امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت21%

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 271

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 271 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 116640 / ڈاؤنلوڈ: 4489
سائز سائز سائز
امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

لفظ ”انفسنا“ کے علی علیہ السلام کی ذات پر اطلاق ہونے کا قرینہ ”ندع“ و ”انفسنا“ کے درمیان پائی جا نے والی مغایرت ہے کہ جوعقلاًوعرفاً ظہور رکھتی ہے۔اس فرض میں ”ندع“بھی اپنے معنی میں استعمال ہواہے اور”ابناء نا“بھی اپنے حقیقی معنی میں استعمال ہواہے۔

لیکن یہ کہ آلوسی کی بات دلیل کے خلاف ہے،کیونکہ اتنی سا ری احادیث جونقل کی گئی ہیںوہ سب اس بات پردلالت کرتی تھیں کہ”انفسنا“سے مرادعلی علیہ السلام ہیں اوریہ دعویٰ تواترکے ذریعہ بھی ثابت ہے(۱) لہذاوہ سب احادیث اس قول کے خلاف ہیں۔

شیعوں کے استدلال پرآلوسی کادوسرااعتراض

شیعوں کے استدلال پرآلوسی کادوسراجواب یہ ہے:اگرفرض کریں کہ”انفسنا“کا مقصداق علی(علیہ السلام)ہوں،پھربھی آیہء شریفہ حضرت علی(ع)کی بلافصل خلافت پر دلالت نہیں کرتی ہے۔کیونکہ”انفسنا“ کااطلاق حضرت علی(ع)پراس لحاظ سے ہے کہ نفس کے معنی قربت اورنزدیک ہو نے کے ہیں اوردین و آئین میں شریک ہونے کے معنی میں ہے اوراس لفظ کا اطلاق حضرت علی(ع)کے لئے شاید اس وجہ سے ہوان کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ دامادی کارشتہ تھااوردین میں دونوں کا اتحادتھا۔اس کے علاوہ اگرمقصودوہ شخص ہوجوپیغمبراکرم

____________________

۱۔معرفةعلوم الحدیث،ص۵۰،دارالکتب العلمیہ،بیروت

۸۱

(ص)کے مساوی ہے تو کیامساوی ہونے کامعنی تمام صفات میں ہے یابعض صفات میں ؟اگر تمام صفات میں مساوی ہونامقصود ہے تواس کالازمہ یہ ہوگاکہ علی(علیہ السلام)پیغمبر (ص)کی نبوت اورخاتمیت اورتمام امت پرآپکی بعثت میں شریک ہیں اوراس قسم کامساوی ہونامتفقہ طورپرباطل ہے۔اوراگرمساوی ہونے کامقصدبعض صفات میں ہے یہ شیعوں کی افضلیت وبلا فصل امامت کے مسئلہ پردلالت نہیں کرتاہے۔

اس اعتراض کا جواب

آلوسی کے اس اعتراض واستدلال کا جواب دیناچند جہتوں سے ممکن ہے:

سب سے پہلے تو یہ کہ:”نفس کے معنی قربت و نزدیکی“اوردین وآئین میں شریک ہوناکسی قسم کی فضیلت نہیں ہے،جبکہ احادیث سے یہ معلوم ہوتاہے کہ یہ اطلاق حضرت علی علیہ السلام کے لئے ایک بہت بڑی فضیلت ہے اور جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا ہے ایک حدیث کے مطابق سعدبن ابی وقاص نے معاویہ کے سامنے اسی معنی کوبیان کیااوراسے حضرت علی علیہ السلام کے خلاف سبّ وشتم سے انکار کی دلیل کے طورپر پیش کیاہے۔

دوسرے یہ کہ :نفس کے معنی کا اطلاق دین و آئین میں شریک ہونایارشتہ داری وقرابتداری کے معنی مجازی ہے اوراس کے لئے قرینہ کی ضرورت ہے اوریہاں پرایسا کوئی قرینہ موجودنہیں ہے۔

تیسرے یہ کہ:جب نفس کے معنی کااطلاق اس کے حقیقی معنی میں ممکن نہ ہوتواس سے مرادوہ شخص ہے جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جانشین ہواوریہ جا نشینی اورمساوی ہو نا مطلقاًہے اوراس میں پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام اوصاف اورعہدے شامل ہیں،صرف نبوت قطعی دلیل کی بناء پراس دائرہ سے خارج ہے۔

۸۲

چوتھے یہ کہ:اس صورت میں آلوسی کی بعد والی گفتگو کے لئے کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ہے کہ مساوات تمام صفات میں ہے یا بعض صفات میں ،کیونکہ مساوات تمام صفات میں اس کے اطلاق کی وجہ سے ہے،صرف وہ چیزیں اس میں شامل نہیں ہیں جن کو قطعی دلیلوں کے ذریعہ خارج و مستثنی کیا گیا ہے جیسے نبوت و رسالت ۔لہذا پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی افضیلت اور امت کی سر پرستی نیز اسی طرح کے اور تمام صفات میں حضرت علی علیہ السلام پیغمبر کے شریک نیز ان کے برابر کے جا نشین ہیں ۔

شیعوں کے استدلال پر آلوسی کا تیسرا عتراض

آلوسی کا کہنا ہے:اگریہ آیت حضرت علی(علیہ السلام) کی خلافت پر کسی اعتبار سے دلالت کرتی بھی ہے تواس کا لازمہ یہ ہوگا کہ:حضرت علی(ع)پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں امام ہوں اوریہ متفقہ طورپر باطل ہے۔ییی

اگر یہ خلافت کسی خاص وقت کے لئے ہے تو سب سے پہلی بات یہ کہ اس قید کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے اور دوسرے یہ کہ اہل سنت بھی اسے قبول کرتے ہیں یعنی حضرت علی(ع)ایک خاص وقت، میں کہ جوان کی خلافت کازمانہ تھا،اس میں وہ اس منصب پرفائزتھے۔

اس اعتراض کاجواب

سب سے پہلی بات یہ کہ :حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی آنحضرت صل (ص)کے زمانہ میں ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جو بہت سی احادیث سے ثا بت ہے اورا س کے لئے واضح ترین حدیث،حدیث منزلت ہے جس میں حضرت علی علیہ السلام کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

۸۳

کی نسبت کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ان کی مثال ایسی ہی تھی جیسے ہارون کی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے، واضح ر ہے کہ حضرت ہارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں ان کے جانشین تھے کیوں کہ قرآن مجید حضرت ہارون علیہ السلام کے بارے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قول ذکر کرتا ہے کہ آپ نے فرمایا ”اخلفنی فی قومی“(۱) ” تم میری قوم میں میرے جانشین ہو۔“

اس بناء پر جب کبھی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حاضر نہیں ہو تے تھے حضرت علی علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین ہو تے تھے )چنانچہ جنگ تبوک میں ایساہی تھا)اس مسئلہ کی حدیث منزلت میں مکمل وضاحت کی گئی ہے۔(۲)

دوسرے یہ کہ:حضرت علی علیہ السلام کا نفس پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قرار دیا جانا جیسا کہ آیہء شریفہ مباہلہ سے یہ مطلب واضح ہے،اوراگر کوئی اجماع واقع ہو جائے کہ آنحضرت کی زندگی میں حضرت علی علیہ السلام آپ کے جانشین نہیں تھے،تویہ اجماع اس اطلاق کوآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں مقید و محدود کرتا ہے۔ نتیجہ کے طور پریہ اطلاق آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے وقت اپنی پوری قوت کے ساتھ باقی ہے۔

لہذایہ واضح ہوگیا کہ آلوسی کے تمام اعتراضات بے بنیاد ہیں اورآیہء شریفہ کی دلالت حضرت علی علیہ السلام کی امامت اور بلافصل خلافت پر بلا منا قشہ ہے۔

فخررازی کا اعتراض:

فخررازی نے اس آیہء شریفہ کے ذیل میں محمودبن حسن حصمی(۳) کے استدلال کو ،کہ جو انھوں نے اسے حضرت علی علیہ السلام کی گزشتہ انبیاء علیہم السلام پرافضلیت کے سلسلہ میں پیش کیا ہے،ٰٰنقل کرنے کے بعد)ان کے استدلال کو تفصیل سے ذکر کیا ہے)اپنے اعتراض کو یوں ذکر کیا ہے:

ایک تویہ کہ اس بات پراجماع قائم ہے کہ پیغمبر (ص)غیرپیغمبرسے افضل ہو تا ہے۔

دوسرے: اس بات پر بھی اجماع ہے کہ)علی علیہ السلام)پیغمبرنہیں تھے۔مذکورہ ان

_____________________

۱۔اعراف /۱۴۲

۲۔اس سلسلہ میں مصنف کا پمفلٹ”حدیث غدیر،ثقلین ومنزلت کی روشنی میں امامت“ملاحظ فرمائیں۔

۳۔شیعوں کاایک بڑا عقیدہ شناس عالم جس کا پہلے ذکرآیا ہے۔

۸۴

دومقدموں کے ذریعہ ثابت ہو جاتا ہے کہ آیہء شریفہ حضرت علی(علیہ السلام)کی گزشتہ انبیاء)علیہم السلام)پرافضلیت کو ثابت نہیں کرتی ہے۔

فخررازی کے اعتراض کا جواب

ہم فخررازی کے جواب میں کہتے ہیں:

پہلی بات یہ کہ ا س پر اجماع ہے کہ ہر ”نبی غیر نبی سے افضل ہے“اس میں عمومیت نہیں ہے کہ جس سے یہ ثابت کریں کہ ،ہر نبی دوسرے تمام افرادپر حتی اپنی امت کے علاوہ دیگر افراد پر بھی فوقیت وبرتری رکھتا ہے بلکہ جو چیز قابل یقین ہے وہ یہ کہ ہر نبی اپنی امت سے افضل ہوتا ہے۔اور اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے یہ کہاجائے:”مرد عورت سے افضل ہے“ ا ور یہ اس میں معنی ہے کہ مردوں کی صنف عورتوں کی صنف سے افضل ہے نہ یہ کہ مردوں میں سے ہرشخص تمام عورتوں پرفضیلت وبر تری رکھتا ہے۔اس بناء پراس میں کوئی منافات نہیں ہے کہ بعض عورتیں ایسی ہیں جو مردوں پر فضیلت رکھتی ہیں۔

دوسرے یہ کہ:مذکورہ مطلب پر اجماع کاواقع ہونا ثابت نہیں ہے،کیونکہ شیعہ علماء نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی ہے اوروہ اپنے ائمہ معصو مین) علیہم السلام) کو قطعی دلیل کی بناء پر گزشتہ انبیاء سے برتر جانتے ہیں۔

ابوحیان اندلسی نے تفسیر”البحرالمحیط ۱“ میں شیعوں کے استدلال پرآیت میں نفس سے مراد تمام صفات میں ہم مثل اور مساوی ہو ناہے)فخررازی ۲ کا ایک اور اعتراض نقل

کیا ہے جس میں یہ کہا ہے:

”نفس کے اطلاق میں یہ ضروری نہیں ہے تمام اوصاف میں یکسانیت ویکجہتی

____________________

۱۔البحرالمحیط،ج۲،ص۴۸۱،مؤسسہ التاریخ العربی ،داراحیائ التراث العربی

۲۔اگرابوحیان کارازی سے مقصودوہی فخررازی ہے توان اعتراضات کواس کی دوسری کتابوں سے پیداکرناچاہئے،کیونکہ تفسیرکبیرمیں صرف وہی اعتراضات بیان کئے گئے ہیں جوذکرہوئے۔

۸۵

ہو،چنانچہ متکلمین نے کہا ہے:” صفات نفس میں یک جہتی اوریک سوئی یہ متکلمین کی ایک اصطلاح ہے،اورعربی لغت میں یکسانیت کابعض صفات پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔عرب کہتے ہیں:”ہذامن انفسنا“یعنی:یہ”اپنوں میں سے ہے،یعنی ہمارے قبیلہ میں سے ہے۔“

اس کاجواب یہ ہے کہ تمام صفات یابعض صفات میں یکسا نیت ویکجہتی یہ نہ تو لغوی بحث ہے اور نہ ہی کلامی ،بلکہ یہ بحث اصول فقہ سے مربوط ہے،کیونکہ جب نفس کا اس کے حقیقی معنی میں استعمال نا ممکن ہو تو ا سے اس کے مجازی معنی پر عمل کرنا چاہے اور اس کے حقیقی معنی سے نزدیک ترین معنی کہ جس کو اقرب المجازات سے تعبیرکیا جاتا ہے )کواخذ کر نا چا ہیئے اور”نفس“کے حقیقی معنی میں اقرب المجازات مانندو مثل ہوناہے۔

