امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت21%

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 271

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 271 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 116662 / ڈاؤنلوڈ: 4493
سائز سائز سائز
امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

اٴهل بیتی و خاصّتی، فاٴذهب عنهم الرجس و طهّرهم تطهیراً“، قالها ثلاث مرّات

قالت اٴُم سلمة - رضی اللّٰه عنها -: فاٴدخلت راٴسی إلی الستر فقلت: یا رسول اللّٰه، و اٴنا معکم؟ فقال: ”إنّک إلی خیر“مرّتین“(۱)

اس حدیث میں ،حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے توسط سے ایک کھانا حاضرکرنے کے بعدپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان سے فرماتے ہیں کہ تم اپنے شوہر علی اوراپنے بیٹے حسن وحسین علیہم السلام کو بلاؤ اور وہ حضرات تشریف لاتے ہیں۔کھانا تناول کرتے وقت آیہء تطہیرنازل ہوتی ہے اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں:”خداوندا!یہ میرے اہل بیت اور میرے خواص ہیں۔تو ان سے ہر طرح کی برائی کو دورکر اورانھیں پاک وپاکیزہ رکھ۔ام سلمہ کہتی ہیں:میں نے بھی سر اٹھاکر کہا: یارسول اللہ کیامیں بھی آپ کے ساتھ ہوں؟حضرت نے دومر تبہ فرمایا:تم نیکی پر ہو۔

یہ نکتہ قابل غور ہے کہ اگر اس آیہء شریفہ کے مطابق حضرت ام سلمہ”اہل بیت“میں ہوتیں،توآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صراحتاًانھیں مثبت جواب دیتے۔لیکن قرآن مجید میں موردتائیدقرار پایا گیاآپکا خلق عظیم ہرگزآپکو اس بات کی اجازت نہیں دیتاکہ آپ ام سلمہ کو صراحتاً منفی جواب دیں۔مذکورہ جملہ جو متعدد احادیث میں آیا ہے،اس نکتہ کے پیش نظر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویوں کے ”اہل بیت“کے دائرہ سے خارج ہونے کی واضح دلیل ہے۔

____________________

۱۔الدرّالمنثور،ج۶،ص۶۰۳،دارالفکر

۲۰۱

۲ ۔”تنحی فإنّک الی الخیر “کی تعبیر

”عن العوام یعنی ابن حوشب،عن ابن عم له قال:دخلت مع اٴبی علی عائشةفساٴلتها عن علیّفقالت:تساٴلنی عن رجل کان من اٴحبّ الناس إلی رسول اللٰه ( ص ) وکانت تحته ابنته واٴحبّ الناس إلیهلقد راٴیت رسول اللّٰه ( ص ) دعا علیّاً و فاطمه و حسناً وحسیناً - رضی اللّٰه عنهم - فاٴلقی علیهم ثوباً فقال: اللّهم هؤلائ اٴهل بیتی، فاٴذهب عنهم الرجس و طهّرهم تطهیراً قالت: فدنوت منهم و قلت: یا رسول اللّٰه، و اٴنا من اٴهل بیتک؟ فقال ( ص ) :تنحیّ،فإنّک علی خیر ۔“(۱)

”عوام بن حوشب نے اپنے چچازاد بھائی سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:میں اپنے باپ کے ہمراہ عائشہ کے پاس گیا۔میں نے ان سے علی کے بارے میں سوال کیا۔عائشہ نے کہا:تم مجھ سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھتے ہو،جو پیغمبرخدا (ص)کے نزدیک محبوب ترین فردہے۔پیغمبراکرم (ص)کی عزیز ترین بیٹی ان کی شریک حیات ہے۔

میں نے رسول خدا (ص)کو دیکھا کہ آپنے علی وفاطمہ،حسن وحسین )علیہم السلام)کو بلایا اوران کے اوپر ایک کپڑے سے سایہ کیا اورفرمایا:خدا وندا!یہ میرے اہل بیت ہیں۔ان سے برائی کو دور رکھ اورانھیں خاص طور سے پاک وپاکیزہ قرار دے۔عائشہ نے کہا:میں ان کے نزدیک گئی اورکہا:یارسول اللہ! کیا میں آپ کے اہل بیت میں سے ہوں؟فرمایا:تم خیرونیکی پر ہو۔“

____________________

۱۔تفسیرابن کثیر،ج۳،ص۲۹۳،دارالمعرفة،بیروت

۲۰۲

۳ ۔”فجذبه من یدی “کی تعبیر

”عن اُم سلمة اٴن رسول اللّٰه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قال لفاطمة: ایتینی بزوجک و ابنیه فجائت بهم، فاٴلقی رسول اللّٰه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علیهم کساءً فدکیّاً ثمّ وضع یده علیهم ثمّ قال: اللّهمّ إنّ هؤلاء اهل محمد - و فی لفظ آل محمد - ، فاجعل صلواتک و برکاتک علی آل محمد، کما جعلتها علی آل ابراهیم إنّک حمید مجید قالت اٴُم سلمة: فرفعت الکساء لاٴدخل معهم، فجذبه من یدی و قال: إنّک علی خیر ۔“(۱)

”ام سلمہ سے روایت ہے کہ پیغمبرخدا (ص)نے فاطمہ(سلام اللہ علیہا)سے فرمایا:اپنے شوہراوربیٹوں کومیرے پاس بلاؤ۔فاطمہ (سلام اللہ علیہا) نے انھیں بلایا۔پیغمبرخدا (ص)نے فدکی کساء)ایک لباس جو فدک میں بناتھا)کو ان پر ڈال دیااوراس کے بعد اپنا ہاتھ ان پر رکھ کر فرمایا:

خدا وندا!یہ آل محمدہیں۔تو ان پر درود وبرکتوں کا نزول فرما،جس طرح آل ابراھیم پر ناز ل فرمایا ہے،بیشک تو لائق حمد و ستائش ہے۔

ام سلمہ نے کہا:میں نے کساء کا سرا اٹھایا تاکہ زیر کساء ان کے ساتھ ملحق ہو جاؤں۔پس پیغمبر (ص)نے اسے میرے ہاتھ سے کھیچ لیا اور فرمایا:تم خیر ونیکی پر ہو۔“

۴ ۔”ماقال:إنّک من اهل البیت “کی تعبیر

”عن عمرة بنت اٴفعیٰ، قالت: سمعت اٴُم سلمة تقول: نزلت هذه

____________________

۱۔الدر المنثورج۶،ص۶۰۴،دارالفکر۔المعجم الکبیر،ج۲۳،ص۳۳۶

۲۰۳

الآیة فی بیتی: ( إنّمایریداللّٰه ) و فی البیت سبعة: جبریل و میکائیل و رسول اللّٰه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و علی و فاطمه و الحسن و الحسین قالت: و اٴنا علی باب البیت فقلت: یا رسول اللّٰه، اٴلستُ من اٴهل البیت؟ قال: إنّک علی خیر! إنّک من اٴزواج النبی“وماقال:”إنّک من اٴهلالبیت(۱)

” عمرہ بنت افعی سے روایت ہے کہ اس نے کہا: میں نے ام سلمہ سے سنا ہے کہ وہ کہتی تھیں: یہ آیت انّما یرید الله لیذھب عنکم الرجس اھل البیت میرے گھرمیں اس وقت نازل ہوئی ، جب گھر میں سات افراد تھے: جبرئیل ، میکائیل، پیغمبرخدا (ص)،علی وفا طمہ، حسن و حسین)علیہم السلام)۔ام سلمہ نے کہا: میں گھر کے دروازہ کے پاس کھڑی تھی اور میں نے کہا: یا رسول الله! کیا میں اہل بیت میں سے نہیں ہوں؟ فرمایا: تم نیکی پر ہو، تم پیغمبر کی بیویوں میں سے ہو “ اور آپ نے نہیں فرمایا:” تم اہل بیت میں سے ہو۔“

۵ ۔”لا، وانت علی خیر “کی تعبیر

” عن عطیة، عن اٴبي سعید، عن اٴمّ سلمة اٴن النبیّ ( ص ) غطّی علی علیّ و فاطمه و حسن وحسین کساءً، ثمّ قال: هؤلاء اٴهل بیتی، إلیک لا إلی النار قلت امّ سلمة:فقلت: یا رسول الله، و اٴنا معهم؟ قال: لا، واٴنت علی خیر(۲)

