امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت0%

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 271

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

مؤلف: رضاکاردان
زمرہ جات:

صفحے: 271
مشاہدے: 98149
ڈاؤنلوڈ: 2828

تبصرے:

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 271 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 98149 / ڈاؤنلوڈ: 2828
سائز سائز سائز
امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

مصنف: رضاکاردان

مترجم: سيد قلبي حسين رضوي

۳

پیش لفظ

امامت کے بارے میں دو مشخص نظریے ہیں

پہلانظریہ:

جمہور،یعنی اہل سنّت کا ہے،جومعتقد ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی شخص کواپنے بعد،اپنے جانشین کے طورپر معرفی نہیں کیاہے اور یہ امت کی ذمہ داری تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ان کے جانشین کومنتخب کریں۔

دوسرانظریہ :

شیعہ امامیہ کا نظریہ ہے کہ وہ امامت کوخداکی طرف سے منصوب اور معین جانتے ہیں او عقیدہ رکھتے ہیں کہ امامت نبوت ہی کا ایک سلسلہ ہے اور امام کو نصب اورپیغمبرکے مانند معین کر نا خدائے متعال کی ذمہ داری ہے۔

شیعوں کے پاس اپنے نظریہ کو ثابت کرنے کے لئے ،عقل،کتا ب و سنّت کے حوالے سے بہت سے قطعی دلائل موجود ہیں ،جوکلام،تفسیر اور احادیث کی کتابوں میں بیان کئے گئے ہیں۔

اس مقدمہ میں شیعوں کے عقلی نظریہ کواس مسئلہ کے بارے میں عقل کے حکم کے مطابق واضح کیا گیا ہے۔

اس سلسلہ میں جو اقتباسات پیش کئے گئے ہیں وہ انسان کی فطری تحقیق اورغور وخوض کا نتیجہ ہے:

۱ ۔ہم جانتے ہیں کہ اسلام ایک لافانی دین ہے ،جو ہرزمانہ کے تمام لوگوں کے لئے نازل ہوا ہے۔

۲ ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے،اس دین مبین کی تبلیغ اور ترقی کے سلسلہ میں ہر ممکن کو شش کی اور اپنے تمام وسائل سے کام لیا اوراس سلسلہ میں کوئی لمحہ فروگزاشت نہیں کیا اور اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک غیرمعمولی اور ناقابل توصیف ایثاروجانثاری کا مظاہرہ کرتے رہے کی۔چنانچہ یہ مضمون کئی آیات میں بیان ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کے ایمان کے لئے اپنی جان کی قربانی دینے کے لئے نکلتے تھے:

۴

( لعلّک باخع نفسک ان لایکونوا مؤمنین ) (شعراء/۳)

”کیاآپ اپنے نفس کو ہلاکت میں ڈال دیں گے اس لئے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لارہے ہیں۔“

( فلعلّک باخع نفسک علی آثارهم ان لم یؤمنوا بهذا الحدیث اسفاً ) (کہف/۶)

”توکیاآپ شدت افسوس سے ان کے پیچھے اپنی جان خطرے میں ڈال دیں گے اگریہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائے۔“

۳ ۔اس راہ میں بہترین اورباعظمت انسانوں کی ایک بڑی تعدادنے قربانی دے کرشہادت کاجام نوش کیاہے۔

۴ ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،انسانوں کی سعادت کے لئے مختلف ابعادمیں جوکچھ مؤثر جانتے تھے ان کے لئے بیان فرماتے تھے،شیعہ اورسنّی کے فقہی فروعات او ر جزئی مسائل کے بارے میں احادیث اوراسلامی فقہ کی کتابوں میں جو کچھ وارد ہوا ہے وہ اس کا بیّن ثبوت ہیں۔

۵ ۔پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ایسی حالت میں رحلت فرمائی کہ ابھی اسلام حجاز کے تمام حدودتک بھی نہیں پھیلاتھا،چہ جائے کہ اس پیغام و شریعت کی دنیابھرمیں رسائی ہو تی ۔

۶ ۔ایسی طاقتیں موجودتھیں کہ جن کی طرف سے اسلام کے وجوداوراس کی تبلیغ و بقاء کے لئے خطرہ کا احساس کیا جاتاتھا،بالخصوص اس لئے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی اورانہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو نہ صرف قبول نہیں کیاتھا،بلکہ ان میں سے بعض نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کے مقا بلہ میں نامناسب رد عمل کا اظہاربھی کیا،جیسے کہ ایران کے بادشاہ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خط ہی پھاڑ ڈالا۔

