امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت0%

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت مؤلف:
زمرہ جات: امامت
صفحے: 271

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

مؤلف: رضاکاردان
زمرہ جات:

صفحے: 271
مشاہدے: 108880
ڈاؤنلوڈ: 3895

تبصرے:

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 271 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 108880 / ڈاؤنلوڈ: 3895
سائز سائز سائز
امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

مؤلف:
اردو

یہ امامت کس چیزپردلالت کرتی ہے؟

ہمیں آیہء شریفہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امامت کا مفہوم پیشوائی اور قیادت ہے اوراس کامعنی نبوت ورسالت سے متفاوت ہے۔امام،وہ ہے جودوسروں کا پیشواہواورانسانوں کے آگے آگے چلے، جسے خدائے متعال نے متعلق طور پر لوگوں کے لئے امام قراردیاہے اورتمام انسانی پہلوؤں سے لوگوں کے لئے اسوہ اور نمونہ بنایاہے لوگوں کو چا ہئے کہ تمام ابعاد حیات میں اس سے ہدایت حاصل کریں اوراس کی اقتداء و پیروی کر یں۔

حضرت ابراھیم علیہ السلام کو یہ مقام)امامت)رسالت ملنے کے سالہا سال بعد تمام بڑے امتحانات الہٰی میں کامیابی حاصل کرنے کے بعدعطاکیاگیا ہے۔اس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ امامت کا مرتبہ اور درجہ نبوت ورسالت کے مساوی نہیں ہے بلکہ ان سے بالا تر ہے۔

اس بحث کا نتیجہ یہ ہوگاکہ:جب یہ ثابت ہواکہ امامت کا درجہ و مرتبہ نبوت سے بالاتر ہے اورنبوت کے لئے قطعی دلائل کی بنیادپرعصمت کی شرط لازمی ہے،پس جوچیز نبوت سے برتر وبلندترہو،بدرجہ اولٰی اس کے لئے بھی عصمت کاشرط ہوناضروری ہوگا۔

دوسری بات:

منصب امامت ظالموں کونہیں ملے گا

یہ آیہء شریفہ عصمت امامت پر دلا لت کرتی ہے کیونکہ آیت کے جملہ لاینال عھدی الظالمین یعنی:”میراوعدہ)امامت)ظالموں تک نہیں پہونچے گا“سے استفادہ ہوتاہے کہ ظالم مقام امامت تک نہیں پہو نچ سکتا۔

جب خدائے متعال نے فرمایا: إنیّ جاعلک للناس إماماً ”میں تجھے لوگوں کے لئے امام قرار دیتاہوں“ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے عرض کیا: ومن ذرّیّتی؟ ”کیامیری ذریت اور اولادمیں سے بھی کوئی اس مقام تک پہنچے گا؟“پروردگارعالم نے فرمایا: لاینال عھدی الظالمین میرا وعدہ ظالموں تک نہیں پہنچے گا۔

۲۱

اس جملہ سے درج ذیل نکات حاصل ہوتے ہیں:

۱ ۔امامت وعدئہ الہٰی ہے۔

۲ ۔یہ وعدہ ظالموں تک نہیں پہونچ سکتا،چونکہ ہر گناہ ظلم شمارہوتاہے، ۱ لہذاجومعصوم نہیں ہے،وہ گناہوں میں گرفتارہوگا۔

اس بناء پر آیہء شریفہ کی یہ دلالت کہ ہرامام کواپنے عہدہ امامت میں گناہوں سے پاک ہونا چاہئے،واضح اور ناقابل انکار ہے۔

کیا اس جملہ سے یہ استفادہ کیاجاسکتاہے کہ:جن لوگوں نے امامت کے عہدہ پر فائز ہونے سے پہلے اگرکوئی ظلم کیاہووہ امامت کے عہدہ پر فائزہوسکتے ہیں یانہیں؟

۱ ۔چونکہ ہرگناکبیرہ یاصغیرہ کیفرالہٰی کامستحق ہے،اس لئے گناہ گار گناہ کے ذریعہ اپنے اوپرظلم کرتاہے۔

دوسرے الفاظ میں :مشتق کا عنوان)جسے ظالم)زمانہ حال میں ظہور رکھتاہے اوریہ اس شخص پرلاگونہیں ہوتاہے جوپہلے اس صفت سے متصف تھالیکن زمانہ حال میں اس میں وہ صفت نہیں ہے۔اس بناء پر اس آیہء شریفہ کے مطابق،جوخلافت کے عہدہ پرفائزہونے کے دوران ظالم ہو،وہ امامت کے عہدہ پرفائز نہیں ہو سکتالیکن جو پہلے کبھی ظالم تھا،لیکن اس عہدہ پر فائزہونے کے وقت ظالم نہیں ہے،وہ امامت کے عہدہ پرفائزہوسکتاہے۔

۲۲

اعتراض کے جواب میں دوباتیں

پہلی بات جواس اعتراض کے جواب میں پیش کی گئی ہے وہ ایک عظیم محقق مرحوم حاج شیخ محمدحسین اصفہانی کی ہے کہ جسے مرحوم علامہ سید محمدحسین طباطبائی نے تفسیرالمیزان میں ذکرکیاہے: ۱

حضرت ابراھیم علیہ السلام کی ذریت چارگروہوں میں تقسیم ہوتی ہے:

۱ ۔وہ گروہ جو امامت پر فائز ہونے سے پہلے ظالم تھے اوراس مقام پر فائزہونے کے بعدبھی ظالم رہے۔

۲ ۔وہ گروہ جوامامت کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے عادل تھے اورامامت کے عہدہ پر فائزہونے کے بعد ظالم بن گئے۔

