امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت28%

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 271

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 271 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 116644 / ڈاؤنلوڈ: 4489
سائز سائز سائز
امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

انہوں نے کہا:خداشاہد ہے،نہیں۔

فرمایا:تمھیں خداکی قسم دلاتاہوں،کیاتم لوگوں میں میرے علاوہ کوئی ہے،جس نے پیغمبر سے سرگوشی سے پہلے صدقہ دیاہو،یہاں تک کہ خدائے وند متعال نے اس حکم کو منسوخ کر دیا؟

انہوں نے کہا۔خدا شاہدہے نہیں۔

فرمایا:تمھیں خداکی قسم ہے،کیاتم لوگوں میں میرے علاوہ کوئی ہے،جس نے قریش اورعرب کے مشرکین کوخدااوراس کے رسول (ص)کی راہ میں قتل کیاہو؟

انہوں نے کہا:خدا گواہ ہے،نہیں۔

فرمایا:تمھیں خداکی قسم ہے،کیاتم لوگوں میں میرے علاوہ کوئی ہے،جس کے حق میں پیغمبراکرم (ص))افزائش)علم کے سلسلہ میں دعاکی ہواوراذن واعیہ)گوش شنوا)کا خدا سے مطالبہ کیاہو،جس طرح میرے حق میں دعاکی؟انہوں نے کہا:خدا گواہ ہے،نہیں۔فرمایا:تمھیں خداکی قسم ہے،کیاتم لوگوں میں کوئی ہے جوپیغمبراکرم (ص)سے رشتہ داری میں مجھ سے زیادہ نزدیک ہواورجس کوپیغمبرخدا (ص)نے اپنا نفس،اس کے بیٹوں کواپنے بیٹے کہاہو؟انہوں نے کہا:خدا گواہ ہے،نہیں۔“

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اس حدیث میں مباہلہ میں شریک ہو نے والے افراد،کہ جنھیں پیغمبراکرم (ص)اپنے ساتھ لائے تھے وہ،علی،فاطمہ،حسن،وحسین )علیہم السلام)کی ذات تک محدود ہیں۔

حدیث کامعتبرراورصحیح ہونا:

ا ہل سنت کی احادیث کے بارے میں ہم صرف مذکورہ احادیث ہی پراکتفاکرتے ہیں،اوران احادیث کے مضمون کی صحت کے بارے میں یعنی مباہلہ میں صرف پنجتن آل عبا)پیغمبر کے علاوہ علی،فاطمہ حسن وحسین علیہم السلام)ہی شا مل تھے اس حوالے سے صرف حاکم نیشابوری کے درج ذیل مطالب کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

۶۱

وہ اپنی کتاب”معرفةعلوم الحدیث“(۱) میں پہلے آیہء مباہلہ کے نزول کوابن عباس سے نقل کرتاہے اور وہ انفسنا سے حضرت علی علیہ السلام،”نسائنا“سے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہااور”ابناء نا“سے حسن وحسین علیہما السلام مراد لیتا ہے۔اس کے بعدابن عباس اور دوسروں سے اس سلسلہ میں نقل کی گئی روایتوں کومتواترجانتے ہوئے کے اہل بیت(ع)کے بارے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس فرمائش:”هؤلائ اٴبنائناواٴنفسنا ونسائنا “کے سلسلہ میں یاددہانی کراتاہے۔

چنا نچہ اس باب میں اصحاب کے ایک گروہ جیسے جابربن عبداللہ،ابن عباس اور امیرالمؤمنین کے حوالے سے مختلف طرق سے احادیث نقل ہو ئی ہیں،اس مختصرکتاب میں بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے،اس لئے ہم حاشیہ میں بعض ان منابع کی طرف اشارہ کرنے ہی پر اکتفاکرتے ہیں(۲)

____________________

۱۔معر فة علوم الحدیث،ص۵۰،دارالکتب العلمیة،بیروت

۲۔احکام القرآن /جصاص/ج۲/ص۱۴دارالکتاب العربی بیروت، اختصاص مفید/ص۵۶/من منشورات جماعة المدرسین فی الحوزة العلمیة، اسباب النزول /ص۶۸/دارالکتب العلمیة بیروت،اسد الغابة/ ج۴/ ص۲۵/ داراحیائ التراث العربی بیروت الا صابہ/ج۲/جزء ۴/ص۲۷۱، البحر المحیط/ج۳/ ص۴۷۹/ داراحیائ التراث العربی بیروت،البدایة و النھایة/ ج۵/ ص۴۹ دارالکتب العلمیة بیروت، البرھان/ ج۱/ص۲۸۹/ مؤسسہ مطبوعاتی اسماعیلیان، التاج الجامع للاصول/ ج۳/ ص۳۳۳/داراحیاء التراث العربی بیروت، تاریخ مدینہ دمشق/ج۴۲/ص۱۳۴/ دارالفکر، تذکرہ خواص الامة/ ص۱۷/ چاپ نجف، تفسیر ابن کثیر/ج۱/ص۳۷۸/دارالنعرفة بیروت،تفسیربیضاوی/ج۱/ص۱۶۳/دارالکتب العلمیة بیروت، تفسیرخازن) الباب التاویل) /ج۱/ص۲۳۶/دارالفکر، تفسیر الرازی/ج۸/ص۸۰/داراحیاء التراث العربی بیروت، تفسیرالسمر قندی) بحرالعلوم)/ج۱ص/۲۷۴دارالکتب العلمیة بیروت، تفسیر طبری/ ج۳ /ص۳۰۱۔۲۹۹/دالفکر،تفسیر طنطاوی/ ج۲/ ص۱۳۰/ دارالمعارف القاہرة، تفسیر علی بن ابراہیم قمی /ج۱/ص۱۰۴، تفسیر الماوردی/ ج۱/ ص۳۸۹و۳۹۹/ مؤسسة ظالکتب الثقافیة/ دارالکتب العلمیة بیروت، التفسیر المنیر/ج۳/ ص۲۴۵ ،۲۴۸، ۲۴۹/ دارالفکر، تفسیرالنسفی) در حاشیہئ خازن)/ ج۱/ ص۲۳۶/دارالفکر،تفسیر النیشابوری/ج۳/ص۲۱۳/دارالمعرفة بیروت،تلخیص المستدرک/ج۳/ص۱۵۰/دارالمعرفة بیروت،جامع احکام القرآن/قرطبی/ج۴/ص۱۰۴/دارالفکر، جامع الاصول/ج۹/ص۴۶۹داراحیاء التراث العربی،الجامع الصحیح للترمذی/ج۵/ص۵۹۶/دارالفکر، الدرالمنثور/ج۲/ص۲۳۳۔۲۳۰/دارالفکر، دلائل النبوة ابونعیم اصفہانی/ص۲۹۷، ذخائر العقبی/ص۲۵/مؤسسةالوفائ بیروت، روح المعانی/ج۳/ص۱۸۹/داراحیائ التراث العربی، الریاض النضرة/ج۳/ص۱۳۴/دارالندوة الجدید بیروت، زاد المسیر فی علم التفسیر/ج۱/ص۳۳۹/دارالفکر، شواہد التنزیل/حاکم حسکانی/ج۱/ص۱۶۷۔۱۵۵/مجمع احیائ الثقافة الاسلامیة، صحیح مسلم/ج۵/ص۲۳/کتاب فضائل الصحابة/باب فضائل علی بن ابی طالب /ح۳۲/مؤ سسة عزّالدین، الصواعق المحرقة/ص۱۴۵/مکتبة القاہرة، فتح القدیر/ج۱/ص۳۱۶/ط مصر )بہ نقل احقاق)، فرائد السمطین/ج۲/ص۲۳،۲۴/مؤ سسةالمحمودیبیروت، الفصول المہمة/ص۲۵۔۲۳،۱۲۶۔۱۲۷/منشورات الاعلمی، کتاب التسہیل لعلوم التنزیل /ج۱/ص۱۰۹/دارالفکر، الکشاف/ج۱/دارالمعرفة بیروت، مدارج النبوة/ص۵۰۰بمبئی)بہ نقل احقاق)،المستدرک علی الصحیحن/ج۳/ص۱۵۰/دارالعرفةبیروت،مسند احمد/ج۱/ص۱۸۵/دار صادربیروت، مشکوةالمصابیح/ج۳/ص۱۷۳۱/المکتب الاسلامی، مصابیح السنة/ج۴/ص۱۸۳/دارالمعرفة بیروت، مطالب السئول/ص۷/چاپ تہران، معالم التنزیل /ج۱/ص۴۸۰/دارالفکر، معرفة اصول الحدیث/ص۵۰/دارالکتب العلمیة بیروت، مناقب ابن مغازلی /ص۲۶۳/المکتبة الاسلامیة تہران

۶۲

۲ ۔شیعہ امامیہ کی احادیث

شیعہ روایتوں میں بھی اس واقعہ کے بارے میں بہت سی فراوان احادیث موجود ہیں،یہاں پرہم ان میں سے چنداحادیث کونمونہ کے طورپرذکرکرتے ہیں:

پہلی حدیث

امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ،جب نجران کے عیسائی پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئے،ان کی نمازکا وقت ہو گیاوہیں پرگھنٹی بجائی اور)اپنے طریقہ سے)نماز پڑھنا شروع کےا۔اصحاب نے کہا:اللہ کے رسول یہ لوگ آپکی مسجد میں یوںعمل کررہے ہیں!آپ نے فرما یا: انھیں عمل کر نے دو۔

جب نمازسے فارغ ہوئے،پیغمبراکرم (ص)کے قریب آئے اورکہا:ہمیں آپ کس چیزکی دعوت دیتے ہو؟

آپنے فرمایا:اس کی دعوت دیتاہوں کہ،خدائے واحدکی پرستش کرو، میں خدا کارسول ہوں اورعیسیٰ خدا کے بندے اور اس کے مخلوق ہیںوہ کھاتے اورپیتے ہیں نیزقضائے حاجت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا:اگروہ خدا کے بندے ہیں تواس کاباپ کون ہے؟

پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پروحی نازل ہوئی کہ اے رسول ان سے کہدیجئے کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں کیاکہتے ہیں؟وہ خداکے بندے اوراس کی مخلوق ہیں اورکھاتے اورپیتے ہیںاورنکاح کرتے ہیں۔

آپنے فرمایا:اگرخداکے ہربندے اورمخلوق کے لئے کوئی باپ ہوناچاہئے توآدم علیہ السلام کا باپ کون ہے؟وہ جواب دینے سے قاصررہے۔خدائے متعال نے درج ذیل دوآیتیں نازل فرمائیں:

( إنّ مثل عیسی عند اللّٰه کمثل آدم خلقه من تراب ثم قال له کن فیکون فمن حاجّک فیه من بعد ماجاء ک من العلم قل تعالوا ندع اٴبناء نا واٴبنائکم ونسائنا ونسائکم واٴنفسنا واٴنفسکم ) (آل عمران /۶۱)

”عیسی کی مثال اللہ کے نزدیک آدم جیسی ہے کہ انھیں مٹی سے پیداکیااورپھرکہاہوجاتو وہ پیداہوگئےاے پیغمبر!علم کے آجانے کے بعدجولوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہدیجئے کہ ٹھیک ہے تم اپنے فرزند،اپنی عورتوں اوراپنے نفسوں کو بلاؤاور ہم بھی اپنے فرزند،اپنی اپنی عورتوں اور اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں پھرخداکی بارگاہ میں دونوں ملکردعاکریں اورجھوٹوں پرخداکی لعنت کریں“

۶۳

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:”میرے ساتھ مباہلہ کرو،اگر میں نے سچ کہاہوگاتوتم لوگوں پرعذاب نازل ہوگااوراگرمیں نے جھوٹ کہاہوگاتومجھ پر عذاب نازل ہوگا“

انہوں نے کہا:آپنے منصفانہ نظریہ پیش کیاہے اورمباہلہ کوقبول کیا۔جب وہ لوگ اپنے گھروں کولوٹے،ان کے سرداروں نے ان سے کہا:اگرمحمد (ص)اپنی قوم کے ہمراہ مباہلہ کے لئے تشریف لا ئیں ،تووہ پیغمبرنہیں ہیں،اس صورت میں ہم ان کے ساتھ مباہلہ کریں گے،لیکن اگر وہ اپنے اہل بیت)علیہم السلام)اوراعزہ کے ہمراہ تشریف لا ئیں توہم ان کے ساتھ مباہلہ نہیں کریں گے۔

صبح کے وقت جب وہ میدان مباہلہ میں اگئے تودیکھاکہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ علی،فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام ہیں۔اس وقت انہوں نے پوچھا:یہ کون لوگ ہیں؟ان سے کہاگیا:وہ مردان کاچچا زادبھائی اورداماد علی بن ابیطالب ہیں اور وہ عورت ان کی بیٹی فاطمہ ہے اوروہ دوبچے حسن اورحسین )علیہماالسلام)ہیں۔

انہوں نے مباہلہ کر نے سے انکار کیا اورآنحضرت (ص)سے کہا:”ہم آپ کی رضایت کے طا لب ہیں۔ہمیں مباہلہ سے معاف فرمائیں۔“آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے ساتھ صلح کی اورطے پایاکہ وہ جزیہ اداکریں۔(۱)

دوسری حدیث

سیدبحرانی،تفسیر”البرہان“میں ابن بابویہ سے اورحضرت امام رضا علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں:

”حضرت)امام رضا علیہ السلام)نے مامون اور علماء کے ساتھ)عترت وامت میں فرق اورعترت کی امت پرفضیلت کے بارے میں )اپنی گفتگو میں فرمایا:جہاں پر خدائے متعال

____________________

۱۔تفسیر علی بن ابراھیم،مطبعة النجف ،ج۱،ص۱۰۴،البرہان ج۱،ص۲۸۵

۶۴

ان افرادکے بارے میں بیان فرماتاہے جو خدا کی طرف سے خاص طہار ت و پاکیزگی کے مالک ہیں،اور خدااپنے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کوحکم دیتاہے کہ مباہلہ کے لئے اپنے اہل بیت کو اپنے ساتھ لائیں اورفرماتاہے: ۔۔۔( فقل:تعالوا ندع اٴبنائنا واٴبنائکم ونسائنا ونسائکم واٴنفسنا واٴنفسکم ) ۔۔۔

