امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت28%

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت مؤلف:
زمرہ جات: امامت
صفحے: 271

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 271 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 117638 / ڈاؤنلوڈ: 4474
سائز سائز سائز
امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

آیہء ولایت کے بارے میں چند سوالات اوران کے جوابات

آیہء ولایت کے بارے میں چندسوالات کئے جا تے ہیں،مناسب ہے ہم اس باب میں ان کے جوابات دیں۔

۱ ۔کیاآیت میں ”ولی“کامعنی دوست نہیں ہے؟

یہ آیہء کریمہ ایسی آیات کے سیاق میں ہے کہ جس میں مومنین کے لئے یہودونصاریٰ کو اپنے ولی قراردینے سے نہی کی گئی ہے۔چونکہ ان آیات میں ولی’یاور“یا’دوست“کے معنی میں ہے،اس آیت میں بھی اس کے معنی اسی سیاق کے تحت درج ہے،لہذا اسی معنی میں ہونا چاہئے۔اگرایسا نہ ما نیں توسیاق واحدمیں تفکیک لازم آ ئیگی۔

اس لئے اس آیت کے معنی یوں ہوتے ہیں:”بس تمہارایاوریادوست اللہ اوراس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان ہیں جو نمازقائم کرتے ہیں اورحالت خضوع اورانکساری میں زکوٰةدیتے ہیں۔“

جواب:

اوّل یہ کہ:آیہء شریفہ میں سیاق کا پا یا جا نامنتفی ہے،کیونکہ آیہء کریمہ) چنانچہ اس کی شان نزول کے سلسلہ میں پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے اوراس کی مزیدوضاحت آگے کی جائے گی) ایک مستقل شان نزول رکھتی ہے۔نزول کامستقل ہونا اس معنی میں ہے کہ یہ آیت اپنے معانی و مفا ہیم کے لحاظ سے دوسری آیات سے مربوط نہیں ہے۔

بیشک قرآن مجیدکی آیات کی تر تیب وتنظیم،جس طرح اس وقت موجود ہے،ا سی اعتبار سے ہم اس کی قرائت کرتے ہیں باوجود اس کے کہ ان میں نزول کی تر تیب کے لحاظ سے تناقض پایا جاتا ہے۔یہاں تک بعض سورہ یا آیات کہ جوپہلے نازل ہوئی ہیں وہ موجودہ ترتیب میں قرآن کے آخر میں نظر آتی ہیں،جیسے:مکی سورے کہ جوقرآن مجیدکے آخری پارے میں

۱۴۱

مو جودہیں اور بہت سی آیات اورسور ے اس کے برعکس ہیں جیسے:سورئہ بقرہ کہ جوموجودہ تر تیب کے لحاظ سے قرآن مجیدکادوسراسورہ ہے جب کہ یہ مدینہ میں نازل ہونے والاپہلاسورہ ہے۔

لہذا مو جودہ تر تیب زمانہ نزول کے مطابق نہیں ہے،اورمعلوم ہے کہ آیات کے ظہور کے پیش نظرترتیب کا معیار زمانہ نزول ہے۔

اگریہ کہاجائے کہ:آیات اورسورتوں کی تنظیم،پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زیرنظرانجام پائی ہے اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آیات کی مناسبت اورمعنوی نظم کو مدنظررکھتے ہوئے ہرآیہ اورسورہ کواپنی مناسب جگہ پرقراردیاہے۔اس لئے موجودہ تر تیب کا زمانہ نزول سے مختلف ہو ناسیاق کے لئے ضرر کا باعث نہیں ہے۔

جواب میں کہنا چا ئے:اگر چہ یہ نظریہ صحیح ہے کہ موجودہ صوت میں قرآن مجید کی آیات کی تنظیم اور ترتیب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نگرانی میں انجام پائی ہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں کوئی مصلحت تھی جس کے پیش نظرہر آیت یا سورہ کو ایک خاص جگہ پر قرار دیا جائے،لیکن اس کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ مصلحت نظم ومناسبت کی رعایت اورآیات کے ایک دوسرے سے معنوی رابطہ کی وجہ سے مر بوط ہے ۔

اس لحا ظ سے ہر آیت کا نزول اگر اس کی پچھلی آیات سے دلیل کی بنا پر ثابت ہوجائے تو اس میں سیاق کاوجود ہے اورجس کسی آیت کا نزول مستقل یا مشکوک ہو تو اس آیت کا گزشتہ آیت سے متصل ہونا اس کے سیاق کا سبب نہیں بن سکتا ہے۔ زیر بحث آیت کا نزول بھی مستقل ہے اور مذکورہ بیان کے پیش نظر اس میں سیاق موجود نہیں ہے۔

۱۴۲

دوسرے یہ کہ: اگر سیاق پا یابھی جائے پھر بھی گزشتہ آیت میں ثابت نہیں ہے کہ ”ولی“کا معنی دوست اور ناصر کے ہیں جیسا کہ فرماتا ہے:

( یاایّهاالّذین آمنوالا تتخذواالیهود والنصاریٰ اولیاء بعضهم اولیائ بعض ) ۔۔۔ )مائدہ/۵۱)

”ایمان والو!یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا ولی وسر پرست نہ قرار دو کہ یہ خودآپس میں ایک دوسرے کے ولی ہیں ۔“

اس آیت میں بھی) ہمارے مذکورہ اشارہ کے پیش نظر)ولایت،سر پرستی اورصاحب اختیار کے معنی میں ہے۔

تیسرے یہ کہ:اگر آیہء کریمہ میں موجودولایت دوستی یا نصرت کے معنی میں ہو تواس سے یہ لازم آ ئے گا کہ اس کا مفہوم خلاف واقع ہو، کیونکہ اس صورت میں اس کے معنی یوں ہوں گے ” بس تمہارا مدد گار یادوست اللہ اور اس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور رکوع کی حالت میں زکواة دیتے ہیں۔“جبکہ معلوم ہے کہ مومنین کے مدد گاراوردوست ان افراد تک محدود نہیں ہیں جورکوع کی حالت زکواة دیتے ہیں بلکہ تمام مومنین ایک دوسرے کے مدد گاراوردوست ہیں!

مگریہ کہ آیہ کریمہ میں ”راکعون“کے معنی”خداکی بارگاہ میں خضوع وخشوع کرنے والے کے ہیں اوریہ معنی مجازی ہیں اوررکوع کے حقیقی معنی جھکنے اور خم ہو نے کے ہیں ان مطالب کے پیش نظر،سیاق کی بات یہاں پر موضوع بحث سے خارج ہے اور اس کے وجودکی صورت میں بھی معنی مقصود کوکوئی ضررنہیں پہنچاتاہے ۔

۱۴۳

۲ ۔مذکورہ شان نزول )حالت رکوع میں حضرت علی(ع)کاانفاق کر نا)ثابت نہیں ہے۔

بعض افراد نے آیہ شریفہ کی شان نزول پراعتراض کیاہے اور کہا ہے کہ یہ واقعہ)امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کا نماز کی حالت میں انفاق کرنا اوراس سلسلہ میں ایت کا نازل ہونا)ثابت نہیں ہے۔رہی یہ با ت کہ ثعلبی نے اس داستان کو نقل کیاہے تووہ صحیح اورغیر صحیح روایتوں میں تمیزکرنے کی صلاحیت نہیںرکھتاہے،اوربڑے محدثین،جیسے طبری اورابن حاتم وغیرہ نے اس قسم کی جعلی داستانوں کونقل نہیں کیاہے؟!

جواب :

یہ شان نزول شیعہ واہلسنت کی تفسیر اورحدیث کی بہت سی کتابوں میں نقل ہوئی ہے اور ان میں سے بہت سی کتابوں کی سندمعتبرہے۔چونکہ ان سب کو نقل کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ہے،اس لئے ہم ان میں سے بعض کے حوالے حاشیہ میں ذکرکرتے ہیں(۱)

____________________

۱۔ احقاق الحق/ج۳/ص۳۹۹ تا۴۱۱، احکام القرآن جصاص/ج۲/ص۴۴۶، اربعین ابی الفوارس/ص۲۲مخطوط، ارجح المطالب/ص۱۶۹طبع لاہور )بہ نقل احقاق الحق) ، اسباب النزول/ص۱۳۳انتشارات شریف رضی، اصول کافی/ج۱/ص۱۴۳/ح ۷ وص۱۴۶/ح۱۶وص۲۲۸/ح۳ المکتبةالاسلامیہ ، انساب الاشراف/ج۲/ص۳۸۱دار الفکر، البدا یة والنہایة)تاریخ ابن کثیر)/ج۷/ص۳۷۱دارالکتب العلمیہ، بحرالعلوم)تفسیر السمر قندی)/ج۱/ص۴۴۵ دارالکتب العلمیة بیروت البحر المحیط/ج۳/ص۵۱۴مؤ سسةالتاریخ عربی، تاریخ مدینة دمشق/ج۴۲/ص۳۵۶و۳۵۷دارالفکر، ترجمة الامام امیرالمؤ منین/ج۲/ص۴۰۹و۴۱۰دار التعارف للمطبو عات، التسہیل لعلوم التنذیل/ج۱۰ص۱۸۱دارالفکرتفسیرابن کثیر/ج۲/ص۷۴دارالمعرفة بیروت، تفسیر بیضاوی/ج۱/ص۲۷۲دار الکتب العلمیہ، تفسیر الخازن/ج۱/ص۴۶۸دار الفکر، تفسیر فرات/ج۱/ص۱۲۳۔۱۲۹، تفسیر القرآن /ابن ابی حاتم/ج۴/ص۱۱۶۲المکتبةالاہلیہ بیروت، تفسیر کبیر فخررازی/ج۶/جزء۱۲/ص۲۶داراحیائ التراث العربی بیروت، جامع احکام القرآن ۔ج۶/ص۲۲۱و۲۲۲دارالفکر، جامع الاصول/ج۹/ص۴۷۸/ح۶۵۰۳داراحیائ التراث العربی، جامع البیان طبری/ج۴/جزء ۶/ص۱۸۶دار المعرفة بیروت، الجواہر الحسان/ج۲/ص۳۹۶داراحیائ التراث العربی بیروت، حاشیةالشہاب علی تفسیربیضاوی /ج۳/ص۲۵۷دار احیائ التراث العربی بیروت، حاشیةالصاوی علی تفسیرجلالین /ج۱/ص۲۹۱ دار الفکر، الحاوی للفتاوی مکتبة القدس قاہرہ)بہ نقل احقاق الحق)، الدر المنثور/ج۳/ص۱۰۵و۱۰۶ دارالفکر، ذخائر العقبی/ص۸۸ مؤسسة الوفائ بیروت، روح المعانی /ج۶/ص۱۶۷ داراحیائ التراث العربی، الریاض النضرة /ج۲/ص۱۸۲دار الند وة الجدیدة، شرح المقاصد تفتازانی/ج۵/ص۲۷۰و۲۷۱، شرح المواقف جر جانی/ج۸/ص۳۶۰، شرح نہج البلاغہ/۱بن ابی الحدید، شواہد التنزیل /ص۲۰۹ تاص۲۴۸)۲۶حدیث)، غرائب القرآن نیشاپوری/ج۲/جزء۶/ص۶۰۶/دار الکتب العلمیة بیروت، فتح القدیر)تفسیر شوکانی)/ج۲ص۶۶/دار الکتب العلمیة بیروت، فرائد السمطین /ابراہیم بن محمد جوینی /ج۱/ص۱۸۷وص۱۹۵/مؤسسة المحمودی، الفصول المہمة/ص۱۲۳و۱۲۴/منثورات الا علمی تہران، الکشاف /زمخشری/ج۱/ص۳۴۷دار المعرفة بیروت، کفایة الطالب/ص۲۴۹وص۲۵۰/داراحیائ تراث اہل البیت، کنزالعمال/ج۱۳/ص۱۰۸وص۱۶۵/مؤسسةالرسالة، اللباب فی علوم الکتاب /ج۷/ص۳۹۰ وص۳۹۸/دارالکتب العلمیة بیروت، مجمع الزوائد/ج ۷/ص۸۰/دارالفکر۔ المرا جعات/ص۲۵۷،مرقاة المفاتیح/ج۱۰/ص۴۶۲/دارالفکر مطالب السؤول/ج۱/ص۸۶ و۸۷، معالم التنزیل/ج۲/ص۴۷ المعجم الاوسط/ج۷/ص۱۲۹وص۱۳۰/مکتبة المعارف الریاض، معرفة علوم الحدیث/ص۱۰۲/دارالکتب العلمیة بیروت منا قب ابن مغازلی/ص۳۱۱/المکتبة الاسلامیة، مناقب خوارزمی/ص۲۶۴ وص۲۶۵وص۲۶۶/مؤسسة النشر الاسلامی، مواقف ایجی /ج۸/ص۳۶۰ نظم درر السمطین/ص۸۶/مطبعة القضاء)بہ نقل احقاق الحق)، النکت والعیون)تفسیر الماوردی)/ج۲/ص۴۹/مؤسسة الکتب الثقا فیةنورالابصار/ص۸۶ و۸۷/دارالفکر

۱۴۴

اس قسم کے معتبرواقعہ کوجعلی کہنا،امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی مقدس بار گاہ میں جسارت اور ان بڑے محدثین کی توہین ہے کہ جنہوں نے اس حدیث کواپنی کتابوں میں درج کیاہے!اور ثعلبی کے متعلق اس طرح کے گستاخانہ اعترا ضات کہ وہ صحیح اورغیر صحیح احادیث میں تمیز دینے کی صلا حیت نہیں رکھتاہے،جب کہ اہل سنت کے علمائے رجال نے اس کی تعریف تمجیدکی ہے اوروسیع پیمانے پر اس کو سر اہا اور نوازاہے۔ہم یہاں پرنمونہ کے طورپران میں سے صرف دوبزرگوں کے نظریات پیش کرتے ہیں:

علمائاہل سنت میں علم رجال کے ماہر نیز مشہور ومعروف عالم دین اورحدیث شناس،ذہبی،ثعلبی کے بارے میں یوں کہتے ہیں:

الإمام الحافظ العلا مة شیخ التفسیر کان اٴحد اٴو عیة العلم وکان صادقاً موثقاًبصیراً بالعربیة(۱)

