امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت14%

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت مؤلف:
زمرہ جات: امامت
صفحے: 271

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 271 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 117683 / ڈاؤنلوڈ: 4479
سائز سائز سائز
امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

آیہء ولایت کے بارے میں چند سوالات اوران کے جوابات

آیہء ولایت کے بارے میں چندسوالات کئے جا تے ہیں،مناسب ہے ہم اس باب میں ان کے جوابات دیں۔

۱ ۔کیاآیت میں ”ولی“کامعنی دوست نہیں ہے؟

یہ آیہء کریمہ ایسی آیات کے سیاق میں ہے کہ جس میں مومنین کے لئے یہودونصاریٰ کو اپنے ولی قراردینے سے نہی کی گئی ہے۔چونکہ ان آیات میں ولی’یاور“یا’دوست“کے معنی میں ہے،اس آیت میں بھی اس کے معنی اسی سیاق کے تحت درج ہے،لہذا اسی معنی میں ہونا چاہئے۔اگرایسا نہ ما نیں توسیاق واحدمیں تفکیک لازم آ ئیگی۔

اس لئے اس آیت کے معنی یوں ہوتے ہیں:”بس تمہارایاوریادوست اللہ اوراس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان ہیں جو نمازقائم کرتے ہیں اورحالت خضوع اورانکساری میں زکوٰةدیتے ہیں۔“

جواب:

اوّل یہ کہ:آیہء شریفہ میں سیاق کا پا یا جا نامنتفی ہے،کیونکہ آیہء کریمہ) چنانچہ اس کی شان نزول کے سلسلہ میں پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے اوراس کی مزیدوضاحت آگے کی جائے گی) ایک مستقل شان نزول رکھتی ہے۔نزول کامستقل ہونا اس معنی میں ہے کہ یہ آیت اپنے معانی و مفا ہیم کے لحاظ سے دوسری آیات سے مربوط نہیں ہے۔

بیشک قرآن مجیدکی آیات کی تر تیب وتنظیم،جس طرح اس وقت موجود ہے،ا سی اعتبار سے ہم اس کی قرائت کرتے ہیں باوجود اس کے کہ ان میں نزول کی تر تیب کے لحاظ سے تناقض پایا جاتا ہے۔یہاں تک بعض سورہ یا آیات کہ جوپہلے نازل ہوئی ہیں وہ موجودہ ترتیب میں قرآن کے آخر میں نظر آتی ہیں،جیسے:مکی سورے کہ جوقرآن مجیدکے آخری پارے میں

۱۴۱

مو جودہیں اور بہت سی آیات اورسور ے اس کے برعکس ہیں جیسے:سورئہ بقرہ کہ جوموجودہ تر تیب کے لحاظ سے قرآن مجیدکادوسراسورہ ہے جب کہ یہ مدینہ میں نازل ہونے والاپہلاسورہ ہے۔

لہذا مو جودہ تر تیب زمانہ نزول کے مطابق نہیں ہے،اورمعلوم ہے کہ آیات کے ظہور کے پیش نظرترتیب کا معیار زمانہ نزول ہے۔

اگریہ کہاجائے کہ:آیات اورسورتوں کی تنظیم،پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زیرنظرانجام پائی ہے اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آیات کی مناسبت اورمعنوی نظم کو مدنظررکھتے ہوئے ہرآیہ اورسورہ کواپنی مناسب جگہ پرقراردیاہے۔اس لئے موجودہ تر تیب کا زمانہ نزول سے مختلف ہو ناسیاق کے لئے ضرر کا باعث نہیں ہے۔

جواب میں کہنا چا ئے:اگر چہ یہ نظریہ صحیح ہے کہ موجودہ صوت میں قرآن مجید کی آیات کی تنظیم اور ترتیب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نگرانی میں انجام پائی ہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں کوئی مصلحت تھی جس کے پیش نظرہر آیت یا سورہ کو ایک خاص جگہ پر قرار دیا جائے،لیکن اس کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ مصلحت نظم ومناسبت کی رعایت اورآیات کے ایک دوسرے سے معنوی رابطہ کی وجہ سے مر بوط ہے ۔

اس لحا ظ سے ہر آیت کا نزول اگر اس کی پچھلی آیات سے دلیل کی بنا پر ثابت ہوجائے تو اس میں سیاق کاوجود ہے اورجس کسی آیت کا نزول مستقل یا مشکوک ہو تو اس آیت کا گزشتہ آیت سے متصل ہونا اس کے سیاق کا سبب نہیں بن سکتا ہے۔ زیر بحث آیت کا نزول بھی مستقل ہے اور مذکورہ بیان کے پیش نظر اس میں سیاق موجود نہیں ہے۔

۱۴۲

دوسرے یہ کہ: اگر سیاق پا یابھی جائے پھر بھی گزشتہ آیت میں ثابت نہیں ہے کہ ”ولی“کا معنی دوست اور ناصر کے ہیں جیسا کہ فرماتا ہے:

( یاایّهاالّذین آمنوالا تتخذواالیهود والنصاریٰ اولیاء بعضهم اولیائ بعض ) ۔۔۔ )مائدہ/۵۱)

”ایمان والو!یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا ولی وسر پرست نہ قرار دو کہ یہ خودآپس میں ایک دوسرے کے ولی ہیں ۔“

اس آیت میں بھی) ہمارے مذکورہ اشارہ کے پیش نظر)ولایت،سر پرستی اورصاحب اختیار کے معنی میں ہے۔

تیسرے یہ کہ:اگر آیہء کریمہ میں موجودولایت دوستی یا نصرت کے معنی میں ہو تواس سے یہ لازم آ ئے گا کہ اس کا مفہوم خلاف واقع ہو، کیونکہ اس صورت میں اس کے معنی یوں ہوں گے ” بس تمہارا مدد گار یادوست اللہ اور اس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور رکوع کی حالت میں زکواة دیتے ہیں۔“جبکہ معلوم ہے کہ مومنین کے مدد گاراوردوست ان افراد تک محدود نہیں ہیں جورکوع کی حالت زکواة دیتے ہیں بلکہ تمام مومنین ایک دوسرے کے مدد گاراوردوست ہیں!

مگریہ کہ آیہ کریمہ میں ”راکعون“کے معنی”خداکی بارگاہ میں خضوع وخشوع کرنے والے کے ہیں اوریہ معنی مجازی ہیں اوررکوع کے حقیقی معنی جھکنے اور خم ہو نے کے ہیں ان مطالب کے پیش نظر،سیاق کی بات یہاں پر موضوع بحث سے خارج ہے اور اس کے وجودکی صورت میں بھی معنی مقصود کوکوئی ضررنہیں پہنچاتاہے ۔

۱۴۳

۲ ۔مذکورہ شان نزول )حالت رکوع میں حضرت علی(ع)کاانفاق کر نا)ثابت نہیں ہے۔

بعض افراد نے آیہ شریفہ کی شان نزول پراعتراض کیاہے اور کہا ہے کہ یہ واقعہ)امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کا نماز کی حالت میں انفاق کرنا اوراس سلسلہ میں ایت کا نازل ہونا)ثابت نہیں ہے۔رہی یہ با ت کہ ثعلبی نے اس داستان کو نقل کیاہے تووہ صحیح اورغیر صحیح روایتوں میں تمیزکرنے کی صلاحیت نہیںرکھتاہے،اوربڑے محدثین،جیسے طبری اورابن حاتم وغیرہ نے اس قسم کی جعلی داستانوں کونقل نہیں کیاہے؟!

جواب :

یہ شان نزول شیعہ واہلسنت کی تفسیر اورحدیث کی بہت سی کتابوں میں نقل ہوئی ہے اور ان میں سے بہت سی کتابوں کی سندمعتبرہے۔چونکہ ان سب کو نقل کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ہے،اس لئے ہم ان میں سے بعض کے حوالے حاشیہ میں ذکرکرتے ہیں(۱)

____________________

۱۔ احقاق الحق/ج۳/ص۳۹۹ تا۴۱۱، احکام القرآن جصاص/ج۲/ص۴۴۶، اربعین ابی الفوارس/ص۲۲مخطوط، ارجح المطالب/ص۱۶۹طبع لاہور )بہ نقل احقاق الحق) ، اسباب النزول/ص۱۳۳انتشارات شریف رضی، اصول کافی/ج۱/ص۱۴۳/ح ۷ وص۱۴۶/ح۱۶وص۲۲۸/ح۳ المکتبةالاسلامیہ ، انساب الاشراف/ج۲/ص۳۸۱دار الفکر، البدا یة والنہایة)تاریخ ابن کثیر)/ج۷/ص۳۷۱دارالکتب العلمیہ، بحرالعلوم)تفسیر السمر قندی)/ج۱/ص۴۴۵ دارالکتب العلمیة بیروت البحر المحیط/ج۳/ص۵۱۴مؤ سسةالتاریخ عربی، تاریخ مدینة دمشق/ج۴۲/ص۳۵۶و۳۵۷دارالفکر، ترجمة الامام امیرالمؤ منین/ج۲/ص۴۰۹و۴۱۰دار التعارف للمطبو عات، التسہیل لعلوم التنذیل/ج۱۰ص۱۸۱دارالفکرتفسیرابن کثیر/ج۲/ص۷۴دارالمعرفة بیروت، تفسیر بیضاوی/ج۱/ص۲۷۲دار الکتب العلمیہ، تفسیر الخازن/ج۱/ص۴۶۸دار الفکر، تفسیر فرات/ج۱/ص۱۲۳۔۱۲۹، تفسیر القرآن /ابن ابی حاتم/ج۴/ص۱۱۶۲المکتبةالاہلیہ بیروت، تفسیر کبیر فخررازی/ج۶/جزء۱۲/ص۲۶داراحیائ التراث العربی بیروت، جامع احکام القرآن ۔ج۶/ص۲۲۱و۲۲۲دارالفکر، جامع الاصول/ج۹/ص۴۷۸/ح۶۵۰۳داراحیائ التراث العربی، جامع البیان طبری/ج۴/جزء ۶/ص۱۸۶دار المعرفة بیروت، الجواہر الحسان/ج۲/ص۳۹۶داراحیائ التراث العربی بیروت، حاشیةالشہاب علی تفسیربیضاوی /ج۳/ص۲۵۷دار احیائ التراث العربی بیروت، حاشیةالصاوی علی تفسیرجلالین /ج۱/ص۲۹۱ دار الفکر، الحاوی للفتاوی مکتبة القدس قاہرہ)بہ نقل احقاق الحق)، الدر المنثور/ج۳/ص۱۰۵و۱۰۶ دارالفکر، ذخائر العقبی/ص۸۸ مؤسسة الوفائ بیروت، روح المعانی /ج۶/ص۱۶۷ داراحیائ التراث العربی، الریاض النضرة /ج۲/ص۱۸۲دار الند وة الجدیدة، شرح المقاصد تفتازانی/ج۵/ص۲۷۰و۲۷۱، شرح المواقف جر جانی/ج۸/ص۳۶۰، شرح نہج البلاغہ/۱بن ابی الحدید، شواہد التنزیل /ص۲۰۹ تاص۲۴۸)۲۶حدیث)، غرائب القرآن نیشاپوری/ج۲/جزء۶/ص۶۰۶/دار الکتب العلمیة بیروت، فتح القدیر)تفسیر شوکانی)/ج۲ص۶۶/دار الکتب العلمیة بیروت، فرائد السمطین /ابراہیم بن محمد جوینی /ج۱/ص۱۸۷وص۱۹۵/مؤسسة المحمودی، الفصول المہمة/ص۱۲۳و۱۲۴/منثورات الا علمی تہران، الکشاف /زمخشری/ج۱/ص۳۴۷دار المعرفة بیروت، کفایة الطالب/ص۲۴۹وص۲۵۰/داراحیائ تراث اہل البیت، کنزالعمال/ج۱۳/ص۱۰۸وص۱۶۵/مؤسسةالرسالة، اللباب فی علوم الکتاب /ج۷/ص۳۹۰ وص۳۹۸/دارالکتب العلمیة بیروت، مجمع الزوائد/ج ۷/ص۸۰/دارالفکر۔ المرا جعات/ص۲۵۷،مرقاة المفاتیح/ج۱۰/ص۴۶۲/دارالفکر مطالب السؤول/ج۱/ص۸۶ و۸۷، معالم التنزیل/ج۲/ص۴۷ المعجم الاوسط/ج۷/ص۱۲۹وص۱۳۰/مکتبة المعارف الریاض، معرفة علوم الحدیث/ص۱۰۲/دارالکتب العلمیة بیروت منا قب ابن مغازلی/ص۳۱۱/المکتبة الاسلامیة، مناقب خوارزمی/ص۲۶۴ وص۲۶۵وص۲۶۶/مؤسسة النشر الاسلامی، مواقف ایجی /ج۸/ص۳۶۰ نظم درر السمطین/ص۸۶/مطبعة القضاء)بہ نقل احقاق الحق)، النکت والعیون)تفسیر الماوردی)/ج۲/ص۴۹/مؤسسة الکتب الثقا فیةنورالابصار/ص۸۶ و۸۷/دارالفکر

