امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت21%

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت مؤلف:
زمرہ جات: امامت
صفحے: 271

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 271 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 114761 / ڈاؤنلوڈ: 4270
سائز سائز سائز
امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

ایک ایسی حدیث کو نمونہ کے طور پر پیش کررہے ہیں،جس کو شیعہ ۱ اورسنی دونوں نے نقل کیا ہے:

ابراھیم بن محمد جوینی نے ”فرائد السمطین ۲“ میں ایک مفصل روایت درج کی ہے۔چونکہ یہ حدیث امامت سے مربوط آیات کی تفسیر کے سلسلہ میں دوسری کتابوں میں درج کی گئی ہے، اس لئے ہم یہاں پر اس سے صرف آیہء تطہیر سے مربوط چند جملوں کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔

اس حدیث میں حضرت علی علیہ السلام مہاجر وانصار کے بزرگوں کے ایک گروہ کے سامنے اپنے فضائل بیان کرتے ہوئے اپنے اوراپنے اہل بیت کے بارے میں نازل ہوئی قرآن مجید کی چندآیتوں کی طرف اشارہ فرماتے ہیں،من جملہ آیہء تطہیرکی طرف کہ اس کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام نے یوں فرمایا:

”اٴیّهاالنّاس اٴتعلمون اٴنّ اللّٰه اٴنزل فی کتابه: ( إنّما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الرجس اٴهل البیت و یطهّرکم تطهیراً ) فجمعنی و فاطمة و ابنییّ الحسن و الحسین ثمّ اٴلقی علینا کساءً و قال: اللّهمّ هؤلاء اٴهل بیتی و لحمی یؤلمنی ما یؤلمهم، و یؤذینی ما یؤذیهم، و یحرجنی ما یحرجهم، فاٴذهب عنهم الرجس و طهّرهم تطهیراً ۔

فقالت اٴُمّ سلمة: و اٴنا یا رسول اللّٰه؟ فقال: اٴنت إلی خیر إنّما اُنزلت فی) و فی ابنتی) و فی اٴخی علیّ بن اٴبی طالب و فی ابنیَّ و

____________________

۱۔کمال الدین صدوق،ص۲۷۴

۲۔مؤلف اور کتاب کے اعتبار کے بارے میں تفسیر آیہء ”اولوالامر“کا آخر ملاحظ ہو۔

۲۲۱

فی تسعة من ولد ابنی الحسین خاصّة لیس معنا فیها لاٴحد شرک

فقالوا کلّهم: نشهد اٴنّ اٴمّ سلمة حدّثتنا بذلک فساٴلنا رسول اللّٰه فحدّثنا کما حدّثتنا اٴمّ سلمة(۱)

”اے لوگو!کیا تم جانتے ہو کہ جب خدا وند متعال نے اپنی کتاب سے آیہء:( إنّما یرید الله ) ۔۔۔ کو نازل فرمایا پیغمبر اکرم (ص)نے مجھے،فاطمہ اورمیرے بیٹے حسن وحسین )علیہم السلام)کوجمع کیا اور ہم پر ایک کپڑے کا سایہ کیا اورفرمایا:خداوندا! یہ میرے اہل بیت ہیں۔جس نے انھیں ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا اورجس نے انھیں اذیت پہنچائی اس نے مجھے اذیت پہنچائی ہے جس نے ان پرسختی کی اس نے گویا مجھ پر سختی کی ۔)خدا وندا!)ان سے رجس کو دور رکھ اورانھیں خاص طورپرپاک وپاکیزہ قرار دے۔

ام سلمہ نے کہا:یارسول اللہ!میں بھی؟)رسول خدا (ص)نے)فرمایا:تم خیر ونیکی پرہو، لیکن یہ آیت صرف میرے اورمیری بیٹی )فاطمہ زہرا)میرے بھائی علی بن ابیطالب(علیہ السلام) اور میرے فرزند ) حسن و حسین علیہما السلام) اور حسین (علیہ السلام)کی ذریت سے نوائمہ معصومین کے بارے میں نازل ہوئی ہے اورکوئی دوسرااس آیت میں ہمارے ساتھ شریک نہیں ہے ۔اس جلسہ میں موجود تمام حضار نے کہا:ہم شہادت دیتے ہیں کہ ام سلمہ نے ہمارے سامنے ایسی حدیث بیان کی ہے اورہم نے خود پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بھی پوچھا توانھوں نے بھی ام سلمہ کے مانند بیان فرمایا۔“

____________________

۱۔فرائد السمطین،ج۱،ص۳۱۶،موسةالمحمودی للطباعة والنشر،بیروت

۲۲۲

آیہء تطہیرکے بارے میں چند سوالات اور ان کے جوابات

اس بحث کے اختتام پر ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ آیہء تطہیر کے بارے میں کئے گئے چند سوالات کے جوابات پیش کریں:

پہلاسوال

گزشتہ مطالب سے جب یہ معلوم ہوگیا کہ اس آیہء کریمہ میں ارادہ سے مرادارادہ تکوینی ہے۔اگرارادہ تکوینی ہوگا تو یہ دلالت کرے گا کہ اہل بیت کی معنوی طہارت قطعی اورناقابل تغیر ہے۔کیا اس مطلب کو قبول کرنے کی صورت میں جبر کا قول صادق نہیں آتا ہے؟

جواب

خدا وند متعال کا ارادہ تکوینی اس صورت میں جبر کا سبب بنے گا جب اھل بیت کا ارادہ واختیار ان کے عمل انجام دینے میں واسطہ نہ ہو لیکن اگر خداوند متعال کاارادہ تکوینی اس سے متعلق ہو کہ اہل بیت اپنی بصیرت آگاہی نیز اختیارسے گناہ اور معصیت سے دور ہیں،توارادہ کا تعلق اس کیفیت سے نہ صرف جبر نہیں ہوگا بلکہ مزیداختیار پر دلالت کرے گا اورجبر کے منافی ہوگا،کیونکہ اس فرض کے مطابق خدا وند متعال کے ارادہ کا تعلق اس طرح نہیں ہے کہ وہ چاہیں یا نہ چاہیں ،اپنے وظیفہ انجام دیں گے، بلکہ خدا وند متعال کے ارادہ کا تعلق ان کی طرف سے اطاعت کی انجام دہی اور معصیت سے اجتناب ان کے اختیار میں ہے اور ارادہ و اختیار کا پایا جا نا ہی خلاف جبر ہے۔

۲۲۳

اس کی مزید وضاحت یوں ہے کہ: عصمت درحقیقت معصوم شخص میں پائی جانے والی وہ بصیرت اور وہ وسیع و عمیق علم ہے، جس کے ذر یعہ وہ کبھی اطاعت الہیٰ سے منحرف ہو کر معصیت و گناہ کی طرف تمائل پیدا نہیں کرتا ہے اور اس بصیرت اور علم کی وجہ سے اس کے لئے گناہوں کی برائیاں اور نقصانات اس قدر واضح اور عیاں ہو جاتے ہیں کہ اس کے بعد اس کے لئے محال ہے کہ وہ گناہ کا مرتکب ہو جائے۔

مثال کے طور پرجب کوئی ادنی ٰشخص یہ دیکھتا ہے کہ وہ پانی گندا اور بدبو دار ہے، تو محال ہے و ہ اسے اپنے اختیارسے پی لے بلکہ اس کی بصیرت و آگاہی اسے اس پانی کے پینے سے روک دے گی۔

دوسرا سوال

آیہء شریفہ میں آیا ہے:( انّما یریدا للهليذهب عنکم الرّجس اهل البیت ويطهرکم تطهیرا ) ” اذھاب “ کے معنی لے جانا ہے اور اسی طرح ”تطہیر“ کے معنی پاک کر نا ہے اور یہ اس جگہ پر استعمال ہوتا ہے جہاں پر پہلے سے رجس وکثافت موجود ہو اور انھیں پاک کیا جائے ۔ اسی صورت میں ”اذھابکا اطلاق،رجس کو دور کر نااور تطھیر“ کااطلاق ”پاک کرنا“حقیقت میں صادق آسکتا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اہل بیت پہلے گناہوں سے آلودہ تھے لہذا اس آلود گی کو ان سے دور کیا گیا ہے اور انھیں اس آلودگی سے پاکیزہ قرار دیا گیاہے۔

۲۲۴

جواب

جملہء( ليذهب عنکم الرجس ) میں لفظ ”اذھاب ‘ ‘لفظ ” عن“ سے متعدی ہوا ہے۔ اس کا معنی اہل بیت سے پلیدی اور رجس کو دور رکھنا ہے اور یہ ارادہ پہلے سے موجود تھا اور اسی طرح جاری ہے،نہ یہ کہ اس کے برعکس حال و کیفیت اہل بیت میں موجود تھی اور خداوند متعال نے ان سے اس حال و کیفیت )برائی) کو دور کیا ہے۔ اسی طرح اس سلسلہ میں تطہیر کا معنی کسی ناپاک چیز کو پاک کرنے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اہل بیت کے بارے میں اس کا مقصد ان کی خلقت ہی سے ہی انھیں پاک رکھنا ہے۔ اس آیہء کریمہ کے مانند( ولهم فیهاازواج مطهرة ) (۱) ” اور ان کے لئے وہاں)بہشت میں ) ایسی بیویاں ہیں جو پاک کی ہوئی ہوں گی“

”اذھاب “اور”تطھیر“کے مذکورہ معنی کا یقینی ہونا اس طرح ہے کہ اہل بیت کی نسبت خود پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی طرف یقینی ہے اوریہ بھی معلوم ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم ابتداء ہی سے معصوم تھے نہ یہ کہ آیہ تطہیر کے نازل ہونے کے بعد معصوم ہوئے ہیں۔جب آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں مطلب اس طرح ہے اور لفظ ”اذھاب“ و ”تطھیر“ آپ میں سابقہ پلیدی اور نجاست کے موجود ہونے کا معنی نہیں ہے، اہل بیت کے دوسرے افراد کے بارے میں بھی قطعی طور پر اسی طرح ہونا چاہئے۔ ورنہ”اذھاب“ و ”تطھیر“ کے استعمال کا لازمہ پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے خاندان کے بارے میں مختلف معنی میں ہوگا۔

تیسرا سوال

اس آیہء شریفہ میں کوئی ایسی دلالت نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ یہ طہارت ، اہل بیت میں )آیہء تطہیر کے نازل ہونے سے پہلے) موجود تھی بلکہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ خدا وند متعال اس موضوع کا ارادہ کرے گا کیونکہ ”یرید“ فعل مضارع ہے اور مستقبل کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

____________________

۱۔بقرہ/۲۵

۲۲۵

جواب

اول یہ کہ:کلمہ ”یرید“ جو خداوند متعال کا فعل ہے، وہ مستقبل پردلالت نہیں کرتا ہے اور دوسری آیات میں اس طرح کے کا استعمالات اس مطلب کو واضح کرتے ہیں کہ جیسے کہ یہ آیات:( یریدالله لیبین لکم ویهديکم سنن الّذین من قبلکم ) (۱) اور( والله یرید اٴن یتوب عليکم ) (۲)

