امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت21%

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت مؤلف:
زمرہ جات: امامت
صفحے: 271

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 271 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 117665 / ڈاؤنلوڈ: 4477
سائز سائز سائز
امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

مصنف: رضاکاردان

مترجم: سيد قلبي حسين رضوي

۳

پیش لفظ

امامت کے بارے میں دو مشخص نظریے ہیں

پہلانظریہ:

جمہور،یعنی اہل سنّت کا ہے،جومعتقد ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی شخص کواپنے بعد،اپنے جانشین کے طورپر معرفی نہیں کیاہے اور یہ امت کی ذمہ داری تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ان کے جانشین کومنتخب کریں۔

دوسرانظریہ :

شیعہ امامیہ کا نظریہ ہے کہ وہ امامت کوخداکی طرف سے منصوب اور معین جانتے ہیں او عقیدہ رکھتے ہیں کہ امامت نبوت ہی کا ایک سلسلہ ہے اور امام کو نصب اورپیغمبرکے مانند معین کر نا خدائے متعال کی ذمہ داری ہے۔

شیعوں کے پاس اپنے نظریہ کو ثابت کرنے کے لئے ،عقل،کتا ب و سنّت کے حوالے سے بہت سے قطعی دلائل موجود ہیں ،جوکلام،تفسیر اور احادیث کی کتابوں میں بیان کئے گئے ہیں۔

اس مقدمہ میں شیعوں کے عقلی نظریہ کواس مسئلہ کے بارے میں عقل کے حکم کے مطابق واضح کیا گیا ہے۔

اس سلسلہ میں جو اقتباسات پیش کئے گئے ہیں وہ انسان کی فطری تحقیق اورغور وخوض کا نتیجہ ہے:

۱ ۔ہم جانتے ہیں کہ اسلام ایک لافانی دین ہے ،جو ہرزمانہ کے تمام لوگوں کے لئے نازل ہوا ہے۔

۲ ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے،اس دین مبین کی تبلیغ اور ترقی کے سلسلہ میں ہر ممکن کو شش کی اور اپنے تمام وسائل سے کام لیا اوراس سلسلہ میں کوئی لمحہ فروگزاشت نہیں کیا اور اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک غیرمعمولی اور ناقابل توصیف ایثاروجانثاری کا مظاہرہ کرتے رہے کی۔چنانچہ یہ مضمون کئی آیات میں بیان ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کے ایمان کے لئے اپنی جان کی قربانی دینے کے لئے نکلتے تھے:

۴

( لعلّک باخع نفسک ان لایکونوا مؤمنین ) (شعراء/۳)

”کیاآپ اپنے نفس کو ہلاکت میں ڈال دیں گے اس لئے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لارہے ہیں۔“

( فلعلّک باخع نفسک علی آثارهم ان لم یؤمنوا بهذا الحدیث اسفاً ) (کہف/۶)

”توکیاآپ شدت افسوس سے ان کے پیچھے اپنی جان خطرے میں ڈال دیں گے اگریہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائے۔“

۳ ۔اس راہ میں بہترین اورباعظمت انسانوں کی ایک بڑی تعدادنے قربانی دے کرشہادت کاجام نوش کیاہے۔

۴ ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،انسانوں کی سعادت کے لئے مختلف ابعادمیں جوکچھ مؤثر جانتے تھے ان کے لئے بیان فرماتے تھے،شیعہ اورسنّی کے فقہی فروعات او ر جزئی مسائل کے بارے میں احادیث اوراسلامی فقہ کی کتابوں میں جو کچھ وارد ہوا ہے وہ اس کا بیّن ثبوت ہیں۔

۵ ۔پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ایسی حالت میں رحلت فرمائی کہ ابھی اسلام حجاز کے تمام حدودتک بھی نہیں پھیلاتھا،چہ جائے کہ اس پیغام و شریعت کی دنیابھرمیں رسائی ہو تی ۔

۶ ۔ایسی طاقتیں موجودتھیں کہ جن کی طرف سے اسلام کے وجوداوراس کی تبلیغ و بقاء کے لئے خطرہ کا احساس کیا جاتاتھا،بالخصوص اس لئے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی اورانہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو نہ صرف قبول نہیں کیاتھا،بلکہ ان میں سے بعض نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کے مقا بلہ میں نامناسب رد عمل کا اظہاربھی کیا،جیسے کہ ایران کے بادشاہ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خط ہی پھاڑ ڈالا۔

۵

۷ ۔اس قسم کی طاقتوں کا سرکچلنے اور انھیںزیر کر نے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعدمسلمانوں کی ایک طاقتور فوج اور قطعی وفیصلہ کن رہبری کی ضرورت تھی۔

۸ ۔اقتدارپرستی اور جاہ طلبی انسان کے باطنی امور کا ایک ایسامسئلہ ہے ،کہ جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے اصحاب بھی مستثنیٰ نہیں تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد جمع ہوئے مسلمان ،جوآپ سے بے پناہ عشق ومحبت کرتے تھے،لیکن اس کے باوجود ان میں بھی بہت سے ایسے افراد موجودتھے جن کے وجود کی گہرائیوں میں پوری طرح اسلام نفوذ نہیں کرچکا تھااورا ب بھی جاہلیت کے رسم و رواج نیز،قومی اور خاندانی تعصبات کی حکو مت ان کے وجود پر سایہ فگن تھی اورہر آن یہ خطرہ لاحق تھاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآ وسلم کی رحلت کے بعد خلافت کی لالچ میں وہ ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہو جائیں۔چنانچہ بعض احادیث میں انحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ اپنے اصحاب سے فرماتے تھے کہ:”میں اپنے بعدتمہارے مشرک ہونے سے نہیں ڈرتاہوں لیکن اس چیز سے ڈرتاہوں کہ تم لوگ امور دنیاکے لئے ایک دوسرے کی رقابت کروگے۔(۱)

۹ ۔ایسے منافقین بھی موجودتھے جو ہمیشہ اسلام ومسلمین کے خلاف سازشوں میں مشغول

____________________

۱۔صحیح بخاری،ج۴،باب فی الحوض،ص۱۴۲،دارلمعرفتہ،بیروت

۶

رہتے تھے اور اس سلسلہ میں کوئی لمحہ فروگزاشت نہیں کرتے تھے،لہذا یہ خطرہ موجود تھاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد یہ لوگ اسلامی خلافت میں نفوذ کریں اورشائد ان منافقین کا ایک گروہ ابتداء اسلام ہی سے اسی لالچ کی بناء پردعوت اسلام قبول کئے ہوئے تھا۔

ہم تاریخ میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ قبائل کے بعض سردار،پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے انھیں اسلام کی دعوت دینے پر شرط رکھتے تھے کو آئندہ اسلامی حکومت میں ان کے کردار کو ملحوظ نظر رکھا جائے:

سیرئہ ابن ہشام میں یوں نقل ہواہے:

”پیغمبر اسلام (ص)،بنی عامر کے پاس تشریف لے گئے اور انھیں خدائے عزّو جل کی طرف دعوت دی اور اپنا تعارف کرایا۔ ان میں سے ایک نے آنحضرت (ص)سے یوں کہا:

اٴراٴیت ان نحن بایعناک علی امرک ثم اظهرک اللّٰه علی من خالفک ایکون لنا الامر من بعدک؟ قال: الامر الی اللّٰه یضعه کیف یشاء(۱)

”اگرہم آپ کی بیعت لیں اور آپ کی دعوت پر لبیک کہیں تو کیا آپاپنے مخالفین پرغلبہ حاصل کر نے کے بعداپنی خلا فت کے اختتام پر خلا فت کی بھاگ ڈور ہمیں سپرد کریں گے؟ آنحضرت صلی ا للہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب میں فرمایا:اس کااختیارخداکے ہاتھ میں ہے،وہ جسے چاہے اسے اس عہدہ پر مقرر کرے گا۔“

____________________

۱۔سیرئہ ابن ہشام،ج۲،ص۴۲۵،داراحیائ التراث العربی بیروت،الروض الانف ،۴،ص۱۳۸،السیرةالنبویة،سید احمدزینی دحلان،ج ۱،ص۲۸۳،داراحیائ التراث العربی ،بیروت۔

۷

۱۰ ۔یہ قضیہ ثابت شدہ اور مسلّم فطری امر ہے کہ جوبھی چند افراد کے امور کی زمام ہاتھ میں لئے ہو،انھیں سرپرست کے بغیرنہیں چھوڑتاہے،حتی اگراس کے تحت نظر بھیڑبکریاں بھی ہوں ،تووہ انھیں بھی بے سرپرست نہیں چھوڑتاہے۔

جب خلیفہ دوم اپنی زندگی کے آخری لمحات بسر کر رہے تھے تو عبداللہ بن عمرنے ان سے کہا:

انّ الناس یتحدّثون انّک غیر مستخلف و لو کان لک راعیابل اوراعی غنم ثمّ جاء و ترک رعیته راٴیت ان قد فرّط و رعیةالناس اشدّ من رعیه الابل والغنم ماذا تقول اللّٰه عزّوجل اذلقیته ولم تستخلف علی عباده (۱)

”لوگ یہ کہتے ہیں کہ آپ اپناجانشین مقررنہیں کررہے ہیں جبکہ آپ کے نزدیک اونٹوں نیزبھیڑ،بکریوں کیلئے کوئی نہ کوئی ساربان اورچرواہاہوتااوروہ مویشوں کوچھوڑکرچلاجاتا توآپ اسے قصوروارٹھراتے۔اوریہ بات مسلّم ہے کہ لوگوں کاخیال رکھنااونٹ اوربھیڑکی حفاظت و رکھوالی سے زیادہ اہم ہے۔جب خداکے بندوں کے لئے کسی جانشین کو مقررکئے بغیر آپ اس دنیاسے چلے جائیں گے تو آپ اپنے خدائے متعال کوکیاجواب دیں گے؟“

ام المو منین عائشہ بھی اس قضیہ سے استنادکرتے ہوئے ابن عمرسے کہتی ہیں:

یابنیّ بلغ سلامی وقل له لاتدع امة محمد بلا راع استخلف علیهم ولاتدعهم بعدک هملاً فانی اخشی علیهم الفتنة(۲)

”عمرکومیراسلام کہنااوراس سے کہدیناکہ امت) محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

____________________

۱۔الریاضی النضرة، ج ۲،ص۳۵۳،دارالندوةالجدیدةبیروت،سنن بیہقی ،ج۸،ص۱۴۹، دارالمعرفة بیروت، حلیةالاولیاء،ج۱ص۴۴،دارالفکر

۲۔الامامةوالسیا سة،ج۱،ص۲۳

۸

کواپنے بعد بے مہار اور سرپرست نہ چھوڑ ے اس لئے کہ میں ان میں فتنہ برپا ہونے سے ڈرتی ہوں۔“

اس کے علاوہ بھی روایت ہے کہ عبداللہ بن عمرنے اپنے باپ سے کہا:

”اے کاش!آپ اپنا ایک جانشین مقررکردیتے اگر آپ اپنی طرف سے کسی کو قیّم اور سرپرست کے عنوان سے لوگوں کے پاس بھیجتے ہیں تو کیا اس بات کوپسندنہیں کرتے ہیں کسی کواپناجانشین مقررکردیں؟انہوں نے جواب میں کہا:کیوں نہیں؟ابن عمرنے کہا: جب آپ اپنی بھیڑوں کے لئے ایک نگراں اور سر پرست مقررکر تے ہیں توکیا آپ اس بات کو پسندنہیں کرتے اپنی جگہ پرکسی کومقررکردیں؟“(۱)

معاویہ بھی یزید کی جانشینی کے سلسلہ میں اس سے استنباط کرتے ہوئے کہتاہے:

انیّ ارهب ان داع امة محمدی بعدی کا لضاٴن لاراعی لها(۲)

”میں ڈرتاہوں کہیں ام )محمد (ص))کواپنے بعدچرواہے کے بغیربھیڑبکریوں کی طرح چھوڑدوں۔“

۱۱ ۔پیغمبراسلام (ص)،جب کبھی سفر پر تشریف لے جاتے تھے تو ہمیشہ اپنی جگہ پر کسی کو جانشین مقرر فرماتے تھے اورکبھی مدینہ کو اپنے جانشین کے بغیر نہیں چھوڑتے تھے سیرت اورتاریخ کی کتابوں میں یہ مطلب بیان ہوا ہے اورجن اشخاص کوآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنا جانشین مقرر فرمایا ہے ،ان کے نام بھی کتا بوں میں درج ہیں ۔

سیرئہ ابن ہشام میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے غزوات بیان کئے گئے ہیں،اس سلسلہ میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے مدینہ میں مقررکئے گئے آپ کے جانشینوں کی فہرست

____________________

۱۔طبقات ابن سعد ،ج۳،ص۳۴۳،دار بیروت للطباعة والنشر۔

۲۔تاریخ طبری ،ج۳،جزء۵،ص۱۵۴،مؤسسہ عزالدین للطباعة والنشر،الامامة والسیاسة،ج۱ص۱۸۴ ،منشورات الشریف الرضی

۹

حسب ذیل ذکرکی گئی ہے:

۱ ۔غزوئہ بواط میں :سائب بن عثمان بن مظعون(۱)

۲ ۔غزوئہ عشیرہ میں :اباسلمةبن عبدالاسد(۲)

۳ ۔غزوئہ سفوان یعنی بدراولیٰ میں :زیدبن حادثہ(۳)

۴ ۔غزوئہ بدرکبریٰ میں :ابالبابہ(۴)

۵ ۔غزوئہ بنی سلیم میں :سباع بن عرفطة(۵)

۶ ۔غزوئہ سویق میں :عبدالمنذر)ابولبابہ)(۶)

۷ ۔غزوئہ ذی امر میں :عثمان بن غفان(۷)

۸ ۔غزوئہ فرع میں :ابن ام مکتوم(۸)

۹ ۔غزوئہ بنی قینقاع میں :بشیربن عبدالمنذر(۹)

۱۰ ۔غزوئہ احدمیں :ابن ام مکتوم(۱۰)

۱۱ ۔غزوئہ بنی النضیر میں :ابن ام مکتوم(۱۱)

۱۲ ۔غزوئہ ذات الرقاع میں :ابوذرغفاری یاعثمان بن عفان(۱۲)

۱۳ ۔غزوئہ بدر،دوم:عبداللہ بن عبداللہ بن ابی بن سلول انصاری(۱۳)

۱۴ ۔غزوئہ دومةالجندل میں :سباع بن عرفطة(۱۴)

____________________

۱۔سیرئہ ابن ہشام،ج۲،ص۲۴۸۔ ۲۔سیرئہ ابن ہشام ج،۲،ص۲۵۱ ۳۔سیرئہ ابن ہشام ،ج۲،ص۱ ۴۔سیرئہ ابن ہشام ج،۲ص۲۶۳و۲۶۴ ۵۔ج۳ص۴۹ ۶۔ج۳،ص۵۰ ۷۔ج۳،ص۴۹ ۸۔ج۳،ص۵۰ ۹۔ج۳،ص۵۲

۱۰۔ج۳،ص۶۸ ۱۱۔ج۳،ص۲۰۰ ۱۲۔ج۳،ص۲۱۴

۱۳۔سیرئہ ابن ہشام ج۳،ص۲۲۰ ۱۴۔سیرئہ ابن ہشام ج۳،ص۲۲۴

۱۰

۱۵ ۔غزوئہ خندق میں :ابن ام مکتوم(۱)

۱۶ ۔غزوئہ بنی قریظہ میں :ابن ام مکتوم(۲)

۱۷ ۔غزوئہ بنی لحیان میں :ابن ام مکتوم(۳)

۱۸ ۔غزوئہ ذی قرةمین:ابن ام مکتوم(۴)

۱۹ ۔غزوئہ بنی المصطلق میں :ابوذرغفاری(۵)

۲۰ ۔حدیبیہ میں :نمیلةبن عبداللہ لیثی(۶)

۲۱ ۔غزوئہ خیبر میں :نمیلةابن عبداللہ لیثی(۷)

۲۲ ۔فتح مکہ میں :کلثوم بن حصین(۸)

۲۳ ۔غزوئہ حنین میں : عتاب بن اسید(۹)

۲۴ ۔غزوئہ تبوک میں :محمدبن مسلمةانصاری یاسباع بن عرفطة(۱۰)

صحیح اورمشہورروایت یہ ہے کہ غزوئہ تبوک میں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نیحضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام کو اپنا جانشین مقرر فرمایا۔اس مطلب کے سلسلہ میں تاریخ اوراحادیث کی دسیوں کتابیں گواہ ہیں۔

۲۵ ۔حجتہ الوداع میں :ابودجانہ انصاری یاسباع بن عرفطہ(۱۱)

سریہ وہ جنگیں ہیں کہ جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہ نفس نفیس خود شرکت نہیں فرمائی ہے ،ایسی جنگوں میں پیغمبر )ص )کسی نہ کسی کوبہ حیثیت کمانڈر مقررفرماتے

____________________

۱۔سیرئہ ابن ہشام ،ج ۳،ص۲۳۱ ۲۔سیرئہ ابن ہشام،ص۲۴۵ ۳۔سیرئہ ابن ہشام،ص۲۹۲

۴۔سیرئہ ابن ہشام ص۳۲۱ ۵۔سیرئہ ابن ہشام،ص۳۰۲ ۶۔سیرئہ ابن ہشام،ص۳۲۱

۷۔سیرئہ ابن ہشام،ص۳۴۲ ۸۔سیرئہ ابن ہشام ،ج۴،ص۴۲ ۹۔سیرئہ ابن ہشام،ج۴،ص۹۳

۱۰۔سیرہ ابن ہشام، ج ۴، ص ۸۳ ۱۱۔سیرئہ ابن ہشام،ج۴،ص۲۴۸،داراحیائ التراث العربی،بیروت

۱۱

تھے۔یہاں تک کہ بعض جنگوں میں چندافرادکوکمانڈر کی حیثیت سے مقررفرماتے تھے،تاکہ کسی نا خوشگوارواقعہ پیش آنے کی صورت میں بلافاصلہ ترتیب سے دوسراشخص آگے بڑھ کرکمانڈری سنبھا لے۔جنگ موتہ میں پیغمبر نے زیدبن حارثہ کوکمانڈرمقررفرمایاتھا۔کسی مشکل سے دو چار ہونے کی وجہ سے ان کی جگہ پرجعفربن ابیطالب اوران کے بعدعبداللہ بن رواحہ کو کمانڈر کی حیثیت سے مقرر کیا تھا۔(۱)

بئرمعونہ میں آنحضرت (ص)نے چالیس افرادکوبھیجااورعبدالمنذربن عمرکوان کاامیر قراردیا(۲) ۔اورداستان رجیع میں فقہ کی تعلیم کے لئے چھ افرادکوبھیجااورمرثدبنابی مرثدعنوی کوان کاسردارقراردیا(۳) ۔

اب،جبکہ مذکورہ مطالب نیزان میں غور و حوض کرنے سے معلوم ہو جاتاہے کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اصل مقصدامت کی تربیت کرناتھا،چنانچہ قرآن مجیدنے فرمایاہے:

( ویزکیهم ویعلمهم الکتاب والحکمته ) (۴)

”وہ ان کے نفوذکوپاکیزہ بناتاہے اور انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتاہے۔“

آنحضرت (ص)،اپنی مسافرتوں کے درمیان چاہے وہ جس قدربھی مختصرہوتی تھی،اپناجانشین مقررکرنے میں کوتاہی نہیں فرماتے تھے اورکسی بھی گروہ کوکہیںروانہ کرتے وقت انھیں بے سرپرست نہیں چھوڑتے تھے آپاپنے مستقبل کے بارے میں پوری طرح آگاہ تھے،اس سلسلہ میں اپ کی پیشین گوئیاں موجودہیں،جن کے بارے میں شیعہ واہل سنّت کے بڑے محدثین نے اپنی حدیث کی کتابوں میں ذکرکیاہے۔اس لئے آپ اپنے بعداپنی شریعت پرحملہ آورہونے والے فتنوں سے آگاہ تھے،چنانچہ آپنے اس سلسلہ میں

____________________

۱۔سیرئہ ابن ہشام،ص،۵

۲۔سیرئہ ابن ہشام،ج۳، ص۱۹۴

۳۔سیرئہ ابن ہشام،ج۳،ص۱۸۳

۴۔آل عمران/۱۶۴

۱۲

خودخبردی ہے۔ان سب حقائق کے روشن ہونے کے بعدکیاآپاپنی جانشینی اورخلافت )جوآپکے بعداہم ترین مسئلہ اورآپ کے لئے فکرمندترین موضوع تھا)کے بارے میں کسی قسم کامنصوبہ نہیںرکھتے تھے اوراپنے بعدکسی کواپنے جانشین کی حیثیت سے منصوب و معین نہیں کرتے اور پوری طرح سے اس سے غافل وبے خیال رہتے ؟!! کیا ایسا ممکن ہے ؟!