یہ مانندو مثل ہونامطلق ہے اوراس کی کوئی محدودیت نہیں ہے اوراس اطلاق کاتقاضاہے کہ علی علیہ السلام تمام صفات میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مانندو مثل ہیں،صرف نبوت ورسالت جیسے مسائل قطعی دلائل کی بناپراس مانندو مثل کے دائرے سے خارج ہیں۔اس وضاحت کے پیش نظرتمام اوصاف اورعہدے اس اطلاق میں داخل ہیں لہذامن جملہ تمام انبیاء پرفضیلت اورتمام امت پرسرپرستی کے حوالے سے آپ (علیہ السلام)علی الاطلاق رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ما نندہیں۔

۸۶

ابن تیمیّہ کا اعتراض

ابن تیمیّہ حضرت علی علیہ السلام کی امامت پرعلامہ حلی کے استدلال کوآیہء مباہلہ سے بیان کرتے ہوئے کہتاہے:

”یہ کہ پیغمبراکرم (ص)مباہلہ کے لئے علی،فاطمہ اورحسن وحسین )علیہم

السلام)کو اپنے ساتھ لے گئے یہ صحیح حدیث میں ایاہے(۱) ،لیکن یہ علی(علیہ السلام)کی امامت اور ان کی افضلیت پردلالت نہیں کر تاہے،کیونکہ یہ دلالت اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب آیہء شریفہ علی(علیہ السلام)کے پیغمبر (ص)کے مساوی ہونے پردلالت کرے حالانکہ آیت میں ایسی کوئی دلالت نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی شخص پیغمبر (ص)کے مساوی نہیں ہے،نہ علی(علیہ السلام)اورنہ ان کے علاوہ کوئی اور۔

دوسرے یہ کہ”انفسنا“کالفظ عربی لغت میں مساوات کا معنی میں نہیں ایاہے(۲) اورصرف ہم جنس اور مشابہت پردلالت کرتاہے۔اس سلسلہ میں بعض امور مشابہت،جیسے ایمان یادین میں اشتراک کافی ہے اوراگرنسب میں بھی اشتراک ہوتواور اچھا ہے۔ اس بناپرآیہ شریفہ ۔۔۔( اٴنفسنا واٴنفسکم ) ۔۔۔ میں ”انفسنا“ سے مرادوہ لوگ ہیں جودین اورنسب میں دوسروں سے زیادہ نزدیک ہوں۔اس لحاظ سے آنحضرت (ص)۔ بیٹوں میں سے حسن وحسین)علیہما السلام)اور عورتوں میں سے فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)اورمردوں میں سے علی)علیہ ا لسلام)کواپنے ساتھ لے گئے اورآنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے لئے ان سے زیادہ نزدیک ترکوئی نہیں تھا۔دوسرے یہ کہ مباہلہ اقرباء سے انجام پاتاہے نہ ان افرادسے جوانسان سے دورہوں،اگرچہ یہ دوروالے افرادخداکے نزدیک افضل وبرترہوں۔

____________________

۱۔ابن تیمیہ نے قبول کیا ہے کہ آیہء شریفہ میں ”انفسنا“مذکورہ حدیث کے پیش نظر علی علیہ السلام پرانطباق کرتاہے

۲۔ابن تیمیہ نے اپنی بات کے ثبوت میں قرآن مجیدکی پانچ آیتوں کوبیان کیاہے،من جملہ ان میں یہ آیتیں ہیں:

الف۔( و لولا إذسمعتموه ظن المؤمنون والمؤمنات باٴنفسهم خیراً ) نور/۱۲”آخرایساکیوں نہ ہواکہ جب تم لوگوں نے اس تہمت کوسناتومومن ومومنات اپنے بارے میں خیرکاگمان کرتے“مقصودیہ ہے کہ کیوں ان میں سے بعض لوگ بعض دوسروں پراچھاگمان نہیں رکھتے ہیں۔

ب۔( ولا تلمزوا اٴنفسکم ) حجرات/۱۱ ”آپس میں ایک دوسرے کوطعنے بھی نہیں دینا“

۸۷

ابن تیمیہ کہ جس نے رشتہ کے لحاظ سے نزدیک ہونے کا ذکرکیاہے اوردوسری طر ف پیغمبر (ص)کے چچاحضرت عباس کہ جورشتہ داری کے لحاظ سے حضرت علی علیہ السلام کی بہ نسبت زیادہ قریب تھے اورزندہ تھے۔ کے بارے میں کہتاہے:

”عباس اگرچہ زندہ تھے،لیکن سابقین اولین)دعوت اسلام کو پہلے قبول کر نے والے) میں ان کا شمارنہیں تھااورپیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچیرے بھائیوں میں بھی کوئی شخص علی(علیہ السلام)سے زیادہ آپ سے نزدیک نہیں تھا۔اس بنا پرمباہلہ کے لئے علی(علیہ السلام)کی جگہ پرُ کر نے والاپیغمبر (ص)کے خاندان میں کوئی ایسا نہیں تھا کہ جس کو آپ انتخاب کرتے یہ مطلب کسی بھی جہت سے علی(علیہ السلام)کے آنحضرت (ص)سے مساوی ہونے پردلالت نہیں کرتاہے۔“

ابن تیمیّہ کے اعتراض کا جواب

ابن تیمیہ کاجواب چندنکتوں میں دیاجاسکتاہے:

۱ ۔ اس کا کہناہے:”پیغمبر (ص)کے مساوی ومانند کوئی نہیں ہوسکتا ہے“۔اگرمساوی ہونے کا مفہوم و مقصدتمام صفات،من جملہ نبوت و رسالت میں ہے تویہ صحیح ہے۔لیکن جیسا کہ بیان ہوا مساوی ہونے کا اطلاق پیغمبر (ص)کی ختم نبوت پر قطعی دلیلوں کی وجہ سے مقید ہے اوراس کے علاوہ دوسرے تمام امورمیں پیغمبر کے مانند و مساوی ہونا مکمل طورپراپنی جگہ باقی ہے اوراس کے اطلاق کو ثابت کرتا ہے دوسری طرف سے اس کی یہ بات کہ”انفسنا“کا لفظ عربی لغت میں مساوات کے معنی کا اقتضاء نہیں کر تا ہے“صحیح نہیں ہے اگرچہ اس نے قرآن مجید کی چند ایسی آیتوں کو بھی شاہد کے طورپر ذکرکیا ہے جن میں ”اٴنفسهم یااٴنفسکم “کا لفظ استعمال ہوا ہے،حتی کہ ان آیتوں میں بھی مساوی مراد ہے۔مثلاًلفظ”ولاتلمزوا اٴنفسکم “یعنی”اپنی عیب جوئی نہ کرو“جب لفظ”انفس“کا اطلاق دوسرے افرادپرہوتاہے،تومعنی نہیںرکھتاہے وہ حقیقت میں خودعین انسان ہوں۔ناچاران کے مساوی اورمشابہ ہونے کامقصد مختلف جہتوں میں سے کسی ایک جہت میں ہے اور معلوم ہے کہ وہ جہت اس طرح کے استعمالات میں کسی ایمانی مجموعہء یاقبیلہ کے مجموعہ کا ایک جزو ہے۔

۸۸

اس بناء پران اطلاقات میں بھی مساوی ہونے کالحاظ ہوا ہے ،لیکن اس میں قرینہ موجودہے کہ یہ مساوی ایک خاص امر میں ہے اوریہ اس سے منافات نہیں رکھتاہے اور اگر کسی جگہ پرقرینہ نہیں ہے تومساوی ہونے کا قصد مطلق ہے،بغیراس کے کہ کوئی دلیل اسے خارج کرے۔

۲ ۔ابن تیمیہ نے قرابت یا رشتہ داری کو نسب سے مر تبط جانا ہے،یہ بات دودلیلوں سے صحیح نہیں ہے:

سب سے پہلے بات تو یہ، مطلب آیہء شریفہ ”نسائنا ونسا ئکم“سے سازگار نہیں ہے،کیونکہ ”نسائنا“کا عنوان نسبی رشتہ سے کوئی ربطہ نہیں رکھتا ہے۔البتہ یہ منافی نہیں ہے کہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دختر گرامی تھیں اورآپ سے نسبی قرابت رکھتی تھیں،کیونکہ واضح ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ”بنا تنا“ ”ہماری“ بٹیاں)جو نسبی قرابت کی دلیل ہے)کے ذریعہ تعبیر نہیں کیا گیا ہے،بلکہ ”نساء نا“کی تعبیر آئی ہے،اس لحاظ سے چونکہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اس خاندان کی عورتوں میں سے ہیں اس لئے اس مجموعہ میں شامل ہیں۔اس کے علاوہ کوئی اور عورت کہ جو اس لائق ہوکہ مباہلہ میں شریک ہو سکے وجود نہیں رکھتی تھی ۔(۱)

دوسرے یہ کہ اگرمعیارقرابت نسبی اور رشتہ داری ہے توآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچاحضرت عباس(ع)اس جہت سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے زیادہ نزدیک تھے لیکن اس زمرے میں انھیں شریک نہیں کیاگیاہے!

____________________

۱۔جیساکہ پہلے بیان کیاگیاہے۔

۸۹

اس لحاظ سے قرابت،یعنی نزدیک ہونے سے مرادپیغمبراکرم (ص)سے معنوی قرابت ہے۔جس کاابن تیمیّہ نے مجبورہوکراعتراف کیاہے اورکہتاہے:

”علی(علیہ السلام)سابقین اوراولین میں سے تھے،اس لحاظ سے دوسروں کی نسبت آنحضرت (ص)سے زیادہ نزدیک تھے۔“

احادیث کی روسے مباہلہ میں شامل ہو نے والے افرادپیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاص رشتہ دارتھے کہ حدیث میں انھیں اہل بیت رسول علیہم السلام سے تعبیرکیاگیاہے۔

ان میں سے ہرایک اہل بیت پیغمبر)علیہم السلام)ہونے کے علاوہ ایک خاص عنوان کا مالک ہے،یعنی ان میں سے بعض”ابنائنا“کے عنوان میں شامل ہیں اوربعض”نسائنا“کے عنوان میں شامل ہیں اوربعض دوسرے”انفسنا“کے عنوان میں شامل ہیں۔

مذکورہ وضاحت کے پیش نظریہ واضح ہوگیاکہ”انفسنا“کے اطلاق سے نسبی رشتہ داری کا تبادر وانصراف نہیں ہوتاہے اورعلی علیہ السلام کاپیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مانندومساوی ہو ناتمام صفات،خصوصیات اورعہدوں سے متعلق ہے،مگریہ کہ کوئی چیزدلیل کی بنیادپراس سے خارج ہوئی ہو۔

اہل بیت علیہم السلام کے مباہلہ میں حاضر ہو نے کامقصدواضح ہوگیاکہ مباہلہ میں شریک ہونے والے افرادکی دعارسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعاکے برابرتھی اوران افراد کی دعاؤں کا بھی وہی اثرتھاجوآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعاکاتھااوریہ اس مقدس خاندان کے لئے ایک بلندوبرترمرتبہ ومقام ہے۔

۹۰

تیسراباب:

امامت،آیہ اولی الامر کی روشنی میں

( یا اٴیّها الّذین آمنوا اٴطیعوا اللَّه و اٴطیعوا الرسول واولی الاٴمر منکم فإن تنازعتم فی شیءٍ فردوه إلی اللّٰه و الرّسول إن کنتم تؤمنون با اللّٰه و الیوم الاٴخر، ذلک خیر و اٴحسن تاٴویلاً ) (نساء/۵۹)

”اے صاحبان ایمان!اللہ کی اطاعت کرورسول اوراولوالامرکی اطاعت کرو جوتمھیں میں سے ہیں پھراگرآپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تواسے خدااوررسول کی طرف پلٹادواگرتم اللہ اورروزآخرت پرایمان رکھنے والے ہو۔یہی تمھارے حق میں خیراورانجام کے اعتبارسے بہترین بات ہے۔“

خداوندمتعال نے اس آیہ شریفہ میں مومنین سے خطاب کیاہے اورانھیں اپنی اطاعت، پیغمبراسلام (ص)کی اطاعت اوراولی الامر کی اطاعت کرنے کاحکم فرمایاہے۔

یہ بات واضح ہے کہ پہلے مرحلہ میں خداوندمتعال کی اطاعت،ان احکام کے بارے میں ہے کہ جوخداوندمتعال نے انھیں قرآن مجیدمیں نازل فرمایاہے اورپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان احکام کولوگوں تک پہنچایاہے،جیسے کہ یہ حکم:( اٴقیمواالصلوٰ ةوآتواالزکوٰة ) پیغمبر (ص)کے فرامین کی اطاعت دو حیثیت سے ممکن ہے :

۱ ۔وہ فرمان جوسنّت کے عنوان سے آنحضرت)ص)کے ذریعہ ہم تک پہنچے ہیں:

یہ اوامراگرچہ احکام الٰہی ہیں جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بصورت وحی نازل ہوئے ہیں اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انھیں لوگوں کے لئے بیان فرمایاہے،لیکن جن مواقع پریہ اوامر”امرکم بکذااوانّہاکم من ہذا“)میں تم کو اس امرکا حکم دیتا ہوںیااس چیزسے منع کرتاہوں)کی تعبیرکے ساتھ ہوں)کہ فقہ کے باب میں اس طرح کی تعبیریں بہت ہیں )ان اوامراورنواہی کوخودآنحضرت (ص)کے اوامر ونواحی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے نتیجہ کے طور پر ان کی اطا عت آنحضرت کی اطاعت ہوگی،چونکہ مذکورہ احکام خداکی طرف سے ہیں،اس لئے ان احکام پرعمل کرنا بھی خداکی اطاعت ہوگی۔

۲ ۔وہ فرمان،جوآنحضرت)ص)نے مسلمانوں کے لئے ولی اورحاکم کی حیثیت سے جاری کئے ہیں۔

یہ وہ احکام ہیں جوتبلیغ الہی کا عنوان نہیںرکھتے ہیں بلکہ انھیں انحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس لحاظ سے جاری فرمایاہے کہ آپ مسلمانوں کے ولی،سرپرست اورحاکم تھے،جیسے جنگ وصلح نیزحکومت اسلامی کوادارہ کرنے اورامت کی سیاست کے سلسلہ میں جاری کئے جا نے والے فرامین۔

۹۱

آیہء شریفہ میں( واٴطیعواالرّسول ) کاجملہ مذکورہ دونوں قسم کے فرمانوں پرمشتمل ہے۔

تمام اوامرونواہی میں پیغمبر(ص)کی عصمت

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عصمت کوثابت کرنے کے بارے میں علم کلام میں بیان شدہ قطعی دلائل کے پیش نظر،آنحضرت (ص)ہر شی کا حکم دینے یا کسی چیز سے منع کرنے کے سلسلہ میں بھی معصوم ہیں۔آپ(ع)نہ صرف معصیت وگناہ کا حکم نہیں دیتے ہیں،بلکہ آنحضرت (ص)،امرونہی میں بھی خطا کر نے سے محفوظ ہیں۔

ہم اس آیہء شریفہ میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت مطلق اورکسی قیدوشرط کے بغیربیان ہوئی ہے۔ اگرآنحضرت (ص)کے امرونہی کرنے کے سلسلہ میں کوئی خطاممکن ہوتی یااس قسم کااحتمال ہوتا تو آیہء شریفہ میں انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کا حکم قید و شرط کے ساتھ ہوتا اورخاص مواقع سے مربوط ہوتا۔

ماں باپ کی اطاعت جیسے مسائل میں ،کہ جس کی اہمیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت سے بہت کم ہے،لیکن جب خدائے متعال والدین سے نیکی کرنے کاحکم بیان کرتا ہے، تو فرماتا ہے:

( و وصّینا الاٴنسان بوالدیه حسناً و إن جاهدک لتشرک بی مالیسلک به علم فلا تطعهما ) (عنکبوت/۸)

”اورہم نے انسان کوماں باپ کے ساتھ نیکی کا برتاؤکرنے کی وصیت کی ہے اوربتایا ہے کہ اگروہ تم کومیراشریک قرار دینے پرمجبورکریں کہ جس کہ کاتمھیں علم نہیں ہے توخبرداران کی اطاعت نہ کرنا۔“

جب احتمال ہوکہ والدین شرک کی طرف ہدایت کریں توشرک میں ان کی اطاعت کرنے سے منع فرماتاہے،لیکن آیہء کریمہ( اُولیّ الاٴمر ) میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کوکسی قیدوشرط سے محدودنہیں کیاہے۔

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کوکسی قیدوشرط کے بغیرتائیدوتاکیدکرنے کے سلسلہ میں ایک اورنکتہ یہ ہے کہ قرآن مجیدکی متعددآیات میں انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت خداوندمتعال کی اطاعت کے ساتھ اورلفظ”اطیعوا“کی تکرارکے بغیرذکرہوئی ہے۔آیہء شریفہ( واٴطیعوااللّٰه والرّسول لعلّکم ترحمون ) یعنی”خدااوررسول کی اطاعت کروتاکہ موردرحمت قرارپاؤ “مذکورہ میں صرف ایک لفظ”اطیعوا“کاخدااورپیغمبردونوں کے لئے استعمال ہونا اس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کا واجب ہوناخداکی اطاعت کے واجب ہونے کے مانندہے۔اس بناء پرپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے امرپراطاعت کرناقطعی طورپراطلاق رکھتا ہے اورناقابل شک وشبہ ہے۔

۹۲

اُولوالاامرکی اطاعت

ائمہ علیہم السلام کی امامت و عصمت کے سلسلہ میں آیةمذکورہ سے استفادہ کر نے کے لئے مندرجہ چندابعادپرتوجہ کرناضروری ہے:

ا۔اولوالامرکامفہوم

۲ ۔اولوالامرکامصداق

۳ ۔اولوالامراو رحدیث ”منزلت“حدیث”اطاعت“اورحدیث”ثقلین“

۴ ۔شیعہ اورسنی منابع میں اولوالامرکے بارے میں چنداحادیث

اولوالامرکامفہوم

اولو الامر کا عنوان ایک مرکب مفہوم پرمشتمل ہے۔اس جہت سے پہلے لفظ”اولوا“ اور پھر لفظ ”الامر“پرتوجہ کرنی چاہئے:

اصطلاح”اولوا“صاحب اور مالک کے معنی میں ہے اورلفظ”امر“دومعنی میں ایاہے: ایک ”فرمان“ کے معنی میں دوسرا”شان اورکام“کے معنی میں ۔”شان وکام“کامعنی زیادہ واضح اور روشن ہے،کیونکہ اسی سورئہ نساء کی ایک دوسری آیت میں لفظ”اولی الامر“بیان ہواہے:

( و إذجاء هم اٴمر من الاٴمن اٴو الخوف اٴذاعوا به و لوردّوه إلی الرّسول و إلی اٴولی الاٴمر منهم لعلمه الذین یستنبطونه منهم ) ۔۔(نساء/۸۳)

”اورجب ان کے پاس امن یاخوف کی خبرآتی ہے توفوراًنشرکردیتے ہیں حالانکہ اگررسولاورصاحبان امرکی طرف پلٹادیتے توان میں ایسے افراد تھے کہ جوحقیقت حال کاعلم پیداکرلیتے-“

اس آیہء شریفہ میں دوسرامعنی مقصودہے،یعنی جولوگ زندگی کے اموراوراس کے مختلف حالتوں میں صاحب اختیارہیں،اس آیت کے قرینہ کی وجہ سے”اولی الامر“کالفظ مورد بحث آیت میں بھی واضح ہوجاتاہے۔

۹۳

مورد نظرآیت میں اولوالامرکے مفہوم کے پیش نظر ہم اس نکتہ تک پہنچ جاتے ہیں کہ”اولوالامر“کا لفظ صرف ان لوگوں کو شامل ہے جو در حقیقت فطری طورپرامورکی سرپرستی اورصاحب اختیارہونے کے لائق ہیں اورچونکہ خداوندمتعال ذاتی طورپرصاحب اختیارہے اورتمام امورمیں سرپرستی کااختیاررکھتاہے،اس لئے اس نے یہ سرپرستی انھیں عطاکی ہے ۔خواہ اگربظاہرانھیں اس عہدے سے محروم کر دیاگیا ہو،نہ ان لوگوں کوجوزوروزبردستی اورناحق طریقہ سے مسلط ہوکرلوگوں کے حکمران بن گئے ہیں۔اس لئے کہ صا حب خانہ وہ ہے جوحقیقت میں اس کامالک ہو چا ہے وہ غصب کر لیا گیا ہو،نہ کہ وہ شخص جس نے زورو زبر دستی یامکروفریب سے اس گھرپرقبضہ کر لیا ہے۔

اولوالامرکا مصداق

اولوالامرکے مصادیق کے بارے میں مفسرین نے بہت سے اقوال پیش کئے ہیں۔اس سلسلہ میں جونظریات ہمیں دستیاب ہوئے ہیںوہ حسب ذیل ہیں:

۱ ۔امراء

۲ ۔اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

۳ ۔مہاجرین وانصار

۴ ۔اصحاب اورتابعین

۵ ۔چاروخلفاء

۶ ۔ابوبکروعمر

۷ ۔علماء

۹۴

۸ ۔جنگ کے کمانڈر

۹ ۔ائمہء معصومین)علیہم السلام)

۱۰ ۔علی(علیہ السلام)

۱۱ ۔وہ لوگ جوشرعی لحاظ سے ایک قسم کی ولایت اورسرپرستی رکھتے ہیں۔

۱۲ ۔اہل حل وعقد

۱۳ ۔امرائے حق(۱)

ان اقوال پرتحقیق اورتنقیدکرنے سے پہلے ہم خودآیہء کریمہ میں موجودنکات اورقرائن پرغورکرتے ہیں:

آیت میں اولوالامرکامرتبہ

بحث کے اس مرحلہ میں ایہء شریفہ میں اولوالامرکی اطاعت کرنے کی کیفیت قابل توجہ ہے:

پہلانکتہ: اولوالامرکی اطاعت میں اطلاق آیہء شریفہ میں اولوالامرکی اطاعت مطلق طور پرذکرہوئی ہے اوراس کے لئے کسی قسم کی قیدوشرط بیان نہیں ہوئی ہے،جیساکہ رسول اکرم صلصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت میں اس بات کی تشریح کی گئی۔

یہ اطلاق اثبات کرتاہے کہ اولوالامرمطلق اطاعت کے حامل و سزاوارہیں اوران کی اطاعت خاص دستور،مخصوص حکم یا کسی خاص شرائط کے تحت محدودنہیں ہے،بلکہ ان کے تمام اوامرونواہی واجب الاطاعت ہیں۔

____________________

۱۔تفسیرالبحرالمحیط،ج۳،ص۲۷۸،التفسیرالکبیر

۹۵

دوسرانکتہ:اولوالامرکی اطاعت،خدااوررسولکی اطاعت کے سیاق میں یعنی ان تین مقامات کی اطاعت میں کوئی قیدوشرط نہیں ہے اوریہ سیاق مذکورہ اطلاق کی تاکیدکرتاہے۔

تیسرانکتہ:اولوالامرمیں ”اطیعوا“کاتکرارنہ ہونا۔گزشتہ نکات سے اہم تراس نکتہ کامقصدیہ ہے کہ خدا ورسولکی اطاعت کے لئے آیہء شریفہ میں ہرایک کے لئے الگ سے ایک”اطیعوا“لایاگیاہے اور فرمایاہے: ۔۔۔( اٴطیعواللّٰه واٴطیعواالرّسول ) لیکناولوالامرکی اطاعت کے لئے”اطیعوا“کے لفظ کی تکرارنہیں ہوئی ہے بلکہاولی الامر”الرسول“پرعطف ہے،اس بناپروہی”اطیعوا“جورسول کے لئے آیا ہے وہ اولی الامرسے بھی متعلق ہے۔

اس عطف سے معلوم ہوتاہے کہ”اولوالامر“اور”رسول“کے لئے اطاعت کے حوالے سے دوالگ الگ واجب نہیں ہیں بلکہ وجوب اطاعت اولوالامر وہی ہے جو وجوب اطاعت رسولہے یہ اس امر کی دلیل ہے کہ اولوالامر کی اطاعت تمام امر ونہی میں رسول اکرم (ص)کی اطاعت کے مانندہے اوراس کانتیجہ گناہ وخطاسے اولوالامرکی عصمت،تمام اوامرونواہی میں رسول کے مانندہے۔

اس برہان کی مزیدوضاحت کے لئے کہاجاسکتاہے:آیہء شریفہ میں رسول اکرم صلصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اوراولوالامرکی اطاعت کے لئے ایک”اطیعوا“سے زیادہ استعمال نہیں ہوا ہے اوریہ”اطیعوا“ایک ہی وقت میں مطلق بھی ہواورمقیّدبھی یہ نہیں ہوسکتاہے یعنی یہ نہیں کہا جاسکتاہے کہ یہ”اطیعوا“رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں مطلق ہے اوراولوالامرکے بارے میں مقیّدہے،کیونکہ اطلاق اور قیدقابل جمع نہیں ہیں۔اگر”اطیعوا“پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں مطلق ہے اورکسی قسم کی قیدنہیں رکھتا ہے،)مثلاًاس سے مقیّدنہیں ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا امرونہی گناہ یا اشتباہ کی وجہ سے نہ ہو)تواولوالامر کی اطاعت بھی مطلق اوربلا قید ہو نی چاہئے ورنہ نقیضین کاجمع ہونا لازم ہوگا۔