____________________

۱- مشکل الآثار، ج۱، ص۳۳۳، دارالباز۔ تاریخ مدینة دمشق ج ۱۴،صفحہ۱۴۵ دارالفکر

۲ - تاریخ مدینة دمشق، ج۱۳، ص۲۰۶، دارالفکر۔ حدیث کی سندیوں:

اخبرنا ابو عبد الله الفراوی و ابو المظفر الفشیری، قالا: انا ابوسعد الادیب، انا ابو عمرو بن حمدان ، و اخبرتنا امّ المجتبی العلویّه، قالت: قریئ علی إبراهیم بن منصور انا ابوبکر بن المقریء قالا:انا ابوبعلی، نا محمد بن اسماعیل بن ابي سمینة، نا عبدالله بن داوود، عن فضیل عن عطیة

۲۰۴

عطیہ،ابی سعید،ام سلمہ سے روایت ہے کہ پیغمبر اکرم (ص)نے ایک کساء کو علی وفاطمہ،حسن وحسین علیہم السلام پر ڈال دیااور فرمایا:خداوندا!یہ میرے

اہل بیت ہیں تیری بار گاہ میں نہ کہ آگ کی طرف۔ام سلمہ نے کہا:میں نے کہا یارسول اللہ! کیامیں بھی ان کے ساتھ)اہل بیت میں شامل )ہوجاؤں؟فرمایا:نہیں ،تم نیکی پر ہو۔“

سندحدیث کی تحقیق:

”ابو عبدالله فراوی محمدبن فضیل بن احمد“ ذہبی کا اس کے بارے میں کہناہے:” شیخ ، امام، فقہ، مفتی، مسند)علم حدیث کے معروف عالم) خراسان اور فقیہ حرم“ سمعانی کہتے ہیں: میں نے عبدالرشید طبری سے مرومیں سنا کی وہ کہتے تھے: الفراوی ہزار راویوں کے برابر ہے۔)سیر اعلام النبلاء ج ۱۸ ، ص ۷۳ موسسہ الرسالہ) ” ابوسعد ادیب کنجرودی“، ذہبی اس کے بارے میں کہتے ہیں: شیخ، فقیہ، امام، ادیب، نحوی طبیب، مسند خراسانی) سیراعلام النبلاء، ج ۱۸ ، ص ۱۰۱) سمعانی اس کے بارے میں کہتے ہیں: ” وہ ادیب، فاضل، عاقل، خوش رفتار، باوثوق اورسچاتھا“)الانساب ،ج ۵ ، ص ۱۰۰ ، دارالکتب العلمیہ، بیروت۔)

”ابو عمرو بن حمدان“ ذہبی اس کے بارے میں کہتا ہے:“ شیخ صالح ، قابل وثوق ہے )سیراعلام النبلاء، ج ۱۸ ،ص ۷۳)

”ابو بکربن المقری،محمد بن ابراھیم“اس کے بارے میں ذھبی کہتے ہیں:شیخ حافظ اورسچا ہے“)سیراعلام النبلاء،ج ۱۶ ،ص ۳۹۸)

”ابویعلی“صاحب مسند،احمد بن علی بن مثنی،محدث موصل)سیراعلام النبلاء،ج ۱۴۰ ،ص ۱۷۴)

۲۰۵

”محمد بن اسماعیل بن ابی سمینہ“ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں ابوحاتم وصالح بن محمد سے نقل کیا ہے کہ وہ ثقہ اور قابل اعتماد ہے۔)تہذیب التہذیب،ج ۹ ،ص ۵۰ ،دارالفکر)

”عبداللہ بن داؤد“مزی نے اس کے بارے میں محمد بن سعد سے طبقات میں نقل کیا ہے کہ وہ ثقہ اور عابد تھا)تہذیب الکمال،ج ۴ ،ص ۴۵۸)

”فضل بن غزوان“ابن حجر نے اس کے بارے میں کہا ہے:احمداور ابن معین نے کہاہے:وہ ثقہ ہے۔اورابن حبان نے”کتاب الثقات“میں اس کا ذکر کیا ہے۔تہذیب التہذیب،ج ۸ ،ص ۲۶۷)” عطیہ)بن سعد)اس کے بارے میں تہذیب التہذیب ج ۷ ،ص ۲۰۰ سے استفادہ ہوتا ہے کہ:وہ ابن سعد کی طرف سے قابل وثوق قرار پایا ہے۔اورابن معین نے)ایک روایت میں )اسے شائستہ جانا ہے اورعلم رجال کے بعض علماء نے اس کی تعریفیں کی ہیں اوراس کی حدیثوں کی تائید کی ہے اس کا جرح کرنے والے جیسے نسائی جرح کرنے میں سخت گیر ہیں اہل سنت کے اہل فن ودرایت اور علم حدیث کے علماء جیسے تہانوی نے کتاب”قواعدفی علوم الحدیث“ص ۱۱۷ میں ،اس قسم کی جرح کرنے والے افراد کونا قابل اعتبار جانا ہے اورعطیہ ان افراد میں سے ہیں کہ جنھیں امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب کے خلاف سب وشتم سے انکار کرنے پر حجاج کی طرف سے چارسو کوڑے مارے گئے ہیں جودین کے معاملہ میں اس طرح ثابت قدم اورپائیدار ہو،وہ کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا ہے۔ممکن ہے اہل رجال کی اس کے بارے میں جرح و تنقیداس کے شیعہ ہونے کی وجہ سے ہو۔

۲۰۶

۶ ۔”فوالله ما انعم “کی تعبیر

”۔۔۔عن الاعمش عن حکیم بن سعدقال:ذکرنا علیّ بن ابی طالب - رضی اللّٰہ عنہ - عندامّ سلمة!قالت:فیہ نزلت: إنّمایرید اللّٰہ۔۔۔ !

”قالت:اٴُم سلمة:جاء النبیّ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم إلی بیتیفجلّلهم نبیّ اللّٰه بکساءفنزلت هذه الآیةفقلت:یارسول اللّٰه، واٴنا؟ قالت:فواللّٰه مااٴنعم، وقال:إنّک إلی خیر ۔“(۱)

اس حدیث میں ،پیغمبراسلام (ص)نے جب علی وفاطمہ،حسن وحسین (علیہم السلام) کو کساء کے نیچے قرار دیا پھر آیہء تطہیر نازل ہوئی۔ام سلمہ نے سوال کیا:یارسول اللہ !کیا میں بھی ہوں ؟لیکن انھوں نے مثبت جواب نہیں سنا،پریشان ہوئیں اوراپنی پریشانی کاان الفاظ میں اظہار کیا:”فواللہ،ماانعم“یعنی:خدا کی قسم پیغمبرخدا (ص)نے نہیں فرمایا:”ہاں“بلکہ صرف یہ فرمایا:”تم نیکی پر ہو۔“

۷ ۔”مکانک،انت علی خیر “کی تعبیر

”عن شهر بن حوشب، عن اٴُم سلمة:إن رسول اللّٰه( ص) اٴخذ ثوباً فجلّله علی علیّ وفاطمةوالحسن والحسین ثمّ قراٴت هذه الآیة:( إنّما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الرجس اٴهل البیت ویطهّرکم تطهیراً ) قالت:فجئت لاٴدخل معهم، فقال:مکانک،اٴنت علی

____________________

۱۔جامع البیان طبری،ج۲۲،ص۷،دارالمعرفة،بیروت۔تفسیرابنکثیرج۳ص۴۹۳،دارالمعرفة،بیروت

۲۰۷

خیر(۱)

اس حدیث میں ام سلمہ کہتی ہیں:پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علی وفاطمہ،حسن و حسین)علیہم اسلام)کو ایک پارچہ کے نیچے قرار دیا اور اس کے بعد آیہ تطہیر ک قرات فرمائی۔ جب میں اس پارچہ کے نزدیک گئی تا کہ اس کے نیچے داخل ہو جاوں،تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اپنی جگہ پر بےٹھی رہو،تم خیر و نیکی پر ہو۔

____________________

۱۔تاریخ مدینة دمشق،ج۱۴،ص۱۴۱،دارالفکر۔اس حدیث کی سند یوں ہے:”اخبرنا ابوطالب بن ابی عقیل: انا ابو الحسن الخلعی: انا ابو محمد النحاس:انا ابوسعید بن الآعرابی:ناابو سعید عبدالرحمن بن محمدبن منصور:ناحسین الآشقر:نا منصور بن ابی الآسود،عن الآعمش،عن حبیب بن ابی ثابت ،عن شهر بن حوشب،عن ام سلمة

۲۰۸

سند کی تحقیق:

”ابوطالب بن ابی عقیل بن عبدالرحمن ذہبی “نے اسے ایک دیندار بزرگ جانا ہے۔)سیراعلامالنبلاء،ج ۲۰ ،ص ۱۰۸ ،موسةالرسالة)

”اابوالحسن الخلمی علی بن الحسین“ذہبی نے اس کی شیخ امام،فقیہ،قابل اقتداء اور مسند الدیار المصریة جیسے القاب سے تعریف کی ہے)سیراعلام النبلاء،ج ۱۹ ،ص ۷۴)

”ابومحمد النحاس اورذہبی“کا اس کے بارے میں کہنا ہے:شیخ امام،فقیہ،محدث، سچا اورمسندالدیار المصریہ تھا)سیر اعلام النبلاء ج ۱۷ ،ص ۳۱۳)

”ابو سعیدابن ا لآعرابی احمد بن محمدبن زیاد“اورذہبی نے اس کے بارے میں یہ تعبیرات استعمال کی ہیں:امام،محدث،قدوة)یعنی رہبری اور قیادت کے لئے شائستہ)سچا،حافظ اور شیخ الاسلام )سیر اعلام النبلاء ج ۱۵ ،ص ۴۰۷

”ابوسعید عبدالرحمن بن محمد بن منصور“ابن حبان نے کتاب الثقات ج ۸ ،ص ۳۸۳ موسةالکتب الثقافیة میں اس کا نام لیا ہے۔

”حسین ا لآشقرالغزاری“ابن حبان نے اس کا نام کتاب الثقات میں لا یا ہے ۔اور احمدبن حنبل نے اس کے بارے میں کہا ہے:وہ میرے نظر میں جھوٹ بولنے والوں میں سے نہیں ہے اورابن معین سے اس کے سچے ہو نے کے بارے میں سوا ل کیا ۔اس نے جواب میں کہا:جی ہاں)تہذیب التہذیب،ج ۲ ص ۹۱ دارالفکر)

اس کے بارے میں بعض مذمتیں کی گئی ہیں،وہ اس کے مذہب کے بارے میں ہیں اورحجت نہیں ہیں۔”منصور بن ابی ا لآسود“ابن حجر نے اس توثیق)مورد اعتماد ہونے)کو ابن معین سے نقل کیا ہے۔ اور کہا ہے کہ ابن حبان نے اسے کتاب الثقات میں )مورد اعتماد افراد کے زمرہ میں ذکر کیا ہے۔)تہذیب التہذیب ،ج، ۱۰ ص ۲۷۱ ،دارالفکر،

”الآعمش“ کے موثق اورسچے ہو نے میں کلام نہیں ہے اورصحیح بخاری وصحیح مسلم میں اس سے کا فیاحادیث نقل کی گئی ہیں اور اس کی راستگوئی کا یہ عالم تھا کہ بعض اہل سنت علمائے حدیث نے اس کے سچے ہو نے کومصحف سے تشبیہ دیدی ہے )تہذیب التہذیب ج، ۴ ،ص ۱۹۶ ،دارالفکر”حبیب بن ابی ثابت“اس کے موثق اور راستگو ہو نے میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں ہے اور صحاح میں اس سے بہت ساری حدیثیں نقل ہوئی ہیں)تہذیب التہذیب ج ۲ ،ص ۱۵۶)

”شہر بن حوشب“ابن حجر نے،معین،عجلی اور یقوب بن شیبة سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے اسے موثق)قابل اعتماد وثوق) تعبیر کیا ہے)تہذیب التہذیب ج ۴ ،ص ۳۲۵ ،دارالفکر۔)

۲۰۹

ایک دوسری حدیث میں یہ تعبیر نقل ہوئی ہے:”اٴنت بمکانک وانت خیر(۱) ایک اور تعبیرمیں آیا ہے ”اجلسی مکانک، فانک علی خیر(۲) اپنی جگہ پر بیٹھی رہو،تم خیر پر ہو۔

۸ ۔”فوددت اٴنة قال :نعم “کی تعبیر

”عن عمرة الهمد انیة قالت: اٴتیت اٴ مّ سلمة فسلمت علیها،فقالت: من اٴنت ؟ فقلت :عمرة: یا اٴم المومنین اٴخبرینی عن هذا الرّجل الذّی قتل بین اظهرنا، فمحبً و مبغض ترید علیّ بن اٴبی طالب قالت اٴمّ سلمة:اٴتحبًینه اٴم تبغضیبه؟ قالت ما اٴحبّه ولا اٴبغضه فاٴنزل الله هذه الّایة( انما یرید الله ) … إلی آخرها، ومافی البیت إلا جبرئیل ورسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وعلیّ وفاطمه و الحسن والحسین علیهم السلام فقلت : یا رسول الله، اٴنا من اٴهل البیت؟ فقال: إنّ لک عنداللهخیراً، فوددت اٴنه قال: ”نعم“ فکان اٴحبّ إلی من تطلع علیه الشمس و تغربه“(۳)

” عمرہ ہمدانیہ سے روآیت ہے کہ اس نے کہا : میں ام سلمہ کی خدمت میں گئی اور ان سے سلام کیا: انھوں نے پو چھا : تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں عمرہ ہمدانیہ ہوں۔ عمرہ نے ام سلمہ سے کہا:اے ام المئومنین مجھے اس شخص کے بارے میں کچھ بتایئے جسے کچھ مدت پہلے قتل کردیا گیا )مرادعلی بن ابےطالب علیہ السلام ہیں) بعض لوگ انھیں دوست رکھتے ہیں اور بعض دشمن۔

ام سلمہ نے کہا: تم انھیں دوست رکھتی ہو یا دشمن؟ عمرہ نے کیا: میں نہ انھیں دوست

____________________

۱- تاریخ مدینہ دمشق ،ج ۱۴،ص۱۴۵، دارالفکر

۲-شواہد التنذیل، ج۲،ص۱۱۹

۳-مشکل الا ثار،ج۱، ص۳۳۶، طبع مجلس دائرة المعارف النظامیہ بالھند

۲۱۰

رکھتی ہوں اور نہ دشمن ) بظاہر یہاں پر آیہ تطہیر کے نزول کے بارے میں چند جملے چھوٹ گئے ہیں اور اس کے بعدکی عبارت یہ ہے) اور خداوند متعال نے یہ آیت( إنما یرید الله ) اس حالت میں نازل فر مائی کی جب گھر میں جبرئل، پیغمبر خدا (ص)، علی وفاطمہ، حسن و حسین )علیہم السلام) کے علاوہ کوئی موجود نہ تھا۔

میں نے کہا: یا رسول الله: کیا میں اہل بیت میں ہوں؟ آنحضرت (ص)نے فرمایا: تیرے لئے خدا کے پاس خیر و نیکی کی صورت میں جزا ہے۔

میری آرزو یہ تھی کہ)میرے سوال کے جواب میں ) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے: ”جی ہاں“ اور وہ میرے لئے اس سے بہتر تھا جس پر سورج طلوع و غروب کرتا ہے۔“

فتنحّی لی عن اٴهل بیتی “ کی تعبیر

” عن ابی المعدل عطیة الطفاوي عن اٴبیه، اٴنّ امّ سلمة، حدثتة قالت:بینارسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم في بیتي، إذقال الخادم : إن علیا وفاطمه بالسدًة: قالت: فقال لي: قوميفتنحّي ليعن اٴهل بیتي فد خل عليّ و فاطمة و معهما الحسنوالحسین قالت: فقلت و اٴنا یا رسول الله؟ فقال: واٴنت“ (۱)

اس حدیث میں ام سلمہ سے روآیت ہے، انھوں نے کہا : رسول خدا (ص)میرے گھر میں تشریف فرما تھے کہ خادم نے کہا: علی اور فاطمہ )علیہماالسلام) دروازہ پرہیں۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اٹھو اور میرے اہل بیت سے دور ہو جاؤ اس کے بعد علی او رفاطمہ حسن اور حسین (علیہم السلام) داخل ہوئے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے حق میں دعا کی: ” خدا وند! میرے اہل بیت تیری طرف ہیں نہ کہ آگ کی

____________________

۱- تاریخ مدینة دمشق، ج ۱۳،ص۲۰۳-۲۰۲،دارلفکر

۲۱۱

طرف “ام سلمہ نے کہا: یا رسول الله ! میں بھی ؟فرمایا: تم بھی۔

واضح ر ہے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پہلے ام سلمہ کو )حدیث میں )اپنے اہل بیت کے مقابلہ میں قرار دیتے ہیں جو ان کے اہل بیت سے خارج ہو نے کا واضح ثبوت ہے۔ اس کے بعد انھیں دعا میں یعنی آگ سے دور رہنے میں شریک فرما تے ہیں۔