۱۴۴

اس قسم کے معتبرواقعہ کوجعلی کہنا،امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی مقدس بار گاہ میں جسارت اور ان بڑے محدثین کی توہین ہے کہ جنہوں نے اس حدیث کواپنی کتابوں میں درج کیاہے!اور ثعلبی کے متعلق اس طرح کے گستاخانہ اعترا ضات کہ وہ صحیح اورغیر صحیح احادیث میں تمیز دینے کی صلا حیت نہیں رکھتاہے،جب کہ اہل سنت کے علمائے رجال نے اس کی تعریف تمجیدکی ہے اوروسیع پیمانے پر اس کو سر اہا اور نوازاہے۔ہم یہاں پرنمونہ کے طورپران میں سے صرف دوبزرگوں کے نظریات پیش کرتے ہیں:

علمائاہل سنت میں علم رجال کے ماہر نیز مشہور ومعروف عالم دین اورحدیث شناس،ذہبی،ثعلبی کے بارے میں یوں کہتے ہیں:

الإمام الحافظ العلا مة شیخ التفسیر کان اٴحد اٴو عیة العلم وکان صادقاً موثقاًبصیراً بالعربیة(۱)

”یعنی:وہ امام،حافظ،علامہ،استادتفسیرنیز ایک علمی خزانہ ہیں۔وہ سچّے،قابل اعتماداورعربی ب کے حوالے سے وسیع معلو مات اور گہری نظررکھنے والے ہیں۔“

۲ ۔عبدالغافر نیشابوری”منتخب تاریخ نیشاپوری“ کہتے ہیں:

احمد بن محمدبن ابراهیمالمقریء المفسر الواعظ،الادیب،الثقة،الحافظ،صاحب التصانیف الجلیلة من

____________________

۱۔سیر اعلام النبلاء،ج۱۷،ص۴۳۵،مؤسسہ الرسالة،بیروت

۱۴۵

تفسیر،الحاوی لانواع الفوائد من المعانی والإشارات، وهو صیحع النقل موثق به ۔“(۱)

”عبد الغافر نے ان کی اس عبارت میں توصیف کی ہے کہ احمدبن محمدبن ابراھیم مقریء)علم قرات کے ماہر)،مفسر،واعظ،ادیب،قابل اعتماد،حافظ نیز معانی اوراشارات پر قابل قدرکتابوں کے مصنف تھے۔ان کی احادیث صحیح اورقابل اعتمادہیں۔“

ثعلبی کے باوثوق ہونے اوران کی عظمت کے علاوہ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے سائل کو انگوٹھی دینے کی داستان کو صرف ثعلبی ہی نے نقل نہیں کیاہے۔بلکہ یہ واقعہ شیعہ اوراہل سنت کے حدیث اورتفسیر کی بہت سی کتابوں میں درج ہے۔یہاں تک کہ طبری اورابن حاتم نے بھی اس داستان کونقل کیاہے،جن کے بارے میں معترض نے کہاتھا:”یہ لوگ اس قسم کی داستانیں نقل نہیں کرتے ہیں“۔مناسب ہے ہم یہاں پران دو نوں افرادکی روایتوں کونقل کریں:

ابن کثیرنے اپنی تفسیرمیں بیان کیاہے:

”قال إبن ابی حاتم۔۔۔وحد ثناابو سعید الاشجّ،حدثناالفضل بندکین ابونعیم الاحول،حدثناموسی بن قیس عن سلمة بن کھیل

قال: تصدّق علی بخاتمہ وہوراکع فنزلت( إنّما ولیکم اللّٰه ورسوله والّذین آمنواالذین یقیمون الصلوٰةویؤتون الزکوٰة وهم راکعون ) ۲

اس حدیث میں ابن کثیرابن ابی حاتم کی کتاب سے صحیح سند کے ساتھ سلمتہ بن کہیل سے، حضرت علی علیہ السلام کے متعلق حالت رکوع میں اپنی انگوٹھی کو بہ طور صدقہ دینے کا واقعہ نقل

____________________

۱۔تاریخ نیشابوری ،ص۱۰۹ ۲۔تفسیر ابن کثیر،ج۲،ص۷۴

۱۴۶

کرتاہے اورکہتاہے:اس قضیہ کے بعدآیہء شریفہ( إنّماولیّکم اللّٰه ) ۔۔۔ نازل ہوئی۔ابن جریر طبری نے بھی اپنی تفسیر میں روایت نقل کی ہے:”حدثنامحمدابن الحسین قال:حدثنااحمدبن المفضل قال:حدثنااٴسباط عن السدّیعلی بن اٴبی طالب مرّ به سائل وهوراکع فی المسجد فاٴعطاه خاتمه(۱)

اس روایت میں بھی حضرت علی علیہ السلام کی طرف سے حا لت رکوع میں اپنی انگشتری کو راہ خدا میں دینے کو بیان کیا گیا ہے۔

۳ ۔کیا”إنمّا“حصرپردلالت کرتاہے؟

فخررازی نے کہاہے کہ”إنّما“حصرکے لئے نہیں ہے۔اس کی دلیل خدا وندمتعال کایہ قول ہے کہإنّمامثل الحیاة الدنیاکماء انزلناہ من السماء۔۔۔ ۲ یعنی:زندگانی دنیا کی مثال صرف اس بارش کی ہے جسے ہم نے آسمان سے نازل کیا“

بیشک دینوی زندگی کی صرف یہی ایک مثال نہیں بلکہ اس کے لئے اور بھی دوسری مثالیں ہیں،اس لئے اس آیت میں ”إنّما“حصرپردلالت نہیں کرتاہے۔

جواب:

اول یہ کہ:جس آیہء شریفہ کو فخررازی نے مثال کے طورپرپیش کیاہے،اس میں بھی ”إنمّا“حصر کے طور پراستعمال ہواہے۔لیکن حصر دوقسم کاہے:حصرحقیقی میں مخاطب کے خیال اورتصور کی نفی کی جا تی ہے، مثلا اگر کوئی کہے :”زید کھڑا ہے “ اس کے مقا بلہ میں کہاجا تا ہے:

”إنّماقائم عمرو“یعنی کھڑا شخص صرف عمروہے نہ زید۔ اس جملہ کامقصد یہ نہیں ہے کہ دنیا میں کھڑے انسان عمرومیں منحصرقراردئے جائیں،بلکہ مقصودیہ ہے کہ مقابل کے اس تصور کو زائل کیاجائے کہ زیدکھڑاہے اوراسے یہ سمجھایاجائے کہ صرف عمروکھڑاہے۔

____________________

۱۔تفسیرطبری ،ج۶،ص۱۸۶،دار المعرفة،بیروت

۲۔سورئہ یونس/۲۴

۱۴۷

آیہ کریمہ بھی اس مطلب کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ دنیا کی زندگانی کو صرف آسمان سے برسنے والے پانی کی مثال اورتشبیہ دینی چاہئے جس کے برسنے کے نتیجہ میں ایک پودااگتا ہے اور سرانجام وہ پودا خشک ہو جاتاہے،کیونکہ یہ مثال دنیاوی زندگی کے فانی اور منقطع ہو نے کی حکایت کر تی ہے ،نہ یہ کہ اس کے لئے ایک ایسی مثال پیش کی جائے جو اس کے دوام،استمرار اوربقا کی حکایت کرتی ہو۔

دوسرے یہ کہ:لغوی وضع کے لحاظ سے ”إنّما“حصر کے لئے ہے لیکن قرینہ موجود ہونے کی صورت میں غیر حصر کے لئے بھی بہ طورمجاز استعمال ہو سکتا ہے۔فخررازی کی طرف سے بہ طوراعتراض پیش کی گئی آیت میں اگر”انما“غیرحصر کے لئے استعمال ہوا ہے تو وہ قرینہ موجود ہونے کی وجہ سے بہ طورمجازی استعمال ہو اہے۔اس لئے اس آیہء شریفہ میں ”إنّما“کا حقیقی معنی وہی حصر،مقصودہے۔

۴ ۔کیا”الذین آمنوا“کا اطلاق علی علیہ السلام کے لئے مجازی ہے؟

اگر”الذین آمنوا“کہ جوجمع ہے اس سے مراد علی علیہ السلام ہوں گے تولفظ جمع کا استعمال مفرد کے معنی میں ہو گا۔یہ استعمال مجازی ہے اور مجازی استعمال کو قرینہ کے بغیر قبول نہیں کیا جاسکتا ہے۔

جواب:

اول یہ کہ:شیعہ امامیہ کی احادیث کے مطابق”الذین آمنوا“صرف امیرالمؤ منین علیہ السلام سے مخضوص نہیں ہے بلکہ اس میں دوسرے معصوم ائمہ بھی شامل ہیں۔ہماری احادیث کے مطابق تمام ائمہء معصومین اس کرامت وشرافت کے مالک ہیں کہ رکوع کی حالت میں سائل کو انگوٹھی دیں۔(۱)

____________________

۱۔اصول کافی،ج۱ص۱۴۳،ح۷وص۱۴۶،ح۱۶ وص۲۲۸،ح۳ المکیة الاسلامیہ۔کمال الدین ،ح۱،ص۲۷۴۔۲۷۹ دار الکتب الاسلا میة فرائد السبطین ،ج۱،ص۳۱۲،ح۲۵ مؤسسہ المحمودی لطاعة والنشر۔ینا بیع المودة،ص۱۱۴۔۱۱۶

۱۴۸

دوسرے یہ کہ:بالفرض اس موضوع سے ایک خاص مصداق یعنی حضرت علی علیہ السلام کاارادہ کیا گیا ہے اور یہ استعمال مجازی ہے،اس مجازی استعمال کے لئے وہ احادیث قرینہ ہیں جو اس کی شان نزول میں نقل کی گئی ہیں اور بیان ہو ئیں۔

۵ ۔کیا حضرت علی علیہ السلام کے پاس انفاق کے لئے کوئی انگوٹھی تھی؟

جیسا کہ مشہور ہے حضرت علی(علیہ السلام) فقیر اورغریب تھے اوران کے پاس کوئی قیمتی انگوٹھی نہیں تھی۔

جواب:

احادیث اورتاریخ گواہ ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام غریب اور فقیر نہیں تھے۔ حضرت(ع)اپنے ہاتھوں سے اور اپنی محنت وکوشش کے ذریعہ نہریں کھودتے تھے اور نخلستان آباد کرتے تھے،اپنے لئے مال ودولت کی ذخیرہ اندوزی نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے مال کوخدا کی راہ میں انفاق کرتے تھے۔

۶ ۔کیا)راہ خدا میں ) انگوٹھی انفاق کرنا حضور قلب)خضوع وخشوع) کے ساتھ ھم آھنگ وسازگارہے؟

حضرت علی (علیہ السلام)نمازکی حالت میں مکمل طور پرحضور قلب کے ساتھ منہمک ہو تے تھے۔جو اس طرح حضور قلب کے ساتھ یاد خدا میں ڈوبا ہوا ہووہ دوسرے کی بات نہیں سن سکتا۔اس خشوع وخضوع کے پیش نظر حضرت(ع)نے کیسے سائل کے سوال اوراس کے مدد کے مطالبہ کوسن کر اپنی انگوٹھی اس کوانفاق کی!

