امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت21%

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت مؤلف:
زمرہ جات: امامت
صفحے: 271

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 271 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 114759 / ڈاؤنلوڈ: 4270
سائز سائز سائز
امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

کرتی ہیں۔ہم یہاں پر ان احادیث میں سے چند نمونے پیش کرتے ہیں:

پہلی حدیث:

ابرھیم بن محمدبن مؤیدجومنی(۱) کتاب”فرائدالسبطین(۲) ‘ میں اپنے اسناد سے اورشیخ صدوق ابن بابویہ قمی کتاب”کمال الدین(۳) ‘ میں سلیم بن قیس سے روایت کرتے ہیں:

”میں نے خلافت عثمان کے زمانہ میں مسجد النبی (ص)میں دیکھا کہ حضرت علی(علیہ السلام)مسجد میں تشریف فر ماتھے اور کچھ لوگ آپس میں گفتگو کرنے میں مشغول تھے۔وہ قریش اوران کے فضائل نیز ان کے سوابق اور جوکچھ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قریش کے بارے میں فرمایا ہے، کے بارے میں گفتگو کرر ہے تھے اوراسی طرح انصار کی فضیلت اوران کے شاندار ماضی اورقرآن مجید میں ان کے بارے میں خدا وند متعال کی تعریف و تمجیدکا ذکر رہے تھے اورہر گروہ اپنی اپنی فضیلت گنوا رہا تھا۔

اس گفتگو میں دوسو سے زیادہ لوگ شریک تھے ان میں حضرت علی(علیہ السلام)سعد بن ابی وقاص،عبدالرحمن بن عوف،طلحہ،زبیر،مقداد،ابوذر،حسن وحسین )علیہما السلام)اورابن عباس-بھی شامل تھے۔

____________________

۱۔ذہبی ،کتاب”المعجم المختص بالمحدثین“ص۶۵،طبع مکتبةالصدیق سعودی،طائفمیں لکھاہے:”ابراھیم بن محمد۔۔۔الامام الکبیر المحدث شیخ المشایخ“ یعنی:بہت بڑے امام محدث اور استادالاسا تذہ ۶۴۴ئ ہجری میں پیدا ہوئے اور۷۲۲ئ ہجری میں خراسان میں و فات پائی ۔ابن حجرکتاب”الدررالکامنہ“ج۱،ص۶۷ میں کہتے ہیں:“وسمع بالحلة وتبریز-----وله رحلة واسعة وعنی بهذاالشان وکتب وحصل وکان دینا وقوراً ملیح الشکل جید القرا ۔۔۔“یعنی: حلہ اور تبریزمیں )حدیث کے اساتذہ کے دوسرے شہروں کے بارے میں )سنا ہے۔۔۔ علم حدیث کے بارے میں ایک خاص مہارت رکھتے تھے۔۔۔اور متدین ،باوقار،خوبصورت اوراچھی قرائت کے مالک تھے۔

۲۔فرائدالبطین ،ج۱،ص۲۱۲،مؤسسہ المحمودی للطباعة والنشر،بیروت اسماعیل با شا کتاب ایضاح المکنون میں کشف الظنون،ج۴،ص۱۸۲،دارالفکر کے ذیل میں کہتا ہے:فرائد السبطین،فی فضائل المرتضیٰ والبتول والسبطین لابی عبداللّٰہ ابراھیم بن سعد الدین محمد بن ابی بکر بن محمدبن حمویہ الجوینی۔۔۔فرغ منہ سنة۷۱۶

۳۔کمال الدین،ص۲۷۴

۱۲۱

یہ جلسہ صبح سے ظہرتک جاری رہا اورعلی) علیہ السلام) بدستور خاموش بیٹھے رہے یہاں تک کہ لوگوں نے آپ(ع) کی طرف مخاطب ہوکر آپ سے کچھ فرمانے کی خواہش ظاہر کی۔

حضرت علی(علیہ السلام)نے فرمایا:تم دونوں گروہوں میں سے ہرایک نے اپنی فضیلت بیان کی اور اپنی گفتگو کا حق ادا کیا۔میں قریش وانصاردونوں سے یہ پوچھنا چاہتاہوں:خدا وند متعال نے یہ فضیلت تمھیں کس کے ذریعہ عطاکی ہے؟ کیا تم لوگ اپنی اوراپنے قبیلے کی خصوصیات کی وجہ سے ان فضیلتوں کے مالک بنے ہو؟ یاکسی دوسرے کی وجہ سے یہ فضیلتیں تمھیں عطا کی گئی ہیں؟

انہوں نے کہا:خدا وندمتعال نے محمد (ص)اورآپ کے اہل بیت)علیہم السلام)کے طفیل میں ہمیں یہ فضیلتیں عطا کی ہیں۔

حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا:صحیح کہاتم لوگوں نے اے گروہ انصار وقریش!کیا تم نہیں جانتے ہو کہ جوکچھ تم کوخیر دینا وآخرت سے ملا ہے وہ صرف ہم اہل بیت(ع)کی وجہ سے تھا؟ اس کے بعدحضرت علی (علیہ السلام)نے اپنے اور اپنے اہل بیت )علیہم السلام)کے بعض فضائل گنوائے اوران سے تصدیق اور گواہی چاہی انہوں نے گواہی دی،آپ(ع)نے من جملہ فرمایا:

فانشدکم اللّٰہ،اتعلمون حیث نزلت( یااٴیّهاالذین آمنوا اٴطیعواللّٰه واٴطیعواالرسّول واٴُولی الاٴمر منکم ) (۱) وحیث نزلت ا( ٕنّماولیّکم اللّٰه ورسوله والّذین آمنواالذین یقیمون الصلوة ویؤ تون الزکوة وهمصراکعون ) (۲) وحیث نزلت( اٴم حسبتم اٴن تترکواولماّ یعلم اللّٰه الّذیم جاهدوامنکم ولم یتّخذ وا من دون اللّٰه ولا رسوله ولاالمؤمنین ولیجة ) (۳) قال الناس:یا رسول اللّٰه،خاصة فی بعض

____________________

۱۔نساء/۵۹ ۲۔مائدہ/۵۵

۳۔توبہ/۱۶

۱۲۲

المؤمنین اٴم عامة لجمیعهم؟فاٴمراللّٰه - عزّوجلّ - نبیّه( ص) اٴن یُعلّمهم ولاةاٴمرهم واٴن یفسّر لهم من الولایة مافسّرلهم من صلا تهم وزکاتهم وحجهم،فینصبنی للناس بغدیر خمثمّ خطب وقال:اٴیّهاالنّاس،إنّ اللّٰه اٴرسلنی برسالة ضاق بها صدری وظننت اٴن الناس مکذبیفاوعدنی لاُ بلّغها اٴولیعذّبنیثمّ اٴمرفنودی بالصلاة جامعةثمّ خطب فقال:اٴیّهاالناس،اٴتعلمون اٴنّاللّٰه - عزّوجل - مولای اٴنامولی المؤمنین،واٴنا اٴولی بهم من اٴنفسهم؟

قالوا:بلی یارسول اللّٰهقال:قُم یاعلیّفقمت فقال:”من کنت مولاه فهذاعلیّ مولاه،اللّهمّ وال من والاه،وعادمن عاداه“

فقام سلمان فقال:یارسول اللّٰه،ولاء کماذا؟فقال:ولاء کولایتی، منکنت اٴولی به من نفسه فاٴنزل اللّٰه تعالی ذکره:( الیوم اٴکملت لکم دینکم واٴتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الإسلام دیناً ) (۱)

فکبّرالنبّی( ص) وقال:اللّٰه اٴکبر!تمام نبوّتی وتمام دین اللّٰه علیُّ بعدیفقام اٴبوبکر و عمر فقالا: یارسول اللّٰه،هؤلاء الآیات خاصّةفی علیّ؟قال:بلی،فیه وفی اٴوصیائی إلی یوم القیامةقالا:یارسول اللّٰه، بیّنهم لناقال:علیّ اٴخی ووزیری ووارثی ووصیّی وخلیفتی فی اُمّتی وولّی کل ّمؤمن بعدی ثمّ ابنی الحسن ثمّ الحسین ثمّ تسعة من ولدابنی الحسین واحد بعد واحد،القرآن معهم وهم مع القرآن لایفارقونه ولایفارقهم حتی

____________________

۱۔مائدہ/۳

۱۲۳

یردوا علیّ الحوض

فقالوا کلّهم:اللّهمّ نعم،قد سمعناذلک وشهدناکماقلت سواء وقال بعضهم:قدحفظناجلّ ماقلت ولم نحفظه کلّه،وهؤلاء الّذین حفظوااٴخیارناواٴفاضلنا

یعنی:میں تمھیں خدا کی قسم دلاتاہوں،کیا تم جانتے ہو کہ جبخداوندمتعال کا یہ فر مان:( یا اٴیّهاالذین آمنوااٴطیعواللّٰه واٴطیعوا الرّسول واولی الاٴمرمنکم ) نازل ہوا اورجب یہ آیہء شریفہ نازل ہوئی:( إنّما ولیّکم اللّٰه ورسول ) ۔۔۔ )یعنی بس تمہاراولی اللہ ہے اوراس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان جو نمازقائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰة دیتے ہیں)اسی طرح جب یہ آیہء شریفہ نازل ہوئی:( اٴم حسبتم اٴن تترکوا ) ۔۔۔ )یعنی :کیاتمہارا خیال ہے کہ تم کواسی طرح چھوڑدیا جائے گا جب کہ ابھی ان لو گوں نے کہ جنھوں نے تم میں سے جہاد کیا ہے اور خدا و رسول نیز مومنین کے علا وہ کسی کو اپنا محرم راز نہیں بنا یا ہے مشخص نہیں ہو ئے ہیں؟ تو لوگوں نے کہا:یارسول اللہ!کیا یہ آیتیں بعض مؤمنین سے مخصوص ہیں یا عام ہیں اوران میں تمام مؤ منین شامل ہیں؟

خداوند متعال نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا:تاکہ ان)مو منین) کے امور کے سلسلہ میں ان کے سرپرست کا اعلان کردیں اورجس طرح نماز،زکوٰةاورحج کی ان کے لئے تفسیربیان کی ہے،مسئلہ ولایت وسر پرستی کو بھی ان کے لئے واضح کردیں۔)اورخدا نے حکم دیا)تاکہ غدیر خم میں مجھے اپنا جا نشین منصوب کریں۔

اس کے بعدپیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ پڑھااورفرمایا:

”اے لوگو!خدا وند متعال نے مجھے ایک ایسی رسالت سونپی ہے کہ جس کی وجہ سے میرا سینہ تنگی محسوس کر رہا ہے اورمیں نے گمان کیا کہ لوگ میری اس رسالت کو جھٹلادیں گے۔پھر مجھے خدا نے تہدید دی کہ یا میں اس)رسالت) کوپہنچاؤں یا اگر نہیں پہونچاتا تووہ مجھے عذاب کرے گا۔“

۱۲۴

اس کے بعد پیغمبراکرم (ص)نے حکم دیا اورلوگ جمع ہو گئے اورآپنے خطبہ پڑھا اور فرمایا: اے لوگو! کیاتم جانتے ہوکہ خداوند متعال میرامولا)میراصاحب اختیار)ہے اورمیں مؤمنین کامولاہوں اورمجھے ان کی جانوں پرتصرف کا زیادہ حق ہے ؟انہوں نے کہا:ہاں،یارسول اللہ۔فرمایا:اے علی(علیہ السلام)کھڑے ہوجاؤ!میں کھڑا ہوا۔فرمایا:جس جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی(ع)بھی مولا ہیں۔خداوندا!اس کو دوست رکھ جو علی(ع)کودوست رکھے اوراس کو اپنا دشمن قرار دے جوعلی(ع)سے دشمنی کرے۔

سلمان اٹھے اورکہا:یارسول اللہ!یہ کونسی ولایت ہے؟پیغمبر (ص)نے فرمایا:یہ ولایت وہی ہے جو میں رکھتاہوں ۔جس کی جان کے بارے میں ،میں اولیٰ ہوں علی(ع)بھی اسی طرح اس کی جان کے بارے میں اولیٰ ہے۔اس کے بعدخدا وند متعال نے یہ آیہء شریفہ نازل فرمائی:( الیوم اٴکملت لکم دینکم ) ۔۔۔ یعنی:”آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیااوراپنی نعمتوں کوتمام کردیاہے اورتمہارے لئے دین اسلام کو پسندکر لیا۔“

