امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت21%

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت مؤلف:
زمرہ جات: امامت
صفحے: 271

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 271 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 117630 / ڈاؤنلوڈ: 4470
سائز سائز سائز
امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

۱۔ امام باقر نے سلیمان کے سلسلے میں فرمایا: سلیمان بن داؤد نے ایک دن اپنے ساتھیوں سے کہا: خداوند عالم نے مجھے ایسی بادشاہی عطا کی ہے کہ اس سے پہلے کسی کو عطا نہیں ہوئی ہے ، ہوا کو میرے قبضہ میں قرار دیا اور انسان و جن،وحوش و طیور کو میر امطیع اور فرمانبردار بنایا مجھے پرندوں سے بات کرنے کا سلیقہ دیا حتیٰ سب کچھ مجھے دیا ہے ، لیکن ان تمام نعمتوں اور بادشاہی کے باوجود ایک دن بھی خوشی نصیب نہیں ہوئی لیکن کل اپنے قصرمیں داخل ہونا چاہتا ہوںتاکہ اس کی بلندی پر جا کر اپنے تحت فرمان ز مینوں کا نظارہ کروں گا لہٰذا کسی کو میرے پاس آنے کی اجازت نہ دینا تاکہ میں آسودہ خاطر رہوں اور کوئی ایسی چیز سننا نہیں چاہتا جو آج کے دن کو بد مزہ اور مکدر بنا دے ان لوگو ں نے کہا: جی ہاں ، ایسا ہی ہوگا۔

آنے والے کل کو اپنا عصا ہاتھ میں لیا اور اپنے قصر کی بلند ترین جگہ پر گئے اور اپنے عصا پر ٹیک لگا کر خوش و خرم اپنی سر زمین کا تماشہ کرنے لگے اور جو کچھ انہیں عطا ہوا تھا اس پرخوش حال ہوئے۔

اچانک ایک خوبرو، خوش پوشاک جوان پر نظر پڑ گئی، جوقصر کے ایک زاوئیے سے ان کی طرف آرہا تھا۔سلیمان نے اس سے پوچھا : کس نے تم کو اس قصر میں داخل کیا ہے جب کہمیں نے طے کیا تھا کہ آج قصر میں تنہا رہوں ؟ بتائو تاکہ میں بھی جانوں کہ کس کی اجازت سے داخل ہوئے ہو؟ اس جوان نے کہا: اس قصر کا پروردگار مجھے یہاں لایا ہے اور میں اس کی اجازت سے داخل ہوا ہوں؟ سلیمان نے کہا: قصر کا پروردگار اس کے لئے مجھ سے زیادہ سزاوار ہے ، تم کون ہو؟ کہا: میں موت کا فرشتہ ہوں، سلیمان نے کہا: کس لئے آئے ہو؟ کہا : آپ کی روح قبض کرنے آیا ہوں؛ کہا: جس بات کا تمہیں حکم دیا گیا ہے وہ انجام دو اس لئے کہ آج کا دن میری خوشی کا دن ہے خدا وند عالم اپنی ملاقات کے علاوہ کوئی اور خوشی میرے لئے نہیں چاہتا! پھر ملک الموت نے سلیمان کی روح اسی حال میں کہ اپنے عصا پرتکیہ کئے ہوئے تھے قبض کر لی۔

سلیمان مدتوں اپنے عصا پر تکیہ دئے کھڑے رہے لوگ انہیں دیکھ کر زندہ خیال کر رہے تھے، پھر اختلاف اور فتنہ میں مبتلا ہوگئے ان میں سے بعض نے کہا: سلیمان اتنی مدت تک بغیر سوئے ، تھکے ، کھائے، پئے اپنے عصا کے سہارے کھڑے رہے لہٰذا یہی ہمارے پروردگار ہیں لہٰذ ا ان ہی کی عبادت کرنی چاہئے، دوسرے گروہ نے کہا: سلیمان نے جادو کیا ہے وہ جادو کے ذریعے ایسا دکھار ہے ہیں کہ کھڑے ہوئے ہیں اور اپنے عصا پر ٹیک لگائے ہیں، جبکہ ایسا نہیں ہے ۔ مومنوں نے کہا: سلیمان نبی ہیں اور خدا کے بندے ہیں ، خدا جس طرح چاہے انہیں نمایاںکرے۔

اس اختلاف کے بعد، خدا وند عالم نے دیمکوںکو بھیجا تاکہ سلیمان کے عصا کو چاٹ جائیں، عصا ٹوٹا اور سلیمان اپنے قصر سے گر پڑے، یہ خدا وند عالم کا ارشاد ہے :

۱۰۱

( فلما خرَّ تبینت الجن ان لو کانوا یعلمون الغیب ما لبثوا فی العذاب المهین )

جب زمین پر گرے تو جنوں نے سمجھا کہ اگر غیب سے آگاہ ہوتے تو خوار کنندہ عذاب میں مبتلا نہیںہوتے۔( ۱ )

۲۔ امام صادق سے سوال ہوا :خدا وند عالم نے کس لئے آدم کو بغیر ماں باپ کے پیدا کیا اور عیسیٰ کو بغیر باپ کے خلق کیا اور باقی لوگوں کو ماں باپ دونوں سے؟ تو امام نے جواب دیا: اس لئے کہ لوگ خدا وند عالم کی قدرت کی تمامیت اور کمال کو جانیں اور سمجھیں کہ جس طرح وہ اس بات پر قادر ہے کہ کسی موجود کوفقط مادہ سے بغیر نر کے خلق کرے اسی طرح وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ موجود کو بغیر نر و مادہ کے خلق کرے۔ خداوندعالم نے ایسا کیا تاکہ اندازہ ہو کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔( ۲ )

قصص الانبیاء میں ذکر ہوا ہے :

خدا وند عالم نے ابلیس کو حکم دیا تاکہ آدم کا سجدہ کرے، ابلیس نے کہا: پروردگارا تیری عزت کی قسم! اگر مجھے آدم کے سجدہ سے معاف کر دے تو میں تیری ایسی عبادت کروں گا کہ کسی نے ویسی تیری عبادت نہیں کی ہوگی، خدا وند عالم نے فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ میری خواہش کے مطابق میری اطاعت ہو..۔( ۳ )

آپ سے ابلیس کے بارے میں پوچھا گیا: آیا ابلیس فرشتوں میں سے تھا یا جنوں میں سے ؟ فرمایا: فرشتے اسے اپنوں میں شمار کرتے تھے اور صرف خدا جانتا تھاکہ ابلیس ان میں سے نہیں ہے ۔ پھر جب سجدہ کا حکم دیا گیا تو اس نے اپنی حقیقت ظاہر کر دی۔

آپ سے بہشت آدم کے بارے میں سوال کیا گیا: آپ نے فرمایا: دنیاوی باغوں میں سے ایک باغ تھا جس پر ماہ وخورشید کی روشنی پڑتی تھی ، کیونکہ اگر وہ جاویدانی باغوں میں سے ایک باغ ہوتا تو ہرگز وہاں سے باہر نہیں کئے جاتے۔( ۴ )

خدا وند عالم کے کلام( فبدت لهما سؤائتهما ) برائیاں ان پر واضح ہوگئیں ۔( ۵ ) کے بارے میں

____________________

(۱)سورہ ٔ سبا ء ۱۴.اور بحار الانوار : ج ۱۴، ص ۱۳۶ ، ۱۳۷، بحوالہ ٔ علل الشرائع و عیون اخبار الرضا ـ.

(۲) بحار الانوار :ج ۱۱، ص ۱۰۸.

(۳) بحار الانوار : ج۱۱، ص۴۴ا.

(۴) بحار الانوار : ج۱۱، ص۱۴۳.

(۵)سورہ ٔ طہ:آیت ۱۲۱.

۱۰۲

سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: ان دونوں کی شرمگاہیں ناقابل دید تھیں پھر اس کے بعد آشکار ہو گئیں۔( ۱ )

ایک کافر اور زندیق نے امام صادق سے سوال کیا:

کہانت: (ستارہ شناسی، غیب گوئی )کس طرح اور کس راہ سے وجود میں آئی؟ اور کاہن کہاں سے لوگوں کو حوادث کی خبر دیتے تھے؟ امام نے فرمایا: کہانت زمانہ جاہلیت اور انبیاء کی فترت کے دور میں وجود میں آئی ہے ، کاہن قاضی اور فیصلہ کرنے والوں کی طرح ہوتا تھا اور لوگ جن مسائل میں مشکوک ہوتے تھے انکی طرف رجوع کرتے تھے اور وہ لوگوںکو حوادث اور واقعات کی خبر دیتے تھے یہ خبر دینا بھی مختلف راہوں سے تھا جیسے ذکاوت،ہوشیاری، وسوسہ نفس اور روح کی زیر کی اسی ساتھ شیطان بہت سی باتیں کاہن کے دل میں القاء کردیتا تھا، اس لئے کہ شیطان ان مطالب کو جانتا تھا اور انہیں کاہن تک پہنچاتا تھا اور اسے اطراف و جوانب کے حوادث اور روداد سے با خبر کرتا تھا۔

رہا سوال آسمانی خبروں کا: جب تک شیاطین شہاب کے ذریعہ آسمان سے بھگائے نہیںجاتے تھے اور آسمانی اخبار کے سننے، کے لئے کوئی حجاب اور مانع نہیں تھا وہ مختلف جگہوں پر چوری چھپے بات سننے کے لئے گھات لگا کر بیٹھ جاتے تھے اور ان اخبار کو سنتے تھے، ان لوگوں کی چوری چھپے سننے سے ممانعت کی وجہ بھی یہ تھی کہ زمین پر وحی آسمانی کے مانندکوئی ایسی چیز وجود میں نہ آئے جو لوگوں کو شک و تردید میں مبتلا کردے اور وحی خداوندی کی حقیقت ان سے مخفی رکھے وحی جسے خدا وند عالم حجت ثابت کرنے اور شبہوں کو بر طرف کرنے کے لئے بھیجتا ہے اسی جیسی کوئی دوسری چیز نہیں ہونی چاہئے۔

ایک شیطان استراق سمع کے ذریعہ اخبار آسمانی سے ایک کلمہ حوادث زمین کے بارے میں سن کر اچک لیتا تھا اور اسے زمین پر لاکر کاہن کو القا کر دیتا تھا کاہن بھی اپنی طرف سے چند اس پرکلموں کااضافہ کر تا اور حق و باطل کو ملا دیتاتھا۔

لہٰذا جو کچھ کاہن کی پیشین گوئی درست ہوتی تھی وہ وہی چیز تھی جسے شیطان نے سن کر اس تک پہونچائی تھی اور جو غلط اور نادرست ہو جاتی تھی وہ اس کی اپنی طرف سے اضافی اور باطل باتیں ہوتی تھیں اور جب شیاطین استراق سمع سے روک دیئے گئے تو کہا نت کا بھی خاتمہ ہو گیا۔

آج کل شیاطین صرف لوگوں کی خبریں کا ہنوں تک پہنچاتے ہیں،لوگ جن چیزوں سے متعلق بات کرتے

____________________

(۱) بحار الانوار : ج۱۱، ص۱۴۵.

۱۰۳

ہیں اور جو کام کرنا چاہتے ہیں شیاطین حوادث و روداد خواہ قریب کے ہوں یا دور کے جیسے چوری، قتل اور لوگوں کا گم ہو جانا ،دوسرے شیاطین تک پہنچادیتے ہیں،یہ لوگ بھی انسانوں کی طرح جھوٹے اور سچے ہیں۔اس زندیق نے امام سے کہا: شیاطین کس طرح آسمان پر جاتے تھے جبکہ وہ بھی دیگرانسانوںکی طرح غلیظ پُر اوربھاری بدن رکھتے ہیں اور سلیمان بن داؤد کے لئے ایسی عمارتیں بنائی کہ بنی آدم کے بس کی بات نہیں تھی؟امام نے فرمایا: جس وقت وہ جناب سلیمان نبی کے لئے مسخر ہوئے اسی وقت وہ سنگین، غلیظ اورپُر وزن ہو گئے ورنہ وہ تو نرم و نازک مخلوق ہیں ان کی غذا سونگھنا ہے اس کی دلیل ان کا آسمان پر استراق سمع کے لئے جانا ہے ، بھاری بھرکم اور وزنی جسم اوپر جانے کی صلاحیت نہیں رکھتا مگر یہ کہ زینہ ہو یا کوئی اور ذریعہ۔( ۱ )

ابلیس کے بارے میں کئے گئے سوال کے جواب میں کہ: کیا ابلیس فرشتوں میں سے ہے ؟ اورکیا وہ آسمانی امور میں دخالت رکھتا ہے ؟ فرمایا:ابلیس نہ تو فرشتوں میں سے تھا اور نہ ہی اس کا آسمانی امور میں کوئی دخل تھا وہ فرشتوں کے ساتھ تھا اور ملائکہ اسے اپنوں ہی میں خیال کرتے تھے یہ تو صرف خدا جانتا تھا کہ وہ ان میں سے نہیں ہے ، جب اسے آدم کے سجدہ کا حکم دیا گیا تو وہ چیز اس سے ظاہر ہو گئی جو اس کے اندر تھی ۔( ۲ )

جن ، شیاطین اور ابلیس کے بارے میں بحث کا خلاصہ

۱۔ جن:

ایک پوشیدہ مخلوق ہے جو قابل دید نہیں ہے خدا وند عالم نے قرآن کریم میں جنوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ جنوںکو آگ کے سیاہی مائل شعلوں سے خلق کیا ہے ۔

۲۔ شیطان :

انسان ، جنات اور حیوان میں سے ہر سر کش اور متکبر شخص کو کہتے ہیں ، اس بحث میں شیطان سے مراد شیاطین جن ہیں ۔

۳۔ ابلیس:

محزون، حیرت زدہ اور دلیل و برہان سے ناامید اورخاموش، محل بحث ابلیس وہی جنی مخلوق ہے جو آدم کے سجدے کا منکر ہوا۔خدا وند عالم نے جناتوں کی داستان اور ان کا سلیمان نبی کے تابع فرمان ہونا اور ان کے لئے مجسمے ، محراب بڑے بڑے ظروف بنانے اور یہ کہ ان کے درمیان کوئی ایسا تھا جو سلیمان کے اپنی جگہ سے اٹھنے سے پہلے ہی تخت بلقیس یمن سے شام لے آئے ان تمام چیزوں کی خبر دی ہے، اسی طرح جناب سلیمان کا ان پر تسلط جب کہ عصا

____________________

(۱) خصال شیخ صدوق : ج ۱، ص ۱۵۲. (۲)بحار : ج ۱۱، ص ۱۱۹.

