امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت28%

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت مؤلف:
زمرہ جات: امامت
صفحے: 271

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 271 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 114744 / ڈاؤنلوڈ: 4269
سائز سائز سائز
امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

پہلامحور

آیہء مباہلہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ

پہلی بحث یہ کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مباہلہ کے سلسلہ میں اپنے ساتھ لے جانے کے لئے کن افرادکودعوت دینی چاہئے تھی،اس سلسلہ میں ایہء شریفہ میں غوروخوض کے پیش نظردرج ذیل چندمسائل ضروری دکھائی دیتے ہیں:

الف:”ابنائنا“اور”نسائنا“سے مرادکون لوگ ہیں؟

ب:”انفسنا“کامقصودکون ہے؟

۔۔۔( تعالوا ندع اٴبنائناو اٴبنا ئکم ) ۔۔۔

ابناء ابن کاجمع ہے یعنی بیٹے،اورچونکہ”ابناء کی“ضمیرمتکلم مع الغیر یعنی ”نا“ کی طرف نسبت دی گئی ہے(۱) اوراس سے مرادخودآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں،اس لئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوکم ازکم تین افراد،جوان کے بیٹے شمارہوں،کومباہلہ کے لئے اپنے ہمراہ لاناچاہئے۔

۔۔۔( ونسائنا ونسائکم ) ۔۔۔

”نساء“اسم جمع ہے عورتوں کے معنی میں اورضمیرمتکلم مع الغیر یعنی ”نا“کی طرف اضافت دی گئی ہے۔اس کاتقاضایہ ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے گھرانے میں موجود تمام عورتوں(چنانچہ جمع مضاف کی دلالت عموم پرہوتی ہے) یاکم ازکم تین عورتوں کو)جوکم سے

____________________

۱۔اس آیہء شریفہ میں استعمال کئے گئے متکلم مع الغیر والی ضمیریں،معنی کے لحاظ سے یکساں نہیں ہیں۔”ندع“میں پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورطرف مباہلہ وآنحضرت علیہ السلام یعنی نصاریٰ مقصودہے،اور”ابناء“،”نساء“و”انفس“اس سے خارج ہیں۔اور”ابنائنا،”نسائنا“اور”انفسنا“میں خودپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقصودہیں اورطرف مباہلہ اورابناء،نسائ اور انفس بھی اس سے خارج ہیں۔”نبتھل“ میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور طرف مباہلہ اور ابناء،نساء اورانفس سب داخل ہیں۔

۴۱

کم جمع کی مقدار اور خاصیت ہے)مباہلہ کے لئے اپنے ساتھ لاناچاہئے۔

اس بحث میں قابل ذکرہے،وہ”ابنائناونسائناوانفسنا“کی دلالت کااقتضاہے اوربعدوالے جوابات محورمیں جومباہلہ کے ھدف اورمقصدپربحث ہوگی وہ بھی اس بحث کاتکملہ ہے۔

لیکن”ابناء“اور”نساء“کے مصادیق کے عنوان سے کتنے اورکون لوگ مباہلہ میں حاضرہوئے،ایک علیحدہ گفتگوہے جس پرتیسرے محورمیں بحث ہوگی۔

( وانفسنا وانفسکم ) ۔۔۔

انفس،نفس کی جمع ہے اورچونکہ یہلفظ ضمیرمتکلم مع الغیر”نا“(جس سے مقصودخودآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات ہے)کی طرف مضاف ہے،اس لئے اس پر دلالت کرتاہے کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو)جمع کے اقتضاکے مطابق)کم ازکم تین ایسے افراد کومباہلہ کے لئے اپنے ساتھ لاناچاہئے جوآپ کے نفس کے زمرے میں آتے ہوں۔ کیا”انفسنا“خودپیغمبراکرم) ص)پرقابل انطباق ہے؟

اگر چہ”انفسنا“ میں لفظ نفس کا اطلاق اپنے حقیقی معنی میں صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نفس مبارک پرہے،لیکن آیہء شریفہ میں موجود قرائن کے پیش نظر”انفسنا“میں لفظ نفس کوخودآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پراطلاق نہیں کیاجاسکتا ہے اور وہ قرائن حسب ذیل ہیں:

۴۲

۱ ۔”انفسنا“جمع ہے اورہرفرد کے لئے نفس ایک سے زیادہ نہیں ہوتاہے۔

۲ ۔جملہء( فقل تعالواندع ) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کواس کے حقیقی معنی میں دعوت دینے کاذمہ دارقراردیتا ہے اورحقیقی دعوت کبھی خودانسان سے متعلق نہیں ہوتی ہے،یعنی انسان خودکودعوت دے،یہ معقول نہیں ہے۔