۱۰ ۔”إنک لعلی خیر، ولم ید خلنی معهم “کی تعبیر

” عن العوام ین حوشب، عن جميع: التیمی انطلقت مع امّي، إلی عائشة، فد خلت اٴمّي، فذهبت لاٴدخل فحجتني، و ساٴلَتها اٴمّي عن عليّ فقالت: ماظنّک بر جل کانت فاطمة والحسن و الحسین إبناه، و لقد رآیت رسول الله التفع علیهم بثوب و قال: ”اللّهم هولائ اٴهلياٴذهب عنهم الرجس و طهرهم تطهیراٴ“ قلت: یا رسول الله، اٴلست من اٴهلک؟ قال:” انّک لعلی خیر“،”لم ید خلنيمعهم(۱)

”جم یع تیمی سے روآیت ہے کہ اس نے کہا: میں اپنی والدہ کے ہمراہ عائشہ کے پاس گیا میری والدہ نے ان سے علی)علیہ السلام) کے بارے میں سوال کیا۔ انہوں نے جواب میں کہا: تم کیا خیال کرتی ہو اس شخص کے بارے میں جس کی شریک حیات فاطمہ (علیہماالسلام) اورجس کے بیٹے حسن و حسین )علیہماالسلام) ہوں۔میں نے دیکھا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک کپڑے کے ذریعہ ان پر سایہ کیا اور فرمایا: یہ میرے اہل بیت ہیں۔ خداوندا! ان سے برائی کو دور رکھ اور انھیں خاص

____________________

۱۔شواھدالتنزیل،ج۲،ص۶۲۔۶۱

۲۱۲

طریقہ سے پاک و پاکیزہ قرار دے۔ میں نے کہا: یا رسول الله! کیا میں آپ کے اہل سے نہیں ہوں؟ فرمایا: تم نیکی پر ہو۔ اور مجھے ان میں داخل نہیں کیا۔

۱۱ ۔”فوالله ماقال :انت معهم “کی تعبیر

”عن اٴُم سلمة فجمعهم رسول اللّٰه حوله و تحته کسائ خیبریّ، فجلّلهم رسول اللّٰه جمیعاً، ثمّ قال: اللّهمّ هؤلاء اٴهل بیتی فاٴذهب عنهم الرجس وطهّرهم تطهیراً فقلت: یارسول اللّٰه،واٴنا معهم؟ فواللّٰه ما قال: ”و اٴنت معهم“ و لکنّه قال: ” إنّک علی خیر و إلی خیر“ فنزلت علیه: ( إنّما یرید اللّٰه ) (۱)

”اس حدیث میں بھی کہ جو ام سلمہ سے روایت ہے،پیغمبراکرم (ص)نے علی و فاطمہ،حسن وحسین(علیہم السلام) کو کساء کے نیچے قراردیااوران کے حق میں دعاکی۔ام سلمہ نے کہا:یارسول اللہ! کیا میں بھی ان کے ساتھ ہوں؟)چونکہ مثبت جواب نہیں سنا اس لئے کہا:)خدا کی قسم آپ نے نہیں فرمایا:”تم بھی ان کے ساتھ ہو“لیکن فرمایا:”تم نیکی پر ہواورنیکی کی طرف ہو“۔اس کے بعد آیہء( إنّما یریدالله ) نازل ہوئی۔“

۱۲ ۔إنّک لعلی خیر،وهؤلائ اهل بیتی “کی تعبیر

”عن عطائ بن یسار،عن اٴُمّ سلمة -رضی اللّٰه عنها - اٴنّها قالت: فی بیتی نزلت هذه الآیة:( إنّما یرید اللّٰه ) فاٴرسل رسول اللّٰه( ص) إلی علی و فاطمة والحسن والحسین

____________________

۱۔شواھد ا لتنزیل،ج۲،ص۱۳۴۔۱۳۳

۲۱۳

فقال: اللّهمّ هؤلائ اٴهل بیتی قالت اٴُمّ سلمة: یارسول اللّٰه،مااٴنامن اٴهل البیت ؟قال:إنّک لعلی خیر،وهؤلائ اٴهل بیتی اللّهمّ اٴهلی اٴحق“هذا حدیث صحیح علی شرط البخاری،ولم یخرجاه ۔(۱)

یہ حدیث بھی ام سلمہ نے روایت کی ہے کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے علی وفاطمہ ،حسن وحسین) علیہم السلام )کو بلاوابھیجا اوران کے آنے کے بعد فرمایا:

خدا وندا!یہ میرے اہل بیت ہیں ۔ام سلمہ نے کہایا رسول اللہ!کیا میں اہل بیت میں سے نہیں ہوں؟فرمایا:تم خیر ونیکی پر ہواوریہ میرے اہل بیت ہیں۔خداوندا!میرے اہل بیت سزاوار تر ہیں۔

حدیث کو بیان کرنے کے بعدحاکم نیشاپوری کا کہنا ہے:بخاری کے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے،لیکن اس نے اسے ذکر نہیں کیا ہے۔

درعلی و فاطمہ پر آیہء تطہیر کی تلاوت

بعض حدیثیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ پیغمبرخداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہرروزصبح یاروزانہ نماز پنچگانہ کے وقت در علی و فاطمہ) علیہما السلام) پر آکر آیہء تطہیرکی تلاوت فرماتے تھے۔یہ حدیثیں بھی چند مختلف گرہوں میں منقسم ہیں کہ موضوع کے طولانی ہو نے کے باعث ہم صرف ان کے عنا وین کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔

بعض احادیث دلالت کرتی ہیں کہ یہ کام ایک ماہ(۲) تک جاری رہا اور بعض احادیث اس

____________________

۱۔المستدرک علی الصحیحین،تفسیر سورئہ احزاب ،ج۲،ص۴۱۶،دارالمعرفة،بیروت

۲۔مندابی داؤد طیالسی ،ص۲۷۴،دارالکتاب ا للبنانی

۲۱۴

کی مدت چالیس(۱) روز، بعض چھ مہینے،(۲) بعض سات مہینے(۳) ،بعض آٹھ مہینے(۴) ،بعض نو مہینے(۵) ،بعض د س مہینے اوربعض احادیث میں اس کی مدت سترہ مہینے(۶) بتائی گئی ہے۔

ان احادیث کے بارے میں دو نکتے قابل توجہ ہیں:

۱ ۔یہ حدیثیں) کہ ہرایک ان میں سے ایک خاص مدت کی طرف اشارہ کرتی ہے) ایک دوسرے سے منافات نہیں رکھتی ہیں کیونکہ ہرصحابی جتنی مدت آنحضرت صلی للہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھا،اس نے اسی مدت کو بیان کیا ہے اوراحیاناً اگرایک صحابی نے دومختلف احادیث میں دو مختلف مدتیں بیان کی ہیں،تو ممکن ہے اس نے ایک مرتبہ کم مدت اوردوسری مرتبہ زیادہ مدت کا مشاہدہ کیا ہوگا۔

مثلاً ابوالحمراء نے ایک حدیث میں مذکورہ مدت کو چھ مہینے اوردوسری حدیث میں سات مہینے اورتیسری حدیث میں آٹھ مہینے،یادس مہینے یاسترہ مہینے کی مدت بیان کی ہے ان میں سے کوئی حدیث بھی ایک دوسرے سے منافات نہیں رکھتی ہے۔

۲ ۔پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اتنی طولانی مدت تک اس عمل کاپے درپے انجام دینا اس حقیقت کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے کہ لفظ”اہل بیت کہ“جو اس وقت عرفی معنی میں استعمال ہوتا تھا اب اس کے جدید اوراصطلاحی معنی میں یعنی علی وفاطمہ،حسن وحسین علیہم السلام کے لئے یا

___________________

۱۔مجمع الزوئد ،ج۹،ص۲۶۴،ح۱۴۹۸۷،دارالفکر۔الدرالمنثور ج۶،ص۶۰۶شواہدالتنزیل ،ج۲،ص۴۴،موسة الطبع والنشر لوزرارة الارشاد الاسلامی

۲۔جامع البیان طبری، ج۲۲، ص۵۔۶، دارالمعرفة،بیروت۔مجمع الزوائد، ھیثمی ،ج۹، ص۲۶۶، ح۱۴۹۸۵۔انساب الاشراف،ج۲،ص۳۵۴۔۳۵۵ دارالفکر،المنتخب من مسند احمد،ج ۳،ص۴۹۲، دارالمعرفة،بیروت اوردوسری کتابیں۔

