امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت21%

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 271

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 271 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 116652 / ڈاؤنلوڈ: 4490
سائز سائز سائز
امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

مشورہ دیا کرتا تھا_ اسی عبداللہ بن سلام نے حضرت عثمان کے محاصرے کے وقت اس کی زبانی کلامی حمایت پر اکتفا کیا اور اس کی کوئی عملی مدد نہیں کی(۱) حالانکہ اس نے جناب عثمان کی عملی مدد کا وعدہ بھی کیا تھا_ اور جب جناب عثمان کا گھیراؤ کرنے والے لوگوں نے عبداللہ بن سلام کے متعلق اسے کہا کہ یہ ابھی تک بھی اپنی یہودیت پر ڈٹا ہوا ہے تو وہ اپنی یہودیت کی نفی کرنے لگا(۱) نہ صرف یہ بلکہ ابن سلام ، کعب الاحبار اور یہود و نصاری کے دوسرے زعماء و بزرگان جنہوں نے اسلام کا اظہار کیا تھا وہ اسلامی حکومت کے بہت سے اہم اور کلیدی عہدوں پر فائز تھے ، یہ دونوں اشخاص بہت سے اہم امور میں ا س وقت کے حکمرانوں کے مشیر اور معاون ہوتے تھے_

ہم بارگاہ خداوندی میں دعاگو ہیں کہ وہ ہمیں اہل کتاب کی سیاہ کاریوں اور مسلمانوں کی سیاست ،عقائد، تفسیر، حدیث ، فقہ اور تاریخ میں ان کی ریشہ دوانیوں اور اثر گذاریوں کے متعلق ایک مستقل کتاب لکھنے کی توفیق عطا فرمائے_

____________________

۱)مندرجہ ذیل کتب میں اس کے اقوال ملاحظہ ہوں : المصنف صنعانی ج۱۱ ص ۴۴۴، ص ۴۴۵و ۴۴۶ نیز اسی کے حاشیہ میں از طبقات ابن سعد ج ۳ ص ۸۳ ، حیاة الصحابہ ج ۳ ص ۵۴۰ ، مجمع الزوائد ج ۹ ص ۹۲ و ۹۳ و الاصابہ ج ۲ ص ۳۲۱ _

۲)ملاحظہ ہو: الفتوح ابن اعثم ج ۲ ص ۲۲۳و ۲۲۴_

۲۱

۲۳

دوسری فصل :

غیر جنگی حوادث و واقعات

۲۲

حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے بعض مہاجرین کی واپسی :

جب حبشہ میں موجود مسلمانوں کو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مسلمانوں کی مدینہ کی طرف ہجرت کی خبر پہنچی تو ان میں سے (۳) مرد اور آٹھ عورتیں واپس آئیں_ جن میں سے دو مرد مکہ میں فوت ہوگئے اور سات آدمیوں کو قید کر لیا گیا لیکن باقی مدینہ میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے جن میں سے چوبیس افراد جنگ بدر میں بھی موجود تھے(۱) _

اور(حبشہ سے) مدینہ کی طرف ہجرت کا یہ سلسلہ جاری رہا(۲) یہاں تک کہ حضرت جعفرعليه‌السلام ہجرت کے ساتویں سال فتح خیبر کے موقع پر باقی ماندہ افراد کو لے کر پہنچے _ جسکا ذکر انشاء اللہ بعد میں آئے گا_

مذکورہ بالا تیس اشخاص ان افرادکے علاوہ ہیں جو بعض کے بقول بعثت کے پانچویں برس اور ہجرت مدینہ سے آٹھ سال پہلے مکہ میں واپس آئے تھے_ لیکن ان کا مکہ سے گزرنے کا سبب(حالانکہ وہ اسی شہر سے ہی بھاگ کرگئے تھے) بظاہر یہ ہے کہ چونکہ مدینہ کی طرف جانے والا راستہ مکہ کے قریب سے گزر تا تھا(۳) تو شاید وہ مکہ میں موجود ا پنے اموال کو لینے، اقربااور رشتہ داروں سے ملنے اور بیت اللہ کی زیارت سے مشرف ہونے کے بعد پھر مدینہ جانے کے ارادے سے مخفیانہ یا علانیہ طور پر مکہ میں داخل ہوئے_

لیکن قریش ان کے ساتھ قساوت قلبی اور سنگدلی کے ساتھ پیش آئے، ان کے لئے کسی قسم کے

____________________

۱) طبقات ابن سعد ج/ حصہ۱ص ۱۳۹_

۲) طبقات ابن سعد ج/۱حصہ۱ ص ۱۳۹،زاد المعاد ج/ ۱ ص ۲۵ و ج/ ۲ ص ۲۴ ، ۴۵ ، البدء والتاریخ ج/ ۴ ص ۱۵۲ و فتح الباری ج/۷ ص ۱۴۵_

۳) اور اس پر المصنف ج/۵ ص ۳۶۷ کی یہ عبارت دلالت کرتی ہے کہ ''جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کفار قریش سے برسرپیکارہوئے تو وہ مہاجرین حبشہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے پاس پہنچنے سے مانع ہوئے_یہاں تک کہ وہ لوگ جنگ خندق کے موقع پر مدینہ میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے آملے''_ البتہ ان کا '' جنگ خندق کے مو قع پر '' کہنا ، ناقابل تائید ہے اور شاید خندق ، خیبر کی جگہ لکھا گیا ہے_

۲۳

احترام ، غریب الوطنی اور رشتہ داری کا لحاظ بھی نہیں کیا اور یہ بات واضح ہے کہ حبشہ کے مہاجرین کے اس گروہ کا مدینہ میں پہنچنا نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مدینہ پہنچنے کے چند مہینے بعد تھا کیونکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کی خبر کاان تک پہنچنا پھر ان کا مکہ کی طرف آنا اور وہاں پر رشتہ داروں سے ملاقات کرنا اور قریش کا وہ سلوک کرنا اور پھر ان کا مدینہ کی طرف ہجرت کرنا یہ سب چیزیں ایک طولانی مدت کے گزرنے کی متقاضی ہیں، یہاں تک کہ عسقلانی کہتا ہے :'' ابن مسعود مکہ کی طرف اور پھر مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والے تیس آدمیوں میں سے تھے اور وہ مدینہ میں اس وقت پہنچے جب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ بدر کی تیاریوں میں مصروف تھے''(۱) _

حضرت عائشہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌ کے گھر میں :

ہجرت کے پہلے سال (اور کہا گیا ہے کہ دوسرے سال )حضرت عائشہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیت الشرف میں آئیں اور یہ ماہ شوال کی بات ہے، مورخین نے کہا ہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے علاوہ کسی دوسری کنواری عورت سے شادی نہیں کی لیکن ہم اس بات کے صحیح ہونے پر اطمینان نہیں رکھتے اور اس کی وجہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضرت خدیجہعليها‌السلام کے ساتھ ازدواج کی بحث میں گزر چکی ہے کہ حضرت خدیجہع ليها‌السلام کی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے علاوہ کسی دوسرے آدمی سے شادی کا مسئلہ نہایت مشکوک ہے_ ہو سکا تو انشاء اللہ ہم آئندہ بھی اس کی طرف اشارہ کریںگے_

رخصتی کی رسم

اور ہمیں معلوم نہیں ہوسکا کہ کس وجہ سے حضرت عائشہ کی رخصتی کی رسم نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک اہمیت نہیں رکھتی تھی کیونکہ روایت کی گئی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے لئے ولیمہ نہیں کیا حالانکہ اس دور میں لوگوں کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ولیمہ کھانے کی توقع بھی تھی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کی طاقت بھی رکھتے تھے_ صر ف یہی کچھ نقل کیا گیا ہے کہ دودھ کاایک پیالہ سعد بن عبادہ کے گھر سے آیا اور اس میں سے کچھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پیا اور باقی حضرت عائشہ(۲)

____________________

۱) فتح الباری ج/۷ ص ۱۴۵ _

۲) تاریخ الخمیس ج/۱ ص ۳۵۸ ، السیرة الحلبیة ج/۲ ص ۱۲۱ _

۲۴

نے_اسی کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس شادی کا ولیمہ قرار دینا بھی صحیح نہیں کیونکہ یہ طبعی بات ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تو اپنے پاس بیٹھنے والے کو کھانا پیش کرنے سے غفلت نہیں فرماسکتے تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زوجہ کی تو بات ہی اور ہے_

انوکھا استدلال :

حضرت عائشہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک اپنی منزلت اورشان پر اس طرح استدلال فرماتی تھیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے ساتھ ماہ شوال میں ازدواج کیا تھا _ وہ کہتی تھیںکہ :

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ماہ شوال میں مجھے شرف زوجیت بخشا پس رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ازواج میں سے کون سی زوجہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک مجھ سے زیادہ منزلت رکھتی ہے؟(۱) _

حقیقتاً یہ انوکھا استدلال ہے _ اس لئے کہ کب ماہ شوال کی اتنی عظیم فضیلت تھی جو حضرت عائشہ کی منزلت و فضیلت پر دلالت کرتی ؟_

جبکہ بلاشک و شبہہ حضرت خدیجہ اور حضرت ام سلمہ اوردیگر ازواج ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک ان کی نسبت زیادہ منزلت و عظمت رکھتی تھیں اسی وجہ سے تو یہ ان سے حسد کرتیں، ان کو اذیت دیتیں اور اکثر خودنبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے بھی ان کے ساتھ بد اخلاقی کا مظاہرہ کرتی تھیں ہمارے اس دعوے کے بعض دلائل ہجرت سے پہلے حضرت عائشہ کے عقد سے بحث کے دوران ذکر ہو چکے ہیں_

اور اس سے بھی عجیب تربات یہ ہے کہ بعض حضرات نے ماہ شوال میں عقد کے استحباب کا حکم صادر کیا ہے(۲) _

لگتا یہی ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کی رحلت کے بعد آنے والی حکومت وقت کی دست راست اور حکومت وقت اور ان کے حامیوں کی آنکھوں کے کانٹے حضرت علیعليه‌السلام کی اچھائی کے ساتھ نام تک نہ لے سکنے والی(۳)

____________________

۱) تاریخ طبری مطبوعہ الاستقامة ج ۲ ص ۱۱۸ ، السیرة الحلبیہ ج ۲ ص ۱۲۰، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۵۸_

۲) نزھة المجالس صفوری الشافعی ج/۲ ص ۱۳۷_

۳)فتح الباری ج ۲ ص ۱۳۱، مسند احمد ج ۶ ص ۲۲۸ ،و الغدیر ج ۹ ص ۳۲۴_

۲۵

حضرت عائشہ سے کچھ لوگوں کی محبت و عقیدت ، اور ان کی خواہشات کو اہمیت دینا ہی ان لوگوں کی اس طرح کی شریعت سازی کا موجب بنا_حالانکہ خود ہی روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت جویریہ اورحضرت حفصہ کے ساتھ ماہ شعبان میں اور زینب بنت خزیمہ کے ساتھ ماہ مبارک رمضان میں اور زینب بنت جحش کے ساتھ ذی القعدہ میں رشتہ ازدواج استوار فرمایا_ پس اس صورت میں نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس مستحب کو ترک کیا ہے اور اس پر صرف اور صرف اکیلی حضرت عائشہ کے لئے عمل کیا ہے_ یہ بات حقیقتاًتعجب آور ہے اور نہایت ہی عجیب ہے

ایک نئے دور کی ابتداء

بہر حال نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بیت الشرف میں حضرت عائشہ کے آنے سے امن و آشتی اور عظمت و وقار کے نمونہ اس گھر میں خاص قسم کی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوگئیں اوریہ گھر بہت سے ایسے اختلافات اور جھگڑوں کی جولانگاہ بن گیا جو اکثر اوقات نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے غم و غصّہ کے موجب بنتے تھے اوراکثر جھگڑوں میں حضرت عائشہ کا کردار بنیادی ہوتا تھا_

ہمارے اس مدعا پر تاریخ اور متواتر احادیث گواہ ہیں بلکہ بعض منابع کے مطابق خود حضرت عائشہ نے تصریح کی ہے کہ : ''نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیت الشرف میں رونما ہونے والے تما م اختلافات کا سبب میں ہی تھی''_