۳ ۔وہ گروہ،جوامامت کے عہدہ پرفائزہونے سے پہلے ظالم تھے اورامامت کا عہدہ سنبھالنے کے بعدعادل ہوگئے۔

۴ ۔وہ گروہ جوامامت کے عہدہ پرفائزہونے سے پہلے اوراس کے بعددونوںزمانوں میں عادل تھے۔حضرت ابراھیم علیہ السلام اپنی اس عظمت کے پیش نظرپہلے دوگرہوں کے لئے کہ،جوا پنے عہدہ امامت کے دوران ظالم ہوں،ہرگزامامت کی درخواست

_____________________

۱۔تفسیر المیزان ،ج۱،ص۲۷۷،دارالکتب الاسلامیہ۔

۲۳

نہیں کریں گے۔ اس بناپر( ومن ذرّیّتی ) ”میری اولادسے؟“کاجملہ صرف تیسرے اورچوتھے گروہ پرصادق آتا ہے،اورخدائے متعال بھی جواب میں فرماتاہے( لاینال عهدی الظالمین ) ”میراوعدہ ظالموں تک نہیں پہو نچ سکتا۔“اس جملہ کے پیش نظر تیسراگروہ جوپہلے ظالم تھالیکن امامت کا عہدہ سنبھالنے کے دوران عادل ہوگیا،وہ بھی خارج ہوجاتا ہے اوراپنی اولاد کے بارے میں کئے گئے سوال کے جواب میں صرف چوتھے گروہ کو امامت دی جاتی ہے۔

دوسری بات مرحوم طبرسی کی ہے جوتفسیرمجمع البیان میں ذکر ہوئی ،وہ کہتے ہیں:ہم اس بات کوقبول کرتے ہیں کہ جوفی الحال ظالم نہیں ہے اس پر ظالم کاعنوان حقیقت میں اطلاق نہیں ہوتاہے،لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ جس نے پہلے ظلم کیا ہے،ظلم کرنے کے دوران اس پر ظالم کاعنوان حقیقت میں صادق تھا،مذکورہ آیت ایسے افراد کوبھی مشتمل ہے۔یعنی ایساشخص اب امامت کے لئے شائستہ نہیں ہے اورامامت پرفائزنہیں ہوسکتاہے اور”لا ینال“کا جملہ چونکہ مضارع منفی ہے،اس لحاظ سے اس پردلالت کرتاہے۔

اس بناپر،جس نے زندگی میں ایک لمحہ کے لئے بھی گناہ کیاہے،وہ امامت کے عہدے پرفائزنہیں ہوسکتاہے،چونکہ اس وقت ظالم اور ستم گارہے اورآیہء شریفہ کہتی ہے:( لاینال عهدی الظالمین ) ”میرا عہدہ ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔“

اس طرح یہ واضح ہوگیا کہ آیہء شریفہ دوجہتوں سے اماموں کی عصمت پرحتی عہدہ امامت پر فائز ہونے سے پہلے بھی دلالت کرتی ہے۔اورامامت کے منصب پرفائز ہونے والاشخص اپنی پوری عمرملکہء عصمت سے وابستہ ہوتاہے۔اوراس طرح یہ بھی واضح ہوگیاکہ امامت ایک الہٰی منصب ہے جو خدائے متعال کی طرف سے عطا کیاجاتاہے،یعنی یہ خدائے متعال کی ایک ایسی نعمت ہے کہ جس کو وہ جوشائستہ و سزا وار جانتا ہے اسی کو عطا کر تا ہے۔

۲۴

تیسری بات

منصب امامت کازبان امامت سے تعارف

آیہء شریفہ کوبیان کرنے کے بعدمناسب ہے کہ امامت کی حقیقت کے سلسلہ میں ہمارے آٹھویں امام حضرت امام موسی الرضا علیہ السلام کی بیان کی گئی ایک حدیث پیش کیجائے:

اٴبو محمدالقاسم بن العلاء-رحمه-رفعه عن عبدالعزیزبن مسلم قال:کنّامع الرضا-علیه السلام-بمرو،فاجتمعنافی الجامع یوم الجمعة فی بدء مقدمنا،فاٴدارواامرالامامته وذکرواکثرةاختلاف الناس فیها فدخلت علی سیدی-علیه السلام-فاٴعلمته خوض الناس فیه،فتبسم-علیه السلام-ثم قال:یاعبدالعزیزجهل القوم وخذعواعن آرائهمإن اللّٰه عزّوجلّ لم یقبض نبیّه (ص)حتی اٴکمل له الدین وانزل علیه القرآن فیه تبیان کلّ شیء،ٍ بیّن فیه الحلال والحرام والحدود والاحکام وجمیع مایحتاج الیه النّاس کملاً فقال عزّوجلّ( مافرّطنافی الکتاب من شیءٍ ) (۱) واٴنزل فی حجة الوداع،وهی آخرعمره(ص):( اٴلیوم اٴکملت لکم دین واٴتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً ) (۲) وامرالامامةمن تمام الدینولم یمض(ص)حتیّ بیّن لامته معالم دینهم واٴوضع لهم سبیلهم، وترکهم علی قصد سبیلالحق،و اقام لهم علیّا علما ًو

_____________________

ا۔انعام/۳۸

۲۔مائدہ/۳

۲۵

إماماً و ماترک لهم شیئاً یحتاج إلیه الامته إلاّبیّنه فمن زعم ان اللّٰه عزّوجلّ لم یکمل دینه فقد ردّ کتاب اللّٰه و من ردّ کتاب اللّٰه فهو کافر به هل یعرفون قدر الإمامة و محلّها من الامّة فیجوز فیها اختیارهم؟ إنّ الامامة اٴجلّ قدراً و اٴعظم شاٴنا و اعلی مکاناً و اٴمنع جانباً و ابعد غوراً من اٴن یبلغها النّاس بعقولهم اٴوینالو بآرائهم اٴویقیموا إماماً باختیارهم