۳۔جامع البیان ،طبری،ج۲۲،ص۶،دارالمعرفة،بیروت۔تفسیر ابن کثیر،ج۳ ص۲۹۲،دارالمعرفة، بیروت۔ فتح القدیر،ج۴،ص۳۵۰،دارالکتب العلمیہ،بیروت

۴۔الدرالمنثور،ج۵،ص۶۱۳،وج۶،ص۶۰۶،دارالفکر۔

۵۔المنتخب من مسند بن حمید،ص۱۷۳،عالم المکتب۔ذخائر المقبی ص۲۵،موسةالوفاء، بیروت۔ الدرالمنثور،ج۶،ص۶۰۲،دارالفکر۔شوھدالتنزیل، ج۲،ص۲۷

۶۔مجمع الزوائد،ج۹،ص۲۶۷،ح۱۴۹۸۶،دارالفکر،شواھد التنزیل ،ج۲،۸۷

۲۱۵

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ضمیمہ کے ساتھ استعمال ہو کردر حقیقت ایک نئی حالت پیدا کرچکا ہے۔اس لفظ کے بارے میں یہ انتہائی مہم نکتہ آیہء تطہیر کے ذیل میں بیان کی گئی تمام احادیث مثلاًحدیث ثقلین وحدیث سفینہ اوران جیسی دوسری حدیثوں میں بہت زیادہ روشن و نمایاں ہے۔

آیہء تطہیر کا پنجتن پاک (علیہم السلام) کے بارے میں نازل ہونا

احادیث کا ایک اورگروہ ہے جن میں آیہء تطہیر کے نزول کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،علی وفاطمہ،حسن وحسین علیہم السلام کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔ان میں سے بعض احادیث میں یہ مطلب خود پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے،جیسے یہ حدیث:

” عن ابی سعید الخدری قال: قال رسول اللّٰه ( ص ) نزلت هذه الآیة فی خمسة:فیّ و فی علی و حسن وحسین وفاطمة ( إنّما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الرجس اهل البیت ویطهّرکم وتطهیراً ) (۱)

____________________

۱۔جامع لبیان ،طبری،ج۲۲،ص۵،دارالمعرفة۔بیروت میں اس حدیث کی سند یوں ہے:حدثنی محمد بن المثنی قال:ثنابکر بن یحیی بن زبان العنزی قال:ثنا)حدثنا) مندل،عن الآعمش عن عطیة عن ابی سعید الخدری ۔

اس سند میں ”بکر بن یحیی بن زبان“ ہے۔چنانچہ ان کا نام تہذیب التہذیب،۱،ص۴۲۸ دارالفکر،میں درج ہے۔ابن حبان نے اسے ”کتاب ا لثقات“)جس میں ثقہ راوی درج کئے گئے ہیں)میں درج کیا ہے۔

ابن حجر نے”مندل“)بن علی) کے بارے میں تہذیب التہذیب ،ج۱۰،ص۲۶۵،میں ذکر کیا ہے کہ یعقوب بن شیبہ اوراصحاب یحیی)بن معین)اور علی بن مدینی نے اسے حدیث میں ضعیف جانا ہے جبکہ وہ خیّر،فاضل اور راستگوہیں اوراسی کے ساتھ ساتھ وہ ضعیف الحدیث بھی ہیں ۔اس بیان سے واضح طور پر معلو م ہو تا ہے کہ جومذمتیں اس کے بارے میں ہوئی ہیں وہ اس کی احادیث کے جہت سے ہے اورجیسا کہ عجلی نے اس کے بارے میں کہا ہے،۔اس کے شیعہ ہونے کی وجہ سے ہیں۔

حدیث کا ایک اورراوی”اعمش“)سلیمان بن مہران) ے کہ اس کے موثق ہونے کے بارے میں رجال کی کتا بوں میں کافی ذکرآیا ہے،من جملہ یہ کہ وہ راستگوئی میں مصحف کے مانند ہے)تہذیب التہذیب،ج۴،ص۱۹۶،دارالفکر)

حدیث کا ایک اورراوی ”عطیہ بن سعد عرفی“ہے کہ اس کے بارے میں ”لا و انت علی خیر “ کی تعبیر کی تحقیق کے سلسلہ میں بیان کی گئی ۔

۲۱۶

۔۔۔ابی سعید خدری سے روایت ہے کہ پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے فرمایا: یہ آیت پنجتن پاک(علیہم السلام) کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ جس سے مرادمیں ،علی ،حسن،حسین اورفاطمہ )علیہم السلام)ہیں۔

دوسری احادیث میں بھی ابوسعید خدری سے ہی روایت ہے اس نے اس آیت کے نزول کو پنجتن پاک علیہم السلام سے مربوط جانا ہے۔جیسے یہ حدیث :

”عن اٴبی سعید قال: نزلت الآیة فی خمسة نفر - و سمّاهم - ( إنّما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الرجس اٴهل البیت و یطهّرکم تطهیراً ) فی رسول اللّٰه و علیّ و فاطمة و الحسن و الحسین علیهم السلام(۱)

ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ اس نے کہا:آیہء ا( ٕنّمایرید الله ) پانچ افراد کے بارے میں نازل ہوئی ہے:رسول اللہ (ص)علی وفاطمہ،حسن وحسین (علیہم السلام) “

ابوسعید خدری سے اورایک روایت ہے کہ )عطیہ نے)کہا:میں نے اس سے سوال کیا:اہل بیت کون ہیں؟)ابوسعید نے جواب میں )کہا:اس سے مراد پیغمبر (ص)، علی وفاطمہ،حسن وحسین(علیہم السلام) ہیں۔(۲)

اس سلسلہ کی بعض احادیث ام سلمہ سے روایت ہوئی ہیں کہ آیہء شریفہ پنجتن پاک کے بارے میں نازل ہوئی ہے،جیسے مندرجہ ذ یل حدیث:

” عن اٴم سلمة قالت: نزلت هذه الآیة فی رسول الله ّٰ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و علیّ و فاطمة و حسن و حسین - علیهم السلام - :( إنّما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الرجس اٴهل البیت ویطهّرکم تطهیراً ) (۳)

____________________

۱۔تاریخ مدینةدمشق،ج۱۳،ص۲۰۶،دارالفکر

۲۔تاریخ مدینة دمشق،ج۱۳،ص۲۰۷،دارالفکر ۳۔تاریخ مدینة دمشق،ج۱،ص۳۳۲

۲۱۷

”ام سلمہ سے روایت ہے کہ اس نے کہا:یہ آیت)آیہء تطہیر) پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علی و فاطمہ ،حسن و حسین )علیھم السلام)کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔“

آیہء تطہیر اوراس سے مربوط احادیث کے بارے میں دونکتے

اس سلسلہ میں مزید دواہم نکتے قابل ذکر ہیں:

۱ ۔اب تک جوکچھ ہم نے بیان کیا ہے اس سے یہ مطلب واضح ہوجاتا ہے کہ لفظ ”اہل بیت“میں ”بیت“سے مراد رہائشی بیت)گھر) نہیں ہے۔کیونکہ بعض افرادجیسے:ابی الحمراء، واثلہ،ام ایمن اورفضہ اس گھر میں ساکن تھے،لیکن ان میں سے کوئی بھی”اہل بیت“کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔

نیزاس کے علاوہ”بیت“سے مراد نَسَب بھی نہیں ہے ۔کیونکہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا عباس ا وران کے فرزند،جن میں بعض نَسَب کے لحاظ سے علی علیہ السلام کی نسبت پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قریب تھے وہ بھی اہل بیت میں شامل نہیں ہیں)البتہ عباس کے بارے میں ایک حدیث نقل کی گئی ہے کہ سوالات کے باب میں اس پر بحث کریں گے)۔

بلکہ اس بیت)گھر)سے مرادنبوت کا”بیت“ہے۔کہ جس میں صرف ”پنجتن آل عبا داخل“ہیں اور وہ اس بیت)گھر)کے اہل اورمحرم اسرار ہیں۔اس سلسلہ میں آیہء شریفہ( فی بیوت اذن اللّٰه اٴن ترفع ویذکرفیهااسمه ) (۱) نور خدا ان گھروں میں ہے جن کے بارے میں خداکی طرف سے اجازت ہے کہ ان کی بلندی کا اعتراف کیا جائے اوران میں خدا کانام لیا جائے)کے ذیل میں بیان کی گئی سیوطی(۲) کی درجہ ذیل حدیث قابل توجہ ہے:

” اٴخرج ابن مردویه عن اٴنس بن مالک و بریده قال: قراٴ رسول اللّٰه هذه الآیة( : فی بیوت اٴذن اللّٰه اٴن ترفع ) فقام إلیه رجل

____________________

۱۔سورئہ نور/۳۶

۲۔الدرالمنثور،ج۶،ص۲۰۲،دارالفکر

۲۱۸

فقال قال: اٴیّ بیوتٍ هذه یا رسول اللّٰه؟ قال: بیوت الآنبیاء فقام إلیه اٴبوبکر فقال: یا رسول اللّٰه هذا البیت منها؟ البیت علی وفاطمة؟ قال: نعم من اٴفا ضلها ۔“

”ابن مردویہ نے انس بن مالک اوربریدہ سے روایت کی ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس آیت: فی بیوت اُذن اللہ ۔۔۔ کی قرات فرمائی۔ایک شخص نے اٹھ کرسوال کیا:یہ جوبیوت)گھر)اس آیت میں ذکر ہوئے ہیں ان سے مرادکونسے گھر ہیں؟ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب میں فرمایا:انبیاء)علیہما السلام)کے گھر میں ۔ابوبکراٹھے اورکہا:یارسول اللہ!کیا ان میں علی و فاطمہ)علیہا السلام)کا گھر بھی شامل ہے؟ آنحضرت (ص)نے فرمایا:جی ہاںوہ ان سے برتر ہے۔“

۲ ۔ان احادیث پر غورو خوض کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ ان میں ایک حصر کا استعمال کیا گیاہے اور وہ حصر،حصراضافی کی ایک قسم ہے۔یہ حصر پیغمبراکرم (ص)کی بیویوں اورآپکے دوسرے ر شتہ داروں)جیسے عباس اوران کے فرزندوں)کے مقابلہ میں ہے یہ حصران احادیث کے منافی نہیں ہے،جن میں اہل بیت سے مراد چودہ معصومین علیہم السلام یعنی پیغمبر،علی وفاطمہ،حسن وحسین اوراوردوسرے نوائمہ معصومین )علیہم السلام)کو لیا گیا ہے ۔اول خودآیہء تطہیر کی دلیل سے کہ اس میں صرف( لیذهب عنکم الرجس ویطهرکم ) ۔۔۔ پر اکتفا نہیں کیا گیا ہے بلکہ موضوع کا عنوان”اہل بیت“قراردیاگیا ہے۔ حدیث کساء میں صرف پنجتن پاک کا زیرکساء آنااورپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسط سے ان کے لئے دعا کیا جا نا اس بناپر تھا کہ اس وقت اس محترم خاندان سے صرف یہی پانچ افراد موجود تھے ورنہ شیعوں کے تمام ائمہ معصومین علیہم السلام،من جملہ حضرت مہدی علیہ السلام”اہل بیت“ کے مصداق ہیں۔

۲۱۹

چوتھے امام حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے ایک حدیث میں اپنے آپ کو”اہل بیت“کا مصداق جانتے ہوئے آیہء تطہیر سے استناد کیا ہے۔(۱) نیزشیعہ واہل سنت سے حضرت مہدی) عج) کے بارے میں نقل کی گئی بہت سی احادیث کے ذریعہ ان کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت میں شمار کیاگیا ہے۔(۲)

حدیث ثقلین )جس کے معتبر ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے نیز متواتر ہے )میں پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن مجید اوراپنے اہل بیت کے بارے میں فرمایا ہے:

”۔۔۔فانّها لن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض (۳)

”یہ دو )قرآن مجیداوراہل بیت) ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک حوض کوثرپر مجھ سے ملیں گے۔“

اس بیان سے استفادہ ہوتا ہے قرآن مجید اور اہل بیت کے در میان لازم و ملزم ہو نے کا رابطہ قیامت تک کے لئے قائم ہے اور یہ جملہ اہل بیت کی عصمت پردلالت کر تا ہے اور اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ ہرزمانے میں اہل بیت طاہرین میں سے کم ازکم ایک شخص ایسا موجود ہوگا کہ جو اقتداء اور پیروی کے لئے شائستہ وسزاوار ہو۔

اہل سنت کے علماء میں بھی بعض ایسے افراد ہیں کہ جنہوں نے حدیث ثقلین سے استد لال کرتے ہوئے اس مطلب کی تائید کی ہے کہ ہرزمانہ میں اہل بیت معصومین (ع)میں سے کوئی نہ کوئی ضرور موجود ہوگا۔(۴)

جن احادیث میں اہل بیت کی تفسیرچودہ معصومین(ع)سے کی گئی ہے،ان میں سے ہم

____________________

۱۔تفسیر ابن کثیر،ج۳،ص۴۹۳

۲۔کتاب منتخب الاثر کی طرف رجوع کیا جائے۔

۳۔حدیث کے مختلف طریقوں سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے ”کتاب اللہ واہل البیت فی حدیث الثقلین“کی طرف رجوع کیا جائے۔

۴۔جواھر العقدین،سمھودی،ص۲۴۴،دارالکتب العلمیہ البیروت۔”الصواعق المحرقة“ فصل ”اہل بیت حدیث ثقلین میں “ابن حجر۔

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

والوں كو اٹھائے گا؟

لوگوں نے كہا '' جى ہاں'' ہم شہادت ديتے ہے''_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' خدايا گواہ رہنا'' بيشك ميں دوسرے جہان ميں جانے اور حوض كوثر كے كنارے پہنچنے ميں تم پر سبقت لے جاؤں گا _ اور تم حوض پر ميرے پاس حاضر ہوگے _ وہاں ستاروں كى تعداد ميں چاندى كے جام اور پيالے ہوں گے _ ديكھنا يہ ہے كہ تم ميرے بعد ان دو گراں بہا چيزوں سے كيا سلوك كرتے ہو جو ميں تمہارے درميان چھوڑے جارہا ہوں؟

مجمع ميں سے ايك شخص نے بلند آواز سے كہا '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہ دو گراں قدر چيزيں كيا ہيں؟ فرمايا جو بزرگ ہے وہ كتاب خدا ہے جو تمہارے درميان اللہ كى مضبوط رسى ہے اور دوسرے ميرے اہل بيتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عترت ہيں _ خدائے مہربان اور عالم نے مجھے بتايا ہے كہ يہ دونوں ہر گز ايك دوسرے سے الگ نہيں ہوں گے يہاں تك كہ حوض (كوثر) پر ميرے پا س پہنچيں گے قرآن و عترت سے آگے نہ بڑھنا اور ان دونوں كى پيروى سے منہ نہ موڑنا ورنہ ہلا ك ہوجاؤ گے_

اس كے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علي(ع) كے ہاتھ كو پكڑا اور اتنا بلند كيا كہ دونوں كى بغل كى سفيدى نماياں ہوگئي اور لوگوں نے ان كو ديكھا اور پہچانا_

پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' اے لوگو اہل ايمان پر خود ان سے زيادہ حقدار كون ہے؟'' لوگوں نے كہا '' خدا اور اس كا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہتر جانتا ہے _'' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا:

''بيشك خدا ہمارا مولا ہے اور ميں مومنين كا مولا ہوں اور مومنين كے نفسوں سے اولى اور زيادہ حقدار ہوں _ لہذا جس كا ميں مولا ہوں على (ع) اس كے مولا ہيں _(۹) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

۲۶۱

نے اس بات كو تين بار اور حنبلى حضرات كے پيشوا ، احمد بن حنبل كے قول كے مطابق چار بار تكرار فرمايا اس كے بعددعا كے لئے ہاتھ بلند كركے فرمايا

'' بارالہا تو اس كو دوست ركھ جو اسے (علي) دوست ركھے اور اس كو دشمن ركھ جو اس سے دشمنى كرے اس سے محبت فرما جو اس (على (ع) ) سے محبت كرئے اور اس كو مبغوض قرار دے جو اس (على (ع) ) سے بغض كرئے، اس كے دوستوں كى مدد فرما او رجو اس كو رسوا كرے اسے ذليل فرما اور اسے حق كا مدار و محور قرار دے ''(۱۰)

پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرماياكہ'' حاضرين غائبين تك يہ پيغام پہنچاديں'' ابھى مجمع پراگندہ بھى نہيں ہوا تھا كہ جبرئيل امين ، وحى الہى لے كر آپہنچے اور آيہ كريمہ '( اليوم اكملت لكم دينكم و اتممت عليكم نعمتى و رضيت لكم الاسلام دينا ً ) (۱۱) نازل ہوئي_