جواب:

حضرت علی علیہ السلام اگر چہ فطری طورپر)نمازمیں خاص حضورقلب کی وجہ سے) دوسروں کی بات پر توجہ نہیں کرتے تھے،لیکن اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ مقلب القلوب اوردلوں کو تغیر دینے والا خداوند متعال،سائل کے سؤال کے وقت آپ(ع)کی توجہ کواس کی طرف متوجہ کرے تاکہ اس صدقہ کوجوایک اہم عبادت ہے آیہء شریفہ کے نزول کا سبب قرار دے اوریہ آیہء شریفہ آپ(ع)کی شان میں نازل ہو۔

اس آیت کی شان نزول سے مربوط احادیث)جن میں سے بعض بیان کی گئیں) اس بات کی دلیل ہیں کہ آپ(ع)نے سائل کی طرف متو جہ ہو کرمذکورہ صدقہ کو اپنے ہاتھوں سے دیاہے۔

۱۴۹

۷ ۔کیا انفاق،نمازکی حالت کو توڑ نے کا سبب نہیں بنتا؟

نماز کی حالت میں انگوٹھی انفاق کرنا،نمازکی ظاہری حالت کوتوڑنے کا سبب ہے۔اس لئے حضرت(ع)سے اس قسم کا فعل انجام نہیں پاسکتا ہے۔

جواب:

جو چیزنماز کی حالت کو توڑ نے کا سبب ہے وہ فعل کثیر ہے اوراس قسم کامختصر فعل نمازکو توڑنے کاسبب نہیں ہو سکتاہے۔شیعہ فقہا اس قسم کے امورکونمازکو باطل کرنے کاسبب نہیں جانتے ہیں۔

ابوبکرجصاص کتاب”احکام القرآن“ ۱ میں ”باب العمل الیسیرفی الصلاة‘کے عنوان سے آیہء کریمہ کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:اگرآیہء شریفہ سے مراد رکوع کی حالت میں صدقہ دینا ہے تویہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز کے دوران چھوٹے اورجزئی کام مباح ہیں۔پیغمبر اکرم (ص)سے نمازکی حالت میں چھوٹے اورجزئی کام کے جائز ہونے کے سلسلہ میں چند احادیث روایت ہوئی ہیں جیسے وہ حدیثیں جو اس بات پردلالت کرتی ہیں کہ آنحضرت (ص)نے نماز کی حالت میں اپنے جوتے اُتارے اوراپنے ریش مبارک پر ہاتھ پھیرااوراپنے ہاتھ سے )کسی جگہ کی طرف)اشارہ فرمایا۔اس لئے نماز کی حالت میں صدقہ

____________________

۱۔احکام القرآن ،ج۲،ص۴۴۶،دار الکتب العلمیہ،بیروت

۱۵۰

دینے کے مباح ہونے کے بارے میں آیہء شریفہ کی دلالت واضح اورروشن ہے۔

قرطبی”جامع“ احکام القرآن ۱ میں کہتے ہیں:طبری نے کہا ہے کہ یہ)امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے توسط سے نماز کی حالت میں انگوٹھی کا بہ طور صدقہ دینا)اس بات کی دلیل ہے کہ چھوٹے اورجزئی امور نمازکو باطل نہیں کرتے ہیں،کیونکہ صدقہ دینا ایسا امر تھاجو نماز کی حالت میں انجام دیا گیا ہے اور نماز کو باطل کرنے کا سبب نہیں بنا۔

۸ ۔کیا مستحبی صدقہ کو بھی زکوٰة کہاجاسکتاہے؟

فخررازی نے کہا ہے کہ زکوٰة، کے نام کا اطلاق ”زکوٰة“واجب کے لئے ہے اورمستحب صدقہ پرزکوٰة اطلاق نہیں ہوتاہے،اس کی دلیل یہ ہے کہ خداوند متعال نے)بہت سے مواقع پر)فرمایا ہے:( وآتواالزکوٰة ) یعنی:زکوٰةاداکرو۔فعل امر واجب پر دلالت کرتا ہے۔

اب جب کہ زکوٰة، کا اطلاق صدقہ واجبہ کے لئے ہو تا ہے تواگرعلی(علیہ السلام)نے واجب زکوٰة کونماز کی حالت میں ادا کیا ہے توآپ(ع)نے ایک واجب امرکواپنے اول وقت سے موخیر کیا ہے اور یہ اکثر علماء کے نزدیک گناہ شمار ہوتا ہے۔اس لئے اس کی حضرت علی(علیہ السلام)کی طرف نسبت نہیں دی جاسکتی ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ:زکوٰة سے مراد مستحب صدقہ ہے،تویہ اصل کے خلاف ہے،کیونکہ آیہء شریفہآتواالزکوٰة سے یہ استفادہ ہوتاہے کہ جوبھی صدقہ زکوٰة کا عنوان رکھتا ہے وہ واجب ہے۔

جواب:

اول یہ کہ:آیہء شریفہ میں ذکر کی گئی زکوٰة سے مرادبیشک زکوٰہ مستحب ہے اورشان نزول کی حدیثیں اس مطلب کی تائیدکرتی ہیں۔لیکن یہ کہنا کہ”آیہء شریفہ“( آتواالزکوٰة ) میں زکوٰة سے مرادزکوٰة واجب ہے اس لئے جس چیز پرزکوٰةاطلاق ہو گا وہ

____________________

۱۔”جامع الاحکام القرآن“،ج۶،ص۲۲۱،دارالفکر

۱۵۱

واجب ہو گا“اس کاصحیح نہ ہونا واضح اورعیان ہے کیونکہ ایک طرف جملہء وآتواالزکوٰة میں وجوب پر دلالت کرنے والا لفظ”آتوا“فعلامرہے اور لفظ زکوٰة کا استعمال ماہیت زکوٰة کے علاوہ کسی اورچیز میں نہیں ہواہے۔اور ماہیت زکوٰة،واجب اورمستحب میں قابل تقسیم ہے اوریہ تقسیم کسی قرینہ کے بغیرواقع ہوتی ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وجوب واستحباب لفظ کے دائرے سے خارج ہے۔دوسری طرف سے شیعہ وسنی احادیث اورفقہاکے فتوؤں میں زکوٰة کی دوقسمیں ہیں،زکوٰةواجب اورزکوٰةمستحب لہذا یہ کہنا کہ جوبھی زکوٰةہو گی واجب ہوگی اس اطلاق کے خلاف ہے۔

دوسرے یہ کہ:آیہء شریفہ میں بہ صورت فعل امر”آتوا “نہیں آیاہے بلکہ جملہ”یؤ تون الزکوٰة“اخبارہے نہ انشاء۔اور یہ کہ آیہ شریفہ میں صدقہ سے مرادمستحب صدقہ ہے،اس کی بعض اہل سنت فقہا اورمفسرین تصدیق کرتے ہیں۔

جصاص”احکام القرآن“میں کہتے ہیں( یؤتون الزکوٰةوهم راکعون ) کاجملہ اس بات پردلالت کرتاہے کہ مستحب صدقہ کوزکوٰةکہاجاسکتاہے،کیونکہ علی(علیہ السلام)نے اپنی انگوٹھی کوصدقہ مستحبی)زکوٰة مستحبی)کے طورپرانفاق کیاہے اوراس آیہء شریفہ میں :( وماآتیتم من زکوٰةتریدون وجه اللّٰه فاٴولئک هم المضعفون ) (۱) یعنی:جوزکوٰةدیتے ہو اوراس میں رضائے خداکاارادہ ہوتاہے توایسے لوگوں کودگنا جزا دی جا تی ہے“

لفظ”زکوٰة“صدقہء واجب اورصدقہء مستحب دونوں کوشامل ہوتا ہے۔”زکوٰة کا اطلاق“واجب اورمستحب دونوں پرمشتمل ہوتاہے،جیسے نماز کا اطلاق صرف نمازواجب کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ مستحب نماز بھی اس میں شامل ہے۔(۲)

____________________

۱۔سورہ روم/۳۹

۲۔احکام القرآن،ج۲،ص۲۴۶

۱۵۲

۹ ۔کیا رکوع میں زکوٰة دینے کی کوئی خاص اہمیت ہے؟

اگررکوع سے مرادنمازکی حالت میں رکوع ہے تویہ قابل مدح وستائش نہیں ہے،کیونکہ رکوع میں انفاق کرنایانمازکی کسی دوسر ی حا لت میں انفاق کرنا اس میں کوئی فرق نہیں ہے؟

جواب:

یہ کہ آیہء شریفہ میں رکوع امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی زکوٰة کے لئے ظرف واقع ہوا ہے،یہ اس لحاظ سے نہیں ہے کہ اس حالت میں انفاق کرنا قابل تمجیدوستائش یا کسی خاص تعریف کا باعث ہے بلکہ یہ اس لحاظ سے ہے کہ سائل کا سوال حضرت(ع)کے رکوع کی حالت میں واقع ہواہے اورعلمائے اصول کی اصطلاح کے مطابق”اس سلسلہ میں قضیہ،قضیہ خارجیہ ہے اور رکوع کا عنوان کوئی خصو صیت و موضوعیت نہیں رکھتاہے۔“اور تعریف وتمجید اس لحاظ سے ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے اس حالت میں اس عبادی عمل کو انجام دیا ہے۔اگرحضرت(ع) نے رکوع میں یہ انفاق انجام نہ دیا ہو تو وہ سائل ناامیدی اور محرومیت کی حالت میں مسجد سے واپس چلاجاتا۔

۱۰ ۔کیا اس آیت کامفہوم سابقہ آیت کے منافی ہے؟

فخررازی کاکہناہے:اگریہ آیت علی(علیہ السلام)کی امامت پردلالت کرے گی تو یہ

آیت اپنے سے پہلے والی آیت کے منافی ہوگی کہ جوابوبکر کی خلافت کی مشروعیت پردلالت کرتی ہے۔

۱۵۳

جواب:

اس سے پہلے والی آیت ابوبکر کی فضیلت اوران کی خلافت کی مشروعیت پرکسی قسم کی دلالت نہیں کرتی ہے۔اس سے پہلے والی آیت یوں ہے:

( یاایّهاالّذین آمنوامن یرتدّمنکم عن دینه فسوف یاٴتی اللّٰه بقوم یحبّهم ویحبّونه إذلّةٍ علی المؤمنین اٴعزّة علی الکافرین یجاهدون فی سبیل اللّٰه ولا یخافون لومة لائم ) ۔۔۔ (سورہ مائدہ/۵۴)

”اے ایمان والو!تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پلٹ جائے گا تو عنقریب خدا ایک ایسی قوم کو لا ئے گا جس کو وہ دوست رکھتا ہو گا اور وہ لو گ بھی خدا کو دوست رکھتے ہوں گے، مؤمنین کے لئے متوا ضع اورکفارکے لئے سر سخت ہو ں گے،راہ خدا میں جہاد کرنے والے اورکسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروانہیں کریں گے-“

فخررازی نے کہاہے:یہ آیت ابوبکر کی خلافت کی مشروعیت پردلالت کرتی ہے،کیونکہ خدا وند متعال نے مؤمنین سے خطاب کیاہے کہ اگر وہ اپنے دین سے پلٹ جائیں گے توآیت میں مذکورصفات کی حا مل ایک قوم کولا ئے گاتاکہ وہ ان کے ساتھ جنگ کریں ۔پیغمبر (ص)کے بعد جس نے مرتدوں سے جنگ کی وہ تنہاابوبکرتھے۔چونکہ یہ آیت ابوبکرکی تعریف وتمجید شمار ہوتی ہے،لہذاان کی خلافت کی مشروعیت پر بھی دلالت کرتی ہے۔

فخررازی نے ابوبکر کی خلافت کو شر عی جواز فراہم کر نے کے لئے آیت میں اپنی طرف سے بھی ایک جملہ کا اضافہ کیاہے۔

آیہء شریفہ میں یہ فر مایاگیاہے:اگر تم مؤمنین میں سے کوئی بھی اپنے دین سے پلٹ جائے گاتوخداوندمتعال عنقریب ایسی ایک قوم کو بھیجے گا جن میں مذکورہ اوصاف من جملہ خداکی راہ میں جہاد کرنے کا وصف ہوگا۔

۱۵۴

آیہء شریفہ میں یہ نہیں آیاہے کہ”وہ مرتدوں سے جنگ کریں گے“لیکن فخررازی نے اس جملہ کو اپنے استدلال کے لئے اس میں اضافہ کیاہے۔

دوسری متعدد آیتوں میں بھی اس آیت کے مضمون سے مشابہ آیا ہے کہ اگر تم لوگ کافر ہوگئے توخدا وند متعال ایسے افراد کو بھیجے گا جوایسے نہیں ہوں گے۔ملا حظہ ہو:

۱۔( فإن یکفربها هؤلائ فقدوکلّنابهاقوماً لیسوابهابکافرین )

(سورئہ انعام/ ۸۹)