إنّ الإمامة خص اللّٰه عزّوجلّ بها إبراهیم الخلیل - علیه السلام - بعد النبوة و الخلّة مرتبة ثالثة و فضیلة شرّفه بها و اٴشاد بها ذکره فقال:( إنّی جاعلک للنّاس اماماً ) فقال الخلیل- علیه السلام سروراًبها:( ومن ذرّیّتی ) قال اللّٰه تعالی:( ولاینال عهدی الظالمین ) (۱) فابطلت هذه الآیة إمامة کلّ ظالم إلی یوم القیامة و صارت فی الصفوه ثمّ اٴکرم اللّٰه تعالی باٴن جعلها فی ذرّیّته اهل الصفوة و الطهارة فقال:( و وهبنا له إسحاق و یعقوب نافلة وکلّا جعلنا صالحین وجعلناهم اٴئمّه یهدون باٴمرنا واٴوحینا إلیهم فعل الخیرات وإقام الصلوةوإیتائ الزکوة وکانوا لنا عابدین ) (۲)

فلم تزل فی ذرّیّته یرثها بعض عن بعض قرناً فقرناً حتی ورّثها اللّٰه تعالی النبیّیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فقال جلّ وتعالی:( إنّ اٴولی الناس بإبراهیم للّذین اتّبعوه وهذا النبیّی والّذین آمنوا واللّٰه )

____________________

۱۔بقرہ/۱۲۴

۲۔انبیاء/۷۳۔۷۲

۲۶

( ولیّ المؤمنین ) (۱)

فکانت له خاصّةفقلّدها( ص) علیاً-علیه السلام-باٴمراللّٰه تعالی علی رسم مافرض اللّٰه فصارت فی ذرّیّته الاٴصفیاء الذین آتاهم اللّٰه العلم والإیمان بقوله تعالی:( وقال الّذین اٴو تو االعلم والإیمان لقد لبثتم فی کتاب اللّٰه إلی یوم البعث ) (۲) فهی فی ولد علیّ - علیه السلام - خاصّة إلی یوم القیامة،إذ لا نبیّی بعد محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فمن اٴین یختار هؤلائ الجّهال

إنّ الإمامة هی منزلة الاٴنبیاء وإرث الاٴوصیاءإنّ الإمامة خلافة اللّٰه وخلافة الرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ومقام اٴمیرالمؤمنین -علیه السلام - ومیراث الحسن والحسین -علیها السلام - انّ الإمامة زمام الدّین ونظام المسل مین وصلاح الدنیا وعزّالمؤمنین إنّالإمامةاُس الإسلام النامی و فرعه السّامی بالإمام تمام الصلاة و الزکاة والصیام والحج والجهاد وتوفیرالفیء والصدقات وإمضاء الحدود والاٴحکام ومنع الثغور والاٴطرافالإمام یحلّ حلا ل اللّٰه ویحرّم حرام اللّٰه و یقیم حدود اللّٰه و یذّب عن دین اللّٰه ویدعو إلی سبیل ربّه بالحکمة الموعظة الحسنة و الحجّة البالغة الإمام کالشمس الطالعة المجللّة بنورها للعالم وهی فی الاٴفق بحیث لاتنالها الاٴیدی والاٴبصار

الإمام البدرالمنیر والسراج الزاهر والنور الساطع والنجم الهادی فی غیاهب الدجی واجواز البلدان والقفار ولجج البحارالإمام الماء العذب علی الظماء والدالّ علی الهدی والمنجی من الرّدی الإمام النار علی الیفاع الحارّ لمن اصطلی به والد لیل فی المهالکمن فارقه فهالک

____________________

۱- آل عمران/۶۸

۲-روم/۵۶

۲۷

الإمام السحاب الماطروالغیث الهاطل والشمس المضیئةوالسماء الظلیلة والاٴرض البسیطة والعین الغزیرةوالغدیروالروضة

الإمام الاٴنیس الرفیق والوالد الشفیق واالاٴخ الشقیق والاٴم البرّة بالولد الصغیر ومفزع العباد فی الداهیة النآد

الإمام اٴمین اللّٰه فی خلقه وحجّته علی عباده وخلیفته فی بلاده والداعی إلی اللّٰه والذابّ عن حرام اللّٰه

الإمام المطهّرمن الذنوب والمبرّاٴ عن العیوب المخصوص بالعلم الموسوم بالحلم نظام الدّین و عزّالمسلمین وغیظ المنافقین و بوار الکافرین

الإمام واحد دهره، لا یدانیه اٴحد ولا یعادله عالم ولایوجد منه بدل ولا له مثل و لا نظیر مخصوص بالفضل کلّه من غیر طلب منه له و لا اکتساب بل اختصاص من المُفضل الوهّاب فمن ذا الذی یبلغ معرفة الإمام اٴو یمکنه اختیاره؟!! هیهات هیهات! ضلّت العقول وتاهت الحلوم وحارت الاٴلباب و خسئت العیون و تصاغرت العظماء و تحیّرت الحکماء و تقاصرت الحلماء و حصرت الخطباء و جهلت الاٴلبّاء و کلّت الشعراء وعجزت الاٴدبائ وعییت البلغاء عن وصف شاٴن من شاٴنه اٴوفضیلة من فضائله واٴقرّت بالعجز و التقصیر و کیف یوصف بکلّه اٴو ینعت بکنهه اٴو یفهم شیئ من اٴمره اٴویوجدمن یقوم مقامه یغنی غناه؟!