علماء نے حضرت سے کہا: آیہ میں ’انفسنا“سے مرادخودپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں!امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:آپ لوگوں نے غلط سمجھا ہے۔بلکہ”انفسنا“ سے مرادعلی بن ابیطالب(علیہ السلام)ہیں۔اس کی دلیل یہ ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بنی ولیعہ سے فرمایا: ”اٴولاٴبعثنّ إلیهم رجلاً کنفسی “یعنی:”بنی ولیعہ کواپنے امورسے دست بر دار ہو جا ناچاہئے، ورنہ میں اپنے مانندایک مردکوان کی طرف روانہ کروں گا۔“

”ابنا ء نا“ کے مصداق حسن وحسین)علیہماالسلام)ہیں اور”نساء نا“سے مراد فاطمہ (سلام اللہ علیہا) ہیں اوریہ ایسی فضیلت ہے،جس تک کوئی نہیں پہونچ سکااوریہ ایسی بلندی ہے جس تک انسان کاپہنچنااس کے بس کی بات نہیں ہے اوریہ ایسی شرافت ہے جسے کوئی حاصل نہیں کرسکتاہے۔یعنی علی(علیہ السلام)کے نفس کواپنے نفس کے برابرقراردیا۔(۱)

تیسری حدیث

اس حدیث میں ،ہارون رشید،موسی بن جعفر علیہ السلام سے کہتاہے:آپ کس طرح اپنے آپ کوپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اولادجانتے ہیں جبکہ انسانی نسل بیٹے سے پھیلتی ہے اورآپ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیٹی کے بیٹے ہیں؟

امام )علیہ السلام )نے اس سوال کا جواب دینے سے معذرت چاہی ۔ہارون نے کہا:اس مسئلہ میں اپ کواپنی دلیل ضروربیان کرنا ہو گی آپ فرزندان،علی علیہ السلام کا یہ دعوی

____________________

۱۔تفسیر البرہان،ج۱،ص۲۸۹،مؤسسہئ مطبو عاتی اسما عیلیان

۶۵

ہے آپ لوگ قرآن مجیدکامکمل علم رکھتے ہیں نیز آپ کا کہنا ہے کہ قرآن مجیدکاایک حرف بھی آپ کے علم سے خارج نہیں ہے اوراس سلسلہ میں خداوندمتعال کے قول: ۔۔۔( ما فرّطنا فی الکتاب من شیء ) ۔۔۔(۱)

سے استدلال کرتے ہیں اوراس طرح علماء کی رائے اوران کے قیاس سے اپنے آپ کوبے نیاز جانتے ہو!

حضرت)امام مو سی کاظم علیہ السلام)نے ہارون کے جواب میں اس آیہء شریفہ کی تلاوت فرمائی جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوحضرت ابراھیم علیہ السلام کی ذریت تایاگیا ہے:

( و من ذرّیّته داود و سلیمان و اٴیوب و یوسف و موسی و هارون و کٰذلک نجزی المحسنین زکریا و یحی و عیسی وإلیاس ) ۔۔۔(۱)

”اورپھرابراھیم کی اولاد میں داؤد،سلیمان،ایوب،یوسف،موسیٰ اورہارون قراردیا اورہم اسی طرح نیک عمل کرنے والوں کوجزادیتے ہیں۔اورزکریا،یحیٰ،عیسیٰ اورالیاس کو بھی رکھاجوسب کے سب نیک عمل انجام دینے والے ہیں ۔“

اس کے بعد امام (علیہ السلام)نے ہارون سے سوال کیا:حضرت عیسیٰ(علیہ السلام)کاباپ کون تھا؟اس نے جواب میں کہا:عیسیٰ(علیہ السلام)بغیرباپ کے پیداہوئے ہیں۔امام (ع)نے فرمایا:جس طرح خدائے متعال نے جناب عیسی کوحضرت مریم(سلام اللہ علیہا)کے ذریعہ ذریت انبیاء)علیہم السلام)سے ملحق کیاہے اسی طرح ہمیں بھی اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہاکے ذریعہ پیغمبراکرم (ص)سے ملحق فرمایاہے۔

اس کے بعد حضرت(ع)نے ہارون کے لئے ایک اور دلیل پیش کی اور اس کے لئے

____________________

۱۔انعام/۳۸

۲۔انعام/۸۴۔۵

۶۶

آیہء مباہلہ کی تلاوت کی اورفرمایا:کسی نے یہ دعوی نہیں کیاہے کہ مباہلہ کے دوران، پیغمبراکرم (ص)نے علی،فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام کے علاوہ کسی اورکو زیر کساء داخل کیاہو۔اس بناء پر آیہء شریفہ میں ”ابنائنا“سے مرادحسن وحسین) علیہماالسلام) ”نسائنا“سے مرادفاطمہ (سلام اللہ علیہا) اور”انفسنا“سے مرادعلی علیہ السلام ہیں۔(۱)

چوتھی حدیث

اس حدیث میں کہ جسے شیخ مفیدنے”الاختصاص“میں ذکرکیاہے۔موسی بن جعفرعلیہ السلام نے فرمایا:پوری امت نے اس بات پراتفاق کیاہے کہ جب پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اہل نجران کومباہلہ کے لئے بلایا تو زیر کساء)وہ چادر جس کے نیچے اہل بیت رسول تشریف فرما تھے (علی، فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا۔اس بنائ پرخدائے متعال کے قول:( فقل تعالوا ندع اٴبنائنا و اٴبناء کم و نساء نا و نسائکم و اٴنفسنا و اٴنفسکم ) میں ”ابنائنا“سے حسن وحسین)علیہماالسلام)”نسائنا“سے فاطمہ سلام اللہ علیہااور ”انفسنا“سے علی بن ابیطالب علیہ السلام مرادہیں۔(۲)

شیخ محمدعبدہ اوررشیدرضاسے ایک گفتگو

صاحب تفسیر”المنار“پہلے تو فر ما تے ہیں کہ”روایت ہے کہ پیغمبراکرم (ص)نے مباہلہ کے لئے علی(ع)وفاطمہ(س)اوران کے دو نوں بیٹوں کہ خدا کا ان پر درودو سلام ہوکاانتخاب کیااورانھیں میدان میں لائے اور ان سے فرمایا:”اگرمیں دعا کروں تو تم لوگ آمین کہنا“روایت کوجاری رکھتے ہوئے اختصار کے ساتھ مسلم اورترمذی کو بھی نقل کرتے ہیں اس کے بعد کہتے ہیں:

____________________

۱۔البرہان ،ج۱،ص۲۸۹،مؤسسہ مطبو عاتی اسماعیلیان

۲۔الاختصاص،ص۵۶،من منشورات جماعةالمدرسین فی الحوزةالعلمیة

۶۷

استادامام)شیخ محمدعبدہ)نے کہاہے:اس سلسلہ میں روایتیں متفق علیہ ہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مباہلہ کے لئے علی(ع)فاطمہ(س)اوران کے بیٹوں کومنتخب کیا ہے اورآیہء شریفہ میں لفظ”نسائنا“ فاطمہئ کے لئے اورلفظ”انفسنا“ کا استعمال علی کے لئے ہواہے۔لیکن ان روایتوں کاسرچشمہ شیعہ منابع ہیں)اورانہوں نے یہ احادیث گھڑلی ہیں)اور اس سے ان کا مقصدبھی معلوم ہے۔وہ حتی الامکان ان احادیث کو شائع و مشہور کرنا چاہتے ہیں اوران کی یہ روش بہت سے سنّیوں میں بھی عام ہو گئی ہے!لیکن جنہوں نے ان روایتوں کوگھڑا ہے،وہ ٹھیک طریقہ سے ان روایتوں کو آیتوں پر منبطق نہیں کرسکے ہیں،کیونکہ لفظ”نساء“کا استعمال کسی بھی عربی لغت میں کسی کی بیٹی کے لئے نہیں ہواہے،بالخصوص اس وقت جب کہ خود اس کی بیویاں موجودہوں،اور یہ عربی لغت کے خلاف ہے اوراس سے بھی زیادہ بعید یہ ہے کہ ”انفسنا“سے مراد علی (ع)کو لیا جائے“ ۱

استاد محمدعبدہ کی یہ بات کہ جن کا شمار بزرگ علماء اورمصلحین میں ہوتا ہے انتہائی حیرت انگیزہے۔باوجوداس کے کہ انھوں نے ان روایتوں کی کثرت اوران کے متفق علےہ ہونے کو تسلیم کیا ہے،پھربھی انھیں جعلی اور من گھڑت کہاہے۔

کیاایک عام مسلمان ،چہ جائیکہ ایک بہت بڑاعالم اس بات کی جرائت کرسکتاہے کہ ایک ایسی حقیقت کوآسانی کے ساتھ جھٹلادے کہ جورسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی صحیح ومعتبر سنّت میں مستحکم اور پائداربنیادرکھتی ہو؟!اگرمعتبرصحاح اورمسانیدمیں صحیح سندکے ساتھ روایت نقل ہوئی ہے وہ بھی صحیح مسلم جیسی کتاب میں کہ جواہل سنّت کے نزدیک قرآن مجیدکے بعددومعتبرترین کتابوں میں سے ایک شمارہوتی ہے،اس طرح بے اعتبارکی جائے،تومذاہب اسلامی میں ایک مطلب کوثابت کرنے یامستردکرنے کے سلسلہ میں کس منبع و ماخذپراعتماد کیا جا سکتا ہے ؟اگر ائمہ

___________________

۱۔المنار،ج ۳،ص۳۲۲،دارالمعرفة بیروت

۶۸

مذاہب کی زبانی متوا تراحادیث معتبرنہیں ہو ں گی توپھرکونسی حدیث معتبرہوگی؟!

کیاحدیث کوقبول اورمستردکرنے کے لئے کوئی قاعدہ و ضابط ہے یاہرکوئی اپنے ذوق وسلیقہ نیزمرضی کے مطابق ہرحدیث کوقبول یامستردکرسکتاہے؟کیایہ عمل سنّت رسول (ص)کے ساتھ زیادتی اوراس کامذاق اڑانے کے مترادف نہیں ہے؟

شیخ محمدعبدہ نے آیہء شریفہ کے معنی پردقت سے توجہ نہیں کی ہے اورخیال کیاہے کہ لفظ ”نسائنا“حضرت فاطمہ زہراء )سلام اللہ علیہا )کے بارے میں استعمال ہواہے۔جبکہ”نسائنا“خوداپنے ہی معنی میں استعمال ہواہے،رہاسوال رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویوں کا کہ جن کی تعداداس وقت نوتھی ان میں سے کسی ایک میں بھی وہ بلند مرتبہ صلاحیت موجودنہیں تھی اورخاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں تنہاعورت،جوآپ کے اہل بیت میں شمارہوتی تھیں اورمذکورہ صلاحیت کی مالک تھیں،حضرت فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا)تھیں،جنھیں انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے ساتھ مباہلہ کے لئے لے گئے۔(۱)

”انفسنا“کے بارے میں اس کتاب کی ابتداء میں بحث ہوچکی ہے انشا اللہ بعد والے محور میں بھی اس پرتفصیل سے روشنی ڈالی جائیگی ۔

ایک جعلی حدیث اوراہل سنّت کااس سے انکار

مذکورہ روایتوں سے ایک دوسرامسئلہ جوواضح ہوگیاوہ یہ تھاکہ خامس آل عبا)پنجتن پاک علیہم السلام)کے علاوہ کوئی شخض میدان مباہلہ میں نہیں لایاگیا تھا۔

مذکورہ باتوں کے پیش نظربعض کتابوں میں ابن عساکر کے حوالے سے نقل کی گئی روایت کسی صورت میں قابل اعتبار نہیں ہے،جس میں کہاگیاہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابوبکراوران کے فرزندوں،عمراوران کے فرزندوں،عثمان اوران کے فرزندوں اورعلی علیہ السلام اوران کے

____________________

۱۔اس سلسلہ میں بحث ،آیہء تطہیرکی طرف رجوع کیا جائے ۔

۶۹

فرزندوں کواپنے ساتھ لائے تھے۔

ایک تو یہ کہ علماء ومحققین،جیسے آلوسی کی روح المعانی(۱) میں یادہانی کے مطابق،یہ حدیث جمہورعلماء کی روایت کے خلاف ہے،اس لئے قابل اعتمادنہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ اس کی سندمیں چند ایسے افرادہیں جن پرجھوٹے ہونے کاالزام ہے،جیسے:سعیدبن عنبسہ رازی،کہ ذہبی نے اپنی کتاب میزان الاعتدال(۲) میں یحییٰ بن معین کے حوا لے سے کہاہے کہ:”وہ انتہائی جھوٹ بولنے والا ہے“اورابوحاتم نے کہاہے کہ:”وہ سچ نہیں بولتاہے۔“اس کے علاوہ اس کی سندمیں ھیثم بن عدی ہے کہ جس کے با رے میں ذہبی کاسیراعلام النبلاء(۳) میں کہناہے:ابن معین اورابن داؤدنے کہاہے:”وہ انتہائی جھوٹ بولنے والاہے“اس کے علاوہ نسائی اوردوسروں نے اسے متروک الحدیث جانا ہے۔

افسوس ہے کہ مذکورہ جعلی حدیث کاجھوٹامضمون حضرت امام صادق اورحضرت امام باقر )علیہماالسلام)سے منسوب کر کے نقل کیاگیاہے!

