امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت35%

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت مؤلف:
زمرہ جات: امامت
صفحے: 271

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 271 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 114803 / ڈاؤنلوڈ: 4273
سائز سائز سائز
امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

” واخرج الحکیم الترمذی والطبرانی وابن مردویه وابونعیم والبیهقی معاً فی الدلائل عن ابن عباس رضی الله عنهما قال رسول الله -( ص) - انّ اللّه قسّم الخلاق قسمیں فجعلنی فی خیرهما قسماً، فذلک قوله( واصحاب الیمین ) (۱) ( واصحاب الشمال ) (۲) فاٴنامن اٴصحاب الیمین واٴناخبراٴصحاب الیمین ثمّ جعل القسمین اٴثلاثاً،فجعلنی فی خیرها ثلثاً،فذلک قوله :( واٴصحاب المیمنة مااٴصحاب المیمنةواٴصحاب المشئمة مااٴصحاب المشئمةالسابقون ) (۳) فاٴنامن السابقین واٴناخیرالسابقین، ثمّ جعل الاٴثلاث قبائل،فجعلنی فی خیرها قبیلة،وذلک قوله:( وجعلنا کم شعوباًوقبائل لتعارفواإنّ اٴکرمکم عنداللّٰه اٴتقاکم ) (۴) واٴنااٴتقی ولدآدم واٴکرمهم عنداللّٰه تعالی ولافخر،ثمّ جعل القبائل بیوتاًوجعلنی فی خیرها بیتاً،فذلک قوله: ا( ٕنّما یریداللّٰه لیذهب عنکم الرجس اٴهل البیت ویطهّرکم تطهیراً ) (۵) فاٴناواٴهل بیتی مطهّرون من الذنوب“(۶)

____________________

۱۔سورئہ واقعہ/۲۷ ۲۔سورئہ واقعہ/۴۱ ۳۔سورئہ واقعہ/۸۔۱۰ ۴۔سورئہ حجرات/۱۳ ۵۔سورئہ/احزاب/۳۳

۶۔الدرالمنثور، ج ۵، ص ۳۷۸، دارالکتاب، العلمیہ، بیروت، فتح، القدیر، شوکافی، ج ۴، ص ۳۵۰ دارالکتاب العلمیہ، بیروت۔المعروفہ و التاریخ، ج ۱، ص ۲۹۸

۱۸۱

”حکیم ترمذی،طبرانی،ابن مردویہ،ابو نعیم اور بیہقی نے کتاب”الدلائل‘میں ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ پیغمبراکرم (ص)نے فرمایا:خداوندمتعال نے اپنی مخلوقات کودو حصوں میں تقسیم کیا ہے اور مجھ کوان میں سے برترقراردیاہے اورخداوندمتعال کاقول یہ ہے:( و اصحاب الیمین ) ( واصحاب الشمال ) اور میں اصحاب یمین میں سے سب سے افضل ہوں۔اس کے بعدمذکورہ دوقسموں)اصحاب یمین اوراصحاب شمال)کوپھرسے تین حصوں میں تقسیم کیااورمجھ کوان میں افضل ترین لو گوں میں قرار دیا اور یہ ہے خدا وند کریم کا قول:( واٴصحاب المیمنةمااٴصحاب المیمنة واٴصحاب المشئمة مااٴصحاب المسئمةوالسابقون السابقون ) اورمیں سابقین اور افضل ترین لو گوں میں سے ہوں۔اس کے بعدان تینوں گروہوں کوکئی قبیلوں میں تقسیم کردیا،چنانچہ فر ما یا:

( وجعلناکم شعوباًوقبائل لتعارفواإنّ اکرمکم عنداللّه اٴتقاکم )

”اورپھرتم کو خاندان اور قبائل میں بانٹ دیاتاکہ آپس میں ایک دوسرے کوپہچان سکوبیشک تم میں سے خداکے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جوزیادہ پرہیزگارہے“ اورمیں فرزندان آدم میں پرہیزگار ترین اور خدا کے نزدیک محترم ترین بندہ ہوں اورفخرنہیں کرتاہوں۔

”اس کے بعدقبیلوں کوگھرانوں میں تقسیم کر دیااورمیرے گھرانے کوبہترین گھرانہ قرار دیااورفرمایا( انمّا یرید اللّه لیذهب عنکم الرجس اهل البیت ویطهّرکم تطهیراً ) ”بس اللّہ کاارادہ یہ ہے اے اہل بیت!تم سے ہر طرح کی آلودگی وبرائی کودوررکھے اور اس طرح پاک وپاکیزہ رکھے جوپاک و پاکیزہ رکھنے کاحق ہے“پس مجھے اورمیرے اہل بیت کو )برائیوں) گناہوں سے پاک قراردیاگیاہے۔“

۱۸۲

۲ ” حدثني الحسن بن زید، عن عمربن علي، عن اٴبیه عليّ بن الحسین قال خطب الحسن بن علي الناس حین قتل عليّ فحمداللّه و اٴثنی علیه ثمّ قال:لقد قبض في هذه اللیلة رجل لایسبقه الاٴوّلون بعمل و لایدرکه الآخرون، و قدکان رسول اللّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یعطیه رایته فیقاتل وجبرئیل عن یمینه ومیکائیل عن یساره حتی یفتح اللّه علیه، وما ترک علی اٴهل الاٴرض صفراء ولابیضاء إلّا سبع مائة درهم فضلت عن عطایاه اٴراد اٴن یبتاع بهاخادماً لاٴهله

ثمّ قال: اٴیّها الناس! من عرفني فقد عرفني ومن ُلم یعرفنيفاٴنا الحسن بن علي واٴنا ابن النبيّ واٴنا ابن الوصيّ واٴناابن البشیر، واٴنا ابن النذیر، واٴناابن الداعي إلی اللّه باذنه، واٴنا ابن السراج المنیر، و اٴنا من اٴهل البیت الّذی کان جبرئیل ینزل إلیناویصعدمن عندنا، و اٴنامن اٴهل البیت الّذی کان جبرئیل ینزل إلینا و یصعدمن عندنا، واٴنا من اٴهل البیت الّذی اٴذهب اللّه عنهم الرجس وطهّرهم تطهیراً و اٴنا من اٴهل البیت الّذی افترض اللّه مودّتهم علی کلّ مسلم، فقال تبارک و تعالی لنبیة:( قل لااٴسئلکم علیه اٴجراً،إلّاالمودّة فی ا لقربی و من یقترف حسنة نزدله فیهاحسناً ) (۱) فاقتراف الحسنة مودّتنااٴهل البیت(۲)

____________________

۱۔ سورہ شوریٰ/۲۳

۲۔مستدرک الصحیحین، ج۳،ص۱۷۲، دارالکتب العلمیہ، بیروت

۱۸۳

”عمربن علی نے اپنے باپ علی بن حسین (علیہ السلام)سے روایت کی ہے انہوں نے کہا: حسن بن علی (علیہ السلام)نے)اپنے والدگرامی)حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعدلوگوں کے در میان ایک خطبہ دیا جس میں ۔حمدوثنائے الہی کے بعدفرمایا:

آج کی شب ایک ایساشخص اس دنیا سے رحلت کرگیاکہ گزشتہ انسانوں میں سے کسی نے ان پرسبقت حاصل نہیں کی اورنہ ہی مستقبل میں کوئی ا س کے مراتب و مدا رج تک پہو نچنے والا ہے۔

پیغمبراسلام (ص)اسلامی جنگوں میں ان کے ہاتھ پرچم اسلام تھما کر انہیں جنگ کے لئے روانہ کر تے تھے، جبکہ اس طرح سے کہ جبرئیل)امورتشریعی میں فیض الہٰی کے وسیلہ)ان کی دائیں جانب اورمیکائیل)امورارزاق میں فیض الہٰی کے ذریعہ)ان کی بائیں جانب ہوا کرتے تھے۔او روہ جنگ سے فتح کامرانی کے حاصل ہو نے تک واپس نہیں لوٹتے تھے۔

انھوں نے اپنے بعد زر وجواہرات میں سے صرف سات سودرہم بہ طور ”تر کہ“ چھوڑے جو صدقہ و خیرات کے بعد باقی بچ گئے تھے اور وہ اس سے اپنے اہل بیت کے لئے ایک خادم خریدناچاہئے تھے۔

اس کے بعدفرمایا:اے لوگو!جو مجھے پہچانتا ہے، وہ پہنچاتا ہے اورجونہیں پہچانتاوہ پہچان لے کہ میں حسن بن علی (ع) ہوں، میں پیغمبر کافرزندہوں، ان کے جانشین کا فرزند، بشیر)بشارت دینے والے)ونذیر)ڈرانے والے)کافرزندہوں،جوخداکے حکم سے لوگوں کوخداکی طرف دعوت دیتاتھا،میں شمع فروزان الٰہی کا بیٹاہوں، اس خاندان کی فرد ہوں کہ جہاں ملائکہ نزول اور جبرئیل رفت وآمد کر تے تھے۔میں اس خاندان سے تعلق رکھتا ہوں کہ خدائے متعال نے ان سے برائی کودورکیاہے اورانھیں خاص طور سے پاک وپاکیزہ بنایاہے۔میں ان اہل بیت میں سے ہوں کہ خداوندمتعال نے ان کی دوستی کوہرمسلمان پرواجب قراردیاہے اورخدا وندمتعال نے اپنے پیغمبرسے فرمایا:” اے پیغمبر!کہدیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کے بد لے کسی اجرت کا مطا لبہ نہیں کر تا ہوں سواء اس کے کہ میرے قرابتداروں سے محبت کرواورجوشخص بھی کوئی نیکی دے گا ہم اس کی نیکیوں کی جزامیں اضافہ کردیں گے ”لہذانیک عمل کاکام انجام دینا ہی ہم اہل بیت(ع)کی دوستی ہے۔“

۱۸۴

ان دواحادیث سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں خداکی مخصوص طہارت کے خارج میں متحقق ہو نے سے مرادان کی عصمت کے علاوہ کوئی اورچیز نہیں ہے۔اور یہ بیان واضح طور پر اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ آیہء شریفہ میں ارادہ سے مراد ارادہ،تکوینی ہے۔

آیہء تطہیر میں اہل بیت علیہم السلام

اس آیہء شریفہ کی بحث کاتیسراپہلویہ ہے کہ آیہء کریمہ میں ”اہل البیت“سے مراد“کون ہیں؟اس بحث میں دوزاویوں سے توجہ مبذول کرناضروری ہے:

۱ ۔اہل بیت کا مفہوم کیاہے؟

۲ ۔اہل بیت کے مصادیق کون ہیں؟

اگرلفظ”اہل“کا استعمال تنہاہوتویہ مستحق اورشائستہ ہو نے کامعنی دیتاہے اوراگراس لفظ کی کسی چیز کی طرف اضافت ونسبت دی جائے توا س اضا فت کے لحاظ سے اس کے معنی ہوں گے۔مثلاً”اہل علم“اس سے مرادوہ لوگ ہیں جن میں علم ومعرفت موجودہے اور”اہل شہروقریہ“سے مرادوہ لوگ ہیں جواس شہریاقریہ میں زندگی بسرکرتے ہیں،اہل خانہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس گھر میں سکونت پذیر ہیں،مختصریہ کہ:”اہل“کامفہوم اضافت کی صورت میں مزید اس شی کی خصوصیت پردلالت کرتاہے کہ جس کی طرف اس کی نسبت دی گئی ہے۔۔۔

۱۸۵

لفظ”بیت“میں ایک احتمال یہ ہے کہ بیت سے مراد مسکن اور گھرہواور دوسرااحتمال یہ ہے کہ بیت سے مراد حسب ونَسَب ہوکہ اس صورت میں ”اہل بیت“کامعنی خاندان کے ہوں گے۔ایک اوراحتمال یہ ہے کہ” اہل بیت “میں ”بیت“سے مراد،خا نہ نبوت ہواور یہاں پر قابل مقبول احتمال یہی موخرالذکراحتمال ہے،اس کی وضاحت انشاء اللہ آیندہ چل کر آئے گی۔

ان صفات کے پیش نظر”اہل بیت“سے مرادوہ افراد ہیں جواس گھرکے محرم اسرار ہوں اورجوکچھ نبی (ص)کے گھرمیں واقع ہوتاہے اس سے واقف ہوں۔

اب جبکہ”اہل بیت“کامفہوم واضح اورمعلوم ہوگیا توہم دیکھتے ہیں کہ خارج میں اس کے مصادیق کون لوگ ہیں اور یہ عنوان کن افرادپر صادق آتاہے؟

اس سلسلہ میں تین قول پائے جاتے ہیں:

۱ ۔”اہل بیت“سے مرادصرف پیغمبراکرم (ص)کی بیویاں ہیں۔(۱)

۲ ۔”اہل بیت“سے مراد خودپیغمبر،علی وفاطمہ،حسن وحسین )علیہم السلام)نیزپیغمبر (ص)کی بیویاں ہیں۔(۲)

۳ ۔شیعہ امامیہ کانظریہ یہ ہے کہ”اہل بیت“سے مرادپیغمبر (ص)آپکی دختر گرامی حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)اوربارہ ائمہ معصومین) علیہم السلام)ہیں۔

بعض سنی علماء جیسے:طحاوی نے”مشکل ا لآثار“میں اورحاکم نیشابوری نے”المستدرک“میں ”اہل بیت“سے صرف پنجتن پاک )علہیم السلام )کو مراد لیاہے۔

”اہل بیت“کوواضح کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس سلسلہ میں دوجہات سے

____________________

۱۔تفسیرابن کثیر،ج۳،ص۲۹۱

۲۔تفسیرابن کثیر،ج۳،ص۴۹۲

۱۸۶

بحث کریں:

۱ ۔آیہء شریفہ کے مفاد کے بارے میں بحث۔

۲ ۔آیہء شریفہ کے ضمن میں نقل کی گئی احادیث اورروایات کے بارے بحث۔

آیت کے مفاد کے بارے میں بحث

آیت کے مفہوم پر بحث کے سلسلہ میں درج ذیل چند نکات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے:

