہے کہ ولی اورولایت نصرت اورمددکے معنی میں استعما ل ہوا ہے،جیسے:( مالکم من ولایتهم من شیء ) (۱) جب کہ ولایت سے مراد”نصرت کی ولایت“ہوسکتاہے نہ یہ کہ ولایت”نصرت“کے معنی میں ہے،کیونکہ نصرت ومددولایت و سر پرستی کی علا متوں میں سے ایک

علا مت ہے اس لحاظ سے ولایت کامعنی سرپرستی کے علاوہ کچھ نہیں ہے اوراس سے نصرت ویاری میں سرپرستی مرادہے۔

”ولی“کے معنی کے سلسلہ میں جوکچھ بیان کیاگیا،اس کے پیش نظر،آیہء کریمہ میں صرف سرپرست اورصاحب اختیارہی والا معنی مراد ہے۔

اس کے علاوہ آیہء شریفہ میں قطعی ایسے قرینہ موجودہیں کہ جس سے مراد ”دوست“اور”یاور“نہیں ہوسکتے ہیں۔اس کی مزیدوضاحت سوالات کے جواب میں ائے گی۔

رکوع کے معنی

لغت میں ”رکوع“کے معنی جھکنااورخم ہوناہے۔اسی لئے نمازمیں جھکنے کو”رکوع“کہتے ہیں۔(۲)

زبیدی”تاج العروس(۳) “ میں کہتاہے:

”اگررکوع کوتنگدستی اورمفلسی کے لئے استعمال کیاجائے اور ایسے شخص کوجوامیری کے بعدفقیری اورتنگدستی میں مبتلا ہو جا ئے اورزوال سے دوچارہو تواسے”رکع

____________________

۱۔انفال/۷۲

۲۔الصاح جوہری،ج۳،ص۱۲۲۲،دارالعلم للملابین،القاموس المحیط،فیروزآبادی،ج۳، ص۳۱، دارالمعرفہ، بیروت،المنیر،فیومی،ص۲۵۴،ط مصر،جمھرة اللغة،ابن درید،ج۲، ص۱۷۷۰کتاب العین، خلیل بن احمد فراہیدی،ج۱،ص۲۰۰

۳۔تاج العروس،ج۲۱،ص۱۲۲،دارالہدایة للطباعة والنشر والتوزیع۔

۱۳۷

الرجل“کہتے ہیں اوریہ استعمال مجازی ہے۔“

اس لئے رکوع کاحقیقی معنی وہی جھکنااورخم ہوناہے اوراگراسے دوسرے کسی معنی،جیسے زوال اورخضوع میں استعمال کیاجائے تویہ اس کے مجازی معنی ہیں اوراس کے لئے قرینہ کی ضرورت ہے۔

آیہء ولایت کی شان نزول

شیعہ اوراہل سنّت تفسیروں کے منابع میں موجودبہت سی احادیث کے مطابق یہ آیہ شریفہ حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام کے بارے میں ناز ل ہو ئی ہے اور الذین آمنوا۔۔۔ سے مرادوہی حضرت(ع)ہیں۔

ہم اس سلسلہ میں ایک حدیث کو درج کرتے ہیں،جس کوثعلبی ۱ نے اپنی تفسیر ۲ میں سنی محدثین اور مفسرین سے نقل کیا ہے اورشیعوں کے بڑے مفسرشیخ طبرسی نے بھی اس کو”مجمع البیان ۳“ میں درج کیاہے:

”عن عبایة بن الربعی قال:بیناعبداللّٰه بن عباس جالس علی شفیرزمزم إذااٴقبل رجل متعمّم بالعمامة؛فجعل ابن عباس لایقول:”قال رسول اللّٰه( ص) إلاّقال الرجل:قال رسول اللّٰه( ص) “!!فقال ابن عباس:ساٴلتک باللّٰه،من اٴنت؟قال:فکشف العمامةعن وجهه وقال:یا اٴیّهاالناس،من عرفنی فقد عرفنی ومن لم یعرفنی فاٴنا “

جندب من جنادةالبدری،اٴبوذرالغفاری،سمعت رسول اللّٰه

___________________

۱ ۔ثعلبی کے بارے میں ذہبی کا قول دوسرے اعتراض کے جواب میں بیان کیاجائے گا۔

۲” الکشف والبیان“ج ۴ ،ص ۸۱ ۔ ۸۰ ،داراحیائ التراث العربی

۳ ۔مجمع البیان،ج ۳ ،ص ۳۲۴

۱۳۸

( ص) بها تین وإلاّصمّتا،وراٴیته بها تین وإلاّفعمیتا،یقول:علیّ قائد البررة،وقاتل الکفرة،منصورمن نصره،مخذول منخذ لهاٴماّ إنّی صلّیت مع رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یوماًمن الاٴیاّم صلاةالظّهر،فدخل سائل فی المسجدفلم یعطه اٴحد،فرفع السائل یده إلی السّماء وقال:اللّهمّ اٴشهد إنّی ساٴلت فی مسجدرسول اللّٰه فلم یعطنی احد شیئاً - وکان علیّ راکعاً - فاٴومی إلیه بخنصره الیمنی - وکان یتختّم فیها - فاٴقبل السائل حتیّاٴخذالخاتم من خنصره!وذلک بعین النبیّی

فلماّ فرغ النّبیّی( ص) من الصلاةرفع یده إلیالسّماء وقال:اللّهمّ إنّ اٴخی موسی ساٴلک فقال:( ربّ اشرح لی صدری ویسّرلی امری،واٴجعل لی وزیراً من اٴهلی هارون اٴخی اشدد به اٴزری ) فاٴنزلتَ علیه قرآناًناطقاً( سنشدّعضدک باٴخیک ونجعل لکما سلطا ناً )

اللّهمّ واٴنامحمّدنبیّک وصفیکاللّهمّ فاشرح لی صدری ویسّرلی اٴمری،واٴجعل لی وزیراًمن اٴهلی علیّاً اشددبه ظهری

قال اٴبوذر:فواللّٰه مااستتمّ رسول اللّٰه الکلمة حتّی اُنزل علیه جبرئیل من عنداللّٰه،فقال یامحمّد!إقراٴ،فقال:ومااٴقراٴ؟قال:إقراٴ:، ”إنّما ولیّکم اللّٰه ورسوله إلی راکعون“الآیة

”عبایہ بن ربیع سے روایت ہے کہ اس نے کہا:اس وقت جب عبداللہ بن عباس)مسجد الحرام میں )زمزم کے کنارے بیٹھے تھے ) اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حدیث روایت کررہے تھے)اچانک ایک عمامہ پوش شخص آپہونچا)اوررسول خدا (ص)سے اس طرح حدیثیں نقل کرنا شروع کیں)کہ جب عبداللہ ابن عباس کہتے تھے:”قال رسول اللہ، (ص)“وہ شخص بھی کہتاتھا:”قال رسول اللہ (ص)۔“ابن عباس نے کہ:تمھیں خدا کی قسم ہے یہ بتاؤکہ تم کون ہو؟اس شخص نے اپنے چہرے سے نقاب ہٹائی اورکہا:اے لوگو!جومجھے پہچانتاہے،وہ پہچانتاہے،اورجومجھے نہیں پہچانتامیں اسے اپنے بارے میں بتادیناچاہتاہوں کہ میں جندب،جنادئہ بدری کابیٹا،ابوذرغفاری ہوں۔میں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اپنے ان دونوں)کانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے)کا نوں سے سنا اگریہ با ت صحیح نہ ہو تو)میرے کان)بہرے ہو جائیں اوران دونوں انکھوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) آنکھوں سے دیکھا اگر یہ با ت درست نہ ہو تو میری آنکھیں اندھی ہوجائیں)میں نے سنا اور دیکھا) فرما رہے تھے: علی (علیہ السلام) نیکوں کے پیشوااور کافروں کے قاتل ہیں۔جوان کی مددکرے گااس کی خدا نصرت کرے گا،اورجوانھیں چھوڑدے گاخدااسے بھی چھوڑدے گا۔