اس بنائ پر،بعض لوگوں نے تصورکیاہے کہ”فطوّعت لہ نفسہ“یا”دعوت نفسی“جیسے استعمال میں ”دعوت“)دعوت دینا )جیسے افعال نفس سے تعلق پیداکرتے ہیں۔یہ اس نکتہ کے بارے میں غفلت کانتیجہ ہے کہ یہاں پریا تو یہ”نفس“خودانسان اوراس کی ذات کے معنی میں استعمال نہیں ہواہے،یا”دعوت سے مراد “(دعوت دینا)حقیقی نہیں ہے۔بلکہ”فطوّعت لہ نفسہ قتل اخیہ“کی مثال میں نفس کامقصودانسان کی نفسانی خواہشات ہے اوراس جملہ کا معنی یوں ہے ”اس کی نفسانی خواہشات نے اس کے لئے اپنے بھائی کوقتل کرناآسان کردیا“اور”دعوت نفسی“کی مثال میں مقصوداپنے آپ کوکام انجام دینے کے لئے مجبوراورآمادہ کرناہے اوریہاں پردعوت دینا اپنے حقیقی معنی میں نہیں ہے کہ جونفس سے متعلق ہو۔

۳ ۔”ندع“اس جہت سے کہ خودپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرمشتمل ہے اس لئے نفس پردلالت کرتاہے اوریہ ضروری نہیں ہے،کہ دوسروں کودعوت دینے والا خودمباہلہ کا محورہو،اوروہ خودکوبھی دعوت دے دے۔

۴۳

دوسرامحور:

مباہلہ میں اہل بیت رسول (ص)کے حاضر ہونے کامقصد

پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوکیوں حکم ہوا کہ مباہلہ کر نے کے واسطے اپنے خاندان کوبھی اپنے ساتھ لائیں،جبکہ یہ معلوم تھاکہ مباہلہ دوفریقوں کے درمیان دعویٰ ہے اوراس داستان میں ایک طرف خودپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور دوسری طرف نجران کے عیسائیوں کے نمائندے تھے؟

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک ترین رشتہ داروں کے میدان مباہلہ میں حاضر ہونے کامقصدصرف آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات سچی ہونے اوران کی دعوت صحیح ہونے کے سلسلہ میں لوگوں کواطمینان ویقین دکھلانا تھا،کیونکہ انسان کے لئے اپنے عزیز ترین اشخاص کو اپنے ساتھ لاناصرف اسی صورت میں معقول ہے کہ انسان اپنی بات اوردعویٰ کے صحیح ہونے پرمکمل یقین رکھتاہو۔اوراس طرح کااطمینان نہ رکھنے کی صورت میں گویا اپنے ہاتھوں سے اپنے عزیزوں کوخطرے میں ڈالناہے اورکوئی بھی عقلمند انسان ایسااقدام نہیں کرسکتا۔

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام رشتہ داروں میں سے صرف چنداشخاص کے میدان مباہلہ میں حاضرہونے کے حوالے سے یہ توجیہ صحیح نہیں ہوسکتی ہے،کیونکہ اس صورت میں اس خاندان کامیدان مباہلہ میں حاضرہونااور اس میں شرکت کرناان کے لئے کسی قسم کی فضیلت اورقدرمنزلت کاباعث نہیں ہوسکتاہے،جبکہ آیہء شریفہ اوراس کے ضمن میں بیان ہونے والی احادیث میں غوروخوض کرنے سے معلوم یہ ہوتاہے کہ اس ماجرامیں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ جانے والوں کے لئے ایک بڑی فضیلت ہے۔

۴۴

اہل سنت کے ایک بڑے عالم علامہ زمخشری کہتے ہیں:

وفیه دلیل لاشیئ اقویٰ منه علی فضله اصحاب الکساء(۱)

”آیہء کریمہ میں اصحاب کساء)علیہم السلام)کی فضیلت پرقوی ترین دلیل موجود ہے“

آلوسی کاروح المعانی میں کہناہے:

و دلالتها علی فضل آل اللّٰه و رسوله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ممّا لایمتری فیهامؤمن والنصب جازم الایمان(۲)

”آیہ کریمہ میں ال پیغمبر (ص)کہ جو آل اللہ ہیں ان کی فضیلت ہے اوررسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی فضیلت،ایسے امور میں سے ہے کہ جن پرکوئی مؤمن شک و شبہ نہیں کر سکتا ہے اور خاندان پیغمبر (ص)سے دشمنی اور عداوت ایمان کونابودکردیتی ہے“

اگرچہ آلوسی نے اس طرح کی بات کہی ہے لیکن اس کے بعد میں آنے والی سطروں میں اس نے ایک عظیم فضیلت کو خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے موڑ نے کی کوشش کی ہے۔(۳)

اب ہم دیکھتے ہیں کہ خداوند متعال نے کیوں حکم دیاکہ اہل بیت علہیم السلام پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ مباہلہ کر نے کے لئے حاضر ہوں؟اس سوال کے جواب کے لئے ہم پھرسے آیہء شریفہ کی طرف پلٹتے ہیں ۔۔۔( فقل تعالوا ندع اٴبناء ناو اٴبناء کم و نساء نا و نسائکم واٴنفسنا واٴنفسکم ثمّ نبتهل فنجعل لعنة اللّٰه علی الکاذبین )

