امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت14%

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت مؤلف:
زمرہ جات: امامت
صفحے: 271

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 271 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 114735 / ڈاؤنلوڈ: 4269
سائز سائز سائز
امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

قریش کے ہاتھ سے لے لیا اور وہیں پھاڑ دیا اور فوراً جناب ابوطالب (ع) کے ساتھ شعب کی طرف روانہ ہوگئے_

اور یوں رسول خدا(ص) کی زندگی میں دعوت اسلام کے لئے ایک نئے دور کا آغاز ہوا_

آیت قرآن

''( انّه من يّتّق و یصبر فانّ الله لا یضیع اجر المحسنین ) ''

جو شخص تقوی اختیار کرے اور صبر کرے تو اللہ تعالی نیکیوں کے اجر کو ہرگز ضائع نہیں کرتا''

سورہ یوسف آیت ۹۰''

سوچئے اور جواب دیجئے

۱)___ پیغمبر اسلام(ص) اور آپ کے اعزاء و اقارب کتنی مدت شعب میں محصور رہے؟ یہ مدّت ان پر کسی گزری ان تمام سختیوں کو وہ کس مقصد اور غرض کے لئے برداشت کرتے رہے؟

۲)___ قریش کے سرداروں نے جناب ابوطالب (ع) کو دیکھ

۱۶۱

کرکیا سوچا؟ انہوں نے کس لئے صدر مجلس میں جگہ دی___؟

۳)___ جناب ابوطالب (ع) نے جوانوں کے صبر و استقامت کی کس طرح تعریف کی؟

۴)___ مشرکین نے پیغام کے سننے اور صندوق کے کھولنے سے پہلے کیا سوچا تھا؟

۵)___ ابوطالب (ع) کی ملاقات اور پیغام کا کیا نتیجہ نکلا___؟

۱۶۲

انسانوں کی نجات کیلئے کوشش

بعثت کے دسویں سال اقتصادی بائیکات ختم ہوگیا پیغمبر(ص) خدا اور آپ(ص) کے باوفا ساتھی تین سال تک صبر و استقامت سے صعوبتوں کو برداشت کرنے کے بعد شعب کے قیدخانہ سے آزاد ہوئے اور اپنے گھروں کی طرف گئے_ خداوند متعال نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ خدا کی راہ میں سعی و کوشش کریں اور صبر و استقامت کا مظاہر کریں تو خدا ان کی مدد کرے گا اور خدا نے اپنا کیا ہوا وعہ پورا کیا_

حضرت ابوطالب(ع) کہ جنہوں نے رسول خدا(ص) کی حفاظت کی ذمہ داری کو قبول کیا تھا، کفار کی طاقت اور کثرت سے نہ گھبرائے اور آپ نے پوری قوت کے ساتھ رسول(ص) خدا کا دفاع کیا_

آخر کار خدا کی نصرت آپہنچی اور انہیں اس جہاد میں کامیابی نصیب

۱۶۳

ہوئی اور ان کے احترام، سماجی مرتبے اور عظمت میں اضافہ ہوگیا بنی ہاشم اپنی اس کامیابی پر بہت خوش ہوئے اور تمام تکالیف اور سختیوں کے بعد دوبارہ اپنی زندگی کا آغاز کیا_

بت پرست اور قریش کے سردار اپنی شکست پر بہت پیچ و تاب کھارہے تھے لیکن ان حالات میں بے بس تھے لہذا کسی مناسب موقع کا انتظار کرنے لگے ان حالات میں پیغمبر اسلام(ص) کو تبلیغ دین کا نہایت نادر موقع ہاتھ آیا وہ بہت خوش تھے کہ اس طرح اپنے چچا کے سماجی رتبہ اور حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نہایت آزادی سے اپنے الہی پیام کو پہنچانے میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں اس لئے آپ(ص) بہت زیادہ لگن سے تبلیغ میں مشغول ہوگئے_

آپ(ص) نے لوگوں سے کہا

اے لوگو

وہ کون ہے جو زمین و آسمان سے تمہارے لئے روزی پہنچاتا ہے؟ کون ہے جس نے تمھیں آنکھ اور کان عنایت فرمائے؟ کون ہے جس کے ارادے سے جہان خلق ہوا اور اس کا نظام چل رہا ہے؟ لوگو تمہارے اس جہان کا پیدا کرنے والا خدا ہے وہی تمہاری اور اس جہان کی پرورش کرتا ہے اور روزی دیتا ہے وہ تمہارا حقیقی پروردگار ہے پس کیوں اس کا شریک قرار دیتے ہو اور اس کے علاوہ کسی اور کی

۱۶۴

اطاعت کرتے ہو؟ صرف خدا کی پرستش کرو اور صرف اسی کی اطلاعت کرو کہ یہی صحیح راستہ ہے اور حق کا ایک ہی راستہ ہے اور اس کے سوا سب گمراہی ہے_ پس جان لو کہ کسی طرف جارہے ہو؟ اے لوگو

جو لوگ نیکی اور حق کا راستہ اختیار کرتے ہیں خدا انہیں بہترین جزا عنایت فرماتا ہے اور زیادہ اور بہتر بھی دیتا ہے نیکوں کے چہرے پر کبھی ذلّت و خواری کی گرد نہیں بیٹھتی، ایسے لوگ جتنی ہیں اور ہمیشہ اس میں رہیں گے لیکن وہ لوگ جو برائی اور گناہ کا راستہ اختیار کرتے ہیں انہیں سخت سزا دی جائے گی''

لیکن افسوس کہ یہ حالات اور آزادنہ تبلیغ و گفتگو کا سلسلہ زیادہ مدت تک برقرار نہ رہ سکا_ ابھی اقتصادی بائیکاٹ کو ختم ہوئے نو ماہ بھی نہ گزرے تھے کہ حضرت محمد(ص) کے چچا حضرت ابوطالب (ع) وفات پاگئے اور یوں رسول خدا(ص) اپنے بہت بڑے مددگار، مہربان و ہمدرد اور جانثار سے محروم ہوگئے_

مشرکین اس بات سے خوش ہوئے اور پھر مخالفتوں کا سلسلہ شروع کردیا ابھی زیادہ وقت نہ گزار تھا کہ حضرت محمد(ص) کی زوجہ محترمہ جناب خدیجہ کہ جنہوں نے صداقت و وفاداری کے ساتھ حضرت محمد(ص) کے ساتھ

۱۶۵

ایک طویل عرصہ گزارا تھا اور جو کچھ بھی ان کے پاس تھا اسے تبلیغ دین اور اسلام کی مدد پر خرچ کردیا تھا وفات پاگئیں_

اس حساس موقع پر ان دو حادثات کا واقع ہونا پیغمبر خدا(ص) کے لئے انتہائی تکلیف دہ اور رنج و غم کا باعث تھا آپ نے اس سال کا نام غم و اندوہ کا سال یعنی عام الحزن رکھا_

حضرت ابوطالب(ع) کی وفات کے بعد بنی ہاشم نا اتفاقی کا شکار ہوگئے، اپنے اتحاد کی طاقت کو ہاتھوں سے کھو بیٹھے اور اس کے بعد وہ پہلے کی طرح رسول خدا(ص) کی حمایت نہ کرسکے''

کفار و مشرکین نے جو ایسے ہی کسی موقع کی تلاش میں تھے رسول خدا(ص) کو تکلیف اور ایذا پہنچانے کا سلسلہ پھر شروع کردیا اور آپ کے کاموں میں مداخلت کرنے لگے_

کوچہ و بازار میں پیغمبر اسلام(ص) کا مذاق اڑاتے اور آپ(ص) کو آزادانہ طور پر قرآن کی آیات کو لوگوں کے سامنے پڑھنے نہ دیتے اور نہ ہی لوگوں سے بات چیت کرنے دیتے اور آپ کو ڈراتے دھمکاتے_

آخر کار نوبت یہاں تک آپہنچی کہ کبھی کبھار آپ کے سر مبارک پر کوڑا کرکٹ ڈال دیتے اور آپ خاک آلودہ ہوکر گھر واپس آتے آپ کی کم عمر صاحبزادی جناب فاطمہ (ص) آپ(ص) کے استقبال کے لئے آگے بڑھتیں_ آپ(ص) کو اس حال میں دیکھ کر ان کا دل دکھتا اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے آپ کے سرمنہ کو صاف کرتیں اور بے اختیار دوپڑتیں لیکن رسول(ص) خدا فاطمہ (ع) سے نہایت شفقت کے ساتھ

۱۶۶

فرماتے''

میری پیاری بیٹی پریشان نہ ہو، خدا کی راہ میں ان مصائب کا برداشت کرنا بہت آسان ہے''

اس طرح جناب ابوطالب (ع) اور حضرت خدیجہ کی وفات سے پیغمبر اسلام(ص) کی اندرونی اور بیرونی زندگی تہ و بالا ہوکر رہ گئی کیوں کہ آپ اپنے سب سے بڑے حامی و مددگار اور جانباز سے جو قریش کے قبیلے کا سردار تھا محروم ہوگئے اس لئے آپ کو اس معاشرے اور اجتماع میں آزادی اور سکون حاصل نہ رہا ہر وقت آپ کی جان خطرے میں رہتی تھی آپ کا گھر بھی ایک جان نثار و وفا شعار، دوست و مددگار اور غم گسار بیوی سے خالی ہوچکا تھا جب آپ ان مصائب اور تکالیف کو جو باہردی جاتی تھیں برداشت کرتے ہوئے گھر واپس لوٹتے تو اپنی بیوی اور ہمسر کا کشادہ اور مسکراتا چہرہ نہ دیکھ پاتے بلکہ چھوٹی سی بچّی کے روتے ہوئے چہرے پر نگاہ پڑتی، وہ آپ کے استقبال کے لئے آتی اور اپنی والدہ کے پوچھتی اور سوال کرتی''

بابا ماں کہاں ہیں؟

رسول خدا(ص) اپنی بیٹی کا چہرہ چومتے اسے پیار کرتے اور اس کے رخساروں پر بہتے ہوئے آنسوؤں کے قطروں کو صاف کرتے اور فرماتے:

بیٹی رؤومت، تمہاری ماں بہشت میں گئی ہیں اور وہاں جنّت کے پاک فرشتے ان کی مہمان نوازی کر رہے ہیں

اس قسم کے حالات میں پیغمبر اسلام(ص) نے کس طرح اپنی رسالت کے کام کو انجام دیا؟ آیا ممکن تھا کہ حضرت ابوطالب (ع) جیسا کوئی اور شخص تلاش

۱۶۷

کریں کہ جو ان کی تبلیغ اور دعوت کی حمایت کرے؟

کیا اس قسم کے حامی اور مددگار کے بغیر اپنی دعوت اور لوگوں کی ہدایت کا اہم فریضہ انجام دے سکتے تھے؟

طائف کا سفر

جب پیغمبر اسلام(ص) پر وہ وقت آیا کہ آپ مکہ کے لوگوں کی حمایت اور ان کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے تو آپ(ص) نے ارادہ کیا کہ طائف(۱) کا سفر کریں اور وہاں کے لوگوں کو دین اسلام کی دعوت دیں اس امید کے ساتھ کہ وہ اسلام کو قبول کرلیں گے اور قریش کے سرداروں کے مقابلہ میں ان کی حمایت کریں گے_

پیغمبر(ص) خدا نے اپنی بیٹی فاطمہ(ص) کو اپنے عزیزوں میں سے ایک کے سپرد کیا اور تھوڑی سی خوراک اور پانی لے کر خفیہ طور پر مکہ سے باہر نکلے اور بندگان خدا کو ظلم و ستم، شرک و پلیدی اور گناہ سے نجات دلانے اور انہیں اللہ کی اطاعت اور بندگی کی طرف دعوت دینے کی غرض سے طائف کا رخ کیا_

مكّہ اور طائف کا درمیانی راستہ نہایت دشوار گزار اور کٹھن

____________________

۱) طائف ایک ٹھنڈا شہر ہے جو مكّہ سے بارہ فرسخ کے فاصلہ پر واقع ہے اور ثقیف قبیلہ جو قریش کا سب سے بڑا قبیلہ تھا وہاں سکونت پذیر رہا ہے

۱۶۸

تھا آپ خستہ حال لیکن ایمان کامل اور بھر پور امید کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے وہاں آپ بالکل اجنبی اور ناآشنا تھے_

اگر چہ طائف کے اکثر لوگوںنے آپ کا نام اور آپ کے دین کے متعلق تھوڑا بہت سن رکھا تھا لیکن لوگوں نے آپ کو نزدیک سے نہیں دیکھا تھا اور وہ آپ کو نہیں پہچانتے تھے_

آپ شہر میں داخل ہوئے اور گلی کو چوں کا رخ کیا کہ شاید کوئی شناسا مل جائے لیکن آپ کو کوئی شناسا نظر نہین آیا کہ جو شہر کے رؤسا اور بزرگوں کے گھروں تک رہنمائی کرے اور آپ(ص) سے آپ کی مدد کے متعلق دریافت کرے کہ آپ(ص) اس شہر میں کیوں تشریف لائے ہیں؟

آخر کار کوئی صورت آشنا نہ پا کر رسول (ص) خدا نے خود اپنی پہچان کروائی اور اپنے سفر کے مقصد کو بیان کیا:

میں محمد بن عبداللہ، اللہ کا رسول(ص) ہوں، میں اللہ کی طرف سے تمہاری ہدایت و نجات کا پیغام لایا ہوں تم لوگ شرک و بت پرستی اور ظلم و ستم سے ہاتھ اٹھا لو اور خدا کی اطاعت کرو اور تقوی اختیار کرو اور میری پیروی کرو تا کہ تمہیں دنیا و آخرت کی پاکیزہ زندگی اور دائمی و نیک زندگی کی طرف راہنمائی کروں میں تمہیں قیامت کے دن حاضر ہونے سے ڈراتا ہوں اور آخرت کے عذاب سے خوف دلاتا ہوں ڈرو اس وقت سے جب کام تمام ہوجائے اور تم کافر و مشرک

۱۶۹

دنیا سے چلے جاؤ کہ پھر قیامت کے دن حسرت و عذاب میں گرفتار ہوگے میری دعوت کو قبول کرلو تا کہ دنیا و آخرت میں فلاح پاؤ میری اور میری آسمانی دعوت کی حمایت کرو تا کہ میں تمام لوگوں کو دین اسلام کی طرف بلا سکوں''

لیکن قبیلہ ثقیف کے سرداروں کے دل ظلم و ستم کی وجہ سے سخت اور تاریک ہوچکے تھے انہوں نے آپ کی آسمانی ندا کو قبول نہ کیا بلکہ آپ(ص) کے ساتھ بے جا اور ناروا سلوک کیا_ رسول (ص) خدا بہت زیادہ ملول ہونے کہ یہ لوگ کیوں اپنی گمراہی پر اصرار کر رہے ہیں؟ کیوں بتوں کی عبادت کرتے ہیں؟ کیوں ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں اور نہ دیکھتی ہیں اور نہ ہی وہ ان کو کچھ دے سکتی ہیں؟

کیوں لوگ میرے نور پیغمبر(ص) کی جو اللہ نے مجھے عنایت کیا ہے پیروی نہیں کرتے؟ کیوں خدا کی وحدانیت کا اقرار نہیں کرتے؟

کیوں اپنی برائیوں اور ظلم پر باقی رہنا چاہتے ہیں؟

کیوں یہ لوگ اپنے ان برے اعمال سے دنیا و آخرت کی ذلت و خواری میں اپنے آپ کو گرفتار کرنا چاہتے ہیں؟ ...؟

رسول (ص) خدا افسردہ اور بے قرار ہوگئے اور مجبور ہوکر ان کے گھر سے باہر نکل آئے اور دوسرے لوگوں کودعوت دینا شروع کردیں_ تقریباً ایک مہینہ تک آپ(ص) نے اس شہر میں قیام کیا اور لوگوں سے جو کوچہ و بازار سے گزرتے تھے گفتگو اور آخرت کی دنیا____ میں انسانی اعمال کی

۱۷۰

قدر و قیمت اور زندگی کی غرض و غایت اور صحیح راہ و رسم کے بارے میں لوگوں کو بتایا اور انہیں خداپرستی اور خدا دوستی اور اللہ کی اطاعت کی طرف دعوت دی اور آخرت کے عذاب سے ڈرایا_ لیکن آپ(ص) کے وعظ و نصیحت اور تبلیغ نے ان کے تاریک دلوں پر کوئی زیادہ اثر نہ کیا گو کہ ان میں سے بعض کے دلوں میں کہ جو بہت زیادہ آلودہ نہیں ہوئے تھے ایک نور سا چمک اٹھا تھا اور آہستہ آہستہ تاریکی اور برائی چھٹتی چلی گئی_

لیکن مستکبرین اور سردار کہ جو اپنی قدرت اور منافع کو خطرے میں دیکھ رہے تھے انہوں نے تدریجاً خطرے کا احساس کرلیا اور بعض نادان اور کمینے انسانوں کو ابھارا کہ وہ جناب رسول(ص) خدا کی راہ میں زحمتیں اور روکاوٹیں پیدا کریں آپ(ص) کا مذاق اڑائیں اور آپ کی گفتگو کے درمیان شور و غل مچائیں اور انہیں ناسزا کہیں اور پتھر ماریں_

آخر کار ایک دن جب آپ(ص) لوگوں کے درمیان تقریر فرما رہے تھے کہ اوباش قسم کے انسانوں اور دھوکہ میں آئے ہوئے نادانوں نے کہ جنہیں مستکبرین نے بھڑکایا تھا آپ کے گرد گھیرا ڈالا اور آپ کو پتھر مارنے شروع کردئے اور کہنے لگے کہ ہمارے شہر سے نکل جاؤ_

طائف سے خروج

پیغمبر اسلام(ص) نے مجبور ہوکر شہر سے باہر کا رخ کیا_ بے وقوف اور نادان لوگ اب بھی آپ(ص) کا پیچھا کر رہے تھے اور پتھر مار رہے تھے آپ(ص)

۱۷۱

کا جسم مبارک بری طرح زخمی ہوچکا تھا اور آپ(ص) کے پاؤں سے خون بہہ رہا تھا آپ(ص) تھکے ماندے خون آلود جسم اور غم و اندوہ کے ساتھ طائف سے نکل گئے_

آپ(ص) ان لوگوں کی ہدایت اور نجات کے لئے تنہا اور اجنبی ہوتے ہوئے اس شہر میں داخل ہوئے تھے جو ظلم کے اسیر تھے اور اب زخمی اور خستہ بدن کے ساتھ اس شہر سے باہر جا رہے تھے بالآخر طائف کے احمق اور کمین لوگوں نے آپ(ص) پر پتھر برسانا بند کئے اور آپ(ص) کا پیچھا چھوڑ کر اپنے ظلم اور تاریکی سے مغلوب شہر کی طرف واپس لوٹ گئے_

پیغمبر(ص) جو زخموں سے چور تھے اور تھکن کی وجہ سے مزید چلنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے ایک ایسے درخت کے سایہ میں بیٹھ گئے جس کی شاخیں ایک باغ کی دیوار سے باہر نکلی ہوئی تھیں اور اپنے خدا سے یوں مناجات کرنے لگے اے پروردگار میں اپنی کمزوری و ناتوانی اورناتوان لوگوں کے ظلم و ستم کو تیرے سامنے بیان کرتا ہوں اے مہربان خدا اور اے مستصعفین کے پروردگار مجھے کس کے آسرے پر چھوڑا ہے؟ کیا مجھے بیگانوں کے لئے چھوڑدیا ہے؟ تا کہ وہ اپنے سخت اور کرخت چہرے سے مجھے دیکھیں؟ کیا تجھے پسند ہے کہ دشمن مجھ پر مسلط ہوجائے؟

خدایا میں ان تمام مصائب کو تیرے لئے اور تیرے بندوں کی خاطر برداشت کر رہا ہوں_

۱۷۲

باغ کا مالک آپ(ص) کی یہ حالت دور سے دیکھ رہا تھا اس کا دل پیغمبر اسلام(ص) کی اس حالت پر دکھا انگور سے بھری ایک ٹوکری غلام کے حوالہ کی جس کا نام ''عداس'' تھا کہ پیغمبر اسلام(ص) کو دے آئے_