۵

۷ ۔اس قسم کی طاقتوں کا سرکچلنے اور انھیںزیر کر نے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعدمسلمانوں کی ایک طاقتور فوج اور قطعی وفیصلہ کن رہبری کی ضرورت تھی۔

۸ ۔اقتدارپرستی اور جاہ طلبی انسان کے باطنی امور کا ایک ایسامسئلہ ہے ،کہ جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے اصحاب بھی مستثنیٰ نہیں تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد جمع ہوئے مسلمان ،جوآپ سے بے پناہ عشق ومحبت کرتے تھے،لیکن اس کے باوجود ان میں بھی بہت سے ایسے افراد موجودتھے جن کے وجود کی گہرائیوں میں پوری طرح اسلام نفوذ نہیں کرچکا تھااورا ب بھی جاہلیت کے رسم و رواج نیز،قومی اور خاندانی تعصبات کی حکو مت ان کے وجود پر سایہ فگن تھی اورہر آن یہ خطرہ لاحق تھاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآ وسلم کی رحلت کے بعد خلافت کی لالچ میں وہ ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہو جائیں۔چنانچہ بعض احادیث میں انحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ اپنے اصحاب سے فرماتے تھے کہ:”میں اپنے بعدتمہارے مشرک ہونے سے نہیں ڈرتاہوں لیکن اس چیز سے ڈرتاہوں کہ تم لوگ امور دنیاکے لئے ایک دوسرے کی رقابت کروگے۔(۱)

۹ ۔ایسے منافقین بھی موجودتھے جو ہمیشہ اسلام ومسلمین کے خلاف سازشوں میں مشغول

____________________

۱۔صحیح بخاری،ج۴،باب فی الحوض،ص۱۴۲،دارلمعرفتہ،بیروت

۶

رہتے تھے اور اس سلسلہ میں کوئی لمحہ فروگزاشت نہیں کرتے تھے،لہذا یہ خطرہ موجود تھاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد یہ لوگ اسلامی خلافت میں نفوذ کریں اورشائد ان منافقین کا ایک گروہ ابتداء اسلام ہی سے اسی لالچ کی بناء پردعوت اسلام قبول کئے ہوئے تھا۔

ہم تاریخ میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ قبائل کے بعض سردار،پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے انھیں اسلام کی دعوت دینے پر شرط رکھتے تھے کو آئندہ اسلامی حکومت میں ان کے کردار کو ملحوظ نظر رکھا جائے:

سیرئہ ابن ہشام میں یوں نقل ہواہے:

”پیغمبر اسلام (ص)،بنی عامر کے پاس تشریف لے گئے اور انھیں خدائے عزّو جل کی طرف دعوت دی اور اپنا تعارف کرایا۔ ان میں سے ایک نے آنحضرت (ص)سے یوں کہا:

اٴراٴیت ان نحن بایعناک علی امرک ثم اظهرک اللّٰه علی من خالفک ایکون لنا الامر من بعدک؟ قال: الامر الی اللّٰه یضعه کیف یشاء(۱)

”اگرہم آپ کی بیعت لیں اور آپ کی دعوت پر لبیک کہیں تو کیا آپاپنے مخالفین پرغلبہ حاصل کر نے کے بعداپنی خلا فت کے اختتام پر خلا فت کی بھاگ ڈور ہمیں سپرد کریں گے؟ آنحضرت صلی ا للہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب میں فرمایا:اس کااختیارخداکے ہاتھ میں ہے،وہ جسے چاہے اسے اس عہدہ پر مقرر کرے گا۔“

____________________

۱۔سیرئہ ابن ہشام،ج۲،ص۴۲۵،داراحیائ التراث العربی بیروت،الروض الانف ،۴،ص۱۳۸،السیرةالنبویة،سید احمدزینی دحلان،ج ۱،ص۲۸۳،داراحیائ التراث العربی ،بیروت۔