آیہء شریفہ میں پہلے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے’ابناء“،”نسا ء“ اور”انفس“کودعوت دینااورپھردعاکرنااورجھوٹوں پرخداکی لعنت قراردینابیان ہواہے۔

____________________

۱۔تفسیرالکشاف،ج۱،ص۳۷۰،دارالکتاب العربی ،بیروت۔

۲۔روح المعانی،ج۳،ص۱۸۹،دارئ احیائ التراث العربی ،بیروت۔

۳۔اس کے نظریہ پراعتراضات کے حصہ میں تنقید کریں گے۔

۴۵

آیہء مباہلہ میں اہل بیت رسول)ص)کی فضیلت وعظمت کی بلندی

مفسرین نے کلمہ”ابتھال“کودعامیں تضرع یانفرین اورلعنت بھیجنے کے معنی میں لیاہے اوریہ دونوں معنی ایک دوسرے سے منا فات نہیں رکھتے ہیں اور”ابتھال“کے یہ دونوں معافی ہوسکتے ہیں۔

آیہء شریفہ میں دوچیزیں بیان کی گئی ہیں،ایک ابتھال جو”نبتھل“کی لفظ سے استفادہ ہو تاہے اوردوسرے ”ان لوگوں پرخدا کی لعنت قراردیناجواس سلسلہ میں جھوٹے ہیں“( فنجعل لعنةالله علی الکاذبین ) کاجملہ اس پردلالت کرتاہے اوران دونوں کلموں میں سے ہرایک کے لئے خارج میں ایک خاص مفہوم اورمصداق ہے دوسرا فقرہ جوجھوٹوں پرخداکی لعنت قراردیناہے پہلے فقرے ابتہال پر”فاء“کے ذریعہ کہ جو تفریع اور سببیت کے معنی میں ہے عطف ہے۔

لہذا،اس بیان کے پیش نظرپیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورآپ کے اہل بیت علیہم السلام کا تضرع)رجوع الی اللہ)ہے اورجھوٹوں پرخداکی لعنت اورعقوبت کامرتب ہونا اس کامعلول ہے،اوریہ ایک بلند مقام ہے کہ خداکی طرف سے کافروں کوہلاک کرنااورانھیں سزادیناپیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورآپ کے اہل بیت علیہم السلام کے ذریعہ انجام پائے۔یہ مطلب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت)علیہم السلام)کی ولایت تکوینی کی طرف اشارہ ہے،جوخداوندمتعال کی ولایت کے برابر ہے۔

اگرکہاجائے کہ:( فنجعل لعنةالله ) میں ”فاء“اگرچہ ترتیب کے لئے ہے لیکن ایسے مواقع پر”فاء“کے بعدوالاجملہ اس کے پہلے والے جملہ کے لئے مفسرقرار پاتاہے اور وہ تر تیب کہ جس پر کلمہ ”فاء“ دلالت کرتا ہے وہ تر تیب ذکری ہے جیسے:

( ونادیٰ نوح ربّه فقال ربّ إنّ ابنی من اٴهلی ) )ہود/۴۵)

”اورنوح نے اپنے پروردگارکو آواز دی کہ پروردگارامیرافرزندمیری اہل سے ہے۔“

۴۶

یہاں پرجملہء”فقال۔۔۔“جملہ ”فنادیٰ“ کوبیان )تفسیر)کرنے والاہے۔جواب یہ ہے:

اولاً:جس پرکلمہ”فاء“دلالت کرتاہے وہ ترتیب وتفریع ہے اوران دونوں کی حقیقت یہ ہے کہ”جن دوجملوں کے درمیان”فاء“نے رابطہ پیداکیاہے،ان دونوں جملوں کا مضمون ہے کہ دوسرے جملہ کامضمون پہلے جملہ پرمترتب ہے“

اوریہ”فاء“کاحقیقی معنی اورتفریع کالازمہ ہے۔یعنی ترتیب ذکری پر”فاء“کی دلالت اس کے خارج میں دومضمون کی ترتیب کے معنی میں نہیں ہے،بلکہ لفظ اور کلام میں ترتیب ہے لہذا اگراس پرکوئی قرینہ مو جودنہ ہوتوکلام کواس پرحمل نہیں کر سکتے۔اس صورت میں ایہء شریفہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان کے لئے ایک عظیم مر تبہ پردلالت رہی ہے کیونکہ ان کی دعاپیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعا کے برابرہے اورمجموعی طور پریہ دعااس واقعہ میں جھوٹ بولنے والوں پر ہلاکت اورعذاب ا لہٰی نازل ہو نے کا باعث ہے۔

