امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت21%

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 271

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 271 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 119531 / ڈاؤنلوڈ: 4809
سائز سائز سائز
امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

مصنف: رضاکاردان

مترجم: سيد قلبي حسين رضوي

۳

پیش لفظ

امامت کے بارے میں دو مشخص نظریے ہیں

پہلانظریہ:

جمہور،یعنی اہل سنّت کا ہے،جومعتقد ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی شخص کواپنے بعد،اپنے جانشین کے طورپر معرفی نہیں کیاہے اور یہ امت کی ذمہ داری تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ان کے جانشین کومنتخب کریں۔

دوسرانظریہ :

شیعہ امامیہ کا نظریہ ہے کہ وہ امامت کوخداکی طرف سے منصوب اور معین جانتے ہیں او عقیدہ رکھتے ہیں کہ امامت نبوت ہی کا ایک سلسلہ ہے اور امام کو نصب اورپیغمبرکے مانند معین کر نا خدائے متعال کی ذمہ داری ہے۔

شیعوں کے پاس اپنے نظریہ کو ثابت کرنے کے لئے ،عقل،کتا ب و سنّت کے حوالے سے بہت سے قطعی دلائل موجود ہیں ،جوکلام،تفسیر اور احادیث کی کتابوں میں بیان کئے گئے ہیں۔

اس مقدمہ میں شیعوں کے عقلی نظریہ کواس مسئلہ کے بارے میں عقل کے حکم کے مطابق واضح کیا گیا ہے۔

اس سلسلہ میں جو اقتباسات پیش کئے گئے ہیں وہ انسان کی فطری تحقیق اورغور وخوض کا نتیجہ ہے:

۱ ۔ہم جانتے ہیں کہ اسلام ایک لافانی دین ہے ،جو ہرزمانہ کے تمام لوگوں کے لئے نازل ہوا ہے۔

۲ ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے،اس دین مبین کی تبلیغ اور ترقی کے سلسلہ میں ہر ممکن کو شش کی اور اپنے تمام وسائل سے کام لیا اوراس سلسلہ میں کوئی لمحہ فروگزاشت نہیں کیا اور اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک غیرمعمولی اور ناقابل توصیف ایثاروجانثاری کا مظاہرہ کرتے رہے کی۔چنانچہ یہ مضمون کئی آیات میں بیان ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کے ایمان کے لئے اپنی جان کی قربانی دینے کے لئے نکلتے تھے:

۴

( لعلّک باخع نفسک ان لایکونوا مؤمنین ) (شعراء/۳)

”کیاآپ اپنے نفس کو ہلاکت میں ڈال دیں گے اس لئے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لارہے ہیں۔“

( فلعلّک باخع نفسک علی آثارهم ان لم یؤمنوا بهذا الحدیث اسفاً ) (کہف/۶)

”توکیاآپ شدت افسوس سے ان کے پیچھے اپنی جان خطرے میں ڈال دیں گے اگریہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائے۔“

۳ ۔اس راہ میں بہترین اورباعظمت انسانوں کی ایک بڑی تعدادنے قربانی دے کرشہادت کاجام نوش کیاہے۔

۴ ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،انسانوں کی سعادت کے لئے مختلف ابعادمیں جوکچھ مؤثر جانتے تھے ان کے لئے بیان فرماتے تھے،شیعہ اورسنّی کے فقہی فروعات او ر جزئی مسائل کے بارے میں احادیث اوراسلامی فقہ کی کتابوں میں جو کچھ وارد ہوا ہے وہ اس کا بیّن ثبوت ہیں۔

۵ ۔پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ایسی حالت میں رحلت فرمائی کہ ابھی اسلام حجاز کے تمام حدودتک بھی نہیں پھیلاتھا،چہ جائے کہ اس پیغام و شریعت کی دنیابھرمیں رسائی ہو تی ۔

۶ ۔ایسی طاقتیں موجودتھیں کہ جن کی طرف سے اسلام کے وجوداوراس کی تبلیغ و بقاء کے لئے خطرہ کا احساس کیا جاتاتھا،بالخصوص اس لئے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی اورانہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو نہ صرف قبول نہیں کیاتھا،بلکہ ان میں سے بعض نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کے مقا بلہ میں نامناسب رد عمل کا اظہاربھی کیا،جیسے کہ ایران کے بادشاہ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خط ہی پھاڑ ڈالا۔

۵

۷ ۔اس قسم کی طاقتوں کا سرکچلنے اور انھیںزیر کر نے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعدمسلمانوں کی ایک طاقتور فوج اور قطعی وفیصلہ کن رہبری کی ضرورت تھی۔

۸ ۔اقتدارپرستی اور جاہ طلبی انسان کے باطنی امور کا ایک ایسامسئلہ ہے ،کہ جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے اصحاب بھی مستثنیٰ نہیں تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد جمع ہوئے مسلمان ،جوآپ سے بے پناہ عشق ومحبت کرتے تھے،لیکن اس کے باوجود ان میں بھی بہت سے ایسے افراد موجودتھے جن کے وجود کی گہرائیوں میں پوری طرح اسلام نفوذ نہیں کرچکا تھااورا ب بھی جاہلیت کے رسم و رواج نیز،قومی اور خاندانی تعصبات کی حکو مت ان کے وجود پر سایہ فگن تھی اورہر آن یہ خطرہ لاحق تھاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآ وسلم کی رحلت کے بعد خلافت کی لالچ میں وہ ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہو جائیں۔چنانچہ بعض احادیث میں انحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ اپنے اصحاب سے فرماتے تھے کہ:”میں اپنے بعدتمہارے مشرک ہونے سے نہیں ڈرتاہوں لیکن اس چیز سے ڈرتاہوں کہ تم لوگ امور دنیاکے لئے ایک دوسرے کی رقابت کروگے۔(۱)

۹ ۔ایسے منافقین بھی موجودتھے جو ہمیشہ اسلام ومسلمین کے خلاف سازشوں میں مشغول

____________________

۱۔صحیح بخاری،ج۴،باب فی الحوض،ص۱۴۲،دارلمعرفتہ،بیروت

۶

رہتے تھے اور اس سلسلہ میں کوئی لمحہ فروگزاشت نہیں کرتے تھے،لہذا یہ خطرہ موجود تھاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد یہ لوگ اسلامی خلافت میں نفوذ کریں اورشائد ان منافقین کا ایک گروہ ابتداء اسلام ہی سے اسی لالچ کی بناء پردعوت اسلام قبول کئے ہوئے تھا۔

ہم تاریخ میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ قبائل کے بعض سردار،پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے انھیں اسلام کی دعوت دینے پر شرط رکھتے تھے کو آئندہ اسلامی حکومت میں ان کے کردار کو ملحوظ نظر رکھا جائے:

سیرئہ ابن ہشام میں یوں نقل ہواہے:

”پیغمبر اسلام (ص)،بنی عامر کے پاس تشریف لے گئے اور انھیں خدائے عزّو جل کی طرف دعوت دی اور اپنا تعارف کرایا۔ ان میں سے ایک نے آنحضرت (ص)سے یوں کہا:

اٴراٴیت ان نحن بایعناک علی امرک ثم اظهرک اللّٰه علی من خالفک ایکون لنا الامر من بعدک؟ قال: الامر الی اللّٰه یضعه کیف یشاء(۱)

”اگرہم آپ کی بیعت لیں اور آپ کی دعوت پر لبیک کہیں تو کیا آپاپنے مخالفین پرغلبہ حاصل کر نے کے بعداپنی خلا فت کے اختتام پر خلا فت کی بھاگ ڈور ہمیں سپرد کریں گے؟ آنحضرت صلی ا للہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب میں فرمایا:اس کااختیارخداکے ہاتھ میں ہے،وہ جسے چاہے اسے اس عہدہ پر مقرر کرے گا۔“

____________________

۱۔سیرئہ ابن ہشام،ج۲،ص۴۲۵،داراحیائ التراث العربی بیروت،الروض الانف ،۴،ص۱۳۸،السیرةالنبویة،سید احمدزینی دحلان،ج ۱،ص۲۸۳،داراحیائ التراث العربی ،بیروت۔

۷

۱۰ ۔یہ قضیہ ثابت شدہ اور مسلّم فطری امر ہے کہ جوبھی چند افراد کے امور کی زمام ہاتھ میں لئے ہو،انھیں سرپرست کے بغیرنہیں چھوڑتاہے،حتی اگراس کے تحت نظر بھیڑبکریاں بھی ہوں ،تووہ انھیں بھی بے سرپرست نہیں چھوڑتاہے۔

جب خلیفہ دوم اپنی زندگی کے آخری لمحات بسر کر رہے تھے تو عبداللہ بن عمرنے ان سے کہا:

انّ الناس یتحدّثون انّک غیر مستخلف و لو کان لک راعیابل اوراعی غنم ثمّ جاء و ترک رعیته راٴیت ان قد فرّط و رعیةالناس اشدّ من رعیه الابل والغنم ماذا تقول اللّٰه عزّوجل اذلقیته ولم تستخلف علی عباده (۱)

”لوگ یہ کہتے ہیں کہ آپ اپناجانشین مقررنہیں کررہے ہیں جبکہ آپ کے نزدیک اونٹوں نیزبھیڑ،بکریوں کیلئے کوئی نہ کوئی ساربان اورچرواہاہوتااوروہ مویشوں کوچھوڑکرچلاجاتا توآپ اسے قصوروارٹھراتے۔اوریہ بات مسلّم ہے کہ لوگوں کاخیال رکھنااونٹ اوربھیڑکی حفاظت و رکھوالی سے زیادہ اہم ہے۔جب خداکے بندوں کے لئے کسی جانشین کو مقررکئے بغیر آپ اس دنیاسے چلے جائیں گے تو آپ اپنے خدائے متعال کوکیاجواب دیں گے؟“

ام المو منین عائشہ بھی اس قضیہ سے استنادکرتے ہوئے ابن عمرسے کہتی ہیں:

یابنیّ بلغ سلامی وقل له لاتدع امة محمد بلا راع استخلف علیهم ولاتدعهم بعدک هملاً فانی اخشی علیهم الفتنة(۲)

”عمرکومیراسلام کہنااوراس سے کہدیناکہ امت) محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

____________________

۱۔الریاضی النضرة، ج ۲،ص۳۵۳،دارالندوةالجدیدةبیروت،سنن بیہقی ،ج۸،ص۱۴۹، دارالمعرفة بیروت، حلیةالاولیاء،ج۱ص۴۴،دارالفکر

۲۔الامامةوالسیا سة،ج۱،ص۲۳

۸

کواپنے بعد بے مہار اور سرپرست نہ چھوڑ ے اس لئے کہ میں ان میں فتنہ برپا ہونے سے ڈرتی ہوں۔“

اس کے علاوہ بھی روایت ہے کہ عبداللہ بن عمرنے اپنے باپ سے کہا:

”اے کاش!آپ اپنا ایک جانشین مقررکردیتے اگر آپ اپنی طرف سے کسی کو قیّم اور سرپرست کے عنوان سے لوگوں کے پاس بھیجتے ہیں تو کیا اس بات کوپسندنہیں کرتے ہیں کسی کواپناجانشین مقررکردیں؟انہوں نے جواب میں کہا:کیوں نہیں؟ابن عمرنے کہا: جب آپ اپنی بھیڑوں کے لئے ایک نگراں اور سر پرست مقررکر تے ہیں توکیا آپ اس بات کو پسندنہیں کرتے اپنی جگہ پرکسی کومقررکردیں؟“(۱)

معاویہ بھی یزید کی جانشینی کے سلسلہ میں اس سے استنباط کرتے ہوئے کہتاہے:

انیّ ارهب ان داع امة محمدی بعدی کا لضاٴن لاراعی لها(۲)

”میں ڈرتاہوں کہیں ام )محمد (ص))کواپنے بعدچرواہے کے بغیربھیڑبکریوں کی طرح چھوڑدوں۔“

۱۱ ۔پیغمبراسلام (ص)،جب کبھی سفر پر تشریف لے جاتے تھے تو ہمیشہ اپنی جگہ پر کسی کو جانشین مقرر فرماتے تھے اورکبھی مدینہ کو اپنے جانشین کے بغیر نہیں چھوڑتے تھے سیرت اورتاریخ کی کتابوں میں یہ مطلب بیان ہوا ہے اورجن اشخاص کوآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنا جانشین مقرر فرمایا ہے ،ان کے نام بھی کتا بوں میں درج ہیں ۔

سیرئہ ابن ہشام میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے غزوات بیان کئے گئے ہیں،اس سلسلہ میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے مدینہ میں مقررکئے گئے آپ کے جانشینوں کی فہرست

____________________

۱۔طبقات ابن سعد ،ج۳،ص۳۴۳،دار بیروت للطباعة والنشر۔

۲۔تاریخ طبری ،ج۳،جزء۵،ص۱۵۴،مؤسسہ عزالدین للطباعة والنشر،الامامة والسیاسة،ج۱ص۱۸۴ ،منشورات الشریف الرضی

۹

حسب ذیل ذکرکی گئی ہے:

۱ ۔غزوئہ بواط میں :سائب بن عثمان بن مظعون(۱)

۲ ۔غزوئہ عشیرہ میں :اباسلمةبن عبدالاسد(۲)

۳ ۔غزوئہ سفوان یعنی بدراولیٰ میں :زیدبن حادثہ(۳)

۴ ۔غزوئہ بدرکبریٰ میں :ابالبابہ(۴)

۵ ۔غزوئہ بنی سلیم میں :سباع بن عرفطة(۵)

۶ ۔غزوئہ سویق میں :عبدالمنذر)ابولبابہ)(۶)

۷ ۔غزوئہ ذی امر میں :عثمان بن غفان(۷)

۸ ۔غزوئہ فرع میں :ابن ام مکتوم(۸)

۹ ۔غزوئہ بنی قینقاع میں :بشیربن عبدالمنذر(۹)

۱۰ ۔غزوئہ احدمیں :ابن ام مکتوم(۱۰)

۱۱ ۔غزوئہ بنی النضیر میں :ابن ام مکتوم(۱۱)

۱۲ ۔غزوئہ ذات الرقاع میں :ابوذرغفاری یاعثمان بن عفان(۱۲)

۱۳ ۔غزوئہ بدر،دوم:عبداللہ بن عبداللہ بن ابی بن سلول انصاری(۱۳)

۱۴ ۔غزوئہ دومةالجندل میں :سباع بن عرفطة(۱۴)

____________________

۱۔سیرئہ ابن ہشام،ج۲،ص۲۴۸۔ ۲۔سیرئہ ابن ہشام ج،۲،ص۲۵۱ ۳۔سیرئہ ابن ہشام ،ج۲،ص۱ ۴۔سیرئہ ابن ہشام ج،۲ص۲۶۳و۲۶۴ ۵۔ج۳ص۴۹ ۶۔ج۳،ص۵۰ ۷۔ج۳،ص۴۹ ۸۔ج۳،ص۵۰ ۹۔ج۳،ص۵۲

۱۰۔ج۳،ص۶۸ ۱۱۔ج۳،ص۲۰۰ ۱۲۔ج۳،ص۲۱۴

۱۳۔سیرئہ ابن ہشام ج۳،ص۲۲۰ ۱۴۔سیرئہ ابن ہشام ج۳،ص۲۲۴

۱۰

۱۵ ۔غزوئہ خندق میں :ابن ام مکتوم(۱)

۱۶ ۔غزوئہ بنی قریظہ میں :ابن ام مکتوم(۲)

۱۷ ۔غزوئہ بنی لحیان میں :ابن ام مکتوم(۳)

۱۸ ۔غزوئہ ذی قرةمین:ابن ام مکتوم(۴)

۱۹ ۔غزوئہ بنی المصطلق میں :ابوذرغفاری(۵)

۲۰ ۔حدیبیہ میں :نمیلةبن عبداللہ لیثی(۶)

۲۱ ۔غزوئہ خیبر میں :نمیلةابن عبداللہ لیثی(۷)

۲۲ ۔فتح مکہ میں :کلثوم بن حصین(۸)

۲۳ ۔غزوئہ حنین میں : عتاب بن اسید(۹)

۲۴ ۔غزوئہ تبوک میں :محمدبن مسلمةانصاری یاسباع بن عرفطة(۱۰)

صحیح اورمشہورروایت یہ ہے کہ غزوئہ تبوک میں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نیحضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام کو اپنا جانشین مقرر فرمایا۔اس مطلب کے سلسلہ میں تاریخ اوراحادیث کی دسیوں کتابیں گواہ ہیں۔

۲۵ ۔حجتہ الوداع میں :ابودجانہ انصاری یاسباع بن عرفطہ(۱۱)

سریہ وہ جنگیں ہیں کہ جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہ نفس نفیس خود شرکت نہیں فرمائی ہے ،ایسی جنگوں میں پیغمبر )ص )کسی نہ کسی کوبہ حیثیت کمانڈر مقررفرماتے

____________________

۱۔سیرئہ ابن ہشام ،ج ۳،ص۲۳۱ ۲۔سیرئہ ابن ہشام،ص۲۴۵ ۳۔سیرئہ ابن ہشام،ص۲۹۲

۴۔سیرئہ ابن ہشام ص۳۲۱ ۵۔سیرئہ ابن ہشام،ص۳۰۲ ۶۔سیرئہ ابن ہشام،ص۳۲۱

۷۔سیرئہ ابن ہشام،ص۳۴۲ ۸۔سیرئہ ابن ہشام ،ج۴،ص۴۲ ۹۔سیرئہ ابن ہشام،ج۴،ص۹۳

۱۰۔سیرہ ابن ہشام، ج ۴، ص ۸۳ ۱۱۔سیرئہ ابن ہشام،ج۴،ص۲۴۸،داراحیائ التراث العربی،بیروت

۱۱

تھے۔یہاں تک کہ بعض جنگوں میں چندافرادکوکمانڈر کی حیثیت سے مقررفرماتے تھے،تاکہ کسی نا خوشگوارواقعہ پیش آنے کی صورت میں بلافاصلہ ترتیب سے دوسراشخص آگے بڑھ کرکمانڈری سنبھا لے۔جنگ موتہ میں پیغمبر نے زیدبن حارثہ کوکمانڈرمقررفرمایاتھا۔کسی مشکل سے دو چار ہونے کی وجہ سے ان کی جگہ پرجعفربن ابیطالب اوران کے بعدعبداللہ بن رواحہ کو کمانڈر کی حیثیت سے مقرر کیا تھا۔(۱)

بئرمعونہ میں آنحضرت (ص)نے چالیس افرادکوبھیجااورعبدالمنذربن عمرکوان کاامیر قراردیا(۲) ۔اورداستان رجیع میں فقہ کی تعلیم کے لئے چھ افرادکوبھیجااورمرثدبنابی مرثدعنوی کوان کاسردارقراردیا(۳) ۔

اب،جبکہ مذکورہ مطالب نیزان میں غور و حوض کرنے سے معلوم ہو جاتاہے کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اصل مقصدامت کی تربیت کرناتھا،چنانچہ قرآن مجیدنے فرمایاہے:

( ویزکیهم ویعلمهم الکتاب والحکمته ) (۴)

”وہ ان کے نفوذکوپاکیزہ بناتاہے اور انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتاہے۔“

آنحضرت (ص)،اپنی مسافرتوں کے درمیان چاہے وہ جس قدربھی مختصرہوتی تھی،اپناجانشین مقررکرنے میں کوتاہی نہیں فرماتے تھے اورکسی بھی گروہ کوکہیںروانہ کرتے وقت انھیں بے سرپرست نہیں چھوڑتے تھے آپاپنے مستقبل کے بارے میں پوری طرح آگاہ تھے،اس سلسلہ میں اپ کی پیشین گوئیاں موجودہیں،جن کے بارے میں شیعہ واہل سنّت کے بڑے محدثین نے اپنی حدیث کی کتابوں میں ذکرکیاہے۔اس لئے آپ اپنے بعداپنی شریعت پرحملہ آورہونے والے فتنوں سے آگاہ تھے،چنانچہ آپنے اس سلسلہ میں

____________________

۱۔سیرئہ ابن ہشام،ص،۵

۲۔سیرئہ ابن ہشام،ج۳، ص۱۹۴

۳۔سیرئہ ابن ہشام،ج۳،ص۱۸۳

۴۔آل عمران/۱۶۴

۱۲

خودخبردی ہے۔ان سب حقائق کے روشن ہونے کے بعدکیاآپاپنی جانشینی اورخلافت )جوآپکے بعداہم ترین مسئلہ اورآپ کے لئے فکرمندترین موضوع تھا)کے بارے میں کسی قسم کامنصوبہ نہیںرکھتے تھے اوراپنے بعدکسی کواپنے جانشین کی حیثیت سے منصوب و معین نہیں کرتے اور پوری طرح سے اس سے غافل وبے خیال رہتے ؟!! کیا ایسا ممکن ہے ؟!

