امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت21%

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 271

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 271 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 116634 / ڈاؤنلوڈ: 4489
سائز سائز سائز
امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

[۱]جنگ و غارت گری کے وقت انکی بیٹیاں نہ جنگ کی طاقت رکھتی تھیں ،نہ حملہ کی قوت اور نہ جنگجو و غارت گر دشمن کے مقابل دفاع کی صلاحیت رکھتی تھیں جسکی وجہ سے دشمن کے ہتھے چڑھ جاتی تھیں جو کہ عرب کیلئے ننگ و عار کا سبب تھا اسی وجہ سے وہ  بیٹیوں کو ختم اور نابود کرنے میں اپنی قوت و طاقت لگاتے تھے۔

[۲] معاشی عوامل :فقر و تنگدستی بھی سبب ہوئی کہ وہ اپنی بیٹیوں کو شروع ہی سے قتل کر دیں یا زندہ در گور کر دیں ۔یہ بد ترین اور ظالمانہ روایت کی پیروی کی وجہ سے جب کسی عورت کو درد زہ کا احساس ہوتا ،تو اپنے خیمہ سےد ور صحرا یا کسی دوسری جگہ چلی جاتی تھی اور اس گڈھے میں کہ جو انکے لئے آمادہ کیا گیاتھا نو مولو د دنیا میں آتا تھا ۔

   اور اگر مولود بیٹا ہوتا تھا تو قبیلہ اور اطر اف کی عورتیں نوزاد  اوراسکی ماں کو شوق و امنگاور خوشی کے ساتھ مردوں کےپاس لاتیں تھیں اور اگر لڑکی ہوتی تھی تو مایوسی کے مرجھائے ہوئے  چھرہ کے ساتھ سبھی  بیٹھ جاتی تھی اور بے گناہ نوزاد کو اسی گڑھے میں دفن کرکے واپس آجاتی تھیں ۔

قرآن مجید کم سے کم  تین مقامات پر اولاد کے قتل ہونے کے موضوع کو بیان کرتا ہے ۔ اور اس سے جم کرقابلہ کے لئے ابھارتا ہے ایک مقام پر اس طرح ارشادفرماتا ہے ۔

(وَ إِذَا الْمَوْؤُدَةُ سُئِلَتْ (8)بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ) (9)(1)

اور جب زندہ در گور لڑکیوں کے بارے میں سوال کیا جائیگا کہ  انہیں کس گناہ میں مارا گیا ہے ۔ 

اوردوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے ۔

(وَ لا تَقْتُلُوا أَوْلادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ إِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبيراً) (2)

--------------

(1):- سورہ تکویر ،آیۃ ۸،۷

(2):- سورہ اسراء ،آیۃ ۳۱

۴۱

اور خبر دار اپنی اولاد کو فاقہ کے خوف سے قتل نہ کرناکہ ہم انہیں بھی  رزق  دیتے ہیں ۔اور تمہیں بھی رزق دیتے ہیں۔بیشک انکاقتل کردینا بہت بڑا گناہ ہے ۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ بظاہر یہ بد ترین عمل ایک خاص گروہ یا کچھ مخصوص گروہ کی عادت تھی وگرنہ لڑکیوں کا فقدان قظع نسل کا سبب بنتا ۔کیونکہ توالد ،تناسل اور انسانی نسلکی افزائش لڑکیوں کے وجود  کی مرہون منت ہے جسطرح سے مردوں اور لڑکیوں کے وجود سے بھی اسکا تعلق ہے۔

        ممکن ہے کہ یہ کہا جائے بعض لڑکیوں کےساتھ ایساکرتے تھے اور بعض کو بقائے نسل کیلئے باقی رکھتے تھے۔یا یہ کہ بعض لوگ کلی طور پر ایسا کرتے تھے اور انکے درمیان قطعی اور اجتماعی حکم  نہیں تھا قرآن مجید کی بعض  آیات سے اس نتیجہ کو اخذ کیا جا سکتا ہے اور وہ آیت یہ ہے۔

(وَ إِذا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثى‏ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَ هُوَ كَظيمٌ) (58)(يَتَوارى‏ مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ ما بُشِّرَ بِهِ أَ يُمْسِكُهُ عَلى‏ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرابِ أَلا ساءَ ما يَحْكُمُونَ) (59)(1)

اور جب خود ان میں کسی کو لڑکی کی بشارت دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ خون کے گھونٹ پینے لگتا ہے قوم سے منھ چھپاتا ہے کہ بہت بری خبر سنائی گئی ہے ۔ اب اسکو ذلت سمیت زندہ رکھے یا خاک میں ملا دے یقینا یہ لوگ بہت برا فیصلہ کر رہے ہیں۔

--------------

(1):- سورہ نحل ،آیۃ ۵۹،۵۸

۴۲

دوسرا قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اقتصادی و معاشی مشکلات اور فقر و تنگدستی کے عامل سے ہٹ کر کہ اس میں بیٹے  اور بیٹی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔

کیونکہ دونوں خرچےزندگی کے ضرورت مند ہیں تو پھر کس دلیل کی بنیاد پر اپنی بیٹیوں کو قتل کر دیتے تھے؟جو چیز ہم تک پہونچی ہے وہ یہ ہے کہ وہ لوگ کلی طور پر لڑکی کے وجود سے نفرترکھتے تھے۔اس وجہ سے اسکو قتل کرنے اور زندہ درگور کرنے میں لڑکیوں کو لڑکوں پر مقدم کرتے اور ترجیح دیتے تھے ۔

مفسر بزرگ علامہ طبا طبائی رضوان اللہ علیہ سورہ اسراء کی آیت کے ضمن میں کہتے ہیں :

(ولا تقتلوا اولادکم خشية املاق جریان وادنبات)

وہ لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کے واقعہ کو اولاد کے قتل کرنے سے الگ جانتے ہیں اور فرماتےہیں:

لڑکیوں کو زندہ درگور کر نے کی آیات خاص ہیں کہ جو ا س موضوع سے مخصوص اوراسکی حرمت کی تصریح کرتی ہیں :

مثلا یہ آیت :

(وَ إِذَا الْمَوْؤُدَةُ سُئِلَتْ (8)بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ)(9)(1)

اور یہ آیت(وَ إِذا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثى‏ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَ هُوَ كَظيمٌ (58)يَتَوارى‏ مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ ما بُشِّرَ بِهِ أَ يُمْسِكُهُ عَلى‏ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرابِ أَلا ساءَ ما يَحْكُمُونَ) (59) (2)

لیکن مورد بحث آیت اور اس کے مشابہ دوسری آیات اپنی اولاد کو فقر و تنگدستی کی  وجہ سے قتل کرنے کو منع کرتی ہیں ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی دلیل بھی نہیں ہے کہ ان آیات میں اولاد کو لڑکوں کے معنی میں لیا جائے ۔

--------------

(1):- سورہ تکویر ،آیۃ ۹،۸

(2):- سورہ نحل ،آیۃ ۵۹،۵۸

۴۳

درحالانکہ اولاد لڑکا ،لڑکی دونوں کے لیے عام ہے اور یہ دوسری سنت لڑکیو ں کو زندہ درگور کرنے کے علاوہ کہ جو ننگ وعارکی بنیاد پرہے او ر اولاد کو قتل کرنے کی عادت اعم ہے کہ جو لڑکا اور لڑکی دونو ں کو فقر و فاقہ کی بنیاد پر قتل کرنے سے منع کیا گیا  ہے ۔(1)

راغب نے مفردات میں کہا ہے کہ اولا د  سے مراد لڑکا ،لڑکی دونوں ہوتے ہیں اس بیان کے مطابق یہ شبہ ختم ہوجاتا ہے کیونکہ فقرو تنگدستی کا خوف انکو اس بات کی جانب ابھارتا ہے کہ اپنی اولاد کو چاہے وہ بیٹا ہو یا بیٹی قتل کریں اور اس مقام پر ان دونوں کے درمیان کسی فرق کے قائل نہیں تھے ۔بیشک ان کی ایک بد ترین سنت یہ تھی کہ وہ اپنی لڑکیوں کو ننگ و عار کی خاطر زندہ دفن کردیتے تھے کہ اگر ایسا نہ کرتے تو جنگوں میں دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہوجائیں گی ۔

 دوسراقابل بیان نکتہ یہ ہے فقرو تنگدستی کاخوف دو جگہ ظاہر ہوتا ہے ۔اور برے نتائج کاسبب بنتا ہے ،خدا وند عالم نے ان دونوں مقامات  پر انسانیت کی حمایت کی ہے یعنی اسکے حالات کی اصلاح کی ضمانت لی ہے اور اسکی روزی کا وعدہ کیا ہے ۔

۱ : بسا اوقات جوان شادی اور انتخاب ہمسر کیلئے مضطرو پریشان ہوتے ہیں کہ کس طرح اپنے علاوہ اپنی بیوی کی ضرورت کو پورا کرے گا ۔اور یہی اضطراب و مایوسی اور شادی میں تاخیرکا سبب بنتا ہے۔خداوند عالم اسکے متعلق ارشاد فرماتاہے۔

(وَ أَنْكِحُوا الْأَيامى‏ مِنْكُمْ وَ الصَّالِحينَ مِنْ عِبادِكُمْ وَ إِمائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَ اللَّهُ واسِعٌ عَليمٌ) (32)(2)

اور اپنے  غیر شادی شدہ آزاد افراد اور اپنے غلاموں اور کنیزوں میں سے با صلاحیت افراد کے نکاح کا اہتمام کرو کہ اگر فقیر بھی ہونگے تو خدا اپنےفضل و کرم سے انہیں مالدار بنا دیگا ۔

--------------

(1):- المیزان ،ج ۱۳ ،ص ۸۹

(2):- سورہ نور ،آیۃ ۳۲

۴۴

۲: صاحب اولاد ہو جانے کی صورت میں یہ پریشانی اس دور کےماں باپ کیلئے تھی چنانچہ آج بھی یہ پریشانی بطور کلی ختم نہیں ہوئی ہے خصوصا  جزیرۃ العرب میں کہ جہاں قحط سالی ،بارش کی کمی اور رزق کا کم ہونا انکو غمگین کئے ہوئے تھا ۔   اور کسی فرزند کا پیدا ہوجانا انکے لئے ذہنی پریشانی کا سبب تھا ۔خدا وند عالم اس پریشانی کو دور کرنے کیلئے ارشاد فرماتا ہے۔

(وَ لا تَقْتُلُوا أَوْلادَكُمْ مِنْ إِمْلاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ إِيَّاهُمْ)(1)

سعدی شیرازی کہتے ہیں ۔

یکی طفل دندان بر آودہ بود 

پدر سر بہ فکرت فرو بردہ بود      

کہ من نان برگ از کجا آرمش     

                                مروت نباشد کہ بگزارمش  

چو بیچارہ گفت این سخن نزدجفت                           

        نگر تا زن او را چہ مردانہ گفت

مخور ھول ابلیس تا جان دھد                

                        ھر آن کس کہ دندان دھد نان دھد

ایک بچے کے دانت نکل آئے تو باپ پریشان ہو گیا کہ اب اس کے کھانے وغیرہ کا انتظام کیسے کرے گا  ۔اور یونہی چھوڑ دینا بھی مروت کے خلاف ہے ۔جب اس نے یہ بات اپنی بیوی سے کہی ۔تو اس عورت نے ایک مردانہ اور حکیمانہ جواب دیا :کہ جب تک یہ بچہ زندہ ہے تم شیطان کے ان وسوسوں کا خوف نہ کھائو کیونکہ جس نے اس بچہ کو دانت دئے ہیں  وہی روزی بھی دیگا ۔

--------------

(1):- سورہ انعام ،آیۃ ۱۵۱

۴۵

۴: عفت کے منافی اعمال سے دوری

دوسرانکتہ کہ جو صراط مستقیم سے مربوط ہے وہ ہے فواحش سے اجتناب کرنا اور عفت کے منافی اعمال کو انجام نہ دینا ۔آیت کی تعبیر یہ ہے کہ :

(وَ لا تَقْرَبُوا الْفَواحِشَ ما ظَهَرَ مِنْها وَ ما بَطَن‏ ) (۱۵۱)(1)

