امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت21%

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 271

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 271 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 116635 / ڈاؤنلوڈ: 4489
سائز سائز سائز
امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

[۱]جنگ و غارت گری کے وقت انکی بیٹیاں نہ جنگ کی طاقت رکھتی تھیں ،نہ حملہ کی قوت اور نہ جنگجو و غارت گر دشمن کے مقابل دفاع کی صلاحیت رکھتی تھیں جسکی وجہ سے دشمن کے ہتھے چڑھ جاتی تھیں جو کہ عرب کیلئے ننگ و عار کا سبب تھا اسی وجہ سے وہ  بیٹیوں کو ختم اور نابود کرنے میں اپنی قوت و طاقت لگاتے تھے۔

[۲] معاشی عوامل :فقر و تنگدستی بھی سبب ہوئی کہ وہ اپنی بیٹیوں کو شروع ہی سے قتل کر دیں یا زندہ در گور کر دیں ۔یہ بد ترین اور ظالمانہ روایت کی پیروی کی وجہ سے جب کسی عورت کو درد زہ کا احساس ہوتا ،تو اپنے خیمہ سےد ور صحرا یا کسی دوسری جگہ چلی جاتی تھی اور اس گڈھے میں کہ جو انکے لئے آمادہ کیا گیاتھا نو مولو د دنیا میں آتا تھا ۔

   اور اگر مولود بیٹا ہوتا تھا تو قبیلہ اور اطر اف کی عورتیں نوزاد  اوراسکی ماں کو شوق و امنگاور خوشی کے ساتھ مردوں کےپاس لاتیں تھیں اور اگر لڑکی ہوتی تھی تو مایوسی کے مرجھائے ہوئے  چھرہ کے ساتھ سبھی  بیٹھ جاتی تھی اور بے گناہ نوزاد کو اسی گڑھے میں دفن کرکے واپس آجاتی تھیں ۔

قرآن مجید کم سے کم  تین مقامات پر اولاد کے قتل ہونے کے موضوع کو بیان کرتا ہے ۔ اور اس سے جم کرقابلہ کے لئے ابھارتا ہے ایک مقام پر اس طرح ارشادفرماتا ہے ۔

(وَ إِذَا الْمَوْؤُدَةُ سُئِلَتْ (8)بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ) (9)(1)

اور جب زندہ در گور لڑکیوں کے بارے میں سوال کیا جائیگا کہ  انہیں کس گناہ میں مارا گیا ہے ۔ 

اوردوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے ۔

(وَ لا تَقْتُلُوا أَوْلادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ إِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبيراً) (2)

--------------

(1):- سورہ تکویر ،آیۃ ۸،۷

(2):- سورہ اسراء ،آیۃ ۳۱

۴۱

اور خبر دار اپنی اولاد کو فاقہ کے خوف سے قتل نہ کرناکہ ہم انہیں بھی  رزق  دیتے ہیں ۔اور تمہیں بھی رزق دیتے ہیں۔بیشک انکاقتل کردینا بہت بڑا گناہ ہے ۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ بظاہر یہ بد ترین عمل ایک خاص گروہ یا کچھ مخصوص گروہ کی عادت تھی وگرنہ لڑکیوں کا فقدان قظع نسل کا سبب بنتا ۔کیونکہ توالد ،تناسل اور انسانی نسلکی افزائش لڑکیوں کے وجود  کی مرہون منت ہے جسطرح سے مردوں اور لڑکیوں کے وجود سے بھی اسکا تعلق ہے۔

        ممکن ہے کہ یہ کہا جائے بعض لڑکیوں کےساتھ ایساکرتے تھے اور بعض کو بقائے نسل کیلئے باقی رکھتے تھے۔یا یہ کہ بعض لوگ کلی طور پر ایسا کرتے تھے اور انکے درمیان قطعی اور اجتماعی حکم  نہیں تھا قرآن مجید کی بعض  آیات سے اس نتیجہ کو اخذ کیا جا سکتا ہے اور وہ آیت یہ ہے۔

(وَ إِذا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثى‏ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَ هُوَ كَظيمٌ) (58)(يَتَوارى‏ مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ ما بُشِّرَ بِهِ أَ يُمْسِكُهُ عَلى‏ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرابِ أَلا ساءَ ما يَحْكُمُونَ) (59)(1)

اور جب خود ان میں کسی کو لڑکی کی بشارت دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ خون کے گھونٹ پینے لگتا ہے قوم سے منھ چھپاتا ہے کہ بہت بری خبر سنائی گئی ہے ۔ اب اسکو ذلت سمیت زندہ رکھے یا خاک میں ملا دے یقینا یہ لوگ بہت برا فیصلہ کر رہے ہیں۔

--------------

(1):- سورہ نحل ،آیۃ ۵۹،۵۸

۴۲

دوسرا قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اقتصادی و معاشی مشکلات اور فقر و تنگدستی کے عامل سے ہٹ کر کہ اس میں بیٹے  اور بیٹی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔

کیونکہ دونوں خرچےزندگی کے ضرورت مند ہیں تو پھر کس دلیل کی بنیاد پر اپنی بیٹیوں کو قتل کر دیتے تھے؟جو چیز ہم تک پہونچی ہے وہ یہ ہے کہ وہ لوگ کلی طور پر لڑکی کے وجود سے نفرترکھتے تھے۔اس وجہ سے اسکو قتل کرنے اور زندہ درگور کرنے میں لڑکیوں کو لڑکوں پر مقدم کرتے اور ترجیح دیتے تھے ۔

مفسر بزرگ علامہ طبا طبائی رضوان اللہ علیہ سورہ اسراء کی آیت کے ضمن میں کہتے ہیں :

(ولا تقتلوا اولادکم خشية املاق جریان وادنبات)

وہ لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کے واقعہ کو اولاد کے قتل کرنے سے الگ جانتے ہیں اور فرماتےہیں:

لڑکیوں کو زندہ درگور کر نے کی آیات خاص ہیں کہ جو ا س موضوع سے مخصوص اوراسکی حرمت کی تصریح کرتی ہیں :

مثلا یہ آیت :

(وَ إِذَا الْمَوْؤُدَةُ سُئِلَتْ (8)بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ)(9)(1)

اور یہ آیت(وَ إِذا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثى‏ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَ هُوَ كَظيمٌ (58)يَتَوارى‏ مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ ما بُشِّرَ بِهِ أَ يُمْسِكُهُ عَلى‏ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرابِ أَلا ساءَ ما يَحْكُمُونَ) (59) (2)

لیکن مورد بحث آیت اور اس کے مشابہ دوسری آیات اپنی اولاد کو فقر و تنگدستی کی  وجہ سے قتل کرنے کو منع کرتی ہیں ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی دلیل بھی نہیں ہے کہ ان آیات میں اولاد کو لڑکوں کے معنی میں لیا جائے ۔

--------------

(1):- سورہ تکویر ،آیۃ ۹،۸

(2):- سورہ نحل ،آیۃ ۵۹،۵۸

۴۳

درحالانکہ اولاد لڑکا ،لڑکی دونوں کے لیے عام ہے اور یہ دوسری سنت لڑکیو ں کو زندہ درگور کرنے کے علاوہ کہ جو ننگ وعارکی بنیاد پرہے او ر اولاد کو قتل کرنے کی عادت اعم ہے کہ جو لڑکا اور لڑکی دونو ں کو فقر و فاقہ کی بنیاد پر قتل کرنے سے منع کیا گیا  ہے ۔(1)

راغب نے مفردات میں کہا ہے کہ اولا د  سے مراد لڑکا ،لڑکی دونوں ہوتے ہیں اس بیان کے مطابق یہ شبہ ختم ہوجاتا ہے کیونکہ فقرو تنگدستی کا خوف انکو اس بات کی جانب ابھارتا ہے کہ اپنی اولاد کو چاہے وہ بیٹا ہو یا بیٹی قتل کریں اور اس مقام پر ان دونوں کے درمیان کسی فرق کے قائل نہیں تھے ۔بیشک ان کی ایک بد ترین سنت یہ تھی کہ وہ اپنی لڑکیوں کو ننگ و عار کی خاطر زندہ دفن کردیتے تھے کہ اگر ایسا نہ کرتے تو جنگوں میں دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہوجائیں گی ۔

 دوسراقابل بیان نکتہ یہ ہے فقرو تنگدستی کاخوف دو جگہ ظاہر ہوتا ہے ۔اور برے نتائج کاسبب بنتا ہے ،خدا وند عالم نے ان دونوں مقامات  پر انسانیت کی حمایت کی ہے یعنی اسکے حالات کی اصلاح کی ضمانت لی ہے اور اسکی روزی کا وعدہ کیا ہے ۔

۱ : بسا اوقات جوان شادی اور انتخاب ہمسر کیلئے مضطرو پریشان ہوتے ہیں کہ کس طرح اپنے علاوہ اپنی بیوی کی ضرورت کو پورا کرے گا ۔اور یہی اضطراب و مایوسی اور شادی میں تاخیرکا سبب بنتا ہے۔خداوند عالم اسکے متعلق ارشاد فرماتاہے۔

(وَ أَنْكِحُوا الْأَيامى‏ مِنْكُمْ وَ الصَّالِحينَ مِنْ عِبادِكُمْ وَ إِمائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَ اللَّهُ واسِعٌ عَليمٌ) (32)(2)

اور اپنے  غیر شادی شدہ آزاد افراد اور اپنے غلاموں اور کنیزوں میں سے با صلاحیت افراد کے نکاح کا اہتمام کرو کہ اگر فقیر بھی ہونگے تو خدا اپنےفضل و کرم سے انہیں مالدار بنا دیگا ۔

--------------

(1):- المیزان ،ج ۱۳ ،ص ۸۹

(2):- سورہ نور ،آیۃ ۳۲

۴۴

۲: صاحب اولاد ہو جانے کی صورت میں یہ پریشانی اس دور کےماں باپ کیلئے تھی چنانچہ آج بھی یہ پریشانی بطور کلی ختم نہیں ہوئی ہے خصوصا  جزیرۃ العرب میں کہ جہاں قحط سالی ،بارش کی کمی اور رزق کا کم ہونا انکو غمگین کئے ہوئے تھا ۔   اور کسی فرزند کا پیدا ہوجانا انکے لئے ذہنی پریشانی کا سبب تھا ۔خدا وند عالم اس پریشانی کو دور کرنے کیلئے ارشاد فرماتا ہے۔

(وَ لا تَقْتُلُوا أَوْلادَكُمْ مِنْ إِمْلاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ إِيَّاهُمْ)(1)

سعدی شیرازی کہتے ہیں ۔

یکی طفل دندان بر آودہ بود 

پدر سر بہ فکرت فرو بردہ بود      

کہ من نان برگ از کجا آرمش     

                                مروت نباشد کہ بگزارمش  

چو بیچارہ گفت این سخن نزدجفت                           

        نگر تا زن او را چہ مردانہ گفت

مخور ھول ابلیس تا جان دھد                

                        ھر آن کس کہ دندان دھد نان دھد

ایک بچے کے دانت نکل آئے تو باپ پریشان ہو گیا کہ اب اس کے کھانے وغیرہ کا انتظام کیسے کرے گا  ۔اور یونہی چھوڑ دینا بھی مروت کے خلاف ہے ۔جب اس نے یہ بات اپنی بیوی سے کہی ۔تو اس عورت نے ایک مردانہ اور حکیمانہ جواب دیا :کہ جب تک یہ بچہ زندہ ہے تم شیطان کے ان وسوسوں کا خوف نہ کھائو کیونکہ جس نے اس بچہ کو دانت دئے ہیں  وہی روزی بھی دیگا ۔