اول یہ کہ:لغوی اور عرفی لحاظ سے”اہل بیت“کا مفہوم پنجتن پاک کے عنوان کوشامل ہے۔

دوسرے یہ کہ آیہء شریفہ میں ضمیر”عنکم)جوجمع مذکر کے لئے ہے)کی وجہ سے اہل بیت کے مفہوم میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں شامل نہیں ہیں۔

تیسرے یہ کہ:بہت سی ایسی روایتیں مو جودہیں جن میں ”اہل بیت“کے مرادسے پنجتن پاک)علیہم السلام)کو لیاگیاہے۔لہذایہ قول کہ اہل بیت سے مرادصرف پیغمبراکرم (ص)کی بیویاں ہیں،ایک بے بنیاد بلکہ برخلاف دلیل قول ہے۔یہ قول عکرمہ سے نقل کیا گیا ہے وہ کہتاتھا:

”جوچاہتا ہے،میں اس کے ساتھ اس بابت مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہوں کہ آیہ شریفہ میں ”اہل بیت کا مفہوم“پیغمبر (ص)کی بیویوں سے مختص ہے(۱)“

اے کاش کہ اس نے)اس قول کی نسبت اس کی طرف صحیح ہونے کی صورت میں )مباہلہ کیاہوتا اورعذاب الہٰی میں گرفتار ہواہوتا!کیونکہ اس نے پنجتن پاک(ع)کی شان میں نقل کی گئی ان تمام احادیث سے چشم بستہ انکار کیا ہے جن میں آیہء تطہیرکی شان نزول بیان کی گئی ہے۔

____________________

۱۔روح المعانی ،ج۲۲،ص۱۳،داراحیائ التراث العربی،بیروت

۱۸۷

لیکن دوسرے قول کہ جس کے مطابق”اہل بیت کے مفہوم“میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں نیزعلی،فاطمہ،حسن اورحسین)علیہم السلام)شامل ہیں کوبہت سے اہل سنت،بلکہ ان کی اکثریت نے قبول کیا۔

اور انھوں نے،اس نظریہ کو ثابت کر نے کے لئے آیات کے سیاق سے استدلال کیا ہے۔اس کی وضاحت یوں کی ہے کہ آیہء تطہیرسے پہلے والی آیتیں اور آیت تطہیر کے بعد والی آیتیں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویوں سے متعلق ہیں۔چونکہ آیہء تطہیر ان کے درمیان میں واقع ہے،اس لئے مفہوم اہل بیت کی صلا حیت اورقرینہء سیاق کے لحاظ سے،اس میں پیغمبراکرم (ص)کی بیویاں شامل ہیں۔

ابن کثیر نے اپنی تفسیر،قرینہء سیاق کے پیش نظر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویوں کو یقینی طو رپر اہل بیت کی فہرست میں شامل جاناہے۔

سیاق آیہء تطہیر

کیا آیہء تطہیر کے سیاق کے بارے میں کیا گیا دعویٰ قابل انعقادہے؟اورپیغمبر (ص)کی بیویوں کے اہل بیت کے زمرے میں شامل ہونے کو ثابت کرسکتاہے؟مطلب کوواضح کرنے کے لئے درج ذیل چند نکات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے:

اول یہ کہ:چند آیات کے بعد صرف ایک آیت کا واقع ہو نا سیاق کے واقع ہو نے کا سبب نہیں بن سکتا ہے اوردوسری طرف سے یہ یقین پیدا نہیں کیا جاسکتا ہے کہ یہ آیتیں ایک ساتھ ایک مر تبہ نازل ہوئی ہیں،کیونکہ سیاق کے واقع ہو نے کے سلسلہ میں شر ط یہ ہے کہ آیات کا نزول ایک دوسرے کے ساتھ انجام پایا ہو۔لہذاہم شک کرتے ہیں اورممکن نہیں ہے کہ ہم سیاق کو احراز)متعین)کر سکیں جبکہ موجودہ قرآن مجیدکی تر تیب نزول قرآن کی ترتیب کے متفاوت ہے،اس لئے اس مسئلہ پرکبھی اطمینان پیدانہیں کیا جا سکتا ہے کہ آیہء تطہیر کا نزول پیغمبر (ص)کی بیویوں سے مربوط آیات کے بعد واقع ہواہے۔

۱۸۸

اگریہ کہا جائے کہ:اگرچہ یہ آیتیں ایک ساتھ نازل نہیں ہوئی ہیں،لیکن ہرآیہ اورسورئہ کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مو جودگی میں ان کی نظروں کے سامنے ایک خاص جگہ پرانھیں رکھا گیا ہے،اس لئے آیات کا ایک دوسرے کے ساتھ معنوی رابطہ کے پیش نظران آیات میں سیاق واقع ہو اہے لہذاپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں پنجتن پاک علیہم السلام کے ساتھ اہل بیت کے زمرے میں شامل ہوں گی۔

اس کا جواب یہ ہے کہ:اس پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ آیہء تطہیر کا اس خاص جگہ پرواقع ہو ناآیات کے معنوی پیوند کے لحاظ سے ہے اور وہ چیز کہ جس پر دلیل قائم ہے صرف یہ ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کسی مصلحت کے پیش نظر اس آیت کواپنی بیویوں سے مربوط آیات کے درمیان قراردیا ہے،لیکن یہ کہ مصلحت صرف آیات کے درمیان معنوی رابطہ کی وجہ سے ہے اس پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ممکن ہے اس کی مصلحت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویوں کے لئے ایک انتباہ ہوکہ تمہارااہل بیت“کے ساتھ ایک رابطہ اور ہے ،اس لئے اپنے اعمال کے بارے میں ہوشیار رہنا،نہ یہ کہ وہ خود”اہل بیت“کی مصداق ہیں۔

دوسرے یہ کہ:آیہء کریمہ میں کئی جہتوں سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ آیہء تطہیر کا سیاق اس کی قبل اور بعد والی آیات کے سیاق سے متفاوت ہے اوریہ دو الگ الگ سیاق ہیں اور ان میں سے ہر ایک ،ایک مستقل حیثیت رکھتا ہے جس کا دوسرے سے کوئی ربط نہیں ہے۔وہ جہتیں حسب ذیل ہیں:

پہلی جہت:پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیوں سے مربوط آیات کا سیاق سرزنش کے ساتھ ہے)چنانچہ آیت ۲۸ کے بعدغورکرنے سے معلوم ہو تا ہے)اوران آیات میں پیغمبراکرم (ص)کی بیویوں کی کسی قسم کی ستائش اور تعریف نہیں کی گئی ہے،جبکہ آیہء تطہیر کے سیاق میں فضیلت وبزرگی اورمدح و ستا ئش ہے اورآیہ تطہیر کے ذیل میں ذکر ہو نے والی احادیث سے یہ مطلب اور بھی زیادہ روشن و نمایاں ہو جا تا ہے۔

دوسری جہت:یہ کہ آیہء تطہیر کی شان نزول مستقل ہے اورآنحضرت (ص)کی بیویوں سے مربوط آیات کی شان نزول بھی مستقل ہے چنانچہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویوں نے اپنے حق سے زیادہ نفقہ کاتقاضا کیا تھا لہذا مذکورہ آیتیں اسی مناسبت سے نازل ہوئی ہیں۔اس شان نزول کے بارے میں مزیدآگاہی حاصل کرنے کے لئے شیعہ وسنی تفسیروں کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔

اس سلسلہ میں پہلے ہم آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویوں سے مربوط آیات کی طرف اشارہ کر تے ہیں کہ اور اس کے بعد اس حدیث کا ترجمہ پیش کریں گے جسے ابن کثیر نے ان آیات کی شان نزول کے سلسلہ میں ذکر کیا ہے:

۱۸۹

( یااٴیّهاالنبیّ قل لازواجک ان کنتنّ تردن الحیوةالدنیا وزینتها فتعالین اٴُمّتعکنّ واٴُسرّحکنّ سراحاًجمیلاًوإن کنتنّتردن اللّٰه ورسوله والدار الآخرة فإنّ اللّٰه اٴعدّ للمحسنات منکنّ اٴجراً عظیماًیانساء النبیّ من یاٴت منکنّ بفاحشة مبیّنة یضاعف لها العذاب ضعفین وکان ذلک علی اللّٰه یسیراًً ومن یقنت منکنّ للّٰه ورسوله وتعمل صالحاً نؤتهااجرهامرّتین واٴعتد نا لهارزقاً کریماًیانساء النبیّ لستنّ کاٴحد من النساء إن اتقیتنّ فلا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبه مرض وقلن قولاً معروفاًوقرن فی بیوتکنّ ولا تبرّجن الجا هلیة الاُولی واٴقمن الصلوة وء اتین الزکوة واٴطعن اللّٰه ورسوله إنّما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الرجس اٴهل البیت ویطهّرکم تطهیراًواذکرن مایتلی فی بیوتکنّ من آیات اللّٰه والحکمةإنّ اللّٰه کان لطیفاًخبیرا ) (احزاب/ ۲۸ ۔ ۳۴)

”پیغمبر!آپ اپنی بیویوں سے کہد جئے کہ اگر تم سب زندگانی دنیااوراس کی زینت کی طلبگارہوتوآؤمیں تمہارامہرتمھیں دیدوں اورخوبصورتی کے ساتھ رخصت کردوں اوراگراللہ اور رسول اورآخرت کی طلبگار ہو تو خدا نے تم میں سے نیک کردار عورتوں کے لئے اجر عظیم قرار دیا ہے ۔اے زنان پیغمبرجو بھی تم میں سے کھلی ہوئی برائیوں کاارتکاب کرے گااس کو دھرا عذاب کر دیا جائے گا اوریہ بات خد اکے لئے بہت آسان ہے۔اورجوبھی تم میں سے خدااوررسول کی اطاعت کرے اورنیک عمل انجام دے اسے دہرا اجر عطا کیا جائے گا اورہم نے اس کے لئے بہترین رزق فراہم کیا ہے ۔اے زنان پیغمبر!تم اگر تقویٰ اختیار کرو تو تمھارامرتبہ عام عورتوں کے جیسا نہیں ہے،لہذا کسی آدمی سے نازکی)دل لبھانے والی کیفیت) سے بات نہ کرو کہ بیمار دل افراد کوتمہاری طمع پیدا ہو اور ہمیشہ شائستہ و نیک باتیں کیا کرواور اپنے گھروں میں بیٹھی رہواور جاہلیت کے زما نہ کی طرح بناؤ سنگار نہ کرواور نماز قائم کرو اورزکوةادا کرو اوراللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرو۔بس اللہ کا ارادہ ہے اے اہل بیت!کہ تم سے ہر طرح کی برائی کو دور رکھے اوراس طرح پاک وپاکیزہ رکھے جوپاک وپاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔اورازواج پیغمبر!تمھارے گھروں میں جن آیات الہٰی اور حکمت کی باتوں کی تلاوت کی جاتی ہے انھیں یادرکھو خدا لطیف اور ہرشے سے آگاہ ہے۔“

۱۹۰

ابن کثیر نے ابی الزبیر سے اوراس نے جابر سے روایت کی ہے:

”لوگ پیغمبر (ص)کے گھر کے سامنے بیٹھے تھے،اسی حالت میں ابوبکراورعمرآگئے اورداخل خا نہ ہونے کی اجازت چاہی۔پہلے انھیں اجازت نہیں دی گئی۔جب انھیں اجازت ملی اور وہ خا نہ رسول میں ہوئے توانہوں نے کیادیکھاکہ آنحضرت (ص)بیٹھے ہوئے ہیں اورآپ کی بیویاں بھی آپکے گردبیٹھی ہوئی ہیں اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،خاموش تھے۔عمر نے آنحضرت (ص)کو ہنسا نے کے قصد سے کہا:یارسول اللہ!اگرآپ دیکھتے کہ بنت زید) اس سے مراد عمر کی زوجہ ہے) نے جب مجھ سے نفقہ کا تقاضا کیا تو میں نے کیسی اس کی پٹائی کی!یہ سن کرپیغمبراکرم (ص)ایسا ہنسے کہ آپکے دندان مبارک ظاہر ہوگئے۔پیغمبر (ص)نے فرمایا:یہ )میری بیویاں)میرے گردجمع ہوئی ہیں ا ور مجھ سے)بیشتر)نفقہ کا تقاضا کرتی ہیں۔اس وقت ابوبکرعائشہ کو مار نے کے لئے آگے بڑھے اور عمر بھی اٹھے اوردونوں نے اپنی اپنی بیٹیوں سے نصیحت کر تے ہو ئے کہا:تم پیغمبر (ص)سے ایسی چیزکامطالبہ کرتی ہوجوپیغمبر کے پا س نہیں ہے؟آنحضرت (ص)نے انھیں مار نے سے منع فرمایا۔اس قضیہ کے بعد آنحضرت (ص)کی بیویوں نے کہا:ہم آج کے بعد سے پیغمبر (ص)سے کبھی ایسی چیز کا تقاضا نہیں کریں گے،جوان کے پاس موجود نہ ہو۔خدا وند متعال نے مذکورہ آیات کو نازل فرمایا جس میں آنحضرت (ص)کی بیویوں کو پیغمبر کی زوجیت میں باقی رہنے یا انھیں طلاق کے ذریعہ آنحضرت کو چھوڑ کے جا نے کا اختیار دیا گیاہے۔(۱)

یہ تھی،آنحضرت (ص)کی ازواج سے مربوط آیات کی شان نزول۔جبکہ آیہء تطہیر کی شان نزول پنجتن آل عبا اورائمہ معصومین (علیہم السلام) سے متعلق ہے۔اس سلسلہ میں شیعہ وسنی تفسیر اورحدیث کی کتا بوں میں کافی تعداد میں روایتیں نقل ہوئی ہیں ۔ہم ان میں سے چند ایک کا ذکر احادیث کے باب میں کریں گے۔

____________________

۱۔تفسیر ابن کثیر،ج۳،ص۴۹۱

۱۹۱

اس شان نزول اورپیغمبراکرم (ص)کی ازواج سے مربوط آیات کی شان نزول میں احتمالاً کئی سالوں کا فاصلہ ہے۔اب کیسے ان آیا ت کے در میان وحدت سیاق کے قول کو تسلیم کیا جا سکتا ہے اورکیاان دو مختلف واقعات کو ایک سیاق میں ضم کرکے آیت کے معنی کی توجیہ کی جاسکتی ہے؟