اور بدکاریوں کے قریب مت جانا وہ ظاہری ہوں یا چھپی ہوئی ۔

اسلام نے جن کاموں کی انجام دہی سے روکا ہے ان کا صرف انجام نہ دینا کافی نہیں ہے ۔بلکہ ان کے قریب جانے کی مذمت  اور ممانعت  بھی کی گئی ہے لہذا اسکے قریب جانے سے بھی اجتناب ہونا چاہئے ۔

        بیشک اس طرح کے کاموں کے قریب ہو نا خطرناک بھی ہے ۔کیونکہ جس وقت  انسان ان سے نزدیک ہوتا ہے تو دھیرے دھیرے عمل کی جانب قدم بڑھاتا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی انکو انجام دیتا ہے ۔

کسی بھی کام سے قریب ہونا اس کام میں ملوث ہونے کا مقدمہ ہوتا ہے ۔اگرچہ اس میں ملوث ہونے کا ارادہ نہ رکھتا ہو ۔بہر حال اس با ت کا خطرہ اور خوف پایا جایا ہے۔کہ انسان اس میں ملوث ہو جائے ۔اس لئے اسلام تمام فواحش اور برے کاموں سے چاہے وہ ظاہری ہوں یا مخفی ۔منع  کرتا ہے اور اس کی دو طرح سے توجیہ کی جاتی ہے ۔

        ۱: ان اعمال کو نہ صرف دوسروں کی آنکھوں کے سامنے انجام دیا جائے بلکہ تنہا ئی میں بھی ان سے اجتناب کیا جائے۔اور کوئی یہ تصور بھی نہ کرے کہ فواحش اور برائیوں کو کھلے عام انجام نہیں دینا چاہئے ۔کیونکہ عمومی عفت داغدار ہو جائے گی ۔لیکن مخفیانہ طور پر کوئی مشکل نہیں ہے۔

--------------

(1):- سورہ انعام ،آیۃ۱۵۱

۴۶

جیسا کہ تفسیر مجمع البیان میں کہا گیا ہے کہ عصر جاہلیت کے لوگ مخفیانہ زنا کو برا تصور نہیں کیا کرتے تھے ۔اور تنہا کھلے عام زنا سے منع کرتےتھے لہذا خدا وند عالم نے ان کو ہر حال میں زنا سے منع فرمایا ۔

اس بنا پر گویا آیت یہ کہنا چاہتی ہے ظاہرا برے اعمال سے پرہیز آسان ہے اور انکی خود اپنی ایک جگہ ہے ۔حتی ان اعمال کو مخفیانہ انجام دینے سے بھی پرہیز کرو۔

۲:برے اور غلط کاموں سے اجتناب کا مطلب یہ ہے کہ جو انسان کے بدن کے اعضاء و جوارح سے انجام پاتا ہے کہ یہ ہر حال میں  ظاہری قسم ہے ۔ چاہے اسکو مخفی طور پر ہی کیوں نہ انجام دیا جائے ۔اور وہ برا عمل کہ جو انسان کے دل و دماغ میں ابھرتا ہے ۔گویا فرمایا ہے کہ اپنے اعضاء و جوارح کے ذریعہ برے اور عفت کے منافی اعمال سے اجتناب کرو ۔اس طرح سے کہ تمہارے ذہن و فکر میں بھی اسکا تصور نہ آنے پائے ۔اور تمہارے باطن میں بھی منافی عفت  عمل نہ آئے ۔

بیشک قلبی تصورات اور گناہ کی فکر اور سوچ بھی گنا ہ کیلئے راہ ہموار کرتا ہے ۔ اور بالخصوص  اسکی تکرار اور ہمیشہ سوچنے میں ایک  عظیم خطرہ پایا جاتا ہے ۔ جو دھیرے دھیرے انسان کیلئے نا فرمانی کی راہ کو کھول دیتا ہے ،اسکو گناہ کے انجام دینے پر ابھارتا ہے ۔اور خانئہ دل کو سیاہ وتاریک بنا دیتا ہے۔

اسی بنیاد پر آدمی کے تصورات و خیالات اسکے دل پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں اور یہ اسکے دل اور قساوت قلب میں یا اسکی نرمی اور آسانی میں واضح اور نا قابل انکار اثر رکھتا ہے۔

۴۷

قرآن کریم کے اسی جملہ کی جانب  اشارہ کرتے ہوئے حضرت علی ابن الحسین  ؑدعائے ابو ہمزہ ثمالی کے آخر میں :اپنی عارفانہ اور پر درد مناجات میں فرماتے ہیں۔

اللهم انی اعوذبک من الکسل والفشل----والفواحش ما ظهر منها وما بطن -----

پروردگار میں تیری باگاہ میں سستی و کاہلی سے پناہ چاہتا ہوں اور فواحش و برے اعمال سے وہ ظاہر ہوں یا چھپے ہوئے۔

یاد رہے اگرچہ قرآن کریم میں فاحشہ اور فواحش کو عام طور سے بد ترین گنا ہوں من جملہ زنا ،لواط یا پاکدامن عورتوں کی جانب بری نسبت دینے وغیرہ میں استعمال کیا گیا ہے ۔

لیکن یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ بعض ایسے اعمال ہیں جن میں ان گناہوں کی تھوڑی سی برائیاں پائی جاتی ہے ۔اور کبھی کبھی ان اعمال یا بعض اعمال کیلئے مقدمہ بن جاتے ہیں جیسے :

۱:نامحرم کے ساتھ خلوت :

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایک مرد اورعورت

یا ایک لڑکے یا لڑکی کا خلوت مثلا کسی بند کمرہ میں ہونا ،بدکاری اور خلاف عفت اعمال کے لیے ایک راستہ ہوتا ہے اس اعتبار سے اسلام میں اس کو حرام قرار دیا گیا ہے ۔

    ۲:لڑکے اور لڑکیوں کی  دوستی:

اگرلڑکے کی کوئی لڑکی دوست ہو یا لڑکی کا کوئی لڑکا دوست ہو ،تو یہ آلودگی انکی بدکاری وفساد میںپڑنے کا مقدمہ اور سبب ہے کبھی کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ ان کے درمیان اچھے اور دوستانہ روابط ہیں یہ تمام باتیں  دھوکاہیں بلکہ شیطان نے ان کے سامنے گناہوں کو مزین کرکے پیش کیا ہے ۔

۴۸

اس کی حقیقت یہ ہے کہ ایک سکہ کے دورخ ہیں اس کا ایک رخ دوستی ،تفریح اور ایک ساتھ باتیں کرناہے اور اس کا دوسرا رخ زنا،فواحش ،اخلاقی فساد اور اسی کے ساتھ ساتھ قتل ،خود کشی اور حدو تعزیر ہے۔خدا کرے کہتمام مسلمان خصوصا  ایرانی مسلمان جوان اس بحث کا مطالعہ کرتے وقت خود کو ہوا و ہوس سے دور رکھ کر منصفانہ مطالعہ کریں اور محکم ارادہ کریں ۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے بے غیرت باپ یا ناپاک مائیں بھی اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے اخلاقی فساد اور نا مشروع تعلقات کے بارے میں جانتے ہیں اور کسی بھی طرح کا خطرہ محسوس نہیں کرتے ہیں۔

    ۳ :  نا محرم کو دیکھنا :

  یہ خودبدکاری کے زمینہ کو فراہم کرتا ہے  اور دھیرے دھیرے اتنا آگے تک لے جا تا ہے کہ وہ اپنا دا من گنا ہ کبیرہ سے آلو دہ کر لیتا ہے  ۔  

ایک عرب شا عر کہتا ہے کہ

نظرة فابتسانة وسلام                        

فکلام فموعد فلقاء

ابتدا میں ایک نگا ہ اس کے بعد مسکرا ہٹ اور مسکرا ہٹ کے بعد سلام، اس کے بعد گفتگو، پھر وعدہ اور آخر میں ملا قا ت اور پھر خلا ف عفت اور مخالف تقوی عمل کو انجام دینا ۔اور اس کی حقیقت وہی ہے کہ جو فارسی زبان شاعر نے کہا ہے ۔

                برِ پنبہ آتش نباید فروخت                 

                کہ تا چشم بر ہم زنی خانہ سوخت

روئی پر آگ نہ ڈالو کہ ایک لمحہ میں گھر کو جلا کر خاک کر دے گی ۔

۴۹

۴: لڑکے اور لڑکیوں کے لئے بعض کپڑوں کا پہننا :

خود انسان یا طرف مقابل کے لئے ایسے مساعد حالات فرا ہم کرتا ہے جو فسادا ور گناہ کا سبب بنتے ہیں ۔وہ لباس جس سے ان کے بدن کے خد وخال ظاہر ہو تے ہیں  بغیرکسی شک و شبہ کے جو انو ں اور جنس مخا لف میں برا اثر چھو ڑتا ہے ۔تنگ اور چھو ٹے لبا س افکا ر شیطا نی کے ایجا د کر نے کے لئے موثر ہو تے ہیں۔ بلکہ ظا ہر و آشکا ر اور سریع و قطعی اثر رکھتے ہیں ۔کبھی کبھی ان میں سے کسی ایک منظر کو دیکھنے سے لڑکی کو بد ترین عمل کی طرف کھینچتا ہے یا لڑکے کو شرارت اور نا پا کی و بے عفتی کے کام کے لئے آمادہ کر تا ہے ۔

با ر الہا:آخر کیا ہو جائے گا کہ اگر لوگ اس طرح ہو جا ئیں کہ ضروری ،بدیہی اور مسلم امو ر کا انکار نہ کریں اور فساد وبدی اور بے عفتی و ناپا کی کی تو جیہ کرنے وا لے نہ بنیں؟

    ۵:جسمانی اتصال مثلا ہا تھ ملانا :

 اسی بنیا د پر اسلامی شریعت میں یہ حکم بیان کیا گیا ہے کہ جب بچے چھ سال کے ہو جائیں تو ان کے بستر الگ کر دئے جائیں ۔یہ ایک درس ہے جوہم کو ایک راز سکھا تا ہے ۔یہ احکام بتا تے ہیں کہ ان کے جسموں کا ملنا موثر ہے ۔

ممکن ہے کہ یہ باطل خیالات اورشیطانی اوہام کو ان کے  اندر بیدار کرے اور ان کی فساد وناپاکی کا سبب بنے ۔جبکہ یہ اس صو رت میں ہے کہ جب بچوں کے درمیان جسموں کا ملاپ بہن اور بھائی کے درمیان انجام پا تا ہے۔

اس اجمال کی تفصیل تک آپ خو د پہو نچ سکتے ہیں ۔

۵۰

آدم کشی سے اجتناب

        دعوت الھی کے امو ر میں سے پا نچواں امر آدم کشی اور محترم نفوس کو قتل کرنے سےاجتناب کرنا ہے ۔خدا وند عالم نے انسانوں کی جان کو محترم شما ر کیا ہے اور ان کے لئے غیر معمولی عظمت کا قائل ہے اسلام کی نظر میں کسی بھی چیز کا احترا م لو گو ں کے خون کے برا بر نہیں ہے ۔اور کو ئی بھی گناہ کسی انسا ن کے قتل سے بڑھ کر نہیں ہو تا ہے ۔اس اعتبا ر سے ہر انسان کو دوسروں کی جان کا محا فظ ہو نا چا ہئے اور یہ بات خود اپنے آپ کو سمجھا ئے کہ جس طرح ہم اپنی جان کو عزیز رکھتے ہیں اور اس کی حفا ظت کی کو شش کر تے ہیں۔تو دوسروں کی جان کو بھی اپنی جان کی طرح عزیز  رکھیں ۔لہذا ہم کو ان کی حفا ظت و  نگہداشت کا بھی اہتمام کرنا چا ہئے کہ خدا وند عا لم نے ان کو بہت زیادہ محترم شما ر کیا ہے ۔