۷

۱۰ ۔یہ قضیہ ثابت شدہ اور مسلّم فطری امر ہے کہ جوبھی چند افراد کے امور کی زمام ہاتھ میں لئے ہو،انھیں سرپرست کے بغیرنہیں چھوڑتاہے،حتی اگراس کے تحت نظر بھیڑبکریاں بھی ہوں ،تووہ انھیں بھی بے سرپرست نہیں چھوڑتاہے۔

جب خلیفہ دوم اپنی زندگی کے آخری لمحات بسر کر رہے تھے تو عبداللہ بن عمرنے ان سے کہا:

انّ الناس یتحدّثون انّک غیر مستخلف و لو کان لک راعیابل اوراعی غنم ثمّ جاء و ترک رعیته راٴیت ان قد فرّط و رعیةالناس اشدّ من رعیه الابل والغنم ماذا تقول اللّٰه عزّوجل اذلقیته ولم تستخلف علی عباده (۱)

”لوگ یہ کہتے ہیں کہ آپ اپناجانشین مقررنہیں کررہے ہیں جبکہ آپ کے نزدیک اونٹوں نیزبھیڑ،بکریوں کیلئے کوئی نہ کوئی ساربان اورچرواہاہوتااوروہ مویشوں کوچھوڑکرچلاجاتا توآپ اسے قصوروارٹھراتے۔اوریہ بات مسلّم ہے کہ لوگوں کاخیال رکھنااونٹ اوربھیڑکی حفاظت و رکھوالی سے زیادہ اہم ہے۔جب خداکے بندوں کے لئے کسی جانشین کو مقررکئے بغیر آپ اس دنیاسے چلے جائیں گے تو آپ اپنے خدائے متعال کوکیاجواب دیں گے؟“

ام المو منین عائشہ بھی اس قضیہ سے استنادکرتے ہوئے ابن عمرسے کہتی ہیں:

یابنیّ بلغ سلامی وقل له لاتدع امة محمد بلا راع استخلف علیهم ولاتدعهم بعدک هملاً فانی اخشی علیهم الفتنة(۲)

”عمرکومیراسلام کہنااوراس سے کہدیناکہ امت) محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

____________________

۱۔الریاضی النضرة، ج ۲،ص۳۵۳،دارالندوةالجدیدةبیروت،سنن بیہقی ،ج۸،ص۱۴۹، دارالمعرفة بیروت، حلیةالاولیاء،ج۱ص۴۴،دارالفکر

۲۔الامامةوالسیا سة،ج۱،ص۲۳

۸

کواپنے بعد بے مہار اور سرپرست نہ چھوڑ ے اس لئے کہ میں ان میں فتنہ برپا ہونے سے ڈرتی ہوں۔“

اس کے علاوہ بھی روایت ہے کہ عبداللہ بن عمرنے اپنے باپ سے کہا:

”اے کاش!آپ اپنا ایک جانشین مقررکردیتے اگر آپ اپنی طرف سے کسی کو قیّم اور سرپرست کے عنوان سے لوگوں کے پاس بھیجتے ہیں تو کیا اس بات کوپسندنہیں کرتے ہیں کسی کواپناجانشین مقررکردیں؟انہوں نے جواب میں کہا:کیوں نہیں؟ابن عمرنے کہا: جب آپ اپنی بھیڑوں کے لئے ایک نگراں اور سر پرست مقررکر تے ہیں توکیا آپ اس بات کو پسندنہیں کرتے اپنی جگہ پرکسی کومقررکردیں؟“(۱)

معاویہ بھی یزید کی جانشینی کے سلسلہ میں اس سے استنباط کرتے ہوئے کہتاہے:

انیّ ارهب ان داع امة محمدی بعدی کا لضاٴن لاراعی لها(۲)

”میں ڈرتاہوں کہیں ام )محمد (ص))کواپنے بعدچرواہے کے بغیربھیڑبکریوں کی طرح چھوڑدوں۔“

۱۱ ۔پیغمبراسلام (ص)،جب کبھی سفر پر تشریف لے جاتے تھے تو ہمیشہ اپنی جگہ پر کسی کو جانشین مقرر فرماتے تھے اورکبھی مدینہ کو اپنے جانشین کے بغیر نہیں چھوڑتے تھے سیرت اورتاریخ کی کتابوں میں یہ مطلب بیان ہوا ہے اورجن اشخاص کوآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنا جانشین مقرر فرمایا ہے ،ان کے نام بھی کتا بوں میں درج ہیں ۔