'' آج ميں نے تمہارے دين كو كامل كرديا ، تم پر اپنى نعمتيں تمام كرديں اور تمہارے لئے دين اسلام كو پسند كر ليا ہے ''_اس موقعہ پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا: دين كے كمال ، نعمت كے اتمام اور ميرى رسالت و على كى ولايت پر خداوند متعال ك-ے راضى ہوجانے كے پر مسرت موقعہ پر ، '' اللہ اكبر'' (اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بلند آواز سے تكبير كہي) اس كے بعد مسلمانوں نے على ابن ابيطالب(ع) كو امير المومنين كے عنوان سے مبار ك باد دى اور سب سے پہلے ابوبكر و عمر ، حضرت على (ع) كى پاس آئے اور كہا '' مبارك ہو مبارك ہو ، اے ابوطالب (ع) كے بيٹے آج سے آپ(ع) ہمارے اور تمام مومنين كے مولا ہوگئے ''_

پھر شاعر انقلاب اسلام ، حسان بن ثابت نے كہا يارسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اگر جازت ہو تو ميں اس سلسلہ ميں كچھ اشعار پڑھوں _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا خدا كى بركت سے پڑھو_ اور حسان نے فى البديہہ واقعہ غدير خم كو

۲۶۲

اشعار ميں بيان كيا _ ہم يہاں ان كے اشعار ميںسے تين شعر نقل كررہے ہيں _

يناديهم يوم الغدير نبيّهُم

بخُم فَاسْمَع بالرّسول مناديا

فقال لهم: قم يا على فَانَّني

رضيتك من بعدى اماما ً ''و هاديا''

فمن كنت مولاه فهذا وليّه

فكونوا له اتباعَ صدْق مواليّا

يعنى غدير كے دن پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں كو آواز دى ، كيا آواز رسا تھى على (ع) سے فرمايا كہ اٹھو ميںنے تمہيں اپنے بعد لوگوں كى ہدايت اور امامت كے لئے منتخب كيا _

ميں جس كا مولا ہوں على اس كے ولى ہيں ، لہذا از روئے صدق و راستى ان كے پيرو اور دوست بن كر رہو _(۱۲)

۲۶۳

سوالات

۱_ كو ن سى تاريخ كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حجة الوداع كے لئے تشريف لے گئے؟

۲_ غدير كے دن مسلمانوں كا كتنا مجمع تھا؟

۳_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قافلہ روكنے كا حكم كيوں ديا؟

۴_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غدير كے دن حضرت على (ع) كے بارے ميں كيا فرمايا؟

۵_ غدير كے واقعہ كے بعد كون سى آيت نازل ہوئي؟

۲۶۴

حوالہ جات

۱_مغازى واقدى ج ۳ص ۱۰۸۹ _سيرت ابن ہشام ج ۴ص۲۴۸_

۲_اہل سنت كى چند دوسرى كتابوں ميں اس طرح لكھا ہے كہ ''نبى اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تم علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كيا چاہتے ہو؟علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مجھ سے ہيں اور ميں ان سے ہوں اور وہ ميرے بعد ہر مومن كے ولى وسرپرست و صاحب اختيار ہيں _ ترمذى ج ۵ ص ۶۳۲_ مستدرك حاكم ج ۳ص ۱۱۰_۱۱۱_البداية والنہاية ج ۷ ص ۳۴۵_اسد الغابہ ج ۴ ص ۱۰۷_۱۰۸ _ مسند احمد ابن حنبل ج ۵ ص ۳۵۶_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۲۵۰ ، تاريخ طبرى ج ۳ ص ۱۴۹

۳_ يہ تقرير سيرت كى مختلف كتابوں ميں دو طريقوں سے نقل كى گئي ہے ايك '' عرفہ ميں تقرير'' كے عنوان سے اور دوسرى '' منى ميں تقرير'' كے عنوان سے تفصيلات كيلئے رجوع كريں: مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۱۰۳_سيرت ابن ہشام ج۴ _ تاريخ يعقوبى ج۲ ص ۱۱۰ طبرى ج ۳ ص ۱۵۰_

۴_ مغازى واقدى ميں '' اياس بن ربيعة بن حارث '' ذكر ہوا ہے_

۵_انّى تَاركٌ فيْكُمُ الثَّقَلَيْن كتَاب اللَّه وَ عتْرَتى انْ تَمَسَّكْتُمَْ بهما لَنْ تَضّلُوا _ يہ عبارت اہل سنت كى جن معتبر كتابوں ميں مختصر انداز سے ذكر كى گئي ہے ان ميں سے چند كے نام مندرجہ ذيل ہيں _ صحيح مسلم ج ۷ ص ۱۲۲ _ سنن ترمذى ج ۲ ص ۳۰۷_ سنن دارمى ج ۲ ص ۱۴و۱۷و۲۶و۵۹_ خصائص نسائي ص ۳۰_مستدرك حاكم ج ۳ ص ۱۰۹_ كفاية الطالب ج ۱ ص ۱۱_ طبقات ابن سعد ج ۴ ص ۸ _ عقد الفريد ج ۲ ص ۳۲۶و ۱۵۸_ اسد الغا بة ج ۲ ص ۱۲_ حلية الاوليا ج ۱ ص ۳۵۵_ تذكرة الخواص ص ۳۳۲_ منتہى الارب _ مصابيح السنة ج ۲ ص ۲۰۵_۲۰۶

۶_ سيرت ابن ہشام ج ۳،۴، ص ۶۰۳ _تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۱۱۰ _ مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۱۰۳_ طبرى ج ۳ ص ۱۵۰ _

۷_( يَا اَيُّهَا الرَّسُولُ بَلّغْ مَا اُنْزلَ الَيْكَ منْ رَّبّكَ وَ انْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رسَالَتَهُ وَ اللّهُ يَعْصمُكَ منَ النّاس انَّ اللّهَ لاَ يَهْدى الْقَوْمَ الْكَافريَْن ) (مائدہ/۶۸)

۲۶۵

۸_مكہ اور مدينہ كے راستہ ميں جحفہ ايك بيابان ہے جہاں غدير خم واقع ہے يہاں سے ہر كارواں جدا ہو كر اپنے ديار كى طرف چلا جاتا ہے_

۹_من كنت مولاه فهذا على مولاه

۱۰_اللّهُمَّ وَالَ مَنْ وَالاهُ وَ عَاد مَنْ عَادَاهُ وَاَحَبّ مَنْ اَحَبَّهُ وَ اَبْغض مَنْ اَبْغَضَهُ وَ انْصُرْ مَنْ نَصَرَهْ وَ اْخْذُلْ مَنْ خَذََلَه وَ اَدْر الْحَقَ مَعَهُ حَيْثُ دَار _

۱۱_ سورہ مائدہ آيت ۳

۱۲_ الغدير ج ۱ ص ۹تا ۱۲_ تفسير الميزان ج ۶ ص ۵۳ تا ۵۹ _ علامہ امينى مرحوم نے گيارہويں جلدپر مشتمل اپنى عظيم اور تحقيقى كتاب الغدير ميں حديث غدير كو ايك سو دس اصحاب كى زبانى نقل كيا ہے نيز آپ نے غدير كے بارے ميں اہل سنت كے محدثين ومورخين كے اقوال كو ذكر فرمايا ہے_ يہ بھى ياد دلانا ضرورى ہے كہ يہ كتاب فارسى زبان ميں ترجمہ ہو گئي ہے _

۲۶۶

سولہواں سبق

شورشيں

اسود عنسى كا واقعہ

يمن ميں انقلابى بغاوت

مسيلمہ كذاب كا واقعہ

جھوٹے پيغمبر كى طرف ميلان كا سبب ''قومى تعصب''