”اگریہ لوگ ان سے کفر اختیار کر تے ہیں)انکارکرتے ہیں)توہم ان پرایک ایسی قوم کو مسلط کر دیں گے کہ جو کفر اختیار کر نے والے نہیں ہوں گے)انکارکرنے والی نہیں ہے)

۲۔( وإن تتولّوا یستبدل قوماً غیرکم ثم لا یکونوااٴمثالکم )

(سورئہ محمد/ ۳۸)

”اوراگرتم منہ پھیر لوگے تووہ تمھارے بدلے دوسری قوم کوبھیج دے گاجواس کے بعدتم جیسے نہ ہوں گے۔

۳۔( إلاّ تنفروایعذّبکم عذاباً اٴلیماً ویستبدل قوماً غیرکم ولا تضرّوه شیئاً ) (سورئہ توبہ/۳۹)

”اگر تم راہ خدا میں نہ نکلو گے توخدا تمھیں دردناک عذاب میں مبتلاکرے گااورتمھارے بدلے دوسری قوم کو لے آئے گا اورتم اسے کوئی نقصان نہیں پہنچاسکوگے۔“

لہذااس آیت کامضمون بھی مذکورہ مضامین کے مشابہ ہے،اورآیت میں کسی قسم کی ایسی دلالت موجود نہیں ہے کہ خداوند متعال ایک قوم کو بھیج دے گا جومرتدوں سے جنگ کرے گی۔

۱۵۵

۱۱ ۔کیاآیت میں حصرائمہ معصومین )علیہم السلام)کی امامت کے منافی ہے؟

اگر آیہء شریفہ علی(علیہ السلام)کی امامت پر دلالت کرتی ہے تویہ امامیہ مذہب کے عقایدسے متناقض ہے جس طرح اہل سنت مذہب سے اس کاتناقض ہے،کیونکہ شیعہ صرف علی(ع)کی امامت کے معتقد نہیں ہیں بلکہ بارہ اماموں کی امامت پر بھی اعتقادرکھتے ہیں؟

جواب:

اول یہ کہ:مذکورہ قطعی شواہدکی بنیاد پرہمیں یہ معلوم ہواکہ آیہء شریفہ میں ولایت سے مرادسرپرستی اوررکوع سے مراد”نمازکارکوع“ہے۔اس سے واضح ہوجاتاہے کہ آیت میں پایا جا نے والاحصر،حصراضافی ہے نہ حصر حقیقی ،کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورائمہ معصو مین)علیہم السلام)کے علاوہ کچھ دوسرے اولیاء بھی ہیں،جیسے فقہا،حکام، قاضی،باپ،دادااوروصی۔اگرہم یہاں حصرسے حصرحقیقی مرادلیں توآیت ان تمام اولیاء کی ولایت کی نفی کرے،جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔یہ بذات خود ایک قرینہ ہے کہ آیہ کریمہ میں موجودحصر، حصراضافی ہے اوراس سے مرادرسول اکرم (ص)کے بعدحضرت علی علیہ السلام کی سر پرستی و ولایت ہے۔موجودہ دلائل کے پیش نظر دوسرے ائمہ علیہم السلام کی امامت ثابت ہے اوراس میں کسی قسم کا منافات نہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ:شیعہ امامیہ اوراہل سنت کی کتا بوں میں موجود متعدد روایات کےمطابق( الذین آمنوا ) سے مرادصرف حضرت علی علیہ السلام نہیں ہیں(۱) بلکہ تمام ائمہ معصو مین مذکورہ مستحبی زکوٰةکوحالت رکوع میں دینے میں کامیاب ہوئے ہیں اورآیہء کریمہ نے آغازہی میں امامت کو ان سچے اماموں میں منحصرکردیاہے۔

۱۲ ۔کیاعلی)علیہم السلام)پیغمبراکرم (ص)کے زمانہ میں بھی سرپرستی کے عہدہ پرفائزتھے؟

اگرآیہء شریفہ علی(ع) کی امامت پر دلالت کرے گی تواس کالازمہ یہ ہوگاکہ علی(علیہ السلام) پیغمبراکرم (ص)کی حیات کے دوران بھی ولی وسرپرست ہیں جبکہ ایسانہیں ہے۔

____________________

۱۔اصول کافی،ج۱،ص۱۴۳،ح۷وص۱۴۶،ح۱۶وص۲۲۸،ح۳الحکمتبةالاسلامیہ۔کمال الدین،ج۱،ص۲۷۴۔۲۷۹،دارالکتب الاسلامیة فرائدالسمطین ،ج۱،ص۳۱۲،ح۲۵۰،موسستہ المحمودی للطباعة ونشر۔ینابیع المودة،ص۱۱۴۔۱۱۶

۱۵۶

جواب:

اول یہ کہ حضرت علی علیہ السلام بہت سے دلائل کے پیش نظر پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں بھی ولی وسر پرست تھے۔لیکن یہ سر پرستی جانشینی کی صورت میں تھی۔یعنی جب بھی پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہیں ہوتے تھے،علی علیہ السلام آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین ہوا کرتے تھے۔حدیث منزلت اس کا واضح ثبوت ہے اس طرح سے کہ وہ تمام منصب و عہدے جو حضرت ہارون علیہ السلام کے پاس حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت سے تھے ،وہ سب حضرت علی علیہ السلام کے لئے پیغمبر اکرم)ص)کی نسبت سے اس حدیث کی روشنی میں ثابت ہو تے ہیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور کی طرف روانہ ہوتے وقت اپنے بھائی سے مخاطب ہوکر فرمایا:( إخلفنی فی قومی ) ”میری قوم میں تم میرے جانشین ہو“۔یہ خلافت کوہ طور پر جانے کے زمانہ سے مخصوص نہیں ہے ،جیساکہ محققین اہل سنت نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔(۱) ا س بناء پرحضرت علی علیہ السلام پیغمبراکرم (ص)کے جانشین تھے۔

دوسرے یہ کہ:فرض کریں کہ یہ ولایت کسی دلیل کی وجہ سے پیغمبراکرم (ص)کے زمانہ میں حضرت علی علیہ السلام کے لئے ثابت نہیں ہے تواس صورت میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کے بعد آیہء ولایت کا اطلاق مقید ہو گااوراس دلیل کی بناپریہ ولایت پیغمبراسلام (ص)کی رحلت کے وقت سے حضرت علی علیہ السلام کے لئے ثابت ہو جا ئے گی۔

۱۳ ۔کیا حضرت علی (علیہ السلام) کوآیہء ولایت کے پیش نظرچوتھا خلیفہ جاناجاسکتاہے؟

فرض کریں آیہء شریفہ علی (علیہ السلام) کی امامت پر دلالت کرتی ہے تویہ بات حضرت علی(علیہ السلام)سے پہلے تینوں خلفاء کی خلافت کے منافی نہیں ہے،کیونکہ اجماع اورشوریٰ کی بناپرپہلے ہم ان خلفاء کی خلافت کے قائل ہوں گے اور پھر ان خلا فتوں کے بعد آیہء ولایت پر عمل کریں گے جوحضرت(ع)کی امامت بیان کرنے والی ہے۔

_____________________

۱۔شرح مقاصد،تفتازانی ،ج۵،ص۲۷۶،منشورات الشریف الرضی

۱۵۷

جواب:

سب سے پہلے یہ کہ:مسئلہ خلافت کے سلسلہ میں اجماع اورشوریٰ کے ذریعہ استدلال و استنادا سی صورت میں صحیح ہے جب اجماع وشوریٰ کے اعتبار کے لئے معتبر دلیل موجود ہو۔اوراس سلسلہ میں اہل سنت کی طرف سے پیش کیا جانے والا استدلال شیعہ امامیہ کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ:جس شوریٰ اوراجماع کا دعویٰ کیا گیاہے،وہ کبھی امت میں واقع نہیں ہواہے۔

تیسرے یہ کہ:اجماع اورشوریٰ کی دلیل اسی صورت میں صحیح ہے کہ مسئلہ کے بارے میں کوئی نص موجود نہ ہواوراگر کسی مسئلہ کے بارے میں خدا کی طرف سے کوئی نص موجود ہے تواس مسئلہ میں نہ اجماع کسی کام کاہے اورنہ شوریٰ۔چنانچہ خداوند متعال فرماتاہے:( وماکان لمؤمن ولامؤمنة اذ اقضی اللّٰه ورسوله اٴ مراً اٴن یکون لهم الخیرة من امرهم ) (۱)

”یعنی کسی مومن مردیا عورت کویہ اختیارنہیں ہے کہ جب خداورسول کسی امر کے

بارے میں فیصلہ کردیں تووہ بھی اس امر کے بارے میں اپنا اختیارجتائے“

۱۴ ۔کیاحضر ت علی (علیہ السلام)نے کبھی آیہء ولایت کے ذریعہ احتجاج واستدلال کیا ہے؟

اگرآیہء ولایت علی (علیہ السلام) کی ولایت پردلالت کرتی ہے توکیوں حضرت (ع)نے اپنی امامت کے لئے اس آیت سے استدلال نہیں کیا؟جبکہ آپ(ع)نے شوریٰ کے دن اوردوسرے مواقع پراپنے حریفوں کے سا منے اپنے بہت سے فضائل بیان کئے ہیں۔

____________________

۱۔سورئہ احزاب/۳۶

۱۵۸

جواب:

بعض بزرگ شیعہ وسنی محدثین نے ایسے مواقع کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں حضرت علی علیہ السلام نے اپنی امامت کے سلسلہ میں دلائل پیش کرتے ہوئے من جملہ آیہء ولایت کو بھی بیان کیا ہے۔

ان میں سے ابراھیم بن محمدجوینی نے فرائدالسمطین(۱) میں اور)شیعہ علماء میں سے)ابن بابویہ نے کمال الدین(۲) میں نقل کیا ہے کہ:”حضرت علی علیہ السلام نے عثمان کی خلافت کے دوران ایک دن مسجدالنبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں مھاجر وانصار کی ایک جماعت کے سامنے اپنے فضائل بیان کرتے ہوئے اپنی شان میں ایہء ولایت کے نزول کی طرف اشارہ فرمایا۔“

ہم نے اس مفصل حدیث کوآیہء ”اولی لامر“ کی بحث کے آخرمیں ذکرکیاہے۔ کتاب”فرائدالسمطین“کے مصنف کی شخصیت کو پہنچاننے کے لئے آیہء ”اولی الامر“کی تفسیر کے آخری حصہ کی طرف رجوع کیا جائے۔

____________________

۱۔فرائد اسمطین ،ج۱،ص۳۱۲،مؤسسہ المحمودی للطبا عة والنشر

۲۔کماالدین،۱ ،ص۲۷۴

۱۵۹

پانچواں باب :

آیہء صادقین کی روشنی میں اما مت

( یاایّهاالذین آمنوااتقوااللّٰه وکونوامع الصادقین ) (سورئہ توبہ/۱۱۹)

”اے صا حبا ن ایمان!اللہ سے ڈرواورصادقین کے ساتھ ہوجاؤ“

جس آیہء شریفہ کے بارے میں ہم بحث وتحقیق کرنا چاہتے ہیں،اس پر سر سری نگاہ ڈالنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ایک اخلاقی پہلوہے مذ کورہ آیت میں تقوی کاحکم دینے کے بعد مو منین سے یہ کہا جا رہا ہے کہ صادقین کے ساتھ ہوجاؤ۔لیکن یہ بات یاد رہے کہ ہمیں ہمیشہ سرسری نگاہ کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ قرآن مجید کا ارشادہے:

( فارجع البصرهل تریٰ من فطورثمّ ارجع البصرکرّتین ) (سورہ ملک/۳۔۴)

”پھر نظراٹھاکردیکھوکہیں کوئی شگاف تو نہیں ہے۔اس کے بعدباربارنگاہ ڈالو “

خاص کر قرآن مجید میں اس کے بلندمعارف تک رسائی اوراس کے مفاہیم کی گہرائیوں تک پہنچنے کے لئے اس امر کی رعا یت بہت ضروری ہے چنانچہ بعض مواقع پر خودقرآن نے تدبرکرنے کاحکم فرمایاہے۔ہمیشہ اور بار بارغوروخوض کی ضرورت ہے۔ اس لئے قرآن مجید کے سلسلہ میں ابتدائی اورسرسری نگاہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس کی آیتوں پر تدبر اور غورو خوض کرناچاہئے۔