۱۳۹

ایک دن میں رسول خدا (ص)کے ساتھ ظہرکی نمازپڑھ رہاتھاکہ ایک سائل نے اہل مسجد سے سوال کیا،کسی نے اس کی حاجت پوری نہیں کی۔سائل نے اپنے ہاتھآسمان کی طرف بلند کئے اورکہا:

خداوندا! تو گواہ رہناکہ میں نے مسجدالنبی میں سوال کیااورکسی نے میری حاجت پوری نہیں کی۔علی(علیہ السلام)رکوع کی حالت میں تھے،اپنی چھوٹی)انگلی جس میں انگوٹھی تھی)سے اس کی طرف اشارہ کیا۔سائل نے سامنے سے آکرانگوٹھی آپ(ع)کے ہاتھ سے نکال لی۔رسول خدا (ص)اس واقع کے شاہد اور گواہ ہیں جب پیغمبراسلام (ص)نمازسے فارغ ہوئے آسمان کی طرف رخ کرکے عرض کی:خداوندا!میرے بھائی موسیٰ(علیہ السلام) نے تجھ سے سوال کیا اور کہا”پروردگارا!میرے سینے کوکشادہ کردے،میرے کام کو آسان کر دے اور میری زبان کی گرہوں کوکھول دے،تا کہ یہ لوگ میری بات سمجھ سکیں اور میرے اہل میں سے میرے بھائی ہارون کومیراوزیرقراردیدے،اس سے میری پشت کومضبوط کردے،اسے میرے کام میں شریک بنادے۔“)اس کی درخواست کو بر لا)اور تو نے اس داستان کے بارے میں قرآن مجیدمیں یوں فرمایا:”ہم تمھارے بازؤں کوتمھارے بھائی)ہارون)سے مضبوط کردیں گے اورتمھیں ان پرمسلط کردیں گے۔“

خداوندا!میں تیرا بر گزیدہ پیغمبرہوں،خداوندا!میرے سینے کوکشادہ کردے،میرے کام کوآسان کر،میرے اہل میں سے میرے بھائی علی(ع)کومیر اوزیرقراردے اوراس سے میری پشت کومضبوط کر۔)ابوذرکہتے ہیں:)خدا کی قسم رسول خدا (ص)نے ابھی اپنی بات تمام بھی نہیں کی تھی کہ جبرئیل امین خداکی طرف سے نازل ہوئے اورکہا:اے محمد!پڑھئے!) آنحضرت نے) کہا:کیا پڑھوں؟ )جبرئیل نے کہا)پڑھئیے: إ( نّماولیکم اللّٰه ورسوله ) ۔۔۔ “

شیخ طبرسی نے اس حدیث کے خاتمہ پرکہاہے:اس روایت کوابواسحاق ثعلبی نے اپنی تفسیر میں اسی سند سے)کہ جیسے میں نے ذکرکی ہے)نقل کیاہے۔اس شان نزول کو بیان کر نے والی بہت ساری حدیثیں ہیں ان میں سے بعض کوہم دوسری مناسبتوں کے سلسلہ میں بیان کریں گے اوران میں سے بعض دوسری احادیث کے حوالہ ابن تیمہ کے جواب کے ذیل میں عرض کریں گے۔ان احادیث کے پیش نظرواضح ہو گیا کہ یہ شان نزول قطعی ہے اوراس میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجا ئش نہیں ہے۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

قدر چستى و دليرى تھى اور ايسا جوش و خروش پايا جاتا تھا كہ اس سے جوانوں كو تقويت ہوتى تھي_

عمار جس وقت ميدان كارزار كى جانب روانہ ہوئے تھے اس وقت وہ دست بدعا تھے اور خداوند تعالى سے فرياد كر رہے تھے اے پروردگار اے خدايا تو ناظر و شاہد ہے اگر ميں يہ جان لوں كہ تيرى رضا اسى ميں تھے كہ ميں خود كو سمندر ميں گرادوں تو ميں ايسا ہى كرونگا اگر مجھے يہ معلوم ہوجائے كہ تيرى خوشنودى اس ميں ہے كہ ميں اپنے سينہ و دل كو نوك شمشير پر اس طرح ركھ دوں كہ وہ ميرى كمر سے نكل آئے تو يقينا ميں ايسا ہى كروں گا ليكن اس علم كے مطابق جو تو نے مجھے ديا ہے كہ ميں يہ جانتا ہوں كہ تجھے آج كوئي عمل اس سے زيادہ راضى و خوشنود نہيں كر سكتا كہ تباہ كاروں كے خلاف جہاد كروں _(۱۹)

عمار وہ مخلص دلاور اور ايسے جنگجو سپاہى تھے جو ميدان كارزار ميں تھكنا نہيں جانتے وہ عاشق جانبازى كى مانند جنگ كرتے حق كے دشمنوں كے لئے انكى تلوار موت كا پيغام تھى اور جس كے سرپر پڑجاتى اسے واصل جہنم كرتى مگر حاميان حق كے دلوں كو اس سے تقويت ملتى در حقيقت وہ ميزان حق تھے چنانچہ نبى اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہى كى شان ميں تو فرمايا تھا كہ : عمار حق كے ساتھ زندہ ہے اور حق عمار كے ساتھ ہے(۲۰) جو شخص بھى ان كے محاذ پر جنگ كرتا اسے يہ يقين ہوتا كہ وہ حق كى مدافعت كريں گے اور اسى راہ ميں اگر انھيں قتل بھى كرديا گيا تو انھيں بہشت بريں ميں جگہ ملے گي_

مسلمانوں كے درميان يہ بات مشہور تھى كہ عمار ميزان حق ہيں چنانچہ جب كبھى حق و باطل كے درميان تشخيص كرنا مقصود ہوتا تو عمار كے عمل اور موجودگى كو بطور سند پيش كيا جاتا اس كى ايك مثال يہ ہے كہ : ان كے چچازاد بھائي'' ذى الكلاع حميرى '' شامى سپاہ عراق ميں شامل تھا عمار نے اسے بلايااور كہا ميں نے اس لئے بلايا ہے كہ تمہيں وہ حديث سناؤں جو عمروعاص نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل كى ہے اس كى بعد انہوں نے وہ حديث بيان كى جس ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تھا كہ : شام اور عراق كے لشكر ايك دوسرے كے مقابل ہوں گے ان ميں سے ايك حق و ہدايت كا پيشوا ہوگا اور عمار اسى كے ساتھ ہوں گے(۲۱) اس پر ابونوح نے كہا تھا كہ : خدا كى قسم عمار ہمارے ساتھ ہيں

۲۲۱

اور ہم سب سے زيادہ انھيں تم سے جنگ كرنے پر اصرار ہے كتنا اچھا ہوتا كہ تم سب ايك تن ہوتے اور ميں اسے ذبح كرتا اور سب سے پہلے تجھ چچازاد بھائي كو ہى قتل كرتا كيونكہ ہم حق پر ہيں اور تم باطل پر ہو_

اس كے بعد ذوالكلاع كى درخواست پر وہ عمروعاص كے پاس گئے تا كہ اس تك بھى يہ اطلاع پہنچائي جاسكے كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر ميں عمار بھى موجود ہيں اور شاميوں سے جہاد كرنے كيلئے واقعى وہ سنجيدہ ہيں تا كہ ان كے ضمير كو بيدار كيا جاسكے_

عمروعاص نے بھى گفتگو كے درميان اس حقيقت كا اعتراف كيا كہ : اس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سن ركھا ہے كہ عمار كو جفاكار اور باغى قتل كريں گے اس كے بعد عمروعاص كى تجويز پر اس كے اور عمار كے درميان ملاقات كا پروگرام مرتب كيا گيا گفتگو عمروعاص كى جانب سے شروع ہوئي اس نے عمار كو پند و نصيحت كرتے ہوئے كہا كہ : وہ جنگ و خونريزى سے باز رہيں اس ضمن ميں يہ بھى كہا كہ : ہمارے اور تمہارے درميان خدا كا فيصلہ قرآن اور رسول مشترك ہيں عمار نے كہا كہ : خدا كا شكر جس نے يہ توفيق دى كہ تم نے وہ سب باتيں اپنى زبان سے كہيں جو مجھے اور ميرے دوستوں كو كہنى چاہيے تھيں نہ كہ تمہيں _ اب ميں تمہيں بتاتا ہوں كہ ميں تم سے كيوں جنگ كر رہاہوں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تھا كہ : ميں ''ناكثين'' سے جنگ كروں چنانچہ ميں نے ايساہى كيا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہى يہ حكم ديا تھا كہ ميں '' قاسطين'' سے جنگ كروں اور تم وہى ہو اسى لئے تم سے بر سر پيكار ہوں(۲۲)