”یعنی:وہ امام،حافظ،علامہ،استادتفسیرنیز ایک علمی خزانہ ہیں۔وہ سچّے،قابل اعتماداورعربی ب کے حوالے سے وسیع معلو مات اور گہری نظررکھنے والے ہیں۔“

۲ ۔عبدالغافر نیشابوری”منتخب تاریخ نیشاپوری“ کہتے ہیں:

احمد بن محمدبن ابراهیمالمقریء المفسر الواعظ،الادیب،الثقة،الحافظ،صاحب التصانیف الجلیلة من

____________________

۱۔سیر اعلام النبلاء،ج۱۷،ص۴۳۵،مؤسسہ الرسالة،بیروت

۱۴۵

تفسیر،الحاوی لانواع الفوائد من المعانی والإشارات، وهو صیحع النقل موثق به ۔“(۱)

”عبد الغافر نے ان کی اس عبارت میں توصیف کی ہے کہ احمدبن محمدبن ابراھیم مقریء)علم قرات کے ماہر)،مفسر،واعظ،ادیب،قابل اعتماد،حافظ نیز معانی اوراشارات پر قابل قدرکتابوں کے مصنف تھے۔ان کی احادیث صحیح اورقابل اعتمادہیں۔“

ثعلبی کے باوثوق ہونے اوران کی عظمت کے علاوہ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے سائل کو انگوٹھی دینے کی داستان کو صرف ثعلبی ہی نے نقل نہیں کیاہے۔بلکہ یہ واقعہ شیعہ اوراہل سنت کے حدیث اورتفسیر کی بہت سی کتابوں میں درج ہے۔یہاں تک کہ طبری اورابن حاتم نے بھی اس داستان کونقل کیاہے،جن کے بارے میں معترض نے کہاتھا:”یہ لوگ اس قسم کی داستانیں نقل نہیں کرتے ہیں“۔مناسب ہے ہم یہاں پران دو نوں افرادکی روایتوں کونقل کریں:

ابن کثیرنے اپنی تفسیرمیں بیان کیاہے:

”قال إبن ابی حاتم۔۔۔وحد ثناابو سعید الاشجّ،حدثناالفضل بندکین ابونعیم الاحول،حدثناموسی بن قیس عن سلمة بن کھیل

قال: تصدّق علی بخاتمہ وہوراکع فنزلت( إنّما ولیکم اللّٰه ورسوله والّذین آمنواالذین یقیمون الصلوٰةویؤتون الزکوٰة وهم راکعون ) ۲

اس حدیث میں ابن کثیرابن ابی حاتم کی کتاب سے صحیح سند کے ساتھ سلمتہ بن کہیل سے، حضرت علی علیہ السلام کے متعلق حالت رکوع میں اپنی انگوٹھی کو بہ طور صدقہ دینے کا واقعہ نقل

____________________

۱۔تاریخ نیشابوری ،ص۱۰۹ ۲۔تفسیر ابن کثیر،ج۲،ص۷۴

۱۴۶

کرتاہے اورکہتاہے:اس قضیہ کے بعدآیہء شریفہ( إنّماولیّکم اللّٰه ) ۔۔۔ نازل ہوئی۔ابن جریر طبری نے بھی اپنی تفسیر میں روایت نقل کی ہے:”حدثنامحمدابن الحسین قال:حدثنااحمدبن المفضل قال:حدثنااٴسباط عن السدّیعلی بن اٴبی طالب مرّ به سائل وهوراکع فی المسجد فاٴعطاه خاتمه(۱)

اس روایت میں بھی حضرت علی علیہ السلام کی طرف سے حا لت رکوع میں اپنی انگشتری کو راہ خدا میں دینے کو بیان کیا گیا ہے۔

۳ ۔کیا”إنمّا“حصرپردلالت کرتاہے؟

فخررازی نے کہاہے کہ”إنّما“حصرکے لئے نہیں ہے۔اس کی دلیل خدا وندمتعال کایہ قول ہے کہإنّمامثل الحیاة الدنیاکماء انزلناہ من السماء۔۔۔ ۲ یعنی:زندگانی دنیا کی مثال صرف اس بارش کی ہے جسے ہم نے آسمان سے نازل کیا“

بیشک دینوی زندگی کی صرف یہی ایک مثال نہیں بلکہ اس کے لئے اور بھی دوسری مثالیں ہیں،اس لئے اس آیت میں ”إنّما“حصرپردلالت نہیں کرتاہے۔

جواب:

اول یہ کہ:جس آیہء شریفہ کو فخررازی نے مثال کے طورپرپیش کیاہے،اس میں بھی ”إنمّا“حصر کے طور پراستعمال ہواہے۔لیکن حصر دوقسم کاہے:حصرحقیقی میں مخاطب کے خیال اورتصور کی نفی کی جا تی ہے، مثلا اگر کوئی کہے :”زید کھڑا ہے “ اس کے مقا بلہ میں کہاجا تا ہے:

”إنّماقائم عمرو“یعنی کھڑا شخص صرف عمروہے نہ زید۔ اس جملہ کامقصد یہ نہیں ہے کہ دنیا میں کھڑے انسان عمرومیں منحصرقراردئے جائیں،بلکہ مقصودیہ ہے کہ مقابل کے اس تصور کو زائل کیاجائے کہ زیدکھڑاہے اوراسے یہ سمجھایاجائے کہ صرف عمروکھڑاہے۔

____________________

۱۔تفسیرطبری ،ج۶،ص۱۸۶،دار المعرفة،بیروت

۲۔سورئہ یونس/۲۴

۱۴۷

آیہ کریمہ بھی اس مطلب کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ دنیا کی زندگانی کو صرف آسمان سے برسنے والے پانی کی مثال اورتشبیہ دینی چاہئے جس کے برسنے کے نتیجہ میں ایک پودااگتا ہے اور سرانجام وہ پودا خشک ہو جاتاہے،کیونکہ یہ مثال دنیاوی زندگی کے فانی اور منقطع ہو نے کی حکایت کر تی ہے ،نہ یہ کہ اس کے لئے ایک ایسی مثال پیش کی جائے جو اس کے دوام،استمرار اوربقا کی حکایت کرتی ہو۔

دوسرے یہ کہ:لغوی وضع کے لحاظ سے ”إنّما“حصر کے لئے ہے لیکن قرینہ موجود ہونے کی صورت میں غیر حصر کے لئے بھی بہ طورمجاز استعمال ہو سکتا ہے۔فخررازی کی طرف سے بہ طوراعتراض پیش کی گئی آیت میں اگر”انما“غیرحصر کے لئے استعمال ہوا ہے تو وہ قرینہ موجود ہونے کی وجہ سے بہ طورمجازی استعمال ہو اہے۔اس لئے اس آیہء شریفہ میں ”إنّما“کا حقیقی معنی وہی حصر،مقصودہے۔

۴ ۔کیا”الذین آمنوا“کا اطلاق علی علیہ السلام کے لئے مجازی ہے؟

اگر”الذین آمنوا“کہ جوجمع ہے اس سے مراد علی علیہ السلام ہوں گے تولفظ جمع کا استعمال مفرد کے معنی میں ہو گا۔یہ استعمال مجازی ہے اور مجازی استعمال کو قرینہ کے بغیر قبول نہیں کیا جاسکتا ہے۔

جواب:

اول یہ کہ:شیعہ امامیہ کی احادیث کے مطابق”الذین آمنوا“صرف امیرالمؤ منین علیہ السلام سے مخضوص نہیں ہے بلکہ اس میں دوسرے معصوم ائمہ بھی شامل ہیں۔ہماری احادیث کے مطابق تمام ائمہء معصومین اس کرامت وشرافت کے مالک ہیں کہ رکوع کی حالت میں سائل کو انگوٹھی دیں۔(۱)

____________________

۱۔اصول کافی،ج۱ص۱۴۳،ح۷وص۱۴۶،ح۱۶ وص۲۲۸،ح۳ المکیة الاسلامیہ۔کمال الدین ،ح۱،ص۲۷۴۔۲۷۹ دار الکتب الاسلا میة فرائد السبطین ،ج۱،ص۳۱۲،ح۲۵ مؤسسہ المحمودی لطاعة والنشر۔ینا بیع المودة،ص۱۱۴۔۱۱۶

۱۴۸

دوسرے یہ کہ:بالفرض اس موضوع سے ایک خاص مصداق یعنی حضرت علی علیہ السلام کاارادہ کیا گیا ہے اور یہ استعمال مجازی ہے،اس مجازی استعمال کے لئے وہ احادیث قرینہ ہیں جو اس کی شان نزول میں نقل کی گئی ہیں اور بیان ہو ئیں۔

۵ ۔کیا حضرت علی علیہ السلام کے پاس انفاق کے لئے کوئی انگوٹھی تھی؟

جیسا کہ مشہور ہے حضرت علی(علیہ السلام) فقیر اورغریب تھے اوران کے پاس کوئی قیمتی انگوٹھی نہیں تھی۔

جواب:

احادیث اورتاریخ گواہ ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام غریب اور فقیر نہیں تھے۔ حضرت(ع)اپنے ہاتھوں سے اور اپنی محنت وکوشش کے ذریعہ نہریں کھودتے تھے اور نخلستان آباد کرتے تھے،اپنے لئے مال ودولت کی ذخیرہ اندوزی نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے مال کوخدا کی راہ میں انفاق کرتے تھے۔

۶ ۔کیا)راہ خدا میں ) انگوٹھی انفاق کرنا حضور قلب)خضوع وخشوع) کے ساتھ ھم آھنگ وسازگارہے؟

حضرت علی (علیہ السلام)نمازکی حالت میں مکمل طور پرحضور قلب کے ساتھ منہمک ہو تے تھے۔جو اس طرح حضور قلب کے ساتھ یاد خدا میں ڈوبا ہوا ہووہ دوسرے کی بات نہیں سن سکتا۔اس خشوع وخضوع کے پیش نظر حضرت(ع)نے کیسے سائل کے سوال اوراس کے مدد کے مطالبہ کوسن کر اپنی انگوٹھی اس کوانفاق کی!

جواب:

حضرت علی علیہ السلام اگر چہ فطری طورپر)نمازمیں خاص حضورقلب کی وجہ سے) دوسروں کی بات پر توجہ نہیں کرتے تھے،لیکن اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ مقلب القلوب اوردلوں کو تغیر دینے والا خداوند متعال،سائل کے سؤال کے وقت آپ(ع)کی توجہ کواس کی طرف متوجہ کرے تاکہ اس صدقہ کوجوایک اہم عبادت ہے آیہء شریفہ کے نزول کا سبب قرار دے اوریہ آیہء شریفہ آپ(ع)کی شان میں نازل ہو۔

اس آیت کی شان نزول سے مربوط احادیث)جن میں سے بعض بیان کی گئیں) اس بات کی دلیل ہیں کہ آپ(ع)نے سائل کی طرف متو جہ ہو کرمذکورہ صدقہ کو اپنے ہاتھوں سے دیاہے۔

۱۴۹

۷ ۔کیا انفاق،نمازکی حالت کو توڑ نے کا سبب نہیں بنتا؟

نماز کی حالت میں انگوٹھی انفاق کرنا،نمازکی ظاہری حالت کوتوڑنے کا سبب ہے۔اس لئے حضرت(ع)سے اس قسم کا فعل انجام نہیں پاسکتا ہے۔

جواب:

جو چیزنماز کی حالت کو توڑ نے کا سبب ہے وہ فعل کثیر ہے اوراس قسم کامختصر فعل نمازکو توڑنے کاسبب نہیں ہو سکتاہے۔شیعہ فقہا اس قسم کے امورکونمازکو باطل کرنے کاسبب نہیں جانتے ہیں۔

ابوبکرجصاص کتاب”احکام القرآن“ ۱ میں ”باب العمل الیسیرفی الصلاة‘کے عنوان سے آیہء کریمہ کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:اگرآیہء شریفہ سے مراد رکوع کی حالت میں صدقہ دینا ہے تویہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز کے دوران چھوٹے اورجزئی کام مباح ہیں۔پیغمبر اکرم (ص)سے نمازکی حالت میں چھوٹے اورجزئی کام کے جائز ہونے کے سلسلہ میں چند احادیث روایت ہوئی ہیں جیسے وہ حدیثیں جو اس بات پردلالت کرتی ہیں کہ آنحضرت (ص)نے نماز کی حالت میں اپنے جوتے اُتارے اوراپنے ریش مبارک پر ہاتھ پھیرااوراپنے ہاتھ سے )کسی جگہ کی طرف)اشارہ فرمایا۔اس لئے نماز کی حالت میں صدقہ

____________________

۱۔احکام القرآن ،ج۲،ص۴۴۶،دار الکتب العلمیہ،بیروت

۱۵۰

دینے کے مباح ہونے کے بارے میں آیہء شریفہ کی دلالت واضح اورروشن ہے۔

قرطبی”جامع“ احکام القرآن ۱ میں کہتے ہیں:طبری نے کہا ہے کہ یہ)امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے توسط سے نماز کی حالت میں انگوٹھی کا بہ طور صدقہ دینا)اس بات کی دلیل ہے کہ چھوٹے اورجزئی امور نمازکو باطل نہیں کرتے ہیں،کیونکہ صدقہ دینا ایسا امر تھاجو نماز کی حالت میں انجام دیا گیا ہے اور نماز کو باطل کرنے کا سبب نہیں بنا۔

۸ ۔کیا مستحبی صدقہ کو بھی زکوٰة کہاجاسکتاہے؟

فخررازی نے کہا ہے کہ زکوٰة، کے نام کا اطلاق ”زکوٰة“واجب کے لئے ہے اورمستحب صدقہ پرزکوٰة اطلاق نہیں ہوتاہے،اس کی دلیل یہ ہے کہ خداوند متعال نے)بہت سے مواقع پر)فرمایا ہے:( وآتواالزکوٰة ) یعنی:زکوٰةاداکرو۔فعل امر واجب پر دلالت کرتا ہے۔