اگرہم اس آیہ کریمہ کا اس نقطہ نظر سے مطا لعہ کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ اس آیت کریمہ میں قرآن مجید کے ایک عظیم اور اصلی معارف، یعنی اما مت و رہبری کے مسئلہ ، کو بہترین تعبیر میں پیش کیا گیا ہے۔

۱۶۰

اس لحاظ سے امامت سے مربوط آیات کی بحث و تحقیق میں یہ آیہ کریمہ بھی نمایاں اور قابل توجہ ہے۔ اس آیہ شریفہ کے سلسلہ میں بحث و تحقیق چند محوروں پرمشتمل ہے:

۱ ۔آیت کے مفردات اور مفاہیم کی تحقیق۔

۲ ۔مذکورہ آیت کااس سے پہلے والی آیات سے ربط

۳ ۔اس آیت کامسئلہ رہبری سے ربطہ اور اس کے قرائن کی چھان بین پڑتال۔

۴ ۔علما ء ومفسرین کے بیانات

۵ ۔شیعہ،سنی احادیث وروایات

آیت کے بارے مفردات میں بحث

اس حصہ میں جن الفاظ کی تحقیق ضروری ہے وہ لفظ”صدق“اور”صادقین“ہیں۔اس سلسلہ میں پہلے ہم ان کے لغوی معنی پر ایک نظرڈالیں گے اور ان کے بعد اس کے قرآنی استعمالات پر بحث کریں گے۔

استعمالا ت لغوی

اس سلسلہ میں ہم دو اہل لغت کے بیانات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

۱ ۔ ابن منظور نے ”لسان العرب(۱) “ میں لفظ”صدق“کے مختلف استعمالات کویوں بیان کیاہے:

الصدق:نقیض الکذب،سچ،جھوٹ کی ضدہے۔

رجل صدق:نقیض رجل سوء ۔اچھاانسان برے انسان کی ضدہے۔یعنی اچھائی اور برائی کی صفتیں ایک دوسرے کی ضدہیں۔

وکذالک ثواب صدق وخمارصدق،اسی طرح کہا جاتا ہے اچھا لباس اوراچھابرقعہ۔

ویقال: رجل صدق،مضاف بکسرالصادومعناه نعم الرجل هو نیزاسی

____________________

۱۔لسان العرب ،ج۱۰،ص۳۰۹۔۳۰۷

۱۶۱

طرح حالت اضا فت میں صاد کے کسرے کے ساتھ استعمال ہو تا ہے”رجل صدق“یعنی وہ ایک اچھا مردہے۔

رجل صدق اللقاء وصدق النظر، خوش اخلاق مرداور خوش بین انسان۔

والصّدق:بالفتح الصلب من الرماح وغیرها، ورمح صدق:مستو،وکذالک سیف صدق :

صاف اورسیدھا نیزہ ،اوراسی طرح سیدھی تلوارکو بھی صدق کہتے ہیں۔

عن ابن درستویہ:قال إنّما لصدق الجامع للاوصاف المحمودة۔ابن درستویہ کا کہنا ہے کہ”صدق“اس شخص کوکہاجاتاہے جس میں تمام پسندیدہ اوصاف موجودہوں۔

قال الخلیل:الصدق:الکامل کلّ شیءٍ ۔خلیل نے کہاہے کہ ہرمکمل چیزکو”صدق“کہتے ہیں۔

۲ ۔”مفردات قرآن(۱) “ میں راغب کاکہناہے:ویعبّرعن کل فعل فاضل ظاهراًوباطناًًبا لصدق،فیضاف إلیه ذٰلک الفعل الّذی یوصف به نحو قوله ۔۔۔“ہروہ کام جوظاہروباطن کے اعتبارسے اچھا اور پسندیدہ ہو اسے”صدق“ سے تعبیر کیا جاتا ہے اوراس کے موصوف کی”صدق“کی نسبت )اضافت) دی جاتی ہے۔استعما لات قرآ نی کے وقت ہم اس کے شاہدپیش کریں گے۔

استعمالات قرآنی

قرآن مجید میں ہمیں بہت سی ایسی آیات نظر آتی ہیں جن میں لفظ”صدق“کوایسی چیزوں کی صفت قرار دیا گیاہے جوگفتگووکلام کے مقولہ نہیں ہےں۔نمونہ کے طور پر درج ذیل آیات ملاحظ ہوں:

____________________

۱۔مفردات فی القرآن،ص۲۷۷،دارالمعرفة،بیروت

۱۶۲

( وبشّرالّذین آمنوا اٴنّ لهم قدم صدق عندربّهم )

(سورہ یونس/ ۲)

اس آیہء شریفہ میں ’ صدق“،”قدم“کی صفت واقع ہے۔

ولقدبوّاٴنا بنی اسرائیل مبوّاٴصدق )سورئہ یونس/ ۹۳)

اس آیہء شریفہ میں ”صدق“کو”جگہ“کی صفت قرار دیا گیاہے۔

وقل ربّ اٴدخلنی مدخل صدق واٴخرجنی مخرج صدق سورئہ اسراء/ ۸۰)

اس آیہء شریفہ میں ”مدخل“ و ”مخرج“ یااسم مکان)داخل اورخارج کرنے کی جگہ) ہیں یا مصدر) خودکوداخل کرنایاخارج کرنا)ہیں۔بہرحال کسی طرح بھی مقولہ کلام سے نہیں ہے۔

فی مقعد صدق عند ملیک مقتدر (سورئہ قمر/ ۵۰)

اس آیہ شریفہ میں ”صدق“،”مقعد“)جگہ اوربیٹھنے)کی صفت ہے۔

( لیس البرّاٴن ُتوَلّوُاوجوهکم قبل المشرق والمغرب ولکنّ البرّمن آمن باللّٰه والیوم الآخروالملائکة والکتاب والنبیّین وآتی المال علی حبّه ذوی القربی والیتامیٰ والمساکین وابن السبیل والسائلین وفی الرقاب واقام الصلوة وآتی الزکوةوالموفون بعهدهم إذاعاهدواوالصابرین فی الباٴسائ والضرّاء وحین الباٴس اولئک الّذین صدقواواٴُولئک هم المتّقون ) )سورئہ بقرہ/ ۱۷۷)

اس آیہء شریفہ میں خداوندمتعال نے پہلے نیکیوں کوعقائد کے شعبہ میں یعنی خدا،قیامت،فرشتوں،آسمانی کتابوں اورانبیاء پرایمان کے سلسلہ میں اس کے بعدعمل کے شعبہ میں یعنی اپنے رشتہ داروں،محتاجوں،ابن سبیل اورسائلوں کوانفاق کرنا،خداکی راہ میں بندوں کو آزادکرنانیزایفائے عہدکرنا وغیرہ وغیرہ کی طرف اشارہ کیاہے۔اس کے بعداخلاقی شعبہ میں یعنی مشکلات و پریشاں نیوں میں صبروتحمل استقامت و پائیداری کا مظا ہرہ کر نے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔اورمذکورہ تینوں شعبوں میں نیکیاں کرنے والوںصد ق وتقویٰ کے ذریعہ تعریف کرتاہے۔

۱۶۳

لغت اورآیات کریمہ میں مذکورہ استعمالات کے پیش نظرواضح ہوجاتاہے کہ”صدق“کاایک ایساوسیع مفہوم ہے کہ جس کا دائرہ صرف مقولہء،کلام،وعدہ وخبرتک محدود نہیں ہے،بلکہ یہ فکرواندیشہ عقا ئد و اخلا قیات نیزانسانی رفتارجیسے دیگر مواردپربھی اطلاق کرتا ہے اوراس کااستعمال ان موا رد میں حقیقی ہے۔

اس آیت کا گزشتہ آیات سے ربط

اس آیت سے پہلی والی آیت )جیساکہ تفسیر وحدیث کی کتابوں میں آیا ہے )ان مومنین کے بارے میں ہے کہ جنہوں نے پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ جنگ تبوک میں جانے سے انکار کیا تھا اوراس کے بعدنادم اورپشیمان ہوکرانھوں نے توبہ کرلی تھی،مسلمانوں نے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم سے ان کے ساتھ اپنے رشتہ نا طے توڑ دئے تھے،یہاں تک کہ ان کی بیویوں نے بھی ان سے بات کرنا چھوڑدی تھی۔

انہوں نے جب شہر سے باہرنکل کربارگاہ الٰہی میں التماس والتجا کی اور خدا کی بار گاہ میں توبہ کی تو خدا وند متعال نے ان کی توبہ قبول کی اوروہ پھرسے اپنے لوگوں اوراپنے خانوادوں میں واپس لوٹے۔

بعد والی آیت میں بھی خدا وند متعال فرماتا ہے”اہل مدینہ اوراس کے اطراف کے لوگوں کو نہیں چا ہئیے کہ پیغمبر خدا (ص)کی مخالفت اوران سے رو گردانی کریں۔ اس کے بعد خدا کی راہ میں مشکلات و پریشا نیاں،بھوک وپیاس کی سختیاں برداشت کرنے کی قدرواہمیت کی طرف بھی اشارہ کرتاہے۔

اس آیہء شریفہ)زیر بحث آیت)میں مؤمنین کومخاطب کرکے انھیں تقویٰ و پر ہیز گاری کا حکم دیا گیا ہے،اورانھیں اس بات کا پیغام دیا گیا ہے کہ وہ”صادقین“کے ساتھ ہوجائیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آیہء شریفہ میں ”صادقین“سے مراد کون لوگ ہیں؟

۱۶۴

اس آیت کا ائمہ معصومین(ع)کی امامت سے ربط

ابتدائی نظر میں )جیسا کہ”صدق“ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے اشارہ کیا گیا ) ایسالگتاہے کہ جملہ کونوامع الصادقین سے مرادسچوں کے ساتھ ہونے کاحکم ہے۔

قابل غور بات اورجو چیز ضروری ہے وہ سچ بولنااورجھوٹ بولنے سے پر ہیز کر نا ہے۔ لیکن سچ بولنے والوں کے ساتھ ہونا یہ شر عی واجبات میں سے نہیں ہے،جبکہ سچوں کے ساتھ ہونے کا یہ آیہ شریفہ میں حکم ہواہے اور یہ امروجوبی ہے اور جملہ( کونوامع الصادقین ) کا وقوع”إ تقوااللّٰہ“کے سیاق میں ہے کہ جس میں تقوائے الٰہی کا حکم تھالہذایہ بیشک وجوب کے لئے ہے اوراس سے وجوب کی مزیدتاکیدہوتی ہے۔

مفہوم صدق کی وسعت کے پیش نظرمقولہ کلا م و گفتگو تک محدودیت نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ فکرو عقائد،اخلاق وکردار نیزرفتار و عمل تک پھیلا ہواہے کہ جس میں صادقین سے ہونے کو آیہء کریمہ میں واجب قرار دیا گیاہے،ہم اس نتیجہ پرپہنچتے ہیں کہ صادقین کے ساتھ ہونے سے مرادجسمانی معیت اورہمراہی نہیں ہے بلکہ ہمراہی ہراس چیز میں ہے جس میں صحت وسچائی پا ئی جاتی ہو اورآیہء کریمہ میں صادقین سے مرادوہ لوگ ہیں جوصدق مطلق کے مالک ہیں نہ مطلق صدق کے۔او رصدق مطلق وہ ہے جوہر جہت سے سچااورصحیح ہواورفکروعقائد،گفتاروکرداراور اخلاقیات کے لحاظ سے کسی طرح کا انحراف نہ رکھتاہو۔اس طرح کا شخص معصوم کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتاہے۔اس طرح کے انسان کے ساتھ ہونے کامطلب اس کے افکار و عقائد، کردارواخلاق کی پیروی کر نا ہے۔

۱۶۵

چونکہ مسلمانوں کااس بات پراجماع ہے کہ چودہ معصومین علیہم السلام کے علاوہ کوئی صاحب عصمت اور صدق مطلق کا مالک نہیں ہے،اس لئے”صادقین“ سے مرادپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام ہوں گے۔

علماء ومفسرین کے بیانات کی تحقیق

اس سلسلہ میں ہم صرف دوبزرگ علماء کے بیانات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

علامہ بہبہانی کا قول:

پہلا قول شیعہ امامیہ کی ایک عظیم شخصیت وبزرگ عالم دین،گراں قدرمفکرمرحوم علامہ محقق سید علی بہبہانی کاہے۔وہ اپنی عظیم کتاب”مصباح الھدایہ“)کہ جوواقعاًامامت کے بارے میں ایک بے نظیرکتاب ہے )میں آیہء شریفہ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