اس وصف کے پیش نظر آیت کے معنی یہ نہیں ہے کہ خداوند متعال ارادہ کرے گا، بلکہ یہ معنی ہے کہ خداوند متعال بد ستورارادہ رکھتا ہے اور ارادہ الہیٰ مسلسل جاری ہے۔

دوسرے یہ کہ اس ارادہ کا پیغمبر اکرم (ص)سے مربوط ہونا اس معنی کی تاکید ہے، کیونکہ آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ایسا نہیں تھا کہ پہلے تطہیر کا ارادہ نہیں تھا اور بعد میں حاصل ہواہے۔ بلکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پہلے سے اس خصوصی طہارت کے حامل تھے اور معلوم ہے کہ آنحضرت (ص)کے بارے میں ”یرید“کا استعمال ایک طرح اور آپ کے اھل بیت کے لئے دوسری طرح نہیں ہوسکتا ہے۔

چوتھا سوال

احتمال ہے کہ ” لیذھب“ میں ”لام“ لام علت ہو اور ”یرید” کے مفعول سے مرادکچھ فرائض ہوں جو خاندان پیغمبرصلی الله علیہ وآلہ وسلم سے مربوط ہوں۔ اس حالت میں ارادہ تشر یعی اور آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ خداوند متعال نے آپ اہل بیت سے مربوط خصوصی تکالیف اور فرائض کے پیش نظر یہ ارادہ کیا ہے تاکہ برائی اور آلودگی کو آپ سے دور کرے اور آپ کو پاک و پاکیزہ قرار دے، اس صورت میں آیت اہل بیت کی عصمت پر دلالت نہیں کرے گی۔

____________________

۱۔ سورہ نساء /۲۶

۲۔ سورہ نساء /۲۷

۲۲۶

جواب

پہلے یہ کہ: ” یرید“ کے مفعول کا مخدوف اور پوشدہ ہونا خلاف اصل ہے اور اصل عدم پوشیدہ ہو نا ہے۔ صرف دلیل اور قرینہ کے موجود ہونے کی صورت میں اس اصل کے خلاف ہونا ممکن ہے اور اس آیت میں اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ : ”لےذھب“ کے لام کے بارے میں چند احتمالات ہیں ان میں سے بعض کی بنا پر ارادہ کا تکونےی ہونا اور بعض کی بنا پر ارادہ کا تشر یعی ہونا ممکن ہے لیکن وہ احتمال کہ جو آیت میں متعین ہے وہ ارادہ تکوینی سے ساز گار ہے۔ اس کی دلیل وہ اسباب ہیں جو ارادہ تکوینی کے اسبات کے سلسلہ میں پیش کئے گئے ہیں من جملہ یہ کہ ارادہ تشر یعی کا لازمہ یہ ہے اس سے اھل بیت کی کوئی فضیلت ثابت نہیں ہوتی، جبکہ آیہ ء کریمہ نے اھل بیت کی عظیم اور گراں بہا فضیلت بیان کی ہے جیسا مذکورہ احادیث اس کی دلیل ہیں۔

اس بنا پر آیہ شریفہ میں لام سے مراد’ ’ لام تعد یہ “ اور مابعدلام ”یرید“کا مفعول ہے۔ چنانچہ ہم قرآن مجید کی دوسری آیات میں بھی مشاہدہ کرتے ہیں کہ ”یرید“کبھی لام کے ذریعہ اور کبھی لا م کے بغیر مفعول کے لئے متعدی ہوتا ہے ۔ قرآن مجید میں اس قسم کے متعدد مثالیں پائی جاتی ہیں۔ ہم یہاں پرا ن میں سے دو آیتوں کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں :

۱ ۔( فلا تعجبک اٴموالهم ولااولادهم،إنّمایریداللهليعذبهم بهافی الحيوةالدّنیا ) ۔۔۔(۱) اور آیہ( ولا تعجبک اموالهم إنّمایریداللهاٴن يعذّبهم بها فی الدّنیا ) (۲) ۔ اس سورہ مبارکہ میں ایک مضمون کے باوجود ”یرید“ ایک آیت میں ” ان یعذبھم“ سے بلا واسطہ اور دوسری آیت میں لام کے ذر یعہ متعدی ہوا ہے۔

____________________

۱۔ سور ہء توبہ/۵۵ ۲۔سورہ توبہ/۸۵

۲۲۷

۲ ۔( یرید ون اٴن يطفئوانوراللهباٴفواههم ویاٴبی اللهإلّا اٴن یتم نوره ولوکره الکافرون ) (۱) اور آیہء( یرید ون ليطفئوانورالله بافواههم واللهمتم نوره ولوکره الکافرون ) (۲) ایک آیت میں ”یریدون“ ، ”ان ےطفئو“ پربلا واسطہ اور دوسری آیت میں لام کے واسطہ سے متعدی ہوا ہے۔

پانچواں سوال

آیہ شریفہ میں ”اھل البیت “سے مراد فقط پنجتن نہیں ہیں بلکہ اس میں پیغمبر )صلی الله علیہ وآلہ وسلم) کے دوسرے رشتہ دار بھی شامل ہیں ۔ کیونکہ بعض احادیث میں آیا ہے کہ پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا عباس اور ان کے فرزند وں کو بھی ایک کپڑے کے نیچے جمع کیا اور فرمایا: ”ھو لاء اھل بیتی“ اور ان کے بارے میں دعا کی۔

جواب

اہل بیت کی تعدادکو پنجتن پاک یا چودہ معصومین علیھم السلام میں منحصر کر نے کے حوالے سے اس قدراحادیث وروایات مو جود ہیں کہ اس کے سامنے مذکورہ حدیث کا کوئی اعتبار نہیں رہ جاتاہے۔

اس کے علاوہ وہ حدیث سند کے لحاظ سے بھی معتبر نہیں ہے کیونکہ اس کی سند میں ”محمدبن یونسی“ ہے کہ جس کے بارے میں ابن حجر نے ابن حبان سے نقل کیا ہے کہ وہ حدیث جعل کرتا تھا۔ شا ئد اس نے ایک ہزار سے زیادہ جھوٹی حدیثیں جعل کی ہیں۔ ابن عدی نے اس

پر حدیث گھڑنے کا الزام لگا یا ہے۔(۳)

____________________

۱۔سورہ توبہ/۳۲

۲۔سورہ صف/۸

۳۔ تہذیب،ج،ص۵۴۲،طبع ھندوستان

۲۲۸

اس کے علاوہ حدیث کی سند میں ” مالک بن حمزہ“ ہے کہ بخاری نے اپنی کتاب ” ضعفا“ میں اسے ضعیف راویوں کے زمرہ میں درج کیا ہے۔(۱)

اس کے علاوہ اس کی سند میں ” عبدالله بن عثمان بن اسحاق“ ہے کہ جس کے بارے میں ابن حجرنے عثمان کا قول نقل کیا ہے اور کہا ہے : میں نے ابن معین سے کہا: یہ راوی کیسا ہے؟ اس نے کہا : میں اسے نہیں پہچانتا ہوں اور ابن عدمی نے کہا : وہ مجہول اور غیر معروف ہے۔

اس صورت حال کے پیش نظر یہ حدیث کسی صورت میں مذکورہ احادیث کے ساتھ مقابلہ نہیں کرسکتی ہے۔

چھٹا سوال

ام سلمہ جب پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کرتی ہیں کہ: کیا میں بھی آپ کے اہل بیت میں شامل ہوں؟ تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں: ” انت الیٰ خیر“یا ” انت علیٰ خیر“ ّاس کے معنی یہ ہیں کہ تمھیں اس کی ضرورت نہیں ہے کہ تمھارے لئے دعا کروں ، کیونکہ تمھارے لئے پہلے ہی سے قرآن مجید میں آیت نازل ہوچکی ہیں اور جملہ ” انت علی خیر“ کے معنی یہ ہیں کہ تمھاری حالت بہترہے۔ یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ام سلمہ اہلبیت میں داخل نہیں ہیں۔

جواب

سیاق آیت کے بارے میں کی گئی بحث سے نتےجہ حاصل کیا جاسکتا ہے کہ آیہ ء تطہیرکا سیاق اس سے پہلی والی آیتوں کے ساتھ یکسان نہیں ہے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں اہل بیت میں داخل نہیں ہیں۔

____________________

۱۔ م یز ان الاعتدال،ج۲،ص۳۲۵، دارالمعرفہ،بیروت

۲۲۹

جملہء ”علی خیر“ یا ” الیٰ خیر“ اس قسم کے موارد میں افضل تفضیل کے معنی میں نہیں ہے اور اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں پنجتن پاک )علیہم السلام) سے افضل وبہتر ہوں۔ اس کے علاوہ خود ان احادیث میں اس مطلب کے بارے میں بہت سے قرآئن موجود ہیں ، من جملہ ام سلمہ آرزو کرتی ہیں کہ کاش انھیں بھی اجازت ملتی تاکہ اہل بیت کے زمرہ میں داخل ہوجاتیں اور یہ اس کے لئے ان تمام چیزوں سے بہترتھا جن پر سورج طلوع و غروب کرتا ہے۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویوں سے مربوط قرآن مجید کی آیتوں ، من جملہ آیہ ء تطہیر سے پہلی والی آیتوں اور سورئہ تحریم کی آیتوں کی شان نزول پر غور کرنے سے مذکورہ مطلب کی مکمل طور پر وضاحت ہوجاتی ہے۔ نمونہ کے طور پر سورہ تحریم کی درج ذیل آیتیں بیشتر تامل کی سزاوار ہیں۔

( إن تتو با إلی الله فقد صغت قلو بکما ) (۱) ( عسی ربه إن طلقکنّ اٴن یبد له اٴزواجاً خیراً منکنّ مسلمات مئومنات قانتات تائبات عبادات سائحات ثیبات واٴ بکاراً ) (۲) ( ضرب الله مثلاً للّذین کفرواامراٴة نوح و امراٴة لوط کانتا تحت عبدین من عبادنا صالحین فخانتا هما فلم يغنیا عنهما من الله شيئاً و قیل اد خلا النار مع الداخلین ) (۳)

ساتواں سوال

احادیث میں آیا ہے کہ پیغمبر خدا (ص)نے آیہ تطہیر کے نازل ہونے کے بعد اپنے خاندان کے حق میں یہ دعا کی: ”( اللّهم اٴ ذهب عنهم الّرجس و طهّرهم تطهّیرا ) “ ”خداوندا: ان سے رجس وپلیدی کو دور کر اور انھیں خاص طور سے پاک و پاکیزہ قرار

____________________

۱۔سورہ تحرم/۴

۲۔ سورہ تحریم/۵

۳۔سورہ تحریم /۱۰

۲۳۰

دے“آیہ کریمہ سے عصمت کا استفادہ کرنے کی صورت میں اس طرح کی دعا منا فات رکھتی ہے، کیونکہ آیہ کریمہ عصمت پر دلالت کرتی ہے اور عصمت کے حاصل ہونے کے بعدان کے لئے اس طرح دعا کرنا تحصیل حاصل اور بے معنی ہے۔