____________________

۱۔روح المعانی،ج۳،ص۱۹۰،داراحیائ التراث ا لعربی

۲۔میزان الاعتدال،ج۲،ص۱۵۴،دارالفکر

۳۔سیراعلام النبلاء،ج۱۰،ص۱۰۴،مؤسسہ الرسالہ

۷۰

چھوتھامحور

علی(ع)نفس پیغمبر (ص)ہیں

گزشتہ بحثوں میں یہ واضح ہوچکا ہے کہ”انفسنا“سے مرادکاخودپیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہیں ہوسکتے ہیں اورچونکہ مذکورہ احادیث کی بناء پرمباہلہ میں شا مل ہونے والے افرادمیں صرف علی،فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام تھے،لہذاآیہء شریفہ میں ”انفسنا“کامصداق علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتاہے۔یہ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی واضح بلکہ برترین فضیلتوں میں سے ہے۔

قرآن مجید کی اس تعبیرمیں ،علی علیہ السلام ،نفس پیغمبر (ص)کے عنوان سے پہچنوا ئے گئے ہیں۔چونکہ ہرشخص کاصرف ایک نفس ہوتا ہے،اس لئے حضرت علی علیہ السلام کاحقیقت میں نفس پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونا بے معنی ہے۔معلوم ہوتاہے کہ یہ اطلاق،اطلاق حقیقی نہیں ہے بلکہ اس سے مرادماننداورمماثلت ہے۔چونکہ یہاں پریہ مماثلت مطلق ہے اس لئے اس اطلاق کاتقاضاہے کہ جوبھی خصوصیت اورمنصبی کمال پیغمبراکرم (ص)کی ذات میں موجود ہے وہ حضرت علی علیہ السلام میں بھی پاےاجانا چاہئے،مگر یہ کہ دلیل کی بناء پرکوئی فضیلت ہو،جیسے آپ پیغمبرنہیں ہیں۔رسا لت و پیغمبری کے علاوہ دوسری خصوصیات اورکمالات میں آپ رسول کے ساتھ شریک ہیں،من جملہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی امت کے لئے قیادت وزعامت اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سارے جہاں،یہاں تک گزشتہ انبیاء پرافضلیت۔اس بناء پرآیہء شریفہ حضرت علی علیہ السلام کی امامت پردلالت کر نے کے علاوہ بعد از پیغمبر ان کی امت کے علاوہ تمام دوسرے انبیاء سے بھی افضل ہو نے پر دلالت کرتی ہے۔

۷۱

آیت کے استدلال میں فخررازی کابیان

فخررازی نے تفسیرکبیرمیں لکھاہے:

”شہرری میں ایک شیعہ اثناعشری شخص(۱) معلم تھاا س کاخیال تھاکہ حضرت علی(علیہ السلام) حضرت محمدمصطفی (ص)کے علاوہ تمام انبیاء)علیہم السلام)سے افضل وبرترہیں، اور یوں کہتاتھا:جوچیزاس مطلب پردلالت کرتی ہے،وہ آیہء مباہلہ میں خدا وندمتعال کایہ قول( واٴنفسنا واٴنفسکم ) ہے کیونکہ”انفسنا“ سے مرادپیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہیں ہیں،کیونکہ انسان خودکونہیں پکارتاہے۔اس بناء پر نفس سے مرادآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علاوہ ہے اوراس بات پر اجماع ہے کہ نفس سے مرادعلی بن ابیطالب(علیہ السلام) ہیں لہذاآیہ شریفہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نفس علی(علیہ السلام)سے مراد درحقیقت نفس پیغمبر (ص)ہے،اس لئے ناچار آپ کا مقصدیہ ہے کہ نفس علی نفس رسول کے مانندہے اوراس کالازمہ یہ ہے کہ

____________________

۱۔یہ بزرگ مرد،کہ جس کے بارے میں فخررازی نے یوں بیان کیاہے،جیسے کہ اس کی زندگی کے حالات کی تشریح کتابوں میں کی گئی ہے،شیعوں کے ایک بڑے مجتہداورعظیم عقیدہ شناس اورفخر رازی کے استادتھے۔مرحوم محدث قمی اس کے بارے میں لکھتے ہیں:شیخ سدید الدین محمودبن علی بن الحسن حمصی رازی ،علّامہ فاضل، متکلم اور علم کلام میں کتاب”التعلیق العراقی“کے مصنف تھے۔شیخ بہائی سے ایک تحریرکے بارے میں روایت کرتاہے کہ وہ شیعہ علماء ومجتہدین میں سے تھے اورری کے حمص نامی ایک گاؤں کے رہنے والے تھے،کہ اس وقت وہ گاؤںویران ہوچکاہے۔ )سفینة البحار،ج۱،ص۳۴۰،انتشارات کتاب خانہ محمودی)

مرحوم سیدمحسن امین جبل عاملی کتاب”التعلیق العراقی،یاکتاب المنقذمن التقلید“کے ایک قلمی نسخہ سے نقل کرتے ہیں کہ اس پرلکھا گیاتھا:”انهامن إملائ مولانا ا لشیخ الکبیر العالم سدید الدّین حجّةالاسلام والمسلمین لسان الطائفةوالمتکلمین اسد المناظرین محمودبن علی بن الحسن الحمصی ادام اللّٰه فی العزّبقائ هوکبت فی الذّلّ حسدته واعداه ۔۔۔“یعنی :یہ نسخہ استاد بزرگ اوردانشورسدیدالدین حجةالاسلام والمسلمین، مذہب ش یعیت کے تر جمان اور متکلمین،فن منا ظرہ کے ماہرمحمود بن علی بن الحسن الحمصی کااملا ہے کہ خدائے متعال اس کی عزت کو پائدار بنادے اور اس کے حاسدوں اور دشمنوں کو نابودکردے۔ )اعیا الشیعہ ،ج۱۰،ص۵ہ۱،دارالتعارف للمطبو عات،بیروت)

فیروزآبادی کتاب”القاموس المحیط“میں کہتاہے:”محمودبن الحمصی متکلم اخذ عنہ الامام فخر الدین“)القاموس المحیط،ج۲،ص۲۹۹،دار المعرفة،بیروت)

فیروزآبادی کی اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عظیم عقیدہ شناس فخررازی کا استاد تھالیکن فخررازی نے اس بات کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے۔

۷۲

یہ نفس تمام جہت سے اس نفس کے برابرہے۔اوراس کلیت سے صرف دوچیزیں خارج ہیں:ایک نبوت اوردوسرے افضلیت،کیونکہ اس پر سب کااتفاق ہے کہ علی(علیہ السلام)پیغمبرنہیں ہیں اور نہ ہی وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے افضل ہیں۔ان دومطالب کے علاوہ،دوسرے تمام امور ومسائل میں یہ اطلاق اپنی جگہ باقی ہے اوراس پراجماع ہے کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام انبیائے الہٰی سے افضل ہیں،لہذاعلی(علیہ السلام)بھی ان سب سے افضل ہوں گے۔“

مزید اس نے کہاہے:

”اس استدلال کی ایک ایسی حدیث سے تائید ہوتی ہے،جس کو موافق ومخالف سب قبول کرتے ہیں اوروہ حدیث وہ قول پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہے کہ جس میں اپ نے فرمایا:جوآدم(علیہ السلام)کو ان کے علم میں ،نوح(علیہ السلام)کوان کی اطاعت میں اورابراھیم(علیہ السلام)کو ان کی خُلّت میں ،موسیٰ(علیہ السلام)کوان کی ہیبت میں اورعیسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی صفوت میں دیکھناچاہے تواسے علی بن ابیطالب(علیہ السلام)پرنظرڈالناچاہئے۔“

فخررازی نے اپنی بات کوجاری رکھتے ہوئے مزید لکھاہے:

”شیعہ علماء مذکورہء آیہء شریفہ سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ علی(علیہ السلام)تمام اصحاب سے افضل ہیں۔کیونکہ جب آیت دلالت کرتی ہے کہ نفس علی (علیہ السلام)نفس رسول (ص)کے مانند ہے،سواء اس کے جو چیزدلیل سے خارج ہے اورنفس پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام اصحاب سے افضل ہے،لہذانفس علی(علیہ السلام)بھی تمام اصحاب سے افضل قرار پائیگا“

فخررازی نے اس استدلال کے ایک جملہ پراعتراض کیا ہے کہ ہم اس آیہء شریفہ سے مربوط سوالات کے ضمن میں آیندہ اس کاجواب دیں گے۔

۷۳

علی(ع)کونفس رسولجاننے والی احادیث

حضرت علی علیہ السلام کونفس رسول (ص)کے طورپرمعرفی کرنے والی احادیث کوتین گروہوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے:

پہلاگروہ:وہ حدیثیں جوآیہء مباہلہ کے ذیل میں بیان ہوئی ہیں:

ان احادیث کا ایک پہلو خامس آل عبا علیہم السلام کے مباہلہ میں شرکت سے مربوط تھا کہ جس کو پہلے بیان کیاگیاہے اوریہاں خلاصہ کے طورپرہم پیش کرتے ہیں:

الف:ابن عباس آیہء شریفہ کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:”وعلی نفسہ“”علی(ع)نفس پیغمبر)ص)ہیں۔“یہ ذکرآیہء مباہلہ میں ایاہے۔(۱)

ب:شعبی ،اہل بیت،علہیم السلا م کے بارے میں جابر بن عبداللہ کا قول نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں:”ابناء نا“ سے حسن وحسین)علیہم السلام)”نساء نا“سے جناب فاطمہ(سلام اللہ علیہا)اور”انفسنا“سے علی بن ابیطالب)علیہ السلام ) مرادہیں۔(۲)

ج:حاکم نیشابوری،عبداللہ بن عباس اوردیگر اصحاب سے،پیغمبراکرم (ص)کے ذریعہ مباہلہ میں علی،فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام کو اپنے ساتھ لانے والی روایت کومتواترجانتے ہیں اورنقل کرتے ہیں کہ”ابناء نا“سے حسن وحسین علیہم السلام،”نساء نا“سے فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہااور”انفسنا“سے علی بن ابیطالب علیہ السلام مرادہیں۔(۳)

د۔حضرت علی علیہ السلام کی وہ حدیث،جس میں اپ(ع)اصحاب شوریٰ کوقسم دے کراپنے فضائل کا ان سے اقرار لیا ہے آپ فرماتے ہیں:

____________________

۱۔معرفةعلوم الحدیث،ص۵۰،دارالکتب العلمیہ،بیروت

۲۔اسباب النزول،ص۴۷،دارالکتب العلمیہ،بیروت

۳۔معرفةعلوم الحدیث،ص۵۰،دارالکتب العلمیہ،بیروت

۷۴

نشدتکم اللّٰه هل فیکم اٴحد اٴقرب إلیر سول اللّٰه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی الرحم ومن جعله رسول اللّٰه نفسه وإبناء ه غیری ؟“(۱)

”یعنی:میں تمھیں خداکی قسم دیتاہوں!کیا تم لوگوں میں قرابت اور رشتہ داری کے لحاظ سے کوئی ہے جومجھ سے زیادہ رسول اللہ (ص)کے قریب ہو؟کوئی ہے جسے آنحضرت (ص)نے اپنانفس اوراسکے بیٹوں کواپنابیٹاقراردیاہو؟انہوں نے جواب میں کہا:خداشاہدہے کہ ہم میں کوئی ایسا،نہیں ہے۔“

دوسراگروہ:وہ حدیثیں جوقبیلہء بنی ولیعہ سے مربوط ہیں:یہ احادیث اصحاب کے ایک گروہ جیسے ابوذر،جابربن عبداللہ اورعبداللہ بن حنطب سے نقل ہوئی ہیں۔ان حدیثوں کامضمون یہ ہے کہ پیغمبراکرم (ص)نے)ابوذر کے بقول) فرمایا:

ولینتهینّ بنوولیعه اٴولاٴبعثَنّ إلیهم رجلاًکنفسی یمضی فیهم اٴمری فیقتل المقا تله ولیسبی الذریة ۔۔۔(۲)

قبیلہء بنی ولیعہ کواپنے امور سے باز آجاناچاہئے،اگر انھوں نے ایسانہیں کیاتو میں ان کی طرف اپنے مانند ایک شخص کوبھیجوں گا جومیرے حکم کوان میں جاری کرے گا۔جنگ کرنے والوں کو وہ قتل کرے گااوران کی ذرّیت کواسیربنائے گا۔

عمر،جو میرے پیچھے کھڑے ہو ئے تھے انہوں،نے کہا:آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کااس سے مرادکون ہے؟میں نے جواب دیاتم اور تمہارادوست)ابوبکر) اس سے مرادنہیں ہے تو اس نے

____________________

۱۔تاریخ مدینتہ دمشق،ج۴۲،ص۴۱۳۱،دارالفکر

۲۔السنن الکبیر للنسائی،ج۵،ص۱۲۷،دارالکتب العلمیہ،بیروت۔

۷۵

اس کے محقق نے اس ضمن میں کہاہے:اس حدیث کی سند میں موثق راوی موجود ہیں۔

المنصف لابن ابی شیبتہ، ج ۶ ، ص ۳۷۴ ، دارالتاج، المعجم الاوسط للطبرانی،ج ۴ ،ص ۴۷۷ ،مکتبة المعارف،الریاضی۔یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ”المعجم الاوسط“میں عمداً یا غلطی سے ”کنفسی“کے بجائے”لنفسی“آیا ہے،اورھیثمی نے مجمع الزوائد میں طبرانی سے ” کنفسی“روایت کی ہے۔مجمع الزوائد۔مجمع الزوائد ھیثمی ،ج ۷ ،ص ۱۱۰ ،دارالکتاب العربی و ص ۲۴۰ ،دارالفکر۔

کہاکون مرادہے؟میں نے کہا:اس سے مرادوہ ہے جواس وقت اپنی جوتیوں کو پیوندلگانے میں مصروف ہے۔کہا تو پھرعلی(علیہ السلام)ہیں جواپنی جویتوں کوٹانکے میں مصروف ہیں۔تیسراگروہ:وہ حدیثیں جوپیغمبر)ص)کے نزدیک محبوب ترین افراد کے بارے میں ہیں۔

بعض ایسی حدیثیں ہیں کہ جس میں پیغمبراکرم صلصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال ہوتاہے کہآپ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟جواب کے بعدآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے علی(علیہ السلام)کی محبوبیت یاافضلیت کے بارے میں سوال کیاجاتاہے۔پیغمبراکرم (ص)اپنے اصحاب سے مخاطب ہوکرفرماتے ہیں:”إنّ هذایساٴلنی من النفسی “یعنی:یہ سوال مجھ سے خود میرے بارے میں ہے!یعنی علی(علیہ السلام)میرانفس ہے۔(۱) ان میں سے بعض احادیث میں ،حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)پیغمبراسلام (ص)سے سوال کرتی ہیں،کیاآپنے علی(علیہ السلام)کے بارے میں کچھ نہیں فرمایاہے؟آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

علیّ نفسی فمن راٴیته اٴن یقول فی نفسه شیئاً (۲)