تیسری جہت:یہ کہ سیاق کے انعقادکو مختل کرنے کاایک اورسبب پیغمبراکرم (ص)کی بیویوں سے مربوط آیات اور آیہء تطہیر کے ضمیروں میں پا یا جا نے والا اختلاف ہے۔مجموعی طورپر مذکورہ آیات میں جمع مونث مخاطب کی ۲۲ ضمیریں ہیں۔ان میں سے ۲۰ ضمیریں ایہء تطہیرسے پہلے اوردوضمیریں ایہء تطہیر کے بعداستعمال ہوئی ہیں،جبکہ آیہء تطہیر میں مخاطب کی دوضمیریں ہیں اوردونوں مذکر ہیں۔اس اختلاف کے پیش نظر کیسے سیاق محقق ہوسکتا ہے؟

اعتراض:آیہء تطہیرمیں ”عنکم“اور”یطھّرکم“سے مراد صرف مرد نہیں ہیں،کیونکہ عورتوں کے علاوہ خود پیغمبر (ص)علی ،حسن وحسین (علیہم السلام) بھی اس میں داخل تھے۔اس لئے”کم“کی ضمیر آئی ہے اورعربی ادبیات میں اس قسم کے استعمال کو ”تغلیب“کہتے ہیں اوراس کے معنی یہ ہیں کہ اگر کسی حکم کا ذکرکرنا چاہیں اوراس میں دوجنس کے افراد شامل ہوں،تو مذکر کو مونث پر غلبہ دے کر لفظ مذکر کو ذکر کریں گے اوراس سے دونوں جنسوں کا ارادہ کریں گے۔

اس کے علاوہ،مذکرکی ضمیرکا استعمال ایسی جگہ پر کہ جہاں مونث کا بھی ارادہ کیا گیا ہے قرآن مجید میں اور بھی جگہوں پر دیکھنے میں آیا ہے،جیسے درج ذیل آیات میں( قالو ااٴتعجبین من اٴمراللهرحمت اللهوبرکاته عليکم اٴهل البیت ) (۱) کہ حضرت ابراھیم) علیہ السلام) کی زوجہ سے خطاب کے بعد جمع مذکر حاضر کی ضمیر اور اہل بیت کا عنوان ذکر ہوا ہے۔

( قال لاهله امکثوا ) (۲) کہ حضرت موسی علیہ اسلام کے اہل خاندان )کہ جس سے

____________________

۱۔ ہود/۷۳

۲۔قصص/۲۹

۱۹۲

مرادان کی زوجہ ہے) کے ذکرکے بعد ضمیرجمع مذکر حاضر کے ذریعہ خطاب کیا گیا ہے۔

جواب: ہر کلام کا اصول یہ ہے کہ الفاظ کو اس کے حقیقی معنی پر حمل کیا جائے اور”اصالة الحقیقة“ایک ایسا عقلائی قاعدہ ہے کہ جس کے ذریعہ ہر لغت وزبان کے محاورات و مکالمات میں استناد کیا جاتاہے۔

اس عقلائی قاعدے کی بنیاد پر جس لفظ کے بارے میں یہ شک پیدا ہو کہ وہ اپنے حقیقی معنی میں استعمال ہوا ہے یا نہیں، اسے اس کے حقیقی معنی پر حمل کرنا چاہے۔ اس لحاظ سے آیہء تطہیر میں دو جگہ پراستعمال ہوئی”کم“کی ضمیرسے مراد اس کے حقیقی معنی ہیں اور یہ کہ آ یہ شریفہء مذکور میں تمام افراد اہلبیت مذکر تھے، صرف قرینہ خارجی اور آیت کی ذیل میں روآیت کی گئی احادیث کی وجہ سے قطعی طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل بیت کی فہرست میں حضرت فاطمہ زہراسلام الله علیہابھی شامل ہیں، اور ان کے علاوہ کوئی مونث فرد اہل بیت میں شامل نہیں ہے۔ اور آیہ شریفہ میں قاعدئہ”اقرب المجازات“جاری ہوگا۔

لیکن شواہدکے طور پر پیش کی گئی آیات میں قرینہ کی وجہ سے مونث کی جگہ ضمیر مذکر کا استعمال ہوا ہے اوریہ استعمال مجازی ہے اور ایک لفظ کا مجازی استعمال قرینہ کے ساتھ دلیل نہیں بن سکتا ہے کہ قرینہ کے بغیر بھی یہ عمل انجام دیا جائے اور جیسا کہ کہا گیاکہ اصل استعمال یہ ہے کہ لفظ اس کے حقیقی معنی میں استعمال ہواور ایسا نہ ہونے کی صورت میں قاعدہ”اقرب المجازات“کی رعآیت کی جانی چاہئے۔

آیہ تطہیر کے بارے میں احادیث

ش یعہ اور اہل سنت کے منابع میں بڑی تعداد میں ذکر ہونے والی احادیث سے واضح طور پریہ معلوم ہوجاتا ہے کہ آیہ تطہیر میں ”اہل بیت“سے مراد صرف پنجتن پاک) علیہم السلام) ہیں اور ان میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں کسی جہت سے شامل نہیں ہیں۔ اس سلسلہ میں مذکورہ

۱۹۳

منابع میں اتنی زیادہ حدیثیں نقل ہوئی ہیں کہ حاکم حسکانی(۱) نے اپنی کتاب”شواہد التنزیل“ کے صفحہ ۱۸ سے لیکر ۱۴۰ تک انہی احادیث سے مخصوص کیا ہے۔(۲) ہم ذیل )حاشیہ) میں اہل سنت

____________________

۱۔ذہبی،تذکرةالحافظ،ج۲،ص۱۲۰۰پر کہتا ہے:حاکم حسکانی علم حدیث کے کامل عنایت رکھنے والاایک محکم اورمتقن سند ہے۔

۲۔ اسدالغابة/ج۵ص۵۲۱/داراحیائ التراث العربی ،بیروت، الاصابة/ج۲/ص۵۰۹/دارالفکر، اضوائ البیان /ج۶/ص۵۷۸/عالم الکتب بیروت، انساب الاشراف/ج۲/ص۳۵۴/دارالفکر، بحار الانوار،ج۳۵،ازص۲۰۶،باب آیة تطہیر تاص۲۳۲ مؤسسة الوفائ بیروت، تاریخ بغداد /ج۹/ص۱۲۶/ وج۱۰/ص۲۷۸/دارالفکر، تاریخ مدینہ دمشق/ج۱۳/ص۲۰۳و ۲۰۶و۲۰۷وج۱۴/ ص۱۴۱و۱۴۵، تفسیر ابن ابی حاتم /ج۹/ص۳۱۲۹/المکتبة المصربة بیروت، تفسیر ابی السعود/ ج۷/ ص۱۰۳/دارالحیائ التراث العربی بیروت، تفسیر البیضاوی/ج۲۳/ص ۳۸۲/دارالکتاب العلمیة، تفسیر فرات الکوفی/ج۱/ص۳۳۲ تا۳۴۲/مؤسسة النعمان، تفسیر القرآن العظیم ابن کثیر/ج۳/ص۵۴۸/دارالکتب العلمیة بیروت، تفسیر اللباب ابن عادل دمشقی/ج۱۵/ص۵۴۸/ دارالکتاب العلمیة بیروت، تفسیر الماوردی/ج۴/ص۴۰۱/دارالمعرفة بیروت، التفسیر المنبر/ج۲۳/ص۱۴/دارالفکرالمعاصر، تھذیب التھذیب/ج۲/ص۲۵۸/دارالفکر، جامع البیان/ طبری/ج۲۲/ص۵/دارالمعرفة بیروت، جامع احکام القرآن/ قرطبی/ج۱۴/ص۱۸۳/دارالفکر، الدار المنثور/ج۶/ص۶۰۴/دارالفکر، ذخائر العقبی/ص۲۱تا۲۴، روح البیان/ج۷/ص۱۷۱/داراحیائ التراث العربی، روح المعانی/ آلوسی/ج۲۲/ص۱۴/دار احیائ التراث العربی/الریاض النضرة/ج۲)۴-۴)/ص۱۳۵/دار الندوة الجدیدة بیروت، زاد المسیر/ ابن جوزی/ج۶/ص۱۹۸/ دارالفکر، سنن الترمذی/ج۵/ص۳۲۸-۳۲۷و ۶۵۶/ دارالفکر، السنن الکبری / بیھقی/ ج۲ / ص۱۴۹/ دارالمعرفة بیروت، سیر اعلام النبلاء/ ذہبی/ج۳/ص۲۵۴و ۲۸۳/ مؤسسة الرسالة بیروت، شرح السنة بغوی/ج۱۴/ص۱۱۶/المکتب الاسلامی بیروت، شواہد التنزبل/ج۲/ص۸۱-۱۴۰/ موسسة الطبع و النشر لوزرارة الارشاد، صحیح ابن حبان/ج۱۵/ص۴۴۲ الٰی ۴۴۳/موسسة الی سالة بیروت، صحیح مسلم/ج۵/ص۳۷/ کتاب الفضائل باب فضائل / مؤسسة عزالدین بیروت، فتح القدیر/ شوکانی/ج۴/ص۳۴۹تا۳۵۰/ دار الکتاب العلمیة بیروت، فرائد السمطین/ جوینی/ج۱/ص۳۶۷/مؤسسة المحمودی بیروت، کفایة الطالب/ص۳۷۱تا۳۷۷/داراحیاء تراث اہل البیت، مجمع الزوائد/ج۹/ص۱۶۶-۱۶۹/دارالکتب العربی بیروت، المستدرک علی الصحیحین /ج۲/ص۴۱۶وج۳/ص۱۴۷/دارالمعرفة بیروت، مسند ابی یعلی/ج۱۲/ ص۳۴۴و۴۵۶/ دار الہامون للتراث، مسند احمد/ج۴/ص۱۰۷وج۶/ص۲۹۲/دارصادر بیروت، مسند اسحاق بن راہویہ/ ج۳/ص۶۷۸/مکتبة الایمان مدینة المنورة، مسندطیالسی/ص۲۷۴/ دارالکتب اللبنانی، مشکل الآثار/ طحاوی/ج۱/ص۳۳۵/دارالباز، المعجم الصغیر/طبرانی/ج۱/ص ۱۳۵/ دارالفکر، المعجم الاوسط/طبرانی/ج۲/ص۴۹۱/ مکتبة المعارف ریاض، المعجم لکبیر/طبرانی/ ج۲۳/ ص۲۴۵و۲۸۱و ۲۸۶و ۳۰۸و۳۲۷و۳۳۰و۳۳۳و۳۳۴و۳۳۷و۳۵۷و۳۹۳و۳۹۶، المعرفة و التاریخ بسوی/ ج۱/۳۹۸، المنتخب من مسند عبد بن حمید/ص۱۷۳ و ۳۶۷/عالم الکتب قاہرہ مناقب ابن مغازلی/ص۳۰۱-۳۰۲/ المکتبةالاسلامیة

۱۹۴

کے بعض منابع کا ذکرکرتے ہیں کہ جن میں مذکورہ احادیث یا درج ہو ئی ہے یاان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

ان احادیث کے رادیوں کا سلسلہ جن اصحاب پرمنتہی ہو تا ہے وہ حسب ذیل ہیں:

۱ ۔ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام

۲ ۔ حضرت فاطمہ زہراء سلام الله علیہا

۳ ۔ حسن بن علی علیہ السلام

۴ ۔ انس بن مالک

۵ ۔ براء بن عازب انصاری

۶ ۔ جابربن عبد الله انصاری

۷ ۔ سعد بن ابی وقاص

۸ ۔ سید بن مالک)ابو سعید خدومی)

۹ ۔ عبد اللهبن عباس

۱۰ ۔ عبدالله بن جعفرطیار

۱۱ ۔ عائشہ

۲۱ ۔ ام سلمہ

۱۳ ۔ عمربن ابی سلم

۱۴ ۔ واثلة بن اسقع

۱۵ ۔ ابی الحمرائ

اس کے علاوہ شیعوں کی حدیث اور تفسیر کی کتابوں اور بعض اہل سنت منابع میں درج کی گئی احادیث اور روایتوں سے استفادہ ہو تا ہے کہ ” اہل بیت “سے مراد پیغمبر اسلام (ص)علی، فاطمہ نیز شیعوں کے گیارہ ائمہ معصومین )علیہم السلام )ہیں۔

۱۹۵

آیہ تطہیر کے بارے میں احادیث کی طبقہ بندی

آیہ تطہیر سے مربوط احادیث کو اہل سنت کے مصادر میں مطالعہ کرنے اور شیعوں کے منابع میں موجود ان احادیث کا سرسری جائزہ لینے کے بعد انھیں چند طبقوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

۱ ۔ وہ حدیثیں جن میں ” اہل بیت “ کی تفسیر علی و فاطمہ، حسن وحسین علیہم السلام کے ذریعہ کی گئی ہے۔

۲ ۔ وہ حدیثیں جن کا مضمون یہ ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علی، وفاطمہ،حسن و حسین علیہم السلام کو کساء کے نیچے قرار دیا پھر آیہ تطہر نازل ہوئی ، اور یہ واقعہ ” حدیث کساء “ کے نام سے مشہور ہے ۔ ان میں سے بعض احادیث میں آیا ہے کہ ام سلمہ یا عائشہ نے سوال کیا کہ : کیا ہم بھی اہل بیت میں شامل ہیں؟

۳ ۔ وہ حدیثیں جن میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہرروز صبح کو یا روزانہ پانچوں وقت حضرت علی و فاطمہ علیہماالسلام کے کھرکے دروازے پر تشریف لے جاتے تھے اور سلام کر تے تھے نیز آیہ تطہیر کی تلاوت فرماتے تھے۔

۴ ۔ وہ حدیثیں جواس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ آیہ تطہیر پنجتن پاک علیہم السلام یا پنجتن پاک علیہم السلام نیز جبرئیل ومیکائیل کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔

یہاں پرمناسب ہے کہ احادیث کے مذکورہ چارطبقات میں سے چند نمونوں کی طرف اشارہ کیا جاے:

۱۹۶

۱ ۔ ”اہل بیت“کی پنجتن پاک سے تفسیر

ذیل میں چند ایسی احادیث بیان کی جاتی ہیں جن میں آیہء تطہیر میں ”اہل بیت“کی تفسیرپنجتن پاک) علیہم السلام )سے کی گئی ہے:

الف:کتاب”المستدرک علی الصحیحین“میں عبداللہ بن جعفر سے روایت کی گئی ہے:

لمّا نظر رسول اللّٰه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم إلی الرحمة هابطة قال: اٴُدعوالی، اٴُدعوالی فقالت صفیة: من یا رسول اللّٰه؟ قال:اٴهل بیتی:علیاً وفاطمه والحسن و الحسین - علیهم السلام - فجیئی بهم،فاٴلقی علیهم النبییّ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کساء ه ثم رفع یدیه ثمّ قال: ”اللّهمّ هؤلاء آلی فصل علی محمد و علی آل محمد“ و اٴنزل اللّٰه عزّوجلّ ( : إنّما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهّرکم تطهیراً ) هذا حدیث صحیح الاسناد ۔(۱)

”جب پیغمبر خدا (ص)نے رحمت الہی )جو آسمان سے نازل ہوئی تھی) کا مشاہدہ کیا تو فرمایا: میرے پاس بلاؤ!میرے پاس بلاؤ!صفیہ نے کہا:یارسول اللہ کس کو بلاؤں؟آپ نے فرمایا:میرے اہل بیت،علی وفاطمہ، حسن وحسین )علیہم السلام)کو۔

جب ان کو بلایا گیا،تو پیغمبراکرم (ص)نے اپنی کساء )ردا)کوان پر ڈال دیااوراپنے ہاتھ پھیلاکر یہ دعا کی:خدایا!”یہ میرے اہل بیت ہیں۔محمد اور ان کے اہل بیت پر دورد ورحمت نازل کر۔“اس وقت خدا وند متعال نے آیہء شریفہ إنمّا یرید اللہ۔۔۔ نازل فرمائی۔

اس حدیث کے بارے میں حاکم نیشاپوری کا کہنا ہے:

هذا حدیث صحیح الاسناد ولم یخرجاه ۔“

”اس حدیث کی سند صحیح ہے اگرچہ بخاری اورمسلم نے اپنی صحیحین میں سے نقل نہیں

_____________________

۱۔المستدرک علی الصحیحین،ج۳،ص۱۴۸

۱۹۷

کیا ہے۔“(۱)

قابل غوربات ہے کہ حاکم نیشاپوری کا خود اہل سنت کے حدیث ورجال کے بزرگ علماء اور امام میں شمار کیا جاتا ہے ۔

ب:عن ابی سعید الخدری عن اٴُم سلمة قالت: ”نزلت هذه الآیة فی بیتی: ( إنّما یرید اللّهٰ لیذهب عنکم الرجس اٴهل البیت و یطهّرکم تطهیراً ) قلت: یا رسول اللّٰه، اٴلست من اٴهل البیت؟ قال: إنّک إلی خیر، إنّک من اٴزواج رسول اللّٰه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قالت: و اٴهل البیت رسول اللّٰه و علیّ و فاطمة والحسن والحسن(۲)

”ابی سعیدخدری نے ام سلمہ سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا:یہ آیت:

( إنّما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الّرجس اهل البیت و یطهّرکم تطهیرا ) میرے گھر میں نازل ہوئی میں نے عرض کی یارسول اللہ!کیا میں اہل بیت میں سے نہیں ہوں؟فرمایا:تمھارا انجام بخیر ہے،تم رسولکی بیوی ہوپھرام سلمہ نے کہا:”اہل بیت“رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علی و فاطمہ، حسن وحسین (علیہم السلام) ہیں۔

____________________

۱۔حاکم نیشاپوری نے اپنی کتاب ”المستدرک علی الصحیحین“میں ان ا حادیث کودرج کیا ہے جو بخاری کے نزدیک صحیح ہو نے کی شرط رکھتی تھیں،لیکن انہوں نے انھیں اپنی کتابوں میں درج نہیں کیا ہے۔جو کچھ ذہبی اس حدیث کے خلاصہ کے ذیل میں ۔ اس کے ایک راوی ۔ملیکی کے بارے میں کہتا ہیں کہ:”قلت: الملیکی ذاھب الحدیث“اس کے عدم اعتماد کی دلیل نہیں ہو سکتی ہے۔کیونکہ اس کے بارے میں جیسا کہ ابن حجر نے”تہذیب التہذیب“ج۶،ص۱۳۲ پر”ساجی“سے نقل کر کے”صدوق“ کی تعبیرکی ہے۔ اس کی صداقت اور سچ کہنے کی دلیل ہے۔اوراس کی مدح میں جوتعبیرات نقل کی گئی ہے وہ اس کی حدیث کے بارے میں ہے اورخود صحیح بخاری ومسلم میں بھی ہم بہت سے ابواب میں ان کے راویوں کوپاتے ہیں کہ بہت سی تعرفیں کی گئی ہیں۔

۲۔تاریخ مدینة دمشق،ج۱۳،ص۲۰۶

۱۹۸

۲ ۔آیہء تطہیر کی تفسیرمیں حدیث کساء کی تعبیر

ش یعہ اور اہل سنت کی تفاسیر و احادیث کی کتابوں میں اس مضمون کی فراون حدیثیں موجود ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اہل بیت علیہم السلام کو ایک کساء کے نیچے جمع کیا اور اس کے بعد ان کے بارے میں آیہ تطہیر نازل ہوئی۔ ہم اس کتاب میں ان احادیث میں سے چند ایک کو نمونہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

قابل توجہ بات ہے کہ ش یعہ امامیہ کے نزدیک حدیث کساء ایک خاص اہمیت و منزلت کی حامل ہے۔ یہ حدیث مرحوم بحرانی(۱) کی کتاب،”عوالم العلوم“میں حضرت فاطمہ زہرا )سلام الله علیہا) سے روآیت کی گئی ہے اور مختلف زمانوں میں ش یعوں کے نا مور علماء اور فقہا کے نام سے مزّین اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔ نیز یہ حدیث ش یعوں کی مجلسوں اور محفلوں میں پڑھی جاتی ہے اور توسّل اور تبّرک کا ذریعہ قرار دی گئی ہے۔

احادیث کے اس گروہ میں درجہ ذیل تعبیر یں توجہ کا باعث ہیں اور ان تعبیروں میں سے ہر ایک ”اہل بیت “ کے دائرے کو پنجتن پاک )علیہم اسلام) کی ذات میں متعین کرتی ہیں:

۱ ۔”إنّک الی خیر “ یا جملہء”انّک من ازواج النبّی “ سے ضمیمہ کے ساتھ(۲)

۲ ۔”تنحّی، فإنّک علی خیر ۔“(۳)

۳ ۔”فجذبه من یدی ۔“(۴)

۴ ۔”ماقال إنّک من ٍهل البیت ۔“(۵)

۵ ۔”لا،واٴنت علی خیر ۔“(۶)

____________________

۱۔ عوام العوم، جلد حضرت زہراء علیہماسلام۔ ج۱۱،ص ۶۳۸موسسہ الامامم مھدی علیہ اسلام

۲۔الدر المنثور،ج۶،ص۶۳۸،موسسة الامام مھدی

۳۔تفسیرابن کثیر،ج۳،ص۴۹۳

۴۔الدر المنثور،ج۶،ص۱۶۰۴۔المعجم الکبیرج،۲۳،ص۳۳۶ ۵۔تاریخ مدینةدمشق ج۱۴،ص۱۴۵

۶۔تاریخ مدینةدمشق،ج۱۳،ص۰۶ ۲

۱۹۹

۶ ۔”فواللّٰه مااٴنعم ۔“(۱)

۷ ۔”مکانک،اٴنت علی خیر ۔“(۲)

۸ ۔”فوددت اٴنّه قال:نعم ۔۔۔“(۳)

۹ ۔”تنحیّ لی عن اٴهل بیتی ۔“(۴)

۱۰ ۔”إنّک لعلی خیر،ولم ید خلنی معهم ۔“(۵)

۱۱ ۔”فواللّٰه ماقال:اٴنت معهم ۔“(۶)

۱۲ ۔”اجلسی مکا نک،فانک علی خیر ۔“(۷)

۱۳ ۔”إنّک لعلی خیر،وهؤلائ اٴهل بیتی ۔“(۸)

۱ ۔”إنک إلی خیر “کی تعبیر

”اٴخرج ابن جریر و ابن حاتم و الطبرانی و ابن مردویه عن اٴمّ سلمة زوج النبیّصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم إنّ رسول اللّٰه( ص) کان ببیتها علی منامة له علیه کساء خیبریّ! فجا ء ت فاطمة - رضی اللّٰه عنها - ببرمة فیها خزیره فقال رسول اللّه( ص) : اُدعی زوجک و ابنیک حسناً و حسیناً فدعتهم، فبینما هم یاٴکلون إذنزلت علی رسول اللّٰه( ص) :( إنّما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الرجس اٴهل البیت و یطهّرکم تطهیراً ) فاٴخذ النبیّصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بفضلة ازاراه فشّاهم إیاّها، ثمّ اٴخرج یده من الکساء و اٴومابها إلی السماء ثمّ قال: ”اللّهمَّ هؤلاء

____________________

۱۔تفسیرابن کثیر،ج۳،ص۴۹۲،تفسیر طبری ج،۲۲ص،۵

۲۔تاریخ مدینةدمشق،ج۱۴،ص۱۴۱ ۳۔مشکلا آثار،ج۱،ص۳۳۶

۴۔تاریخ مدینةدمشق،ج۱۳،ص۲۰۳

۵۔شواہدالتنزیل،ج۲،ص۶۱

۶۔شواہد التنزیل،ج۲،ص۱۳۴

۷۔شواہدالتنزیل،ج۲،ص۱۹

۸۔المستدرک علی الصحیحین،ج۲،ص۴۱۶

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

حکم کسی اور کام کا ملا ہے؟ جس پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب دیا تھا کہ ہاں ایسا ہی ہے_ اور یہ جملے اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ جنگ کا فیصلہ پہلے سے ہوچکا تھا اور خدا کی طرف سے یہ حکم پہلے ہی آچکا تھا_ پس آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مشورے کی وجوہات وہی تھیں جو ہم ابھی کہہ چکے ہیں، پہلے بھی کہہ چکے تھے اور غزوہ احد میں بھی کہیں گے_

۲_ بہترین رائے ، قریش سے جنگ

یہ بات بھی واضح ہے کہ صحیح رائے قریش سے جنگ ہی تھی جس میں خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مرضی بھی تھی_

کیونکہ مسلمان ایک دورا ہے پر کھڑے تھے:

یا تو تجارتی قافلے اور قریش کی فوج کا سامنا کئے بغیر مسلمان واپس پلٹ جاتے_ اور یہ بات مسلمانوں کی واضح روحی اور نفسیاتی شکست اور مشرکوں ، یہودیوں اور منافقوں کو اپنے اوپر جری کرنے کا باعث تھی_

یا پھر وہ تجارتی قافلے تک پہنچ کر کئی لوگوں کو قتل یا قید کرنے کے بعد اسے لوٹ لیتے _ اس صورت میں قریشی ہرگز خاموش نہ رہتے بلکہ وہ وسیع پیمانے پر اور مکمل طور پر لیس ہو کر مسلمانوں سے جنگ کرتے _ وہ تو اس صورتحال میں مسلمانوں کے واپس مدینہ پہنچنے سے بھی پہلے مدینہ پر چڑھائی کر کے مسلمانوں پر مہلک وار کرسکتے تھے_ کیونکہ اتنی بڑیتعد اد اور تیاری کے ساتھ قریشی اتنی بڑی بات پر چپ نہیں رہ سکتے تھے بلکہ وہ جلدی سے اپنی جاتی ہوئی حیثیت ، ہیبت ، رعب و دبدبے اور بزرگی کے اعادے کی کوشش کرتے_

پس مسلمانوں کے سامنے صرف ایک ہی راستہ باقی رہتا تھا_ اور وہ قریش (کو پہلے اپنا عادلانہ ،عاقلانہ اور قابل قبول چہرہ اور طاقت دکھانے نیز منصفانہ پیشکش سامنے رکھنے کے بعد اب ان )کے مقابل کھڑا ہونا تھا_ پس ان حالات میں قریش سے جنگ ہی بہترین اور بے مثال انتخاب تھا_ خاص طور پر جب وہ قریش کے تجارتی قافلے کے تعاقب میں نکل بھی چکے تھے اور اس کام سے ان کا پیچھے ہٹنا مسلمانوں کے لئے عدیم المثال پیچیدگیوں، مشکلات اور اعتراضات کا باعث بنتا_

۲۴۱

ان تمام باتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگر مسلمان عزت اور وقار کی ایسی زندگی گذارنا چاہتے ہیں کہ ان کا کوئی بھی ہمسایہ ، مشرک ، یہودی ، منافق اور کوئی بھی دشمن ان کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے نہ دیکھے تو انہیںجنگ کے لئے پیش قدمی کرنی ہوگی_ اس کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے_

۳_ نفسیاتی تربیت:

اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے چلیںکہ :

الف: اس جنگ میں پہلے پہل عام مسلمانوں کا مقصد مال کا حصول تھا_ لیکن خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں اس دنیاوی مقصد سے کہیں بلند ، قیمتی اور بہترین ہدف کی طرف لے جانا چاہا و گرنہ قریشیوں کی اس لشکر کشی اور جنگ کے پیچھے بھی تو دنیاوی ، اقتصادی ، اجتماعی ( معاشرتی ) اور سیاسی مقاصد کار فرماتھے_پھر تو مسلمانوں اور مشرکوں میں کوئی فرق باقی نہ رہتا_

ب: جنگ بدر نے مسلمانوں کے اندر خود اعتمادی کی روح پھونکنے اور بھر پور قوت اور شجاعت کے ساتھ آئندہ کے خطرات کا سامنا کرنے کی جرات پیدا کرنے میں اپنا بہت بڑا اثر دکھا یا _ کیونکہ انہیں خدا کے ''ہوکر رہنے والے حتمی ''کام کی انجام دہی کے لئے قریش کے جابروں، متکبروں اور سرداروں کو قتل اور قید کرنا پڑا اور اس امتحان میں وہ سرخرو ہوگئے ہیں تواب انہیں عرب اور عجم سمیت پوری دنیا سے جنگ کی تیاری کرنی تھی _