اس کے بعد ابوبکراورعمراٹھے اورکہا:یارسول اللہ ! کیا یہ آیتیں علی(ع)سے مخصوص ہیں؟فرمایا:جی ہاں،یہ علی(ع)اور میرے قیامت تک کے دوسرے اوصیاء سے مخصوص ہیں۔انہوں نے کہا:یارسول اللہ!ان کو ہمارے لئے بیان کر دیجئے آنحضرت نے فرمایا: میرابھائی علی،امت کے لئے میراوزیر،وارث،وصی اورجانشین ہے اورمیرے بعد ہرمؤمن کا سرپرست ہے۔اس کے بعد میرے فرزندحسن وحسین(ع)اس کے بعد یکے بعد دیگرے میرے حسین(ع)کے نوفرزند ہیں۔قرآن مجید ان کے ساتھ ہے اور وہ قرآن مجید کے ساتھ ہیں۔وہ قرآن مجید سے جدا نہیں ہوں گے اورقرآن مجیدان سے جدا نہیں ہوگا یہاں تک کہ حوض کوثرپرمجھ سے ملیں گے۔اس کے بعد علی علیہ السلام نے اس مجمع میں موجود ان لوگوں سے،کہ جومیدان غدیر میں موجوتھے اورپیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ان با توں کواپنے کا نوں سے سن چکے تھے،کہا کہ اٹھ کراس کی گواہی دیں۔

۱۲۵

زیدبن ارقم،براء بن عازب،سلمان،ابوذراورمقداداپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور کہا :ہم شہادت دیتے ہیں اورپیغمبر (ص)کے بیانات یاد ہیں کہ آنحضرت منبرپرکھڑے تھے اوران کے ساتھ آپ(ع)بھی ان کی بغل میں کھڑے تھے اورآنحضرتفرمارہے تھے:

”اے لوگو! خداوند متعال نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہارے لئے امام کہ جو میرے بعد تم لوگوں کی رہنمائی اور سر پرستی کرے اورمیراوصی اورجانشین ہو،کو نصب کروں،اس کونصب کروں جس کی اطاعت کوخداوند متعال نے اپنی کتاب میں واجب قراردیا ہے نیزاس کی اطاعت کواپنی اورمیری اطاعت کے برابرقراردیا ہے کہ جس سے)آیہ اولوالامرکی طرف اشارہ ہے) اے لوگو!خداوند متعال نے تمھیں نماز،زکوٰة،روزہ اورحج کا حکم دیا ۔میں نے تمہارے لئے اس کی تشریح ووضاحت کی ۔اوراس نے تمھیں ولایت)کا ایمان رکھنے) کابھی حکم دیااورمیں ، تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ یہ ولایت اس)شخص)سے مربوط ہے )یہ جملہ بیان فرماتے وقت آنحضرت اپنادست مبارک علی(ع)کے شانہ پر رکھے ہوئے تھے)اوران کے بعداس کے دونوں بیٹوں)حسن وحسین(ع))اوران کے بعد ان کے فرزندوں میں سے ان کے جانشیوں سے مربوط ہے--“

حدیث مفصل و طولانی ہے۔ہم نے اس میں سے فقط اتنے ہی حصہ پراکتفا کیا کہ جوآیہء شریفہ”اولوالامر“سے مربوط ہے ۔محققین مذکورہ منابع میں مفصل حدیث کا مطلعہ کرسکتے ہیں۔

دوسری حدیث

یہ وہ حدیث ہے جسے مرحوم شیخ صدوق نے ”کمال الدین(۱) ‘ میں جابر بن یزید جعفی سے روایت کی ہے وہ کہتا ہے:

”میں نے سنا کہ جابر بن عبداللہ انصاری کہتے تھے:جب خدا وند متعال نے اپنے پیغمبر (ص)پر یہ آیہء شریفہ:( یاایّهاالذین آمنوااٴطیعواللّٰه واٴطیعواالرسول واولی الاٴمرمنکم ) نازل فرمائی،تو میں نے کہا:یارسول اللہ!ہم نے خدا اوراس کے رسولتو کو پہچان لیا۔اب وہ اولوالامرکہ جن کی اطاعت کو خداوندمتعال نے آپ کی اطاعت سے مربوط قراردیا ہے،وہ کون ہیں؟

آنحضرت (ص)نے فرمایا:”اے جابر!وہ میرے جانشین ہیں اورمیرے بعد مسلمانوں کے امام ہیں۔ان میں سب سے پہلے علی بن ابیطالب، پھرحسن وحسین،پھر علی بن حسین،پھر محمد بن علی،جوتوریت میں باقر کے نام سے معروف

____________________

۱۔کمال الدین،ص۲۵۳

۱۲۶

ہیں اوراے جابر!تم جلدی ہی اس سے ملاقات کروگے لہذاجب انھیں دیکھنا توانھیں میرا سلام پہنچانا۔پھرصادق جعفر بن محمد،پھر موسیٰ بن جعفر،پھر علی بن موسیٰ،پھر محمدبن علی،پھر علی بن محمد،پھرحسن بن علی،پھر میراہم نام اورہم کنیت)جو)زمین پر خدا کی حجت اورخدا کی طرف سے اس کے بندوں کے در میان باقی رہنے والا حسن بن علی)عسکری)کا فر زندہے،جس کے ذریعہ خدا وند متعال مشرق ومغرب کی زمین کو فتح کرے گا۔وہ شیعوں او ر ان کے چاہنے والوں کی نظروں سے غائب ہوگا۔وہ ایسی غیبت ہوگی کہ ان کی امامت پر خدا کی طرف سے ایمان کے سلسلہ میں آزمائے گئے دلوں کے علاوہ کوئی ثابت قدم نہیں رہے گا“

تیسری حدیث:

یہ حدیث اصول کافی ۱ میں برید عجلی سے روایت کی گئی ہے وہ کہتے ہیں:

”امام باقر(علیہ السلام) نے فرمایا:خدا وند متعال نے)آیہء شریفہ)( یا اٴیّها الذین آمنوا اٴطیعو اللّٰه و اٴطیعوا الرسول و اولی الاٴمر منکم ) کے بارے میں صرف ہماراقصد کیاہے۔تمام مؤمنین کو قیامت تک ہماری)ائمہ معصومین) اطاعت کرنے کا کاحکم دیا ہے۔“

اس کے علاوہ شیعہ وسنی منابع میں اوربھی احادیث نقل کی گئی ہیں جن میں ”اولوالامر“سے مراد ائمہء معصو مین کو لیا گیا ہے۔اہل تحقیق،”فرائد السمطین“اور”ینا بیع المودة“جیسی سنی کتابوں اور”اصول کافی“،”غا یةالمرام“اور”منتخب الاثر“ جیسی شیعوں کی کتابوں کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

____________________

۱۔اصول کافی،ج۱،ص۲۱۷

۱۲۷

چوتھا باب:

امامت آیہء ولایت کی روشنی میں

( ( إنّماولیکم اللّٰه ورسوله والّذین آمنواالّذین یقیمون الصلوٰةویؤ تون الزکوٰة وهم راکعون ) ) ( مائدہ/۵۵)

”بس تمہاراولی اللہ ہے اوراس کا رسول اوروہ صاحبان ایمان ہیں،جونمازقائم کرتے ہیں اورحالت رکوع میں زکوٰةدیتے ہیں“۔

امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی امامت اوربلافصل ولایت کے سلسلہ میں شیعہ امامیہ کی ایک اوردلیل آیہء شریفہ ولایت ہے۔آیہء شریفہ کے استدلال کی تکمیل کے سلسلہ میں پہلے چندمو ضوعات کا ثابت کرنا ضروری ہے:

۱ ۔آیہ شریفہ میں ”إنما“ حصر کے لئے ہے۔

۲ ۔آیہ ئ شریفہ میں لفظ ”ولی“ حص کے معنی اولی بالتصرف اورصاحب اختیار نیزسرپرست ہو نے کے ہے۔

۳ ۔آیت میں ”راکعون“سے مراد نماز میں رکوع ہے، نہ کہ خضوع وخشوع۔

۴ ۔اس آیہء شریفہ کے شان نزول میں ، کہ جوامیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں ہے، ذکر ہواہے کہ حضرت(ع)نے رکوع کی حالت میں زکوٰةدی ،)یعنی اپنے مال کوخداکی راہ میں انفاق کیاہو)ثابت ہو۔

اس باب میں ہم ان موضوعات کوثابت کرنے کی کوشش کریں گے اورآخر پر اس آیہء شریفہ سے مربوط چند سوالا ت کا جواب دیں گے۔

لفظ”إنما“کی حصر پر دلالت

علما ئے لغت اورادبیات نے اس بات کی تاکید کیہے کہ لفظ”إنما“حصرپر دلالت کرتا ہے۔یعنی عربی لغت میں یہ لفظ حصر کے لئے وضع کیا گیا ہے۔

۱۲۸

ابن منظورنے کہاہے:اگر ”إنّ“پر”ما“کا اضافہ ہو جائے تو تعیین وتشخیص پر دلالت کرتاہے۔جیسے خداوند متعال کا قول ہے:( إنّماالصدقات للفقراء والمساکین ) ۔۔۔(۱) چونکہ اس کی دلا لت اس پر ہے کہ حکم مذکور کو ثابت کرتا ہے اوراس کے غیر کی نفی کرتا ہے۔(۲)

جوہری نے بھی اسی طرح کی بات کہی ہے۔(۳)

فیروزآبادی نے کہاہے:”انّما“،”إنّما“کے مانند مفید حصرہے۔

اور یہ دونوں لفظ آیہء شریفہء:( قل إنّمایوحی إلیّ اٴنّماإلٰهکم إلٰه واحد ) (۴) میں جمع ہوئے ہیں۔(۵)

ابن ہشام نے بھی ایساہی کہا ہے۔(۶)

اس لئے اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ لغت کے اعتبار سے لفظ”إنّما“کوحصرکے لئے وضع کیا گیاہے۔اگرکوئی قرینہ موجو ہوتواس قرینہ کی وجہ سے غیرحصرکے لئے استفادہ کیا

جاسکتا ہے،لیکن اس صورت میں ”إنّما“کااستعمال مجازی ہوگا۔

”ولیّ“کے معنی کے بارے میں تحقیق

”ولّی“ولایت سے مشتق ہے۔اگرچہ یہ لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے لیکن اس کے موارد استعمال کی جستجو و تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا اصلی معنی سر پرستی ،اولویت

____________________

۱۔توبہ/۶۰

۲۔لسان العرب،ج۱،ص۲۴۵

۳۔صحاح اللغة،ج۵،ص۲۰۷۳

۴۔انبیاء/۱۰۸ ۵۔القاموس المحیط،ج۴،ص۱۹۸،دارالمعرفة،بیروت۔

۶۔مغنی اللبیب ،ج۱،ص۸۸،دارالکتب العلمیة بیروت

۱۲۹

اورصاحب اختیار ہو نے کے ہے۔

ابن منظورکا”لسان العرب“میں کہنا ہے”الولیّ ولیّ الیتیم الّذی یلی اٴمره ویقوم بکفایته،وولیّ المرئةالّذی یلی عقدالنکاح علیهاوفی الحدیث:اٴیّماامرئة نکحت بغیرإذن مولیها فنکاحهاباطلوفی روایة:”ولیّها“اٴی متولّی اٴمرها(۱)

یتیم کا ولی وہ ہے جو یتیم کے امور اور اس کی کفالت کا ذمہ دار ہے اوراس کے امورکی نگران کرتا ہے۔عورت کا ولی وہ ہے کہ جس کے اوپر اس کے عقد ونکاح کی ذمہ داری ہو۔

حدیث میں آیا ہے:جوبھی عورت اپنے مولا)سرپرست)کی اجازت کے بغیرشادی کرے تواس کا نکاح باطل ہے۔ایک روایت میں لفظ”ولیھا‘ ‘کے بجائے لفظ”مولیھا“آیا ہے کہ جس کے معنی سرپرست اورصاحب اختیار کے ہیں۔