قرآن مجید کی آیت میں اسے :حرم اللہ :کے عنوان سے پیش  کیا گیا ہے ۔در حا لیکہ اس کو :حرم الاسلام :یا :حرم اللہ فی الاسلام :کے نا م سے یا د کرنا چا ہئے تھا۔شاید اس تعبیر کا را ز یہ ہو کہ :خو ن انسا ن کی حر مت فقط شریعت اسلام میں  منحصر نہیں ہے بلکہ تما م ادیا ن میں اس اعتبا ر سے کہ لو گو ں کے خو ن کی حفا ظت کرنا چا ہئے اور کو ئی خدشہ مسلما نو ں کی جا ن میں ایحا د نہ کرے :متفق ہیں اور تمام انبیا ء ،پیمبرا ن الہی اور تمام آسمانی  مذا ہب اور شریعتیں اس اعتبا ر سے متفق ہیں ۔

        قر آن کریم   میں موضوع قتل بہت ہی شدت کےساتھ بیان کیا گیا ہے اور اسکی تعبیرات کی سختی اور عظمت میں دوسرے گناہوں کی بنسبت واضح اور آشکار ہے ۔جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے ،

(وَ مَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِناً مُتَعَمِّداً فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ خالِداً فيها وَ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَ لَعَنَهُ وَ أَعَدَّ لَهُ عَذاباً عَظيماً) (93)(1)

--------------

(1):- سورہ نساء ،آیۃ ۹۳

۵۱

 اورجو بھی کسی مومن کو قتل کرے گا اسکی جزا جہنم ہے ۔اور اسی میں ہمیشہ رہنا ہے اور اس پر خدا کا غضب ہے  اور خدا لعنت بھی کرتا ہے اور اس نے اسکے لئے عذاب عظیم بھی مہیہ کر رکھا ہے ۔اس آیئہ کریمہ میں قاتل کیلئے پانچ انجام بتائے گئے ہیں ۔

۱:اسکی سزا دوزخ ہے ۔

۲: ہمیشہ دوزخ میں رہے گا ۔

۳: خدا اس پر غصب کریگا ۔

۴: اس پر خدا کی لعنت ہے ۔

۵: خدا وند عالم نے اسکے لئے عذاب عظیم مہیاکر رکھا ہے ۔

اور یہ بھی فرماتا ہے ۔

(مِنْ أَجْلِ ذلِكَ كَتَبْنا عَلى‏ بَني‏ إِسْرائيلَ أَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْساً بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّما قَتَلَ النَّاسَ جَميعاً وَ مَنْ أَحْياها فَكَأَنَّما أَحْيَا النَّاسَ جَميعا ) (۳۲)(1)

اسی بنیاد پر ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جو شخص کسی نفس کو کسی نفس کے بدلے یا روئے زمین میں فساد کے علاوہ قتل کر ڈالے گا ۔اس نے گویا سارے انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے ایک نفس کو زندگی دیدی اس نے گویا سارے انسانوں کو زندگی دیدی۔

اس آیئہ کریمہ میں ایک انسان کو قتل کرنا تمام انسانیت کو قتل کرنے کے برابر قرار دیا گیا ہے اور  ایک انسان کو نجات دینا تمام انسانوں کو نجات دینے کے برابر ہے۔

--------------

(1):- سورہ مائدہ،آیۃ ۳۲

۵۲

محل بحث آئیہ کریمہ دو حصوں پر مشمل ہیں ۔ جملہ مستثنی اور جملہ مستثنی منہ ۔اور جو کچھ کہا گیا ہے وہ مستثنی منہ کے مورد میں ہے ۔لیکن مستثنی یعنی مخصوص مواردمیں قتل کا جائز ہونامحل بحث آیت میں بطور کلی ذکر کیا گیا ہے کیونکہ ارشاد ہوتا ہے۔:الابالحق:اور اسکا فائدہ یہ ہے کہ ان موارد میں افراد کا قتل کرنا حق ہے ۔اسطرح کہ اسمیں کوئی گناہ نہیں ہے۔ اور یہ موارد تین عناوین میں خلاصہ ہوتے ہیں ۔  

    ۱: باب قصاص:

  اگر کسی نے دوسرے کے قتل کا اقدام کیا لیکن مقتول یہ حق رکھتا ہے کہ قاتل کو اس کے جرم میں کہ جسکا وہ مرتکب ہوا ہے ۔اور محترم جان کو مار ڈالا ہے ۔قتل کر دیا جائے ۔البتہ خودیہ کام معاشرہ سے قتل کو ختم کرنے  اور نفسوں کی حفاظت کیلئے ایک وسیلہ ہے ۔ اور یہ حکم صراحت کے ساتھقرآنمجیدمیںآیاہے ۔اسطرحسےکہجوقابل تصرف وتاویل نہیں ہے ۔

ایک مصری دانشمند فرید وجدی   کہتا ہے کہ : اکثر یورپی قوانین قاتل پر قتل کا حکم لگاتی ہیں کہ اسکو قتل کر دیا جائے ۔لیکن ایک نیا نظریہ وجود میں آیا ہے جو یہ کہتا ہے کہ قاتل کو قتل نہیں کرنا چاہئے ۔بلکہ قید و بند ہی اسکے لئے کافی ہے بعض ممالک جیسے سوئزر اوراٹلی نے اس نظریہ کو قبول کیا ہے ۔ قاتل کو ان ممالک کی شریعتوں اور قوانین کے تحت قتل نہیں کیا جاتا ہے بلکہ انفرادی قید خانہ میں قید کر دیا جاتا ہے ۔کہ جہاں کوئی آواز اسکے کانوں تک نہ پہونچے اور اسکو چند سال تک اسی طرح چھوڑ دیتے ہیں۔ اسکے بعد اسکو عمومی زندان کی طرف منتقل کر دیا جاتا ہے ۔اور اس سے سخت سے سخت کام لئے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ مر جائے۔

۵۳

ان اسلامی قوانین کےاحکام کی حکمت (کہ جن کے قتل کی سزا بعض یوروپی ممالک میں ایک دوسری صورت میں لاگو ہوتی ہے )سے موازنہ کرنے سے حاصل کی جا سکتی ہے۔کیونکہ اس طرح کی زندگی کا کیا فائدہ ہے ۔؟ اسکے علاوہ قتل کے ذریعہ قصاص ،خود اس عمل کی قسم میں سے ہے ۔قید کے برخلاف کہ یہ ایک سزا کی الگ قسم ہے اور  اسکا قتل سے کوئی تعلق نہیں ہے  ۔جرم اور اسکی سزا کے درمیان کا تناسب اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ ولی قاتل کو قتل کرے ۔اوروہ روک تھام کہ جو قتل کے قصاص میں ہے حبس اور اسی کے مثل دوسری سزائوں میں نہیں ہے ۔                        

۲ : باب حدود:۔

 زنا کےبعض  اقسام میں صرف قتل کا حکم یا پھرخاص اندازمیں مار ڈالنے کا حکم دیا گیا ہے ۔

الف: اپنے نسبی محرم کے ساتھ زنا کرنا ۔   

ب: کافر ،مسلمان عورت کے ساتھ زنا کرے ۔

ج: وہ مرد کہ جو کسی عورت کو زنا پر مجبور کرے ۔  

د:شادی شدہ مرد یا عورت لذت جنسی کے امکان کے باوجود زنا کریں  ۔

جیسا کہ لواط کی حد میں قضیہ کے طرفین کی بنسبت اپنے خاص شرائط کے ساتھ قتل کا حکم ہے ۔البتہ دوسرے موارد  بھی ہیں کہ جو مفصل کتابوں میں بیان ہوئے ہیں  ۔(1)

--------------

(1):- ہم نے اسکو اپنی کتاب الدر المنضود فی احکام الحدود[ جو تین جلدوں میں لکھی گئی ہے ] مفصل طور پر بیان کیا ہے

۵۴

۳:باب ارتداد:

مسلمان کا اسلام سے پھر جانا ۔اور توحید اور اسلام کے بعدراہ کفر وشرک کو اختیار کرنا  وہ بھی خاص شرائط کے ساتھ اسکا یقینی اثبات قتل کا سبب ہوتا ہے ۔ اور اسکے تمام احکام و شرائط فقہ کی تفصیلی کتابوں میں بیان ہوئے ہیں کہ خواہشمند حضرات ان کی جانب رجوع کر سکتے ہیں  ۔(1)

لیکن اس مقام پر اس نکتہ کی جانب متوجہ کرنا ضروری ہے کہ قتل کا حکم ابتدائی مورد میں یعنی باب قصاص میں مقتول کے ولی سے مربوط ہے اور اسکے اختیار میں ہے کہ قاتل سےقصاص لے یا اسے معاف کر دے ۔

       لیکن دوسرے اور تیسرے مورد میں یہ حکم  خود حاکم شرع سے مربوط ہے  کہ پہلے قضیہ  واضح ہو جائے اور اسکے بعد قتل کا حکم اور اسی کی مانند حاکم اور قاضی کی قضاوت سے وابستہہوتا ہے ۔

اس بحث کے اختتام میں مسلمان جوانوں :ہم لڑکے اور لڑکیوں کو خیر خواہی کے ساتھ یہ وصیت کرتے ہیں کہ اپنے نفوس کی کڑی حفاظت کریں ،۔تاکہ ان تین ہلاکتوں میں گرفتار نہ ہو جائیں ۔اور بے گناہ انسان کے خون کے بہنے کا سبب نہ بنیں ۔قتل کی حد کے مستحق نہ بنیں ۔اور کسی ایسے گناہ سے اپنے دامن کو داغدار نہ کریں کہ خدا نہ خواستہ دین الہی سے بدبین ہو کر کافر ہو جائیں کہ نتیجہ میں ارتدای قتل کے مستحق قرار پائیں ۔

۶ :یتیم کے مال کی رعایت  کرنا

        آئیہ کریمہ میں چھٹا  امر یتیموں {یعنی وہ بچے جنکے باپ اور سرپرست نہ ہوں } کے مال کی رعایت کرنا ہے ۔اس مقام کو بھی اس امرکو قرب {لاتقربوا } کے ذریعہ بیان کیا ہے۔یہاں تک کے یتیم کے مال سے قریب تک ہونے  کو منع کیا گیا ہے اس لئے کہ اس سے نزدیک ہونا خطرہ میں پڑنا ہے ۔

--------------

(1):- ر،ک بہ نتائج افکار ،مئولف کی کتاب

۵۵

یہ بات واضح ہے کہ تمام لوگوں کے مال کو محترم شمار کرنا اور اسکو ضایع کرنے اور بغیر اجازت کے خرچ کرنے سے اجتناب کرنا ضروری ہے ۔لیکن یتیم کے مال کا خاص طور سے ذکر کرنا اس اہمیت کی وجہ سے ہے کہ جو یتیم کے متعلق ہے اور اسکی علت یہ ہے کہ وہ بچپنے اور کمسنی کی وجہ سے عدم ورود اور خود  اسکے لئے اپنا دفاع ممکن نہیں ہے ۔ اور وہ اپنے مال و دلت کے متعلق بہتر تدبیر اور اسکی حفاظت نہیں کر سکتا ہے ۔اس بنیاد پر مخصوص توجہ اور خاص شفارش کی گئی ہے ۔اور حکیم علی الاطلاق خدا وند عالم نے اس آیت میں یتیم کے مال کو خاص طور پر موضوع بحث بنایا ہے ۔اور اسکے مال میں تصرف سے بھی منع کیا گیا ہے۔

حقیقت میں کس قدر عظیم گناہ ہے کہ انسان اس شخص کے مال کو ہاتھ لگائے کہ جو نہ اپنی اور نہ اپنے مال کے دفاع کی قدرت نہیں رکھتا ۔اور یہ کھلا اور واضح ضعیف پر ظلم کا مصداق ہوتا ہے ۔

اور یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ جملئہ مبارک اور قرآن مجید کا محل بحث فقرہ اسی لفظ اور خاص عبارت کے ساتھ قرآن میں دو مقام پر ذکر کیا گیا ہے۔

سورہ انعام کی وہ آیت کہ جو ہماری موضوع بحث ہے ۔

اور دوسری آیت سو رہ اسراء یا بنی اسرا ئیل کی ۳۴ ویں میں فر ما تا ہے ۔

(وَ لا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتيمِ إِلاَّ بِالَّتي‏ هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّه‏ )(1)