بالاخر گفتگو كسى فيصلہ كن نتيجے تك نہيں پہنچى اور اب عمار دشمن كى اس فوج كے مقابلے ميں گئے جس كى فرماندارى عمروعاص كے ہاتھ ميں تھى جس وقت ان كى نگاہ عمروعاص كے پرچم پر گئي تو انہوں نے كہا كہ : خدا كى قسم اس پرچم كے خلاف تو ميں تين مرتبہ جنگ كرچكا ہوں اس راہ پر چل كر آدمى كہيں نہيں پہنچے گا اور دوسرے راستوں سے يہ كسى طرح بھى بہتر نہيں _(۲۳)

عمار نے اپنے ساتھيوں كے درميان بآواز بلند كہا كہ : كہاں ہيں وہ لوگ جو رضا خدا كے متمنى ہيں اور جنہيں مال و اولاد سے علاقہ نہيں(۲۴) اس كے بعد انہوں نے ان لوگوں سے خطاب

۲۲۲

كرتے ہوئے جنہوں نے راہ خدا ميں پيشقدمى كى تھى كہا كہ اے لوگو ہمارے ہمراہ ان لوگوں سے جنگ وجدل كيلئے جلد جلد آگئے آؤ جو اپنى دانست ميں عثمان كے خون كا بدلہ لينا چاہتے ہيں _(۲۵)

عمار جس لشكر ميں شامل تھے اس كے پرچمدار ہاشم مرقال تھے وہ اپنے پرچمدار كى حوصلہ افزائي كرتے رہتے كہ دشمن پر حملہ آور ہوں ہاشم مرقال بھى اپنى بے مثال دلاورى كے باعث جنگجو سپاہى كيلئے راستہ ہموار كرتے رہتے جب كبھى ان كا نيزہ ٹوٹ جاتا تو حضرت عمار انھيں دوسرا نيزہ دے ديتے ان دو جانبازوں كى بے پناہ و دليرانہ نبرد آزمائي نے عمروعاص كو ايسا مرعوب كيا اور اس كے دل پر ايسى وحشت طارى ہوئي كہ اس نے بآواز بلند كہا كہ جس شخص نے يہ سياہ پرچم اپنے ہاتھ ميں سنبھال ركھا ہے اگر اسى طرح آگے بڑھتا رہا تو آج يہ تمام عربوں ك ہلاك كر ڈالے گا_(۲۶)

جب يہ پيشوائے حريت يعنى عمار بہت سے شاميوں كو ہلاك كرچكے تو ان پر معاويہ كى فوج كے دو دلاور حملہ آور ہوئے اور ان ميں سے ايك نے اپنے نيزے سے ايسى كارى ضرب لگائي كہ وہ زمين پر آرہے اور دوسرے نے ان كے سرمبارك كو تن سے جدا كرديا(۲۷) اور اس طرح اس جرى و دلير سپاہى نے اپنے اس سركو جس سے وہ اپنے معبود حقيقى كے سامنے جبين سائي كيا كرتا تھا ميدان جہاد ميں اسى كى خاطر قربان كرديا_

اس جنگ كے دوسرے دلير و جانباز ہاشم بن عتبہ تھے جو دو زرہ پہنے ہوئے تھے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے جس وقت پرچم ان كے سپرد كيا تو بطور مزاح ان سے كہا كہ : اس كا لے بزدل كا تو ڈر كہيں تمہارے دل ميں نہيں ؟(۲۸) اس پر انہوں نے عرض كيا كہ : يہ تو اميرالمومنينعليه‌السلام كو جلد ہى معلوم ہوجائے گا قسم خدا كى ميں ان كے سروں كو اس طرح اڑاوں گا كہ جس طرح كوئي اس دنيا سے دوسرى دنيا ميں جانے كا قصد ركھتا ہو_ اس كے بعد انہوں نے نيزہ اپنے ہاتھ ميں لے ليا اور اس زور سے اسے جھٹكا ديا كہ وہ ٹوٹ گيا دوسرا نيزہ لايا گيا وہ چونكہ سوكھ چكا تھا اسى لئے انہوں

۲۲۳

نے اسے دور پھينك ديا بآلاخر انھيں ايك نرم نيزہ ديا گيا جس پر انہوں نے پرچم كا پھريرا باندھا اور اپنے حملے كو اس خيمے پر مركوز كرديا جس ميں عمروعاص ، معاويہ اور ان كے دوست و احباب جمع تھے اس روز كشت كشتار كا ايسا بازار گرم ہوا كہ كسى نے اس سے پہلے ايسى قتل و غارتگرى نہ ديكھى تھى اور نہ ہى كسى كو موت كى ايسى گرم بازارى ياد تھي_ (۲۹)

آخرى مرتبہ جب سياہ پرچم امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام نے ہاشم كو ديا تو چاہا كہ اب يہ جنگ ايك طرف ہو چنانچہ آپ نے فرمايا كہ : ہاشم معلوم نہيں اب تمہارا آب و دانہ كب تك كا باقى ہے؟ اس پر انہوں نے عرض كيا كہ اس مرتبہ راہ جہاد ميں ايسا نكلوں گا كہ پھر كبھى واپس نہ آؤں گا آپ نے فرمايا كہ '' تمہارے مقابل ذى الكلاع ہے اور اس كے گرد موت منڈھلا رہى ، سرخ موت''

ہاشم ميدان كارزار كى طرف روانہ ہوئے جب وہ معاويہ كے نزديك پہنچے تو اس نے پوچھا كہ كون شخص ہے جو آگے بڑھا چلا آرہا ہے اسے بتايا گيا كہ ہاشم مرقال ہيں(۳۰) يہ سن كر اس نے كہا كہ وہى بنى زہرہ كا كانا، خدا اسے غارت كرے(۳۱) ہاشم نے اپنے ان ساتھيوں كے ہمراہ جو قارى قرآن اور خدا كے عاشق تھا كتنى مرتبہ دشمن كى صف كو درہم برہم كيا چنانچہ جس وقت وہ طائفہ '' تنوح'' كے پرچم تك پہنچے تقريبا دشمن كے دس دلاوروں(۳۲) كو ہلاك كرچكے تھے انہوں نے معاويہ كے پرچمدار كو جو طائفہ '' عذرہ'' كا فرد تھا قتل كرديا اس كے بعد ذوالكلاع ان سے جنگ كرنے كيلئے ميدان ميں آيا ان كے درميان ايسى زبردست جنگ ہوئي اور ايسى كارى ضربيں ايك دوسرے كو لگائي كہ دونوں ہى قتل ہوگئے(۳۳) اس كے بعد ان كے فرزند عبداللہ نے فورا ہى اپنے والد كا پرچم اٹھاليا اور جہاد كيلئے آمادہ ہوگئے_(۳۴)

حضرت عمار كى شہادت كارد عمل

عمار ياسر اور ہاشم مرقال كى شہادت نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام اور آپعليه‌السلام كے اصحاب كو بہت زيادہ غمگين و رنجيدہ خاطر كيا چنانچہ ان كى جدائي كا ايسا قلق و صدمہ ہوا كہ آپ نے ان كے سوگ