جواب

اول یہ کہ: یہ دعا بذات خود اس امر کی واضح دلیل ہے کہ ان کے لئے اس طہارت کے بارے میں خداوند متعال کا ارادہ ارادہ تکوینی تھا نہ تشر یعی ۔ کیونکہ ” اذھاب رجس“ اور ”تطہیر “ کا خدا سے جو مطالبہ کیا گیا ہے وہ قطعاً ایک تشر یعی امر نہیں ہے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعا یقینا مستجاب ہے۔ اس لئے مذکورہ دعا آیہء تطہیر کے مضمون پر تاکید ہے۔

دوسرے یہ کہ عصمت ایک فیض اور لطف الہیٰ ہے جو خدا وند متعال کی طرف سے ان مقدس شخصیات کو ان کی زندگی کے ہرہر لمحہ عطا ہوتی رہتی ہے کیونکہ وہ بھی دوسری مخلوقات کے مانند ہر لمحہ خدا کے محتاج ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ ایک لمحہ کی نعمت اور فےض الہیٰ انھیں دوسرے لمحہ کے فےض و عطیہ الہیٰ سے بے نیاز کردے۔

یہ اس کے مانند ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جملہ ”( إهد نا الصراط المستقیم ) “کو ہمیشہ تلاوت فرماتے تھے اور اس ہدآیت کو خدا وندمتعال سے طلب کرتے رہتے تھے ،باوجود اس کے کہ وہ اس ہدآیت کے اعلیٰ ترین درجہ پر فائز تھے اور یہ تحصیل حاصل نہیں ہے بلکہ یہ اس بات پر دلیل ہے کہ بندہ چاہے جس مقام پر بھی فائز ہو وہ ذاتی طور پر خدا کا محتاج ہوتا ہے اور اس احتیاج کا اظہار کرنا اور خدا وندمتعال سے دوسرے لمحات میں نعمت و الطاف الہیٰ کی درخواست کرنا بندہ کے لئے بذات خود ایک کمال ہے۔

۲۳۱

اس بات کا علم کہ خدا وندمتعال مستقبل میں اس نعمت کو عطا کرے گا ، دعا کے لئے مانع نہیں بن سکتا ہے،کیونکہ خدا وندمتعال ”اولواالباب“ کی دعا کو بیان کرتا ہے کہ وہ کہتے ہیں :( ربّنا وآتنا ما و عدتنا علی رسلک و لا تخذنا يوم القیامة إنّک ولا تخلف الميعاد ) (۱) ” پرور دگار جو تو نے اپنے رسولوں کے ذریعہ ہم سے وعدہ کیا ہے اسے ہمیں عطا کر اور روز قیامت ہمیں رسوانہ کر کیونکہ تو وعدہ کے خلاف نہیں کرتا “ ہم دیکھتے ہیں اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ خدا وند متعال وعدہ خلافی نہیں کرتا اور مو منین کو دیا گیا وعدہ حتماً پور کرے گا ، پھر بھی اس سے اس طرح دعا کرتے ہیں۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اھل بیت کے حق میں دعا بھی اسی طرح ہے کہ طہارت اور عصمت الہیٰ اگر چہ انھیں حاصل تھی اور آئندہ بھی یہ نعمت ان کے شامل حال رہتی، لیکن یہ دعا اس کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لئے ہے کہ باوجود اس کے کہ یہ اھل بیت (ع) اس عظمت و منزلت پر فائز ہیں لیکن ہمیشہ اپنے کو خدا کا محتاج تصور کرتے ہیں اور یہ خدا وندمتعال ہے کہ جو ہر لمحہ عظیم اور گرانقدرنعمت انھیں عطا کرتا ہے۔

اس لئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعا خواہ آیہ ء تطہیر نازل ہونے سے پہلے ہو یا اس کے بعد ، ان کی عصمت کے منافی نہیں ہے ۔

آٹھواں سوال

انبیاء علیہم السلام کی عصمت وحی کے تحقط کے لئے ہے،انبیاء کے علاوہ کیا ضرورت ہے کہ ہم کسی کی عصمت کے قائل ہو ں؟

____________________

ا۔۷۱ سورہ آل عمران/۱۹۴

۲۳۲

جواب

اول یہ کہ : ش یعہ عقیدہ کے مطابق مسئلہ امامت ، نبوت ہی کا ایک سلسلہ ہے اور یہ عہدہ نبوت کے ہم پلہ بلکہ اس سے بالاتر ہے۔(۱) امام ، مسئلہ وحی کے علاوہ بالکل وہی کردار ادا کرتا ہے جو پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم ادا کرتے تھے۔

اس لحاظ سے ش یعہ امامیہ کے نزدیک امام میں عصمت کا ہوناعقلی او ر نقلی دلیلوں کی بنیاد پر شرط ہے۔

دوسرے یہ کہ : عصمت کے لئے ملزم عقلی کا نہ ہونا اس کے عدم وجود کی دلیل نہیں بن سکتی ہے ۔ اس کی مزید وضاحت یہ ہے کہ: نبی اور امام کے لئے ، عقل لزوم عصمت کا حکم کرتی ہے اور ان کے علاوہ کسی اور کے لئے یہ حکم ثابت نہیں ہے۔ عصمت خدا کی ایک خاص نعمت ہے،خدا وندمتعال جسے چاہتا ہے اسے عطا کرتا ہے ۔ انبیاء اور ائمہ کی عصمت کے وجود پربرھان عقلی قائم ہے اور ان کے علاوہ اگر کسی کے لئے قرآن وسنت کی دلیل عصمت کو ثابت کرے تو اس پر یقین کرنا چاہئے اور آیہء تطہیر پیغمبر اسلام (ص)،ائمہ علیہم السلام اور حضرت زہراء سلام الله علیہا کی عصمت کی دلیل ہے۔

نواں سوال

حدیث ثقلین کے بارے میں صحیح(۲) مسلم کی روآیت کے مطابق پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی زید بن ارقم نے پیغمبر اکرم (ص)سے روآیت کی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ”اٴنا تارک فيکم الثقلین: کتاب الله و اهل بیتی “ زیدبن ا رقم سے سوال ہو تا ہے: آنحضرت (ص)

____________________

۱۔ اس سلسلہ میں مصنف کی کتابچہ ” امامت ، حدیث غدیر ، تقلین اور منزلت کی روشنی ہیں“ کی طرف رجوع کیا جائے

۲۔ص یح ع مسلم، کتاب فضائل،باب فضائل علی بن ابطالب-

۲۳۳

کے اہل بیت کون ہیں؟ کیا عورتیں )ازواج پیغمبر)بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت میں شامل ہیں؟جواب دیتے ہیں کہ : نہیں، سوال کرتے ہیں :پس آنحضرت کے اہل بیت کون ہیں؟جواب میں کہتے ہیں : آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت وہ لوگ ہیں جن پر صدقہ حرام ہے۔ وہ علی ،عباس ،جعفر اورعقیل کی اولاد ہیں۔ اس بات کے پیش نظر اہل بیت کو کیسے پنجتن یا چودہ معصومین(ع)میں محدودکیا جا سکتا ہے؟

جواب

اول یہ کہ: یہ حدیث پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویوں کو اہل بیت علیہم السلام کی فہرست سے خارج کرتی ہے۔

دوسرے یہ کہ :یہ حدیث بہت سے طرق سے نقل ہونے کے باوجود یزید بن حیان پراس حدیث کی سند کا سلسلہ منتہی ہوتا ہے اوریہ حدیث آیہ شریفہ اور دوسری بہت سی آحادیث کی دلالت سے مقابلہ کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے۔

تیسرے یہ کہ:بالفرض اگر اس کا صدور ثابت بھی ہو جائے تو بھی یہ ایک صحابی کا اجتہاد ہے اور یہ حجت نہیں بن سکتا۔

چوتھے یہ کہ: حدیث ثقلین بہت طریقوں سے زید بن ارقم سے نقل ہوئی ہے اور اس میں جملہء: ”ماإن تمسکتم لن تضلّوااٴبداً وإنّهمالن یفترقا حتّی یردا علیّ الحوض “ موجود ہے جو اہل بیت کی رہبری اور ان کے قرآن مجید سے لازم و ملزوم ہونے کو بیان کرتا ہے جو زیدبن ارقم کی مذکورہ تفسیر سے کسی بھی طرح سازگار نہیں ہے، کیونکہ مذکورہ تفسیر کی بنا پر خلفائے بنی عباس بھی اپنے تمام ترظلم و جرائم کے مرتکب ہونے کے باوجود اہل بیت کے زمرے میں شامل ہوجائیں گے اور یہ حدیث ثقلین کے الفاظ کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔

۲۳۴

دسواں سوال

بعض احادیث میں آیا ہے کہ جب ام سلمہ نے سوال کیا کہ : ” کیا میں بھی اہل بیت میں داخل ہوں ؟“ یا ” مجھے بھی ان کے زمرہ میں شامل کر لیجئے “ تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب دیا: ” ہاں انشاء الله“یا یوں فرمایا: ” انت من اھلی“ اس لئے نہیں کہا جاسکتا ہے کہ : اہل بیت پنجتن پاک میں منحصر ہیں؟

جواب

بیان کی گئی بہت سی حدیثوں سے کلمہ ” اہل بیت“ کی ایک خاص اصطلاح ہے جس کے مطابق صرف پنجتن پاک کا ان میں شامل ہونا اور دوسروں کی اس میں عدم شمولیت ثابت ہوتی ہے ۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ سوال میں اشارہ کی گئی احادیث میں ”اھل “ یا ”اہل بیت“سے مراد اس کے لغوی معنی ہوں گے جس میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں بھی شامل ہیں۔

ہم سوال میں اشارہ کی گئی احا دیث کے بارے میں اہل سنت کے فقہ و حدیث کے ایک امام، ابو جعفر طحاوی کے نظریہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ طحاوی ان افراد میں سے ہیں جو آیہء شریفہ تطہیر میں ” اہل بیت “ کو پنجتن پاک علیہم السلام سے مخصوص جانتے ہیں اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ازواج کو اس آیہء شریفہ سے خارج جانتے ہیں ۔ انھوں نے اپنی کتاب ”مشکل آلاثار‘(۱) ‘ میں ایک ایسی حدیث نقل کی ہے جو اس بات پردلالت کرتی ہے کہ ام سلمہ نے کہا:”مجھے ان )اہل بیت) کے ساتھ شامل کر لیجئے تو“ پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ” انت من اھلی“ ”تم میرے اہل میں سے ہو“ اس کے بعد طحاوی کہتے ہیں:

” فکان ذالک ممّا قد يجوز اٴن يکون إرادة اٴ نّها من اٴهله، لاٴنّها من

____________________

۱۔مشکل الاثار،ج۱،ص۳۳۳۔۳۳۲

۲۳۵

اٴزواجه و ازواجه اهله“

ممکن ہے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مقصد یہ ہو کہ ام سلمہ آپ کی بیویوں میں سے ایک ہے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں آپ کے اہل ہیں۔