لا، کیف واٴنّی؟ و هو بحیث النجم من ید المتناولین و وصف الواصفین! فاٴین الاختیار من هذا؟ و اٴین العقول عن هذا؟ و اٴین یوجد مثل هذا؟! اٴتظنّون ان ّذلک یوجد فی غیرآل الرسول محمد( ص) کذبتهم - واللّٰه - اٴنفسهم و منّتهم الاٴباطبل فارتقوا مرتقاً صعباً دحضاً تزلّ عنه إلی الحضیض اٴقدامهم راموا إقامة الإمام بعقول حائرة ناقصة و آرا مضلّة فلم یزدادوا منه إلاّ بُعداً( قاتلهم اللّٰه اٴنّی یؤفکون ) ؟ ولقد راموا صعبا و قالوا إفکاً و ضلّواضلا لاً بعیداً و وقعوا فیالحیرة إذ ترکوا الإمام عن بصیره( زیّن لهم الشیطان اٴعمالهم عن السبیل و کانوا مستبصرین ) (۱)

رغبوا عن اختیار اللّٰه و اختیار رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم واٴهل بیته إلی اختیارهم و القرآن ینادی( همو ربّک یخلق مایشاء و یختار ما کان لهم الخیرة سبحان اللّٰه و تعالی عماّ یشرکون ) (۲) وقال عزّوجلّ:( و ما کان لمؤمن و لا مؤمنة إذا قضی اللّٰه و رسوله اٴمراً اٴن یکون لهم الخیرة من اٴمرهم ) (۳) الآیة و قال:( مالکم کیف تحکمون )

____________________

۱۔نمل/۲۴

۲۔قصص/۶۸

۳۔احزاب/۳۶

۲۸

( اٴم لکم کتاب فیه تدرسون إن ّلکم فیه لمّا تخیّروناٴم لکم اٴیمان علینا بالغة إلی یوم القیامة إنّ لکم لما تحکمون سلهم اٴیّهم بذلک زعیم اٴم لهم شرکاء فلیاٴتوا به شرکائهم إن کانوا صادقین ) (۱) وقال عزّوجل:( اٴفلایتدبّرون القرآن اٴم علی قلوب اٴقفالها ۵ اٴم طبع اللّٰه علی قلوبهم فهم لا یفقهون ) (۲) اٴم( قالوا سمعنا و هم لا یسمعون إنّ شرّ الدوابّ عند اللّٰه الصمّ البکم الذین لا یعقلون و لو علم اللّٰه فیهم خیراً لاٴسمعهم و لو اٴسمعهم لتولّوا و هم معرضون ) (۳) اٴم( قالوا سمعنا و عصینا ) (۴) بل هو فضل اللّٰه یؤتیه من یشاء و اللّٰه ذوالفضل العظیم فکیف لهم باختیار الإمام؟! و الإمام عالم لا یجهل وراع لاینکل معدن القدس والطهارة و النسک و الزهادة و العلم والعبادة مخصوص بدعوة الرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ونسل المطهرةالبتول لامغمز فیه فی نسب و لا یدانیه ذو حسب فی البیت من قریش، و الزروة من هاشم و العترة من الرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و الرضا من اللّٰه عزّوجلّ شرف الاٴشرف و الفرع من عبد مناف نامی العلم کامل الحلم مضطلع بالإمامة عالم بالسیاسة مفروض الطاعة قائم باٴمر اللّٰه عزّوجلّ ناصح لعباداللّٰه حافظ لدین اللّٰه

إنّا لاٴنبیاء والاٴئمة - صلوات اللّٰه علیهم - یوفّهم اللّٰه و یؤتیهم من مخزون علمه و حکمه ما لایؤتیه غیرهم فیکون علمهم فوق علم

____________________

۱۔قلم/۴۱۔۳۶

۲۔محمد/۲۴

۳۔توبہ/۸۷

۴۔انفال/۲۳۔۲۱ ۵۔بقرہ/۹۳

۲۹

اٴهل الزمان فی قوله تعالی( : اٴفمن یهدی إلی الحقّ اٴحقّ اٴن یُتّبع اٴمّن لایهّدی إلاّ اٴن یُهدی فمالکم کیف تحکمون ) (۱) و قوله تبارک و تعالی( ومن یؤت الحکمة فقد اٴُوتی خیراً کثیراً ) (۲) و قوله فی طالوت( إنّ اللّٰه اصطفاه علیکم و زاده بسطة فی العلم و الجسم و اللّٰه یؤتی ملکه من یشاء و اللّٰه واسع علیم ) (۳) و قال لنبیهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ( اٴنزل علیک الکتاب و الحکمة و علّمک مالم تکن تعلم و کان فضل اللّٰه علیک عظیماً ) (۴) و قال فی الاٴئمّة من اٴهل بیت نبیّه و عترته و ذریّته صلوات اللّٰه علیهم -:( اٴم یحسدون الناس علی ما آتاهم اللّٰه من فضله فقد آتینا آل ابراهیم الکتاب و الحکمة و اتيناهم ملکاً عظیماً فمنهم من آمن به ومنهم من صدّ عنه و کفی بجهنم سعیراً ) (۵) و إنّ العبد إذا اختاره اللّٰه عزّ و جلّ لاٴُمور عباده شرح صدره لذلک و اٴودع قلبه ینابیع الحکمة و اٴلهمه العلم إلهاماً فلم یعی بعده بجواب و لا یحیر فیه عن صواب فهو معصوم مؤیّد فوفّق مسدّد قد اٴُمن من الخطایا و الزلل والعثار یخصّه اللّٰه بذلک لیکون حجّته علی عباده و شاهد علی خلقه و ذلک فضل اللّه یؤتیه من یشائ و اللّٰه ذوالفضل العظیم

فهل یقدرون علی مثل هذا فیختارونه؟ اٴو یکون مختارهم بهذه الصفة فیقدّمونه؟ تعدّوا - و بیت اللّٰه - الحقّ و نبذوا کتاب اللّٰه