اب جب کہ زکوٰة، کا اطلاق صدقہ واجبہ کے لئے ہو تا ہے تواگرعلی(علیہ السلام)نے واجب زکوٰة کونماز کی حالت میں ادا کیا ہے توآپ(ع)نے ایک واجب امرکواپنے اول وقت سے موخیر کیا ہے اور یہ اکثر علماء کے نزدیک گناہ شمار ہوتا ہے۔اس لئے اس کی حضرت علی(علیہ السلام)کی طرف نسبت نہیں دی جاسکتی ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ:زکوٰة سے مراد مستحب صدقہ ہے،تویہ اصل کے خلاف ہے،کیونکہ آیہء شریفہآتواالزکوٰة سے یہ استفادہ ہوتاہے کہ جوبھی صدقہ زکوٰة کا عنوان رکھتا ہے وہ واجب ہے۔

جواب:

اول یہ کہ:آیہء شریفہ میں ذکر کی گئی زکوٰة سے مرادبیشک زکوٰہ مستحب ہے اورشان نزول کی حدیثیں اس مطلب کی تائیدکرتی ہیں۔لیکن یہ کہنا کہ”آیہء شریفہ“( آتواالزکوٰة ) میں زکوٰة سے مرادزکوٰة واجب ہے اس لئے جس چیز پرزکوٰةاطلاق ہو گا وہ

____________________

۱۔”جامع الاحکام القرآن“،ج۶،ص۲۲۱،دارالفکر

۱۵۱

واجب ہو گا“اس کاصحیح نہ ہونا واضح اورعیان ہے کیونکہ ایک طرف جملہء وآتواالزکوٰة میں وجوب پر دلالت کرنے والا لفظ”آتوا“فعلامرہے اور لفظ زکوٰة کا استعمال ماہیت زکوٰة کے علاوہ کسی اورچیز میں نہیں ہواہے۔اور ماہیت زکوٰة،واجب اورمستحب میں قابل تقسیم ہے اوریہ تقسیم کسی قرینہ کے بغیرواقع ہوتی ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وجوب واستحباب لفظ کے دائرے سے خارج ہے۔دوسری طرف سے شیعہ وسنی احادیث اورفقہاکے فتوؤں میں زکوٰة کی دوقسمیں ہیں،زکوٰةواجب اورزکوٰةمستحب لہذا یہ کہنا کہ جوبھی زکوٰةہو گی واجب ہوگی اس اطلاق کے خلاف ہے۔

دوسرے یہ کہ:آیہء شریفہ میں بہ صورت فعل امر”آتوا “نہیں آیاہے بلکہ جملہ”یؤ تون الزکوٰة“اخبارہے نہ انشاء۔اور یہ کہ آیہ شریفہ میں صدقہ سے مرادمستحب صدقہ ہے،اس کی بعض اہل سنت فقہا اورمفسرین تصدیق کرتے ہیں۔

جصاص”احکام القرآن“میں کہتے ہیں( یؤتون الزکوٰةوهم راکعون ) کاجملہ اس بات پردلالت کرتاہے کہ مستحب صدقہ کوزکوٰةکہاجاسکتاہے،کیونکہ علی(علیہ السلام)نے اپنی انگوٹھی کوصدقہ مستحبی)زکوٰة مستحبی)کے طورپرانفاق کیاہے اوراس آیہء شریفہ میں :( وماآتیتم من زکوٰةتریدون وجه اللّٰه فاٴولئک هم المضعفون ) (۱) یعنی:جوزکوٰةدیتے ہو اوراس میں رضائے خداکاارادہ ہوتاہے توایسے لوگوں کودگنا جزا دی جا تی ہے“

لفظ”زکوٰة“صدقہء واجب اورصدقہء مستحب دونوں کوشامل ہوتا ہے۔”زکوٰة کا اطلاق“واجب اورمستحب دونوں پرمشتمل ہوتاہے،جیسے نماز کا اطلاق صرف نمازواجب کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ مستحب نماز بھی اس میں شامل ہے۔(۲)

____________________

۱۔سورہ روم/۳۹

۲۔احکام القرآن،ج۲،ص۲۴۶

۱۵۲

۹ ۔کیا رکوع میں زکوٰة دینے کی کوئی خاص اہمیت ہے؟

اگررکوع سے مرادنمازکی حالت میں رکوع ہے تویہ قابل مدح وستائش نہیں ہے،کیونکہ رکوع میں انفاق کرنایانمازکی کسی دوسر ی حا لت میں انفاق کرنا اس میں کوئی فرق نہیں ہے؟

جواب:

یہ کہ آیہء شریفہ میں رکوع امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی زکوٰة کے لئے ظرف واقع ہوا ہے،یہ اس لحاظ سے نہیں ہے کہ اس حالت میں انفاق کرنا قابل تمجیدوستائش یا کسی خاص تعریف کا باعث ہے بلکہ یہ اس لحاظ سے ہے کہ سائل کا سوال حضرت(ع)کے رکوع کی حالت میں واقع ہواہے اورعلمائے اصول کی اصطلاح کے مطابق”اس سلسلہ میں قضیہ،قضیہ خارجیہ ہے اور رکوع کا عنوان کوئی خصو صیت و موضوعیت نہیں رکھتاہے۔“اور تعریف وتمجید اس لحاظ سے ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے اس حالت میں اس عبادی عمل کو انجام دیا ہے۔اگرحضرت(ع) نے رکوع میں یہ انفاق انجام نہ دیا ہو تو وہ سائل ناامیدی اور محرومیت کی حالت میں مسجد سے واپس چلاجاتا۔

۱۰ ۔کیا اس آیت کامفہوم سابقہ آیت کے منافی ہے؟

فخررازی کاکہناہے:اگریہ آیت علی(علیہ السلام)کی امامت پردلالت کرے گی تو یہ

آیت اپنے سے پہلے والی آیت کے منافی ہوگی کہ جوابوبکر کی خلافت کی مشروعیت پردلالت کرتی ہے۔

۱۵۳

جواب:

اس سے پہلے والی آیت ابوبکر کی فضیلت اوران کی خلافت کی مشروعیت پرکسی قسم کی دلالت نہیں کرتی ہے۔اس سے پہلے والی آیت یوں ہے:

( یاایّهاالّذین آمنوامن یرتدّمنکم عن دینه فسوف یاٴتی اللّٰه بقوم یحبّهم ویحبّونه إذلّةٍ علی المؤمنین اٴعزّة علی الکافرین یجاهدون فی سبیل اللّٰه ولا یخافون لومة لائم ) ۔۔۔ (سورہ مائدہ/۵۴)

”اے ایمان والو!تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پلٹ جائے گا تو عنقریب خدا ایک ایسی قوم کو لا ئے گا جس کو وہ دوست رکھتا ہو گا اور وہ لو گ بھی خدا کو دوست رکھتے ہوں گے، مؤمنین کے لئے متوا ضع اورکفارکے لئے سر سخت ہو ں گے،راہ خدا میں جہاد کرنے والے اورکسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروانہیں کریں گے-“

فخررازی نے کہاہے:یہ آیت ابوبکر کی خلافت کی مشروعیت پردلالت کرتی ہے،کیونکہ خدا وند متعال نے مؤمنین سے خطاب کیاہے کہ اگر وہ اپنے دین سے پلٹ جائیں گے توآیت میں مذکورصفات کی حا مل ایک قوم کولا ئے گاتاکہ وہ ان کے ساتھ جنگ کریں ۔پیغمبر (ص)کے بعد جس نے مرتدوں سے جنگ کی وہ تنہاابوبکرتھے۔چونکہ یہ آیت ابوبکرکی تعریف وتمجید شمار ہوتی ہے،لہذاان کی خلافت کی مشروعیت پر بھی دلالت کرتی ہے۔

فخررازی نے ابوبکر کی خلافت کو شر عی جواز فراہم کر نے کے لئے آیت میں اپنی طرف سے بھی ایک جملہ کا اضافہ کیاہے۔

آیہء شریفہ میں یہ فر مایاگیاہے:اگر تم مؤمنین میں سے کوئی بھی اپنے دین سے پلٹ جائے گاتوخداوندمتعال عنقریب ایسی ایک قوم کو بھیجے گا جن میں مذکورہ اوصاف من جملہ خداکی راہ میں جہاد کرنے کا وصف ہوگا۔

۱۵۴

آیہء شریفہ میں یہ نہیں آیاہے کہ”وہ مرتدوں سے جنگ کریں گے“لیکن فخررازی نے اس جملہ کو اپنے استدلال کے لئے اس میں اضافہ کیاہے۔

دوسری متعدد آیتوں میں بھی اس آیت کے مضمون سے مشابہ آیا ہے کہ اگر تم لوگ کافر ہوگئے توخدا وند متعال ایسے افراد کو بھیجے گا جوایسے نہیں ہوں گے۔ملا حظہ ہو:

۱۔( فإن یکفربها هؤلائ فقدوکلّنابهاقوماً لیسوابهابکافرین )

(سورئہ انعام/ ۸۹)

”اگریہ لوگ ان سے کفر اختیار کر تے ہیں)انکارکرتے ہیں)توہم ان پرایک ایسی قوم کو مسلط کر دیں گے کہ جو کفر اختیار کر نے والے نہیں ہوں گے)انکارکرنے والی نہیں ہے)

۲۔( وإن تتولّوا یستبدل قوماً غیرکم ثم لا یکونوااٴمثالکم )

(سورئہ محمد/ ۳۸)

”اوراگرتم منہ پھیر لوگے تووہ تمھارے بدلے دوسری قوم کوبھیج دے گاجواس کے بعدتم جیسے نہ ہوں گے۔

۳۔( إلاّ تنفروایعذّبکم عذاباً اٴلیماً ویستبدل قوماً غیرکم ولا تضرّوه شیئاً ) (سورئہ توبہ/۳۹)

”اگر تم راہ خدا میں نہ نکلو گے توخدا تمھیں دردناک عذاب میں مبتلاکرے گااورتمھارے بدلے دوسری قوم کو لے آئے گا اورتم اسے کوئی نقصان نہیں پہنچاسکوگے۔“

لہذااس آیت کامضمون بھی مذکورہ مضامین کے مشابہ ہے،اورآیت میں کسی قسم کی ایسی دلالت موجود نہیں ہے کہ خداوند متعال ایک قوم کو بھیج دے گا جومرتدوں سے جنگ کرے گی۔

۱۵۵

۱۱ ۔کیاآیت میں حصرائمہ معصومین )علیہم السلام)کی امامت کے منافی ہے؟

اگر آیہء شریفہ علی(علیہ السلام)کی امامت پر دلالت کرتی ہے تویہ امامیہ مذہب کے عقایدسے متناقض ہے جس طرح اہل سنت مذہب سے اس کاتناقض ہے،کیونکہ شیعہ صرف علی(ع)کی امامت کے معتقد نہیں ہیں بلکہ بارہ اماموں کی امامت پر بھی اعتقادرکھتے ہیں؟

جواب:

اول یہ کہ:مذکورہ قطعی شواہدکی بنیاد پرہمیں یہ معلوم ہواکہ آیہء شریفہ میں ولایت سے مرادسرپرستی اوررکوع سے مراد”نمازکارکوع“ہے۔اس سے واضح ہوجاتاہے کہ آیت میں پایا جا نے والاحصر،حصراضافی ہے نہ حصر حقیقی ،کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورائمہ معصو مین)علیہم السلام)کے علاوہ کچھ دوسرے اولیاء بھی ہیں،جیسے فقہا،حکام، قاضی،باپ،دادااوروصی۔اگرہم یہاں حصرسے حصرحقیقی مرادلیں توآیت ان تمام اولیاء کی ولایت کی نفی کرے،جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔یہ بذات خود ایک قرینہ ہے کہ آیہ کریمہ میں موجودحصر، حصراضافی ہے اوراس سے مرادرسول اکرم (ص)کے بعدحضرت علی علیہ السلام کی سر پرستی و ولایت ہے۔موجودہ دلائل کے پیش نظر دوسرے ائمہ علیہم السلام کی امامت ثابت ہے اوراس میں کسی قسم کا منافات نہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ:شیعہ امامیہ اوراہل سنت کی کتا بوں میں موجود متعدد روایات کےمطابق( الذین آمنوا ) سے مرادصرف حضرت علی علیہ السلام نہیں ہیں(۱) بلکہ تمام ائمہ معصو مین مذکورہ مستحبی زکوٰةکوحالت رکوع میں دینے میں کامیاب ہوئے ہیں اورآیہء کریمہ نے آغازہی میں امامت کو ان سچے اماموں میں منحصرکردیاہے۔

۱۲ ۔کیاعلی)علیہم السلام)پیغمبراکرم (ص)کے زمانہ میں بھی سرپرستی کے عہدہ پرفائزتھے؟

اگرآیہء شریفہ علی(ع) کی امامت پر دلالت کرے گی تواس کالازمہ یہ ہوگاکہ علی(علیہ السلام) پیغمبراکرم (ص)کی حیات کے دوران بھی ولی وسرپرست ہیں جبکہ ایسانہیں ہے۔

____________________

۱۔اصول کافی،ج۱،ص۱۴۳،ح۷وص۱۴۶،ح۱۶وص۲۲۸،ح۳الحکمتبةالاسلامیہ۔کمال الدین،ج۱،ص۲۷۴۔۲۷۹،دارالکتب الاسلامیة فرائدالسمطین ،ج۱،ص۳۱۲،ح۲۵۰،موسستہ المحمودی للطباعة ونشر۔ینابیع المودة،ص۱۱۴۔۱۱۶

۱۵۶

جواب:

اول یہ کہ حضرت علی علیہ السلام بہت سے دلائل کے پیش نظر پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں بھی ولی وسر پرست تھے۔لیکن یہ سر پرستی جانشینی کی صورت میں تھی۔یعنی جب بھی پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہیں ہوتے تھے،علی علیہ السلام آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین ہوا کرتے تھے۔حدیث منزلت اس کا واضح ثبوت ہے اس طرح سے کہ وہ تمام منصب و عہدے جو حضرت ہارون علیہ السلام کے پاس حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت سے تھے ،وہ سب حضرت علی علیہ السلام کے لئے پیغمبر اکرم)ص)کی نسبت سے اس حدیث کی روشنی میں ثابت ہو تے ہیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور کی طرف روانہ ہوتے وقت اپنے بھائی سے مخاطب ہوکر فرمایا:( إخلفنی فی قومی ) ”میری قوم میں تم میرے جانشین ہو“۔یہ خلافت کوہ طور پر جانے کے زمانہ سے مخصوص نہیں ہے ،جیساکہ محققین اہل سنت نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔(۱) ا س بناء پرحضرت علی علیہ السلام پیغمبراکرم (ص)کے جانشین تھے۔