۱۰۴

کے سہارے کھڑے تھے اور خدا وند عالم ان کی روح قبض کر چکا تھا؛ نیز یہ بھی کہ مدتوں بعد تک اپنی جگہ پر باقی رہے یہاں تک کہ دیمکوں نے عصا کے اندر داخل ہو کر پورے عصا کو چاٹ ڈالا اور سلیمان گر پڑے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر جنوںکو اس کی خبر ہوتی اور غیب جانتے ہوتے تو اتنی مدت تک اپنے کاموں میں ثابت قدمی کا مظاہرہ نہ کرتے اور سختی برداشت نہ کرتے۔

خدا وند عالم نے ان تمام چیزوں کو قرآن کریم میں ہمارے لئے بیان کیا ہے ۔

خدا وند عالم نے فرمایا: شیاطین جنوں میں سے ہے، وہ لوگ مختلف جگہوں پر استراق سمع کے لئے کمین کرتے تھے تاکہ فرشتوں کی باتیں چرالائیں لہٰذا خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت کے بعد خدا وند عالم نے انہیں اس کام سے روک دیا اور فرشتوں سے کہا کہ انہیں آتشی شہاب کے ذریعہ بھگا کر جلا ڈالو، اسی طرح ابلیس کی داستان اور آدم و حوا کے بہکانے اور بہشت سے خارج کرنے تک کا واقعہ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے ، اس کی تفصیل آئندہ بحث میں آئے گی۔

۱۰۵

۵۔ انسان

خدا وند عالم نے انسان کی خلقت اور اس کے آغاز کو قرآن کریم میں بیان کر تے ہوئے فرمایا ہے :

۱۔( انا خلقناهم من طین لازبٍ )

ہم نے انسانوں کو لس دار(چپکنے والی) مٹی سے پیدا کیا ہے۔( ۱ )

۲۔( خلق الانسان من صلصال کالفخار )

ہم نے انسانوں کو ٹھیکرے جیسی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا ہے ۔( ۲ )

۳۔( ولقد خلقنا الاِنسان من صلصالٍ من حمأٍ مسنون )

ہم نے انسان کو ایک ایسی خشک مٹی سے خلق کیا جو بدبودار اور گاڑھے رنگ کی مٹی سے ماخوذ تھی۔( ۳ )

۴۔( الذی احسن کل شیء خلقه و بدأ خلق الانسان من طین٭ ثم جعل نسله من سلالة من مائٍ مهین٭ ثم سواه و نفخ فیه من روحه و جعل لکم السمع و الابصار و الافئدة قلیلاً ما تشکرون )

خدا ند عالم نے جو چیز بھی خلق کی ہے بہترین خلق کی ہے اور انسان کی خلقت کا آغاز مٹی سے کیا ہے، پھر اس کی نسل کو ناچیز اور بے حیثیت پانی کے نچوڑسے خلق کیا پھر اس کو مناسب اور استواربنایا اور اس میں اپنی روح ڈال دی ؛ اور تمہارے لئے کان ، آنکھ اور دل بنائے مگر بہت کم ہیں جو اس کی نعمتوںکا شکر ادا کرتے ہیں۔( ۴ )

۵۔( یا اَیها الناس ان کنتم فی ریبٍ من البعث فانا خلقنا کم من تراب ثم من نطفة ثم من علقة ثم من مضغة مخلقة و غیر مخلقة لنبین لکم و نقر فی الارحام ما نشاء الیٰ اجل

____________________

(۱)صافات۱۱.

(۲)رحمن۱۴.

(۳)حجر۲۶.

(۴) سجدہ : ۹۔ ۷.

۱۰۶

مسمی ثم نخرجکم طفلا ثم لتبلغوا اشدکم و منکم من یتوفی و منکم من یرد الیٰ ارذل العمر لکیلا یعلم من بعد علم شیئا )

اے لوگو! اگر تم لوگ روز قیامت کے بارے میں مشکوک ہو تو (غور کرو کہ) ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ، پھر نطفہ سے اور اس کے بعد جمے ہوئے خون سے ، پھر ''مضغہ '' ( گوشت کے لوتھڑے) سے کہ جس میں سے بعض شکل و صورت اور خلقت کے اعتبار سے مکمل ہوجا تا ہے اور بعض ناقص ہی رہ جاتا ہے ، تا کہ تمہیں بتائیں کہ ہم ہر چیز پر قادر ہیں؛ اور جنین کو جب تک چاہتے ہیں مدت معین کیلئے رحم مادر میں رکھتے ہیں پھر تم کو بصورت طفل رحم مادر سے باہر لاتے ہیں تاکہ حد بلوغ و رشد تک پہونچو اس کے بعد ان میں سے بعض مر جاتے ہیں اور کچھ لوگ اتنی عمر پاتے ہیں کہ زندگی کے بدترین مرحلہ تک پہنچ جاتے ہیں اس درجہ کہ وہ علم و آگہی کے باوجود بھی کچھ نہیں جانتے۔( ۱ )

۶۔( ولقد خلقنا الانسان من سلالة من طین٭ ثم جعلناه نطفة فی قرار مکین٭ ثم خلقنا النطفة علقة فخلقنا العلقة مضغة فخلقنا المضغة عظاماً فکسونا العظام لحما ثم انشاناه خلقاً آخر فتبارک الله احسن الخالقین٭ثم انکم بعد ذلک لمیتون٭ ثم انکم یوم القیامة تبعثون )

ہم نے انسان کو مٹی کے عصارہ سے خلق کیا، پھر اسے ایک نطفہ کے عنوان سے پر امن جگہ میں قرار دیا، پھر نطفہ کو علقہ کی صورت میں اور علقہ کو مضغہ کی صورت میں اور مضغہ کو ہڈیوں کی شکل میں بنایا اور ان ہڈیوں پر گوشت چڑھایا؛ پھر اسے ایک نئی خلقت عطا کی ؛تو بابرکت ہے وہ خدا جوسب سے بہترین خلق کرنے والاہے ، پھر تم لوگ اس کے بعد مر جائو گے اور پھرروز قیامت اٹھائے جائوگے۔( ۲ )

۷۔( هو الذی خلقکم من تراب ثم من نطفة ثم من علقة ثم یخرجکم طفلاً ثم لتبلغوا اشدکم ثم لتکونوا شیوخاًمنکم من یتوفی من قبل و لتبلغوا اجلا مسمیٰ و لعلکم تعقلون )

وہ ذات وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے خلق کیا پھر نطفہ سے پھر علقہ سے پھر تمہیں ایک بچہ کی شکل میں (رحم مادرسے) باہر لاتا ہے اس کے بعدتم کمال قوت کو پہنچتے ہو اور پھر بوڑھے ہوجاتے ہو، تم میں سے بعض لوگ اس مرحلہ تک پہنچنے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں اور آخر کار تم اپنی عمر کی انتہاء کو پہنچتے ہو شاید غور و فکر کرو۔( ۳ )

۸۔( فلینظر الانسان مم خلق٭ خلق من ماء دافق٭ یخرج من بین الصلب و الترائب )

____________________

(۱) حج ۵

(۲)مومنون۱۲۔۱۶

(۳)مومن۶۸

۱۰۷

انسان کو غور کرنا چاہئے کہ وہ کس چیز سے خلق ہواہے؛ وہ ایک اچھلتے ہوئے پانی سے خلق ہو اہے جوپیٹھ اورسینہ کی ہڈیوں کے درمیان سے خارج ہوتا ہے ۔( ۱ )

۹۔( خلقکم من نفس واحدةٍ ثم جعل منها زوجها )

اس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا ہے پھر اس سے اس کا جوڑ ا خلق کیا۔( ۲ )

۱۰۔( هو الذی انشاء کم من نفس واحدة فمستقر و مستودع )

وہ ایسی ذات ہے جس نے تمہیں ایک نفس سے خلق کیا لہٰذا تم میں سے بعض پائدار ہیں اور بعض ناپائدار ۔

۱۱۔( ولقد عهدنا الیٰ آدم من قبل فنسی ولم نجد له عزما٭و اذ قلنا للملائکةاسجدوا لآدم فسجدو ا الا ابلیس اَبیٰ٭ فقلنا یا آدم ان هذا عدولک و لزوجک فلا یخرجنکما من الجنة فتشقیٰ٭ ان لک الا تجوع فیها ولا تعریٰ، و انک لا تظمؤا فیها ولا تضحیٰ٭ فوسوس الیه الشیطان قال یا آدم هل ادلک علیٰ شجرة الخلد، و ملک لا یبلیٰ٭ فاکلا منها فبدت لهما سو أ تهما و طفقا یخصفان علیهما من ورق الجنة و عصی آدم ربه فغویٰ٭ ثم اجتبٰه ربه فتاب علیه و هدی قال اهبطا منها جمیعا بعضکم لبعض عدو فاِمَّا یا تینکم منی هدی فمن اتبع هدای فلا یضل و لا یشقیٰ، و من اعرض عن ذکری فان له معشیة ضنکا و نحشره یوم القیامة اعمیٰ )

ہم نے اس سے پہلے آدم سے عہد و پیمان لیا تھا لیکن انہوں نے بھلا دیا اورہم نے ان میں عزم محکم کی کمی پائی اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا: ''آدم کا سجدہ کرو'' تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ اس نے انکار کیا! پھر ہم نے کہا اے آدم! یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے! کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں بہشت سے باہر کر دے جس کی بنا پر زحمت و رنج میں مبتلا ہو جائو؛ تم جنت میں کبھی بھوکے اور ننگے نہیں رہوگے؛ اور ہرگز پیاس اور شدید گرمی سے دوچار نہیں ہوگے لیکن شیطان نے انہیں ورغلایا اور کہا: اے آدم! کیا تم چاہتے ہو کہ تمہیں دائمی زندگی کے درخت اور لا زوال ملک کی راہنمائی کروں؟ پھر تو ان دونوں نے اس میں سے کچھ نوش فرمایا اور ان کی شرمگاہیں ظاہر ہو گئیں تو اپنی پوشش کے لئے جنتی پتوں کا سہارا لیاہاں آدم نے اپنے

____________________

(۱)طارق۵۔۷

(۲)انعام۹۸

۱۰۸

پروردگار کی نافرمانی کی اور اس کی جزا سے محروم ہو گئے۔

پھر ان کے رب نے ان کاانتخاب کیا اور ان کی توبہ قبول کی اور راہنمائی کی اور فرمایا: تم دونوں ہی نیچے اثرجائو تم میں بعض ، بعض کادشمن ہے، لیکن جب تمہاری سمت میری ہدایت آئے گی اور اس ہدایت کی پیروی کروگے تو نہ گمراہ ہوگے اور نہ ہی کسی رنج و مصیبت میں گرفتار ! اور جو بھی میری یاد سے غافل ہو جائے گا وہ سخت اور دشوار زندگی سے دوچار ہوگا اور قیامت کے دن اسے ہم اندھا محشور کریں گے۔( ۱ )

۱۲۔( ولقد خلقنا کم ثم صورناکم ثم قلنا للملائکة اسجدوا لآدم فسجدوا الا ابلیس لم یکن من الساجدین٭ قال ما منعک الا تسجد اذ اَمرتک قال انا خیر منه خلقتنی من نار و خلقته من طین٭ قال فاهبط منها فما یکون لک ان تتکبر فیها فاخرج انک من الصاغرین٭ قال انظرنی الیٰ یوم یبعثون٭ قال انک من المنظرین٭قال فبمااغویتنی لاقعدن لهم صراطک المستقیم٭ ثم لا تینهم من بین ایدیهم و من خلفهم و عن ایمانهم و عن شمائلهم و لا تجد اکثر هم شاکرین٭قال اخرج منها مذئوما مدحورا لمن تبعک منهم لا ملئن جهنم منکم اجمعین ٭ و یا آدم اسکن انت و زوجک الجنة فکلا من حیث شئتما و لا تقربا هذه الشجرة فتکونا من الظالمین٭ فوسوس لهما الشیطان لیبدی لهما ما ووری عنهما من سوء اْ تهما و قال ما نهاکما ربکما عن هذه الشجرة الاا ن تکونا ملکین او تکونا من الخالدین٭وقاسمهما انی لکما لمن الناصحین٭ فدلهما بغرور فلما ذاقا الشجرة بدت لهما سوئاتهما و طفقا یخصفانِ علیهما من ورق الجنة ونادهما ربهما الم انهکما عن تلکما الشجرة و اقل لکما ان الشیطان لکما عدو مبین٭ قالا ربنا ظلمنا انفسنا و ان لم تغفرلنا و ترحمنا لنکونن من الخاسرین٭ قال اهبطوا بعضکم لبعض عدو و لکم فی الارض مستقر و متاع الیٰ حین٭ قال فیها تحیون و فیها تموتون و منها تخرجون )

ہم نے تمہیں خلق کیا پھر شکل و صورت دی؛ اس کے بعد فرشتوں سے کہا: ''آدم کا سجدہ کرو'' وہ سب کے سب سجدہ میں گر پڑے ؛ سوا ابلیس کے کہ وہ سجدہ گزاروں میں سے نہیں تھا خدا وندعالم نے اس سے کہا: ''جب میں نے تجھے حکم دیا تو کس چیز نے تجھے سجدہ کرنے سے بازرکھا؟'' کہا: ''میں اس سے بہتر ہوں؛

____________________

(۱)طہ۱۱۵۔۱۲۴

۱۰۹

مجھے تونے آگ سے خلق کیا ہے اور اسے مٹی سے !'' فرمایا: اس منزل سے نیچے اترجائو تجھے حق نہیں ہے کہ اس جگہ تکبر سے کام لے! بھاگ جا اس لئے کہ تو پست اور ذلیل ہے کہا: مجھے روز قیامت تک کی مہلت دے دے فرمایا :تو مہلت والوں میں سے ہے۔

بولا: اس وقت تونے بے راہ کر دیا ہے ؛ تو میں تیری راہ مستقیم پر ان لوگوں کے لئے گھات لگا کر بیٹھوں گا پھر انہیں سامنے ، پیچھے ، دائیں اور بائیں سے بہکائوں گا؛ اور ان میں سے اکثر کو شکر گز ار نہیں پائے گا! فرمایا: اس مقام سے ذلت و خواری اور ننگ و عارکے ساتھ نکل جا یقینا جو بھی تیری پیروی کرے گامیں تم سب سے جہنم کو بھر دوں گا! اور اے آدم! تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہو اور جہاں سے چاہو کھائو لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ اپنے اوپر ظلم کرنے والوں میں سے ہو جائوگے! پھر شیطان نے ان دونوںکو وسوسہ میں ڈالاتاکہ جو کچھ ان کے اندرپوشیدہ تھا آشکار کر دے اور کہا: تمہارے رب نے اس درخت سے اس لئے منع کیا ہے کہ کھا کے فرشتہ نہ بن جائو گے، یا ہمیشہ رہنے والے بن جائو گے؛ اور ان کے اطمینان کے لئے قسم کھائی کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔

اس طرح سے انہیں فریب دیا اور جیسے اس درخت کو چکھا تو ان کی شرمگاہیں ان پر آشکار ہو گئیں: اور جنتی پتے اپنے آپ کو چھپانے کے لئے سینے لگے؛ ان کے پروردگار نے آواز دی کہ: کیا میں نے تم لوگوںکو اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟ اورنہیں کہاتھا کہ شیطان تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے ؟!