____________________

۱۔یونس/۳۵

۲۔بقرہ/۲۶۹۳۔بقرہ۲۴۷۴۔سورئہ نسائ سے اقتباس/۱۱۳

۵۔نساء/ ۵۵۔۵۶

۳۰

وراء ظهورهم کاٴنهم لا یعلمون و فی کتاب اللّٰه الهدی والشفائفنبذوه و اتّبعوا اٴهواء هم فذمّهم اللّٰه و مقّتهم و اٴتعسهم فقال جلّ و تعالی:( و من اٴضّل ممّن اتّبع هواه بغیر هدی من اللّٰه إنّ اللّٰه لایهدی القوم الظالمین ) (۱) وقال:( فتعساٴلهم واٴضلّ اٴعمالهم ) (۲) و قال:( کبُر مقتاً عند اللّٰه وعند الّذین آمنوا کذلک یطبع اللّٰه علی کلّ قلب متکبّر جبّار ) (۳) وصلی اللّٰه علی النبیّ محمد وآله وسلّم تسلیماً کثیراً“(۴)

عبدالعزیزبن مسلم سے روایت ہے کہ:ہم مسجدمرومیں حضرت امام رضاعلیہ السلام کی خدمت میں تھے۔وہاں پہنچنے کے ابتدائی دنوں میں جمعہ کے دن جامع مسجدمیں جمع ہوئے تھے۔حضارنے مسئلہء امامت کے بارے میں گفتگوکی اوراس موضوع کے بارے میں موجود بہت سے اختلافات کو بیان کیاگیا۔

میں نے اپنے مولا)امام رضا علیہ السلام)کی خدمت میں لوگوں کی اس گفتگو کے بارے میں وضاحت کی۔حضرت علیہ السلام نے ایک مسکراہٹ کے بعدیوںفرمایا:اے عبدالعزیز!ان لوگوںنے نادانی کا راستہ اختیارکیاہے اور اپنے نظریات کی جانب دھوکہ میں ہیں۔

خدائے عزّوجل نے اپنے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کواس دنیاسے اس وقت تک نہیں اٹھایاجب تک ان کے لئے دین کومکمل نہیں کر لیااورقرآن مجیدکہ،جوہرچیزکوواضح کرنے والی کتاب ہے اورجس میں حلال وحرام،حدوداحکام اورانسان کی تمام ضرورتیں مکمل

____________________

۱۔قصص/۵۰

۲۔محمد /۸

۳۔غافر/۳۵

۴۔اصول کافی،مترجم،ج۱،ص۲۸۳،اصول کافی غیرمترجم،ج۱،ص۱۹۸،عیون اخبار الرضا۴،ج۱،ص۲۱۶۔

۳۱

طورپربیان ہوئی ہیںنازل نہیں کر لی اورفرمایا( مافرّطنا فی الکتاب من شیء ) ”ہم نے کتاب میں کوئی چیزنہیں چھوڑی ہے“)پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے حجہ الوداع میں جوآپکی عمرکے آخری ایام میں انجام پایاآیہء( اٴلیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً ) نازل فرمائی۔اس طرح دین کوکامل فرمایااورامامت دین کا تکملہ ہے۔)خدا نے)پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوتب تک اس دنیاسے نہیں اٹھالیاجب آپنے امت کے لئے دینی امور واضح کر دیئے حق کاوہ راستہ دکھلادیاجس پران کوچلناتھااورحضرت علی علیہ السلام کواپنے بعد امت کے لئے رہبرکے طورپر پہنچوا دیا،حتی کہ امت کی ضرورت کی کسی چیزکوبیان کئے بغیرنہیں چھوڑا۔پس،ان اوصاف کے پیش نظرجو یہ تصورکرے کہ خدائے متعال نے اپنے دین کومکمل نہیں کیاہے،اس نے خدا کی کتاب سے انکارکیاہے،اورایساآدمی کافرہے۔کیایہ لوگ امت کے در میان امامت کی عظمت وبلندی نیز اس کی کلیدی حیثیت کوجاننے کاشعوررکھتے ہیں تاکہ اس سلسلہ میں کوئی رائے قائم کرسکیں؟بیشک امامت اس سے کہیں زیادہ گراں بہا،عظیم الشاں،بلندمرتبہ اورعمیق ترہے کہ لوگ اسے اپنی عقلوں سے درک کریںنیزاپنی رائے اوراپنے اختیارسے امام منتخب کریں۔

۳۲

امامت ایک ایساخاص عہدہ ہے جوخدائے متعال کی طرف سے خُلّ نیزنبوت ورسالت کے منصب کے بعدحضرت ابراھیم علیہ السلام کو عطاکیاگیا،اوراس سے مذکورہ دو نوںعہدوں سے بلنداورافضل قراردیتے ہوئے خدا وند عالم نے فرمایا:( إنیّ جاعلک للناّس إماماً ) یعنی:”میں تجھے لوگوں کے لئے امام قراردیتاہوں“۔حضرت ابراھیم علیہ السلام نے خوش ہوکرکہا:( ومن ذرّیّتی ) ”کیامیری ذریت کوبھی یہ عہدہ ملے گا؟“خدائے متعال نے فرمایا:( لاینال عهدالظالمین ) ”میرا وعدہ )امامت)ظالموں تک نہیں پہنچے گا۔“ اس آیہء شریفہ نے ہرظالم کے لئے عہدہ امامت کوقیامت تک کے لئے مستردکردیا اوراس)امامت)کوممتازاورمنتخب افراد میں متعین قراردیا--یہاں تک کہ پیغمبراسلام (ص)نے اسے وراثت میں حاصل کیا آپنے بھی اسے خداکے حکم سے علی علیہ السلام اور ان کی معصوم نسلوں میں قراردیا کہ جو اہل علم و ایمان تھے اوریہ مقام ان کے معصوم فرزندوں میں قیامت تک رہے گا۔پس یہ نا دان کیسے امام کوانتخاب کرسکتے ہیں۔؟!!امامت انبیاء کی عظمت و منزلت اور اولیائے الہٰی کی وراثت ہے۔امامت،خدائے متعال اورپیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانشین اورامیرالمؤمنین علیہ السلام کی عظمت نیزحسن وحسین علیہماالسلام کی وارثت ہے۔امامت،دین کی زمامداری،مسلمانوں کی حکمت عملی ،دنیا کی بہتری اورمؤمنین کی عزت ہے۔صرف امامت کے ذریعہ نماز،روزہ،حج،زکواةاورجہادکومکمل طورپرانجام دیاجاسکتاہے اورامام کے ذریعہ حدوداوراحکام الہٰی کا نفاذ ممکن ہے اورسرحدوں کی حفاظت کی جاسکتی ہے۔