دوسرے یہ کہ:فرض کریں کہ یہ ولایت کسی دلیل کی وجہ سے پیغمبراکرم (ص)کے زمانہ میں حضرت علی علیہ السلام کے لئے ثابت نہیں ہے تواس صورت میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کے بعد آیہء ولایت کا اطلاق مقید ہو گااوراس دلیل کی بناپریہ ولایت پیغمبراسلام (ص)کی رحلت کے وقت سے حضرت علی علیہ السلام کے لئے ثابت ہو جا ئے گی۔

۱۳ ۔کیا حضرت علی (علیہ السلام) کوآیہء ولایت کے پیش نظرچوتھا خلیفہ جاناجاسکتاہے؟

فرض کریں آیہء شریفہ علی (علیہ السلام) کی امامت پر دلالت کرتی ہے تویہ بات حضرت علی(علیہ السلام)سے پہلے تینوں خلفاء کی خلافت کے منافی نہیں ہے،کیونکہ اجماع اورشوریٰ کی بناپرپہلے ہم ان خلفاء کی خلافت کے قائل ہوں گے اور پھر ان خلا فتوں کے بعد آیہء ولایت پر عمل کریں گے جوحضرت(ع)کی امامت بیان کرنے والی ہے۔

_____________________

۱۔شرح مقاصد،تفتازانی ،ج۵،ص۲۷۶،منشورات الشریف الرضی

۱۵۷

جواب:

سب سے پہلے یہ کہ:مسئلہ خلافت کے سلسلہ میں اجماع اورشوریٰ کے ذریعہ استدلال و استنادا سی صورت میں صحیح ہے جب اجماع وشوریٰ کے اعتبار کے لئے معتبر دلیل موجود ہو۔اوراس سلسلہ میں اہل سنت کی طرف سے پیش کیا جانے والا استدلال شیعہ امامیہ کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ:جس شوریٰ اوراجماع کا دعویٰ کیا گیاہے،وہ کبھی امت میں واقع نہیں ہواہے۔

تیسرے یہ کہ:اجماع اورشوریٰ کی دلیل اسی صورت میں صحیح ہے کہ مسئلہ کے بارے میں کوئی نص موجود نہ ہواوراگر کسی مسئلہ کے بارے میں خدا کی طرف سے کوئی نص موجود ہے تواس مسئلہ میں نہ اجماع کسی کام کاہے اورنہ شوریٰ۔چنانچہ خداوند متعال فرماتاہے:( وماکان لمؤمن ولامؤمنة اذ اقضی اللّٰه ورسوله اٴ مراً اٴن یکون لهم الخیرة من امرهم ) (۱)

”یعنی کسی مومن مردیا عورت کویہ اختیارنہیں ہے کہ جب خداورسول کسی امر کے

بارے میں فیصلہ کردیں تووہ بھی اس امر کے بارے میں اپنا اختیارجتائے“

۱۴ ۔کیاحضر ت علی (علیہ السلام)نے کبھی آیہء ولایت کے ذریعہ احتجاج واستدلال کیا ہے؟

اگرآیہء ولایت علی (علیہ السلام) کی ولایت پردلالت کرتی ہے توکیوں حضرت (ع)نے اپنی امامت کے لئے اس آیت سے استدلال نہیں کیا؟جبکہ آپ(ع)نے شوریٰ کے دن اوردوسرے مواقع پراپنے حریفوں کے سا منے اپنے بہت سے فضائل بیان کئے ہیں۔

____________________

۱۔سورئہ احزاب/۳۶

۱۵۸

جواب:

بعض بزرگ شیعہ وسنی محدثین نے ایسے مواقع کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں حضرت علی علیہ السلام نے اپنی امامت کے سلسلہ میں دلائل پیش کرتے ہوئے من جملہ آیہء ولایت کو بھی بیان کیا ہے۔

ان میں سے ابراھیم بن محمدجوینی نے فرائدالسمطین(۱) میں اور)شیعہ علماء میں سے)ابن بابویہ نے کمال الدین(۲) میں نقل کیا ہے کہ:”حضرت علی علیہ السلام نے عثمان کی خلافت کے دوران ایک دن مسجدالنبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں مھاجر وانصار کی ایک جماعت کے سامنے اپنے فضائل بیان کرتے ہوئے اپنی شان میں ایہء ولایت کے نزول کی طرف اشارہ فرمایا۔“

ہم نے اس مفصل حدیث کوآیہء ”اولی لامر“ کی بحث کے آخرمیں ذکرکیاہے۔ کتاب”فرائدالسمطین“کے مصنف کی شخصیت کو پہنچاننے کے لئے آیہء ”اولی الامر“کی تفسیر کے آخری حصہ کی طرف رجوع کیا جائے۔

____________________

۱۔فرائد اسمطین ،ج۱،ص۳۱۲،مؤسسہ المحمودی للطبا عة والنشر

۲۔کماالدین،۱ ،ص۲۷۴

۱۵۹

پانچواں باب :

آیہء صادقین کی روشنی میں اما مت

( یاایّهاالذین آمنوااتقوااللّٰه وکونوامع الصادقین ) (سورئہ توبہ/۱۱۹)

”اے صا حبا ن ایمان!اللہ سے ڈرواورصادقین کے ساتھ ہوجاؤ“

جس آیہء شریفہ کے بارے میں ہم بحث وتحقیق کرنا چاہتے ہیں،اس پر سر سری نگاہ ڈالنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ایک اخلاقی پہلوہے مذ کورہ آیت میں تقوی کاحکم دینے کے بعد مو منین سے یہ کہا جا رہا ہے کہ صادقین کے ساتھ ہوجاؤ۔لیکن یہ بات یاد رہے کہ ہمیں ہمیشہ سرسری نگاہ کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ قرآن مجید کا ارشادہے:

( فارجع البصرهل تریٰ من فطورثمّ ارجع البصرکرّتین ) (سورہ ملک/۳۔۴)

”پھر نظراٹھاکردیکھوکہیں کوئی شگاف تو نہیں ہے۔اس کے بعدباربارنگاہ ڈالو “

خاص کر قرآن مجید میں اس کے بلندمعارف تک رسائی اوراس کے مفاہیم کی گہرائیوں تک پہنچنے کے لئے اس امر کی رعا یت بہت ضروری ہے چنانچہ بعض مواقع پر خودقرآن نے تدبرکرنے کاحکم فرمایاہے۔ہمیشہ اور بار بارغوروخوض کی ضرورت ہے۔ اس لئے قرآن مجید کے سلسلہ میں ابتدائی اورسرسری نگاہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس کی آیتوں پر تدبر اور غورو خوض کرناچاہئے۔

اگرہم اس آیہ کریمہ کا اس نقطہ نظر سے مطا لعہ کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ اس آیت کریمہ میں قرآن مجید کے ایک عظیم اور اصلی معارف، یعنی اما مت و رہبری کے مسئلہ ، کو بہترین تعبیر میں پیش کیا گیا ہے۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

( وماأَرسلنا من رسول الابلسان قومه لیبیّن لهم ) ...)( ۱ )

ہم نے ہر پیغمبر کو اسی کی زبان میں مبعوث کیا تاکہ انہیں سمجھا سکے اور وضاحت کرسکے۔

نیز سورۂ اعراف اور ہود میں فرماتا ہے:( و الیٰ عاد اخاه هودا ) اور قوم عاد کی طرف '' نوح کے بھائی ہود'' کو بھیجا نیز سورۂ اعراف ، ہود اور نمل میں فرماتا ہے : و الیٰ ثمود اخاہ صالحاً میں نے قوم ہود کی طرف '' ان کے بھائی صالح'' کو بھیجا اور سورۂ اعراف، ہود اور عنکبوت میں فرماتا ہے :( والیٰ مدین اخاه شعیبا ) ؛ مدین کی طرف ''ان کے بھائی شعیب'' کو مبعوث کیا ۔

اس انتخاب کی حکمت بھی واضح ہے، کیونکہ خد اکا رسول اپنی قوم کے درمیان اپنے خاندان اور رشتہ داروں کی وجہ سے قوی اور مضبوط ہوتا ہے اور تبلیغی وظائف کی انجام دہی میں مدد ملتی ہے ، جیساکہ خد اوند عالم نے سورۂ ہود میں قوم شعیب کی داستان بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ان کی قوم نے ان سے کہا:( ولو لا رهطک لرجمناک ) اگر تمہارے عزیز و اقارب نہ ہوتے تو ہم تمہیں سنگسار کر دیتے۔خد اپیغمبروں کو لوگوںکی ہدایت اور ان پر حجت تمام کرنے کے لئے بھیجتا ہے جیسا کہ سورۂ نساء میں فرمایا:

( ورسلاً مبشرین و منذرین لئلا یکون للناس علٰی الله حجة بعد الرسل )

ایسے رسول جو بشارت دینے والے اور ڈرانے والے تھے، تاکہ ان پیغمبروںکے بعد لوگوں کے لئے خدا پر کوئی حجت نہ رہ جائے اور سورۂ اسراء میں فرماتا ہے:( ۲ )

( وما کنا معذبین حتیٰ نبعث رسولاً )

ہم اس وقت تک عذاب نہیںکرتے ہیں جب تک کہ کوئی رسول نہ بھیج دیں۔( ۳ )

اورسورۂ یونس میں فرماتا ہے :

( ولکل امة رسول فاذا جاء رسولهم قضی بینهم بالقسط وهم لا یظلمون ) ( ۴ )

ہر امت کے لئے ایک پیغمبر ہوگا، جب ان کے درمیان پیغمبر آجائے گا تو عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ ہوگا اور ان پر ظلم نہیں ہوگا۔

جو امتیں پیغمبر کی نافرمانی کرتی ہیں وہ دنیاوی اور اخروی عذاب کی مستحق ہوجاتی ہیں جیسا کہ خداوند عالم فرعون اور اس سے پہلے والی امت کی خبر دیتے ہوئے سورۂ حاقہ میں فرماتا ہے :

____________________

(۱)ابراہیم۵(۲)نسائ۱۶۵(۳)اسرائ۱۵(۴)یونس۴۷

۲۰۱

( فعصوا رسول ربهم فأخذهم أخذةرابیة )

انہوں نے اپنے رب کے رسول کی نافرمانی کی تو خدا وند عالم نے انہیں دردناک عذاب میں مبتلا کیا۔( ۱ )

پیغمبر کی نافرمانی بعینہ خدا کی نافرمانی ہے ، جیسا کہ سورۂ جن میں ارشاد فرماتا ہے:

( ومن یعص الله و رسوله فان له نار جهنم خالدین فیها ابداً )

جو بھی خد ااور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے اس کے لئے جہنم کی آگ ہے اور وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔( ۲ )

خدا وند عالم نے رسولوں کو انبیاء کے درمیان سے منتخب کیا اور ہمیشہ رسولوں کی تعداد انبیاء سے کم ہے جیسا کہ ابوذر کی روایت میں ہے کہ انہوںنے کہا:

و قلت یا رسول الله :''کم هو عدد الانبیائ، قال : ماة الف و اربعة و عشرون الفاً الرسل من ذلک ثلاثمأة و خمسة عشر جما غفیراً ۔''

ابوذر نے کہا: یا رسول اللہ: انبیائ(ع) کی تعداد کتنی ہے ؟ فرمایا: ایک لاکھ چوبیس ہزار ، اس میں سے تین سو پندرہ رسول ہیں ان کی مجموعی تعداد یہی ہے ۔( ۳ )

جو میں نے بیان کیا اس اعتبار سے ہر رسول نبی ہے لیکن ہر نبی رسول نہیں ہے ، جیسا کہ ''یسع'' رسول نہیں تھے لیکن نبی اور موسیٰ کلیم اللہ کے وصی تھے۔

بعض پیغمبر جو شریعت لیکر آئے، انہوں نے بعض گز شتہ شریعت کے مناسک کو نسخ کر دیا جیساکہ حضرت موسیٰ کی شریعت اپنے ما قبل شریعتوں کے لئے ایسی ہی تھی، بعض پیغمبر کچھ ایسی شریعت لیکر آئے جو سابق شریعت کی تجدید کرنے اور کامل کرنے والی تھی، جس طرح حضرت خاتم الانبیاء کی شریعت ابراہیم خلیل کے آئین حنیف کی نسبت، خدا وند سورۂ نحل میں فرماتا ہے :

( ثم اوحینا الیک ان اتبع ملة ابراهیم حنیفاً )

پھر ہم نے تمہاری طرف وحی کی کہ حضرت ابراہیم کے خالص آئین کا اتباع کرو...( ۴ )

اور سورۂ مائدہ میں ارشاد ہوتا ہے :

____________________

(۱)حاقہ۱۰(۲)جن۲۳

(۳)مسند احمد، ج۵، ص ۲۶۵۔۲۶۶، معانی الاخبار، صدوق ص ۳۴۲، خصال، طبع مکتبہ صدوق، ج۲ ص ۵۳۳، بحار الانوار، ج۱۱، ص ۳۲، حدیث ۲۴، مذکورہ روایت کی عبارت مسند احمد سے اخذ کی گئی ہے ۔ (۴) نحل۱۲۳

۲۰۲

( الیوم اکملت لکم دینکم و أتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دیناً ) ( ۱ )

آج تمہارے لئے دین کو کامل کیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور اسلام کو تمہارے لئے آئین کے عنوان سے پسند کیا۔