یعنی:علی(علیہ السلام)میرانفس ہے تم نے کس کودیکھاہے،جواپنے نفس کے بارے میں کچھ کہے؟یہ احادیث عمروعاص،عائشہ اورجد عمروبن شعیب جیسے بعض اصحاب سے نقل ہوئی ہیں۔

اس طرح کی حدیثیں مختلف زبانوں سے روایت ہوئی ہیں اوران کی تعدادزیادہ ہے۔جس سے یہ استفادہ ہوتاہے کہ علی علیہ السلام،نفس پیغمبر (ص)ہیں اورآیہ شریفہ کی دلالت پرتاکیدکرتی ہے، سواء اس کے کہ کوئی قطعی ضرورت اورخارجی دلالت کی وجہ سے اس اطلاق سے خارج ہوا جائے)جیسے نبوت جواس سے خارج ہے)لہذاآنحضرت (ص)کے

____________________

۱۔جامع الاحادیث،سیوطی،ج۱۶،ص۲۵۷۔۲۵۶،دارالفکر،کنز العمال،ج۱۳،ص۱۴۳۔۱۴۲،مؤسسہ الرسالہ

۲۔مناقب خوارزمی،ص۱۴۸،مؤسسہ النشرالاسلامی،مقتل الحسین علیہ السلام،ص۴۳،مکتبہ المفید۔

۷۶

دوسرے تمام عہدے من جملہ تمام امت اسلامیہ پر آپ (ص)کی فضیلت نیز قیادت وزعامت ا س اطلاق میں داخل ہے۔

پانچواں محور

آیت کے بارے میں چندسوالات اور ان کے جوابات

آلوسی سے ایک گفتگو:

آلوسی،اپنی تفسیر”روح المعانی(۱) “ میں اس آیہء شریفہ کی تفسیر کے سلسلہ میں کہتاہے:

”اہل بیت پیغمبر (ص)کے آل اللہ ہونے کی فضیلت کے بارے میں اس آیہء شریفہ کی دلالت کسی بھی مومن کے لئے ناقابل انکارہے اوراگرکوئی اس فضیلت کوان سے جداکرنے کی کوشش کرتا ہے تویہ ایک قسم کی ناصبیت وعنادہے اورعناد و ناصبیت ایمان کے نابود کر نے کاسبب ہے۔“

شیعوں کااستدلال

اس کے بعد)آلوسی)آیہء مذکورہ سے رسول خدا (ص)کے بعدعلی علیہ السلام کے بلافصل خلیفہ ہونے کے سلسلہ میں شیعوں کے استدلال کوبیان کرتاہے اوراس روایت سے استنادکرتاہے کہ آیہء کریمہ کے نازل ہونے کے بعد پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مباہلہکے لئے علی،فاطمہ،اورحسنین علیہم السلام کو اپنے ساتھ لائے،اس کے بعدکہتاہے:

”اس طرح سے”ابناء نا“کا مراد سے حسن وحسین)علیہماالسلام)،”نساء نا“سے مرادفاطمہ(سلام اللہ علیہا)اور”انفسنا“سے مرادعلی(علیہ السلام)ہیں۔جب علی(علیہ السلام)نفس رسول قرار پائیں گے تو اس کا اپنے حقیقی معنی میں استعمال محال ہو گا)کیونکہ

____________________

۱۔روح المعانی،ج۳،ص۱۸۹،داراحیائ التراث العربی

۷۷

حقیقت میں علی علیہ السلام خودرسول اللہ (ص)نہیں ہوسکتے ہیں) لہذا قھراً اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مساوی اورمماثل ہیں۔چونکہ پیغمبراسلام (ص)امورمسلمین میں تصرف کرنے کے سلسلہ میں افضل اوراولٰی ہیں،لہذا جو بھی ان کے مماثل ہو گاوہ بھی ایساہی ہوگا۔اس طرح سے پوری امت کے حوالے سے حضرت علی(علیہ السلام)کی افضیلت اورامت پر ان کی سرپرستی اس آیہء شریفہ سے ثابت ہوتی ہے۔“

شیعوں کے استدلال کے سلسلہ میں الوسی کاپہلااعتراض

اس کے بعدآلوسی شیعوں کے استدلال کاجواب دیتے ہوئے کہتاہے:شیعوں کے اس قسم کے استدلال کاجواب یوں دیاجاسکتاہے:

ہم تسلیم نہیں کرتے ہیں کہ ”انفسنا“سے مراد حضرت امیرالمؤمنین (علیہ السلام)ہوں گے،بلکہ نفس سے مرادخودپیغمبر (ص)ہی ہیں اورحضرت امیر (علیہ السلام) ”ابنائنا“میں داخل ہیں کیونکہ دامادکوعرفاًبیٹاکہتے ہیں۔

اس کے بعدشیعوں کے ایک عظیم مفسرشیخ طبرسی کابیان نقل کرتاہے کہ انہوں نے کہاہے کہ”انفسنا“سے مرادخودپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہیں ہوسکتے ہیں،کیونکہ انسان کبھی بھی اپنے آپ کونہیں بلاتاہے،اس نے)شیخ کی)اس بات کوہذیان سے نسبت دی ہے؟!

۷۸

اس اعتراض کاجواب

آلوسی اپنی بات کی ابتداء میں اس چیز کو تسلیم کرتاہے کہ آیہء کریمہ پیغمبر (ص)وکے خاندان کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے اور اس فضیلت سے انکار کو ایک طرح کے بغض و عناد سے تعبیر کرتاہے۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس عظیم فضیلت کوآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان سے منحرف کرنے کے لئے کس طرح وہ خودکوشش کرتاہے اوراپنے اس عمل سے اس سلسلہ میں بیان کی گئی تمام احادیث کی مخا لفت کرتا ہے اورجس چیز کوابن تیمیہ نے بھی انجام نہیں دیاہے)یعنی”انفسنا“کے علی علیہ السلام پرانطباق سے انکارکرنا)اسے انجام دیتا ہے۔

اگرچہ ہم نے بحث کی ابتداء میں ”انفسنا“کے بارے میں اوریہ کہ اس سے مراد خودپیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہیں ہوسکتے ہیں،بیان کیاہے،لیکن یہاں پر بھی اشارہ کرتے ہیں کہ اگر”انفسنا“سے مرادخودپیغمبراسلام (ص)ہوں اورعلی علیہ السلام کو”ابناء نا“کے زمرے میں داخل کر لیا جائے تو یہ غلط ہے اور دوسرے یہ کہ خلاف دلیل ہے۔

اس کاغلط ہونااس لحاظ سے ہے کہ آیہء شریفہ میں ”بلانا اپنے“حقیقی معنی میں ہے۔اور جوآلوسی نے بعض استعمالات جیسے”دعتہ نفسہ“کورائج ومرسوم جا ناہے،اس نے اس نکتہ سے غفلت کی ہے کہ اس قسم کے استعمالات مجازی ہیں اوران کے لئے قرینہ کی ضرورت ہوتی ہے اور آیہء مذکورہ میں کوئی ایسا قرینہ موجودنہیں ہے،بلکہ یہاں پر”دعتہ نفسہ“کے معنی اپنے آپ کو مجبوراورمصمم کرناہے نہ اپنے آپ کو بلانااورطلب کرنا۔

۷۹

اس کے علاوہ”ابنائنا“ کے زمرے میں امیرالمؤمنین(علیہ السلام)کو شامل کر نا صرف اس لئے کہ وہ آنحضرت (ص)کے داماد تھے گویالفظ کو اس کے غیر معنی موضوع لہ میں ہے اور لفظ کواس کے معانی مجازی میں بغیر قرینہ کے حمل کر تاہے۔

اس لئے”ابناء نا“کا حمل حسنین علیہما السلام کے علاوہ کسی اورذات پر درست نہیں ہے اور”انفسنا“کا لفظ حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کسی اورپر منطتبق نہیں ہو تاہے۔

اگرکہاجائے کہ:کونسامرجح ہے کہ لفظ ”ندع“کا استعمال اس کے حقیقی معنی میں ہو اور”انفسنا“کااستعمال حضرت علی علیہ السلام پر مجازی ہو؟بلکہ ممکن ہے کہا جائے”انفسنا“خودانسان اوراس کی ذات پراطلاق ہو جوحقیقی معنی ہے اور”ندع“کے معنی میں تصرف کر کے ”نحضر“کے معنی لئے جائیںیعنی اپنے آپ کوحاضرکریں۔

جواب یہ ہے کہ:اگر”ندع“ کا استعمال اپنے حقیقی معنی ہےں ہوتوایک سے زیادہ مجاز در کارنہیں ہے اوروہ ہے”انفسنا“کا حضرت علی علیہ السلام کی ذات پراطلاق ہو نالیکن اگر”ندع“کو اس کے مجاز ی معنی پر حمل کریں تو اس سے دوسرے کا مجاز ہونابھی لازم آتاہے یعنی علی علیہ السلام کا ”ابناء نا“پراطلاق ہونا،جوآنحضرت صلی (ص)کے داماد ہیں اوراس قسم کے مجاز کے لئے کوئی قرینہ موجودنہیں ہے۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

كے عنوان سے معروف ہوا _ وہ ابوحنيفہ كى آراء بالخصوص احكام شرعى كى تشخيص كے سلسلے ميں ابوحنيفہ كے فقہى قياس اور نظريات كے مد مقابل اپنے مخصوص نظريات ركھتے تھے انہوں نے سعى كى كہ فقہى روش پر حديث كى كتاب لكھ كر اپنى آراء پيش كريں اس كتاب ميں جس كا نام مؤطا ہے مالك سب سے پہلے حديث نقل كرتے ہيں پھر مدينہ كے فقہاء كا فتوى ذكر كرتے ہيں اسكے بعد اپنى فقہى نظر پيش كرتے ہيں انكا نظريہ يہ تھا كہ احكام شرعى كيلئے روايات جيسى مستند دليل كے ہوتے ہوئے قياس يا اپنى رائے كى طرف نہيں آنا چاہيے_ مالكى مذہب بتدريج شمالى آفريقا ، مصر اور اندلس ميں رواج پاگيا(۱)

اہل سنت كے تيسرے فقہى مكتب كو ابوعبداللہ محمد بن ادريس شافعى(۲) (۲۰۴ _ ۱۵۰ قمرى ) نے تشكيل ديا وہ چونكہ دونوں حنفى اور مالكى مذاہب كے بارے ميں معلومات ركھتے تھے اسى ليے انہوں نے كوشش كہ ان دو مذاہب ميں اساسى امتزاج پيدا كيا جائے اور اس امتزاج اور وحدت پر جديد فقہ كو تشكيل ديا جائے(۳) ليكن اسكے ساتھ ساتھ انہوں نے حنفى مكتب كے استحسان اور مالكى مكتب كى استصلاح كى بھى مخالفت كي_ انہوں نے اپنى فقہى آراء كے اساسى قواعد كو اصول الفقہ كے متعلق ايك رسالہ ميں تحرير كيا _ مصر ميں صلاح الدين ايوبى كے ذريعے فقہ شافى رائج ہوئي(۴) اور اس فقہ كے عراق اور مكہ ميں بھى حامى موجودہيں(۵)

اہل سنت كا چوتھا فقہى مكتب احمد بن حنبل(۶) (۲۴۱ _ ۱۶۴ قمري) كى طرف منسوب ہے جو فقہ حنبلى كے عنوان سے مشہور ہے _ احمد بن حنبل علماء حديث كے بڑے مفكرين ميں سے شمار ہوتے ہيں انہوں نے شافعى

____________________

۱)كاظم مدير شانہ چى ، علم الحديث، مشہد ص ۳۶_

۲)محمد ابوزہرہ ، امام شافعى حياتہ و عصرہ و آرا و فقہہ ، قاہرہ_

۳) ج م عبدالجليل ، تاريخ ادبيات عرب، ترجمہ آذر تاش آذرنوش ، تہران ص ۱۷۵_

۴)قيس آل متين ، سابقہ ما خذ ، ج ۵ ص ۵_

۵) بوجينا غيانة ، سابقہ ما خذص ۱۷۴_

۶)ذائرة المعارف بزرگ اسلامى ج ۶ ، ذيل احمد بن حنبل_

۱۰۱

كے ہاں درس پڑھا(۱) تيس ہزار احاديث پر مشتمل حديث كى مسند لكھ كر دوسروں كو اپنى طرف متوجہ كرليا(۲) انكى فقہ كى بنياديں كتاب ، سنت ، صحابہ كے فتاوى ، قياس، استحسان ، مصالح او رذرايع سے تشكيل پائيں انكے مذہب كے سب سے زيادہ پيروكار حجاز ميں ہيں(۳)

فقہ حنبلى كے حوالے سے ايك نكتہ يہ ہے كہ چونكہ احمد بن حنبل آراء او رنظريات كے مكتوب شكل ميں جمع كرنے كے مخالف تھے اسى ليے انكے شاگردوں اور بعد ميں آنے والے حنبلى مسلك افراد كى آراء ميں جو احمد بن حنبل سے نقل كى گئي ہيں خاص فرق حتى كہ تضاد بھى نظر آتا ہے اور كبھى تو كسى ايك مسئلہ ہيں انكا نام ليكر نقل ہونے والے متضاد اقوال چار يا پانچ كى تعداد تك بھى ہيں(۴)

اہل سنت كے ان چار اماموں كے بعد سنى فقہ نے اپنى جدت اور تحرك كو كھوديا_ چوتھى صدى سے تيرھويں صدى تك ان آئمہ كے آثار پرصرف حاشيہ يا انكى شرح و تفسير كى حد تك كام ہوا ان مذاہب كے فقہاء نے انكى آراء كے ساتھ تقريبا كوئي نئے نكتے كا اضافہ نہ كيا اسى ليے اہل سنت كى فقہ ميں اجتہاد ان چار اشخاص كى تقليد ميں تبديل ہوكر رہ گيا اگر چہ ان چار آئمہ ميں اجتہاد كو منحصر كرنے پر كوئي بھى عقلى اور نقلى دليل موجود نہ تھى ليكن بتدريج اور حاكموں كے سياسى مقاصد اور كاموں كى بناء پر اس مسئلہ ميں اجماع كى كيفيت پيدا ہوگى كہ اب اسكے خلاف آواز بلند كرنا آسان كام نہ تھا(۵) ليكن تيرھويں صدى ہجرى سے عالم اسلام ميں واضح تبديلياں پيدا ہوئيں _ عصرى تقاضوں ، زندگى اور معاشرتى روابط ميں گہرى اور وسيع تبديليوں كے پيش نظر اہل سنت كے بعض فقہاء فقط ان چار آئمہ كى تقليد ميں منحصر ہونے كے مسئلہ ميں شك و ترديد كا شكار ہوگئے_