۲۲۴

ميں گريہ و زارى كرتے ہوئے چند اشعار بھى كہے جن كا مفہوم يہ ہے كہ : اے موت مجھے تجھ سے رہائي تو نصيب نہ ہوگى اور مجھے بھى اس زندگى سے نجات دے كيونكہ تونے تمام دوستوں كو مجھ سے چھين ليا ہے مجھے ايسا محسوس ہوتا ہے كہ تو ميرے دوستوں كو خوب پہچانتى ہے اور ايسا معلوم ہوتا ہے كہ تو كسى راہنما كى مدد سے ان كى تلاش ميں نكلتى ہے_ (۳۵) ليكن اس كے ساتھ ہى اس شہادت نے باطل كے چہرے كو بے نقاب كرديا اور لشكر شام كے بہت سے سپاہيوں كا رادہ متزلزل ہوگيا چنانچہ ان ميں سے بعض افراد كو جن ميں عبداللہ بن سويد بھى شامل تھے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وہ حديث ياد آگئي جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمار كى شان ميں فرمائي تھى اور ان پر يہ ظاہر ہوگيا كہ معاويہ ناحق اور باطل پر ہے اور اس كى يہ جنگ در اصل بغاوت تھى چنانچہ انہوں نے معاويہ كا ساتھ چھوڑ كر امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام كى ہمراہى اختيار كرلي_

عمار كى شہادت نے سپاہ دشمن كو بھى اتنا متاثر كيا كہ اس كا حوصلہ بھى متزلزل ہوگيا چنانچہ عمروعاص نے اس كے اثر كو زائل كرنے كے خيا ل سے ايك بہانہ نكل ہى ليا اور يہ اعلان كرديا كہ '' عمار كے قاتل ہم نہيں بلكہ علىعليه‌السلام ہيں كيونك انہوںعليه‌السلام نے انھيں محاذ جنگ پر بھيجا تھا_(۳۶)

معاويہ نے بھى اس جرم كى پاداش ميں كہ عمروعاص نے وہ حديث نقل كى تھى جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمار كى شان ميں بيان كى تھى اس كى بہت زيادہ سرزنش كى اور كہا كہ تم نے شام كے لوگوں كو ميرے خلاف شورش پر آمادہ كيا ہے كيا ضرورى تھا كہ تم نے جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا تھا اسے يہاں بيان كرتے انہوں نے جواب ديا كہ مجھے كيا معلوم تھا كہ وہ وقت بھى آئے گا جب جنگ صفين بپا ہوگى جس روز ميں نے يہ حديث بيان كى تھى اس وقت عمار ہمارے اور تمہارے ہم خيال تھے اس كے علاوہ جو كچھ ميں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سن كر بيان كيا تھا تم نے بھى اسے نقل كيا ہے اور اگر اس بات سے تمہيں انكار ہے تو خود ہى شام كے لوگوں سے دريافت كرلو معاويہ كو پہلے سے بھى زيادہ طيش آيا اور اس نے عمروعاص كو بہت زيادہ سخت و سست كہا_(۳۷)

۲۲۵

سوالات

۱_ جب بعض سپاہى محاذ جنگ سے فرار كر گئے تو حضرت علىعليه‌السلام نے كيا اقدام كيا اور انہيںعليه‌السلام كس حد تك اپنے مقصد ميں كاميابى ہوئي؟

۲_ مالك اشتر كا جنگ صفين ميں كيا كردار رہا مختصر طور پر بيان كيجئے؟

۳_ معاويہ كا غلام حريث كس طرح فريفتہ ہوا اور وہ كس كے ہاتھوں ماراگيا؟

۴_ جنگ ختم كرنے كے لئے حضرت علىعليه‌السلام نے معاويہ كے سامنے كونسى تجويز ركھي؟

۵_ معاويہ نے حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر ميں تزلزل پيدا كرنے كيلئے محاذ جنگ پر حضرت امام حسنعليه‌السلام كے سامنے كيا تجويز پيش كى اس پر حضرت حسنعليه‌السلام كا كيا رد عمل ظاہر ہوا؟

۶_ سپاہ اسلام كے فرمانداروں پر عمار كو كيا خصوصيت و برترى حاصل تھي؟

۷_ شام كى سپاہ پر عمار كى شہادت كا كيا اثر ہوا اس كے بارے ميں ايك تاريخى مثال پيش كيجئے؟

۸_ عمار كى شہادت كا اثر زائل كرنے كے لئے عمروعاص نے كيا تركيب نكالي؟

۲۲۶

حوالہ جات

۱_ وقعہ صفين ص ۲۵۳و ۲۵۰

۲_ شايد اس آيت كى جانب اشارہ ہے) يا ايها الذى آمنوا اذا لقيتم الذين كفرو ازحفا فلا تولوا هم الادبار و من يولهم يومئذ دبره الا متحرفا لقتال او منحيزا الى فئة فَقَد باء بغضب من الله و ماواه جهنم و بئس المصير ( (الے لوگو جو ايمان لائے ہو، جب تم ايك لشكر كى صورت ميں كفار سے دوچار ہو تو ان كے مقابلے ميں پيٹھ نہ پھيرو جس نے ايسے موقعے پر پيٹھ پھيرى مگر يہ كہ جنگى چال كے طور پر ايسا كرے يا كسى دوسرے فوجى دستہ سے جا ملنے كے لئے تو وہ اللہ كے غضب ميں گھر جائے گا اور اس كا ٹھكانہ جہنم ہوگا اور وہ بہت برا ٹھكانہ ہے سورہ انفال آيہ ۱۴_ ۱۵

۳_ وقعہ صفين ص ۲۵۶، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۰۴ ، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۲۵ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۲۰۴

۴ و ۵_ وقعہ صفين ۲۵۵_ ۲۵۴

۶_ وقعہ صفين ۲۵۵_ ۲۵۴

۷_ كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۰۲ ، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۲۴

۸_ وقعہ صفين ص ۲۵۴ _ ۲۵۳ '' الا ليستحيى الرجل ان ينصرف لم يقتل و لم يقتل؟

۹_ وقعہ صفين ۲۴۳ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۱۹۵(۱۰) وقعہ صفين ص ۲۷۲ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۲۱۵

۱۱_و الله ما بارز ابن ابى طالب رجلا قط الا سقى الارض من دمه

۱۲_ وقعہ صفين ص ۲۷۴_ ۲۷۵_۳۱۶ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۲۱۸_ ۲۱۷ ، يہاں يہ بات بھى قابل ذكر ہے كہ تاريخ كے اس حصے ميں حضرت علىعليه‌السلام اور معاويہ كا اپنى سپاہ كے ساتھ جو رويہ رہا اسے مورخين نے مختلف طوار سے بيان كيا ہے انہوں نے لكھا ہے حضرت علىعليه‌السلام كتنى ہى مرتبہ محاذ جنگ پر تشريف لے گئے اور آپعليه‌السلام نے اپنے ساتھيوں كى مدد بھى كى مگر اس كے برعكس معاويہ كى يہ پورى توجہ اپنى جان كى حفاظت كى جانب رہى اس واقعے كے ضمن ميں جو اوپر گذرا ہے معاويہ نے عمروعاص سے كہا تھا كہ : كيسى نادانى كى باتيں كرتے ہو قبائل عَكّ اشعريان اور جذام كے ہوتے ہوئے ميں علىعليه‌السلام سے نبرد آزمائي كروں ، وقعہ صفين ۲۷۵

۱۳_ شرح ابن ابى الحديد ج ۶ ص ۳۱۴_۳۱۳ ، وقعہ صفين ۴۲۴_۴۲۳ ، وقعہ صفين ميں نقل ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام نے

۲۲۷

جب عمروعاص پر ضرب كارى لگائي اور وہ اس كى تاب نہ لاسكا تو اس نے يہ بدترين راہ اختيار كي_

۱۴_ وقعہ صفين ۴۱۸_ ۴۱۷

۱۵_ وقعہ صفين ص ۲۹۷

۱۶_ وقعہ صفين ۴۷۸_۴۷۷

۱۷_ وقعہ صفين ص ۴۷۵ ، ليكن اسى كتاب كے صفحہ ۳۹۲ پر اور شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۲۴۹ ميں درج ہے كہ اس وقت اكثر سپاہ نے نماز اشاروں سے پڑھي_

۱۸_ نہج البلاغہ خ ۱۹۸ ، (فيض)