خداوندمتعال نے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کورسالت کے لئے مبعوث کیا ہے اورآپ کی یوں توصیف کی ہے:

( ولقد جاء کم رسول من انفسکم عزیز علیه ماعنتّم حریص علیکم بالمؤمنین رؤف رحیم ) (توبہ/۱۲۸)

”یقیناتمہارے پاس وہ پیغمبرآیاہے کہ جوتمھیں میں سے ہے اوراس پرتمہاری ہرمصیبت شاق ہے وہ تمہاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتاہے اورمؤمنین کے حال پرشفیق اورمہربان ہے“

یہ ایک ایسامسئلہ ہے جسے عقل سلیم اوربیدارضمیرہرگزقبول نہیں کرتاہے اورقرآن وسنت کی قطعی دلالت اس کے برخلاف ہے۔

اس بناء پرشیعہ امامیہ کاعقیدہ یہ ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد ہونے والے امام اورخلیفہ کا اعلان اور انتخاب خدا وند عالم کی جانب سے فرمایاہے اوریہ مسئلہ قرآن مجید اورپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث میں بیان ہواہے۔

اس کتاب میں قرآن مجیدکی چندایسی آیات پربحث وتحقیق کی گئی ہے جوامامت اورائمہ علیہم السلام کی خصوصیات کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔

۱۳

مذکورہ آیات حسب ذیل ہیں:

۱ ۔آیہ ابتلا

۲ ۔آیہ مباھلہ

۳ ۔آیہ اولی الامر

۴ ۔آیہ ولایت

۵ ۔آیہ صادقین

۶ ۔آیہ تطھیر

۷ ۔آیہ علم الکتاب)آیہ شہادت)

ان آیات میں پہلے،خودآیتوں کے بارے میں بحث وتحقیق کی گئی ہے اور اس کے بعدان سے مربوط احادیث کوبیان کیاگیاہے اوران احادیث سے آیات کی دلالت میں استفادہ کیاگیا ہے۔

چونکہ اہم ان مباحث میں اہل سنت سے بھی مخاطب ہیں،اس لئے ان کے علماء اور مفسرین کانظریہ اوران کی احادیث بھی بیان کرکے علمی طورسے ان پر بحث کی گئی ہے اور اس سلسلہ میں موجود شبہات اوراعتراضات کو بیان کرنے کے بعدان کاجواب دیاگیا ہے۔

۱۴

پہلاباب :

امامت آیہ ابتلاء کی روشنی میں

( ( وإذاابتلیٰ ابرهیم ربّه بکلمات فاٴتمّهنّ قال إنّی جاعلک للنّاس إماماً قال ومن ذرّیّتی قال لا ینال عهدی الظالمین ) ) (بقرہ/۱۲۴)

”اوراس وقت کویادکروجب خدا نے چندکلمات کے ذریعہ ابراھیم علیہ السلام کاامتحان لیااورانھوںنے پوراکردیاتواس)خدا)نے کہا:ہم تم کولوگوں کا قائداورامام بنارہے ہیں۔)ابراھیم علیہ السلام)نے کہا گیا یہ عہدہ میری ذریت کو بھی ملے گا؟ارشادہواکہ یہ عہدئہ امامت ظالمین تک نہیں پہونچے گا۔“

اس آیہء کریمہ سے دو بنیادی مطلب کی طرف اشارہ ہو تاہے:

۱ ۔منصب امامت،نبوت ورسالت سے بلندترہے۔

۲ ۔منصب امامت،ظالموں اورستم گاروں کونہیں ملے گا۔

یہ مطلب تین باتوں پرمشتمل ہے:

پہلی بات:منصب امامت کابلندمرتبہ ہو نا۔

دوسری بات:منصب امامت ظالموں اورستم گاروں کونہیں ملے گا۔

تیسری بات:منصب امامت کازبان امامت سے تعارف۔

۱۵

پہلی بات

منصب امامت کابلند مرتبہ ہو نا

ہم اس آیہء شریفہ میں دیکھتے ہیں کہ خدائے متعال نے حضرت ابراھیم علیہ السلام سے بڑھاپے کے دوران نبوت رسالت کو سالہا سال گزرنے کے بعدان کی عمرکے آخری مرحلہ میں امتحان لیااور انھوں نے اس امتحان الہٰی کوقبول کیا اورکامیابی کے ساتھ مکمل کردکھا یا امامت کاعہدہ وہ ارتقائی درجہ تھا جواس عظیم ا متحان اورصبروثبات کے بعدانھیںعطاکیاگیا۔

آیہء کریمہ سے اس مطلب کو بہتر طریقہ سے واضح کرنے کے لئے،درج ذیل چند بنیادی نکات کی وضاحت ضروری ہے:

۱ ۔حضرت ابراھیم علیہ السلام کے امتحان اوران کی امامت کے درمیان رابطہ کیسا ہے؟

۲ ۔اس آیہء کریمہ میں بیان کیاگیاامتحان،کس قسم کا امتحان تھا؟

۳ ۔کیایہ کہا جاسکتاہے کہ،حضرت ابراھیم علیہ السلام کو عطا کئے گئے عہدہ امامت سے مرادان کا وہی منصب نبوت ورسالت ہی ہے؟

۴ ۔حضرت ابراھیم علیہ السلام کوعطا کی گئی امامت،کس چیزپردلالت کرتی ہے؟

۱۶

امتحان اورمنصب امامت کارابطہ

آیہء کریمہ:( واذابتلیٰ ابراهیم ربّه بکلمات فاٴتمّهنّ قال انّی جا علک للناس إماماً ) میں لفظ”إذ“ظرف زمان ہے اوراس کے لئے ایک متعلق کی ضرورت ہے۔”إذ“کامتعلق کیاہے؟

پہلااحتمال یہ ہے کہ”إذ“کامتعلق”اذکر“)یادکرو)ہے،جومخذوف اورپوشیدہ ہے،یعنی:اے پیغمبر (ص)!یاداس وقت کو کیجئے جب پروردگارنے ابراھیم علیہ السلام کا چندکلمات کے ذریعہ سے امتحان لیا۔

اس احتمال کی بنیادپرچنداعتراضات واردہیں:

۱ ۔مستلزم حذف وتقدیر)متعلق کو مخذوف اور مقدر ماننا)خلاف اصل ہے۔

۲ ۔”( إنی جاعلک للناس إماماً ) “کا اس کے پہلے والے جملہ سے منقطع ہو نا حرف عطف کے بغیرہونا لازم آتاہے۔

وضاحت:جملہء”قال انّی جاعلک“کابظاہرسیاق یہ ہے کہ وہ اپنے پہلے والے جملہ سے علٰحیدہ اورمنقطع نہیں ہے اورمعنی ومضمون کے لحاظ سے قبل والے جملہ سے وابستہ ہے،اورچونکہ اس کے لئے حرف عطف ذکرنہیں ہواہے،اس لئے بظاہر اس جملہ کے آنے سے پہلاجملہ مکمل ہوتا ہے،اوران دونوں فقروں کے درمیان ارتباط کلمہ”إذ“کے”قال“سے متعلق ہونے کی بناپرہے۔اسی صورت میں ایہء شریفہ کامعنی یوں ہوتا ہے:”جب ابراھیم علیہ السلام سے ان کے پروردگار نے امتحان لیا،توان سے کہا:میں تم کولوگوں کے لئے امام قرار دیتاہوں۔“اس بناپریہ امتحان حضرت ابراھیم علیہ السلام کو منصب امامت عطا کرنے کے لئے ایک وسیلہ اور ذریعہ تھا۔

۱۷

آیہء کریمہ کے اس مطلب پر قطعی گواہ کے لئے ایک دوسری آیت ہے کہ اس میں پیغمبروں کے ایک گروہ کے لئے صبروامامت کے درمیان رابطہ بخوبی بیان ہوا ہے:

( وجعلنا منهم ائمته یهدون بامرنا لماّصبروا وکانوا بآیاتنایوقنون ) (سجدہ/۲۴)

”اورہم نے ان میں سے کچھ لوگوں کوامام اورپیشواقراردیاہے جوہمارے امرسے لوگوں کی ہدایت کرتے ہیں،اس لئے کہ انہوں نے صبرکیاہے اورہماری آیتوں پریقین رکھتے تھے۔“

اس آیہء شریفہ میں ان پیغمبروں کوامامت ملنے کاسبب صبرویقین بیان کیاگیاہے اور یہ رابطہ حضرت ابرھیم علیہ السلام کے امتحان اورامامت کے درمیان رابطہ کوزیربحث آیت میں واضح اورروشن کرتاہے۔

۱۸

حضرت ابراھیم علیہ السلام کاامتحان

حضرت ابراھیم علیہ السلام کے امتحانات اور ان کی یہ آزمائشیں کن مسائل اور امور سے متلق تھیں کہ جس کا نتیجہ امامت کا عظیم عطیہ قرار پایاتھا۔

آیہء شریفہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ امتحان چند کلمات کے ذریعہ لیا گیا اورحضرت ابراھیم علیہ السلام نے انھیں مکمل کر دکھایا۔بظاہریہ کلمات ایک خاص قسم کے فرائض اوراحکام تھے کہ جن کے ذریعہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کا امتحان لیاگیا۔

قرآن مجیدمیں ،حضرت ابراھیم علیہ السلام کی تاریخ کے سلسلہ میں جوچیز”واضح وروشن امتحان“کے عنوان سے بیان ہوئی ہے،وہ ان کا اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کااقدام ہے:( إن هذا لهوالبلائ المبین ) (۱) بیشک یہ بڑا واضح و روشن متحان ہے)یہ)بیٹے کوذبح کرنے کااقدام)حقیقت میں وہی کھلاامتحان ہے۔یہ امتحان حضرت ابراھیم علیہ السلام کے اپنے پروردگار کے حضورمیں ایثاروقربانی اورمکمل تسلیم ہونے کامظہرتھا۔

اس مطلب کی طرف اشارہ کر نا ضروری ہے کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کایہ امتحان ان کی پیری اور بڑھاپے میں انجام پایاہے اور وہ بھی اس وقت جب ان کا بیٹاجوانی کے مرحلہ میں داخل ہوچکاتھا۔حضرت ابراھیم علیہ السلام اپنی جوانی کا مرحلہ طے کرنے تک صاحب اولادنہیں تھے۔جب بڑھاپے کے مرحلہ میں پہنچے اور اولادسے ناامیدہوئے، توخدائے متعال

____________________

۱۔ صا فات/۱۰۶

۱۹

نے انھیں اسماعیل واسحاق نام کے دو بیٹے عطاکئے اور یہ اس حالت میں تھاکہ جب ان کی نبوت اور رسالت کو سالہاسال گزرچکے تھے۔

کیااس آیت میں امامت سے مرادان کی وہی نبوت ورسالت نہیں ہے؟

خدائے متعال نے جوامامت حضرت ابراھیم علیہ السلام کوعطاکی،کیاوہ،وہی ان کی نبوت ورسالت تھی،جیساکہ بعض مفسرین نے بیان کیا ہے،یایہ امامت کوئی دوسراعہدہ ہے؟

اس سے پہلے بیان کئے گئے مطلب سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ امامت،درج ذیل دودلائل کے پیش نظرحضرت ابراھیم علیہ السلام کے پاس پہلے سے موجودنبوت ورسالت کے علاوہ تھی:

پہلے یہ کہ:یہ آیہء شریفہ اس بات پردلالت کرتی ہے کہ یہ امامت، حضرت ابراھیم علیہ السلام کوبہت سے امتحانات کے بعد عطاکی گئی ہے،کہ ان امتحانات کا ایک واضح وروشن نمونہ ان کااپنے بیٹے کو ذبح کرنے کااقدام تھاجبکہ نبوت ورسالت انھیں پہلے دی جاچکی تھی۔