جھوٹوں كا انجام

رحلت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وقت كے حالات كا تجزيہ

لشكر اسامہ كى روانگي

اہل بقيع كے مزار پر

واقعہ قرطاس يا نامكمل تحرير

ناتمام نماز

وداع پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

يہ نور ہرگز نہيں بجھے گا

سوالات

۲۶۷

شورشيں

حجة الوداع سے واپسى كے بعد تھكن كى شدت كى بناپر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چند دنوں تك بيمار رہے اس دوران آپ كى تھكاوٹ اور طبيعت كى ناسازى كى خبر چاروں طرف پھيل گئي اور موقعہ كى تلاش اور فائدہ كے چكر ميں رہنے والے افراد نے پيغمبرى كا دعوى كرديا_'' مسيلمہ كذاب'' نے يمامہ اور نجد ميں خود كو پيغمبر اور'' رحمان اليمامة ''كہا _ ''اسود عنسي'' نے يمن ميں خود كو پيغمبر كہا اور شورش كا آغاز كرديا_ اس كے علاوہ'' سجاح ''نامى عورت اور'' طليحہ'' نامى ايك شخص نے بھى اس طرح كے دعوى سے لوگوں كو دھوكہ دينا شروع كرديا _ اس فتنہ كى جڑيں بہت پھيلى ہوئي تھيں ان دھوكہ بازوں نے قومى اور قبائلى تعصب سے فائدہ اٹھا يا اور ايك جماعت كو اپنے گرد جمع كرليا اور جب ان كو قدرت حاصل ہوگئي تو اپنى حكومت و سلطنت كو وسعت دينے لگے_

اسود عنْسيّ كا واقعہ

نمونہ كے طور پر اَسوَد عنسى كا واقعہ پيش ہے جس كو پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ناسازگارى طبع كى خبر نے نبوت كے لالچ ميں ڈال ديا اس نے يمن ميں زمانہ جاہليت كے طور طريقوں اور رسوم

۲۶۸

كو كتب عتيق كے قوانين كے ساتھ ملاكر ايك نئے نقطہ خيال كى بنياد ركھى وہ ايك كاہن اور شعبدہ باز تھا جو الٹى سيدھى باتوں كو مسجعّ اور مقفّى بنا كر اس طرح پيش كرتا كہ جو بھى سنتا بد دل ہو جا تا _ جنگجوئي ميں بڑا سنگدل اور چالاك تھا_ظلم و ستم ميں لوگوں كى جان و مال كى پروا نہيں كرتا تھا_

اَسوَدعنسيّ نے اپنے سپاہيوں كے ساتھ چند دنوں ميں نجران پر قبضہ كرليا اور بلافاصلہ يمن كے دار السلطنت صنعا ء پر حملہ كرديا_'' شہر ابن باذام''(۱) ايرانى جو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى طرف سے آزادہ شدہ اور اس علاقہ پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم سے حكومت كرتے تھے ، انہوں نے لشكر تيار كيا تا كہ اسود كے راستہ كو روك ليں ليكن شورشيوں كے فورى حملہ كى بنا پر شہر ابن باذام كا لشكر ، اسود كے لشكر كا كچھ نہ كر سكا اور شہر ابن باذام اس حملہ ميں شہيد ہو گئے_

اسود عنسيّ كامياب اور كاميابى سے مغرور ہو كر صنعاء ميں داخل ہوا _ اعرابى جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھى دوبارہ اسود كے ہاتھوں اسلام سے خارج ہونے لگے گروہ در گروہ قبائل نے اس كى بيعت كرلى اور خود كو اس كے حوالہ كرديا _ تھوڑى ہى مدت ميں اسود نے تمام يمن ، طائف، بحرين اور حدود عدن پر تسلط جماليا _ان علاقوں ميں باقى ماندہ مسلمانوں نے بھى خوف سے سكوت اختيار كر ليا _اسود نے شہر ابن باذام كى بيوى ''آزاد '' كو زبردستى اپنى بيوى بناليا_(۲)

يمن ميں انقلابى بغاوت

بستر علالت ہى سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدعيان نبوت كے ساتھ جنگ كے لئے نمائندے بھيجنا اورخط لكھنا شروع كيئے_(۳)

۲۶۹

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ايك خط ميں يمن كے ايرانى ، سركردہ افراد كو حكم ديا كہ دين مقدس اسلام كے دفاع كےلئے قيام كريں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پيغام كو دينداورں ، با حميت و غيرت مند افراد تك پہنچائيں اور كوشش كريں كہ فساد كى جڑ اَسود عنسى كو خفيہ يا آشكار ا طور پر ختم كيا جا سكے_(۴)

يمن كے آزاد ايرانيوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فرمان كے مطابق اسلام پر باقى رہ جانے والے قبائل كو اپنے ساتھ تعاون كے لئے بلايا اورجب يہ معلوم ہواكہ اسود اور سپہ سالار لشكر قيس ميں اختلاف ہے تو انہوں نے قيس كے سامنے نہايت خاموشى سے اس موضوع كو پيش كيا اور اس طرح سپہ سالار لشكر كو اپنے ساتھ ملاليا_(۵)

اسود كے قصركے اندرونى معلومات حاصل كرنے كے لئے ''آزاد'' سے رابطہ قائم كيا گيا جو شہر ابن باذام كى بيوى اور اسود كے تصرف ميں تھي_

'' آزاد'' ايك آزادى پسند، شير دل، مؤمنہ اور باعزت خاتون تھيں ان لوگوں كى مدد كى لئے اٹھ كھڑى ہوئيں اور مفيد و قيمتى راہنمائيوں كے ذريعہ انھوں نے مومنين كو اسود كے قتل پر آمادہ كيا _ قصر مكمل طور پر نگہبانوں كى نگرانى ميں تھا_ '' آزاد'' كى راہنمائي ميں ايك سرنگ كے ذريعہ جو اَسوَد عنسى كے كمرہ ميں پہنچتى تھى رات كو جب وہ نيم خوابيدگى كے عالم ميں تھا ، انقلابى مومنين نے حملہ كرديا _ فيروز نے اس كا سر زور سے ديوار سے ٹكرا ديا اور اس كى گردن مروڑدى _اسود كى آواز وحشى گائے كى طرح بلند ہوئي آزاد نے فوراً ايك كپڑا اس كے منہ ميں ٹھونس ديا _ پہرہ دارمحل كے اندر ہونے والى چيخ پكار سے مشكوك ہوگئے اور كمرہ كى پشت سے انہوں نے پوچھا كہ خيريت تو ہے؟ '' آزاد'' نے نہايت اطمينان سے جواب ديا _'' كوئي بات نہيں ہے پيغمبر پر وحى آرہى ہے'' اس طرح انقلابى مومنين اپنى مہم ميں كامياب ہوئے اور پيغمبرى كے جھوٹے دعويدار كو دوزخ ميں پہنچا ديا_دوسرے دن صبح

۲۷۰

مسلمانوں نے اسلامى نعرے لگائے اور كلمہ شہادتين زبان پر جارى كيا _ اَشْہَدُ اَنْ لاَ الہَ الاَّ اللّہ اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمّدا رَسُولُ اللّہ _ اور اعلان كيا كہ لوگو اَسوَ د ايك جھوٹے شخص سے زيادہ كچھ نہ تھا اس كے بعد اس كا سر لوگوں كى طرف پھينك ديا _

شہر ميں ايك ہنگامہ شروع ہوگيا اور قصر كے نگہبانوں نے اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے محل كو لوٹ ليا اور جو كچھ اس ميں تھالے كر فرار ہوگئے _ اس وقت مسلمانوں نے آواز دى كہ نماز كے لئے لوگ صف بستہ ہوجائيں اور پھر نماز كے لئے لوگ كھڑے ہوگئے_(۶)

جس رات اَسوَد مارا گيا اسى رات وحى كے ذريعہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو معلوم ہوگيا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' كل رات ايك مبارك خاندان سے ايك مبارك شخص نے عنسى كو قتل كرديا'' لوگوں نے پوچھا ''وہ كون تھا''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا _ فيروز تھا _فيروز كامياب رہے_(۷)

مسيلمہ كذاب كا واقعہ

يمامہ ميں مسيلمہ كذاب نے بھى پيغمبرى كا دعوى كركے اپنا ايك گروہ بناليا اورفتنہ پردازى ميں مشغول ہوگيا _ وہ كوشش كرتا تھا كہ بے معنى سخن گوئي كے ذريعہ قرآن سے معارضہ كرے _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابھى سفر حج سے لوٹے تھے كہ دو افراد مسيلمہ كذاب كا خط آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس لے كر پہنچے _ اس ميں لكھا تھا '' مسيلمہ خدا كے رسول كى طرف سے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے رسول كے نام '' ميں پيغمبرى ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا شريك ہوں آدھى زمين قريش سے متعلق ہے اور آدھى مجھ سے، ليكن قريش عدالت سے كام نہيں ليتے _(۸)

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہت ناراض ہوئے اور مسيلمہ كے نامہ بروں سے فرمايا '' اگر تم سفير اور قاصد

۲۷۱