فیومی”المصباح المنیر“میں کہتا ہے:

الولیّ فعیل به معنی فاعل من ولیه إذقام بهومنه اللّٰه ولیّ الّذین آمنوا ،والجمع اٴولیاء،قال ابن فارس:وکلّ من ولی اٴمراٴحد فهوولیّهوقد یطلق الولیّ اٴیضاًعلی المعتق والعتیق،وابن العم والناصروالصدّیقویکون الولیّ بمعنی مفعول فی حق المطیع،فیقال:المؤمن ولیّ اللّٰه“ ۔(۲)

”فعیل)کے وزن پر(ولی فاعل کے معنی میں ہے ) ۔(۳) کہا جاتا ہے):ولیہ یہ اس

_____________________

۱۔لسان العرب ،ج۱۵،ص۱۰۴،دار احیاء التراث العربی ،بیروت

۲۔المصباح المنیر،ج۲،ص۳۵۰،طبع مصطفی البابی الحلبی واولادہ بمصر

۳۔”فعیل“صفت مشبہ ہے۔کبھی فاعل کے معنی میں بھی استعمال ہوتاہے، جیسے ”شریف“ اورکبھی مفعول کے معنی میں آتا ہے۔فیومی نے اپنے بیان میں اس کی طرف اشار ہ کیا ہے کہ آیہء شریفہ میں ”فعیل“فاعل کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔چنانچہ مؤمن کو کہا جاتا ہے”ولی خدا“ یعنی جس کے امورکی تدبیر خدا کے ہاتھ میں ہے اور وہ ا سے اپنے الطاف سے نواز تا ہے۔

۱۳۰

صورت میں ہے جب کسی کے امو ر کے لئے عملاً قیام کرے اس کے کام کواپنے ذمہ لے لے۔ آیہء شریفہ:( اللّٰه ولیّ الذین آمنوا ) میں ولایت اسی کی ہے۔یعنی خداوند متعال مؤمنین کے امور کے حوالے سے صاحب اختیارا ور اولی بالتصرف ہے۔ابن فارس نے کہا ہے:جو بھی کسی کے امورکاذمہ دار ہوگا وہ اس کا ”ولی“ہوگا۔اور بعض اوقات”ولی“)دوسرے معانی میں جیسے) غلام کوآزاد کرنے والا،آزاد شدہ غلام ،چچازاد بھائی،یاوراوردوست کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔

ان بزرگ ماہرین لغت کے بیان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے کہ یاور اوردوست جیسے مفاہیم ولی کے حقیقی معنی نہیں ہیں بلکہ کبھی کبھی ان معنوں میں استعمال ہو تا ہے اوراس قسم کا استعمال مجازی ہے۔

”ولی“کے معنی میں یہ جملہ معمولاًلغت ۱ کی کتابوں میں بہ کثرت نظر آتا ہے وہ ناقابل اعتناء ہے ”من ولی امر احدفہوولیہ“یعنی:”جو کسی کے کام کی سر پرستی اپنے ذمہ لے لے وہ اس کا ولی ہے“

ان معانی کے پیش نظر،ایسا لگتا ہے کہ لفظ”ولی“کا حقیقی اور معروف ومشہور معنی وہی صاحب اختیاروسر پرست ہو ناہے۔ قرآن مجید میں اس لفظ کے استعمال پر جستجو و تحقیق بھی اسی مطلب کی تائید کرتی ہے۔

ہم لفظ”ولی“کے قرآن مجید میں استعما ل ہونے کے بعض موارد کا ذکر کرکے بعض دوسرے موارد کی طرف اشارہ کرتے ہیں:(۱)

____________________

۱۔لسان العرب،ج۱۵،ص۴۱۰،المصباح المنیر،ج۲،ص۳۵۰طبع مصطفٰی البابی الحلبی بمصر،النہا یةج۵،ص۲۲۸المکتبة العلمیة،بیروت،منتہی الارب ،ج۴،ص۱۳۳۹،انتشارات کتابخانہ سنائی،مجمع البحرین،ج۲ص۵۵۴،دفتر نشر فرھنگ اسلامی،الصحاح،ص۲۵۲۹،دارالعلم للملابین، المفردات، ص۵۳۵، دفتر نشر کتابمعجم مقا ییس اللغة،ج۶،ص۱۴۱۔

۱۳۱

چند بنیادی نکات کی یاد دہانی

یہاں پر چند نکات کی طرف اشارہ کرناضروری ہے:

پہلانکتہ:عام طور پر لغت کی کتابوں میں ایک لفظ کے لئے بہت سے موارداستعمال اور مختلف معانی ذکر کئے جاتے ہیں۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ لفظ ہر معانی کے لئے الگ الگ وضع کیا گیا ہے اوروہ لفظ مشترک ہے اوران معانی میں سے ہرایک،اس کا حقیقی معنی ہے لفظی اشتراک)یعنی ایک لفظ کے کئی معانی ہوں اور ہر معنی حقیقی ہو )اصول کے خلاف ہے۔اور علم لغت اورادبیات کے ماہرین نے جس کی وضاحت کی ہے وہ یہ ہے کہ اصل عدم اشتراک ہے۔

۱ ۔قرآن مجید میں لفظ”ولی“کے استعمال کے مواقع:

الف۔( اٴللّٰه ولی الذّین آمنوا یخرجهم من الظلمات إلی النور ) (بقرہ/ ۲۵۷)” اللہ صاحبان ایمان کا ولی ہے وہ انہیں تاریکوں سے نکال کرروشنی میں لے آ تاہے۔“

ب۔( انّ ولی اللّٰه الذّی نزل الکتاب و هو یتولّی الصالحین ) (اعراف/ ۱۹۶)” بیشک میرا مالک ومختار وہ خدا ہے جس نے کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک بندوں کاولی ووارث ہے۔“

ج۔( ام إتّخذ وا من دونه اٴولیائ فاللّٰه هوالولی وهو یحیی الموتی ) (شوریٰ/ ۹)” کیاان لوگو ں نے اس کے علاوہ کو اپنا سر پرست بنایا ہے جب کہ وہی سب کاسرپرست ہے اور وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے۔“

د۔( قل اٴغیراللّٰه اٴتخذوا ولیاًفاطرالسموات والارض وهو یطعم ولا یطعم ) ۔۔۔ (انعام/ ۱۴)” آپ کہئے کہ کیا میں خد ا کے علاوہ کسی اورکواپنا ولی بنالوں جب کہ زمین وآسمان کاپیداکرنے والا وہی ہے، وہی سب کوکھلاتاہے اس کوکوئی نہیں کھلاتاہے۔“

۱۳۲

ہ ۔( و انت ولینا فاغفر لنا وارحمنا وانت خیرالغافرین ) )اعراف/ ۱۵۵)” توہمارا ولی ہے،ہمیں معاف کردے اورہم پررحم کر کہ توبڑابخشنے والاہے۔“

و۔( فإن کان الذی علیه الحق سفیهاًاو ضعیفاًاولا یستطیع ان یمل هو فلیملل ولیه بالعدل ) )بقرہ/ ۲۸۲)” اب اگر حق اس کے خلاف ہو اوروہ نادان یاکمزورہو اور اس کو لکھنے کی صلا حیت نہ ہو تو اس کے ولی کو چاہئیے کہ عدل و انصاف کے ساتھ اسے لکھے۔

ز۔( ومن قتل مظلوماً فقدجعلنا لولیه سلطاناً ) )اسراء/ ۳۳)” جومظلوم قتل ہوتاہے ہم اس کے ولی کوبدلہ کااختیاردیتے ہیں۔

دوسر ی آیات: یوسف/ ۱۰۱ ، ہود/ ۱۱۳ ، شوریٰ/ ۴۶ ،فصلت/ ۳۱ ، نحل/ ۶۳ ، بقرہ/ ۱۰۷ و ۱۲۰ توبہ/ ۷۴ و ۱۱۶ ، عنکبوت/ ۲۲ ،شوریٰ/ ۸ و ۳۱ ،نساء/ ۴۵ ،

۷۵،۸۹،۱۲۳ و ۱۷۳ ،احزاب/ ۱۷ و ۶۵ ،فتح/ ۲۲) مذکورہ ۱۵ آیات میں ولی اورنصیرایک ساتھ استعمال ہوئے ہیں نساء/ ۱۱۹ ، مریم/ ۵ ،سباء/ ۴۱ ، نمل ۴۹ ،نساء/ ۱۳۹ ،یونس/ ۶۲ ، اسراء/ ۹۷ ،الزمر/ ۳ ، شوریٰ/ ۶ ، ممتحنہ/ ۱ ،آل عمران/ ۱۷۵ ،انفال/ ۴۰ ،محمد/ ۱۱ بقرہ/ ۲۸۶ ،توبہ/ ۵۱ ،حج/ ۷۸ ۔

کتاب”مغنی اللبیب“کے مصنف،جمال الدین ابن ہشام مصری،جواہل سنت میں علم نحو کے بڑے عالم مانے جاتے ہیں جب آیہء شریفہ( إنّ اللّه وملائکته یصلّون علی

۱۳۳

النّبی ) (۱) میں قرائت رفع(ملائکتُہ)کی بنیاد پر بعض علمائے نحو جو”إنّ“کی خبر)یصلّی ہے)کو محذوف اورمقدر جانتے ہیں،نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں:

واماّقول الجماعةفبعیدمن جهات:إحداهااقتضاؤه للإشترا والاٴصل عدمه لما فیه من الإلباس حتیّ إنّ قوماًنفوهثمّ المثبتون له یقولون:متی عارضه غیره ممّایخالف الاٴصل کالمجاز قدّم علیه (۲)

”ان کی بات کئی جہتوں سے حقیقت سے بعید ہے۔اول اس لحاظ سے کہ ان کے بیان کا لازمہ یہ ہے کہ صلاة کو مشترک لفظی تسلیم کریں جبکہ اشتراک خلاف اصل ہے یہاں تک کہ بعض نے اسے بنیادی طو ر پر مسترد کیا ہے اور جنہوں نے اسے ثابت جا نا ہے انھوں نے اسے مجاز اور اشتراک کی صورت میں مجاز کو اشتراک پر مقدم جانا ہے۔“

فیروزآبادی،صاحب قاموس نے بھی صلوٰت کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے کہ جس میں آیہء شریفہ( إنّ اللّه وملا ئکته یصلّون علی النبیّ ) ۔۔۔ کے بارے میں تحقیق کی ہے اورمذکورہ بیان کو ابن ہشام سے نقل کیا ہے۔(۳)

اس بناء پر،ولایت کے مفہوم میں )جو کئی معانی ذکر ہوئے ہیں)سے جو معنی قدر متیقّن اوریقینی ہیں وہ سرپرستی اورصاحب اختیار ہو نے کے ہیں،اور دوسرے معانی جیسے،دوستی اوریاری اس کے حقیقی معنی کے حدود سے خارج ہیں اور ان کے بارے میں اشتراک لفظی کا سوال ہی پیدا

____________________

۱۔احزاب/۵۶

۲۔مغنی اللبیب،ج۲،باب پنجم،ص۳۶۵

۳۔الصلوةوالبشرفی الصلوة علی خیرالبشر،ص۳۳،دار الکتب العلمیة،بیروت

۱۳۴

نہیں ہوتا۔

لہذا اگر مادئہ ”ولی“قرینہ کے بغیر استعمال ہو تو وہ سرپرستی اورصاحب اختیار ہو نے کے معنی میں ہوگا۔

دوسر ا نکتہ بعض اہل لغت نے مادہ ”و لی“کو ایک اصل پر مبنی جانا ہے اورمفہوم کا اصلی ریشہ)جڑ) کو ”قرب“ قراردیا ہے۔اور بعض مفسرین نے کلمہ”ولی“کو اسی بنیاد پرذکر کیا ہے، اس سلسلہ میں چندمطالب کی طرف توجہ کر نا ضروری ہے:

سب سے پہلے اس بات کو ملحوظ رکھناچاہئے کہ لغوی معنی کے اس طرح کی تحلیل اوراس کاتجزیہ ایک حدس وگمان اور خوامخواہ کے اجتہاد کے سواء کچھ نہیں ہے اوراس پرکوئی دلیل نہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ وہ چیز جومعنی کے سمجھنے اوراس لفظ سے تبادر کے لئے معیار ہے وہ اس کے استعمال کازمانہ ہے۔بیشک بہت سے مواقع پر”ولی“کے معنی سے قرب کامفہوم ذہن میں پیدا نہیں ہوتاہے۔بعض مواقع پرکہ جہاں قرینہ موجودہوجیسے”المطرالولی“)وہ بارش جوپہلی بارش کے بعدیااس کے بہت قریب واقع ہو ئی ہو )میں اس قسم کے استعمال کوقبول کیا جاسکتا ہے۔

اس بناپراگرفرض بھی کر لیاجائے کہ”قرب“اس معنی کی اصلی بنیادتھی اورآغاز میں لفظ”ولی“کامفہوم”قرب“کے معنی میں استعمال ہوتا تھا،لیکن موجودہ استعمال میں وہ معنی متروک ہو چکاہے اوراب اس کااستعمال نہیں ہے۔

تیسرا بعض اہل لغت جیسے ابن اثیرنے”النہایة ۱“ میں اورابن منظورنے”لسان العرب ۲“ میں ”ولی“ کے معنی بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”ولی“ خداکے

____________________

۱۔النہا یة،ج۵،ص۲۲۸

۲۔لسان العرب ،ج۱۵،ص۱۰۶

۱۳۵

ناموں میں سے ایک نام ہے اوریہ ناصرکے معنی میں ہے اورکہاگیاہے کہ اس کے معنی امورجہان کے متولی و منتظم کے ہیں۔

اس بیان سے استفادہ ہوتاہے کہ”ولی“جوخداکے ناموں میں سے ایک نام ہے،ان کے نزدیک ناصرکے معنی میں ہے،جبکہ مطلب صحیح نہیں ہے کیو نکہ اگر ”ولی“کے معنی ناصر کے

ہوں گے)چونکہ”ولی“کاایک مادہ اورایک ہیئت ہے،اوراس کامادہ”ولی“”ول ی“وہیئت فعیل ہے)تواس کاتقاضایہ ہے کہ مادہ”ولی“نصرکے معنی میں اوراس کی ہیئت)ہیئت فعیل) فاعل کے معنی میں ہے۔

ایک بات یہ کہ یہ دونوں نظریہ، بغیردلیل کے ہیں اوردوسرے یہ کہ:فعیل صفت مشبہ ہے جس کی دلا لت ثبوت پرہے جبکہ فاعل حدوث پردلالت کرتاہے اوریہ دونوں مفہوم کے اعتبار سے ایک دوسرے کے متغائیرہ ہیں۔

اس لئے”ولی“اسم الہی، اسی صاحب اختیاراورکائنات کے امورمیں متولی کے معنی میں ہے کہ جس کو دونوں اھل لغت نے اپنے مختارنظریہ کے بعد“قیل“کے عنوان سے بیان کیاہے۔

چوتھانکتہ:قرآن مجیدکی بہت سی آیتوں میں ”ولی“،”نصیر“ کے مقابلہ میں آیاہے، جیسے( ومالکم من دون اللّٰه من ولیّ ولانصیرا ً ) (۱) تمہارے لئے اس کے علاوہ نہ کوئی سرپرست ہے اورنہ مددگار“

اگر”نصیر“،”ولی“کے معنی میں ہوتاتواس کے مقابلہ میں قرارنہیں دیا جا تااوران دونوں لفظوں کاایک دوسرے سے مقابلہ میں واقع ہو نااس بات کی دلیل ہے کہ مفہوم کے لحاظ سے یہ دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

_____________________

۱۔بقرہ/۱۰۷

۱۳۶

پانچواں نکتہ:بعض افرادنے قرآن مجید کی بہت سی آیات کے بارے میں یہ تصورکیا ہے کہ ولی اورولایت نصرت اورمددکے معنی میں استعما ل ہوا ہے،جیسے:( مالکم من ولایتهم من شیء ) (۱) جب کہ ولایت سے مراد”نصرت کی ولایت“ہوسکتاہے نہ یہ کہ ولایت”نصرت“کے معنی میں ہے،کیونکہ نصرت ومددولایت و سر پرستی کی علا متوں میں سے ایک

علا مت ہے اس لحاظ سے ولایت کامعنی سرپرستی کے علاوہ کچھ نہیں ہے اوراس سے نصرت ویاری میں سرپرستی مرادہے۔

”ولی“کے معنی کے سلسلہ میں جوکچھ بیان کیاگیا،اس کے پیش نظر،آیہء کریمہ میں صرف سرپرست اورصاحب اختیارہی والا معنی مراد ہے۔

اس کے علاوہ آیہء شریفہ میں قطعی ایسے قرینہ موجودہیں کہ جس سے مراد ”دوست“اور”یاور“نہیں ہوسکتے ہیں۔اس کی مزیدوضاحت سوالات کے جواب میں ائے گی۔

رکوع کے معنی

لغت میں ”رکوع“کے معنی جھکنااورخم ہوناہے۔اسی لئے نمازمیں جھکنے کو”رکوع“کہتے ہیں۔(۲)

زبیدی”تاج العروس(۳) “ میں کہتاہے:

”اگررکوع کوتنگدستی اورمفلسی کے لئے استعمال کیاجائے اور ایسے شخص کوجوامیری کے بعدفقیری اورتنگدستی میں مبتلا ہو جا ئے اورزوال سے دوچارہو تواسے”رکع

____________________

۱۔انفال/۷۲

۲۔الصاح جوہری،ج۳،ص۱۲۲۲،دارالعلم للملابین،القاموس المحیط،فیروزآبادی،ج۳، ص۳۱، دارالمعرفہ، بیروت،المنیر،فیومی،ص۲۵۴،ط مصر،جمھرة اللغة،ابن درید،ج۲، ص۱۷۷۰کتاب العین، خلیل بن احمد فراہیدی،ج۱،ص۲۰۰

۳۔تاج العروس،ج۲۱،ص۱۲۲،دارالہدایة للطباعة والنشر والتوزیع۔

۱۳۷

الرجل“کہتے ہیں اوریہ استعمال مجازی ہے۔“

اس لئے رکوع کاحقیقی معنی وہی جھکنااورخم ہوناہے اوراگراسے دوسرے کسی معنی،جیسے زوال اورخضوع میں استعمال کیاجائے تویہ اس کے مجازی معنی ہیں اوراس کے لئے قرینہ کی ضرورت ہے۔

آیہء ولایت کی شان نزول

شیعہ اوراہل سنّت تفسیروں کے منابع میں موجودبہت سی احادیث کے مطابق یہ آیہ شریفہ حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام کے بارے میں ناز ل ہو ئی ہے اور الذین آمنوا۔۔۔ سے مرادوہی حضرت(ع)ہیں۔

ہم اس سلسلہ میں ایک حدیث کو درج کرتے ہیں،جس کوثعلبی ۱ نے اپنی تفسیر ۲ میں سنی محدثین اور مفسرین سے نقل کیا ہے اورشیعوں کے بڑے مفسرشیخ طبرسی نے بھی اس کو”مجمع البیان ۳“ میں درج کیاہے:

”عن عبایة بن الربعی قال:بیناعبداللّٰه بن عباس جالس علی شفیرزمزم إذااٴقبل رجل متعمّم بالعمامة؛فجعل ابن عباس لایقول:”قال رسول اللّٰه( ص) إلاّقال الرجل:قال رسول اللّٰه( ص) “!!فقال ابن عباس:ساٴلتک باللّٰه،من اٴنت؟قال:فکشف العمامةعن وجهه وقال:یا اٴیّهاالناس،من عرفنی فقد عرفنی ومن لم یعرفنی فاٴنا “

جندب من جنادةالبدری،اٴبوذرالغفاری،سمعت رسول اللّٰه

___________________

۱ ۔ثعلبی کے بارے میں ذہبی کا قول دوسرے اعتراض کے جواب میں بیان کیاجائے گا۔

۲” الکشف والبیان“ج ۴ ،ص ۸۱ ۔ ۸۰ ،داراحیائ التراث العربی

۳ ۔مجمع البیان،ج ۳ ،ص ۳۲۴

۱۳۸

( ص) بها تین وإلاّصمّتا،وراٴیته بها تین وإلاّفعمیتا،یقول:علیّ قائد البررة،وقاتل الکفرة،منصورمن نصره،مخذول منخذ لهاٴماّ إنّی صلّیت مع رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یوماًمن الاٴیاّم صلاةالظّهر،فدخل سائل فی المسجدفلم یعطه اٴحد،فرفع السائل یده إلی السّماء وقال:اللّهمّ اٴشهد إنّی ساٴلت فی مسجدرسول اللّٰه فلم یعطنی احد شیئاً - وکان علیّ راکعاً - فاٴومی إلیه بخنصره الیمنی - وکان یتختّم فیها - فاٴقبل السائل حتیّاٴخذالخاتم من خنصره!وذلک بعین النبیّی

فلماّ فرغ النّبیّی( ص) من الصلاةرفع یده إلیالسّماء وقال:اللّهمّ إنّ اٴخی موسی ساٴلک فقال:( ربّ اشرح لی صدری ویسّرلی امری،واٴجعل لی وزیراً من اٴهلی هارون اٴخی اشدد به اٴزری ) فاٴنزلتَ علیه قرآناًناطقاً( سنشدّعضدک باٴخیک ونجعل لکما سلطا ناً )

اللّهمّ واٴنامحمّدنبیّک وصفیکاللّهمّ فاشرح لی صدری ویسّرلی اٴمری،واٴجعل لی وزیراًمن اٴهلی علیّاً اشددبه ظهری

قال اٴبوذر:فواللّٰه مااستتمّ رسول اللّٰه الکلمة حتّی اُنزل علیه جبرئیل من عنداللّٰه،فقال یامحمّد!إقراٴ،فقال:ومااٴقراٴ؟قال:إقراٴ:، ”إنّما ولیّکم اللّٰه ورسوله إلی راکعون“الآیة

”عبایہ بن ربیع سے روایت ہے کہ اس نے کہا:اس وقت جب عبداللہ بن عباس)مسجد الحرام میں )زمزم کے کنارے بیٹھے تھے ) اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حدیث روایت کررہے تھے)اچانک ایک عمامہ پوش شخص آپہونچا)اوررسول خدا (ص)سے اس طرح حدیثیں نقل کرنا شروع کیں)کہ جب عبداللہ ابن عباس کہتے تھے:”قال رسول اللہ، (ص)“وہ شخص بھی کہتاتھا:”قال رسول اللہ (ص)۔“ابن عباس نے کہ:تمھیں خدا کی قسم ہے یہ بتاؤکہ تم کون ہو؟اس شخص نے اپنے چہرے سے نقاب ہٹائی اورکہا:اے لوگو!جومجھے پہچانتاہے،وہ پہچانتاہے،اورجومجھے نہیں پہچانتامیں اسے اپنے بارے میں بتادیناچاہتاہوں کہ میں جندب،جنادئہ بدری کابیٹا،ابوذرغفاری ہوں۔میں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اپنے ان دونوں)کانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے)کا نوں سے سنا اگریہ با ت صحیح نہ ہو تو)میرے کان)بہرے ہو جائیں اوران دونوں انکھوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) آنکھوں سے دیکھا اگر یہ با ت درست نہ ہو تو میری آنکھیں اندھی ہوجائیں)میں نے سنا اور دیکھا) فرما رہے تھے: علی (علیہ السلام) نیکوں کے پیشوااور کافروں کے قاتل ہیں۔جوان کی مددکرے گااس کی خدا نصرت کرے گا،اورجوانھیں چھوڑدے گاخدااسے بھی چھوڑدے گا۔

۱۳۹

ایک دن میں رسول خدا (ص)کے ساتھ ظہرکی نمازپڑھ رہاتھاکہ ایک سائل نے اہل مسجد سے سوال کیا،کسی نے اس کی حاجت پوری نہیں کی۔سائل نے اپنے ہاتھآسمان کی طرف بلند کئے اورکہا:

خداوندا! تو گواہ رہناکہ میں نے مسجدالنبی میں سوال کیااورکسی نے میری حاجت پوری نہیں کی۔علی(علیہ السلام)رکوع کی حالت میں تھے،اپنی چھوٹی)انگلی جس میں انگوٹھی تھی)سے اس کی طرف اشارہ کیا۔سائل نے سامنے سے آکرانگوٹھی آپ(ع)کے ہاتھ سے نکال لی۔رسول خدا (ص)اس واقع کے شاہد اور گواہ ہیں جب پیغمبراسلام (ص)نمازسے فارغ ہوئے آسمان کی طرف رخ کرکے عرض کی:خداوندا!میرے بھائی موسیٰ(علیہ السلام) نے تجھ سے سوال کیا اور کہا”پروردگارا!میرے سینے کوکشادہ کردے،میرے کام کو آسان کر دے اور میری زبان کی گرہوں کوکھول دے،تا کہ یہ لوگ میری بات سمجھ سکیں اور میرے اہل میں سے میرے بھائی ہارون کومیراوزیرقراردیدے،اس سے میری پشت کومضبوط کردے،اسے میرے کام میں شریک بنادے۔“)اس کی درخواست کو بر لا)اور تو نے اس داستان کے بارے میں قرآن مجیدمیں یوں فرمایا:”ہم تمھارے بازؤں کوتمھارے بھائی)ہارون)سے مضبوط کردیں گے اورتمھیں ان پرمسلط کردیں گے۔“

خداوندا!میں تیرا بر گزیدہ پیغمبرہوں،خداوندا!میرے سینے کوکشادہ کردے،میرے کام کوآسان کر،میرے اہل میں سے میرے بھائی علی(ع)کومیر اوزیرقراردے اوراس سے میری پشت کومضبوط کر۔)ابوذرکہتے ہیں:)خدا کی قسم رسول خدا (ص)نے ابھی اپنی بات تمام بھی نہیں کی تھی کہ جبرئیل امین خداکی طرف سے نازل ہوئے اورکہا:اے محمد!پڑھئے!) آنحضرت نے) کہا:کیا پڑھوں؟ )جبرئیل نے کہا)پڑھئیے: إ( نّماولیکم اللّٰه ورسوله ) ۔۔۔ “

شیخ طبرسی نے اس حدیث کے خاتمہ پرکہاہے:اس روایت کوابواسحاق ثعلبی نے اپنی تفسیر میں اسی سند سے)کہ جیسے میں نے ذکرکی ہے)نقل کیاہے۔اس شان نزول کو بیان کر نے والی بہت ساری حدیثیں ہیں ان میں سے بعض کوہم دوسری مناسبتوں کے سلسلہ میں بیان کریں گے اوران میں سے بعض دوسری احادیث کے حوالہ ابن تیمہ کے جواب کے ذیل میں عرض کریں گے۔ان احادیث کے پیش نظرواضح ہو گیا کہ یہ شان نزول قطعی ہے اوراس میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجا ئش نہیں ہے۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' اپنی زبان کو قابو اور اس کی حفاظت کر یہ نفس کے لئے بہترین ہدیہ ہے_ انسان صحیح اور حقیقی ایمان تک نہیں پہنچتا مگر یہ کہ وہ اپنی زبان کی نگاہ داری اور حفاظت کرے_(۴۲۱)

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' تین چیزیں فہم اور فقہ کی علامت ہیں تحمل اور بردباری _ علم اور سکوت_ ساکت رہنا دانائی کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے_ ساکت رہنا محبت کا سبب ہوتا ہے اور ہر نیکی کی دلیل ہے_(۴۲۲)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' جب عقل کامل ہوتی ہے تو گفتگو ہو جاتی ہے_(۴۲۳)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے ''کوئی بھی عبادت ساکت رہنے اور خانہ کعبہ کی طرف پیدل جانے سے افضل نہیں ہے_(۴۲۴)

رسول خدا نے جناب ابوذر سے فرمایا کہ '' میں تجھے زیادہ ساکت رہنے کی سفارش کرتا ہوں اس واسطے کہ اس وسیلے سے شیطن تم سے دور ہوجائے گا_ دین کی حفاظت کے لئے ساکت رہنا بہتر مددگار ہے_(۴۲۵)

خلاصہ انسان سالک اور عارف پر ضروری ہے کہ وہ اپنی زبان پر پوری طرح کنٹرول کرے اور سنجیدہ اور سوچ سمجھ کر بات کرے اور زیادہ اور بیہودہ باتیں کرنے سے پرہیز کرے دنیاوی امور میں ضرورت کے مطابق باتیں کرے جو اسے زندگی کرنے کے لئے ضروری ہیں اور اس کے عوض اللہ تعالی کا ذکر اور ورد اور علمی مطالب اور فائدہ مند اور اجتماع کے لئے مفید گفتگو کرنے میں مشغول رہے _ ہمارے بزرگاور عارف ربانی استاد علامہ طباطبائی فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ساکت رہنے کے گراں قدر آثار مشاہدہ کئے ہیں_ چالیس شب و روز ساکت رہنے کو اختیار کیجئے اور سوائے ضروری کاموں کے باتیں نہ کریں اور فکر اور ذکر خدا میں مشغول رہیں تا کہ تمہارے لئے نورانیت اور صفاء قلب حاصل ہو سکے_

۲۴۱

چھٹی رکاوٹ

اپنی ذات اور اپنے اپ سے محبت ہے اگر عارف انسان نے تمام رکاوٹیں دور کر لی ہوں تو پھر اس کے سامنے ایک بڑی رکاوٹ سامنے آتی ہے اور وہ ہے اس کا جب ذات یعنی اپنی ذات سے محبت کرنا_ وہ متوجہ ہوگا کہ اس کے تمام کام اور حرکات یہاں تک کہ اس کی عبادت و غیرہ کرنا سب کے سب اپنی ذات کی محبت کیوجہ سے انجام پارہے ہیں_ عبادت ریاضت ذکر اور دعا نماز اور روزے اس لئے انجام دے رہا ہے تا کہ اپنے نفس کو کامل کرے اور اسے ان کی اجزاء آخرت میں دی جائے گرچہ اس طرح کی عبادت کرنا بھی انسان کو بہشت اور آخرت کے ثواب تک پہنچا دیتی ہے لیکن وہ ذکر اور شہود کے بلند و بالا مقام اور رتبہ تک نہیں پہنچاتی جب تک اس کا نفس حب ذات کو ترک نہ کرے اور وہ اللہ تعالی کے بے مثال جمال کا مشاہدہ نہیں کر سکے گا جب تک تمام حجاب اور موانع یہاں تک کہ حب ذات کا حجاب اور مانع بھی ترک نہ کرے اس صورت میں وہ انوار الہی کا مرکز بننے کی قابلیت اور استعداد پیدا نہیں کر سکے گا_ لہذا عارف اور سالک انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ریاضت اور مجاہدہ کر کے اپنے آپ کو حب ذات کی حدود سے باہر نکالے اپنی ذات کی محبت کو خدا کی محبت میں تبدیل کر دے اور تمام کاموں کو صرف اور صرف اللہ تعالی کی رضا کے لئے بجا لائے اگر غذا کھاتا ہے تو اس غرض سے کھائے کہ اس کے محبوب نے زندہ رہنے کے لئے اسے ضروری قرار دیا ہے اور اگر عبادت کرتا ہے تو اسے اس نیت سے بجالائے کہ ذات الہی ہی عبادت اور پرستش کی سزاوار اور مستحق ہے_ اس طرح کا انسان نہ دینا کا طلب کرنے والا ہوتا ہے اور نہ آخرت کا بلکہ وہ صرف خدا کا طلب کرنے والا ہوتا ہے_ یہاں تک کہ وہ کشف اور کرامت کا طلبکار بھی نہیں ہوتا اور سوائے حقیقی معبود کے اس کا کوئی اور مطلوب اورمنظور نظر نہیں ہوتا_ اگر کوئی اس مرحلے کو طے کر لے یہاں تک کہ اپنی شخصیت اور ذات کو اپنے آپ سے جدا کردے تو وہ مقام توحید میں

۲۴۲

قدم رکھ لے گا اور شہود اور لقاء اللہ کے بلند اور بالا مقام تک ترقی کر جائیگا اور بارگاہ مقعد صدق عند ملیک مقتدر میں نازل ہوجائیگا_

ساتویں رکاوٹ

کمال اور عرفان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ اور شاید یہ سابقہ تمام رکاوٹوں سے بھی زیادہ ہو وہ ہے ارادہ کا ضعیف ہونا_ اور حتمی فیصلے کرنے کی قدرت نہ رکھنا _ یہ رکاوٹ اور مانع انسان کو عمل شروع کرنے سے روک دیتی ہے_ شیطن اور نفس کرتا ہے کہ انسان کو ظاہر ی ذمہ داری اور وظائف شرعی کی بجالانے کو کافی قرار دے گرچہ اس میں حضور قلب اور توجہہ نہ بھی ہو_ شیطن انسان کو کہتا ہے کہ تو صرف انہیں عبادت کے بجالانے کے سوا اور کوئی شرعی وظیفہ نہیں رکھتا تجھے حضور قلب اور توجہہ اور ذکر سے کیا کام ہے؟ اور اگر کبھی انسان اس کی فکر کرنے بھی لگے تو اسے سینکٹروں حیلے اور بہانوں سے روک دیتا ہے اور کبھی اس مطلب کو اس کرے لئے اتنا سخت نمایاں کرتا ہے کہ انسان اس سے مایوس اور نامید ہوجاتا ہے لیکن اس انسان کے لئے جو کمال حاصل کرنے کا ارادہ کرتا ہے ضروری ہے کہ وہ شیطن اور نفس امارہ کے ایسے وسوسوں کے سامنے رکاوٹ بنے اور احادیث اور آیات اور اخلاق کی کتابوں کے مطالعے کرنے سے معلوک کرے کہ سیر اور سلوک کے لئے حضور قلب اور ذکر و شہود کی کتنی ضرورت اور اہمیت ہے اور جب اس نے اس کی اہمیت کو معلوم کر لیا اور اپنی ابدی سعادت کو اس میں دیکھ لیا تو پھر حتمی طور سے اس پر عمل کرے گا اور مایوسی اور ناامیدی کو اپنے سے دور کردے گا اور اپنے آپ سے کہے گا کہ یہ کام گرچہ مشکل ہے اور چونکہ اخروی سعادت اس سے وابستہ ہے لہذا ضرور مجھے اس پر عمل کرنا چاہئے_ اللہ تعالی فرماتا ہے جو ہمارے راستے

۲۴۳

میں کوشش اور جہاد کرتے ہیں ہم اس کو اپنے راستوں کی راہنمائی کر دیتے ہی_

و الذین جاهدوا فینا لنهدینهم سبلنا (۴۲۶)

ہماری یہ ساری بحث اور کلام تکامل اور تقرب الہی کے پہلے وسیلے اور ذریعے میں تھی یعنی اللہ تعالی کے ذکر میں تھی _ بحث کی طوالت پر ہم معذرت خواہ ہیں_

۲۴۴

دوسرا وسیلہ

فضائل اور مکارم اخلاق کی تربیت

نفس کے کمال تک پہنچنےاور قرب الہی کے حاصل کرنے کے لئے ایک وسیلہ ان اخلاقی کی جو انسان کی فطرت اور سرشت میں رکھ دیئے گئے ہیں پرورش اور تربیت کرنا ہے_ اچھے اخلاق ایسے گران بہا امور ہیں کہ جن کا ربط اور سنخیت انسان کے ملکوتی روح سے ہے ان کی تربیت اور پرورش سے انسان کی روح کامل سے کاملتر ہو جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے بلند و بالا مقام قرب تک پہنچتا ہے_ اللہ تعالی کی مقدس ذات تمام کمالات کا منبع اور سرچشمہ ہے_ انسان چونکہ عالم بالا سے تعلق رکھتا ہے وہ اپنی پاک فطرت سے کمالات انسانی کو کہ جن کی عالم بالا سے مناسبت ہے انہیں خوب پہچانتا ہے اور فطرتا ان کی طرف مائل ہے اسی لئے تمام انسان تمام زمانوں میں نیک اخلاق کو جانتے اور درک کرتے ہیں جیسے عدالت_ ایثار_ سچائی_ امانتداری _ احسان _ نیکی_ شجاعت_ صبر اور استقامت علم خیر خواہی مظلوموں کی مدد شکریہ احسان شناسی سخاوت اور بخشش_ وفا