اس کے بعد طحاوی اس سلسلہ میں شاہد کے طور پر آٹھ حدیثیں نقل کرتے ہیں جو اس بات پر دلا لت کر تی ہیں کہ ام سلمہ آیہء تطہیر میں ” اہل بیت“ میں سے نہیں ہیں۔وہ مزید لکھتے ہیں :

” فدلّ ماروینا فی هذه الآثار ممّا کان رسول الله ( ص ) إلی اُمّ سلمة، ممّا ذکر نا فیهالم یرداٴنهاکانت ممّااُریدبه ممّافی الآیة المتلوة فی هذاالباب،واٴن المراد بما فیهاهم رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و علیّ و فاطمة والحسن والحسین دون ماسواهم“ (۱)

یہ حدیثیں دلالت کرتی ہیں کہ ام سلمہ ان اہل بیت میں سے نہیں ہیں کہ جن کی طرف آیہ ء تطہیر اشارہ کرتی ہے ۔اورآیہ ء تطہیر میں موجود ” اہل بیت “ سے مراد صرف رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، علی وفاطمہ،حسن و حسین)علیہم السلام) ہیں۔

طحاوی کی نظر میں ایک اوراحتمال یہ ہے کہ ”انت اھلی“ کا مقصد یہ ہے کہ تم میرے دین کی پیروی کرنے کی وجہ سے میرے اہل میں شمار ہوتی ہو، کیونکہ حضرت نوح علیہ السلام کی داستان میں ان کا بےٹا ان کی اہل سے خارج ہے اور اس کے بارے میں کہا گیا :إنّه ليس من اٴهلک إنّه عمل غیر صالح (۲) اس سے استفادہ کیاجاسکتا ہے کہ جو صاحب )ایمان اور) عمل صالح ہیںوہ ان کے اہل ہیں۔

____________________

۱۔ مشکل ا لآثار، ج۱،ص۳۳۶

۲۔ سورئہ ہود/۴۶

۲۳۶

طحاوی نے اس احتمال کو واثلہ کی حدیث بیان کرنے کے بعد پیش کیا ہے۔ واثلہ بھی ان صحابیوں میں سے ایک ہے، جس نے حدیث کساء کی روآیت کی ہے۔وہ اپنی روآیت میں پنجتن پاک کے کساء کے نیچے جمع ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیان کو نقل کرتا ہے کہ آپ نے فرمایا: ”اٴللّهم هولاء اهل بیتی واهل بیتی احق “ اس کے بعد کہتا ہے:میں نے کہا : یا رسول الله کیا میں بھی آپ کے اہل بیت میں شامل ہوں ؟ فرمایا: ” تم میرے اہل سے ہو“۔

طحاوی اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں:

” واثلہ کا ربط، ام سلمہ کی بہ نسبت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بہت دور کا ہے۔کیونکہ واثلہ )پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر کا ایک خادم ہے )بنی لیث کا ایک شخص ہے اور قریش میں شمار نہیں ہوتا ہے اور ام سلمہ ) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیوی ) قریش سے ہیں۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت (ص)واثلہ سے فرماتے ہیں : ” تم میرے اہل میں سے ہو“ لہذا اس کے یہ معنی ہیں کہ تم میرے دین کی پیروی کرنے کی خاطر اور مجھ سے ایمان رکھنے کے سبب ہم اھل بیت کے زمرہ میں داخل ہو۔

بیہقی نے بھی ” السنن الکبریٰ “(۱) میں واثلہ کی حدیث کو نقل کیا ہے اور کہاہے:

” وکانّه جعل فی حکم الاٴهل، تشبیها بمن يسحق هذاالابسم لا تحقيقاً“

”گویا اس حدیث میں واثلہ کو تشبیہ کے لحاظ سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل کے حکم میں قرار دیاگیا ہے نہ اس لئے کہ وہ حقیقی طور پر اہل بیت کا مصداق تھا۔“

اس لئے بہت سی حدیثیں کہ جو اہل بیت کے دائرہ کو منحصر کرنے کے سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔

____________________

۱-السنن الکبریٰ ، ج۲،ص۵۲،دارالمعرفة،بیروت

۲۳۷

گیارہواں سوال

آیہء( إنّما یرید الله ) اس آیت کے مانند ہے:( مایریدالله ليجعل عليکم من حرج ولکن یرید ليطهّرکم ولیتمّ نعمتة عليکم ) (۱) یعنی: ” خدا تمھارے لئے کسی طرح کی زحمت نہیں چاہتا ، بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمھیں پاک و پاکیزہ بنادے اور تم پر اپنی نعمت کو تمام کردے “اور اسی طرح آیہء( إنّما یرید الله ) اس آیت کے مانند ہے:( ليطهّرکم ويذهب عنکم رجز الشيطان ) (۲) یعنی ” تاکہ تمھیں پاکیزہ بنادے اور تم سے شیطان کی کثافت کو دور کردے “

اگر آیہء تطہیر عصمت پر دلالت کرتی ہے تو مذکورہ دو آیتوں کی بناپرہمیں بہت سارے اصحاب کی عصمت کے قائل ہونا چائیے۔

جواب

پہلافقرہ وہ ہے جو وضو کی آیت کے آخر میں آیا ہے۔ آیہ شریفہ یوں ہے:

( یا إیهاالّذین آمنواإذا قمتم إلی الصلوٰة فاغسلوا وجوهکم و اٴ یديکم إلی المرافق و اٴمسحوا برء وسکم و اٴرجلکم إلی الکعبین وإن کنتم جنباً فاطهّروا فتیمموا صعیداً طیباً فاٴمسحوا بو جوهکم واٴیديکم منه مایرید الله ليجعل عليکم من حرج ولکن یرید ليطهِّرکم و لیتم نعمته عليکم لولعلکم تشکرون ) (۳)

____________________

۱۔ سورہ مائدہ/۶

۲۔سورہ انفال/۱۱

۳۔ سورئہ مائدہ/۶

۲۳۸

اس آیہء کریمہ میں خدا وند متعال وضو، غسل اور تیمم کا حکم بیان کرنے کے بعد فرما تا ہے: ”خدا وندمتعال ) ان احکام کی تشر یع سے ) تمھارے لئے کسی طرح کی زحمت نہیں چاہتا ہے، بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمھیں )وضویا غسل یا تیمم سے ) پاک و پاکیزہ بنادے“۔ یہ حدث پاک کرنا ہے جو وضو یا غسل یا تیمم سے حاصل ہوتاہے ، اور اس کا آیہ ء تطہیر کی مطلق طہارت تکوینی سے کوئی ربط نہیں ہے۔

دوسری آیت میں بھی ”رجز اللشیطان “یعنی شیطان کی نجاست سے مرا دوہ جنابت ہے جس سے جنگ بدر میں مسلمان دو چار ہوئے تھے اور خدا وندمتعال نے ان کے لئے بارش نازل کی اور انہوں نے بارش کے پانی سے غسل کیا اوراپنے جنابت کے حدث کو غسل سے برطرف کیا۔ اس آیت میں ایک خاص طہارت بیان کی گئی ہے اور اس طہارت کا تعلق ان صحابہ سے ہے جو جنگ بدر میں موجود تھے اور جنھوں نے بارش کے پانی سے غسل کرکے یہ طہارت حاصل کی تھی لہذا آیہ تطہیر سے استفادہ ہونے والی مطلق تکوینی طہارت سے اس کا کو ئی ربط نہیں ہے۔

۲۳۹

ساتواں باب :

امامت آیہ ” علم الکتاب“ کی روشنی میں

( و یقول الّذین کفرو الست مرسلاً قل کفی بالله شهیداً بینی و بینکم ومن عنده علم الکتاب )

سورہ رعد/ ۴۳

” اور یہ کافر کہتے ہیں کہ آپ رسول نہیں ہیں تو کہدےجئے کہ ہمارے اور تمھارے درمیان رسالت کی گواہی کے لئے خدا کافی ہے اور وہ شخص کافی ہے جس کے پاس پوری کتاب کا علم ہے۔“

یہ آیہ شریفہ ان آیتوں میں سے ہے جن میں امیرالمئومنین حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں ایک بڑی فضیلت بلکہ احتجاج(۱) کی روآیت کے مطابق سب سے بڑی فضیلت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس لئے مناسب ہے اس کے معنی میں مزید غور وخوض کیا جائے۔

اس آیت میں پہلے کفار کی طرف سے پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا انکار بیان کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے دو گواہ ذکر کئے گئے ہیں ایک خدا وند عالم کی ذات اور دوسرے وہ کہ جس کے پاس کتاب کا علم ہے۔

آیت کی دلالت کو واضح کرنے کے لئے ضروری ہے کہ بحث کو درج ذیل دو محوروں پر جاری رکھا جا ئے

۱ ۔ خداوندمتعال کی گواہی کس طرح سے ہے؟

۲ ۔من عندہ علم الکتابسے مراد کون ہے؟

____________________

۱-مصباح الھدایة،ص ۴۳

۲۴۰

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' اپنی زبان کو قابو اور اس کی حفاظت کر یہ نفس کے لئے بہترین ہدیہ ہے_ انسان صحیح اور حقیقی ایمان تک نہیں پہنچتا مگر یہ کہ وہ اپنی زبان کی نگاہ داری اور حفاظت کرے_(۴۲۱)

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' تین چیزیں فہم اور فقہ کی علامت ہیں تحمل اور بردباری _ علم اور سکوت_ ساکت رہنا دانائی کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے_ ساکت رہنا محبت کا سبب ہوتا ہے اور ہر نیکی کی دلیل ہے_(۴۲۲)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' جب عقل کامل ہوتی ہے تو گفتگو ہو جاتی ہے_(۴۲۳)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے ''کوئی بھی عبادت ساکت رہنے اور خانہ کعبہ کی طرف پیدل جانے سے افضل نہیں ہے_(۴۲۴)

رسول خدا نے جناب ابوذر سے فرمایا کہ '' میں تجھے زیادہ ساکت رہنے کی سفارش کرتا ہوں اس واسطے کہ اس وسیلے سے شیطن تم سے دور ہوجائے گا_ دین کی حفاظت کے لئے ساکت رہنا بہتر مددگار ہے_(۴۲۵)

خلاصہ انسان سالک اور عارف پر ضروری ہے کہ وہ اپنی زبان پر پوری طرح کنٹرول کرے اور سنجیدہ اور سوچ سمجھ کر بات کرے اور زیادہ اور بیہودہ باتیں کرنے سے پرہیز کرے دنیاوی امور میں ضرورت کے مطابق باتیں کرے جو اسے زندگی کرنے کے لئے ضروری ہیں اور اس کے عوض اللہ تعالی کا ذکر اور ورد اور علمی مطالب اور فائدہ مند اور اجتماع کے لئے مفید گفتگو کرنے میں مشغول رہے _ ہمارے بزرگاور عارف ربانی استاد علامہ طباطبائی فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ساکت رہنے کے گراں قدر آثار مشاہدہ کئے ہیں_ چالیس شب و روز ساکت رہنے کو اختیار کیجئے اور سوائے ضروری کاموں کے باتیں نہ کریں اور فکر اور ذکر خدا میں مشغول رہیں تا کہ تمہارے لئے نورانیت اور صفاء قلب حاصل ہو سکے_