۱۹_ لغت ميں ہرير كے معنى اس آواز كے ہيں جو سردى پڑنے كى وجہ سے كتے سے نكلتى ہے چونكہ اس شب شديد جنگ جارى تھى اور فريقين كے گھڑ سوار ايك دوسرے كے سرپر چيختے تھے اس لئے اس رات كو ليلة الہرير كہتے ہيں (معجم البلدان ج ۵ ص ۴۰۳ ، مجمع البحرين ج ۳ ص ۵۱۸ مادہ ہرر

۲۰_ نصر بن مزاحم نے وقعہ صفين ص ۴۷۵ ميں اس دن اور رات كے دوران قتل ہونے والوں كى تعداد ستر ہزار افراد بيان كى ہے_

۲۱_ وقعہ صفين ص ۳۲۰ ، شرح ابن ابى الحديدج ۵ ص ۲۵۳

۲۲_ حضرت عمار سے متعلق احاديث نبوى كے بارے ميں مزيد معلومات كے لئے ملاحظہ ہوں معجم رجال الحديث ج ۱۲ ص ۲۶۷ ، طبقات ابن سعد ج ۳ ص ۱۸۷، استيعاب ج ۲ ص ۴۳۶ ،اور وقعہ صفين ص ۳۴۳_۳۴۲

۲۳_ ''يلتقى اهل الشام و اهل العراق و فى احد الكتيبيتين الحق و امام لهدى و معه عمار بن ياسر

۲۴_ وقعہ صفين ص ۳۴۰_۳۳۳

۲۵_و الله ان هذه الراية قاتلها ثلاث عركات و ما هذه بار شدهَّن (وقعہ صفين ص ۳۴۰)

۲۶_ اين من يبتغى رضوان ربہ و لا يؤب الى مال و لا ولد

۲۷_ وقعہ صفين ص ۳۲۶

۲۸_ وقعہ صفين ص ۳۲۸

۲۲۸

۲۹_ وقعہ صفين ص ۳۴۱_۳۴۰

۳۰_ يہاں حضرت اميرالمومنينعليه‌السلام كا اشارہ حضرت مرقال كى جانب تھا كيونكہ وہ ايك آنكھ سے محروم تھے_

۳۱_ وقعہ صفين ص ۳۲۸

۳۲_ انھيں مرقال اس بنا پر كہا جاتا تھا كہ وہ بہت چست و چالاك اور تيز رفتار تھے چونكہ ان كى آنكھ جاتى رہى تھى اسے لئے انھيں اعور بھى كہا جاتا تھا_

۳۳_ وقعہ صفين ۳۴۷_ ۳۴۶

۳۴_ وقعہ صفين ۳۵۵

۳۵_الا ايها الموت الذى لست تاركى ارحنى فقد افنيت كل خليل

اراك بصيرا بالذين احبهمكانك تنحو محوه بدليل

۳۶_ تاريخ طبرى ج ۵ ص ۴۱

۳۷_ وقعہ صفين ۳۴۵

۲۲۹

بارھواں سبق

قاسطين (جنگ صفين)۴

نجات كيلئے كوشش

آخرى فريب

سپاہ عراق كا رد عمل

سپاہ عراق ميں نظرياتى اختلاف

مالك كا واپس آنا

سركشوں كى سرزنش

نفاق و حماقت كے خلاف جد و جہد

حكميت و ثالثى كى دعوت

معاويہ كى جانب

حكمين كا انتخاب

سوالات

حوالہ جات

۲۳۰

نجات كے لئے كوشش

سپاہ اسلام كى جانب سے معاويہ اور عمروعاص كو جب پے در پے شكستيں ہوئيں تو وہ اس نتيجے پر پہنچے كہ اميرالمومنين حضرت عليعليه‌السلام كے لشكر كى تاب نہيں لاسكتے اور ان كى شكست فاش ہونے ميں زيادہ دير نہيں _ اسى لئے انہوں نے جنگ سے نجات پانے اور اپنے مقام و حيثيت كے تحفظ كى خاطر كوشش شروع كردي_ سب سے پہلے انہوں نے عراق كے لشكر كے بعض سرداروں كو پيغامات بھيجے اور ان سے جنگ ترك كرنے كى درخواست كى معاويہ نے اپنے بھائي عتبہ كو جو نہايت ہى فصيح بيان اور چرب زبان آدمى تھا حكم ديا كہ وہ علىعليه‌السلام كے سردار لشكر اشعث بن قيس سے ملاقات كرے اور جنگ و جدل ختم كرنے كيلئے اسے آمادہ كرے_

عتبہ نے اشعث سے ملاقات كى اور خوب مدح سرائي كرنے كے بعد كہا كہ : آپ عراق اور يمن كے لوگوں كے سردار ہيں _ آپ كى عثمان سے نہ صرف قرابت دارى تھى بلكہ آپ ان كى فوج كے فرماندار بھى تھے حضرت علىعليه‌السلام كے ديگر اصحاب كے برخلاف آپ طائفہ شام كے لوگوں كى حميت و غيرت اور ان كے جذبہ ناموس كى خاطر جنگ و جدل ميں حصہ لے رہے ہيں _

آخر ميں اس نے اپنى آمد كا مدعا بيان كيا اور كہا: جنگ انتہائي پر خطر صورت اختيار كرچكى ہے ہم آپ سے يہ تونہ كہيں گے كہ آپ حضرت علىعليه‌السلام سے كنارہ كشى اختيار كر ليجئے البتہ اس بات كے متمنى ہيں كہ اس جنگ كا اب كسى طرح خاتمہ ہوجائے تا كہ سپاہ مزيد ہلاك نہ ہو_

اشعث نے عتبہ كى تعريف و ستائشے كا جواب ديتے ہوئے اس كے اس بيان كى تائيد كى كہ اس كى جنگ شام كے لوگوں سے ايمان و عقيدے كى بنياد پر نہيں بلكہ ميں اہل عراق كى حمايت اس بنا

۲۳۱

پر كر رہا ہوں كہ ہر شخص كو چاہيئے كہ وہ اپنے گھر كى خود حفاظت كرے اس نے جنگ ختم كرنے كے سلسلے ميں بھى انھيں منفى جواب نہ ديا اور كہا كہ : ميرے نظريئے كا اعلان جلد ہى كرديا جائے گا_ (۱)

اس ملاقات كے ذريعے عتبہ كو اتنى كاميابى تو ہوگئي كہ اس نے اشعث كے ذہن ميں صلح كا ميلان پيدا كرديا اور جو تجاويز و پيشنہادات بعد ميں وقوع پذير ہوں گى ان كے اجراء نيز سپاہ عراق ميں س كى تشہير و ترويج كيلئے ايك موثر عامل كے طور پر اسے آمادہ كرليا گيا ہے_

معاويہ نے يہ بھى حكم ديا كہ عتبہ اور اشعث كے درميان جو ملاقات ہوئي ہے نہ صرف اسے بلكہ جو گفتگو ان دونوں نے كى ہے اسے حرف بحرف سپاہ عراق كے درميان منتشر كرديا جائے_ عمرو سے كہا كہ وہ ابن عباس كو بھى خط لكھے عمروعاص نے خط اس طرح لكھا علي(ع)كے بعد چونكہ آپ ہى اس جماعت كے سرور و سردار ہيں اسى لئے جو گذر گيا اسے فراموش اور آيندہ كے بارے ميں غور و فكر كيجئے_ خدا كى قسم اس جنگ نے ہم پر اور تم پر زندگى حرام اور صبر و تحمل كى تاب تمام كردى ہے يہ جان ليجئے كہ عراق اور شام كو بيك وقت جب ہى قابو ميں لايا جاسكتا ہے جب كہ ان ميں سے ايك نيست و نابود ہوجائے طرفين كيلئے صلاح اس امر ميں ہرگز نہيں كہ حريف مقابل ہلاك ہوجائے ہمارے اور تمہارے درميان ايسے لوگ بھى موجود ہيں جنہيں جنگ و جدل پسند نہيں _ آپ مشير و امين ہيں ليكن اشتر سنگدل انسان ہيں اور يہ مناسب نہيں كہ انھيں مشورے ميں شريك كيا جائے_