عداس نے ٹوکری کو اٹھایا اور پیغمبر(ص) خدا کے نزدیک لایا_ پیغمبر(ص) کا تھکا ہوا نورانی چہرہ، زخمی جسم، اور خون میں آلودہ پاؤں اس کے لئے تعجب خیز تھے_ اس نے انگوروں کی ٹوکری پیغمبر(ص) کی خدمت میں پیش کی اور ادب سے بولا:

شوق فرمایئےان انگوروں میں سے کھا لیجئے''

اور خود ایک طرف جاکر کھڑا ہوکیا اور حیرت سے اللہ کے پیغمبر کی جانب دیکھنے لگا_

رسول خدا(ص) نے کہ جو بھوک و پیاس سے نڈھال تھے ایک خوشہ انگور کا اٹھایا اس کے صاف شفاف دانوں پر نظر ڈالنا شروع کردیا_

کتنی بر محل اور موقع کی مناسبت سے رسول خدا(ص) کی مہمانی کی گئی آپ(ص) کا خشک گلاتر ہوگیا''

عداس جو بڑی توجہ سے رسول خدا(ص) کی طرف دیکھ رہا تھا جب اس نے_ بسم اللہ الرحمن الرحیم کا کلمہ رسول (ص) خدا سے سنا تو سخت تعجب ہوا اور پوچھا:

اس کلمہ سے کیا مراد ہے؟ اس کلمہ کو آپ نے کس سے سیکھا ہے؟

۱۷۳

رسول خدا(ص) نے عداس کی صورت کو محبت آمیزنگاہ سے دیکھا اور پھر اس سے پوچھا:

تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ تمہارا کیا دین ہے؟

اس نے جواب دیا_

نینوا کا رہنے والا ہوں اور مسیحی دین رکھتا ہوں''

اچھا نینوا کے ہو جو اللہ کے نیک بندے یونس (ع) کا شہر ہے_

یونس جو متی کے فرزند ہیں''

عداس کی حیرانی میں اور اضافہ ہوا اور پوچھا کہ:

آپ(ص) یونس (ع) کو کس طرح جانتے ہیں؟ اور ان کے باپ کا نام کس طرح معلوم ہے؟ خدا(ص) کی قسم جب میں نینوا سے باہر نکلا تو اس وقت دس لوگ بھی نہیں تھے جو جناب یونس (ع) کے باپ کو جانتے ہوں آپ(ص) ان کو کس طرح پہچانتے ہیں؟ اور کس طرح ان کے باپ کا نام جانتے ہیں؟ اس خطّے کے لوگ جاہل ہیں اور آپ(ص) نے یونس (ع) کے باپ کا نام کس سے معلوم کیا ہے_

رسول خدا(ص) نے فرمایا:

یونس میرا بھائی اور خدا کا پیغمبر(ص) تھا اور میں بھی خدا کا پیغمبر ہوں خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ اپنے تمام کاموں کا آغاز اس کے نام اور اس مقدس کلمہ ''بسم اللہ الرحمن الرحیم'' سے کروں جانتے ہو کس لئے؟

عداس کہ جس کا دل روشن اور حق کو قبول کرنے پر راغب تھا بہت خوش ہوا اور پیغمبر خدا(ص) کی دعوت اور آپ(ص) کی پیغمبری کے

۱۷۴

متعلق بہت سے سوالات کئے پیغمبر اسلام(ص) باوجود اسکے کہ بہت تھکے ہوئے تھے اس کے تمام سوالات کا بہت صبر و حوصلہ سے جواب دیتے رہے_ عداس کی گفتگو پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ کئی گھنٹوں تک جاری رہی اور آخر کار پیغمبر اسلام(ص) کی رسالت کی دعوت کی حقیقت اس پر واضح ہوگئی وہ آپ(ص) پر ایمان لے آیا اور مسلمان ہوگیا_

پیغمبر اسلام(ص) بھی اس کے اسلام لانے سے بہت خوش ہوئے اور اس بات پر اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس سفر میں ایک محروم اور ستم رسیدہ انسان کی ہدایت کی _

آپ(ص) نے عداس کو خداحافظ کہا اور مكّہ کی طرف روانہ ہوگئے اس مكّہ کی جانب کہ جسکے رہنے والے مشرکین تلواریں نکالے آپ(ص) کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے راستہ بہت سخت اور دشوار تھا_ لیکن اللہ کی طرف سے ذمہ داری اور ماموریت اور سول (ص) خدا کا ہدف زیادہ اہم تھا آپ(ص) نے چلنا شروع کیا آپ(ص) کے پاک و پاکیزہ خون کے قطرے آپ کے ایمان راسخ اور خدا کے بندوں کی ہدایت کی راہ میں_ استقامت کو راستے کے سخت پتھروں پر نقش کی صورت میں چھوڑ رہے تھے_

آیت قرآن

( لقد جاء کم رسول مّن انفسکم عزیز علیه ما عنتّم حریص

۱۷۵

علیکم بالمؤمنین رء وف رّحیم)

سورہ توبہ آیت ۱۲۸''

تم میں سے رسول ہدایت کے لئے آیا ہے تمہاری پریشانی اور رنج اس پر سخت ہے وہ تمہاری ہدایت کے لئے حریص و دلسوز ہے اور مومنین پر مہربان اور رحیم ہے''

سوچئے اور جواب دیجئے

۱)___ پیغمبر خدا(ص) اپنی تبلیغ و گفتگو میں لوگوں کو کن اصولوں کی طرف دعوت دیتے تھے؟

۲)___ حضرت ابوطالب (ع) کی وفات نے پیغمبر اسلام(ص) کی تبلیغ اور دعوت پر کیا اثر ڈالا؟

۳)___ پیغمبر(ص) نے طائف کا سفر کس غرض سے کیا تھا؟ کتنی مدّت طائف میں رہے اور اس مدّت میں آپ(ص) کی تبلیغ کا کیا پروگرام تھا؟

۴)___ شہر کے بزرگوں اور سرداروں نے کس طرح پیغمبر(ص) کی تبلیغ کی مزاحمت کی؟ اور کیوں؟

۵)___ رسول خدا(ص) نے طائف کے شہر سے نکلنے کے بعد اللہ سے کیسی مناجات کی اور خدا سے کیا کہا؟

۶)___ اس حالت میں کس نے آپ(ص) کی مہمان نوازی کی؟

۱۷۶

۷)___ عداس نے کس چیز کے سبب تعجب کیا؟ اور رسول (ص) سے کیا سوال کیا؟

۸) کس چیز کو سن کر عداس کے تعجب میں اضافہ ہوا؟

۹)___ عداس کس طرح مسلمان ہوا پیغمبر اسلام(ص) عداس کے مسلمان ہونے سے کیوں خوش ہوئے؟

۱۷۷

پیغمبر اکرم(ص) کی بیعت

حج کے ایام میں بہترین اور مناسب موقع تھا کہ پیغمبر اسلام(ص) مشرکین کے کسی دباؤ کے بغیر لوگوں سے گفتگو کرسکیں اور انہیں اسلام کے بارے میں غور و فکر کی دعوت دے سکیں اور اسلام و ایمان کے نور کو لوگوں کے دلوں میں روشن کرسکیں_

اس مرتبہ پیغمبر اسلام (ص) خزرج قبیلہ کے چھ آدمیوں سے گفتگو کر رہے تھے اپنے دل نشین اور آسمانی آہنگ میں لوگوں کے لئے قرآن مجید کی ان آیات کی تلاوت فرما رہے تھے جو خداپرستی کی تائید اور شرک و بت پرستی کی نفی کے بارے میں تھیں اور بعض آیات عقل و دل کو بیدار کرنے کے بارے میں تھیں_

ان آیات میں سے چند ایک بطور نمونہ یہاں تحریر کی جاتی ہیں جن

۱۷۸

کا تعلق سورہ نحل سے ہے''

خدا آسمان سے بارش برساتا ہے اور مردہ کو زندہ کرنا ہے، البتہ اس میں واضح اور روشن نشانی ہے اس گروہ کے لئے جو بات سننے کے لئے حاضر ہو تمہیں چوپایوں کی خلقت سے عبرت حاصل کرنا چاہئے_ خون اور گوبر کے درمیان سے پاکیزہ اور خوش مزہ دودھ تمہیں پلاتے ہیں کھجور اور انگور کے درخت کے پھولوں کو دیکھو کہ جس سے شراب بناتے ہو اور اس سے پاک و پاکیزہ روزی حاصل کرتے ہو اس میں عقلمندوں کے لئے واضح علامت موجود ہے تیرے خدا نے شہد کی مكّھی کو وحی کی ہے کہ وہ پہاڑوں او ردرختوں میں گھر بنائیں اور تمام میوے کھائیں اور تیرے اللہ کے راستے کو تواضع سے طے کریں اور دیکھو کہ ہم کس طرح شہد کی مکھی سے اس طرح کا مزیدار شربت مختلف رنگوں میں باہر لاتے ہیں کہ جس میں لوگوں کے لئے شفا ہے اور اس میں سوچنے والوں کے لئے واضح نشانی موجود ہے خدا ہی ہے جس نے تمہیں خلق کیا اور وہی ہے جو تمہیں موت دے گا تم میں سے کچھ لوگ ضعیفی اور بڑھا پے کی عمر کو پہنچ جائیں گے کہ کچھ بھی نہیں سمجھ پائیں گے البتہ خدا علیم و قدیر ہے

پس کیوں غیر خدا کی پرستش کرتے ہیں وہ چیزیں کہ

۱۷۹

جن کے ہاتھ میں زمین و آسمان کی روزی نہیں ہے، کچھ نہیں اور نہ ہی ان کے ذمہ کوئی کام ہے