دو سرے یہ کہ:جملہء”فنجعل لعنة اللّٰہ“میں مابعد”فاء“جملہء سابق یعنی ”نبتھل“کے لئے بیّن اورمفسّرہونے کی صلاحیت نہیںرکھتاہے،کیونکہ دعاکرنے والے کا مقصدخداسے طلب کر ناہے نہ جھوٹوں پرلعنت کر نا۔اس صفت کے پیش نظراس کو لعنت قرار دینا )جو ایک تکوینی امر ہے) پہلے پیغمبراسلام (ص)اورآپکے اہل بیت علیہم السلام سے مستندہے اوردوسرے”فاء“تفریع کے ذریعہ ان کی دعاپر متو قف ہے۔گویااس حقیقت کا ادراک خودنجران کے عیسائیوں نے بھی کیاہے۔اس سلسلہ میں ہم فخررازی کی تفسیر میں ذکرکئے گئے حدیث کے ایک جملہ پرتوجہ کرتے ہیں:

۴۷

”۔۔۔فقال اٴسقف نجران: یامعشرالنصاریٰ! إنّی لاٴری وجوهاً لوساٴلو الله اٴن یزیل جبلاً من مکانه لاٴزاله بها فلا تباهلوا فتهلکوا ولایبقی علی وجه الاٴرض نصرانّی إلیٰ یوم القیامة ۔“(۱)

”نجران کے) عسائی)پادریان نورانی چہروں کودیکھ کرانتہائی متائثرہوئے اور بو لے اے نصرانیو!میں ایسے چہروں کودیکھ رہاہوں کہ اگروہ خدا سے پہاڑ کے اپنی جگہ سے ٹلنے کا٘ مطالبہ کریں تووہ ضرور اپنی جگہ سے کھسک جا ئیں گے۔اس لئے تم ان سے مباہلہ نہ کرنا،ورنہ ھلاک ہوجاؤگے اورزمین پرقیامت تک کوئی عیسائی باقی نہیں بچے گا۔“

غورکرنے سے معلوم ہوتاہے کہ آیہء شریفہ کے مضمون میں درج ذیل امورواضح طور پربیان ہوئے ہیں:

۱ ۔پیغمبراکرم (ص)،اپنے اہل بیت علیہم السلام کواپنے ساتھ لے آئے تاکہ وہ آپ کے ساتھ اس فیصلہ کن دعامیں شر یک ہوں اورمباہلہ آنحضرت (ص)اورآپ کے اہل بیت علیہم السلام کی طرف سے مشترک طور پر انجام پائے تاکہ جھوٹوں پرلعنت اورعذاب نازل ہونے میں مؤثرواقع ہو۔

۲ ۔آنحضرت (ص)اورآپکے اہل بیت (ع)کاایمان و یقین نیز آپ کی رسالت اور دعوت کا مقصد تمام لوگوں کے لئے واضح ہوگیا۔

۳ ۔اس واقعہ سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علیہم السلام کا بلند مرتبہ نیز اہل بیت کی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قربت دنیاوالوں پرواضح ہوگئی۔

اب ہم یہ دکھیں گے کہ پیغمبراسلام)ص)”ابنائنا“)اپنے بیٹوں)”نسائنا“)اپنی عورتوں)اور”انفسنا“)اپنے نفسوں)میں سے کن کواپنے ساتھ لاتے ہیں؟

____________________

۱۔التفسیر الکبیر،فخر رازی،ج۸،ص۸۰،داراحیائ التراث العربی۔

۴۸

تیسرامحور

مباہلہ میں پیغمبر (ص)اپنے ساتھ کس کو لے گئے

شیعہ اور اہل سنّت کااس پراتفاق ہے کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مباہلہ کے لئے علی، فاطمہ، حسن اورحسین علیہم السلام کے علاوہ کسی اورکواپنے ساتھ نہیں لائے۔اس سلسلہ میں چندمسائل قابل غورہیں:

الف:وہ احادیث جن میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علیہم السلام کامیدان مباہلہ میں حاضرہونابیان کیاگیاہے۔

ب:ان احادیث کا معتبراورصحیح ہونا۔

ج۔اہل سنّت کی بعض کتابوں میں ذکرہوئی قابل توجہ روایتیں۔

مباہلہ میں اہل بیت رسول)ص)کے حاضر ہونے کے بارے میں حدیثیں ۱ ۔اہل سنّت کی حد یثیں:

چونکہ اس کتاب میں زیادہ تر روئے سخن اہل سنّت کی طرف ہے لہذااکثرانھیں کے منابع سے احادیث نقل کی جائیں گی۔نمو نہ کے طورپراس حوالے سے چنداحادیث نقل کی جا رہی ہیں:

پہلی حدیث:

صحیح مسلم(۱) سنن ترمذی(۲) اورمسنداحمد(۳) میں یہ حدیث نقل ہوئی ہےجس کی متفق اور مسلم لفظیں یہ ہیں:

____________________

۱۔صحیح مسلم،ج۵،ص۲۳کتاب فضائل الصحابة،باب من فضائل علی بن ابیطالب،ح۳۲،موسسئہ عزالدین للطباعةوالنشر