ابن عباس نے يہ خط حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں پيش كرديا جسے ديكھ كر آپعليه‌السلام كو ہنسى آگئي اور فرمايا كہ : اس ''عمر و عاص'' كو خدا غارت كرے معلوم نہيں كہ اسے كس چيز نے اس بات كيلئے مجبور كيا كہ وہ تم سے اس قسم كى توقع ركھے؟ اور اس كا جواب دينے كيلئے حكم ديا ابن عباس نے عمروعاص كو واضح و مدلل جواب ديا اور اس كى اميدوں پر قطعى پانى پھيرديا_(۲)

۲۳۲

آخرى فريب

معاويہ كو اتنى كاميابى تو ہو ہى گئي تھى كہ وہ ايسا ميدان ہموار كرلے جس كے ذريعے وہ سپاہ عراق كے درميان اپنے آخرى جنگى حربے كو بروئے كار لاسكے_ اس نے چونكہ سن ليا تھا كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے تمام اہل لشكر كے درميان يہ فرمايا ہے كہ: كل جنگ كو يك طرفہ كرديا جائے گا اسى لے اس نے عمروعاص سے كہا كہ بس يہى ايك رات ہے جس ميں ہم كچھ كر سكتے ہيں كل جنگ يك طرفہ ہوجائے گى اس بارے ميں تمہارى كيا رائے ہے؟ اس نے جواب ديا كہ: آپ كے جوانوں ميں نہ تو ان جوانوں كا مقابلہ كرنے كى تاب و طاقت ہے اور نہ ہى آپ علىعليه‌السلام كے مثل و مانند ہيں وہ دين كى خاطر جنگ كر رہے ہيں اور آپ دنيا كے لئے_ آپ زندگى و بقاء كے متمنى ہيں اور وہ شہادت كے خواہشمند_ عراق كے لوگوں كو آپ كے غالب آنے كا خوف و ہراس ہے مگر شام كے عوام حضرت علىعليه‌السلام كى فتح و كامرانى سے خوش و خرم ہيں ليكن ميں ايك مشورہ ديتا ہوں اور وہ يہ كہ ان كے سامنے ايسى تجويز پيش كردى جائے كہ جس كو وہ قبول كرليں يا اسے رد كرديں ان كے درميان اختلاف راہ پاسكے_ انہيں يہ دعوت ديجئے كہ قرآن ہمارے درميان ثالث و حكم ہے_ اور يہى ايسى راہ ہے جس كے ذريعے آپ كامياب ہوسكتے ہيں ميں نے اس حربے كو ہميشہ اس خيال كے پيش نظر التواء ميں ركھا تا كہ اسے بوقت ضرورت بروئے كار لايا جاسكے معاويہ نے اس كے اس نظريے كو پسند كيا_(۳)

اشعث بن قيس نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے اس بيان كى پيروى كرتے ہوئے كہ دشمن آخرى چند سانس لے رہا ہے كہا ميں كل ان پر حملہ كروں گا تا كہ بارگاہ خداوندى ميں ان كا محاكمہ كيا جائے(۴) اس نے اپنے طائفہ ''كندا'' كے لوگوں سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ : اے مسلمانو: تم ديكھ رہے ہو كہ تم پر كيا گزر گئي ہے كتنے عرب ہلاك ہوچكے ہيں خدا كى قسم ميں نے اپنى پورى زندگى ميں ايسا منحوس دن نہيں ديكھا جو حاضر ہيں وہ غائب لوگوں كو يہ پيغام پہنچا ديں كہ اگر كل كا دن بھى اسے طرح گذرا تو عربوں كى نسل نيست و نابود ہوجائے گى عورتوں اور بچوں كے

۲۳۳

سرپر كوئي وارث نہ رہے گا_

معاويہ كے جاسوسوں نے اشعث كے اس بيان كو اس تك پہنچا ديا معاويہ نے اس كے اس بيان كو اپنى جنگى سازش كى بنياد اور نيرنگى فكر كا محور بنا ليا اس نے اشعث كے بيان كى تائيد كرتے ہوئے حكم ديا كہ آدھى رات كے وقت عراقيوں كے درميان بلند آواز سے كہيں كہ '' اے عراقيو اگر ہم ميں سے ہر ايك دوسرے كو قتل كرے گا تو ہمارى عورتوں اور اولاد كا كون ولى و وارث ہوگا اب جو كچھ باقى رہ گيا ہے كم از كم اس كى حفاظت كى جائے_(۵)

بروز جمعہ (يوم الہرير) مالك اشتر كے حملے دشمس پر مسلسل جارى تھے يہاں تك كہ ان كے سپاہى تھك گئے چنانچہ انہوں نے اپنى سپاہ سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ : ميں تمہارے لئے خدا سے پناہ مانگتا ہوں اس لئے كہ (اگر زندہ بچ گئے) تو باقى دنوں ميں اپنے گلے كا دودھ دوہيا كروگے(۶) اس كے بعد انہوں نے اپنا گھوڑا طلب كيا اور پرچم كو ''حيان بن ہوذہ'' سے لے كر زمين ميں گاڑديا_ اور بآواز بلند يہ كہتے ہوئے سپاہ كے درميان پہنچ گئے كہ : تم ميں سے كون حاضر ہے كہ اپنى جان كا خدا سے معاملہ كرے اور اشتر كے شانہ بشانہ جنگ كرے تا كہ اسے يا تو فتح و نصرت نصيب ہو يا شہادت اس تقرير كے بعد بہت سے سپاہى ان كے گرد جمع ہوگئے اور ان كے ہمراہ دشمن پر حملہ آور ہوئے يہاں تك كہ انہوں نے سپاہ شام كو دھكيل كر ان كى قرار گاہ لشكر تك پہنچا ديا ليكن يہاں پہنچ كر انھيں دشمن كا سخت مقابلہ كنا پڑا چنانچہ اس مقابلے ميں مالك كے پرچمدار شہيدبھى ہوگئے_

حضرت علىعليه‌السلام نے جب يہ ديكھا كہ فتح و كاميابى مالك كے قدم چومنا چاھتى ہے تو آپعليه‌السلام نے ان كى مدد كيلئے سپاہ كى ايك جماعت روانہ كي_(۷)

مالك كى سرشكن ضربات اور دشمن كے ٹھكانہ پر مسلسل يورش سے يہ خوشخبرى مل رہى تھى كہ فتح و نصرت جلد ہى نصيب ہونے والى ہے شام كے ضعيف و عمر رسيدہ لوگوں كے لبوں پر يہ صدا بلند تى اللہ اللہ فى الحرمات من النساء و البنات(۸) (خدا كيلئے اپنے عورتوں اور بيٹيوں كا

۲۳۴

توكچھ تو خيال و پاس كرو)

معاويہ نے اپنے لشكر كى جب يہ زبوں حالى ديكھى اور يہ يقين ہوگيا كہ شكست ميں قطعا شك نہيں تو اس نے عمروعاص سے كہا كہ : ہم تو اب فنا ہوا چاھتے ہيں كہاں ہے وہ تمہارا آخرى حربہ(۱۹) يہ سن كر عمروعاص نے بآواز بلند كہا كہ : اے لوگو تم ميں سے جس كے پاس بھى قرآن مجيد ہے اسے نيزے كى نوك پر حمائل كردو_ تقريبا پانچ سو قرآن نيزوں پر آگئے اس كے ساتھ لوگوں كو چيخ و پكار بھى شروع ہوگئي كہ: ہمارے اور تمہارے درميان قرآن حاكم و ثالث ہے اگر ہميں قتل كردو گے تو شام كى سرحدوں كى كون نگرانى و حفاظت كرے گا(۱۰)