ان لوگوں نے کہا: خدایا !ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا! اگر تو ہمیں معاف نہیں کرے گا اور ہم پر رحم نہیں کھائے گا تو ہم گھاٹا اٹھانے والوں میں قرار پا ئیں گے! فرمایا: اپنی منزل سے نیچے اتر جا ، جبکہ تم میں سے بعض بعض کے دشمن ہوںگے! اور تمہارے لئے زمین میں معین مدت تک کے لئے استفادہ کا موقع اور ٹھکانہ ہے؛ فرمایا: اس میں زندہ ہو گے، مرو گے : اور اسی سے نکالے جائو گے ۔( ۱ )

۱۳۔( قال أ اسجد لمن خلقت طینا٭ قال ارئیتک هذا الذی کرمت علی لئن أخرتن الیٰ یوم القیٰمة لاحتنکن ذریته الا قلیلا٭قال اذهب فمن تبعک منهم فان جهنم جزاؤکم جزا ئً موفورا٭واستفزز من استطعت منهم بصوتک و اجلب علیهم بخیلک و رجلک و شارکهم فی الاموال و الاولاد و عد هم و ما یعد هم الشیطان الا غروراً٭ ان عبادی لیس لک علیهم سلطان و کفیٰ بربک وکیلاً )

____________________

(۱)اعراف۱۱۔۲۵

۱۱۰

ابلیس نے کہا: آیا میں اس کا سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے خلق کیاہے ؟ پھر کہا: بتاجس کو تونے مجھ پر فوقیت دی ہے (کس دلیل سے ایسا کیا ہے ؟) اگر مجھے قیامت تک زندہ رہنے دے تو اس کی تمام اولاد جز معدودے چند کے سب کوگمراہ اور تباہ کر دوں گا۔ فرمایا: جا! ان میں سے جو تیری پیروی کرے گا تو تم سب کے لئیجہنم زبردست عذاب ہے ۔

ان میں سے جسے چاہے اپنی آواز سے گمراہ کر! پیادہ اور سوار(گمراہ کرنے والی) فوج کوان کی طرف روانہ کرنیز ان کی ثروت اور اولاد میں شریک ہو جا؛اور انہیں وعدوں میں مشغول رکھ! لیکن شیطان دھوکہ، فریب کے علاوہ کوئی وعدہ نہیں دیتا، تجھے کبھی میرے بندوں پر تسلط حاصل نہیں ہوگا؛ اوران کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ان کا محافظ اور نگہبان تیرا رب ہے ۔( ۱ )

۱۴۔( قال رب بما اغویتنی لا زینن لهم فی الارض ولا غوینهم اجمعین٭ الا عبادک منهم المخلصین ٭ قال هذا صراط علیّ مستقیم٭ ان عبادی لیس لک علیهم سلطان الا من اتبعک من الغآوین٭ و ان جهنم لموعدهم اجمعین )

ابلیس نے کہا: خدایا! اب جب کہ تونے مجھے گمراہ کر دیا، میں بھی زمین میں ان کی زینت کا سامان فراہم کروں گا؛ اور سب کو گمراہ کردوں گا سوائے تیرے مخلص بندوں کے، فرمایا: یہ مستقیم راہ ہے جس کا ذمہ دار میں ہوں تو میرے بندوں پرمسلط نہیں ہو پائے گا مگر ایسے گمراہ جو کہ تیری پیروی کریں گے یقینا جہنم ان سب کا وعدہ گا ہ ہے ۔( ۲ )

کلمات کی تشریح

۱۔ لازب: سخت اور آپس میں چپکنے والی مٹی کو کہتے ہیں۔

۲۔ صلصال: حرارت کے بغیر خشک شدہ مٹی کو کہتے ہیں۔

۳۔ حمائ: سیاہ بدبودار مٹی

۴۔ مسنون: صاف اور شکل دار مٹی کو کہتے ہیں۔

۵۔ مخلقة : مکمل صورت کے حامل جنین کو کہتے ہیں۔

____________________

(۱)اسرائ۶۱۔۶۵

(۲)حجر۳۹۔۴۳

۱۱۱

۶۔ صلب و الترائب: صلب مرد کی ریڑھ کی ہڈیوں اور اس کے نطفہ کی نالیوں کو کہتے ہیں، و ترائب زن (لغت دانوںکی نظر کے مطابق ) عورت کے سینہ کی اوپری ہڈیوں کو کہتے ہیں۔

۷۔ وسوسہ :کسی کام کے لئے بغیر آواز کے کان میں کہنا، حدیث نفس، یعنی جو کچھ ضمیر اور دل کے اندر گزرتا ہے انسان کا فریب کھانا اور اس کا برائی کی طرف مائل ہونا شیطان کی طرف سے، اس کلمہ کی تفسیر خدا کے کلام میں بھی آئی ہے ؛ جیساکہ فرمایا ہے :

( و زین لهم الشیطان ما کانوا یعملون ) ( ۱ )

جو کام بھی وہ انجام دیتے تھے شیطان نے اسے ان کی نگاہ میں زینت دی ہے ۔

اور فرمایا:( زین لهم الشیطان اعمالهم ) شیطان نے ان کے اعمال کو ان کی نگاہوںمیں مزین کر دیا۔( ۲ )

۸۔ سوأة: ایسی چیزجس کا ظاہر کرنا قبیح اور چھپانا لازم ہے ۔

۹۔ عزماً: صبر اور شکیبائی کے معنی میں ہے ، کوشاں ہونا، نیز کسی کام کے لئے قطعی فیصلہ کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ۔

۱۰۔ جنة: درخت سے بھرے ہر ا س باغ کو کہتے ہیں جس میں درختوںکی کثرت کی وجہ سے زمین چھپ جائے، خدا وند عالم کے کلام میں بھی جنت اسی معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ جیساکہ فرمایا ہے :

الف۔( قالوا لن نؤمن لک حتیٰ تفجرلنا من الارض ینبوعاً٭ او تکون لک جنة من نخیل و عنب ) ( ۳ )

ا ن لوگوں نے کہا: ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے مگر یہ کہ تم ہمارے لئے اس زمین سے جوش مارتا چشمہ جاری کرو؛ یا کھجور اور انگور کا کوئی باغ تمہارے پاس ہو۔

ب۔( لقد کان لسبأ فی مسکنهم آیة جنتان عن یمین و شمالٍ کلوا من رزق ربکم و اشکرو ا له... فاعرضوا فأَرسلنا علیهم سیل العرم و بدلنا هم بجنتیهم جنتین ذواتی اکل خمط وَ أَ ثْلٍ وشیء من سدر قلیل )

قوم سبا کے لئے ان کی جائے سکونت میں خدا کی قدرت کی نشانیاں تھیں: دو ''باغ'' (عظیم اور وسیع)

____________________

(۱)انعام ۴۳.

(۲)انفال ۴۸۔ نحل ۶۳. نمل ۲۴. اور عنکبوت ۳۸.

(۳)اسراء آیت ۹۲ ۹۰.

۱۱۲

دائیں اور بائیں ( ان سے ہم نے کہا) اپنے پروردگار کا رزق کھائو اور اس کا شکر ادا کرو ...لیکن وہ لوگ روگرداں ہوگئے، تو ہم نے ان کی طرف تباہ کن سیلاب روانہ کر دیا اور بابرکت دو باغ کو (بے قیمت اور معمولی) تلخ میوئوں اورکڑوے درختوں میں تبدیل کر دیا اور کچھ کو بیرکے درختوں میں تبدیل کر دیا۔( ۱ )

۱۱۔ خمط: ایسی اگنے والی چیزیں جنکا مزہ تلخ اور کڑوا یا کھٹاس مائل ہو۔

۱۲۔ ا ثل:سیدھے ، بلند، اچھی لکڑی والے درخت، جس میں شاخیں کثرت سے ہوں اور اگرہیں زیادہ، پتے لمبے اور نازک اور اس کے میوے سرخ دانہ کے مانند ہوں اور کھانے کے قابل نہ ہوں۔

اس کی وضاحت : بہشت آخرت کو جنت اور باغ سے موسوم کیاجانازمین کے باغوں سے مشابہت کی وجہ سے ہے اگر چہ ان دونوں کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے اور بہشت جاوداں کے نام سے یاد کی گئی ہے ، اس لئے کہ اس میں داخل ہونے والا جاوید ہے ۔ اسی لئے خدا وند عالم نے جنتیوںکی توصیف لفظ ''خالدون''سے کی ہے ۔

اور فرمایا ہے :

الف۔( قل اذٰلک خیر أَم جنة الخلد التی وعد المتقون...٭ لهم فیها ما یشاء ون خالدین )

کہو!آیا یہ (جہنم) بہتر ہے یا بہشت جاوید جس کامتقیوں سے وعدہ کیا گیا ہے ؟ جو کچھ چاہیں گے وہاں ان کے لئے فراہم ہے اورہمیشہ اس میں زندگی گز اریں گے۔( ۲ )

ب۔( والذین آمنوا وعملوا الصالحات اولائک اصحاب الجنة هم فیها خالدون )

جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح انجام دیا وہ لوگ اہل بہشت ہیں اور وہ لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

لہٰذا قرآن کریم میں جنت کادونوں معنوںمیں استعمال ہوا ہے ۔

رہی وہ جنت اور باغ کہ جس میں خدا وند عالم نے آدم کو جگہ دی تھی پھر ان کو درخت ممنوعہ سے کھانے کے بعد وہاں سے زمین پر بھیج دیا وہ دنیاوی باغوں میں سے ایک باغ تھا، ہم اس کے بعد، ''حضرت آدم کی بہشت کہاں ہے'' ؟ کی بحث میں اسے بیان کریں گے۔

____________________

(۱)سبا ء ۱۶ ۱۵.

(۲)فرقان ۱۶ ۱۵.

۱۱۳

۱۳۔تضحی: ضحی الرجل ، یعنی خورشید کی حرارت نے اسے نقصان پہنچایا؛ ولا تضحی یعنی : تم خورشید کی حرارت اور سوزش آمیز گرمی کا احساس نہیں کروگے ۔

۱۴۔ غویٰ: غوی کے ایک معنی زندگی کو تباہ کرنا بھی ہے اور آیت کی مراد یہی ہے ، یعنی آدم نے درخت ممنوعہ سے کھاکراپنی رفاہی زندگی تباہ کر لی ۔

۱۵۔ طفقا: کسی کام میں مشغول ہو جانا۔

۱۶۔ یخصفان: خصف چپکانے اور رکھنے کے معنی میں ہے یعنی پتوں کو اپنے جسموں پر چپکانا شروع کر دیا۔

۱۷۔ ضنکا: یعنی سخت اوردشوار زندگی اور تنگی میں واقع ہونا۔

۱۸۔ ووری: پوشیدہ اور پنہاں ہو گیا۔

۱۹۔ دلاھما: ان دونوں کو اپنی مرضی کے مطابق دھوکہ دیا اور راستہ سے کنویں میں ڈھکیل دیا یعنی بہشت سے نکال دیا ۔

۲۰۔ لاحتنکن: میں اس پر لگام لگائوں گا، یعنی تمام اولاد آدم پرو سوسہ کی لگام لگائوں گا اور زینت دیکر اپنے پیچھے کھینچتا رہوں گا۔

۲۱۔ اھبطوا: نیچے اتر جائو۔ ھبوط انسان کے لئے استخفاف کے طور پر استعمال ہوا ہے ، بر خلاف انزال کے کہ خدا وند عالم نے اس کوشرف اور منزلت کی بلندی کی جگہ استعمال کیا ہے جیسے زمین پر فرشتوںاور بارش اور قرآن کریم کا نزول ۔

جب کہا جائے: ھبط فی الشر، یعنی برائی میں مبتلا ہو گیا، و ھبط فلاں ، یعنی ذلیل اور پست ہو گیا و ھبط من منزلہ ، یعنی اپنی منزل سے گر گیا ۔

۲۲۔ استفززبصوتک: اپنے وسوسہ سے ابھار اور برانگیختہ کر، یعنی جس طرح اولاد آدم کو گناہ پر مجبور کر سکتا ہو کر!