۴_ جنگ سے متعلق مشوروں پر ایک سرسری نگاہ

یہ بات بھی قابل ملاحظہ ہے کہ اکثر مؤرخین نے اس مرحلے میں عمر اور ابوبکر کا کلام حذف کر کے صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ ابوبکر نے کھڑے ہوکر اچھی رائے دی او رعمر نے بھی کھڑے ہوکر بہترین مشورہ دیا پھر

۲۴۲

مقداد نے کھڑے ہوکر فلاں بات کی(۱) _ بلکہ ان میں سے کچھ لوگوں کی طرف ایسی باتیں بھی منسوب کرتے ہیں جن کا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سوال سے سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا_(۲) بہرحال شیخین کی مذکورہ باتیں چونکہ اکثر مؤرخین کو اچھی نہیں لگیں اس لئے وہ مذکورہ طریقے سے اس سے کنی کتراگئے _ لیکن یہ واضح سی بات ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مقداد کی باتوں پر خوش ہوکر اسے دعائیں دینا اس بات کی دلیل ہے کہ شیخین کی باتیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مشاورتی مقاصد سے میل نہیں کھاتی تھیں بلکہ وہ تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اعلی مقاصد کے بالکل برخلاف تھیں_ وگر نہ اگر ان کی باتیں لائق ذکر ہوتیں تو ان کے چاہنے والے راوی اور مؤرخین ان کی باتوں کو ضرور بڑھا چڑھاکر پیش کرتے_ لیکن مقداد کا مشورہ چونکہ بالکل صحیح ، منطقی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اعلی اہداف و مقاصد کے موافق نیز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی توقعات کے عین مطابق تھا اس لئے مقداد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعاؤں اور تعریفوں کا مستحق ٹھہرا_

بلکہ کتابوں میں یہاں تک بھی آیا ہے کہ جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ابوسفیان کے تجارتی قافلے کی آمد کی اطلاع ملی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے صحابیوں سے مشورہ لیا_ یہاں ابوبکر نے کوئی بات کی لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی بات کو رد کردیا اور عمر نے بھی کوئی بات کی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی باتوں کو بھی ٹھکرا دیا(۳) _ پس آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ان کی باتوں کو رد کردینا صرف اس وجہ سے نہیں تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انصار کا جواب سننا چاہتے تھے بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رو گردانی ان دونوں کے قریش سے جنگ نہ کرنے پر اکسانے نیز ان الفاظ کے ساتھ قریش کی تعریف کرنے کی وجہ سے تھی کہ یہ ہمیشہ سے ناقابل شکست اور بے ایمان کا فرر ہے ہیں _ وگرنہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مقداد کی باتوں سے خوش ہوکر اسے دعائیں کیوں دی تھیں؟ حالانکہ وہ بھی تو ایک مہاجر تھا ؟حتی کہ ابن مسعود نے اس کے اس موقف کے متعلق کہا کہ اس کی ہم وزن کسی بھی چیز سے زیادہ مجھے اس کا ساتھی بننا بہت پسند تھا(۴) _ اور ابوایوب انصاری

____________________

۱) بطور مثال ملاحظہ ہو: البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۶۲ و الثقات ج ۱ ص ۱۵۷_

۲)وہ بات قریش کے تجارتی قافلے کو لوٹنے والی بات تھی (۳) صحیح مسلم باب غزوہ بدر ج ۵ ص ۱۷۰ مسند احمد ج ۳ ص ۲۱۹ دو اسناد کے ساتھ نیز از الجمع بین الصحیحین ، البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۶۳ و السیرة النبویہ ابن کثیر ج ۲ ص ۳۹۴_

۴) صحیح بخاری باب '' تستغیثون ربکم'' مطبوعہ المیمنیہ ، البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۶۲ _ ۲۶۳و سنن نسائی _

۲۴۳

نے بھی اپنی باتوں کے دوران یہ اظہار کیا کہ ہم انصار جماعت کی یہ حسرت رہی کہ اے کاش اس دن ہم نے بھی مقداد کی طرح باتیں کہی ہوتیں ( اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعائیں سمیٹی ہوتیں) تو یہ چیز ہمیں بہت زیادہ مال سے بھی زیادہ پسند تھی _ جس پر خدا نے یہ آیت نازل کی تھی( کما اخرجک ربّک من بیتک بالحق و ان فریقاًمن المؤمنین لکارهون ) (۱) _

گذشتہ تمام باتوں کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کلام مہاجرین و انصار سب کے لئے دعوت عام تھا _ اسی طرح جنگ پر بیعت نہ کرنے کے لحاظ سے مہاجرین بھی انصار ہی کی طرح تھے_پس مؤرخین کی یہ بات کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مخاطب صرف انصار تھے صحیح نہیں ہے_

۵_ مقداد اور سعد کی باتوں پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سرور کی وجوہات

مقداداور سعد بن معاذ کی باتوں میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کوئی مشورہ نہیں دیا نہ جنگ کا اورنہ ہی صلح کا بلکہ انہوں نے تو صرف آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بے چون و چرا اطاعت اور فرمانبرداری کا اظہار کیا تھا_ انہوں نے تو اپنی کسی رائے کا اظہار کیا نہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کسی چیز کا مشورہ دیا _ اور یہ ایمان خلوص ، اطاعت ، فرض شناسی اور موقع شناسی کی انتہا ہے _

خدا کا فرمان ہے کہ( و ما کان لمؤمن و لامؤمنة اذا قضی الله و رسوله امراً ان یکون لهم الخیرة من امرهم ) (۲) ترجمہ : '' جب خدا اور اس کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوئی فیصلہ کرلیں تو کسی بھی مؤمن مرد اور مؤمنہ عورت کو اپنی مرضی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے '' _ نیز( یا ایها الذین آمنوا لاتقدموا بین یدی الله و رسوله و اتقو الله ان الله سمیع علیم ) (۳) ترجمہ : '' اے مؤمنوا خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کسی بھی چیز میں پیش قدمی نہ کیا کرو اور خدا سے ڈرو کہ خدا خوب سننے اور جاننے والا ہے '' _ اور خدا کے ان

____________________

۱) البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۶۳ و ص ۲۶۴ از ابوحاتم و ابن مردویہ_

۲) احزاب /۳۶ _

۳) حجرات_

۲۴۴

فرامین کی روشنی میں یہ دونوں شخصیات خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فیصلے کے سامنے اپنی کوئی حیثیت نہیں سمجھتے تھے اور اپنے لئے کسی بھی مرتبے کے قائل نہیں تھے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خوشی اور سرور بھی ان کے اسی گہرے اور پختہ ایمان اور بے چون و چرا فرمانبرداری کی وجہ سے تھی _

۶_ حضرت علی علیہ السلام نے مشورہ کیوں نہیں دیا؟

یہاں قابل ملاحظہ بات یہ بھی ہے کہ اس موقع پر حضرت علی علیہ السلام نے عقلمندی اور دانائی کا سرچشمہ ہونے کے باوجود اپنی کسی رائے کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی اپنا موقف اور مشورہ سنانے کی انہیں کوئی جلدی تھی_ آپ لوگوں کے خیال میں اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے ؟

اس سوال کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کا موقف بعینہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاہی موقف تھا _ کیونکہ آیت مباہلہ میں خدا نے ان الفاظ میں حضرت علی علیہ السلام کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات اور نفس قرار دیا :

( فقل: تعالوا ندع ابنائنا و ابنائکم ونسائنا و نسائکم و انفسناو انفسکم )

تو ( اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس صورت میں انہیں ) کہہ دو کہ پھر آؤ ہم اور تم اپنے اپنے سپوتوں ، عورتوں اور اپنی سب سے پیاری شخصیتوں کو بلالیں

مزید یہ کہ حضرت علی علیہ السلام خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کسی بھی معاملے میں پیش قدمی کرنے والے تھے ہی نہیں _ اور اس موقع پر وہ خدا اور اس کے رسول کے فیصلے کے سامنے خاموشی ، رضا اور سر تسلیم خم کرنے کو اپنے لئے ضروری سمجھتے تھے اور اس کام میں انہیں کوئی عار بھی محسوس نہیں ہوتا تھا _

'' حباب'' اچھی رائے والا

مؤرخین کے بقول جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے بدر کے مقام پرپانی کے کنویں کے قریب پڑاؤ کیا تو حباب بن

۲۴۵

منذر نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ مشورہ دیا کہ دشمن کی فوج کی بہ نسبت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پانی کے زیادہ قریب پڑاؤ کریں اور وہاں پانی کا ایک حوض بنائیں پھر دیگر تمام کنوؤں کا پانی نکال لیں_ اس سے مسلمان تو پانی استعمال کرسکیں گے لیکن مشرکین ایسا نہ کرسکیں گے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایسا ہی کیا توحباب کے مشورہ کو درست پایا_ اس پر حباب کو '' حباب ذوالرا ی '' ( حباب بہترین رائے والا ) پکارا جانے لگا(۱) _

لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے _ کیونکہ :

ایک : پختہ دلیلوں سے ثابت ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جو کچھ سوچتے یا کرتے تھے وہ سب صحیح اور بہترین ہوتا تھا _ اور یہ نظریہ کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دنیاوی معاملات میں غلطی کرسکتے تھے ، ناقابل اعتبار ہے کیونکہ یہ بات عقل اور آیات و روایات کے بالکل بر خلاف ہے (البتہ خطا اور نسیان سے عصمت کے اختیاری ہونے کی گفتگو عنقریب ہوگی انشاء اللہ )

دو : '' عدوة القصوی '' جہاں مشرکوں نے پڑاؤ کیا تھا پانی بھی وہاں تھا اور وہ ایک بہترین زمین تھی جبکہ '' عدوة الدنیا '' میں کوئی پانی نہیں تھا ، جبکہ وہاں کی زمین اتنی نرم تھی کہ اس میں پاؤں دھنس جاتے تھے(۲)

تین : مسلمانوں سے پہلے مشرکوں نے بدر کے مقام پر آکر پڑاؤ کیا تھا _ اور یہ معقول ہی نہیں ہے کہ انہوں نے ایسی جگہ جا کر پڑاؤ کیا ہو جہاں کوئی پانی نہ ہو اور پانی والا حصہ اوروں کے لئے چھوڑدیا ہو_

چار : خود ابن اسحاق یہ بیان کرتا ہے کہ مشرکین حوض سے پانی لینے آئے تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا کہ انہیں پانی بھرنے دیا جائے(۳) _ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے بھی جنگ صفین میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی میں اپنے سرکش دشمنوں کو بھی پانی لینے کی اجازت دے رکھی تھی_ حالانکہ انہوں نے پہلے آپعليه‌السلام کو اسی

____________________

۱) سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۷۲ ، تاریخ الخمیس ج ۱ص ۳۷۶، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۵۵، الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۱۲۲، سیرہ نبویہ ابن کثیر ج ۲ ص ۴۰۳و ص ۴۰۲ و البدایہ والنہایہ ج ۳ ص ۲۶۷ و غیرہ _ (۲) ملاحظہ ہو : فتح القدیر ج ۲ ص ۲۹۱ از زجاج و ص ۳۱۱ و کشاف ج ۲ ص ۲۰۳ تا ۲۲۳ ، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۷۵ ، تفسیر ابن کثیر ج ۲ ص ۲۹۲ از ابن عباس ، قتادہ ، سدی و ضحاک ، در منثور ج ۳ ص ۱۷۱ از ابن منذر ، ابوالشیخ ، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۵۴ ، سیرہ ابن کثیر ج ۲ ص ۴۰۰ ، کشاف ، انوار التنزیل و مدارک و غیرہ _ (۳) ملاحظہ ہو : الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۱۲۳_

۲۴۶

پانی سے محروم کیا ہوا تھا(۱) اور یہ واضح سی بات ہے کہ دشمنوں کو پانی سے روکنا اور منع کرنا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اخلاقیات اور اسلام کی بنیادی تعلیمات سے سازگار نہیں ہے _

پس صحیح روایت یہ ہے کہ پہلے پہل مسلمانوں کے پاس پانی نہیں تھا _ لیکن ایک رات خدا نے موسلا دھار بارش برسائی تو وادی میں سیلاب سا آگیا اور مسلمان نے کئی حوض (گڑھے) بنالئے ، خود بھی پانی پیا اور جانوروں کو بھی پلایا ، نہایا دھویا بھی اور اپنی مشکیں بھی بھر لیں(۲) _ اس بات کی طرف یہ آیت اشارہ کررہی ہے _ ( اذ یغشیکم الناس امنة منہ و ینزل علیکم من السماء مائً لیطہرکم بہ و یذہب رجز الشیطان و لیربط علی قلوبکم و یثبت بہ الاقدام )(۳) پس حوض بنانے کے وجوہات وہ نہیں جو پہلے ذکر ہوئی ہیں بلکہ یہی ہےں جواب ذکر ہوئی ہےں_

مسلمانوں اور مشرکوں کی تعداد اور ساز و سامان

جناب طالوت کے ساتھیوں کی تعداد کے مطابق آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی اس جنگ میں اپنے تین سو تیرہ صحابیوں کو لے کر نکلے ( البتہ کم یا زیادہ تعداد کے اقوال اور نظریات بھی ہیں لیکن مذکورہ قول اکثر بزرگان کا نظریہ ہے(۴) _ اور ان کے ساتھ ستر اونٹ تھے جن پر دود ویا تین تین آدمی باری باری سوار ہوتے تھے _ خود نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، حضرت علیعليه‌السلام اور مرثد بن ابی مرثد ( البتہ بعض مؤرخین کے مطابق تیسرا شخص زید بن حارثہ تھا ) ایک اونٹ پر باری باری سوار ہوتے تھے _ مؤرخین کا اس بات پر تو اتفاق ہے کہ اس لشکر میں ایک گھوڑا مقداد کا ضرور تھا لیکن باقی کے متعلق اختلاف ہے _ ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ فقط یہی ایک گھوڑا تھا(۵) اور یہ قول حضرت علیعليه‌السلام سے بھی منقول ہے(۶) ایک نظریہ یہ ہے کہ ایک گھوڑا زبیر کا یا مرثد کا بھی تھا جبکہ یہ بھی کہا