۲۴۱

چھٹی رکاوٹ

اپنی ذات اور اپنے اپ سے محبت ہے اگر عارف انسان نے تمام رکاوٹیں دور کر لی ہوں تو پھر اس کے سامنے ایک بڑی رکاوٹ سامنے آتی ہے اور وہ ہے اس کا جب ذات یعنی اپنی ذات سے محبت کرنا_ وہ متوجہ ہوگا کہ اس کے تمام کام اور حرکات یہاں تک کہ اس کی عبادت و غیرہ کرنا سب کے سب اپنی ذات کی محبت کیوجہ سے انجام پارہے ہیں_ عبادت ریاضت ذکر اور دعا نماز اور روزے اس لئے انجام دے رہا ہے تا کہ اپنے نفس کو کامل کرے اور اسے ان کی اجزاء آخرت میں دی جائے گرچہ اس طرح کی عبادت کرنا بھی انسان کو بہشت اور آخرت کے ثواب تک پہنچا دیتی ہے لیکن وہ ذکر اور شہود کے بلند و بالا مقام اور رتبہ تک نہیں پہنچاتی جب تک اس کا نفس حب ذات کو ترک نہ کرے اور وہ اللہ تعالی کے بے مثال جمال کا مشاہدہ نہیں کر سکے گا جب تک تمام حجاب اور موانع یہاں تک کہ حب ذات کا حجاب اور مانع بھی ترک نہ کرے اس صورت میں وہ انوار الہی کا مرکز بننے کی قابلیت اور استعداد پیدا نہیں کر سکے گا_ لہذا عارف اور سالک انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ریاضت اور مجاہدہ کر کے اپنے آپ کو حب ذات کی حدود سے باہر نکالے اپنی ذات کی محبت کو خدا کی محبت میں تبدیل کر دے اور تمام کاموں کو صرف اور صرف اللہ تعالی کی رضا کے لئے بجا لائے اگر غذا کھاتا ہے تو اس غرض سے کھائے کہ اس کے محبوب نے زندہ رہنے کے لئے اسے ضروری قرار دیا ہے اور اگر عبادت کرتا ہے تو اسے اس نیت سے بجالائے کہ ذات الہی ہی عبادت اور پرستش کی سزاوار اور مستحق ہے_ اس طرح کا انسان نہ دینا کا طلب کرنے والا ہوتا ہے اور نہ آخرت کا بلکہ وہ صرف خدا کا طلب کرنے والا ہوتا ہے_ یہاں تک کہ وہ کشف اور کرامت کا طلبکار بھی نہیں ہوتا اور سوائے حقیقی معبود کے اس کا کوئی اور مطلوب اورمنظور نظر نہیں ہوتا_ اگر کوئی اس مرحلے کو طے کر لے یہاں تک کہ اپنی شخصیت اور ذات کو اپنے آپ سے جدا کردے تو وہ مقام توحید میں

۲۴۲

قدم رکھ لے گا اور شہود اور لقاء اللہ کے بلند اور بالا مقام تک ترقی کر جائیگا اور بارگاہ مقعد صدق عند ملیک مقتدر میں نازل ہوجائیگا_

ساتویں رکاوٹ

کمال اور عرفان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ اور شاید یہ سابقہ تمام رکاوٹوں سے بھی زیادہ ہو وہ ہے ارادہ کا ضعیف ہونا_ اور حتمی فیصلے کرنے کی قدرت نہ رکھنا _ یہ رکاوٹ اور مانع انسان کو عمل شروع کرنے سے روک دیتی ہے_ شیطن اور نفس کرتا ہے کہ انسان کو ظاہر ی ذمہ داری اور وظائف شرعی کی بجالانے کو کافی قرار دے گرچہ اس میں حضور قلب اور توجہہ نہ بھی ہو_ شیطن انسان کو کہتا ہے کہ تو صرف انہیں عبادت کے بجالانے کے سوا اور کوئی شرعی وظیفہ نہیں رکھتا تجھے حضور قلب اور توجہہ اور ذکر سے کیا کام ہے؟ اور اگر کبھی انسان اس کی فکر کرنے بھی لگے تو اسے سینکٹروں حیلے اور بہانوں سے روک دیتا ہے اور کبھی اس مطلب کو اس کرے لئے اتنا سخت نمایاں کرتا ہے کہ انسان اس سے مایوس اور نامید ہوجاتا ہے لیکن اس انسان کے لئے جو کمال حاصل کرنے کا ارادہ کرتا ہے ضروری ہے کہ وہ شیطن اور نفس امارہ کے ایسے وسوسوں کے سامنے رکاوٹ بنے اور احادیث اور آیات اور اخلاق کی کتابوں کے مطالعے کرنے سے معلوک کرے کہ سیر اور سلوک کے لئے حضور قلب اور ذکر و شہود کی کتنی ضرورت اور اہمیت ہے اور جب اس نے اس کی اہمیت کو معلوم کر لیا اور اپنی ابدی سعادت کو اس میں دیکھ لیا تو پھر حتمی طور سے اس پر عمل کرے گا اور مایوسی اور ناامیدی کو اپنے سے دور کردے گا اور اپنے آپ سے کہے گا کہ یہ کام گرچہ مشکل ہے اور چونکہ اخروی سعادت اس سے وابستہ ہے لہذا ضرور مجھے اس پر عمل کرنا چاہئے_ اللہ تعالی فرماتا ہے جو ہمارے راستے

۲۴۳

میں کوشش اور جہاد کرتے ہیں ہم اس کو اپنے راستوں کی راہنمائی کر دیتے ہی_

و الذین جاهدوا فینا لنهدینهم سبلنا (۴۲۶)

ہماری یہ ساری بحث اور کلام تکامل اور تقرب الہی کے پہلے وسیلے اور ذریعے میں تھی یعنی اللہ تعالی کے ذکر میں تھی _ بحث کی طوالت پر ہم معذرت خواہ ہیں_

۲۴۴

دوسرا وسیلہ

فضائل اور مکارم اخلاق کی تربیت

نفس کے کمال تک پہنچنےاور قرب الہی کے حاصل کرنے کے لئے ایک وسیلہ ان اخلاقی کی جو انسان کی فطرت اور سرشت میں رکھ دیئے گئے ہیں پرورش اور تربیت کرنا ہے_ اچھے اخلاق ایسے گران بہا امور ہیں کہ جن کا ربط اور سنخیت انسان کے ملکوتی روح سے ہے ان کی تربیت اور پرورش سے انسان کی روح کامل سے کاملتر ہو جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے بلند و بالا مقام قرب تک پہنچتا ہے_ اللہ تعالی کی مقدس ذات تمام کمالات کا منبع اور سرچشمہ ہے_ انسان چونکہ عالم بالا سے تعلق رکھتا ہے وہ اپنی پاک فطرت سے کمالات انسانی کو کہ جن کی عالم بالا سے مناسبت ہے انہیں خوب پہچانتا ہے اور فطرتا ان کی طرف مائل ہے اسی لئے تمام انسان تمام زمانوں میں نیک اخلاق کو جانتے اور درک کرتے ہیں جیسے عدالت_ ایثار_ سچائی_ امانتداری _ احسان _ نیکی_ شجاعت_ صبر اور استقامت علم خیر خواہی مظلوموں کی مدد شکریہ احسان شناسی سخاوت اور بخشش_ وفا

۲۴۵

عہد_ توکل_ تواضع اور فروتنی_ عفو اور درگزر_ نرمی مزاجی _ خدمت خلق و غیرہ ان تمام کو ہر انسان خوب پہچانتے اور جانتے ہیں خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتاہے_ کہ قسم نفس کی اور اس کی کہ اسے نیک اور معتدل بنایا ہے اور تقوی اور منحرف ہوجانے کا راستہ اسے بتلایا ہے کامیاب وہ ہوا جس نے اپنے نفس کو پاک بنایا اور نقصان میں ہوگا وہ کہ جس نے اپنے نفس کو آلودہ اور ناپاک بنایا_(۴۳۷)

جب اخلاقی کام بار بار انجام دیئے جائیں تو وہ نفس میں راسخ اور ایک قسم کا ملکہ پیدا کر لیتے ہیں وہی انسان کو انسان بنانے اور اپنا نے اور ہوجانے میں موثر اور اثر انداز ہوتے ہیں اسی واسطے اسلام اخلاق کے بارے میں ایک خاص طرح کی اہمیت قرار دیتا ہے_ اسلام کا ایک بہت بڑا حصہ اخلاقیات پر مشتمل ہے_ سینکٹروں آیات اور روایات اخلاق کے بارے میں وارد ہوئی ہیں_ قرآن مجید کی زیادہ آیتیں اخلاق کے بارے میں اور اخلاقی احکام پر مشتمل ہیں یہاں تک کہ اکثر قرآن کے قصوں سے غرض اور غایت بھی اخلاقی احکام امور ہیں اور کہا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید ایک اخلاقی کتاب ہے _ قاعدتا پیغمبروں کے بھیجنے کی ایک بہت بڑی غرض اور غایت بھی نفس کو پاک اور صاف بنانا اور اخلاق کی اور پرورش کرنا ہے_ ہمارے پیغمبر علیہ السلام نے بھی اپنی بعثت اور بھیجے جانے کی غرص اخلاق کی تکمیل کرنا اور نیک اخلاق کی تربیت کرنا بتلائی ہے اور فرمایا ہے کہ '' میں اللہ تعالی کی طرف سے بھیجا گیا ہوں تا کہ نیک اخلاق کو پورا اور تمام کروں_(۴۲۸)

پیغمبر اسلام لوگوں سے فرماتے تھے کہ '' میں نیک اخلاق کی تمہیں نصیحت اور وصیت کرتا ہوں کیونکہ خداوند عالم نے مجھے اسی غرض کے لئے بھیجا ہے_(۴۲۹)

نیز پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن اعمال کے ترازو میں اخلاق حسنہ سے کوئی چیز افضل ہو نہیں رکھی جائیگی_(۴۳۰)

۲۴۶

تیسرا وسیلہ

عمل صالح

قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کے بعد انسان کے تکامل کا وسیلہ اعمال صالح ہیں کہ جن کی وجہ سے انسان قرب خدا اور درجات عالیہ کو حاصل کر سکتا ہے اور اپنی اخروی زندگی کو پاک و پاکیزہ بنا سکتا ہے_ قرآن مجید میں ہے کہ '' جو شخص نیک اعمال بجا لائے خواہ مرد ہو یا عورت جب کہ ایمان رکھتا ہو ہم اس کو ایک پاکیزہ میں اٹھائیں گے اور اسے اس عمل سے کہ جسے وہ بجا لایا ہے_ بہتر جزاء اور ثواب دیں گے_(۴۳۱)