۲۳۔ ''و اجلب علیہم '': بلند آواز سے انہیں ہنکاؤ ۔

۱۱۴

۲۴۔ بخیلک و رجلک: یعنی اپنے سواروں اور پیادوں سے ، یعنی جتنا حیلہ، بہانہ، مکر و فریب دے سکتا ہو استعمال کر۔

۲۵۔( و شارکهم فی الاموال و الاولاد ) : بذریعہ حرام حاصل شدہ اموال اور زنا زادہ بچوں میں ان کے شریک ہو جا۔

۲۶ عدھم: انہیں باطل وعدے دے اور انہیں روز قیامت کے واقع نہونے اور اس کے عدم سے مطمئن کر دے

۲۷۔ سلطان: حاکمانہ اور قدرت مندانہ تسلط اور قابو کو کہتے ہیں ،سلطان دلیل و برہان کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ؛ جیسا کہ خدا وند عالم نے فرمایا ہے ۔( اتجادلوننی فی أسماء سمیتموها انتم و آباء کم ، ما انزل الله بها من سلطانٍ )

کیا ان اسماء کے بارے میں مجھ سے مجادلہ کرتے ہو جنہیں تم اور تمہارے آبائو اجداد نے (بتوںپر) رکھا ہے ؛جبکہ خدا وندعالم نے ان کے بارے میں کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے ؟!

لہٰذا( ان عبادی لیس لک علیهم سلطان ) کے معنی یہ ہوں گے :تو میرے بندوں پر تسلط نہیں پائے گا یعنی تجھ کو ان پر کسی طرح قابو نہیں ہوگا اور توان پر غلبہ حاصل نہیں کر سکتا۔

آیات کی تفسیر

خدا وند عالم نے گز شتہ آیتوں میں انسان اول کی خلقت کے آغاز کی خبر دیتے ہوئے فرمایا: اسے بدبودار، سیاہ ،لس دار ، کھنکھناتی ہوئی مٹی سے جو سختی اور صلابت کے اعتبار سے کنکر کے مانند ہے خلق کیا ہے پھر اس کی نسل کو معمولی اور پست پانی سے جو صلب اور ترائب کے درمیان سے باہر آتا ہے خلق کیا ؛پھر اسے علقہ اور علقہ کو مضغہ اور مضغہ کو ہڈیوں میں تبدیل کر دیا پھر ان ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر اس کے بعد ایک دوسری تخلیق سے نوازا اور اس میں اپنی روح ڈال دی اور اسے آنکھ، کان اور دل عطا کئے۔ اس لئے بلند وبالا ہے وہ خدا جو بہترین خالق ہے ؛پھر اسے ایک بچے کی شکل میں رحم مادر سے باہر نکالا تاکہ بلوغ و رشد کے مرحلہ کو پہنچے اور خلقت کے وقت اسی پانی کے نچوڑ اور ایک انسانی نفس سے نرومادہ کی تخلیق کی؛ تاکہ ہر ایک اپنی دنیاوی زندگی میں اپنے اپنے وظیفہ کے پابند ہوںیہاں تک کہ بڑھاپے اور ضعیفی کے سن کو پہنچیں پھر انہیں موت دیکر زمین میں جگہ دی، اس کے بعد قیامت کے دن زمین سے باہر نکالے گا اور میدان محشر میں لائے گا تاکہ اپنے کرتوت اور اعمال کی جزا اور سزاعزیز اور عالم خدا کی حکمت کے مطابق پائیں۔

۱۱۵

با شعور مخلوقات سے خدا کا امتحان

اول؛ فرشتے اور ابلیس: خدا وند عالم نے فرشتوں کو کہ ابلیس بھی انہیں میں شامل تھا زمین پر اپنے خلیفہ آدم کے سجدہ کے ذریعہ آزمایا، فرشتوں کی باتوں سے نتیجہ نکلتا ہے کہ انہوںنے سمجھ لیا تھا کہ زمینی مخلوق خونریز اور سفا ک ہے ، اس لئے کہ زمین کی گز شتہ مخلوقات سے ایسا مشاہدہ کیا تھا اور خداوند عالم نے بھی جیسا کہ روایات( ۱ ) میں مذکور ہے ان کی نابودی کا فرشتوںکو حکم دیا تھا۔

جب خدا وند عالم نے فرشتوں کو آدم کے علم و دانش سے آگاہ کیا اور انہیں آدم کے سجدہ کا حکم دیا تو فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا لیکن ابلیس نے سجدہ سے انکار کرتے ہوئے دلیل پیش کی کہ تونے اسے مٹی سے خلق کیا ہے اور مجھے آگ سے وہ اس امتحان میں ناکام ہوگیا۔

دوسرے ؛ آدم اور حوا : خد اوند عالم نے آدم کے لئے ان کی زوجہ حوا کی تخلیق کی اور ان دونوں کو غیر جاوید بہشت میں جگہ دی اور ان سے فرمایا: جو چاہو اس بہشت سے کھائو لیکن اس درخت کے قریب نہ جاناورنہ ستمگروں میں ہو جائو گے ، آدم کو آگاہ کیا کہ اس بہشت میں نہ گرسنہ ہوں گے اور نہ برہنہ؛ نیز انہیں ابلیس سے محتاط رہنے کو کہا: یہ شخص تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے ، ہوشیار رہنا کہیں تمہیں بہشت سے باہر نہ کر دے کہ جس کی وجہ سے زحمت میں پڑ جائو؛ شیطان نے درخت ممنوعہ سے کھانے کوخوبصورت انداز میں بیان کیا تاکہ ان کی پوشیدہ شرمگاہیں آشکار ہو جائیں، اس نے آدم و حوا کو فریب دیا اور اس بات کا ان کے اندر خیال پیدا کر دیا کہ اگر اس درخت ممنوعہ سے کھالیں تو فرشتوں کی طرح جاوداں ہو جائیں گے اور ان دونوں کے اطمینان کی خاطر خدا وند سبحان کی قسم کھائی، آدم و حوا نے خیال کیا کہ کوئی بھی خدا کی قسم جھوٹی نہیں کھائے گا اس کے فریب میں آ گئے اور اس کے دام باطل میں پھنس گئے اور اس ممنوعہ درخت سے کھا لیاجس کے نتیجہ میں ان کی شرمگاہیں نمایاںہو گئیں تو ان لوگوں نے بہشتی درختوں کے پتوں سے چھپانا شروع کر دیا تو ان کے رب نے آواز دی، کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت کے قریب جا نے سے منع نہیں کیا تھا؟ اور تم سے نہیں کہا تھا کہ شیطان نرا کھلا ہوا دشمن ہے ؟ ان لوگوں نے کہا: خدایا! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا اورہم کو اپنی رحمت کے سایہ میں نہیں لے گا تو ہم خسارہ اٹھانے والوںمیں سے ہو جائیں گے۔

____________________

(۱)ان کی طرف '' اوصیاء کی خلقت کے آغاز'' کے متعلق روایات میں اشارہ کیا جائے گا ۔

۱۱۶

آدم کی جنت کہاں تھی

خداوند عالم نے فرمایا: اس زمین میں ایک خلیفہ بنایا اور جس مٹی سے آدم کو خلق کیاتھا وہ اسی سرزمین کی مخلوط مٹی تھی ، اسی طرح اس زمین پر فرشتوں کو آدم کے سجدہ کا حکم دیا تو ابلیس نے آدم کے سجدہ سے انکار کیااور اسی طرح آدم کو زمین پر موجود بہشت میں داخل کر دیا اور انہیں خلقت کے بعد اس زمین سے کسی اور جگہ منجملہ بہشت جاوید میں منتقل نہیں کیا، تاکہ بہشت جاوید سے زمین کی طرف اخراج لازم آئے۔

اس مدعی پر ظہور آیات کے علاوہ ہماری دلیل یہ ہے کہ :جو بھی بہشت جاوید میں داخل ہو جائے وہ دائمی اور ابدی ہوگا اور کبھی اس سے باہر نہیں آئے گا، جیسا کہ اس کی تصریح روایات بھی کرتی ہیں۔( ۱ )

ہم ا س طرح خیال کرتے ہیں کہ یہ بہشت عراق اورکسی عربی جزیرہ میں تھی اور جو کچھ ''قاموس کتاب مقدس'' کے مولف نے بہت سارے دانشوروں سے نقل کیا ہے کہ یہ بہشت فرات کی سر زمین پر تھی، صحیح ہے ۔( ۲ )

اس بات کی تائید صراحت کے ساتھ توریت کی عبارت سے بھی ہوتی ہے:دریائے بہشت حضرت آدم علیہ السلام چار حصوںمیں تقسیم ہوتا ہے جن سے مراد فرات، دجلہ، جیحون اور فیشون ہیں ۔( ۳ )

کتاب قاموس مقدس میں مذکور ہے کہ بعض محققین نے احتمال دیا ہے کہ جیحون اور فیشون بابل شہر (عراق) میں ہیں۔( ۴ )

اس لئے جیحون سے مراد معروف دریائے جیحون نہیں ہے ، یعنی وہ ندی جو خوارزم (آرال ) سے نزدیک ایک دریامیں گرتی ہے ، یاقوت حموی نے اسے اپنی معجم البلدان میں ذکر کیا ہے ۔

____________________

(۱) میخی اور ہیرو گلیفی کی پیروی کرتے ہیں اس کے علاوہ جغرافیائی حقیقی تحقیق اور نہر فرات کی فرعی ندیوں ان کے اسماء کی اسلامی سرزمینوں میں بھی تاکید کرتے ہیں ۔

(۲) قاموس کتاب مقدس، مادہ عدن۔

(۳)کتاب عہدعتیق ( توریت ) : طبع ریچرڈ واٹس ،لندن ، ۱۸۳۹ ء ، سفر تکوین ، باب دوم ، شمارہ : ۱۴۔ ۱۰.

(۴) قاموس کتاب مقدس ،مادہ : جیحون اور فیشون عظیم دانشور محقق استاد سامی البدری حضرت آدم کی بہشت کے بارے میں غیر مطبوعہ ایک بحث ہمارے تحریر فرمایا ہے : وہ چہار گانہ ندیاں فرات کی شاخ ہیں اور انہوں نے اس بات کاذکرکیا ہے کہ وہ اس لئے ترجمہ میں آرامی عبری توریت اور سامری سے استناد کرتے ہیں اور فرات کی شاخوں اور ان کے راستوں میں واقع شہروں سے متعلق اپنے خطی آثارمیں میخی اور ہیرو گلیفی کی پیروی کرتے ہیں ۔

۱۱۷

جب حضرت آدم بہشت سے نیچے آئے تو بابل فرات کے علاقے میں ساکن ہوئے اور جب فوت کر گئے تو آپ کے فرزند شیث نے کوہ ابو قبیس مکہ کے ایک غار میں انہیں دفن کر دیا پھر اس کے بعد حضرت نوح نے ان کی ہڈیوں کو اپنی کشتی میں رکھا اور کشتی سے نیچے اتر نے کے بعد نجف میں دفن کر دیا۔

لہٰذا جیسا کہ ہم مشاہدہ کر رہے ہیں حضرت آدم کا اس بہشت سے نکلنا تھا جو عراق میں تھی اور جب وہاں سے باہر آئے تو عراق میں اسی سے نزدیک سر زمین کی طرف گئے۔

انہوں نے اس باغ کے درختوں اورپھلوںسے پودوں اور بیجوںکولیا ، تاکہ خدا وند عالم کی ہدایت کے مطابق اسے لگائیں اور دانہ اگائیں جیسا کہ روایات صریحاً اس بات کی وضاحت کرتی ہیں۔

ان کے عراق میں سکونت کے بارے میں ''بابلیون'' کے مادہ میں معجم البلدان میں ذکر ہوا ہے کہ اہل توریت نے کہا ہے : آدم کی منزل بابل میں تھی اور بابل فرات اور دجلہ کے درمیان ایک سر زمین ہے۔ نیز مادہ بابل میں قاموس کتاب مقدس میں جو ذکر ہے اس کا خلاصہ یوںہے :

فرات اور دجلہ کے پانی ان تمام علاقوں میں جاری ہوتے تھے، اسی لئے وہاں کی زمینیں زر خیز اور بابرکت مشہور تھیں اور انواع و اقسام کے میوے اور دانے وہاں فراہم تھے؛ اس کا قدیم نام شنعار تھا۔

معجم البلدان میں مادہ بابل کے ذیل میں ذکر ہوا ہے کہ، بعض اہل توریت نے کہا ہے : بابل وہی کوفہ ہے اور نوح کشتی سے نیچے اترنے کے بعد اپنی جائے سکونت اور جائے پناہ کی تلاش کی تو بابل میں رہائش اختیار کی اور نوح کے بعداس میں وسعت ہو گئی۔

مکتب خلفاء کی روایات میں حضرت آدم کے دفن سے متعلق ذکر ہوا ہے کہ، نوح نے انہیں بیت المقدس میں دفن کیا ہے اور مکتب اہل بیت کی روایتوں میں مذکور ہے کہ نوح نے حضرت آدم کو نجف میں اسی مقام پر جہاں حضرت علی دفن ہوئے ہیں دفن کیا ہے اور نوح بھی اسی جگہ دفن ہوئے ہیں، حضرت آدم کی عراق میں رہائش کی تائید جو کچھ روایات میں ذکر ہو ا ہے اس سے ہوتی ہے ۔

پہلے : آدم مکہ گئے اور عرفات ، مشعر اور منیٰ میں قیام کیا، ان کی توبہ عرفات میں قبول ہوئی ، پھر اس کے بعد مکہ میں حضرت حوا سے ملاقات کی، خدا وند عالم نے انہیں بیت اللہ کی تعمیر پرمامور کیا، بعید ہے کہ آدم دور دراز ملک جیسے ہند سے حج کے لئے مامور ہوئے ہوں، جیسا کہ بعض روایات میں آیا ہے جن کا میرے نزدیک صحیح ہونا ثابت نہیں ہے ۔

۱۱۸

دوسرے: دیگر روایات میں مذکور ہے کہ ، حضرت آدم نجف کے علاقہ غری میں دفن ہوئے ہیں۔ اور خاتم الانبیاء کے دفن سے متعلق روایت میں ہے : ہر پیغمبر جہاں اس کی روح قبض ہوتی ہے وہیں دفن ہوتاہے ۔