قرآن مجید کی آیات کے معنی اور پیغمبر(ص) کی حکیمانہ اور دل نشین اور محبت بھری گفتگو نے ان لوگوں پر بہت اچھا اثر کیا اور انہیں اسلام کا گرویدہ بنادیا اس کے علاوہ انہوں نے یہودیوں سے سن رکھا تھا کہ حضرت موسی (ع) نے اپنی آسمان کتاب میں خبر دی ہے کہ ایک پیغمبر مکہ سے اٹھے گا جو وحدانیت او رتوحید پرستی کی ترویج کرے گا_ غرض پیغمبر خدا(ص) کی اس تمہیدی گفتگو ان کی روح پرور باتیں سن کر اور ان کا محبت بھرا انداز دیکھ کر ان میں ایک نئی روح پیدا ہوئی اور انہوں نے اسی مجلس میں اسلام قبول کرلیا،

جب وہ لوگ پیغمبر(ص) سے جدا ہونے لگے تو کہنے لگے کہ:

ایک طویل عرصہ سے ہمارے اور اس قبیلے کے درمیان جنگ جاری ہے امید ہے کہ خداوند عالم آپ(ص) کے مذہب اور دین کے وسیلے سے اس جنگ کا خاتمہ کردے گا اب ہم اپنے شہر یثرب کی طرف لوٹ کرجائیں گے تو آپ کے آسمانی دین اسلام کو لوگوں سے بیان کریں گے_

یثرب کے لوگوں نے تھوڑا بہت حضرت محمّد اور آپ کے دین کے متعلق ادھر ادھر سے سن رکھا تھا لیکن ان چھ افراد کی تبلیغ نے اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے ایک مناسب فضا پیدا کردی اور اسلام کے لئے حالات سازگار بنادئے اور یوں کافی تعداد میں لوگ

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

خدا وند عالم کی گواھی:

اس آیہء شریفہ میں پیغمبر خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے پہلے گواہ کے طور پر خدا وندمتعال کا ذکرہوا ہے۔ خدا وند متعال کی اس گواہی کے دوفرض ہیں:

۱ ۔ممکن ہے یہ گواہی قولی ہو اور گفتگو و کلام کے مقولہ سے ہو اس صورت میں وہی آیتیں جو آنحضرت کی رسالت کو بیان کرتی ہیں خداوندمتعال کی اس گواہی کی مصداق ہوں گی، جیسے :( والقران الحکیم انّک لمن المرسلین ) (۱) ” قرآن حکیم کی قسم آپ مرسلین میں سے ہیں“

۲ ۔ ممکن ہے یہ گواہی فعلی ہو اور خدا وندمتعال نے اسے معجزہ کی صورت میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذر یعہ ظاہر کیا ہو، یہ معجزے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کے سلسلہ میں دعویٰ کے لئے ایک قوی سند ، واضح دلیل اور گو یا گواہ ہیں، خاص کر قرآن مجید ، جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاایک لافانی معجزہ ہے اورہر زمانہ میں باقی رہنے والا ہے اوران معجزات کی حیثیت ایک طرح سے خداوندمتعال کے فعل کی سی ہے جو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت پر گواہ ہیں۔

من عندہ علم الکتاب - سے مرادکون ہے؟

دوسرے محورمیں بحث اس جہت سے ہوگی کہ ” کتاب“ سے مراد کیا ہے؟ اور جس کے پاس ” کتاب کا علم“ ہے ، وہ کون ہے؟ اس سلسلہ میں چند احتمالات پائے جاتے ہیں کہ ہم ان پر بحث کریں گے:

پہلا احتمال :” کتاب“سے مرادقرآن مجید سے پہلے نازل ہونے والی آسمانی کتابیں ہیں اور کتاب کے عالم سے مرادعلمائے یہودو نصاریٰ ہیں:

اس صورت میں اس آیہ شریفہ کے معنی یوں ہوں گے: ” کہدےجئے اے پیغمبر! ہمارے

_____________________

۱-۔ سورہ یاسین/۱۔۲

۲۴۱

اورتمھارے درمیان رسالت کی گواہی کے لئے کافی ہے خدا وندمتعال اور وہ لوگ جن کے پاس گزشتہ آسمانی کتابوں کا علم ہے جیسے علمائے یہودونصاری چونکہ ان کتابوں میں پیغمبر)صلی الله علیہ وآلہ وسلم) کا نام آیا ہے اور آنحضرت کی رسالت بیان ہوئی ہے ۔ اسی لئے علمائے یہودو نصاری اس مطلب سے آگاہی رکھتے ہیں اور اس پر گواہ ہیں۔

یہ احتمال صحیح نہیں ہے، کیونکہ اگر چہ علمائے یہودونصاری اپنی آسمانی کتابوں کے عالم تھے ، لیکن وہ کافر تھے اور ہر گز اپنے خلاف گواہی دینے کے لئے حاضر نہیں تھے۔

دوسرا احتمال : ” کتاب “سے مراد وہی قرآن مجید سے پہلے نازل ہونے والی آسمانی کتابیں ہیں اور ان کے عالم سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا شمار پہلے علمائے یہودونصاری ٰ میں ہوا کر تا تھالیکن بعد میں اسلام قبول کرکے وہ مسلمان ہوگئے تھے، جیسے : سلمان فارسی ، عبدالله بن سلام اور تمیم الداری۔ یہ لوگ ایک جہت سے توریت اور انجیل جیسی گزشتہ آسمانی کتابوں کا علم رکھتے تھے اور ایک جہت سے آمادہ تھے تاکہ اسلام کی حقانیت اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کے بارے میں جو کچھ انہیں معلوم ہے اس کی گواہی دیں۔

یہ احتمال بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ سورہ رعد اور من جملہ زیر بحث آیہء شریفہ جو اس سورہ کی آخری آیت ہے ، مکہ میں نازل ہوئی ہے اور مذکورہ افراد مدینہ میں مسلمان ہوئے ہیں۔ اس لئے اس کاکوئی مفہوم نہیں ہے جو ابھی کافر ہیں اور مسلمان نہیں ہوئے ہیں اپنے دین کے خلاف گواہی دینے کے لئے مدعو ہوجائیں۔

شبعی اور سعید بن جبیر سے نقل ہوئی روآیت کے مطابق انہوں نے بھی مذکورہ احتمال یعنی ” من عندہ علم الکتاب“ سے عبدالله بن سلام کو مراد لینا اس کو مسترد کر دیا ہے ۔ اس کی دلیل یہ پیش کی ہے کہ یہ سورہ مکی ہے اور عبداللهبن سلام مدینہ میں مسلمان ہوا ہے۔(۱)

تیسرا احتمال: ”من عنده علم الکتاب “ سے مقصود خداوندمتعال اور

____________________

۱۔ معالم التنزیل ، ج ۳-، ص ۴۶۴، ۴۶۵-۔ الاتقان ، ج ۱، ص ۳۶، دار ابن کثیر بیروت

۲۴۲

”کتاب“سے مرادلوح محفوظ ہے اور ”من عند ه علم الکتاب “ کا ” الله“ پر عطف ہونا صفت کا اسم ذات پر عطف ہونے کے باب سے ہے۔ اس صورت میں معنی یوں ہوتا ہے: خداوندمتعال اور وہ شخص جو لوح محفوظ )جس میں تمام کائنات کے حقائق ثبت ہیں ) کا علم رکھتا ہے، وہ تمہاری رسالت پر گواہ ہے۔

اول یہ کہ : جملہء( قل کفی باالله شهیداً بینی و بینکم و من عنده علم الکتاب ) میں بظاہر عطف یہ ہے کہ ” من عندہ علم الکتاب“ خدا وندمتعال کے علاوہ ہے کہ جس کا ذکر ابتداء میں پہلے گواہ کے طور پرآیا ہے۔

دوسرے یہ کہ: عربی ادبیات میں صفت کا عطف ، صفت پر موصوف کے سلسلہ میں مشہور اور رائج ہے۔ قرآن مجید میں بھی اس قسم کا استعمال پایاجاتا ہے، جیسے :آیہء شریفہ :( تنزیل الکتاب من اللهالعزيز العلیم غافر الذّنب وقابل التوب ) (۱) میں ”غافرالذّ نب “)گناہ کو بخشنے والا) اور ”قابل التوب “ )توبہ کو قبول کرنے والا) دوصفتیں ہیں جو حرف عطف کے فاصلہ سے ایک دوسرے کے بعدہیں اور خدا وندمتعال کے لئے بیان ہوئی ہیں۔ لیکن جن مواقع پر پہلے اسم ذات ذکر ہوا ہے، کبھی بھی مشہور اور رائج استعمالات میں صفت اس پر عطف نہیں ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ : آیہ کریمہ میں ” من عندہ علم الکتاب“ سے مرادخدا وندمتعال ہے۔

چوتھا احتمال: کتاب سے مراد ” لوح محفوظ“ ہے اور ” جس کے پاس کتاب کا علم ہے اس سے مراد امیرلمومنین علی علیہ السلام ہیں۔

اب ہم اس احتمال پر بحث و تحقیق کرتے ہیں۔

____________________

۱۔ سورہ غافر/۲

۲۴۳

لوح محفوظ اور حقائق ھستی

قرآن مجید کی متعدد آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کے تمام حقائق ایک مجموعہ کی شکل میں موجود ہیں کہ قرآن مجید نے اسے ” کتاب مبین“(۱) یا ” امام مبین“(۲) یا ” لوح محفوظ“(۳) کے نام سے تعبیر کیا ہے۔ من جملہ سورہ نمل میں فرماتا ہے:( وما من غائبة فی السّماء والارض إلّا فی کتاب مبین ) (۴) یعنی: اور آسمان و زمین میں کوئی پوشیدہ چیزایسی نہیں ہے جس کا ذکر کتاب مبین ) لوح محفوظ ) میں نہ ہو۔

اس بنا پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا لوح محفوظ میں درج شدہ حقائق سے آگاہی حاصل کی جاسکتی ہے؟ اور اگر یہ ممکن ہے تو کون لوگ ان حقائق سے با خبر اور آگاہ ہیں اور کس حد تک؟

مطھّرون اور لوح محفوظ سے آگاہی

اس سلسلہ میں ہم سورہ واقعہ کی چند آیتوں پر غوروخوض کرتے ہیں:

( فلا اٴُ قسم بمواقع النجوموإنّه لقسم لوتعلمون عظیم إنّه لقرآن کریمفی کتاب مکنون لایمسّه إلّا المطهّرون ) ) سورہ واقعہ/ ۷۵ ۔-- ۷۹)

ان آیات میں ، پہلے ستاروں کے محل و مدارکی قسم کھائی گئی ہے۔ اس کے بعد اس قسم کی عظمت و اہمیت پر زور دیا گیا ہے اور اس کی نشاندھی کی گئی ہے۔ اس نکتہ پرتو جہ کرنا ضروری ہے کہ قسم کا معیار اور اس کی حیثیت اس حقیقت کے مطابق ہونا چا ہئیے کہ جس کے متعلق یا جس کے

____________________

۱-۔ سورہ یونس/۶۱، سورہ سبا/۱۳، سورہ نمل/۷۵

۲۔ سورہ یسین/۱۲

۳۔ سورہ بروج/ ۲۲

۴۔ سورہ نمل/۷۵

۲۴۴

اثبات کے لئے قسم کھائی جارہی ہے ۔ اگر قسم با عظمت اور بااہمیت ہے تو یہ اس حقیقت کی اہمیت کی دلیل ہے کہ جس کے لئے قسم کھائی گئی ہے۔

جس حقیقت کے لئے یہ عظیم قسم کھائی گئی ہے، وہ یہ ہے: - إنّہ لقرآن کریم فی کتاب مکنون لایمسّہ الّا المطھرون یعنی بیشک یہ بہت ہی با عظمت قرآن ہے جسے ایک پو شیدہ کتاب میں رکھاگیا ہے اسے پاک و پاکیزہ افراد کے علاوہ کوئی چھو بھی نہیں سکتا ہے۔ ) اس کے ساتھ رابطہ نہیں کرسکتا ہے۔)آیہ شریفہ کا یہ جملہ لا یمسّہ الّاالمطھرون بہت زیادہ قابل غور ہے۔

ابتدائی نظر میں کہاجاتا ہے کہ بے طہارت لوگوں کا قرآن مجید سے مس کرنا اور اس کے خط پر ہاتھ لگانا حرام ہے، لیکن اس آیہ شریفہ پر عمیق غور وفکر کرنے سے یہ اہم نکتہ و اضح ہو جاتا ہے کہ مس سے مراد مس ظا ہری نہیں ہے اور ” مطھرون“ سے مراد باطہارت )مثلاً باوضو) افراد نہیں ہیں ۔ بلکہ مس سے مراد مس معنوی )رابطہ) اور”مطھرون “ سے مرادوہ افراد ہیں جنہیں خدا وندمتعال نے خاص پاکیزہ گی عنآیت کی ہے، اور ”لایمسہ“ کی ضمیر کتاب مکنون )لوح محفوظ) کی طرف پلٹتی ہے ۔

آیہ کریمہ سے یہ معنی )مس معنوی) استفادہ کرنے کے لئے چند نکات کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے:

۱ ۔ جملہء ”لا یمسہ “ کا ظہور اخبار ہے نہ انشاء ، کیونکہ بظا ہر یہ جملہ دوسرے اوصاف کے مانند کہ جو اس سے قبل ذکر ہوئے ہیں، صفت ہے اور انشاء صفت نہیں بن سکتا ہے، جبکہ آیت میں غیر مطہرون کے مس سے حکم تحریم )حرمت) کا استفادہ اس بنا پر کیا جاتا ہے کہ جملہ ”لا یمسہ “ انشاء ہو ، نہ اخبار۔

۲ ۔ ” لایمسہ“ کی ضمیر بلا فاصلہ ” کتاب مکنوں“ کی طرف پلٹتی ہے ، کہ جو اس جملہ سے پہلے واقع ہے نہ قرآن کی طرف کہ جواس سے پہلے مذکور ہے اور چند کلمات نے ان کے درمیان فاصلہ ڈال دیا ہے۔

۲۴۵

۳ ۔ قرآن مجید کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ ایک پوشیدہ اور محفوظ کتاب میں واقع ہے کہ جس تک عام انسانوں کی رسائی نہیں ہے اور یہ مطلب اس کے ساتھ مس کرنے سے کوئی تناسب نہیں رکھتا ہے۔

۴ ۔ طہارت شرعی ، یعنی وضو )جہاں پر وضو واجب ہو) یا غسل یا تیمم )جہاں پر ان کا انجام دینا ضروری وفرض)رکھنے والے کو ” متطھرّ“ کہتے ہیں نہ ”مطھّر“۔

اس تشریح سے واضح ہوجاتا ہے کہ جو کچھ جملہ ء ”( لا یمسه الّا المطهرون ) “ سے استفادہ ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ ” مطھر“ ) پاک قرار دئے گئے)افراد کے علاوہ کوئی بھی ”کتاب مکنون“ )لوح محفوظ) کو مس نہیں کرسکتا ہے، یعنی اس کے حقائق سے آگاہ نہیں ہوسکتا ہے۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس خصوصی طہارت کے حامل افراد کون لوگ ہیں اور ”مطھرون“ سے مرادکون لوگ ہیں کہ جو ” لوح محفوظ“ سے اطلاع حاصل کرتے ہیں؟

” مطھرون “سے مرادکون ہیں؟

کیا ” مطھرون“کی اصطلاح فر شتوں سے مخصوص ہے جیسا کہ بعض مفسرین نے اشارہ کیا ہے ۔(۱) یایہ کہ اس میں عمومیت ہے یعنی وہ افراد جو خدا کی جانب سے خصوصی طہارت کے حامل ہیں وہ بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر بحث کرنے کی ضرورت ہے:

حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت ، اور خدا کی جانب سے انھیں جانشین مقرر کیا جا نا نیز

____________________

۱۔جیسے ” روح المعانی“ ج ۲۷،۱۵۴،دار احیاء التراث العربی، بیروت

۲۴۶

”اسماء“الہی کا علم رکھنا یعنی ایک ایسی حقیقت سے آگاہی کہ جس کے بارے میں ملا ئکہ نے بھی لا علمی کا اظہار کیا۔ پھر حضرت آدم علیہ السلام کے لئے ملائکہ کو سجدے کا حکم دیناو غیرہ ان واقعات اور قرآنی آیات ۱ کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت معلوم ہو جاتی ہے کہ خاص علوم سے آگاہی اور تعلیم حاصل کرنے کی صلاحیت انسان کامل میں ملائکہ سے کہیں زیادہ ہے۔

مذکورہ ان صفات کے پیش نظر کوئی دلیل نہیں ہے کہ جملہ لا یمسہ الّا المطھرون کو فرشتوں سے مخصوص کیا جائے جبکہ قرآن مجید کے مطابق خدا کے ایسے منتخب بندے موجود ہیں جو خاص طہارت و پاکیزگی کے مالک ہیں۔

آیہ تطہیر اور پیغمبر کا محترم خاندان

( إنّمایریدالله ليذهب عنکم الرجس اٴهل البیت و یطهر کم تطهیرا )

) سورہ احزاب/ ۳۳)

” بس الله کا ارادہ ہے اے اہل بیت : کہ تم سے ہرطرح کی برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے“

یہ آیہ شریفہ دلالت کرتی ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خاندان خدا وندمتعال کی طرف سے ایک خاص اور اعلی قسم کی پاکیزگی کا مالک ہے۔ آیہ کریمہ میں ” تطھیرا“ کا لفظ مفعول مطلق نوعی ہے جو ایک خاص قسم کی طہارت و پاکیزگی کو بیان کرتا ہے۔

ہم یہاں پر اس آیہ شریفہ سے متعلق مفصل بحث کرنا نہیں چاہتے، اس لئے کہ آیت تطہیر سے مربوط باب میں اس پر مکمل بحث گزر چکی ہے، اور اس کا نتےجہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص)کے اہل بیت کہ جن میں سب سے نمایاں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام ہیں، اس آیہ شریفہ کے مطابق خداکی طرف سے خاص طہارت و پاکیزگی کے مالک ہیں اور

____________________

۱۔ سورہ بقرہ/۳۴۔۳۰

۲۴۷

”مطھرون“ میں شمار ہوتے ہیں ۔ وہ لوح محفوظ کے حقائق سے آگاہی رکھ سکتے ہیں۔

”آصف بر خیا“ اور کتاب کے کچھ حصہ کا علم

ہم جانتے ہیں کہ خدا وندمتعال نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو ایک ایسی وسیع سلطنت عطا کی تھی کہ انسانوں کے علاوہ جناّت اور پرندے بھی ان کے تابع تھے ۔ ایک دن جب جن وانس ان کے گرد جمع تھے حضرت سلیمان نے ان سے کہا: تم میں سے کون ہے جو بلقیس کے مسلمان ہونے سے پہلے اس کے تخت کو میرے پاس حاضر کردے؟جنّات میں سے ایک عفریت نے سلیمان نبی سے کہا:قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھے ہیں تخت کو آپ کے پاس حاضر کردوں گا۔ قرآن مجید فرماتا ہے(۱) ” کتاب کے کچھ حصہ کا علم رکھنے والے ایک شخص نے کہا: میں اتنی جلدی تخت بلقیس کو آپ کے پاس حاضر کردوں گا کہ آپ کی پلک بھی جھپکنے نہیں پائے گی اور اسی طرح اس نے حاضر کیا ۔

جیسا کہ مفسرین نے بیان کیا ہے کہ یہ کتاب ” لوح محفوظ “ہے اور ش یعہ و سنی احادیث کے مطابق مذکورہ شخص حضرت سلیمان کا وزیر ” آصف بر خیا“ تھا ۔ قرآن مجید سے استفادہ ہوتا ہے آصف کی یہ غیر معمولی اور حیرت انگیز طاقت وصلاحیت کتاب )لوح محفوظ) کے کچھ حصہ کا علم جاننے کے سبب تھی۔

واضح رہے کہ طہارت و پاکیزگی کے چند مراحل ہیں۔ جس قدر طہارت کامل تر ہوگی اسی اعتبار سے علم وقدرت میں بھی اضا فہ ہو گا۔