یہ امام ہی ہے جوخدا کے حلال کوحلال اوراس کے حرام کوحرام بتاتاہے،خداکے حدود کوجاری کرتاہے،دین خداکادفاع کرتاہے اورلوگوں کوخداکے راستہ کی طرف اپنی حکمت عملی،اچھی نصیحت اورمحکم ومتقن دلا ئل سے دعوت دیتاہے۔

۳۳

امام ایک آفتاب کے مانند ہے جوطلوع ہوکرپوری دنیا کوروشنی میں غرق کر دیتاہے چو نکہ وہ ایک بلندی پرمستقرہوتاہے لہذااس تک لو گوں کی نظریں اور آلودہ ہاتھ نہیں پہنچ سکتے ہیں۔

امام، ماہ تابان ،شمع فروزان، چمکتانوراوردرخشاں ستارہ ہے جو شدیدتاریکیوں شہہ راہوں اورگزرگاہوں،شہروں اورگلی کوچوں ، صحراؤں اور سمندروں کے گردابوں میں )جہالت و آزمائش نیز دربدری کے زمانہ میں ) لوگوں کی ہدایت کرنے والا ہوتاہے۔

امام،پیاسوں کے لئے ٹھنڈاپانی اورگمراہوں کی ہدایت کے لئے راہنماو ایک دلیل ہے۔

امام،ایک ابر باران ،موسلا دھاربارش،چمکتا ہواسورج،سایہ دارچھت،وسیع وعریض زمین،ابلتاہواچشمہ،نیزجھیل اورگلستان کے مانند ہوتاہے۔

امام،خداکے بندوں کے لئے انتہائی سختیوں میں ،ہمدم و مونس، مہربان باپ،برابرکابھائی،غمخوارماں اور خدا کی پناہ گاہ ہوتاہے۔

امام،خداکے بندوں میں خداکاامانتدار،اس کے بندوں پرحجت الہٰی اوراس کے ملک میں اس کاجانشین ہوتاہے۔

امام،خداکی طرف دعوت دینے والااورحریم الہٰی)حدود،مقدرات اوراحکام)کادفاع کرنے والاہوتاہے۔

امام،گناہوں سے پاک ،عیوب اوربرائیوں سے منّزہ ہوتا ہے۔

امام علم میں یگانہ،حلم وبردبادی میں یکتا،نظام، دین نیزمسلمانوں کی عزت،منافقون کے واسطے غضب اورکافروں کے لئے ہلاکت ہے۔

۳۴

امام،)فضائل اورانسانی اقدارکے حوالے سے)بے مثال ہوتاہے۔کوئی بھی عظمت و بزرگی کے اعتبار سے اس)امام)کے برابرنہیں ہوسکتاہے اورکوئی عالم اس کے مساوی نہیں ہوسکتا ہے اورکسی کو اس کاجانشین اور متبادل قرارنہیں دیاجاسکتاہے۔اورامام وہ ہے کہ،جس کوتلاش وکوشش کے بغیرتمام فضیلتیںخداکی طرف سے عطاہوتی ہیں۔

پس،کون ہے جو امام کوپہچان سکتاہے۔ اور اس کو چننے اور منتخب کرنے کی قدرت رکھتا ہے افسوس!افسوس!)اس سلسلہ میں )

عقلیں گم ہیں،نظریںناتواں ہیں،بڑے چھوٹے ہوگئے ہیں،حکماء اورفلاسفہ حیراں و سرگرداں ہیں،اورخطباء،عقلاء،شعراء،ادباء اورمبلغین،خستہ وعاجزہیں،کہ اس)امامت) کی کوئی شان یااس کی فضیلتوں میں سے کسی فضیلت کی توصیف کریں۔یہ مقام کیسے توصیف کے حدودمیں اسکتاہے جبکہ امام ستارہ کے مانند ہے اورانسان کی توصیف کے دائرہ امکان سے دورہے۔

کیاتم لوگ تصور کرتے ہو کہ یہ خصوصیتیں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان کے علاوہ کسی اورمیں موجودہوسکتی ہیں؟!