--------------

(1):- سورہ انعام ،آیۃ ۱۵۱

۴۵

۴: عفت کے منافی اعمال سے دوری

دوسرانکتہ کہ جو صراط مستقیم سے مربوط ہے وہ ہے فواحش سے اجتناب کرنا اور عفت کے منافی اعمال کو انجام نہ دینا ۔آیت کی تعبیر یہ ہے کہ :

(وَ لا تَقْرَبُوا الْفَواحِشَ ما ظَهَرَ مِنْها وَ ما بَطَن‏ ) (۱۵۱)(1)

اور بدکاریوں کے قریب مت جانا وہ ظاہری ہوں یا چھپی ہوئی ۔

اسلام نے جن کاموں کی انجام دہی سے روکا ہے ان کا صرف انجام نہ دینا کافی نہیں ہے ۔بلکہ ان کے قریب جانے کی مذمت  اور ممانعت  بھی کی گئی ہے لہذا اسکے قریب جانے سے بھی اجتناب ہونا چاہئے ۔

        بیشک اس طرح کے کاموں کے قریب ہو نا خطرناک بھی ہے ۔کیونکہ جس وقت  انسان ان سے نزدیک ہوتا ہے تو دھیرے دھیرے عمل کی جانب قدم بڑھاتا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی انکو انجام دیتا ہے ۔

کسی بھی کام سے قریب ہونا اس کام میں ملوث ہونے کا مقدمہ ہوتا ہے ۔اگرچہ اس میں ملوث ہونے کا ارادہ نہ رکھتا ہو ۔بہر حال اس با ت کا خطرہ اور خوف پایا جایا ہے۔کہ انسان اس میں ملوث ہو جائے ۔اس لئے اسلام تمام فواحش اور برے کاموں سے چاہے وہ ظاہری ہوں یا مخفی ۔منع  کرتا ہے اور اس کی دو طرح سے توجیہ کی جاتی ہے ۔

        ۱: ان اعمال کو نہ صرف دوسروں کی آنکھوں کے سامنے انجام دیا جائے بلکہ تنہا ئی میں بھی ان سے اجتناب کیا جائے۔اور کوئی یہ تصور بھی نہ کرے کہ فواحش اور برائیوں کو کھلے عام انجام نہیں دینا چاہئے ۔کیونکہ عمومی عفت داغدار ہو جائے گی ۔لیکن مخفیانہ طور پر کوئی مشکل نہیں ہے۔

--------------

(1):- سورہ انعام ،آیۃ۱۵۱

۴۶

جیسا کہ تفسیر مجمع البیان میں کہا گیا ہے کہ عصر جاہلیت کے لوگ مخفیانہ زنا کو برا تصور نہیں کیا کرتے تھے ۔اور تنہا کھلے عام زنا سے منع کرتےتھے لہذا خدا وند عالم نے ان کو ہر حال میں زنا سے منع فرمایا ۔

اس بنا پر گویا آیت یہ کہنا چاہتی ہے ظاہرا برے اعمال سے پرہیز آسان ہے اور انکی خود اپنی ایک جگہ ہے ۔حتی ان اعمال کو مخفیانہ انجام دینے سے بھی پرہیز کرو۔

۲:برے اور غلط کاموں سے اجتناب کا مطلب یہ ہے کہ جو انسان کے بدن کے اعضاء و جوارح سے انجام پاتا ہے کہ یہ ہر حال میں  ظاہری قسم ہے ۔ چاہے اسکو مخفی طور پر ہی کیوں نہ انجام دیا جائے ۔اور وہ برا عمل کہ جو انسان کے دل و دماغ میں ابھرتا ہے ۔گویا فرمایا ہے کہ اپنے اعضاء و جوارح کے ذریعہ برے اور عفت کے منافی اعمال سے اجتناب کرو ۔اس طرح سے کہ تمہارے ذہن و فکر میں بھی اسکا تصور نہ آنے پائے ۔اور تمہارے باطن میں بھی منافی عفت  عمل نہ آئے ۔

بیشک قلبی تصورات اور گناہ کی فکر اور سوچ بھی گنا ہ کیلئے راہ ہموار کرتا ہے ۔ اور بالخصوص  اسکی تکرار اور ہمیشہ سوچنے میں ایک  عظیم خطرہ پایا جاتا ہے ۔ جو دھیرے دھیرے انسان کیلئے نا فرمانی کی راہ کو کھول دیتا ہے ،اسکو گناہ کے انجام دینے پر ابھارتا ہے ۔اور خانئہ دل کو سیاہ وتاریک بنا دیتا ہے۔

اسی بنیاد پر آدمی کے تصورات و خیالات اسکے دل پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں اور یہ اسکے دل اور قساوت قلب میں یا اسکی نرمی اور آسانی میں واضح اور نا قابل انکار اثر رکھتا ہے۔

۴۷

قرآن کریم کے اسی جملہ کی جانب  اشارہ کرتے ہوئے حضرت علی ابن الحسین  ؑدعائے ابو ہمزہ ثمالی کے آخر میں :اپنی عارفانہ اور پر درد مناجات میں فرماتے ہیں۔

اللهم انی اعوذبک من الکسل والفشل----والفواحش ما ظهر منها وما بطن -----

پروردگار میں تیری باگاہ میں سستی و کاہلی سے پناہ چاہتا ہوں اور فواحش و برے اعمال سے وہ ظاہر ہوں یا چھپے ہوئے۔

یاد رہے اگرچہ قرآن کریم میں فاحشہ اور فواحش کو عام طور سے بد ترین گنا ہوں من جملہ زنا ،لواط یا پاکدامن عورتوں کی جانب بری نسبت دینے وغیرہ میں استعمال کیا گیا ہے ۔

لیکن یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ بعض ایسے اعمال ہیں جن میں ان گناہوں کی تھوڑی سی برائیاں پائی جاتی ہے ۔اور کبھی کبھی ان اعمال یا بعض اعمال کیلئے مقدمہ بن جاتے ہیں جیسے :

۱:نامحرم کے ساتھ خلوت :

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایک مرد اورعورت

یا ایک لڑکے یا لڑکی کا خلوت مثلا کسی بند کمرہ میں ہونا ،بدکاری اور خلاف عفت اعمال کے لیے ایک راستہ ہوتا ہے اس اعتبار سے اسلام میں اس کو حرام قرار دیا گیا ہے ۔

    ۲:لڑکے اور لڑکیوں کی  دوستی:

اگرلڑکے کی کوئی لڑکی دوست ہو یا لڑکی کا کوئی لڑکا دوست ہو ،تو یہ آلودگی انکی بدکاری وفساد میںپڑنے کا مقدمہ اور سبب ہے کبھی کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ ان کے درمیان اچھے اور دوستانہ روابط ہیں یہ تمام باتیں  دھوکاہیں بلکہ شیطان نے ان کے سامنے گناہوں کو مزین کرکے پیش کیا ہے ۔

۴۸

اس کی حقیقت یہ ہے کہ ایک سکہ کے دورخ ہیں اس کا ایک رخ دوستی ،تفریح اور ایک ساتھ باتیں کرناہے اور اس کا دوسرا رخ زنا،فواحش ،اخلاقی فساد اور اسی کے ساتھ ساتھ قتل ،خود کشی اور حدو تعزیر ہے۔خدا کرے کہتمام مسلمان خصوصا  ایرانی مسلمان جوان اس بحث کا مطالعہ کرتے وقت خود کو ہوا و ہوس سے دور رکھ کر منصفانہ مطالعہ کریں اور محکم ارادہ کریں ۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے بے غیرت باپ یا ناپاک مائیں بھی اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے اخلاقی فساد اور نا مشروع تعلقات کے بارے میں جانتے ہیں اور کسی بھی طرح کا خطرہ محسوس نہیں کرتے ہیں۔

    ۳ :  نا محرم کو دیکھنا :

  یہ خودبدکاری کے زمینہ کو فراہم کرتا ہے  اور دھیرے دھیرے اتنا آگے تک لے جا تا ہے کہ وہ اپنا دا من گنا ہ کبیرہ سے آلو دہ کر لیتا ہے  ۔  

ایک عرب شا عر کہتا ہے کہ

نظرة فابتسانة وسلام                        

فکلام فموعد فلقاء

ابتدا میں ایک نگا ہ اس کے بعد مسکرا ہٹ اور مسکرا ہٹ کے بعد سلام، اس کے بعد گفتگو، پھر وعدہ اور آخر میں ملا قا ت اور پھر خلا ف عفت اور مخالف تقوی عمل کو انجام دینا ۔اور اس کی حقیقت وہی ہے کہ جو فارسی زبان شاعر نے کہا ہے ۔

                برِ پنبہ آتش نباید فروخت                 

                کہ تا چشم بر ہم زنی خانہ سوخت

روئی پر آگ نہ ڈالو کہ ایک لمحہ میں گھر کو جلا کر خاک کر دے گی ۔

۴۹

۴: لڑکے اور لڑکیوں کے لئے بعض کپڑوں کا پہننا :

خود انسان یا طرف مقابل کے لئے ایسے مساعد حالات فرا ہم کرتا ہے جو فسادا ور گناہ کا سبب بنتے ہیں ۔وہ لباس جس سے ان کے بدن کے خد وخال ظاہر ہو تے ہیں  بغیرکسی شک و شبہ کے جو انو ں اور جنس مخا لف میں برا اثر چھو ڑتا ہے ۔تنگ اور چھو ٹے لبا س افکا ر شیطا نی کے ایجا د کر نے کے لئے موثر ہو تے ہیں۔ بلکہ ظا ہر و آشکا ر اور سریع و قطعی اثر رکھتے ہیں ۔کبھی کبھی ان میں سے کسی ایک منظر کو دیکھنے سے لڑکی کو بد ترین عمل کی طرف کھینچتا ہے یا لڑکے کو شرارت اور نا پا کی و بے عفتی کے کام کے لئے آمادہ کر تا ہے ۔

با ر الہا:آخر کیا ہو جائے گا کہ اگر لوگ اس طرح ہو جا ئیں کہ ضروری ،بدیہی اور مسلم امو ر کا انکار نہ کریں اور فساد وبدی اور بے عفتی و ناپا کی کی تو جیہ کرنے وا لے نہ بنیں؟

    ۵:جسمانی اتصال مثلا ہا تھ ملانا :

 اسی بنیا د پر اسلامی شریعت میں یہ حکم بیان کیا گیا ہے کہ جب بچے چھ سال کے ہو جائیں تو ان کے بستر الگ کر دئے جائیں ۔یہ ایک درس ہے جوہم کو ایک راز سکھا تا ہے ۔یہ احکام بتا تے ہیں کہ ان کے جسموں کا ملنا موثر ہے ۔