جب ہمیں آیہ کریمہ( لا یمسّه إلا المطهرون ) سے یہ معلوم ہوگیا کہ لوح محفوظ کے حقایق کا علم خدا کی خاص طہارت کے نتیجہ میں حاصل ہوتا ہے اور آیہ تطہیر نے اس خاص طہارت اور پاکیزگی کو اہل بیت علیہم السلام کے لئے ثابت کیا ہے، وہ بھی ایک ایسی تطہیر جو

____________________

۱۔سورہ نمل/۴۰

۲۔کچھ اردو قوال بھی ہیں کہ تفاسیر کی طرف رجوع کرنا چاہئے

۲۴۸

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تطہیر کے ہم پلہ ہے۔لہذا ان صفات کے پیش نظربعید نہیں ہے کہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام اور دوسرے ائمہ معصومین) علیہم السلام) لوح محفوظ کے تمام حقائق کا علم رکھتے ہوں اس لئے ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ ثعلبی کہ جو اھل سنت(۱) کے نزدیک تفسیر کے استاد نیزحافظ اور امام کے لقب سے یاد کئے جاتے ہیں اور اہل سنت کے ائمہ رجال(۲) کے مطابق جن کی روایتیں صحیح اورقابل اعتماد جانی جاتیں ہیں ، تفسیر”الکشف و البیان“(۳) میں اور حاکم حسکانی(۴) تفسیر شواہد التنزیل(۵) میں ، ابوسعید خدری، عبداللہ بن سلام اور ابن عباس جیسے چند اصحاب سے روایت کرتے ہیں کہ ”من عندہ علم الکتاب“سے مراد امیر المومنین علی، علیہ السلام ہیں۔

بلکہ ابو سعیدخدریاور عبداللهبن سلام سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا کہ ” من عندہ علم الکتاب“سے مراد کون ہے؟ جواب میں پیغمبر (ص)نے علی علیہ السلام کو” من عندہ الکتاب“کے مصداق کے طور پر پیش کیا۔ اسی مطلب کو )من عندہ علم الکتاب،سے مرادعلی علیہ السلام ہیں)سعید بن جبیر ،ابی صالح نیزمحمد بن حنفیہ سے بھی نقل کیا گیا ہے۔

اسی طرح کئی طریقوں سے نقل کیا گیا ہے کہ عبدالله بن عطاء کہ جو امام باقر علیہ السلام کے ہمراہ تھے، جب انھوں نے عبدالله بن سلام کے بیٹے کو دیکھا تو امام باقر علیہ السلام سے سوال کیا: کیا یہ )عبداللهبن سلام کا بیٹا) اس شخص کا بیٹا ہے جس کے پاس کتاب کا علم تھا؟ حضرت نے فرمایا: نہیں،”من عندہ علم الکتاب“سے مراد )عبداللهبن سلام نہیں ہے، بلکہ) امیر

____________________

۱۔اہل سنت کے علم رجال کے جلیل القدرامام ذہبی نے ” سیر اعلام النبلاء“ ج۱۷، ص۴۳۵ میں ثعلبی کے بارے میں کہا ہے : ” الامام الحافظ العلامة شیخ التفسیر“، ۲۔ عبدالغافر نیشابوری کتاب” تاریخ نیشاپوری“ ص۱۰۹ میں اس کے بارے میں کہتا ہے: الثقة الحافظو ہو صحیح النقل موثوق بہ، ۳۔ الکشف وا لبیان، ج۵، ص ۳۰۳۔۳۰۲، داراحیا التراث العربی، بیروت، ۴۔ذہبی کی عبادت کو ہم نے آیہ صادقین کی تفسیر میں اس کے متقن، محکم اسناد کے عالی ہونے کے سلسلہ میں ذکر کیا ہے۔ ملاحظہ ہو ۵۔” شواہد التنزیل“ با تحقیق شیخ محمد باقر محمود، ج۱، ص۴۰۰

۲۴۹

المؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام ہیں۔

اس کے علاوہ ابن شہر آشوب(۱) نے اپنی ”کتاب مناقب(۲) “ میں کہا ہے:

” محمدبن مسلم، ابوحمزہ ثمالی اور جابربن یزید نے امام باقر(علیہ السلام) سے اسی طرح علی بن فضل،فضیل بن یسار اور ابو بصیر نے امام صادق(علیہ السلام) سے نیز احمد بن محمدحلبی اور محمد بن فضیل نے امام رضا(علیہ السلام) سے روایت نقل کی ہے اور اس کے علاوہ موسی بن جعفر(علیہ السلام)، زیدبن علی، محمد بن حنفیہ، سلمان فارسی، ابوسعید خدری اور اسماعیل سدی سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں خداوند متعال کے قول:( کل کفی بالله شهیداً بینی و بینکم و من عنده علم الکتاب ) کے بارے میں کہا ہے کہ:”من عندہ علم الکتاب“سے مراد علی بن ابیطالب (علیہ السلام) ہیں۔“

شیعہ احادیث میں مختلف طریقوں سے آیا ہے کہ ” من عندہ علم الکتاب“سے مراد امیرالمومنین علی علیہ السلام اور دوسرے ائمہ معصو مین علیہم السلام ہیں۔ نمونہ کے طور پر مندرجہ ذیل حدیث پر غور فرماہئے: ثقة الاسلام کلینی نے اصول کافی(۳) میں معتبر سند سے بریدبن معاویہ سے کہ جو امام باقر علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے روایت کی ہے انھوں نے حضرت سے عرض کی:”آیہ کریمہ( قل کفی بالله شهیداً بینی و بینکم و من عنده علم الکتاب ) میں ”من عندہ علم الکتاب“ سے مراد کون ہے؟حضرت نے فرمایا:اس سے صرف ہم اھل بیت معصومین(ع) کا قصد کیا گیا ہے اور علی ) علیہ السلام) پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعدسب سے مقدم اورہم میں افضل ترین فرد ہیں۔

____________________

۱۔ ہم نے آیہ صادقین کی تفسیر میں اس )شہر آشوب) کی صداقت کے بارے میں ابن ابی طما کی زبانی زہبی کی ستائش بیان کی ہے۔

۲۔ مناقب، ابن شہر آشوب، ج۲، ص۲۹، موسسہ انتشارات علامہ قم،

۳۔ اصول کافی، ج۱،ص۱۷۹

۲۵۰

احادیث میں جس کے پاس کتاب کا علم ہے)علی بن ابیطالب علیہ السلام اور دوسرے ائمہ معصومین) اور جس کے پاس کتاب کا کچھ علم موجود ہے)آصف برخیا) کے در میان دلچسپ موازنہ کیا گیا ہے:

عن اٴبی عبد الله قال: ” الذي عنده علم الکتاب“ هو امیرالمؤمنین - علیه السلام - و سئل عن الذي عنده علم من الکتاب اٴعلم اٴم الذي عنده علم الکتاب؟ فقال: ما کان علم الّذي عنده علم من الکتاب عند الذي عنده علم الکتاب إلّا بقدر ما تاٴخذ البعوضة بجناحها من مائ البحر(۱)

یعنی: امام صادق) علیہ السلام) نے فرمایا:

”جس کے پاس کتاب کا علم تھا علی بن ابیطالب(علیہ السلام) تھے۔ سوال کیا گیا: کیا وہ شخص جس کے پاس کتاب کا کچھ علم تھا یعنی آصف برخیازیادہ عالم تھا یا وہ جس کے پاس مطلق کتاب کا علم تھا)یعنی حضرت علی علیہ السلام)امام نے فرمایا:جس کے پاس کتاب کا تھوڑا ساعلم تھا،اس کاموازنہ اس شخص سے کہ جس کے پاس مطلق کتاب کا علم تھا ایسا ہے جیسے مچھرکے بھیگے ہوئے پر کا موازنہ سمندرسے کیاجائے۔“

یہ بحث وگفتگواس بناپرتھی کہ جب”من عندہ علم الکتاب“میں ”کتاب“سے مرادلوح محفو ظ ہو۔لیکن اگر”الکتاب“سے مرادجنس کتاب ہو،اس بنا پرکہ” الف ولام“جنس کے لئے ہے اور کوئی خاص چیز مد نظرنہ ہوتوہرکتاب اس میں شامل ہو سکتی ہے حتی لوح محفوظ بھی اس کے مصادیق میں سے ایک ہوگا،اس میں گزشتہ آسمانی کتابیں اور قرآن مجید سبھی شامل ہیں۔

____________________

۱۔ نورالثقلیب،ج۴،ص۸۸۔۸۷

۲۵۱

اس صورت میں بھی”من عندہ علم الکتاب“سے مرادحضرت علی علیہ السلام ہی ہوں گے کیونکہ حضرت کالوح محفوظ کے حقائق سے آگاہ ہونا آیہ کریمہ”( لایمسه الّا المطهرون ) “کوآیہ تطہیرکے ساتھ ضمیمہ کرنے سے معلوم ہوجا تا ہے،اورحضرت کاقرآن مجید کے تمام ابعاد سے واقف ہو نابہت سی دلیلوں من جملہ حدیث ثقلین(۱) کے ذریعہ ثابت ہے۔

اس لئے اس حدیث شریف میں آیا ہے کہ پیغمبراکرم )صلی الله علیہ و آلہ وسلم )کے اہل بیت )علیہم السلام)ہرگزقرآن مجید سے جدا نہیں ہوں گے اور یہ حضرت علی علیہ السلام کے قرآن مجید کے تمام علوم سے آگاہی رکھنے کی دلیل ہے۔ کیونکہ اگرحضرت قرآن مجید کے کسی پہلوکو نہیں جانتے ہیں تو گو یاوہ اس اعتبار سے قرآن مجید سے اتنا دور ہو گئے ہیں اور یہ حدیث میں بیان کئے گئے مطلب کے خلاف ہے۔

آسمانی کتا بوں کے متعلق حضرت علی علیہ السلام کے علم کے بارے میں شیعہ اور اہل سنت کی احا دیث کی کتا بوں میں ایا ہے، من جملہ مندرجہ ذیل حدیث سے جوخود حضرت سے نقل کی گئی ہے:

لو ثنّیت لي الوسادة لحکمت بین اٴهل التوراة بتوراتهم، و بین اٴهل الإنجیل بإنجیلهم، و بین اٴهل الزبور بزبورهم(۲)