مذکورہ بالا بیان سے نتیجہ نکلتا ہے : حضرت آدم کی بہشت فرات کی زمینوں میں تھی اور جب حضرت آدم اس سے باہر آئے تو اس کے نزدیک ہی اترے، خد اوند عالم نے اس باغ کو خشک کر دیا اور روئے زمین سے اٹھا لیا، تو حضرت آدم نے دوسری جگہ کو درختوں سمیت کشت و کار کے ذریعہ زندہ اور آباد کیا، خدا وند عالم بہتر جانتا ہے ۔

الٰہی امتحان اور حالات کی تبدیلی

اول ؛ فرشتے اور ابلیس: تمام فرشتے اور ابلیس جوکہ ان کے ساتھ تھا، خدا کی عبادت کرتے تھے اور جو بھی خدا انہیں حکم دیتا تھاآسمانوں اور زمینوں میں وہ اس کی اطاعت کرتے تھے اورمعمولی نافرمانی اور خلاف ورزی کے بھی مرتکب نہیں ہوتے تھے یہاں تک کہ خدا وند عالم نے انہیں خبر دی کہ میں زمیں پر خلیفہ بنانا چاہتا ہوں، تو ان لوگوںنے اس خلقت کی حکمتجاننا چاہی اور جب خدا نے اس کی حکمت سے انہیں باخبر کیا اور فرمایا کہ اس کوسجدہ کریں( جس طرح کہ وہ تمام مواقع پر مطیع اور فرمانبردار تھے) سوائے ابلیس کے سب نے اطاعت کی، اس ( ابلیس) نے ان تمام خداوندی احکام اور دستورات کی مخالفت نہیںکی جو اس کی نفسانی خواہشات اور تکبر سے ٹکراتے نہیں تھے لیکن آدم کے سجدہ سے متعلق حکم میں اس نے اپنی خواہشات کا اتباع کیا اور حکم خداوندی کی مخالفت کی اسی لئے جو اس نے راہ اختیار کی تھی فرشتوں کے مقام و منزلت نیز ان لوگوں کے درجہ سے (جنہوں نے خدا کے حکم کی نافرمانی نہیں کی تھی اور ہمیشہ اس کے حکم کے پابند تھے) نیچے آگیا اور عصیان و نافرمانی اور خواہشات کی پیروی کا مرتکب ہو گیااور خداوندعالم نے اس سے کہا: اس منزل سے نیچے اتر جا، تجھے کوئی حق نہیں ہے کہ اس جگہ تکبر اور کبریائی کا اظہار کرے۔

ابلیس ایسی حالت کے باوجود بھی خدا وند عالم کے سامنے نادم اور پشیمان نہ ہوا اور خدا سے توبہ نہ کی اور اس سے معذرت اور بخشش کی درخواست نہیں کی؛ بلکہ اپنی بدبختی کے لئے مزید خدا سے درخواست کی؛ اور بولا: مجھے قیامت تک کی مہلت دیدے! خداوند عالم نے کہا: تجھے مہلت دی گئی۔

۱۱۹

اس ملعون نے وعدہ الٰہی دریافت کرنے اور اپنی مراد کو پہنچنے کے بعد بے جھجھک خدا کے مقابل اپنے موقف کا اظہار کر دیا اور کہا: جس کوتونے مجھ پر فوقیت اور برتری دی ہے میں اس سے انتقام لوں گا۔ اور اس کی نسل و ذریت کولگام لگاکر اپنے پیچھے گھمائوں گا اور سامنے ، پیچھے، دائیں اور بائیںسے داخل ہوں گا اور ان کے برے اعمال اور رفتار کو ان کی نظرمیں خوبصورت بنائوں گا؛یہاں تک کہ تو ان میں اکثریت کو ناشکر گزار پائے گا۔ خداوند عالم نے فرمایا:

( اذهب فمن تبعک منهم فان جهنم جزاؤکم جزاء موفوراً ) ( ۱ )

جا! ان میں سے جو بھی تیری پیروی کرے، جہنم تم لوگوں کی سزا ہے جو بہت سنگین سزا ہے۔

ہاں ابلیس صرف اس راہ کے انتخاب سے معصوم فرشتوں کے منصب سے گرکر خدا کے نافرمان بندوں کی صف میں شامل ہو گیا ۔ اور اس منزل پر آنے کے باوجودنادم اورپشیمان ہوکر خدا کی بارگاہ میں توبہ اور انابت بھی نہیں کی، بلکہ اپنے اختیار سے ذلت، خواری کے پست درجہ میں پڑا رہا، یعنی ان لوگوں کی منزل میں جو گمراہ ہیںاور ہمیشہ گمراہی پر اصرار کرتے ہیں۔

دوسرے : آدم و حوا

خدا وند عالم نے آدم کی تخلیق کے بعد فرشتوں کو ان کے سجدہ کا حکم دیا اور حوا کی تخلیق کی اور دونوں کو اس بہشت میں جگہ دی یعنی وہ بہشت جسے اس روئے زمین پر ہونا چاہئے، اس لئے کہ خدا وند عالم نے حضرت آدم کو اسی زمین کی مٹی سے خلق کیا ہے اور انہیں اسی زمین پر زندگی کرنے کے لئے آمادہ کیا ( اور کتاب و سنت میں اس بات کی تصریح نہیں ملتی کہ خداوند عالم نے آدم کو خلقت کے بعد اس زمین سے اُس بہشت میں کو جو کسی دوسرے ستارے میں تھی منتقل کیا اور دوبارہ انہیں اس زمین کی طرف لوٹایا) لہٰذا ناچار اس بہشت کو جیسا کہ بیان کیا گیا ہے اسی زمین پرہونا چاہئے سوائے یہ کہ یہ بہشت جیسا کہ معلوم ہوتا ہے اپنی آپ مثا ل اور بے نظیر تھی ہو اور آدم و حوا کی خلقت کے مراحل میں سے ایک مرحلہ تھی اور ا س کا وجود خلقت کے اس مرحلہ کے تمام ہونے پر ختم ہوگیاہے اور خدا بہتر جانتا ہے ۔

اس بہشت کی خصوصیات اور امتیازات میں خداوند عالم نے بعض کی طرف اشارہ کیا ہے منجملہ حضرت آدم سے فرمایا: تم اس بہشت میں نہ بھوکے رہوگے نہ پیاسے اور نہ برہنہ اور نہ ہی آفتاب کی گرمی سے کوئی تکلیف ہوگی نیز ان سے اور حوا سے فرمایا:

____________________

(۱)اسراء ۶۳

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

آیہء ولایت کے بارے میں چند سوالات اوران کے جوابات

آیہء ولایت کے بارے میں چندسوالات کئے جا تے ہیں،مناسب ہے ہم اس باب میں ان کے جوابات دیں۔

۱ ۔کیاآیت میں ”ولی“کامعنی دوست نہیں ہے؟

یہ آیہء کریمہ ایسی آیات کے سیاق میں ہے کہ جس میں مومنین کے لئے یہودونصاریٰ کو اپنے ولی قراردینے سے نہی کی گئی ہے۔چونکہ ان آیات میں ولی’یاور“یا’دوست“کے معنی میں ہے،اس آیت میں بھی اس کے معنی اسی سیاق کے تحت درج ہے،لہذا اسی معنی میں ہونا چاہئے۔اگرایسا نہ ما نیں توسیاق واحدمیں تفکیک لازم آ ئیگی۔

اس لئے اس آیت کے معنی یوں ہوتے ہیں:”بس تمہارایاوریادوست اللہ اوراس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان ہیں جو نمازقائم کرتے ہیں اورحالت خضوع اورانکساری میں زکوٰةدیتے ہیں۔“

جواب:

اوّل یہ کہ:آیہء شریفہ میں سیاق کا پا یا جا نامنتفی ہے،کیونکہ آیہء کریمہ) چنانچہ اس کی شان نزول کے سلسلہ میں پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے اوراس کی مزیدوضاحت آگے کی جائے گی) ایک مستقل شان نزول رکھتی ہے۔نزول کامستقل ہونا اس معنی میں ہے کہ یہ آیت اپنے معانی و مفا ہیم کے لحاظ سے دوسری آیات سے مربوط نہیں ہے۔

بیشک قرآن مجیدکی آیات کی تر تیب وتنظیم،جس طرح اس وقت موجود ہے،ا سی اعتبار سے ہم اس کی قرائت کرتے ہیں باوجود اس کے کہ ان میں نزول کی تر تیب کے لحاظ سے تناقض پایا جاتا ہے۔یہاں تک بعض سورہ یا آیات کہ جوپہلے نازل ہوئی ہیں وہ موجودہ ترتیب میں قرآن کے آخر میں نظر آتی ہیں،جیسے:مکی سورے کہ جوقرآن مجیدکے آخری پارے میں

۱۴۱

مو جودہیں اور بہت سی آیات اورسور ے اس کے برعکس ہیں جیسے:سورئہ بقرہ کہ جوموجودہ تر تیب کے لحاظ سے قرآن مجیدکادوسراسورہ ہے جب کہ یہ مدینہ میں نازل ہونے والاپہلاسورہ ہے۔

لہذا مو جودہ تر تیب زمانہ نزول کے مطابق نہیں ہے،اورمعلوم ہے کہ آیات کے ظہور کے پیش نظرترتیب کا معیار زمانہ نزول ہے۔

اگریہ کہاجائے کہ:آیات اورسورتوں کی تنظیم،پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زیرنظرانجام پائی ہے اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آیات کی مناسبت اورمعنوی نظم کو مدنظررکھتے ہوئے ہرآیہ اورسورہ کواپنی مناسب جگہ پرقراردیاہے۔اس لئے موجودہ تر تیب کا زمانہ نزول سے مختلف ہو ناسیاق کے لئے ضرر کا باعث نہیں ہے۔

جواب میں کہنا چا ئے:اگر چہ یہ نظریہ صحیح ہے کہ موجودہ صوت میں قرآن مجید کی آیات کی تنظیم اور ترتیب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نگرانی میں انجام پائی ہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں کوئی مصلحت تھی جس کے پیش نظرہر آیت یا سورہ کو ایک خاص جگہ پر قرار دیا جائے،لیکن اس کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ مصلحت نظم ومناسبت کی رعایت اورآیات کے ایک دوسرے سے معنوی رابطہ کی وجہ سے مر بوط ہے ۔

اس لحا ظ سے ہر آیت کا نزول اگر اس کی پچھلی آیات سے دلیل کی بنا پر ثابت ہوجائے تو اس میں سیاق کاوجود ہے اورجس کسی آیت کا نزول مستقل یا مشکوک ہو تو اس آیت کا گزشتہ آیت سے متصل ہونا اس کے سیاق کا سبب نہیں بن سکتا ہے۔ زیر بحث آیت کا نزول بھی مستقل ہے اور مذکورہ بیان کے پیش نظر اس میں سیاق موجود نہیں ہے۔

۱۴۲

دوسرے یہ کہ: اگر سیاق پا یابھی جائے پھر بھی گزشتہ آیت میں ثابت نہیں ہے کہ ”ولی“کا معنی دوست اور ناصر کے ہیں جیسا کہ فرماتا ہے:

( یاایّهاالّذین آمنوالا تتخذواالیهود والنصاریٰ اولیاء بعضهم اولیائ بعض ) ۔۔۔ )مائدہ/۵۱)

”ایمان والو!یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا ولی وسر پرست نہ قرار دو کہ یہ خودآپس میں ایک دوسرے کے ولی ہیں ۔“

اس آیت میں بھی) ہمارے مذکورہ اشارہ کے پیش نظر)ولایت،سر پرستی اورصاحب اختیار کے معنی میں ہے۔

تیسرے یہ کہ:اگر آیہء کریمہ میں موجودولایت دوستی یا نصرت کے معنی میں ہو تواس سے یہ لازم آ ئے گا کہ اس کا مفہوم خلاف واقع ہو، کیونکہ اس صورت میں اس کے معنی یوں ہوں گے ” بس تمہارا مدد گار یادوست اللہ اور اس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور رکوع کی حالت میں زکواة دیتے ہیں۔“جبکہ معلوم ہے کہ مومنین کے مدد گاراوردوست ان افراد تک محدود نہیں ہیں جورکوع کی حالت زکواة دیتے ہیں بلکہ تمام مومنین ایک دوسرے کے مدد گاراوردوست ہیں!

مگریہ کہ آیہ کریمہ میں ”راکعون“کے معنی”خداکی بارگاہ میں خضوع وخشوع کرنے والے کے ہیں اوریہ معنی مجازی ہیں اوررکوع کے حقیقی معنی جھکنے اور خم ہو نے کے ہیں ان مطالب کے پیش نظر،سیاق کی بات یہاں پر موضوع بحث سے خارج ہے اور اس کے وجودکی صورت میں بھی معنی مقصود کوکوئی ضررنہیں پہنچاتاہے ۔

۱۴۳

۲ ۔مذکورہ شان نزول )حالت رکوع میں حضرت علی(ع)کاانفاق کر نا)ثابت نہیں ہے۔

بعض افراد نے آیہ شریفہ کی شان نزول پراعتراض کیاہے اور کہا ہے کہ یہ واقعہ)امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کا نماز کی حالت میں انفاق کرنا اوراس سلسلہ میں ایت کا نازل ہونا)ثابت نہیں ہے۔رہی یہ با ت کہ ثعلبی نے اس داستان کو نقل کیاہے تووہ صحیح اورغیر صحیح روایتوں میں تمیزکرنے کی صلاحیت نہیںرکھتاہے،اوربڑے محدثین،جیسے طبری اورابن حاتم وغیرہ نے اس قسم کی جعلی داستانوں کونقل نہیں کیاہے؟!