____________________

۱)وحينا غيانة ، سابقہ ما خذص ۱۷۷ _

۲)كاظم مدير شانہ چي، سابقہ ما خذص ۵۵_

۳)دائرة المعارف بزرگ اسلامي، سابقہ ما خذ_

۴)رجوع كريں ، ابن حبيرہ الافصاح عن معافى الصحاح، حلب ج ۱ ص ۵۴_

۵) ابوالفضل عزتى ، سابقہ ما خذص ۸۳ _ ۷۱ _

۱۰۲

بتدريج اہل سنت كے فقہاء يہ بات سمجھ گئے كہ ان آئمہ كى تقليد پر كوئي عقلى و نقلى حكم اور معتبر دليل موجود نہيں ہے وہ بھى ان چار فقہاء كى مانند شرعى مسائل ميں اجتہاد كرسكتے ہيں اس حوالے سے مصر كے عظيم مفتى شيخ محمود شلتوت نے شيعہ فقہاء كى آراء پر توجہ كرتے ہوئے شيعہ فقہا كى آرا كى پيروى كے جواز كا اعلان كر كے ايك اہم ترين قدم اٹھايا _ (يہ بات قابل ذكر ہے كہ ان مندرجہ بالا چارمسالك كے علاوہ ديگر مسلك اور مكاتب بھى دائرہ وجود ميں آئے جن ميں سے بعض مسالك مثلا زيديہ اور اسماعيليہ شيعہ مسالك ميں شمارہوتے ہيں اور اپنى فقہ اور پيروكاروں كے ساتھ عہد حاضر ميں موجود ہيں اور بعض مسالك جو كسى سے وابستہ نہيں ہيں مثلا اباضى مسلك كہ جو خوارج كے مسلك ميں سے ابھى تك اپنا وجود برقرار ركھے ہوئے ہے(۱) يا ديگر مسالك مثلا مسلك اوزاعى (متوفى ۱۵۰ قمري) اور مسلك سفيان ثورى (متوفى ۱۶۱ قمري) اور مسلك داود بن على ظاہرى (متوفى ۲۷۰ قمري) كہ يہ سب سنى مسالك ميں سے شمار ہوتے ہيں ليكن بہت كم پيروكاروں كى بناء پر زيادہ عرصہ تك نہ چل سكے(۲)

ليكن ان تمام مسالك ميں ايك معمولى ساموازنہ كرتے ہوئے ہم ديكھتے ہيں كہ زيدى مسلك بہت زيادہ پيروكاروں اور بے شمار علما، محدثين ، معروف فقہاء اور مؤلفين كى بناء ايك ممتاز مقام كا حامل ہے اس مذہب كى بعض كتب مندرج ذيل ہيں :

زيد بن على بن الحسين (ع) سے منسوب '' المجموع''(۳) يحيى بن حسين (۹۸_ ۲۴۵قمري) كى جامع الاحكام فى الحلال و الحرام احمد بن يحيى المرتضى (۸۴۰ _ ۷۷۵قمري) كى البحر الزخار، ابراہيم بن محمد كى الروض فى الحامل شرح الكافل حسن بن احمد (متوفى ۱۰۴۸) كى ضوء النہار فى شرح الازہار اور محمد بن على الشوكانى (متوفى ۱۲۲۱)

____________________

۱)رجوع كيجئے : موسوعة الفقہ الاسلامى ج ۱ ص ۳۲ ، صبحى الصالح ، انظم الاسلامية ، نشا تہا و تطورہا ص ۲۰۷ ، صبحى رجب محمصانى ، فلسفة التشريع فى الاسلام ج ۵ ص ۶۹ _۷۰_

۲)عبدالكريم زيدان، المدخل لدراسة الشريعة الاسلامية ، بيروت ج ۱۱ ص ۱۴۸_

۳) سابقہ ما خذ_

۱۰۳

كى الدرر البھية والسيل الجرار و نيل الاوطار(۱) (زيدى مذہب سے كافى عرصہ كے بعد ہم داود بن على الظاہرى سے منسوب ظاہرى مذہب كا نام لے سكتے ہيں كيونكہ اسكے پيروكار بہت ہى كم تھے اور آج تقريباً موجود نہيں ہيں اس مذہب كى بنيادى فقہى كتا ب'' المحلى '' ہے كہ جسے ابن حزم ظاہرى نے تحرير كيا اس مذہب كے استحكام اور بقاء كا باعث تھى اسى شخص كى خدمات جانى گئيں(۲)

۵_ اصول

اسلامى علوم ميں وہ علم كہ جو اصلى منابع اور مصادر سے اسلامى احكام اور قوانين كے استنباط كيلئے تدوين ہوا علم اصول ہے يہ علم وجود ميں آنے كے بعد سے اب تك نو مراحل سے گزرا:_

۱)وجود ميں آنے كا دور: اس دور ميں اس علم كى تدوين اور اسكے مقدمات بيان كرنے كيلئے سب سے پہلى كوششيں ہوئيں _ شيعہ محققين كى رائے كے مطابق اس علم كے خالق امام باقر (ع) اور امام صادق (عليہما السلام ) ہيں _ اگر چہ عصر حاضر كے كچھ محققين كا خيال ہے كہ اصلى قواعد كا سادہ انداز ميں استعمال صدر اسلام سے ہى رائج تھا(۳)

۲) تصنيف كے دور كا آغاز: اس دور ميں علم اصول جس كا ذكر فقہى مسائل كے درميان ہوتا تھا جداگانہ شكل ميں سامنے آيا_ ميرے خيال ميں علم اصول كى سب سے پہلى تصنيف جناب حشام بن حكم كى ہے كہ جواماميہ متكلمين كے سربراہ شمار ہوتے ہيں انہوں نے كتاب '' الفاظ و مباحثہا'' تحرير كى(۴)

____________________

۱) موسوعة الفقہ الاسلام ، سابقہ ما خذ، الحليمي، الروض النضير ، مقدمہ ، دائرة المعارف بزرگ اسلام ج ۲ ص ۵۹ _۱۶۴ ، على بن عبدالكريم شرف الدين ، الزيدية نظريہ و تطبيق ، العصر الحديث ج ۲ ص ۱_۳ اور اسكے بعد ، فواد سزگين ، تاريخ التراث العربى ج ۱ ، جزء ۳ عربى ، ص ۳۵۳_

۲)مصطفى الزلمى ، اسباب اختلاف الفقہاء فى احكام الشريعة ص ۵۶_

۳)حسن شفايي، ملاك اصول استنباط، ص ۹ ، حسن ہادى الصدر، تاسيس الشيعہ لعلوم الاسلام بغداد ، ابولاقاسم گرجى ، مقالات حقوقى ،ج۲ ص ۱۱۷، ۱۱۳_

۴) ابوالقاسم گرجي، سابقہ ما خذص ۱۱۹ _ ۱۱۸_

۱۰۴

۳)علم اصول كے علم كلام كے ساتھ ملاپ كا دور: يہ دور جو كہ زيادہ تر اہل سنت كے حوالے سے ہے ، اہل سنت كے متكلمين بالخصوص معتزلہ علم اصول ميں داخل ہوئے اور اسے اسكے اصلى راہ '' فرعى و فقہى احكام كے استنباط'' سے ہٹا ديا_ اس دور ميں اہل سنت كے مولفين ميں سے ''كتاب آراء اصولى ابوعلي'' كے مصنف محمد بن عبدالوہاب بن سلام جبائي ( متوفى ۳۰۳ قمرى )كتاب التحصيل كے مصنف ابو منصور عبدالقاہر بن طاہر تميمى اسفراينى (متوفى ۴۲۹ قمري) اور كتاب '' المستصفى ''كے مصنف ابوحامد غزالى (متوفى ۵۰۵ قمرى ) قابل ذكر ہيں _

۴)علم اصول كے كمال اور دوبارہ جدا ہونے كا دور : يہ دور جو كہ مكتب شيعہ كے حوالے سے ہے علم اصول بتدريج پختگى كى منازل طے كر گيا اور كافى حد تك علم كلام كے مسائل سے جدا ہوگيااس دور كے اہم ترين آثار كے جنہوں نے علم اصول كو ترقى كى انتہائي بلنديوں تك پہنچا ديا وہ ابن ابى عقيل ، شيخ مفيد اور شيخ طوسى كى تصنيفات و تاليفات ہيں _

۵)استنباط كے جمود اور علم اصول ميں ٹھہراؤ كا دور: شيخ طوسى كے علمى نبوغ اور عظمت كى بناء پر تقريباً ايك صدى تك مختلف علوم بالخصوص اصول فقہ ميں انكى آرا، اور نظريات بغير كسى علمى تنقيد كے باقى رہے اور اس دور كے مولفين كى كتب پر انكے آثار كى تقليد كى چھاپ باقى رہى _ مثلا سديد الدين حمصى رازى كى كتاب مصادر اور حمزہ بن عبدالعزيز المعروف سلار كى كتاب '' التقريب'' ميں يہ تقليد ديكھى جاسكتى ہے مجموعى طور پر اس دور كے تمام فقہى استنباط اور نتائج شدت كے ساتھ شيخ طوسى كى آراء سے متاثر تھے_

۶) تجديد حيات كى تحريك: اس دور كى خصوصيات ميں سے يہ ہيں كہ ايك طرف روح اجتہاد دوبارہ زندہ ہوئي اور دوسرى طرف گذشتہ بزرگان دين كى كتب كى شرح ، حاشيہ اور تلخيص كى گئي اور فن منطق كے بعض مسائل علم اصول ميں داخل ہوئے اس دور كے علما اور بزرگ محققين ميں سے محمد بن ادريس حلى (متوفى ۵۹۸ قمرى )محقق حلى ، علامہ حلي، فاضل مقداد اور شيخ بہائي قابل ذكر ہيں(۱)

____________________

۱)سابقہ ما خذ ص ۱۲۱ ، ۱۳۰ ، ۱۳۵_

۱۰۵

۷)علم اصول ميں ضعف كا دور : تشيع كى علمى محافل اور حوزات ميں اخبارى مكتب فكر كى طرف ميلان بڑھنے سے علم اصول كى گذشتہ ادوار كى مانند رونق ختم ہوگئي اس دور ميں اخباريوں اور اصوليوں ميں شديد نزاع رہا، اس دور كى اخبارى مكتب فكر ميں اہم ترين تاليف '' كتاب فوائد المدنيہ'' ہے كہ جو محمد امين استر آبادى (متوفى ۱۰۳۳) نے تاليف كي_

۸)علم اصول كا جديدد ور: جناب وحيد بہبہانى كے علمى حوزات ميں ظاہر ہونے سے علم اصول بتدريج دوبارہ ترقى كے زينوں كى طرف بڑھنے لگا، آپ اور آپكے شاگردوں نے اپنى حيرت انگيز صلاحيتوں سے مالامال علمى طاقت سے اخبارى مكتب فكروالوں كے تمام شبہات اور تہمتوں كا جواب ديا اور يہ ثابت كرنے كيلئے بہت زيادہ كوشش كى كہ فقہى مسائل تك پہنچنے كيلئے ہم سب فقط اصولى قواعد كے محتاج ہيں اس دور ميں علامہ وحيد بہبہانى كے علاوہ عظيم علمى شخصيات ميں سے سيد مہدى بحر العلوم (متوفى ۱۲۱۲ قمري) كاشف الغطاء (متوفى ۱۲۲۷قمري) اور سيد على طباطبائي (متوفى ۱۲۲۱ قمري) قابل ذكر ہيں(۱)

۹)عصر حاضر : يہ دور جو كہ حقيقت ميں علم اصول كى معراج كا دور شمار ہوتاہے شيخ مرتضى انصارى (متوفى ۱۲۸) كے ظہور سے شروع ہوا اور انكے بعد انكے شاگردوں كى كوششوں سے جارى رہا _ واقعى بات تو يہى ہے كہ اس دور ميں علم اصول كى ترقى كاگذشتہ ادوار ميں كسى دور سے موازنہ نہيں كياجاسكتا اس دور ميں علم اصول ميں تحقيقات كيفيت اور كميت كے اعتبار سے وسيع ہونے كے ساتھ ساتھ انتہائي عميق بھى ہيں(۲)

۶_ كلام

اسلامى تمدن كے زير سايہ علم كلام كى پيدائشے كى كچھ وجوہات تھيں ان ميں سے ايك مسلمانوں كا غير مسلم اقوام مثلا ايرانيوں ، روميوں اورمصريوں سے تعلقات تھے ان روابط اور تعلقات كى بناء پر عقائد و نظريات

____________________

۱)سابقہ ما خذ ص ۱۳۸_

۲)مرتضى مطہري، آشنائي با علوم اسلامى ، بخش اصول فقہ ص ۲۶۳_

۱۰۶

ميں اختلاف آشكار ہوا _ مسلمانوں نے دين اسلام كے دفاع كيلئے نئي فكرى اور استدلالى روشوں كو سيكھا_ اسى طرح اس علم كے وجود ميں آنے كى دوسرى وجہ ايسى اقوام كا اسلام قبول كرنا قرار پائي كہ جو اپنے مذاہب ميں اللہ تعالى كى صفات، توحيد ، قضا و قدر اور جزا و سزا و غيرہ كے مسائل ميں مخصوص عقائد و نظريات كے حامل تھے_ اسى بناء پہ نئے مسلمان لوگ اسى كوشش ميں رہتے تھے كہ اپنے سابقہ دينى عقائد كو دين اسلام كے سانچے ميں ڈھال كر پيش كريں اسى ليے مسلمانوں نے بھر پور كوشش كى كہ عقلى دلائل سے بہرہ مند ہوكر اسلام كے بنياد ى عقايد كو مستحكم اور پائيدار بنائيں(۱)