۲۴۵

عہد_ توکل_ تواضع اور فروتنی_ عفو اور درگزر_ نرمی مزاجی _ خدمت خلق و غیرہ ان تمام کو ہر انسان خوب پہچانتے اور جانتے ہیں خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتاہے_ کہ قسم نفس کی اور اس کی کہ اسے نیک اور معتدل بنایا ہے اور تقوی اور منحرف ہوجانے کا راستہ اسے بتلایا ہے کامیاب وہ ہوا جس نے اپنے نفس کو پاک بنایا اور نقصان میں ہوگا وہ کہ جس نے اپنے نفس کو آلودہ اور ناپاک بنایا_(۴۳۷)

جب اخلاقی کام بار بار انجام دیئے جائیں تو وہ نفس میں راسخ اور ایک قسم کا ملکہ پیدا کر لیتے ہیں وہی انسان کو انسان بنانے اور اپنا نے اور ہوجانے میں موثر اور اثر انداز ہوتے ہیں اسی واسطے اسلام اخلاق کے بارے میں ایک خاص طرح کی اہمیت قرار دیتا ہے_ اسلام کا ایک بہت بڑا حصہ اخلاقیات پر مشتمل ہے_ سینکٹروں آیات اور روایات اخلاق کے بارے میں وارد ہوئی ہیں_ قرآن مجید کی زیادہ آیتیں اخلاق کے بارے میں اور اخلاقی احکام پر مشتمل ہیں یہاں تک کہ اکثر قرآن کے قصوں سے غرض اور غایت بھی اخلاقی احکام امور ہیں اور کہا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید ایک اخلاقی کتاب ہے _ قاعدتا پیغمبروں کے بھیجنے کی ایک بہت بڑی غرض اور غایت بھی نفس کو پاک اور صاف بنانا اور اخلاق کی اور پرورش کرنا ہے_ ہمارے پیغمبر علیہ السلام نے بھی اپنی بعثت اور بھیجے جانے کی غرص اخلاق کی تکمیل کرنا اور نیک اخلاق کی تربیت کرنا بتلائی ہے اور فرمایا ہے کہ '' میں اللہ تعالی کی طرف سے بھیجا گیا ہوں تا کہ نیک اخلاق کو پورا اور تمام کروں_(۴۲۸)

پیغمبر اسلام لوگوں سے فرماتے تھے کہ '' میں نیک اخلاق کی تمہیں نصیحت اور وصیت کرتا ہوں کیونکہ خداوند عالم نے مجھے اسی غرض کے لئے بھیجا ہے_(۴۲۹)

نیز پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن اعمال کے ترازو میں اخلاق حسنہ سے کوئی چیز افضل ہو نہیں رکھی جائیگی_(۴۳۰)

۲۴۶

تیسرا وسیلہ

عمل صالح

قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کے بعد انسان کے تکامل کا وسیلہ اعمال صالح ہیں کہ جن کی وجہ سے انسان قرب خدا اور درجات عالیہ کو حاصل کر سکتا ہے اور اپنی اخروی زندگی کو پاک و پاکیزہ بنا سکتا ہے_ قرآن مجید میں ہے کہ '' جو شخص نیک اعمال بجا لائے خواہ مرد ہو یا عورت جب کہ ایمان رکھتا ہو ہم اس کو ایک پاکیزہ میں اٹھائیں گے اور اسے اس عمل سے کہ جسے وہ بجا لایا ہے_ بہتر جزاء اور ثواب دیں گے_(۴۳۱)

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے لئے دنیا کی زندگی کے علاوہ ایک اور پاک و پاکیزہ زندگی ہے اور وہ نئی زندگی اس کے ایمان اور عمل صالح کے نتیجے میں وجود میں آتی ہے_ قرآن فرماتا ہے کہ '' جو لوگ ایمان اور عمل صالح کے ساتھ خداوند عالم کی طرف لوٹیں یہی وہ لوگ ہیں جو مقامات اور درجات عالیہ پر فائز ہوتے ہیں_(۴۳۲)

خداوند عالم فرماتا ہے کہ '' جو انسان اللہ تعالی کی ملاقات کی امید رکھتا ہے اسے نیک عمل بجالانا چاہئے اور عبادت میں خدا کا کوئی شریک قرار نہ دینا چاہئے_(۴۳۳)

نیز اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جو شخص عزت کا طلبکار ہے تو تمام عزت اللہ تعالی کے

۲۴۷

پاس ہے کلمہ طیبہ اور نیک عمل اللہ تعالی کی طرف جاتا ہے_(۴۳۴)

اللہ تعالی اس آیت میں فرماتا ہے کہ تمام عزت اور قدرت اللہ کے لئے مخصوص ہے اسی کے پاس ہے اور کلمہ طیبہ یعنی موحد انسان کی پاک روح اور توحید کا پاک عقیدہ ذات الہی کی طرف جاتا ہے اور اللہ تعالی نیک عمل کو اپنے پاس لے جاتا ہے_ نیک عمل جب خلوص نیت سے ہو تو انسان کی روح پر اثر انداز ہوتا ہے اور اسے ترقی اور کمال دیتا ہے_ قرآن مجید سے معلوم ہوتاہے کہ آخرت کی پاک و پاکیزہ زندگی اور اللہ تعالی سے قرب اور القاء کا مرتبہ ایمان اور عمل صالح کے ذریعے حاصل ہوتا ہے_ قرآن مجید نے نیک اعمال کے بجا لانے پر بہت زیادہ زور دیا ہے خدا سعادت اور نجات کا وسیلہ صرف عمل صالح کو جانتا ہے نیک عمل کا معیار اور میزان اس کا شریعت اور وحی الہی کے مطابق ہونا ہوا کرتا ہے_ خداوند عالم جو انسان کی خصوصی غرض سے واقف ہے اس کی سعادت اور تکامل کے طریقوں کو بھی جانتا ہے اور ان طریقوں کو وحی کے ذریعے پیغمبر اسلام کے سپرد کر دیا ہے تا کہ آپ انہیں لوگوں تک پہنچا دیں اور لوگ ان سے استفادہ حاصل کریں_

خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ '' جو لوگ ایمان لے آئے ہیں جب خدا اور اس کا رسول تمہیں کسی چیز کی طرف بلائیں جو تمہیں زندگی عطا کرتی ہیں تو اسے قبول کرو_(۴۳۵)

نیک اعمال شرعیت اسلام میں واجب اور مستحب ہوا کرتے ہیں_ عارف اور سالک انسان ان کے بجالانے سے اللہ تعالی کی طرف سیر و سلوک کرتے ہوئے قرب الہی کے مقام تک پہنچ سکتا ہے اور یہی تنہا قرب الہی تک پہنچنے کا راستہ ہے اور دوسرے جتنے راستے ہیں وہ عارف کو اس مقصد تک نہیں پہنچا سکتے بلکہ وہ ٹیڑھے راستے ہیں_ عارف انسان کو مکمل طور سے شرعیت کا مطیع اور فرمانبردار ہونا چاہئے اور سیر و سلوک کے لیے شرعیت کے راستے کے علاوہ اور کوئی راستہ اختیار نہیں کرنا چاہئے اور ان اذکار اور اوراد اور حرکت سے کہ جس کا شرعیت اسلام میں کوئی مدرک اور

۲۴۸

ذکر موجود نہ ہو اس سے اجتناب اور پرہیز کرنا چاہئے نہ صرف وہ مقصد تک نہیں پہنچاتے بلکہ وہ اس کو مقصد سے دور بھی کر دیتے ہیں کیونکہ شرعیت سے تجاوز کرنا بدعت ہوا کرتا ہے_ عارف اور سالک انسان کو پہلے کوشش کرنی جاہئے کہ وہ واجبات اور فرائض دینی کو صحیح اور شرعیت کے مطابق بجالائے کیونکہ فرائض اور واجبات کے ترک کردینے سے مقامات عالیہ تک نہیں پہنچ سکتا گرچہ وہ مستحبات کے بجالائے اور ورد اور ذکر کرنے میں کوشاں بھی رہے_ دوسرے مرحلے میں مستحبات اور ذکر اور ورد کی نوبت آتی ہے_ عارف انسان اس مرحلے میں اپنے مزاجی استعداد اور طاقت سے مستحبات کے کاموں کا بجا لائے اور جتنی اس میں زیادہ کوشش کرے گا اتنا ہی عالی مقامات اور رتبے تک جا پہنچے گا_ مستحبات بھی فضیلت کے لحاظ سے ایک درجے میں نہیں ہوتے بلکہ ان میں بعض دوسرے بعض سے افضل ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں بہتر اور جلدی مقام قرب تک پہنچاتے ہیں جیسے احادیث کی کتابوں میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے_ عارف انسان نمازیں دعائیں ذکر اور اوراد کتابوں سے انتخاب کرے اور اس کو ہمیشہ بجا لاتا رہے جتنا زیادہ اور بہتر بجا لائیگا اتنا صفا اور نورانیت بہتر پیدا کرے گا اور مقامات عالیہ کی طرف صعود اور ترقی کرے گا ہم یہاں کچھ اعمال صالح کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور باقی کو کتابوں کی طرف مراجعہ کرنے کا کہتے ہیں لیکن اس کا ذکر کر دینا ضروری ہے کہ فرائض اور نوافل ذکر اور ورد اس صورت میں عمل صالح ار موجب قرب ہونگے جب انہیں بطور اخلاص بجا لایا جائے_ عمل کا صالح اور نیک اور موجب قرب ہونا اخلاص اور خلوص کی مقدار کے لحاظ سے ہوگا لہذا پہلے ہم اخلاص اور خلوص میں بحث کرتے ہیں پھر کچھ تعداد اعمال صالح کی طرف اشارہ کریںگے_

اخلاص

اخلاص کا مقام اور مرتبہ تکامل اور سیر و سلوک کے اعلی ترین مرتبے میں سے ایک ہے اور خلوص کی کی وجہ سے انسان کی روح اور دل انوار الہی کا مرکز بن جاتا ہے

۲۴۹

اور اس کی زبان سے علم اور حکمت جاری ہوتے ہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص خدا کے لئے چالیس دن خالص اور فارغ ہوجائے تو اس کے دل سے حکمت اور دانائی کے چشمے ابلتے اور جاری ہوجاتے ہیں_(۴۳۶)

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' کہاں ہیں وہ لوگ جو اپنے اعمال کو خدا کے لئے خالص بجالاتے ہیں اور اپنے دلوں کو اس لئے کہ اللہ تعالی کی وجہ کا مرکز پاک رکھتے ہیں_(۴۳۷)

حضرت زہراء علیہا السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص خالص عبادت اللہ تعالی کی طرف بھیجے اللہ تعالی بھی بہترین مصلحت اس پر نازل فرماتا ہے_(۴۳۸)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے '' بندوں کا پاک دل اللہ تعالی کی نگاہ کا مرکز ہوتا ہے جس شخص نے دل کو پاک کیا وہ اللہ تعالی کا مورد نظر قرار پائیگا_(۴۳۹)

پیغمبر علیہ السلام نے جبرائیل علیہ السلام سے نقل کیا ہے اور اس نے اللہ تعالی سے نقل کیا ہے کہ '' خلوص اور اخلاص میرے رازوں میں سے ایک راز ہے کہ جس شخص کو میں دوست رکھتا ہوں اس کے دل میں یہ قرار دے دیتا ہوں_(۴۴۰)

خلوص کے کئی مراتب اور درجات ہیں_ کم از کم اس کا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی عبادت کو شرک اور ریاء اور خودنمائی سے پاک اور خالص کرے اور عبادت کو صرف خدا کے لئے انجام دے خلوص کی اتنی مقدار تو عبادت کے صحیح ہونے کی شرط ہے اس کے بغیر تو تقرب ہی حاصل نہیں ہوتا عمل کی قیمت اور ارزش اس کے شرک اور ریاء سے پاک اور خالص ہونے پر موقوف ہے_ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' خداوند عالم تمہاری شکل اور عمل کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے_(۴۴۱)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں بہترین شریک ہوں جو شخص کسی دوسرے کو عمل میں شریک قرار دے (تو تمام عمل کو اسی