اور یہ آیت  اس مو ضو ع کی اہمیت کو بیا ن کر سکتی ہے ۔قا بل تو جہ با ت یہ ہے کہ سو رہ انعا م میں اس مو ضوع کو صرا ط مستقیم کے عنا صر اور احکام کے عنوا ن سے ذکر کیا گیا ہے ۔اور سو رہ اسرا ء میں اس دلیل کے سا تھ کہ یہ حکمت الہی کے حکم کا جز ہے بیا ن کیا گیا ہے ۔جیسا کہ مندر جہ ذیل آیت میں ارشا د ہو تا ہے کہ

--------------

(1):- سورہ انعام ،آیۃ ۱۵۲

۵۶

(ذلِكَ مِمَّا أَوْحى‏ إِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَة )(1)

یہ وہ حکمت ہے جس کی وحی تمہا رے پر ور دگا ر نے تمہا ری طرف کی ہے۔

حا کم اور یتیم بچہ اور آیا ت قر آنی کی تا ثیر

        ایک انسا ن دنیا سے چل بسا اور کچھ یتیم بچو ں کو چھو ڑ گیا اور ایک با ایمان شخص کو اپنا وصی اور اپنے چھوٹے بچو ں کا محا فظ قرار دیا ۔اس زمانے کے ظا لم اور طا قتور حاکم نے ایک شخص کو وصی کے پا س بھیجا اور کہا میں نے سنا ہے کہ فلا ں شخص مر گیا ہے اور اتنی مقدار نقد چھو ڑ گیا ہے اس میں سے اتنی مقدا ر مجھ کوقرض دو  ۔وصی نے دو تھیلی پیسے اس یتیم بچے کے دا من میں رکھےاور اس کو حاکم کے پا س بھیج دیا ۔

اور حا کم کو ایک خط لکھا کہ پیسہ اس بچے کا ہے ۔خود اس سے لے لو اور قیامت کے دن خو د اس کو پلٹا  دینا۔اور اس کا مجھ سے  کو ئی تعلق نہیں ہے ۔حاکم نے جیسے ہی یہ خط پڑھا تو آئیہ شریفہ کا مضمو ن اس کی نظروں میں گھو م گیا کہ جس میں خدا ارشا د فر ما تا ہے ۔

(انَّ الَّذينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامى‏ ظُلْماً إِنَّما يَأْكُلُونَ في‏ بُطُونِهِمْ ناراً وَ سَيَصْلَوْنَ سَعيراً) (10)(2)

جو لوگ ظا لمانہ اندا ز سے یتیمو ں کا مال کھا جا تے ہیں وہ در حقیقت اپنے پیٹ میں آگ بھر ر ہے ہیں اور عنقریب وا صل جہنم ہو ں گے ۔

--------------

(1):- سورہ اسراء ،آیۃ ۳۹

(2):- سورہ نساء، آیۃ ۱۰

۵۷

حا کم خدا وند عا لم کے عذاب سے خوفزدہ ہوا او ر گریہ کرنے لگا اور بچے سے پوچھا:کیا تم مکتب جا تے ہو؟ بچے نے جو اب دیا :ہا ں۔پو چھا کیا پڑھتے ہو ؟اس نے جو ا ب دیا :قر آن ۔

اس نے پو چھا ۔کیا قرآن حفظ کر تے ہو ؟اس نے جو اب دیا :ہا ں

اس نے کہا پڑھو ۔دیکھو ں کس طرح حفظ کیا ہے ؟بچے نےیہ آیت پڑھنا شرو ع کیا ۔

(اعوذ بالل من الشیطان الرجیم ، وَ لا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتيمِ إِلاَّ بِالَّتي‏ هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّه‏ )

حا کم نے دو با رہ گر یہ کیا ااور کہا :میں خدا وند عا لم کے حکم کے خلا ف کوئی کام نہیں کرو ں گا ۔اور پھرتھیلیو ں کو ہا تھ  نہیں لگا یا ۔بلکہ ایک خلعت بچے کو اپنی طرف سے دیا اور ایک خلعت وصی کے لئے بھی دے کر اس کو وا پس کر دیا  ۔(1)

سا ت سالہ یتیم بچہاورحجا ج

        عظیم الشا ن محدثمر حو م دیلمی رضوا ن اللہ علیہ لکھتے ہیں :ایک سات سالہ بچہ حجا ج کے سا منے آیا اور کہا اے امیر :یہ با ت جا ن لو کہ میرا با پ اس وقت اس دنیا سے گذرگیا جب میں اپنی ما ں کے شکم میں تھا اور میری ماں بھی اس وقت دنیا سے گذر گئی جب میں شیر خوا ر تھا ۔          

اور دو سرے لو گ میرے امو ر کی کفا لت کر تے تھے ۔اور میرے باپ نے ایک باغ میرے لئے چھو ڑا کہ جو میرا معین و مددگا ر تھا اور میری زندگی کے لوا زما ت اسی سے پورے ہو تے تھے ۔لیکن فی الحا ل تمہا رے عمّال میں سے ایک نے اس کو غصب کر لیا ہے۔جو شخص خدا سے نہیں ڈرتا ہے تو وہ امیر کی شا ن وشو کت اور قدرت و منزلت سے کیا ڈرے گا ۔یہ تمہا ری ذمہ دا ری ہے کہ ظا لم کو منع کرو اور لو گو ں کے حقوق ان کو پلٹا دو تاکہ اس کا نتیجہ حا صل کرسکو ۔

--------------

(1):- عدد السنۃ،سبزواری ، ص ۱۲۴

۵۸

(يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَ ما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَها وَ بَيْنَهُ أَمَداً بَعيدا) (۳۰)(1)

اس دن کو یاد کرو جب ہر نفس اپنے نیک اعمال کو بھی حاضر پائے گا اوربد اعمال کوبھی ۔کہ جن کو دیکھ کر یہ تمنا کرے گا کہ کاش ہمارے اور ان برے اعمال کے درمیان طویل فاصلہ ہوجاتا  ۔

حجاج نے حکم دیا کہ اسکا باغ اسکو پلٹا دیا جائے ۔اور یہ بھی حکم دیا کہ ادیبوں کو بھی اسکے گھر سے دور کر دو اسلئے کہ وہ ان سب سے بڑا ادیب ہے  ۔(2)

ہم کومتوجہ رہنا چاہئے کہ مورد بحث آیہ کریمہ اور اس سے مشابہ آیات مورد استثناء پر مشتمل ہیں ۔{إِلاَّ بِالَّتي‏ هِيَ أَحْسَنُ } یعنی یتیموں کے مال کے نزدیک نہ جانا مگر اس طریقہ سے کہ جو بہترین طریقہ ہے اور اسکے مال کی حفاظت وسعت کا سبب ہو۔ البتہ وہ تصرف کہ جسکا نتیجہ یتیم کے مال کی حفاظت یا فائدہ ہو تو کوئی مشکل نہیں ہے بلکہ بسا اوقات مطلوب اور پسندیدہ ہوتا ہے ۔

مندرجہ بالا آیئہ کریمہ دونوں مقام  یعنی محل بحث آیئہ کریمہ  اور اس سے مشابہ سورہ اسراء کی  آیئہ کریمہ سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے ۔ کہ  یتیم کے مال کے نزدیک ہونے کی حرمت کے  معنی اسکے مال میں تصرف حاصل کرنا  ہے ۔ کہ جو اقتصادی امور کی تدبیر کی قدرت اور اپنے مال کی حفاظت اور اس سے فایدہ حاصل کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔لیکن جس وقت وہ حد بلوغ تک پہونچ جائے اورتم کویہ  احساس ہو کہ اب وہ خوداپنے مال کی حفاظت اور اسکو صحیح جگہ پر تصرف اور فائدہ حاصل کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکا  ہے ۔تو اس وقت اسکے مال میں تصرف سے منع کیا گیا ہے ۔مگر یہ کہ وہ شرعی ضوابط کی بنیاد پر ہو ۔

--------------

(1):- سورہ آل عمران ،آیۃ ۳۰

(2):- ارشاد القلوب ،ص ۲۳۰

۵۹

۷:ناپ اور تول میں عدل اور انصاف سے کام لینا

        ساتواں محل بحث موضوع ناپ تول میں عدل اور انصاف سے کام لیناہے ۔

        خریدار کواسکی چیز صحیح و سالم اور مکمل حوالہ کرنا خود ایک اہم موضوع  ہے ۔ کہ جو  عوام الناس کے اعتماد کوبحال کرتا ہے ۔اور معاشرہ کے مختلف افراد کو زندگی میں متحرک کر دیتا ہے ۔اور ایک راہ پر لگا دیتا ہے ۔ جیسا کہ خود قوانین کی رعایت دولت کی عادلانہ تقسیم کا ایک  وسیلہ ہے  ۔  اور ان قوانین کی رعایت کرکے جھوٹی اور نا مشروع دولت غلط لوگوں کے پاس جمع نہیں ہو سکتی ۔ اور ہر ایک اپنا شرعی اور واقعی حق کو حاصل کر سکتا ہے ۔

اور انہیں کے مقابل میں جو شخص  اشیاء کے تولنے کا ذمہ دار ہو ۔لیکن اگر وہ امانت دار اور قابل اعتماد نہ ہو اور خریدار کے  حق میں کٹوتی  اور ناپ اور تول میں خیانت کرے  گا۔تومعاشرہ میں ایک دوسرے کے اوپر سے اعتماد کی روح ختم ہو جائیگی اور ایک دوسرے کے تئیں اعتماد کی جگہ بدگمانی پیدا ہو جائے گی ۔اور اسی کے ساتھ معاشرہ میں دشمنی ، عداوت ،بغض و حسد اور کینہ  رائج ہو جائیگا  ۔

اور نتیجہ میں طرف مقابل کم تولنے  پر مجبور ہوگا کہ جسکی وجہ سے معاشرہ میں ایک دوسرے کے تئیں خیانت کا دروازہ کھل جائیگا۔اور پھر یہی چیز رواج پیدا کر لے گی ۔اور صحیح و سالم اجتماعی روابط باقی نہیں رہیں گے  بلکہ نظام اجتماعی درہم برہم ہو جائیگا  ۔اور ایک بدگمان اور خیانت کار معاشرہ کی داغ بیل پڑ جائیگی  اسطرح کہ لوگوں کے اجتماعی اور اخلاقی حقوق ضایع ہونے لگے گیں ۔

اور خریدارنے جو قیمت ادا کی ہے اس کے مقابل اسے جنس نہیں ملسکے گی۔جس کے نتیجہ میں معاشرہ میں حق کشی اور ایک دوسرے کےحق کو ضایع کرنا بھی مکمل طور پر رائج ہو جائیگا  اور پھر غلط اور نا جائز طریقے سے دولت اکھٹا کرنے کا راستہ ہر ایک کے لئے کھل جائیگا ۔ اور ایک سالم اور الہی معاشرہ کی جگہ مادی اور شیطانی معاشرہ وجود میں آجائیگا۔اس سلسلے میں ہم کو خدا سے پناہ ماگنا چاہئے ۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

آیہء ولایت کے بارے میں چند سوالات اوران کے جوابات

آیہء ولایت کے بارے میں چندسوالات کئے جا تے ہیں،مناسب ہے ہم اس باب میں ان کے جوابات دیں۔

۱ ۔کیاآیت میں ”ولی“کامعنی دوست نہیں ہے؟

یہ آیہء کریمہ ایسی آیات کے سیاق میں ہے کہ جس میں مومنین کے لئے یہودونصاریٰ کو اپنے ولی قراردینے سے نہی کی گئی ہے۔چونکہ ان آیات میں ولی’یاور“یا’دوست“کے معنی میں ہے،اس آیت میں بھی اس کے معنی اسی سیاق کے تحت درج ہے،لہذا اسی معنی میں ہونا چاہئے۔اگرایسا نہ ما نیں توسیاق واحدمیں تفکیک لازم آ ئیگی۔

اس لئے اس آیت کے معنی یوں ہوتے ہیں:”بس تمہارایاوریادوست اللہ اوراس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان ہیں جو نمازقائم کرتے ہیں اورحالت خضوع اورانکساری میں زکوٰةدیتے ہیں۔“

جواب:

اوّل یہ کہ:آیہء شریفہ میں سیاق کا پا یا جا نامنتفی ہے،کیونکہ آیہء کریمہ) چنانچہ اس کی شان نزول کے سلسلہ میں پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے اوراس کی مزیدوضاحت آگے کی جائے گی) ایک مستقل شان نزول رکھتی ہے۔نزول کامستقل ہونا اس معنی میں ہے کہ یہ آیت اپنے معانی و مفا ہیم کے لحاظ سے دوسری آیات سے مربوط نہیں ہے۔

بیشک قرآن مجیدکی آیات کی تر تیب وتنظیم،جس طرح اس وقت موجود ہے،ا سی اعتبار سے ہم اس کی قرائت کرتے ہیں باوجود اس کے کہ ان میں نزول کی تر تیب کے لحاظ سے تناقض پایا جاتا ہے۔یہاں تک بعض سورہ یا آیات کہ جوپہلے نازل ہوئی ہیں وہ موجودہ ترتیب میں قرآن کے آخر میں نظر آتی ہیں،جیسے:مکی سورے کہ جوقرآن مجیدکے آخری پارے میں

۱۴۱

مو جودہیں اور بہت سی آیات اورسور ے اس کے برعکس ہیں جیسے:سورئہ بقرہ کہ جوموجودہ تر تیب کے لحاظ سے قرآن مجیدکادوسراسورہ ہے جب کہ یہ مدینہ میں نازل ہونے والاپہلاسورہ ہے۔

لہذا مو جودہ تر تیب زمانہ نزول کے مطابق نہیں ہے،اورمعلوم ہے کہ آیات کے ظہور کے پیش نظرترتیب کا معیار زمانہ نزول ہے۔

اگریہ کہاجائے کہ:آیات اورسورتوں کی تنظیم،پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زیرنظرانجام پائی ہے اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آیات کی مناسبت اورمعنوی نظم کو مدنظررکھتے ہوئے ہرآیہ اورسورہ کواپنی مناسب جگہ پرقراردیاہے۔اس لئے موجودہ تر تیب کا زمانہ نزول سے مختلف ہو ناسیاق کے لئے ضرر کا باعث نہیں ہے۔

جواب میں کہنا چا ئے:اگر چہ یہ نظریہ صحیح ہے کہ موجودہ صوت میں قرآن مجید کی آیات کی تنظیم اور ترتیب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نگرانی میں انجام پائی ہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں کوئی مصلحت تھی جس کے پیش نظرہر آیت یا سورہ کو ایک خاص جگہ پر قرار دیا جائے،لیکن اس کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ مصلحت نظم ومناسبت کی رعایت اورآیات کے ایک دوسرے سے معنوی رابطہ کی وجہ سے مر بوط ہے ۔

اس لحا ظ سے ہر آیت کا نزول اگر اس کی پچھلی آیات سے دلیل کی بنا پر ثابت ہوجائے تو اس میں سیاق کاوجود ہے اورجس کسی آیت کا نزول مستقل یا مشکوک ہو تو اس آیت کا گزشتہ آیت سے متصل ہونا اس کے سیاق کا سبب نہیں بن سکتا ہے۔ زیر بحث آیت کا نزول بھی مستقل ہے اور مذکورہ بیان کے پیش نظر اس میں سیاق موجود نہیں ہے۔

۱۴۲

دوسرے یہ کہ: اگر سیاق پا یابھی جائے پھر بھی گزشتہ آیت میں ثابت نہیں ہے کہ ”ولی“کا معنی دوست اور ناصر کے ہیں جیسا کہ فرماتا ہے:

( یاایّهاالّذین آمنوالا تتخذواالیهود والنصاریٰ اولیاء بعضهم اولیائ بعض ) ۔۔۔ )مائدہ/۵۱)

”ایمان والو!یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا ولی وسر پرست نہ قرار دو کہ یہ خودآپس میں ایک دوسرے کے ولی ہیں ۔“

اس آیت میں بھی) ہمارے مذکورہ اشارہ کے پیش نظر)ولایت،سر پرستی اورصاحب اختیار کے معنی میں ہے۔

تیسرے یہ کہ:اگر آیہء کریمہ میں موجودولایت دوستی یا نصرت کے معنی میں ہو تواس سے یہ لازم آ ئے گا کہ اس کا مفہوم خلاف واقع ہو، کیونکہ اس صورت میں اس کے معنی یوں ہوں گے ” بس تمہارا مدد گار یادوست اللہ اور اس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور رکوع کی حالت میں زکواة دیتے ہیں۔“جبکہ معلوم ہے کہ مومنین کے مدد گاراوردوست ان افراد تک محدود نہیں ہیں جورکوع کی حالت زکواة دیتے ہیں بلکہ تمام مومنین ایک دوسرے کے مدد گاراوردوست ہیں!

مگریہ کہ آیہ کریمہ میں ”راکعون“کے معنی”خداکی بارگاہ میں خضوع وخشوع کرنے والے کے ہیں اوریہ معنی مجازی ہیں اوررکوع کے حقیقی معنی جھکنے اور خم ہو نے کے ہیں ان مطالب کے پیش نظر،سیاق کی بات یہاں پر موضوع بحث سے خارج ہے اور اس کے وجودکی صورت میں بھی معنی مقصود کوکوئی ضررنہیں پہنچاتاہے ۔

۱۴۳

۲ ۔مذکورہ شان نزول )حالت رکوع میں حضرت علی(ع)کاانفاق کر نا)ثابت نہیں ہے۔

بعض افراد نے آیہ شریفہ کی شان نزول پراعتراض کیاہے اور کہا ہے کہ یہ واقعہ)امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کا نماز کی حالت میں انفاق کرنا اوراس سلسلہ میں ایت کا نازل ہونا)ثابت نہیں ہے۔رہی یہ با ت کہ ثعلبی نے اس داستان کو نقل کیاہے تووہ صحیح اورغیر صحیح روایتوں میں تمیزکرنے کی صلاحیت نہیںرکھتاہے،اوربڑے محدثین،جیسے طبری اورابن حاتم وغیرہ نے اس قسم کی جعلی داستانوں کونقل نہیں کیاہے؟!

جواب :

یہ شان نزول شیعہ واہلسنت کی تفسیر اورحدیث کی بہت سی کتابوں میں نقل ہوئی ہے اور ان میں سے بہت سی کتابوں کی سندمعتبرہے۔چونکہ ان سب کو نقل کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ہے،اس لئے ہم ان میں سے بعض کے حوالے حاشیہ میں ذکرکرتے ہیں(۱)

____________________

۱۔ احقاق الحق/ج۳/ص۳۹۹ تا۴۱۱، احکام القرآن جصاص/ج۲/ص۴۴۶، اربعین ابی الفوارس/ص۲۲مخطوط، ارجح المطالب/ص۱۶۹طبع لاہور )بہ نقل احقاق الحق) ، اسباب النزول/ص۱۳۳انتشارات شریف رضی، اصول کافی/ج۱/ص۱۴۳/ح ۷ وص۱۴۶/ح۱۶وص۲۲۸/ح۳ المکتبةالاسلامیہ ، انساب الاشراف/ج۲/ص۳۸۱دار الفکر، البدا یة والنہایة)تاریخ ابن کثیر)/ج۷/ص۳۷۱دارالکتب العلمیہ، بحرالعلوم)تفسیر السمر قندی)/ج۱/ص۴۴۵ دارالکتب العلمیة بیروت البحر المحیط/ج۳/ص۵۱۴مؤ سسةالتاریخ عربی، تاریخ مدینة دمشق/ج۴۲/ص۳۵۶و۳۵۷دارالفکر، ترجمة الامام امیرالمؤ منین/ج۲/ص۴۰۹و۴۱۰دار التعارف للمطبو عات، التسہیل لعلوم التنذیل/ج۱۰ص۱۸۱دارالفکرتفسیرابن کثیر/ج۲/ص۷۴دارالمعرفة بیروت، تفسیر بیضاوی/ج۱/ص۲۷۲دار الکتب العلمیہ، تفسیر الخازن/ج۱/ص۴۶۸دار الفکر، تفسیر فرات/ج۱/ص۱۲۳۔۱۲۹، تفسیر القرآن /ابن ابی حاتم/ج۴/ص۱۱۶۲المکتبةالاہلیہ بیروت، تفسیر کبیر فخررازی/ج۶/جزء۱۲/ص۲۶داراحیائ التراث العربی بیروت، جامع احکام القرآن ۔ج۶/ص۲۲۱و۲۲۲دارالفکر، جامع الاصول/ج۹/ص۴۷۸/ح۶۵۰۳داراحیائ التراث العربی، جامع البیان طبری/ج۴/جزء ۶/ص۱۸۶دار المعرفة بیروت، الجواہر الحسان/ج۲/ص۳۹۶داراحیائ التراث العربی بیروت، حاشیةالشہاب علی تفسیربیضاوی /ج۳/ص۲۵۷دار احیائ التراث العربی بیروت، حاشیةالصاوی علی تفسیرجلالین /ج۱/ص۲۹۱ دار الفکر، الحاوی للفتاوی مکتبة القدس قاہرہ)بہ نقل احقاق الحق)، الدر المنثور/ج۳/ص۱۰۵و۱۰۶ دارالفکر، ذخائر العقبی/ص۸۸ مؤسسة الوفائ بیروت، روح المعانی /ج۶/ص۱۶۷ داراحیائ التراث العربی، الریاض النضرة /ج۲/ص۱۸۲دار الند وة الجدیدة، شرح المقاصد تفتازانی/ج۵/ص۲۷۰و۲۷۱، شرح المواقف جر جانی/ج۸/ص۳۶۰، شرح نہج البلاغہ/۱بن ابی الحدید، شواہد التنزیل /ص۲۰۹ تاص۲۴۸)۲۶حدیث)، غرائب القرآن نیشاپوری/ج۲/جزء۶/ص۶۰۶/دار الکتب العلمیة بیروت، فتح القدیر)تفسیر شوکانی)/ج۲ص۶۶/دار الکتب العلمیة بیروت، فرائد السمطین /ابراہیم بن محمد جوینی /ج۱/ص۱۸۷وص۱۹۵/مؤسسة المحمودی، الفصول المہمة/ص۱۲۳و۱۲۴/منثورات الا علمی تہران، الکشاف /زمخشری/ج۱/ص۳۴۷دار المعرفة بیروت، کفایة الطالب/ص۲۴۹وص۲۵۰/داراحیائ تراث اہل البیت، کنزالعمال/ج۱۳/ص۱۰۸وص۱۶۵/مؤسسةالرسالة، اللباب فی علوم الکتاب /ج۷/ص۳۹۰ وص۳۹۸/دارالکتب العلمیة بیروت، مجمع الزوائد/ج ۷/ص۸۰/دارالفکر۔ المرا جعات/ص۲۵۷،مرقاة المفاتیح/ج۱۰/ص۴۶۲/دارالفکر مطالب السؤول/ج۱/ص۸۶ و۸۷، معالم التنزیل/ج۲/ص۴۷ المعجم الاوسط/ج۷/ص۱۲۹وص۱۳۰/مکتبة المعارف الریاض، معرفة علوم الحدیث/ص۱۰۲/دارالکتب العلمیة بیروت منا قب ابن مغازلی/ص۳۱۱/المکتبة الاسلامیة، مناقب خوارزمی/ص۲۶۴ وص۲۶۵وص۲۶۶/مؤسسة النشر الاسلامی، مواقف ایجی /ج۸/ص۳۶۰ نظم درر السمطین/ص۸۶/مطبعة القضاء)بہ نقل احقاق الحق)، النکت والعیون)تفسیر الماوردی)/ج۲/ص۴۹/مؤسسة الکتب الثقا فیةنورالابصار/ص۸۶ و۸۷/دارالفکر