ممکن ہے کہ یہ باطل خیالات اورشیطانی اوہام کو ان کے  اندر بیدار کرے اور ان کی فساد وناپاکی کا سبب بنے ۔جبکہ یہ اس صو رت میں ہے کہ جب بچوں کے درمیان جسموں کا ملاپ بہن اور بھائی کے درمیان انجام پا تا ہے۔

اس اجمال کی تفصیل تک آپ خو د پہو نچ سکتے ہیں ۔

۵۰

آدم کشی سے اجتناب

        دعوت الھی کے امو ر میں سے پا نچواں امر آدم کشی اور محترم نفوس کو قتل کرنے سےاجتناب کرنا ہے ۔خدا وند عالم نے انسانوں کی جان کو محترم شما ر کیا ہے اور ان کے لئے غیر معمولی عظمت کا قائل ہے اسلام کی نظر میں کسی بھی چیز کا احترا م لو گو ں کے خون کے برا بر نہیں ہے ۔اور کو ئی بھی گناہ کسی انسا ن کے قتل سے بڑھ کر نہیں ہو تا ہے ۔اس اعتبا ر سے ہر انسان کو دوسروں کی جان کا محا فظ ہو نا چا ہئے اور یہ بات خود اپنے آپ کو سمجھا ئے کہ جس طرح ہم اپنی جان کو عزیز رکھتے ہیں اور اس کی حفا ظت کی کو شش کر تے ہیں۔تو دوسروں کی جان کو بھی اپنی جان کی طرح عزیز  رکھیں ۔لہذا ہم کو ان کی حفا ظت و  نگہداشت کا بھی اہتمام کرنا چا ہئے کہ خدا وند عا لم نے ان کو بہت زیادہ محترم شما ر کیا ہے ۔

قرآن مجید کی آیت میں اسے :حرم اللہ :کے عنوان سے پیش  کیا گیا ہے ۔در حا لیکہ اس کو :حرم الاسلام :یا :حرم اللہ فی الاسلام :کے نا م سے یا د کرنا چا ہئے تھا۔شاید اس تعبیر کا را ز یہ ہو کہ :خو ن انسا ن کی حر مت فقط شریعت اسلام میں  منحصر نہیں ہے بلکہ تما م ادیا ن میں اس اعتبا ر سے کہ لو گو ں کے خو ن کی حفا ظت کرنا چا ہئے اور کو ئی خدشہ مسلما نو ں کی جا ن میں ایحا د نہ کرے :متفق ہیں اور تمام انبیا ء ،پیمبرا ن الہی اور تمام آسمانی  مذا ہب اور شریعتیں اس اعتبا ر سے متفق ہیں ۔

        قر آن کریم   میں موضوع قتل بہت ہی شدت کےساتھ بیان کیا گیا ہے اور اسکی تعبیرات کی سختی اور عظمت میں دوسرے گناہوں کی بنسبت واضح اور آشکار ہے ۔جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے ،

(وَ مَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِناً مُتَعَمِّداً فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ خالِداً فيها وَ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَ لَعَنَهُ وَ أَعَدَّ لَهُ عَذاباً عَظيماً) (93)(1)

--------------

(1):- سورہ نساء ،آیۃ ۹۳

۵۱

 اورجو بھی کسی مومن کو قتل کرے گا اسکی جزا جہنم ہے ۔اور اسی میں ہمیشہ رہنا ہے اور اس پر خدا کا غضب ہے  اور خدا لعنت بھی کرتا ہے اور اس نے اسکے لئے عذاب عظیم بھی مہیہ کر رکھا ہے ۔اس آیئہ کریمہ میں قاتل کیلئے پانچ انجام بتائے گئے ہیں ۔

۱:اسکی سزا دوزخ ہے ۔

۲: ہمیشہ دوزخ میں رہے گا ۔

۳: خدا اس پر غصب کریگا ۔

۴: اس پر خدا کی لعنت ہے ۔

۵: خدا وند عالم نے اسکے لئے عذاب عظیم مہیاکر رکھا ہے ۔

اور یہ بھی فرماتا ہے ۔

(مِنْ أَجْلِ ذلِكَ كَتَبْنا عَلى‏ بَني‏ إِسْرائيلَ أَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْساً بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّما قَتَلَ النَّاسَ جَميعاً وَ مَنْ أَحْياها فَكَأَنَّما أَحْيَا النَّاسَ جَميعا ) (۳۲)(1)

اسی بنیاد پر ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جو شخص کسی نفس کو کسی نفس کے بدلے یا روئے زمین میں فساد کے علاوہ قتل کر ڈالے گا ۔اس نے گویا سارے انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے ایک نفس کو زندگی دیدی اس نے گویا سارے انسانوں کو زندگی دیدی۔

اس آیئہ کریمہ میں ایک انسان کو قتل کرنا تمام انسانیت کو قتل کرنے کے برابر قرار دیا گیا ہے اور  ایک انسان کو نجات دینا تمام انسانوں کو نجات دینے کے برابر ہے۔

--------------

(1):- سورہ مائدہ،آیۃ ۳۲

۵۲

محل بحث آئیہ کریمہ دو حصوں پر مشمل ہیں ۔ جملہ مستثنی اور جملہ مستثنی منہ ۔اور جو کچھ کہا گیا ہے وہ مستثنی منہ کے مورد میں ہے ۔لیکن مستثنی یعنی مخصوص مواردمیں قتل کا جائز ہونامحل بحث آیت میں بطور کلی ذکر کیا گیا ہے کیونکہ ارشاد ہوتا ہے۔:الابالحق:اور اسکا فائدہ یہ ہے کہ ان موارد میں افراد کا قتل کرنا حق ہے ۔اسطرح کہ اسمیں کوئی گناہ نہیں ہے۔ اور یہ موارد تین عناوین میں خلاصہ ہوتے ہیں ۔  

    ۱: باب قصاص:

  اگر کسی نے دوسرے کے قتل کا اقدام کیا لیکن مقتول یہ حق رکھتا ہے کہ قاتل کو اس کے جرم میں کہ جسکا وہ مرتکب ہوا ہے ۔اور محترم جان کو مار ڈالا ہے ۔قتل کر دیا جائے ۔البتہ خودیہ کام معاشرہ سے قتل کو ختم کرنے  اور نفسوں کی حفاظت کیلئے ایک وسیلہ ہے ۔ اور یہ حکم صراحت کے ساتھقرآنمجیدمیںآیاہے ۔اسطرحسےکہجوقابل تصرف وتاویل نہیں ہے ۔

ایک مصری دانشمند فرید وجدی   کہتا ہے کہ : اکثر یورپی قوانین قاتل پر قتل کا حکم لگاتی ہیں کہ اسکو قتل کر دیا جائے ۔لیکن ایک نیا نظریہ وجود میں آیا ہے جو یہ کہتا ہے کہ قاتل کو قتل نہیں کرنا چاہئے ۔بلکہ قید و بند ہی اسکے لئے کافی ہے بعض ممالک جیسے سوئزر اوراٹلی نے اس نظریہ کو قبول کیا ہے ۔ قاتل کو ان ممالک کی شریعتوں اور قوانین کے تحت قتل نہیں کیا جاتا ہے بلکہ انفرادی قید خانہ میں قید کر دیا جاتا ہے ۔کہ جہاں کوئی آواز اسکے کانوں تک نہ پہونچے اور اسکو چند سال تک اسی طرح چھوڑ دیتے ہیں۔ اسکے بعد اسکو عمومی زندان کی طرف منتقل کر دیا جاتا ہے ۔اور اس سے سخت سے سخت کام لئے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ مر جائے۔

۵۳

ان اسلامی قوانین کےاحکام کی حکمت (کہ جن کے قتل کی سزا بعض یوروپی ممالک میں ایک دوسری صورت میں لاگو ہوتی ہے )سے موازنہ کرنے سے حاصل کی جا سکتی ہے۔کیونکہ اس طرح کی زندگی کا کیا فائدہ ہے ۔؟ اسکے علاوہ قتل کے ذریعہ قصاص ،خود اس عمل کی قسم میں سے ہے ۔قید کے برخلاف کہ یہ ایک سزا کی الگ قسم ہے اور  اسکا قتل سے کوئی تعلق نہیں ہے  ۔جرم اور اسکی سزا کے درمیان کا تناسب اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ ولی قاتل کو قتل کرے ۔اوروہ روک تھام کہ جو قتل کے قصاص میں ہے حبس اور اسی کے مثل دوسری سزائوں میں نہیں ہے ۔                        

۲ : باب حدود:۔

 زنا کےبعض  اقسام میں صرف قتل کا حکم یا پھرخاص اندازمیں مار ڈالنے کا حکم دیا گیا ہے ۔

الف: اپنے نسبی محرم کے ساتھ زنا کرنا ۔   

ب: کافر ،مسلمان عورت کے ساتھ زنا کرے ۔

ج: وہ مرد کہ جو کسی عورت کو زنا پر مجبور کرے ۔  

د:شادی شدہ مرد یا عورت لذت جنسی کے امکان کے باوجود زنا کریں  ۔

جیسا کہ لواط کی حد میں قضیہ کے طرفین کی بنسبت اپنے خاص شرائط کے ساتھ قتل کا حکم ہے ۔البتہ دوسرے موارد  بھی ہیں کہ جو مفصل کتابوں میں بیان ہوئے ہیں  ۔(1)

--------------

(1):- ہم نے اسکو اپنی کتاب الدر المنضود فی احکام الحدود[ جو تین جلدوں میں لکھی گئی ہے ] مفصل طور پر بیان کیا ہے

۵۴

۳:باب ارتداد:

مسلمان کا اسلام سے پھر جانا ۔اور توحید اور اسلام کے بعدراہ کفر وشرک کو اختیار کرنا  وہ بھی خاص شرائط کے ساتھ اسکا یقینی اثبات قتل کا سبب ہوتا ہے ۔ اور اسکے تمام احکام و شرائط فقہ کی تفصیلی کتابوں میں بیان ہوئے ہیں کہ خواہشمند حضرات ان کی جانب رجوع کر سکتے ہیں  ۔(1)

لیکن اس مقام پر اس نکتہ کی جانب متوجہ کرنا ضروری ہے کہ قتل کا حکم ابتدائی مورد میں یعنی باب قصاص میں مقتول کے ولی سے مربوط ہے اور اسکے اختیار میں ہے کہ قاتل سےقصاص لے یا اسے معاف کر دے ۔

       لیکن دوسرے اور تیسرے مورد میں یہ حکم  خود حاکم شرع سے مربوط ہے  کہ پہلے قضیہ  واضح ہو جائے اور اسکے بعد قتل کا حکم اور اسی کی مانند حاکم اور قاضی کی قضاوت سے وابستہہوتا ہے ۔

اس بحث کے اختتام میں مسلمان جوانوں :ہم لڑکے اور لڑکیوں کو خیر خواہی کے ساتھ یہ وصیت کرتے ہیں کہ اپنے نفوس کی کڑی حفاظت کریں ،۔تاکہ ان تین ہلاکتوں میں گرفتار نہ ہو جائیں ۔اور بے گناہ انسان کے خون کے بہنے کا سبب نہ بنیں ۔قتل کی حد کے مستحق نہ بنیں ۔اور کسی ایسے گناہ سے اپنے دامن کو داغدار نہ کریں کہ خدا نہ خواستہ دین الہی سے بدبین ہو کر کافر ہو جائیں کہ نتیجہ میں ارتدای قتل کے مستحق قرار پائیں ۔