دوسرے یہ کہ:آیہء کریمہ میں ”جاعلک“اسم فاعل ہے اور ادبی لحاظ سے اسم فاعل صرف اسی صورت میں اپنے مابعد پر عمل کر سکتا ہے اور کسی اسم کومفعول کے عنوان سے نصب دے سکتا ہے،جب ماضی کے معنی میں نہ ہو، ۱ بلکہ اسے حال یامستقبل کے معنی میں ہوناچاہئے۔اس بنا پرآیہء شریفہ:( إنیّ جاعلک للنّاس إماماً ) میں فاعل”جاعل“ کے دومفعول ہیں)ایک ضمیر”کاف“اوردوسرا”اماماً“)اس لئے ماضی کوملحوظ نظر نہیں قرار دیا جا سکتا۔

____________________

۱-البھجتہ المرضیتہ،مکتبتہ المفید،ج۲،ص۵-۶

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

( تابش آفتاب )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو سورج کی تابانی پر کہ کیسی تدبیر اس میں کار فرما ہے کہ اگر وہ آسمان کے ایک نقطہ پر ظاہر ہوتا اور وہیں رک جاتا، اور ذرہ برابر اپنی جگہ سے حرکت نہ کرتا تو ہرگز اس کی شعاعیں اور اس کے دوسرے فوائد تمام نقاط پر ظاہر نہ ہوتے، اس لئے کہ پہاڑ اور دیواریں اس کے درمیان حائل ہوجاتی۔

( چاند میں نمایاں دلیلیں خداوندتعالیٰ پر دلالت کرتی ہیں )

اے مفضل۔ ذرا چاند پر غور کرو اُس میں ایسی نمایاں دلیلیں موجود ہیں جو خداوند متعال پر دلالت کرتی ہیں ، چاند میں لوگوں کے لئے ایک بہت عظیم رہنمائی پوشیدہ ہے جس کے وسیلے سے لوگ سال کے قمری مہینوں کو پہچانتے ہیں ، چاند کے وسیلے سے سال شمسی کو نہیں پہچانا جاسکتا اس لئے کہ اس کی گردش چار گانہ فصلوں سے مطابقت نہیں رکھتی، اور نہ ہی پھلوںں کی نشوونما، انہیں کاٹنے یا اتارنے کی مدت تکمیل ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ سال قمری ، سال شمسی سے مختلف ہوتا ہے، اور سال قمری کے مہینے آگے پیچھے ہوجاتے ہیں کہ ایک دفعہ گرمیوں میں دوسری دفعہ سردیوں میں ، اب ذرا رات کے وقت اس کی روشنی اور اس کے فوائد پر غور کرو کہ انسان و حیوان کے آرام اور ہوا کے سرد ہوجانے کے باوجود ان کے لئے ہرگز یہ بات سود مند نہ ہوتی کہ رات بالکل تاریک اور اندھیری ہو، اور روشنی کا کہیں نام و نشان نہ ہو، کیونکہ ایسے میں وہ کوئی کام انجام نہیں دے سکتے تھے جب کہ بہت سے لوگ رات کو کام کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ، کیونکہ وہ ان کاموں کو دن کی تنگی یا شدت گرمی کی وجہ سے انجام نہیں دے سکتے، لہٰذا وہ رات میں چاند کی روشنی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض کاموں ،مثلاً،

۱۲۱

ذراعت، اینٹوں کا قالب میں رکھنا، درخت کاٹنا، وغیرہ کو انجام دیتے ہیں گویا چاند کی روشنی لوگوں کے لئے اُس وقت مددگار ثابت ہوتی ہے کہ جب وہ اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ، اور چاند کی روشنی سے رات کے مسافر بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور چاند میں اس طرح کی تدبیر رکھی کہ وہ بعض راتوں میں ظاہر اور بعض میں غائب ہو، اس کی روشنی کو سورج کی روشنی سے کم رکھا گیا ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو تمام لوگ اس کی روشنی سے استفادہ کرنے کے لئے کام کاج میں مشغول ہوجاتے اور بالکل آرام و سکون نہ کرتے کہ یہ عمل ان کی ہلاکت کا سبب بنتا، چاند کے اندر مختلف قسم کی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں کہ کبھی وہ کمان کی شکل اور کبھی لکیر نما دکھائی دیتا ہے ، کبھی اس میں زیادتی اور کبھی اس میں کمی واقع ہوتی ہے اور اسی طرح چاندگہن بھی ہوتا ہے کہ جو خالق دوجہاں کی قدرت پر دلالت کرتا ہے ، چاند کا گہن ہونا اور اس قسم کی دوسری تبدیلیاں بھی عالم کی بھلائی کے لئے ہیں جو خالق عالم کی قدرت کا منھ بولتا ثبوت ہیں جس سے عبرت حاصل کرنے والے لوگ عبرت حاصل کرتے ہیں۔

( ستاروں کی حرکت )

اے مفضل۔ ستاروں اور ان کی حرکت پر غور کرو،اُن میں سے بعض اپنے مرکز سے انفرادی حرکت نہیں کرتے ، بلکہ وہ اجتماعی حرکت کرتے ہیں ، جبکہ ان میں بعض آزادانہ طور پر ایک بُرج سے دوسرے بُرج کی طرف حرکت کرتے ہیں ، یہ اپنی حرکت میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں ،ان ستاروں کی حرکت دو طرح کی ہے ایک حرکت عمومی ہے جو فلک سے مغرب کی طرف ہے اور ایک حرکت خود ان سے متعلق ہے کہ جو وہ مشرق سے مغرب کی طرف کرتے ہیں ، ان کی مثال اس چیونٹی کی سی ہے، جو چکّی کے پتھر پر چکر لگارہی ہے کہ آسیاب کا پتھر اُسے سیدھی طرف حرکت دیتا ہے اور چیونٹی خود اُلٹی طرف حرکت کرتی ہے ، تو ایسی حالت میں دراصل چیونٹی دو طرح کی حرکت میں مصروف ہے ایک خصوصی

۱۲۲

جس کے تحت آگے کی طرف بڑھ رہی ہے اور دوسری حرکت آسیاب کے پتھر کے تحت انجام پا رہی ہے جو اسے پیچھے کی طرف کھینچتا ہے پس اب سوال کیا جائے اُن لوگوں سے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ ستارے اور ان کی یہ گردش حالت میں اتفاق اور بغیر قصد و ارادہ کے ہے اور ان کا کوئی بنانے والا نہیں۔ پس اگر ایسا ہے تو یہ سب ساکن کیوں نہیں یا یہ کہ سب کیوں برج سے برج کی طرف منتقل نہیں ہوتے اس لئے کہ اتفاق کا نتیجہ یہی ہی ہوتا ہے پھر کس طرح ان میں دو حرکتوں کا مشاہدہ کیا جاتا ہے، اس بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ستاروں کی حرکت حکمت، تدبیر اور قصد و ارادہ کا نتیجہ ہے اور ہرگز اتفاق کا نتیجہ نہیں کہ جس طرح فرقہ معطّلہ کے لوگ یہ گمان کرتے ہیں اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ آخر کیوں بعض ستارے ساکن اور بعض متحرک ہیں؟ تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ اگر تمام ستارے ایک ہی طرح ہوتے اور ان میں اختلاف نام کی کوئی چیز نہ ہوتی تو کس چیز کے ذریعہ انہیں پہچانا جاتا، اور دوسری بات یہ کہ ان کی حرکت ہی کی وجہ سے عالم میں پیش آنے والے حادثات کی پیشن گوئی کی جاتی ہے اور اگر وہ سب کے سب متحرک ہوتے تو ایسی صورت میں ان کی طرف سیر کرنا مشکل ہوجاتا، اس لئے کہ ان کی کوئی خاص جگہ نہ ہوتی کہ جس کے ذریعہ انہیں پہچانا جاتا ہے، اور نہ ہی کوئی اثر باقی رہتا کہ جس کے وسیلے سے ان تک رسائی ممکن ہوتی بلکہ ستاروں کے ساکن اور اور ثابت ہونے ہی کی وجہ سے ان کے مکان اور ان تک رسائی ممکن ہوتی ہے اس طرح جس طرح سے کوئی مسافر ایک منزل تک مختلف راستوں اور منزلوں کو طے کرتا ہوا پہنچتا ہے تو بس اگر تمام ستارے ایک ہی قسم کی حرکت رکھتے تو تمام نظام خراب ہوجاتا اور پھر کہنے والے کے لئے یہ بات کہنا صحیح ہوتی کہ ان سب کا ایک اندازہ پر ہونا اس چیز پر دلالت ہے کہ یہ سب محض اتفاقات کا نتیجہ ہیں، لہٰذا جو کچھ ہم نے ستاروں کی اختلاف سیر ان کے عمل اور جو کچھ ان کے فوائد و نتیجہ کے بارے میں بیان کیا، یہ سب چیزیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ وہ قصد وا رادہ کے تحت وجود میں آئے ہیں اور ان کے وجود میں تدبیر استعمال کی گئی ہے۔

۱۲۳

( ثریا، جوزہ ، شعریین، اور سہل میں حکمت )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو ان ستاروں پر کہ جو سال میں کچھ وقت ظاہر اور کچھ وقت پوشیدہ رہتے ہیں، مثلاً ثریا، جوزہ، شعریین ،اور سہل اگر یہ سب ستارے ایک ہی ساتھ اورایک ہی وقت میں ظاہر و نمودار ہوتے تو ان کی پہچان مشکل ہوجاتی اور بہت سے کام انجام نہ دیئے جاتے ، مثلاً ثریا کے طلوع و غروب ہونے کا علم، جس سے لوگ مختلف فائدے حاصل کرتے ہیں ان ستاروں کا طلوع و غروب ہونا ایک دوسرے سے مختلف ہے تاکہ لوگ انہیں پہچان کر ان سے بہرہ مند ہوسکیں، یہی وجہ ہے کہ ثریا، جوزا وغیرہ کبھی غائب ہوتے ہیں اور کبھی ظاہر ہوتے ہیں۔

( بنات النعش ستارہ ہمیشہ ظاہر رہتا ہے )

بنات النعش ستارہ کو خداوند متعال نے اس طرح بنایا ہے کہ وہ ہمیشہ ظاہر رہتا ہے اور غائب نہیں ہوتا، کیونکہ بنات النعش ایک ایسی علامت ہے کہ جس کے ذریعہ لوگ صحراء و بیابان اور دریا میں اپنی کھوئی ہوئی راہ کو پاتے ہیں اسی لئے یہ ہمیشہ ظاہر ہے اور غائب نہیں ہوتا، تاکہ لوگ جب چاہیں اُسے دیکھیں اور اپنی سمت کو معین کریں، درحقیقت یہ امور جو آپس میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں لوگوں کی احتیاج و ضرورت کو پورا کرنے اور ان کے فائدے کے لئے ہے،اس قسم کے ستاروں میں اور بہت سے فوائد ہیں وہ یہ کہ بہت سے کاموں کے اوقات ان کے ذریعہ معلوم ہوتے ہیں مثلاً زراعت، درختکاری، سفر دریا، وصحراء اور مختلف حوادث مثلاً ہوا، بارش ، گرمی ، سردی کا ظاہر ہونا بھی انہی کے ذریعہ معلوم ہوتا ہے اور ان کی روشنی سے رات میں سفر کرنے والے افراد فائدہ اُٹھاتے ہیں، اوراس