سپاہ عراق كا رد عمل

عراق كے بعض سپاہيوں پر دشمن كے حيلہ و نيرنگ اور اس كے پر فريب ،ہيجان انگيز نعروں كا جادو چل گيا (بالخصوص اشعث جيسے سرداروں پر چونكہ ان كے دل معاويہ كى جانب مايل تھے اسى لئے ان كا شمار اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے منافقين ميں ہوتا تھا) چنانچہ انہوں نے لوگوں كو مشتعل كرنا شروع كرديا تا كہ وہ دشمن كے دام فريب ميں آجائيں اور اسى لئے انہوں نے بآواز بلند يہ كہنا شروع كرديا كہ ''تمہارى دعوت كتاب خدا ہم نے قبول كر ليا ہے آؤ ہم اسى طرف چليں ''(۱۱)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے جب يہ كيفيت ديكھى تو اپنى سپاہ كے افكار روشن كرنے اور دشمن كے حيلہ و نيرنگ سے باخبر كرنے كى خاطر فرمايا كہ '' اے بندگان خدا اسى طرف چلتے رہو دشمن سے جہاد كرتے ہوئے حقيقت و حقانيت كو اپنے ہاتھ سے نہ جانے دو معاويہ، عمروعاص اور ابن ابى معيط كو دين و قرآن سے كوئي سروكار نہيں ميں ان لوگوں كو تم سے بہتر جانتا ہوں ان كے بچپن سے سن رسيدہ ہونے تك ميرا سابقہ رہا ہے يہ اپنے وقت كے بدترين بچے اور بدترين مرد رہے ہيں اگر يہ لوگ قرآن كى عظمت سے واقف ہوتے اور اس كے احكام پر عمل كرتے تو ان كو نيزوں

۲۳۵

پر نہ چڑھاتے_ وہ جو كچھ كر رہے ہيں سب نيرنگ و نفاق ہے_(۱۲)

اس سے قبل يہ واقعہ رونما ہوا كہ حضرت علىعليه‌السلام نے اس خط ميں جو معاويہ كو لكھا تھا يہ پيشين گوئي كردى تھى گويا ميں ديكھ رہا ہوں كہ حوصلہ شكن ضربات، بے حد و اندازہ كشت و خون اور يقينى شكست و ريخت كے بعد تم اپنے ساتھيوں كے ہمراہ كتاب اللہ كى جانب آنے كى دعوت دوگے چنانچہ جو لوگ اس دعوت كى دہائي ديں گے وہ كافر ہوں گے يا منافق يا حق سے روگرداں(۱۳) دشمن كى اس سازش كو ناكام كرنے اور سپاہ فريقين كے افكار بيدار كرنے كى خاطر حضرت علىعليه‌السلام نے حضرت سعيد كو قرآن كے ساتھ شاميوں كى جانب روانہ كيا اور انھيں حكومت قرآن كى دعوت دي_

سپاہ عراق ميں نظرياتى اختلاف

حضرت علىعليه‌السلام كى تقارير و تنبيہات كا اثر چند ہى لوگوں پر ہوا ان ميں اكثريت ايسے لوگوں كى تھى جنہوں نے ضد اختيار كر لى تھى اور ان كا اس بات پر اصرار تھا كہ جنگ ترك كردى جائے چنانچہ انہوں نے پكارپكار كر كہنا شروع كيا: اس جنگ نے ہميں نگل ليا اس ميں ہمارے تمام مرد مارے گئے ان كى دعوت كو قبول كر لو ورنہ سب مارے جاؤ گے_

جو لوگ اس حق ميں تھے كہ جنگ جارى رہے ان ميں مالك اشتر پيش پيش تھے_

ان كى دليل يہ تھى كہ معاويہ كے پاس اب اپنى فوجى طاقت كا دم خم نہيں جب كہ ہمارى فوجى طاقت بہت زيادہ ہے اور ہم ميں حوصلہ مندى ہے اگر اس كے پاس تمہارى جيسى فوجى طاقت ہوتى تو وہ ہرگز جنگ سے روگرداں نہ ہوتا(۱۴)

جنگ كو جارى ركھنے كے حاميوں ميں دوسرے شخص'' عدى بن حاتم'' تھے انہوں نے كہا كہ ہرچند ہمارى سپاہ كا كشت و خون ہوا ہے اور ان ميں سے بہت سے مجروح بھى ہوئے ہيں مگر حق كى پاسدارى كر رہے ہيں اس لئے ہم اہل شام زيادہ ثابت قدم وپائيدار ہيں اب وہ لوگ زبوں و ناتواں ہوچكے ہيں ضرورى ہے كہ اس موقع سے فائدہ اٹھايا جائے اور ہم ان سے جنگ

۲۳۶

كريں _ (۱۵)

انہى افراد ميں سے ''عمرو بن حمق'' اپنى جگہ سے اٹھے اور كہنے لگے: اے اميرالمومنينعليه‌السلام ہم نے آپ كا ساتھ باطل كى خاطر نہيں ديا ہے بلكہ ہم راہ خدا ميں اور حق قائم كرنے كى غرض سے آپ كے دوش بدوش رہے ہيں اب كام اپنے انجام كو پہنچ چكا ہے اور ہم بھى آپ كے مطيع و فرمانبردار ہيں(۱۶)

اس جماعت كے مقابل اشعث كھڑا تھا اور كہنے لگا اے اميرالمومنينعليه‌السلام ہم آپ كے آج بھى وہى جاں نثار دوست ہيں جو كل تھے ليكن كام كا انجام آغاز سے مختلف ہے مجھ سے بڑھ كر كوئي اہل عراق كا دوست او مجھ سے بدتر كوئي شاميوں كا دشمن نہيں انہوں نے جب كلام اللہ كى دعوت دى ہے تو قبول كر ليجئے كيونكہ اس كيلئے آپ ان سے كہيں زيادہ اہل و لائق ہيں لوگ اپنى زندگى و بقاء كے متمنى ہيں ہلاكت و تباہى انھيں پسند نہيں _

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اس خيال كے پيش نظر كہ لشكر كے درميان ہم آہنگى برقرار رہے اور ان كے درميان كوئي اختلاف و اشتعال پيدا نہ ہو پہلے تو خود سے ہى كہا كہ اس مسئلہ كے بارے ميں غور كيا جانا چاہيئے(۱۷) ليكن جيسے ہى ہر گوشہ و كنار سے صلح كے بارے ميں دبى دبى آوازيں آنے لگيں تو آپ نے فرمايا كہ : اے بندگان خدا اس ميں كوئي شك نہيں كہ كلام اللہ كى دعوت قبول كرنے كيلئے ميں آپ سے زيادہ لائق و اہل ہوں مگر دين و قرآن كے معاملے ميں معاويہ اور عمروعاص كى بات الگ ہے ان كا قول اگرچہ كلمہ حق ہے مگر اس كے پس پردہ جو ارادہ كار فرما نظر آتا ہے وہ باطل ہے قرآن كو نيزے پر چڑھانا معرفت اور ايفائے عہد كى بنياد پر نہيں بلكہ يہ بھى حيلہ و نيرنگ اور ايك بہانہ ہے تم صرف ايك گھنٹے كے لئے اپنے دست و بازو اور سر ميرے حوالے كردو تو جلد ہى يہ ديكھو گے كہ حق اپنے آشكارہ نتيجے پر پہنچ چكا ہے اور ستمگروں كى بيخ كنى ہونے ميں ذرا بھى دير نہيں _

ليكن اشعث نے جب يہ ديكھا كہ اس كى بات كو نظر انداز كيا جا رہا ہے اور يا اس پر عمل ہونا

۲۳۷

مشكل و محال نظر آتا ہے تو يہ بات اس كيلئے ناقابل برداشت ہوگئي چنانچہ و ہ سپاہ كى جانب روانہ ہوا تا كہ اپنے اس نظريے كا ان كے درميان پر چار كر سكے چنانچہ اس نے اس بات پر سب سے زيادہ زور ديا كہ جنگ بند كردى جائے اور يہ بات اس نے ان حساس لمحات ميں كہى جب كہ جنگ كى چكى مالك اشتر كے ہاتھ ميں گھوم رہى تھى اور دشمن گيہوں كے دانوں كى مانند ان كى سرشكن ضربات كے باعث پس رہے تھے وہ ميدان كارزار ميں حق كو روشن اور فتح و نصرت كو آشكار كرنا چاہتے تھے دشمن كے آخرى محاذ كو زير و زبر كرنے ميں بھى اب چند قدم كا ہى فاصلہ رہ گيا تھا_