علم كلام اپنے آغاز ميں فقط عقائدى مسائل بالخصوص توحيد و غيرہ پر بحث كرتا تھا اور جو شخص عقائد كے امور ميں دليل سے بات كرتا اسے متكلم كہا جاتاتھا اور خود دينى عقائد اور اصول ميں بحث اور جدل كرنے كو علم كلام كا نام دياگيا _ اسلام كے بڑے متكلمين ميں سے جنہوں نے كلامى نظريات اور مسالك كى تشكيل ميں اہم كردار ادا كيا حسن بصرى (۱۱۰ _ ۲۱ قمري) كى طرف اشارہ كيا جاسكتاہے كہ جو گناہوں كے حوالے سے بہت سخت موقف ركھتے تھے _ انكا عقيدہ تھا كہ تمام افعال فقط انسانى مرضى كى بناء پر انجام پاتے ہيں

دوسرى صدى ہجرى ہيں ابو محرز جھم بن صفوان نے مسلك جھميہ كو تشكيل ديا _ اس مسلك كے ماننے والوں كا نظريہ يہ ہے كہ اللہ تعالى كى شناخت كيلئے فقط ايمان كافى ہے ديگر عبادات سے اس كا كوئي ربط نہيں ہے اور كوئي بھى اللہ تعالى كے ارادے كے سوا فعل انجام نہيں ديتا_ پس انسان اپنے افعال ميں مجبور ہے(۲)

تيسرى صدى ہجرى ميں ابو سہل بشر بن معتمر ہلالى كوفى بغدادى (متوفى ۲۱۰قمري) نے مسلك بشرية كو تشكيل ديا _ اسكا نظريہ يہ تھا كہ اللہ تعالى قادر ہے اور اس نے اپنے بندوں كو اپنے كام كرنے پر قادر كيا ہے ليكن يہ مناسب نہ سمجھا كہ حيات، موت اور قدرت جيسے امور بھى انسانوں كے سپرد كرے(۳)

____________________

۱) علامہ شبلى نعماني، تاريخ علم كلام، ترجمہ داعى گيلاني، ص ۸_

۲)خير الدين زركلى ، الاعلام ، ج ۲ ص ۲۲۶_

۳) محمد شہرستاني، الملل و النحل، محمد جواد شكور كى سعى سے ، ج۱، ص ۷۲_

۱۰۷

چوتھى صدى ميں ہم چند مشہور و معروف متكلمين كا عرصہ وجود ميں ظہور كا مشاہدہ كرتے ہيں ان ميں سے ايك شيخ مفيد ہيں انكى تقريباً دو سو كے قريب تاليفات تھيں كہ جن ميں سے اكثر مختلف كلامى مسالك كے عقائد كى رد پر لكھى گئيں _ اسى صدى كے دوسرے مشہور متكلم شيخ الطايفہ ابوجعفر محمد بن حسن طوسى ہيں وہ سب سے پہلے شخص تھے كہ جنہوں نے نجف كو شيعہ مكتب كے علمى اور دينى مركز ميں تبديل كيا انكى كلام ميں مشہور كتابوں كے نام مندرجہ ذيل ہيں :الشافي، الاقتصادالہادى الى الرشاد اورتمھيد الاصول_

پانچويں صدى ميں مشہور متكلم ابوحامد محمد غزالى پيدا ہوئے_ غزالى كا عقيدہ تھا كہ متكلمين نے اس زمانہ ميں دين كى نصرت كيلئے قيام كيا كہ جب دينى فرقوں ميں اختلاف بڑھ گيا تھا اور لوگوں كے دلوں ميں ايمان متزلزل ہوچكا تھا انہوں نے عقلى اور منطقى دلائل كے ساتھ شبہات پيدا كرنے كا راستہ بند كرديا تھا نيز انكا عقيدہ تھا كہ عوام كو علم كلام سے دور كرنا چاہيے كہ اگر ان ميں سے كوئي ''يد'' ، '' فوق'' اور عرش پر استوار'' كا معنى پوچھيں تو بھى انہيں نہ بتائيں خواہ انہيں تازيانے مارنا پڑيں(۱) جس طرح كہ خليفہ دوم حضرت عمرہر اس شخص سے ايسا سلوك كيا كرتے تھے كہ جو تشابہ آيات كے بارے ميں سوال كرتا پانچويں صدى كے ايك اور معروف متكلم ابوالفتح محمد بن عبدالكريم بن احمد شہرستانى ہيں انكى علم كلام ميں معتبرترين كتاب كا نام نہاية الاقدام فى علم الكلام ہے جو علم كلام كے بيس قواعد اور اس علم كے مسائل كى فروع پر تشريح كى حامل ہے(۲)

چھٹى صدى ہجرى كے مشہورترين متكلم امام فخر رازى ياامام المشككين ہيں وہ علم اصول و كلام ميں مكتب اشعرى پر اور فروع دين ميں شافعى مسلك پر تھے انكے بيشتر اعتراضات اورتشكيكات فلسفي، كلامى اور علمى مسائل ميں تھے_ وہ اسلامى عقايد كى تشريح اشعرى مكتب كے اصولوں كى بناء پر كيا كرتے تھے اور فقہ اہل سنت پر عمل پيرا تھے_

____________________

۱)ابوحامد محمد غزالي، المنقد من اللال والمفصح عن الاحوال، محمدحابر كى كوشش سے _ دہر، عبدالكريم گيلانى حاشيہ الانسان الكامل ، قاہرہ_

۲)ابراہيم مذكور، فى الفلسفة الاسلامية، قاہرہ_

۱۰۸

ساتويں صدى ہجرى كے عظيم ترين متكلم خواجہ نصير الدين طوسى ہيں چونكہ خواجہ شيعہ ہونے كے ساتھ ساتھ منگولوں كے بادشاہ ہلاكوخان كى نگاہ ميں اہم مقام كے حامل تھے لہذا اہل سنت كے بہت سے علماء ان سے حسد كيا كرتے تھے اور انہيں سب و شتم كيا كرتے تھے انكى علم كلام ميں اہم ترين كتاب '' تجريد الاعتقاد'' ہے(۱)

ساتويں صدى ميں ابن تيميہ پيدا ہوئے وہ قرآنى علوم، حديث، فقہ، كلام ، فلسفہ اور ہندسہ ميں مہارت ركھتے تھے، وہ مسلمانوں كى سنت كا دفاع كيا كرتے تھے كہ جسكى وجہ سے اہل سنت كے ديگر مسالك كے بہت سے پيروكاروں نے انكى مخالفت كى _ اگر چہ انكا حنبلى مسلك سے تعلق تھا ليكن اس مسلك كے اصول كو اجتہاد كے ذريعہ قبول كرتے تھے اور بدعات كى مخالفت كرتے تھے اور اولياء خدا سے تمسك كرنے اور انبياء كى قبور كى زيارت پر تنقيد كيا كرتے تھے _ علماء اسلام كے ايك گروہ نے انكى مذمت كى جبكہ ايك گروہ نے انكى تعريف كي(۲)

ان تمام گذشتہ صديوں ميں علماء اسلام ميں سے فقط علامہ حلى ہيں كہ جنہيں آيت اللہ كے لقب سے نوازا گيا آپ ساتويں صدى ميں پيدا ہوئے، آپكى چار سو سے زيادہ تاليفات ہيں انہوں نے اپنى علم كلام كے بارے ميں تاليفات ميں سياست كى بحث بھى كي_ وہ سياست كوعين دين سمجھتے تھے انكى علم كلام كى مباحث ميں شيعہ سياسى افكار جلوہ گر ہيں _ انكى علم كلام ميں اہم ترين كتا ب الباب الحادى عشر ہے اسكے ابواب ميں مذہب شيعہ كے مختلف كلامى موضوعات مثلا نبوت، عصمت پيغمبر(ص) كا ضرورى ہونا، پيغمبر (ص) كى افضليت ، پيغمبر(ص) كا نقص سے دور ہونا، امامت ، امام كا معصوم ہونا اور حضرت على (ع) كى امامت كے حوالے سے بحث اور تجزيہ و تحليل كياگيا ہے_(۳)

____________________

۱)ميان محمد شريف، تاريخ فلسفہ در اسلام تہران_

۲)دائرة المعارف بزرگ اسلامى ج ۳ ، ذيل ابن تيميہ_

۳)خوانسارى ، روضات الجنات، لقرآن ص ۴۲۱ _۴۱۹_

۱۰۹

۷_ تصوف، عرفان اورفتوت

تصوف كا لغت ميں معنى '' صوفى بننا'' ہے ، بظاہر سب سے قديمى كتاب كہ جسميں كلمہ صوفى اور صوفيہ استعمال ہوا وہ جاحظ (متوفى ۲۵۵ قمرى ) كى البيان و التبين ہے(۱) ابن خلدون نے اپنے مقدمہ ميں تصوف كو صحابہ ، تابعين اور انكے بزرگان كى روش كے طور پر ذكر كيا(۲) بعض نے لفظ صوفى كو صفا سے ليا كہ جسكا معنى روشنى اور پاكيزگى ہے اور صفوت سے مرادمنتخب ہے ليكن شہرت يہى ہے كہ صوفى صوف سے ليا گيا ہے كہ جسكا معنى پشم ہے اور صوفى يعنى پشم پوش (پشم پہننے والا)(۳)

عرفان كو يورپى زبانوں ميں '' مَيسٹك'' Mystics(۴) كا نام ديا گيا ہے كہ جو يونانى لفظ ميسٹيكوس( Mistikos ) سے ليا گياتھا(۵) اور اسكا مفہوم و معنى ايك مرموز ، پنہان اور مخفى امر ہے_

اور اصطلاح ميں ايسے خاص دينى پہلو پر دلالت كرتاہے كہ جس ميں كسى انسانى فرد كا كائنات كے رب كے ساتھ بلاواسطہ رابطہ اور اتصال پيدا ہونا ممكن ہے اور يہ علم انسان كو خالق كائنات كےساتھ كشف و شہود اور باطنى تجربات كے ذريعے متصل كرتا ہے دوسرے الفاظ ميں عرفان سے مراد وہ روش اور طريقہ كہ جو نظرياتى طورپر علم حضورى كہلاتاہے اور عملى حوالے سے عبادت، كوشش اور زہد و رياضت سے لولگانے كو كہتے ہيں(۶)

دوسرى صدى ہجرى ميں وہ خاص لوگ كہ جو دينى مسائل كى طرف بہت زيادہ توجہ ديتے تھے زاہد، عابد اورمتصوف كہلاتے تھے_ اس دور ميں ہميشہ ميں عبادت ميں مصروف ہونا ، اللہ تعالى كے ليے ترك دنيا،

____________________

۱)عمرو بن بحر حاحظ، البيان و التبين چاپ حسن سندولى قاہرہ ، ج۱ ص ۲۸۳_

۲)ابن خلدون، مقدمہ ، ج۱ ص ۶۱۱_

۳)منصور بن اردشير عبادي، مناقب الصوفيہ ص ۳، ۳۱_

۴) mystic

۵) mistikos

۶)نورالدين كيائي ناد، سير عرفان در اسلام، ص ۷_۶۵_

۱۱۰

دنياوى لذتوں سے دورى اختيار كرنا ، زہد اور ہر وہ چيز كہ جسے لوگ برا سمجھتے ہيں مثلا ثروت جمع كرنے اور جاہ طلبى و غيرہ سے پرہيز كرنا تصوف كہلا تا تھا(۱)

جاحظ اور ابن جوزى نے تقريباً ابتدا كے صوفيوں ميں سے چاليس افر اد كا تعارف كرواياہے جن ميں ابوذر، حذيفہ بن يمان، خباب بن ارث و بلال حبشي، سلمان فارسي، عمار ياسر ، مقداد اور ديگر وہ لوگ كہ جو عبادت اور زہد ميں معروف تھے انكا ذكر ہوا، اسى طرح وہ اشخاص كہ جو صدر اسلام كے شيعوں ميں سے شمار ہوتے ہيں(۲)

تيسرى صدى كے وسط سے صوفى حضرات گروہى اعتبار سے بتدريج منظم ہوگئے_ انكا اہم ترين گروہ بغداد ميں تھا_معروف صوفى مثلا ابوسعيد خرّاز (متوفى ۲۷۷ قمري) جنيد بغدادى (متوفى ۲۹۸قمري) اور ابوبكر شبلى (متوفى ۳۳۴ قمرى ) وہاں زندگى گذارتے تھے(۳) كلامى اوراعتقاد كے اعتبار سے صوفيوں ميں پائے جانے والے مختلف نظريات انكے فكرى اور باطنى مكتبوں اور فرقوں ميں اختلاف كا باعث تھے _ مثلا خواجہ عبداللہ انصارى اور ابوسعيد ابو الخير آپس ميں اختلاف رائے ركھتے تھے(۴)

تيسرى صدى ہجرى سے دوسرے علاقوں كے صوفيوں كا مركز سے رابطہ اور نظم بڑھ گيا يہانتك كہ بغداد ميں - ۳۰۹ قمرى ميں حلاج قتل ہوا _ يہ چيز باعث بنى كہ بغداد بتدريج صوفيوں كا محور اور مركزنہ رہا_ اسى صدى كے وسط سے ہى بغداد كے بڑے صوفى حضرات نے تاليف كا آغاز كيا اس دور كى اہم ترين كتابيں مندرجہ ذيل ہيں : خرگوشى نيشابورى (متوفى ۴۰۶ قمري) كى تہذيب الاسرار، ابوبكر كلا بازى كى

____________________

۱)عبداللہ بن محمد ارضاري، طبقات الصوفيہ ج ۱۲ ، ص ۵ _۱۹۴_

۲)رينولد'' نيكلسون'' پيدائشے و سير تصوف ترجمہ محمد باقر معين، ص ۱۴_۱۱، مانرى كورين ، تاريخ فلسفہ اسلامى ، ترجمہ جواد طباطبائي ص ۷۳_۲۶۵_

۳)ابوبكر محمد بن ابراہيم كلاباذي، التعرف لمذہب اہل التصوف ، دمشق ص ۳۰ _ ۲۸_

۴)احمد جامى ، مقامات شيخ الاسلام حضرت خواجہ عبداللہ انصارى طروى ، چاپ فكرى سلجوقى تہران ص ۳۴_ ۳۱_