۲۵۰

کے سپرد کر دیتا ہوں) میں سوائے خالص عمل کے قبول نہیں کرتا _(۴۴۲) امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خداوند عالم لوگوں کو قیامت میں ان کی نیت کے مطابق محشور کرے گا_(۴۴۳)

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' خوش نصیب ہے وہ شخص جو عبادت اور دعا کو صرف خدا کے لئے انجام دیتا ہے اور اپنی آنکھوں کو ان میں مشغول نہ کرے جو آنکھوں سے دیکھتا ہے اور اس کی وجہ سے جو اس سے کان پر پڑتا ہے اللہ تعالی کے ذکر کو فراموش نہ کرے اور جو چیزیں دوسروں کو دی گئی ہیں ان پر غمگین نہ ہو_(۴۴۴)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے_ ''عمل میں خلوص سعادت کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے_(۴۴۵) اللہ تعالی کے ہاں وہ عبادت قبول ہوتی ہے اور موجب قرب اور کمال ہوتی ہے جو ہر قسم کے ریاء اور خودپسندی اور خودنمائی سے پاک اور خالص ہو اور صرف اور صرف خدا کے لئے انجام دی جائے عمل کی قبولیت اور ارزش کا معیار خلوص اور اخلاص ہے جتنا خلوص زیادہ ہوگا اتناہی عمل کامل تر اور قیمتی ہوگا_ عبادت کرنے والے کئی طرح کے ہوتے ہیں_

ایک وہ لوگ جو اللہ تعالی کے عذاب اور جہنم کی آگ کے خوف اور ڈر سے عبادت بجا لاتے ہیں_

دوسرے وہ لوگ ہیں جو بہشت کی نعمتوں اور آخرت کے ثواب کے لئے اوامر اور نواہی کی اطاعت کرتے ہیں ان کا اس طرح کا عمل اس کے صحیح واقع ہونے کے لئے تو مضر نہیں ہوتا ان کا ایسا عمل صحیح اور درست ہے اور موجب قرب اور ثواب بھی ہے کیونکہ قرآن مجید اور احادیث میں لوگوں کو راہ حق کی ہدایت اور ارشاد اور تبلیغ کے لئے غالبا انہیں دو طریقوں سے استفادہ کیا گیا ہے بالخصوص پیغمبر علیہ السلام اور ائمہ اطہار اور اولیاء اللہ خداوند عالم کے عذاب سے ڈرتے تھے اور جزع اور فزع کیا کرتے تھے اور بہشت اور اس کی نعمتوں کے لئے شوق اور امید کا اظہار کیا کرتے تھے_

۲۵۱

تیسرے وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالی کی نعمتوں کے شکرانہ کے لئے اللہ تعالی کی پرستش اور عبادت کیا کرتے ہیں اس طرح کا عمل بجا لانا اسکے منافی نہیں جو عمل کے قبول ہونے میں خلوص شرط ہے اسی واسطے احادیث میں لوگوں کو عمل بجالانے کی ترغیب اور شوق دلانے میں اللہ تعالی کی نعمتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے تا کہ ان کی وجہ سے اللہ تعالی کے احکام کی اطاعت کریں بلکہ خود پیغمبر علیہ السلام اور ائمہ اطہار نے عبادت میں انہماک اور کوشش کرنے کا سبب یہ بتلایا ہے کہ کیا ہم اللہ کے شکر گزار بندے قرار نہ پائیں(افلا اکون عبدا شکورا)گر چہ ان تینوں کے اعمال قابل قبول واقع ہوتے ہیں لیکن تیسرے قسم کے لوگ ایک خاص امتیاز اور قیمت رکھتے ہیں کیونکہ ان میں خلوص زیادہ ہوتا ہے_ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں وہ تین قسم کے ہوتے ہیں ایک قسم وہ ہے جو آخرت کے ثواب حاصل کرنے کے لئے خدا کی عبادت کرتے ہیں_ ان لوگوں کا کردار تاجروں والا ہے دوسری قسم وہ ہے جو جہنم کے خوف سے اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں یہ اطاعت اور عبادت غلاموں اور نوکر والی ہے_ تیسری قسم وہ ہے جو اللہ تعالی کی نعمتوں کے شکرانے کے ادا کرنے کے لئے عبادت کرتے ہیں یہ عبادت آزاد مردوں والی عبادت ہے_(۴۴۶)

چوتھی قسم ان لوگوں کی ہے جو نفس کی تکمیل اور روح کی تربیت کے لئے عبادت کرتے ہیں اس طرح کا م قصد بھی اس خلوص کو جو عبادت کے صحیح ہونے میں شرط ضرر نہیں پہنچاتا_

پانچویں قسم اللہ کے ان ممتاز اور مخصوص بندوں کی ہے کہ جنہوں نے خدا کو اچھی طرح پہنچان لیا ہے اور جانتے ہیں کہ تمام کمالات اور نیکیوں کا منع اور سرچشمہ خدا ہے اس کی عبادت کرتا ہے اور چونکہ وہ اللہ کی بے انتہا قدرت اور عظمت کی طرف متوجہ ہیں اور اس ذات کے سوا کسی اور کو موثر نہیں دیکھتے صرف اسی ذات کو پرستش اور عبادت کے لائق سمجھتے ہیں اسی لئے خدا کو دوست رکھتے ہیں اور اس کی قدرت اور

۲۵۲

عظمت کے سامنے خضوع اور خشوع کرتے ہیں اور یہ اخلاص اور خلوص کا اعلی ترین درجہ اور مرتبہ ہے_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ عبادت کرنے والے تین گروہ ہیں_ ایک گروہ ثواب کی امید میں عبادت کرتا ہے یہ عبادت حریص لوگوں کی ہے کہ جن کی غرض طمع ہوتا ہے دوسرا گروہ وہ ہے جو دوزخ کے ڈر سے عبادت کرتا ہے_ یہ عبادت غلاموں کی عبادت ہے کہ خوف اس کا سبب بنتا ہے لیکن میں چونکہ خدا کو دوست رکھتا ہوں اسی لئے اس کی پرستش اور عبادت کرتا ہوں یہ عبادت بزرگوں اور اشراف لوگوں کی ہے اس کا سبب اطمینان اور امن ہے اللہ تعالی فرماتا ہے (و ہم فزع یومئسذ امنون کہ وہ قیامت کے دن امن میں ہیں_ نیز اللہ فرماتا ہے ''قل ان کنتم تحبون الله فاتبعونی یحببکم الله و یغفر لکم ذنوبکم _(۴۴۷) امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' اے میرے مالک_ میں تیری عبادت نہ دوزخ کے خوف سے اور نہ بہشت کے طمع میں کرتا ہے بلکہ میں تیری عبادت اس لئے کرتا ہوں کے تجھے عبادت اور پرستش کے لائق جانتا ہوں_(۴۴۸)

یہ تمام گروہ مخلص ہیں اور ان کی عبادت قبول واقع ہوگی لیکن خلوص اور اخلاص کے لحاظ سے ایک مرتبے میں نہیں ہیں بلکہ ان میں کامل اور کاملتر موجود ہیں پانچویں قسم اعلی ترین درجہ پر فائز ہے لیکن یہ واضح رہے کہ جو عبادت کے اعلی مرتبہ پر ہیں وہ نچلے درجہ کو بھی رکھتے ہیں اور اس کے فاقد نہیں ہوتے بلکہ نچلے درجے کے ساتھ اعلی درجے کو بھی رکھتے ہیں_ اللہ تعالی کے مخلص اور صدیقین بندے بھی اللہ تعالی سے ڈرتے ہیں اور ان کے لطف اور کرم کی امید رکھتے ہیں اللہ تعالی کی نعمتوں کے سامنے شکر ادا کرتے ہیں اور معنوی تقرب اور قرب کے طالب ہوتے ہیں لیکن ان کی عبادت کا سبب فقط یہی نہیں ہوتا اور چونکہ وہ خدا کی سب سے اعلی ترین معرفت رکھتے ہیں اسی لئے اس کی عبادت اور پرستش کرتے ہیں یہ اللہ تعالی کے ممتاز اور منتخب بندے ہیں مقامات عالیہ کے علاوہ نچلے سارے درجات رکھتے ہیں کیونکہ جو انسان تکامل

۲۵۳

کے لئے سیر و سلوک کرتا ہے جب وہ اعلی درجے تک پہنچتا ہے تو نچلے درجات کو بھی طے کر کے جاتا ہے_

اب تک جو ذکر جو ذکر ہوا ہے وہ عبادت میں خلوص اور اخلاص تھا لیکن خلوص صرف عبادت میں منحصر نہیں ہوتا بلکہ عارف انسان تدریجا ایک ایسے مقام تک جا پہنچتا ہے کہ وہ خود اور اس کا دل اللہ تعالی کے لئے خالص ہو جاتا ہے اور تمام غیروں کو اپنے دل سے اس طرح نکال دیتا ہے کہ اس کے اعمال اور حرکات اور افکار خداوند عالم کے ساتھ اختصاص پیدا کر لیتے ہیں اور سوائے اللہ تعالی کی رضایت کے کوئی کام بھی انجام نہیں دیتا اور خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا اور خدا کے سوا کسی پر اعتماد نہیں کرتا_ اس کی کسی سے دوستی اور دشمنی صرف خدا کے لئے ہوا کرتی ہے اور یہ اخلاص کا اعلی ترین درجہ ہے_

امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں خوش نصیب ہے وہ شخص کہ جس کا عمل اور علم محبت اور بغض کرنا اور نہ کرنا بولنا اور ساکت رہنا تمام کا تمام خدا کے لئے خالص ہو_(۴۴۹)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جس شخص کی محبت اور دشمنی خرچ کرنا اور نہ کرنا صرف خدا کے لئے ہو یہ ان انسانوں میں سے ہے کہ جس کا ایمان کامل ہوتا ہے_(۴۵۰) امام جعفر صادق علیہ السلام نے ''فرمایا ہے کہ اللہ تعالی نے جس بندے کے دل میں سوائے خدا کے اور کوئی چیز نہ رکھی ہو تو اس کو اس سے اور کوئی شریف ترین چیز عطا نہیں کی_(۴۵۱)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کہاں ہے وہ دل جو اللہ تعالی کو بخش دیا گیا ہو اور اس کی اطاعت کا پیمان اور عہد بناندھا گیا ہو_(۴۵۲)

جب کوئی عارف انسان اس مرتبے تک پہنچ جائے تو خدا بھی اس کو اپنے لئے خالص قرار دے دیتا ہے اور اپنی تائید اور فیض اور کرم سے اس کو گناہوں سے محفوظ

۲۵۴

کر دیتا ہے اس طرح کا انسان مخلص پہچانا جاتا ہے اور مخلص انسان اللہ تعالی کے ممتاز بندوں میں سے ہوتے ہیں_

خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے کہ '' ہم نے ان کو آخرت کی یاد کے لئے خالص قرار دے دیا ہے_(۴۵۳)

قرآن کریم حضرت موسی علیہ السلام کے بارے میں فرماتا ہے کہ '' یقینا و ہ خالص ہوگیا ہے اور رسول اور پیغمبر ہے_(۴۵۴)

اللہ تعالی کے خالص بندے ایک ایسے مقام تک پہنچتے ہیں کہ شیطن ان کو گمراہ کرنے سے ناامید ہوجاتا ہے قرآن کریم شیطن کی زبان نقل کرتا ہے کہ اس نے خداوند عالم سے کہا کہ '' مجھے تیری عزت کی قسم کہ میں تیرے تمام بندوں کو سوائے مخلصین کے گمراہ کروں گا اور مخلصین کے گمراہ کرنے میں میرا کوئی حصہ نہیں ہے_(۴۵۵) بلکہ اخلاص کے لئے روح اور دل کو پاک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور عبادت کرنے میں کوشش اور جہاد کرنا ہوتا ہے_ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''عبادت کا نتیجہ اور ثمر اخلاص ہوتا ہے_(۴۵۶)