آئندہ بحث میں انبیاء کے وصیوں کی خبروں کی تحقیق کریں گے۔

ج۔ وصی و وصیت

وصی کتاب اور سنت میں ، ایک ایسا انسان ہے جس سے دوسرے لوگ وصیت کرتے ہیں تاکہ اس کے مرنے کے بعد ان کی نظر میں قابل توجہ امور پر اقدام کرے خواہ، اس لفظ اور عبارت میں ہو کہ '' میں تمہیں وصیت کر رہا ہوں کہ میرے بعد تم ایسا کرو گے ، یاان الفاظ میں ہو: میں تم سے عہد لیتا ہوں اور تمہارے حوالے کرتا ہوں کہ میرے بعد ایسا ایسا کرو گے اس میں ، کوئی فرق نہیں ہے ، جس طرح سے وصیت کے بارے میں دوسروں کو خبر دینے میں بھی لفظ وصی اور وصیت وغیرہ میں کوئی فرق نہیں ہے اور اگر یہ کہے : فلاں میرے بعد میر اوصی ہے ، یا کہے : فلاں میرے بعد ایسا ایسا کرے گا یا جو بھی عبارت وصیت کا مفہوم ادا کرے اور اس پر دلالت کرے کافی ہے۔

نبی کا وصی بھی ،وہ انسان ہے جس سے پیغمبر نے عہد و پیمان لیا ہو تاکہ اس کے مرنے کے بعد امور شریعت اور امت کی ذمہ داری اپنے ذمے لے اور اسے انجام دے۔( ۲ )

انبیاء کے وصیوں کے بارے میں جملہ اخبار میں سے ایک یہ ہے جسے طبری نے ابن عباس سے نقل کیا ہے جس کا خلاصہ یہہے : جناب حوا نے حضرت آدم کی صلب سے ''ھبة اللہ'' کوجو کہ عبرانی زبان میں ''شیث'' ہے جنم دیا تو حضرت آدم نے انہیں اپنا وصی قرار دیا، حضرت شیث سے بھی ''انوش'' نامی فرزند پیدا ہوا اور انہوں نے اسے بیماری کے وقت اپنا وصی بنایا اور دنیا سے رحلت کر گئے ، پھر اس کے بعد'' انوش'' کی اولاد ''قینان'' اور دیگر افراد دنیا میں آئے کہ اپنے باپ کے وصی ' 'قینان'' بنے، قینان سے بھی ''مھلائیل الیرد'' اور دیگر گروہ وجود میں آئے کہ جس میں وصیت ''یرد'' کے ذمہ قرار پائی، یرد سے بھی ''خنوخ'' کہ جن کو ادریس کہا جاتا ہے، دیگر فرزندوں کے ساتھ پیدا ہوئے اور جناب ادریس اپنے باپ کے وصی بنے اور ادریس سے ''متوشلخ'' اور کچھ دیگر افراد پیدا ہوئے اور وصیت ان کے ذمہ قرار پائی۔

____________________

(۱) سورۂ مائدہ ۳(۲)مزید تفصیل کیلئے،''فرہنگ دو مکتب در اسلام''، ج۱ ص بحث وصی کی طرف رجوع کریں۔

۲۰۳

ابن سعد نے اپنی کتاب '' طبقات'' میں جناب ادریس کے بارے میں ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: سب سے پہلے پیغمبر جو آدم کے بعد مبعوث ہوئے ادریس تھے اور وہ ''خنوخ بن یرد'' ہیں۔

اور خنوخ سے بھی 'متوشلخ'' اور کچھ دیگر اولاد پیدا ہوئی اور وصیت ان کے ذمہ قرار پائی اور متوشلخ سے ''لمک'' اور کچھ دیگر اولاد پیدا ہوئی اور وہ اپنے باپ کے وصی ہو گئے اور لمک سے حضرت ''نوح'' پیداہوئے۔( ۱ )

مسعودی نے ''اخبار الزمان'' میں ایک روایت ذکر کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے :

خد اوند عالم نے جب حضرت آدم کی روح قبض کرنی چاہی ، تو انہیں حکم دیا کہ اپنے فرزند شیث کو اپنا ''وصی'' قرار دیں اور ان علوم کی انہیں تعلیم دیں جو اللہ نے انہیں دیا ہے تو انہوںنے ایسا ہی کیا اور نقل کیا ہے : شیث نے اپنے بیٹے قینان کو صحف کی تعلیم دی زمین کے محاسن اچھائیوں اور ذخائر کو بیان کیااس کے بعد انہیں اپنا وصی بنایا اور نماز قائم کرنے،زکوٰة دینے ، حج کرنے اور قابیل کی اولاد سے جہاد کرنے کا حکم دیا ۔ انہوںنے اپنے باپ کے حکم کی تعمیل کی اور سات سو بیس سال کے سن میں دنیا سے رخصت ہوئے۔

قینان نے اپنے فرزند ''مہلائیل'' کو وصی بنایا اور انہیں جس کی خود انہیں وصیت کی گئی تھی وصیت کی مہلائیل کی عمر۸۷۵ سال تھی، انہوںنے بھی اپنے فرزند ''بوادر'' کو وصی بنایاانہیں صحف کی تعلیم دی اور زمین کے ذخیروں او رآئندہ رونما ہونے والے حوادث سے آگاہ کیا او ''سرِّ ملکوت'' نامی کتاب انہیں سپرد کی، یعنی وہ کتاب جسے مہلائیل فرشتے نے حضرت آدم کو تعلیم دی تھی اور اسے سربستہ اور دیکھے بغیر ،ایک دوسرے سے وراثت میں پاتے تھے، بوارد سے ''خنوخ'' نامی فرزند پیدا ہو ایہ وہی ادریس نبی ہیں کہ خد اوند عالم نے انہیں عالی مقام بنایا انہیں ادریس اس لئے کہتے ہیں کہ انہوںنے خدا وند عز و جل کی کتابوں اور دین کی سنتوں کو بہت پڑھا اور اس پر عمل کیا ہے ، خدا وند عالم نے ان پر تیس عدد صحیفے نازل کئے کہ ان کو ملاکر اس زمانے میں نازل ہونے والے صحیفے کامل ہوئے۔''یوارد'' نے اپنے فرزند ''خنوخ'' (ادریس) کو اپنا وصی بنایا اور اپنے باپ کی وصیت ان کے حوالے کی اور جو علوم ان کے پاس تھے ان کی تعلیم دی اور'' مصحف سر'' اُن کے حوالے کیا...۔

یعقوبی نے اخبار اوصیاء کو سلسلہ وار اور طبری و ابن اثیر سے زیادہ بسط و تفصیل سے نقل کیا ہے اس کے علاوہ دوسرے کی اخبار بھی وصیت کے سلسلہ میں ذکر کئے ہیں ، مثال کے طور پر کہتا ہے : حضرت آدم کی

____________________

(۱)تاریخ طبری، طبع یورپ، ج۱ ص ۱۵۳۔۱۶۵، ۱۶۶، تاریخ ابن اثیر، ج۱ ص ۱۹، ۲۰، شیث بن آدم کے بارے میں ، طبقات ابن سعد، ج۱ ص ۱۶، ابن کثیر نے بھی اپنی تاریخ میں حضرت آدم کی وصیت کا ،جو انہوں نے اپنے شیث کو کی تھی، ذکر کیا ہے ۔

۲۰۴

وفات کے وقت ان کے فرزند شیث اوردوسرے بیٹے،پوتے ان کے پاس آئے تو انہوںنے ان پر درود بھیجا اور ان کے لئے خداسے برکت اور کثرت طلب کی اور اپنے بیٹے شیث کو اپنا وصی بنایا اور ذکر کیا ہے :

حضرت آدم کی موت کے بعد آپ کے فرزند شیث آ گے بڑھے اور اپنی قوم کو تقوای الٰہی اور عمل صالح کا حکم دیا...یہاں تک کہ شیث کی وفات کے وقت ان کے فرزند اور پوتے کہ اس دن انوش، قینان، مہلائیل یرد اور خنوخ تھے اور ان کے بچے اور بیویاں ان کے قریب آئیں اور شیث نے ان پر درود بھیجا اور خدا وند عالم سے ان کے لئے برکت ، ترقی اور زیادتی کی درخواست کی اور ان کی طرف مخاطب ہو کر انہیں قسم دی کہ.... قابیل ملعون کی اولاد سے معاشرت نہیں کریں گے اور فرزند انوش کو وصی بنایا۔

یعقوبی اس طرح سے سلسلہ وار اوصیاء کی خبروں کو ان کے زمانہ کے وقایع کے ذکر کے ساتھ حضرت نوح کی خبر وصیت تک پہنچ کر کہتاہے : حضرت نوح کی وفات کے وقت آپ کے تینوں بیٹے سام، حام اور یافث اور ان کی اولاد ان کے پاس جمع ہوگئی پھر حضرت نوح کی وصیت کی تشریح کرتا ہے اور اسی طرح انبیاء کے اوصیاء کے تسلسل کوبنی اسرائیل اور ان کے اوصیاء تک ذکر کیا ہے کہ ہم یہاں تک اسی خلاصہ پر اکتفا کرتے ہیں۔

حضرت نوح کے زمانے میں قابیل کے فرزندوں کے درمیان بتوں کی عبادت رائج تھی۔

ادریس نے اپنے فرزند متوشلخ کو اپنا وصی بنایا، کیونکہ خدا وند متعال نے انہیں وحی کی کہ وصیت کو اپنے فرزند متوشلخ میں قرار دو کیونکہ ہم عنقریب ان کی صلب سے پسندیدہ کردار نبی پید اکریں گے۔ خد اوند عالم نے حضرت ادریس کو اپنی طرف آسمان پر بلا لیا اور ان کے بعد وحی کا سلسلہ رک گیا اور شدید اختلاف اور زبردست تنازعہ کھڑا ہو گیا اور ابلیس نے مشہور کر دیا کہ وہ مر گئے ہیں، اس لئے کہ وہ کاہن تھے وہ چاہتے تھے کہ فلک کی بلندی تک جائیںکہ وہ آگ میں جل گئے ہیں حضرت آدم کی اولاد چونکہ اس دین کی پابند تھی لہٰذا سخت غمگین ہوئی، ابلیس نے کہا ان کے بڑے بُت نے انہیں ہلاک کر دیا ہے ، پھر تو بت پرستوں نے بتوںکی عبادت میں زیادتی کر دی اور ان پر زیورات نثار کرنا شروع کر دئیے اور قربانی کی اور ایسی عید کا جشن منایا کہ سب اس میں شریک تھے وہ لوگ اس زمانے میں یغوث، یعوق، نسر، ودّ اور سواع نامی بت رکھتے تھے۔

۲۰۵

جب متوشلخ کی موت کا وقت قریب آیا ، تو اپنے فرزند'' لمک'' کو وصی بنایا( لمک جامع کے معنی میں ہے) اور ان سے عہد و پیمان لیا اور جناب ادریس کے صحیفے اور ان کی مہر کردہ کتابیں ان کے حوالے کیں اس وقت متوشلخ کی عمر ۹۰۰ سال تھی، وصیت لمک تک منقل ہوئی ( وہ جناب نوح کے والد تھے) انہوں نے ایک بار اچانک دیکھا کہ ان کے دہن سے ایک آگ نکلی اور تمام عالم کو جلا گئی۔ اوردوبارہ دیکھا کہ گویا وہ دریا کے درمیان ایک درخت پر ہیں اور کوئی دوسری چیز نہیں ہے ، حضرت نوح بڑے ہوئے خدا وند عالم نے انہیں ۵۰ سال کے سن میں بلند مقام اور نبوت بخشی اور انہیں ان کی قوم کی طرف کہ جوبت کی پوجا کرتی تھی بھیجا، وہ اولوالعزم رسولوں میں سے ایک تھے۔

بعض اخبار میں آپ کی عمر ۱۲۵۰ سال ذکر کی گئی ہے،وہ جیسا کہ خدا وند متعال نے فرمایا ہے: اپنی قوم کے درمیان ۹۵۰ سال رہے اور انہیں ایمان کی دعوت دی،ان کی شریعت: توحید ، نماز، روزہ، حج اور دشمنان خد اقابیل کے فرزندوں سے جہاد تھی، وہ حلال کے لئے مامور اور حرام سے ممنوع کئے گئے تھے اور ان کو حکم دیا گیا تھا کہ لوگوں کو خدا وند متعال کی طرف دعوت دیں اور اس کے عذاب سے ڈرائیں اور خدا کی نعمتوں کو یاد دلائیں۔

مسعودی کا کہنا ہے: خدا وند عالم نے ریاست اور انبیاء کی کتابیں سام بن نوح کے لئے قرار دیں اور نوح کی وصیت بھی ان کے فرزندوں سے مخصوص ہوئی نہ کہ ان کے بھائیوں سے ۔( ۱ )

یہاں تک جو کچھ مسعودی کی کتاب اخبار الزمان سے ہمارے پاس تھا تمام ہوا، مسعودی نے اسی طرح کتاب ''اثبات الوصیة''( ۲ ) میں اوصیاء کے سلسلہ کو حضرت آدم سے حضرت خاتمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک بیان کیا ہے ، یہ وہ چیز ہے جو اسلامی مدارک کی بحثوں میں رسولوں اور ان کے جانشینوں کے بارے میں بیان ہوا ہے، آئندہ بحث میں ، رسولوںاور ان کے اوصیاء کی خبروں کوکتاب عہدین (توریت اور انجیل) سے بیان کریں گے۔

____________________

(۱) اخبار الزمان ، مسعودی، طبع بیروت، ۱۳۸۶ ھ،ص ۷۵، ۱۰۲(۲)ہم نے اس کتاب کی دوسری جلد میں ،مسعودی کی طرف اثبات الوصیة کی نسبت کے متعلق فصل : عصر فترت ،باب : پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آباء و اجداد میں وضاحت کر دی ہے۔

۲۰۶

۲۔ کتب عہدین میں ا وصیاء کی بعض خبریں

کتب عہدین سے اخبار اوصیاء کے نقل کے بارے میں ہم صرف تین وصیت پر اکتفا کریں گے:

الف۔ حضرت موسی کلیم کی خدا کے نبی یوشع کو وصیت

''قاموس کتاب مقدس '' نامی کتاب میں مادہ ''یوشع'' کے ذیل میں توریت کے حوالے سے ذکر ہوا ہے :

یوشع بن نون حضرت موسیٰ کے ساتھ کو ہ سینا پر تھے اور ہارون کے زمانے میں گوسالہ پرستی میں ملوث نہیں ہوئے۔( ۱ )

اورسفر اعداد کے ستائیسویں باب کے آخر میں خد اکی جانب سے موسیٰ کی تعیین وصیت کے بارے میں ذکر ہوا ہے:

موسیٰ نے خدا وند عالم کی بارگاہ میں عرض کی کہ یہوہ تمام ارواح بشر کا خدا کسی کو اس گروہ پرمقرر کرے جو کہ ان کے آگے نکلے اور ان کے آگے داخل ہو اور انہیںباہر لے جائے اور ان کو داخل کرے تاکہ خد اکی جماعت بے چرواہے کے گوسفندوں کی طرح نہ رہے، خداوند عالم نے موسیٰ سے کہا: یوشع بن نون کہ جو صاحب روح انسان ہیںان پر اپنا ہاتھ رکھو اور ''العازار کاہن''اور تمام لوگوں کے سامنے کھڑاکرکے وصیت کرو اور انہیں عزت اور احترام دو،تاکہ تمام بنی اسرائیل ان کی اطاعت کریں اوروہ ''العاذار کاہن'' کے سامنے کھڑے ہوں تاکہ ان کے لئے ''اوریم'' کے حکم کے مطابق خدا سے سوال کرے اور اس

کے حکم سے وہ اور تمام بنی اسرائیل ان کے اور پوری جماعت کے ساتھ باہر جائیں اور ان کے حکم سے داخل ہوں لہٰذا موسی ٰنے خد اکے حکم کے مطابق عمل کیا اور یوشع بن نون کو پکڑکر

____________________

(۱)''قاموس کتاب مقدس'' ترجمہ و تالیف مسٹر ھاکس امریکی، مطبع امریکی، بیروت، ۱۹۲۸ء ص ۹۷۰

۲۰۷

'' العازار کاہن ''اور تمام جماعت کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا اپنے ہاتھوں کو ان کے اوپر رکھا اور انہوں نے خدا کے بتائے ہوئے حکم کے مطابق وصیت کی ۔( ۱ )

نیز اموربنی اسرائیل کو چلانے اور ان کی جنگوںکی داستان تیئیسویں باب سفر یوشع بن نون میں مذکورہے ۔( ۲ )

ب۔ حضرت داؤد نبی کی حضرت سلیمان کو وصیت

بادشاہوں کی کتاب اول کے باب دوم میں مذکور ہے ۔( ۳ )

اور جب حضرت داؤد کا یوم وفات قریب آیا اپنے بیٹے سلیمان کو وصیت کی اور کہا :میں تمام اہل زمین کے راستہ (موت ) کی طرف جا رہا ہوں لہٰذا تم دلیرانہ طور پراپنے خدا یہوہ کی وصیتوں کو محفوظ رکھتے ہوئے اس کے طریقہ پر گامزن رہنا اور اس کے فرائض ، اوامر، احکام و شہادات جس طرح موسیٰ کی کتاب توریت میں مکتوب ہیں اسے محفوظ رکھنا تاکہ جو کام بھی کرو اور جہاں بھی رہو کامیاب رہو ۔( ۴ )

ج۔حضرت عیسی کی حواری شمعون بطرس کو وصیت

انجیل متی کے دسویں باب میں سمعون کے بارے میں کہ ان کانام توریت میں شمعون ہے، ذکر ہوا ہے :

انہوں نے پھر اپنے بارہ شاگردوں کو بلا کر خبیث ارواح پر تسلط عطا کیا کہ انہیں باہر کرا دیں

اورہر مرض اور رنج کا مداوا کریں بارہ رسولوں ( نمائندوں)کے یہ اسماء ہیں: اول شمعون جو پطرس کے نام سے مشہور ہیں تھے۔

انجیل یوحنا کے اکیسویں، باب ۱۸۔۱۵ شمارہ میں ذکر ہے :

عیسیٰ نے انہیں ( شمعون کو) اپنا وصی بنایا اور ان سے کہا: میری گوسفندوں کو چرائو ''یعنی مجھ

پر ایمان لانے والوں کی حفاظت کرو''۔

____________________

(۱) کتاب مقدس ، عہد عتیق ( توریت )ص ۲۵۴، کلدانی اور عبرانی یونانی زبان سے فارسی ترجمہ ، طبع ۳. دار السلطنت لندن ۱۹۳۲ ء

(۲)کتاب مقدس ، عہد عتیق ( توریت کلدانی اور عبرانی یونانی زبان سے فارسی ترجمہ ، طبع دار السلطنت لندن ۱۹۳۲ ء ص ۳۷۰، ۳۳۳.

(۳) وہی ماخذ.

(۴) وہی ماخذ.

۲۰۸

''قاموس کتاب مقدس'' میں بھی ذکر ہو اہے : مسیح نے انہیں (شمعون کو) کلیسا(عبادت خانہ) کی ہدایت کے لئے معین فرمایا۔( ۱ )

پہلی خبر میں ہم نے ملاحظہ کیا کہ بنی خدا، موسیٰ بن عمران نے اپنے بعد خدا کے نبی یوشع(جوقرآن کریم میں الیسع کے نام سے مشہورہیں)کو وصی بنایا۔

اور دوسری خبر میں خدا کے نبی دائود نے حضرت سلیمان کو وصیت کی کہ وہ خدا کے نبی اور رسول موسیٰ بن عمران کی شریعت پر عمل کریں۔

تیسری خبر میں عیسی روح اللہ نے اپنے حواری کواس بات کی وصیت کی کہ لوگوں کی ہدایت کریں۔

قرآن کریم میں رسولوں اور اوصیاء کی خبریں

خدا وند سبحان نے قرآن کریم میں جن ۲۶ انبیاء کی ان کے اسماء کے ذکر کے ساتھ داستان بیان کی ہے وہ یہ ہیں:

آدم، نوح، ادریس، ہود، صالح، ابراہیم ، لوط، ایوب، الیسع، ذو الکفل، الیاس، یونس، اسمعیل، اسحق، یعقوب، یوسف، شعیب، موسیٰ، ہارون، دائود، سلیمان، زکریا، یحییٰ، اسماعیل صادق الوعد، عیسیٰ اور محمد مصطفی ۔

ان میں سے بعض ایسے صاحب شریعت تھے کہ جو گز شتہ شریعت کے متمم اور مکمل تھے ، جیسے حضرت نوح کی شریعت جوکہ حضر ت آدم کی شریعت کو کامل کرنے والی تھی اور حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت کہ جو حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی شریعت کو کامل اور تمام کرنے والی تھی،ان میں سے بعض ایسی شریعتوں کے مالک تھے کہ جو گزشتہ شریعت کے لئے ناسخ تھے جیسے حضرت موسیٰ اورحضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۔

ان میں سے بعض بنی بھی تھے اور وصی بھی اور اپنے ما قبل رسول کی شریعت کے محافظ و نگہبان بھی جیسے یوشع بن نون کہ جو موسیٰ بن عمران کے وصی تھے۔

چونکہ جو شخص پروردگار عالم کی طرف سے لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوتا ہے پیغمبر ہو یا اس کا وصی، اس کے لئے خداداد نشانی ضروری ہے تاکہ اس کے مدعا کی صداقت پر شاہد و گواہ رہے نیز اس کے خدا کی جانب سے بھیجے جانے پر دلیل ہو ، آئندہ بحث میں اس موضوع یعنی ''معجزہ'' کی تحقیق کریں گے۔

____________________

(۱)قاموس کتاب مقدس ، مادہ : پطرس حواری

۲۰۹

۳۔ آیت اور معجزہ

آیت، لغت میں اس نشانی کو کہتے ہیں جو کسی چیز پر دلالت کرتی ہے ، وہ بھی اس طرح سے کہ جب کبھی وہ نشانی ظاہر ہو تو اس چیز کا وجود نمایاں ہو جائے۔

لیکن ہم اسلامی اصطلاح میں دو طرح کی آیت اور نشانی رکھتے ہیں، ایک وہ جو خالق کے وجود پر دلالت کرتی ہے اور دوسری وہ جو اس کی کسی ایک صفت (یعنی اسما ئے حسنی الٰہی میں سے کسی ایک کی طرف) اشارہ کرتی ہے وہ دونوں نشانیاں درج ذیل ہیں:

الف۔ وہ نشانیاں جو اپنے متقن اور سنجیدہ وجود کے ساتھ اپنے خالق حکیم کے محکم اور استوارنظام پر دلالت کرتی ہیں اور اس طرح ظاہر کرتی ہیں کہ اس پوری کائنات کا کوئی پروردگار حکیم ہے کہ جو خلق کے امور کو ایک محکم اور استوار نظام کے ساتھ چلا رہا ہے اورہم اسے ''کائنات میں خد اکی سنتیں'' کہتے ہیں۔

پہلی مثال، جیسے خدا سورۂ غاشیہ میں فرماتا ہے :

( أفلا ینظرون الیٰ الأبل کیف خلقت٭و الیٰ السماء کیف رفعت٭ و الیٰ الجبال کیف نصبت )

کیا وہ لوگ اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ کیسے خلق کیا گیا ہے اور آسمان کو کہ کس طرح رفعت دی گئی ہے اور پہاڑوں کو کہ کیسے نصب کیا گیاہے ؟!( ۱ )

اورسورۂ عنکبوت میں فرماتا ہے:

( خلق الله السمٰوات و الارض بالحق ان فی ذلک لآیة للمومنین )

خدا وند عالم نے زمین و آسمان کو حق کے ساتھ خلق کیا یقینا اس میں مومنین کے لئے نشانی ہے۔( ۲ )

خدا وند عالم نے اس طرح کی قرآنی آیات میں کچھ مخلوقات کا تذکرہ کیا ہے جو اپنے وجود سے اپنے خالق کے وجود کا پتہ دیتی ہیں، اسی لئے انہیں آیات اور نشانیاںکہا گیا ہے ۔

____________________

(۱) غاشیہ ۱۷۔۲۰

(۲)عنکبوت۴۴

۲۱۰

دوسری مثال: خدا وند عالم سورۂ نحل میں فرماتا ہے:

( هو الذی انزل من السماء ما ئً لکم منه شراب ومنه شجر فیه تسیمون٭ ینبت لکم به الزرع و الزیتون و النخیل و الاعناب ومن کل الثمرات ان فی ذلک لآیة لقوم یتفکرون٭ وسخر لکم اللیل و النهار و الشمس و القمر و النجوم مسخرات بأمره ان فی ذلک لآیات لقوم یعقلون٭وما ذرأ لکم فی الارض مختلفا الوانه ان فی ذلک لآیة لقوم یذکرون )

وہ خداجس نے تمہارے پینے کے لئے آسمان سے پانی نازل کیا اور اس سے سر سبز درختوں کو پیدا کیا جس سے تم اپنے حیوانات کے چارہ کا انتظام کرتے ہوخدا وند عالم اس ''پانی'' سے تمہارے لئے کھیتی، زیتون کھجور، انگور اور تمام انواع و اقسام کے میوے اگاتا ہے یقینا اس میں دانشوروںکیلئے واضح نشانی ہے اس نے شب و روز ،ماہ و خورشید کو تمہار اتابع بنایا نیز ستارے بھی اس کے حکم سے تمہارے تابع ہیں، یقینا اس میں صاحبان عقل کے لئے نشانیاں ہیں اور گونا گوں اور رنگا رنگ مخلوقات کو تمہارا تابع بنا کر خلق کیا، بیشک اس میں واضح نشانی ہے ان کے لئے جو نصیحت حاصل کرتے ہیں۔( ۱ )

خدا وند عالم ان جیسی قرآنی آیات میں ان انواع نظام ہستی کو بیان کرتا ہے جو مدبر اور حکیم پروردگار کے وجود پر دلالت کرتی ہیں اور کبھی کبھی ان آیات اور نشانیوں کو جو ''عزیز خالق'' اور'' حکیم، مدبراور رب'' کے وجودپر دلالت کرتی ہیں یکجا بیان کیا ہے جیسا کہ سورۂ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے :

( ان فی خلق السمٰوات و الارض و اختلاف اللیل و النهار و الفلک التی تجری فی البحر بما ینفع الناس وما انزل الله من السماء من مائٍ فأحیا به الارض بعد موتها و بث فیها من کل دابة و تصریف الریاح و السحاب المسخر بین السماء و الارض لآیات لقوم یعقلون)

یقینا زمین و آسمان کا تخلیق کرنا اور روز و شب کو گردش دینا اور لوگوں کے فائدہ کے لئے دریا میں کشتیوں کو رواں دواں کرنا اور خدا کا آسمان سے پانی برسانانیز زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد زندہ کرنا اور ہر قسم کے متحرک جانوروں کو اس میں پھیلانا نیز زمین و آسمان کے درمیان ہوائوں اور بادلوں کو مسخر کرنا اسلئے ہے کہ ان سب میں صاحبان عقل کے لئے نشانیاں ہیں۔( ۲ )

خدا نے اس آیت کی ابتدا میں آسمانوں اور زمین کی خلقت کو بیان کیا ہے اس کے بعد نظام کائنات کی

____________________

(۱)نحل۱۰۔۱۳

(۲)بقرہ۱۶۴

۲۱۱

نشانیوں کا ذکر کیاہے ، ایسا نظام جس کو پروردگار نے منظم کیا ہے اور ہم اسے '' کائنات کی سنتیں '' کہتے ہیں ۔

ب۔ وہ آیات جنہیں پروردگار عالم انبیاء کے حوالے کرتا ہے ، جیسے نظام ہستی پر ولایت وہ بھی اس طرح سے کہ جب مشیت الٰہی کا اقتضا ہو تو پیغمبر، خدا کی اجازت سے اس نظام کو جس کو خدا نے عالم ہستی پر حاکم بنایا ہے بدل سکتا ہے ،جیساکہ خد اوند متعال حضرت عیسیٰ کی توصیف میں فرماتا ہے۔

( ورسولاً الیٰ بنی اسرائیل انی قد جئتکم بآیة من ربکم انی اخلق لکم من الطین کهیئة الطیر فانفخ فیه فیکون طیراً بأِذن الله )

حضرت عیسیٰ کو بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجا ( انہوں نے ان سے کہا:)میں تمہارے پروردگار کی ایک نشانی لیکر آیا ہوں، میں مٹی سے تمہارے لئے پرندے کے مانند ایک شیء بنائوں گا اور پھر اس میں پھونک ماروں گا تو وہ خد اکے حکم سے پرندہ بن جائے گا۔( ۱ )