۱۲۴

کے ذریعہ سے رہنمائی پاتے ہوئے خوفناک قسم کے بیابان اور دریاؤں میں سفر کو جاری رکھتے ہیں، ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ ان ستاروں کا آسمان کے درمیان پستی و بلندی اور طلوع و غروب کی حالت میں حرکت کرنا عبرت حاصل کرنے والوں کے لئے عبرت ہے کہ تیزی سے یہ ستارے اپنے مدار میں حرکت میں مصروف ہیں ۔

( چاند، سورج اور ستارے ہم سے اس قدر دور کیوں ہیں؟ )

اے مفضل۔ ہم کس طرح سے چاند ، سورج اور ستاروں کو ان کی تیز ترین حرکت کے باوجود قریب سے دیکھ سکتے تھے ؟ کیا ہماری آنکھیں ان کی تیز روشنی سے اپنی بصیرت و بینائی نہ کھو بیٹھیں، جس طرح سے کبھی اگر آنکھوں پر تیز روشنی پڑجائے تو آنکھیں اپنی بینائی کھو بیٹھتی ہیں اس کی مثال اس طرح ہے کہ اگر کچھ لوگ ایک ایسے قُبّہ کے درمیان ہوں جو چراغوں سے پر ہو اور وہ قبہ تیزی سے ان کے ارد گرد چکر لگانے لگے تو مسلماً وہ ان کی آنکھوں کو اس طرح حیراں کردے گا کہ وہ اپنا کام کرنا چھوڑ دیں گی۔ پس ذرا غور کرو اُس تدبیر پر کہ ان کی سیر و حرکت کو انسانوں سے دور رکھا گیا، تاکہ ان کی آنکھیں ان کے ضرر سے محفوظ رہیں، اور ان میں کسی قسم کا خلل ایجاد نہ ہونے پائے۔

ستاروں کو تھوڑی سی روشنی عطا کی گئی تاکہ ان کی روشنی چاند کی غیر موجودگی میں اس کی نیابت کرے، اور لوگوں کے لئے رات کا سفر کرنا ممکن ہوسکے ، اس لئے کہ انسان کی زندگی میں کبھی کوئی ایسا حادثہ پیش آتا ہے کہ جس کی وجہ سے وہ رات ہی کے وقت اپنی جگہ چھوڑنے پر مجبور ہوتا ہے، پس اب اگر اس آدھی رات میں کوئی چیز ایسی نہ ہو کہ جس کی روشنی میں وہ راہ دیکھ سکیں تو کبھی بھی وہ اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتے تھے۔

اب ذرا غور کرو ، اس لطیف تدبیر و حکمت پر کہ خداوند متعال نے رات کے لئے ضرورت کے مطابق

۱۲۵

وقت مقرر کیا اور اس کی تاریکی میں اتنی روشنی رکھی جس سے لوگ اپنی وہ تمام ضرورتیں پوری کرسکیں کہ جس کے بارے میں وضاحت کی جاچکی ہے۔ اے مفضل۔ فکر کرو اس نظام پر جو سورج، چاند، ستاروں اور برجوں کے ساتھ مل کر عالم کے گرد محو گردش ہے اور اس گردش میں ایک صحیح اندازاہ و میزان ہے جس کے نتیجے میں شب ور وز منظم اور چار فصلیں وجود میں آتی ہیں اور جو حیوانات و نباتات پر بھی اثر انداز رہے ہیں اور یہ اس پورے نظام میں ان کی مصلحت ہے، جیسا کہ تمہارے لئے بیان کرچکا ہوں ، تو کیا اب بھی کسی صاحب عقل سے یہ بات پوشیدہ و مخفی رہ جاتی ہے کہ یہ سب کام ایک ذات کی حکمت اور اس کی تدبیر کے سبب ہیں اور یہ کہ اس نظام کا صحیح اور ایک معین اندازہ پر ہونا ایک ہی ذات حکیم کی طرف سے ہے، اب اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ یہ وہ چیزیں ہیں جو اتفاق سے اسی طرح وجود میں آئی ہیں، تو پھر وہ کیوں یہی کلام اس چرخے کے بارے میں نہیں کہتے جو گھومتا ہے اور پانی کو کنویں سے باہر لانے کا کام انجام دیتا ہے جس سے باغ وغیرہ سیراب ہوتے ہیں اور تم دیکھتے ہو کہ تمام آلات کو ایک خاص اندازہ کے تحت بنایا جاتا ہے کہ جن میں بعض ، بعض سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ سب باغ اور اس میں موجود اشیاء کے لئے بے انتہاء مفید ہیں، تو پھر کس طرح یہ کلام حقیقت پر مبنی ہوسکتا ہے کہ یہ دنیا خود بخود وجود میں آئی ہے؟ اور لوگوں کی اس وقت کیا رائے ہوتی ہے جب یہ کلام ان کے سامنے کہا جاتا ہے ، وہ اُس کا انکار کرتے ہیں یا نہیں؟ اے مفضل۔ تعجب تو اس بات پر ہے کہ جب اگر کوئی یہ کلام ایک ایسے تختے کے بارے میں کہتا ہے کہ جسے عام انسان نے ایک خاص کام کے لئے بنایا ہے، کہ یہ تختہ خودبخود وجود میں آیا ہے تو سب مل کر اس کے مخالف ہوجاتے ہیں اور اس سے اس کلام کو ہرگز قبول نہیں کرتے ، مگر صد افسوس کہ جب یہ کلام اس عجیب و غریب دنیا کے بارے میں کہا جاتا ہے جو ایک حیرت انگیز حکمت کے تحت وجود میں آئی ہے، کہ جس تک ذہنِ بشری کی رسائی ممکن نہیں اور جسے زمین اور اس میں موجود اشیاء کی بھلائی کے لئے بنایا ہے، تو اسے سب قبول کرلیتے ہیں کہ یہ دنیا

۱۲۶

اتفاق اور بغیر کسی صانع کی صنعت کے وجود میں آئی ہے۔

اے مفضل۔ ذرا سوچو کہ اگر ان افلاک (نظام) میں کوئی خلل پیدا ہوجائے کہ جس طرح ان آلات میں پیدا ہوجاتا ہے کہ جنہیں صنعت کے کام میں استعمال کیا جاتا ہے تو کس صانع کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے بارے میں چارہ اندیشی کرے۔

( رات اور دن پندرہ گھنٹے سے تجاوز نہیں کرتے )

اے مفضل۔غور کرو شب و روز کے اندازہ پر،ان کے واقع ہونے،اور ُس تدبیر پر جس میں اس کے بندوں کی بھلائی ہے جب دن اور رات بڑے ہونا شروع ہوتے ہیں تو '' 5ا پندرہ'' گھنٹے سے کسی بھی صورت میں تجاوز نہیں کرتے ، کیا تم اس بات کو محسوس نہیں کرتے کہ اگردن ''100 '' گھنٹے یا ''200 '' گھنٹے کا ہوتا تو زمین پر زندگی پسر کرنے والے تمام حیوانات و نباتات ہلاک ہوجاتے ، حیوان اس لئے ہلاک ہوتے کہ انہیں آرام وسکون نہ ملتا، چوپائے چرنے سے فارغ نہ ہوتے، اور انسان اپنے کام کاج سے فارغ نہ ہوتا ،اور نباتات اِس لئے ہلاک ہو جاتے کہ سورج کی روشنی اور حرارت ان پر طویل مدت تک پڑتی ، جس کی وجہ سے وہ خشک ہوجاتے اور جل کر خاک بن جاتے اور اسی طرح رات معین شدہ مدت سے زیادہ طولانی ہوتی تو حیوانات اپنی حرکت نہ کر پاتے اور بھوک کے مارے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ، اور اس طولانی مدت میں نباتات سے حرارت طبیعی ختم ہوجاتی ، اور وہ فاسد ہوجاتے بالکل اس پودے کی طرح کہ جسے اس جگہ یا مکان پر رکھ دیا جائے کہ جہاں سورج کی روشنی نہیں پہنچتی۔

۱۲۷

( سردی اور گرمی کے فوائد )

سردی اور گرمی سے جو چار فصلوں کی تکمیل کا باعث ہیں عبرت حاصل کرو۔ کہ یہ خاص نظم و ضبط اور اعتدال کے ساتھ جہان کو اپنے فائدوں سے بہرہ مند کرتی ہے۔ سردی اور گرمی دو ایسے وسیلے ہیں کہ جن کے ذریعے مال اور بدن کی اصلاح ہوتی ہے اور یہ عمل بدن کی بقاء اور اس کی بھلائی کے لئے ہے، اس لئے کہ اگر سردی وگرمی نہ ہوتیں اور اُن کا بدن پر کوئی اثر نہ ہوتا تو بدن فاسد ، سست اور کمزور پڑجاتا۔ اے مفضل ان میں سے ہر ایک کے دوسرے میں داخلے کی تدریجی حالت پر غور کرو ایک ہلکے ہلکے کم ہوتی ہے اور دوسری پہلی کی طرح ہلکے ہلکے بڑھتی جاتی ہے، یہاں تک کہ پہلی اپنی انتہاء تک پہنچ جاتی ہے اور اگر ان میں سے ایک کا دوسرے کے اندر داخل ہونا غیر تدریجی ہوتا تو مسلماً یہ عمل جسم کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتا ، بیمار ہونے کا سبب بن جاتا جس طرح سے اگر تم میں سے کوئی ایک گرم حمام سے نکل کر سرد جگہ پر چلا جائے تو قطعاً وہ مریض ہوجائے گا، پس پھر کیوں خداوند متعال نے سردی اور گرمی کے اندر اس تدریج کو رکھا، سوائے اس کے کہ انسان ان کے ضرر سے محفوظ رہ سکے، اگر یہ عمل تدبیر سے ہٹ کر ہوتا تو کیوں کر انسان سردی اور گرمی کے ناگہاں ضرر سے محفوظ رہتا اب اگر کوئی یہ گمان کرے کہ سردی اور گرمی کا تدریجی طور پر ہونا سورج کی سست رفتار اس کی پستی اور بلندی کی وجہ سے ہے تو اس سے سوال کیا جائے گا کہ سورج کے سست رفتار ہونے کی علت کیا ہے؟اور اگر وہ کہے کہ سورج کی سست رفتار ہونے کی علت مشرق ومغرب کا طویل فاصلہ ہے تو پھر اس سے اس دوری اور اس فاصلہ کی علت کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اور اسی طرح یہ مسئلہ اوپر تک چلا جائے گا،یہاں تک کہ بات یہاں ختم ہوگی کہ یہ تمام کام مقصد و ارادہ کے تحت وجود میں آئے ہیں کہ اگر گرمی نہ ہوتی تو پھل کسی بھی صورت میں سخت ونرم، پکے اور میٹھے نہ ہوتے، کہ لوگ ان کے تر اور خشک ہونے سے فائدہ