مومنین کے درمیان صلح والی آیت:

بعض مورخین نے غزوہ بدر سے پہلے کے حالات میں لکھا ہے(۱) کہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک مرتبہ خزرج کے قبیلہ بنی حرث میں سعدبن عبادہ کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے _ یہ واقعہ عبداللہ بن ابی بن سلول کے اسلام لانے سے پہلے کاہے_

____________________

۱)سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۶۴_

۲۶

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی سواری پرسوارعبداللہ بن ابی کی ایک محفل کے قریب سے گذرے جس میں مسلمان، مشرکین، اور یہودی ملے جلے بیٹھے تھے _ ان میں عبداللہ بن رواحہ بھی موجود تھا_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سواری کی ٹاپوں سے گرد و غبار اڑا تو ابن ابی نے اپنی چادر سے ناک ڈھاپنتے ہوئے کہا:'' ہم پر گرد و غبار نہ اڑاؤ''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سواری سے نیچے اترے اور اسے مسلمان ہونے کی دعوت دی تو ابن ابی کہنے لگا : '' بھلے مانس اگر تیری باتیں سچ ہیں تو یہ سب سے بہترین باتیں ہیں لیکن تیرے کہنے کا انداز بالکل بھی صحیح نہیں ہمیں محفل میں آکر پریشان مت کرو ،جاؤ اپنی سوار ی کا رخ کرواور جو تمہارے پاس آئے تم اسے یہ باتیں سنانا''_ ابن رواحہ نے کہا:'' جی ہاں یا رسول اللہ آپ ہمارے پاس آکر ہمیں اطمینان سے یہ باتیں سنائیں کیونکہ ہمیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ فرمائشےات پسند ہیں '' _ پھر تو مسلمانوں اور مشرکوںکے درمیان ایسی گالی گلوچ شروع ہوگئی کہ مارکٹائی تک نوبت پہنچنے والی تھی _ لیکن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا انہیں خاموش رہنے کی برابر تلقین کرتے رہے ، یہاں تک کہ وہ خاموش ہوگئے_

اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سعد بن عبادہ کے پاس تشریف لے گئے اور سارا ماجرا اسے سنایا_ سعد نے عرض کی کہ آپ ابن ابی کو چھوڑ دیں کیونکہ جلد ہی ہم اس پر ہلہ بولیں گے _ لیکن جب وہ ان کے حملے سے پہلے اسلام لے آیا تو سعد بن عبادہ کے قبیلہ والے اس پر چڑھائی سے باز رہے _

دوسری روایت یہ کہتی ہے کہ رسول کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور کچھ مسلمان آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ ابن ابی کی طرف تشریف لے گئے تا کہ ا س کے قبیلے سے روابط برقرار کریں _جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کے پاس پہنچے تو اس نے کہا: ''دور ہو جاؤ مجھ سے بخدا تمہاری سواری کی بد بو سے مجھے بہت تکلیف ہوئی ہے ''_ اس پرایک انصاری صحابی بولے:'' اللہ کی قسم تیرے وجود کی بوسے رسول اللہ کی سواری کی بو کہیں زیادہ پاکیزہ ہے''_ ابن ابی کے قبیلے کے آدمی کو غصہ آیا اس نے اسے گا لیاں دیں_ اب طرفین غضبناک ہوگئے اور پھر دونوں میں چھڑیوں اورجوتوں سے لڑائی ہوئی _

۲۷

اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی:

( و ان طائفتان من المومنین اقتتلوا فاصلحوا بینهما ) (حجرات _۹)

اگر مومنین کے دو گروہوں میں لڑائی ہوجائے تو ان میں صلح کرادو_(۱)

تفسیر مجمع البیان میں مذکورہے کہ جس نے ابن ابی سے مذکورہ بات کی وہ عبداللہ بن رواحہ تھے اور لڑائی ابن رواحہ کے قبیلے اوس اور ابن ابی کے قبیلے خزرج کے درمیان ہوئی_

البتہ دونوں روایات قابل اعتراض ہیں _کیونکہ:

اولاً: آیت صلح پہلی روایت پہ منطبق نہیں ہوتی کیونکہ اس روایت کی روسے جھگڑا مشرکوں اور مسلمانوں کے درمیان تھادو مسلمان گروہوں کے درمیان نہیں _بلکہ دوسری روایت سے بھی ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ جھگڑا مومنین کے دوگروہوں میں تھا _اگر دونوں روایات کو ایک روایت قرار دیں کیونکہ دونوں کا سیاق و سباق اور مضمون ایک ہی ہے تو پھر بھی یہ اطمینان حاصل نہیں ہوتا کہ یہ آیہ مجیدہ اسی مناسبت سے نازل ہوئی ہو_

ثانیاً : آیہ مجیدہ سورہ مبارکہ حجرات میں ہے جو ہجرت کے چند سال بعد نازل ہوئی _کیونکہ اس سورت کا نزول سورہ مجادلہ ، اور جنگ خندق کی مناسبت سے نازل ہونے والی سورت احزاب اور دیگر سورتوں کے نزول کے بعد ہوا_ جبکہ یہ بات گزر چکی ہے کہ مذکورہ واقعہ جنگ بدر سے پہلے کاہے_ ان ساری باتوں کے علاوہ روایات کے مضامین میں بھی اختلاف و تناقض پایا جاتاہے جو واضح ہے_

البتہ ایسا بھی نہیں کہ روایت سرے سے ہی ناقابل قبول اور جعلی ہو_ تا ہم ہو سکتا ہے یہ واقعہ ہجرت کے چند سال بعد سورہ حجرات کے نزو ل اور ابن ابی کے اسلام لانے کے بعد رونما ہوا ہو اور جھگڑا مومنین کے دو گروہوں کے درمیان ہو_ اس اعتبار سے دوسری روایت مضمون کے زیادہ قریب اور مناسب ہے_

____________________

۱)السیرة الحلبیہ ج/۲ ص۶۳و۶۴،درمنثورج/۶ص۹۰از مسلم، بخاری، احمد، بیہقی کی سنن ، ابن مردویہ ، ابن جریر اور ابن منذر ، حیاة الصحابہ ج/۲ ص ۵۷۸ ،۵۷۹ ، ۵۶۰از البخاری ج/۱ص ۳۷۰ ، ج/۳ ص ۸۴۵_

۲۸

سلمان محمدیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاقبول اسلام :

پہلی ہجری میں اوربقولے اسی سال کے ماہ جمادی الاولی(۱) میں سلمان محمدیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم المعروف سلمان فارسی (حشر نا الله معه و فی زمرته )نے اسلام قبول کیا_ یہی وہ شخصیت ہیں جن کے بارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ اہل بیت علیھم السلام نے فرمایا:''سلمان منا اهل البیت'' (۲) _

یہی وہ سلمان ہیں جنہوں نے دین حق کی تلاش میں اپنے علاقے سے ہجرت کی اور اس را ہ میں انہوں نے بہت ساری مصیبتیں اور مشکلات برداشت کیں _ یہاں تک کہ غلام ہوئے اور پھر نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھوں آزاد ہوئے(۳) _

کہتے ہیں کہ مدینہ میں ''قبا'' کے مقام پر حضرت سلمان فارسی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضری دی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے یہ کہہ کہ کھجوریں پیش کیں کہ یہ صدقہ ہے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خودتو کھانے سے انکار فرمایالیکن اصحاب سے امر فرمایا کہ کھالیں تو انہوں نے یہ کھجوریں کھالیں_ حضرت سلمان نے اسے پہلی نشانی شمار کیا _

اگلی مرتبہ پھر جناب سلمان کی ملاقات آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مدینہ میں ہوئی_ اس نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں کھجوریں یہ کہہ کر پیش کیں کہ یہ تحفہ ہے _آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبول فرمایا اور کھجوریں کھالیں پس حضرت سلمان نے اسے دوسری نشانی شمار کیا _

____________________

۱)تاریخ الخمیس ج/ ۱ ص ۳۵۱_

۲)قاموس الرجال ج/۴ ترجمہ سلمان_

۳) المصنف ج / ۸ ص ۴۱۸ میںان کے اسلام لانے کا واقعہ مذکور ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ سلمان فارسی کے علاقے میں ایک راہب تھا _ آپ نے بعض خاص قسم کی تعلیمات اس سے سیکھیں اور علاقے کے لوگوں کو بتائیں تو انہوں نے راہب کو اپنے علاقے سے نکال باہر کیا_ آپ اپنے اہل و عیال سے چھپ کر اس کے ساتھ وہاں سے نکلے اور موصل پہنچ گئے _ وہاں انکی ملاقات چالیس۴۰راہبوں سے ہوئی _ چند ماہ بعد ایک راہب کے ہمراہ آپ بیت المقدس گئے وہاں ایک راہب کی سخت عبادت و ریاضت اور انکی بے چینی کو دیکھا لیکن پھر جلد ہی اس کا دل اس سے بھر گیا _ وہاں انصار کے سواروں کے ایک دستے نے ان راہبوںسے حضرت سلمان کے بارے سوال کیا توانہوںنے جواب دیا کہ یہ ایک بھگوڑا غلام ہے _پس انہوں نے اسے مدینے لے جاکر ایک باغ میں کام پر لگادیا_ اس راہب نے جناب سلمان کو بتایا تھا کہ عرب سے ایک نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عنقریب ظہور کرناہے جو صدقہ نہیں کھائے گا، ہدیہ قبول کرے گا اور اسکے شانوں پر نبوت کی مہر ہوگی _ اس راہب نے آپ سے کہا تھا کہ اسکی اتباع کرنا_

۲۹

اسکے بعد حضرت سلمان کی ملاقات آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بقیع کے ایک نشیب میں ہوئی جہاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے بعض اصحاب کی تشیع جنازہ میں شریک تھے پس قریب آئے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سلام کیا اور پیچھے پیچھے چل دیئے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی پشت مبارک سے چادر ہٹائی تو دیکھا کہ شانوں پر نبوت کی مہر موجود ہے_ پس اب وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف جھکے ،شانوں پر بوسہ دیا اور گریہ کرنا شروع کیا_ اس کے بعد اسلام قبول کیا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں اپنا سارا واقعہ بیان کیا _ اسکے بعد حضرت سلمان نے اپنے مالک سے اپنی آزادی کا معاہدہ کیا اور اپنی آزادی کی رقم ادا کرنے کے لئے محنت مزدوری کرنے لگا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اس کی مالی امداد فرمائی _ اور پھر حضرت سلمان نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی غلامی میں اپنی ساری زندگی گذاردی تا کہ اس آزادی کا حق ادا کرسکیں_

اس نے پہلی مرتبہ جنگ خندق میں حصہ لیا اور پھر اس کے بعد کئی جنگوں میں حصہ لیا_ ابن عبدالبر کا کہنا ہے کہ انہوں نے پہلے پہل جنگ بدر میں حصہ لیا اور یہ نظریہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی مالی امداد کے تناظر میں زیادہ مناسب ہے _ اسکے لئے حدیث و تاریخ کی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے _(۱) نیز ہماری کتاب''سلمان الفارسی فی مواجهة التحدی'' ( سلمان فارسی چیلنجوںکے مقابلے میں) بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں_

ایک اہم بات :

یہاں قابل ملاحظہ ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ حضرت سلمان نے ذاتی احساسات یا مفادات کی بناء پر اسلام قبول نہیں کیا اور نہ ہی کسی مجبوری یا کسی کے دباؤ یا کسی سے متاثر ہونے کی بنا پر اسلام قبول کیا بلکہ خالصتاً اپنی عقل و فکر اور سوچ و بچار کے ساتھ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے_ دین حق تک پہنچنے کے لئے انہوں نے بہت سعی و کوشش کی اور اس راہ میں بہت سی رکاوٹوں، مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کیا _ اور یہ بات اس دین کے فطری ہونے نیز عقل کے احکامات اور سالم فطرت کے تقاضوں کے مطابق ہونے کی تائید کرتی