۶ :یتیم کے مال کی رعایت  کرنا

        آئیہ کریمہ میں چھٹا  امر یتیموں {یعنی وہ بچے جنکے باپ اور سرپرست نہ ہوں } کے مال کی رعایت کرنا ہے ۔اس مقام کو بھی اس امرکو قرب {لاتقربوا } کے ذریعہ بیان کیا ہے۔یہاں تک کے یتیم کے مال سے قریب تک ہونے  کو منع کیا گیا ہے اس لئے کہ اس سے نزدیک ہونا خطرہ میں پڑنا ہے ۔

--------------

(1):- ر،ک بہ نتائج افکار ،مئولف کی کتاب

۵۵

یہ بات واضح ہے کہ تمام لوگوں کے مال کو محترم شمار کرنا اور اسکو ضایع کرنے اور بغیر اجازت کے خرچ کرنے سے اجتناب کرنا ضروری ہے ۔لیکن یتیم کے مال کا خاص طور سے ذکر کرنا اس اہمیت کی وجہ سے ہے کہ جو یتیم کے متعلق ہے اور اسکی علت یہ ہے کہ وہ بچپنے اور کمسنی کی وجہ سے عدم ورود اور خود  اسکے لئے اپنا دفاع ممکن نہیں ہے ۔ اور وہ اپنے مال و دلت کے متعلق بہتر تدبیر اور اسکی حفاظت نہیں کر سکتا ہے ۔اس بنیاد پر مخصوص توجہ اور خاص شفارش کی گئی ہے ۔اور حکیم علی الاطلاق خدا وند عالم نے اس آیت میں یتیم کے مال کو خاص طور پر موضوع بحث بنایا ہے ۔اور اسکے مال میں تصرف سے بھی منع کیا گیا ہے۔

حقیقت میں کس قدر عظیم گناہ ہے کہ انسان اس شخص کے مال کو ہاتھ لگائے کہ جو نہ اپنی اور نہ اپنے مال کے دفاع کی قدرت نہیں رکھتا ۔اور یہ کھلا اور واضح ضعیف پر ظلم کا مصداق ہوتا ہے ۔

اور یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ جملئہ مبارک اور قرآن مجید کا محل بحث فقرہ اسی لفظ اور خاص عبارت کے ساتھ قرآن میں دو مقام پر ذکر کیا گیا ہے۔

سورہ انعام کی وہ آیت کہ جو ہماری موضوع بحث ہے ۔

اور دوسری آیت سو رہ اسراء یا بنی اسرا ئیل کی ۳۴ ویں میں فر ما تا ہے ۔

(وَ لا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتيمِ إِلاَّ بِالَّتي‏ هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّه‏ )(1)

اور یہ آیت  اس مو ضو ع کی اہمیت کو بیا ن کر سکتی ہے ۔قا بل تو جہ با ت یہ ہے کہ سو رہ انعا م میں اس مو ضوع کو صرا ط مستقیم کے عنا صر اور احکام کے عنوا ن سے ذکر کیا گیا ہے ۔اور سو رہ اسرا ء میں اس دلیل کے سا تھ کہ یہ حکمت الہی کے حکم کا جز ہے بیا ن کیا گیا ہے ۔جیسا کہ مندر جہ ذیل آیت میں ارشا د ہو تا ہے کہ

--------------

(1):- سورہ انعام ،آیۃ ۱۵۲

۵۶

(ذلِكَ مِمَّا أَوْحى‏ إِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَة )(1)

یہ وہ حکمت ہے جس کی وحی تمہا رے پر ور دگا ر نے تمہا ری طرف کی ہے۔

حا کم اور یتیم بچہ اور آیا ت قر آنی کی تا ثیر

        ایک انسا ن دنیا سے چل بسا اور کچھ یتیم بچو ں کو چھو ڑ گیا اور ایک با ایمان شخص کو اپنا وصی اور اپنے چھوٹے بچو ں کا محا فظ قرار دیا ۔اس زمانے کے ظا لم اور طا قتور حاکم نے ایک شخص کو وصی کے پا س بھیجا اور کہا میں نے سنا ہے کہ فلا ں شخص مر گیا ہے اور اتنی مقدار نقد چھو ڑ گیا ہے اس میں سے اتنی مقدا ر مجھ کوقرض دو  ۔وصی نے دو تھیلی پیسے اس یتیم بچے کے دا من میں رکھےاور اس کو حاکم کے پا س بھیج دیا ۔

اور حا کم کو ایک خط لکھا کہ پیسہ اس بچے کا ہے ۔خود اس سے لے لو اور قیامت کے دن خو د اس کو پلٹا  دینا۔اور اس کا مجھ سے  کو ئی تعلق نہیں ہے ۔حاکم نے جیسے ہی یہ خط پڑھا تو آئیہ شریفہ کا مضمو ن اس کی نظروں میں گھو م گیا کہ جس میں خدا ارشا د فر ما تا ہے ۔

(انَّ الَّذينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامى‏ ظُلْماً إِنَّما يَأْكُلُونَ في‏ بُطُونِهِمْ ناراً وَ سَيَصْلَوْنَ سَعيراً) (10)(2)

جو لوگ ظا لمانہ اندا ز سے یتیمو ں کا مال کھا جا تے ہیں وہ در حقیقت اپنے پیٹ میں آگ بھر ر ہے ہیں اور عنقریب وا صل جہنم ہو ں گے ۔

--------------

(1):- سورہ اسراء ،آیۃ ۳۹

(2):- سورہ نساء، آیۃ ۱۰

۵۷

حا کم خدا وند عا لم کے عذاب سے خوفزدہ ہوا او ر گریہ کرنے لگا اور بچے سے پوچھا:کیا تم مکتب جا تے ہو؟ بچے نے جو اب دیا :ہا ں۔پو چھا کیا پڑھتے ہو ؟اس نے جو ا ب دیا :قر آن ۔

اس نے پو چھا ۔کیا قرآن حفظ کر تے ہو ؟اس نے جو اب دیا :ہا ں

اس نے کہا پڑھو ۔دیکھو ں کس طرح حفظ کیا ہے ؟بچے نےیہ آیت پڑھنا شرو ع کیا ۔

(اعوذ بالل من الشیطان الرجیم ، وَ لا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتيمِ إِلاَّ بِالَّتي‏ هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّه‏ )

حا کم نے دو با رہ گر یہ کیا ااور کہا :میں خدا وند عا لم کے حکم کے خلا ف کوئی کام نہیں کرو ں گا ۔اور پھرتھیلیو ں کو ہا تھ  نہیں لگا یا ۔بلکہ ایک خلعت بچے کو اپنی طرف سے دیا اور ایک خلعت وصی کے لئے بھی دے کر اس کو وا پس کر دیا  ۔(1)

سا ت سالہ یتیم بچہاورحجا ج

        عظیم الشا ن محدثمر حو م دیلمی رضوا ن اللہ علیہ لکھتے ہیں :ایک سات سالہ بچہ حجا ج کے سا منے آیا اور کہا اے امیر :یہ با ت جا ن لو کہ میرا با پ اس وقت اس دنیا سے گذرگیا جب میں اپنی ما ں کے شکم میں تھا اور میری ماں بھی اس وقت دنیا سے گذر گئی جب میں شیر خوا ر تھا ۔          

اور دو سرے لو گ میرے امو ر کی کفا لت کر تے تھے ۔اور میرے باپ نے ایک باغ میرے لئے چھو ڑا کہ جو میرا معین و مددگا ر تھا اور میری زندگی کے لوا زما ت اسی سے پورے ہو تے تھے ۔لیکن فی الحا ل تمہا رے عمّال میں سے ایک نے اس کو غصب کر لیا ہے۔جو شخص خدا سے نہیں ڈرتا ہے تو وہ امیر کی شا ن وشو کت اور قدرت و منزلت سے کیا ڈرے گا ۔یہ تمہا ری ذمہ دا ری ہے کہ ظا لم کو منع کرو اور لو گو ں کے حقوق ان کو پلٹا دو تاکہ اس کا نتیجہ حا صل کرسکو ۔

--------------

(1):- عدد السنۃ،سبزواری ، ص ۱۲۴

۵۸

(يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَ ما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَها وَ بَيْنَهُ أَمَداً بَعيدا) (۳۰)(1)

اس دن کو یاد کرو جب ہر نفس اپنے نیک اعمال کو بھی حاضر پائے گا اوربد اعمال کوبھی ۔کہ جن کو دیکھ کر یہ تمنا کرے گا کہ کاش ہمارے اور ان برے اعمال کے درمیان طویل فاصلہ ہوجاتا  ۔

حجاج نے حکم دیا کہ اسکا باغ اسکو پلٹا دیا جائے ۔اور یہ بھی حکم دیا کہ ادیبوں کو بھی اسکے گھر سے دور کر دو اسلئے کہ وہ ان سب سے بڑا ادیب ہے  ۔(2)

ہم کومتوجہ رہنا چاہئے کہ مورد بحث آیہ کریمہ اور اس سے مشابہ آیات مورد استثناء پر مشتمل ہیں ۔{إِلاَّ بِالَّتي‏ هِيَ أَحْسَنُ } یعنی یتیموں کے مال کے نزدیک نہ جانا مگر اس طریقہ سے کہ جو بہترین طریقہ ہے اور اسکے مال کی حفاظت وسعت کا سبب ہو۔ البتہ وہ تصرف کہ جسکا نتیجہ یتیم کے مال کی حفاظت یا فائدہ ہو تو کوئی مشکل نہیں ہے بلکہ بسا اوقات مطلوب اور پسندیدہ ہوتا ہے ۔

مندرجہ بالا آیئہ کریمہ دونوں مقام  یعنی محل بحث آیئہ کریمہ  اور اس سے مشابہ سورہ اسراء کی  آیئہ کریمہ سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے ۔ کہ  یتیم کے مال کے نزدیک ہونے کی حرمت کے  معنی اسکے مال میں تصرف حاصل کرنا  ہے ۔ کہ جو اقتصادی امور کی تدبیر کی قدرت اور اپنے مال کی حفاظت اور اس سے فایدہ حاصل کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔لیکن جس وقت وہ حد بلوغ تک پہونچ جائے اورتم کویہ  احساس ہو کہ اب وہ خوداپنے مال کی حفاظت اور اسکو صحیح جگہ پر تصرف اور فائدہ حاصل کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکا  ہے ۔تو اس وقت اسکے مال میں تصرف سے منع کیا گیا ہے ۔مگر یہ کہ وہ شرعی ضوابط کی بنیاد پر ہو ۔