”وقداستفاضت الروایات من طریقناوطریق العامةاٴنّ الصادقین هم اٴهل بیت النبیّی المطهّرون“وقد ذکرفی غایة المرام عشرةخبارمن طریقنا وسبعة اٴخبار من طریق العامة(۱)

اٴقول:ویدّل علی اختصاص الصادقین فی الآیةالکریمه فی الاٴئمّة المعصومین الطبّین من آل محمد( ص) وعدم إرادة مطلق الصادقین منهکمادلّت علیه الروایات المستفیضة من الطر فین:اٴنّه لوکان المراد بالصدق مطلق الصدقالشامل لکلّ مرتبة منه المطلوب من کلّ مؤ من،وبالصادقین المعنی العام الشامل

____________________

۱۔نمایة المرام ،ص۲۴۸

۱۶۶

لکلّ من اتّصف بالصدق فی اٴیّ مرتبة کان،،لوجب اٴن یعبّرمکان”مع“ بکلمة”من“ضرورةاٴنّه یجب علی کلّ مؤمن اٴن یتحرزعن الکذب و یکون مع الصادقینفالعدول عن کلمة ”من“إلی”مع“ یکشف عن اٴن المراد ”باالصدق“مرتبةمخص صةو”باالصادقین“ طائفة معینةومن المعلوم اٴنّ هذه المرتبة مرتبة کاملة،بحیث یستحقالمتصفون بها اٴن یتبعهم سائر المؤمنین جمیعاً،وهذاالمرتبة الکاملة التی تکون بهذه المثا بة لیست إلاّ العصمة والطهارة التی لم یتطرّق معها کذب فی القول والفعل،إذفی الاٴمّة من طهّره اللّٰه تعالی واٴذهب عنه الرجس!وهم اٴهل بیت النبیّی بنصّایة التطهیرواتّفاق جمیع المسلمین

فلواٴُرید من الصّادقین غیر المعصومین لزم اٴن یکون المعصومون ماٴمورین بمتا بعة غیر المعصومین المتطرّق فیهم الکذب و لو جهلاً اٴو سهواً و هو قبیح عقلاً ، و تعیّن اٴن یکون المراد الصادقین المطهّرین الحائزین جمیع مراتب الصدق قولاً و فعلاً،ولا یصدق ذلک إلاّ علی اٴهل بیت النبیّیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الّذین اٴذهب اللّٰٰه عنهم الرجس و طهرَّهم تطهیراً، و إلیه یشیر قول مولانا الرضا( علیه السلام) ”هم الاٴئمّة الصدیقون بطا عتهم“(۱)

و یدلّ علی کونهم اٴئمّة کمانبّه علیه مولانا الرضا( علیه السلام) فی هذه الروایة اٴمره سبحانه وتعالی جمیع المؤ منین بعد اٴمرهم بالاٴتّقاء عن محارمه باٴن یکونوا مع الصادقین، و لا یصدق الکون

___________________

۱۔فی المصدر:”والصدیقون بطا عتہم “فراجع

۱۶۷

معهم إلا باٴن یکونوا تحت طاعتهم ،متحرّزین عن مخا لفتهم ولیس للإمامة معنی إلاّافتراض طاعة الإمام علی الماٴموم من قبله تعالی،بل لا تعبیراٴقرب إلی معنی الإمامة من اٴمر المؤمنین باٴن یکونوامعه،إذ حقیقة الإئتمام عبارة عن متابعة الماٴموم إمامه وعدم مفارقته عنه ۔(۱)

شیعہ اور اہل سنّت سے مستفیض(۲) روایتیں نقل ہوئی ہیں کہ آیہء شریفہ میں صادقین سے مراد)پیغمبراسلام (ص))کے اہل بیت علیہم السلام ہیں۔مرحوم بحرانی نے اپنی کتاب ”غایة المرام“ میں شیعہ طریقہ سے دس احادیث اورسنی طریقہ سے سات احادیث نقل کی ہیں۔

آیہء کریمہ میں ”صادقین“سے مراد)جیساکہ فریقین کی احادیثوں میں ایاہے )ائمہء معصومین علیہم السلام ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر ”صدق“)سچائی)کہ جو”صادقین“کے عنوان میں ماخوذہے،اس سے مرادمطلق سچائی ہے کہ جوہرمرتبہ کو شامل ہے اور”صادقین“کے زمرے میں ہروہ شخص شامل ہوکہ جو صفت صدق کے کسی بھی مرتبہ سے متصف ہے تو آیہء کریمہ کی تعبیر ”کو نوا من الصا دقین“ہونی چا ہئے تھی اوراسصورت میں اس آیت کے معنی یہ ہو تے کہ ہرمسلمان پر ضروری ہے کہ وہ سچ بو لنے والوں سے ہو اورجھوٹ سے پرہیزکرے۔

یہ جو”مع الصادقین“تعبیرہے،یہ خوداس بات کی دلیل ہے کہ”صدق“سے مراد ایک خاص مرتبہ و مقام ہے اور”صادقین“سے مرادایک مخصوص اور ممتازگروہ)اورصادقین کے ساتھ ہونے کا معنی ان کی پیروی کرنا)ہے۔

صفت صد ق کا کا مل اور نہائی مرتبہ وہی عصمت وطہارت ہے جس کی وجہ سے گفتار وکردار میں سچائی مکمل طورپرمحقق ہوتی ہے۔

____________________

۱-”مصباح الہدایة“ص۹۳۔۹۲،مطبع سلمان فارسی قم

۲۔سے دس تک کی احادیث پر”حدیث مستفیض“اطلاق ہوتا ہے

۱۶۸

(اس مطلب کاقطعی ثبوت یہ ہے کہ)اگر”صادقین“سے مرادائمہ معصومین(ع)کے علاوہ کوئی اورہوں تواس فرض کی بنیادپرکہ آیہء تطہیرکی نص مو جود ہے اورتمام مسلمانوں کا اہل بیت کے معصوم ہو نے پر اتفاق ہے ،اس کالازمہ یہ ہوتا کہ تمام انسان حتی کہ ائمہ معصو مین بھی غیرمعصوم کی اطاعت وپیروی کریں اوریہ عقلاًقبیح ہے۔لہذایہ مرتبہ)عصمت وطہارت)پیغمبر (ص)کے خاندان کے علاوہ کہیں اورنہیں پایا جاسکتاہے۔

دوسراثبوت یہ ہے کہ خدا وند متعال نے آیت کی ابتداء میں تمام مؤمنین کو تقویٰ اورگناہوں سے اجتبا ب کر نے کاحکم دیاہے اوراس کے بعد انہیں”صادقین“ کے ساتھ ہونے کا فرمان جاری کیا ہے،اوران کے ساتھ ہونے کا مطلب ان کی اطاعت کرنے اوران کی نافرمانی نہ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور امامت کے معنی بھی اس کے علاوہ کچھ نہیں ہےں کہ ماموم پر امام کی اطاعت واجب ہے۔

اگرہم امامت واطاعت کی صحیح تعبیر کرناچاہیں توبہترین تعبیریہ ہے کہ امام کے ساتھ ہونا اوراس کی پیروی و اطا عت سے جدانہ ہو ناہے۔

فخررازی کا قول

دوسراقول اہل سنت کے مشہورومعرو ف علا مہ فخررازی کاہے۔وہ آیہء شریفہ کی تفسیر میں کہتے ہیں:

”و فی الآیة مسائل: المساٴلة الاٴولی: اٴنّه تعالی اٴمرالمؤمنین بالکون مع الصادقین! و متی وجب الکون مع الصادقین فلا بدّمن وجود الصادقین فی کلّ وقت، و ذلک یمنع من إطباق الکلّ علی الباطل، و متی إمتنع إطباق الکلّ علی الباطل وجب إذا اٴطبقوا علی شیء اٴن یکونوا محقّین فهذا یدل علی اٴنّ إجماع الاٴمّة حجّة

فإن قیل: لمَ لا یجوز اٴن یقال: المراد بقوله:( کونوا مع الصادقین ) اٴی کونوا علی طریقة الصادقین، کما اٴنّ الرجل إذا قال لولده: ”کن مع الصالحین“ لا یفید إلاّ ذلک؟

سلّمنا ذلک، لکن نقول: إن ّ هذا الاٴمر کان موجوداً فی زمان الرسول فقط، فکان هذا اٴمراً بالکون مع الرسول، فلا یدّل علی وجود صادق فی سائر الاٴز منة

۱۶۹

سلّمنا ذلک لکن لم لا یجوز اٴن یکون الصادق هو المعصوم الذی یمتنع خلوّ زمان التکلیف عنه کما تقو له الشیعة؟

و الجواب عن الاول: اٴنّ قوله:( کونوا مع الصادقین ) اٴمر بموافقة الصادقین، و نهی عن مفارقتهم، و ذلک مشروط بوجود الصادقین وما لا یتمّ الواجب إلاّ به فهو واجب فدّلت هذه الآیة علی وجود الصادقین و قوله: ” إنّه عدول عن الظاهر من غیر دلیل

قوله: ” هذا الاٴمر مختصّ بزمان الرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اٴنّ التکالیف المذکورة فی القرآن متوجهة إلی المکلّفین إلی قیام القیامة، فکان الاٴمر فی هذا التکلیف کذلک

الثانی : اٴنّ الصیغة تتناولال اٴوقات کلّها بدلیل صحة الاستثناء الثالث: لمّا لم یکن الوقت المعین مذکوراً فی لفظ الآیة لم یکن حمل الآیة علی البعض اٴولی من حمله علی الباقی فإماّ اٴن لا یحمل علی شیء من الاٴوقات فیفضی إلی التعطیل و هو باطل ! اٴو علی الکلّ فهو المطلوبو الرابع: و هو اٴنّ قوله:( یا اٴیّها الّذین آمنوا اتّقوا اللّٰه ) اٴمر لهم بالتقوی و هذا الاٴمر إنّما یتناول من یصحّ منه اٴن لا یکون متّقیاً، و إنّما یکون کذلک لو کان جائز الخطاٴ فکانت الآیة دالّة علی اٴنّ من کان جائز الخطاٴ وجب کونه مقتدیاً بمن کان واجب المعصمة، و هم الّذین حکم اللّٰه تعالی بکونهم صادقین فهذ ایدّل علی اٴنّه واجب علی جائز الخطاٴ کونه مع المعصوم عن الخطاٴ حتی یکون المعصوم عن الخطاٴ مانعا لجائز الخطاٴ عن الخطاٴ! و هذا المعنی قائم فی جمیع الاٴزمان، فوجب حصوله فی کل الازمان

قوله:”لم لا یجوزاٴن یکون المراد هو کون المؤمن مع المعصوم الموجود فی کلّ زمان“

قلنا:نحن نعترف باٴنّه لابدّ من معصوم فی کلّ زمان،إلا اٴناّ نقول: ذلک المعصوم هو مجموع الاٴمّة و اٴنتم تقولون ذلک المعصوم واحد منهم فنقول: هذا الثانی باطل، لاٴنّه تعالی اٴوجب علی کلّ واحدمن المؤمنین اٴن یکون مع الصادقین،وإنّما یمکنه ذلک لو کان عالماً بان ذلک الصادق من هو ،لاالجاهلباٴنّه من هو

فلو کان ماٴموراً بالکون معه کان ذلک تکلیف مالا یطاق، واٴنّه لا یجوز، لکنّا لا نعلم إنساناً معیّناً موصوفاً بوصف العصمة، و العلم

۱۷۰

باٴنّا لانعلم هذا الانسان حاصل بالضرورة، فثبت اٴنّ قوله: وکونوا مع الصادقین لیس اٴمراً بالکون مع شخص معیّن

و لمّا بطل هذا بقی اٴنّ المراد منه الکون مع مجموع الاُمّة، وذلک یدل علی اٴنّ قول مجموع الاُمّة حقّ و صواب ، و لا معنی لقولنا،”الإجماع حجة“إلاّ ذلک“(۱)

ترجمہ:

”خداوند متعال نے مو منین کو صادقین کے ساتھ ہو نے کا حکم دیا ہے۔اس مطلب کا لازمہ یہ ہے کہ ہرزمانہ میں صادقین کاوجودہو اور یہ اس بات کے لئے ما نع ہے کہ پوری امت کسی باطل امر پر ا تفاق کر ے ۔اس لئے اگر پوری امت کسی چیز پر اتفاق کرتی ہے تو ان کا یہ اتفاق صحیح و بر حق ہو گا اوریہ،اجماع امت کے حجت ہونے کی دلیل ہے۔