۱۴۴

اس قسم کے معتبرواقعہ کوجعلی کہنا،امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی مقدس بار گاہ میں جسارت اور ان بڑے محدثین کی توہین ہے کہ جنہوں نے اس حدیث کواپنی کتابوں میں درج کیاہے!اور ثعلبی کے متعلق اس طرح کے گستاخانہ اعترا ضات کہ وہ صحیح اورغیر صحیح احادیث میں تمیز دینے کی صلا حیت نہیں رکھتاہے،جب کہ اہل سنت کے علمائے رجال نے اس کی تعریف تمجیدکی ہے اوروسیع پیمانے پر اس کو سر اہا اور نوازاہے۔ہم یہاں پرنمونہ کے طورپران میں سے صرف دوبزرگوں کے نظریات پیش کرتے ہیں:

علمائاہل سنت میں علم رجال کے ماہر نیز مشہور ومعروف عالم دین اورحدیث شناس،ذہبی،ثعلبی کے بارے میں یوں کہتے ہیں:

الإمام الحافظ العلا مة شیخ التفسیر کان اٴحد اٴو عیة العلم وکان صادقاً موثقاًبصیراً بالعربیة(۱)

”یعنی:وہ امام،حافظ،علامہ،استادتفسیرنیز ایک علمی خزانہ ہیں۔وہ سچّے،قابل اعتماداورعربی ب کے حوالے سے وسیع معلو مات اور گہری نظررکھنے والے ہیں۔“

۲ ۔عبدالغافر نیشابوری”منتخب تاریخ نیشاپوری“ کہتے ہیں:

احمد بن محمدبن ابراهیمالمقریء المفسر الواعظ،الادیب،الثقة،الحافظ،صاحب التصانیف الجلیلة من

____________________

۱۔سیر اعلام النبلاء،ج۱۷،ص۴۳۵،مؤسسہ الرسالة،بیروت

۱۴۵

تفسیر،الحاوی لانواع الفوائد من المعانی والإشارات، وهو صیحع النقل موثق به ۔“(۱)

”عبد الغافر نے ان کی اس عبارت میں توصیف کی ہے کہ احمدبن محمدبن ابراھیم مقریء)علم قرات کے ماہر)،مفسر،واعظ،ادیب،قابل اعتماد،حافظ نیز معانی اوراشارات پر قابل قدرکتابوں کے مصنف تھے۔ان کی احادیث صحیح اورقابل اعتمادہیں۔“

ثعلبی کے باوثوق ہونے اوران کی عظمت کے علاوہ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے سائل کو انگوٹھی دینے کی داستان کو صرف ثعلبی ہی نے نقل نہیں کیاہے۔بلکہ یہ واقعہ شیعہ اوراہل سنت کے حدیث اورتفسیر کی بہت سی کتابوں میں درج ہے۔یہاں تک کہ طبری اورابن حاتم نے بھی اس داستان کونقل کیاہے،جن کے بارے میں معترض نے کہاتھا:”یہ لوگ اس قسم کی داستانیں نقل نہیں کرتے ہیں“۔مناسب ہے ہم یہاں پران دو نوں افرادکی روایتوں کونقل کریں:

ابن کثیرنے اپنی تفسیرمیں بیان کیاہے:

”قال إبن ابی حاتم۔۔۔وحد ثناابو سعید الاشجّ،حدثناالفضل بندکین ابونعیم الاحول،حدثناموسی بن قیس عن سلمة بن کھیل

قال: تصدّق علی بخاتمہ وہوراکع فنزلت( إنّما ولیکم اللّٰه ورسوله والّذین آمنواالذین یقیمون الصلوٰةویؤتون الزکوٰة وهم راکعون ) ۲

اس حدیث میں ابن کثیرابن ابی حاتم کی کتاب سے صحیح سند کے ساتھ سلمتہ بن کہیل سے، حضرت علی علیہ السلام کے متعلق حالت رکوع میں اپنی انگوٹھی کو بہ طور صدقہ دینے کا واقعہ نقل

____________________

۱۔تاریخ نیشابوری ،ص۱۰۹ ۲۔تفسیر ابن کثیر،ج۲،ص۷۴

۱۴۶

کرتاہے اورکہتاہے:اس قضیہ کے بعدآیہء شریفہ( إنّماولیّکم اللّٰه ) ۔۔۔ نازل ہوئی۔ابن جریر طبری نے بھی اپنی تفسیر میں روایت نقل کی ہے:”حدثنامحمدابن الحسین قال:حدثنااحمدبن المفضل قال:حدثنااٴسباط عن السدّیعلی بن اٴبی طالب مرّ به سائل وهوراکع فی المسجد فاٴعطاه خاتمه(۱)

اس روایت میں بھی حضرت علی علیہ السلام کی طرف سے حا لت رکوع میں اپنی انگشتری کو راہ خدا میں دینے کو بیان کیا گیا ہے۔

۳ ۔کیا”إنمّا“حصرپردلالت کرتاہے؟

فخررازی نے کہاہے کہ”إنّما“حصرکے لئے نہیں ہے۔اس کی دلیل خدا وندمتعال کایہ قول ہے کہإنّمامثل الحیاة الدنیاکماء انزلناہ من السماء۔۔۔ ۲ یعنی:زندگانی دنیا کی مثال صرف اس بارش کی ہے جسے ہم نے آسمان سے نازل کیا“

بیشک دینوی زندگی کی صرف یہی ایک مثال نہیں بلکہ اس کے لئے اور بھی دوسری مثالیں ہیں،اس لئے اس آیت میں ”إنّما“حصرپردلالت نہیں کرتاہے۔

جواب:

اول یہ کہ:جس آیہء شریفہ کو فخررازی نے مثال کے طورپرپیش کیاہے،اس میں بھی ”إنمّا“حصر کے طور پراستعمال ہواہے۔لیکن حصر دوقسم کاہے:حصرحقیقی میں مخاطب کے خیال اورتصور کی نفی کی جا تی ہے، مثلا اگر کوئی کہے :”زید کھڑا ہے “ اس کے مقا بلہ میں کہاجا تا ہے:

”إنّماقائم عمرو“یعنی کھڑا شخص صرف عمروہے نہ زید۔ اس جملہ کامقصد یہ نہیں ہے کہ دنیا میں کھڑے انسان عمرومیں منحصرقراردئے جائیں،بلکہ مقصودیہ ہے کہ مقابل کے اس تصور کو زائل کیاجائے کہ زیدکھڑاہے اوراسے یہ سمجھایاجائے کہ صرف عمروکھڑاہے۔

____________________

۱۔تفسیرطبری ،ج۶،ص۱۸۶،دار المعرفة،بیروت

۲۔سورئہ یونس/۲۴

۱۴۷

آیہ کریمہ بھی اس مطلب کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ دنیا کی زندگانی کو صرف آسمان سے برسنے والے پانی کی مثال اورتشبیہ دینی چاہئے جس کے برسنے کے نتیجہ میں ایک پودااگتا ہے اور سرانجام وہ پودا خشک ہو جاتاہے،کیونکہ یہ مثال دنیاوی زندگی کے فانی اور منقطع ہو نے کی حکایت کر تی ہے ،نہ یہ کہ اس کے لئے ایک ایسی مثال پیش کی جائے جو اس کے دوام،استمرار اوربقا کی حکایت کرتی ہو۔

دوسرے یہ کہ:لغوی وضع کے لحاظ سے ”إنّما“حصر کے لئے ہے لیکن قرینہ موجود ہونے کی صورت میں غیر حصر کے لئے بھی بہ طورمجاز استعمال ہو سکتا ہے۔فخررازی کی طرف سے بہ طوراعتراض پیش کی گئی آیت میں اگر”انما“غیرحصر کے لئے استعمال ہوا ہے تو وہ قرینہ موجود ہونے کی وجہ سے بہ طورمجازی استعمال ہو اہے۔اس لئے اس آیہء شریفہ میں ”إنّما“کا حقیقی معنی وہی حصر،مقصودہے۔

۴ ۔کیا”الذین آمنوا“کا اطلاق علی علیہ السلام کے لئے مجازی ہے؟

اگر”الذین آمنوا“کہ جوجمع ہے اس سے مراد علی علیہ السلام ہوں گے تولفظ جمع کا استعمال مفرد کے معنی میں ہو گا۔یہ استعمال مجازی ہے اور مجازی استعمال کو قرینہ کے بغیر قبول نہیں کیا جاسکتا ہے۔

جواب:

اول یہ کہ:شیعہ امامیہ کی احادیث کے مطابق”الذین آمنوا“صرف امیرالمؤ منین علیہ السلام سے مخضوص نہیں ہے بلکہ اس میں دوسرے معصوم ائمہ بھی شامل ہیں۔ہماری احادیث کے مطابق تمام ائمہء معصومین اس کرامت وشرافت کے مالک ہیں کہ رکوع کی حالت میں سائل کو انگوٹھی دیں۔(۱)

____________________

۱۔اصول کافی،ج۱ص۱۴۳،ح۷وص۱۴۶،ح۱۶ وص۲۲۸،ح۳ المکیة الاسلامیہ۔کمال الدین ،ح۱،ص۲۷۴۔۲۷۹ دار الکتب الاسلا میة فرائد السبطین ،ج۱،ص۳۱۲،ح۲۵ مؤسسہ المحمودی لطاعة والنشر۔ینا بیع المودة،ص۱۱۴۔۱۱۶

۱۴۸

دوسرے یہ کہ:بالفرض اس موضوع سے ایک خاص مصداق یعنی حضرت علی علیہ السلام کاارادہ کیا گیا ہے اور یہ استعمال مجازی ہے،اس مجازی استعمال کے لئے وہ احادیث قرینہ ہیں جو اس کی شان نزول میں نقل کی گئی ہیں اور بیان ہو ئیں۔

۵ ۔کیا حضرت علی علیہ السلام کے پاس انفاق کے لئے کوئی انگوٹھی تھی؟

جیسا کہ مشہور ہے حضرت علی(علیہ السلام) فقیر اورغریب تھے اوران کے پاس کوئی قیمتی انگوٹھی نہیں تھی۔

جواب:

احادیث اورتاریخ گواہ ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام غریب اور فقیر نہیں تھے۔ حضرت(ع)اپنے ہاتھوں سے اور اپنی محنت وکوشش کے ذریعہ نہریں کھودتے تھے اور نخلستان آباد کرتے تھے،اپنے لئے مال ودولت کی ذخیرہ اندوزی نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے مال کوخدا کی راہ میں انفاق کرتے تھے۔

۶ ۔کیا)راہ خدا میں ) انگوٹھی انفاق کرنا حضور قلب)خضوع وخشوع) کے ساتھ ھم آھنگ وسازگارہے؟

حضرت علی (علیہ السلام)نمازکی حالت میں مکمل طور پرحضور قلب کے ساتھ منہمک ہو تے تھے۔جو اس طرح حضور قلب کے ساتھ یاد خدا میں ڈوبا ہوا ہووہ دوسرے کی بات نہیں سن سکتا۔اس خشوع وخضوع کے پیش نظر حضرت(ع)نے کیسے سائل کے سوال اوراس کے مدد کے مطالبہ کوسن کر اپنی انگوٹھی اس کوانفاق کی!