____________________

۱)بطور مثال قاموس الرجال ج/۴ ، الاصابہ ج/ ۲ ص ۶۲ ، الاستیعاب اور دیگر کتابیں_

۳۰

ہے_ اسی طرح کی باتیں ہم حضرت ابوذرکے اسلام قبول کرنے کے واقعات میں بیان کرچکے ہیں، وہاں ملاحظہ فرماسکتے ہیں_

رومہ کا کنواں حضرت عثمان کے صدقات میں :

بعض نے حضرت عثمان کے فضائل میں لکھاہے کہ جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدینہ تشریف لائے تو سوائے رومہ کے کنویں کے کوئی اور ایسا کنواں نہ تھا جس سے صاف اور میٹھا پانی پیا جاتا_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:'' کون ہے جو اپنے ذاتی مال سے اس کنویں کو خریدے اور اپنی بالٹی اور دیگر مسلمانوںکی بالٹیاں اس میں قرار دے (یعنی سب مسلمانوں کے لئے وقف کردے ) تو اسے جنت میں اپنی پسند کا اس سے بھی اچھا کنواں ملے گا؟ ''پس حضرت عثمان نے اپنے خالص مال سے اس کنویں کو خریدا اور اس کنویں میں اپنی اور مسلمانوں کی بالٹیاں ڈال دیں_ لیکن جب حضرت عثمان کا محاصرہ ہو اتو لوگوں نے انہیں اس کنویں سے سخت پیاس کی صورت میں بھی پانی نہیں پینے دیا تھا حتی کہ وہ مجبور ہوکر سمندر کا پانی پینے لگے تھے _

لیکن ان روایات میں شدید اختلاف پایا جاتاہے_ہم بعدمیں مدارک و مصادر کی طرف اشارہ کریں گے_ انہی اختلافات کی وجہ سے ہمیں ان کے صحیح ہونے کے بارے شک ہے_یہ اختلافات مندرجہ ذیل ہیں:_

اولاً : روایات میں اتنا تناقض و اختلاف ہے کہ کوئی ایک روایت بھی دوسری سے نہیں ملتی _مثلاً کہتے ہیں کہ جب حضرت عثمان کے خلاف بغاوت ہوئی توانہوں نے باغیوں کو رومہ کے کنویں والے واقعہ کا واسطہ دیا لیکن یہاں روایتوں میں اختلاف پیدا ہوجاتا ہے _ ایک روایت تو یہ کہتی ہے کہ جب وہ اپنے گھر میں محاصرے میں تھے تو تب انہوں نے لوگوں کے سامنے آکر یہ بات کی تھی جبکہ ایک اور روایت کہتی ہے کہ اس وقت وہ مسجد میں تھے _ ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے آدھا کنواں سو اونٹنیوں کے عوض اور باقی آدھا ایک آسان نرخ پہ خریدا_دوسری روایت کہتی ہے کہ چالیس ہزار کا کنواں خریدا ایک اور روایت میں

۳۱

ہے کہ ۳۵ اونٹینوں کے عوض خریدا_ چوتھی روایت ہے کہ آدھا کنواں بارہ ہزار درہم میںاور باقی آدھا آٹھ ہزار میں خریدا_

ایک اور روایت اس بارے میں یہ ہے کہ یہ کنواں ایک یہودی کا تھا_ کوئی بھی قیمت ادا کئے بغیر اس سے پانی کا ایک قطرہ تک نہیں پی سکتا تھا_ایک اور روایت کہتی ہے کہ یہ کنواں قبیلہ مزینہ کے ایک شخص کا تھا_ تیسری روایت کہتی ہے کہ یہ کنواں بنی غفار کے ایک شخص کی ملکیت تھا_ یہاں ایک روایت یہ کہتی ہے کہ حضرت عثمان نے کنواں خریداجبکہ دوسری یہ کہتی ہے کہ انہوں نے کنواں کھودا _ لوگ دونوں روایتوں کو جمع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے پہلے کنواں خریدا لیکن اسکے بعداسے دوبارہ کھودنے کی ضرورت پڑ گئی_(۱) لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے کیونکہ وہ خود کہتے ہیں کہ اس کا ذکر حضرت عثمان نے اس وقت کیا تھا جب اصحاب کو اس کی قسم دی تھی اور یہ واقعہ صرف ایک ہی مرتبہ ہواتھا_

ایک روایت یہ کہتی ہے کہ یہ چشمہ تھا جو زمین پر جاری تھا جبکہ دوسری کہتی ہے کنواں تھا_ ایک روایت کہتی ہے کہ حضرت عثمان نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلمانوں کے مدینہ پہنچنے پر کنواں خریدا _ لیکن دوسری روایت کی حکایت یہ ہے کہ جب خلیفہ تھے تب یہ کنواں خریدا تھا_

ایک روایت میں ہے کہ خود آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے کنواں خریدنے کو فرمایا _دوسری روایت یہ کہتی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں میں اعلان کرایا کہ کوئی ہے جو کنواں خریدے_ تیسری روایت کا کہناہے کہ اس غفاری (کنویں کے مالک ) نے جنت میں دو چشموں کے بدلے بھی پاک پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھوں اسے بیچنا گوارا نہ کیا _جب یہ بات حضرت عثمان کو معلوم ہوئی تو انہوں نے اسے ۳۵ ہزار میں خریدا(۲) _

____________________

۱)اس توجیہ کو سمہودی نے وفاء الوفاء ج/ ۳ ص ۹۷۰ میں ذکر کیا ہے_

۲)ان روایات کا مطالعہ فرمائیں اور ان کا آپس میں تقابل کریں_وفاء الوفاء للسمھودی ج / ۳ ص ۹۶۷ _ ۹۷۱ ، سنن نسائی ج/۶ ص ۲۳۴، ۲۳۵ ، ۲۳۶ ، منتخب کنز العمال ج/۵ ص۱۱ ، حیات الصحابہ ج/۲ ص ۸۹ از طبرانی وابن عساکر ، مسند احمد ج /۱ ص۷۰ ، ۷۵ ، السیرة الحلبیہ ج/۲ ص۷۵ ، اسی طرح بغوی، ابن زبالہ، ابن شبة، ابن عبدالبر، الحازمی، ابن حبان، ابن خزیمہ سے بھیروایت کی گئی ہے ، الترمذی ص ۶۲۷ ، حلیة الاولیاء ج/۱ ص ۵۸ ، البخاری حاشیہ فتح الباری ج/۵ ص ۳۰۵ ، فتح الباری ج ۵ ص ۳۰۵ ، ۳۰۶ ، سنن بیہقی ج/ ۶ ص ۱۶۷ ، ۱۶۸نیز التراتیب الاداریہ _

۳۲

اختلافات اور تناقضات کی فہرست طولانی ہے جن کے ذکر کا موقع نہیں _اگر کوئی چاہے تو ان کتابوں کی طرف رجوع کرسکتاہے جن کے ہم نے حوالے دیئے ہیں_

ثانیاً : نسائی، مسند احمد اور ترمذی جیسی کتب میں ایک روایت مذکور ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب مدینہ تشریف لائے تووہاں میٹھا اور پینے کے قابل پانی نہ تھا_ یہ بات کسی طرح بھی درست نہیں ہے کیوں کہ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدینہ تشریف لائے تو میٹھے پانی کے کافی سارے کنویں تھے_ جن کنوؤں سے حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زندگی بھر پانی استعمال فرمایا_ ان کنوؤں میں سے اسقیا، بضاعہ، جاسوم اور دار ا نس کے کنویں تھے جن میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنا لعاب دین پھینکا تو اسکے بعد مدینے میں ان سے زیادہ میٹھے پانی کا کوئی اور کنواں نہ تھا(۱) اس کے علاوہ بہت سارے کنویں تھے اس سلسلے میں وفاء الوفاء کے باب '' آبار المدینہ'' کا مطالعہ کرسکتے ہیں _

ثالثاً : اگر رومہ کے کنویں والی حدیث صحیح مان لی جائے تو پھر مندرجہ ذیل جواب طلب سؤالات سامنے آتے ہیں_

۱_حضرت عثمان جو حبشہ سے تازہ آئے تھے اور انکے پاس کوئی مال و متاع بھی نہ تھا تو پھر چالیس ، پینتیس یا بیس ہزار درہم اور سو اونٹنیاں کہاں سے آگئیں _ انہوں نے کب اور کس طرح یہ مال کمایا؟_

۲ _ حضرت عثمان نے جنگ بدر کے موقع پر اتنی بڑی رقم کے ہوتے ہوئے مدد کیوں نہ کی ؟ یا ان اونٹیوں میں کوئی چیز کیوں خرچ نہ کی جو روایات کے بقول یہ ان کا خالص ذاتی مال تھا؟ حالانکہ اس وقت مسلمانوں کو چھوٹی سے چھوٹی چیز کی بھی اشد ضرورت تھی _کیونکہ دو یا تین افراد ایک ہی اونٹ پر بیٹھتے تھے اوران کے پاس صرف ایک ہی گھوڑا تھا _ مسلمانوں کے پاس صرف چھ عدد زر ہیں اور آٹھ عدد تلواریں تھیں جبکہ باقیوں نے ڈنڈوں اور کھجور کی چھڑیوں کے ساتھ جنگ کی _ اسکا اور اس کے منابع کا ذکر آئے گا_

حضرت عثمان نے اپنے اموال سے بالکل بھی مدد نہ کی ؟ کیا پھر بھی یہ بات درست اور معقول ہے کہ انہوں نے اپنے پاس موجود سب کچھ لٹا دیا اور خالی ہاتھ ہوگئے؟

____________________

۱) وفاء الوفاء للسمھودی ج/ ۳ ص ۹۵۱ ، ۹۵۶ ، ۹۵۸ ، ۹۵۹ ، ۹۷۲_

۳۳

حضرت عثمان نے کیونکر غریب مسلمانوں کو کھانا نہ کھلایا ، انکی ضروریات کو پورا نہ کیا اور انصار کی مدد نہ کی ؟ خود پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کیوں نہ کی _ جبکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شدید اقتصادی بحران کا شکار تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مسلمانوں کی معاشی حالت ہجرت کے چند سال بعدجاکے کہیں ٹھیک ہوئی؟

۳_ بعض روایات کہتی ہیں کہ حضرت عثمان کو اس کنویں کا پانی پینے سے منع کردیا گیا جس سے وہ سمندر کا پانی پینے پر مجبور ہوگئے_ یہ بات واقعاً بہت عجیب ہے پس اگر حضرت عثمان پانی حاصل کرسکتے تھے تو انہوں نے مدینہ میں دسیوں کی تعدا میں موجود دیگر کنوؤں کا میٹھا پانی کیوں استعمال نہیں کیا ؟_

کیونکہ جس شخص نے پانی پینے سے منع کیا تھا وہ تو چاہتا تھا کہ ان تک کسی طرح کا کوئی پانی ، کہیںسے بھی نہ پہنچے_ کیونکہ بقول ان کے حضرت عمار یاسر اس تک پانی پہنچانے لگے تو طلحہ نے انہیں منع کردیا _(۱)

پس جب تک حضرت علیعليه‌السلام نے اپنے بچوں کے ہمراہ پانی نہیں پہنچایا تب تک انہیں پانی میسر نہیں آیا اور واضح ہے کہ آپعليه‌السلام نے اس کام سے اپنے خاندان کو خطرات میں جھونک دیا_ کیا یہ درست ہے کہ انہوں نے واقعا سمندر کا پانی پیا تھا؟_ جبکہ سمندر کا فاصلہ مدینہ سے بہت زیادہ دور ہے _ یا یہ نمکین اور کھارا پانی استعمال کرنے سے کنایہ ہے ؟ ؟

۴_ اگر حضرت عثمان نے یہ سارا مال صدقہ کیاتھا تو کیوں ان کی مدح میں ایک آیت بھی نازل نہیں ہوئی جو اس عمل کی تعریف کرتی جبکہ حضرت علیعليه‌السلام نے مختلف اوقات میں '' جو کی تین روٹیاں'' ، '' انگوٹھی'' ، '' چاردرہم'' اسی طرح '' نجوی'' کے واقعہ میں صدقے دیئے تو مختلف آیات کے نزول سے تعریف کے مستحق بنے لیکن حضرت عثمان کئی ہزار درہم اورایک سو اونٹنیاں صدقہ دینے پر بھی کسی تعریف کے مستحق نہیں ٹھہرے بلکہ خدا نے ان کے متعلق ایک کلمہ یا ایک حرف تک بھی ارشاد نہیں فرمایا ؟ اس کے برعکس وہ روایت جو اس عظیم فضیلت کو بیان کرتی ہے اس میں بہت زیادہ تناقض پایا جاتاہے اور وہ علمی اور آزاد تنقید کے سامنے بالکل نہیں ٹھہرتی _ اس کے علاوہ انہوںنے بھی دوسرے صحابہ کی طرح ایک درہم کا صدقہ دے کر ''آیت