____________________

۱) ملاحظہ ہو مصنف کی کتاب '' الاسلام و مبدا المقابلة بالمثل '' _ (۲) ملاحظہ ہو : کشاف ج ۲ ص ۲۰۳ وص ۲۰۴ و تفسیر ابن کثیر ج ۲ ص ۲۹۲ البتہ اس میں حوض بنانے کا ذکر نہیں ہے _ (۳) انفال /۱۱_ (۴)سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۱۴۹_ (۵) تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۷۱ از کشاف ، مناقب ابن شہر آشوب ج ۱ ص ۱۸۷ ، بحار الانوار ج ۹ ۱ ص ۳۲۳ از تفسیر عیاشی ج ۲ ص ۲۵ و ۵۴ و حیاة الصحابہ ج ۱ ص ۴۹۳ از الترغیب ج ۱ ص ۱۳۱۶ از ابن خزیمہ نیز ملاحظہ ہو _ المغازی ذہبی ( تاریخ الاسلام ) ض ۵۶و ۵۹ ، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۴۹ ، دلائل النبوة بیہقی مطبوعہ مکتبة العلمیہ ج ۳ ص ۳۸ و ص ۳۹ و ۴۹ ، المغازی واقدی ج ۱ ص ۲۷ و تاریخ الام و الملوک ج ۲ ص ۳۵_ (۶) تاریخ طبری ج ۲ ص ۱۳۵، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۴۹ و سیرہء نبویہ ابن کثیر ج ۲ ص ۳۸۸_

۲۴۷

گیا ہے کہ دونوں کے گھوڑے تھے_ اسلحہ میں صرف چھے ڈھالیں اور آٹھ تلوار یں تھیں(۱)

ان تین سو تیرہ سپاہیوں میں سے مہاجرین کی تعداد کے متعلق مختلف اقوال ہیں_ چونسٹھ (۶۴) بھی کہا گیا ہے ستر (۷۰) بھی، چھیتر (۷۶) بھی ، ستتر (۷۷) اور اسی (۸۰) تک بھی کہا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ دو سو ستر (۲۷۰) انصاری تھے اور باقی دوسرے لوگ تھے _ اس کے علاوہ دیگر اقوال بھی ہیں(۲) _ اور انصارمیں سے کہا گیا ہے کہ ایک سو ستر (۱۷۰) خزرجی تھے البتہ اس تعداد میں بھی اختلاف پایا جاتاہے_ لیکن مشرکین نشے میں بد مست تھے اور اپنے ساتھ ڈفلی بجانے والی گلوکار ائیں بھی لائے تھے جنہیں انہوں نے راستے سے ہی واپس پلٹا دیا تھا_ ان کے ساتھ سات سو اونٹ تھے(۳) _ البتہ گھوڑوں کی تعداد میں اختلاف ہے _ چارسو بھی کہا گیا ہے(۴) ، دو سو بھی کہا گیا ہے اور ایک سو بھی(۵) نیز دیگر اقوال بھی ہیں_ اور ان سب کے پاس ڈھالیں تھیں اور ڈھال والی فوج کی کل تعداد چھ سو(۶۰۰) تھی(۶) _ پورے لشکر کے کھانے پینے کا بند و بست کرنے والے کل بارہ آدمی تھے جن میں عتبہ ، شیبہ ، عباس ، ابو جہل اور حکیم بن حزام بھی تھے _ البتہ مشہور یہ ہے کہ مؤخر الذکر بعد میں مؤلفة القلوب میں شمار ہونے لگا تھا _ بہرحال ان بارہ آدمیوں میں سے ہر ایک پورے لشکر کے ایک دن کا کھانا اپنے ذمہ لے لیتاتھا _ اور وہ ان کے لئے نو یاد س اونٹ ذبح کرتا تھا_

____________________

۱) ملاحظہ ہو :مناقب آل ابی طالب ابن شہر آشوب ج ۱ ص ۱۸۷، بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۰۶، مجمع البیان ج ۲ ص ۲۱۴ البتہ دار احیاء التراث کی طباعت کے مطابق ج ۱ ص ۴۱۵ و تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۷۱_

۲) ملاحظہ ہو : بحارالانوار ج ۱۹ ص ۳۲۳، دلائل النبوة بیہقی ج ۳ ص ۴۰، البدایة و النہایہ ج ۳ ص ۲۶۹، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۴۶، حیاة الصحابہ ج ۱ ص ۶۰۳ ، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۷۱، انساب الاشراف ج ۱ ص ۲۹۰، مجمع الزوائد ج ۶ ص ۹۳، الکامل فی التاریخ ج ۲ ص ۱۱۸ و دیگر کتب_

۳) ملاحظہ ہو گذشتہ چند حاشیوں میں مذکور منابع_

۴) تفسیر قمی ج ۱ ص ۲۶۲_ (۵) ملاحظہ ہو : مناقب آل ابی طالب ج ۱ ص ۱۸۷، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۴۶، بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۲۴ و ص ۲۰۶، الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۱۱۸ ، مجمع البیان و دیگر کتب نیز سیرہ نبویہ ابن کثیر ج ۲ ص ۳۸۷_

۶) التنبیہ و الاشراف ص۲۰۴ و سیرہ نبویہ ابن کثیر ج ۲ ص ۳۸۷_

۲۴۸

مشرکوں کی ہٹ دھر می اور کینہ توزی

بدر کے کنویں پر مسلمانوں نے قریش کے چند ایک غلاموں کو پکڑ ان سے تجارتی قافلے کے متعلق پوچھ گچھ کی توانہوں نے اس سے لا علمی کا اظہار کیا جس پر مسلمانوں نے انہیں مارا پٹیا_ اس وقت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نماز میں مصروف تھے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جلدی جلدی نماز مکمل کی اور فرمایا:'' وہ تمہیں سچ سچ بتا رہے ہیں تو تم انہیں مار رہے ہو کیا جھوٹ بولنے پر انہیں چھوڑ وگے؟ '' _ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے لشکر قریش کی تعداد کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اس سے بھی لا علمی کا اظہار کیا _ جس پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے پوچھا : '' وہ ہر روز کتنے اونٹ ذبح کرتے ہیں؟'' _ انہوں نے کہا :'' نو سے دس تک ذبح کرتے ہیں'' _ اس پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : '' اس کا مطلب ہے وہ لوگ نو سو سے ایک ہزار تک کی تعداد میں ہیں''(۱) _ (البتہ اس سے زیادہ تعداد بھی بتائی گئی ہے حتی کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کی تعداد تین ہزار تک تھی لیکن یہ صحیح نہیں ہے) _ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان لوگوں کو قید کرنے کا حکم دیا تو انہیں قید کر لیا گیا _ جب مشرکین کو اس بات کا علم ہوا تو وہ اپنے بدر آنے پر بہت نادم اور پریشان ہوئے کیونکہ تجارتی قافلے کے صحیح سالم بچ نکلنے کی خبر سن کر بھی انہوں نے عربوں پر اپنی دہشت بٹھانے کے لئے بدر آنے پر بہت اصرار کیا تھا_ عتبہ بن ربیعہ ( جس کا بیٹا ابو حذیفہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کے ساتھ تھا) نے بھی یہ اعتراف کیا تھا کہ تجارتی قافلے کی نجات کے بعد ان کا بدر آنا ہٹ دھرمی اور کینہ توزی پر مبنی تھا_ حالانکہ واپسی کا متفقہ فیصلہ کرنے کی کوششیں بھی ہوئیں لیکن ابوجہل نے واپسی سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا : '' نہیں ، لات و عزّی کی قسم جب تک ان پر یثرب میں دھا و ابول کر انہیں قید کرکے ( ذلت اور خواری کے ساتھ) مکہ نہیں لے آئیں گے یہاں سے واپس نہیں پلٹیں گے _ تا کہ سارے عرب میں اس بات کا چرچا ہو اور آئندہ کوئی بھی ناپسندیدہ شخص ہمارے اور ہمارے تجارتی راستے کے درمیان رکاوٹ کھڑی کرنے کی کوشش نہ کرے''(۲) البتہ

____________________

۱) ملاحظہ ہو : سیرہ نبویہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۶۹ تا ص ۲۹۸ ، المغازی و اقدی ج ۱ ص ۵۳ ، البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۶۳تا ص ۲۶۴، دلائل النبوة بیہقی ج ۲ ص ۳۲۷ و ص ۳۲۸، السنن الکبری ج ۹ ص ۱۴۷ و ص ۱۴۸ ، زاد المعاد ج۳ ص ۱۷۵، صحیح مسلم ج ۵ ص ۱۷۰، کشف الاستار ج ۲ ص ۳۱۱ ، طبقات الکبری مطبوعہ صادر ج ۲ ص ۱۵، تاریخ الامم و الملوک ج ۲ ص ۱۳۲ تا ص ۱۳۴ و ص ۱۴۲ و سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۵۲_

۲) بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۵۰ از تفسیر قمی نیز ملاحظہ ہو : المغازی واقدی ج ۱ ص ۷۱_

۲۴۹

جیسا کہ پہلے بھی کہا جا چکا ہے اخنس بن شریق کے ایماء پر بنی زہرہ کا قبیلہ وہیں سے واپس پلٹ گیا تھا_

دونوں فوجوں کا پڑاؤ

مشرکین، بدر کے مقام پر پہلے پہنچ گئے اور انہوں نے مکہ کے راستے پر پڑنے والی'' عدوة القصوی '' نامی وادی میں پڑاؤ کیا جہاں پانی موجود تھااور ان کے پڑاؤ کی جگہ سخت تھی_ قریش کا تجارتی قافلہ بھی مشرکین کی فوج کے پیچھے موجود تھا(۱) ارشاد خداوند ہے ( و الرکب اسفل منکم) _جبکہ مسلمانوں نے مدینہ کی جانب پڑنے والی '' عدوة الدنیا '' نامی وادی میں پڑاؤ کیا جہاں پانی بھی نہیں تھا اور زمین بھی ایسی نرم تھی کہ قدم بھی نہیں جم سکتے تھے _ جس کا مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں کی جگہ فوجی نقطہ نظر سے نہایت نامناسب تھی _ لیکن خدا نے دشمنوں کے مقابلے میں اپنے بندوں کی مدد اور حمایت کی اور راتوں رات مشرکوں کی جگہ پر بارش برسی تو ان کی جگہ کیچڑ میں تبدیل ہوگئی جبکہ اسی بارش نے مسلمانوں کی جگہ پر برس کر زمین کو سخت اور ٹھوس کردیا تھا اور مسلمانوں نے گڑھوں اور تالابوں میں پانی بھر لیا تھا(۲) _

مسلمانوں کی معنویات اور پروردگار کی عنایات

جب مسلمانوں تک مشرکوں کی کثرت کی خبر پہنچی تو وہ گھبراگئے اور خدا سے دعا اور زاری کرنے لگے_ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی روایت ہے کہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے مشرکوں کی کثرت اور مسلمانوں کی قلت کو دیکھا تو قبلہ رو ہو کر یہ دعا مانگی :'' پروردگار اپنی مدد کا وعدہ پورا کر _ خدایا اگر تونے اپنے ان عزیزوں کو ماردیا تو پھر زمین پر کبھی تیری عبادت نہیں ہوگی''_

____________________

۱) البتہ عنقریب ذکر ہوگا کہ وہ تجارتی قافلہ صحیح سالم بچ کرنکل گیا تھا کیونکہ ابوسفیان اس قافلہ کو مدینہ اور مسلمانوں کے رستے سے دور ساحل سمندر کے راستے سے بچا کر لے گیا تھا_

۲) سیرہ نبویہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۷۱ و ص ۲۷۲ ، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۷۵ ، تاریخ الامم و الملوک مطبوعہ الاستقامہ ج ۲ ص ۱۴۴ ، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۵۴، الکامل فی التاریخ ج ۲ ص ۱۲۲، دلائل النبوة بیہقی مطبوعہ دار الکتاب العلمیہ ج ۳ ص ۳۵ و البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۶۶_

۲۵۰

اس پر یہ آیت نازل ہوئی :

( اذ تستغیثون ربکم فاستجاب لکم انی ممدکم بالف من الملائکة مردفین و ما جعله الله الا بشری و لتطمئن به قلوبکم ) (۱۰)

'' (اور وہ وقت یا کرو ) جب تم اپنے پروردگار سے گڑ گڑا کر مدد مانگ رہے تھے تو خدا نے بھی تمہاری سن لی اور قطار اندر قطار ایک ہزار فرشتے بھیجے اور خدا نے انہیں صرف خوشخبری دے کر بھیجا تا کہ تمہارے دل مطمئن ہو جائیں''

پس کمزوری اور گھبرا ہٹ محسوس کرکے خدا سے امداد کی درخواست کرنے والے مسلمانوں کی مدد صرف ان کی تسکین خاطر اورروحانی تقویت نیز سرد پڑتے دلوں کو گرمانے کے لئے تھے _ پھر اس کے بعد خدا نے مسلمانوں پر نیند طاری کردی اور وہ سوگئے اور اس کے بعد خدا نے بارش بھیج دی _ اس کا ذکر خدا نے یوں کیاہے( اذ یغشیکم النعاس امنة منه و ینزل علیکم من السماء ماء لیطهرکم به و یذهب عنکم رجز الشیطان و لیربط علی قلوبکم و یثبت به الاقدام ) (۲) _ ترجمہ '' ( یاد کرو اس وقت کو ) جب خدا کی طرف سے تمہیں پر امن نیند نے آلیا اور آسمان سے اس لئے مینہ برسا کہ تمہیں ( اور تمہارے دلوں کو ) صاف ستھرا کردے ، شیطان کے وسوسوں کو نکال باہر کرے ، تمہارے دلوں کو مضبوط کردے اور تمہیں ثابت قدم رکھے''_