خداوندمتعال نے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کورسالت کے لئے مبعوث کیا ہے اورآپ کی یوں توصیف کی ہے:

( ولقد جاء کم رسول من انفسکم عزیز علیه ماعنتّم حریص علیکم بالمؤمنین رؤف رحیم ) (توبہ/۱۲۸)

”یقیناتمہارے پاس وہ پیغمبرآیاہے کہ جوتمھیں میں سے ہے اوراس پرتمہاری ہرمصیبت شاق ہے وہ تمہاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتاہے اورمؤمنین کے حال پرشفیق اورمہربان ہے“

یہ ایک ایسامسئلہ ہے جسے عقل سلیم اوربیدارضمیرہرگزقبول نہیں کرتاہے اورقرآن وسنت کی قطعی دلالت اس کے برخلاف ہے۔

اس بناء پرشیعہ امامیہ کاعقیدہ یہ ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد ہونے والے امام اورخلیفہ کا اعلان اور انتخاب خدا وند عالم کی جانب سے فرمایاہے اوریہ مسئلہ قرآن مجید اورپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث میں بیان ہواہے۔

اس کتاب میں قرآن مجیدکی چندایسی آیات پربحث وتحقیق کی گئی ہے جوامامت اورائمہ علیہم السلام کی خصوصیات کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔

۱۳

مذکورہ آیات حسب ذیل ہیں:

۱ ۔آیہ ابتلا

۲ ۔آیہ مباھلہ

۳ ۔آیہ اولی الامر

۴ ۔آیہ ولایت

۵ ۔آیہ صادقین

۶ ۔آیہ تطھیر

۷ ۔آیہ علم الکتاب)آیہ شہادت)

ان آیات میں پہلے،خودآیتوں کے بارے میں بحث وتحقیق کی گئی ہے اور اس کے بعدان سے مربوط احادیث کوبیان کیاگیاہے اوران احادیث سے آیات کی دلالت میں استفادہ کیاگیا ہے۔

چونکہ اہم ان مباحث میں اہل سنت سے بھی مخاطب ہیں،اس لئے ان کے علماء اور مفسرین کانظریہ اوران کی احادیث بھی بیان کرکے علمی طورسے ان پر بحث کی گئی ہے اور اس سلسلہ میں موجود شبہات اوراعتراضات کو بیان کرنے کے بعدان کاجواب دیاگیا ہے۔

۱۴

پہلاباب :

امامت آیہ ابتلاء کی روشنی میں

( ( وإذاابتلیٰ ابرهیم ربّه بکلمات فاٴتمّهنّ قال إنّی جاعلک للنّاس إماماً قال ومن ذرّیّتی قال لا ینال عهدی الظالمین ) ) (بقرہ/۱۲۴)

”اوراس وقت کویادکروجب خدا نے چندکلمات کے ذریعہ ابراھیم علیہ السلام کاامتحان لیااورانھوںنے پوراکردیاتواس)خدا)نے کہا:ہم تم کولوگوں کا قائداورامام بنارہے ہیں۔)ابراھیم علیہ السلام)نے کہا گیا یہ عہدہ میری ذریت کو بھی ملے گا؟ارشادہواکہ یہ عہدئہ امامت ظالمین تک نہیں پہونچے گا۔“

اس آیہء کریمہ سے دو بنیادی مطلب کی طرف اشارہ ہو تاہے:

۱ ۔منصب امامت،نبوت ورسالت سے بلندترہے۔

۲ ۔منصب امامت،ظالموں اورستم گاروں کونہیں ملے گا۔

یہ مطلب تین باتوں پرمشتمل ہے:

پہلی بات:منصب امامت کابلندمرتبہ ہو نا۔

دوسری بات:منصب امامت ظالموں اورستم گاروں کونہیں ملے گا۔

تیسری بات:منصب امامت کازبان امامت سے تعارف۔

۱۵

پہلی بات

منصب امامت کابلند مرتبہ ہو نا

ہم اس آیہء شریفہ میں دیکھتے ہیں کہ خدائے متعال نے حضرت ابراھیم علیہ السلام سے بڑھاپے کے دوران نبوت رسالت کو سالہا سال گزرنے کے بعدان کی عمرکے آخری مرحلہ میں امتحان لیااور انھوں نے اس امتحان الہٰی کوقبول کیا اورکامیابی کے ساتھ مکمل کردکھا یا امامت کاعہدہ وہ ارتقائی درجہ تھا جواس عظیم ا متحان اورصبروثبات کے بعدانھیںعطاکیاگیا۔

آیہء کریمہ سے اس مطلب کو بہتر طریقہ سے واضح کرنے کے لئے،درج ذیل چند بنیادی نکات کی وضاحت ضروری ہے:

۱ ۔حضرت ابراھیم علیہ السلام کے امتحان اوران کی امامت کے درمیان رابطہ کیسا ہے؟

۲ ۔اس آیہء کریمہ میں بیان کیاگیاامتحان،کس قسم کا امتحان تھا؟

۳ ۔کیایہ کہا جاسکتاہے کہ،حضرت ابراھیم علیہ السلام کو عطا کئے گئے عہدہ امامت سے مرادان کا وہی منصب نبوت ورسالت ہی ہے؟

۴ ۔حضرت ابراھیم علیہ السلام کوعطا کی گئی امامت،کس چیزپردلالت کرتی ہے؟

۱۶

امتحان اورمنصب امامت کارابطہ

آیہء کریمہ:( واذابتلیٰ ابراهیم ربّه بکلمات فاٴتمّهنّ قال انّی جا علک للناس إماماً ) میں لفظ”إذ“ظرف زمان ہے اوراس کے لئے ایک متعلق کی ضرورت ہے۔”إذ“کامتعلق کیاہے؟

پہلااحتمال یہ ہے کہ”إذ“کامتعلق”اذکر“)یادکرو)ہے،جومخذوف اورپوشیدہ ہے،یعنی:اے پیغمبر (ص)!یاداس وقت کو کیجئے جب پروردگارنے ابراھیم علیہ السلام کا چندکلمات کے ذریعہ سے امتحان لیا۔

اس احتمال کی بنیادپرچنداعتراضات واردہیں:

۱ ۔مستلزم حذف وتقدیر)متعلق کو مخذوف اور مقدر ماننا)خلاف اصل ہے۔

۲ ۔”( إنی جاعلک للناس إماماً ) “کا اس کے پہلے والے جملہ سے منقطع ہو نا حرف عطف کے بغیرہونا لازم آتاہے۔

وضاحت:جملہء”قال انّی جاعلک“کابظاہرسیاق یہ ہے کہ وہ اپنے پہلے والے جملہ سے علٰحیدہ اورمنقطع نہیں ہے اورمعنی ومضمون کے لحاظ سے قبل والے جملہ سے وابستہ ہے،اورچونکہ اس کے لئے حرف عطف ذکرنہیں ہواہے،اس لئے بظاہر اس جملہ کے آنے سے پہلاجملہ مکمل ہوتا ہے،اوران دونوں فقروں کے درمیان ارتباط کلمہ”إذ“کے”قال“سے متعلق ہونے کی بناپرہے۔اسی صورت میں ایہء شریفہ کامعنی یوں ہوتا ہے:”جب ابراھیم علیہ السلام سے ان کے پروردگار نے امتحان لیا،توان سے کہا:میں تم کولوگوں کے لئے امام قرار دیتاہوں۔“اس بناپریہ امتحان حضرت ابراھیم علیہ السلام کو منصب امامت عطا کرنے کے لئے ایک وسیلہ اور ذریعہ تھا۔

۱۷

آیہء کریمہ کے اس مطلب پر قطعی گواہ کے لئے ایک دوسری آیت ہے کہ اس میں پیغمبروں کے ایک گروہ کے لئے صبروامامت کے درمیان رابطہ بخوبی بیان ہوا ہے:

( وجعلنا منهم ائمته یهدون بامرنا لماّصبروا وکانوا بآیاتنایوقنون ) (سجدہ/۲۴)

”اورہم نے ان میں سے کچھ لوگوں کوامام اورپیشواقراردیاہے جوہمارے امرسے لوگوں کی ہدایت کرتے ہیں،اس لئے کہ انہوں نے صبرکیاہے اورہماری آیتوں پریقین رکھتے تھے۔“

اس آیہء شریفہ میں ان پیغمبروں کوامامت ملنے کاسبب صبرویقین بیان کیاگیاہے اور یہ رابطہ حضرت ابرھیم علیہ السلام کے امتحان اورامامت کے درمیان رابطہ کوزیربحث آیت میں واضح اورروشن کرتاہے۔

۱۸

حضرت ابراھیم علیہ السلام کاامتحان

حضرت ابراھیم علیہ السلام کے امتحانات اور ان کی یہ آزمائشیں کن مسائل اور امور سے متلق تھیں کہ جس کا نتیجہ امامت کا عظیم عطیہ قرار پایاتھا۔