____________________

۱)وفاء الوفاء ج ۳ ص ۹۴۵_

۳۴

نجوی'' پر عمل کیوں نہیں کیا ؟ یہاں تک کہ اصحاب کی مذمت میں آیت نازل ہوئی_ اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے گفتگو سے قبل صدقہ دینے سے کترانے پر ان کی بھی دوسرے صحابہ سمیت مذمت کی ہے _

'' اریس'' کا کنواں

بالا خر ہم یہ نہیں جان سکے کہ صرف '' رومہ'' کے کنویں کو اتنی عزت و عظمت کیسے ملی اور اریس کے کنویں کے ساتھ ایسا کیوں نہ ہوا ؟ _ جبکہ دعوی یہ ہے کہ یہ کنواں بھی حضرت عثمان نے ہی ایک یہودی سے خریدا تھا_ پھر اسے وقف بھی کردیا تھا _(۱) اللہ تعالی حضرت عثمان کو کنوؤں کے معاملے میں برکت دے لیکن یہودیوں کو تو اس غم اور غصہ سے مرجانا چاہئے تھا کیونکہ کنویں تو وہ کھودتے تھے لیکن ان سے حضرت عثمان خرید خرید کر وقف کردیتے تھے اور یہ سب فضیلت ، کرامت اور عظمت حاصل کرتے جاتے تھے _

مسئلے کی حقیقت

ظاہراً صحیح بات وہی ہے جو '' عدی بن ثابت '' کے ذریعہ سے ابن شبہ کی روایت میں آئی ہے کہ مزینہ قبیلے کے ایک شخص کو '' رومہ '' نامی کنواں ملاتو اس نے اس کا ذکر حضرت عثمان (جو اس وقت خلیفہ تھے) سے کیاتو انہوں نے یہ کنواں بیت المال سے ۳۰ ہزار درہم کا خریدکر اسے مسلمانوں کے لئے وقف کردیا(۲) _

لیکن سمہودی نے اس روایت کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے کیونکہ ان کے نزدیک یہ روایت متروک ہے اور زبیر بن بکار نے اپنی کتاب ''عتیق'' میں اس روایت کو بیان کیا ہے_لیکن وہ اسے رد کرتے ہوئے کہتاہے:'' یہ درست نہیں کیونکہ ہمارے نزدیک ثابت یہ ہے کہ حضرت عثمان نے یہ کنواں رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں اپنے مال سے خریدکر اسے وقف کردیا تھا''(۳) _

____________________

۱) وفاء الوفاء ج ۳ ص ۹۶۸_

۲)وفاء الوفاء ج/ ۳ ص ۹۶۷ از ابن شبة _اس روایت کو زبیر بن بکار نے بھی روایت کیاہے_

۳)گذشتہ حوالہ_

۳۵

جبکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ روایات جن کی طرف زبیر بن بکار نے اشارہ کیا ہے کسی بھی لحاظ سے صحیح نہیں ہیں _خصوصاً جبکہ ان روایات میں بہت اختلاف اور تناقض پایا جاتاہے اور ان روایات پہ ایسے اعتراضات بھی گزر گئے ہیں کہ جن کا کوئی جواب نہیں نیز ان روایات کی اسنا د و مدارک میں بھی بہت سے اعتراضات ہیں _ ایسے حالات میں روایت مذکور کی سند میں متروک شخص کے ہونے میں کوئی حرج نہیں _ اور اسے ماننا ہی پڑے گا کیونکہ یہ روایت اس زمانے کے حالات اور تاریخی واقعات سے مطابقت بھی رکھتی ہے_ اور بقیہ روایات بھی صحیح نہیں ہوسکتیں کیونکہ یہ ساری کی ساری حضرت عثمان کی فضیلت بنانے کے لئے گھڑی گئی ہیں_

البتہ مذکورہ بالا روایت کا یہ جملہ ہم نہیں سمجھ سکے '' انہوں نے بیت المال مسلمین سے ۳۰ ہزار درہم کا کنواں خریدا اور پھر مسلمانوں کے لئے اسے وقف کردیا ...'' _اگر یہ کنواں مسلمانوں کے اموال سے خریدا گیا تھا تو پھر مسلمانوں ہی کے لئے وقف کرنے کا کیا معنی ہے؟ہاں اس صورت میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ در حقیقت بیت المال کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھتے تھے اس لئے اسے وقف کہتے تھے _ اور ہم نے ان کے اس نظریئے پر کچھ دلائل اور قرائن بھی بیان کئے ہیں اس لئے آپ ملاحظہ فرماسکتے ہیں(۱)

کھجور کی پیوندکاری

کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب مدینہ تشریف لائے اور کھجوروں کی پیوند کاری کر نے والے کچھ افراد کے قریب سے گذرے ( یا ان کا شور سنا ) تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے فرمایا اگر تم اس کام کو چھوڑ دو تو بہتر ہوگا _ ان لوگوں نے اس کام کو چھوڑ دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کھجوریں نرم گٹھلی والی اور خراب نکل آئیں _ پھر ایک روز ان کے قریب سے گزرے یا ان سے یہ بات ذکر کی گئی، تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے استفسار فرمایا کہ کیا ہوا تمہاری کھجوروں کو ؟ انہوں نے جواب دیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہی تو ایسا کرنے کو کہاتھا (لہذا اس کا نتیجہ واضح ہے)_آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

____________________

۱) ملاحظہ ہو ہماری کتاب : دراسات و بحوث فی التاریخ و الاسلام ، بحث ''ابوذر ، سوشلسٹ ، کیمونسٹ یا مسلمان ؟''_

۳۶

نے فرمایا:'' تم لوگ دنیاوی امور کو مجھ سے بہترجانتے ہو'' _ یا یہ فرمایا : ''اگر مفید تھا تو انہیں ویساہی کرنا چاہئے تھا میں نے تو یوں ہی ایک گمان کیا تھا_ لہذا تم لوگ اس گمان کی وجہ سے میرا مؤاخذہ نہیں کرسکتے _ البتہ میں جب اللہ تعالی کی کوئی بات تمہیں بتاؤں تو تم اس پر ضرور عمل کرو کیونکہ میں خدا پر ہرگز جھوٹ نہیں بولتا''_(۱)

ہمیں اس روایت کے صحیح ہونے میں شک ہے _کیونکہ اس روایت کی نصوص میں بھی اختلاف پایا جاتاہے _اس کے علاوہ مندرجہ ذیل چند سوالات کا پوچھنا ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایسے کاموں میں مداخلت کیوں کرتے تھے جن سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کوئی واسطہ ہی نہ تھا اور نہ ہی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان میں کوئی مہارت حاصل تھی ؟

کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہیں جانتے تھے کہ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی باتوں کو اہمیت دیتے ہیں _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے ہرلفظ پر عمل کرتے اور اس سے متاثر ہوتے ہیں ؟ ؟_

لوگ اتنے بڑے نقصان پر کیسے راضی ہوگئے؟ پھرآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مشور ے کے نتیجہ میں ہونے والے نقصان کا ذمہ دار کون تھا؟ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ کہنا کیسا ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تو وہ ہیں جنہوں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص کو حکم دیا کہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جو کچھ بھی سن رہاہے سب تحریر کرے کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان مبارک سے سوائے حق کے کوئی چیز نہیں نکلتی ؟ یہ روایت بہت مشہور و معروف ہے _ یہ روایت اپنے مآخذو مدارک کے ساتھ پہلی جلد میں بیان ہوچکی ہے ، وہاں ملاحظہ فرمائیں_

اسی طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سن مبارک اس وقت (۳۳ تینتیس) سال سے زیادہ تھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عرب خطے کے مرکزی حصے کے رہنے والے تھے_ کیا ہم اس بات کی تصدیق کرسکیں گے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیوند کاری اور اس کے فوائد کو نہیں جانتے تھے اور یہ کہ کھجور اسکے بغیر کوئی نتیجہ نہیں دیتی؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زندگی کا

____________________

۱)صحیح مسلم ج/۷ ص ۹۵، سنن ابن ماجہ ج/۲ ص ۸۲۵ کتاب الرھون باب ۱۵، مسنداحمد ج/۶ ص۱۲۳نیز ج ۳ ص ۱۵۲، البر صان والعرجان ص ۲۵۴، مشکل الآثارج/۲ص۲۹۴، کشف الاستار عن مسند البزار ج ۱ ص ۱۱۲ ، مسند ابویعلی ج ۶ ص ۱۹۸و ۲۳۸ و صحیح ابن حبان مطبوعہ مؤسسة الرسالہ ج ۱ ص ۲۰۱_

۳۷

ایک بڑا عرصہ اس کے متعلق کچھ بھی نہ سنا ہو حالانکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انہی عربوں کے درمیان اور ان کے ساتھ رہتے تھے یا کم از کم ان کی ہمسائیگی میں تو تھے؟

بالآخر کیا یہ صحیح ہے کہ دنیاوی امور میں لوگوں پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت واجب نہ تھی؟ اور یہ کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی رائے بیان فرمائی تھی؟ کیا یہ درست ہے کہ اسلام، دین اور دنیا میں فاصلے کا قائل ہو اور اس دین مقدس کا کل ہم و غم دنیاوی امور نہ ہوں بلکہ صرف اخروی امور ہوں ؟ کیا یہ اسلام پر بہتان اور تہمت نہیں ہے ؟ کیا یہ سب کچھ اسلام اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے برخلاف نہیں ؟اور کیا یہ سیکو لرازم کی طرف اشارہ نہیں ؟ اور اسلام کو صرف عبادت گا ہوں میں منحصر کرنے کی ابتداء نہیں ؟

۳۸

۴۱

تیسری فصل :

ابتدائے ہجرت میں بعض اساسی کام

۳۹

تمہید:

مدینہ پہنچنے کے فوراً بعد رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بہت سے ایسے بنیادی کام انجام دیئے جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اسلامی دعوت کے مستقبل سے مربوط تھے، یہ کام مختلف نوعیت کے تھے ذیل میں ہم اختصار کے ساتھ ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں_

۱: نماز جمعہ کا انعقاد_

۲ : مسجد قبا کی تعمیر،ان دونوں کا موں کے متعلق ہم پہلے بحث کرچکے ہیں_

۳ : مدینہ میں مسجد کی تعمیر _اس بارے میں ایک علیحدہ فصل میں بات کریں گے_

۴ : ہجری تاریخ کا آغاز _اس کے لئے بھی ایک علیحدہ فصل مخصوص کی گئی ہے_

۵ : مہاجرین و انصار کے درمیان بھائی چارہ_

۶ : مسلمانوں کے آپس میں آئندہ تعلقات نیز غیر مسلم اقوام کے ساتھ ان کے روابط

کی نوعیت اور حدود کا تعین_

۷ : علاقے میں بسنے والے یہودیوں سے صلح :

اور ان مؤخر الذکر تین امور کے لئے بھی علیحدہ فصل رکھی گئی ہے_

اس سلسلے میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کچھ اور کام بھی انجام دیئے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت طیبہ پر روشنی ڈالتے ہوئے ہم ان کی طرف اشارہ کریں گے ، یہاں ہم مؤخر الذکر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پانچ کاموں کی وضاحت کرتے ہیں اور ابتدا ہجری تاریخ کے آغاز سے کرتے ہیں_

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

لفظ ”انفسنا“ کے علی علیہ السلام کی ذات پر اطلاق ہونے کا قرینہ ”ندع“ و ”انفسنا“ کے درمیان پائی جا نے والی مغایرت ہے کہ جوعقلاًوعرفاً ظہور رکھتی ہے۔اس فرض میں ”ندع“بھی اپنے معنی میں استعمال ہواہے اور”ابناء نا“بھی اپنے حقیقی معنی میں استعمال ہواہے۔