جی ہاں اتنے ہولناک خطرے کا سامنا کرنے والے ایسے لوگوں کے لئے اونگھ اور ہلکی نیند بہت ضروری تھی جویہ جانتے تھے کہ ان کے پاس اس خطرے کا سامنا کرنے اور اسے ٹالنے کے لئے کوئی قابل ذکر مادی وسائل نہیں ہیں_ ہاں یہ نیند ان کے لئے ضروری تھی تا کہ ایسی خطرناک رات میں شیطانی وسوسے ان پر غلبہ نہ پالیں جس میں چھوٹی چیزیں بھی بڑی اور موٹی نظر آتی ہیں_ اور اگر وہ چیز خود طبیعی طور پر بڑی ہو تو پھر

____________________

۱) انفال : ۹و ۱۰_

۲) ص : ۱۱_

۲۵۱

کیا حال ہوگا؟ _ یہ نیند اس لئے بھی ضروری تھی کہ انہیں اطمینان اور سکون کی ضرورت تھی '' امنة '' _ نیز اسی امن و سکون اور ایمان کے ذریعہ ان کے دلوں کو مضبوط کرنے کی بھی ضرورت تھی تا کہ خطرے کا سامنا کرتے وقت وہ کمزوری نہ دکھائیں اور کمزوری ، تاثیر پذیری اور گھبرا ہٹ کی بجائے عقل سے کام لیں اور غور و فکر کے ساتھ کوئی کام کریں اور موقف اپنائیں_ اسی نیند اور بارش کے ذریعہ سے خدا نے ان کے دلوں کو مضبوط اور طاقتور بنادیا _ حتی کہ وہ ان باتوں سے یہ جان کر مطمئن ہوگئے کہ ان پر خدا کی نظر کرم ہے اور خدا کی الطاف و عنایات ان کے شامل حال ہیں_ جس کے بعد انہیں کمر شکن حادثات اور دشمن کی صف شکن کثیر تعداد کی بھی کوئی پرواہ نہ رہی _ جبکہ اس کے بدلے میں خدا نے کافروں کے دلوں میں رعب اور خوف طاری کر دیا تھا_ اس کی طرف انشاء اللہ بعد میں اشارہ کریں گے_

یہاں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خدا نے سورہ '' محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ''جیسی مکی سورتوں میں ، اپنے انبیاء کے خلاف گروہ بندی کر کے محاذ آرائی کرنے والوں اور ثمود اور فرعون کے ذکر کے بعد یہ خبر دے دی تھی اور پیشین گوئی کر دی تھی کہ مسلمانوں کے ساتھ بھی ایسے حادثات و واقعات پیش آئیں گے جو ان گروہوں کے ساتھ پیش آئے تھے_ بعض کے بقول آیت (جند ما ہنالک مہزوم من الاحزاب )(۱) _ترجمہ '' یہاں کئی ایسے لشکر بھی ہیں جو چھوٹے گروہوں سے شکست کھانے والے ہیں'' _ واقعہ بدر کے متعلق ہے_

اس جنگ کے مقاصد

یہاں پر سب سے اہم اور قابل ملاحظہ بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہاں خود صراحت کے ساتھ فرما رہے ہیں کہ یہ جنگ ایک فیصلہ کن جنگ ہے _ اور اس کا مقصد بھی خدا کی عبادت کے لئے آزادی کا حصول تھا _ اس جنگ سے نہ ذات کی پرستش مقصود تھی ، نہ مال ، نہ کوئی امتیاز ، نہ مقام ، نہ حکومت اور نہ ہی کوئی اور چیز _ یعنی خدا کی عبادت میں آزادی کے حصول کے علاوہ اس جنگ کا کوئی اور مقصد نہیں تھا _

____________________

۱) ص : ۱۱ _

۲۵۲

خاص طور پر جب قریش کو یہ احساس بھی ہوگیا تھا کہ وہ اقتصادی اور نفسیاتی طور پر تنگی ، ذلت اور کمزوری کا شکار ہوگئے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہوگیا تھا کہ شام اور دیگر علاقوں تک جانے والے ان کے تجارتی قافلوں کے راستے اتنے پر خطر ہوگئے ہیں کہ قریشیوں کے ارادے پست کر سکتے ہیں بلکہ ان کے وجود کو بھی متزلزل کر سکتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کمزور موقف اپنا نے پر بھی مجبور ہو جائیں گے _ ( اس صورت میں مسلمان ان اہداف کی خاطر بھی لڑسکتے تھے لیکن ان کا مقصد ان چھوٹی چیزوں سے کہیں بلند و بالا تھا)_ جبکہ مشرکوں نے بھی اپنا موقف واضح کردیا تھا _ اور یہ بتادیا تھا کہ اس جنگ سے ان کا مقصد عربوں پر اپنی دھاک بٹھانا اور اپنے اور تجارتی راستے کے درمیان کسی ناپسندیدہ شخص کو حائل ہونے سے روکنا تھا _ فریقین کے اہداف نیز ہر ایک کی بہ نسبت جنگ کے نتائج میں بھی زمین اور آسمان کا فرق تھا _ جس پر انشاء اللہ بعد میں گفتگو کریں گے_

صف آرائی

جب صبح ہوئی تو حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے اپنے اصحاب کی صفوں کو منظم کیا _ اس دن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا علم مبارک امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں میں تھا(۱) _ اور عنقریب غزوہ احد میں ہم یہ بھی انشاء اللہ ثابت کریں گے کہ جنگ بدر بلکہ ہر موقع پر حضرت علی علیہ السلام ہی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علمدار تھے(۲) _ پس یہ جو کہا جاتا ہے کہ جنگ بدر میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایک سے زیادہ علم تھے کہ مصعب بن عمیر یا حباب بن منذر کے پاس بھی ایک علم تھا ، یہ صحیح نہیں ہے _ مگر یہ کہا جائے کہ مہاجرین کا پرچم مصعب کے پاس اور انصار کا پرچم

____________________

۱) المناقب خوارزمی ص ۱۰۲، الآحاد و المثانی ابن ابی عاصم النبیل کو پلی لائبریری میں خطی نسخہ نمبر ۲۳۵ ، مسند الکلابی در انتہاء المناقب ابن مغازلی ص ۴۳۴ ، خود المناقب ابن مغازلی ص ۳۶۶، الاستیعاب بر حاشیہ الاصابہ ج ۳ ص ۳۳ و ص ۳۴ ، مستدرک حاکم ج ۳ ص ۱۱ ، اس کے حاشیہ پر تلخیص مستدرک ذہبی ، مجمع الزوائد ج ۹ ص ۱۲۵ ، منقول از شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید طبع اولی ج ۲ ص ۱۰۲ ، جمہرة الخطب ج ۱ ص ۴۲۸، الاغانی مطبوعہ دار الکتب ج ۴ ص ۱۷۵ وتاریخ طبری مطبوعہ دار المعارف ج ۲ ص ۴۳۰_

۲) زندگانی امام امیر المؤمنینعليه‌السلام از تاریخ ابن عسا کر با تحقیق محمودی ج ۱ ص ۱۴۵ ، ذخائر العقبی ص ۷۵ از احمددر المناقب ، طبقات ابن سعد ج ۳حصہ اول ص ۱۴ ، کفایت الطالب ص ۳۳۶ ، اسی کے حاشیہ میں از کنز العمال ج ۶ ص ۳۹۸ از طبرانی و الریاض النضرہ ج ۲ ص ۲۰۲ نیز اسی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس بات کو نظام الملک نے اپنی کتاب امالی میں ذکر کیا ہے_

۲۵۳

حباب کے پاس تھا یا اس طرح کی کوئی اور بات کہی جائے تو اور بات ہے وگرنہ اختلاف کو دور کرنے کی غرض سے پرچم (رایة ) اور علم ( لوائ) میں فرق بیان کرنے کی ان کی کوشش بھی ایک بے سود اور ناکام کوشش ہے _ کیونکہ دونوں چیزوں کے متعلق روایات ملتی ہیں کہ یہ دونوں چیزیں حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ خاص تھیں _ جس طرح کہ مندرجہ ذیل حاشیوں میں مذکور دستاویزات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے(۱) _ نیز مزید وضاحت انشاء اللہ واقعہ جنگ احد کے بیان میں ہوجائے گی_

مزید یہ کہ ابن سعد اور ابن اسحاق نے یہ ذکر کیا ہے کہ پرچم ( رایة) واقعہ بدر کے بعد اور جنگ خیبر کے دوران بنایا گیا(۲) _ یہ تو اس صورت میں ہے کہ ہم علم ( لوائ) اور پرچم ( رایة) کے درمیان کسی فرق کے قائل ہوں وگرنہ بعض اہل لغت کے مطابق یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کے مترادف ہیں(۳) _

طوفان سے قبل آرام

حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے صحابہ کی صفین منظم کرنے کے بعد ان سے فرمایا ، '' نگاہیں نیچی کرلو ، لڑائی میں پہل مت کرو اور کسی سے بھی بات مت کرو ''(۴) _مسلمانوں نے بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم کی تعمیل میں خاموشی اختیار کر لی اور نگاہیں نیچی کرلیں_ اس صورتحال نے قریشیوں پر اپنا واضح اثر دکھا یا حتی کہ جب ان کا ایک آدمی کسی گھات و غیرہ کی تلاش میں اپنے گھوڑے پر سوار مسلمانوں کے لشکر کا چکر لگا کر اپنی فوج کی طرف واپس پلٹا تو اس نے وہاں جاکر کہا : '' ان کے لشکر کے کسی بھی جگہ اور حصہ سے گھات یا کسی مدد و غیرہ کی کوئی امید نہیں ہے _ لیکن یثرب ( مدینہ ) کے جنگجو دردناک اور اچانک موت ساتھ لائے ہیں _ کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ وہ ایسے گونگے ہوگئے ہیں کہ کچھ بھی نہیں بول رہے؟اور ادہوں کی طرح پھنکار رہے ہیں _ ان کی

____________________

۱) ملاحظہ ہوں پچھلے دو حاشیوں میں مذکور منابع_

۲) سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۴۷_

۳،۴) سیرہ حلبیہ ج ص ۱۴۷ و ص ۱۴۸_

۲۵۴

پناہ گاہیں صرف ان کی تلواریں ہیں؟ مجھے لگتا ہے کہ یہ پیچھے نہیں ہٹیں گے بلکہ مارے جائیں گے اور کم از کم اپنی تعداد جتنا افراد مارکر ہی مریں گے''_ اس پر ابوجہل نے اسے برابھلا کہا کیونکہ وہ دیکھ رہا تھا کہ اس بات سے اس کے ساتھیوں میں خوف کی لہر دوڑ رہی تھی _

پھر ابوجہل نے مسلمانوں کی قلیل تعداد کو نشانہ بناتے ہوئے اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے کہا : '' وہ تو گنتی کے چند آدمی ہیں ، اگر ہم اپنے غلاموں کو ان کی طرف روانہ کردیں تو وہ بھی انہیں ہاتھ سے پکڑ کرلے آئیں گے_''

اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مشرکین کی طرف اپنے ایک آدمی کے ذریعہ یہ پیغام بھیجا کہ'' اے قریشیو میں تم سے لڑنا نہیں چاہتا _ مجھے تم عربوں کے حوالے کر کے واپس چلے جاؤ_اگر میں سچا ہوا تو میری بڑائی اور بلندی تمہاری ہی بلندی اور عظمت ہے لیکن اگر میں جھوٹا ہوا تو عرب کے درندے میرا کام تمام کرکے تمہارا مقصد پورا کردیں گے _'' یہاں پر مؤرخین کے بقول عتبہ بن ربیعہ نے مشرکوں سے اس بات کو قبول کرنے پر زور اصرار کیا لیکن ابوجہل نے اس پر بزدلی کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ( حضرت ) محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے ساتھیوں کو دیکھ کر اس کا پتا پانی ہوگیا ہے _ اور اسے (حضرت) محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ شامل ہونے والے اپنے بیٹے ابوحذیفہ کی جان کا خطرہ لا حق ہوگیا ہے _ جب عتبہ تک ابوجہل کی یہ بات پہنچی تو وہ غصہ سے آگ بگولہ ہوگیا اورکہا : '' ابھی اس چوتیے(۱) کو معلوم ہوجائے گا کہ کس کا پتا پانی ہوا ہے میرا یا اس کا ؟ '' _ اس بات سے اس کی غیرت کی رگ بھی پھڑکی اور اس نے اپنے بھائی شیبہ اور بیٹے ولید کے ساتھ زرہ پہنی اور وہ رن میں جاکر حریف طلب کرنے لگے_

یہاں پر ہم مندرجہ ذیل نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:_

____________________

۱) ان الفاظ سے لگتا یہی ہے کہ اس نے ابوجہل کو مفعول ہونے کی گالی دی تھی، کیونکہ انصار بھی اسے اسی نام سے پکارتے تھے_ ملاحظہ ہو: مجمع الامثال ج۱ ص ۲۵۱ ضرب المثل ''اخنث من مصفر استہ'' ، البرصان والعرجان ص ۱۰۲ و ص ۱۰۳ متن و حاشیہ ، الغدیر ج ۸ ص ۲۵۱ از الصواعق المحرقہ ابن حجر ص ۱۰۸ ازدمیری در حیاة الحیوان نیز الدرة الفاخرہ فی الامثال السائرہ ج۱ ص ۱۸۸_

۲۵۵

الف: مشرکین کے خوف کی وجوہات:

مشرکین کو اس بات کا پورا پورا علم تھا کہ مسلمان جنگ کا پختہ ارادہ رکھتے ہیں_ اور اپنے دین اور عقیدے کی راہ میں کم از کم اپنی تعداد جتنے آدمیوں کو قتل کرنے کے بعد سب کے سب مرنے کے لئے بالکل تیار ہیں_ اور اسی بات نے مشرکوں کے دل میں رن کی دھاک بٹھادی کیونکہ وہ تو اپنے خیال میں اس دنیا میں بقاء اور دنیاوی لذتوں اور فائدوں سے بہرہ مند ہونے کے لئے یہ جنگ لڑ رہے تھے_ اس صورتحال میں مسلمانوں کا غیض و غضب کی شدت سے سکوت بھی ان کے خوف کی فضا میں اضافے کا باعث بنا اور مشرکوں کے دلوں میں ان کا خوف اور رعب مزید بیٹھ گیا _ اور ابھی ان کی سرگردانی اور حیرت میں مزید اضافہ ہونا تھا کیونکہ کچھ دیر بعد شروع ہونے والی جنگ کی صورتحال اور مد مقابل کی چالوں سے وہ لا علم تھے اور انہیں کوئی ایسا اشارہ بھی نہیں مل رہا تھا جو انہیں جنگ کی صورتحال ، مد مقابل کی چالوں اور جنگ کے اثرات اور نتائج کی طرف رہنمائی کرتا_