جیسے کہ احادیث میں وارد ہوا ہے کہ چالیس دن تک عبادت اور ذکر کو برابر بجا لانا دل کے صفا اور باطنی نورانیت اور مقام اخلاص تک پہنچنے کے لئے سبب اور موثر اورمفید ہوتاہے نہ صرف ایک دفعہ بلکہ تدریجا اور اخلاص کے باطنی مراحل طے کرتے رہنے سے ایسا ہو سکتا ہے_

۲۵۵

کچھ نیک اعمال

پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ انسان کو تکامل تک پہچانے اور قرب اور ارتقاء کے مقام تک لے جانے کا راستہ صرف اور صرف وحی الہی اور شرعیت کی پیروی کرنے میں منحصر ہے اور یہی وہ راستہ ہے کہ جسے انبیاء علیہم السلام نے بیان کیا ہے او رخود اس پر عمل کیا ہے اور اسے واجبات اور مستحبات سے بیات کیا ہے یہی عمل صالح ہے_ عمل صالح یعنی واجبات اور مستحبات جو اسلام میں بیان کئے گئے ہیں اور انہیں قرآن اور احادیث اور دعاؤں کی کتابوں میں لکھا گیا ہے آپ انہیں معلوم کر سکتے ہیں اور ان پر عمل کر کے استفادہ حاصل کر سکتے ہیں لیکن ہم یہاں پر ان میں سے کچھ کا ذکر کرتے ہیں_

اول: واجب نمازیں

قرب الہی اور سیر و سلوک معنوی کے لئے نماز ایک بہترین سبب اور عامل ہے_ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ہر پرہیزگار انسان کے لئے نماز قرب الہی کا وسیلہ ہے_(۴۵۷)

معاویہ بن وھب نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ بہترین وسیلہ جو بندوں کو خدا کے نزدیک کرتا ہے اور خدا اسے دوست رکھتا ہے کیا ہے؟ آپ نے فرمایا

۲۵۶

اللہ کی معرفت کے بعد میں نماز سے بہتر کوئی اور کسی چیز کو وسیلہ نہیں پاتا کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالی کے نیک بندے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خدا نے مجھے جب تک زندہ ہوں نماز اور زکوة کی سفارش ہے_(۴۵۸)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اللہ تعالی کے نزدیک نماز محبوب ترین عمل ہے_ انبیاء کی آخری وصیت نماز ہے_ کتنا ہی اچھا ہے کہ انسان غسل کرے اور اچھی طرح وضوء کرے اس وقت ایک ایسے گوشہ میں بیٹھ جائے کہ اسے کوئی نہ دیکھے اور رکوع اور سجود میں مشغول ہوجائے جب انسان سجدے میں جائے اور سجدے کو طول دے تو شیطن داد اور فریاد کرتا ہے کہ اس بندے نے خدا کی اطاعت کی اور سجدہ کیا اور میں نے سجدے کرنے سے انکار کر دیا تھا_(۴۵۹)

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ایک بندہ کی خدا کے نزدیک ترین حالت اس وقت ہوتی ہے جب وہ سجدے میں ہوتا اس واسطے کہ خداوند عالم فرماتا ہے کہ واسجد و اقترب_(۴۶۰)

حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''جب انسان نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو آسمان سے اس پر اللہ تعالی کی رحمت نازل ہوتی ہے اور اس کے ارد گرد ملائکہ گھیرا کر لیتے ہیں ایک فرشتہ کہتا ہے کہ اگر یہ نماز کی ارزش اور قیمت کو جانتا تو کبھی نماز سے روگردانی نہ کرتا_(۴۶۱)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے '' جب مومن بندہ نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو خداوند عالم نماز سے فارغ ہونے تک اس کی طرف نگاہ کرتا ہے اور آسمان سے اللہ تعالی کی رحمت اسے گھیر لیتی ہے اور فرشتے اس کے اردگرد گھیرا ڈال دیتے ہیں خداوند اس پر ایک فرشتے کو معین کر دیتا ہے جو اسے کہتا ہے کہ اے نماز پڑھتے والے اگر تو جان لیتا کہ تو کس کی توجہ کا مرکز ہے اور کس سے مناجات کر رہا ہے تو پھر تو کسی دوسری چیز کی طرف ہرگز توجہ نہ کرتا اور کبھی یہاں سے باہر نہ جاتا_(۴۶۲)

۲۵۷

نماز میں حضور قلب

نماز ایک ملکوتی اور معنوی مرکب ہے کہ جس کی ہر جزو میں ایک مصلحت اور راز مخفی ہے_ اللہ تعالی سے راز و نیاز انس محبت کا وسیلہ اور ارتباط ہے_ قرب الہی اور تکامل کا بہترین وسیلہ ہے_ مومن کے لئے معراج ہے برائیوں اور منکرات سے روکنی والی ہے_ معنویت اور روحانیت کا صاف اور شفاف چشمہ ہے جو بھی دن رات میں پانچ دفعہ اس میں جائے نفسانی آلودگی اور گندگی سے پاک ہو جاتا ہے اللہ تعالی کی بڑی امانت اور اعمال کے قبول ہونے کا معیار اور ترازو ہے_

نماز آسمانی راز و اسرار سے پر ایک طرح کا مرکب ہے لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ اس میں روح اور زندگی ہو_ نماز کی روح حضور قلب اور معبود کی طرف توجہہ اور اس کے سامنے خضوع اور خشوع ہے_ رکوع اور سجود قرات اور ذکر تشہد اور سلام نماز کی شکل اور صورت کو تشکیل دیتے ہیں_ اللہ تعالی کی طرف توجہ اور حضور قلب نماز کے لئے روح کی مانند ہے_ جیسے جسم روح کے بغیر مردہ اور بے خاصیت ہے نماز بھی بغیر حضور قلب اور توجہ کے گرچہ تکلیف شرعی تو ساقط ہو جاتی ہے لیکن نماز پڑھنے والے کو اعلی مراتب تک نہیں پہنچاتی نماز کی سب سے زیادہ غرض اور غایت اللہ تعالی کی یاد اور ذکر کرنا ہوتا ہے_ خداوند عالم پیغمبر علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ '' نماز کو میری یاد کے لئے برپا کر_( ۴۶۴)

قرآن مجید میں نماز جمعہ کو بطور ذکر کہا گیا ہے یعنی '' اے وہ لوگو جو ایمان لے آئے ہو موجب نماز جمعہ کے لئے آواز دی جائی تو اللہ تعالی کے ذکر کی طرف جلدی کرو_(۴۶۵)

نماز کے قبول ہونے کا معیار حضور قلب کی مقدار پر قرار پاتا ہے جتنا نماز میں حضور قلب ہوگا اتنا ہی نماز مورد قبول واقع ہوگی_ اسی لئے احادیث میں حضور قلب کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے_ جیسے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے ''کبھی آدھی نماز قبول ہوتی ہے اور کبھی تیسرا حصہ اور کبھی چوتھائی اور کبھی پانچواں حصہ

۲۵۸

اور کبھی دسواں حصہ_ بعض نمازیں پرانے کپڑے کی طرح لپیٹ کر نماز پڑھنے والے کے سرپر مار دی جاتی ہے_ تیری نماز اتنی مقدر قبول کی جائیگی جتنی مقدار تو خدا کی طرف توجہ کرے گا_( ۴۶۶) امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جب انسان نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو خدا اس کی طرف توجہہ کرتا ہے اور اپنی توجہ کو اس سے نہیں ہٹاتا مگر جب تین دفعہ وہ خدا سے غافل ہو جائے اس وقت خداوند عالم بھی اس سے اعراض اور روگردانی کر لیتا ہے_(۴۶۷)

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' سستی اور بیہودہ حالت میں نماز نہ پڑھو_ نماز کی حالت میں اپنی فکر میں نہ رہو کیونکہ تم خدا کے سامنے کھڑے ہو_ جان لو کہ نماز سے اتنی مقدار قبول ہوتی ہے جتنی مقدار تیرا دل اللہ کی طرف توجہ کرے گا_(۸ ۴۶)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' جو بندہ نماز کی حالت میں خدا کے علاوہ کسی کی طرف متوجہ ہو تو خدا اس سے کہتا ہے کہ اے میرے بندے کس کا ارادہ کیا ہے اور کس کو طلب کرتے ہو؟ کیا میرے علاوہ کسی کو خالق اور حفاظت کرنے والا ڈھونڈتے ہو؟ کیا میرے علاوہ کسی کو بخشنے والا طلب کرتے ہو؟ جب کہ میں کریم اور بخشنے والوں سے زیادہ کریم اور بخشنے والا ہوں اور سب سے زیادہ عطا کرنے والا ہوں میں تمہیں اتنا ثواب دونگا کہ جسے شمار نہیں کیا سکے گا میری طرف توجہ کر کیونکہ میں اور میرے فرشتے تیری طرف توجہ کر رہے ہیں اگر نمازی نے خدا کی طرف توجہ کی تو اس دفعہ اس کے گزرے ہوئے گناہ مٹ جاتے ہیں اور اس نے دوسری دفعہ خدا کے علاوہ کسی طرف توجہہ کی تو خداوند عالم دوبارہ اسے سابقہ گفتگو کی طرح خطاب کرتا ہے اگر اس نے نماز کی طرف توجہ کر لی تو اس کا غفلت کرنے والا گناہ بخشنا جاتا ہے اور اس کے آثار زائل ہوجاتے ہیں اور اگر تیسری دفعہ نماز سے توجہہ ہٹا لے خدا

۲۵۹

پھر بھی پہلے کی طرح اسے خطاب کرتا ہے اگر اس دفعہ نماز کی توجہ کر لے تو اس دفعہ اس کا غفلت والا گناہ بخش دیا جاتا ہے اور اگر چوتھی دفعہ نماز سے توجہ ہٹا لے تو خدا اور اس کے ملائکہ اس سے توجہ ہٹا لیتے ہیں_ خدا اس سے کہتا ہے کہ تجھے اسی کی طرف چھوڑے دیا ہے کہ جس کی طرف توجہ کر رہا ہے_(۴۶۹)

نماز کی ارزش اور قیمت خدا کی طرف توجہ اور حضور قلب سے ہوتی ہے توجہ اور حضور قلب کی مقدار جتنا اسے باطنی صفا اور تقرب الی اللہ حاصل ہوتا ہے_ بلا وجہ انبیاء علیہم السلام اور ائمہ اطہار اور اولیاء کرام نماز کو اتنی اہمیت نہیں دیتے تھے_ امیر المومنین علیہ السلام کے حالات میں لکھا ہے کہ جب نماز کا وقت ہوتا تھا تو آپ کے بدن پر لزرہ طاری ہوجاتا تھا اور آپکے چہرے کا رنگ بدن جاتا تھا_

آپ سے تبدیلی اور اضطراب کا سبب پوچھا گیا تو آپ نے جواب میں فرمایا ''کہ اس وقت اس امانت کے ادا کرنے کا وقت آپہنچا ہے جو آسمان اور زمین پر ڈالی گئی تھی لیکن وہ ڈرگئے تھے اور اس امانت کے اٹھانے سے انکار کر دیا تھا لیکن انسان نے اس بڑے امانت کے اٹھانے کو قبول کر لیا تھا میرا خوف اس لئے ہے کہ آیا میں اس امانت کو ادا کر لونگا یا نہ؟(۴۷۰)

امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے احوال میں کہا گیا ہے کہ نماز کے وقت ان کے چہرے کا رنگ زرد اور سرخ ہو جاتا تھا اور نماز کی حالت میں اس طرح ہوتے تھے کہ گویا اس گفتگو کر رہے ہیں کہ جسے وہ دیکھ رہے ہیں_(۴۷۱)

امام زین العابدین کے حالات میں لکھا ہے کہ جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو آپ کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوجاتا تھا اور ایک حقیر بندے کی طرح خدا کے سامنے کھڑے ہوتے تھے آپ کے بدن کے اعضاء خدا کے خوف سے لرزتے تھے اور آپ کی نماز ہمیشہ و داعی اور آخری نماز کی طرح ہوا کرتی تھی کہ گویا آپ اس کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھ سکیں گے_(۴۷۲)

حضرت زہرا علیہا السلام کے بارے میں ہے کہ نماز کی حالت میں سخت خوف کی

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271