لیکن یہ کہ آلوسی کی بات دلیل کے خلاف ہے،کیونکہ اتنی سا ری احادیث جونقل کی گئی ہیںوہ سب اس بات پردلالت کرتی تھیں کہ”انفسنا“سے مرادعلی علیہ السلام ہیں اوریہ دعویٰ تواترکے ذریعہ بھی ثابت ہے(۱) لہذاوہ سب احادیث اس قول کے خلاف ہیں۔

شیعوں کے استدلال پرآلوسی کادوسرااعتراض

شیعوں کے استدلال پرآلوسی کادوسراجواب یہ ہے:اگرفرض کریں کہ”انفسنا“کا مقصداق علی(علیہ السلام)ہوں،پھربھی آیہء شریفہ حضرت علی(ع)کی بلافصل خلافت پر دلالت نہیں کرتی ہے۔کیونکہ”انفسنا“ کااطلاق حضرت علی(ع)پراس لحاظ سے ہے کہ نفس کے معنی قربت اورنزدیک ہو نے کے ہیں اوردین و آئین میں شریک ہونے کے معنی میں ہے اوراس لفظ کا اطلاق حضرت علی(ع)کے لئے شاید اس وجہ سے ہوان کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ دامادی کارشتہ تھااوردین میں دونوں کا اتحادتھا۔اس کے علاوہ اگرمقصودوہ شخص ہوجوپیغمبراکرم

____________________

۱۔معرفةعلوم الحدیث،ص۵۰،دارالکتب العلمیہ،بیروت

۸۱

(ص)کے مساوی ہے تو کیامساوی ہونے کامعنی تمام صفات میں ہے یابعض صفات میں ؟اگر تمام صفات میں مساوی ہونامقصود ہے تواس کالازمہ یہ ہوگاکہ علی(علیہ السلام)پیغمبر (ص)کی نبوت اورخاتمیت اورتمام امت پرآپکی بعثت میں شریک ہیں اوراس قسم کامساوی ہونامتفقہ طورپرباطل ہے۔اوراگرمساوی ہونے کامقصدبعض صفات میں ہے یہ شیعوں کی افضلیت وبلا فصل امامت کے مسئلہ پردلالت نہیں کرتاہے۔

اس اعتراض کا جواب

آلوسی کے اس اعتراض واستدلال کا جواب دیناچند جہتوں سے ممکن ہے:

سب سے پہلے تو یہ کہ:”نفس کے معنی قربت و نزدیکی“اوردین وآئین میں شریک ہوناکسی قسم کی فضیلت نہیں ہے،جبکہ احادیث سے یہ معلوم ہوتاہے کہ یہ اطلاق حضرت علی علیہ السلام کے لئے ایک بہت بڑی فضیلت ہے اور جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا ہے ایک حدیث کے مطابق سعدبن ابی وقاص نے معاویہ کے سامنے اسی معنی کوبیان کیااوراسے حضرت علی علیہ السلام کے خلاف سبّ وشتم سے انکار کی دلیل کے طورپر پیش کیاہے۔

دوسرے یہ کہ :نفس کے معنی کا اطلاق دین و آئین میں شریک ہونایارشتہ داری وقرابتداری کے معنی مجازی ہے اوراس کے لئے قرینہ کی ضرورت ہے اوریہاں پرایسا کوئی قرینہ موجودنہیں ہے۔

تیسرے یہ کہ:جب نفس کے معنی کااطلاق اس کے حقیقی معنی میں ممکن نہ ہوتواس سے مرادوہ شخص ہے جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جانشین ہواوریہ جا نشینی اورمساوی ہو نا مطلقاًہے اوراس میں پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام اوصاف اورعہدے شامل ہیں،صرف نبوت قطعی دلیل کی بناء پراس دائرہ سے خارج ہے۔

۸۲

چوتھے یہ کہ:اس صورت میں آلوسی کی بعد والی گفتگو کے لئے کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ہے کہ مساوات تمام صفات میں ہے یا بعض صفات میں ،کیونکہ مساوات تمام صفات میں اس کے اطلاق کی وجہ سے ہے،صرف وہ چیزیں اس میں شامل نہیں ہیں جن کو قطعی دلیلوں کے ذریعہ خارج و مستثنی کیا گیا ہے جیسے نبوت و رسالت ۔لہذا پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی افضیلت اور امت کی سر پرستی نیز اسی طرح کے اور تمام صفات میں حضرت علی علیہ السلام پیغمبر کے شریک نیز ان کے برابر کے جا نشین ہیں ۔

شیعوں کے استدلال پر آلوسی کا تیسرا عتراض

آلوسی کا کہنا ہے:اگریہ آیت حضرت علی(علیہ السلام) کی خلافت پر کسی اعتبار سے دلالت کرتی بھی ہے تواس کا لازمہ یہ ہوگا کہ:حضرت علی(ع)پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں امام ہوں اوریہ متفقہ طورپر باطل ہے۔ییی

اگر یہ خلافت کسی خاص وقت کے لئے ہے تو سب سے پہلی بات یہ کہ اس قید کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے اور دوسرے یہ کہ اہل سنت بھی اسے قبول کرتے ہیں یعنی حضرت علی(ع)ایک خاص وقت، میں کہ جوان کی خلافت کازمانہ تھا،اس میں وہ اس منصب پرفائزتھے۔

اس اعتراض کاجواب

سب سے پہلی بات یہ کہ :حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی آنحضرت صل (ص)کے زمانہ میں ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جو بہت سی احادیث سے ثا بت ہے اورا س کے لئے واضح ترین حدیث،حدیث منزلت ہے جس میں حضرت علی علیہ السلام کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

۸۳

کی نسبت کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ان کی مثال ایسی ہی تھی جیسے ہارون کی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے، واضح ر ہے کہ حضرت ہارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں ان کے جانشین تھے کیوں کہ قرآن مجید حضرت ہارون علیہ السلام کے بارے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قول ذکر کرتا ہے کہ آپ نے فرمایا ”اخلفنی فی قومی“(۱) ” تم میری قوم میں میرے جانشین ہو۔“

اس بناء پر جب کبھی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حاضر نہیں ہو تے تھے حضرت علی علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین ہو تے تھے )چنانچہ جنگ تبوک میں ایساہی تھا)اس مسئلہ کی حدیث منزلت میں مکمل وضاحت کی گئی ہے۔(۲)

دوسرے یہ کہ:حضرت علی علیہ السلام کا نفس پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قرار دیا جانا جیسا کہ آیہء شریفہ مباہلہ سے یہ مطلب واضح ہے،اوراگر کوئی اجماع واقع ہو جائے کہ آنحضرت کی زندگی میں حضرت علی علیہ السلام آپ کے جانشین نہیں تھے،تویہ اجماع اس اطلاق کوآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں مقید و محدود کرتا ہے۔ نتیجہ کے طور پریہ اطلاق آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے وقت اپنی پوری قوت کے ساتھ باقی ہے۔

لہذایہ واضح ہوگیا کہ آلوسی کے تمام اعتراضات بے بنیاد ہیں اورآیہء شریفہ کی دلالت حضرت علی علیہ السلام کی امامت اور بلافصل خلافت پر بلا منا قشہ ہے۔

فخررازی کا اعتراض:

فخررازی نے اس آیہء شریفہ کے ذیل میں محمودبن حسن حصمی(۳) کے استدلال کو ،کہ جو انھوں نے اسے حضرت علی علیہ السلام کی گزشتہ انبیاء علیہم السلام پرافضلیت کے سلسلہ میں پیش کیا ہے،ٰٰنقل کرنے کے بعد)ان کے استدلال کو تفصیل سے ذکر کیا ہے)اپنے اعتراض کو یوں ذکر کیا ہے:

ایک تویہ کہ اس بات پراجماع قائم ہے کہ پیغمبر (ص)غیرپیغمبرسے افضل ہو تا ہے۔

دوسرے: اس بات پر بھی اجماع ہے کہ)علی علیہ السلام)پیغمبرنہیں تھے۔مذکورہ ان

_____________________

۱۔اعراف /۱۴۲

۲۔اس سلسلہ میں مصنف کا پمفلٹ”حدیث غدیر،ثقلین ومنزلت کی روشنی میں امامت“ملاحظ فرمائیں۔

۳۔شیعوں کاایک بڑا عقیدہ شناس عالم جس کا پہلے ذکرآیا ہے۔

۸۴

دومقدموں کے ذریعہ ثابت ہو جاتا ہے کہ آیہء شریفہ حضرت علی(علیہ السلام)کی گزشتہ انبیاء)علیہم السلام)پرافضلیت کو ثابت نہیں کرتی ہے۔

فخررازی کے اعتراض کا جواب

ہم فخررازی کے جواب میں کہتے ہیں:

پہلی بات یہ کہ ا س پر اجماع ہے کہ ہر ”نبی غیر نبی سے افضل ہے“اس میں عمومیت نہیں ہے کہ جس سے یہ ثابت کریں کہ ،ہر نبی دوسرے تمام افرادپر حتی اپنی امت کے علاوہ دیگر افراد پر بھی فوقیت وبرتری رکھتا ہے بلکہ جو چیز قابل یقین ہے وہ یہ کہ ہر نبی اپنی امت سے افضل ہوتا ہے۔اور اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے یہ کہاجائے:”مرد عورت سے افضل ہے“ ا ور یہ اس میں معنی ہے کہ مردوں کی صنف عورتوں کی صنف سے افضل ہے نہ یہ کہ مردوں میں سے ہرشخص تمام عورتوں پرفضیلت وبر تری رکھتا ہے۔اس بناء پراس میں کوئی منافات نہیں ہے کہ بعض عورتیں ایسی ہیں جو مردوں پر فضیلت رکھتی ہیں۔

دوسرے یہ کہ:مذکورہ مطلب پر اجماع کاواقع ہونا ثابت نہیں ہے،کیونکہ شیعہ علماء نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی ہے اوروہ اپنے ائمہ معصو مین) علیہم السلام) کو قطعی دلیل کی بناء پر گزشتہ انبیاء سے برتر جانتے ہیں۔

ابوحیان اندلسی نے تفسیر”البحرالمحیط ۱“ میں شیعوں کے استدلال پرآیت میں نفس سے مراد تمام صفات میں ہم مثل اور مساوی ہو ناہے)فخررازی ۲ کا ایک اور اعتراض نقل

کیا ہے جس میں یہ کہا ہے:

”نفس کے اطلاق میں یہ ضروری نہیں ہے تمام اوصاف میں یکسانیت ویکجہتی

____________________

۱۔البحرالمحیط،ج۲،ص۴۸۱،مؤسسہ التاریخ العربی ،داراحیائ التراث العربی

۲۔اگرابوحیان کارازی سے مقصودوہی فخررازی ہے توان اعتراضات کواس کی دوسری کتابوں سے پیداکرناچاہئے،کیونکہ تفسیرکبیرمیں صرف وہی اعتراضات بیان کئے گئے ہیں جوذکرہوئے۔

۸۵

ہو،چنانچہ متکلمین نے کہا ہے:” صفات نفس میں یک جہتی اوریک سوئی یہ متکلمین کی ایک اصطلاح ہے،اورعربی لغت میں یکسانیت کابعض صفات پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔عرب کہتے ہیں:”ہذامن انفسنا“یعنی:یہ”اپنوں میں سے ہے،یعنی ہمارے قبیلہ میں سے ہے۔“

اس کاجواب یہ ہے کہ تمام صفات یابعض صفات میں یکسا نیت ویکجہتی یہ نہ تو لغوی بحث ہے اور نہ ہی کلامی ،بلکہ یہ بحث اصول فقہ سے مربوط ہے،کیونکہ جب نفس کا اس کے حقیقی معنی میں استعمال نا ممکن ہو تو ا سے اس کے مجازی معنی پر عمل کرنا چاہے اور اس کے حقیقی معنی سے نزدیک ترین معنی کہ جس کو اقرب المجازات سے تعبیرکیا جاتا ہے )کواخذ کر نا چا ہیئے اور”نفس“کے حقیقی معنی میں اقرب المجازات مانندو مثل ہوناہے۔