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے لئے دنیا کی زندگی کے علاوہ ایک اور پاک و پاکیزہ زندگی ہے اور وہ نئی زندگی اس کے ایمان اور عمل صالح کے نتیجے میں وجود میں آتی ہے_ قرآن فرماتا ہے کہ '' جو لوگ ایمان اور عمل صالح کے ساتھ خداوند عالم کی طرف لوٹیں یہی وہ لوگ ہیں جو مقامات اور درجات عالیہ پر فائز ہوتے ہیں_(۴۳۲)

خداوند عالم فرماتا ہے کہ '' جو انسان اللہ تعالی کی ملاقات کی امید رکھتا ہے اسے نیک عمل بجالانا چاہئے اور عبادت میں خدا کا کوئی شریک قرار نہ دینا چاہئے_(۴۳۳)

نیز اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جو شخص عزت کا طلبکار ہے تو تمام عزت اللہ تعالی کے

۲۴۷

پاس ہے کلمہ طیبہ اور نیک عمل اللہ تعالی کی طرف جاتا ہے_(۴۳۴)

اللہ تعالی اس آیت میں فرماتا ہے کہ تمام عزت اور قدرت اللہ کے لئے مخصوص ہے اسی کے پاس ہے اور کلمہ طیبہ یعنی موحد انسان کی پاک روح اور توحید کا پاک عقیدہ ذات الہی کی طرف جاتا ہے اور اللہ تعالی نیک عمل کو اپنے پاس لے جاتا ہے_ نیک عمل جب خلوص نیت سے ہو تو انسان کی روح پر اثر انداز ہوتا ہے اور اسے ترقی اور کمال دیتا ہے_ قرآن مجید سے معلوم ہوتاہے کہ آخرت کی پاک و پاکیزہ زندگی اور اللہ تعالی سے قرب اور القاء کا مرتبہ ایمان اور عمل صالح کے ذریعے حاصل ہوتا ہے_ قرآن مجید نے نیک اعمال کے بجا لانے پر بہت زیادہ زور دیا ہے خدا سعادت اور نجات کا وسیلہ صرف عمل صالح کو جانتا ہے نیک عمل کا معیار اور میزان اس کا شریعت اور وحی الہی کے مطابق ہونا ہوا کرتا ہے_ خداوند عالم جو انسان کی خصوصی غرض سے واقف ہے اس کی سعادت اور تکامل کے طریقوں کو بھی جانتا ہے اور ان طریقوں کو وحی کے ذریعے پیغمبر اسلام کے سپرد کر دیا ہے تا کہ آپ انہیں لوگوں تک پہنچا دیں اور لوگ ان سے استفادہ حاصل کریں_

خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ '' جو لوگ ایمان لے آئے ہیں جب خدا اور اس کا رسول تمہیں کسی چیز کی طرف بلائیں جو تمہیں زندگی عطا کرتی ہیں تو اسے قبول کرو_(۴۳۵)

نیک اعمال شرعیت اسلام میں واجب اور مستحب ہوا کرتے ہیں_ عارف اور سالک انسان ان کے بجالانے سے اللہ تعالی کی طرف سیر و سلوک کرتے ہوئے قرب الہی کے مقام تک پہنچ سکتا ہے اور یہی تنہا قرب الہی تک پہنچنے کا راستہ ہے اور دوسرے جتنے راستے ہیں وہ عارف کو اس مقصد تک نہیں پہنچا سکتے بلکہ وہ ٹیڑھے راستے ہیں_ عارف انسان کو مکمل طور سے شرعیت کا مطیع اور فرمانبردار ہونا چاہئے اور سیر و سلوک کے لیے شرعیت کے راستے کے علاوہ اور کوئی راستہ اختیار نہیں کرنا چاہئے اور ان اذکار اور اوراد اور حرکت سے کہ جس کا شرعیت اسلام میں کوئی مدرک اور

۲۴۸

ذکر موجود نہ ہو اس سے اجتناب اور پرہیز کرنا چاہئے نہ صرف وہ مقصد تک نہیں پہنچاتے بلکہ وہ اس کو مقصد سے دور بھی کر دیتے ہیں کیونکہ شرعیت سے تجاوز کرنا بدعت ہوا کرتا ہے_ عارف اور سالک انسان کو پہلے کوشش کرنی جاہئے کہ وہ واجبات اور فرائض دینی کو صحیح اور شرعیت کے مطابق بجالائے کیونکہ فرائض اور واجبات کے ترک کردینے سے مقامات عالیہ تک نہیں پہنچ سکتا گرچہ وہ مستحبات کے بجالائے اور ورد اور ذکر کرنے میں کوشاں بھی رہے_ دوسرے مرحلے میں مستحبات اور ذکر اور ورد کی نوبت آتی ہے_ عارف انسان اس مرحلے میں اپنے مزاجی استعداد اور طاقت سے مستحبات کے کاموں کا بجا لائے اور جتنی اس میں زیادہ کوشش کرے گا اتنا ہی عالی مقامات اور رتبے تک جا پہنچے گا_ مستحبات بھی فضیلت کے لحاظ سے ایک درجے میں نہیں ہوتے بلکہ ان میں بعض دوسرے بعض سے افضل ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں بہتر اور جلدی مقام قرب تک پہنچاتے ہیں جیسے احادیث کی کتابوں میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے_ عارف انسان نمازیں دعائیں ذکر اور اوراد کتابوں سے انتخاب کرے اور اس کو ہمیشہ بجا لاتا رہے جتنا زیادہ اور بہتر بجا لائیگا اتنا صفا اور نورانیت بہتر پیدا کرے گا اور مقامات عالیہ کی طرف صعود اور ترقی کرے گا ہم یہاں کچھ اعمال صالح کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور باقی کو کتابوں کی طرف مراجعہ کرنے کا کہتے ہیں لیکن اس کا ذکر کر دینا ضروری ہے کہ فرائض اور نوافل ذکر اور ورد اس صورت میں عمل صالح ار موجب قرب ہونگے جب انہیں بطور اخلاص بجا لایا جائے_ عمل کا صالح اور نیک اور موجب قرب ہونا اخلاص اور خلوص کی مقدار کے لحاظ سے ہوگا لہذا پہلے ہم اخلاص اور خلوص میں بحث کرتے ہیں پھر کچھ تعداد اعمال صالح کی طرف اشارہ کریںگے_

اخلاص

اخلاص کا مقام اور مرتبہ تکامل اور سیر و سلوک کے اعلی ترین مرتبے میں سے ایک ہے اور خلوص کی کی وجہ سے انسان کی روح اور دل انوار الہی کا مرکز بن جاتا ہے

۲۴۹

اور اس کی زبان سے علم اور حکمت جاری ہوتے ہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص خدا کے لئے چالیس دن خالص اور فارغ ہوجائے تو اس کے دل سے حکمت اور دانائی کے چشمے ابلتے اور جاری ہوجاتے ہیں_(۴۳۶)

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' کہاں ہیں وہ لوگ جو اپنے اعمال کو خدا کے لئے خالص بجالاتے ہیں اور اپنے دلوں کو اس لئے کہ اللہ تعالی کی وجہ کا مرکز پاک رکھتے ہیں_(۴۳۷)

حضرت زہراء علیہا السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص خالص عبادت اللہ تعالی کی طرف بھیجے اللہ تعالی بھی بہترین مصلحت اس پر نازل فرماتا ہے_(۴۳۸)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے '' بندوں کا پاک دل اللہ تعالی کی نگاہ کا مرکز ہوتا ہے جس شخص نے دل کو پاک کیا وہ اللہ تعالی کا مورد نظر قرار پائیگا_(۴۳۹)

پیغمبر علیہ السلام نے جبرائیل علیہ السلام سے نقل کیا ہے اور اس نے اللہ تعالی سے نقل کیا ہے کہ '' خلوص اور اخلاص میرے رازوں میں سے ایک راز ہے کہ جس شخص کو میں دوست رکھتا ہوں اس کے دل میں یہ قرار دے دیتا ہوں_(۴۴۰)

خلوص کے کئی مراتب اور درجات ہیں_ کم از کم اس کا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی عبادت کو شرک اور ریاء اور خودنمائی سے پاک اور خالص کرے اور عبادت کو صرف خدا کے لئے انجام دے خلوص کی اتنی مقدار تو عبادت کے صحیح ہونے کی شرط ہے اس کے بغیر تو تقرب ہی حاصل نہیں ہوتا عمل کی قیمت اور ارزش اس کے شرک اور ریاء سے پاک اور خالص ہونے پر موقوف ہے_ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' خداوند عالم تمہاری شکل اور عمل کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے_(۴۴۱)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں بہترین شریک ہوں جو شخص کسی دوسرے کو عمل میں شریک قرار دے (تو تمام عمل کو اسی

۲۵۰

کے سپرد کر دیتا ہوں) میں سوائے خالص عمل کے قبول نہیں کرتا _(۴۴۲) امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خداوند عالم لوگوں کو قیامت میں ان کی نیت کے مطابق محشور کرے گا_(۴۴۳)

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' خوش نصیب ہے وہ شخص جو عبادت اور دعا کو صرف خدا کے لئے انجام دیتا ہے اور اپنی آنکھوں کو ان میں مشغول نہ کرے جو آنکھوں سے دیکھتا ہے اور اس کی وجہ سے جو اس سے کان پر پڑتا ہے اللہ تعالی کے ذکر کو فراموش نہ کرے اور جو چیزیں دوسروں کو دی گئی ہیں ان پر غمگین نہ ہو_(۴۴۴)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے_ ''عمل میں خلوص سعادت کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے_(۴۴۵) اللہ تعالی کے ہاں وہ عبادت قبول ہوتی ہے اور موجب قرب اور کمال ہوتی ہے جو ہر قسم کے ریاء اور خودپسندی اور خودنمائی سے پاک اور خالص ہو اور صرف اور صرف خدا کے لئے انجام دی جائے عمل کی قبولیت اور ارزش کا معیار خلوص اور اخلاص ہے جتنا خلوص زیادہ ہوگا اتناہی عمل کامل تر اور قیمتی ہوگا_ عبادت کرنے والے کئی طرح کے ہوتے ہیں_

ایک وہ لوگ جو اللہ تعالی کے عذاب اور جہنم کی آگ کے خوف اور ڈر سے عبادت بجا لاتے ہیں_

دوسرے وہ لوگ ہیں جو بہشت کی نعمتوں اور آخرت کے ثواب کے لئے اوامر اور نواہی کی اطاعت کرتے ہیں ان کا اس طرح کا عمل اس کے صحیح واقع ہونے کے لئے تو مضر نہیں ہوتا ان کا ایسا عمل صحیح اور درست ہے اور موجب قرب اور ثواب بھی ہے کیونکہ قرآن مجید اور احادیث میں لوگوں کو راہ حق کی ہدایت اور ارشاد اور تبلیغ کے لئے غالبا انہیں دو طریقوں سے استفادہ کیا گیا ہے بالخصوص پیغمبر علیہ السلام اور ائمہ اطہار اور اولیاء اللہ خداوند عالم کے عذاب سے ڈرتے تھے اور جزع اور فزع کیا کرتے تھے اور بہشت اور اس کی نعمتوں کے لئے شوق اور امید کا اظہار کیا کرتے تھے_