۱۲۸

اُٹھا سکیں اگر سردی نہ ہوتی تو ذراعت کسی بھی صورت میں اس مقدار میں نہیں ہوسکتی تھی جو تمام حیوانات کی غذا کے لئے کافی ہو اور نہ اس قدر کہ اس کے بیج سے دوبارہ ذراعت کی جاسکے، تو کیا تم نہیں دیکھتے کہ سردی اور گرمی اس قدر فوائد کے باوجود انسان پر اثر انداز ہوتی ہے اور یہ سب چیزیں عبرت حاصل کرنے والوں کے لئے عبرت ہیں کہ جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ تمام چیزیں خداوند حکیم و مدبر کی تدبیر کے سبب ہیں۔

( ہوا میں تدبیر )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو ہوا اور اس میں استعمال شدہ عظیم تدبیر پر ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ جب ہوا رک جاتی ہے تو فضا میں اس طرح حبس ہوجاتا ہے کہ سانس اکھڑنے لگتے ہیں، ہوا کا رکنا صحیح و سالم کو مریض اور مریض کو مریض تر ، پھلوں کو فاسد، اور سبزیوں کو خراب کر دیتا ہے، ایسی حالت میں بدن کے اندر مختلف قسم کے امراض جنم لیتے ہیں اور غلّہ برباد ہوجاتا ہے ۔ ان تمام چیزوں کا رونما ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ہوا کے چلنے ہی میں مخلوق کی بھلائی ہے کہ جو خالق حکیم کی تدبیر کے سبب ہے۔

( ہوا کے فوائد )

اے مفضل۔ میں تمہیں ہوا میں پائے جانے والے فوائد کے بارے میں بتاتا ہوں۔آواز ، وہ اثر ہے کہ جو ہوا میں اجسام کے ملنے سے پیدا ہوتی ہے یہ ہوا ہے کہ جو اس آواز کو کان تک پہنچاتی ہے ، اگر وہ تمام گفتگو وکلام جو لوگ دن رات اپنے معاملات اور دوسرے امور کے بارے میں کرتے ہیں ہوا میں باقی رہ جاتا کہ جس طرح کاغذ کا لکھا اُس پر باقی رہ جاتا ہے ، تو عالم کلام سے پُر ہوجاتا اور یہ عمل

۱۲۹

لوگوں کو تنگی اور سختی سے دوچار کرتا، اور ان کے لئے مشکلات ایجاد کردیتا اور وہ جو ضرورت ہوا کی تبدیلی اور اُسے تازہ کرنے کے لئے محسوس کرتے ، وہ کاغذ کی تبدیلی اور اس کی تجدید کی احتیاج و ضرورت سے کہیں زیادہ ہوتی۔ اس لئے کہ جو کچھ کلام کیا جاتا ہے وہ لکھنے سے کئی گناہ زیادہ ہے، لہٰذا خلاق عالم نے ہوا کو ایسا مخفی کاغذ قرار دیا کہ کلام چاہے جتناہو اُسے بغیر کسی وقفہ کے اپنے کاندھوں پر اُٹھا کر محو کرتا ہے اور پھر دوبارہ صاف ہوجاتا ہے۔

اے مفضل۔ اس نسیم سے کہ جسے ہوا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور اس کے فوائد سے عبرت حاصل کرو، اس لئے کہ ہوا بدن کے اندر داخل ہوکر اسے زندگی بخشتی ہے اور اس کا خارج ہونا روح کے لئے باعث آرام و سکون ہے ، ہوا کے اندر ایک بہاؤ ہے کہ جو آواز کو دور ،دور تک پہنچاتا ہے اور یہ ہوا ہے کہ جس کے ذریعہ بوئیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتی ہیں۔ کیا تم اس بات کو محسوس نہیں کرتے کہ کس طرح سے اس جگہ سے بو آتی ہے ، جہاں سے ہوا آرہی ہو، اور بالکل اسی طرح آواز بھی اور یہ ہوا ہے کہ جو سردی اور گرمی کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے جن میں عالم کی بھلائی کا راز پوشیدہ ہے اور یہ ہوا جب اجسام پر چلتی ہے تو ان کے لئے باعث پاکیزگی و رونق ہوتی ہے ، ہوا ہی بادلوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت دیتی ہے ، تاکہ تمام لوگ ان کے فوائد سے بہرہ مند ہوسکیں اور جب بادل غلیظ ہوکر برستے ہیں تو انہیں جدا کرنے کا کام بھی ہوا ہی انجام دیتی ہے، تاکہ یہ باریک ہو کر بکھر جائیں ، ہوا ہی سے درخت پھل دار ہوتے ہیں ،ہوا ہی کشتی کو پانی میں حرکت دیتی ہے، کھانے کو لطیف ، پانی کو ٹھنڈا ، آگ کو شعلہ آور، تر چیزوں کو خشک کرنے کا کام بھی ہوا ہی انجام دیتی ہے مختصر یہ کہ زمین پر تمام موجود اشیاء کو ہوا زندگی بخشتی ہے، کہ اگر ہوا نہ ہوتی تو نباتات خشک ہوجاتے ، حیوانات ہلاک ہوجاتے اور تمام چیزیں فاسد اور ضائع ہوکر رہ جائیں۔

۱۳۰

( زمین کی وسعت )

اے مفضّل ۔ذرا غور کرو کہ چار فصلوں کی ایک وسیع مدت معےّن کی گئی ہے تاکہ لوگ اپنی ضرورت کے مطابق ان سے فائدہ اٹھاسکیںان کی یہ وسعت زمین کے پھیلاؤ کی وجہ سے ہے ، اگر زمین کا پھیلاؤ اور اس کی وسعت زیادہ نہ ہوتی تو کس طرح لوگوں کے رہنے، ان کے ذراعت کرنے اور جانوروں کے چرانے کے لئے جگہ ہوتی اور اسی طرح لکڑی ، تختہ ، سوکھی لکڑیاں ، ضروری دوائیں اور قیمتی معدنیات کے لئے کہاں سے جگہ فراہم ہوتی؟ شاید کوئی ان خالی و وحشت زدہ بیابان اور خشک زمینوں کا منکر ہو اورکہے کہ ان میں کیا فائدے ہیں؟ تو ان کے جواب میں کہا جائے گا کہ وہ وحشی جانوروں کے رہنے کی جگہ، اور ان کی چراگائیں ہیں۔ اس کے علاوہ یہ ان لوگوں کے لئے پناہ گاہیں ہیں کہ جو پریشانی کے باعث اپنے وطن کو چھوڑنے پر مجبور ہیں اسی وجہ سے تم دیکھتے ہو کہ بیابان و صحراء شہر اور محل سکونت میں تبدیل ہوگئے، اگر زمین کی وسعت اتنی نہ ہوتی تو لوگ ایسا محسوس کرتے کہ جیسے وہ کسی حصار میں گھرگئے ہیں اور وہ درپیش مصیبت و پریشانی سے بچنے کے لئے اپنے وطن کو چھوڑنے کی مجبوری کے باوجود کسی دوسری جگہ نہیں جا سکتے۔

( زمین ثابت کیوں؟ )

اے مفضل۔ اب ذرا زمین پر غور کرو کہ وہ جس دن سے بنی ہے اُسی روز سے ثابت و ساکن ہے تاکہ اسے اشیاء کے لئے وطن قرار دیا جاسکے، اور لوگ اپنے کام کاج کے سلسلے میں کوشش اورجدوجہد کرسکیں اور آرام و سکون کے لئے اس پر بیٹھ سکیں، جسم کی تھکاوٹ و آرام کے لئے اس پر سو سکیں اور

۱۳۱

اپنے امور میں استحکام پیدا کرسکیں، اگر زمین چیزوں کو حرکت دیتی تو اُس پر کبھی بھی محکم عمارتیں نہیں بنائی جاسکتی تھیں، اور تجارت و صنعت جیسے کاروبار کو اس پر انجام نہیں دیا سکتا تھا ، گویا لوگوں کے لئے زندگی گزارنا مشکل ہوجاتا کیونکہ ان کے پاؤں کے نیچے وہ زمین ہوتی کہ جو لرزتی رہتی، اس حالت کو تم ان لوگوں میں دیکھ سکتے ہو جو زلزلہ کی کیفیت کو محسوس کرچکے ہوں۔

( زلزلہ اور مختلف بلائیں نازل ہونے کا سبب )

اے مفضل۔ تم دیکھتے ہو کہ ذرا سی دیر کا زلزلہ لوگوں کو گھر چھوڑنے اور وہاں سے فرار کرنے پر مجبور کردیتا ہے اب اگر یہ سوال کیا جائے کہ آخر یہ زلزلہ کیوں آتا ہے؟ تو ا س کے جواب میں کہا جائے گا کہ زلزلہ اور ایسے دوسرے واقعات لوگوں کے لئے نصیحت ہیں، جن کے ذریعہ لوگوں کو ڈرایا جاتا ہے، تاکہ برائیوں سے بچیں اور اُن سے منھ موڑ لیں اوروہ بلائیں جو انسان کے بدن میں بیماریوں کی صورت اور ان کے اموال پر نازل ہوتی ہیں وہ بھی ایک عظیم تدبیر کے تحت انسانوں کی اصلاح ، بھلائی اور ان کی استقامت کے لئے ہیں اور اگر بندے ان پر استقامت و صبر کا مظاہرہ کریں تو ان کے اس عمل کا اجر وثواب آخرت کے لئے اس قدر لکھا جاتا ہے کہ دنیا کہ کوئی بھی چیز اُس کا مقابلہ نہیں کرسکتی، اور جس اجر وثواب کے عطا کرنے میں ان کی دنیاوی بھلائی ہو تو وہ انہیں دنیا ہی میں عطا کردیا جاتا ہے۔

( زمین اور پتھر کا فرق )

اے مفضل ، خداوند متعال نے طبیعی طور پر زمین اور پتھر کو سخت اور خشک پیدا کیا ہے۔ فقط زمین اور پتھر کے درمیان جو فرق ہے ، وہ پتھر کا زیادہ خشک ہونا ہے ، کیا تم اس بات کا مشاہدہ نہیں کرتے کہ اگر

۱۳۲

زمین بھی پتھر کی طرح خشک اور سخت ہوتی تو کیا نباتات و حیوانات اس پر اپنی زندگی گزار سکتے تھے اور کیا اس پر ذراعت کی جاسکتی تھی کیا تم نہیں دیکھتے کہ اس کی خشکی کو پتھر کی خشکی سے کم رکھا گیا ہے اور اُسے اس لئے نرم خلق کیا گیا ہے تاکہ مختلف کاموں کو بآسانی اس پر انجام دیا جاسکے۔ اور زمین اپنے ساکنین کے لئے تکیہ گاہ ثابت ہوسکے۔

( شمالی اور جنوبی ہوائیں )