اگر کہا جائے:صادقین کے ساتھ ہو نے کا مقصد یہ کیوں نہیں ہے کہ صادقین کے طریقہ کار کی پیروی کرے ،چنانچہ اگر ایک باپ اپنے بیٹے سے کہے:”صالحین کے ساتھ ہو جاؤ“یعنی صالحین کی روش پر چلو )اور یہ امر اس بات پر دلالت نہیں کرتا ہے کہ ہرزمانہ میں صادقین کا وجود ہو)

جواب یہ ہے کہ:یہ خلاف ظاہر ہے،کیونکہ وکون امع الصادقین یہ ہے کہ پہلے ان صادقین کا و جود ہو جن کے ساتھ ہو نے کا حکم دیا گیا ہے۔

مزید اگریہ کہا جائے کہ:یہ جملہ صرف رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں موضوعیت رکھتا تھا،کیونکہ اس زمانہ میں صرف آنحضرت (ص)کی ذات صادق کے عنوان سے مو جود تھی اور یہ اس بات پردلالت نہیں کرتاہے کہ ہرزمانہ میں صادقین موجود ہوں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ:یہ خطاب قرآن مجید کے دوسرے خطابوں کے مانندقیامت تک

____________________

۱۔التفسیر الکبیر ،فخررازی ،ص۲۲۱۔۲۲۰،دار احیاء التراث العربی ،بیروت

۱۷۱

کے لئے تمام مکلفین سے متعلق و مر بوط ہے اوراس میں ہر زمانہ کے مکلفین سے مخطاب ہے اور یہ خطاب رسول اللہ (ص)کے زمانہ سے مخصوص نہیں ہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ استثناء صحیح ہے)اوراستثناء کے صحیح ہو نے کی دلیل ہمیشہ مستثنی منہ میں عمومیت کا پا یا جا تا ہے ) ۔

اس کے علاوہ خدا وند متعال نے پہلے مرحلہ میں مؤ منین کو تقویٰ کا حکم دیا ہے،اور یہ انھیں تمام افراد کے لئے تقویٰ کا حکم ہے کہ جن کے لئے امکان ہے کہ متقی نہ ہوں اوراس خطاب کے مخاطبین وہ لوگ ہیں جو جائزالخطاء ہیں۔لہذاآیہء شریفہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ جائز الخطاء افراد کو ہمیشہ ایسے لوگوں کے ساتھ ہونا چاہئے کہ جو خطا سے معصوم ہوں تاکہ وہ معصوم لوگ انھیں خطا سے بچا سکیں۔اور اس طرح کاامکان ہرزمانہ میں ہے۔اس لئے آیہء شریفہ تمام زمانوں سے متعلق ہے اورصرف پیغمبر (ص)کے زمانہ سے مخصوص نہیں ہے۔

یہاں تک فخررازی کے بیان سے یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ صادقین سے مراد خطا سے معصوم افراد ہیں اور یہ افراد ہر زمانہ میں موجود ہیں اوریہ مطلب صحیح اور نا قابل اشکال ہے۔ لیکن فخررازی کاکہنا ہے:

”معصوم”صادقین“ امت کے مجموعی افراد ہیں اور یہ امت کے خاص اورمشخص افراد نہیں ہو سکتے ہیں کیونکہ اس صورت میں ہر ایک پر لازم ہے کہ ان معین مشخص افراد کو پہچانے ان کی معرفت حاصل کرے تا کہ ان کے ساتھ ہو جائے جبکہ یہ معرفت اورآگا ہی ممکن نہیں ہے اورہم ایسے خاص افراد کو نہیں پہچانتے ہیں کہ جو خطا و غلطی سے پاک اورمعصوم ہوں۔ لہذااس بات کے پیش نظر معصوم صادقین سے مراد مجموعہ امت ہے کہ جس کا نتیجہ اجماع کی حجیّت ہے۔“

۱۷۲

فخررازی کے قول کا جواب

فخررازی کے بیان میں دونمایاں نکتے ہیں:

پہلانکتہ:یہ ہے کہ معصوم صادقین سے مراد مشخص و معیّن افراد نہیں ہو سکتے ہیں کیونکہ ہمیں ان کے بارے میں علم وآگاہی نہیں ہے۔

اس قول کا صحیح نہ ہو نا واضح و روشن ہے،کیونکہ شیعہ اما موں کی عصمت کی دلیلوں کی طرف رجوع کرنا ہرایک کے لئے ممکن ہے،جن احادیث میں ان معصوم اما موں کاصراحتاًنام لیا گیا ہے،وہ تواتر کی مقدار سے زیادہ ہیں نیزیہ حدیثیں بعض سنی منابع اور بے شما ر شیعہ منابع میں ذکر ہوئی ہیں۔

دوسرا نکتہ:یہ کہ” معصوم صادقین سے مراد تمام امت ہے“اس پر بہت سا رے اعتراضات ہیں ذیل کے عبا رت میں ملا حظہ ہو:

۱ ۔چودہ معصومین(ع)کی عصمت کے علاوہ کسی اور کی عصمت کا قول تمام مسلمانوں کے قطعی اجماع کے خلاف ہے

۲ ۔آیہ شریفہ میں صادقین کے عنوان )جو ایک عام عنوان ہے )سے جو چیز ظاہر ہے وہ اس کااستغراقی اورشمولی ہو نا ہے نہ کہ مجموعی ہونا اور فخررازی کے کلام سے جو بات ظاہر اور واضح ہے کہ عصمت مجموعہ امت کی صورت میں ہے نہ جمیع امت کی صورت میں اور”مجموعہ“ایک اعتباری عنوان ہے جووحدت افراد کو ایک دوسرے سے منسلک کر دیتا ہے۔عنوان عام میں اصل”استغراقی ہو نا“ہے،کیونکہ عام مجموعی مجازہے اور اسے قرینہ کی ضرورت ہے جبکہ اصالةالحقیقة کا تقاضا یہ ہے کہ عام،جس کا حقیقی عنوان استغراقی ہو نا ہے اس پر حمل ہو۔

۳ ۔عصمت ایک حقیقی عنوان ہے اوراسے ایک حقیقی موضوع کی ضرورت ہے،اور عام مجموعی ایک اعتباری موضوع ہے اورحقیقی موجود کا اعتباری موضوع پر قائم ہو نا محال ہے۔

۱۷۳

۴ ۔فخررازی کا قول”( یاایهاالذین آمنوا ) “اور صا دقینکے درمیان ایک دوسرے مقابل ہو نے کا جو قرینہ پا یا جا تا ہے اس کے خلاف ہے اور ان دو عناوین کے درمیان مقا بلہ کا تقاضا ہے کہ وہ مومنین کہ جن کو خطاب کیا جا رہا ہے وہ دوسرے ہوں اور وہ صادقین جوان کے مقا بل میں قرار دیئے گئے ہیں اور جن کے ساتھ ہو نے کا حکم دیا گیا ہے وہ دوسرے ہوں۔

۵ ۔صادقین سے مراد مجموعہ امت )عام مجموعی) ہونا خود فخررازی کے بیان سے متناقص ہے،کیونکہ اس نے اس مطلب کی توجیہ میں کہ صادقین کا اطلاق فقط پیغمبر (ص)کی ذات میں منحصر نہیں ہے ،کہاہے:

”آیہء شریفہ اس پہلو کو بیان کر نے والی ہے کہ ہرزمانے میں ایسے مؤ منین کا وجود رہا ہے کہ جو جائزالخطا ہوں اور ایسے صادقین بھی پائے جاتے رہے ہیں کہ جوخطا سے محفوظ اورمعصوم ہوں اور ان مؤمنین کو چاہئیے کہ ہمیشہ ان صادقین کے ساتھ ہوں۔“

لہذا فخر رازی نے ان مؤمنین کو کہ جن کوخطاب کیا گیا ہے جائز الخطا اور صادقین کو خطا سے معصوم فرض کیا ہے۔

اس آیت کے بارے میں شیعہ اورسنّی احادیث

حاکم حسکانی(۱) نے تفسیر”شواہد التنزیل(۲) “ میں چند ایسی حدیثیں ذکرکی ہیں،جن سے ثابت ہو تا ہے کہ آیہ شریفہ میں ”صادقین“ سے مراد (ص)اورحضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام یاپیغمبراکرم (ص)کے اھل بیت(ع)ہیں۔یہاں پرہم ان احادیث میں سے صرف

____________________

۱۔اہل سنت کے بڑے مشہور معروف عالم دین، ذہبی نے حسکانی کے بارے میں کہاہے:”شیخ متقن ذوعنایة تامة بعلم الحدیث،وکان معمّراً عالی الاسناد۔تذکرة الحفاظ،ج۳،ص۱۲۰۰،دارالکتب العلمیة بیروت۔یعنی:متقن اورمحکم اسناد میں علم حدیث کے بارے میں خاص اہمیت و توجہ کے کامل رکھتے ہیں۔انہوں نے ایک طولانی عمر گذاری ہے اور)حدیث میں )عالی اسنادکے مالک تھے ۔

۲۔شواہد التنزیل،ج۱،ص۳۴۱

۱۷۴

ایک کی جا نب اشارہ کرتے ہیں:

”حدثنایعقوب بن سفیان البسوی قال:حدثناابن قعنب،عن مالک بن اٴنس،عن نافع،عن عبداللّٰه بن عمرفی قوله تعالی:

( اتقوااللّٰه ) قال:اٴمراللّٰه اصحاب محمد( ص) باٴجمعهم اٴن یخافوا للّٰه،ثمّ قال لهم :( کونوامع الصادقین ) یعنی محمداً واهل بیته“(۱)

”یعقوب بن سفیان بسوی نے ابن قنعب سے،اس نے مالک بن انس سے،اس نے نافع سے اس نے عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہے کہ خداوندمتعال کے اس قول:”اتقوااللّٰہ“کے بارے میں کہا:خداوندمتعال نے پیغمبراکرم (ص)کے تمام اصحاب کوحکم دیاکہ خداسے ڈریں۔اس کے بعدان سے کہا’:’صادقین“یعنی پیغمبر (ص)اور ان کے اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ ہوجائیں۔“

اسی حدیث کوشیعوں کے عظیم محدث اوربزرگ عالم دین ابن شہر آشوب(۲) نے تفسیر یعقوب بن سفیان سے،مالک بن انس سے،نافع بن عمرسے روایت کی ہے۔

شیعوں کے ایک بہت بڑے محدث کلینی نے اس سلسلہ میں اصول کافی میں یوں روایت کی ہے:

”عن ابن اُذینه،عن برید بن معاویةالعجلی قال: اٴباجعفر-علیه السلام-عن قول اللّٰه عزّوجلّ: ( اتقوااللّٰه وکونوامع الصادقین ) قال: إیاّ نا عنی“ ۔(۳)

___________________

۱۔شواہد التنزیل،ج۱،ص۳۴۵،ح۳۵۷

۲۔ذہبی نے تاریخ اسلام میں ۵۸۱ئھ سے ۵۹۰ئھ کے حوادث کے بارے میں بعض بزرگ علماء )ابن ابی طی)کی زبانی اس کی تمجیدکی ہے اور اسے اپنے زمانہ کے امام اورمختلف علوم میں بے مثال شمار کیا ہے اورعلم حدیث میں اسے خطیب بغدادی کے ہم پلہ اورعلم رجال میں یحیی بن معین کے مانند قراردیاہے اور اس کی سچائی وسیع معلو مات نیز،کثرت خشوع وعبادت اورتہجدکا پابند ہو نے سے متصف کیاہے۔مناقب،ابن شہرآشوب،ج۳،ص۱۱۱،ذوی القربیٰ

۳۔اصول کافی ،ج۱،ص۲۰۸،مکتبةالصدق

۱۷۵

”ابن اذینہ نے برید بن معاویہ عجلی سے روایت کی ہے انھوں نے کہا:میں نےخداوندمتعال کے قول( اتقوااللّٰه وکونوامع الصادقین ) کے بارے میں امام باقر(علیہ السلام)سے سوال کیا،حضرت(ع)نے فرمایا:خداوندمتعال نے اس سے صرف ہمارے)اہل بیت پیغمبرعلیہم السلام کے)بارے میں قصدکیاہے۔“