سیرئہ ابن ہشام میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے غزوات بیان کئے گئے ہیں،اس سلسلہ میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے مدینہ میں مقررکئے گئے آپ کے جانشینوں کی فہرست

____________________

۱۔طبقات ابن سعد ،ج۳،ص۳۴۳،دار بیروت للطباعة والنشر۔

۲۔تاریخ طبری ،ج۳،جزء۵،ص۱۵۴،مؤسسہ عزالدین للطباعة والنشر،الامامة والسیاسة،ج۱ص۱۸۴ ،منشورات الشریف الرضی

۹

حسب ذیل ذکرکی گئی ہے:

۱ ۔غزوئہ بواط میں :سائب بن عثمان بن مظعون(۱)

۲ ۔غزوئہ عشیرہ میں :اباسلمةبن عبدالاسد(۲)

۳ ۔غزوئہ سفوان یعنی بدراولیٰ میں :زیدبن حادثہ(۳)

۴ ۔غزوئہ بدرکبریٰ میں :ابالبابہ(۴)

۵ ۔غزوئہ بنی سلیم میں :سباع بن عرفطة(۵)

۶ ۔غزوئہ سویق میں :عبدالمنذر)ابولبابہ)(۶)

۷ ۔غزوئہ ذی امر میں :عثمان بن غفان(۷)

۸ ۔غزوئہ فرع میں :ابن ام مکتوم(۸)

۹ ۔غزوئہ بنی قینقاع میں :بشیربن عبدالمنذر(۹)

۱۰ ۔غزوئہ احدمیں :ابن ام مکتوم(۱۰)

۱۱ ۔غزوئہ بنی النضیر میں :ابن ام مکتوم(۱۱)

۱۲ ۔غزوئہ ذات الرقاع میں :ابوذرغفاری یاعثمان بن عفان(۱۲)

۱۳ ۔غزوئہ بدر،دوم:عبداللہ بن عبداللہ بن ابی بن سلول انصاری(۱۳)

۱۴ ۔غزوئہ دومةالجندل میں :سباع بن عرفطة(۱۴)

____________________

۱۔سیرئہ ابن ہشام،ج۲،ص۲۴۸۔ ۲۔سیرئہ ابن ہشام ج،۲،ص۲۵۱ ۳۔سیرئہ ابن ہشام ،ج۲،ص۱ ۴۔سیرئہ ابن ہشام ج،۲ص۲۶۳و۲۶۴ ۵۔ج۳ص۴۹ ۶۔ج۳،ص۵۰ ۷۔ج۳،ص۴۹ ۸۔ج۳،ص۵۰ ۹۔ج۳،ص۵۲

۱۰۔ج۳،ص۶۸ ۱۱۔ج۳،ص۲۰۰ ۱۲۔ج۳،ص۲۱۴

۱۳۔سیرئہ ابن ہشام ج۳،ص۲۲۰ ۱۴۔سیرئہ ابن ہشام ج۳،ص۲۲۴

۱۰

۱۵ ۔غزوئہ خندق میں :ابن ام مکتوم(۱)

۱۶ ۔غزوئہ بنی قریظہ میں :ابن ام مکتوم(۲)

۱۷ ۔غزوئہ بنی لحیان میں :ابن ام مکتوم(۳)

۱۸ ۔غزوئہ ذی قرةمین:ابن ام مکتوم(۴)

۱۹ ۔غزوئہ بنی المصطلق میں :ابوذرغفاری(۵)

۲۰ ۔حدیبیہ میں :نمیلةبن عبداللہ لیثی(۶)

۲۱ ۔غزوئہ خیبر میں :نمیلةابن عبداللہ لیثی(۷)

۲۲ ۔فتح مکہ میں :کلثوم بن حصین(۸)

۲۳ ۔غزوئہ حنین میں : عتاب بن اسید(۹)

۲۴ ۔غزوئہ تبوک میں :محمدبن مسلمةانصاری یاسباع بن عرفطة(۱۰)

صحیح اورمشہورروایت یہ ہے کہ غزوئہ تبوک میں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نیحضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام کو اپنا جانشین مقرر فرمایا۔اس مطلب کے سلسلہ میں تاریخ اوراحادیث کی دسیوں کتابیں گواہ ہیں۔

۲۵ ۔حجتہ الوداع میں :ابودجانہ انصاری یاسباع بن عرفطہ(۱۱)