۹۶

ان نکات کے پیش نظریہ واضح ہوگیاکہ آیہء کریمہ اس امر پر دلالت کر تی ہے کہ اس آیت میں ”اولوالامر“پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مانند معصوم ہیں۔

یہ مطلب کہ”اولوالامر کی اطاعت“آیہء کریمہ میں مذکورہ خصوصیات کے پیش نظر،اولوالامر کی عصمت پر دلالت ہے،بعض اہل سنّت(۱) مفسرین،من جملہ فخررازی کی توجہ کا سبب بنا ہے۔اس لحاظ سے یہاں پران کے بیان کاخلاصہ جواس مطلب پر قطعی استدلال ہے کی طرف اشارہ کرنا مناسب ہے:

آیہء اولوالامر کے بارے میں فخررازی کا قول

فخررازی نے بھی”اولوالامر“کی عصمت کو آیہء شریفہ سے استفادہ کیا ہے ان کے بیان کا خلاصہ حسب ذیل ہے:

”خداوند متعال نے آیہء کریمہ میں ”اولوالامر“ کی اطاعت کو قطعی طورپرضروری جانا ہے،اورجس کسی کے لئے اس قسم کی اطاعت واجب ہواس کاخطاواشتباہ سے معصوم ہو ناناگزیر ہے،کیونکہ اگر وہ خطاواشتباہ سے معصوم نہ ہو اور بالفرض وہ خطا کا مر تکب ہو جائے تو ،اس آیت کے مطابق اس کی اطاعت کرنی ہوگی!اوریہ ایک امر خطا واشتباہ کی اطاعت ہوگی،جبکہ خطااوراشتباہ کی نہی کی جاتی ہے لہذا انہیں چاہے کر اس کے امر کی پیروی کیجائے، کیونکہ اس قسم کے فرض کا نتیجہ فعل واحد میں امرونہی کا جمع ہو نا ہے )جو محال ہے)(۲) ۔

فخررازی اولوالامرکی عصمت کوآیہء سے استدلال کرنے کے بعد،یہ مشخص کرنے کے لئے کہ اولوالامر سے مراد کون لوگ ہیں کہ جن کامعصوم ہونا ضروری ہے کہتا ہے:

____________________

۱۔غرائب القرآن،نیشا بوری،ج۲،ص۴۳۴،دارالکتب العلمیة بیروت،تفسیرالمنار،شیخ محمدعبدہ ورشیدرضا،ج۵،ص۱۸۱دارالمعرفةبیروت

۲۔التفسیرالکبیر،آیت کے ذیل میں

۹۷

” اولوالامر سے مرادشیعہ امامیہ کے ائمہ معصو مین علیھم السلام(ع)نہیں ہو سکتے

ہیں،بلکہ اس سے مراداہل حل وعقد)جن کے ذمہ معاشرہ کے اہم مسائل کے حل کرنے کی ذمہ داری ہے)کہ جواپنے حکم اورفیصلے میں معصوم ہوتے ہیں اوران کے فیصلے سوفیصد صحیح اورمطابق واقع ہوتے ہیں“۔

فخررازی کاجواب

یہ بات کہ اولوالامر سے مراد اہل حل وعقد ہیں اور وہ اپنے حکم اور فیصلہ میں معصوم ہیں،مندرجہ ذیل دلائل کے پیش نظر صحیح نہیں ہے:

۱ ۔آیہء کریمہ میں ”اولوالامر“کا لفظ جمع ا ور عام ہے کہ جو عمو میت و استغراق پر دلالت کر تا ہے۔اگر اس سے مراد اہل حل وعقد ہوں گے تو اس کی دلالت ایک مجموعی واحد پر ہو گی اور یہ خلاف ظاہر ہے۔

وضاحت یہ ہے کہ آیہء کریمہ کاظاہریہ بتاتاہے کہ ایسے صاحبان امرکی اطاعت لازم ہے جن میں سے ہر کوئی، واجب الاطاعت ہو ،نہ یہ کہ وہ تمام افراد ) ایک مشترک فیصلہ کی بنیاد پر)ایک حکم رکھتے ہوں اور اس حکم کی اطا عت کر نا واجب ہو ۔

۲ ۔عصمت،ایک تحفظ الہٰی ہے،ایک ملکہ نفسانی اورحقیقی صفت ہے اوراس کے لئے ایک حقیقی موصوف کاہوناضرودری ہے اوریہ لازمی طور پرایک امرواقعی پر قائم ہو نا چاہئے جبکہ اہل حل وعقدایک مجموعی واحدہے اورمجموعی واحد ایک امراعتباری ہو تا ہے اورامر واقعی کا امراعتباری پر قائم ہونا محال ہے۔

۳ ۔مسلمانوں کے درمیان اس بات پر اتفاق نظر ہے کہ شیعوں کے ائمہ اورانبیاء کے علاوہ کوئی معصوم نہیں ہے۔

۹۸

ائمہء معصومین )ع )کی امامت پر فخررازی کے اعتراضات

اس کے بعد فخررازی نے شیعہ امامیہ کے عقیدہ، یعنی”اولوالامر“سے مرادبارہ ائمہ معصومین ہیں،کے بارے میں چنداعتراضات کئے ہیں:

پہلا اعتراض:ائمہء معصومین )علیہم السلام) کی ا طاعت کا واجب ہونا یا مطلقاً ہے یعنی اس میں ان کی معرفت وشناخت نیزان تک رسائی کی شرط نہیں ہے،تو اس صورت میں تکلیف مالایطاق کا ہو نا لازم آتا ہے،کیونکہ اس فرض کی بنیاد پر اگر ہم انھیں نہ پہچان سکیں اوران تک ہماری رسائی نہ ہو سکے،تو ہم کیسے ان کی اطاعت کریں گے؟یا ان کی شناخت اور معرفت کی شرط ہے،اگر ایسا ہے تویہ بھی صحیح نہیں ہے ،کیونکہ اس بات کا لازمہ ان کی اطاعت کا واجب ہونامشروط ہوگا،جبکہ آیہء شریفہ میں ان کی اطاعت کا واجب ہو نا مطلقاً ہے اوراس کے لئے کسی قسم کی قیدوشرط نہیں ہے ۔

جواب:ائمہء معصومین کی اطاعت کے واجب ہونے میں ان کی معرفت شرط نہیں ہے تاکہ اگرکوئی انھیں نہ پہچانے تواس پران کی اطاعت واجب نہ ہو،بلکہ ان کی اطاعت بذات خودمشروط ہے۔نتیجہ کے طور پر انھیں پہچاننا ضروری ہے تاکہ ان کی اطاعت کی جاسکے اوران دونوں کے درمیان کافی فرق ہے۔

مزیدوضاحت:بعض اوقات شرط، شرط وجوب ہے اور بعض اوقات شرط،شرط واجب ہے۔مثلاً وجوب حج کے لئے استطاعت کی شرط ہے اورخوداستطاعت وجوب حج کی شرط ہے۔اس بناء پر اگر استطاعت نہ ہو توحج واجب نہیں ہو گا۔لیکن نمازمیں طہارت شرط واجب ہے،یعنی نماز جو واجب ہے اس کے لئے طہارت شرط ہے۔اس بناء پر اگرکسی نے طہارت نہیں کی ہے تووہ نماز نہیں پڑھ سکتا ہے،وہ گناہ کا مرتکب ہوگا،کیونکہ اس پر واجب تھاکہ طہارت کرے تاکہ نماز پڑھے۔لیکن حج کے مسئلہ میں ،اگراستطاعت نہیںرکھتا ہے تواس پر حج واجب نہیں ہے اور وہ کسی گناہ کا مرتکب نہیں ہوا ہے۔

اس سلسلہ میں بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورامام(ع)دونوں کی اطاعت کے لئے ان کی معرفت کی شرط ہے۔اس لحاظ سے ان کی معرفت حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ ان کی اطاعت کی جاسکے۔پس ان کی اطاعت کاوجوب مطلقاًہے،لیکن خوداطاعت مشروط ہے۔

۹۹

خدائے متعال نے بھی قطعی دلالت سے اس معرفت کے مقدمات فراہم کئے ہیں۔جس طرح پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قطعی دلائل کی بناپرپہنچانے جاتے ہیں،اسی طرح ائمہ معصومین علیہم السلام کو بھی جوآپکے جانشین ہیں قطعی اورواضح دلائل کی بناپر جیسا کہ شیعوں کے کلام اورحدیث کی کتابوں میں مفصل طورپرآیاہے اوران کے بارے میں معرفت اورآگاہی حاصل کرناضروری ہے۔

دوسرااعتراض:شیعہ امامیہ کے عقیدہ کے مطابق ہرزمانہ میں ایک امام سے زیادہ نہیں ہوتا ہے،جبکہ”اولوالامر“جمع ہے اورمتعدداماموں کی اطاعت کوواجب قراردیتاہے۔

جواب:اگرچہ ہرزمانے میں ایک امام سے زیادہ نہیں ہوتاہے،لیکن ائمہ کی اطاعت مختلف ومتعددزمانوں کے لحاظ سے ہے،اوریہ ہرزمانہ میں ایک امام کی اطاعت کے واجب ہونے کے منافی نہیں ہے۔نتیجہ کے طورپرمختلف زمانوں میں مومنین پرواجب ہے کہ جس آئمہ معصوم کی طرف سے حکم ان تک پہنچے،اس کی اطاعت کریں۔

تیسرااعتراض:اگرآیہء شریفہ میں ”اولوالامر“سے مراد آئمہ معصومین ہیں توآیہ شریفہ کے ذیل میں جوحکم دیاگیاہے کہ اختلافی مسائل کے سلسلہ میں خدائے متعال اوررسول (ص)کی طرف رجوع کریں،اس میں ائمہ معصومین(ع)کی طرف لوٹنے کا بھی ذکرہوناچاہئے تھا جبکہ آیت میں یوں کہاگیاہے:( فإن تنازعتم فی شیءٍ فردّوه إلی اللّٰه والرّسول ) ”پھراگرآپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تواسے خدااور رسولکی طرف ارجاع دو۔“جبکہ یہاں پر”اولوالامر“ذکرنہیں ہواہے۔

جواب:چونکہ ائمہ معصومین علیہم السلام اختلافات کو حل کرنے اوراختلافی مسائل کے بارے میں حکم دینے میں قرآن مجیداورسنّت (ص)کے مطابق عمل کرتے ہیں اورکتاب وسنّت کے بارے میں مکمل علم وآگاہی رکھتے ہیں،اس لئے اختلافی مسائل میں کتاب و سنت کی طرف رجوع کرناخدا اوررسولکی طرف رجوع کرناہے۔اسی لئے”اولوالامر“کاذکر اور اس کی تکرارکرنایہاں پرضروری نہیں تھا۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

و الحظنی بالحظته من لحظاتک تنوربها قلبی بمعرفتک خاصته و معرفته اولیائک انک علی کل شیء قدیر _(۳۹۷)

امام جعفر صادق(ع) کا حکم

عنوان بصری چورا نوے سال کا کہتا ہے کہ میں علم حاصل کرنے کے لئے مالک بن انس کے پاس آتا جاتا تھا_ جب جعفر صادق علیہ السلام ہماری شہر آئے تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا کیونکہ میں دوست رکھتا تھا کہ میں آپ سے بھی کسب فیض کروں ایک دن آپ نے مجھ سے فرمایا کہ میں ایک ایسا شخص ہوں کہ جو مورد نظر اور توجہہ قرار پاچکا ہوں یعنی میرے پاس لوگوں کی زیادہ آمد و رفت ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود میں دن او رات میں خاص ورد اور ذکر بجا لاتا ہوں تم میرے اس کام میں مزاحم اور رکاوٹ بنتے ہو تم علوم کے حاصل کرنے کے لئے پہلے کی طرح مالک بن انس کے پاس جایا کرو_ میں آپ کی اس طرح کی گفتگو سے غمگین اور افسردہ خاطر ہوا اور آپ کے ہاں سے چلا گیا اور اپنے دل میں کہا کہ اگر امام مجھ میں کوئی خیر دیکھتے تو مجھے اپنے پاس آنے سے محروم نہ کرتے میں رسول خدا کی مسجد میں گیا اور آپ پر سلام کیا دوسرے دن بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے روضہ میں گیا اور دو رکعت نماز پڑھی اور دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور کہا اے میرے اللہ تعالی میرے لئے جعفر صادق علیہ اسلام کا دل نرم کردے اور اس علم سے مجھے وہ عطا کر کہ جس کے ذریعے میں صراط مستقیم کی ہدایت پاؤں_ اس کے بعد غمگین اور اندوہناک حالت میں گھر لوٹ آیا اور مالک بن انس کے ہاں نہ گیا کیونکہ میرے دل میں جعفر صادق علیہ السلا کی محبت اور عشق پیدا ہو چکا تھا بہت مدت تک سوائے نماز کے میں اپنے گھر سے باہر نہیں نکلتا تھا یہاں تک میرا صبر ختم ہوچکا اور ایک دن جعفر صادق کے دروازے پر گیا اور اندر جانے کی اجازت طلب کی آپ کا خادم باہر آیا اور کہا