جواب :

یہ شان نزول شیعہ واہلسنت کی تفسیر اورحدیث کی بہت سی کتابوں میں نقل ہوئی ہے اور ان میں سے بہت سی کتابوں کی سندمعتبرہے۔چونکہ ان سب کو نقل کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ہے،اس لئے ہم ان میں سے بعض کے حوالے حاشیہ میں ذکرکرتے ہیں(۱)

____________________

۱۔ احقاق الحق/ج۳/ص۳۹۹ تا۴۱۱، احکام القرآن جصاص/ج۲/ص۴۴۶، اربعین ابی الفوارس/ص۲۲مخطوط، ارجح المطالب/ص۱۶۹طبع لاہور )بہ نقل احقاق الحق) ، اسباب النزول/ص۱۳۳انتشارات شریف رضی، اصول کافی/ج۱/ص۱۴۳/ح ۷ وص۱۴۶/ح۱۶وص۲۲۸/ح۳ المکتبةالاسلامیہ ، انساب الاشراف/ج۲/ص۳۸۱دار الفکر، البدا یة والنہایة)تاریخ ابن کثیر)/ج۷/ص۳۷۱دارالکتب العلمیہ، بحرالعلوم)تفسیر السمر قندی)/ج۱/ص۴۴۵ دارالکتب العلمیة بیروت البحر المحیط/ج۳/ص۵۱۴مؤ سسةالتاریخ عربی، تاریخ مدینة دمشق/ج۴۲/ص۳۵۶و۳۵۷دارالفکر، ترجمة الامام امیرالمؤ منین/ج۲/ص۴۰۹و۴۱۰دار التعارف للمطبو عات، التسہیل لعلوم التنذیل/ج۱۰ص۱۸۱دارالفکرتفسیرابن کثیر/ج۲/ص۷۴دارالمعرفة بیروت، تفسیر بیضاوی/ج۱/ص۲۷۲دار الکتب العلمیہ، تفسیر الخازن/ج۱/ص۴۶۸دار الفکر، تفسیر فرات/ج۱/ص۱۲۳۔۱۲۹، تفسیر القرآن /ابن ابی حاتم/ج۴/ص۱۱۶۲المکتبةالاہلیہ بیروت، تفسیر کبیر فخررازی/ج۶/جزء۱۲/ص۲۶داراحیائ التراث العربی بیروت، جامع احکام القرآن ۔ج۶/ص۲۲۱و۲۲۲دارالفکر، جامع الاصول/ج۹/ص۴۷۸/ح۶۵۰۳داراحیائ التراث العربی، جامع البیان طبری/ج۴/جزء ۶/ص۱۸۶دار المعرفة بیروت، الجواہر الحسان/ج۲/ص۳۹۶داراحیائ التراث العربی بیروت، حاشیةالشہاب علی تفسیربیضاوی /ج۳/ص۲۵۷دار احیائ التراث العربی بیروت، حاشیةالصاوی علی تفسیرجلالین /ج۱/ص۲۹۱ دار الفکر، الحاوی للفتاوی مکتبة القدس قاہرہ)بہ نقل احقاق الحق)، الدر المنثور/ج۳/ص۱۰۵و۱۰۶ دارالفکر، ذخائر العقبی/ص۸۸ مؤسسة الوفائ بیروت، روح المعانی /ج۶/ص۱۶۷ داراحیائ التراث العربی، الریاض النضرة /ج۲/ص۱۸۲دار الند وة الجدیدة، شرح المقاصد تفتازانی/ج۵/ص۲۷۰و۲۷۱، شرح المواقف جر جانی/ج۸/ص۳۶۰، شرح نہج البلاغہ/۱بن ابی الحدید، شواہد التنزیل /ص۲۰۹ تاص۲۴۸)۲۶حدیث)، غرائب القرآن نیشاپوری/ج۲/جزء۶/ص۶۰۶/دار الکتب العلمیة بیروت، فتح القدیر)تفسیر شوکانی)/ج۲ص۶۶/دار الکتب العلمیة بیروت، فرائد السمطین /ابراہیم بن محمد جوینی /ج۱/ص۱۸۷وص۱۹۵/مؤسسة المحمودی، الفصول المہمة/ص۱۲۳و۱۲۴/منثورات الا علمی تہران، الکشاف /زمخشری/ج۱/ص۳۴۷دار المعرفة بیروت، کفایة الطالب/ص۲۴۹وص۲۵۰/داراحیائ تراث اہل البیت، کنزالعمال/ج۱۳/ص۱۰۸وص۱۶۵/مؤسسةالرسالة، اللباب فی علوم الکتاب /ج۷/ص۳۹۰ وص۳۹۸/دارالکتب العلمیة بیروت، مجمع الزوائد/ج ۷/ص۸۰/دارالفکر۔ المرا جعات/ص۲۵۷،مرقاة المفاتیح/ج۱۰/ص۴۶۲/دارالفکر مطالب السؤول/ج۱/ص۸۶ و۸۷، معالم التنزیل/ج۲/ص۴۷ المعجم الاوسط/ج۷/ص۱۲۹وص۱۳۰/مکتبة المعارف الریاض، معرفة علوم الحدیث/ص۱۰۲/دارالکتب العلمیة بیروت منا قب ابن مغازلی/ص۳۱۱/المکتبة الاسلامیة، مناقب خوارزمی/ص۲۶۴ وص۲۶۵وص۲۶۶/مؤسسة النشر الاسلامی، مواقف ایجی /ج۸/ص۳۶۰ نظم درر السمطین/ص۸۶/مطبعة القضاء)بہ نقل احقاق الحق)، النکت والعیون)تفسیر الماوردی)/ج۲/ص۴۹/مؤسسة الکتب الثقا فیةنورالابصار/ص۸۶ و۸۷/دارالفکر

۱۴۴

اس قسم کے معتبرواقعہ کوجعلی کہنا،امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی مقدس بار گاہ میں جسارت اور ان بڑے محدثین کی توہین ہے کہ جنہوں نے اس حدیث کواپنی کتابوں میں درج کیاہے!اور ثعلبی کے متعلق اس طرح کے گستاخانہ اعترا ضات کہ وہ صحیح اورغیر صحیح احادیث میں تمیز دینے کی صلا حیت نہیں رکھتاہے،جب کہ اہل سنت کے علمائے رجال نے اس کی تعریف تمجیدکی ہے اوروسیع پیمانے پر اس کو سر اہا اور نوازاہے۔ہم یہاں پرنمونہ کے طورپران میں سے صرف دوبزرگوں کے نظریات پیش کرتے ہیں:

علمائاہل سنت میں علم رجال کے ماہر نیز مشہور ومعروف عالم دین اورحدیث شناس،ذہبی،ثعلبی کے بارے میں یوں کہتے ہیں:

الإمام الحافظ العلا مة شیخ التفسیر کان اٴحد اٴو عیة العلم وکان صادقاً موثقاًبصیراً بالعربیة(۱)

”یعنی:وہ امام،حافظ،علامہ،استادتفسیرنیز ایک علمی خزانہ ہیں۔وہ سچّے،قابل اعتماداورعربی ب کے حوالے سے وسیع معلو مات اور گہری نظررکھنے والے ہیں۔“

۲ ۔عبدالغافر نیشابوری”منتخب تاریخ نیشاپوری“ کہتے ہیں:

احمد بن محمدبن ابراهیمالمقریء المفسر الواعظ،الادیب،الثقة،الحافظ،صاحب التصانیف الجلیلة من

____________________

۱۔سیر اعلام النبلاء،ج۱۷،ص۴۳۵،مؤسسہ الرسالة،بیروت

۱۴۵

تفسیر،الحاوی لانواع الفوائد من المعانی والإشارات، وهو صیحع النقل موثق به ۔“(۱)

”عبد الغافر نے ان کی اس عبارت میں توصیف کی ہے کہ احمدبن محمدبن ابراھیم مقریء)علم قرات کے ماہر)،مفسر،واعظ،ادیب،قابل اعتماد،حافظ نیز معانی اوراشارات پر قابل قدرکتابوں کے مصنف تھے۔ان کی احادیث صحیح اورقابل اعتمادہیں۔“

ثعلبی کے باوثوق ہونے اوران کی عظمت کے علاوہ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے سائل کو انگوٹھی دینے کی داستان کو صرف ثعلبی ہی نے نقل نہیں کیاہے۔بلکہ یہ واقعہ شیعہ اوراہل سنت کے حدیث اورتفسیر کی بہت سی کتابوں میں درج ہے۔یہاں تک کہ طبری اورابن حاتم نے بھی اس داستان کونقل کیاہے،جن کے بارے میں معترض نے کہاتھا:”یہ لوگ اس قسم کی داستانیں نقل نہیں کرتے ہیں“۔مناسب ہے ہم یہاں پران دو نوں افرادکی روایتوں کونقل کریں:

ابن کثیرنے اپنی تفسیرمیں بیان کیاہے:

”قال إبن ابی حاتم۔۔۔وحد ثناابو سعید الاشجّ،حدثناالفضل بندکین ابونعیم الاحول،حدثناموسی بن قیس عن سلمة بن کھیل

قال: تصدّق علی بخاتمہ وہوراکع فنزلت( إنّما ولیکم اللّٰه ورسوله والّذین آمنواالذین یقیمون الصلوٰةویؤتون الزکوٰة وهم راکعون ) ۲

اس حدیث میں ابن کثیرابن ابی حاتم کی کتاب سے صحیح سند کے ساتھ سلمتہ بن کہیل سے، حضرت علی علیہ السلام کے متعلق حالت رکوع میں اپنی انگوٹھی کو بہ طور صدقہ دینے کا واقعہ نقل

____________________

۱۔تاریخ نیشابوری ،ص۱۰۹ ۲۔تفسیر ابن کثیر،ج۲،ص۷۴

۱۴۶

کرتاہے اورکہتاہے:اس قضیہ کے بعدآیہء شریفہ( إنّماولیّکم اللّٰه ) ۔۔۔ نازل ہوئی۔ابن جریر طبری نے بھی اپنی تفسیر میں روایت نقل کی ہے:”حدثنامحمدابن الحسین قال:حدثنااحمدبن المفضل قال:حدثنااٴسباط عن السدّیعلی بن اٴبی طالب مرّ به سائل وهوراکع فی المسجد فاٴعطاه خاتمه(۱)

اس روایت میں بھی حضرت علی علیہ السلام کی طرف سے حا لت رکوع میں اپنی انگشتری کو راہ خدا میں دینے کو بیان کیا گیا ہے۔

۳ ۔کیا”إنمّا“حصرپردلالت کرتاہے؟

فخررازی نے کہاہے کہ”إنّما“حصرکے لئے نہیں ہے۔اس کی دلیل خدا وندمتعال کایہ قول ہے کہإنّمامثل الحیاة الدنیاکماء انزلناہ من السماء۔۔۔ ۲ یعنی:زندگانی دنیا کی مثال صرف اس بارش کی ہے جسے ہم نے آسمان سے نازل کیا“

بیشک دینوی زندگی کی صرف یہی ایک مثال نہیں بلکہ اس کے لئے اور بھی دوسری مثالیں ہیں،اس لئے اس آیت میں ”إنّما“حصرپردلالت نہیں کرتاہے۔

جواب:

اول یہ کہ:جس آیہء شریفہ کو فخررازی نے مثال کے طورپرپیش کیاہے،اس میں بھی ”إنمّا“حصر کے طور پراستعمال ہواہے۔لیکن حصر دوقسم کاہے:حصرحقیقی میں مخاطب کے خیال اورتصور کی نفی کی جا تی ہے، مثلا اگر کوئی کہے :”زید کھڑا ہے “ اس کے مقا بلہ میں کہاجا تا ہے:

”إنّماقائم عمرو“یعنی کھڑا شخص صرف عمروہے نہ زید۔ اس جملہ کامقصد یہ نہیں ہے کہ دنیا میں کھڑے انسان عمرومیں منحصرقراردئے جائیں،بلکہ مقصودیہ ہے کہ مقابل کے اس تصور کو زائل کیاجائے کہ زیدکھڑاہے اوراسے یہ سمجھایاجائے کہ صرف عمروکھڑاہے۔

____________________

۱۔تفسیرطبری ،ج۶،ص۱۸۶،دار المعرفة،بیروت

۲۔سورئہ یونس/۲۴

۱۴۷

آیہ کریمہ بھی اس مطلب کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ دنیا کی زندگانی کو صرف آسمان سے برسنے والے پانی کی مثال اورتشبیہ دینی چاہئے جس کے برسنے کے نتیجہ میں ایک پودااگتا ہے اور سرانجام وہ پودا خشک ہو جاتاہے،کیونکہ یہ مثال دنیاوی زندگی کے فانی اور منقطع ہو نے کی حکایت کر تی ہے ،نہ یہ کہ اس کے لئے ایک ایسی مثال پیش کی جائے جو اس کے دوام،استمرار اوربقا کی حکایت کرتی ہو۔

دوسرے یہ کہ:لغوی وضع کے لحاظ سے ”إنّما“حصر کے لئے ہے لیکن قرینہ موجود ہونے کی صورت میں غیر حصر کے لئے بھی بہ طورمجاز استعمال ہو سکتا ہے۔فخررازی کی طرف سے بہ طوراعتراض پیش کی گئی آیت میں اگر”انما“غیرحصر کے لئے استعمال ہوا ہے تو وہ قرینہ موجود ہونے کی وجہ سے بہ طورمجازی استعمال ہو اہے۔اس لئے اس آیہء شریفہ میں ”إنّما“کا حقیقی معنی وہی حصر،مقصودہے۔

۴ ۔کیا”الذین آمنوا“کا اطلاق علی علیہ السلام کے لئے مجازی ہے؟

اگر”الذین آمنوا“کہ جوجمع ہے اس سے مراد علی علیہ السلام ہوں گے تولفظ جمع کا استعمال مفرد کے معنی میں ہو گا۔یہ استعمال مجازی ہے اور مجازی استعمال کو قرینہ کے بغیر قبول نہیں کیا جاسکتا ہے۔

جواب:

اول یہ کہ:شیعہ امامیہ کی احادیث کے مطابق”الذین آمنوا“صرف امیرالمؤ منین علیہ السلام سے مخضوص نہیں ہے بلکہ اس میں دوسرے معصوم ائمہ بھی شامل ہیں۔ہماری احادیث کے مطابق تمام ائمہء معصومین اس کرامت وشرافت کے مالک ہیں کہ رکوع کی حالت میں سائل کو انگوٹھی دیں۔(۱)