اہل سنّت کے ایک بہت بڑے محدث جوینی نے ایک روایت میں یوں نقل کیا ہے:

”ثمّ قال علیّ( علیه السلام) :اٴنشدکم اللّٰه اٴتعلمون اٴنّ اللّٰه اٴنزل( یااٴیّهاالّذین آمنوااتّقوااللّٰه وکونوامع الصادقین ) فقال سلمان:

یارسول اللّٰه،عامّة هذااٴم خاصّة؟قال:اٴماّ المؤمنون فعامّة المؤمنین اٴمروابذلک،واٴمّاالصادقون فخاصّة لاٴخی علیّ واٴوصیائی من بعد إلی یوم القیامة قالوا:اللّهمّ نعم“(۱)

”اس کے بعد علی(علیہ السلام) نے فرمایا:تمھیں خداکا واسطہ دے کر کہتا ہوں۔کیاتم جانتے ہو،جب یہ آیہء یا ایّہاالذین آمنوا اتقوااللّٰہ وکونوامع الصادقین نازل ہوئی،توسلمان نے آنحضرت سے کہا :یارسول اللہ! (ص)کیا یہ آیت اس قدرعمومیت رکھتی ہے تمام مؤمنین اس میں شامل ہو جا ئیںیا اس سے کچھ خاص افراد مراد ہیں؟پیغمبر (ص)نے فرمایا:جنہیںیہ حکم دیا گیا ہے اس سے مرادعام مؤمنین ہیں،لیکن صادقین سے مرادمیرے بھائی علی(علیہ السلام)اوراس کے بعدقیامت تک آنے والے میرے دوسرے اوصیاء ہیں؟انہوں نے جواب میں کہا:خداشاہدہے،جی ہاں۔“

البتہ اہل سنت کی حدیث وتفسیرکی بعض کتا بوں میں چند دوسری ایسی روایتیں بھی نقل

___________________

۱۔فرائدالسبطین ،ج۱،ص،۳۱۷،مؤسسہ المحمودی للطبا عة والنشر ،بیروت،کماالدین ،ص۲۶۴۔بحار الا نور ،ج۳۳ص۱۴۹۔مصباح الہدایة،ص۹۱طبع سلمان الفارسی۔قابل ذکر ہے کہ مؤخر الذکر مد رک میں بجائے ”انشدکم اللّٰہ“’اسالکم باللّٰہ“آیا ہے۔

۱۷۶

ہوئی ہیں،جن میں ”صادقین“سے مرادکے بارے میں ابوبکروعمریا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسرے اصحاب کو لیا گیا ہے۔البتہ یہ روایتیں سندکے لحاظ سے قابل اعتماد نہیں ہیں۔ہم ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

۱ ۔ابن عساکرنے ضحاک سے روایت کی ہے کہ:( یاایّهاالذین آمنوااتقوااللّٰه وکونوامع الصادقین ) قال:مع ابی بکروعمراصحابهما (۱)

آیہء شریفہ میں ”صادقین“سے ابوبکر،عمراوران کے اصحاب کا قصد کیا گیا ہے ۲ ۔طبری نے سعیدبن جبیرسے ایک اورروایت نقل کی ہے کہ”صادقین“سے مراد ابوبکروعمرہیں۔(۲)

ان احادیث کاجواب:

پہلی حدیث کی سندمیں جویبربن سعیدازدی ہے کہ ابن حجرنے تہذیب التہذیب(۳) میں علم رجال کے بہت سارے علما،جیسے ابن معین،ابن داؤد،ابن عدی اورنسائی کے قول سے اسے ضعیف بتا یاہے،اورطبری(۴) نے اسی روایت کوضحاک سے نقل کیاہے کہ اس کی سندمیں بھی جویبرہے۔

دوسری روایت کی سندمیں اسحاق بن بشرکاہلی ہے کہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں(۵) ابن ابی شیبہ،موسی بن ہارون،ابوذرعہ اوردارقطنی کی روایت سے اسے جھوٹا اور حدیث روایت سے اسے جھوٹااورحدیث جعل کرنے والابتایاہے۔

دوسرے یہ کہ:اس کے بعدکہ ہم نے خود آیہء شریفہ اوراس کے شواہد سے جان لیاکہ آیت میں ”صادقین“ سے مرادوہ معصوم ہیں جن کے ساتھ ہونے کا ہمیں حکم دیا گیاہے،اور یہ بات ہم جانتے ہیں کہ جو بھی مسلمانوں کے اتفاق نظر سے معصوم نہ ہووہ اس آیت)صادقین کے دائرے) سے خارج ہے۔

____________________

۱۔تاریخ مدینةدمشق،ج۳۰،ص۳۱۰دارالفکر

۲۔جامع البیان،ج ۱۱،ص۴۶

۳۔تہذیب التہذیب، ج۲ص۱۰۶دارالفکر۔

۴۔جامع البیان،ج۱۱،ص۴۶

۵۔میزان الاعتدال،ج۱،ص۱۸۶،دارالفکر

۱۷۷

چھٹاباب :

امامت آیہء تطہیرکی روشنی میں

( إنّمایریداللّٰه لیذهب عنکم الرجس اٴهل البیت ویطهّرکم تطهرا ) (سورہرئہ احزاب/ ۳۳)

”بس اللہ کاارادہ یہ ہے اے اہل بیت!تم سے ہرقسم کی برائی کودوررکھے اوراس طرح پاک وپاکیزہ رکھے جوپاک وپاکیزہ رکھنے کاحق ہے۔“

ایک اورآیت جوشیعوں کے ائمہء معصومین(ع)کی عصمت پر دلالت کرتی ہے وہ آیہ تطہیرہے۔یہ آیہء کریمہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپکے اہل بیت علیہم السلام،یعنی حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہااورشیعہ امامیہ کے بارہ معصوم اماموں کی عصمت پردلالت کرتی ہے۔

آیہء کریمہ کی دلالت کو بیان کرنے کے لئے اس کے چند پہلوقابل بحث ہیں:

۱ ۔آیہء کریمہ میں لفظ”إنّما“فقط اورانحصارپردلالت کرتاہے۔

۲ ۔آیہء کریمہ میں ارادہ سے مرادارادہ،تکو ینی ہے نہ ارادہ تشریعی۔

۳ ۔آیہء کریمہ میں ”اہل بیت“سے مرادصرف حضرت علی،فاطمہ،وحسن وحسین )علیہم السلام)اوران کے علاوہ شیعوں کے دوسرے ائمہ معصو مین علیہم السلام ہیں اورپیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں اس سے خارج ہیں۔

۴ ۔آیہء کریمہ کے بارے میں چندسوالات اوران کے جوابات

۱۷۸

”إنّما“حصرکا فائدئہ دیتا ہے

جیساکہ ہم نے آیہء ولایت کی تفسیرمیں اشارہ کیاکہ علمائے لغت وادبیات نے صراحتاًبیان کیاہے لفظ”إنّما“حصرپردلالت کرتاہے۔لہذااس سلسلہ میں جوکچھ ہم نے وہاں بیان کیااس کی طرف رجوع کیاجائے۔اس سلسلہ میں فخررازی کے اعتراض کاجواب بھی آیہ ولایت کے اعتراضات کے جوابات میں دے دیاگیاہے۔

آیہء تطہیرمیں ارادے سے مرادارادہ تکوینی ہے نہ تشریعی

آیہء شریفہ کے بارے میں بحث کادوسراپہلویہ ہے کہ:آیہء شریفہ میں جوارادہ ذکر کیاگیاہے،اس سے مرادارادہ تکوینی ہے نہ ارادہ تشریعی۔خداوندمتعال کے ارادے دوقسم کے ہیں:

۱ ۔ارادہ تکوینی:اس ارادہ میں ارادہ کامتعلق اس کے ساتھ ہی واقع ہوتاہے،جیسے، خداوندمتعال نے ارادہ کیاکہ حضرت ابراھیم علیہ السلام پرآگ ٹھنڈی اورسالم)بے ضرر)ہو جائے توایساہی ہوا۔

۲ ۔ارادہ تشریعی:یہ ارادہ انسانوں کی تکالیف سے متعلق ہے۔واضح ر ہے کہ اس قسم کے ارادہ میں ارادہ اپنے مراداورمقصودکے لئے لازم وملزوم نہیں ہے۔خداوندمتعال نے چاہاہے کہ تمام انسان نماز پڑھیں، لیکن بہت سے لوگ نماز نہیں پڑھتے ہیں۔تشریعی ارادہ میں مقصود اور مراد کی خلات ورزی ممکن ہے، اس کے برعکس تکوینی ارادہ میں ارادے کی اپنے مراد اور مقصود سے خلاف ورزی ممکن نہیں ہے۔

اس آیہ شریفہ میں ارادے سے مراد ارادہ تکوینی ہے نہ تشریعی اور اس کے معنی یہ ہے کہ:خداوند متعال نے ارادہ کیاہے کہ اہل بیت)علیہم اسلام)کو ہرقسم کی ناپاکی من جملہ گناہ و معصیت سے محفوظ رکھے اورانھیں پاک و پاکیزہ قراردے۔

۱۷۹

خداوندمتعال کے اس ارادہ کے ساتھ ہی اہل بیت اطہارسے ناپاکیاں دور نیزمعنوی طہارت اور پاکیزہ گی محقق ہوگئی ،خداوندمتعال نے یہ ارادہ نہیں کیاہے کہ وہ خود اپنے آپ کو گناہ کی پلیدی اور ناپاکی سے محفوظ رکھیں اورخداوندمتعال کے حکم اور فرائض پر عمل کرکے اپنے آپ کوپاک وپاکیزہ بنائیں۔

آیہ تطہیر میں ارادہ کے تکوینی ہونے کے دلائل:

۱ ۔ارادہ تشریعی فریضہ شرعی کے مانند،دوسروں کے امورسے متعلق ہوتا ہے، جبکہ آیہ شریفہ میں ارادہ کا تعلق ناپاکی اور پلیدی کودورکرنے سے ہے جو ایک الہی فعل ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس آیہ شریفہ میں ارا دے سے مرادارادہ،تشریعی نہیں ہے۔

۲ ۔ انسانوں کوپلیدی اور ناپاکیوں سے دور رہنے اورپاک وپاکیزہ ہونے کے بارے میں خداوند متعال کا تشریعی ارادہ پیغمبر اکر (ص)کے اہل بیت (ع)سے مخصوص نہیں ہے بلکہ خدا وند متعال کا یہ ارادہ ہے کہ تمام انسان ناپاکیوں سے محفوظ رہیں اورطہارت وپاکیزگی کے مالک بن جائیں۔جبکہ آیہ تطہیرسے استفادہ ہوتاہے کہ یہ ارادہ صرف پیغمبراکرم (ص)کے اہل بیت علیہم السلام سے مخصوص ہے اور یہ اس کلمہ حصر کی وجہ سے ہے کہ جو آیہ شریفہ کی شروع میں آیا ہے۔ اس سے بالکل واضح ہو جا تا ہے کہ ارادہ کامتعلق)جوناپا کیوں سے دوری اورخداکی جا نب سے خاص طہا رت ہے )خارج میں متحقق ہے۔

۳ ۔آیہ شریفہ شیعوں اورسنیوں کے تفسیرواحادیث کی کتا بوں میں مذکوربے شمار احادیث اورروایتوں کے مطابق اہل بیت پیغمبر (ص)کی فضیلت وستائش کی ضامن ہے۔ اگرآیہ شریفہ میں ارادہ الہی سے مراد،ارادہ تشریعی ہوتاتویہ آیت فضیلت وستائش کی حامل نہیں ہوتی۔اس بناپر،جوکچھ ہمیں اس آیہ شریفہ سے معلوم ہوتاہے،وہ اہل بیت پیغمبر (ص)سے مخصوص طہارت و پاکیزگی اوران کاپلیدی اورناپاکیوں سے دور ہو ناارادہ الٰہی کے تحقق سے مر بوط ہے۔اوریہ ان منتخب انسانوں کے بارے میں خداکی جانب سے عصمت ہے۔ اس ارادہ الٰہی کے تکوینی ہونے کا ایک اورثبوت وہ احادیث ہیں جو خاص طور سے خدا وند متعال کی طرف سے اہل بیت علیہم السلام کی طہارت پر دلالت کرتی ہیں۔ہم یہاں پر ان احادیث میں سے دوحدیثوں کونمونہ کے طورپرذکرکرتے ہیں:

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271