آیہء شریفہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ امتحان چند کلمات کے ذریعہ لیا گیا اورحضرت ابراھیم علیہ السلام نے انھیں مکمل کر دکھایا۔بظاہریہ کلمات ایک خاص قسم کے فرائض اوراحکام تھے کہ جن کے ذریعہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کا امتحان لیاگیا۔

قرآن مجیدمیں ،حضرت ابراھیم علیہ السلام کی تاریخ کے سلسلہ میں جوچیز”واضح وروشن امتحان“کے عنوان سے بیان ہوئی ہے،وہ ان کا اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کااقدام ہے:( إن هذا لهوالبلائ المبین ) (۱) بیشک یہ بڑا واضح و روشن متحان ہے)یہ)بیٹے کوذبح کرنے کااقدام)حقیقت میں وہی کھلاامتحان ہے۔یہ امتحان حضرت ابراھیم علیہ السلام کے اپنے پروردگار کے حضورمیں ایثاروقربانی اورمکمل تسلیم ہونے کامظہرتھا۔

اس مطلب کی طرف اشارہ کر نا ضروری ہے کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کایہ امتحان ان کی پیری اور بڑھاپے میں انجام پایاہے اور وہ بھی اس وقت جب ان کا بیٹاجوانی کے مرحلہ میں داخل ہوچکاتھا۔حضرت ابراھیم علیہ السلام اپنی جوانی کا مرحلہ طے کرنے تک صاحب اولادنہیں تھے۔جب بڑھاپے کے مرحلہ میں پہنچے اور اولادسے ناامیدہوئے، توخدائے متعال

____________________

۱۔ صا فات/۱۰۶

۱۹

نے انھیں اسماعیل واسحاق نام کے دو بیٹے عطاکئے اور یہ اس حالت میں تھاکہ جب ان کی نبوت اور رسالت کو سالہاسال گزرچکے تھے۔

کیااس آیت میں امامت سے مرادان کی وہی نبوت ورسالت نہیں ہے؟

خدائے متعال نے جوامامت حضرت ابراھیم علیہ السلام کوعطاکی،کیاوہ،وہی ان کی نبوت ورسالت تھی،جیساکہ بعض مفسرین نے بیان کیا ہے،یایہ امامت کوئی دوسراعہدہ ہے؟

اس سے پہلے بیان کئے گئے مطلب سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ امامت،درج ذیل دودلائل کے پیش نظرحضرت ابراھیم علیہ السلام کے پاس پہلے سے موجودنبوت ورسالت کے علاوہ تھی:

پہلے یہ کہ:یہ آیہء شریفہ اس بات پردلالت کرتی ہے کہ یہ امامت، حضرت ابراھیم علیہ السلام کوبہت سے امتحانات کے بعد عطاکی گئی ہے،کہ ان امتحانات کا ایک واضح وروشن نمونہ ان کااپنے بیٹے کو ذبح کرنے کااقدام تھاجبکہ نبوت ورسالت انھیں پہلے دی جاچکی تھی۔

دوسرے یہ کہ:آیہء کریمہ میں ”جاعلک“اسم فاعل ہے اور ادبی لحاظ سے اسم فاعل صرف اسی صورت میں اپنے مابعد پر عمل کر سکتا ہے اور کسی اسم کومفعول کے عنوان سے نصب دے سکتا ہے،جب ماضی کے معنی میں نہ ہو، ۱ بلکہ اسے حال یامستقبل کے معنی میں ہوناچاہئے۔اس بنا پرآیہء شریفہ:( إنیّ جاعلک للنّاس إماماً ) میں فاعل”جاعل“ کے دومفعول ہیں)ایک ضمیر”کاف“اوردوسرا”اماماً“)اس لئے ماضی کوملحوظ نظر نہیں قرار دیا جا سکتا۔

____________________

۱-البھجتہ المرضیتہ،مکتبتہ المفید،ج۲،ص۵-۶

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

مسافت ہے، لیکن اگر اس مسا فت کواس مسا فت سے جو کہ آ فتاب منظو مہ شمشی کے سب سے دور والے سیارہ سے رکھتا ہے، موازنہ کیاجائے تو بہت کم اورمختصر لگے کی بطور مثال ،''پلو ٹون'' سےّارہ کی مسا فت زمین سے تقریبا ً زمین اور خورشید کی مسا فت کے چا لیس گنا ہے یعنی ۳ ارب چھ سو بیس ملین(۰۰۰،۰۰۰،۶۲۰،۳) میل ہے۔

اصل'' کون و ہستی '' سے متعلق بہت سارے نظریات ہیں ، ان میں سب سے جد ید '' بیگ با نگ''( ۱ ) کی تھیوری ہے جو ۱۹۲۰ء میں جارج لا میٹر کے ذریعہ پیش کی گی ہے وہ واضح طور پر کہتا ہے: تمام مواد اور اشعہ ہستی میں ایک عظیم دھماکہ سے ظہور میں آئی ہیں اور طبیعت کی یہ وسیع شکل ا سی کا نتیجہ ہے اور اسی طرح یہ وسیع ترہو تی چلی جا رہی ہے ۔

اس نظریہ کے مطابق مذکورہ دھماکہ تقریبا ً ۱۰ سے ۲۰ ہزار ملین سال قبل و اقع ہوا ہے؛ اور اس بات کی طرف تو جہ کر تے ہو ئے کہ ہائیڈروجن اور ہلیوم کا ابتدائی اور بلند ترین درجہ ٔ حرارت اس طرح کی ناگہانی وسعت اور ہستی کی یکبارگی تشکیل کے لئے ہلیوم گیس سے کافی تھا ، یہ نظریہ پریکٹیکل تجربات سے بخوبی ہماہنگی رکھتا ہے۔

اس سلسلے میں حیرت انگیز اور قابل تو جہ ایک دوسرا انکشاف ہے جو کہ ''ہا بل''( ۲) کے قانو ن کے نام سے ہستی کی وسعت کے بارے میں معروف ہے ، اس تھیو ری کے مطا بق''کون وہستی'' کی وسعت ایک دائمی امر ہے اور یہ گسترش اور وسعت ہستی کی تمام جہا ت میں یکساں ہے ، یہ تھیو ری کہتی ہے :دورکی کہکشاؤں میں موجود ستاروں سے ساطع ہونے والے نو ر کا رنگ سُر خ طیف کی انتہا کی طرف حرکت کرتا ہے، یعنی ان کے طیفی خطوط بلند ترین موجوں کے طول کی طرف مکا ن بدلتے رہتے ہیں اور یہ یعنی کہکشائوں کا ہم سے اور ہماری کہکشائوں سے دور ہونااور عا لم میں کہکشاؤں کے درمیان فا صلوں کا اضا فہ ہونا ہے۔

آخر میں ستارہ شنا س دانشوراور علم نجوم کے ماہرین بہت عظیم کہکشا ؤں کے بارے میں خبر دیتے ہیں جو راہ شیری کہکشاں( ۳ ) کی کئی گناہیں، جن کا فاصلہ ہما ری زمین سے دس ملین نوری سال ہے۔

____________________

(۱) BIGBANG THEORY

(۲)''اڈوین پاول ہابل ''ایک امریکی دانشور ہے کہ جو علم نجوم میں مہارت رکھتا تھا۱۸۸۹ ۔ ۱۹۵۳ء

(۳) milkyway

۲۲۱

ان کہکشاؤں کی شنا خت پہلے مر حلہ میں تمام ہو ئی اور بہت سارے دانشو ر اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ'' کون و ہستی'' بے انتہا وسعت اورپھیلاؤ کی جانب گامزن ہے یا ناچاراندر کی طرف سمٹ رہی ہے۔

کون و ہستی قرآن کریم کی روشنی میں

قرآن کریم جو کہ آخری آسمانی کتا ب ہے،بدرجہ ٔ اکمل وضاحت کے ساتھ عالم ہستی و آفر ینش کے بنیادی و اسا سی حقا ئق سے پردہ اٹھا تی ہے اور اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ: جو کچھ'' کون و ہستی'' میں پا یا جاتا ہے خدا وند خالق و ربّ العا لمین '' کی تخلیق و آفر ینش کی نشانی ہے،خدا وند عالم نے چاند، سورج اور آسمان و زمین نیز ان کے ما بین جو کچھ ہے سب کو متنا سب اندا زہ میں خلق کیا ہے۔قرآن کریم اس سلسلے میں فر ما تا ہے:

( بدیع السموات والأرض واِذا قضیٰ أمرا ً فا نّما یقو ل له کن فیکون ) ( ۱ )

زمین اور آسمانوں کو وجود دینے والا وہ ہے اور جب بھی کسی چیز کے ہو نے کا حکم صا در کرتاہے، تو صرف کہتا ہے : ہو جا ، تو وہ چیز فو را ً وجود میں آجا تی ہے ۔

لفظ '' بدیع'' آیت میں اس بات پر دلیل ہے کہ خدا وند عالم اشیا ء کو عدم سے وجود میں لایا ہے ،را غب اصفہانی '' مفردات '' نامی کتا ب میں فرماتے ہیں : کلمۂ'' بدع'' اس معنی میں ہے کہ کو ئی چیز بغیر ''ما دہ''اور نمونہ ''آئیڈیل '' کے وجود میں لائی جائے ، یہ لفظ جب بھی خدا کے بارے میں اور اس کے اسمائے حسنی اور صفات کی ردیف میں ذکر ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا نے اشیا ء کوعدم سے خلق فرمایا ہے،'' قرآن کریم دوسری جگہ فرماتا ہے:

( وهوالذی خلق السّموات والأرض با لحقّ و یو م یقول کن فیکون ) ( ۲ )

وہ جس نے آسمانوں اور زمینوں کو حق کے ساتھ خلق فرمایا ہے اور جس دن کسی بھی چیز سے کہتا ہے : ہو جا ! تو وہ فورا ً مو جود ہو جا تی ہے ۔راغب فرماتے ہیں: کلمۂ'' حق '' کا استعمال کر نا بے مثا ل اور جدید چیز کی طرف اشارہ ہے ، کہ جب بھی خالق کی صفت سے مر بوط ہو ، تو اس سے مراد کسی نٔی چیز کو عدم سے وجود میں لانا ہے، یعنی خدا وہ ہے جو آسمانوں اور زمینوں کو عدم سے وجود میں لایا ۔