____________________

۱۔اصول کافی،ج۱ص۱۴۳،ح۷وص۱۴۶،ح۱۶ وص۲۲۸،ح۳ المکیة الاسلامیہ۔کمال الدین ،ح۱،ص۲۷۴۔۲۷۹ دار الکتب الاسلا میة فرائد السبطین ،ج۱،ص۳۱۲،ح۲۵ مؤسسہ المحمودی لطاعة والنشر۔ینا بیع المودة،ص۱۱۴۔۱۱۶

۱۴۸

دوسرے یہ کہ:بالفرض اس موضوع سے ایک خاص مصداق یعنی حضرت علی علیہ السلام کاارادہ کیا گیا ہے اور یہ استعمال مجازی ہے،اس مجازی استعمال کے لئے وہ احادیث قرینہ ہیں جو اس کی شان نزول میں نقل کی گئی ہیں اور بیان ہو ئیں۔

۵ ۔کیا حضرت علی علیہ السلام کے پاس انفاق کے لئے کوئی انگوٹھی تھی؟

جیسا کہ مشہور ہے حضرت علی(علیہ السلام) فقیر اورغریب تھے اوران کے پاس کوئی قیمتی انگوٹھی نہیں تھی۔

جواب:

احادیث اورتاریخ گواہ ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام غریب اور فقیر نہیں تھے۔ حضرت(ع)اپنے ہاتھوں سے اور اپنی محنت وکوشش کے ذریعہ نہریں کھودتے تھے اور نخلستان آباد کرتے تھے،اپنے لئے مال ودولت کی ذخیرہ اندوزی نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے مال کوخدا کی راہ میں انفاق کرتے تھے۔

۶ ۔کیا)راہ خدا میں ) انگوٹھی انفاق کرنا حضور قلب)خضوع وخشوع) کے ساتھ ھم آھنگ وسازگارہے؟

حضرت علی (علیہ السلام)نمازکی حالت میں مکمل طور پرحضور قلب کے ساتھ منہمک ہو تے تھے۔جو اس طرح حضور قلب کے ساتھ یاد خدا میں ڈوبا ہوا ہووہ دوسرے کی بات نہیں سن سکتا۔اس خشوع وخضوع کے پیش نظر حضرت(ع)نے کیسے سائل کے سوال اوراس کے مدد کے مطالبہ کوسن کر اپنی انگوٹھی اس کوانفاق کی!

جواب:

حضرت علی علیہ السلام اگر چہ فطری طورپر)نمازمیں خاص حضورقلب کی وجہ سے) دوسروں کی بات پر توجہ نہیں کرتے تھے،لیکن اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ مقلب القلوب اوردلوں کو تغیر دینے والا خداوند متعال،سائل کے سؤال کے وقت آپ(ع)کی توجہ کواس کی طرف متوجہ کرے تاکہ اس صدقہ کوجوایک اہم عبادت ہے آیہء شریفہ کے نزول کا سبب قرار دے اوریہ آیہء شریفہ آپ(ع)کی شان میں نازل ہو۔

اس آیت کی شان نزول سے مربوط احادیث)جن میں سے بعض بیان کی گئیں) اس بات کی دلیل ہیں کہ آپ(ع)نے سائل کی طرف متو جہ ہو کرمذکورہ صدقہ کو اپنے ہاتھوں سے دیاہے۔

۱۴۹

۷ ۔کیا انفاق،نمازکی حالت کو توڑ نے کا سبب نہیں بنتا؟

نماز کی حالت میں انگوٹھی انفاق کرنا،نمازکی ظاہری حالت کوتوڑنے کا سبب ہے۔اس لئے حضرت(ع)سے اس قسم کا فعل انجام نہیں پاسکتا ہے۔

جواب:

جو چیزنماز کی حالت کو توڑ نے کا سبب ہے وہ فعل کثیر ہے اوراس قسم کامختصر فعل نمازکو توڑنے کاسبب نہیں ہو سکتاہے۔شیعہ فقہا اس قسم کے امورکونمازکو باطل کرنے کاسبب نہیں جانتے ہیں۔

ابوبکرجصاص کتاب”احکام القرآن“ ۱ میں ”باب العمل الیسیرفی الصلاة‘کے عنوان سے آیہء کریمہ کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:اگرآیہء شریفہ سے مراد رکوع کی حالت میں صدقہ دینا ہے تویہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز کے دوران چھوٹے اورجزئی کام مباح ہیں۔پیغمبر اکرم (ص)سے نمازکی حالت میں چھوٹے اورجزئی کام کے جائز ہونے کے سلسلہ میں چند احادیث روایت ہوئی ہیں جیسے وہ حدیثیں جو اس بات پردلالت کرتی ہیں کہ آنحضرت (ص)نے نماز کی حالت میں اپنے جوتے اُتارے اوراپنے ریش مبارک پر ہاتھ پھیرااوراپنے ہاتھ سے )کسی جگہ کی طرف)اشارہ فرمایا۔اس لئے نماز کی حالت میں صدقہ

____________________

۱۔احکام القرآن ،ج۲،ص۴۴۶،دار الکتب العلمیہ،بیروت

۱۵۰

دینے کے مباح ہونے کے بارے میں آیہء شریفہ کی دلالت واضح اورروشن ہے۔

قرطبی”جامع“ احکام القرآن ۱ میں کہتے ہیں:طبری نے کہا ہے کہ یہ)امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے توسط سے نماز کی حالت میں انگوٹھی کا بہ طور صدقہ دینا)اس بات کی دلیل ہے کہ چھوٹے اورجزئی امور نمازکو باطل نہیں کرتے ہیں،کیونکہ صدقہ دینا ایسا امر تھاجو نماز کی حالت میں انجام دیا گیا ہے اور نماز کو باطل کرنے کا سبب نہیں بنا۔

۸ ۔کیا مستحبی صدقہ کو بھی زکوٰة کہاجاسکتاہے؟

فخررازی نے کہا ہے کہ زکوٰة، کے نام کا اطلاق ”زکوٰة“واجب کے لئے ہے اورمستحب صدقہ پرزکوٰة اطلاق نہیں ہوتاہے،اس کی دلیل یہ ہے کہ خداوند متعال نے)بہت سے مواقع پر)فرمایا ہے:( وآتواالزکوٰة ) یعنی:زکوٰةاداکرو۔فعل امر واجب پر دلالت کرتا ہے۔

اب جب کہ زکوٰة، کا اطلاق صدقہ واجبہ کے لئے ہو تا ہے تواگرعلی(علیہ السلام)نے واجب زکوٰة کونماز کی حالت میں ادا کیا ہے توآپ(ع)نے ایک واجب امرکواپنے اول وقت سے موخیر کیا ہے اور یہ اکثر علماء کے نزدیک گناہ شمار ہوتا ہے۔اس لئے اس کی حضرت علی(علیہ السلام)کی طرف نسبت نہیں دی جاسکتی ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ:زکوٰة سے مراد مستحب صدقہ ہے،تویہ اصل کے خلاف ہے،کیونکہ آیہء شریفہآتواالزکوٰة سے یہ استفادہ ہوتاہے کہ جوبھی صدقہ زکوٰة کا عنوان رکھتا ہے وہ واجب ہے۔

جواب:

اول یہ کہ:آیہء شریفہ میں ذکر کی گئی زکوٰة سے مرادبیشک زکوٰہ مستحب ہے اورشان نزول کی حدیثیں اس مطلب کی تائیدکرتی ہیں۔لیکن یہ کہنا کہ”آیہء شریفہ“( آتواالزکوٰة ) میں زکوٰة سے مرادزکوٰة واجب ہے اس لئے جس چیز پرزکوٰةاطلاق ہو گا وہ

____________________

۱۔”جامع الاحکام القرآن“،ج۶،ص۲۲۱،دارالفکر

۱۵۱

واجب ہو گا“اس کاصحیح نہ ہونا واضح اورعیان ہے کیونکہ ایک طرف جملہء وآتواالزکوٰة میں وجوب پر دلالت کرنے والا لفظ”آتوا“فعلامرہے اور لفظ زکوٰة کا استعمال ماہیت زکوٰة کے علاوہ کسی اورچیز میں نہیں ہواہے۔اور ماہیت زکوٰة،واجب اورمستحب میں قابل تقسیم ہے اوریہ تقسیم کسی قرینہ کے بغیرواقع ہوتی ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وجوب واستحباب لفظ کے دائرے سے خارج ہے۔دوسری طرف سے شیعہ وسنی احادیث اورفقہاکے فتوؤں میں زکوٰة کی دوقسمیں ہیں،زکوٰةواجب اورزکوٰةمستحب لہذا یہ کہنا کہ جوبھی زکوٰةہو گی واجب ہوگی اس اطلاق کے خلاف ہے۔

دوسرے یہ کہ:آیہء شریفہ میں بہ صورت فعل امر”آتوا “نہیں آیاہے بلکہ جملہ”یؤ تون الزکوٰة“اخبارہے نہ انشاء۔اور یہ کہ آیہ شریفہ میں صدقہ سے مرادمستحب صدقہ ہے،اس کی بعض اہل سنت فقہا اورمفسرین تصدیق کرتے ہیں۔

جصاص”احکام القرآن“میں کہتے ہیں( یؤتون الزکوٰةوهم راکعون ) کاجملہ اس بات پردلالت کرتاہے کہ مستحب صدقہ کوزکوٰةکہاجاسکتاہے،کیونکہ علی(علیہ السلام)نے اپنی انگوٹھی کوصدقہ مستحبی)زکوٰة مستحبی)کے طورپرانفاق کیاہے اوراس آیہء شریفہ میں :( وماآتیتم من زکوٰةتریدون وجه اللّٰه فاٴولئک هم المضعفون ) (۱) یعنی:جوزکوٰةدیتے ہو اوراس میں رضائے خداکاارادہ ہوتاہے توایسے لوگوں کودگنا جزا دی جا تی ہے“

لفظ”زکوٰة“صدقہء واجب اورصدقہء مستحب دونوں کوشامل ہوتا ہے۔”زکوٰة کا اطلاق“واجب اورمستحب دونوں پرمشتمل ہوتاہے،جیسے نماز کا اطلاق صرف نمازواجب کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ مستحب نماز بھی اس میں شامل ہے۔(۲)

____________________

۱۔سورہ روم/۳۹

۲۔احکام القرآن،ج۲،ص۲۴۶

۱۵۲

۹ ۔کیا رکوع میں زکوٰة دینے کی کوئی خاص اہمیت ہے؟

اگررکوع سے مرادنمازکی حالت میں رکوع ہے تویہ قابل مدح وستائش نہیں ہے،کیونکہ رکوع میں انفاق کرنایانمازکی کسی دوسر ی حا لت میں انفاق کرنا اس میں کوئی فرق نہیں ہے؟

جواب:

یہ کہ آیہء شریفہ میں رکوع امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی زکوٰة کے لئے ظرف واقع ہوا ہے،یہ اس لحاظ سے نہیں ہے کہ اس حالت میں انفاق کرنا قابل تمجیدوستائش یا کسی خاص تعریف کا باعث ہے بلکہ یہ اس لحاظ سے ہے کہ سائل کا سوال حضرت(ع)کے رکوع کی حالت میں واقع ہواہے اورعلمائے اصول کی اصطلاح کے مطابق”اس سلسلہ میں قضیہ،قضیہ خارجیہ ہے اور رکوع کا عنوان کوئی خصو صیت و موضوعیت نہیں رکھتاہے۔“اور تعریف وتمجید اس لحاظ سے ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے اس حالت میں اس عبادی عمل کو انجام دیا ہے۔اگرحضرت(ع) نے رکوع میں یہ انفاق انجام نہ دیا ہو تو وہ سائل ناامیدی اور محرومیت کی حالت میں مسجد سے واپس چلاجاتا۔

۱۰ ۔کیا اس آیت کامفہوم سابقہ آیت کے منافی ہے؟

فخررازی کاکہناہے:اگریہ آیت علی(علیہ السلام)کی امامت پردلالت کرے گی تو یہ

آیت اپنے سے پہلے والی آیت کے منافی ہوگی کہ جوابوبکر کی خلافت کی مشروعیت پردلالت کرتی ہے۔

۱۵۳

جواب:

اس سے پہلے والی آیت ابوبکر کی فضیلت اوران کی خلافت کی مشروعیت پرکسی قسم کی دلالت نہیں کرتی ہے۔اس سے پہلے والی آیت یوں ہے:

( یاایّهاالّذین آمنوامن یرتدّمنکم عن دینه فسوف یاٴتی اللّٰه بقوم یحبّهم ویحبّونه إذلّةٍ علی المؤمنین اٴعزّة علی الکافرین یجاهدون فی سبیل اللّٰه ولا یخافون لومة لائم ) ۔۔۔ (سورہ مائدہ/۵۴)

”اے ایمان والو!تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پلٹ جائے گا تو عنقریب خدا ایک ایسی قوم کو لا ئے گا جس کو وہ دوست رکھتا ہو گا اور وہ لو گ بھی خدا کو دوست رکھتے ہوں گے، مؤمنین کے لئے متوا ضع اورکفارکے لئے سر سخت ہو ں گے،راہ خدا میں جہاد کرنے والے اورکسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروانہیں کریں گے-“

فخررازی نے کہاہے:یہ آیت ابوبکر کی خلافت کی مشروعیت پردلالت کرتی ہے،کیونکہ خدا وند متعال نے مؤمنین سے خطاب کیاہے کہ اگر وہ اپنے دین سے پلٹ جائیں گے توآیت میں مذکورصفات کی حا مل ایک قوم کولا ئے گاتاکہ وہ ان کے ساتھ جنگ کریں ۔پیغمبر (ص)کے بعد جس نے مرتدوں سے جنگ کی وہ تنہاابوبکرتھے۔چونکہ یہ آیت ابوبکرکی تعریف وتمجید شمار ہوتی ہے،لہذاان کی خلافت کی مشروعیت پر بھی دلالت کرتی ہے۔