۲۔سنن ترمذی،ج۵،ص۵۶۵ دارالفکر ۳۔مسنداحمد،ج،۱،ص۱۸۵،دارصادر،بیروت

۴۹

”حدثنا قتیبة بن سعید و محمد بن عباد قالا: حدثنا حاتم) و هو ابن اسماعیل) عن بکیر بن مسمار، عن عامر بن سعد بن اٴبی وقاص، عن اٴبیه، قال: اٴمر معاویه بن اٴبی سفیان سعدا ًفقال: ما منعک اٴن تسب اٴبا التراب؟ فقال: اٴماّ ما ذکرتُ ثلاثاً قالهنّ له رسواللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فلن اٴسبّه لاٴن تکون لی واحدة منهنّ اٴحبّ إلیّ من حمرالنعم

سمعت رسول للّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یقول له لماّ خلّفه فی بعض مغازیه فقال له علیّ: یا رسول اللّٰه، خلّفتنی مع النساء والصبیان؟ فقال له رسول اللّٰه( ص) :اٴما ترضی اٴن تکون منّی بمنزلة هارون من موسی إلاّ انه لانبوة بعدی؟

و سمعته یقول یوم خیبر: لاٴُعطیّن الرایة رجلاً یحبّ اللّٰه و رسوله و یحبّه اللّٰه و رسوله قال: فتطاولنا لها فقال: اُدعو الی علیاً فاٴُتی به اٴرمد، فبصق فی عینه ودفع الرایة إلیه،ففتح اللّٰه علیه

ولماّنزلت هذه الایة( فقل تعا لواندع ابنائناوابنائکم ) دعا رسول اللّٰه-صلی اللّٰه علیه وسلم –علیاًوفاطمةوحسناًوحسیناً فقال:اللّهمّ هؤلائ اٴهلی“

”قتیبةبن سعید اور محمد بن عبادنے ہمارے لئے حدیث نقل کی،-- عامربن سعدبن ابی وقاص سے اس نے اپنے باپ)سعد بن ابی وقاص)سے کہ معاویہ نے سعدکوحکم دیااورکہا:تمھیں ابوتراب)علی بن ابیطالب علیہ السلام)کودشنام دینے اور برا بھلا کہنے سے کو نسی چیز مانع ہوئی)سعدنے)کہا:مجھے تین چیزیں)تین فضیلتیں)یادہیں کہ جسے رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا ہے،لہذامیں انھیں کبھی بھی برابھلا نہیں کہوں گا۔اگرمجھ میں ان تین فضیلتوں میں سے صرف ایک پائی جاتی تووہ میرے لئے سرخ اونٹوں سے محبوب ترہوتی:

۵۰

۱ ۔میں نے پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے ایک جنگ کے دوران انھیں)حضرت علی علیہ السلام)مدینہ میں اپنی جگہ پررکھاتھااورعلی(علیہ السلام)نے کہا:یارسول اللہ!کیاآپمجھے عورتوں اوربچوں کے ساتھ مدینہ میں چھوڑرہے ہیں؟ )آنحضرت (ص)نے) فرمایا:کیاتم اس پرراضی نہیں ہوکہ میرے ساتھ تمہاری نسبت وہی ہوجو ہارون کی)حضرت)موسی)علیہ السلام )کے ساتھ تھی،صرف یہ کہ میرے بعد کوئی پیغمبرنہیں ہو گا؟

۲ ۔میں نے)رسول خدا (ص))سے سنا ہے کہ آپ نے روز خیبر علی کے با رے میں فرمایا:بیشک میں پرچم اس شخص کے ہاتھ میں دوں گاجوخدا ورسول (ص)کو دوست رکھتاہے اورخداورسول (ص)اس کو دوست رکھتے ہیں۔)سعدنے کہا):ہم)اس بلندمرتبہ کے لئے)سراٹھاکر دیکھ رہے تھے)کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس امر کے لئے ہمیں مقررفرماتے ہیںیانہیں؟)اس وقت آنحضرت (ص)نے فرمایا: علی (علیہ السلام) کو میرے پاس بلاؤ ۔ علی (علیہ السلام) کو ایسی حالات میں آپکے پاس لایا گیا، جبکہ ان کی آنکھوں میں دردتھا،آنحضرت (ص)نے اپنا آب دہن ان کی آنکھوں میں لگا یااورپرچم ان کے ہاتھ میں تھمادیااورخدائے متعال نے ان کے ذریعہ سے مسلمانوں کوفتح عطاکی۔

۳ ۔جب یہ آیہء شریفہ نازل ہوئی( : قل تعالو اندع اٴبناء نا و اٴبنائکم و نسائنا و نسائکم و اٴنفسنا و اٴنفسکم ) ۔۔۔ توپیغمبراکرم (ص)نے علی،فاطمہ،حسن اورحسین) علیہم السلام )کوبلاکرفرمایا:خدایا!یہ میرے اہل بیت ہیں۔“

اس حدیث سے قابل استفادہ نکات:

۱ ۔حدیث میں جوآخری جملہ آیاہے:”الّٰلہمّ ھٰؤلاء ا ھلی“خدایا!یہ میرے اہل ہیں،اس بات پردلالت کرتاہے”ابناء“”نساء“اور”انفس“جوآیہء شریفہ میں ائے ہیں،وہ اس لحاظ سے ہے کہ وہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل ہیں۔