سریہ وہ جنگیں ہیں کہ جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہ نفس نفیس خود شرکت نہیں فرمائی ہے ،ایسی جنگوں میں پیغمبر )ص )کسی نہ کسی کوبہ حیثیت کمانڈر مقررفرماتے

____________________

۱۔سیرئہ ابن ہشام ،ج ۳،ص۲۳۱ ۲۔سیرئہ ابن ہشام،ص۲۴۵ ۳۔سیرئہ ابن ہشام،ص۲۹۲

۴۔سیرئہ ابن ہشام ص۳۲۱ ۵۔سیرئہ ابن ہشام،ص۳۰۲ ۶۔سیرئہ ابن ہشام،ص۳۲۱

۷۔سیرئہ ابن ہشام،ص۳۴۲ ۸۔سیرئہ ابن ہشام ،ج۴،ص۴۲ ۹۔سیرئہ ابن ہشام،ج۴،ص۹۳

۱۰۔سیرہ ابن ہشام، ج ۴، ص ۸۳ ۱۱۔سیرئہ ابن ہشام،ج۴،ص۲۴۸،داراحیائ التراث العربی،بیروت

۱۱

تھے۔یہاں تک کہ بعض جنگوں میں چندافرادکوکمانڈر کی حیثیت سے مقررفرماتے تھے،تاکہ کسی نا خوشگوارواقعہ پیش آنے کی صورت میں بلافاصلہ ترتیب سے دوسراشخص آگے بڑھ کرکمانڈری سنبھا لے۔جنگ موتہ میں پیغمبر نے زیدبن حارثہ کوکمانڈرمقررفرمایاتھا۔کسی مشکل سے دو چار ہونے کی وجہ سے ان کی جگہ پرجعفربن ابیطالب اوران کے بعدعبداللہ بن رواحہ کو کمانڈر کی حیثیت سے مقرر کیا تھا۔(۱)

بئرمعونہ میں آنحضرت (ص)نے چالیس افرادکوبھیجااورعبدالمنذربن عمرکوان کاامیر قراردیا(۲) ۔اورداستان رجیع میں فقہ کی تعلیم کے لئے چھ افرادکوبھیجااورمرثدبنابی مرثدعنوی کوان کاسردارقراردیا(۳) ۔

اب،جبکہ مذکورہ مطالب نیزان میں غور و حوض کرنے سے معلوم ہو جاتاہے کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اصل مقصدامت کی تربیت کرناتھا،چنانچہ قرآن مجیدنے فرمایاہے:

( ویزکیهم ویعلمهم الکتاب والحکمته ) (۴)

”وہ ان کے نفوذکوپاکیزہ بناتاہے اور انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتاہے۔“

آنحضرت (ص)،اپنی مسافرتوں کے درمیان چاہے وہ جس قدربھی مختصرہوتی تھی،اپناجانشین مقررکرنے میں کوتاہی نہیں فرماتے تھے اورکسی بھی گروہ کوکہیںروانہ کرتے وقت انھیں بے سرپرست نہیں چھوڑتے تھے آپاپنے مستقبل کے بارے میں پوری طرح آگاہ تھے،اس سلسلہ میں اپ کی پیشین گوئیاں موجودہیں،جن کے بارے میں شیعہ واہل سنّت کے بڑے محدثین نے اپنی حدیث کی کتابوں میں ذکرکیاہے۔اس لئے آپ اپنے بعداپنی شریعت پرحملہ آورہونے والے فتنوں سے آگاہ تھے،چنانچہ آپنے اس سلسلہ میں

____________________

۱۔سیرئہ ابن ہشام،ص،۵

۲۔سیرئہ ابن ہشام،ج۳، ص۱۹۴

۳۔سیرئہ ابن ہشام،ج۳،ص۱۸۳

۴۔آل عمران/۱۶۴

۱۲

خودخبردی ہے۔ان سب حقائق کے روشن ہونے کے بعدکیاآپاپنی جانشینی اورخلافت )جوآپکے بعداہم ترین مسئلہ اورآپ کے لئے فکرمندترین موضوع تھا)کے بارے میں کسی قسم کامنصوبہ نہیںرکھتے تھے اوراپنے بعدکسی کواپنے جانشین کی حیثیت سے منصوب و معین نہیں کرتے اور پوری طرح سے اس سے غافل وبے خیال رہتے ؟!! کیا ایسا ممکن ہے ؟!