فخررازی نے ابوبکر کی خلافت کو شر عی جواز فراہم کر نے کے لئے آیت میں اپنی طرف سے بھی ایک جملہ کا اضافہ کیاہے۔

آیہء شریفہ میں یہ فر مایاگیاہے:اگر تم مؤمنین میں سے کوئی بھی اپنے دین سے پلٹ جائے گاتوخداوندمتعال عنقریب ایسی ایک قوم کو بھیجے گا جن میں مذکورہ اوصاف من جملہ خداکی راہ میں جہاد کرنے کا وصف ہوگا۔

۱۵۴

آیہء شریفہ میں یہ نہیں آیاہے کہ”وہ مرتدوں سے جنگ کریں گے“لیکن فخررازی نے اس جملہ کو اپنے استدلال کے لئے اس میں اضافہ کیاہے۔

دوسری متعدد آیتوں میں بھی اس آیت کے مضمون سے مشابہ آیا ہے کہ اگر تم لوگ کافر ہوگئے توخدا وند متعال ایسے افراد کو بھیجے گا جوایسے نہیں ہوں گے۔ملا حظہ ہو:

۱۔( فإن یکفربها هؤلائ فقدوکلّنابهاقوماً لیسوابهابکافرین )

(سورئہ انعام/ ۸۹)

”اگریہ لوگ ان سے کفر اختیار کر تے ہیں)انکارکرتے ہیں)توہم ان پرایک ایسی قوم کو مسلط کر دیں گے کہ جو کفر اختیار کر نے والے نہیں ہوں گے)انکارکرنے والی نہیں ہے)

۲۔( وإن تتولّوا یستبدل قوماً غیرکم ثم لا یکونوااٴمثالکم )

(سورئہ محمد/ ۳۸)

”اوراگرتم منہ پھیر لوگے تووہ تمھارے بدلے دوسری قوم کوبھیج دے گاجواس کے بعدتم جیسے نہ ہوں گے۔

۳۔( إلاّ تنفروایعذّبکم عذاباً اٴلیماً ویستبدل قوماً غیرکم ولا تضرّوه شیئاً ) (سورئہ توبہ/۳۹)

”اگر تم راہ خدا میں نہ نکلو گے توخدا تمھیں دردناک عذاب میں مبتلاکرے گااورتمھارے بدلے دوسری قوم کو لے آئے گا اورتم اسے کوئی نقصان نہیں پہنچاسکوگے۔“

لہذااس آیت کامضمون بھی مذکورہ مضامین کے مشابہ ہے،اورآیت میں کسی قسم کی ایسی دلالت موجود نہیں ہے کہ خداوند متعال ایک قوم کو بھیج دے گا جومرتدوں سے جنگ کرے گی۔

۱۵۵

۱۱ ۔کیاآیت میں حصرائمہ معصومین )علیہم السلام)کی امامت کے منافی ہے؟

اگر آیہء شریفہ علی(علیہ السلام)کی امامت پر دلالت کرتی ہے تویہ امامیہ مذہب کے عقایدسے متناقض ہے جس طرح اہل سنت مذہب سے اس کاتناقض ہے،کیونکہ شیعہ صرف علی(ع)کی امامت کے معتقد نہیں ہیں بلکہ بارہ اماموں کی امامت پر بھی اعتقادرکھتے ہیں؟

جواب:

اول یہ کہ:مذکورہ قطعی شواہدکی بنیاد پرہمیں یہ معلوم ہواکہ آیہء شریفہ میں ولایت سے مرادسرپرستی اوررکوع سے مراد”نمازکارکوع“ہے۔اس سے واضح ہوجاتاہے کہ آیت میں پایا جا نے والاحصر،حصراضافی ہے نہ حصر حقیقی ،کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورائمہ معصو مین)علیہم السلام)کے علاوہ کچھ دوسرے اولیاء بھی ہیں،جیسے فقہا،حکام، قاضی،باپ،دادااوروصی۔اگرہم یہاں حصرسے حصرحقیقی مرادلیں توآیت ان تمام اولیاء کی ولایت کی نفی کرے،جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔یہ بذات خود ایک قرینہ ہے کہ آیہ کریمہ میں موجودحصر، حصراضافی ہے اوراس سے مرادرسول اکرم (ص)کے بعدحضرت علی علیہ السلام کی سر پرستی و ولایت ہے۔موجودہ دلائل کے پیش نظر دوسرے ائمہ علیہم السلام کی امامت ثابت ہے اوراس میں کسی قسم کا منافات نہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ:شیعہ امامیہ اوراہل سنت کی کتا بوں میں موجود متعدد روایات کےمطابق( الذین آمنوا ) سے مرادصرف حضرت علی علیہ السلام نہیں ہیں(۱) بلکہ تمام ائمہ معصو مین مذکورہ مستحبی زکوٰةکوحالت رکوع میں دینے میں کامیاب ہوئے ہیں اورآیہء کریمہ نے آغازہی میں امامت کو ان سچے اماموں میں منحصرکردیاہے۔

۱۲ ۔کیاعلی)علیہم السلام)پیغمبراکرم (ص)کے زمانہ میں بھی سرپرستی کے عہدہ پرفائزتھے؟

اگرآیہء شریفہ علی(ع) کی امامت پر دلالت کرے گی تواس کالازمہ یہ ہوگاکہ علی(علیہ السلام) پیغمبراکرم (ص)کی حیات کے دوران بھی ولی وسرپرست ہیں جبکہ ایسانہیں ہے۔

____________________

۱۔اصول کافی،ج۱،ص۱۴۳،ح۷وص۱۴۶،ح۱۶وص۲۲۸،ح۳الحکمتبةالاسلامیہ۔کمال الدین،ج۱،ص۲۷۴۔۲۷۹،دارالکتب الاسلامیة فرائدالسمطین ،ج۱،ص۳۱۲،ح۲۵۰،موسستہ المحمودی للطباعة ونشر۔ینابیع المودة،ص۱۱۴۔۱۱۶

۱۵۶

جواب:

اول یہ کہ حضرت علی علیہ السلام بہت سے دلائل کے پیش نظر پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں بھی ولی وسر پرست تھے۔لیکن یہ سر پرستی جانشینی کی صورت میں تھی۔یعنی جب بھی پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہیں ہوتے تھے،علی علیہ السلام آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین ہوا کرتے تھے۔حدیث منزلت اس کا واضح ثبوت ہے اس طرح سے کہ وہ تمام منصب و عہدے جو حضرت ہارون علیہ السلام کے پاس حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت سے تھے ،وہ سب حضرت علی علیہ السلام کے لئے پیغمبر اکرم)ص)کی نسبت سے اس حدیث کی روشنی میں ثابت ہو تے ہیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور کی طرف روانہ ہوتے وقت اپنے بھائی سے مخاطب ہوکر فرمایا:( إخلفنی فی قومی ) ”میری قوم میں تم میرے جانشین ہو“۔یہ خلافت کوہ طور پر جانے کے زمانہ سے مخصوص نہیں ہے ،جیساکہ محققین اہل سنت نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔(۱) ا س بناء پرحضرت علی علیہ السلام پیغمبراکرم (ص)کے جانشین تھے۔

دوسرے یہ کہ:فرض کریں کہ یہ ولایت کسی دلیل کی وجہ سے پیغمبراکرم (ص)کے زمانہ میں حضرت علی علیہ السلام کے لئے ثابت نہیں ہے تواس صورت میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کے بعد آیہء ولایت کا اطلاق مقید ہو گااوراس دلیل کی بناپریہ ولایت پیغمبراسلام (ص)کی رحلت کے وقت سے حضرت علی علیہ السلام کے لئے ثابت ہو جا ئے گی۔

۱۳ ۔کیا حضرت علی (علیہ السلام) کوآیہء ولایت کے پیش نظرچوتھا خلیفہ جاناجاسکتاہے؟

فرض کریں آیہء شریفہ علی (علیہ السلام) کی امامت پر دلالت کرتی ہے تویہ بات حضرت علی(علیہ السلام)سے پہلے تینوں خلفاء کی خلافت کے منافی نہیں ہے،کیونکہ اجماع اورشوریٰ کی بناپرپہلے ہم ان خلفاء کی خلافت کے قائل ہوں گے اور پھر ان خلا فتوں کے بعد آیہء ولایت پر عمل کریں گے جوحضرت(ع)کی امامت بیان کرنے والی ہے۔

_____________________

۱۔شرح مقاصد،تفتازانی ،ج۵،ص۲۷۶،منشورات الشریف الرضی

۱۵۷

جواب:

سب سے پہلے یہ کہ:مسئلہ خلافت کے سلسلہ میں اجماع اورشوریٰ کے ذریعہ استدلال و استنادا سی صورت میں صحیح ہے جب اجماع وشوریٰ کے اعتبار کے لئے معتبر دلیل موجود ہو۔اوراس سلسلہ میں اہل سنت کی طرف سے پیش کیا جانے والا استدلال شیعہ امامیہ کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ:جس شوریٰ اوراجماع کا دعویٰ کیا گیاہے،وہ کبھی امت میں واقع نہیں ہواہے۔

تیسرے یہ کہ:اجماع اورشوریٰ کی دلیل اسی صورت میں صحیح ہے کہ مسئلہ کے بارے میں کوئی نص موجود نہ ہواوراگر کسی مسئلہ کے بارے میں خدا کی طرف سے کوئی نص موجود ہے تواس مسئلہ میں نہ اجماع کسی کام کاہے اورنہ شوریٰ۔چنانچہ خداوند متعال فرماتاہے:( وماکان لمؤمن ولامؤمنة اذ اقضی اللّٰه ورسوله اٴ مراً اٴن یکون لهم الخیرة من امرهم ) (۱)

”یعنی کسی مومن مردیا عورت کویہ اختیارنہیں ہے کہ جب خداورسول کسی امر کے

بارے میں فیصلہ کردیں تووہ بھی اس امر کے بارے میں اپنا اختیارجتائے“

۱۴ ۔کیاحضر ت علی (علیہ السلام)نے کبھی آیہء ولایت کے ذریعہ احتجاج واستدلال کیا ہے؟

اگرآیہء ولایت علی (علیہ السلام) کی ولایت پردلالت کرتی ہے توکیوں حضرت (ع)نے اپنی امامت کے لئے اس آیت سے استدلال نہیں کیا؟جبکہ آپ(ع)نے شوریٰ کے دن اوردوسرے مواقع پراپنے حریفوں کے سا منے اپنے بہت سے فضائل بیان کئے ہیں۔

____________________

۱۔سورئہ احزاب/۳۶

۱۵۸

جواب:

بعض بزرگ شیعہ وسنی محدثین نے ایسے مواقع کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں حضرت علی علیہ السلام نے اپنی امامت کے سلسلہ میں دلائل پیش کرتے ہوئے من جملہ آیہء ولایت کو بھی بیان کیا ہے۔

ان میں سے ابراھیم بن محمدجوینی نے فرائدالسمطین(۱) میں اور)شیعہ علماء میں سے)ابن بابویہ نے کمال الدین(۲) میں نقل کیا ہے کہ:”حضرت علی علیہ السلام نے عثمان کی خلافت کے دوران ایک دن مسجدالنبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں مھاجر وانصار کی ایک جماعت کے سامنے اپنے فضائل بیان کرتے ہوئے اپنی شان میں ایہء ولایت کے نزول کی طرف اشارہ فرمایا۔“

ہم نے اس مفصل حدیث کوآیہء ”اولی لامر“ کی بحث کے آخرمیں ذکرکیاہے۔ کتاب”فرائدالسمطین“کے مصنف کی شخصیت کو پہنچاننے کے لئے آیہء ”اولی الامر“کی تفسیر کے آخری حصہ کی طرف رجوع کیا جائے۔

____________________

۱۔فرائد اسمطین ،ج۱،ص۳۱۲،مؤسسہ المحمودی للطبا عة والنشر

۲۔کماالدین،۱ ،ص۲۷۴

۱۵۹

پانچواں باب :

آیہء صادقین کی روشنی میں اما مت

( یاایّهاالذین آمنوااتقوااللّٰه وکونوامع الصادقین ) (سورئہ توبہ/۱۱۹)

”اے صا حبا ن ایمان!اللہ سے ڈرواورصادقین کے ساتھ ہوجاؤ“

جس آیہء شریفہ کے بارے میں ہم بحث وتحقیق کرنا چاہتے ہیں،اس پر سر سری نگاہ ڈالنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ایک اخلاقی پہلوہے مذ کورہ آیت میں تقوی کاحکم دینے کے بعد مو منین سے یہ کہا جا رہا ہے کہ صادقین کے ساتھ ہوجاؤ۔لیکن یہ بات یاد رہے کہ ہمیں ہمیشہ سرسری نگاہ کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ قرآن مجید کا ارشادہے:

( فارجع البصرهل تریٰ من فطورثمّ ارجع البصرکرّتین ) (سورہ ملک/۳۔۴)

”پھر نظراٹھاکردیکھوکہیں کوئی شگاف تو نہیں ہے۔اس کے بعدباربارنگاہ ڈالو “

خاص کر قرآن مجید میں اس کے بلندمعارف تک رسائی اوراس کے مفاہیم کی گہرائیوں تک پہنچنے کے لئے اس امر کی رعا یت بہت ضروری ہے چنانچہ بعض مواقع پر خودقرآن نے تدبرکرنے کاحکم فرمایاہے۔ہمیشہ اور بار بارغوروخوض کی ضرورت ہے۔ اس لئے قرآن مجید کے سلسلہ میں ابتدائی اورسرسری نگاہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس کی آیتوں پر تدبر اور غورو خوض کرناچاہئے۔

اگرہم اس آیہ کریمہ کا اس نقطہ نظر سے مطا لعہ کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ اس آیت کریمہ میں قرآن مجید کے ایک عظیم اور اصلی معارف، یعنی اما مت و رہبری کے مسئلہ ، کو بہترین تعبیر میں پیش کیا گیا ہے۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271