____________________

(۱)بقرہ ۱۱۷۔(۲)انعام ۷۳

۲۲۲

دو سری جگہ پر عالم خلقت کے مادی اور طبیعی مظاہر کے بارے میں ا رشاد فرماتا ہے:

( هو الذی جعل الشمش ضيٰا ئً والقمر نوراً وقدَّ رهُ منٰا زل لتعلموا عدد السِّنین والحسا ب مٰا خلق ﷲ ذٰ لک الاّ با لحق يُفصِّل الا یات لقوم ٍ یعلمون ) ( ۱ )

خداوہ ہے جس نے سورج کوضیا باراور چاند کو نور بنا یا ہے اور اس (چا ند)کے لئے منزلیںمقررکیں تاکہ سال کا شمار اورکاموں کا حسا ب جان سکو، خدا وند عالم نے انھیں صرف حق کے ساتھ خلق کیا ، وہ (اپنی) آیات کی ان لوگو ں کے لئے جو سمجھتے ہیں تشریح کرتا ہے۔

قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ خدا وند عالم عظمت تخلیق کی طرف اشارہ کر تے ہوئے فر ماتا ہے۔

( أولم یروا أنَّ ﷲ الذی خلق السَّموا ت والأ رض و لم یعی بخلقهنَّ بقا در ٍ علیٰ أن يُحیی المو تیٰ بلیٰ انَّه علیٰ کلّ شی ء ٍ قدیر ) ( ۲ )

کیا وہ نہیں جانتے جس خدا نے آسمانوںاور زمینوں کو خلق فرمایا اور ان کی تخلیق سے عا جز وناتواں نہیں ہے تھا وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ وہی مردوں کو زندہ کر دے ہے؟ ہاں وہ ہر چیز پر قادر وتوانا ہے۔

گز شتہ آیات واضح طور پر بیان کر تی ہیں: صرف خدا وند عزوجل ہے جس نے اس عا لم محسو س کوبالکل صحیح اندازے کے مطابق موزوں اور منا سب طور پر خلق فرمایا ہے اور دوبارہ ان تمام موجو د کی تخلیق اوران کے لوٹانے پر قادر ہے، مادہ کی ہے تخلیق اور عالم ہستی کے تمام قوا نین اور ان کو حرکت میں لانے والی قوتوں میں اصل اصیل خدا وند عالم کا امر اورفرمان ہے ۔

تخلیق کی کیفیت

قرآن کریم نے '' ہستی '' کی تخلیق کی کیفیت کو متعددبار بیان کیا ہے؛ درج ذیل آیات تخلیق کے بنیا دی اصول و طرز کا خلا صہ ہما رے سا منے اس طرح پیش کرتی ہیں:

الف۔( أولم یر الّذین کفر وا أنَّ السموات والأرض کا نتارتقا ً ففتقنٰهُما و جعلنا من الماء کلّ شی ئٍ حیٍّ ) ( ۳ )

____________________

(۱)یونس ۵(۲)احقاف ۳۳.(۳)انبیاء ۳۰

۲۲۳

آیا جو لوگ کافر ہو گئے ہیں کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین ،متصل اورپیو ستہ تھے تو ہم نے انھیں جدا کیا اور وسیع بنایا اور ہر چیز کو پا نی سے حیا ت بخشی؟

دوسری آیت میں زمین کی خلقت کے بعد آسمان کے شکل اختیا ر کرنے کے طریقے اور متقا بل تا ثیر اور امر خلقت کے پے در پے ہو نے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرما تا ہے ۔

ب۔( ثُمَّ استو یٰ الی السما ء وهی دُخان فقا ل لها وللأ رض ائتیا طوعا ً او کر ها ً قا لتا أتینا طا ئعین ) ( ۱ )

پھر آسمان کی طرف متو جہ ہوا جبکہ ابھی وہ دھواں تھا ، پھر اس سے اور زمین سے کہا : اپنی خواہش اور مرضی سے یا جبر وا کراہ کے ساتھ آگے آؤ! دونوں نے کہا : ہم اطاعت گزار بن کر حاضر ہیں۔

پہلی آیت نے درج ذیل حقائق سے پر دہ ہٹا یا ہے:

۱ ۔جو مادہ'' ہستی'' کی پیدا ئش میں مو ثر ہے اس کی ایک ہی ما ہیت اور حقیقت ہے۔

۲ ۔تمام '' ہستی'' ایک ٹکڑے کے مانندباہم پیو ستہ اور جڑی ہوئی ہے۔

۳ ۔ اجزا ء ہستی کی وسعت او ر اس میں تفکیک طبیعی قوا نین اور مادہ کے تحول و تبدل کی روش پر مبتنی اور منظم ہے، یہ نظام صرف منظو مہ شمشی اور ہماری کہکشاں میں جو سیا رے انہیں سے وابستہ ہیں اس میں خلاصہ نہیں ہوتاہے، بلکہ خود کہکشا ئیں بھی،ایک برتر اور وسیع تر نظا م کا جز ہیں جو کہ ایک دوسری شکلمیں ،(منظومہ شمسی کے مانند) اپنے مر کزی محور پر گر دش کر رہی ہیں۔

ڈاکٹر''موریس بو کیل'' نے آخری زمانے میں ایک نظر یہ کی بنا رکھی جو ''ہستی ''کی شکل اختیا ر کر نے کے سلسلہ میں قرآن کی آیات کی روشنی میں بعض مسلمان علماء کے نظریہ کے مطابق ہے وہ '' کل کو قابل شمارش اجزاء میں تفکیک اور تبدیل کرنے کی فکر کے سلسلہ میں '' کہتا ہے :جدا ئی اور تفکیک ہمیشہ ایک مرکزی نقطہ سے ہوتی ہے جس کے عنا صر ابتدا ء میں ایک دوسرے سے متصل اور جڑے ہوئے ہوتے ہیں '' یعنی وہی کہ جس کو آیہ شر یفہ میں کلمہ '' رتق'' یعنی متصل اور پیو ستہ سے اور '' فتق''یعنی کھلا اور جدا سے تعبیر کیا گیاہے ۔

موجودہ علمی نظریہ کے مقا بل جو کچھ '' انفجا ر ہستی''( ۲ ) کے عنوا ن سے معروف ہوا ہے، وہ ایک زمانے میں ایک اتفاقی حا دثہ کا نتیجہ ہے جو انتہائی درجہء حرارت کی وجہ سے استثنائی صورت میں پیش آیا تھا اور فرض یہ

____________________

(۱)فصلت ۱۱(۲) bigbang

۲۲۴

ہے کہ اس انفجا ر(دھماکہ) کے وقت تمام ہستی ایک نقطہ پر ایک جز کی حیثیت سے تھی اور یہ جدائی اس میں ظاہر ہو ئی ہے سوائے اس کے کہ یہ مادی قوانین اس انفجا ر کا نتیجہ نہیں ہیں ،یہ نظریہ معلومات کے لحا ظ سے ان معلو مات کے مشا بہ ہے جس کا قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے۔

جوبات حیرت میں اضا فہ کاباعث ہے یہ ہے کہ قرآن کریم نے ۱۴۰۰ سو سال سے زیا دہ پہلے اس راز سے پر دہ اٹھا یا ہے، جب کہ اس وقت کوئی علمی بحث اس طرح کی مو جود نہیں تھی ! ٹھیک اسی طرح سے قرآن کریم نے ''ہا بل '' کے نظریہ میں جو کہ ہستی کی وسعت کے بارے میں حقائق بیان ہوئے ہیں ان اس سے بھی پردہ اٹھا یا ہے اور سورہ '' ذاریات ''کی آیہ(۴۷) میں ارشاد ہو تا ہے :

( والسّما ء بنینا ها بأیدٍ وانا لمو سعو ن )

ہم نے آسمان کی قدرت کے ساتھ بنیادرکھی اورہم ہمیشہ اسے وسعت بخشتے ہیں۔

جب ہم جدید نظریے کے مطا بق ہستی کی وسعت اوراس کے طول و عرض کو سمجھنا چاہتے ہیں تو اس نتیجہ تک پہنچتے ہیں کہ خو رشید میں مو جو د ''ہائیڈرو جن'' ہمیشہ ایٹمی اور نیوکلیائی پگھلاؤ نے سے ہلیوم کے عنصر میں تبدیل ہو تا رہتا اور نورا نی غبار( ۱ ) یعنی جو بہت چھوٹے چھوٹے ستا روں کے تودیغبار کے ذرات کے مانند نظر آتے ہیں ،وہ حرارت آمیز ایٹمی اور نیو کلیائی شعلوں کے علاوہ کو ئی دوسری شۓ نہیں ہیں۔

اس طرح تمام ہستی بارور قدرت اور توانا ئی سے مرکب اور اسی پر مبنی ہے اور یہ صورت حال ہمیشہ تو سعہ اوروسعت کی حالت میں ہے، یہ نتیجہ اس فر ض کی بنیاد پر ہے کہ '' سرخ انتقا ل یا تحول''( ۲ ) پیمانہ سرعت کے امکان کے ساتھ نور پراجسام کی متقابل تا ثیر کا نتیجہ ہے ۔

ہم اس سلسلے میں ، یعنی ہستی کی وسعت کے بارے میں جب قر آن کریم کی طرف مر ا جعہ کرتے ہیں تو اس کے لئے سب سے اہم کلمہ لفظ عالمین ہم کو نظر آتا ہے کہ جس کی دسیوں بار قرآن کریم میں تکرار ہو ئی ہے ،جیسے:

۱۔( و لکن ﷲ ذو فضل ٍ علی العا لمین ) '

لیکن خدا وند عا لم '' عا لمین'' کی نسبت لطف و احسا ن رکھتا ہے۔( ۳ )