۲۵۱

تیسرے وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالی کی نعمتوں کے شکرانہ کے لئے اللہ تعالی کی پرستش اور عبادت کیا کرتے ہیں اس طرح کا عمل بجا لانا اسکے منافی نہیں جو عمل کے قبول ہونے میں خلوص شرط ہے اسی واسطے احادیث میں لوگوں کو عمل بجالانے کی ترغیب اور شوق دلانے میں اللہ تعالی کی نعمتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے تا کہ ان کی وجہ سے اللہ تعالی کے احکام کی اطاعت کریں بلکہ خود پیغمبر علیہ السلام اور ائمہ اطہار نے عبادت میں انہماک اور کوشش کرنے کا سبب یہ بتلایا ہے کہ کیا ہم اللہ کے شکر گزار بندے قرار نہ پائیں(افلا اکون عبدا شکورا)گر چہ ان تینوں کے اعمال قابل قبول واقع ہوتے ہیں لیکن تیسرے قسم کے لوگ ایک خاص امتیاز اور قیمت رکھتے ہیں کیونکہ ان میں خلوص زیادہ ہوتا ہے_ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں وہ تین قسم کے ہوتے ہیں ایک قسم وہ ہے جو آخرت کے ثواب حاصل کرنے کے لئے خدا کی عبادت کرتے ہیں_ ان لوگوں کا کردار تاجروں والا ہے دوسری قسم وہ ہے جو جہنم کے خوف سے اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں یہ اطاعت اور عبادت غلاموں اور نوکر والی ہے_ تیسری قسم وہ ہے جو اللہ تعالی کی نعمتوں کے شکرانے کے ادا کرنے کے لئے عبادت کرتے ہیں یہ عبادت آزاد مردوں والی عبادت ہے_(۴۴۶)

چوتھی قسم ان لوگوں کی ہے جو نفس کی تکمیل اور روح کی تربیت کے لئے عبادت کرتے ہیں اس طرح کا م قصد بھی اس خلوص کو جو عبادت کے صحیح ہونے میں شرط ضرر نہیں پہنچاتا_

پانچویں قسم اللہ کے ان ممتاز اور مخصوص بندوں کی ہے کہ جنہوں نے خدا کو اچھی طرح پہنچان لیا ہے اور جانتے ہیں کہ تمام کمالات اور نیکیوں کا منع اور سرچشمہ خدا ہے اس کی عبادت کرتا ہے اور چونکہ وہ اللہ کی بے انتہا قدرت اور عظمت کی طرف متوجہ ہیں اور اس ذات کے سوا کسی اور کو موثر نہیں دیکھتے صرف اسی ذات کو پرستش اور عبادت کے لائق سمجھتے ہیں اسی لئے خدا کو دوست رکھتے ہیں اور اس کی قدرت اور

۲۵۲

عظمت کے سامنے خضوع اور خشوع کرتے ہیں اور یہ اخلاص اور خلوص کا اعلی ترین درجہ اور مرتبہ ہے_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ عبادت کرنے والے تین گروہ ہیں_ ایک گروہ ثواب کی امید میں عبادت کرتا ہے یہ عبادت حریص لوگوں کی ہے کہ جن کی غرض طمع ہوتا ہے دوسرا گروہ وہ ہے جو دوزخ کے ڈر سے عبادت کرتا ہے_ یہ عبادت غلاموں کی عبادت ہے کہ خوف اس کا سبب بنتا ہے لیکن میں چونکہ خدا کو دوست رکھتا ہوں اسی لئے اس کی پرستش اور عبادت کرتا ہوں یہ عبادت بزرگوں اور اشراف لوگوں کی ہے اس کا سبب اطمینان اور امن ہے اللہ تعالی فرماتا ہے (و ہم فزع یومئسذ امنون کہ وہ قیامت کے دن امن میں ہیں_ نیز اللہ فرماتا ہے ''قل ان کنتم تحبون الله فاتبعونی یحببکم الله و یغفر لکم ذنوبکم _(۴۴۷) امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' اے میرے مالک_ میں تیری عبادت نہ دوزخ کے خوف سے اور نہ بہشت کے طمع میں کرتا ہے بلکہ میں تیری عبادت اس لئے کرتا ہوں کے تجھے عبادت اور پرستش کے لائق جانتا ہوں_(۴۴۸)

یہ تمام گروہ مخلص ہیں اور ان کی عبادت قبول واقع ہوگی لیکن خلوص اور اخلاص کے لحاظ سے ایک مرتبے میں نہیں ہیں بلکہ ان میں کامل اور کاملتر موجود ہیں پانچویں قسم اعلی ترین درجہ پر فائز ہے لیکن یہ واضح رہے کہ جو عبادت کے اعلی مرتبہ پر ہیں وہ نچلے درجہ کو بھی رکھتے ہیں اور اس کے فاقد نہیں ہوتے بلکہ نچلے درجے کے ساتھ اعلی درجے کو بھی رکھتے ہیں_ اللہ تعالی کے مخلص اور صدیقین بندے بھی اللہ تعالی سے ڈرتے ہیں اور ان کے لطف اور کرم کی امید رکھتے ہیں اللہ تعالی کی نعمتوں کے سامنے شکر ادا کرتے ہیں اور معنوی تقرب اور قرب کے طالب ہوتے ہیں لیکن ان کی عبادت کا سبب فقط یہی نہیں ہوتا اور چونکہ وہ خدا کی سب سے اعلی ترین معرفت رکھتے ہیں اسی لئے اس کی عبادت اور پرستش کرتے ہیں یہ اللہ تعالی کے ممتاز اور منتخب بندے ہیں مقامات عالیہ کے علاوہ نچلے سارے درجات رکھتے ہیں کیونکہ جو انسان تکامل

۲۵۳

کے لئے سیر و سلوک کرتا ہے جب وہ اعلی درجے تک پہنچتا ہے تو نچلے درجات کو بھی طے کر کے جاتا ہے_

اب تک جو ذکر جو ذکر ہوا ہے وہ عبادت میں خلوص اور اخلاص تھا لیکن خلوص صرف عبادت میں منحصر نہیں ہوتا بلکہ عارف انسان تدریجا ایک ایسے مقام تک جا پہنچتا ہے کہ وہ خود اور اس کا دل اللہ تعالی کے لئے خالص ہو جاتا ہے اور تمام غیروں کو اپنے دل سے اس طرح نکال دیتا ہے کہ اس کے اعمال اور حرکات اور افکار خداوند عالم کے ساتھ اختصاص پیدا کر لیتے ہیں اور سوائے اللہ تعالی کی رضایت کے کوئی کام بھی انجام نہیں دیتا اور خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا اور خدا کے سوا کسی پر اعتماد نہیں کرتا_ اس کی کسی سے دوستی اور دشمنی صرف خدا کے لئے ہوا کرتی ہے اور یہ اخلاص کا اعلی ترین درجہ ہے_

امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں خوش نصیب ہے وہ شخص کہ جس کا عمل اور علم محبت اور بغض کرنا اور نہ کرنا بولنا اور ساکت رہنا تمام کا تمام خدا کے لئے خالص ہو_(۴۴۹)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جس شخص کی محبت اور دشمنی خرچ کرنا اور نہ کرنا صرف خدا کے لئے ہو یہ ان انسانوں میں سے ہے کہ جس کا ایمان کامل ہوتا ہے_(۴۵۰) امام جعفر صادق علیہ السلام نے ''فرمایا ہے کہ اللہ تعالی نے جس بندے کے دل میں سوائے خدا کے اور کوئی چیز نہ رکھی ہو تو اس کو اس سے اور کوئی شریف ترین چیز عطا نہیں کی_(۴۵۱)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کہاں ہے وہ دل جو اللہ تعالی کو بخش دیا گیا ہو اور اس کی اطاعت کا پیمان اور عہد بناندھا گیا ہو_(۴۵۲)

جب کوئی عارف انسان اس مرتبے تک پہنچ جائے تو خدا بھی اس کو اپنے لئے خالص قرار دے دیتا ہے اور اپنی تائید اور فیض اور کرم سے اس کو گناہوں سے محفوظ

۲۵۴

کر دیتا ہے اس طرح کا انسان مخلص پہچانا جاتا ہے اور مخلص انسان اللہ تعالی کے ممتاز بندوں میں سے ہوتے ہیں_

خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے کہ '' ہم نے ان کو آخرت کی یاد کے لئے خالص قرار دے دیا ہے_(۴۵۳)

قرآن کریم حضرت موسی علیہ السلام کے بارے میں فرماتا ہے کہ '' یقینا و ہ خالص ہوگیا ہے اور رسول اور پیغمبر ہے_(۴۵۴)

اللہ تعالی کے خالص بندے ایک ایسے مقام تک پہنچتے ہیں کہ شیطن ان کو گمراہ کرنے سے ناامید ہوجاتا ہے قرآن کریم شیطن کی زبان نقل کرتا ہے کہ اس نے خداوند عالم سے کہا کہ '' مجھے تیری عزت کی قسم کہ میں تیرے تمام بندوں کو سوائے مخلصین کے گمراہ کروں گا اور مخلصین کے گمراہ کرنے میں میرا کوئی حصہ نہیں ہے_(۴۵۵) بلکہ اخلاص کے لئے روح اور دل کو پاک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور عبادت کرنے میں کوشش اور جہاد کرنا ہوتا ہے_ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''عبادت کا نتیجہ اور ثمر اخلاص ہوتا ہے_(۴۵۶)

جیسے کہ احادیث میں وارد ہوا ہے کہ چالیس دن تک عبادت اور ذکر کو برابر بجا لانا دل کے صفا اور باطنی نورانیت اور مقام اخلاص تک پہنچنے کے لئے سبب اور موثر اورمفید ہوتاہے نہ صرف ایک دفعہ بلکہ تدریجا اور اخلاص کے باطنی مراحل طے کرتے رہنے سے ایسا ہو سکتا ہے_

۲۵۵

کچھ نیک اعمال

پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ انسان کو تکامل تک پہچانے اور قرب اور ارتقاء کے مقام تک لے جانے کا راستہ صرف اور صرف وحی الہی اور شرعیت کی پیروی کرنے میں منحصر ہے اور یہی وہ راستہ ہے کہ جسے انبیاء علیہم السلام نے بیان کیا ہے او رخود اس پر عمل کیا ہے اور اسے واجبات اور مستحبات سے بیات کیا ہے یہی عمل صالح ہے_ عمل صالح یعنی واجبات اور مستحبات جو اسلام میں بیان کئے گئے ہیں اور انہیں قرآن اور احادیث اور دعاؤں کی کتابوں میں لکھا گیا ہے آپ انہیں معلوم کر سکتے ہیں اور ان پر عمل کر کے استفادہ حاصل کر سکتے ہیں لیکن ہم یہاں پر ان میں سے کچھ کا ذکر کرتے ہیں_