خداوندمتعال نے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کورسالت کے لئے مبعوث کیا ہے اورآپ کی یوں توصیف کی ہے:

( ولقد جاء کم رسول من انفسکم عزیز علیه ماعنتّم حریص علیکم بالمؤمنین رؤف رحیم ) (توبہ/۱۲۸)

”یقیناتمہارے پاس وہ پیغمبرآیاہے کہ جوتمھیں میں سے ہے اوراس پرتمہاری ہرمصیبت شاق ہے وہ تمہاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتاہے اورمؤمنین کے حال پرشفیق اورمہربان ہے“

یہ ایک ایسامسئلہ ہے جسے عقل سلیم اوربیدارضمیرہرگزقبول نہیں کرتاہے اورقرآن وسنت کی قطعی دلالت اس کے برخلاف ہے۔

اس بناء پرشیعہ امامیہ کاعقیدہ یہ ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد ہونے والے امام اورخلیفہ کا اعلان اور انتخاب خدا وند عالم کی جانب سے فرمایاہے اوریہ مسئلہ قرآن مجید اورپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث میں بیان ہواہے۔

اس کتاب میں قرآن مجیدکی چندایسی آیات پربحث وتحقیق کی گئی ہے جوامامت اورائمہ علیہم السلام کی خصوصیات کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔

۱۳

مذکورہ آیات حسب ذیل ہیں:

۱ ۔آیہ ابتلا

۲ ۔آیہ مباھلہ

۳ ۔آیہ اولی الامر

۴ ۔آیہ ولایت

۵ ۔آیہ صادقین

۶ ۔آیہ تطھیر

۷ ۔آیہ علم الکتاب)آیہ شہادت)

ان آیات میں پہلے،خودآیتوں کے بارے میں بحث وتحقیق کی گئی ہے اور اس کے بعدان سے مربوط احادیث کوبیان کیاگیاہے اوران احادیث سے آیات کی دلالت میں استفادہ کیاگیا ہے۔

چونکہ اہم ان مباحث میں اہل سنت سے بھی مخاطب ہیں،اس لئے ان کے علماء اور مفسرین کانظریہ اوران کی احادیث بھی بیان کرکے علمی طورسے ان پر بحث کی گئی ہے اور اس سلسلہ میں موجود شبہات اوراعتراضات کو بیان کرنے کے بعدان کاجواب دیاگیا ہے۔

۱۴

پہلاباب :

امامت آیہ ابتلاء کی روشنی میں

( ( وإذاابتلیٰ ابرهیم ربّه بکلمات فاٴتمّهنّ قال إنّی جاعلک للنّاس إماماً قال ومن ذرّیّتی قال لا ینال عهدی الظالمین ) ) (بقرہ/۱۲۴)

”اوراس وقت کویادکروجب خدا نے چندکلمات کے ذریعہ ابراھیم علیہ السلام کاامتحان لیااورانھوںنے پوراکردیاتواس)خدا)نے کہا:ہم تم کولوگوں کا قائداورامام بنارہے ہیں۔)ابراھیم علیہ السلام)نے کہا گیا یہ عہدہ میری ذریت کو بھی ملے گا؟ارشادہواکہ یہ عہدئہ امامت ظالمین تک نہیں پہونچے گا۔“

اس آیہء کریمہ سے دو بنیادی مطلب کی طرف اشارہ ہو تاہے:

۱ ۔منصب امامت،نبوت ورسالت سے بلندترہے۔

۲ ۔منصب امامت،ظالموں اورستم گاروں کونہیں ملے گا۔

یہ مطلب تین باتوں پرمشتمل ہے:

پہلی بات:منصب امامت کابلندمرتبہ ہو نا۔

دوسری بات:منصب امامت ظالموں اورستم گاروں کونہیں ملے گا۔

تیسری بات:منصب امامت کازبان امامت سے تعارف۔

۱۵

پہلی بات

منصب امامت کابلند مرتبہ ہو نا

ہم اس آیہء شریفہ میں دیکھتے ہیں کہ خدائے متعال نے حضرت ابراھیم علیہ السلام سے بڑھاپے کے دوران نبوت رسالت کو سالہا سال گزرنے کے بعدان کی عمرکے آخری مرحلہ میں امتحان لیااور انھوں نے اس امتحان الہٰی کوقبول کیا اورکامیابی کے ساتھ مکمل کردکھا یا امامت کاعہدہ وہ ارتقائی درجہ تھا جواس عظیم ا متحان اورصبروثبات کے بعدانھیںعطاکیاگیا۔