۱۱۱

تصنيف ''التعرف لمذھب اہل التصوف ''اور ابونصر سراج طوسى كى تاليف'' كتاب اللمع فى التصوف'' چوتھى صدى ميں اور اس كے بعد بھى تاليف كى يہ روايت جارى رہي_ كتاب ''التعرف كلا بازى ''كو ابواسماعيل مستملى نے فارسى زبان ميں ترجمہ كيا_ ابو حامد غزالى (متوفى ۵۰۵ قمري) نے كتاب ''كيمياى سعادت ''كو عربى زبان ميں تحرير كيا اسى طرح شہاب الدين عمر سہروردى نے ساتويں صدى ہجرى ميں تصوف كے حوالے عربى ميں كتاب'' عوارف المعارف ''تاليف كى _

چوتھى صدى كے دوسرے نصف حصہ سے صوفيوں كى تاريخ خاص اہميت كى حامل ہے ابو عبدالرحمان سلمى نيشابورى نے كتاب طبقات الصوفيہ ميں ۱۰۳ معروف صوفيوں كا پہلى بار اپنى كتاب ميں تعارف كروايا نيز انكى كچھ باتوں كو بھى ذكر كيا_ اسى كتاب طبقات الصوفيہ كى مانند ابونعيم اصفہانى نے بھى كتاب حلية الاولياء تاليف كى جو ''طبقات الصوفيہ ''كا تقريباً چربہ تھى(۱)

چھٹى صدى ہجرى كے بعد سے صوفيوں ميں گوناگوں سلسلے تشكيل پائے ہر سلسلے كا نام اس طريقت كے بانى كے نام پر ہوتا مثلا سلسلہ سہرورديہ ، شہاب الدين عمر سہروردى كے ساتھ منسوب ہے اور سلسلہ مولويہ مولانا جلال الدين بلخى كے ساتھ منسوب ہے ان سلسلوں كو مختلف واسطوں كے ساتھ صدر اسلام اور حضرت رسول اكرم(ص) سے ملايا جاتا تھا كہ اس قسم كى نسبت مستحكم دليل و بنياد سے خالى ہوتى ہے(۲)

مجموعى طور پر پانچويں ، چھٹى اور ساتويں صدى ہجرى ميں شيعہ اور سنى ميں اختلاف نظر ، سنى مذاہب بالخصوص حنفيوں اور شافعيوں ميں مذہبى مجادلے ، فقہاء اور فلاسفہ ميں نظرياتى اختلاف اور مختلف جنگيں مثلا منگولوں كے حملے باعث بنے كہ تصوف لوگوں كيلئے بہت زيادہ پر كشش بن جائے، اس دور ميں بزرگ ، صوفى ظاہر ہوئے مثلا ابوالحسن فرقاني، ابوسعيد ابو الخير(۳) بابا طاہر عريان، ابوالقاسم قشيري، حجت الاسلام

____________________

۱)نصر اللہ پور جوادي، ابو منصور اصفہانى كى سير السلف و نصحات الانس كے حوالے سے معلومات ، معارف دورہ ۱۴ ش ۳ _

۲)احمد بن عبداللہ ابونعيم اصفہاني، سابقہ ماخذج ۱۰ ص ۳ _۴۲۰_

۳)فريش ماير، ابوسعيد ابو الخير ، حقيقت و افسانہ، ترجمہ مہر آفاق بايبوردي_

۱۱۲

غزالى(۱) ابونعيم اصفہانى(۲) ، احمد غزالى ، عين القضات ہمدانى(۳) احمد جامى(۴) عبدالقادر گيلاني، سہروردى(۵) ، نجم الدين كبري، فريد الدين عطار نيشابورى(۶) شمس تبريزي، جلال الدين مولوي(۷) اور بالخصوص محى الدين ابن عربي_

پانچويں اور چھٹى صدى ميں تصوف ادب ميں سرايت كرگيا _اكثرشعراء حضرات عرفان اور تصوف كى طرف مائل ہوگئے مثلا مولوى نے عرفانى اشعار كو معراج پر پہنچا ديا_ اس سے بڑھ كر غزالى اور سہروردى كى مانند افراد كے ظاہر ہونے سے تصوف كا فلسفى پہلو بھى ترقى كرگيا_ اس پہلو اور نظريہ كے سربراہ محى الدين ابن عربى ہيں انكے معروف ترين آثار'' فتوحات مكيہ اورفصوص الحكم ہيں انہوں نے تصوف ، عرفان اور حكمت اشراق كو اپنى كتب ميں استدلالى اور برہانى روش كے ساتھ پيش كيا اور وہ اسلام ميں وحدت وجود كے مكتب كے حقيقى بانى بھى ہيں(۸)

چھٹى صدى ہجرى ميں عين القضات ہمدانى (متوفى ۵۲۵ قمري) جو ايك عظيم عارف اورفقيہ تھے ، پيدا ہوئے انہوں نے اپنے اوپر لگائے ہوئے الزامات كے مقابلے ميں اللہ تعالى پراپنے ايمان اورنبوت و آخرت پر ايمان كا مناسب انداز سے دفاع كيا ليكن ان پر كفر اور زندقہ كى تہمت لگاتے ہوئے انہيں تينتيس

____________________

۱)محمد بن محمد غزالي، احياء علوم الدين ، بيروت_

۲)احمد بن عبداللہ ابونعيم اصفہاني، سابقہ ما خذ_

۳)عبداللہ بن محمد عين القضاة ، دفاعيات عين القضاة ہمداني، ترجمہ رسالہ شكورى الغريب ، ترجمہ و حاشيہ قاسم انصاري، تہران_

۴) عبدالرحمان بن احمد جامي،نفحات الانس، محمود عابدى كى كوشش كے ساتھ _تہران_

۵)يحيى بن جبش سہروردى ، مجموعہ مصنفات شيخ اشراق ، كوربن كى كوشش كے ساتھ، تہران ، محمد بن مسعود قطب الدين شيرازى شرح كلمة الاشراق سہروردى عبداللہ نورانى و مہدى محقق كى كوشش كے ساتھ تہران_

۶)محمد بن ابراہيم عطا، تذكرة الاولياء ،محمد استعلامى كى كوشش كے ساتھ ، تہران_

۷)جلال الدين محمد بن محمد مولوى ، مثنوى معنوي، تصحيح و ترجمہ رينو الاولين ينكلسون، تہران_

۸)رينو اور نيكلسون، سابقہ ما خذص ۴ _ ۳۲_

۱۱۳

۳۳ سال كى عمر ميں قتل كرديا گيا يہ واقعہ حسين بن منصور حلاج كے قتل كے بعد اسلامى تصوف كى تاريخ ميں انتہائي جانگداز واقعہ شمار ہوتاہے(۱)

اسى صدى ميں اس قسم كے خشك تعصب كا ايك اور مظاہرہ ايران كے مشہور فلسفى شہاب الدين سہروردى كے قتل كى شكل ميں سامنے آيا وہ ۵۴۹ قمرى ميں سہرورد زنجان ميں پيدا ہوئے اور ۵۸۷ قمرى ميں صلاح الدين ايوبى كے حكم اور حلب شہر كے متعصب لوگوں كے بھڑكانے پر اٹھتيس سال كى عمر ميں قتل ہوئے ساتويں صدى ہجرى ميں سہروردى كا مكتب تشكيل پايا اسى صدى ميں تصوف وجد اور حال كے مرحلہ سے '' قال'' كے مرحلہ تك پہنچا اور علمى فلسفى صورت ميں سامنے آنے لگا(۲)

آٹھويں صدى ميں سہروردى ، ابن عربى اور ابن فارض كا عرفانى مكتب شہرت پانے لگا اور تصوف اور عرفان آپس مخلوط ہوگئے_ عرفانى علوم اور خانقاہوں كى راہ و رسم كو ايك جگہ پڑھايا جانے لگا اسى صدى ميں ايران كے عظيم ترين عارف اور سخن سرا حافظ شيرازى پيدا ہوئے اسى طرح شيخ صفى الدين اردبيلى (۷۳۵ _ ۶۵۰ قمري) ، ابوالوفاء (متوفى ۸۳۵ قمري) زين الدين ابوبكر تايبادى (متوفى ۷۹۱) اور زين الدين ابوبكر محمود خوافى (متوفى ۸۳۸ قمري) كہ جو ايران كے آٹھويں صدى اور نويں صدى كے آغاز ميں بزرگ عرفا ميں شمار ہوتے تھے ظاہر ہوئے يہ سب سہرورديہ طريقت كے پيروكار اور شيخ نور الدين عبدالرحمان قريشى مصرى كے مريد تھے _ اس دور كے اور اسكے كچھ عرصہ بعد كے بڑے عرفاء ميں سے جامع الاسرار كے مصنف سيد حيدر آملي، علاء الدين سمنانى ( ۷۳۶ _۶۵۹ قمري) گلشن راز كے مصنف شيخ محمود شبسترى (متوفى ۷۲۰ قمري) نعمت اللہى سلسلہ كے بانى شاہ نعمت اللہ ماہانى كرمانى المعروف شاہ نعمت اللہ ولى اور مختلف كتب اور عرفانى نظموں كے خالق نور الدين عبدالرحمان جامى (متوفى ۹۱۲ قمري) قابل ذكر ہيں تصوف نے در حققت آٹھويں صدى ہجرى ميں اپنے كمال كے تمام مراحل طے كرليے تھے كيونكہ اس تاريخ كے بعد يہ زوال كاشكار ہوا(۳)

____________________

۱)زين الدين كيائي ناد ، سابقہ ما خذص ۴۲ _۱۳۱_

۲)قمر گيلانى ، فى التصوف الاسلامي، مفہومہ و نظورہ و اعلامہ ، بيروت_

۳)زين الدين كيانى ناد ، سابقہ ما خذص ۲ ، ۲۳۱_

۱۱۴

صفوى دورميں تصوف ايك نئے مرحلہ ميں داخل ہوا گذشتہ قرون ميں صوفى راہنماؤں كى ذمہ دارى يہ تھى كہ اپنے مريدوں كى راہنمائي اور تہذيب نفس كريں اسى ليے وہ دنيا كى كوئي پرواہ نہ كرتے تھے اور حق تك وصل اور كمال انسانى ميں سعادت حاصل كرنے كى كوشش ميں رہتے تھے_ نويں صدى ہجرى ميں صوفى مشايخ ميں سے ايك شيخ يعنى شيخ جنيد جو كہ شاہ اسماعيل كے جد تھے انہوں نے طاقت و قدرت اپنے ہاتھوں ميں لينے كيلئے صوفى گروہ اور اپنے مريدوں كو تيار كيا اور اسى ہدف كے پيش نظر صوفيوں كو كفار سے جہاد كيلئے مجبور كيا اور اپنے آپ كو سلطان جنيد كہلايا اس تاريخ كے بعد صوفى لوگ جنگى لباس ميں آگئے_

شاہ اسماعيل كے ابتدائي زمانہ حكومت ميں اسكے مريد اور پيروكار ايك مدت تك اسے صوفى كہتے رہے پھر صوفى اور قزلباش كا عنوان ايك دوسرے كيلئے لازم و ملزم ہوگيا _ شاہ تہماسب كے زمانہ ميں شيعوں اور قديم صوفى مريدوں كى اولاد كا ايك گروہ ديار بكر اور ايشيا ئے كوچك كے كچھ علاقوں سے ايران ميں داخل ہوا اور صوفى گروہ ميں شامل ہوگئے شاہ تہماسب كى وفات كے وقت قزوين ميں صوفيوں كى تعداد دس ہزار تك پہنچ گئي صوفى لوگ قزلباشوں كے ديگر گروہوں كى نسبت بادشاہ كے زيادہ قريب ہوتے تھے صوفيوں كے ہرگروہ كے سربراہ كو خليفہ كا نام ديا جاتا تھا اور تمام صوفيوں كے سربراہ كوخليفةالخلفاء كہا جاتا تھا(۱)

شاہ عباس نے صوفيوں كو نظرانداز كرديا اوروہ تمام اہم امور جو انكے ہاتھوں ميں تھے ان سے لے ليے_ جو كچھ بھى صفويہ دور ميں صوفيوں كے حوالے سے لكھا گيا وہ فقط شيخ صفى الدين اور انكے جانشينوں كے پيروكاروں كے بارے ميں ہے صفوى حكومت كے وسطى زمانہ سے علماء شريعت كى قوت بڑھنے لگى اور اسى نسبت كے ساتھ صوفى لوگ زوال كا شكار ہونے لگے اور انكى مخالفت بڑھنے لگى يہانتك كہ انكے حوالے سے مرتد كافراور زنديق ہونے كى باتيں ہونے لگيں ، قاجارى دورميں اگر چہ صوفيوں كے كام كچھ زيادہ لوگوں كى توجہ كا مركز قرار نہ پائے ليكن حكومت كے استحكام سے معمولى آسايش حاصل ہونے كے ساتھ ساتھ حملہ اور

____________________

۱)نور الدين مدرسى چہاردہي، سلسلہ ہاى صوفيہ ايران ، تہران_

۱۱۵

اذيت سے محفوظ ہوگئے ليكن خانقاہيں پھر منظم اور پرجوش نہ رہيں (۱)

فتوت، عربى زبان ميں ايسى صفت ہے كہ جو كلمہ '' فتي'' سے مشتق ہوئي ہے اور اس شخص كى صفت ہے كہ جس نے جوانى اور شباب ميں قدم ركھا ہويہ كتاب منتھى الارب ميں جوانمردى اور عوامى كے معنى ميں ذكر ہوئي ہے زمانہ جاہليت ميں يہ كلمہ دو مجازى معانى '' شجاعت اور سخاوت'' ميں استعمال ہوا كلمہ فتوت كے مشتقات قرآن مجيد كى سورتوں كہف،يوسف، نساء اورنور ميں ذكر ہوئے ہيں كہ دو يا تين مقامات سے ہٹ كر باقى تمام جگہوں پر جوانمرد يا جوانمردى كے علاوہ معانى ميں انكى تفسير ذكر ہوئي ہے(۲) جنگ احد ميں پيغمبر اكرم نے حضرت على (ع) كو كفار سے دليرى كے ساتھ جنگ كرنے كى بناپر فتى كا لقب ديا اور فرمايا : لا فتى الا علي_(۳) اموى دور ميں فتوت كے معنى ميں وسعت پيدا ہوئي اور مردانگى اور مروت كے مختلف موضوعات اس كے معنى ميں داخل ہوئے ليكن اسكا اساسى ركن ايثار كہلايا كہ جو صوفيانہ فتوت كى سب سے پہلى خصوصيت تھى _