اے مفضل۔ خالق دوجہاں کی تدابیر میں سے ایک تدبیر یہ بھی ہے کہ اس نے شمالی ہواؤں کے مکان کو جنوبی ہواؤں کے مکان سے کافی بلند رکھا ہے، جانتے ہو خداوند متعال نے ایسا کیوں کیا؟ سوائے اس کے کہ ہوائیں زمین پر چلتی رہیں اور زمین کی تمام ضروریات پوری ہوسکیں بالکل اسی طرح سے جس طرح پانی کے مسلسل جریان کے لئے اس نے زمین کو ایک طرف سے بلند اور دوسری طرف سے نیچے رکھا تاکہ پانی کا بہائو رکنے نہ پائے (جیساکہ تم شمالی ہواؤںاور جنوبی ہواؤں کے بارے میں سن چکے ہو) اگر ایسا نہ ہوتا تو پانی زمین پر پھیل جاتا اور لوگ کام کاج سے مجبور ہوجاتے، اور پھر یہ پانی گلیوں اور سڑکوں کے خراب کردیتا۔

( پانی کی ضرورت )

اے مفضل۔ اگر پانی فراوانی سے نہ ہوتا تو لوگوں کی ضروریات کے باوجود چشموں، بیابانوں اور نہروں میں پانی کی کمی ہوجاتی ، یہ پانی پینے، گلے کے سیراب کرنے، انکی ذراعت، درختوں ، مختلف قسم کے دانوں ، وحشی درندوں ، پرندوں اور مچھلیوں اور ان حیوانات کے پینے کے لئے ہے جو بہت بڑی

۱۳۳

تعداد میں زندگی بسر کرتے ہیں، پانی کے اندر اور بھی دوسرے بہت سے فائدے ہیں کہ جنہیں تم اچھی طرح جانتے ہو، مگر تم اس کے بڑے اور عظیم فائدوں سے بے خبر ہو، اس لئے کہ وہ فائدے ان فائدوں کے علاوہ ہیں کہ جو روئے زمین پر حیوانات و نباتات کو پانی کی وجہ سے حاصل ہوتے ہیں جنہیں ہر ایک جانتا ہے ، اس کے علاوہ پانی کے دوسرے فائدے یہ ہیں کہ اسے بہت سی چیزوں میں مخلوط کیا جاتا ہے جو پینے والے کے لئے خوشمزہ اور زود ہضم ثابت ہوتا ہے ، پانی ہی کے ذریعہ بدن اور لباس کی کثافت کو دور کیا جاتا ہے، پانی ہی سے مٹی کو گیلا کیا جاتا ہے ، تاکہ وہ تعمیراتی کام کے قابل ہوجائے، پانی ہی کے وسیلے سے آگ کے اُن دھکتے ہوئے شعلوں کو ختم کیا جاتا ہے۔ جبکہ وہ جو لوگوں کے لئے باعث زحمت و مشقت بن چکے ہوں ، پانی خود بھی خوشمزہ اور خوش ذائقہ ہے، اور دوسری چیزوں کو بھی خوش ذائقہ بناتا ہے۔ اس کے وسیلے سے لوگ حمام میں جاکر اپنی تھکاوٹ کو دور کرتے ہیں اور اس کے علاوہ بھی پانی کے بہت سے فائدے ہیں کہ جو ضرورت پڑنے پر ظاہر ہوتے ہیں اور اگر تم یہ خیال کرو کہ پانی کی اتنی کثرت و زیادتی کا کیا فائدہ ہے جو دریاؤں میں تہہ بہ تہہ ایک دوسرے پر تکیہ کئے ہوئے ہے، تو اس بات کو جان لو کہ دریاؤں میں پانی جمع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر وہ چیزیں موجود ہیں کہ جنہیں گنا نہیں جاسکتا ، جیسے مختلف مچھلیاں ، آبی حیوانات، معادن، لؤلؤ، یاقوت، عنبر اور اس قسم کی دوسری چیزیں ، دریاؤں ہی کے کنارے پر عور (درخت کا نام) معطر پودے مختلف قسم کے عطریات اور دوائیں اُگتی ہیں، اور اسکے دوسرے فائدے یہ ہیں کہ دریا لوگوں کے سفر اور تجارت کے سازو سامان کے حمل کی جگہ ہے کہ جس کے وسیلے سے چیزیں ایک شہر سے دوسرے شہر لے جائی جاتی ہیں،جیسا کہ مختلف چیزیں ، چین سے عراق اور عراق سے چین لے جائی جاتی ہیں اس لئے کہ اگر حیوانات کے علاوہ کوئی اور دوسری چیزنہ ہوتی جو انہیں حمل کرتی تو یہ سب چیزیں اپنے ہی شہر میں باقی رہ جاتیں اور فاسد و ضائع ہوجاتیں اس لئے کہ انہیں حمل کرنے کی مزدوری ان کی اپنی قیمت سے کہیں

۱۳۴

زیادہ بڑھ جاتی اور ان چیزوں کو کوئی حمل کرنے کی فکر میں نہ ہوتا، اور انہیں حمل کرنے کی صورت میں دو حالتیں سامنے آتیں ۔

اول: یہ کہ ان چیزوں کی ضرورت کے باوجود ان کی بہت زیادہ کمی ہوتی۔

دوم: یہ کہ معیشت اور تجارت کے سامان کو اس ہی وسیلے سے ایک جگہ سے دوسری جگہ حمل کیا جاتا ہے کہ جس کے نفع سے زندگی آرام و سکون سے گزاری جاتی ہے، وہ سب منقطع ہوکر رہ جاتا اور یہی حال ہوا کا ہے کہ اگر ہوا بھی اس وسعت و فراوانی کے ساتھ نہ ہوتی تو اُس فضا میں منتشر دھووؤںاور بخارات کی وجہ سے لوگوں کے دم گھٹ کر رہ جاتے ، اور ہوا کو اس أمر پر مجبور کیا گیا ہے کہ وہ انہیں بادلوں کی صورت میں تبدیل کرے اور ہوا کے مختلف قسم کے فوائد میں پہلے ہی بیان کرچکا ہوں۔

( آگ کے فوائد )

اے مفضل۔اب ذرا آگ پر غور کرو کہ اگر وہ بھی پانی اور ہوا کی مانند ہر جگہ پھیلی ہوئی ہوتی تو دنیا اور اس کی تمام اشیاء کو جلا کر خاک کردیتی اور کیوں کہ لوگوں کو اس کی ضرورت ہے اور اس میں ان کے لئے بہت سے فائدے ہیں لہٰذا اسے خزانہ کی مانند کام درخت میں جگہ عطا کی تاکہ اُس کی ضرورت کے وقت اُس سے استفادہ کیا جاسکے، اور تیل اورلکڑی کے وسیلہ سے اُسے اُس وقت تک باقی رکھا جاسکے جب تک اِسکی ضرورت ہے یہ بات بجا اور صحیح ہے کہ تیل اور لکڑی کی مدد سے آگ کو بجھنے نہ دیا جائے، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ دھکتی رہے، اور جو چیز بھی ہو اُسے جلا کر خاک کردے، بلکہ وہ ایک ایسی چیز کی طرح ہے کہ جو ہر وقت آمادہ ہے ، مگر پوشیدہ کہ اسی عمل میں اس کے منافع اور مصالح سے استفادہ اور اس کے ضرر سے محفوظ رکھا گیا ہے، اور آگ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ انسانوں کے لئے بنائی گئی ہے ، اس لئے کہ انسانوںکے لئے آگ میں بے انتہا فائدے ہیں انسان کی زندگی میں

۱۳۵

اگر آگ جیسی نعمت نہ ہوتی تو اُس کی معیشت کو بڑا نقصان پہنچتا ، لیکن چوپائے آگ کو استعمال نہیں کرتے اور اس کے فائدے سے محروم ہیں ایسا اس لئے ہے کہ خداوند عالم نے انسان کو ایسے ہاتھ سے نوازا ہے جو ہتھیلی اور انگلیوں کر مرکب ہے جس کے وسیلے سے وہ آگ کو روشن اور دوسرے کام انجام دے سکتا ہے، جبکہ حیوانات اس نعمت عظمیٰ سے محروم ہیں ، لیکن اس کے بدلے انہیں صبر وتحمل جیسی قوت عطا کی گئی تاکہ آگ کا نہ ہونا ان کے لئے نقصان دہ ثابت نہ ہو جیسا کہ انسان کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ۔ اے مفضل، میں تمہیں آگ کے بڑے فائدوں میں سے چھوٹا سا فائدہ بتاتا ہوں ، جس کی قدر و قیمت بہت زیادہ ہے ، اور وہ یہ چراغ ہے کہ جسے لوگ جلاتے ہیں ، اور اس کی روشنی میں وہ اپنے تمام کام انجام دیتے ہیں کہ اگر یہ نہ ہوتا تو لوگوں کی زندگی اُن مردوں کی طرح گذرتی جو قبر میں ہیں ایسی صورت میں کون لکھنے ، حفظ کرنے یا بننے کے کام کو انجام دے سکتا تھا، یا پھر کوئی کس طرح سے پیش آنے والے حادثہ یا کسی درد والم کے دور کرنے کے لئے مرہم یا دوا فراہم کرسکتا تھا، اور آگ کے دوسرے فائدے یہ ہیں کہ وہ کھانا پکانے، بدن گرم کرنے، چیزوں کو خشک کرنے، اجناس کو حل کرنے کے استعمال میں لائی جاتی ہے ، اور آگ کے دوسرے بہت سے فائدے ہیں کہ جنہیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں جو ظاہر و آشکار ہیں۔

( صاف اور بارانی ہوا )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو صاف اور بارانی ہوا پر کہ کس طرح وہ عالم پر سے یکے بعد دیگرے اپنا سفر طے کرتی ہیں کہ جس میں اس دنیا کی بھلائی ہے ، کہ اگر اُن میں سے ایک بھی دائمی ہوتی تو عالم میں فساد ہوجاتا، کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جب مسلسل بارش ہوتی ہے تو سبزیاں سڑ جاتی ہیں پودے فاسد ہوجاتے ہیں ، حیوانات کے بدن سست اور ہوا سرد ہوجاتی ہے کہ جس سے مختلف قسم کے مرض ایجاد