آیہء کریمہ سے اس مطلب کو بہتر طریقہ سے واضح کرنے کے لئے،درج ذیل چند بنیادی نکات کی وضاحت ضروری ہے:

۱ ۔حضرت ابراھیم علیہ السلام کے امتحان اوران کی امامت کے درمیان رابطہ کیسا ہے؟

۲ ۔اس آیہء کریمہ میں بیان کیاگیاامتحان،کس قسم کا امتحان تھا؟

۳ ۔کیایہ کہا جاسکتاہے کہ،حضرت ابراھیم علیہ السلام کو عطا کئے گئے عہدہ امامت سے مرادان کا وہی منصب نبوت ورسالت ہی ہے؟

۴ ۔حضرت ابراھیم علیہ السلام کوعطا کی گئی امامت،کس چیزپردلالت کرتی ہے؟

۱۶

امتحان اورمنصب امامت کارابطہ

آیہء کریمہ:( واذابتلیٰ ابراهیم ربّه بکلمات فاٴتمّهنّ قال انّی جا علک للناس إماماً ) میں لفظ”إذ“ظرف زمان ہے اوراس کے لئے ایک متعلق کی ضرورت ہے۔”إذ“کامتعلق کیاہے؟

پہلااحتمال یہ ہے کہ”إذ“کامتعلق”اذکر“)یادکرو)ہے،جومخذوف اورپوشیدہ ہے،یعنی:اے پیغمبر (ص)!یاداس وقت کو کیجئے جب پروردگارنے ابراھیم علیہ السلام کا چندکلمات کے ذریعہ سے امتحان لیا۔

اس احتمال کی بنیادپرچنداعتراضات واردہیں:

۱ ۔مستلزم حذف وتقدیر)متعلق کو مخذوف اور مقدر ماننا)خلاف اصل ہے۔

۲ ۔”( إنی جاعلک للناس إماماً ) “کا اس کے پہلے والے جملہ سے منقطع ہو نا حرف عطف کے بغیرہونا لازم آتاہے۔

وضاحت:جملہء”قال انّی جاعلک“کابظاہرسیاق یہ ہے کہ وہ اپنے پہلے والے جملہ سے علٰحیدہ اورمنقطع نہیں ہے اورمعنی ومضمون کے لحاظ سے قبل والے جملہ سے وابستہ ہے،اورچونکہ اس کے لئے حرف عطف ذکرنہیں ہواہے،اس لئے بظاہر اس جملہ کے آنے سے پہلاجملہ مکمل ہوتا ہے،اوران دونوں فقروں کے درمیان ارتباط کلمہ”إذ“کے”قال“سے متعلق ہونے کی بناپرہے۔اسی صورت میں ایہء شریفہ کامعنی یوں ہوتا ہے:”جب ابراھیم علیہ السلام سے ان کے پروردگار نے امتحان لیا،توان سے کہا:میں تم کولوگوں کے لئے امام قرار دیتاہوں۔“اس بناپریہ امتحان حضرت ابراھیم علیہ السلام کو منصب امامت عطا کرنے کے لئے ایک وسیلہ اور ذریعہ تھا۔

۱۷

آیہء کریمہ کے اس مطلب پر قطعی گواہ کے لئے ایک دوسری آیت ہے کہ اس میں پیغمبروں کے ایک گروہ کے لئے صبروامامت کے درمیان رابطہ بخوبی بیان ہوا ہے:

( وجعلنا منهم ائمته یهدون بامرنا لماّصبروا وکانوا بآیاتنایوقنون ) (سجدہ/۲۴)

”اورہم نے ان میں سے کچھ لوگوں کوامام اورپیشواقراردیاہے جوہمارے امرسے لوگوں کی ہدایت کرتے ہیں،اس لئے کہ انہوں نے صبرکیاہے اورہماری آیتوں پریقین رکھتے تھے۔“

اس آیہء شریفہ میں ان پیغمبروں کوامامت ملنے کاسبب صبرویقین بیان کیاگیاہے اور یہ رابطہ حضرت ابرھیم علیہ السلام کے امتحان اورامامت کے درمیان رابطہ کوزیربحث آیت میں واضح اورروشن کرتاہے۔