صدر اسلام ميں زاہدين اور سچے مسلمان جہاد اور راہ اسلام ميں جنگ كى مانند اس چيز كواپنى ذمہ دارى سمجھتے تھے _ اس دور كے بعد صوفى حضرات خانقاہوں ميں بسيرا كرنے لگے اور جہاد اصغر سے جہاد اكبر يعنى نفس سے جنگ كى تعليم ميں مشغول ہوئے اسى ليے فتوت كہ جو شجاعت اور كرامت كے مترادف تھا اخلاق حسنہ اور ايثار كے معنى ميں تبديل ہوگيا اور صاحب فتوت كى تين علامات قرار پائيں : (۱_) ايسى وفا كہ جسميں بد عہدى نہ ہو (۲_) بغير توقع كے تعريف كرنا (۳_) بغير مانگے دينا_(۴)

فتوت كى بھى تصوف كى مانند كوئي جامع تعريف موجود نہيں ہے_(۵)

____________________

۱)زين الدين كيانى ناد، سابقہ ما خذص ۲۳۲_

۲)يوسف ۳۰ ، ۳۶ ، ۶۱، ۶۲ ، كہف ۱۰ ، ۱۳، ۵۹ ، ۶۱ ، نساء ۲۹ ، نور ۳۳ ، نيز رجوع كريں محمد جعفر محجوب '' مقدمہ فتوت نامہ سلطانى ، نوشتہ مولانا حسين واعظ كاشفى سبزوارى ص ۹_۷_

۳)سابقہ ما خذمقدمہ ص ۹ _

۴)سابقہ ما خذص ۱۱ _ ۹_

۵) سابقہ ماخذ، ص ۱۱

۱۱۶

فتوت كے حوالے سے ابن عمار حنبلى بغدادى جو اس موضوع پر قديمى ترين كتاب '' كتاب الفتوة'' كے مصنف ہيں اس ميں لكھتے ہيں كہ سنت ميں فتوت كے حوالے سے احاديث بيان ہوئيں ہيں كہ جن ميں سے بہترين احاديث امام جعفر صادق (ع) سے نقل ہوئيں جو انہوں نے اپنے والد اورجد مبارك سے روايت كى ہيں كہ رسول اكرم(ص) نے فرمايا: كہ ميرى امت كے جوانمردوں كى دس علامات ہيں : سچائي ، تعہد سے وفا، امانت ادا كرنا ، كذب سے پرہيز، يتيم پر سخاوت ، سائل كى مدد كرنا ، جو مال پہنچے اللہ كى راہ ميں دينا، بہت زيادہ احسان كرنا، مہمان بلانا اور ان سب سے بڑھ كر حيا ركھنا(۱)

مختلف كتابوں سے تصوف اور فتوت كے حوالے سے بہت سى تعريفيں ملتى ہيں كہ ان كتابوں ميں سے اہم ترين كتابيں '' الفتوة الصوفية اور طبقات الصوفيہ'' مصنف ابو عبدالرحمان سلمى نيشابورى اور سالہ قشيريہ كہ جسكے مصنف ابوالقاسم قشيرى ہيں _(۲)

مسلم بات يہ ہے كہ ان تمام كتب كے مطالعہ سے يہ استنباط ہوتاہے كہ فتوت شروع ميں تصوف كے مسالك ميں سے ايك مسلك كے طور جانا گيا ، عام طورپر يہ جوانمرد لوگ اپنے ''سراويل يا كسوت'' نامى لباس يا حليے كے حامل تھے جس كا عملى سرچشمہ حضرت على كى سيرت اوركردار كو جانتے تھے(۳)

تيسرى صدى كے بعد فتوت صوفيوں كى مذہبى و دينى كتابوں كے علاوہ فتوت ناموں ، عوامى داستانوں ، اشعار اور فارسى ادب كى صورت ميں شاعروں اور اہل سخن و كلام كى تعريف و ستائشے كا محور قرار پايا(۴)

____________________

۱)ابن عمار حنبلى بغدادي، الفتة ص ۲۳۳_ ۱۳۲ صالح بن جناح ، كتاب الادب و المروة ، ترجمہ و تصحيح سيد محمد دامادى ، پوہشگاہ علوم انسانى و مطالعات فرہنگى تہران ص ۸_

۲)فتوت نامہ سلطنى ، سابقہ ما خذص ۱۲ مقدمہ _

۳)محمد جعفر محجوب ، سابقہ ما خذص ۱۳ _ ۱۲_

۴)فتوت نامہ سلطانى ص ۱۳ تا ۱۵ ، على اكبر دہخدا ، امثال و حكم ج ۲_

۱۱۷

فتوت كے حوالے سے قديمى اور معتبر مصادر ميں سے عنصر المعانى كيكاووس بن اسكندر بن قابوس كى كتاب قابو سنامہ ہے كہ جس كے آخرى باب (چواليسواں باب ) ميں جوانمرد ہونے كيلئے قانون كاذكر ہے _ قابوسنامہ كى تفضيلات سے يہ معلوم ہوتاہے كہ اس زمانہ ميں اور اس سے قبل فتوت معاشرہ كے تمام طبقات ميں عملى اور اخلاقى احكام كى شكل ميں رائج تھا ہر كوئي اپنے كاموں ميں جوانمرد ہو اور فتوت كے قوانين كى پابندى كرتا تھا_

دوسرى صدى سے فتوت كا مكتب عياري(۱) كے ساتھ مخلوط ہوا اور اسكے خاص آداب اور رسوم تشكيل پائيں اسى ليے پہلوان لوگ ، ورزش كرنےوالے ، طاقتور لوگ، سپاہى اورعيار لوگ اپنے آپ كو جوانمرد كہنے لگے اور دوسرى طرف سے پيشہ ور اورسوداگر و تاجر لوگ اپنى جوانمردى كيلئے مخصوص آداب اور رسوم ركھنے لگے صوفى اور خانقاہ نشين لوگ بھى اپنے مكتب ميں جوانمردى كى رسوم و آداب كا خيال ركھنے لگے اور جو اس راہ ميں دوسروں سے بڑھ كر كوشش كرتا وہ فتوت ميں برتر سمجھا جاتا تھا(۲)

بلا شبہ فتوت كى گروہى صورت ميں فعاليت ايران كے علاوہ ديگر تمام اسلامى علاقوں مثلا شام اور مصر و غيرہ ميں بھى موجود تھى _ اس سے بڑھ كر تمام صليبى جنگوں كے دوران بيت المقدس سے شواليہ نام كے سواروں كا گروہ فرانس اور ديگر يورپى ممالك ميں ان مسلمانوں جوانمردوں ، سواروں كى تقليد كرتے ہوئے يورپ ميں داخل ہوئے كہ جو كرد، لر، فارس، ترك اور عرب قوميتوں سے مخلوط تھے_ بعض مورخين كا عقيدہ ہے كہ يورپ ميں اخلاقى بالخصوص فرانس ميں اخلاقى تربيت اور اصلاح شواليوں كے ان ممالك ميں جانے سے ہوئي كہ انہوں نے ان ممالك ميں جوانمردى ، اصيل زادگى ( ذات كے حوالے سے نجيب ) اور شجاعت كے قانون كو رائج كيا(۳)

____________________

۱) عيارى (پہلوانى كى طرح) قديم زمانے ميں ٹريننگ اور رياضت كى بعض انواع ميں سے ايك تھى جو دوسرى صدى ہجرى كے اواخر سے اسلامى معاشرے ميں پائي جاتى ہے_ عيار اپنى زندگى ميں كچھ خاص طريقوں اور اصولوں كے پابند ہوتے تھے_ بعد ميں عيارى تصوف سے مخلوط ہوگئي_(مصحح)

۲)فتوت نامہ سلطانى ، ص ۱۷ ، ۱۸ ، مقدمہ_

۳) ہانرى كربن ، سابقہ ما خذص ۱۱۹_

۱۱۸

ملك الشعرا بہار نے سيستان كى تاريخ پر حاشيہ ميں لكھا عرب لوگ اپنے جنگجو ، زيرك اور ہوشيار اشخاص كہ جو ہنگاموں ،شورشوں يا جنگوں ميں شجاعت اور ذھانت دكھاتے انہيں عيار كا نام ديتے تھے _ بنى عباس كے دور ميں خراسان اور بغداد ميں عيار لوگ تعداد ميں بڑھ گئے تھے_ سيستان اور نيشابور ميں خاصہ (بادشاہوں يا امراء كے اصحاب و مقربين) اور يعقوب ليث صفار اس طايفہ كے سرداروں ميں سے تھے ہر شہر ميں عياروں كے سر براہ ہوتے تھے كہ جنہيں وہ ''سرہنگ ''كہا كرتے تھے اور كبھى تو ايك شہر ميں كئي سرہنگ اور چند ہزار عيار موجود ہوتے تھے(۱)

غزنوى اور سلجوى ادوار ميں عيار لوگ شہرى معاشرے كا ايك مخصوص طبقہ ہوتے تھے كہ يہ لوگ شہروں ميں عام لوگوں كى مانند يا مشرقى مصادر كى اصطلاح ميں ''اوباش'' كى صورت ميں ہوتے تھے يہ لوگ كفار كے ساتھ جہاد كيلئے مسلح گروہ تشكيل ديتے تھے جنہيں عيار كہا جاتا تھا(۲)

عباسى خليفہ '' الناصر لدين اللہ كا جوانمردوں كے گروہ ميں شامل ہونا اور فتوت كى ''سراويل ''پہننا چھٹى صدى ہجرى كے آخرى سالوں ميں ايك بڑا واقعہ تھا كہ جو فتوت كى تاريخ كے بہت بڑے واقعات ميں شمار ہوتا تھا_ چونكہ وہ جوانمردى كے مكتب كا اسلامى معاشرے ميں نفوذسے باخبر ہوچكا تھا اس ليے اس نے اسے عباسى حكومت كے ستونوں كو مستحكم كرنے كے ليے بہت مفيد جانا تا كہ اس كے ذريعے عباسى حكومت كو زوال سے بچالے اور عباسى حكومت كى عہد رفتہ كى شان و شوكت كودوبارہ زندہ كرے(۳) ۶۵۶ قمرى ميں منگولوں كے حاكم ہلاكو خان كے بغداد پر قابض ہونے اور بغداد ميں عباسى حكومت كے ختم ہونے كے ساتھ فتوت كى فعاليت ميں جمود پيدا ہوگيا چند سال كے بعد حكومت مماليك (سفيد فام غلام جو گردونواح كے مختلف علاقوں پر فرمانروائي كرتے تھے) كى حمايت كے ساتھ مصر ميں برائے نام عباسى خلافت ظاہر ہوئي كہ جن كے ساتھ

____________________

۱)تاريخ سيستان ص ۶_ ۱۷۵_

۲)مجلہ دانشكدہ ادبيات تہران ، س ۴ ، ش ۲ دى ۱۳۲۵ ص ۸۲_

۳)كاظم كاظمينى ، عياران ص ۱۴_ ۱۳ ، حائرى كوربن ، آئين جوانمردى ص ۱۸۰ ، ۱۷۵_

۱۱۹

فتوت بھى ظاہر ہوئے اور انكا مكتب مصر اور شام ميں رائج ہونے لگا اور يہ رواج بعد كے ادوار ميں بھى جارى رہا ليكن عراق ميں عباسى حكومت كے خاتمہ سے يہ مكتب زوال پذير ہوگيا اگر چہ اسكى جڑيں باقى رہيں(۱)

ناصر نے فتوت ناصرى كے طريقہ كو سلجوقيان كى رومى مملكت ميں رواج ديا _ عثمانيوں نے بھى طاقت اور حكومت تك پہنچے كيلئے ''اَخي'' اور اناطولى كے اہل فتوت كو پل كے طور پر استعمال كيا_

اہل فتوت كے ''اخيوں ''كا شيخ صفى الدين اردبيلى كے گرد موجود ہونا اور شاہ اسماعيل صفوى كا اپنے تركى اشعار كے ديوان ميں اپنے مددگاروں اور تابعين كيلئے عنوان ''اخى ''كا استعمال فتيان، قزلباشوں اور شيعوں كے درميان رابطے سے بڑھ كر ان لوگوں كے حكومتى انتظامى امور ميں ناقابل انكار سياسى اور معاشرتى كردار كو ظاہر كرتاہے _ خصوصاً يہ كہ وہ كسوت (صوفيا كا خاص لباس ) پوش اور پاكيزہ صوفيوں يعنى شاہ كے فدائيوں ميں سے شمار ہوتے تھے(۲)

ايرانى خاندانوں كے ايران پر حكومت كے دوران عيار لوگ كشتى كرنے والے پہلوانوں كے بھيس ميں سلاطين كے دربار ميں موجود ہوتے تھے يافوج ميں جنگجو كى صورت ميں اپنے وطن كى خدمت ميں مشغول تھے_ اور جب غير ايران پر قابض ہوئے تو يہ عيارى شكل و شمائل ميں انكے ساتھ جہاد كرتے جيسا كہ منگولوں كے تسلط كے آخرى دور ميں عياروں كى جماعت نے عبد الرزاق بن خواجہ شہاب الدين بيہقى كى سربراہى ميں قيام كيا اور سربداران كى تحريك كو وجودميں لائے_ يہ لوگ اپنے آپ كو شيعوں اور حضرت على (ع) كے جانثاروں ميں شمار كرتے تھے اور فتيان كے مكتب پر عياروں كى ماند عمل پيرا ہوكر لڑتے تھے_

مشہور ہے كہ چنگيز خان نے كسى كو سلسلہ كبرويہ كے چھٹى اور ساتويں صدى كے مشہور عارف اور بزرگ صوفى شيخ نجم الدين كبرى كے پاس (اس پيغام كے ساتھ) بھيجا كہ : '' ميں نے حكم دياہے كہ خوارزم ميں قتل

____________________

۱)جواد مصطفي، مقدمة الفتوة ، تاليف ، ابن عمار حنفى بغدادي، ہانرى كوربن، سابقہ ما خذص ۱۸۳_

۲)عباس اقبال آشتياني،فتوت و خلافت عباسي، محلہ شرق، دورہ يكم ، ش خرداد ۱۳۱۰ ص ۱۰۵ ،۱۰۱_

۳)صالح بن جناح، كتاب الاب والمروة ص ۹ _ ۷۹_

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271