۲۲۱

کہ تجھے کیا کام ہے؟ میں نے کہا کہ میں امام کی خدمت میں مشرف ہونا چاہتا ہوں اور سلام کرنا چاہتا ہوں خادم نے جواب دیا کہ آقا محراب میں نماز میں مشغول ہیں اور وہ واپس گھر کے اندر چلا گیا اور میں آپ کے دروازے پر بیٹھ گیا_ زیادہ دیر نہیں ہوئی کہ وہ خادم دوبارہ لوٹ آیا اور کہا کہ اندر آجاؤ میں گھر میں داخل ہوا آور آنحضرت پر سلام کیا آپ نے میرے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ بیٹھ جاؤ خدا تجھے مورد مغفرت قرار دے_ میں آپ کی خدمت میں بیٹھ گیا آپ نے اپنا سر مبارک جھکا دیا اور بہت دیر کے بعد اپنا سر بلند کیا اور فرمایا تمہاری کنیت کونسی ہے؟ میں نے عرض کی کہ ابوعبداللہ آپ نے فرمایا کہ خدا تجھے اس کنیت پر ثابت رکھے اور توفیق عنایت فرمائے_ تم کیا چاہتے ہو میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر اس ملاقات میں سوائے اس دعا کہ جو آپ نے فرمائی ہے اور کچھ بھی فائدہ حاصل نہ ہو تو یہ بھی میرے لئے بہت قیمتی اور ارزشمند ہے_ میں نے عرض کی کہ میں نے خدا سے طلب کیا ہے کہ خدا آپ کے دل کو میرے بارے میں مہربان کردے اور میں آپ کے علم سے فائدہ حاصل کروں_ امیدوار ہوں کہ خداوند عالم نے میری یہ دعا قبول کر لی ہوگی_ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا _ اے عبداللہ _ علم پڑھنے سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ علم ایک نور ہے_ جو اس انسان کے دل میں کہ خدا جس کی ہدایت چاہتا ہے روشنی ڈالتا ہے پس اگر تو طالب علم ہے تو پہلے اپنے دل پر حقیقی بندگی پیدا کر اور علم کو عمل کے وسیلے سے طلب کر اور خدا سے سمجھنے کی طلب کرتا کہ خدا تجھے سمجھائے_ میں نے کہا_ اے شریف_ اپ نے فرمایا اے ابوعبداللہ_ کہہ میں نے کہا کہ بندگی کی حقیقت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا بندگی کی حقیقت تین چیزوں میں ہے_ پہلی بندہ کسی چیز کے مالک نہیں ہوا کرتا بلکہ مال کو اللہ تعالی کا مال سمجھے اور اسی راستے میں کہ جس کا خدا نے حکم دیا ہے خرچ کرے_ دوسری_ اپنے امور کی تدبیر میں اپنے آپ کو ناتواں

۲۲۲

اور ضعیف سمجھے_ تیسری _ اپنے آپ کو اللہ تعالی کے اوامر اور نواہی کے بجالانے میں مشغول رکھے اگر بندہ اپنے آپ کو مال کا مالک نہ سمجھے تو پھر اس کے لئے اپنے مال کو اللہ کے راستے میں خرچ کرنا آسان ہوجائیگا اور اگر اپنے کاموں اور امور کی تدبیر اور نگاہ داری اللہ تعالی کے سپرد کردے تو اس کے لئے مصائب کا تحمل کرنا آسان ہوجائیگا اور اگر وہ اللہ تعالی کے احکام کی بجا آوری میں مشغول رہے تو اپنے قیمتی اور گران قدر وقت کو فخر اورمباہات اور ریاکاری میں خرچ نہیں کرے گا اگر خدا اپنے بندے کو ان تین چیزوں سے نواز دے تو اس کے لئے دنیا اور شیطن اور مخلوق آسان ہوجائے گی اور وہ اس صورت میں مال کو زیادہ کرنے اور فخر اور مباہات کے لئے طلب نہیں کرے گا اور جو چیز لوگوں کے نزدیک عزت اور برتری شمار ہوتی ہے اسے طلب نہیںکرے گا اور اپنے قیمتی وقت کو سستی اور بطالت میں خرچ نہیں کرے گا اور یہ تقوی کا پہلا درجہ ہے اور خدا قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ یہ آخرت کا گھر ہم اس کے لئے قرار دیں گے کہ جو دنیا میں علو اور فساد برپا نہیں کریں گے اور عاقبت اور انجام تو متقیوں کیلیئے ہے_

تلک الدار الاخرة نجعلها للذین لا یریدون علوا فی الارض و لا فسادا و العاقبته للمتقین _

میں نے عرض کیا کہ اے امام(ع) _ مجھے کوئی وظیفہ اور دستور عنایت فرمایئےآپ نے فرمایا کہ میں تجھے نو چیزوں کی وصیت کرتا ہوں اور یہ میری وصیت اور دستورالعمل ہر اس شخص کے لئے ہے جو حق کا راستہ طے کرنا چاہتا ہے اور میں خدا سے سوال کرتا ہوں کہ خدا تجھے ان پر عمل کرنے کی توفیق دے_ تین چیزیں اور دستور العمل نفس کی ریاضت کے لئے ہیں اور تین دستور العمل حلم اور بردباری کے لئے ہیں اور تین دستور العمل علم کے بارے میں ہیں_ تم انہیں حفظ کر لو اور خبردار کہ ان کے بارے میں سستی کرو_ عنوان بصری کہتا ہے کہ میری تمام توجہ آپ کی فرمایشات کی طرف تھی آپ نے فرمایا کہ وہ تین دستور العمل جو

۲۲۳

نفس کی ریاضت کے لئے ہیں وہ یہ ہیں_

۱_ خبردار ہو کہ جس چیز کی طلب اور اشتہاء نہ ہو اسے مت کھاؤ_ ۲_ اور جب تک بھوک نہ لگے کھانا مت کھاؤ_ ۳_ جب کھانا کھاؤ تو حلال کھانا کھاؤ اور کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھو_ آپ نے اس کے بعد رسول اللہ کی حدیث نقل کی اور فرمایا کہ انسان بر تن کویر نہیں کرتا مگر شکم کا پر کرنا اس سے بدتر ہوتا ہے اور اگر کھانے کی ضرورت ہو تو شکم کا ایک حصہ کھانے کے لئے اور ایک حصہ پانی کے لئے اور ایک حصہ سانس لینے کے لئے قرار دے_

وہ تین دستور العمل جو حلم کے بارے میں ہیں وہ یہ ہیں_

۱_ جو شخص تجھ سے کہے کہ اگر تو نے ایک کلمہ مجھ سے کہا تو میں تیرے جواب میں دس کلمے کہونگا تو اس کے جواب میں کہے کہ اگر تو نے دس کلمے مجھے کہے تو اس کے جواب میں مجھ سے ایک کلمہ بھی نہیں سنے گا_

۲_ جو شخص تجھے برا بھلا کہے تو اس کے جواب میں کہہ دے کہ اگر تم سچ کہتے ہو تو خدا مجھے معاف کردے اور اگر تم جھوٹ کہہ رہے تو خدا تجھے معاف کردے_

۳_ جو شخص تجھے گالیاں دینے کی دھمکی دے تو تو اسے نصیحت اور دعا کا وعدہ کرے وہ تین دستور العمل جو علم کے بارے میں ہیں وہ یہ ہیں_

۱_ جو کچھ نہیں جانتا اس کا علماء سے سوال کر لیکن ملتفت رہے کہ تیرا سوال کرنا امتحان اور اذیت دینے کے لئے نہیں ہونا چاہئے_ ۲_ اپنی رائے پر عمل کرنے سے پرہیز کر اور جتنا کر سکتا ہے احتیاط کو ہاتھ سے نہ جانے دے_ ۳_ اپنی رائے سے (بغیر کسی مدرک شرعی) کے فتوی دینے سے پرہیز کر اور اس سے اس طرح بچ کے جیسے پھاڑ دینے والے شیر سے بچتا ہے_ اپنی گردن کو لوگوں کے لئے پل قرار نہ دے اس کے بعد اپ نے مجھ سے فرمایا کہ اب یہاں سے اٹھ کر چلے جاؤ_ بہت کافی مقدار میں نے تجھ نصیحت کی ہے اور میرے ذکر اور اذکار کے بجالانے میں زیادہ مزاحم اور رکاوٹ نہ بنو کیونکہ میں اپنی جان کی قیمت اور ارزش کا قائل ہوں اور سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی

۲۲۴

کرتا ہے_

''و السلام علی من اتبع الهدی'' _(۳۹۸)

مرحوم مجلسی کا دستور العمل

بہت بڑے بزرگوار عالم جو مقام عرفان میں عارف ربانی ملا محمد تقی مجلسی ہیں انہوں نے لکھا ہے_ کہ میں نے اپنے آپ کو صاف کرنے اور ریاضت کرنے میں کچھ حاصل کیا ہے اور یہ اس وقت تھا جب میں قرآن کی تفسیر لکھنے میں مشغول تھا_ ایک رات نیم نیند اور بیداری میں پیغمبر علیہ السلام کو دیکھا_ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ میں آنحضرت کے کمالات اور اخلاق میں خوب اور دقت کروں_ میں نے جتنی زیاددہ وقت کی اتنا ہی آنحضرت کی عظمت اور نورانیت کو اس طرح وسیع تر پایا کہ آپ کے نور نے تمام جنگوں کو گھیرا ہوا تھا اسی دوران میں جاگ اٹھا اور اپنے آپ میں آیا تو مجھے القاء ہوا کہ رسول خدا کا اخلاق عین قرآن ہے لہذا ہمیں قرآن میں غور اور فکر کرنا چاہئے میں جتنا قرآن میں زیادہ غور اور فکر کرتا جاتا تھا اتنا ہی زیادہ حقائق سامنے آتے جاتے تھے یہاں تک کہ ایک ہی دفعہ مجھ میں بہت زیادہ قرآن کے معارف اور حقائق آ موجود ہوئے میں جس آیت میں تدبر اور فکر کرتا تھا تو مجھے عجیب موحبت اور مطالب عطا کئے جاتے تھے گرچہ یہ مطالب اس شخص کے لئے کہ جس نے ایسی توفیق حاصل نہ کی ہو بہت دشوار اور ارشاد کرنا ہے_ نفس کی ریاضت او راپنے آپ کو سنوار نے کا دستور العمل یہ ہے کہ بے فائدہ گفتگو کرنے بلکہ اللہ تعالی کے ذکر بغیر بات کرنے سے اپنے آپ کو روکیں_ کھانے پینے اور لباس و غیرہ کی لذیذ چیزوں اور بہترین اور خوبصورت مکان اور عورتوں کو ترک کریں اور بقدر ضرورت استعمال کرنے پر اکتفاء کریں اولیاء خدا کے علاوہ لوگوں سے میل جول نہ رکھیں زیادہ سونے سے پرہیز کریں اور اللہ کے ذکر کو دائماً

۲۲۵

اور پابندی سے بجالائیں_ اولیاء خدا نے یا حی یا قیوم او ریا _ من لا الہ الا انت کا زیادہ تجربہ کیا ہے اور میں نے بھی اسی ذکر کا تجربہ کیا ہے لیکن میرا غالبا ذکر _ یا اللہ _ جب کہ دل کو خدا کے علاوہ سے نکال کر اور خداوند عالم کی طرف پوری توجہہ سے ہوا کرتا تھا_

لیکن سب سے زیادہ اہم اللہ تعالی کا پوری توجہ اور پابندی سے ذکر کرنا ہوا کرتا ہے باقی چیزیں اللہ تعالی کے ذکر کے برابر نہیں ہوا کرتیں اگر اللہ کا ذکر چالیس دن اور رات تک متصل کیا جائے تو حکمت اور معرفت اور محبت کے انوار کے دروازے ایسے کرنے والے پر کھول دیئے جاتے ہیں اس وقت وہ فناء فی اللہ اور بقاء باللہ کے مقام تک ترقی کر جاتا ہے_(۳۹۹)