شاميوں كى زندگى اب معاويہ اور عمروعاص كے باريك تار اميد سے وابستہ تھى وہ سراسيمہ و پريشان معاويہ كے سرپر كھڑے چلا رہے تھے اور كہہ رہے تھے معاويہ ايسا لگتا ہے كہ اہل عراق ہمارى دعوت قبول كرنے كو تيار نہيں اپنى اس تجويز كو ان كے سامنے دوبارہ ركھيے تم نے يہ دعوت دے كر دشمن كو جرات مند و گستاخ كرديا ہے اور لالچ و حرص نے تم كو گھير ليا ہے(۱۸) _

دوسرى طرف اشعث كى كوشش كے باعث تقريبا دو ہزار آہن پوش افراد سلاح بدست اور شمشير بدوش ان قاريان قرآن كى جماعت كے ہمراہ جن كو بعد ميں جزو خوارج كہا گيا'' مسطر بن فدكي'' اور '' زيد بن حصين'' كى قيادت ميں حضرت علىعليه‌السلام پر حملہ آور ہوئے وہ آپ كو بار بار ضدى و خود سر كہے جا رہے تھے_

انہوں نے پہلى مرتبہ حضرت علىعليه‌السلام كو اميرالمومنينعليه‌السلام خطاب كرنے كے بجائے يہ كہ كہا اے على انہوں نے كلام اللہ كى دعوت دى ہے تم اسے قبول كر لو ورنہ ہم تمہيں بھى عثمان كى طرح قتل كروائيں گے اور ہم خدا كو شاہد بنا كر كہتے ہيں كہ ہم يہ كام كر گزريں گے_

حضرت علىعليه‌السلام نے فرماياكہ : افسوس تمہارى حالت پر ميں وہ پہلا شخص ہوں جس نے قرآن كى دعوت دى اور ميں ہى پہلا فرد ہوں جس نے اس كى دعوت كو قبول كيا ميرے لئے يہ كسى طرح بھى شائستہ و سزاوار نہيں كہ حكميت قرآن كى دعوت دى جائے اور ميں اسے قبول نہ كروں ميں ان سے اس لئے جنگ كر رہا ہوں كہ وہ حكم قرآن كے آگے اپنى گرد نيں خم كرديں كيونكہ انہوں نے حكم

۲۳۸

خداوندى سے روگردانى كى اور اس كے احكام سے عہد شكنى كر كے اس كى كتاب سے منحرف ہوگئے ہيں ميں بار بار تمہارے سامنے يہ اعلان كر چكا ہوں كہ ان كا ہرگز يہ ارادہ نہيں كہ احكام الہى پر عمل پيرا ہوں بلكہ اپنے اس اقدام سے وہ تمہيں فريب دے رہے ہيں ميں نے جو كچھ كہا اور وہ بات جو تم كہہ رہے ہو اس پر غور كرو اگر ميرى اطاعت مقصود ہے تو جنگ كرو اور اگر ميرے حكم كى خلاف ورزى منظور ہے تو تمہيں اختيار ہے جو چاھو كرو_ (۱۹)

انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كے بيان كى جانب توجہ كئے بغير كہا كہ اشتر كو حكم د يجئے كہ وہ جنگ سے دست بردار ہوكر واپس آجائيں _(۲۰)

مالك كا واپس آنا

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے ناگزير يزيد بن ہانى كے ذريعے مالك كو پيغام بھجوايا كہ واپس آجائيں _ مالك اس وقت دشمن كى استقامت و پايدارى كو كارى ضرب لگا چكے تھے اور فتح و نصرت ان كے قدم چوم لينا چاہتى تھى انہوں نے جواب ديا كہ : يہ وقت مجھے اپنے موقف سے دوركرنے كيلئے مناسب نہيں مجھے خداوند تعالى كى ذات سے اميد ہے كہ فتح و كاميابى حاصل ہوگى ميرے بارے ميں آپ جلدى نہ كيجئے انہوں نے مالك كا پيغام حضرت علىعليه‌السلام كو پہنچا ديا انہى لمحات كے دوران ميدان كار زار ميں گرد و غبار بلند ہوا اور نبرد آزما سپاہ كى پر جوش و خروش صدائيں سنائي ديں اب مالك اشتر كى فتح و نصرت اور شاميوں كى شكست فاش نماياں ہوچكى تھي_

ليكن فتح و نصرت كى ان علامتوں سے كوئي بھى علامت ان سركشوں كو جنہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كو اپنے حصار ميں لے ركھا تھا ضد پر سے نہ روك سكى وہ غضبناك ہو كر چيخے اور كہنے لگے كہ يقينا آپ نے مالك كو يہ حكم ديا ہے كہ آتش جنگ كو مزيد بر افروختہ كريں اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ : افسوس تمہارى حالت پر كيا ميں نے تمہارے سامنے قاصد مالك كى جانب روانہ نہيں كيا جو بات روشن و آشكارا ميں نے كہى تھى كيا وہ تمہارے كانوں تك نہيں پہنچي؟ انہوں نے كہا : دوبارہ يہ

۲۳۹

پيغام بھجوائے كہ وہ واپس آجائيں اور اگر آپ نے ايسا نہ كيا تو ہم آپ سے قطع تعلق كرليں گے حضرت على عليه‌السلام نے دوبارہ يہ پيغام بھيجا كہ يہاں فتنہ بپا ہے تم واپس آجاؤ اشتر نے قاصد سے پوچھا كيا يہ شور و غوغا قرآن كو نيزوں پر بلند كرنے كے باعث بپا ہوا ہے؟ قاصد نے جواب ديا ہاں اس كى وجہ يہى ہے اس پر مالك نے كہا كہ خدا كى قسم جس وقت قرآن كو نيزوں پر لايا گيا تھا مجھے اسى وقت يہ گمان گذرا تھا كہ اختلاف و تفرقہ پيدا ہوگا يہ طرح ريزى و نقشہ كشى اس غير معمولى ذہنى كى پيدا وار ہے جس كا نام عمروعاص ہے_

اس كے بعد انہوں نے يزيد بن ہانى سے كہا كہ:كيا تم ديكھ نہيں رہے ہو كہ خداوند تعالى نے ہميں فتح و كاميابى عطا فرمائي ہے كيا اس وقت يہ مناسب ہے كہ اس موقع كو ہاتھ سے جانے دوں اور واپس چلا آجاؤں ؟ يزيد بن ہانى نے كہا كہ : كيا آپ يہ چاھتے ہيں كہ اس محاذ جنگ پر تو آپ كامياب ہوجائيں اور ادھر آپ اميرالمومنينعليه‌السلام كو دشمن كے حوالے كرديں ؟ انہوں نے جواب ديا كہ '' سبحان اللہ آپ نے يہ كيا بات كہى خدا كى قسم ميں ايسا ہرگز چاھوں گيا يہ كہہ كر وہ ميدان كارزار سے واپس آگئے_(۲۱)

سركشوں كى سرزنش

مالك جب ميدان كارزار سے واپس آگئے تو وہ ان لوگوں پر غضبناك ہوے جنہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كو گھير ركھا تھا اور كہا: اے مذلت پذير سست عنصر لوگو تمہيں غالب و فاتح ديكھ كر دشمن نے حكميت قرآن كى دعوت دى ہے كيا دعوت دينے كيلے يہى وقت رہ گيا تھا خدا كى قسم انہوں نے احكام الہى و قرآن اور سنت كو پامال كيا ہے اس لئے تم ان كى دعوت قبول نہ كرو مجھے اتنى مہلت دے دو كہ ميں يہاں سے جاؤں اور واپس چلا آؤں ميں فتح و كاميابى كو اپنے سامنے ديكھ رہا ہوں انہوں نے كہا كہ : ايسا نہيں ہوسكتا مالك نے كہا كہ '' كم از كم مجھے اتنا ہى وقت دے ديا جائے جتنى دير گھوڑے كو دوڑنے ميں لگتى ہے انہوں نے جواب ديا كہ ايسے وقت ميں ہم تمہارے ساتھ

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271