۵۱

۲ ۔”ابناء“”نساء“و”انفس“میں سے ہرایک جمع مضاف ہیں)جیساکہ پہلے بیان کیاگیا)اس کا اقتضایہ ہے کہ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کواپنے خاندان کے تمام بیٹوں،عورتوں اور وہ ذات جو آپ کا نفس کہلاتی تھی،سب کومیدان مباہلہ میں لائیں،جبکہ آپ نے”ابناء“میں سے صرف حسن وحسیںعلیہما السلام کواور”نساء“سے صرف حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہاکواور”انفس“سے صرف حضرت علی علیہ السلام کواپنے ساتھ لایا۔اس مطلب کے پیش نظرجوآپ نے یہ فرمایا:”خدایا،یہ میرے اہل ہیں“اس سے معلوم ہوتاہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل صرف یہی حضرات ہیں اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں اس معنی میں اپکے اہل کے دائرے سے خارج ہیں۔

۳ ۔”اہل“اور”اہل بیت“کے ایک خاص اصطلاحی معنی ہیں جوپنجتن پاک کہ جن کوآل عبااوراصحاب کساء کہاجاتاہے،ان کے علاوہ دوسروں پر اس معنی کااطلاق نہیں ہو تاہے۔یہ مطلب،پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بہت سی احا دیث سے کہ جو آیہء تطہیر کے ذیل میں ذکر ہوئی ہیں اور اس کے علاوہ دوسری مناسبتوں سے بیان کی ہیں گئی بخوبی استفادہ کیا جاسکتاہے۔

دوسری حدیث:

فخررازی نے تفسیرکبیرمیں ایہء مباہلہ کے ذیل میں لکھاہے:

”روی اٴنّه - علیه السلام - لماّ اٴورد الدلائل علی نصاری نجران،ثمّ إنّهم اٴصروا علی جهلهم، فقال - علیه السلام - إنّ اللّٰه اٴمرنی إن لم تقبلوا الحجّة اٴن اٴباهلکم فقالوا: یا اٴبا القاسم، بل نرجع فننظر فی اٴمرنا ثمّ ناٴتیک

فلمّا رجعوا قالوا للعاقب - وکان ذاراٴیهم - :یا عبدالمسیح، ماتری؟ فقال: و اللّٰه لقد عرفتم یا معشر النصاری اٴنّ محمداً نبیّ مرسل و لقد جاء کم بالکلام الحق فی اٴمر صاحبکم و اللّٰه ما باهل قوم نبیاً قط فعاش کبیرهم و لا نبت صغیرهم! و لئن فعلتم لکان الا ستئصال ، فإن اٴبیتم إلاّ الإصرار علی دینکم و الإقامة علی ما اٴنتم علیه فوادعوا الرجل و انصرفوا إلی بلادکم

۵۲

و کان رسول اللّٰه( ص) خرج وعلیه مرط من شعراٴسود، وکان قد احتضن الحسین واٴخذ بید الحسن، و فاطمه تمشی خلفه وعلی - علیه السلام - خلفها، و هو یقول:إذا دعوت فاٴمّنوا فقال اٴسقف نجران: یا معشر النصاری! إنّی لاٴری وجوها ًلو ساٴلوا اللّٰه اٴن یزیل جبلاً من مکانه لاٴزاله بها! فلا تباهلوا فتهلکوا، و لا یبقی علی وجه الاٴض نصرانیّ إلی یوم القیامة ثمّ قالوا: یا اٴبا القاسم! راٴینا اٴن لا نباهلک و اٴن نقرّک علی دینک فقال:- صلوات اللّٰه علیه - فإذا اٴبیتم المباهلة فاسلموا یکن لکم ما للمسلمین، و علیکم ما علی المسلمین، فاٴبوا، فقال: فإنیّ اٴُناجزکم القتال، فقالوا مالنا بحرب العرب طاقة، ولکن نصالک علی اٴن لا تغزونا و لاتردّنا عن دیننا علی اٴن نؤدّی إلیک فی کل عام اٴلفی حلّة:اٴلفاٴ فی صفر و اٴلفافی رجب، و ثلاثین درعاً عادیة من حدید، فصالحهم علی ذلکوقال: والّذی نفسی بیده إنّ الهلاک قد تدلّی علی اٴهل نجران، ولولاعنوالمسخوا قردة و خنازیر و لاضطرم علیهم الوادی ناراً ولاستاٴ صل اللّٰه نجران واٴهله حتی الطیر علی رؤس الشجر و لما حالا لحوال علی النصاری کلّهم حتی یهلکوا و روی اٴنّه - علیه السلام -لمّ خرج فی المرط الاٴسود فجاء الحسن -علیه السلام - فاٴدخله، ثمّ جائ الحسین -علیه السلام - فاٴدخله ،ثمّ فاطمة - علیها السلام - ثمّ علی - علیه السلام - ثمّ قال:( إنّما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهّرکم تطهیراً ) واعلم اٴنّ هذه الروایة کالمتّفق علی صحّتها بین اٴهل التّفسیر والحدیث“(۱)