ملا آخوند حسین قلی کا خط

آخوند ملا حسین قلی ہمدانی جو عالم ربانی اور زاہد اور عارف تھے انہوں نے ایک خط تبریز شہر کے ایک عالم کو لکھا کہ جس میں آپ نے فرمایا _بسم الله الرحمن الرحیم الحمد لله رب العالمین و الصلواة و اسلام علی محمد و آله الطاهرین و لعنته الله علی اعدائهم اجمعین _ دینی اور ایمانی بھائیوں پر واضح ہونا چاہئے کہ ذات الہی تک قرب حاصل کرنا سوائے اس کے اور کوئی نہیں ہے کہ انسان کو تمام حرکات اور سکنات اور تمام اوقات میں شریعت اسلامی کا پابند ہونا چاہئے_

جاہل صوفیاء کی لغویات اور خرافات سے جو ان کی عادت بن چکی ہے اس کے اپنا نے سے اجتناب کرنا چاہئے کیونکہ ان کے طریقے اور ذکر اور ورد پر عمل کرنا اللہ سے دور ہو جانے کے اور سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوتا یہاں تک کہ اگر کوئی شخص موچھوں کو بڑھانے رکھے جیسے کہ یہ ایران کے صوفیوں کی جو اپنے آپ کو شیعہ کہلاتے ہیں علامت ہے_ ) اور اسے ضروری سمجھتے ہیں اور گوشت کو نہ کھائے تو یہ بھی خرافات اور لغویات میں شمار ہوتا ہے اگر کوئی شخص ائمہ علیہم السلام کے معصوم ہونے

۲۲۶

پر ایمان رکھتا ہے تو اسے سمجھنا چاہئے کہ وہ ایسے اعمال سے جو ایران کے شیعہ صوفی انجام دیتے ہیں اور اسی طرح خاص ذکر جو ائمہ علیہم السلام سے وارد نہیں ہوئے بجا لاتے ہیں ان سے وہ ذات خدا کے قرب سے دور ہو رہے ہوتے ہیں اور ان سے انہیں قرب الہی حاصل نہیں ہوتا_ لہذا سب سے پہلے شرعیت اسلامی کو مقدم کرے اور جو کچھ شریعت میں وارد ہوا اس پر عمل کرنے کا پابند بنے_ اس ناتوان اور کمزور بندے نے عقل اور روایات سے جو کچھ سمجھا اور استفادہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے سب سے زیادہ اہم خدا کی معصیت اور نافرمانی کو ترک کرنا ہوگا اور جب تک یہ نہیں کرے گا تب تک نہ کوئی ذکر اور نہ کوئی فکر تیرے دل کو فائدہ پہنچا سکے گا کیونکہ شیطان کی اطاعت اور خدمت کرنے والا جو ذات الہی کا نافرمان اور انکاری ہے کس طرح اس ذات کا قرب حاصل کر سکے گا کیا کوئی بادشاہ او راس کی سلطنت خداوند عالم کی سلطنت سے عظیم الشان ہے_

جو کچھ میں نے ذکر کیا ہے اسے خوب سمجھ تیرا اللہ تعالی کی محبت کو طلب کرنا جب کہ تو اس کی معصیت بجالا رہا ہے ایک غلط اور فاسد کام ہے_ کس طرح تم پر مخفی ہے کہ اللہ تعالی کی نافرمانی نفرت کا سبب ہوا کرتی ہے اور اللہ تعالی کا نفرت کرنا محبت کے ساتھ اکٹھا نہیں ہوا کرتا _ جب تیرے نزدیک ثابت ہوچکا ہے کہ نافرمانی نہ کرنا اول اور آخر ظاہر اور باطن دین ہے تو پھر مجاہدہ اور کوشش کرنے کی طرف جلدی کر اور پوری کوشش سے نیند سے بیدار ہونے سے لے کر تمام اوقات میں مراقبہ میں مشغول رہ اور اللہ تعالی کی ذات اقدس کے ادب بجالانے کی پابندی کر اور یہ جان لے کہ تو اپنے تمام وجود کے ذرہ ذرہ میں اس کی قدرت کا قیدی ہے اور اللہ تعالی کے حضور کا احترام کر اور اس کی یوں عبادت کر کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ ذات تجھے دیکھ رہی ہے_ ہمیشہ اس کی عظمت اور اپنے حقیر ہونے اس کی بلندی اور اپنی پستی اس کی عزت اور اپنی ذلت اور اس کا مستفی ہوتا اور تیرا محتاج ہونے کی طرف متوجہہ رہ_ اور اس ذات کی طرف غفلت سے جب کہ وہ تیری

۲۲۷

طرف ہمیشہ ملتفت ہے غافل نہ رہ_ اس ذات کے سامنے ایک ذلیل ضعیف بندے کی طرح کھڑا ہو اور اپنے قدموں کو اس کے سامنے یوں جھکا جیسے ایک کمزور کتا اپنے قدم زمین پر رگڑتا ہے_ کیا تیرے لئے یہ شرف اور فخر کافی نہیں کہ اس نے تجھے اپنے عظیم نام لینے کی تیری کثیف اور معصیت کی گندگی سے نجس زبان سے ذکر کرنے کی اجازت دی ہے_

عزیز من_ اس رحیم اور کریم ذات نے زبان کو اپنے شریف ذکر کا مرکز قرا ردیا ہے کتنی بے حیائی ہوگی کہ اس کے مرکز کو غیبت جھوٹ گالیاں دینا آزار اور اذیت اور دوسری نافرمانیوں کی گندگی اور نجاست سے آلودہ کیا جائے_ ذات الہی کے مرکز کو خوشبو اور گلاب سے معطر ہونا چاہئے نہ کہ گندگیوں سے نجس ہو_بلا شک جب مراقبت اور حفاظت کرنے میں وقت نہیں کرے گا تو تجھے علم نہ ہوگا کہ تیرے سات اعضاء یعنی کان زبان ہاتھ پاؤں پیٹ اور شرمگاہ کیا کیا نافرمانی کرتے ہیں اور کتنی آگ لگاتے ہیں؟ اور تو ان سے قتل نہ کیا جا چکا ہو_ اگر میں ان مفاسد کی شرح بیان کروں تو اس خط میں ممکن نہیں ہے میں آیک ورقہ پر کیا کچھ لکھ سکتا ہوں_ تم نے ابھی تک اپنی اعضاء کو معصیت سے پاک نہیں کیا پھر تو کس طرح انتظار رکھتا ہے کہ میں دل کے حالات کی تیرے لئے شرح لکھ دوں پس سچی توبہ کرنے کی طرف جلدی کر اور پھر مراقبت اور کوشش کرنے کی طرف دوڑ لگا_ خلاصہ مراقبت اور حفاظت نفس کے بعد قرب الہی کو طلب کر اور سحری کے وقت بیدا ہو اور تہجد کی نماز کو آداب اور حضور قلب سے بجا لا اور اگر زیادہ وقت مل سکے تو اللہ کے ذکر اور اس کی مناجات میں مشغول ہوجا لیکن رات کے ایک خاص وقت میں حضور قلب کے ساتھ ذکر الہی میں مشغولل رہ اور تمام حالات میں حزن اور رنج سے خالی نہ رہتا اور اگر حزن اور رنج موجود نہ ہو تو اسے اس کے اسباب سے حاصل کر اور فارغ ہونے کے بعد حضرت زہرا علیہ السلام کی تسبیح اور بارہ دفعہ سورہ توحید دس مرتبہ لا الہ الا اللہ و حدہ لا

۲۲۸

شریک لہ لہ الملک کو آخر تک اور سہ مرتبہ لا الہ الا اللہ اور ستر مرتبہ استغفار_ اور تھوڑا سا قرآن پڑھ اور دعا صباح بھی ضرور پڑھا کر اور ہمیشہ با وضو رہ اور اگر ہر وضو کے بعد دو رکعت نماز پڑھ لے تو بہت اچھا ہے_ مومنین کی حاجات اور بالخصوص علما اور بالاخص جو متقی ہیں کے بجالانے میں بہت کوشش کر اور جس محفل میں گناہ کے واقع ہونے کا گمان ہو حتمی طور سے اس کے جانے سے پرہیز کر بلکہ غافل لوگوں کے ساتھ بغیر ضروری کام کے اٹھ بیٹھ کرنا نقصان وہ ہے گرچہ اس میں معصیت بھی نہ ہوتی ہو_ مباح چیزوں میں زیادہ مشغول رہنا زیادہ مزاح کرنا اور لغویات کہنا اور غلط چیزوں کو سننا انسان کے دل کو مار دیتے ہیں اور اگر مراقبہ کے بغیر ذکر اور فکر میں مشغول ہو تو وہ بھی بے فائدہ ہوگا گرچہ حال بھی لے آئے کیونکہ ایسا حال دائمی نہ ہو گا بغیر مراقبہ کے حال پیدا ہونے سے دھوکا نہ کھا_ اس سے زیادہ کہنے کی مجھ میں طاقت نہیں ہے_ التماس دعا اور تم تمام سے دعا کا ملتمس ہوں_ اس بندہ حقیر پر تقصیر اور معاصی کو فراموش نہ کرنا_ شب جمعہ میں سو دفعہ اور جمعہ کے عصر میں سو دفعہ سورہ قدر کو پڑھا کرو_(۴۰۰)

میرزا جواد آقا تبریزی کا دستور العمل

عالم ربانی عارف کامل آقا ملکی تبریزی لکھتے ہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے طویل سجدہ کرنے کی بہت زیادہ سفارش فرمائی ہے کہ یہ ایک بہت ہی اہم کام ہے_ طویل سجدہ کرنا بندگی کی قریب ترین کیفیت اور علامت ہے اسی لئے تو ہر ایک رکعت میں دو سجدہے قرار دیئے گئے ہیں_ ائمہ اطہار اور خالص شیعوں سے طویل سجدے کے بارے میں مہم مطالب ثقل ہوئے ہیں_ امام زین العابدین علیہ السلام کو ایک سجدے میں ایک ہزار مرتبہلا اله الا الله حقا حقا لا اله الا الله تعبدا و رقا لا اله الا ایمانا و صدقا پڑھتے سنا گیا_

امام موسی کاظم علیہ السلام کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ کبھی آپ کا سجدہ صبح کی

۲۲۹

نماز کی بعد ظہر تک ہوا کرتا تھا اور ائمہ علیہم السلام کے اصحاب میں سے ابن ابی عمیر و جمیل و خربود کے بارے میں بھی ایسا نقل کیا گیا ہے_ نجف اشرف میں طالب علمی کے زمانے میں میرے ایک استاد تھے جو متقی طلبہ کے لئے مرجع تھے میں نے آپ سے سوال کیا آپ نے کو ن سے عمل کا تجربہ کیا ہے کہ جو سالک الی اللہ کے حق میں موثر اور مفید ہو؟ آپ نے فرمایا کہ دن اور رات میں اسیک طویل سجدہ بجا لایا جائے اور سجدہ کی حالت میں یہ کہا جائےلا اله الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین اور اس کے ذکر میں اس طرح توجہہ کرے کہ میرا خدا کسی پر ظلم کرنے سے پاک و پاکیزہ ہے بلکہ میں خود ہوں جو اپنے اوپر ظلم کرتا ہوں اور اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتا ہوں_ میرے یہ استاد اپنے مریدوں اور علاقمندوں سے ایسے سجدہ کی سفارش کیا کرتے تھے اور جو بھی یہ سجدہ بجالاتا تھآ اس کے اثرات کا مشاہدہ کیا کرتا تھا _ بالخصوص وہ حضرات جو اس سجدے کو بہت زیادہ طویل انجام دیتے تھے ان میں سے بعض اس ذکر کو سجدہ میں تکرار کیا کرتے تھے بعض تھوڑا اور بعض زیادہ تکرار کرتے تھے میں نے سنا ہے کہ ان میں سے بعض اس ذکر کو تین ہزار مرتبہ سجدہ میں پڑھا کرتے تھے_(۴۰۱)

شیخ نجم الدین کا دستور العمل

شیخ نجم الدین رازی لکھتے ہیں کہ اداب اور شرائط کے بغیر زیادہ ذکر کرنا مفید نہیں ہوتا_ پہلے شرائط اور ترتیب سے قیام کیا جائے اور جب سچے مرید کو سلوک الی اللہ کا دل میں درد پیدا ہوجائے تو یہ علامت ہوگی کہ اس نے ذکر سے انس پیدا کر لیا ہے اور اسے مخلوق سے وحشت اور نفرت پیدا ہوگئی ہے جو تمام مخلوق سے نامید ہو کر ذکر الہی کی پناہ میں چاپہنچا ہے_ قل اللہ ثم ذرہم (یعنی اللہ کا ذکر کر اور تمام مخلوق کو چھوڑ دے کہ وہ اپنی لغویات میں کھیلتے رہیں) جب ذکر کو پے در پے بجالائے جو صحیح اور خالص توبہ کے بعد ہو اور ذکر کرنے کی حالت میں با غسل ہو اور اگر یہ نہ کر