”اگر میرے لئے مسند قضا بچھادی جائے تو میں اہل توریت کے لئے توریت سے، اہل انجیل کے لئے انجیل سے اور اہل زبو ر کے لئے زبور سے فیصلہ کروں گا۔“

____________________

۱۔ سنن الترمذی،ج۵ص۶۲۲ مسنداحمد،ج۳،ص۱۴،۱۷،۲۶،۹۵وج۵،ص۱۸۹۔۱۸۸خصائص امیرالمؤمنین علی نسائی ص ۸۵۔۸۴

۲۔فرائد السمطن،ج۱،ص۳۴۱۔۹۳۳۔شواہد التنزیل ج۱،ص۳۶۶،ح۳۸۴

۲۵۲

منابع کی فہرست

(الف)

۱ ۔القرآن الکریم

۲ ۔ الاتقان،سیوطی، ۹۱۱ ئھ-،دار ابن کثیر، بیروت، لبنان

۳ ۔ احقاق الحق، قاضی سید نورالله تستری، شہادت ۱۰۱۹ ئہ-

۴ ۔ احکام القرآن، جصاص،ت ۷۳۰ ئہ-، دارالکتاب العربی، بیروت

۵ ۔ احکام القرآن، ابوبکر ابن العربی المعافري، ت ۵۴۶ ئہ-

۶ ۔ اربعین، محمد بن ابی الفوارس، مخطوط کتابخانہ آستان قدس، رقم ۸۴۴۳

۷ ۔ ارجح المطالب، عبدالله الحنفي، ت ۱۳۸۱ ئہ-، طبع لاہور )بہ نقل احقاق الحق)

۸ ۔ ارشاد العقل السلیم، ابو السعود، ت ۹۵۱ ء، داراحیاء التراث العربی،بیروت، لبنان

۹ ۔ اسباب النزول،و احدی النیسابوری، ت ۴۶۸ ئہ-، دارالکتاب العلمیة، بیروت، لبنان

۱۰ ۔ اسد الغابة فی معرفة الصحابة، ابن اثیر،ت ۶۳۰ ئہ- داراحیائ التراث العر بی،بیروت،لبنان

۱۱ ۔ الإصابة فی تمییز الصحابة، احمد بن علی، ابن حجر عسقلانی،ت ۸۵۲ ئہ-، دارالفکر

۱۲ ۔ اضوائ البیان،شنقیطی،ت ۳۹۳ ئہ-، عالم الکتب، بیروت

۱۳ ۔اعیان الشیعة، سیدمحسن الامین، ت حدود ۱۳۷۲ ئہ-،دارالتعارف للمطبوعات، بیروت

۱۴ ۔ الامامة و السیاسة، ابن قتیبة دینوری، ت ۲۷۶ ء ہ-، منشورات الشریف الرضی،قم

۱۵ ۔انساب الاشراف،احمد بن یحیی بلاذری،ت ۲۷۹ ئہ-،دارالفکر

۱۶ ۔ایضاح المکنون، اسماعیل باشا،ت ۴۶۳ ئہ-، دارالفکر

۲۵۳

(ب)

۱۷ ۔ بحار الانوار، محمد باقر مجلسی، ت ۱۱۱۱ ئہ- مؤسسة الوفاء، بیروت

۱۸ ۔ بحر العلوم، نصر بن محمد سمرقندی، ت ۳۷۵ ئہ-، دارالکتب العلمیة،بیروت

۱۹ ۔ البحر المحیط، ابوحیان اندلسی، ت ۷۵۴ ء،المکتبة التجاریة

احمد الباز، مکة المکرمة

۲۰ ۔ البدایة و النہایة، ابن کثیر الدمشقی،ت ۷۷۴ ئہ-،دارالکتب العلمیة، بیروت

۲۱ ۔ البرہان، سید ہاشم بحرانی، ت ۱۱۰۷ ئہ-، مؤسسہ مطبوعاتی اسماعیلیان

۲۲ ۔ البہجة المرضیة، سیوطی، ت ۹۱۱ ئہ-، مکتب المفید)ت)

۲۳ ۔ التاج الجامع للاصول، منصور علی ناصف، ت ۱۳۷۱ ئہ-، دار احیائ التراث العربی، بیروت

۲۴ ۔ تاج الفردوس، محمد مرتضی حسینی زبیدی، ت ۱۲۵۰ ء ہ-، دار الہدایة للطباعة والنشر و التوزیع، دارمکتبة الحیاة، بیروت

۲۵ ۔ تاریخ الاسلام، شمس الدین ذہبی، ت ۷۴۸ ئہ-، دارالکتاب العربی

۲۶ ۔ تاریخ بغداد، احمد بن علی خطیب بغدادی، ت ۴۶۳ ء ہ-، دارالفکر

۲۷ ۔ تاریخ طبری، محمد بن جریر طبری،ت ۳۱۰ ئہ-، مؤسسة عزالدین للطباعة والنشر، بیروت، لبنان

۲۸ ۔ تاریخ مدینة دمشق، ابن عساکر، ت ۵۷۱ ئہ-، دارالفکر، بیروت

۲۹ ۔ تاریخ نیسابور، عبدالغافر نیشابوری،ت ۵۲۹ ہ-

۳۰ ۔ تذکرة الحفّاظ، ذہبی، ت ۷۴۸ ئہ-، دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان

۳۱ ۔ تذکرة الخواص، سبط بن جوزی ت ۶۵۴ ئہ-، چاپ نجف

۳۲ ۔التسہیل لعلوم التنزیل، ابن حزی الکلبی، ت ۲۹۲ ئہ-، دارالکتاب العربی، بیروت

۳۳ ۔ تفسیر ابن ابی حاتم، عبد الرحمن بن محمد بن ادریسی الرازی، ت ۳۲۷ ہ-، المکتبة المصریة، بیروت

۳۴ ۔ تفسیر البیضاوی، قاضی بیضاوی،ت ۷۹۱ ئہ-

۲۵۴

۳۵ ۔ تفسیر الخازن )لباب التاویل)، علاء الدین بغدادی، ت ۷۲۵ ئہ-، دارالفکر

۳۶ ۔ تفسیر علی بن ابراہیم قمی، متوفی اواخر قرن سوم ہ-، مطبعہ نجف

۳۷ ۔ تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر، ت ۷۷۴ ئہ-، دارالمعرفة، بیروت

۳۸ ۔ التفسیر الکبیر، فخر رازی، ت ۶۰۶ ئہ-، دار احیائ التراث العربی بیروت، لبنان

۳۹ ۔ تفسیر الماوردی، محمد بن حبیب ماوردی بصری، متوفی ۴۵۰ ہ-، دارالمعرفة، بیروت

۴۰ ۔ تفسیر النسفی )مدارک التنزیل وحقائق التاویل) حاشیہ تفسیر خازن، عبدالله النسفی،ت ۷۱۰ ئہ-، دارالفکر

۴۱ ۔ تفسیر المنار، رشید رضا،ت ۱۳۵۴ ئہ-، دارالمعرفة، بیروت

۴۲ ۔ تلخیص المستدرک، ذہبی، ت ۷۴۸ ئہ-،دارالمعرفة، بیروت

۴۳ ۔ تہذیب التہذیب، ابن حجر عسقلانی، ت ۸۵۲ ئہ-، دارالفکر

۴۴ ۔تہذیب الکمال، مزّی، ت ۷۴۲ ئہ-، مؤسسة الرسالة، بیروت

(ج)

۴۵ ۔جامع الاحادیث، سیوطی،ت ۹۱۱ ئہ-، دارالفکر

۴۶ ۔جامع البیان، محمد بن جریر طبری، ت ۳۱۰ ئہ-، دارالمعرفة، بیروت، لبنان

۴۷ ۔جامع احکام القرآن، قرطبی، ت ۶۷۱ ئہ-،دارالفکر

۴۸ ۔ الجامع الصحیح الترمذی، محمد بن عیسی ت ۲۷۹ ئہ-، دارالفکر

۴۹ ۔جمع الجوامع، سیوطی، ت ۹۱۱ ئہ-

۵۰ ۔جمہرةاللغة،ابن درید،ت ۳۲۱ ئہ-

۵۱ ۔الجواہر الحسان ابوزید الثعالبی ت ۸۷۶ ء ہ-، داراحیاء التراث العربی، بیروت

۵۲ ۔ جواہر العقدین، سمہودی، ت ۹۱۱ ئہ-، دارالکتب العلمیة، بیروت

۲۵۵

(ح)

۵۳ ۔الحاوی للفتاوی سیوطی، ت ۹۱۱ ئہ-، مکتبة القدس قاہرة)بہ نقل احقاق الحق)

۵۴ ۔حاشیة الشہاب علی تفسیر البیضاوی احمد خفاجی مصری حنفی، ت ۱۰۶۹ ئہ-،دار احیائ التراث العربی، بیروت

۵۵ ۔حاشیہ الصاوی علی تفسیر الجلالین، شیخ احمد الصاوی المالکی، ت ۱۲۴۱ ئہ-، دارالفکر

۵۶ ۔حلیة الاولیاء، ابونعیم اصفہانی، ت ۴۳۰ ئہ-، دارالفکر

(خ)

۵۷ ۔ خصائص امیرالمؤمنین علیہ السلام، احمد بن شعیب نسائی ت ۳۰۳ ئہ-، دارالکتاب العربی

۵۸ ۔خصال، محمد بن علی بن بابویہ قمی)صدوق)، ت ۳۸۱ ئہ-، دفتر انتشارات اسلامی

(س)

۵۹ ۔سفینة البحار، شیخ عباس قمی ت ۱۳۵۹ ئہ-، انتشارات کتابخانہ محمودی

۶۰ ۔السنن الکبری، ابوبکر احمد بن حسین بیہقی، ت ۴۵۸ ئہ-، دارالمعرفة، بیروت، لبنان

۶۱ ۔السنن الکبری، نسائی، ت ۳۰۳ ئہ-، دارالکتب العلمیة، بیروت

۶۲ ۔سیر اعلام النبلاء، ذہبی، ت ۷۴۸ ئہ-، مؤسسة الرسالة، بیروت، لبنان

۶۳ ۔ السیرة النبویة و الآثار المحمدیة )حاشیة السیرة الحلویة)، سیدزینی دحلان، ت ۱۳۰۴ ئہ-، دار احیائ التراث العربی، بیروت، لبنان