--------------

(1):- سورہ آل عمران ،آیۃ ۳۰

(2):- ارشاد القلوب ،ص ۲۳۰

۵۹

۷:ناپ اور تول میں عدل اور انصاف سے کام لینا

        ساتواں محل بحث موضوع ناپ تول میں عدل اور انصاف سے کام لیناہے ۔

        خریدار کواسکی چیز صحیح و سالم اور مکمل حوالہ کرنا خود ایک اہم موضوع  ہے ۔ کہ جو  عوام الناس کے اعتماد کوبحال کرتا ہے ۔اور معاشرہ کے مختلف افراد کو زندگی میں متحرک کر دیتا ہے ۔اور ایک راہ پر لگا دیتا ہے ۔ جیسا کہ خود قوانین کی رعایت دولت کی عادلانہ تقسیم کا ایک  وسیلہ ہے  ۔  اور ان قوانین کی رعایت کرکے جھوٹی اور نا مشروع دولت غلط لوگوں کے پاس جمع نہیں ہو سکتی ۔ اور ہر ایک اپنا شرعی اور واقعی حق کو حاصل کر سکتا ہے ۔

اور انہیں کے مقابل میں جو شخص  اشیاء کے تولنے کا ذمہ دار ہو ۔لیکن اگر وہ امانت دار اور قابل اعتماد نہ ہو اور خریدار کے  حق میں کٹوتی  اور ناپ اور تول میں خیانت کرے  گا۔تومعاشرہ میں ایک دوسرے کے اوپر سے اعتماد کی روح ختم ہو جائیگی اور ایک دوسرے کے تئیں اعتماد کی جگہ بدگمانی پیدا ہو جائے گی ۔اور اسی کے ساتھ معاشرہ میں دشمنی ، عداوت ،بغض و حسد اور کینہ  رائج ہو جائیگا  ۔

اور نتیجہ میں طرف مقابل کم تولنے  پر مجبور ہوگا کہ جسکی وجہ سے معاشرہ میں ایک دوسرے کے تئیں خیانت کا دروازہ کھل جائیگا۔اور پھر یہی چیز رواج پیدا کر لے گی ۔اور صحیح و سالم اجتماعی روابط باقی نہیں رہیں گے  بلکہ نظام اجتماعی درہم برہم ہو جائیگا  ۔اور ایک بدگمان اور خیانت کار معاشرہ کی داغ بیل پڑ جائیگی  اسطرح کہ لوگوں کے اجتماعی اور اخلاقی حقوق ضایع ہونے لگے گیں ۔

اور خریدارنے جو قیمت ادا کی ہے اس کے مقابل اسے جنس نہیں ملسکے گی۔جس کے نتیجہ میں معاشرہ میں حق کشی اور ایک دوسرے کےحق کو ضایع کرنا بھی مکمل طور پر رائج ہو جائیگا  اور پھر غلط اور نا جائز طریقے سے دولت اکھٹا کرنے کا راستہ ہر ایک کے لئے کھل جائیگا ۔ اور ایک سالم اور الہی معاشرہ کی جگہ مادی اور شیطانی معاشرہ وجود میں آجائیگا۔اس سلسلے میں ہم کو خدا سے پناہ ماگنا چاہئے ۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

ایک ایسی حدیث کو نمونہ کے طور پر پیش کررہے ہیں،جس کو شیعہ ۱ اورسنی دونوں نے نقل کیا ہے:

ابراھیم بن محمد جوینی نے ”فرائد السمطین ۲“ میں ایک مفصل روایت درج کی ہے۔چونکہ یہ حدیث امامت سے مربوط آیات کی تفسیر کے سلسلہ میں دوسری کتابوں میں درج کی گئی ہے، اس لئے ہم یہاں پر اس سے صرف آیہء تطہیر سے مربوط چند جملوں کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔

اس حدیث میں حضرت علی علیہ السلام مہاجر وانصار کے بزرگوں کے ایک گروہ کے سامنے اپنے فضائل بیان کرتے ہوئے اپنے اوراپنے اہل بیت کے بارے میں نازل ہوئی قرآن مجید کی چندآیتوں کی طرف اشارہ فرماتے ہیں،من جملہ آیہء تطہیرکی طرف کہ اس کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام نے یوں فرمایا:

”اٴیّهاالنّاس اٴتعلمون اٴنّ اللّٰه اٴنزل فی کتابه: ( إنّما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الرجس اٴهل البیت و یطهّرکم تطهیراً ) فجمعنی و فاطمة و ابنییّ الحسن و الحسین ثمّ اٴلقی علینا کساءً و قال: اللّهمّ هؤلاء اٴهل بیتی و لحمی یؤلمنی ما یؤلمهم، و یؤذینی ما یؤذیهم، و یحرجنی ما یحرجهم، فاٴذهب عنهم الرجس و طهّرهم تطهیراً ۔

فقالت اٴُمّ سلمة: و اٴنا یا رسول اللّٰه؟ فقال: اٴنت إلی خیر إنّما اُنزلت فی) و فی ابنتی) و فی اٴخی علیّ بن اٴبی طالب و فی ابنیَّ و

____________________

۱۔کمال الدین صدوق،ص۲۷۴

۲۔مؤلف اور کتاب کے اعتبار کے بارے میں تفسیر آیہء ”اولوالامر“کا آخر ملاحظ ہو۔

۲۲۱

فی تسعة من ولد ابنی الحسین خاصّة لیس معنا فیها لاٴحد شرک

فقالوا کلّهم: نشهد اٴنّ اٴمّ سلمة حدّثتنا بذلک فساٴلنا رسول اللّٰه فحدّثنا کما حدّثتنا اٴمّ سلمة(۱)

”اے لوگو!کیا تم جانتے ہو کہ جب خدا وند متعال نے اپنی کتاب سے آیہء:( إنّما یرید الله ) ۔۔۔ کو نازل فرمایا پیغمبر اکرم (ص)نے مجھے،فاطمہ اورمیرے بیٹے حسن وحسین )علیہم السلام)کوجمع کیا اور ہم پر ایک کپڑے کا سایہ کیا اورفرمایا:خداوندا! یہ میرے اہل بیت ہیں۔جس نے انھیں ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا اورجس نے انھیں اذیت پہنچائی اس نے مجھے اذیت پہنچائی ہے جس نے ان پرسختی کی اس نے گویا مجھ پر سختی کی ۔)خدا وندا!)ان سے رجس کو دور رکھ اورانھیں خاص طورپرپاک وپاکیزہ قرار دے۔

ام سلمہ نے کہا:یارسول اللہ!میں بھی؟)رسول خدا (ص)نے)فرمایا:تم خیر ونیکی پرہو، لیکن یہ آیت صرف میرے اورمیری بیٹی )فاطمہ زہرا)میرے بھائی علی بن ابیطالب(علیہ السلام) اور میرے فرزند ) حسن و حسین علیہما السلام) اور حسین (علیہ السلام)کی ذریت سے نوائمہ معصومین کے بارے میں نازل ہوئی ہے اورکوئی دوسرااس آیت میں ہمارے ساتھ شریک نہیں ہے ۔اس جلسہ میں موجود تمام حضار نے کہا:ہم شہادت دیتے ہیں کہ ام سلمہ نے ہمارے سامنے ایسی حدیث بیان کی ہے اورہم نے خود پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بھی پوچھا توانھوں نے بھی ام سلمہ کے مانند بیان فرمایا۔“

____________________

۱۔فرائد السمطین،ج۱،ص۳۱۶،موسةالمحمودی للطباعة والنشر،بیروت

۲۲۲

آیہء تطہیرکے بارے میں چند سوالات اور ان کے جوابات

اس بحث کے اختتام پر ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ آیہء تطہیر کے بارے میں کئے گئے چند سوالات کے جوابات پیش کریں:

پہلاسوال

گزشتہ مطالب سے جب یہ معلوم ہوگیا کہ اس آیہء کریمہ میں ارادہ سے مرادارادہ تکوینی ہے۔اگرارادہ تکوینی ہوگا تو یہ دلالت کرے گا کہ اہل بیت کی معنوی طہارت قطعی اورناقابل تغیر ہے۔کیا اس مطلب کو قبول کرنے کی صورت میں جبر کا قول صادق نہیں آتا ہے؟

جواب

خدا وند متعال کا ارادہ تکوینی اس صورت میں جبر کا سبب بنے گا جب اھل بیت کا ارادہ واختیار ان کے عمل انجام دینے میں واسطہ نہ ہو لیکن اگر خداوند متعال کاارادہ تکوینی اس سے متعلق ہو کہ اہل بیت اپنی بصیرت آگاہی نیز اختیارسے گناہ اور معصیت سے دور ہیں،توارادہ کا تعلق اس کیفیت سے نہ صرف جبر نہیں ہوگا بلکہ مزیداختیار پر دلالت کرے گا اورجبر کے منافی ہوگا،کیونکہ اس فرض کے مطابق خدا وند متعال کے ارادہ کا تعلق اس طرح نہیں ہے کہ وہ چاہیں یا نہ چاہیں ،اپنے وظیفہ انجام دیں گے، بلکہ خدا وند متعال کے ارادہ کا تعلق ان کی طرف سے اطاعت کی انجام دہی اور معصیت سے اجتناب ان کے اختیار میں ہے اور ارادہ و اختیار کا پایا جا نا ہی خلاف جبر ہے۔

۲۲۳

اس کی مزید وضاحت یوں ہے کہ: عصمت درحقیقت معصوم شخص میں پائی جانے والی وہ بصیرت اور وہ وسیع و عمیق علم ہے، جس کے ذر یعہ وہ کبھی اطاعت الہیٰ سے منحرف ہو کر معصیت و گناہ کی طرف تمائل پیدا نہیں کرتا ہے اور اس بصیرت اور علم کی وجہ سے اس کے لئے گناہوں کی برائیاں اور نقصانات اس قدر واضح اور عیاں ہو جاتے ہیں کہ اس کے بعد اس کے لئے محال ہے کہ وہ گناہ کا مرتکب ہو جائے۔

مثال کے طور پرجب کوئی ادنی ٰشخص یہ دیکھتا ہے کہ وہ پانی گندا اور بدبو دار ہے، تو محال ہے و ہ اسے اپنے اختیارسے پی لے بلکہ اس کی بصیرت و آگاہی اسے اس پانی کے پینے سے روک دے گی۔

دوسرا سوال

آیہء شریفہ میں آیا ہے:( انّما یریدا للهليذهب عنکم الرّجس اهل البیت ويطهرکم تطهیرا ) ” اذھاب “ کے معنی لے جانا ہے اور اسی طرح ”تطہیر“ کے معنی پاک کر نا ہے اور یہ اس جگہ پر استعمال ہوتا ہے جہاں پر پہلے سے رجس وکثافت موجود ہو اور انھیں پاک کیا جائے ۔ اسی صورت میں ”اذھابکا اطلاق،رجس کو دور کر نااور تطھیر“ کااطلاق ”پاک کرنا“حقیقت میں صادق آسکتا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اہل بیت پہلے گناہوں سے آلودہ تھے لہذا اس آلود گی کو ان سے دور کیا گیا ہے اور انھیں اس آلودگی سے پاکیزہ قرار دیا گیاہے۔