۲ ۔( قل أنَّ صلا تی و نسکی و محیا ی و مما تی للّٰه ربّ العا لمین ) ( ۴ )

کہو!ہما ری نما ز ، عبادت ،زندگی اور موت سب کچھ عا لمین کے ربّ کے لئے ہے۔

____________________

(۱) stardust (۲) redshift (۳)بقرہ۲۵۱ (۴)انعام۱۶۳

۲۲۵

۳ ۔( ألا له الخلق والأمر تبا رک ﷲ ربّ العا لمین ) ( ۱ )

آگا ہ ہو جاؤ ! تخلیق و تد بیر اس کی طرف سے ہے ، عا لمین کا پروردگار بلند مرتبہ خدا ہے۔

۴ ۔( و ما أرسلنا ک اِلاّ رحمة ً للعا لمین ) ( ۲ )

تمھیں عا لمین کے لئے صرف رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

۵ ۔( اِنّی اِنّا ﷲ ربُّ العا لمین ) میں ہوں''عا لمین '' کا پروردگا ر خدا۔

جن آیات کو ہم نے پیش کیا ہے وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ عا لم کا سید نظم بر قرار رکھنے والا، حا فظ، خالق اور پروردگار اپنے وسیع معنی میں خدا وند سبحا ن ہے اور کلمۂ ''عا لمین'' ہستی یا عا لم کے متعددہونے کے معنی میں آیا ہے۔

ان عوالم میں کروڑوں کہکشا ئیں پائی جا تی ہیں اور ایک کہکشاں کے ان گنت اور بے شمار منظوموں میں سے ہر ایک منظومہ میں ایسے کروڑوںثابت اورسیار ستار ے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے ارتباط اور اتصال رکھتے ہیں اور اگر کسی راہ شیری کہکشاں کے اربوں ستاروں میں سے کوئی ایک ستارہ کسی ایک سیاّرے سے پیو ستہ مثلاً ہماری زمین سے اور مر بوط ہو، تو اس کے معنی یہ ہو ں گے کہ کروڑوں سیاروں کے زمین سے متصل ہو نے کا امکان ہے اور '' ہستی شنا سی'' کے جد ید علم کے مطا بق دیگر سیارات سے ناگہا نی ارتباط اور اتصال ند آنے والے زمانے میں بعید نہیں ہے۔

ڈاکٹر'' موریس بو کیل'' نے ہستی کی وسعت اور ضخا مت کے بارے میں جد ید علمی معلو مات فر اہم کی ہیں،جیسے خو رشید کی شعاع اور نور کے پلوٹون تک پہنچنے کے لئے، جو کہ منظو مہ شمسی کا ایک سیاّ رہ ہے، نور کی رفتار سے( جس کی سرعت ہر سکینڈ میں تین لاکھ کیلو میٹر ہے) تقر یبا چھ گھنٹہ کاوقت در کار ہے۔

اس لحاظ سے ، آسمانو ں کے دور دراز ستاروں کے نور کوہم تک پہنچنے کے لئے لاکھوں سال در کار ہوتے ہیں ۔

عالم طبیعت کی یہ مختصراور بطور خلا صہ تحقیق کسی حد تک اس آ یۂ شر یفہ کے سمجھنے میں معا ون ثا بت ہو تی ہے:

( والسّما ء بنیناها بأید و اِنّا لموسعو ن ) ( ۳ )

آسما ن کو ہم نے قدرت سے بنا یا اور مسلسل ہم اسے وسعت عطا کرتے رہتے ہیں۔

اور جب بات طبعیت اور ہستی کی تاریخ کی ابتداء میں '' خاکستر اور دھوئیں'' کے متعلق ہو تو قرآن کریم

____________________

(۱)اعراف ۵۴(۲)انبیائ۱۰۷ (۳)ذاریات۴۷

۲۲۶

اس راز سے بھی پر دہ اٹھا تے ہوئے فرماتا ہے:

( ثُمَّ استو یٰ اِلیٰ السّما ء و هی دُخان ) ( ۱ )

پھر وہ آسمان کی تخلیق میں مشغو ل ہو گیا جب کہ وہ دھوئیں تھا۔

طبیعت و ہستی کے آغاز پیدا ئش میں '' دھوئیں'' کا و جود اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس وقت ہستی میں پایاجانے والا مادہ گیس کی صورت میں تھا ، جد ید دانش میں محققین '' سد یمی ابر''( ۲ ) کی تھیو ری پیش کرتے ہیںاور کہتے ہیں : اپنے پہلے مر حلہ میں طبیعت و ہستی اسی طرح تھی۔

قرآ ن کریم فر ماتا ہے:

( قل أئنکم لتکفرون با لذ ی خلق الأرض فی یو مین و تجعلون له اندادا ً ذلک ر بُّ العا لمین)( وجعل فیها روا سی من فو قها...ثُمَّ استو یٰ اِلیٰ السّما ء و هی دُخا ن ) ( ۳ )

کہو! کیا تم لوگ اس ذا ت کا ا نکا ر کرتے ہو جس نے زمین کو دو دن مین خلق کیا ہے اور اس کے لئے شریک قرار دیتے ہو ؟ وہ تمام عالمین کا ربّ ہے !اُ س نے زمین میں استوار اور محکم پہا ڑوں کو قرار دیا پھر آسما نوں کی تخلیق شروع کی جب کہ وہ دھوئیں کی شکل میں تھا۔

جب ہم ان آیات کی تلا وت کرتے ہیں تو درک کرتے ہیں کہ '' طبیعت و ہستی ''کا شکل اختیار کرنا اولین''سدیمی'' بادلوں کا تہ بہ تہ ڈھیرہونا پھران کی ایک دوسرے سے جدا ئی کا نتیجہ ہے ، یہ وہ چیز ہے کہ قرآن کریم وضا حت کے ساتھ جس کے راز سے پردہ اٹھا تا ہے پھر ان کاموں کی طرف اشارہ کرتے کرتے ہوئے کہ جن سے آسمانی '' دھوئیں اور دخان '' میں اتصال و انفصال پیدا ہوتا ہے، خلقت کا راز ہم پر کھو لتا ہے، یہ وہی چیز ہے جس کو جد ید علم اصل '' طبیعت و ہستی '' کے بارے میں بسط و تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے۔

____________________

(۱)فصلت۱۱ (۲) nebula (۳)فصلت ۹ تا۱۱

۲۲۷

فہرستیں

جلد اول و دوم

ترتیب و پیشکش: سردارنیا

اسماء کی فہرست

جلد اول ودوم

حضرت آدم ـ : جلد اول :۱۷،۱۹،۵۶،۵۸،۶۸،۱۰۱،۱۰۲،۱۰۳،۱۰۹،۱۱۱،۱۱۲،۱۱۵،۱۱۶،۱۱۷،۱۲۰،

۱۲۱،۱۲۳،۱۲۴،۱۲۵،۱۲۶،۱۲۷،۱۲۸،۱۲۹،۱۳۳،۱۳۴،۱۳۵،۱۳۶،۱۳۷،۱۳۸،۱۴۷،۱۶۰،۱۶۱،۱۶۳،۱۶۴،۱۶۵،۱۷۳،۱۷۶،۱۸۲،۱۸۸،۱۹۰،۱۹۱،۱۹۲،۲۰۰،۲۱۹،۲۲۰،۲۲۱،۲۲۲،۲۲۵،۲۳۹،۲۴۴،

۲۶۹،۲۷۲،۲۷۳،۲۸۰۔

جلددوم:۱۵،۱۷،۱۸،۱۶۹،۱۸۶،۲۴۱،۲۸۰۔

آسیہ :۲۳۔ج۱.

آصف محسنی : ۲۲۶

آل ابرا ہیم : ۲۸۰۔ ج۱.

آل عمرا ن : جلداول:۲۸۰۔جلددوم: ۳۷۔

آل فرعون : جلددوم : ۳۰۔۶۷۔

آل موسیٰ : جلددوم۴۸۔

آ ل ہا رون : جلددوم:۴۸۔

آمری : جلددوم:۲۱۷۔

ابراہیم :۲۵،۲۶،۲۸،۸۰،۱۴۷،۱۴۸،۱۵۶،۱۶۶،۱۷۲،۱۷۳،۱۸۲،۱۸۶،۲۰۳،۲۱۸،۲۲۵،۲۲۸،

۲۳۷،۲۳۸،۲۳۹،۲۴۴،۲۶۹،۲۷۶،۲۷۷،۲۸۰،۲۹۳۔

۲۲۸

جلددوم:۱۳،۱۷ تا ۲۷،۳۴،۳۵،۳۷،۴۳،۶۱،۶۲،۱۵۲۔

ابلیس: ۸۹،۱۰۲،۱۰۳،۱۰۷،۱۰۹،۱۱۱،۱۱۲،۱۱۵،۱۱۶،۱۱۸،۱۲۳،۱۲۴،۱۲۶،۱۲۷،۱۳۲،۱۳۷،۱۵۰،

۱۶۰،۱۶۱،۱۶۴،۱۶۳،۲۰۶،۲۲۱،۲۳۵،۲۳۷،۲۴۰۔

جلددوم:۱۹،۵۳،۹۹،۱۲۰،۱۴۰،۱۵۵۔

ابن ابی الحدید : ۱۳۲.

ابن ابی العو جا ء : ۲۵۴،۲۵۵۔

ابن اثیر :۲۲۰۔

ابن با بویہ :جلددوم:۲۳۴،۲۳۷۔

ابن بطہ : جلددوم: ۲۱۶.

ابن تیمیہ : جلددوم: ۲۱۸۔۲۱۹۔

ابن حجر :۲۵۵

ابن حزم : جلددوم:۱۹۳،۱۹۴،۲۱۵۔

ابن حبان:۲۵۵.

ابن خزیمہ : جلددوم:۲۱۶.

ابن خلکان : ۲۵۳.

ابن رشد :جلددوم:۲۱۸۔ ۲۱۹۔

ابن زیاد : جلددوم:۲۰۸۔

ابن سعد :۱۲۹۔۱۸۸۔ ۲۲۰۔ ۲۵۳۔۴ ۲۵۔

جلددوم :۱۸۵۔

ابن سینا : جلددوم:۲۱۸۔

ابن طفیل : جلددوم:۲۱۸۔

۲۲۹

ابن طولو ن : جلددوم:۲۳۷.