جواب:

حضرت علی علیہ السلام اگر چہ فطری طورپر)نمازمیں خاص حضورقلب کی وجہ سے) دوسروں کی بات پر توجہ نہیں کرتے تھے،لیکن اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ مقلب القلوب اوردلوں کو تغیر دینے والا خداوند متعال،سائل کے سؤال کے وقت آپ(ع)کی توجہ کواس کی طرف متوجہ کرے تاکہ اس صدقہ کوجوایک اہم عبادت ہے آیہء شریفہ کے نزول کا سبب قرار دے اوریہ آیہء شریفہ آپ(ع)کی شان میں نازل ہو۔

اس آیت کی شان نزول سے مربوط احادیث)جن میں سے بعض بیان کی گئیں) اس بات کی دلیل ہیں کہ آپ(ع)نے سائل کی طرف متو جہ ہو کرمذکورہ صدقہ کو اپنے ہاتھوں سے دیاہے۔

۱۴۹

۷ ۔کیا انفاق،نمازکی حالت کو توڑ نے کا سبب نہیں بنتا؟

نماز کی حالت میں انگوٹھی انفاق کرنا،نمازکی ظاہری حالت کوتوڑنے کا سبب ہے۔اس لئے حضرت(ع)سے اس قسم کا فعل انجام نہیں پاسکتا ہے۔

جواب:

جو چیزنماز کی حالت کو توڑ نے کا سبب ہے وہ فعل کثیر ہے اوراس قسم کامختصر فعل نمازکو توڑنے کاسبب نہیں ہو سکتاہے۔شیعہ فقہا اس قسم کے امورکونمازکو باطل کرنے کاسبب نہیں جانتے ہیں۔

ابوبکرجصاص کتاب”احکام القرآن“ ۱ میں ”باب العمل الیسیرفی الصلاة‘کے عنوان سے آیہء کریمہ کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:اگرآیہء شریفہ سے مراد رکوع کی حالت میں صدقہ دینا ہے تویہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز کے دوران چھوٹے اورجزئی کام مباح ہیں۔پیغمبر اکرم (ص)سے نمازکی حالت میں چھوٹے اورجزئی کام کے جائز ہونے کے سلسلہ میں چند احادیث روایت ہوئی ہیں جیسے وہ حدیثیں جو اس بات پردلالت کرتی ہیں کہ آنحضرت (ص)نے نماز کی حالت میں اپنے جوتے اُتارے اوراپنے ریش مبارک پر ہاتھ پھیرااوراپنے ہاتھ سے )کسی جگہ کی طرف)اشارہ فرمایا۔اس لئے نماز کی حالت میں صدقہ

____________________

۱۔احکام القرآن ،ج۲،ص۴۴۶،دار الکتب العلمیہ،بیروت

۱۵۰

دینے کے مباح ہونے کے بارے میں آیہء شریفہ کی دلالت واضح اورروشن ہے۔

قرطبی”جامع“ احکام القرآن ۱ میں کہتے ہیں:طبری نے کہا ہے کہ یہ)امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے توسط سے نماز کی حالت میں انگوٹھی کا بہ طور صدقہ دینا)اس بات کی دلیل ہے کہ چھوٹے اورجزئی امور نمازکو باطل نہیں کرتے ہیں،کیونکہ صدقہ دینا ایسا امر تھاجو نماز کی حالت میں انجام دیا گیا ہے اور نماز کو باطل کرنے کا سبب نہیں بنا۔

۸ ۔کیا مستحبی صدقہ کو بھی زکوٰة کہاجاسکتاہے؟

فخررازی نے کہا ہے کہ زکوٰة، کے نام کا اطلاق ”زکوٰة“واجب کے لئے ہے اورمستحب صدقہ پرزکوٰة اطلاق نہیں ہوتاہے،اس کی دلیل یہ ہے کہ خداوند متعال نے)بہت سے مواقع پر)فرمایا ہے:( وآتواالزکوٰة ) یعنی:زکوٰةاداکرو۔فعل امر واجب پر دلالت کرتا ہے۔

اب جب کہ زکوٰة، کا اطلاق صدقہ واجبہ کے لئے ہو تا ہے تواگرعلی(علیہ السلام)نے واجب زکوٰة کونماز کی حالت میں ادا کیا ہے توآپ(ع)نے ایک واجب امرکواپنے اول وقت سے موخیر کیا ہے اور یہ اکثر علماء کے نزدیک گناہ شمار ہوتا ہے۔اس لئے اس کی حضرت علی(علیہ السلام)کی طرف نسبت نہیں دی جاسکتی ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ:زکوٰة سے مراد مستحب صدقہ ہے،تویہ اصل کے خلاف ہے،کیونکہ آیہء شریفہآتواالزکوٰة سے یہ استفادہ ہوتاہے کہ جوبھی صدقہ زکوٰة کا عنوان رکھتا ہے وہ واجب ہے۔

جواب:

اول یہ کہ:آیہء شریفہ میں ذکر کی گئی زکوٰة سے مرادبیشک زکوٰہ مستحب ہے اورشان نزول کی حدیثیں اس مطلب کی تائیدکرتی ہیں۔لیکن یہ کہنا کہ”آیہء شریفہ“( آتواالزکوٰة ) میں زکوٰة سے مرادزکوٰة واجب ہے اس لئے جس چیز پرزکوٰةاطلاق ہو گا وہ

____________________

۱۔”جامع الاحکام القرآن“،ج۶،ص۲۲۱،دارالفکر

۱۵۱

واجب ہو گا“اس کاصحیح نہ ہونا واضح اورعیان ہے کیونکہ ایک طرف جملہء وآتواالزکوٰة میں وجوب پر دلالت کرنے والا لفظ”آتوا“فعلامرہے اور لفظ زکوٰة کا استعمال ماہیت زکوٰة کے علاوہ کسی اورچیز میں نہیں ہواہے۔اور ماہیت زکوٰة،واجب اورمستحب میں قابل تقسیم ہے اوریہ تقسیم کسی قرینہ کے بغیرواقع ہوتی ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وجوب واستحباب لفظ کے دائرے سے خارج ہے۔دوسری طرف سے شیعہ وسنی احادیث اورفقہاکے فتوؤں میں زکوٰة کی دوقسمیں ہیں،زکوٰةواجب اورزکوٰةمستحب لہذا یہ کہنا کہ جوبھی زکوٰةہو گی واجب ہوگی اس اطلاق کے خلاف ہے۔

دوسرے یہ کہ:آیہء شریفہ میں بہ صورت فعل امر”آتوا “نہیں آیاہے بلکہ جملہ”یؤ تون الزکوٰة“اخبارہے نہ انشاء۔اور یہ کہ آیہ شریفہ میں صدقہ سے مرادمستحب صدقہ ہے،اس کی بعض اہل سنت فقہا اورمفسرین تصدیق کرتے ہیں۔

جصاص”احکام القرآن“میں کہتے ہیں( یؤتون الزکوٰةوهم راکعون ) کاجملہ اس بات پردلالت کرتاہے کہ مستحب صدقہ کوزکوٰةکہاجاسکتاہے،کیونکہ علی(علیہ السلام)نے اپنی انگوٹھی کوصدقہ مستحبی)زکوٰة مستحبی)کے طورپرانفاق کیاہے اوراس آیہء شریفہ میں :( وماآتیتم من زکوٰةتریدون وجه اللّٰه فاٴولئک هم المضعفون ) (۱) یعنی:جوزکوٰةدیتے ہو اوراس میں رضائے خداکاارادہ ہوتاہے توایسے لوگوں کودگنا جزا دی جا تی ہے“

لفظ”زکوٰة“صدقہء واجب اورصدقہء مستحب دونوں کوشامل ہوتا ہے۔”زکوٰة کا اطلاق“واجب اورمستحب دونوں پرمشتمل ہوتاہے،جیسے نماز کا اطلاق صرف نمازواجب کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ مستحب نماز بھی اس میں شامل ہے۔(۲)

____________________

۱۔سورہ روم/۳۹

۲۔احکام القرآن،ج۲،ص۲۴۶

۱۵۲

۹ ۔کیا رکوع میں زکوٰة دینے کی کوئی خاص اہمیت ہے؟

اگررکوع سے مرادنمازکی حالت میں رکوع ہے تویہ قابل مدح وستائش نہیں ہے،کیونکہ رکوع میں انفاق کرنایانمازکی کسی دوسر ی حا لت میں انفاق کرنا اس میں کوئی فرق نہیں ہے؟

جواب:

یہ کہ آیہء شریفہ میں رکوع امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی زکوٰة کے لئے ظرف واقع ہوا ہے،یہ اس لحاظ سے نہیں ہے کہ اس حالت میں انفاق کرنا قابل تمجیدوستائش یا کسی خاص تعریف کا باعث ہے بلکہ یہ اس لحاظ سے ہے کہ سائل کا سوال حضرت(ع)کے رکوع کی حالت میں واقع ہواہے اورعلمائے اصول کی اصطلاح کے مطابق”اس سلسلہ میں قضیہ،قضیہ خارجیہ ہے اور رکوع کا عنوان کوئی خصو صیت و موضوعیت نہیں رکھتاہے۔“اور تعریف وتمجید اس لحاظ سے ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے اس حالت میں اس عبادی عمل کو انجام دیا ہے۔اگرحضرت(ع) نے رکوع میں یہ انفاق انجام نہ دیا ہو تو وہ سائل ناامیدی اور محرومیت کی حالت میں مسجد سے واپس چلاجاتا۔

۱۰ ۔کیا اس آیت کامفہوم سابقہ آیت کے منافی ہے؟

فخررازی کاکہناہے:اگریہ آیت علی(علیہ السلام)کی امامت پردلالت کرے گی تو یہ

آیت اپنے سے پہلے والی آیت کے منافی ہوگی کہ جوابوبکر کی خلافت کی مشروعیت پردلالت کرتی ہے۔

۱۵۳

جواب:

اس سے پہلے والی آیت ابوبکر کی فضیلت اوران کی خلافت کی مشروعیت پرکسی قسم کی دلالت نہیں کرتی ہے۔اس سے پہلے والی آیت یوں ہے:

( یاایّهاالّذین آمنوامن یرتدّمنکم عن دینه فسوف یاٴتی اللّٰه بقوم یحبّهم ویحبّونه إذلّةٍ علی المؤمنین اٴعزّة علی الکافرین یجاهدون فی سبیل اللّٰه ولا یخافون لومة لائم ) ۔۔۔ (سورہ مائدہ/۵۴)

”اے ایمان والو!تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پلٹ جائے گا تو عنقریب خدا ایک ایسی قوم کو لا ئے گا جس کو وہ دوست رکھتا ہو گا اور وہ لو گ بھی خدا کو دوست رکھتے ہوں گے، مؤمنین کے لئے متوا ضع اورکفارکے لئے سر سخت ہو ں گے،راہ خدا میں جہاد کرنے والے اورکسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروانہیں کریں گے-“

فخررازی نے کہاہے:یہ آیت ابوبکر کی خلافت کی مشروعیت پردلالت کرتی ہے،کیونکہ خدا وند متعال نے مؤمنین سے خطاب کیاہے کہ اگر وہ اپنے دین سے پلٹ جائیں گے توآیت میں مذکورصفات کی حا مل ایک قوم کولا ئے گاتاکہ وہ ان کے ساتھ جنگ کریں ۔پیغمبر (ص)کے بعد جس نے مرتدوں سے جنگ کی وہ تنہاابوبکرتھے۔چونکہ یہ آیت ابوبکرکی تعریف وتمجید شمار ہوتی ہے،لہذاان کی خلافت کی مشروعیت پر بھی دلالت کرتی ہے۔

فخررازی نے ابوبکر کی خلافت کو شر عی جواز فراہم کر نے کے لئے آیت میں اپنی طرف سے بھی ایک جملہ کا اضافہ کیاہے۔

آیہء شریفہ میں یہ فر مایاگیاہے:اگر تم مؤمنین میں سے کوئی بھی اپنے دین سے پلٹ جائے گاتوخداوندمتعال عنقریب ایسی ایک قوم کو بھیجے گا جن میں مذکورہ اوصاف من جملہ خداکی راہ میں جہاد کرنے کا وصف ہوگا۔

۱۵۴

آیہء شریفہ میں یہ نہیں آیاہے کہ”وہ مرتدوں سے جنگ کریں گے“لیکن فخررازی نے اس جملہ کو اپنے استدلال کے لئے اس میں اضافہ کیاہے۔

دوسری متعدد آیتوں میں بھی اس آیت کے مضمون سے مشابہ آیا ہے کہ اگر تم لوگ کافر ہوگئے توخدا وند متعال ایسے افراد کو بھیجے گا جوایسے نہیں ہوں گے۔ملا حظہ ہو:

۱۔( فإن یکفربها هؤلائ فقدوکلّنابهاقوماً لیسوابهابکافرین )

(سورئہ انعام/ ۸۹)

”اگریہ لوگ ان سے کفر اختیار کر تے ہیں)انکارکرتے ہیں)توہم ان پرایک ایسی قوم کو مسلط کر دیں گے کہ جو کفر اختیار کر نے والے نہیں ہوں گے)انکارکرنے والی نہیں ہے)

۲۔( وإن تتولّوا یستبدل قوماً غیرکم ثم لا یکونوااٴمثالکم )

(سورئہ محمد/ ۳۸)

”اوراگرتم منہ پھیر لوگے تووہ تمھارے بدلے دوسری قوم کوبھیج دے گاجواس کے بعدتم جیسے نہ ہوں گے۔