خداکی قسم! ان کی نفسانی خواہشات نے انھیں جھوٹ بولنے پر مجبورکیاہے اورباطل تصورات نے انھیں منحرف کیا ہے۔

انہوںنے بلندیوں پر قدم رکھااورآخرکاران کے قدم ڈگمگائے اوروہ پستیوں میں جاگرے ہیں۔انہوںنے اپنی گمراہ کن اورپریشان عقلوں سے امام منتخب کرناچاہالیکن دوری،گمراہی اورانحراف کے علاوہ انھیں کچھ حاصل نہیں ہوا۔

انہوںنے خدائے متعال،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نیزآپ کے اہل بیت )علیہم السلام) کے انتخاب کے علاوہ خودانتخاب کرنا چاہا،جبکہ قرآن مجید،ان کے لئے یوں فرماتا ہے:( وربّک یخلق مایشاء ویختارماکان لهم الخیرة ) ”تیرا پروردگارجسے چاہتاہے خلق کرتاہے اورمنتخب کرتاہے،ان کے لئے انتخاب کا حق نہیں ہے،وہ اس بات سے منزّہ وپاک ہے کہ جس کالوگ اسے شریک قراردیتے ہیں“)خدائے متعال مزیدفرماتاہے:)( وما کالمؤمن ولا مؤمنة إذ قضی اللّٰه و رسوله اٴمراً اٴن یکون لهم الخیر من اٴمرهم ) ۔۔۔ ”اورکسی مؤمن مردیا عورت کواختیار نہیں ہے کہ جب خداورسولخداکسی امر کے بارے میں فیصلہ کردیں تو وہ بھی اپنے امورکے بارے میں صاحب اختیار ہو جائے“

۳۵

پس وہ کیسے امام کو انتخاب کرسکتے ہیںجبکہ امام ایک ایسادانشور ہے جس کے حدود میں نادانی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔وہ ایک ایساسرپرست ہے،جس میں خوف اورپلٹنے کاسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔وہ تقدس،پاکیزگی،زہدواطاعت،علم و عبادت کامرکزہے،پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعائیں حضرت فاطمہئ بتول کی پاکیزہ اولادسے مخصوص ہے۔ وہ یہ کہ اس مقدس سلسلہ میں عیب جوئی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اورکوئی بھی خاندانی شرف اس کے برابرنہیں ہے۔وہ خاندان قریش وہاشم اور پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عترت سے ہیں جو خدا کے پسندیدہ ہیں۔وہ اشراف الاشراف عبد مناف کی اولادسے ہیں۔وہ علم وآگہی کے وارث اور مکمل بردباری کے مالک ہیں۔رہبری میں قدرتمنداورسیاست سے آگاہ ہیں۔خداکے حکم کے مطابق ان کی اطاعت کرنا واجب ہے۔وہ امرخداپرسختی سے قائم،نیزخدائے متعال کے بندوں کے حق میں خیرخواہ اوردین کے محافظ ہیں۔

خدائے متعال نے انبیاء اورائمہ کوتوفیق عطا کی ہے اوراپنے علم وحکمت کے خزانہ سے جوچیزدوسروں کونہیں دی ہے، وہ انھیںعطاکی ہے۔اس لحاظ سے ان کی عقل اپنے زمانہ کے لوگوں کی عقلوں سے افضل ہے کہ خدائے متعال نے فرمایاہے: افمن یھدی إلی الحقّ کیا جو حق کی طرف ہدایت کرتاہے و ہ اطاعت کے لئے زیادہ شائستہ و سزاوار ہے یاوہ جوخود راہنمائی کے بغیرراستہ پر گامزن نہیں ہے؟تم لوگوں کوکیا ہواہے؟کیسے حکم کرتے ہو؟خدائے متعال فرماتاہے ومن یؤت الحکمة۔۔۔ ” جسے حکمت دے دی گئی ہے اس نے بہت سی نیکیاں پالی ہیں۔“طالوت کے بارے میں خدائے عزّوجل کافرمان ہے: إنّ للّٰہ اصطفائ علیکم۔۔۔ انہیں اللہ نے تمھارے لئے منتخب کیاہے اورعلم وجسم میں وسعت عطافرمائی ہے اوراللہ جسے چاہتا ہے اپناملک عطاکرتا ہے کہ وہ صاحب وسعت بھی ہے اورصاحب علم بھی۔

۳۶

(خدائے متعال نے)اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے فرمایا:( واٴنزل اللّٰه علیک الکتاب والحکمة ) ۔۔۔ ”اوراللہ نے آپ پر کتاب اورحکمت نازل کی ہے اورآپ کوان تمام باتوں کاعلم دے دیا ہے کہ جن کاآپ کوعلم نہ تھا،اورآپ پرخداکابہت بڑافضل ہے“۔اوراہل بیت اطہاراورعترت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ائمہ کے بار ے میں فرمایا:( اٴم یحسدون النّاس علی ماآتاهم اللّٰه من فضله ) ۔۔۔ ”یاوہ ان لوگوں سے حسدکرتے ہیںجنھیں خدانے اپنے فضل وکرم سے بہت کچھ عطا کیاہے توپھر ہم نے آل ابراھیم(علیہ السلام)کوکتاب وحکمت اورملک عظیم عطا کیاہے۔پھران میں سے بعض ان پر ایمان لے آئے اوربعض نے انکارکردیااوران کے لئے جہنم کی دھکتی ہوئی آگ ہے۔“

حقیقت میں جب خداوند متعال اپنے کسی بندہ کواپنے بندوں کے امورکی اصلاح کے لئے منتخب کرتاہے،تواس کے سینہ میں وسعت عطا کرتاہے،اس کے دل میں حکمت کے چشمے قراردیتاہے اوراسے ایک ایسے علم سے نواز تاہے کہ اس کے بعدکسی سوال کا جواب دینے میں عاجز نہیں ہوتااورراہ حق سے منحرف نہیں ہوتا ہے۔پس اس )امام)معصوم کو خدائے متعال کی طرف سے توفیق اور تائیدحاصل ہوتی ہے۔ہرقسم کی خطا،لغز ش اورفروگذاشت سے محفوظ ہوتاہے۔خدائے متعال نے اسے ان صفات کا امتیازبخشاہے تاکہ وہ اس کے بندوں پر حجت اور اس کی مخلوقات پرگواہ رہے اوریہ بخشش وکرم خدا کی طرف سے ہے وہ جسے چاہتاعطا کرتا ہے اورخداوند متعال بڑا کریم ہے۔