اول: واجب نمازیں

قرب الہی اور سیر و سلوک معنوی کے لئے نماز ایک بہترین سبب اور عامل ہے_ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ہر پرہیزگار انسان کے لئے نماز قرب الہی کا وسیلہ ہے_(۴۵۷)

معاویہ بن وھب نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ بہترین وسیلہ جو بندوں کو خدا کے نزدیک کرتا ہے اور خدا اسے دوست رکھتا ہے کیا ہے؟ آپ نے فرمایا

۲۵۶

اللہ کی معرفت کے بعد میں نماز سے بہتر کوئی اور کسی چیز کو وسیلہ نہیں پاتا کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالی کے نیک بندے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خدا نے مجھے جب تک زندہ ہوں نماز اور زکوة کی سفارش ہے_(۴۵۸)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اللہ تعالی کے نزدیک نماز محبوب ترین عمل ہے_ انبیاء کی آخری وصیت نماز ہے_ کتنا ہی اچھا ہے کہ انسان غسل کرے اور اچھی طرح وضوء کرے اس وقت ایک ایسے گوشہ میں بیٹھ جائے کہ اسے کوئی نہ دیکھے اور رکوع اور سجود میں مشغول ہوجائے جب انسان سجدے میں جائے اور سجدے کو طول دے تو شیطن داد اور فریاد کرتا ہے کہ اس بندے نے خدا کی اطاعت کی اور سجدہ کیا اور میں نے سجدے کرنے سے انکار کر دیا تھا_(۴۵۹)

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ایک بندہ کی خدا کے نزدیک ترین حالت اس وقت ہوتی ہے جب وہ سجدے میں ہوتا اس واسطے کہ خداوند عالم فرماتا ہے کہ واسجد و اقترب_(۴۶۰)

حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''جب انسان نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو آسمان سے اس پر اللہ تعالی کی رحمت نازل ہوتی ہے اور اس کے ارد گرد ملائکہ گھیرا کر لیتے ہیں ایک فرشتہ کہتا ہے کہ اگر یہ نماز کی ارزش اور قیمت کو جانتا تو کبھی نماز سے روگردانی نہ کرتا_(۴۶۱)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے '' جب مومن بندہ نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو خداوند عالم نماز سے فارغ ہونے تک اس کی طرف نگاہ کرتا ہے اور آسمان سے اللہ تعالی کی رحمت اسے گھیر لیتی ہے اور فرشتے اس کے اردگرد گھیرا ڈال دیتے ہیں خداوند اس پر ایک فرشتے کو معین کر دیتا ہے جو اسے کہتا ہے کہ اے نماز پڑھتے والے اگر تو جان لیتا کہ تو کس کی توجہ کا مرکز ہے اور کس سے مناجات کر رہا ہے تو پھر تو کسی دوسری چیز کی طرف ہرگز توجہ نہ کرتا اور کبھی یہاں سے باہر نہ جاتا_(۴۶۲)

۲۵۷

نماز میں حضور قلب

نماز ایک ملکوتی اور معنوی مرکب ہے کہ جس کی ہر جزو میں ایک مصلحت اور راز مخفی ہے_ اللہ تعالی سے راز و نیاز انس محبت کا وسیلہ اور ارتباط ہے_ قرب الہی اور تکامل کا بہترین وسیلہ ہے_ مومن کے لئے معراج ہے برائیوں اور منکرات سے روکنی والی ہے_ معنویت اور روحانیت کا صاف اور شفاف چشمہ ہے جو بھی دن رات میں پانچ دفعہ اس میں جائے نفسانی آلودگی اور گندگی سے پاک ہو جاتا ہے اللہ تعالی کی بڑی امانت اور اعمال کے قبول ہونے کا معیار اور ترازو ہے_

نماز آسمانی راز و اسرار سے پر ایک طرح کا مرکب ہے لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ اس میں روح اور زندگی ہو_ نماز کی روح حضور قلب اور معبود کی طرف توجہہ اور اس کے سامنے خضوع اور خشوع ہے_ رکوع اور سجود قرات اور ذکر تشہد اور سلام نماز کی شکل اور صورت کو تشکیل دیتے ہیں_ اللہ تعالی کی طرف توجہ اور حضور قلب نماز کے لئے روح کی مانند ہے_ جیسے جسم روح کے بغیر مردہ اور بے خاصیت ہے نماز بھی بغیر حضور قلب اور توجہ کے گرچہ تکلیف شرعی تو ساقط ہو جاتی ہے لیکن نماز پڑھنے والے کو اعلی مراتب تک نہیں پہنچاتی نماز کی سب سے زیادہ غرض اور غایت اللہ تعالی کی یاد اور ذکر کرنا ہوتا ہے_ خداوند عالم پیغمبر علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ '' نماز کو میری یاد کے لئے برپا کر_( ۴۶۴)

قرآن مجید میں نماز جمعہ کو بطور ذکر کہا گیا ہے یعنی '' اے وہ لوگو جو ایمان لے آئے ہو موجب نماز جمعہ کے لئے آواز دی جائی تو اللہ تعالی کے ذکر کی طرف جلدی کرو_(۴۶۵)

نماز کے قبول ہونے کا معیار حضور قلب کی مقدار پر قرار پاتا ہے جتنا نماز میں حضور قلب ہوگا اتنا ہی نماز مورد قبول واقع ہوگی_ اسی لئے احادیث میں حضور قلب کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے_ جیسے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے ''کبھی آدھی نماز قبول ہوتی ہے اور کبھی تیسرا حصہ اور کبھی چوتھائی اور کبھی پانچواں حصہ

۲۵۸

اور کبھی دسواں حصہ_ بعض نمازیں پرانے کپڑے کی طرح لپیٹ کر نماز پڑھنے والے کے سرپر مار دی جاتی ہے_ تیری نماز اتنی مقدر قبول کی جائیگی جتنی مقدار تو خدا کی طرف توجہ کرے گا_( ۴۶۶) امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جب انسان نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو خدا اس کی طرف توجہہ کرتا ہے اور اپنی توجہ کو اس سے نہیں ہٹاتا مگر جب تین دفعہ وہ خدا سے غافل ہو جائے اس وقت خداوند عالم بھی اس سے اعراض اور روگردانی کر لیتا ہے_(۴۶۷)

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' سستی اور بیہودہ حالت میں نماز نہ پڑھو_ نماز کی حالت میں اپنی فکر میں نہ رہو کیونکہ تم خدا کے سامنے کھڑے ہو_ جان لو کہ نماز سے اتنی مقدار قبول ہوتی ہے جتنی مقدار تیرا دل اللہ کی طرف توجہ کرے گا_(۸ ۴۶)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' جو بندہ نماز کی حالت میں خدا کے علاوہ کسی کی طرف متوجہ ہو تو خدا اس سے کہتا ہے کہ اے میرے بندے کس کا ارادہ کیا ہے اور کس کو طلب کرتے ہو؟ کیا میرے علاوہ کسی کو خالق اور حفاظت کرنے والا ڈھونڈتے ہو؟ کیا میرے علاوہ کسی کو بخشنے والا طلب کرتے ہو؟ جب کہ میں کریم اور بخشنے والوں سے زیادہ کریم اور بخشنے والا ہوں اور سب سے زیادہ عطا کرنے والا ہوں میں تمہیں اتنا ثواب دونگا کہ جسے شمار نہیں کیا سکے گا میری طرف توجہ کر کیونکہ میں اور میرے فرشتے تیری طرف توجہ کر رہے ہیں اگر نمازی نے خدا کی طرف توجہ کی تو اس دفعہ اس کے گزرے ہوئے گناہ مٹ جاتے ہیں اور اس نے دوسری دفعہ خدا کے علاوہ کسی طرف توجہہ کی تو خداوند عالم دوبارہ اسے سابقہ گفتگو کی طرح خطاب کرتا ہے اگر اس نے نماز کی طرف توجہ کر لی تو اس کا غفلت کرنے والا گناہ بخشنا جاتا ہے اور اس کے آثار زائل ہوجاتے ہیں اور اگر تیسری دفعہ نماز سے توجہہ ہٹا لے خدا

۲۵۹

پھر بھی پہلے کی طرح اسے خطاب کرتا ہے اگر اس دفعہ نماز کی توجہ کر لے تو اس دفعہ اس کا غفلت والا گناہ بخش دیا جاتا ہے اور اگر چوتھی دفعہ نماز سے توجہ ہٹا لے تو خدا اور اس کے ملائکہ اس سے توجہ ہٹا لیتے ہیں_ خدا اس سے کہتا ہے کہ تجھے اسی کی طرف چھوڑے دیا ہے کہ جس کی طرف توجہ کر رہا ہے_(۴۶۹)

نماز کی ارزش اور قیمت خدا کی طرف توجہ اور حضور قلب سے ہوتی ہے توجہ اور حضور قلب کی مقدار جتنا اسے باطنی صفا اور تقرب الی اللہ حاصل ہوتا ہے_ بلا وجہ انبیاء علیہم السلام اور ائمہ اطہار اور اولیاء کرام نماز کو اتنی اہمیت نہیں دیتے تھے_ امیر المومنین علیہ السلام کے حالات میں لکھا ہے کہ جب نماز کا وقت ہوتا تھا تو آپ کے بدن پر لزرہ طاری ہوجاتا تھا اور آپکے چہرے کا رنگ بدن جاتا تھا_

آپ سے تبدیلی اور اضطراب کا سبب پوچھا گیا تو آپ نے جواب میں فرمایا ''کہ اس وقت اس امانت کے ادا کرنے کا وقت آپہنچا ہے جو آسمان اور زمین پر ڈالی گئی تھی لیکن وہ ڈرگئے تھے اور اس امانت کے اٹھانے سے انکار کر دیا تھا لیکن انسان نے اس بڑے امانت کے اٹھانے کو قبول کر لیا تھا میرا خوف اس لئے ہے کہ آیا میں اس امانت کو ادا کر لونگا یا نہ؟(۴۷۰)

امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے احوال میں کہا گیا ہے کہ نماز کے وقت ان کے چہرے کا رنگ زرد اور سرخ ہو جاتا تھا اور نماز کی حالت میں اس طرح ہوتے تھے کہ گویا اس گفتگو کر رہے ہیں کہ جسے وہ دیکھ رہے ہیں_(۴۷۱)

امام زین العابدین کے حالات میں لکھا ہے کہ جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو آپ کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوجاتا تھا اور ایک حقیر بندے کی طرح خدا کے سامنے کھڑے ہوتے تھے آپ کے بدن کے اعضاء خدا کے خوف سے لرزتے تھے اور آپ کی نماز ہمیشہ و داعی اور آخری نماز کی طرح ہوا کرتی تھی کہ گویا آپ اس کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھ سکیں گے_(۴۷۲)

حضرت زہرا علیہا السلام کے بارے میں ہے کہ نماز کی حالت میں سخت خوف کی

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271