۳۔( إلاّ تنفروایعذّبکم عذاباً اٴلیماً ویستبدل قوماً غیرکم ولا تضرّوه شیئاً ) (سورئہ توبہ/۳۹)

”اگر تم راہ خدا میں نہ نکلو گے توخدا تمھیں دردناک عذاب میں مبتلاکرے گااورتمھارے بدلے دوسری قوم کو لے آئے گا اورتم اسے کوئی نقصان نہیں پہنچاسکوگے۔“

لہذااس آیت کامضمون بھی مذکورہ مضامین کے مشابہ ہے،اورآیت میں کسی قسم کی ایسی دلالت موجود نہیں ہے کہ خداوند متعال ایک قوم کو بھیج دے گا جومرتدوں سے جنگ کرے گی۔

۱۵۵

۱۱ ۔کیاآیت میں حصرائمہ معصومین )علیہم السلام)کی امامت کے منافی ہے؟

اگر آیہء شریفہ علی(علیہ السلام)کی امامت پر دلالت کرتی ہے تویہ امامیہ مذہب کے عقایدسے متناقض ہے جس طرح اہل سنت مذہب سے اس کاتناقض ہے،کیونکہ شیعہ صرف علی(ع)کی امامت کے معتقد نہیں ہیں بلکہ بارہ اماموں کی امامت پر بھی اعتقادرکھتے ہیں؟

جواب:

اول یہ کہ:مذکورہ قطعی شواہدکی بنیاد پرہمیں یہ معلوم ہواکہ آیہء شریفہ میں ولایت سے مرادسرپرستی اوررکوع سے مراد”نمازکارکوع“ہے۔اس سے واضح ہوجاتاہے کہ آیت میں پایا جا نے والاحصر،حصراضافی ہے نہ حصر حقیقی ،کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورائمہ معصو مین)علیہم السلام)کے علاوہ کچھ دوسرے اولیاء بھی ہیں،جیسے فقہا،حکام، قاضی،باپ،دادااوروصی۔اگرہم یہاں حصرسے حصرحقیقی مرادلیں توآیت ان تمام اولیاء کی ولایت کی نفی کرے،جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔یہ بذات خود ایک قرینہ ہے کہ آیہ کریمہ میں موجودحصر، حصراضافی ہے اوراس سے مرادرسول اکرم (ص)کے بعدحضرت علی علیہ السلام کی سر پرستی و ولایت ہے۔موجودہ دلائل کے پیش نظر دوسرے ائمہ علیہم السلام کی امامت ثابت ہے اوراس میں کسی قسم کا منافات نہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ:شیعہ امامیہ اوراہل سنت کی کتا بوں میں موجود متعدد روایات کےمطابق( الذین آمنوا ) سے مرادصرف حضرت علی علیہ السلام نہیں ہیں(۱) بلکہ تمام ائمہ معصو مین مذکورہ مستحبی زکوٰةکوحالت رکوع میں دینے میں کامیاب ہوئے ہیں اورآیہء کریمہ نے آغازہی میں امامت کو ان سچے اماموں میں منحصرکردیاہے۔

۱۲ ۔کیاعلی)علیہم السلام)پیغمبراکرم (ص)کے زمانہ میں بھی سرپرستی کے عہدہ پرفائزتھے؟

اگرآیہء شریفہ علی(ع) کی امامت پر دلالت کرے گی تواس کالازمہ یہ ہوگاکہ علی(علیہ السلام) پیغمبراکرم (ص)کی حیات کے دوران بھی ولی وسرپرست ہیں جبکہ ایسانہیں ہے۔

____________________

۱۔اصول کافی،ج۱،ص۱۴۳،ح۷وص۱۴۶،ح۱۶وص۲۲۸،ح۳الحکمتبةالاسلامیہ۔کمال الدین،ج۱،ص۲۷۴۔۲۷۹،دارالکتب الاسلامیة فرائدالسمطین ،ج۱،ص۳۱۲،ح۲۵۰،موسستہ المحمودی للطباعة ونشر۔ینابیع المودة،ص۱۱۴۔۱۱۶

۱۵۶

جواب:

اول یہ کہ حضرت علی علیہ السلام بہت سے دلائل کے پیش نظر پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں بھی ولی وسر پرست تھے۔لیکن یہ سر پرستی جانشینی کی صورت میں تھی۔یعنی جب بھی پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہیں ہوتے تھے،علی علیہ السلام آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین ہوا کرتے تھے۔حدیث منزلت اس کا واضح ثبوت ہے اس طرح سے کہ وہ تمام منصب و عہدے جو حضرت ہارون علیہ السلام کے پاس حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت سے تھے ،وہ سب حضرت علی علیہ السلام کے لئے پیغمبر اکرم)ص)کی نسبت سے اس حدیث کی روشنی میں ثابت ہو تے ہیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور کی طرف روانہ ہوتے وقت اپنے بھائی سے مخاطب ہوکر فرمایا:( إخلفنی فی قومی ) ”میری قوم میں تم میرے جانشین ہو“۔یہ خلافت کوہ طور پر جانے کے زمانہ سے مخصوص نہیں ہے ،جیساکہ محققین اہل سنت نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔(۱) ا س بناء پرحضرت علی علیہ السلام پیغمبراکرم (ص)کے جانشین تھے۔

دوسرے یہ کہ:فرض کریں کہ یہ ولایت کسی دلیل کی وجہ سے پیغمبراکرم (ص)کے زمانہ میں حضرت علی علیہ السلام کے لئے ثابت نہیں ہے تواس صورت میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کے بعد آیہء ولایت کا اطلاق مقید ہو گااوراس دلیل کی بناپریہ ولایت پیغمبراسلام (ص)کی رحلت کے وقت سے حضرت علی علیہ السلام کے لئے ثابت ہو جا ئے گی۔

۱۳ ۔کیا حضرت علی (علیہ السلام) کوآیہء ولایت کے پیش نظرچوتھا خلیفہ جاناجاسکتاہے؟

فرض کریں آیہء شریفہ علی (علیہ السلام) کی امامت پر دلالت کرتی ہے تویہ بات حضرت علی(علیہ السلام)سے پہلے تینوں خلفاء کی خلافت کے منافی نہیں ہے،کیونکہ اجماع اورشوریٰ کی بناپرپہلے ہم ان خلفاء کی خلافت کے قائل ہوں گے اور پھر ان خلا فتوں کے بعد آیہء ولایت پر عمل کریں گے جوحضرت(ع)کی امامت بیان کرنے والی ہے۔

_____________________

۱۔شرح مقاصد،تفتازانی ،ج۵،ص۲۷۶،منشورات الشریف الرضی

۱۵۷

جواب:

سب سے پہلے یہ کہ:مسئلہ خلافت کے سلسلہ میں اجماع اورشوریٰ کے ذریعہ استدلال و استنادا سی صورت میں صحیح ہے جب اجماع وشوریٰ کے اعتبار کے لئے معتبر دلیل موجود ہو۔اوراس سلسلہ میں اہل سنت کی طرف سے پیش کیا جانے والا استدلال شیعہ امامیہ کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ:جس شوریٰ اوراجماع کا دعویٰ کیا گیاہے،وہ کبھی امت میں واقع نہیں ہواہے۔

تیسرے یہ کہ:اجماع اورشوریٰ کی دلیل اسی صورت میں صحیح ہے کہ مسئلہ کے بارے میں کوئی نص موجود نہ ہواوراگر کسی مسئلہ کے بارے میں خدا کی طرف سے کوئی نص موجود ہے تواس مسئلہ میں نہ اجماع کسی کام کاہے اورنہ شوریٰ۔چنانچہ خداوند متعال فرماتاہے:( وماکان لمؤمن ولامؤمنة اذ اقضی اللّٰه ورسوله اٴ مراً اٴن یکون لهم الخیرة من امرهم ) (۱)

”یعنی کسی مومن مردیا عورت کویہ اختیارنہیں ہے کہ جب خداورسول کسی امر کے

بارے میں فیصلہ کردیں تووہ بھی اس امر کے بارے میں اپنا اختیارجتائے“

۱۴ ۔کیاحضر ت علی (علیہ السلام)نے کبھی آیہء ولایت کے ذریعہ احتجاج واستدلال کیا ہے؟

اگرآیہء ولایت علی (علیہ السلام) کی ولایت پردلالت کرتی ہے توکیوں حضرت (ع)نے اپنی امامت کے لئے اس آیت سے استدلال نہیں کیا؟جبکہ آپ(ع)نے شوریٰ کے دن اوردوسرے مواقع پراپنے حریفوں کے سا منے اپنے بہت سے فضائل بیان کئے ہیں۔

____________________

۱۔سورئہ احزاب/۳۶

۱۵۸

جواب:

بعض بزرگ شیعہ وسنی محدثین نے ایسے مواقع کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں حضرت علی علیہ السلام نے اپنی امامت کے سلسلہ میں دلائل پیش کرتے ہوئے من جملہ آیہء ولایت کو بھی بیان کیا ہے۔

ان میں سے ابراھیم بن محمدجوینی نے فرائدالسمطین(۱) میں اور)شیعہ علماء میں سے)ابن بابویہ نے کمال الدین(۲) میں نقل کیا ہے کہ:”حضرت علی علیہ السلام نے عثمان کی خلافت کے دوران ایک دن مسجدالنبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں مھاجر وانصار کی ایک جماعت کے سامنے اپنے فضائل بیان کرتے ہوئے اپنی شان میں ایہء ولایت کے نزول کی طرف اشارہ فرمایا۔“

ہم نے اس مفصل حدیث کوآیہء ”اولی لامر“ کی بحث کے آخرمیں ذکرکیاہے۔ کتاب”فرائدالسمطین“کے مصنف کی شخصیت کو پہنچاننے کے لئے آیہء ”اولی الامر“کی تفسیر کے آخری حصہ کی طرف رجوع کیا جائے۔

____________________

۱۔فرائد اسمطین ،ج۱،ص۳۱۲،مؤسسہ المحمودی للطبا عة والنشر

۲۔کماالدین،۱ ،ص۲۷۴

۱۵۹

پانچواں باب :

آیہء صادقین کی روشنی میں اما مت

( یاایّهاالذین آمنوااتقوااللّٰه وکونوامع الصادقین ) (سورئہ توبہ/۱۱۹)

”اے صا حبا ن ایمان!اللہ سے ڈرواورصادقین کے ساتھ ہوجاؤ“

جس آیہء شریفہ کے بارے میں ہم بحث وتحقیق کرنا چاہتے ہیں،اس پر سر سری نگاہ ڈالنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ایک اخلاقی پہلوہے مذ کورہ آیت میں تقوی کاحکم دینے کے بعد مو منین سے یہ کہا جا رہا ہے کہ صادقین کے ساتھ ہوجاؤ۔لیکن یہ بات یاد رہے کہ ہمیں ہمیشہ سرسری نگاہ کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ قرآن مجید کا ارشادہے:

( فارجع البصرهل تریٰ من فطورثمّ ارجع البصرکرّتین ) (سورہ ملک/۳۔۴)

”پھر نظراٹھاکردیکھوکہیں کوئی شگاف تو نہیں ہے۔اس کے بعدباربارنگاہ ڈالو “

خاص کر قرآن مجید میں اس کے بلندمعارف تک رسائی اوراس کے مفاہیم کی گہرائیوں تک پہنچنے کے لئے اس امر کی رعا یت بہت ضروری ہے چنانچہ بعض مواقع پر خودقرآن نے تدبرکرنے کاحکم فرمایاہے۔ہمیشہ اور بار بارغوروخوض کی ضرورت ہے۔ اس لئے قرآن مجید کے سلسلہ میں ابتدائی اورسرسری نگاہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس کی آیتوں پر تدبر اور غورو خوض کرناچاہئے۔

اگرہم اس آیہ کریمہ کا اس نقطہ نظر سے مطا لعہ کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ اس آیت کریمہ میں قرآن مجید کے ایک عظیم اور اصلی معارف، یعنی اما مت و رہبری کے مسئلہ ، کو بہترین تعبیر میں پیش کیا گیا ہے۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271