۱۳۶

ہوتے ہیں ، گلی اور سڑک وغیرہ بھی خراب ہوجاتے ہیں اور اسی طرح اگر ہوا صاف رہے تو زمین خشک ہوجائے، تمام اُگنے والی چیزیں جل جائیں، تمام چشموں، ندیوں ، اور نہروں کا پانی خشک ہوجائے، یہ صورت بھی لوگوں کے لئے بے انتہا نقصان دہ ثابت ہوتی ، اور خشکی ہوا پر مسلط ہوجاتی کہ جس سے مختلف امراض وجود میں آتے ، لیکن ان کے معتدل ہونے کی وجہ سے عالم ان کے ضرر سے محفوظ رہتا ہے ، اور تمام چیزیں فاسد اور ضائع ہونے سے بچ جاتی ہیں اب اگر کوئی سوال کرے کہ ایسا کیوں نہیں ہوا کہ ان دونوں میں سے ایک مضر نہ ہوتی تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ دونوں کا مضر ہونا اس لئے ہے تاکہ انسان کو کچھ درد والم و پریشانی کا سامنا کرنا پڑے ، اور وہ گناہ سے دوری اختیار کرے، جیسا کہ جب انسان کا بدن مریض ہوجاتا ہے تو وہ تلخ اور کڑوی دواؤں کا محتاج ہوتا ہے ، تاکہ اُسکا جسم صحیح و سالم ہوجائے بالکل ایسے ہی کہ جب انسان طغیان و شرارت میں مبتلاء ہوجائے تو کوئی چیز تو ہونی چاہیے کہ جو ایسے وقت میں اُسے درد والم اور پریشانی میں مبتلا کرے ، تاکہ وہ طغیان اور شرارت کرنے سے رکا رہے، اور ہرگز برے کام انجام نہ دے کہ جس میں اسکی دنیا او ر آخرت دونوں کی بھلائی ہے۔

اے مفضل۔ بادشاہوں میں سے اگرکوئی ایک بادشاہ اپنی رعایا کو ہزاروں سونے و چاندی کے درہم و دینار عطا کردے ، تو کیا یہ بادشاہ کا عطا کرنا اُس رعایا کو عظیم نہیں معلوم ہوتا؟ اور کیا وہ اُس کے کرم و سخاوت کے گن نہیں گاتے؟ جبکہ وہ بادشاہ کہاں اور ایک بارش کا نازل کرنے والا کہاں جس بارش کے وسیلے سے شہر آباد اور نباتات نشوونما پاتے ہیں جسکے فوائد تمام ملکوں اور قوموں کے نزدیک سونے، چاندی کے سکّوں کے وزن سے کہیں زیادہ ہیں، کیا تم نہیں دیکھتے کہ اس بارش ہی کے اندر کتنے فائدے اور اسکی قدروقیمت کس قدر عظیم ہے، اسکے باوجود لوگ اس سے غافل ہیں۔ صد افسوس ایسے لوگوں پر جو کم قدر و قیمت کی چیزوں کی حاجت پورا نہ ہونے پر اپنی تندوتیز زبان کو خداوند متعال کے بارے میں دراز کرتے ہیں ، جبکہ اس چیز کا نہ ہونا ہی انکے لئے سودمندہے اور یہ لوگ کم قیمت چیز کو اس

۱۳۷

چیز پر ترجیح دیتے ہیں کہ جس کی قدر وقیمت بہت زیادہ ہے اور یہ ان کے بارش اور اس کے فوائد سے جاہل ہونے کی وجہ سے ہے۔

( بارش کے فائدے )

اے مفضل۔ فکر کرو بارش کے برسنے اور اس میں استعمال شدہ تدبیر پر کہ کس طرح بارش اوپر سے نیچے کی طرف برستی ہے، تاکہ وہ ہرچیز تک پہنچ کر اُسے سیراب کردے کہ اگر بارش اطراف سے برستی تو کبھی بھی تمام چیزوں تک نہیں پہنچ سکتی تھی جس کے نتیجے میں ذراعت کم ہوتی کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ ذراعت جو رواں دواں پانی اور چشموں کے ذریعہ ہوتی ہے، اُس ذراعت سے کہیں کمتر ہے جو بارش سے ہوتی ہے اور کیوں کہ بارش تمام زمین ، بیابان، پہاڑ، ٹیلے اور دوسری تمام چیزوں پر برستی ہے اس لئے کہ غلہ زیادہ ہوتاہے، بارش ہی کے وسیلے سے آب پاشی اور آب رسانی کا سلسلہ کم ہوجاتا ہے،اور بارش لوگوں کے درمیان ظلم و ستم اور فساد کا خاتمہ کردیتی ہے کہ قدرت مند لوگ پانی لے جاتے ہیں اور ضعیف و کمزور محروم رہ جاتے ہیں، اور کیوں کہ بارش کے مقدر میں اس بات کو رکھا کہ وہ اوپر سے نیچے کی طرف برسے، لہٰذا اس طرح تدبیر ہوئی کہ وہ قطرہ قطرہ کی صورت میں زمین پر آئے، اور اس میں داخل ہوکر اُسے سیراب کرے، اس لئے کہ اگر وہ ایک ہی مرتبہ میں تمام کی تمام برستی تو فقط زمین پر جاری ہوتی اور ہرگز اس کے اندر داخل نہ ہوتی ، اور اس کے علاوہ اگر وہ ذراعت پر پڑتی تو اُسے تباہ کر دیتی ، ان تمام وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس طرح کی تدبیر رکھی گئی کہ وہ آرام اور نرمی کے ساتھ برسے تاکہ وہ دانے کہ جو کاشت کئے جاچکے ہیں ، اُگیں اور زمین ذراعت کے لئے زندہ ہوجائے بارش میں دوسرے بھی بہت سے فائدے ہیں ، وہ یہ کہ بارش بدن کو نرم ، ہوا کو کدورت سے پاک اور اُن بلاؤں کو جو درختوں اور ذراعت پر نازل ہوتی ہیں کہ جن میں سے ایک یرقان ہے دور کرتی ہے،

۱۳۸

اور اس قسم کے دوسرے بے انتہاء فوائد۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ کیا ایسا نہیں ہوتا کہ بعض دفعہ اس بارش میں بہت بڑا نقصان دیکھنے میں آتا ہے، چاہے وہ تیز بارش یا اولوں کی صورت میں ہو کہ جو ذراعت کو تباہ کر دیتی ہے ، یا پھر ان بخارات کی وجہ سے جو ہوا میں پیدا ہوتے ہیں کہ جن میں سے بہت سے بیماریاں وجود میں آتی ہیں اور وہ آفات کی صورت میں غلات پر نازل ہوتی ہیں، تو اسکا جواب یہ ہے کہ یقینا بعض دفعہ ایسے حادثات رونما ہوتے ہیںجسکی وجہ لوگوں کی اصلاح ہے، انہیں معصیت سے دور اور اسے مسلسل انجام دینے سے روکتا ہے، لہٰذا ان کے مال کے نقصان کے ذریعہ ان کے دین کے نقصان کو دور کیا جاتا ہے جو مال کے ضرر و نقصان سے کئی گناہ ہے۔

( پہاڑ خداوند عالم کی عظیم نشانی )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو ان بلند پہاڑوں پر کہ کس طرح مٹی و پتھر ایک ساتھ ملے ہوئے ہیں، غافل لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ پہاڑ ایک زائد چیز ہے کہ جسکی ضرورت نہیں جبکہ ان میں بہت سے فائدے ہیں ، یہ ان لوگوں کے لئے کہ جو اسکی ضرورت رکھتے ہیں برف پہاڑوں کی چوٹیوں پر پڑی رہتی ہے تاکہ جو لوگ اس کے ضرورت مند ہوں وہ اُس سے فائدہ اٹھائیں۔ اور پھر یہ برف پانی کی صورت اختیار کرلیتی ہے کہ جس سے بڑی بڑی نہریں وجود میں آتی ہیں ، اور ان نہروں میں اس قسم کے نباتات اور دوائیں اُگتی ہیں کہ جو بیابان اور صحراء میں نہیں اُگتیں اور پہاڑوں ہی کے اندر وحشی درندوں کے رہنے کے لئے غار ہوتے ہیں اور پہاڑ ہی دشمن سے حفاظت کے لئے محکم قلعہ کے حصار کا کام انجام دیتا ہے۔ پہاڑوں ہی سے قیمتی پتھر حاصل کئے جاتے ہیں کہ جو عمارتوں اور چکی وغیرہ کے لئے استعمال میں لائے جاتے ہیں ، اور اسی سے ہمیں مختلف معدنیات حاصل ہوتی ہیں اور پہاڑ میں دوسرے ایسے بھی بہت سے فائدے ہیں کہ جنہیں فقط خداوند متعال ہی جانتا ہے کہ جس نے انہیں اپنی عظیم تدبیر کے تحت خلق کیا ہے۔

۱۳۹

( معدنیات )

اے مفضل۔ معدنیات مثلاً مختلف اقسام کے جواہرات ، چونا کا پتھر، سیمنٹ، قلعی، چوہے مار پوڈر، معدنی دوائ، توتیا، سرمہ، پیتل ، سیسہ، چاندی، سونا، زبرجد، یاقوت، زمرد اور مختلف اقسام کے قیمتی پتھروں پر غور فکر کرو اور ذرا سوچو کہ کس طرح ان سے تارکول، مومیا، ماچس کا مصالحہ، مٹی کا تیل اور دوسری ایسی چیزیں برآمد ہوتی ہیں کہ جن سے لوگ اپنی مختلف ضرورتیں پوری کرتے ہیں تو کیا اب بھی کسی صاحب عقل سے یہ بات پوشیدہ رہ جاتی ہے کہ پہاڑ کیوں بنائے گئے ہیں؟پہاڑ وںمیںخداوند متعال نے بے انتہاء خزانوں کو رکھا، تاکہ لوگ اپنی ضرورت کے وقت انہیں نکالیں اور ان سے استفادہ کریں، اب ذرا دیکھو کہ خداوندمتعال نے انسان کو ہر چیز کے بنانے کا علم عطا نہ کیا کہ اگر ایسا ہوتا تو انسان ان تمام چیزوں کو بناڈالتا، اور وہ دنیا میں بکھر کر رہ جاتیں، سونا اور چاندی وغیرہ عام ہوجاتے جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ لوگوں کے درمیان ان کی قدر وقیمت کم ہوجاتی ، اور کیونکہ وہ خرید وفروخت میں اپنی کوئی قدروقیمت نہ رکھتے، لہٰذا لوگوں کے درمیان معاملات انکے ذریعہ طے نہ پاتے ، اور کبھی بھی بادشاہ أموال کی طرف نہ کھنچتا، اور کوئی بھی انہیں اپنی اولاد کے لئے ذخیرہ نہ کرتا لہٰذا خداوند متعال نے انسان کو اُس صنعت کا علم عطا کیا، جس میں اس کے لئے ضرر نہیں۔مثلاً پیتل سے مجسمے اور برتن وغیرہ، ریت سے جست،جست سے چاندی اور چاندی سے سونا ، (اے مفضل) ذرا غور کرو کہ کس طرح سے خداوند متعال نے انسان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا بندوبست کیا کہ جس میں اس کے لئے ذرا بھی نقصان نہیں ، اور ان تمام چیزوں کو انسان سے دور رکھا کہ جس میں اس کے لئے نقصان و ضرر ہے، اب اگر کوئی یہ کوشش کرے کہ وہ اس معدن تک پہنچ جائے کہ جو ایک ایسی بڑی وادی کی انتہا میں ہے کہ جو ایک ایسے پانی سے متصل ہے کہ جو اپنی شدت کے ساتھ جاری ہے، اور اس پانی میں ذرہ برابر چیز بھی

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271