۲۳۰

سکے تو با وضو ہو کیونکہ ذکر الہی کرنا دشمن کے ساتھ جنگ کرنے کے مانند ہوا کرتا ہے اور بغیر اسلحے کے دشمن کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا اور وضو مومن کا اسلحہ ہوا کرتا ہے_ الوضوء سلاح المومومن پاک کپڑے پہنے ہوا ہو اور کپڑے کے پاک ہونے کی چار شرطیں ہیں_ ۱_ نجاست سے پاک ہو_ ۲_ لوگوں پر ظلم کئے ہوئے مال سے پاک ہو_ ۳_ حرام سے یعنی ابریشم سے پاک ہو یعنی ابریشمی کپڑا نہ ہو_ ۴_ رعونت اور تکبر سے پاک ہو یعنی کپڑا کوتاہ ہو بہت لمبا نہ ہو_ ثیابک فطہر سے مراد کوتاہ کرنا ہے_ اور گھر میں خلوت اور تاریکی اور صفات ستھرا کر کے بیٹھے اور اگر تھوڑی خوشبو یعنی دھونی کرے تو بہتر ہے_ قبلہ رخ بیٹھے اور چار زانوں یعنی پلٹھی مار کر گرچہ تمام حالا میں بیٹھنا منع ہے لیکن ذکر کرنے کی حالت میں خواجہ علیہ السلام جب صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تھے تو اسی جگہ پلتھی مار کر یعنی چار زانوں سورج کے نکلنے تک بیٹھے رہتے تھے_ ذکر کرنے کے وقت اپنے ہاتھوں کو رانوں پر رکھے اور دل کو حاضر کرے اور آنکھیں بند کر لے اور پوری تعظیم کے ساتھ ذکر کرنا شروع کردے اور لا الہ الا اللہ کے جملے کو پوری طاقت سے گویا اس کی ناف لا الہ سے اٹھے اور الا اللہ دل پر بیٹھ جائے اور اس کا تمام اعضاء پر اثر ظاہر ہو رہا ہو لیکن اپنی آواز کو بلند نہ کرے اور جتنا ہو سکے آہستہ اور کمتر آواز سے ذکر کرے جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے _و اذکر ربک فی نفسک تضرعا و خیفة و دون الجہر من القول اس طرح سے تحت ذکر کرتے ہوئے اس کے معنی کو دل میں فکر کرے دوسرے خیالات کو دور کرے جیسے کہ لا الہ کے معنی سے یہی مراد ہے کہ جو بھی خدا کے علاوہ خیالات ہوں انہیں دور کرے اور گویا یوں سوچے کہ میں سوائے الا اللہ کے کوئی چیز نہیں چاہتا اور میرا مقصود اور محبوب صرف الا اللہ ہے اور تمام خیالات کو الا اللہ کے ذریعے دور کر رہا ہوں اور اللہ تعالی کو اپنا مقصود اور محبوب اور مطلوب الا اللہ کے ذریعے سے کر رہا ہوں اور جان لینا چاہئے کہ ہر ذکر میں اول سے لے کر آخر تک دل نفی اور اثبات میں

۲۳۱

حاضر ہو اور لگا رہے_ اور جس وقت دل کے اندر نگاہ کرے اگر کوئی چیز دل کو لبھانے والی ہو تو اسے نظر انداز کر کے دل کو ذات الہی کی طرف توجہہ دے اور الا اللہ کے ذریعے اس چیز کو دل سے اکھیڑ دے اور اس کے ربط کو باطل کردے اور الا اللہ کو اس چیز کی محبت کی جگہ قرار دے دے اسی روش کو دوام دے تا کہ دل آہستہ آہستہ تمام چیزوں کی محبت اور انس سےے خالی ہو کر ذکر الہی سے سرشار ہوجائے_ اس کا باحال ہونا ذکر کے غالب ہوجائے سے ہو_ ذکر کرنے والے کا وجود ذکر کے نور میں مضمحل ہو جائے اور ذاکر کو ذکر مفرد بنا دے اور تمام تعلقات اور موانع کو اس کے وجود سے ختم کر دے اور اسے جسمانی دنیا سے اخروی دنیا کے لئے آمادہ کردے جیسے وارد ہوا ہے کہ سیروا فقد سبق المفردون جان لے کہ دل اللہ تعالی کے لئے خلوت کی جگہ ہے_ لا یسعنی ارضی و لا سمائی و انما یسعنی قلب عبدی المومن یعنی مجھے نہ زمین اور نہ آسمان سمو سکتا ہے مجھے صرف مومن کا دل سمو سکتا ہے_ اور جب تک دل میں اغیار کا وجود ہوگا اس وقت تک اللہ تعالی کی عظمت کی غیرت اس سے نفرت کرے گی لیکن جب لا الہ کا چابک دل کو اغیار سے خالی کر دے گا اس وقت الا اللہ کی بادشاہ کی تجلی کا انتظار کیا جا سکتا ہے_اذا فرغت فانصب و الی ربک فارغب (۴۰۲) جیسے کہ آپ نے ملاحظہ فرما لیا ہے کہ عرفان کے استاذہ نے ذکر کے دوامی بجالانے کو سیر و سلوک کے لئے بہترین طریقہ قرار دیا ہے اور اس کے پہنچنے کے لئے مختلف طریقے اور تجربات اور وصیتیں فرمائی ہیں_ اس مطلب کی علت یہ ہے کہ جتنے ذکر کے طریقے شرعیت میں وارد ہوئے ان کے بنانے کی اصلی غرض غیر خدا سے قطع تعلق کرنا اور پوری توجہہ خدا تعالی کی طرف کرنے کو حاصل کرنا ہے لیکن یہ کام افراد اور مقامات اور حالات کے لحاظ سے فرق رکھتا ہے لہذا کسی نہ کسی استاذ اور مربی کی ضرورت ہے کہ جو اس کام میں رہبری انجام دے احادیث اور دعاؤں کی کتابوں میں بہت زیادہ دعائیں نقل ہوئی ہیں_ اور ہر ایک کے لئے ثواب اور خاصیت ذکر کی گئی ہے_ مطلق دعا اور ذکر دو طرح کے ہوتے ہیں ایک مطلق اور دوسرا مقید_ بعض ذکر

۲۳۲

کے لئے خاص زمانہ اور خاص ترکیب اور خاص عدد بتلایا گیا ہے ایسے ذکر کو اسی طرح بجالانا چاہئے جیسکہ ائمہ علیہم السلام سے نقل ہوا ہے تا کہ اس کے ثواب اور خاص اثر کو حاصل کیا جا سکے_ اس کے بر عکس بعض ذکر مطلق ہیں جن میں کوئی قید نہیں ہے اسے انسان اپنے اختیار سے خاص شرائط اور حالات اور عدد اور زمانے کا تعین کر سکتا ہے_ اور اسے دائمی بجالاتا رہے یا اپنے کسی استاد اور رہنما سے اس میں راہنمایی حاصل کرے آپ اس بارے میں احادیث اور دعاؤں کی کتابوں کی طرف رجوع کر سکتے ہیں_

آخر میں دو مطلب کی طرف توجہہ دلانا ضروری ہے_ پہلا_ عارف انسان کو معلوم ہونا چاہئے کہ ذکر کرنے کی اصلی غرض و غایت خداوند عالم کی طرف حال اور حضور قلب کا حاصل کرنا ہوتا ہے لہذا ذکر کی تعداد اور زمانے اور کیفیت میں یہ مطلب مد نظر رہے اور پھر اس کو دائمی بجالائے اور جب تھک جائے یا بے میل اور رغبت ہو تو اسے چھوڑ دے اور پھر مناسب وقت میں دوبارہ شروع کر دے_ امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ '' دل اور روح کبھی حالت اقبال اور توجہہ رکھتی ہے اور کبھی سب اور بے میل اور بے رغبت نہ ہوتی ہے لہذا جب دل مائل اور رغبت رکھتا ہو اس وقت عمل کیا جائے کیونکہ اگر روح کو عمل کرنے پر مجبور کیا جائے تو وہ اندھا ہو جاتا ہے_(۴۰۳)

البتہ اس بارے میں افراد اور مقامات اور حالات کا فرق ہوا کرتا ہے_

دوسرا_ یہ جاننا چاہئے کہ ریاضت نفس اور ذکر کی اصلی غرض اور غایت نفس اور روح کا تکامل اور قرب خداوند ہے_ اللہ تعالی کا تقرب بغیر احکام پر عمل کرنے سے ممکن نہیں ہوا کرتا اگر کوئی انسان شرعی یا اجتماعی ذمہ داری رکھتا ہو تو وہ اسی حالت میں اللہ تعالی کی یاد میں ہو سکتا ہے اور جتنا ہو سکے ذکر کو بھی انجام دے اور فراغت کی حالت میں ذکر کو دائمی بجالائے گوشہ نشین نہیں ہو جانا اور اجتماعی اور شرعی ذمہ داری کو نظر کردینے سے انسان اللہ کا قرب اور تقرب حاصل نہیں کر سکتا_

۲۳۳

موانع (رکاوٹیں)

کمالات اور مقامات عالیہ تک پہنچنا اتنا سادہ اور آسان کام نہیں ہے بلکہ یہ راستہ طے کرنا بہت مشکل اور دشوار ہے اس راستے میں کئی ایک موانع اور رکاوٹیں موجود ہیں اور جو انسان کمال حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اسے ان کو دور کرنا ہوگا ورنہ وہ کبھی کمال تک نہیں پہنچ سکے گا_

پہلی رکاوٹ

قرب الہی حاصل کرنے اور سر و سلوک الی اللہ کی سب سے بڑی رکاوٹ انسان کی قابلیت کا نہ ہونا ہے_ جو روح اور دل گناہوں کے ارتکاب کرنے کی وجہ سے تاریک اور آلودہ ہوچکا ہو وہ انوار الہی کی تابش کا مرکز قرار نہیں پا سکتا_ جب انسان کا دل گناہوں کی وجہ سے شیطن کی حکومت کا مرکز پا چکا ہو وہاں کس طرح اللہ کے مقرب فرشتے داخل ہو سکے ہیں ؟ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جب انسان کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ پیدا ہو جاتا ہے اگر تو اس نے توبہ کر لی تو وہ نقطہ مٹ جاتا ہے_ اور اگر وہ اسی طرح گناہ بجالاتا رہا

۲۳۴

تو و سیاہ نقطہ تدریجاً بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کے ت مام دل کو گھیر لیتا ہے اس حالت میں وہ کبھی کامیابی اور چھٹکارا حاصل نہیں کر سکے گا_(۴۰۴)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' میرے والد فرمایا ہے کہ انسان کے دل اور روح کے لئے گناہ سے کوئی چیز بدتر نہیں ہوا کرتی کیونکہ گناہ انسان کی روح اور قلب سے جنگ کرنا شروع کر دیتا ہے یہاں تک کہ اس پر قابو اور غلبہ حاصل کر لیتا ہے اس صورت میں اس کا دل الٹا اور سرنگوں ہو جاتا ہے_(۴۰۵) گناہ گار انسان کی روح سرنگوں اورالہی ہوجاتی ہے اور وہ الٹے راستے چلتی ہے تو پھر وہ کس طرح قرب الہی کے رساتے کی طرف حرکت کر سکی گی اور اللہ تعالی کے فیوضات اور اشراقات کو قبول کرے گی؟ لہذا کمال تک رسائی حاصل کرنے والے انسان کے لئے ضروری اور واجب ہوجاتا ہے کہ وہ ابتداء ہی سے اپنے نفس اور روح کو گناہوں سے پاک اور صاف کرے اور پھر ریاضت اور ذکر الہی میں داخل ہو ور نہ اس کا ذکر اور عبادت میں کوشش کرنا اس کو قرب الہی تک نہیں پہنچا سکے گا_

دوسری رکاوٹ

کمال حاصل حاصل کرنے سے ایک بڑی رکاوٹ مادی اور دنیاوی تعلقات ہیں جیسے مال اور دولت سے اہل و عیال سے یا مکان اور زندگی کے اسباب سے جاہ و جلال مقام اور منصب سے مال باپ سے بہن بھائی سے یہاں تک کہ علم اور دانش سے اور اس طرح کی دوسری چیزوں سے علاقہ اور تعلق یہ وہ تعلقات ہیں کہ انسان کو اللہ تعالی کے قرب حاصل کرنے اور اس کے طرف حرکت اور ہجرت کرنے سے روک دیتے ہیں_

جس دل نے محسوسات سے محبت اور انس کر رکھا ہو اور اس کا فریفتہ اور عاشق ہو کس طرح وہ ان چیزوں کو چھوڑ کر عالم بالا کی طرف حرکت کرے گا جو دل دنیاوی