اس طرح کی آیات الٰہی کو اسلامی عرف میں ''معجزہ'' کہتے ہیں، اس لئے کہ دیگر افراد بشر اس طرح کی چیزوں کے پیش کرنے سے عاجز ہیں اور وہ خارق عادت ہے نیز تخلیقی نظام طبیعی کے برعکس ہے ، جیسے حضرت عیسیٰ کا معجزہ کہ مٹی سے خد اکے اذن سے ایک پرندہ خلق کر دیا تاکہ اس بات پر دلیل ہو :

۱۔ یہ دنیا کا پروردگار ہے کہ جس نے اشیاء کو خاصیت اور طبیعی نظام عطا کیاہے اور جب اس کی حکمت کا اقتضا ہو کہ کسی چیز کی خاصیت کو اس سے سلب کر لے ، تو ایسی قدرت کا مالک ہے جس طرح کہ آگ کی گرمی سلب کر کے حضرت ابراہیم کو جلنے سے بچا لیا اور جب اس کی حکمت تقاضاکرے کہ اس نظام طبیعی کو جو اپنی بعض مخلوقات کے لئے قرار دیا ہے بدل دے تو وہ اس پر قادر اور توانا ہے ، جیسے مٹی سے حضرت عیسیٰ کے ہاتھ پرندہ بن جانا بجائے اس کے کہ اپنے نر جنس کی آمیزش سے پرندہ کی ماں اسے جنے جو کہ طبیعی نظام خلقت کے مطابق ہے اور اسے جانداروں کی خلقت کے لئے معین کیاہے ۔

انبیاء کے معجزات جیسا کہ ہم نے بیان کیاہے خارق العادة اور طبیعی نظام کے برخلاف ہیںاور انتقال مادہ کے مراحل طے کرنے، یعنی ایک حال سے دوسرے حال اور ایک صورت سے دوسری صورت میں آخری شکل تک تبدیل ہونے کی پیروی نہیں کرتے اس لئے کہ پرندہ کا مٹی سے تخلیق کے مراحل کا طے کرنا( جیساکہ بعض فلاسفہ کے کلام سے سمجھ میں آتا ہے) نور کی سرعت رفتار کے مانندتھا کہ جن کو خدا وند عالم نے

____________________

(۱)آل عمران۴۹

۲۱۲

طبیعی مدت اور دورہ انتقال سے بہت تیزپیغمبر کے لئے طے کیا ہے۔

معجزہ سحر نہیں ہے ، اس لئے کہ سحر ایک قسم کی باطل اور غیر واقعی خیال آفرینی کے سوا کچھ نہیں ہے، مثال کے طور پر ایک ساحر و جادو گرایسا محسوس ہوتا ہے کہ مرغ کونگل جاتا ہے ، یاا ونٹ کے منھ سے داخل ہو کر اس کے مخرج سے نکل آتا ہے یا شیشہ کے برتنوں کو چکنا چور کر کے دوبارہ اسے پہلی حالت میں پلٹادیتاہے در حقیقت اس نے ان امور میں سے کسی ایک کوبھی انجام نہیں دیا ہے بلکہ صرف اورصرف دیکھنے والوں اور تماشائیوں کی نگاہوں پر سحر کر دیا ہے (جسے نظر بندی کہتے ہیں) اور ان لوگوں نے مذکورہ امور کو اپنے خیال میں دیکھا ہے اسی لئے جب سحر کا کام تما م ہو جاتا ہے تو حاضرین تمام چیزوں کو اس کی اصلی حالت اور ہیئت میں بغیر کسی تبدیلی اور تغیر کے دیکھتے ہیں، لیکن معجزہ نظام طبیعت کو در حقیقت بدل دیتا ہے جیسے وہ کام جو حضرت موسیٰ کے عصا نے انجام دیا: ایک زبردست سانپ بن کر جو کچھ ساحروں نے اس عظیم میدان میں پیش کیا تھا سب کویکبار گی نگل گیا اور جب حضرت موسیٰ کے ہاتھ میں آکر دوبارہ عصا بنا، تو جوکچھ ساحروں نے اس میدان میں مہیا کیا تھا اس کا کوئی اثر باقی نہیں رہا ،یہی وجہ تھی کہ جادوگر سجدہ میں گر پڑے اور بولے : ہم پروردگار عالم پر ایمان لائے ، جوموسیٰ اور ہارون کا پروردگار کیونکہ وہ لوگ جادو گری میں تبحر رکھتے تھے اور ایک عجیب مہارت کے مالک تھے۔ انہوں نے درک کیا کہ یہ سحر کا کام نہیں ہے بلکہ خدا وند متعال کی آیات اور نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔

معجزہ کا محال امر سے تعلق نہیں ہوتا جس بات کو علم منطق میں اجتماع نقیضین سے تعبیر کرتے ہیں جیسے یہ کہ کوئی چیز ایک وقت میں ایک جگہ ہے اور نہیں بھی ہے یہ بھی اثر معجزہ کی شمولیت سے خارج ہے ۔

پیغمبروں کے معجزوں کی حقیقت ، وہ آیتیں ہیں جن کوپروردگاران کے ہاتھوں سے ظاہر کرتا ہے ، وہ نشانیاںکہ جن و انس جن کو پیش کرنے سے عاجز اور ناتواں ہیں خواہ بعض بعض کی مدد ہی کیوں نہ کریں جبکہ جنات میں بعنوان مثال ایسے افراد بھی پائے جاتے ہیں جو اس بات پر قادر ہیں کہ ملک یمن سے تخت بلقیس حضرت سلیمان کے اپنی جگہ سے اٹھنے سے پہلے ہی بیت المقدس حاضر کر دیں کیونکہ فضا میں جن کی سرعت رفتار نور سے ملتی جلتی ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ جن کبھی دور دراز کی خبر بھی اپنے سے مربوط کاہن کو لا کر دے سکتا ہے ، لیکن یہی جن و انس مٹی سے پرندہ نہیں بنا سکتے کہ بغیر اللہ کی اجازت کے حقیقی پرندہ بن جائے۔

۲۱۳

ہندوستان میں ریاضت کرنے والے ''مرتاض''کبھی ٹرین کو حرکت کرنے سے روک سکتے ہیں، لیکن وہ اور ان کے علاوہ افراد کہ جن کو خدا نے اجازت نہیں دی ہے یہ نہیں کر سکتے کہ پتھر پر عصا ماریں تو بارہ چشمے پھوٹ پڑیں۔

کیونکہ پروردگارعالم آیات ومعجزات اس لئے ا پنے انبیاء و مرسلین کو عطا کرتا ہے تاکہ امتیں ان کے دعوے کی صداقت پر یقین کریں اور سمجھیں کہ یہ لوگ خدا کے فرستادہ ہیں، حکمت کا مقتضا یہ ہے کہ یہ معجزات ایسے امور سے متعلق ہوں کہ جس امت کے لئے پیغمبر مبعوث ہوا ہے اسے پہچانیں ، جیساکہ حضر ت امام علی بن موسیٰ الرضانے ایک سائل کے جواب میں کہاجب اس نے سوال کیا: کیوں خدا نے حضرت موسیٰ بن عمران کو ید بیضا اور عصا کے ساتھ مبعوث کیااور حضرت عیسیٰ کو طب اور حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کلام و سخن کے ساتھ؟

امام نے جواب دیا:

جس وقت خدا وند عالم نے حضرت موسیٰ کو مبعوث کیا تھا اس زمانے میں سحر و جادو نما یاں فن شمار ہوتا تھا لہٰذا وہ بھی خدا وند عز و جل کی طرف سے ایسی چیز کے ساتھ ان کے پاس گئے کہ اس کی مثال ان کے بس میں نہیں تھی، ایسی چیز کہ جس نے ان کے جادو کو باطل کر دیا اور اس طرح سے ان پر حجت تمام کی۔

خدا وند عالم نے حضرت عیسیٰ کوایسے زمانے میں مبعوث کیا جب مزمن اور دائمی بیماریوں کا دور دورہ تھااور لوگوں کوطب کی ضرورت تھی تو وہ خدا کی طرف سے ان کے لئے ایسی چیز لیکر آئے کہ اس جیسی چیز ان کے درمیان نا پید تھی، یعنی جو چیز ان کے لئے مردوں کو زندہ کر دیتی تھی، اندھے اور سفید داغ والے کو شفا دیتی تھی لہٰذا اس کے ذریعہ ان پر حجت تمام کی۔

خدا وند متعال نے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی اس وقت مبعوث کیا جب غالب فن خطابت اور سخنوری تھا، راوی کہتا ہے میرے خیال میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہا: اور شعر تھا، آنحضرت نے خدا وند عز و جل کی کتاب اور اس کے موعظوں اور احکام سے ان کے لئے ایسی چیز پیش کی کہ ان کی تمام باتوں کو باطل کر دیا اور ان پر حجت تمام کر دی۔

سائل نے کہا: خدا کی قسم، آج جیسا دن کبھی میں نے نہیں دیکھا ہے : پھر بولا: ہمارے زمانے کے لوگوں پر حجت کیا ہے ؟ امام نے کہا: عقل ؛ اس کے ذریعہ خدا پر سچ بولنے والے کی صداقت پہچا نوگے اوراس کی تصدیق کروگے اور خدا کی طرف جھوٹی نسبت دینے والے کوتشخیص دوگے اور اسے جھٹلا ئو گے ۔

سائل نے کہا: خدا کی قسم، صحیح، جواب یہی ہے اور بس۔( ۱ )

____________________

(۱)بحار، ج۱۱ ، ص ۷۰۔۷۱ بحوالہ ٔ علل الشرائع ، ص ۵۲. اور عیون الاخبار، ص ۲۳۴

۲۱۴

پیغمبروں کے خارق العادة معجزے کہ جو اشیاء کے بعض طبیعی نظام کے مخالف ہیں ،وہ خود انسانی معاشرے میں پروردگار عالم کی تکوینی سنتوں میں سے ایک سنت ہیں ایسا سماج اور معاشرہ جس میں خدا وند عالم نے انبیاء بھیجے، اسی وجہ سے امتوں نے اپنے پیغمبروں سے معجزے طلب کئے تاکہ ان کے دعویٰ کی صحت پر دلیل ہو، جیساکہ خدا وند عالم نے سورۂ شعراء میں قوم ثمود کی گفتگو پیش کی کہ انہوں نے اپنے پیغمبر صالح سے کہا:

( ما أنت الا بشر مثلنا فات بآیة ان کنت من الصادقین٭ قال هذه ناقة لها شرب و لکم شرب یوم معلوم٭ولا تمسوها بسوء فیأخذ کم عذاب یوم عظیم )

تم صرف ہمارے جیسے ایک انسان ہو ، اگر سچ کہتے ہو تو کوئی آیت اور نشانی پیش کرو! کہا: یہ ناقہ ہے ( اللہ کی آیت )پانی کا ایک حصہ اس کااور ایک حصہ تمہاراہے معین دن میں ،ہر گز اسے کوئی گزندنہ پہنچانا کہ عظیم دن کے عذاب میں گرفتار ہو جائو۔( ۱ )

بہت سی امتوں کااپنے پیغمبر سے معجزہ دیکھنے کے بعدعناد شدید تر ہوجاتا تھااور ان سے دشمنی کرنے لگتے تھے ۔ اور ایمان لانے سے انکار کر دیتے ،جیسا کہ خدا وند عالم نے قوم ثمود کے بارے میں ناقہ دیکھنے کے بعد فرمایا :

( فعقروها فأصبحوا نادمین )

آخر کار اس ناقہ کو پے کر دیااس کے بعد اپنے کرتوت پر نادم ہوئے۔( ۲ )

خدا کی سنت یہ رہی ہے کہ اگر امتوں نے اپنے پیغمبر وںسے معجزہ کی درخواست کی اور معجزہ آیا لیکن وہ اس پر ایمان نہیں لائے تو وہ زجر و توبیخ اور عذاب کے مستحق بنے اور خدا وند عالم نے انہیں عذاب سے دوچار کیا۔

جیسا کہ اسی سورۂ میں قوم ثمود کے انجام کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے :

( فأخذهم العذاب ان فی ذلک لآیة وما کان اکثرهم مؤمنین )

پس ان کو اللہ کے عذاب نے گھیر لیا یقینا اس میں آیت اور نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر مومن نہیں تھے۔( ۳ )

انبیاء کا معجزہ پیش کرنا حکمت کے مقتضیٰ کے مطابق ہے ، حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ معجزہ اس حد میں ہونا چاہئے کہ پیغمبر کے دعوے کی حقانیت کا، اس شخص کے لئے جو اس پر ایمان لانا چاہتا ہے اثبات کرسکے ، آیت

____________________

(۱) سورۂ شعرا ۱۵۶، ۱۵۴(۲) سورۂ شعرا ۱۵۷(۳) سورۂ شعرا ۱۵۸

۲۱۵

الٰہی ان سرکشوں کی مرضی اور مردم آزاروں کی طبیعت کے مطابق نہیں ہے جو خدا اور رسول پر ایمان لانے سے بہر صورت انکار کرتے ہیں کہ جو چاہیں ہو جائے، نیز جیسا کہ گز ر چکاہے کہ معجزہ امرمحال سے بھی تعلق نہیں رکھتاہے ، چنانچہ یہ دونوںباتیں ،رسول سے قریش کی خواہش میں موجود تھیں جبکہ خدا نے عرب کے مخصوص معجزے ''فصیح وبلیغ گفتگو'' کو انہیں عطا کیا خدا نے سورۂ بقرہ میں انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( وان کنتم فی ریب مما نزلنا علیٰ عبدنا فأتو بسورة من مثله و ادعوا شهدائکم من دون الله ان کنتم صادقین٭فأِن لم تفعلوا و لن تفعلوا فاتقوا النار التی و قودها الناس و الحجارة اُعدت للکافرین )

ہم نے جو اپنے بندہ پر نازل کیا ہے اگر اس کے بارے میں شک و تردید میں مبتلا ہو تو اس کے مانند ایک ہی سورہ لے آئو اورخدا کے علاوہ اس کام کے لئے اپنے گواہ پیش کر و ،اگر سچے ہوپھر اگر ایسا نہیں کر سکتے اور ہر گز نہیں کر سکتے تو اس آگ سے ڈرو! جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور جو کافروں کے لئے آمادہ کی گئی ہے۔( ۱ )