۲۲۴

جواب

جملہء( ليذهب عنکم الرجس ) میں لفظ ”اذھاب ‘ ‘لفظ ” عن“ سے متعدی ہوا ہے۔ اس کا معنی اہل بیت سے پلیدی اور رجس کو دور رکھنا ہے اور یہ ارادہ پہلے سے موجود تھا اور اسی طرح جاری ہے،نہ یہ کہ اس کے برعکس حال و کیفیت اہل بیت میں موجود تھی اور خداوند متعال نے ان سے اس حال و کیفیت )برائی) کو دور کیا ہے۔ اسی طرح اس سلسلہ میں تطہیر کا معنی کسی ناپاک چیز کو پاک کرنے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اہل بیت کے بارے میں اس کا مقصد ان کی خلقت ہی سے ہی انھیں پاک رکھنا ہے۔ اس آیہء کریمہ کے مانند( ولهم فیهاازواج مطهرة ) (۱) ” اور ان کے لئے وہاں)بہشت میں ) ایسی بیویاں ہیں جو پاک کی ہوئی ہوں گی“

”اذھاب “اور”تطھیر“کے مذکورہ معنی کا یقینی ہونا اس طرح ہے کہ اہل بیت کی نسبت خود پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی طرف یقینی ہے اوریہ بھی معلوم ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم ابتداء ہی سے معصوم تھے نہ یہ کہ آیہ تطہیر کے نازل ہونے کے بعد معصوم ہوئے ہیں۔جب آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں مطلب اس طرح ہے اور لفظ ”اذھاب“ و ”تطھیر“ آپ میں سابقہ پلیدی اور نجاست کے موجود ہونے کا معنی نہیں ہے، اہل بیت کے دوسرے افراد کے بارے میں بھی قطعی طور پر اسی طرح ہونا چاہئے۔ ورنہ”اذھاب“ و ”تطھیر“ کے استعمال کا لازمہ پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے خاندان کے بارے میں مختلف معنی میں ہوگا۔

تیسرا سوال

اس آیہء شریفہ میں کوئی ایسی دلالت نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ یہ طہارت ، اہل بیت میں )آیہء تطہیر کے نازل ہونے سے پہلے) موجود تھی بلکہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ خدا وند متعال اس موضوع کا ارادہ کرے گا کیونکہ ”یرید“ فعل مضارع ہے اور مستقبل کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

____________________

۱۔بقرہ/۲۵

۲۲۵

جواب

اول یہ کہ:کلمہ ”یرید“ جو خداوند متعال کا فعل ہے، وہ مستقبل پردلالت نہیں کرتا ہے اور دوسری آیات میں اس طرح کے کا استعمالات اس مطلب کو واضح کرتے ہیں کہ جیسے کہ یہ آیات:( یریدالله لیبین لکم ویهديکم سنن الّذین من قبلکم ) (۱) اور( والله یرید اٴن یتوب عليکم ) (۲)

اس وصف کے پیش نظر آیت کے معنی یہ نہیں ہے کہ خداوند متعال ارادہ کرے گا، بلکہ یہ معنی ہے کہ خداوند متعال بد ستورارادہ رکھتا ہے اور ارادہ الہیٰ مسلسل جاری ہے۔

دوسرے یہ کہ اس ارادہ کا پیغمبر اکرم (ص)سے مربوط ہونا اس معنی کی تاکید ہے، کیونکہ آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ایسا نہیں تھا کہ پہلے تطہیر کا ارادہ نہیں تھا اور بعد میں حاصل ہواہے۔ بلکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پہلے سے اس خصوصی طہارت کے حامل تھے اور معلوم ہے کہ آنحضرت (ص)کے بارے میں ”یرید“کا استعمال ایک طرح اور آپ کے اھل بیت کے لئے دوسری طرح نہیں ہوسکتا ہے۔

چوتھا سوال

احتمال ہے کہ ” لیذھب“ میں ”لام“ لام علت ہو اور ”یرید” کے مفعول سے مرادکچھ فرائض ہوں جو خاندان پیغمبرصلی الله علیہ وآلہ وسلم سے مربوط ہوں۔ اس حالت میں ارادہ تشر یعی اور آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ خداوند متعال نے آپ اہل بیت سے مربوط خصوصی تکالیف اور فرائض کے پیش نظر یہ ارادہ کیا ہے تاکہ برائی اور آلودگی کو آپ سے دور کرے اور آپ کو پاک و پاکیزہ قرار دے، اس صورت میں آیت اہل بیت کی عصمت پر دلالت نہیں کرے گی۔

____________________

۱۔ سورہ نساء /۲۶

۲۔ سورہ نساء /۲۷

۲۲۶

جواب

پہلے یہ کہ: ” یرید“ کے مفعول کا مخدوف اور پوشدہ ہونا خلاف اصل ہے اور اصل عدم پوشیدہ ہو نا ہے۔ صرف دلیل اور قرینہ کے موجود ہونے کی صورت میں اس اصل کے خلاف ہونا ممکن ہے اور اس آیت میں اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ : ”لےذھب“ کے لام کے بارے میں چند احتمالات ہیں ان میں سے بعض کی بنا پر ارادہ کا تکونےی ہونا اور بعض کی بنا پر ارادہ کا تشر یعی ہونا ممکن ہے لیکن وہ احتمال کہ جو آیت میں متعین ہے وہ ارادہ تکوینی سے ساز گار ہے۔ اس کی دلیل وہ اسباب ہیں جو ارادہ تکوینی کے اسبات کے سلسلہ میں پیش کئے گئے ہیں من جملہ یہ کہ ارادہ تشر یعی کا لازمہ یہ ہے اس سے اھل بیت کی کوئی فضیلت ثابت نہیں ہوتی، جبکہ آیہ ء کریمہ نے اھل بیت کی عظیم اور گراں بہا فضیلت بیان کی ہے جیسا مذکورہ احادیث اس کی دلیل ہیں۔

اس بنا پر آیہ شریفہ میں لام سے مراد’ ’ لام تعد یہ “ اور مابعدلام ”یرید“کا مفعول ہے۔ چنانچہ ہم قرآن مجید کی دوسری آیات میں بھی مشاہدہ کرتے ہیں کہ ”یرید“کبھی لام کے ذریعہ اور کبھی لا م کے بغیر مفعول کے لئے متعدی ہوتا ہے ۔ قرآن مجید میں اس قسم کے متعدد مثالیں پائی جاتی ہیں۔ ہم یہاں پرا ن میں سے دو آیتوں کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں :

۱ ۔( فلا تعجبک اٴموالهم ولااولادهم،إنّمایریداللهليعذبهم بهافی الحيوةالدّنیا ) ۔۔۔(۱) اور آیہ( ولا تعجبک اموالهم إنّمایریداللهاٴن يعذّبهم بها فی الدّنیا ) (۲) ۔ اس سورہ مبارکہ میں ایک مضمون کے باوجود ”یرید“ ایک آیت میں ” ان یعذبھم“ سے بلا واسطہ اور دوسری آیت میں لام کے ذر یعہ متعدی ہوا ہے۔

____________________

۱۔ سور ہء توبہ/۵۵ ۲۔سورہ توبہ/۸۵

۲۲۷

۲ ۔( یرید ون اٴن يطفئوانوراللهباٴفواههم ویاٴبی اللهإلّا اٴن یتم نوره ولوکره الکافرون ) (۱) اور آیہء( یرید ون ليطفئوانورالله بافواههم واللهمتم نوره ولوکره الکافرون ) (۲) ایک آیت میں ”یریدون“ ، ”ان ےطفئو“ پربلا واسطہ اور دوسری آیت میں لام کے واسطہ سے متعدی ہوا ہے۔

پانچواں سوال

آیہ شریفہ میں ”اھل البیت “سے مراد فقط پنجتن نہیں ہیں بلکہ اس میں پیغمبر )صلی الله علیہ وآلہ وسلم) کے دوسرے رشتہ دار بھی شامل ہیں ۔ کیونکہ بعض احادیث میں آیا ہے کہ پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا عباس اور ان کے فرزند وں کو بھی ایک کپڑے کے نیچے جمع کیا اور فرمایا: ”ھو لاء اھل بیتی“ اور ان کے بارے میں دعا کی۔

جواب

اہل بیت کی تعدادکو پنجتن پاک یا چودہ معصومین علیھم السلام میں منحصر کر نے کے حوالے سے اس قدراحادیث وروایات مو جود ہیں کہ اس کے سامنے مذکورہ حدیث کا کوئی اعتبار نہیں رہ جاتاہے۔

اس کے علاوہ وہ حدیث سند کے لحاظ سے بھی معتبر نہیں ہے کیونکہ اس کی سند میں ”محمدبن یونسی“ ہے کہ جس کے بارے میں ابن حجر نے ابن حبان سے نقل کیا ہے کہ وہ حدیث جعل کرتا تھا۔ شا ئد اس نے ایک ہزار سے زیادہ جھوٹی حدیثیں جعل کی ہیں۔ ابن عدی نے اس

پر حدیث گھڑنے کا الزام لگا یا ہے۔(۳)

____________________

۱۔سورہ توبہ/۳۲

۲۔سورہ صف/۸

۳۔ تہذیب،ج،ص۵۴۲،طبع ھندوستان

۲۲۸

اس کے علاوہ حدیث کی سند میں ” مالک بن حمزہ“ ہے کہ بخاری نے اپنی کتاب ” ضعفا“ میں اسے ضعیف راویوں کے زمرہ میں درج کیا ہے۔(۱)

اس کے علاوہ اس کی سند میں ” عبدالله بن عثمان بن اسحاق“ ہے کہ جس کے بارے میں ابن حجرنے عثمان کا قول نقل کیا ہے اور کہا ہے : میں نے ابن معین سے کہا: یہ راوی کیسا ہے؟ اس نے کہا : میں اسے نہیں پہچانتا ہوں اور ابن عدمی نے کہا : وہ مجہول اور غیر معروف ہے۔

اس صورت حال کے پیش نظر یہ حدیث کسی صورت میں مذکورہ احادیث کے ساتھ مقابلہ نہیں کرسکتی ہے۔

چھٹا سوال

ام سلمہ جب پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کرتی ہیں کہ: کیا میں بھی آپ کے اہل بیت میں شامل ہوں؟ تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں: ” انت الیٰ خیر“یا ” انت علیٰ خیر“ ّاس کے معنی یہ ہیں کہ تمھیں اس کی ضرورت نہیں ہے کہ تمھارے لئے دعا کروں ، کیونکہ تمھارے لئے پہلے ہی سے قرآن مجید میں آیت نازل ہوچکی ہیں اور جملہ ” انت علی خیر“ کے معنی یہ ہیں کہ تمھاری حالت بہترہے۔ یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ام سلمہ اہلبیت میں داخل نہیں ہیں۔

جواب

سیاق آیت کے بارے میں کی گئی بحث سے نتےجہ حاصل کیا جاسکتا ہے کہ آیہ ء تطہیرکا سیاق اس سے پہلی والی آیتوں کے ساتھ یکسان نہیں ہے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں اہل بیت میں داخل نہیں ہیں۔