۱۸

حضرت ابراھیم علیہ السلام کاامتحان

حضرت ابراھیم علیہ السلام کے امتحانات اور ان کی یہ آزمائشیں کن مسائل اور امور سے متلق تھیں کہ جس کا نتیجہ امامت کا عظیم عطیہ قرار پایاتھا۔

آیہء شریفہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ امتحان چند کلمات کے ذریعہ لیا گیا اورحضرت ابراھیم علیہ السلام نے انھیں مکمل کر دکھایا۔بظاہریہ کلمات ایک خاص قسم کے فرائض اوراحکام تھے کہ جن کے ذریعہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کا امتحان لیاگیا۔

قرآن مجیدمیں ،حضرت ابراھیم علیہ السلام کی تاریخ کے سلسلہ میں جوچیز”واضح وروشن امتحان“کے عنوان سے بیان ہوئی ہے،وہ ان کا اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کااقدام ہے:( إن هذا لهوالبلائ المبین ) (۱) بیشک یہ بڑا واضح و روشن متحان ہے)یہ)بیٹے کوذبح کرنے کااقدام)حقیقت میں وہی کھلاامتحان ہے۔یہ امتحان حضرت ابراھیم علیہ السلام کے اپنے پروردگار کے حضورمیں ایثاروقربانی اورمکمل تسلیم ہونے کامظہرتھا۔

اس مطلب کی طرف اشارہ کر نا ضروری ہے کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کایہ امتحان ان کی پیری اور بڑھاپے میں انجام پایاہے اور وہ بھی اس وقت جب ان کا بیٹاجوانی کے مرحلہ میں داخل ہوچکاتھا۔حضرت ابراھیم علیہ السلام اپنی جوانی کا مرحلہ طے کرنے تک صاحب اولادنہیں تھے۔جب بڑھاپے کے مرحلہ میں پہنچے اور اولادسے ناامیدہوئے، توخدائے متعال

____________________

۱۔ صا فات/۱۰۶

۱۹

نے انھیں اسماعیل واسحاق نام کے دو بیٹے عطاکئے اور یہ اس حالت میں تھاکہ جب ان کی نبوت اور رسالت کو سالہاسال گزرچکے تھے۔

کیااس آیت میں امامت سے مرادان کی وہی نبوت ورسالت نہیں ہے؟

خدائے متعال نے جوامامت حضرت ابراھیم علیہ السلام کوعطاکی،کیاوہ،وہی ان کی نبوت ورسالت تھی،جیساکہ بعض مفسرین نے بیان کیا ہے،یایہ امامت کوئی دوسراعہدہ ہے؟

اس سے پہلے بیان کئے گئے مطلب سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ امامت،درج ذیل دودلائل کے پیش نظرحضرت ابراھیم علیہ السلام کے پاس پہلے سے موجودنبوت ورسالت کے علاوہ تھی:

پہلے یہ کہ:یہ آیہء شریفہ اس بات پردلالت کرتی ہے کہ یہ امامت، حضرت ابراھیم علیہ السلام کوبہت سے امتحانات کے بعد عطاکی گئی ہے،کہ ان امتحانات کا ایک واضح وروشن نمونہ ان کااپنے بیٹے کو ذبح کرنے کااقدام تھاجبکہ نبوت ورسالت انھیں پہلے دی جاچکی تھی۔

دوسرے یہ کہ:آیہء کریمہ میں ”جاعلک“اسم فاعل ہے اور ادبی لحاظ سے اسم فاعل صرف اسی صورت میں اپنے مابعد پر عمل کر سکتا ہے اور کسی اسم کومفعول کے عنوان سے نصب دے سکتا ہے،جب ماضی کے معنی میں نہ ہو، ۱ بلکہ اسے حال یامستقبل کے معنی میں ہوناچاہئے۔اس بنا پرآیہء شریفہ:( إنیّ جاعلک للنّاس إماماً ) میں فاعل”جاعل“ کے دومفعول ہیں)ایک ضمیر”کاف“اوردوسرا”اماماً“)اس لئے ماضی کوملحوظ نظر نہیں قرار دیا جا سکتا۔

____________________

۱-البھجتہ المرضیتہ،مکتبتہ المفید،ج۲،ص۵-۶

۲۰