”جب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں پردلائل واضح کردئے اور انہوں نے اپنی نادانی اورجہل پراصرارکیا،تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:خدائے متعال نے مجھے حکم دیاہے اگرتم لوگوں نے دلائل کوقبول نہیں کیا تو تمہارے ساتھ مباہلہ کروں گا۔“)انہوں نے)کہا:اے اباالقاسم!ہم واپس جاتے ہیں تاکہ اپنے کام کے بارے میں غوروفکرکرلیں،پھرآپکے پاس آئیں گے۔

____________________

۱۔تفسیرکبیرفخر رازی،ج۸،ص،۸،داراحیائ التراث العربی۔

۵۳

جب وہ)اپنی قوم کے پاس)واپس چلے گئے،انھوں نے اپنی قوم کے ایک صاحب نظر کہ جس کا نام”عاقب“تھا اس سے کہا:اے عبدالمسیح!اس سلسلہ میں آپ کانظریہ کیا ہے؟اس نے کہا:اے گروہ نصاریٰ!تم لوگ محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کوپہنچانتے ہواورجانتے ہووہ ا للہ کے رسول ہیں۔اورآپ کے صاحب)یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام)کے بارے میں حق بات کہتے ہیں۔خداکی قسم کسی بھی قوم نے اپنے پیغمبرسے مباہلہ نہیں کیا،مگر یہ کہ اس قوم کے چھوٹے بڑے سب ہلاک ہو گئے ۔چنانچہ اگرتم نے ان سے مباہلہ کیاتو سب کے سب ہلاک ہوجاؤگے۔ اس لئے اگراپنے دین پرباقی رہنے کے لئے تمھیں اصرار ہے توانہیں چھوڑکراپنے شہر واپس چلے جاؤ۔پیغمبراسلام (ص))مباہلہ کے لئے)اس حالت میں باہرتشریف لائے کہ حسین(علیہ السلام)آپکی آغوش میں تھے،حسن(علیہ السلام)کاہاتھ پکڑے ہوئے تھے،فاطمہ (سلام اللہ علیہا)آپکے پیچھے اورعلی(علیہ السلام)فاطمہ کے پیچھے چل رہے تھے۔آنحضرت (ص)فرماتے تھے:”جب میں دعامانگوں تو تم لوگ آمین کہنا“نجران کے پادری نے کہا:اے گروہ نصاریٰ!میں ایسے چہروں کودیکھ رہاہوں کہ اگرخداسے دعا کریں کہ پہاڑاپنی جگہ سے ہٹ جائے تو وہ اپنی جگہ چھوڑ دے گا ۔لہذاان کے ساتھ مباہلہ نہ کرنا،ورنہ تم لوگ ہلاک ہوجاؤگے اور روی زمین پرقیامت تک کوئی عیسائی باقی نہیں بچے گا۔اس کے بعد انہوں نے کہا: اے اباالقاسم! ہمارا ارادہ یہ ہے کہ آپ سے مباہلہ نہیں کریں گے۔پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:اب جبکہ مباہلہ نہیں کررہے ہوتومسلمان ہوجاؤتاکہ مسلمانوں کے نفع ونقصان میں شریک رہو۔انہوں نے اس تجویزکوبھی قبول نہیں کیا۔

۵۴

آنحضرت (ص)نے فرمایا:اس صورت میں تمھارے ساتھ ہماری جنگ قطعی ہے۔انہوں نے کہا:عربوں کے ساتھ جنگ کرنے کی ہم میں طاقت نہیں ہے۔لیکن ہم آپ کے ساتھ صلح کریں گے تاکہ آپ ہمارے ساتھ جنگ نہ کریں اورہمیں اپنادین چھوڑنے پرمجبورنہ کریں گے،اس کے بدلہ میں ہم ہرسال آپ کودوہزارلباس دیں گے،ایک ہزار لباس صفرکے مہینہ میں اورایک ہزارلباس رجب کے مہینہ میں اورتیس ہزارآ ہنی زرہ اداکریں گے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی اس تجویزکوقبول کر لیااس طرح ان کے ساتھ صلح کرلی۔اس کے بعدفرمایا:قسم اس خداکی جس کے قبضہ میں میری جان ہے،اہل نجران نابودی کے دہانے پرپہو نچ چکے تھے،اگرمباہلہ کرتے توبندروں اورسوروں کی شکل میں مسنح ہوجاتے اورجس صحرامیں سکونت اختیار کر تے اس میں آگ لگ جاتی اورخدا وندمتعال نجران اوراس کے باشندوں کو نیست و نابود کر دیتا،یہاں تک کہ درختوں پرموجودپرندے بھی ہلاک ہوجاتے اورایک سال کے اندراندرتمام عیسائی صفحہء ہستی سے مٹ جاتے۔روایت میں ہے کہ جب پیغمبراکرم (ص)، اپنی پشمی کالی رنگ کی عبا پہن کر باہرتشریف لائے)اپنے بیٹے)حسن(علیہ السلام)کوبھی اس میں داخل کر لیا،اس کے بعدحسین(علیہ السلام) آگئے انہیں بھی عبا کے نیچے داخل کیا اس کے بعدعلی و فاطمہ )علیہما السلام) تشریف لائے اس کے بعد فرمایا:( إنّمایریداللّه ) ۔۔۔ ”پس اللہ کاارادہ ہے اے اہل بیت کہ تم سے ہر طرح کی کثافت وپلیدی سے دوررکھے اوراس طرح پاک وپاکیزہ رکھے جو پاک وپاکیزہ رکھنے کاحق ہے۔“علامہ فخر رازی نے اس حدیث کی صحت و صدا قت کے بارے میں کہا ہے کہ تمام علماء تفسیر و احادیث کے نزدیک یہ حدیث متفق علیہ ہے۔“