۲۳۵

امور کا مرکز اور مکان بن چکا ہو وہ کب انوار الہی کی تابش کا مرکز قرار پاسکتا ہے؟ بہت سی روایات کے مطابق دنیا کی محبت تمام گناہوں کی جڑ ہے_ گناہ گار انسان اللہ تعالی سے قرب کے مقام تک نہیں پہنچ سکتا_ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' دنیا کی محبت ہر ایک گناہ کی جڑ ہے( ۴۰۶)

رسولخدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' سب سے پہلی چیز کہ جن سے اللہ تعالی کی نافرمانی کی گئی وہ چھ تھیں دنیا سے محبت حکومت اور مقام منصب سے محبت_ عورت سے محبت_ خوراک سے محبت نیند سے محبت اور آرام اور سکون سے محبت_(۴۰۷)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' انسان اللہ تعالی سے اس حکومت میں زیادہ دور ہوتا ہے جب اس کی غرص و غایت صرف پیٹ کا بھرنا اور شہوات حیوانی کا پورا کرنا ہو_

جناب جابر فرماتے ہیں کہ میں امام باقر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے مجھ سے فرمایا اے جابر_ میں محزون اور مشغول دل والا ہوں_ میں نے عرض کی کہ میں آپ پر قربان جاؤں آپ کا محزون اور غمگین ہونا اور مشغول ہونا کس سبب اور وجہہ سے ہے_ آپ نے فرمایا کہ جس کے دل میں خالص اور صاف دین داخل ہو چکا ہو اس کا دل غیر خدا سے خالی ہوجاتا ہے_ اے جابر_ دنیا کیا ہے اور کیا قیمت رکھتی ہے؟ کیا وہ صرف لقمہ نہیں ہے کہ جسے تو کھاتا ہے اور لباس ہے کہ جسے تو پہنتا ہے یا عورت ہے کہ جس سے شادی کرتا ہے کیا اس کے علاوہ کچھ اور ہے؟ اے جابر_ مومنین دنیا اور زندگی پر بھروسہ نہیں کرتے اور آخرت کے جہاں میں جانے سے اپنے آپ کو امان میں نہیں دیکھتے_ اے جابر_ آخرت ہمیشہ رہنے والی منزل اور مکان ہے اور دنیا مرنے اور چلے جانے کا محل اور مکان ہے_ لیکن دنیا والے اس مطلب سے غافل ہیں صرف مومنین جو فکر او رعبرت اور سمجھ رکھتے ہیں انہیں جوان کے کانوں پر پڑتا ہے اللہ تعالی کے ذکر سے نہیں روکتا_ زرو جواہرات کا دیکھنا انہیں اللہ تعالی کے

۲۳۶

ذکر سے غافل نہیں کرتا وہ آخرت کے ثواب کو پالیتے ہیں گویا کہ انہوں نے اس کے علم حاصل کرلیا ہے_(۴۰۹)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' انسان ایمان کی شرینی کو نہیں چکھ سکتا مگر جب وہ جسے کھاتا ہے اس سے لاپرواہی نہ برتے_(۴۱۰)

لہذا عارف انسان کے لئے ضروری ہے کہ اس طرح کا علاقہ اور محبت اپنے دل سے نکال دے تا کہ اللہ تعالی کی قرب اور مقامات عالیہ کی طرف اس کا حرکت اور ہجرت کرنا ممکن ہوسکے_ دنیا کے اور اور فکر کو اپنے دل سے باہر نکال دے تا کہ اللہ کی یاد اس کے دل میں جگہ پاسکے_ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ دنیاوری امور سے علاقہ مندی اور دل دے دنیا صرف قابل خدمت ہے نہ کہ خود دنیا مذموم ہے کیونکہ عارف انسان دوسرے انسانوں کی طرح زندگی کو باقی رکھنے میں غذا اور لباس اور مکان اور بیوی کا محتاج ہے اور ان کے حاصل کرنے کے لئے اسے ضرور کام کرنا ہوگا_ نسل کی بقاء کے لئے اسے شادی ضرور کرنی ہوگی_ اجتماعی زندگی بسر کرنے کے لئے اسے اجتماعی ذمہ داریاں قبول کرنی ہونگیں اسلامی شرعیت میں ان میں کسی کی مذمت نہیں کی گئی بلکہ ان کے بجالانے میں اگر قصد قربت کرلے تو وہ عبادت بھی ہوجائیں گی اور اللہ سے تقرب کا موجب ہونگیں خود یہ چیزیں اللہ تعالی کے قرب حاصل کرنے کی مانع نہیں ہوا کرتیں وہ جو مانع ہے ان امور سے وابستگی اور محبت ہے_

اگر یہی امور زندگی کی غرض اور غایت قرار پائیں اور اللہ تعالی کے ذکر اور فکر سے غافل بنادیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان خدا سے غافل ہوجائے اور پیسہ او رعورت مقام اور منصب اور علم پرست ہوجائے جو قابل مذمت ہے اور انسان کو اللہ تعالی کی طرف حرکت کرنے سے روک دیتا ہے ورنہ خود پیسہ اور زن علم اور مقام منصب اور ریاست قابل مذمت نہیں ہیں_ کیا پیغمبر اسلام امام سجاد اور امیرالمومنین علیہ السلام اور دوسرے ائمہ اطہار کام اور کوشش نہیں کیا کتے تھے اور اللہ تعالی کی نعمتوں سے استفادہ نہیں کیا کرتے تھے، اسلام کی سب سے بزرگ خصوصیت یہ ہے کہ

۲۳۷

دنیاوی اور اخروی امور کے لئے کسی خاص حد اور مرز کا قائل نہیں ہے_

تیسری رکاوٹ

خواہشات نفس اور اس کی ہوی اور ہوس سے پیروی کرنا قرب الہی حاصل کرنے کا بہت بڑا مانع ہے_ نفسانی خواہشات دل کے گھر کو سیاہ دھوئیں کی طرح سیاہ کر دیتے ہیں اس طرح کا دل اللہ تعالی کے انوار کی تابش کی قابلیت نہیں رکھتا_ نفسانی خواہشات انسان کے دل کو ادھر ادھر کھینچتے رہتے ہیں اور اسے مہلت نہیں دیتے کہ وہ خداوند عالم سے خلوت کرسکے اور اس ذات سے انس اور محبت کرسکے_ وہ دن رات نفسانی خواہشات کے پورا کرنے کی تلاش اور کوشش میں لگا رہتا ہے_ وہ کب دنیا کو چھوڑسکتا ہے تا کہ بارگاہ الہی کی طرف پرواز کرسکے_ خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے_ '' ہوی او رہوس کی پیروی نہ کر کیونکہ وہ تجھے خدا کے راستے سے دور کئے رکھیں گے_(۴۱۱) امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' سب سے بہادر انسان وہ ہے جو خواہشات نفس پر غلبہ حاصل کرے _(۴۱۲)

چوتھی رکاوٹ

خدا کی یادسے ایک رکاوٹ او رمانع شکم پرستی ہے_ جو شخص دن رات کوشش کرتا رہتا ہے کہ اچھی اور لذیذ غذا مہیا کرے اور اپنے پیٹ کو مختلف قسم کی غذاؤں سے پر کرے وہ کس طرح اپنے خدا سے خلوت اور راز و نیاز اور انس کرسکتا ہے_ غذا سے بھرا ہوا پیٹ کس طرح اللہ تعالی کی عبادت اور دعا کرنے کی حالت پیدا کرسکتا ہے_ غذا سے بھر ہوا پیٹ کس طرح اللہ تعالی کی عبادت اور دعا کرنے کی حالت پیدا کرسکتا ہے_ جو انسان کھانے اور پینے میں لذت سمجھتا ہے وہ کس طرح اللہ تعالی سے مناجات کی لذت کو محسوس کرسکتا ہے؟ اسی لئے تو اسلام نے شکم پرستی کی مذمت کی ہے_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے ابوبصیر سے فرمایا ہے کہ '' انسان کا پیٹ بھر جانے

۲۳۸

سے طغیان کرتا ہے اللہ تعالی سے زیادہ نزدیک ہونے کی حالت انسان کے لئے اس وقت ہوتی ہے جب کہ اس کا پیٹ خالی ہو اور بدترین حالت اس وقت ہوتی ہے جب اس کا پیٹ بھرا ہوا ہو_( ۴۱۳)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' مومن کے دل کے لئے پرخوری سے اور کوئی چیز نقصان دہ نہیں ہے_ پرخوری قساوت قلب کا سبب ہوا کرتی ہے او رشہوت کو تحریک کرتی ہے_ بھوک مومن کا سالن اور روح کی غذا اور طعام ہے اور بدن کی صحت ہے(۴۱۴) امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جب اللہ تعالی کسی بندے کی مصلحت دیکھتا ہے تو اسے کم غذا کم کلام اور کم خواب کا الہام کرتا ہے_(۴۱۵)

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' نفس پر کنٹرول کرنے اور عادت کے ختم کرنے کے لئے بھوک بہترین مددگار ہے(۴۱۶) امیرالمومنین علیہ السلام نے روایت کی ہے کہ '' خداوند عالم نے معراج کی رات رسول خدا سے فرمایا_ اے احمد_ کاش تم بھوک اور ساکت رہنے اور تنہائی اور اس کے آثار کی شیرینی کو چکھتے_

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرض کی اے میرے خدا_ بھوک کا کیا فائدہ ہے؟ اللہ تعالی نے فرمایا _ دا_نائی دل کی حفاظت میرا تقرب ہمیشگی حزن تھوڑا خرچ_ حق گوئی اور آسائشے اور تنگی میں بے خوف _(۴۱۷)

درست ہے کہ عارف انسان بھی دوسرے انسانوں کی طرح زندہ رہنے اور عبادت کی طاقت کے لئے غذا کا محتاج ہے اسے اتنی مقدار جو بدن کی ضرورت کو پورا کرے کھانا کھانا چاہئے اور شکم پری سے پرہیز کرنا چاہئے_ کیونکہ شکم پری سستی بے میلی اور عبادت کی طرف بے رغبتی قساوت قلب اور اللہ تعالی کی یاد سے غفلت کا سبب ہوا کرتی ہے اور اگر تھوڑا کھائے اور بھوکا رہے تو عبادت کے لئے آمادگی اور خداوند عالم کی ذات کی طرف توجہہ کرنے کا سبب ہوا کرتی ہے_ اس کا تجربہ کیا جا چکا ہے انسان بھوک کی حالت میں با نورانیت روح با صفا اور ہلکا پھکا رہتا ہے لیکن پیٹ بھری ہوئی حالت میں ایسا نہیں ہوا کرتا لہذا ایک عارف انسان کے لئے ضروری ہے کہ جتنی بدن

۲۳۹

کو غذا کی ضرورت ہے اتناہی کھائے بالخصوص جب عبادت اور دعا اور ذکر میں مشغول ہو تو بھوکا ہی رہے_

پانچویں رکاوٹ

عارف اور سالک انسان کو اس کے قرب الہی کے مقصد اور حضور قلب اور خدا کی طرف توجہہ سے ایک رکاوٹ غیر ضروری اور بے فائدہ گفتگو کرنا ہوا کرتی ہے_ خداوند عالم نے انسان ضرورت کی مقدار تک گفتگو کرے تو اس نے اس بہت بڑی نعمت سے صحیح فائدہ حاصل کیا ہوگا اور اگر بیہودہ اور غیر ضروری گفتگو کرے تو اس نے اس بہت بڑی نعمت کو ضائع اور بردبار کر دیا ہوگا اس کے علاوہ زیادہ اور ادھر ادھر کی گفتگو اور باتیں کرنا انسان کی فکر کو پریشان کر دیتی ہیں اور پھر وہ پوری طرح سے اللہ تعالی کی طرف حضور قلب اور توجہہ پیدا نہیں کر سکتا_ اسی لئے احادیث میں زیادہ اور بے فائدہ باتیں کرنے کی مذمت وارد ہوئی ہے_

پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' سوائے اللہ تعالی کے ذکر کرنے کے زیادہ کلام کرنے سے پرہیز کرو کیونکہ اللہ تعالی کے ذکر کے علاوہ زیادہ باتیں کرنا قساوت قلب کا سبب ہوتا ہے اللہ تعالی سے سب سے زیادہ دور انسان وہ ہے کہ جس کا دل تاریک ہو_(۴۱۸)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اپنی زبان کی حفاظت کر اور اپنی گفتگو کو شمار کرتا رہے تا کہ تیری گفتگو امر خیر کے علاوہ کمتر ہوجائے_(۴۱۹)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' گفتگو تین قسم کی ہوا کرتی ہے _ مفید _ سالم _ شاحب یعنی بیہودہ_ مفید گفتگو ذکر خدا_ سالم گفتگو وہ ہے کہ جسے خدا دوست رکھے_ شاحب گفتگو وہ ہے جو لوگوں کے متعلق بیہودہ بات کی جائے_(۴۲۰)

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271