یہ مانندو مثل ہونامطلق ہے اوراس کی کوئی محدودیت نہیں ہے اوراس اطلاق کاتقاضاہے کہ علی علیہ السلام تمام صفات میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مانندو مثل ہیں،صرف نبوت ورسالت جیسے مسائل قطعی دلائل کی بناپراس مانندو مثل کے دائرے سے خارج ہیں۔اس وضاحت کے پیش نظرتمام اوصاف اورعہدے اس اطلاق میں داخل ہیں لہذامن جملہ تمام انبیاء پرفضیلت اورتمام امت پرسرپرستی کے حوالے سے آپ (علیہ السلام)علی الاطلاق رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ما نندہیں۔

۸۶

ابن تیمیّہ کا اعتراض

ابن تیمیّہ حضرت علی علیہ السلام کی امامت پرعلامہ حلی کے استدلال کوآیہء مباہلہ سے بیان کرتے ہوئے کہتاہے:

”یہ کہ پیغمبراکرم (ص)مباہلہ کے لئے علی،فاطمہ اورحسن وحسین )علیہم

السلام)کو اپنے ساتھ لے گئے یہ صحیح حدیث میں ایاہے(۱) ،لیکن یہ علی(علیہ السلام)کی امامت اور ان کی افضلیت پردلالت نہیں کر تاہے،کیونکہ یہ دلالت اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب آیہء شریفہ علی(علیہ السلام)کے پیغمبر (ص)کے مساوی ہونے پردلالت کرے حالانکہ آیت میں ایسی کوئی دلالت نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی شخص پیغمبر (ص)کے مساوی نہیں ہے،نہ علی(علیہ السلام)اورنہ ان کے علاوہ کوئی اور۔

دوسرے یہ کہ”انفسنا“کالفظ عربی لغت میں مساوات کا معنی میں نہیں ایاہے(۲) اورصرف ہم جنس اور مشابہت پردلالت کرتاہے۔اس سلسلہ میں بعض امور مشابہت،جیسے ایمان یادین میں اشتراک کافی ہے اوراگرنسب میں بھی اشتراک ہوتواور اچھا ہے۔ اس بناپرآیہ شریفہ ۔۔۔( اٴنفسنا واٴنفسکم ) ۔۔۔ میں ”انفسنا“ سے مرادوہ لوگ ہیں جودین اورنسب میں دوسروں سے زیادہ نزدیک ہوں۔اس لحاظ سے آنحضرت (ص)۔ بیٹوں میں سے حسن وحسین)علیہما السلام)اور عورتوں میں سے فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)اورمردوں میں سے علی)علیہ ا لسلام)کواپنے ساتھ لے گئے اورآنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے لئے ان سے زیادہ نزدیک ترکوئی نہیں تھا۔دوسرے یہ کہ مباہلہ اقرباء سے انجام پاتاہے نہ ان افرادسے جوانسان سے دورہوں،اگرچہ یہ دوروالے افرادخداکے نزدیک افضل وبرترہوں۔

____________________

۱۔ابن تیمیہ نے قبول کیا ہے کہ آیہء شریفہ میں ”انفسنا“مذکورہ حدیث کے پیش نظر علی علیہ السلام پرانطباق کرتاہے

۲۔ابن تیمیہ نے اپنی بات کے ثبوت میں قرآن مجیدکی پانچ آیتوں کوبیان کیاہے،من جملہ ان میں یہ آیتیں ہیں:

الف۔( و لولا إذسمعتموه ظن المؤمنون والمؤمنات باٴنفسهم خیراً ) نور/۱۲”آخرایساکیوں نہ ہواکہ جب تم لوگوں نے اس تہمت کوسناتومومن ومومنات اپنے بارے میں خیرکاگمان کرتے“مقصودیہ ہے کہ کیوں ان میں سے بعض لوگ بعض دوسروں پراچھاگمان نہیں رکھتے ہیں۔

ب۔( ولا تلمزوا اٴنفسکم ) حجرات/۱۱ ”آپس میں ایک دوسرے کوطعنے بھی نہیں دینا“

۸۷

ابن تیمیہ کہ جس نے رشتہ کے لحاظ سے نزدیک ہونے کا ذکرکیاہے اوردوسری طر ف پیغمبر (ص)کے چچاحضرت عباس کہ جورشتہ داری کے لحاظ سے حضرت علی علیہ السلام کی بہ نسبت زیادہ قریب تھے اورزندہ تھے۔ کے بارے میں کہتاہے:

”عباس اگرچہ زندہ تھے،لیکن سابقین اولین)دعوت اسلام کو پہلے قبول کر نے والے) میں ان کا شمارنہیں تھااورپیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچیرے بھائیوں میں بھی کوئی شخص علی(علیہ السلام)سے زیادہ آپ سے نزدیک نہیں تھا۔اس بنا پرمباہلہ کے لئے علی(علیہ السلام)کی جگہ پرُ کر نے والاپیغمبر (ص)کے خاندان میں کوئی ایسا نہیں تھا کہ جس کو آپ انتخاب کرتے یہ مطلب کسی بھی جہت سے علی(علیہ السلام)کے آنحضرت (ص)سے مساوی ہونے پردلالت نہیں کرتاہے۔“

ابن تیمیّہ کے اعتراض کا جواب

ابن تیمیہ کاجواب چندنکتوں میں دیاجاسکتاہے:

۱ ۔ اس کا کہناہے:”پیغمبر (ص)کے مساوی ومانند کوئی نہیں ہوسکتا ہے“۔اگرمساوی ہونے کا مفہوم و مقصدتمام صفات،من جملہ نبوت و رسالت میں ہے تویہ صحیح ہے۔لیکن جیسا کہ بیان ہوا مساوی ہونے کا اطلاق پیغمبر (ص)کی ختم نبوت پر قطعی دلیلوں کی وجہ سے مقید ہے اوراس کے علاوہ دوسرے تمام امورمیں پیغمبر کے مانند و مساوی ہونا مکمل طورپراپنی جگہ باقی ہے اوراس کے اطلاق کو ثابت کرتا ہے دوسری طرف سے اس کی یہ بات کہ”انفسنا“کا لفظ عربی لغت میں مساوات کے معنی کا اقتضاء نہیں کر تا ہے“صحیح نہیں ہے اگرچہ اس نے قرآن مجید کی چند ایسی آیتوں کو بھی شاہد کے طورپر ذکرکیا ہے جن میں ”اٴنفسهم یااٴنفسکم “کا لفظ استعمال ہوا ہے،حتی کہ ان آیتوں میں بھی مساوی مراد ہے۔مثلاًلفظ”ولاتلمزوا اٴنفسکم “یعنی”اپنی عیب جوئی نہ کرو“جب لفظ”انفس“کا اطلاق دوسرے افرادپرہوتاہے،تومعنی نہیںرکھتاہے وہ حقیقت میں خودعین انسان ہوں۔ناچاران کے مساوی اورمشابہ ہونے کامقصد مختلف جہتوں میں سے کسی ایک جہت میں ہے اور معلوم ہے کہ وہ جہت اس طرح کے استعمالات میں کسی ایمانی مجموعہء یاقبیلہ کے مجموعہ کا ایک جزو ہے۔

۸۸

اس بناء پران اطلاقات میں بھی مساوی ہونے کالحاظ ہوا ہے ،لیکن اس میں قرینہ موجودہے کہ یہ مساوی ایک خاص امر میں ہے اوریہ اس سے منافات نہیں رکھتاہے اور اگر کسی جگہ پرقرینہ نہیں ہے تومساوی ہونے کا قصد مطلق ہے،بغیراس کے کہ کوئی دلیل اسے خارج کرے۔

۲ ۔ابن تیمیہ نے قرابت یا رشتہ داری کو نسب سے مر تبط جانا ہے،یہ بات دودلیلوں سے صحیح نہیں ہے:

سب سے پہلے بات تو یہ، مطلب آیہء شریفہ ”نسائنا ونسا ئکم“سے سازگار نہیں ہے،کیونکہ ”نسائنا“کا عنوان نسبی رشتہ سے کوئی ربطہ نہیں رکھتا ہے۔البتہ یہ منافی نہیں ہے کہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دختر گرامی تھیں اورآپ سے نسبی قرابت رکھتی تھیں،کیونکہ واضح ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ”بنا تنا“ ”ہماری“ بٹیاں)جو نسبی قرابت کی دلیل ہے)کے ذریعہ تعبیر نہیں کیا گیا ہے،بلکہ ”نساء نا“کی تعبیر آئی ہے،اس لحاظ سے چونکہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اس خاندان کی عورتوں میں سے ہیں اس لئے اس مجموعہ میں شامل ہیں۔اس کے علاوہ کوئی اور عورت کہ جو اس لائق ہوکہ مباہلہ میں شریک ہو سکے وجود نہیں رکھتی تھی ۔(۱)

دوسرے یہ کہ اگرمعیارقرابت نسبی اور رشتہ داری ہے توآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچاحضرت عباس(ع)اس جہت سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے زیادہ نزدیک تھے لیکن اس زمرے میں انھیں شریک نہیں کیاگیاہے!

____________________

۱۔جیساکہ پہلے بیان کیاگیاہے۔

۸۹

اس لحاظ سے قرابت،یعنی نزدیک ہونے سے مرادپیغمبراکرم (ص)سے معنوی قرابت ہے۔جس کاابن تیمیّہ نے مجبورہوکراعتراف کیاہے اورکہتاہے:

”علی(علیہ السلام)سابقین اوراولین میں سے تھے،اس لحاظ سے دوسروں کی نسبت آنحضرت (ص)سے زیادہ نزدیک تھے۔“

احادیث کی روسے مباہلہ میں شامل ہو نے والے افرادپیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاص رشتہ دارتھے کہ حدیث میں انھیں اہل بیت رسول علیہم السلام سے تعبیرکیاگیاہے۔

ان میں سے ہرایک اہل بیت پیغمبر)علیہم السلام)ہونے کے علاوہ ایک خاص عنوان کا مالک ہے،یعنی ان میں سے بعض”ابنائنا“کے عنوان میں شامل ہیں اوربعض”نسائنا“کے عنوان میں شامل ہیں اوربعض دوسرے”انفسنا“کے عنوان میں شامل ہیں۔

مذکورہ وضاحت کے پیش نظریہ واضح ہوگیاکہ”انفسنا“کے اطلاق سے نسبی رشتہ داری کا تبادر وانصراف نہیں ہوتاہے اورعلی علیہ السلام کاپیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مانندومساوی ہو ناتمام صفات،خصوصیات اورعہدوں سے متعلق ہے،مگریہ کہ کوئی چیزدلیل کی بنیادپراس سے خارج ہوئی ہو۔

اہل بیت علیہم السلام کے مباہلہ میں حاضر ہو نے کامقصدواضح ہوگیاکہ مباہلہ میں شریک ہونے والے افرادکی دعارسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعاکے برابرتھی اوران افراد کی دعاؤں کا بھی وہی اثرتھاجوآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعاکاتھااوریہ اس مقدس خاندان کے لئے ایک بلندوبرترمرتبہ ومقام ہے۔

۹۰

تیسراباب:

امامت،آیہ اولی الامر کی روشنی میں

( یا اٴیّها الّذین آمنوا اٴطیعوا اللَّه و اٴطیعوا الرسول واولی الاٴمر منکم فإن تنازعتم فی شیءٍ فردوه إلی اللّٰه و الرّسول إن کنتم تؤمنون با اللّٰه و الیوم الاٴخر، ذلک خیر و اٴحسن تاٴویلاً ) (نساء/۵۹)

”اے صاحبان ایمان!اللہ کی اطاعت کرورسول اوراولوالامرکی اطاعت کرو جوتمھیں میں سے ہیں پھراگرآپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تواسے خدااوررسول کی طرف پلٹادواگرتم اللہ اورروزآخرت پرایمان رکھنے والے ہو۔یہی تمھارے حق میں خیراورانجام کے اعتبارسے بہترین بات ہے۔“