قریش کے سر برآوردہ افراد جو ایمان لانے کو کا قصد ہی نہیں رکھتے تھے اپنی شدت اور ایذا رسانی میں اضافہ کرتے گئے اور رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو زحمت میں ڈالنے اور انہیں عاجز اور بے بس بنانے کے لئے گونا گوں درخواستیں کرتے حتی کہ امر محال کا بھیمطالبہ کرتے تھے ، خداوند عالم سورۂ اسراء میں ان کی ہر طرح کی سرکشی اورمزاحمت کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے :

( قل لئن اِجتمعت الانس و الجن علیٰ ان یأتو بمثل هذا القرآن لا یأتون بمثله ولو کان بعضهم لبعض ظهیراً٭ ولقد صرفنا للناس فی هذا القرآن من کل مثل فأبیٰ اکثر الناس الاکفورا٭ و قالوا لن نؤمن لک حتیٰ تفجر من الارض ینبوعا٭ او تکون لک جنة من نخیل و عنب فتفجر الانهار خلالها تفجیرا٭ او تسقط السماء کما زعمت علینا کسفاً او تأتی بالله و الملائکة قبیلا٭ او یکون لک بیت من زخرف او ترقیٰ فی السماء و لن نؤمن لرقیک حتی تنزل علینا کتاباً نقرؤه قل سبحان ربی هل کنت الا بشراً رسولا٭ و ما منع الناس ان یومنوا اذ جائهم الهدی الا ان قالوا ابعث الله بشراً رسولا، قل لو کان فی الارض ملائکة یمشون مطمئنین لنزلنا علیهم من السماء ملکاً رسولاً قل کفیٰ بالله شهیداً بینی و بینکم انه کان بعباده خبیراً بصیرا )

____________________

(۱)سورۂ بقرہ۲۳۔۲۴

۲۱۶

کہو: اگر تمام جن و انس یکجا ہو کر اس قرآن کے مانند لانا چاہیں تو نہیں لا سکتے ہر چند ایک دوسرے کی اس امر میں مدد کریں، ہم نے اس قرآن میں ہر چیز کا نمونہ پیش کیا ہے لیکن اکثرلوگوں نے ناشکری کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا اور کہا: ہم اس وقت تک تم پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ اس سرزمین سے ہمارے لئے چشمہ جاری نہ کرو، یا کھجور اور انگور کا تمہارے لئے باغ ہو اور ان کے درمیان جا بجا نہریں جاری ہوں، یا آسمان کے ٹکڑوںکو جس طرح تم خیال کرتے ہو ہمارے سر پر گرا دو؛ یا خدا اور فرشتوں کو ہمارے سامنے حاضر کر دو؛یا کوئی زرین نقش و نگار کا تمہارے لئے گھر ہو، یا آسمان کی بلندی پر جائو اور اس وقت تک تمہارے اوپر جانے کی تصدیق نہیں کریں گے جب تک کہ وہاں سے کوئی نوشتہ ہمارے لئے نہ لائو جسے ہم پڑھیں!

کہو: میرا پروردگار منزہ اور پاک ہے ، کیا میں ایک فرستادہ ( رسول)انسان کے علاوہ بھی کچھ ہوں؟! صرف اور صرف جو چیز ہدایت آنے کے بعد بھی لوگوں کے ایمان لانے سے مانع ہوئی یہ تھی کہ وہ کہتے تھے: آیا خدا نے کسی انسان کو بعنوان رسول بھیجا ہے ؟!

ان سے کہو: اگر روئے زمین پر فرشتے آہستہ آہستہ قدم اٹھائے سکون و وقار سے راستہ طے کرتے، تو ہم بھی ایک فرشتہ کو بعنوان رسول ان کے درمیان بھیجتے ! کہو! اتنا ہی کافی ہے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان خدا گواہ ہے ؛ کیونکہ وہ بندوں کی بہ نسبت خبیرو بصیر ہے ۔( ۱ )

پروردگار خالق نے اہل قریش پر اپنی حجت تمام کر دی اور فرمایا: اگر جو کچھ میں نے اپنے بندہ پر نازل کیا ہے اس کے بارے میں شک و تردید رکھتے ہو، تو اس کے جیسا ایک سورہ ہی لے آئو اور خدا کے علاوہ کوئی گواہ پیش کرونیز خبر دی کہ اگر تمام جن و انس مل کر اس کے مانند لانا چاہیں تو قرآن کے مانند نہیں لا سکتے،خواہ ایک دوسرے کی مدد ہی کیوں نہ کریں اور اس کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا: کبھی اس کے جیسا نہیں لا سکتے اور آج تک اسلام دشمن عناصر اپنی کثرت، بے پناہ طاقت اور رنگا رنگ قدرت کے باوجود ایک سورہ بھی اس کے مانند پیش نہیں کر سکے قرآن کی اس اعلانیہ تحدی اور چیلنج کے بعد کہ یہ ایک ایسا معجزہ ہے کہ اس کے مقابل جن و انس عاجز اور ناتواںہیں، جب مشرکین قریش نے خود کوذلیل اور بے بس پایا تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خواہش کی کہ مکہ کی طبیعت اور اس کی ہوا کو بدل دیں او رسونے کا ایک گھر ہو، یاخدا اور ملائکہ کو ایک صف میں ان کے سامنے حاضر کر دیں، یا آسمان کی بلندی پر جائیں اور ہم ان کے جانے کی اس وقت تصدیق کریں گے جب وہاں

____________________

(۱)اسرائ۹۶۔۸۸

۲۱۷

سے ہمارے لئے کوئی نوشتہ لائیں جسے ہم پڑھیں، جیسا کہ واضح ہے کہ ان کی در خواستیںامر محال سے بھی متعلق تھیں اور وہ خدا اور ملائکہ کو ان کے سامنے حاضر کرنا ہے ، یقینا خدا کا مقام اس سے کہیں بلند و بالا ہے جو یہ ظالم کہتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان کی بعض خواہشیں پیغمبرں کے بھیجنے کے بارے میں سنت الٰہی کے مخالف تھیں ، جیسے ان کے سامنے آسمان کی بلندی پر جانا اور کتاب لانا کہ یہ سب خدا وند عالم نے اپنے نمائندے فرشتوں سے مخصوص کیا ہے اوریہ انسان کا کام نہیں ہے ۔

وہ لوگ اس بات کے منکر تھے کہ خدا کسی انسان کو پیغمبری کے لئے مبعوث کرے گا جبکہ حکمت کا مقتضا یہ ہے کہ انسان کی طرف بھیجا ہواپیغمبر خود اسی کی جنس سے ہو، تاکہ رفتار و گفتار، سیرت وکردار میں ان کیلئے نمونہ ہو، ان کی بقیہ تمام خواہشیں بھی حکمت کے مطابق نہیں تھیں ، جیسے یہ کہ عذاب کی درخواست کی، اسی لئے خداوندنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے فرمایا کہ ان کے جواب میں کہو: میرا خدا منزہ ہے آیا میں خدا کی طرف سے فرستادہ (رسول )انسان کے علاوہ بھی کچھ ہوں؟!

گزشتہ بیان کا خلاصہ: حکمت خدا وندی کا تقاضاہے کہ اس کا فرستادہ اپنے پروردگار کی طرف سے اپنے دعویٰ کی درستگی اور صداقت کیلئے معجزہ پیش کرے اور اس کے ذریعہ لوگوں پر اپنی حجت تمام کرے، ایسے حال میں جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کر دے ،جیسا کہ حضرت موسیٰ اور ہارون کی قوم کا حال ایسا ہی تھا کہ معجزہ دیکھنے کے بعد جادو گروں نے ایمان قبول کیا اور فرعون اور اس کے درباریوں نے انکار کیا، تو خدا وند عالم نے انہیں غرق کر کے ذلیل و خوار کر دیا اور خدا کی طرف سے اس کے پیغمبر جو بھی آیت پیش کریں اسے معجزہ کہتے ہیں۔

مذکورہ باتوں کے علاوہ جن لوگوں کو خدا نے زمین کا پیشوا اور لوگوں کا ہادی بنایا ہے وہ صاحب شریعت پیغمبر ہوںیا ان کے وصی، ان کے مخصوص صفات ہیںجو انھیں دوسروںسے ممتا ز کرتے ہیں اور ہم آئندہ بحث میں خدا کی توفیق اور تائید سے اس کا ذکر کریں گے ۔

۲۱۸

۷

الٰہی مبلغین کے صفات ،گناہوں سے عصمت

۱۔ ابلیس زمین پر خدا کے جانشینوںپر غالب نہیں آسکتا ۔

۲۔ عمل کا اثر اور اس کا دائمی ہونا اور برکت کا سرایت کرنا اور زمان اور مکان پر اعمال کی نحوست۔

۳۔ الٰہی جانشینوںکا گناہ سے محفوظ ہونا ( عصمت)اس کے مشاہد ہ کی وجہ سے ہے ۔

۴۔وہ جھوٹی روایتیں جو خدا کے نبی داؤد پر اور یا کی بیوہ سے ازدواج کے بارے میں گڑھی گئیں اور حضرت خاتم الانبیاء سے متعلق آنحضرت کے منھ بولے فرزند زید، کی مطلقہ بیوی زینب سے ازدواج کی نسبت دی اور ان دونوں ازدواج کی حکمت۔

۵۔ جن آیات کی تاویل میں لوگ غلط فہمی کا شکار ہوئے۔

۱۔ ابلیس روئے زمین پر خدا کے جانشینوں پر غالب نہیں آ سکتا

خدا وند سبحان نے سورۂ حجر میں اپنے اور ابلیس کے درمیان گفتگو کی خبر دی کہ ، ابلیس اس کے مخلص بندوں پر تسلط نہیں رکھتا ، وہ گفتگو اس طرح ہے :( قال رب بما اغویتنی لأزینّن لهم فی الارض ولأغوینهم اجمعین الا عبادک منهم المخلصین٭قال...ان عبادی لیس لک علیهم سلطان الا من اتبعک من الغاوین )

ابلیس نے کہا: خدایا ؛ جو تونے مجھے گمراہ کیا ہے اس کی وجہ سے زمین میں ان کے لئے زینت اور جلوے بخشوں گا اور سب کو گمراہ کر دوں گاسواتیرے مخلص بندوں کے ۔فرمایا: تو میرے بندوںپر قابو اور تسلط نہیں رکھتا، جز ان لوگوں کے جو تیرا اتباع کرتے ہیں۔( ۱ ) اور یوسف اور زلیخا کی داستان کے بیان میں ،مخلَصین کی خدا نے کس طرح شیطانی وسوسوں سے محافظت کی اس طرح بیان کرتا ہے :( ولقد همت به و هم بها لو لا أن رء أ برهان ربه کذلک لنصرف عنه السوء و الفحشاء أنّه من عبادنا المخلصین )

اس عورت نے ان کا قصدکیا اوروہ بھی اس کا قصد کر بیٹھتے اگر اپنے رب کی دلیل و برہان نہیں دیکھتے!ہم نے ایسا کیا تاکہ اس سے برائی اور فحشاء کو دور کریں ،کیونکہ وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھے۔( ۲ ) ہم مذکورہ وصف یعنی: عصمت اور ابلیس کے غالب نہ ہونے کو ، سورۂ بقرہ میں خدا وند سبحان اور ابراہیم خلیل کے درمیان ہونے والی گفتگو میں ، امامت کے شرائط کے عنوان سے ملاحظہ کرتے ہیں، جیساکہ فرمایا:

____________________

(۱) سورۂ حجر ۴۲۔۳۹(۲)یوسف ۲۴

۲۱۹

( و اذابتلیٰ ابراهیم ربه بکلمات فأتمهن قال انی جاعلک للناس أِماما قال و من ذریتی قال لا ینال عهدی الظالمین )

جب خدا وند عالم نے ابراہیم کا گونا گوں طریقوں سے امتحان لے لیا اور وہ خیر و خوبی کے ساتھ کامیاب ہوگئے، تو خدا وند سبحان نے کہا: میں نے تمہیں لوگوں کا پیشوا اور امام بنایا، ابراہیم نے کہا:اور میری ذریت میں سے بھی ! فرمایا: میرا عہدہ ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔( ۱ )

سورۂ انبیاء میں ذکر ہوا ہے : جن کو خدا نے لوگوں کا پیشوا بنایا وہ خدا کے حکم سے ہدایت کرتے ہیں:( وجعلنا هم أئمة یهدون بأمرنا ) اورہم نے ان لوگوں کو پیشوا بنایا جوہمارے فرمان سے ہدایت کرتے ہیں۔( ۲ )

اسی سورہ میں بعض کا نام کے ساتھ ذکر فرمایا ہے ، جیسے نوح، ابراہیم ، لوط، اسماعیل، ایوب، ذوالکفل، یونس، موسیٰ ، ہارون، دائود، سلیمان ، زکریا، یحیٰی اور عیسیٰ علیہم السلام۔

جن لوگوں کو خدا وند عالم نے اس سورہ میں منصب امامت کے ساتھ یاد کیا ہے ان کے درمیان بنی، رسول، وزیر اور وصی سبھی پائے جاتے ہیں، اس بنا پر ہم پر واضح ہوتا ہے کہ خدا وند عالم نے ایسی شرط ذکر کی ہے کہ جسے امام بنائے گا وہ ظالم نہ ہو.

خدا وند عالم نے امام کو روئے زمین پر اپنا خلیفہ شمار کیا ہے ، چنانچہ سورۂ ص میں داؤد سے خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے :( یا داود اَنَّا جعلناک خلیفة فی الارض )

اے دائود! ہم نے تم کو زمین پر خلیفہ بنایا۔( ۳ )

اور حضرت آدم ـکے متعلق فرشتوں سے سورہ ٔ بقرہ میں فرمایاہے :

( و أِذ قال ربک للملائکة أِنی جاعل فی الارض خلیفة )

اور جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا: میں روئے زمین پر خلیفہ بنائوں گا۔( ۴ )

کلمات کی تشریح

۱۔اغویتنی، ولأغوینهم، و الغاوین ۔

____________________

(۱)بقرہ ۱۲۴(۲)انبیائ ۷۳(۳) ص ۲۶(۴) بقرہ ۳۹۔

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271