ابن عبا س : ۱۷۔۱۸۸۔۲۰۹۔۲۱۹۔ جلددوم:۱۵۲۔ ۱۸۲۔۱۸۳۔ ۲۰۱۔

ابن عبا س جو ھری :جلددوم:۲۳۷۔

ابن عساکر : جلددوم:۱۳۲۔ ۲۰۱۔

ابن قدامہ: جلددوم: ۲۱۶۔

ابن کثیر : ۱۸۸۔ ۲۲۰۔۲۸۴۔ جلددوم:۵۷۔۱۱۴۔۱۵۲۔۱۸۱۔۱۸۲۔ ۲۲۲۔

ابن کلبی : جلددوم:۱۹۔

ابن ما جہ :جلددوم:۱۸۵۔۲۱۸۔

ابن منظور : ۳۸۔

ابن ہشا م : ۲۸۵۔ جلد دوم :۲۵۱۔

ابو الحسن اشعری:جلددوم:۲۱۵۔۲۱۹۔

ابو بکر ( خلیفہ )۲۷۹۔

ابو حا تم : ۲۵۵۔

ابو حنیفہ : ۲۶۲۔

ابو داؤد : ۱۲۹۔

ابو طا لب تجلیل : جلددوم:۲۳۷۔

ابو عبیدہ :۲۷۹۔

ابوملک بن یر بو شت :۲۵۸۔

ابو منصور ما تر یدی سمر قندی؛ جلددوم: ۲۲۲۔

ابو ہا شم جبا ئی: جلددوم: ۲۳۰۔

ابو ہذیل علا ف :جلددوم:۲۲۰۔

ابو ہریرہ :۲۵۴

۲۳۰

ابو الھیثم : ۳۸۔

ابو وائل : جلددوم:۱۸۱ ۔

احمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : ۱۴ ۔

احمد آرام :جلددوم:۲۲۵۔

احمد امین : جلددوم: ۲۱۵۔

احمد ابن حنبل : ۱۴۸. جلددوم:۱۰۲۔۱۱۳۔۱۸۲،۱۸۵۔۲۱۴۔۲۱۵۔۲۱۶۔

سرسیداحمد خان ہندی : جلددوم: ۲۲۴،۲۲۵۔

احمد محمو د صبحی : جلددوم: ۲۱۳،۲۱۷،۲۱۸،۲۲۲،۲۲۴۔

اخطل شاعر : جلددوم:۱۳۲ ۔

خنوخ :۲۱۹،۲۲۰۔

ادریس :۲۱۹۔۲۲۰۔۲۲۱۔۲۲۵جلددوم:۱۶۹۔

اڈو ین پا ول ھا بل : جلددوم:۲۴۷۔

ارسطا طا لیس : جلددوم:۲۱۸۔

ارسطو : جلددوم:۲۱۸۔۲۲۴۔

اسا مہ بن زید : ۲۶۶۔۲۶۷ ۔

اسبا ط : ۱۴۷۔جلددوم:۱۵۴ ۔

اسحق :۱۴۷۔۱۴۸۔جلددوم:۲۲۔۲۷۔۵۳۔

اسرا ئیل :۱۳۔۱۴۔ ۵۱۔۱۸۷۔۱۸۹۔۱۹۴۔۲۰۰۔۲۲۳۔۲۲۴۔۲۴۹۔۲۵۱۔۲۵۲۔۲۵۷۔۲۶۰۔

۲۶۱۔۲۶۳۔۲۹۰۔۲۹۲۳۔

جلددوم:۱۳،۱۵،۳۱،۳۴،۳۷،۳۸،۴۰،۴۲،۴۳،۴۵،۴۷،۴۸،۴۹،۵۲،۵۳،۵۶،۵۸،۶۱،۶۲،

۶۶،۶۷،۷۱،۱۰۳۔

۲۳۱

اسرا فیل :۹۰۔

اسماعیل :۱۶،۱۴۷،۱۴۸،۱۹۹،۲۵۲۔ جلددوم:۲۱۔۲۲۔ ۲۴،۲۵،۲۷،۳۴،۳۵،۴۴۔

اصحا ب ۔ صحا بی :۹،۱۰،۱۰۳،۱۲۰۔ جلددوم:۴۰،۶۰،۸۷،۱۱۷،۱۱۹،۱۸۱،۲۰۸۔

العازار کا ہن :۲۲۳۔

الفر دبل : جلددوم:۲۲۲۔

اقبال لاھوری :جلددوم:۲۲۵۔

الیاس :۲۲۵۔

امام ابو الحسن :جلددوم:۱۰۱۔

امام الحر مین :جلددوم:۲۱۷ ۔

ائمہ اہل بیت : ۱۲،۲۲۷،۲۷۷۔ جلددوم :۱۴،۱۸۶،۱۸۸،۱۹۵،۲۰۱،۲۰۳۔

امام جعفر صادق :۱۰۹،۱۱۰،۱۳۶،۲۷۳،۲۸۴۔ جلددوم:۱۹،۸۸،۹۶،۱۰۰،۱۰۱،۱۰۲،۱۰۶،۱۰۹،

۱۱۴،۱۲۹،۱۵۳،۱۸۵،۲۰۳،۲۰۵،۲۳۵۔

امام حسن مجتبی : جلددوم۲۰۱ ۔

امام حسین : ۵۶۔جلددوم:۲۰۸،۲۰۹۔

امام زین العا بدین : جلددوم۱۰۶۔

امام علی بن ابی طا لب :۶۹،۱۳۰،۱۳۲،۱۳۳،۱۳۵۔جلددوم:۶۱،۱۰۰،۱۰۳،۱۱۴۔

امام علی ابن موسی ٰ الر ضا :۱۳۷،۲۳۰،۲۷۹۔. جلددوم۱۸۷۱۱۳،۲۰۳۔

امام کا ظم :جلددوم :۱۱۳۔

امام محمد باقر ـ :۱۰۸،۱۳۶۔ جلددوم:۱۰۱،۱۰۷،۱۸۸۔

امام امیر المو منین علی :۲۴۵۔ جلددوم: ۷۶،۱۱۳،۱۰۲،۲۲۷۔

انس ابن مالک :۲۵۲۔ ۲۵۵ ۔۲۶۱۔۲۶۲۔ ۲۸۴.

۲۳۲

ا نصار :جلددوم:۲۹۔ ۶۹۔۷۰۔

انوش :۲۱۹ ۔

اوریا : ۲۵۰۔۲۵۲۔ ۲۵۶۔۲۵۷۔۲۵۸۔۲۵۹۔۲۶۲۔۲۸۰۔۲۸۲۔۲۸۳.

اہل بیت :۲۵۶. جلددوم:۲۔۵۔۶۔۷۔۸۔۱۴۔۱۱۵۔۲۱۹۔۲۲۵۔۲۲۶۔۲۲۷۔ ۲۳۰۔۳۲۱۔۲۳۲۔

۲۳۳۔ ۲۳۴۔ ۲۳۵۔۲۳۶۔۲۳۷۔۲۳۹۔۲۴۰۔

اے۔ کر یسی مر سیون :۳۴۔

ایوب : ۱۴۸۔ ۲۲۵۔۲۳۸.

(ب)

بحرا نی :۱۲ ۔

بخاری : ۲۲۔ ۲۱۰۔

بشربن مروان : جلد دوم :۱۳۲۔

بطلیمو س : ۹۱۔

بلقیس :۱۱۱ ۔۲۲۹۔

یوارد :۲۲۰۔

بیگ با نگ : جلددوم : ۲۴۷۔

بیہقی : جلد دوم : ۲۱۹۔

(پ)

پطرس :۲۲۴ ۔

پیغمبرصلی ﷲ علیہ و الہ وسلم :۵۲۔۱۲۵۔۱۲۶۔۲۶۵۔۲۷۷۔۲۷۹۔۲۸۴۔

جلددوم:۱۴۔۱۶۔۲۲۔۲۳۔۲۴۔۲۶۔۲۷۔۲۸۔۳۰۔۴۱۔۵۵۔۸۰۔۹۰۔۹۲۔۱۰۷۔۱۲۶۔۱۲۹۔

۱۳۳۔ ۱۳۴۔۱۳۶۔ ۱۴۲۔۱۵۶۔۱۶۲۔۱۷۴۔۱۸۵۔۱۹۶۔۲۰۳۔۲۰۹۔۲۱۰۔۲۱۱۔۲۱۵۔۲۱۷۔ ۲۱۸ ۔

۲۳۳

(ت)

تا بعین :۲۶۱ ۔ جلددوم :۱۸۱ ۔

تر مذ ی :۱۲۹۔ جلددوم :۱۱۴۔۵ ۱۸۔

تمیم داری :۲۶۱ ۔

(ث)

ثقفی : ۱۳۴۔

(ج)

جا حظ؛ جلد: دوم :۲۲۰ ۔

جبا ئیا ن :جلد دوم: ۲۲۰۔

جبرا ئیل : ۶۴۔۶۶۔۶۷۔۳ ۱۳۔۱۳۴۔۱۳۶۔۱۳۷۔۱۵۶۔۲۵۲۔ جلد دوم :۱۷۔۹۰۔

جعفر سبحانی جلد:دوم :۲۲۲۔

جمال الدین اسد آبادی جلد :دوم :۲۲۵۔

ڈاکٹرجواد علی :۲۵۳۔

جورج لا میتر : جلد دوم :۲۴۷۔

جوہری : جلددوم : ۱۵۶۔

جو ینی : جلددوم :۲۱۸۔

۲۳۴

(ح)