خداوندمتعال نے اس آیہ شریفہ میں مومنین سے خطاب کیاہے اورانھیں اپنی اطاعت، پیغمبراسلام (ص)کی اطاعت اوراولی الامر کی اطاعت کرنے کاحکم فرمایاہے۔

یہ بات واضح ہے کہ پہلے مرحلہ میں خداوندمتعال کی اطاعت،ان احکام کے بارے میں ہے کہ جوخداوندمتعال نے انھیں قرآن مجیدمیں نازل فرمایاہے اورپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان احکام کولوگوں تک پہنچایاہے،جیسے کہ یہ حکم:( اٴقیمواالصلوٰ ةوآتواالزکوٰة ) پیغمبر (ص)کے فرامین کی اطاعت دو حیثیت سے ممکن ہے :

۱ ۔وہ فرمان جوسنّت کے عنوان سے آنحضرت)ص)کے ذریعہ ہم تک پہنچے ہیں:

یہ اوامراگرچہ احکام الٰہی ہیں جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بصورت وحی نازل ہوئے ہیں اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انھیں لوگوں کے لئے بیان فرمایاہے،لیکن جن مواقع پریہ اوامر”امرکم بکذااوانّہاکم من ہذا“)میں تم کو اس امرکا حکم دیتا ہوںیااس چیزسے منع کرتاہوں)کی تعبیرکے ساتھ ہوں)کہ فقہ کے باب میں اس طرح کی تعبیریں بہت ہیں )ان اوامراورنواہی کوخودآنحضرت (ص)کے اوامر ونواحی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے نتیجہ کے طور پر ان کی اطا عت آنحضرت کی اطاعت ہوگی،چونکہ مذکورہ احکام خداکی طرف سے ہیں،اس لئے ان احکام پرعمل کرنا بھی خداکی اطاعت ہوگی۔

۲ ۔وہ فرمان،جوآنحضرت)ص)نے مسلمانوں کے لئے ولی اورحاکم کی حیثیت سے جاری کئے ہیں۔

یہ وہ احکام ہیں جوتبلیغ الہی کا عنوان نہیںرکھتے ہیں بلکہ انھیں انحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس لحاظ سے جاری فرمایاہے کہ آپ مسلمانوں کے ولی،سرپرست اورحاکم تھے،جیسے جنگ وصلح نیزحکومت اسلامی کوادارہ کرنے اورامت کی سیاست کے سلسلہ میں جاری کئے جا نے والے فرامین۔

۹۱

آیہء شریفہ میں( واٴطیعواالرّسول ) کاجملہ مذکورہ دونوں قسم کے فرمانوں پرمشتمل ہے۔

تمام اوامرونواہی میں پیغمبر(ص)کی عصمت

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عصمت کوثابت کرنے کے بارے میں علم کلام میں بیان شدہ قطعی دلائل کے پیش نظر،آنحضرت (ص)ہر شی کا حکم دینے یا کسی چیز سے منع کرنے کے سلسلہ میں بھی معصوم ہیں۔آپ(ع)نہ صرف معصیت وگناہ کا حکم نہیں دیتے ہیں،بلکہ آنحضرت (ص)،امرونہی میں بھی خطا کر نے سے محفوظ ہیں۔

ہم اس آیہء شریفہ میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت مطلق اورکسی قیدوشرط کے بغیربیان ہوئی ہے۔ اگرآنحضرت (ص)کے امرونہی کرنے کے سلسلہ میں کوئی خطاممکن ہوتی یااس قسم کااحتمال ہوتا تو آیہء شریفہ میں انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کا حکم قید و شرط کے ساتھ ہوتا اورخاص مواقع سے مربوط ہوتا۔

ماں باپ کی اطاعت جیسے مسائل میں ،کہ جس کی اہمیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت سے بہت کم ہے،لیکن جب خدائے متعال والدین سے نیکی کرنے کاحکم بیان کرتا ہے، تو فرماتا ہے:

( و وصّینا الاٴنسان بوالدیه حسناً و إن جاهدک لتشرک بی مالیسلک به علم فلا تطعهما ) (عنکبوت/۸)

”اورہم نے انسان کوماں باپ کے ساتھ نیکی کا برتاؤکرنے کی وصیت کی ہے اوربتایا ہے کہ اگروہ تم کومیراشریک قرار دینے پرمجبورکریں کہ جس کہ کاتمھیں علم نہیں ہے توخبرداران کی اطاعت نہ کرنا۔“

جب احتمال ہوکہ والدین شرک کی طرف ہدایت کریں توشرک میں ان کی اطاعت کرنے سے منع فرماتاہے،لیکن آیہء کریمہ( اُولیّ الاٴمر ) میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کوکسی قیدوشرط سے محدودنہیں کیاہے۔

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کوکسی قیدوشرط کے بغیرتائیدوتاکیدکرنے کے سلسلہ میں ایک اورنکتہ یہ ہے کہ قرآن مجیدکی متعددآیات میں انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت خداوندمتعال کی اطاعت کے ساتھ اورلفظ”اطیعوا“کی تکرارکے بغیرذکرہوئی ہے۔آیہء شریفہ( واٴطیعوااللّٰه والرّسول لعلّکم ترحمون ) یعنی”خدااوررسول کی اطاعت کروتاکہ موردرحمت قرارپاؤ “مذکورہ میں صرف ایک لفظ”اطیعوا“کاخدااورپیغمبردونوں کے لئے استعمال ہونا اس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کا واجب ہوناخداکی اطاعت کے واجب ہونے کے مانندہے۔اس بناء پرپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے امرپراطاعت کرناقطعی طورپراطلاق رکھتا ہے اورناقابل شک وشبہ ہے۔

۹۲

اُولوالاامرکی اطاعت

ائمہ علیہم السلام کی امامت و عصمت کے سلسلہ میں آیةمذکورہ سے استفادہ کر نے کے لئے مندرجہ چندابعادپرتوجہ کرناضروری ہے:

ا۔اولوالامرکامفہوم

۲ ۔اولوالامرکامصداق

۳ ۔اولوالامراو رحدیث ”منزلت“حدیث”اطاعت“اورحدیث”ثقلین“

۴ ۔شیعہ اورسنی منابع میں اولوالامرکے بارے میں چنداحادیث

اولوالامرکامفہوم

اولو الامر کا عنوان ایک مرکب مفہوم پرمشتمل ہے۔اس جہت سے پہلے لفظ”اولوا“ اور پھر لفظ ”الامر“پرتوجہ کرنی چاہئے:

اصطلاح”اولوا“صاحب اور مالک کے معنی میں ہے اورلفظ”امر“دومعنی میں ایاہے: ایک ”فرمان“ کے معنی میں دوسرا”شان اورکام“کے معنی میں ۔”شان وکام“کامعنی زیادہ واضح اور روشن ہے،کیونکہ اسی سورئہ نساء کی ایک دوسری آیت میں لفظ”اولی الامر“بیان ہواہے:

( و إذجاء هم اٴمر من الاٴمن اٴو الخوف اٴذاعوا به و لوردّوه إلی الرّسول و إلی اٴولی الاٴمر منهم لعلمه الذین یستنبطونه منهم ) ۔۔(نساء/۸۳)

”اورجب ان کے پاس امن یاخوف کی خبرآتی ہے توفوراًنشرکردیتے ہیں حالانکہ اگررسولاورصاحبان امرکی طرف پلٹادیتے توان میں ایسے افراد تھے کہ جوحقیقت حال کاعلم پیداکرلیتے-“

اس آیہء شریفہ میں دوسرامعنی مقصودہے،یعنی جولوگ زندگی کے اموراوراس کے مختلف حالتوں میں صاحب اختیارہیں،اس آیت کے قرینہ کی وجہ سے”اولی الامر“کالفظ مورد بحث آیت میں بھی واضح ہوجاتاہے۔

۹۳

مورد نظرآیت میں اولوالامرکے مفہوم کے پیش نظر ہم اس نکتہ تک پہنچ جاتے ہیں کہ”اولوالامر“کا لفظ صرف ان لوگوں کو شامل ہے جو در حقیقت فطری طورپرامورکی سرپرستی اورصاحب اختیارہونے کے لائق ہیں اورچونکہ خداوندمتعال ذاتی طورپرصاحب اختیارہے اورتمام امورمیں سرپرستی کااختیاررکھتاہے،اس لئے اس نے یہ سرپرستی انھیں عطاکی ہے ۔خواہ اگربظاہرانھیں اس عہدے سے محروم کر دیاگیا ہو،نہ ان لوگوں کوجوزوروزبردستی اورناحق طریقہ سے مسلط ہوکرلوگوں کے حکمران بن گئے ہیں۔اس لئے کہ صا حب خانہ وہ ہے جوحقیقت میں اس کامالک ہو چا ہے وہ غصب کر لیا گیا ہو،نہ کہ وہ شخص جس نے زورو زبر دستی یامکروفریب سے اس گھرپرقبضہ کر لیا ہے۔

اولوالامرکا مصداق

اولوالامرکے مصادیق کے بارے میں مفسرین نے بہت سے اقوال پیش کئے ہیں۔اس سلسلہ میں جونظریات ہمیں دستیاب ہوئے ہیںوہ حسب ذیل ہیں:

۱ ۔امراء

۲ ۔اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

۳ ۔مہاجرین وانصار

۴ ۔اصحاب اورتابعین

۵ ۔چاروخلفاء

۶ ۔ابوبکروعمر

۷ ۔علماء

۹۴

۸ ۔جنگ کے کمانڈر

۹ ۔ائمہء معصومین)علیہم السلام)

۱۰ ۔علی(علیہ السلام)

۱۱ ۔وہ لوگ جوشرعی لحاظ سے ایک قسم کی ولایت اورسرپرستی رکھتے ہیں۔

۱۲ ۔اہل حل وعقد

۱۳ ۔امرائے حق(۱)

ان اقوال پرتحقیق اورتنقیدکرنے سے پہلے ہم خودآیہء کریمہ میں موجودنکات اورقرائن پرغورکرتے ہیں:

آیت میں اولوالامرکامرتبہ

بحث کے اس مرحلہ میں ایہء شریفہ میں اولوالامرکی اطاعت کرنے کی کیفیت قابل توجہ ہے:

پہلانکتہ: اولوالامرکی اطاعت میں اطلاق آیہء شریفہ میں اولوالامرکی اطاعت مطلق طور پرذکرہوئی ہے اوراس کے لئے کسی قسم کی قیدوشرط بیان نہیں ہوئی ہے،جیساکہ رسول اکرم صلصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت میں اس بات کی تشریح کی گئی۔

یہ اطلاق اثبات کرتاہے کہ اولوالامرمطلق اطاعت کے حامل و سزاوارہیں اوران کی اطاعت خاص دستور،مخصوص حکم یا کسی خاص شرائط کے تحت محدودنہیں ہے،بلکہ ان کے تمام اوامرونواہی واجب الاطاعت ہیں۔

____________________

۱۔تفسیرالبحرالمحیط،ج۳،ص۲۷۸،التفسیرالکبیر

۹۵

دوسرانکتہ:اولوالامرکی اطاعت،خدااوررسولکی اطاعت کے سیاق میں یعنی ان تین مقامات کی اطاعت میں کوئی قیدوشرط نہیں ہے اوریہ سیاق مذکورہ اطلاق کی تاکیدکرتاہے۔

تیسرانکتہ:اولوالامرمیں ”اطیعوا“کاتکرارنہ ہونا۔گزشتہ نکات سے اہم تراس نکتہ کامقصدیہ ہے کہ خدا ورسولکی اطاعت کے لئے آیہء شریفہ میں ہرایک کے لئے الگ سے ایک”اطیعوا“لایاگیاہے اور فرمایاہے: ۔۔۔( اٴطیعواللّٰه واٴطیعواالرّسول ) لیکناولوالامرکی اطاعت کے لئے”اطیعوا“کے لفظ کی تکرارنہیں ہوئی ہے بلکہاولی الامر”الرسول“پرعطف ہے،اس بناپروہی”اطیعوا“جورسول کے لئے آیا ہے وہ اولی الامرسے بھی متعلق ہے۔