اور مسلمانوں کے متعلق ابوجہل کا یہ کہنا کہ یہ تو گنتی کے چند آدمی ہیں، یہ مسلمانوں سے مشرکوں کے مرعوب نہ ہونے پر دلالت نہیں کرتا _ کیونکہ اس نے یہ بات صرف اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے کی تھی _ کیونکہ اس نے جنگ کے متعلق اپنے ساتھیوں کی تردید اور بزدلی کا خاص طور پر مشاہدہ کیا تھا_ یہاں یہ اضافہ بھی ضرور کرتے چلیں کہ خداوند عالم نے بھی جنگ کے بعض مراحل میں مسلمانوں کی نظر میں مشرکوں کو اور مشرکوں کی نظر میں مسلمانوں کو کم تعداد میں دکھلایا تا کہ وہ آپس میں ضرور لڑیں اور خدا کا فیصلہ پورا ہو کر رہے_ اس بارے میں مزید گفتگو اس فصل کے اواخر میں ہوگی_

ب : مشرکین کو نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کی پیشکش پر ایک نگاہ :

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مشرکوں کے ساتھ ان کے نقطہ نظر ، طرز تفکر ، مفاد اور ان کی نفسیات کے مطابق بات کرنے کی کوشش کی _نیز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ باتیں ان کے اس مفاد کے بھی مطابق تھیں جس کے تحفظ کے لئے (وہ

۲۵۶

اپنے ہی دعوے کے مطابق) یہاں لڑنے آئے تھے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ جملہ '' اگر میں سچا ہوا تو میری وجہ سے تمہاری ہی شان بڑھے گی '' ان مشرکوں کی حب جاہ سے بالکل میل کھاتا ہے _ کیونکہ ان کی طاقت اور سرکشی کی وجہ سے ان کے اوپر سرداری اور حکومت کا بھوت اس حد تک سوار ہوگیا تھا کہ ان کے نسلی اور قبائلی تعلقات پر بھی اثر انداز ہوگیا تھا اور وہ اس کی خاطر اپنے باپ اور بیٹوں سے بھی لڑنے مرنے پر تیار ہوجاتے تھے_

پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ان سے یہ فرمانا کہ '' اگر میں جھوٹا ہوا تو عرب کے درندے میرا کام تمام کرکے تمہارا مقصد پورا کردیں گے''_ یہ بات بھی ان کی زندگی کے ساتھ محبت اور مالی مفاد سے میل کھاتی ہے _ اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان و شوکت کے اعتراف کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جنگ کئے بنا ان کے واپس پلٹنے کا بھرم بھی رکھتی ہے اور اس بات سے وہ اپنی پسپائی کی تاویل اور توجیہ کرکے اپنی آبرو بھی بچا سکتے تھے_ لیکن قریش کی سرکشی اور تکبر اس بہترین ، منطقی اور قیمتی مشورے کو ماننے سے مانع ہوئی اور وہ اپنے جھوٹے تکبر اور احمقانہ اور بے باکانہ ڈینگوں کے سبب جنگ کرنے اور اس کے ہولناک نتائج بھگتنے پر بضد رہے_

ج: رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا جنگ کی ابتداء نہیں کرنا چاہتے_

یہاں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ خود رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا بھی جنگ کی ابتداء نہیں کرتے اور مسلمانوں کو بھی حکم دیتے ہیں کہ جنگ شروع نہ کریں بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مقابل کو اس مخمصے سے آبرومندانہ طریقے سے نکلنے کا ایک موقع دینا چاہتے تھے _

لیکن اگر وہ اس پیشکش کو ٹھکرا دیتے اور اپنی ہٹ دھرمی اور سرکشی سے مسلمانوں پر چڑھائی پر بضد رہتے تو پھر مسلمان بھی اپنا دفاع کرنے اور حملہ آور کی چالوں کا جواب دینے کا حق رکھتے تھے ، چاہے وہ حملہ آور کوئی بھی ہو اور جیسا بھی ہو_

حضرت علی علیہ السلام کا بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ میں بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد بھی دشمنوں کے ساتھ یہی رویہ رہا_ بلکہ یہ تو( رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی اتباع کرنے والے ائمہ ہدی کی پیروی میں )شیعیان علیعليه‌السلام کی رسم

۲۵۷

اور ان کا خاصہ ہے _ اس پر مزید گفتگو جنگ بدر کی گفتگو کے بعد ''سیرت سے متعلق کچھ ابحاث '' کے فصل کے ذیل میں دیگر بحثوں کے ساتھ ساتھ انشاء اللہ شیعوں کی خصوصیات کی بحث میں ہوگی _ البتہ اس کے کئی اشارے ذکر بھی ہوچکے ہیں_

نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سائبان تلے؟

مؤرخین کے بقول بدر میں صحابہ نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے کھجور کی چھڑیوں سے ایک چھولدار ی تیار کی جس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ صرف جناب ابوبکر تھے اور کوئی بھی نہیں تھا_ مؤرخین یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس بات سے بھی اتفاق کیا تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ چند تازہ دم اصیل گھوڑے تیار رہیںتا کہ اگر جنگ میں کامیابی ہوئی تو ٹھیک و گرنہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھوڑے پر سوار ہوکر مدینہ میں اپنے دیگر صحابیوںسے ملحق ہوجائیںگے(۱) _

لیکن یہ بات کسی بھی صورت میں صحیح نہیں ہے _ کیونکہ معتزلی کے بقول : '' وہ چھولداری کی بات تو نہایت حیرت انگیز ہے _ چھولداری بنانے کے لئے ان کے پاس کھجور کی چھڑیوں کی اتنی بڑی تعداد کہاں سے آگئی تھی ؟ حالانکہ بدر میں تو کھجور کے درخت نہیں تھے_ اور ان کے پاس جو تھوڑی بہت چھڑیاں تھیں بھی تو وہ ان کے لئے ہتھیاروں کا کام دے رہی تھیں_ کیونکہ منقول ہے کہ سات صحابیوں کے ہاتھ میں تلوار کی جگہ چھڑیاں تھیں جبکہ باقی صحابی تلواروں ، تیروں اور بھالوں سے مسلح تھے _ البتہ یہ نادر نظریہ ہے کیونکہ صحیح بات یہ ہے کہ تمام افراد ہتھیاروں سے مسلح تھے _ ہوسکتا ہے کہ چند چھڑیاں بھی ساتھ ہوں اور ان پر کوئی کپڑا و غیرہ ڈال کر کوئی سایہ بنایا گیا ہو و گرنہ یہاں کھجور کی چھڑیوں سے چھپر بنانے کی کوئی معقول وجہ نظر میں آتی ''(۲) لیکن ہم کہتے ہیں کہ :

الف : معتزلی کی یہ بات کہ تمام مہاجرین کے پاس اسلحہ تھا یہ ناقابل قبول ہے _ اس لئے کہ گذشتہ

____________________

۱) سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۲۲ و ص ۲۷۹ ، المغازی واقدی ج ۱ ص ۴۹ و ص ۵۵ ، الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۱۲۲ ،شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۴ ص ۱۱۸ ، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۵۵ _۱۵۶ و ص ۱۶۱ و دیگر کثیر مآخذ

۲) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی ج ۴ ص ۱۱۸

۲۵۸

دستاویزات میں ان کے اسلحہ کی تعداد مذکور ہوچکی ہے اور ان میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو معتزلی کی بات کی تائید کرتی ہو _ بلکہ لگتا یہی ہے کہ تھوڑے افراد ایسے تھے جو تیرکمانوں سے مسلح تھے کیونکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے یہ فرمایا تھا کہ جب مشرکین نزدیک پہنچیں تب ان پر تیراندازی کرو _ شاید بعض کے پاس نیزے ، بعض کے پاس لاٹھیاں اور بعض کے پاس تلوار یا خنجر تھے اور کچھ لوگوں کے پاس کھجور کی خشک چھڑیاں بھی تھیں جن سے وہ اپنا بچاؤ کرتے تھے اور موقع پانے کی صورت میں دشمن پر حملہ بھی کر سکتے تھے _

ب: اس کا آخری نتیجہ بھی بے جاہے _ کیونکہ جن چھڑیوں پر کپڑا و غیرہ ڈال کرسائبان و غیرہ بنایا جاتا ہے انہیں خیمہ کہا جاتا ہے چھپر نہیں _ بلکہ بعض کی رائے میں تو اسے خیمہ بھی نہیں کہتے _ اسی طرح معتزلی کا ان لوگوں کی اور ان کے تلواروں کی تعداد کے متعلق نظریہ بھی گذشتہ باتوں کے سبب مشکوک ہوجاتا ہے _

البتہ بنیادی طور پر ہم بھی اس مزعومہ سائبان کے وجود اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس میں بیٹھنے اور شکست کی صورت میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرار کے انکاری ہیں لیکن ہمارے پاس مندرجہ ذیل دلائل ہیں :

ایک : نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم جنگ کے کٹھن لمحات میں فرار کرنے والے تھے ہی نہیں _

دو : مختلف مؤرخین سے منقول آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ دعا'' اللهم ان تهلک هذه العصابة لا تعبد '' ( خدایا اگر تو نے اپنے ان عزیزوں کو ماردیا تو پھر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ رہے گا )

بھی اس دعوے کو جھٹلاتی ہے کہ اس جنگ میں مشرکوں کی کامیابی کی صورت میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر فرار کا ارادہ رکھتے تھے _ کیونکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مدینہ پلٹ جانے کی صورت میں بھی کرہ ارض پر خدا کی عبادت نہیں ہوسکتی تھی ( اس لئے کے بعد والی شق کے مطابق وہ آ پصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ماننے والوں کا پیچھا کرتے اور جان لئے بغیر دم نہ لیتے ) _ تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ بات فرما کر پھر یہ کام کیوں کرتے ؟

تین : اگر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ بدر میں ( نعوذ با للہ ) شکست کھا جاتے توبھی مشرکین آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنی جان بچا کر کہیں جا کر پھر سے فوج اکٹھا کرنے کا موقع نہیں دیتے _ بلکہ وہ مدینہ پر ہی چڑھائی کر کے اس میں اپنے لئے مشکلات کھڑی کرنے والوں کو سرے سے ہی نابود کردیتے _ اس لئے کہ وہ اب مدینہ کے قریب بھی

۲۵۹

آئے ہوئے تھے ، کامیابی و کامرانی کامزہ بھی چکھ چکے ہوتے تھے اور ان کے پاس تعداد اور تیاری کے لحاظ سے ایک آئیڈیل اور قابل رشک فوج بھی موجود تھی_

چار : آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چھپر کے نیچے محافظ کے ساتھ کیسے جاکر بیٹھ سکتے تھے؟ حالانکہ انہی مؤرخین کے بقول آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ بدر کے موقع پر خواب میں اپنے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تلوار سونت کر یہ آیت پڑھتے ہوئے مشرکوں کا پیچھا کرتے ہوئے دیکھا تھا (سیهزم الجمع و یولون الدبر ) ترجمہ : '' عنقریب ان کی فوج تتر بتر ہوکر پسپائی اختیار کرے گی ''(۱) _ وہ تویہ بھی کہتے ہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بنفس نفیس جنگ بدر میں شرکت کرکے سخت لڑائی لڑی تھی(۲) اور یہ بات بھی جنگ میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شرکت پر دلالت کرتی ہے کہ کچھ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شانہ بشانہ لڑ رہے تھے،ایک آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دائیں ، ایک بائیں ، ایک آگے اور ایک پیچھے تھا(۳) _اور حضرت علی علیہ السلام کی زبانی بھی منقول ہے کہ '' جنگ بدر کے موقع پر ہم آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ مشرکین سے اپنا بچاؤ کرتے تھے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سب سے زیادہ دلیر شخصیت تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی سب سے آگے آگے تھے''(۴)

اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جناب ابوبکر اس وقت کہاں تھے؟ کیا رن میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے ساتھ تھے؟ یا پھر جا حظ کے عنقریب ذکر ہونے والے دعوے کے مطابق وہ قائد ، سردار اور رہنما کا کردار ادا کرنے کے لئے اکیلے چھو لداری میں بیٹھ گئے تھے؟ واقعہ بدرکے بعد ایک فصل میں جناب ابوبکر کی بہادری اور چھولداری میں اس کے بیٹھنے کا ذکر آئے گا _ انشاء اللہ تعالی _

پانچ : جب مسلمانوں کے پاس صرف مقداد کے گھوڑے کے سوا کوئی اور گھوڑا تھا ہی نہیں تو پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ( نعوذ باللہ) فرار کے لئے تیار کئی اصیل گھوڑے کہاں سے آگئے تھے؟ اور یہ گھوڑے دین اور مسلمانوں سے دفاع کے لئے جنگ میں کیوں کام نہ آئے؟ حالانکہ وہاں ان کی اشد ضرورت تھی_

____________________

۱) تاریخ طبری ج ۲ ص ۱۷۲_ (۲) سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۲۳ و ص ۱۶۷ لیکن اس نے مذکورہ بات کی خلاف واقع توجیہ کی ہے کیونکہ اس نے کہا ہے کہ یہاں جہاد کا مطلب دعا ہے _ یہ سب باتیں چھپر والی حدیث کو صحیح ثابت کرنے کی کوششیں ہیں_

۳) المغازی واقدی ج ۱ ص ۷۸_

۴) ملاحظہ ہو : تاریخ طبری ج ۲ ص ۱۳۵، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۲۳، البدایہ و النہایہ ج ۶ ص ۳۷ و حیاة الصحابہ ج ۲ ص ۶۷۷ از احمد و بیہقی_

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271