۶۴ ۔ السیرة النبویة، ابن ہشام،ت ۲۱۸ ئہ-، داراحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان

۲۵۶

(ش)

۶۵ ۔شرح التجرید، قوشجی، ت ۸۷۹ ئہ-

۶۶ ۔شرح السنة، بغوی، ت ۵۱۰ ئہ-، المکتب الاسلامی، بیروت

۶۷ ۔ شرح المقاصد، تفتازانی، ت ۷۹۳ ئہ-،منشورات الشریت الرضی

۶۸ ۔شرح المواقف،جرجانی،ت ۸۱۲ ئئئہ-، منشورات الشریف الرضی

۶۹ ۔ شرح التنزیل، حاکم حسکانی، ت اواخر القرن الخامس، مؤسسة الطبع و النشر

(ص)

۷۱ ۔صحاح اللغة، جوہری، ت ۳۹۳ ئہ-

۷۲ ۔صحیح ابن حبان، محمد بن حبان بستی، ت ۳۵۴ ئہ-، مؤسسة الرسالة

۷۳ ۔ صحیح بخاری، محمد بن اسماعیل بخاری، ت ۲۵۶ ئہ-، دارالقلم، بیروت، لبنان-دارالمعرفة، بیروت،لبنان

۷۴ ۔ صحیح مسلم، مسلم بن حجاج نیشابوری، ت ۲۶۱ ئہ-، مؤسسة عز الدین للطباعة و النشر، بیروت، لبنان

۷۵ ۔ الصلاة و البشر،فیروز آبادی ،ت ۸۱۷ ئھجری دارالکتب العلمیہ،بیروت،لبنان۔

۷۶ ۔الصواعق المحرقة، ابن حجر ہیتمی،ت ۹۵۴ ئہ-،مکتبة القاہرة

(ط)

۷۷ ۔ الطبقات الکبری، ابن سعد، ت ۲۳۰ ئہ-،داربیروت للطباعة والنشر

۷۸ ۔ الطرائف، علی بن موسی بن طاووس،ت ۶۶۲ ئہ-، مطبعة الخیام،قم

(ع)

۷۹ ۔العمدة، ابن بطریق، ت ۵۳۳ ئہ-، مؤسسة النشرالاسلامی

۸۰ ۔عوالم العلوم، سید ہاشم بحرانی، ت ۱۱۰۷ ئہ-، مؤسسة الامام المہدی علیہ السلام

۸۱ ۔عیون خبارالرضا، صدوق، ت ۳۸۱ ئہ-

۲۵۷

(غ)

۸۲ ۔غایة المرام، سید ہاشم بحرانی،ت ۱۱۰۷ ئہ-

۸۳ ۔غرائب القرآن،نیشابوری ت ۸۵۰ ئہ-، دارالکتب العلمیة بیروت

۸۴ ۔فتح الباری، ابن حجر العسقلانی، ت ۸۵۲ ئہ-

۸۵ ۔ فتح القدیر، شوکانی، ت ۱۲۵۰ ئہ-، داراکتاب العلمیة بیروت لبنان

۸۶ ۔فرائد السمطین، ابراہیم بن محمد بن جوینی،ت ۷۲۲ ئہ-، مؤسسة المحمودی للطباعة والنشر، بیروت

۸۷ ۔الفصول المہمة، ابن صباغ مالکی،ت ۸۵۵ ئہ-

۸۸ ۔فضائل الصحابة، سمعانی، ت ۵۶۲ ئہ-

(ق)

۸۹ ۔القاموس المحیط، فیروزآبادی،ت ۸۱۷ ئہ-، دارالمعرفة، بیروت

۹۰ ۔قواعد فی علوم الحدیث، ظفر احمد تہانوی شافعی، تحقیق ابوالفتاح ابوغدة

(ک)

۹۱ ۔ الکافی، کلینی، ت ۳۲۹ ئہ-، دارالکتب الاسلامیة

۹۲ ۔کتاب الثقات، ابن حبان، ت ۳۵۴ ء ہ-، مؤسسة الکتب الثقافیة، بیروت

۹۳ ۔کتاب العین، خلیل بن احمد فراہیدی، ت ۱۷۵ ئہ-، مؤسسة دارالہجرة

۹۴ ۔الکشاف، زمخشری، ت ۵۸۳ ئہ-، دارالکتاب العربی، بیروت

۹۵ ۔الکشف و البیان، ثعلبی نیسابوری، ت ۴۲۷ ئیا ۴۳۷ ئہ-، داراحیائ التراث العربی،بیروت، لبنان

۹۶ ۔ کفایة الطالب، محمد بن یوسف گنجی شافعی، ت ۶۵۸ ئہ-، داراحیائ تراث اہل البیت

۹۷ ۔کمال الدین، محمد بن علی بن بابویہ، ت ۳۸۱ ئہ-

۹۸ ۔کنز العمال، متقی ہندی، ت ۹۷۵ ئہ-، مؤسسة الرسالة، بیروت

۲۵۸

(ل)

۹۹ ۔اللباب فی علوم الکتاب، عمر بن علی بن عادل الدمشقی الحنبلی، متوفی بعد ۸۸۰ ئہ-، دار الکتب العلمیة، بیروت

۱۰۰ ۔لسان العرب، ابن منظور، ت ۷۱۱ ئہ-، دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان

(م)

۱۰۱ ۔ما نزل من القرآن فی علی،ابوبکر الشیرازی، ت ۴۰۷ ئہ-

۱۰۲ ۔ ما نزل من القرآن فی علی، ابو نعیم اصفہانی، ت ۴۳۰ ئہ- )بہ نقل احقاق)

۱۰۳ ۔المتفق و المتفرق خطیب بغدادی، ت ۴۶۳ ئہ-)بہ واسطہ کنزالعمال)

۱۰۴ ۔ مجمع البحرین، طریحی، ت ۱۰۸۵ ئہ-، دفتر نشر فرہنگ اسلامی

۱۰۵ ۔مجمع البیان،طبرسی، ت ۵۶۰ ئہ-، دارالمعرفة،بیروت

۱۰۶ ۔ مجمع الزوائد،ہیثمی، ت ۸۰۷ ئہ-،دارالکتاب العربی-دارالفکر، بیروت

۱۰۷ ۔المستدرک علی الصحیحین،حاکم نیشابوری، ت ۴۰۵ ئہ-، دارالمعرفة، بیروت

۱۰۸ ۔مسند ابی داوود طیالسی،ت ۲۰۴ ئہ-،دارالکتاب اللبنانی

۱۰۹ ۔مسند ابی یعلی موصلی،ت ۳۰۷ ئہ-

۱۱۰ ۔مسند احمد،احمد بن حنبل،ت ۲۴۱ ئہ-، دارصادر،بیروت-دارالفکر

۱۱۱ ۔مسند اسحاق بن راہویہ، ت ۲۳۸ ئہ-،مکتبة الایمان، مدینة المنورة

۱۱۲ ۔مسند عبد بن حمید،ت ۲۴۹ ئہ-، عالم الکتب

۱۱۳ ۔مشکل الآثار، طحاوی، ت ۳۲۱ ئہ-،ط مجلس دائرة المعارف النظامیة بالہند

۱۱۴ ۔ المصباح المنیر احمد فیومی، ت ۷۰ ء ۷ ہ- طبع مصطفی البابی الحلبی و اولادہ بمصر

۱۱۵ ۔مصباح الہدایة، بہبہانی، ط سلمان فارسی،قم

۱۱۶ ۔المصنف،ابن ابی شیبة،ت ۲۳۵ ئہ-

۲۵۹

۱۱۷ ۔مطالب السؤول ابن طلحة نصیبی شافعی، ت ۶۵۲ ئہ-

۱۱۸ ۔معالم التنزیل، بغوی،ت ۲۱۰ ئہ-

۱۱۹ ۔المعجم الاوسط، طبرانی،ت ۳۶۰ ئہ-،مکتبة المعارف الریاض

۱۲۰ ۔المعجم الصفیر، طبرنی، ت ۳۶۰ ئہ-

۱۲۱ ۔المعجم الکبیر، طبرانی،ت ۳۶۰ ئہ-

۱۲۲ ۔ المعجم المختص بالمحدثین، ذہبی، ت ۷۴۸ ئہ-، مکتبة الصدیق سعودی

۱۲۳ ۔معجم مقاییس اللغة، ابن فارسی بن زکریا القزوینی الرازی،ت ۳۹۰ ہ-

۱۲۴ ۔معرفة علوم الحدیث، حاکم نیشابوری، ت ۴۰۵ ئہ-، دارالکتب العلمیة، بیروت

۱۲۵ ۔المعرفة والتاریخ، یعقوب بن سفیان بن بسوی،ت ۲۷۷ ئہ-

۱۲۶ ۔مغنی اللبیب، ابن ہشام،ت ۷۶۱ ئ ہ-، دارالکتب العلمیة، بیروت

۱۲۷ ۔المفردات،راغب اصفہانی،ت ۵۰۲ ئہ-

۱۲۸ ۔مقتل الحسین، خوارزمی، ت ۵۶۸ ئہ-، مکتبة المفید

۱۲۹ ۔المناقب،موفق بن احمد خوارزمی،ت ۵۶۸ ئہ-

۱۳۰ ۔مناقب ابن مغازلی شافعی،ت ۴۸۳ ئہ-،المکتبة الاسلمة

۱۳۱ ۔مناقب آل ابی طالب، ابن شہر آشوب،ت ۵۸۸ ئہ-،ذوالقربی

۱۳۲ ۔منتہی الارب عبدالرحیم بن عبدالکریم الہندی ت ۱۲۵۷ ئہ-

۱۳۳ ۔المیزان، محمد حسین طباطبائی، ت ۱۴۰۲ ئہ-، دارالکتب الاسلامیة

۱۳۴ ۔میزان الاعتدال، ذہبی، ت ۷۴۸ ئہ-، دارالفکر

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271