اس عطف سے معلوم ہوتاہے کہ”اولوالامر“اور”رسول“کے لئے اطاعت کے حوالے سے دوالگ الگ واجب نہیں ہیں بلکہ وجوب اطاعت اولوالامر وہی ہے جو وجوب اطاعت رسولہے یہ اس امر کی دلیل ہے کہ اولوالامر کی اطاعت تمام امر ونہی میں رسول اکرم (ص)کی اطاعت کے مانندہے اوراس کانتیجہ گناہ وخطاسے اولوالامرکی عصمت،تمام اوامرونواہی میں رسول کے مانندہے۔

اس برہان کی مزیدوضاحت کے لئے کہاجاسکتاہے:آیہء شریفہ میں رسول اکرم صلصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اوراولوالامرکی اطاعت کے لئے ایک”اطیعوا“سے زیادہ استعمال نہیں ہوا ہے اوریہ”اطیعوا“ایک ہی وقت میں مطلق بھی ہواورمقیّدبھی یہ نہیں ہوسکتاہے یعنی یہ نہیں کہا جاسکتاہے کہ یہ”اطیعوا“رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں مطلق ہے اوراولوالامرکے بارے میں مقیّدہے،کیونکہ اطلاق اور قیدقابل جمع نہیں ہیں۔اگر”اطیعوا“پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں مطلق ہے اورکسی قسم کی قیدنہیں رکھتا ہے،)مثلاًاس سے مقیّدنہیں ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا امرونہی گناہ یا اشتباہ کی وجہ سے نہ ہو)تواولوالامر کی اطاعت بھی مطلق اوربلا قید ہو نی چاہئے ورنہ نقیضین کاجمع ہونا لازم ہوگا۔

۹۶

ان نکات کے پیش نظریہ واضح ہوگیاکہ آیہء کریمہ اس امر پر دلالت کر تی ہے کہ اس آیت میں ”اولوالامر“پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مانند معصوم ہیں۔

یہ مطلب کہ”اولوالامر کی اطاعت“آیہء کریمہ میں مذکورہ خصوصیات کے پیش نظر،اولوالامر کی عصمت پر دلالت ہے،بعض اہل سنّت(۱) مفسرین،من جملہ فخررازی کی توجہ کا سبب بنا ہے۔اس لحاظ سے یہاں پران کے بیان کاخلاصہ جواس مطلب پر قطعی استدلال ہے کی طرف اشارہ کرنا مناسب ہے:

آیہء اولوالامر کے بارے میں فخررازی کا قول

فخررازی نے بھی”اولوالامر“کی عصمت کو آیہء شریفہ سے استفادہ کیا ہے ان کے بیان کا خلاصہ حسب ذیل ہے:

”خداوند متعال نے آیہء کریمہ میں ”اولوالامر“ کی اطاعت کو قطعی طورپرضروری جانا ہے،اورجس کسی کے لئے اس قسم کی اطاعت واجب ہواس کاخطاواشتباہ سے معصوم ہو ناناگزیر ہے،کیونکہ اگر وہ خطاواشتباہ سے معصوم نہ ہو اور بالفرض وہ خطا کا مر تکب ہو جائے تو ،اس آیت کے مطابق اس کی اطاعت کرنی ہوگی!اوریہ ایک امر خطا واشتباہ کی اطاعت ہوگی،جبکہ خطااوراشتباہ کی نہی کی جاتی ہے لہذا انہیں چاہے کر اس کے امر کی پیروی کیجائے، کیونکہ اس قسم کے فرض کا نتیجہ فعل واحد میں امرونہی کا جمع ہو نا ہے )جو محال ہے)(۲) ۔

فخررازی اولوالامرکی عصمت کوآیہء سے استدلال کرنے کے بعد،یہ مشخص کرنے کے لئے کہ اولوالامر سے مراد کون لوگ ہیں کہ جن کامعصوم ہونا ضروری ہے کہتا ہے:

____________________

۱۔غرائب القرآن،نیشا بوری،ج۲،ص۴۳۴،دارالکتب العلمیة بیروت،تفسیرالمنار،شیخ محمدعبدہ ورشیدرضا،ج۵،ص۱۸۱دارالمعرفةبیروت

۲۔التفسیرالکبیر،آیت کے ذیل میں

۹۷

” اولوالامر سے مرادشیعہ امامیہ کے ائمہ معصو مین علیھم السلام(ع)نہیں ہو سکتے

ہیں،بلکہ اس سے مراداہل حل وعقد)جن کے ذمہ معاشرہ کے اہم مسائل کے حل کرنے کی ذمہ داری ہے)کہ جواپنے حکم اورفیصلے میں معصوم ہوتے ہیں اوران کے فیصلے سوفیصد صحیح اورمطابق واقع ہوتے ہیں“۔

فخررازی کاجواب

یہ بات کہ اولوالامر سے مراد اہل حل وعقد ہیں اور وہ اپنے حکم اور فیصلہ میں معصوم ہیں،مندرجہ ذیل دلائل کے پیش نظر صحیح نہیں ہے:

۱ ۔آیہء کریمہ میں ”اولوالامر“کا لفظ جمع ا ور عام ہے کہ جو عمو میت و استغراق پر دلالت کر تا ہے۔اگر اس سے مراد اہل حل وعقد ہوں گے تو اس کی دلالت ایک مجموعی واحد پر ہو گی اور یہ خلاف ظاہر ہے۔

وضاحت یہ ہے کہ آیہء کریمہ کاظاہریہ بتاتاہے کہ ایسے صاحبان امرکی اطاعت لازم ہے جن میں سے ہر کوئی، واجب الاطاعت ہو ،نہ یہ کہ وہ تمام افراد ) ایک مشترک فیصلہ کی بنیاد پر)ایک حکم رکھتے ہوں اور اس حکم کی اطا عت کر نا واجب ہو ۔

۲ ۔عصمت،ایک تحفظ الہٰی ہے،ایک ملکہ نفسانی اورحقیقی صفت ہے اوراس کے لئے ایک حقیقی موصوف کاہوناضرودری ہے اوریہ لازمی طور پرایک امرواقعی پر قائم ہو نا چاہئے جبکہ اہل حل وعقدایک مجموعی واحدہے اورمجموعی واحد ایک امراعتباری ہو تا ہے اورامر واقعی کا امراعتباری پر قائم ہونا محال ہے۔

۳ ۔مسلمانوں کے درمیان اس بات پر اتفاق نظر ہے کہ شیعوں کے ائمہ اورانبیاء کے علاوہ کوئی معصوم نہیں ہے۔

۹۸

ائمہء معصومین )ع )کی امامت پر فخررازی کے اعتراضات

اس کے بعد فخررازی نے شیعہ امامیہ کے عقیدہ، یعنی”اولوالامر“سے مرادبارہ ائمہ معصومین ہیں،کے بارے میں چنداعتراضات کئے ہیں:

پہلا اعتراض:ائمہء معصومین )علیہم السلام) کی ا طاعت کا واجب ہونا یا مطلقاً ہے یعنی اس میں ان کی معرفت وشناخت نیزان تک رسائی کی شرط نہیں ہے،تو اس صورت میں تکلیف مالایطاق کا ہو نا لازم آتا ہے،کیونکہ اس فرض کی بنیاد پر اگر ہم انھیں نہ پہچان سکیں اوران تک ہماری رسائی نہ ہو سکے،تو ہم کیسے ان کی اطاعت کریں گے؟یا ان کی شناخت اور معرفت کی شرط ہے،اگر ایسا ہے تویہ بھی صحیح نہیں ہے ،کیونکہ اس بات کا لازمہ ان کی اطاعت کا واجب ہونامشروط ہوگا،جبکہ آیہء شریفہ میں ان کی اطاعت کا واجب ہو نا مطلقاً ہے اوراس کے لئے کسی قسم کی قیدوشرط نہیں ہے ۔

جواب:ائمہء معصومین کی اطاعت کے واجب ہونے میں ان کی معرفت شرط نہیں ہے تاکہ اگرکوئی انھیں نہ پہچانے تواس پران کی اطاعت واجب نہ ہو،بلکہ ان کی اطاعت بذات خودمشروط ہے۔نتیجہ کے طور پر انھیں پہچاننا ضروری ہے تاکہ ان کی اطاعت کی جاسکے اوران دونوں کے درمیان کافی فرق ہے۔

مزیدوضاحت:بعض اوقات شرط، شرط وجوب ہے اور بعض اوقات شرط،شرط واجب ہے۔مثلاً وجوب حج کے لئے استطاعت کی شرط ہے اورخوداستطاعت وجوب حج کی شرط ہے۔اس بناء پر اگر استطاعت نہ ہو توحج واجب نہیں ہو گا۔لیکن نمازمیں طہارت شرط واجب ہے،یعنی نماز جو واجب ہے اس کے لئے طہارت شرط ہے۔اس بناء پر اگرکسی نے طہارت نہیں کی ہے تووہ نماز نہیں پڑھ سکتا ہے،وہ گناہ کا مرتکب ہوگا،کیونکہ اس پر واجب تھاکہ طہارت کرے تاکہ نماز پڑھے۔لیکن حج کے مسئلہ میں ،اگراستطاعت نہیںرکھتا ہے تواس پر حج واجب نہیں ہے اور وہ کسی گناہ کا مرتکب نہیں ہوا ہے۔

اس سلسلہ میں بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورامام(ع)دونوں کی اطاعت کے لئے ان کی معرفت کی شرط ہے۔اس لحاظ سے ان کی معرفت حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ ان کی اطاعت کی جاسکے۔پس ان کی اطاعت کاوجوب مطلقاًہے،لیکن خوداطاعت مشروط ہے۔

۹۹

خدائے متعال نے بھی قطعی دلالت سے اس معرفت کے مقدمات فراہم کئے ہیں۔جس طرح پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قطعی دلائل کی بناپرپہنچانے جاتے ہیں،اسی طرح ائمہ معصومین علیہم السلام کو بھی جوآپکے جانشین ہیں قطعی اورواضح دلائل کی بناپر جیسا کہ شیعوں کے کلام اورحدیث کی کتابوں میں مفصل طورپرآیاہے اوران کے بارے میں معرفت اورآگاہی حاصل کرناضروری ہے۔

دوسرااعتراض:شیعہ امامیہ کے عقیدہ کے مطابق ہرزمانہ میں ایک امام سے زیادہ نہیں ہوتا ہے،جبکہ”اولوالامر“جمع ہے اورمتعدداماموں کی اطاعت کوواجب قراردیتاہے۔

جواب:اگرچہ ہرزمانے میں ایک امام سے زیادہ نہیں ہوتاہے،لیکن ائمہ کی اطاعت مختلف ومتعددزمانوں کے لحاظ سے ہے،اوریہ ہرزمانہ میں ایک امام کی اطاعت کے واجب ہونے کے منافی نہیں ہے۔نتیجہ کے طورپرمختلف زمانوں میں مومنین پرواجب ہے کہ جس آئمہ معصوم کی طرف سے حکم ان تک پہنچے،اس کی اطاعت کریں۔

تیسرااعتراض:اگرآیہء شریفہ میں ”اولوالامر“سے مراد آئمہ معصومین ہیں توآیہ شریفہ کے ذیل میں جوحکم دیاگیاہے کہ اختلافی مسائل کے سلسلہ میں خدائے متعال اوررسول (ص)کی طرف رجوع کریں،اس میں ائمہ معصومین(ع)کی طرف لوٹنے کا بھی ذکرہوناچاہئے تھا جبکہ آیت میں یوں کہاگیاہے:( فإن تنازعتم فی شیءٍ فردّوه إلی اللّٰه والرّسول ) ”پھراگرآپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تواسے خدااور رسولکی طرف ارجاع دو۔“جبکہ یہاں پر”اولوالامر“ذکرنہیں ہواہے۔

جواب:چونکہ ائمہ معصومین علیہم السلام اختلافات کو حل کرنے اوراختلافی مسائل کے بارے میں حکم دینے میں قرآن مجیداورسنّت (ص)کے مطابق عمل کرتے ہیں اورکتاب وسنّت کے بارے میں مکمل علم وآگاہی رکھتے ہیں،اس لئے اختلافی مسائل میں کتاب و سنت کی طرف رجوع کرناخدا اوررسولکی طرف رجوع کرناہے۔اسی لئے”اولوالامر“کاذکر اور اس کی تکرارکرنایہاں پرضروری نہیں تھا۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271