حا رث محا سبی : جلددوم :۲۲۷۔

حا فظ محمد سیلم : جلددوم :۲۴۶۔

حام : ۲۲۱۔

حجا ج ابن یو سف :۳ ۲۵۔

حر عا ملی : جلددوم :۲۳۷ ۔

حسن بصری : ۲۵۱۔۲۵۳۔۲۵۴۔۲۵۵۔۲۶۰۔ ۲۶۱۔۲۶۲۔۲۶۳۔

حمیری :۲۵۳۔

حوا : ۱۲۳۔۱۲۵۔ ۱۲۷۔۱۲۹۔ ۱۳۶۔ ۱۳۷۔ ۱۳۸۔۱۹۲۔ ۱۹۳۔۲۱۹۔جلد دوم :۱۸۔

حواری ؛حواریوں ؛ حواریین: ۱۸۸۔۲۲۴۔۲۲۵۔

(خ)

خاتم الانبیائ؛خاتم المرسلین؛خاتم النبیین:۱۳۔۲۶۔۲۸۔۳۰۔۷۰۔۸۸۔۹۰۔۹۱۔۹۸۔ ۹۹۔ ۱۱۲۔۱۲۶۔

۱۵۳۔۱۵۶۔۱۷۴۔۱۸۲۔۲۰۸۔۲۱۶۔۲۳۵۔۲۴۷۔ جلد دوم :۱۳۔۱۵ ۔۲۵ ۔۲۶۔۲۹۔ ۳۸۔۴۰۔ ۴۱۔ ۴۴۔۴۵۔۵۹۔۶۰۔۶۲۔۶۳۔۶۵۔۶۶۔ ۶۸۔۷۰۔۸۳۔۱۱۲۔۱۴۰۔

خازن : ۲۶۳۔۲۸۳۔

خدیجہ ام المومنین علیہا السلام : ۲۶۶۔

حضرت خضر ـ: ۲۶۳۔

خنوخ : ۲۱۹۔۲۲۰۔

۲۳۵

(د)

دارمی : جلد دوم :۲۔۸۹۔

داود :۱۰۸۔۱۴۷۔۹ ۱۸۔۲۳۵۔۲۳۸۔ ۲۴۷۔۲۴۸۔۲۴۹۔۲۵۰۔۲۵۱۔۲۵۲۔۲۷۶۔ ۲۸۰۔ ۲۸۲۔ ۲۸۹۔ جلددوم :۵۸۔۶ ۱۸۔۱۸۸ ۔۱۹۹۔

ڈیکارٹ: جلد دوم :۲۱۸۔

(ذ)

ذوالکفل : ۲۲۵۔ ۲۳۸۔

ذوالنو ن : ۲۸۰ ۔۲۸۱۔

(ر)

راغب اصفہا نی : ۱۴۳۔۱۴۴۔۱۵۷۔۲۷۸ ۔ جلد دوم :۴۷۔۲۲۷۔۲۴۸۔

ربیعة بن الحرث بن عبد المطلب :۵ ۲۸۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :۱۰۔۱۱۔ ۵۶۔ ۷۵۔ ۱۲۹۔ ۱۳۷۔۱۶۱۔۱۷۷۔۲۱۰۔ ۲۴۴۔ ۲۴۵۔۲۶۱۔۲۶۲۔۲۶۳۔ ۲۶۵۔۲۶۶۔ ۲۶۷۔۲۷۹۔۲۸۲۔۲۸۴۔۲۸۵۔ جلددوم : ۱۱۔۵ ۲۔ ۶۶۔ ۶۷۔۷۸۔ ۹۵۔ ۱۰۰۔۱۰۲۔ ۱۰۳۔۱۰۶۔۱۱۳۔۱۱۴۔ ۱۱۷۔ ۱۱۸۔ ۱۱۹۔ ۱۵۳۔۱۵۵۔ ۱۸۰۔۱۸۶۔۲۲۶۔۲۳۷۔

روح الا مین :۱۱۔۶۴۔۶۹۔۷۱۔ ۱۳۴۔

روح القدس :۶ ۵۔۵۷۔ ۶۴۔ ۶۹۔۷۰۔۷۱۔ ۱۳۴۔۱۹۳۔ جلددوم :۳۲۔۳۶۔۴۳۔۴۴۔

ریچرڈ واٹس :۱۲۴۔ جلددوم :۳۸۔

۲۳۶

(ز)

زعفرا نی : جلددوم :۲۱۶ ۔

زکریا : ۵۴۔ ۱۵۶۔۲۳۸۔ جلددوم :۱۶۹ ۔

زلیخا :۲۳۷۔ ۲۴۱۔

زھدی حسن جار ﷲ : جلددوم :۲۲۱۔

زھیر بن ابی سلمی : ۲۶۲۔

زیاد ابن ابیہ : جلددوم :۲۰۸۔

زید بن ثا بت ؛ ۲۵۳۔

زید بن حارثہ : ۲۱۰۔۲۶۵۔۲۶۶۔

زید بن محمد :۲۶۶۔

زین العا بدین امام علی بن الحسین :۲۶۳ ۔ جلددوم :۱۰۶۔

زینب بنت جحش :۲۶۳۔ ۲۶۵۔

(س)

سام : ۲۲۲۔

سا مری : ۱۲۴۔ جلددوم :۴۸۔۱۵۲۔

سا می البدری :۴ ۱۲۔

السبکی : جلد دوم :۲۲۲ ۔

سعد بن ابی وقا ص: جلددوم :۴۱ ۔

سفیان بن عیینہ : ۲۶۳۔

سکا کی : ۳۰۰ ۔

۲۳۷

سیلما ن : ۹۷ ۔۹۸ ۔۱۰۸ ۔۱۰۹ ۔۱۱۱۔۱۱۲ ۔۱۴۷۔۱۴۸۔۱۷۵۔۱۸۷۔۲۲۴۔۲۲۵۔۲۲۹۔ ۲۳۸۔

جلددوم :۵۸۔۱۵۳۔

ڈاکٹرسلیمان دنیا : جلددوم :۲۲۳۔

سمعون :۲۲۴۔

سمو ئیل : ۲۵۶۔۲۶۰۔

سمیع عا طف الز ین : جلد دوم :۲۲۴۔

سوا ع :۲۲۱ ۔ جلددوم :۱۸۔

سیو طی :۱۲۔۱۰۷۔ ۲۵۱۔۲۵۲۔۲۶۲۔ جلددوم :۵۸۔

(ش)

شافعی :۲۶۲ ۔ جلددوم : ۲۱۶۔

شعبہ :۲۵۵۔

شعیب :۲۱۷۔ ۲۲۵۔ جلد دوم :۱۷۔۲۷۔

شفیق بن سلمہ : جلددوم :۱۸۱۔

شمعون :۲۲۴۔

شوکا نی : جلد دوم :۲۱۷۔۲۱۹۔

شہر ستا نی : جلددوم :۱۹۳۔۱۹۴۔

شیخ صدوق : ۱۱۱۔ ۱۲۹۔ ۲۸۳۔ جلددوم :۷۹۔۸۷۔ ۸۹۔۹۸۔۱۰۱۔۱۰۷۔۱۰۹۔۱۱۰۔۱۱۸۔۱۱۹۔ ۱۵۳۔۱۸۶۔۱۸۷۔۲۰۱۔

شیخ مفید : جلد دوم :۲۳۴۔۲۳۶۔

شیث: ۱۲۵۔۲۱۹۔۲۲۰۔۲۲۱۔

۲۳۸

( ص)

صابونی : جلددوم :۲۱۷۔

صالح : ۴۲۔۲۳۱۔ جلددوم : ۱۷۔

(ط)

طبری : ۲۲۰۔۲۴۸۔۲۵۱۔۲۵۲۔۲۶۱۔۲۶۴۔جلددوم :۱۱۴۔۱۵۲۔۱۸۱۔۱۸۳۔۱۸۴۔

طیا لسی : جلددوم :۱۸۔۱۸۶۔

( ع)

عبا س بن عبد المطلب : ۲۸۵ ۔

عبا س علی براتی : جلددوم :۲۱۳۔

عبد الجباربن احمدہمدانی : جلد دوم :۲۲۰۔

عبد الحلیم محمود : جلد دوم :۲۱۸۔

عبد الر زاق نو فل : جلددوم :۲۲۴۔

عبد ﷲ بن عباس : ۲۶۲۔

عبد ﷲ بن عمر وعاص :۲۶۱۔

عبد المطلب :۲۶۶

عبد الوھا ب بن احمد : جلددوم :۲۲۴۔

عبید ﷲ بن حسن عنبری : جلددوم : ۲۱۷۔

عثما ن (خلیفہ ) :۲۶۱۔

عزرائیل : جلد دوم :۹۰

عزّیٰ :۴۹۔

۲۳۹

عز یر: ۔۵۰۔

علی بن ابرا ہیم :۲۸۳۔ جلددوم :۱۸۸۔

علی بن ابی طالب علیہ السلام : یہ امام علی ـ میں گزر چکا ہے.

علی بن حسین علیہ السلام : یہ امام زین العابدین ـمیں گزر چکا ہے۔

علی بن حسین المو سوی : جلددوم :۲۲۹۔

علی بن جد عان : ۲۶۳

علی بن جہم : ۲۷۶۔۲۸۱۔

علی بن زید : ۲۵۴۔

علی بن طا ووس : جلددوم :۲۲۶۔

علی حسین الجا بری : جلددوم :۲۱۹۔

علی سامی النشا ر ؛ جلددوم :۲۱۹۔

عمر بن خطاب( خلیفہ):۲۶۱۔جلددوم :۱۸۱۔

عمر بن عبد العزیز : جلددوم :۱۸۱۔

عمرو بن شعیب : جلددوم :۲۱۴۔

عمر و بن عبید : جلددوم :۲۲۰۔

عیسیٰ علیہ السلا م : ۱۳۔۵۱۔۵۲۔ ۵۴۔ ۵۶۔۵۸۔۶۴۔ ۶۸۔۱۴۷۔۱۷۲۔۱۷۳۔۱۸۲۔۱۸۸۔ ۱۹۴۔

جلد دوم :۱۳۔۱۷۔ ۶۳۔

عیسیٰ نا صری :۱۸۹۔

( غ)

غزا لی : جلددوم :۲۱۸۔۲۱۹۔۲۲۳۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271