____________________

۱۔ م یز ان الاعتدال،ج۲،ص۳۲۵، دارالمعرفہ،بیروت

۲۲۹

جملہء ”علی خیر“ یا ” الیٰ خیر“ اس قسم کے موارد میں افضل تفضیل کے معنی میں نہیں ہے اور اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں پنجتن پاک )علیہم السلام) سے افضل وبہتر ہوں۔ اس کے علاوہ خود ان احادیث میں اس مطلب کے بارے میں بہت سے قرآئن موجود ہیں ، من جملہ ام سلمہ آرزو کرتی ہیں کہ کاش انھیں بھی اجازت ملتی تاکہ اہل بیت کے زمرہ میں داخل ہوجاتیں اور یہ اس کے لئے ان تمام چیزوں سے بہترتھا جن پر سورج طلوع و غروب کرتا ہے۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویوں سے مربوط قرآن مجید کی آیتوں ، من جملہ آیہ ء تطہیر سے پہلی والی آیتوں اور سورئہ تحریم کی آیتوں کی شان نزول پر غور کرنے سے مذکورہ مطلب کی مکمل طور پر وضاحت ہوجاتی ہے۔ نمونہ کے طور پر سورہ تحریم کی درج ذیل آیتیں بیشتر تامل کی سزاوار ہیں۔

( إن تتو با إلی الله فقد صغت قلو بکما ) (۱) ( عسی ربه إن طلقکنّ اٴن یبد له اٴزواجاً خیراً منکنّ مسلمات مئومنات قانتات تائبات عبادات سائحات ثیبات واٴ بکاراً ) (۲) ( ضرب الله مثلاً للّذین کفرواامراٴة نوح و امراٴة لوط کانتا تحت عبدین من عبادنا صالحین فخانتا هما فلم يغنیا عنهما من الله شيئاً و قیل اد خلا النار مع الداخلین ) (۳)

ساتواں سوال

احادیث میں آیا ہے کہ پیغمبر خدا (ص)نے آیہ تطہیر کے نازل ہونے کے بعد اپنے خاندان کے حق میں یہ دعا کی: ”( اللّهم اٴ ذهب عنهم الّرجس و طهّرهم تطهّیرا ) “ ”خداوندا: ان سے رجس وپلیدی کو دور کر اور انھیں خاص طور سے پاک و پاکیزہ قرار

____________________

۱۔سورہ تحرم/۴

۲۔ سورہ تحریم/۵

۳۔سورہ تحریم /۱۰

۲۳۰

دے“آیہ کریمہ سے عصمت کا استفادہ کرنے کی صورت میں اس طرح کی دعا منا فات رکھتی ہے، کیونکہ آیہ کریمہ عصمت پر دلالت کرتی ہے اور عصمت کے حاصل ہونے کے بعدان کے لئے اس طرح دعا کرنا تحصیل حاصل اور بے معنی ہے۔

جواب

اول یہ کہ: یہ دعا بذات خود اس امر کی واضح دلیل ہے کہ ان کے لئے اس طہارت کے بارے میں خداوند متعال کا ارادہ ارادہ تکوینی تھا نہ تشر یعی ۔ کیونکہ ” اذھاب رجس“ اور ”تطہیر “ کا خدا سے جو مطالبہ کیا گیا ہے وہ قطعاً ایک تشر یعی امر نہیں ہے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعا یقینا مستجاب ہے۔ اس لئے مذکورہ دعا آیہء تطہیر کے مضمون پر تاکید ہے۔

دوسرے یہ کہ عصمت ایک فیض اور لطف الہیٰ ہے جو خدا وند متعال کی طرف سے ان مقدس شخصیات کو ان کی زندگی کے ہرہر لمحہ عطا ہوتی رہتی ہے کیونکہ وہ بھی دوسری مخلوقات کے مانند ہر لمحہ خدا کے محتاج ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ ایک لمحہ کی نعمت اور فےض الہیٰ انھیں دوسرے لمحہ کے فےض و عطیہ الہیٰ سے بے نیاز کردے۔

یہ اس کے مانند ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جملہ ”( إهد نا الصراط المستقیم ) “کو ہمیشہ تلاوت فرماتے تھے اور اس ہدآیت کو خدا وندمتعال سے طلب کرتے رہتے تھے ،باوجود اس کے کہ وہ اس ہدآیت کے اعلیٰ ترین درجہ پر فائز تھے اور یہ تحصیل حاصل نہیں ہے بلکہ یہ اس بات پر دلیل ہے کہ بندہ چاہے جس مقام پر بھی فائز ہو وہ ذاتی طور پر خدا کا محتاج ہوتا ہے اور اس احتیاج کا اظہار کرنا اور خدا وندمتعال سے دوسرے لمحات میں نعمت و الطاف الہیٰ کی درخواست کرنا بندہ کے لئے بذات خود ایک کمال ہے۔

۲۳۱

اس بات کا علم کہ خدا وندمتعال مستقبل میں اس نعمت کو عطا کرے گا ، دعا کے لئے مانع نہیں بن سکتا ہے،کیونکہ خدا وندمتعال ”اولواالباب“ کی دعا کو بیان کرتا ہے کہ وہ کہتے ہیں :( ربّنا وآتنا ما و عدتنا علی رسلک و لا تخذنا يوم القیامة إنّک ولا تخلف الميعاد ) (۱) ” پرور دگار جو تو نے اپنے رسولوں کے ذریعہ ہم سے وعدہ کیا ہے اسے ہمیں عطا کر اور روز قیامت ہمیں رسوانہ کر کیونکہ تو وعدہ کے خلاف نہیں کرتا “ ہم دیکھتے ہیں اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ خدا وند متعال وعدہ خلافی نہیں کرتا اور مو منین کو دیا گیا وعدہ حتماً پور کرے گا ، پھر بھی اس سے اس طرح دعا کرتے ہیں۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اھل بیت کے حق میں دعا بھی اسی طرح ہے کہ طہارت اور عصمت الہیٰ اگر چہ انھیں حاصل تھی اور آئندہ بھی یہ نعمت ان کے شامل حال رہتی، لیکن یہ دعا اس کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لئے ہے کہ باوجود اس کے کہ یہ اھل بیت (ع) اس عظمت و منزلت پر فائز ہیں لیکن ہمیشہ اپنے کو خدا کا محتاج تصور کرتے ہیں اور یہ خدا وندمتعال ہے کہ جو ہر لمحہ عظیم اور گرانقدرنعمت انھیں عطا کرتا ہے۔

اس لئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعا خواہ آیہ ء تطہیر نازل ہونے سے پہلے ہو یا اس کے بعد ، ان کی عصمت کے منافی نہیں ہے ۔

آٹھواں سوال

انبیاء علیہم السلام کی عصمت وحی کے تحقط کے لئے ہے،انبیاء کے علاوہ کیا ضرورت ہے کہ ہم کسی کی عصمت کے قائل ہو ں؟

____________________

ا۔۷۱ سورہ آل عمران/۱۹۴

۲۳۲

جواب

اول یہ کہ : ش یعہ عقیدہ کے مطابق مسئلہ امامت ، نبوت ہی کا ایک سلسلہ ہے اور یہ عہدہ نبوت کے ہم پلہ بلکہ اس سے بالاتر ہے۔(۱) امام ، مسئلہ وحی کے علاوہ بالکل وہی کردار ادا کرتا ہے جو پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم ادا کرتے تھے۔

اس لحاظ سے ش یعہ امامیہ کے نزدیک امام میں عصمت کا ہوناعقلی او ر نقلی دلیلوں کی بنیاد پر شرط ہے۔

دوسرے یہ کہ : عصمت کے لئے ملزم عقلی کا نہ ہونا اس کے عدم وجود کی دلیل نہیں بن سکتی ہے ۔ اس کی مزید وضاحت یہ ہے کہ: نبی اور امام کے لئے ، عقل لزوم عصمت کا حکم کرتی ہے اور ان کے علاوہ کسی اور کے لئے یہ حکم ثابت نہیں ہے۔ عصمت خدا کی ایک خاص نعمت ہے،خدا وندمتعال جسے چاہتا ہے اسے عطا کرتا ہے ۔ انبیاء اور ائمہ کی عصمت کے وجود پربرھان عقلی قائم ہے اور ان کے علاوہ اگر کسی کے لئے قرآن وسنت کی دلیل عصمت کو ثابت کرے تو اس پر یقین کرنا چاہئے اور آیہء تطہیر پیغمبر اسلام (ص)،ائمہ علیہم السلام اور حضرت زہراء سلام الله علیہا کی عصمت کی دلیل ہے۔

نواں سوال

حدیث ثقلین کے بارے میں صحیح(۲) مسلم کی روآیت کے مطابق پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی زید بن ارقم نے پیغمبر اکرم (ص)سے روآیت کی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ”اٴنا تارک فيکم الثقلین: کتاب الله و اهل بیتی “ زیدبن ا رقم سے سوال ہو تا ہے: آنحضرت (ص)

____________________

۱۔ اس سلسلہ میں مصنف کی کتابچہ ” امامت ، حدیث غدیر ، تقلین اور منزلت کی روشنی ہیں“ کی طرف رجوع کیا جائے

۲۔ص یح ع مسلم، کتاب فضائل،باب فضائل علی بن ابطالب-

۲۳۳

کے اہل بیت کون ہیں؟ کیا عورتیں )ازواج پیغمبر)بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت میں شامل ہیں؟جواب دیتے ہیں کہ : نہیں، سوال کرتے ہیں :پس آنحضرت کے اہل بیت کون ہیں؟جواب میں کہتے ہیں : آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت وہ لوگ ہیں جن پر صدقہ حرام ہے۔ وہ علی ،عباس ،جعفر اورعقیل کی اولاد ہیں۔ اس بات کے پیش نظر اہل بیت کو کیسے پنجتن یا چودہ معصومین(ع)میں محدودکیا جا سکتا ہے؟

جواب

اول یہ کہ: یہ حدیث پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویوں کو اہل بیت علیہم السلام کی فہرست سے خارج کرتی ہے۔

دوسرے یہ کہ :یہ حدیث بہت سے طرق سے نقل ہونے کے باوجود یزید بن حیان پراس حدیث کی سند کا سلسلہ منتہی ہوتا ہے اوریہ حدیث آیہ شریفہ اور دوسری بہت سی آحادیث کی دلالت سے مقابلہ کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے۔

تیسرے یہ کہ:بالفرض اگر اس کا صدور ثابت بھی ہو جائے تو بھی یہ ایک صحابی کا اجتہاد ہے اور یہ حجت نہیں بن سکتا۔

چوتھے یہ کہ: حدیث ثقلین بہت طریقوں سے زید بن ارقم سے نقل ہوئی ہے اور اس میں جملہء: ”ماإن تمسکتم لن تضلّوااٴبداً وإنّهمالن یفترقا حتّی یردا علیّ الحوض “ موجود ہے جو اہل بیت کی رہبری اور ان کے قرآن مجید سے لازم و ملزوم ہونے کو بیان کرتا ہے جو زیدبن ارقم کی مذکورہ تفسیر سے کسی بھی طرح سازگار نہیں ہے، کیونکہ مذکورہ تفسیر کی بنا پر خلفائے بنی عباس بھی اپنے تمام ترظلم و جرائم کے مرتکب ہونے کے باوجود اہل بیت کے زمرے میں شامل ہوجائیں گے اور یہ حدیث ثقلین کے الفاظ کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔

۲۳۴

دسواں سوال

بعض احادیث میں آیا ہے کہ جب ام سلمہ نے سوال کیا کہ : ” کیا میں بھی اہل بیت میں داخل ہوں ؟“ یا ” مجھے بھی ان کے زمرہ میں شامل کر لیجئے “ تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب دیا: ” ہاں انشاء الله“یا یوں فرمایا: ” انت من اھلی“ اس لئے نہیں کہا جاسکتا ہے کہ : اہل بیت پنجتن پاک میں منحصر ہیں؟

جواب

بیان کی گئی بہت سی حدیثوں سے کلمہ ” اہل بیت“ کی ایک خاص اصطلاح ہے جس کے مطابق صرف پنجتن پاک کا ان میں شامل ہونا اور دوسروں کی اس میں عدم شمولیت ثابت ہوتی ہے ۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ سوال میں اشارہ کی گئی احادیث میں ”اھل “ یا ”اہل بیت“سے مراد اس کے لغوی معنی ہوں گے جس میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں بھی شامل ہیں۔

ہم سوال میں اشارہ کی گئی احا دیث کے بارے میں اہل سنت کے فقہ و حدیث کے ایک امام، ابو جعفر طحاوی کے نظریہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ طحاوی ان افراد میں سے ہیں جو آیہء شریفہ تطہیر میں ” اہل بیت “ کو پنجتن پاک علیہم السلام سے مخصوص جانتے ہیں اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ازواج کو اس آیہء شریفہ سے خارج جانتے ہیں ۔ انھوں نے اپنی کتاب ”مشکل آلاثار‘(۱) ‘ میں ایک ایسی حدیث نقل کی ہے جو اس بات پردلالت کرتی ہے کہ ام سلمہ نے کہا:”مجھے ان )اہل بیت) کے ساتھ شامل کر لیجئے تو“ پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ” انت من اھلی“ ”تم میرے اہل میں سے ہو“ اس کے بعد طحاوی کہتے ہیں:

” فکان ذالک ممّا قد يجوز اٴن يکون إرادة اٴ نّها من اٴهله، لاٴنّها من

____________________

۱۔مشکل الاثار،ج۱،ص۳۳۳۔۳۳۲

۲۳۵

اٴزواجه و ازواجه اهله“

ممکن ہے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مقصد یہ ہو کہ ام سلمہ آپ کی بیویوں میں سے ایک ہے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں آپ کے اہل ہیں۔

اس کے بعد طحاوی اس سلسلہ میں شاہد کے طور پر آٹھ حدیثیں نقل کرتے ہیں جو اس بات پر دلا لت کر تی ہیں کہ ام سلمہ آیہء تطہیر میں ” اہل بیت“ میں سے نہیں ہیں۔وہ مزید لکھتے ہیں :

” فدلّ ماروینا فی هذه الآثار ممّا کان رسول الله ( ص ) إلی اُمّ سلمة، ممّا ذکر نا فیهالم یرداٴنهاکانت ممّااُریدبه ممّافی الآیة المتلوة فی هذاالباب،واٴن المراد بما فیهاهم رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و علیّ و فاطمة والحسن والحسین دون ماسواهم“ (۱)

یہ حدیثیں دلالت کرتی ہیں کہ ام سلمہ ان اہل بیت میں سے نہیں ہیں کہ جن کی طرف آیہ ء تطہیر اشارہ کرتی ہے ۔اورآیہ ء تطہیر میں موجود ” اہل بیت “ سے مراد صرف رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، علی وفاطمہ،حسن و حسین)علیہم السلام) ہیں۔

طحاوی کی نظر میں ایک اوراحتمال یہ ہے کہ ”انت اھلی“ کا مقصد یہ ہے کہ تم میرے دین کی پیروی کرنے کی وجہ سے میرے اہل میں شمار ہوتی ہو، کیونکہ حضرت نوح علیہ السلام کی داستان میں ان کا بےٹا ان کی اہل سے خارج ہے اور اس کے بارے میں کہا گیا :إنّه ليس من اٴهلک إنّه عمل غیر صالح (۲) اس سے استفادہ کیاجاسکتا ہے کہ جو صاحب )ایمان اور) عمل صالح ہیںوہ ان کے اہل ہیں۔

____________________

۱۔ مشکل ا لآثار، ج۱،ص۳۳۶

۲۔ سورئہ ہود/۴۶

۲۳۶

طحاوی نے اس احتمال کو واثلہ کی حدیث بیان کرنے کے بعد پیش کیا ہے۔ واثلہ بھی ان صحابیوں میں سے ایک ہے، جس نے حدیث کساء کی روآیت کی ہے۔وہ اپنی روآیت میں پنجتن پاک کے کساء کے نیچے جمع ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیان کو نقل کرتا ہے کہ آپ نے فرمایا: ”اٴللّهم هولاء اهل بیتی واهل بیتی احق “ اس کے بعد کہتا ہے:میں نے کہا : یا رسول الله کیا میں بھی آپ کے اہل بیت میں شامل ہوں ؟ فرمایا: ” تم میرے اہل سے ہو“۔

طحاوی اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں:

” واثلہ کا ربط، ام سلمہ کی بہ نسبت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بہت دور کا ہے۔کیونکہ واثلہ )پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر کا ایک خادم ہے )بنی لیث کا ایک شخص ہے اور قریش میں شمار نہیں ہوتا ہے اور ام سلمہ ) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیوی ) قریش سے ہیں۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت (ص)واثلہ سے فرماتے ہیں : ” تم میرے اہل میں سے ہو“ لہذا اس کے یہ معنی ہیں کہ تم میرے دین کی پیروی کرنے کی خاطر اور مجھ سے ایمان رکھنے کے سبب ہم اھل بیت کے زمرہ میں داخل ہو۔

بیہقی نے بھی ” السنن الکبریٰ “(۱) میں واثلہ کی حدیث کو نقل کیا ہے اور کہاہے:

” وکانّه جعل فی حکم الاٴهل، تشبیها بمن يسحق هذاالابسم لا تحقيقاً“

”گویا اس حدیث میں واثلہ کو تشبیہ کے لحاظ سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل کے حکم میں قرار دیاگیا ہے نہ اس لئے کہ وہ حقیقی طور پر اہل بیت کا مصداق تھا۔“

اس لئے بہت سی حدیثیں کہ جو اہل بیت کے دائرہ کو منحصر کرنے کے سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔

____________________

۱-السنن الکبریٰ ، ج۲،ص۵۲،دارالمعرفة،بیروت

۲۳۷

گیارہواں سوال

آیہء( إنّما یرید الله ) اس آیت کے مانند ہے:( مایریدالله ليجعل عليکم من حرج ولکن یرید ليطهّرکم ولیتمّ نعمتة عليکم ) (۱) یعنی: ” خدا تمھارے لئے کسی طرح کی زحمت نہیں چاہتا ، بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمھیں پاک و پاکیزہ بنادے اور تم پر اپنی نعمت کو تمام کردے “اور اسی طرح آیہء( إنّما یرید الله ) اس آیت کے مانند ہے:( ليطهّرکم ويذهب عنکم رجز الشيطان ) (۲) یعنی ” تاکہ تمھیں پاکیزہ بنادے اور تم سے شیطان کی کثافت کو دور کردے “

اگر آیہء تطہیر عصمت پر دلالت کرتی ہے تو مذکورہ دو آیتوں کی بناپرہمیں بہت سارے اصحاب کی عصمت کے قائل ہونا چائیے۔

جواب

پہلافقرہ وہ ہے جو وضو کی آیت کے آخر میں آیا ہے۔ آیہ شریفہ یوں ہے:

( یا إیهاالّذین آمنواإذا قمتم إلی الصلوٰة فاغسلوا وجوهکم و اٴ یديکم إلی المرافق و اٴمسحوا برء وسکم و اٴرجلکم إلی الکعبین وإن کنتم جنباً فاطهّروا فتیمموا صعیداً طیباً فاٴمسحوا بو جوهکم واٴیديکم منه مایرید الله ليجعل عليکم من حرج ولکن یرید ليطهِّرکم و لیتم نعمته عليکم لولعلکم تشکرون ) (۳)

____________________

۱۔ سورہ مائدہ/۶

۲۔سورہ انفال/۱۱

۳۔ سورئہ مائدہ/۶

۲۳۸

اس آیہء کریمہ میں خدا وند متعال وضو، غسل اور تیمم کا حکم بیان کرنے کے بعد فرما تا ہے: ”خدا وندمتعال ) ان احکام کی تشر یع سے ) تمھارے لئے کسی طرح کی زحمت نہیں چاہتا ہے، بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمھیں )وضویا غسل یا تیمم سے ) پاک و پاکیزہ بنادے“۔ یہ حدث پاک کرنا ہے جو وضو یا غسل یا تیمم سے حاصل ہوتاہے ، اور اس کا آیہ ء تطہیر کی مطلق طہارت تکوینی سے کوئی ربط نہیں ہے۔

دوسری آیت میں بھی ”رجز اللشیطان “یعنی شیطان کی نجاست سے مرا دوہ جنابت ہے جس سے جنگ بدر میں مسلمان دو چار ہوئے تھے اور خدا وندمتعال نے ان کے لئے بارش نازل کی اور انہوں نے بارش کے پانی سے غسل کیا اوراپنے جنابت کے حدث کو غسل سے برطرف کیا۔ اس آیت میں ایک خاص طہارت بیان کی گئی ہے اور اس طہارت کا تعلق ان صحابہ سے ہے جو جنگ بدر میں موجود تھے اور جنھوں نے بارش کے پانی سے غسل کرکے یہ طہارت حاصل کی تھی لہذا آیہ تطہیر سے استفادہ ہونے والی مطلق تکوینی طہارت سے اس کا کو ئی ربط نہیں ہے۔

۲۳۹

ساتواں باب :

امامت آیہ ” علم الکتاب“ کی روشنی میں

( و یقول الّذین کفرو الست مرسلاً قل کفی بالله شهیداً بینی و بینکم ومن عنده علم الکتاب )

سورہ رعد/ ۴۳

” اور یہ کافر کہتے ہیں کہ آپ رسول نہیں ہیں تو کہدےجئے کہ ہمارے اور تمھارے درمیان رسالت کی گواہی کے لئے خدا کافی ہے اور وہ شخص کافی ہے جس کے پاس پوری کتاب کا علم ہے۔“

یہ آیہ شریفہ ان آیتوں میں سے ہے جن میں امیرالمئومنین حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں ایک بڑی فضیلت بلکہ احتجاج(۱) کی روآیت کے مطابق سب سے بڑی فضیلت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس لئے مناسب ہے اس کے معنی میں مزید غور وخوض کیا جائے۔

اس آیت میں پہلے کفار کی طرف سے پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا انکار بیان کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے دو گواہ ذکر کئے گئے ہیں ایک خدا وند عالم کی ذات اور دوسرے وہ کہ جس کے پاس کتاب کا علم ہے۔

آیت کی دلالت کو واضح کرنے کے لئے ضروری ہے کہ بحث کو درج ذیل دو محوروں پر جاری رکھا جا ئے

۱ ۔ خداوندمتعال کی گواہی کس طرح سے ہے؟

۲ ۔من عندہ علم الکتابسے مراد کون ہے؟

____________________

۱-مصباح الھدایة،ص ۴۳

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271