۳۷

کیالوگوں میں یہ طاقت ہے کہ اس قسم کے کسی شخص کا انتخاب کریں یاان کا منتخب کردہ نمائندہ اس قسم کا ہو؟بیت اللہ کی قسم! ان لوگوں نے حق سے تجاوزکیا ہے اور نادانی کی صورت میں کتاب خدا سے منہ موڑلیاہے،جبکہ ہدایت اورشفاکتاب خدا میں ہے۔انہوں نے کتاب الہٰی کوچھوڑکراپنی خواہشات نفسانی کی پیروی کی ہے۔ خدائے متعالی نے بھی ان کی مذمت کی اورانھیں دشمن قراردیتے ہوئے قعر مذلت میں ڈال دیااورفرمایا:( ومن اٴضلّ ممن هواه بغیر هدی من اللّٰه ) ۔۔۔ ”اوراس سے زیادہ گمراہ کون ہے جوہدایت الہی کے علاوہ اپنی خواہشات کااتباع کرلے جبکہ اللہ ظالم قوم کی ہدایت کرنے والا نہیں ہے۔“اورفرمایا:( فتعساً لهم واٴضلّ اعمالهم ) ۔۔۔ ”وہ نا بود اور ھلاک ہو جائیں اوران کے اعمال برباد ہو جائیں۔“اورفرمایا:( کبر مقتاً عنداللّٰه ) ۔۔۔

”وہ اللہ اورصاحبان ایمان کے نزدیک سخت نفرت کے حقدار ہیں اوراللہ اس طرح ہرمغروراورسرکش انسان کے دل پرمہر لگاتا ہے۔“خدا کی بے شماررحمتیں اور درودوسلام حضرت محمد اوران کے خاندان پر۔

۳۸

دوسراباب :

امامت آیہء مباہلہ کی روشنی میں

نجران کے عیسائی اوران کاباطل دعویٰ

( فمن حاجّک فیه من بعد ما جاء ک من العلم فقل تعالوا ندعُ ُ اٴبنائنا و اٴبناء کم و نسائنا و نسائکم و اٴنفسنا و اٴنفسکم ثمّ نبتهل فنجعل لعنة اللّٰه علی الکاذبین ) (آل عمران/۶۱)

”(پیغمبر!)علم کے آجانے کے بعدجو لوگ تم سے)حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں )کٹ حجتی کریں،ان سے کہ دیجئے کہ چلوہم لوگ اپنے اپنے فرزند،اپنی عورتوں اوراپنے اپنے نفسوں کودعوت دیں اورپھرخداکی بارگاہ میں دعا کریں اورجھوٹوں پرخداکی لعنت کریں“

آیہء شریفہ میں گفتگونجران کے عیسائیوں کے بارے میں ہے کہ وہ حضرت عیسی علیہ السلام کوخداجانتے تھے اوران کے بغیرباپ کے پیداہونے کی وجہ سے ان کے خدا ہونے کی دلیل تصورکرتے تھے۔اس سے پہلی والی آیت میں ایاہے:

( إنّ مثل عیسی عند اللّٰه کمثل آدم خلقه من تراب ثمّ قال له کن فیکون ) (آل عمران/۵۹)

”بیشک عیسی کی مثال اللہ کے نزدیک آدم جیسی ہے کہ انھیں مٹی سے پیداکیااورپھرکہا کہ ہوجاؤ تو وہ خلق ہوگئے۔“

مذکورہ آیت ان کے دعوے کوباطل کرتی ہے۔یعنی اگرتم لوگ حضرت عیسی بن مریم علیہماالسلام کے بارے میں بغیرباپ کے پیداہونے کے سبب ان کے خدا ہونے کے قائل ہوتوحضرت آدم علیہ لسلام ماں اورباپ دونوں کے بغیرپیداہوئے ہیں،اس لئے وہ زیادہ حقدار وسزاوارہیں کہ تم لوگ ان کی خدائی کے معتقدہوجاؤ۔

۳۹

اس قطعی برہان کے باوجود انہوں نے حق کوقبول کر نے سے انکارکیااوراپنے اعتقادپرڈٹے رہے۔

بعدوالی آیت میں خدائے متعال نے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مخاطب کر کے حکم دیاکہ انھیں مباہلہ کرنے کی دعوت دیں۔

اگرچہ اس آیت)آیہء مباہلہ)کے بارے میں بہت سی بحث ہیں،لیکن جوبات یہاں پرقابل توجہ ہے،وہ اہل بیت علیھم السلام،خاص کرحضرت علی علیہ السلام کے بارے میں چندنکات ہیں،جوآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ مباہلہ کے لئے آئے تھے۔

مذکورہ آیہء شریفہ اوراس سے مربوط احادیث کی روشنی میں ہونے والی بحثیں مندرجہ ذیل پانچ محورپر استوارہے:

۱ ۔پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مامورتھے کہ مباہلہ کے لئے کن لوگوں کواپنے ساتھ لائیں؟

۲ ۔ان کے میدان مباہلہ میں حاضرہونے کامقصدکیاتھا؟

۳ ۔آیہء شریفہ کے مطابق عمل کرتے ہوئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کن افراد کواپنے ساتھ لائے؟

۴ ۔آیہء مباہلہ میں حضرت علی علیہ السلام کامقام اوریہ کہ آیہء شریفہ میں حضرت علی علیہ السلام کونفس پیغمبر (ص)کہا گیاہے نیزاس سے مربوط حدیثیں۔

۵ ۔ان سوالات کا جواب کہ مذکورہ آیت کے ضمن میں پیش کئے جاتے ہیں۔

۴۰