۵۵

حدیث میں قابل استفادہ نکات:

اس حدیث میں درج ذیل نکات قابل توجہ ہیں:

۱ ۔اس حدیث میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت کاحضور اس صورت میں بیان ہواہے کہ خودآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آگے آگے)حسین علیہ السلام)کوگود میں لئے ہوئے ،حسن(علیہ السلام)کاہاتھ پکڑے ہوئے جوحسین(علیہ السلام)سے قدرے بڑے ہیں اورآپکی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہاآپکے پیچھے اوران کے پیچھے(علیہ السلام) ہیں۔یہ کیفیت انتہائی دلچسپ اور نمایاں تھی۔کیو نکہ یہ شکل ترتیب آیہء مباہلہ میں ذکرہوئی تر تیب و صورت سے ہم آہنگ ہے۔اس ہماہنگی کا درج ذیل ابعادمیں تجزیہ کیاجاسکتاہے:

الف:ان کے آنے کی ترتیب وہی ہے جوآیہء شریفہ میں بیان ہوئی ہے۔یعنی پہلے ”ابناء نا“اس کے بعد”نسائنا“اورپھرآخرپر”ا نفسنا“ہے۔

ب:یہ کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چھوٹے فرزندحسین بن علی علیہماالسلام کوآغوش میں لئے ہوئے اوراپنے دوسرے فرزندخورد سال حسن بن علی علیہماالسلام کاہاتھ پکڑے ہوئے ہیں،یہ آیہء شریفہ میں بیان ہوئے”بناء نا“ کی عینی تعبیرہے۔

ج۔بیچ میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کاقرارپانااس گروہ میں ”نساء نا“کے منحصربہ فردمصداق کے لئے آگے اورپیچھے سے محافظ قرار دیا جا نا،آیہء شریفہ میں ”نساء نا“کی مجسم تصویر کشی ہے۔

۲ ۔اس حدیث میں پیغمبراکرم (ص)نے اپنے اہل بیت علیہم السلام سے فرمایا:اذادعوت فاٴ منوا “یعنی:جب میں دعاکروں توتم لوگ آمین(۱) کہنااوریہ وہی

____________________

۱۔دعا کے بعد آمین کہنا،خدا متعال سے دعا قبول ہونے کی درخواست ہے۔

۵۶

چیزہے جوآیہء مباہلہ میں ائی ہے:( نبتهل فنجعل لعنةالله علی الکاذبین )

یہاں پر”ابتھال“)دعا)کوصرف پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت دی گئی ہے،بلکہ”ابتھال“پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے دعاکی صورت میں اورآپ کے ہمراہ آئے ہوئے اعزّہ واقر باکی طرف سے آمین کہنے کی صورت میں محقق ہونا چاہئے تاکہ )اس واقعہ میں )جھوٹوں پرہلاکت اورعقوبت الہٰی واقع ہونے کاسبب قرارپائے،جیساکہ گزر چکا ہے۔

۳ ۔گروہ نصارٰی کی طرف سے اہل بیت علیہم السلام کی عظمت وفضیلت کا اعتراف یہاں تک کہ ان کے نورانی و مقدس چہروں کو دیکھنے کے بعد مباہلہ کرنے سے انکار کر دیا۔

تیسری حدیث:

ایک اورحدیث جس میں ”ابنائنا“،”نسائنا“اور”انفسنا“کی لفظیں صرف علی،فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام پر صادق آتی ہیں،وہ حدیث”مناشد یوم الشوری“ہے۔اس حدیث میں امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام،اصحاب شوریٰ)عثمان بن عفان،عبدالرحمن بن عوف،طلحہ،زبیراورسعدبن ابی وقاص) سے کہ جس دن یہ شورٰی تشکیل ہوئی اورعثمان کی خلافت پرمنتج و تمام ہوئی،اپنے فضائل کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے فرماتے ہیں۔اس طرح سے کہ ان تمام فضیلتوں کو یاد دلاتے ہوئے انہیں خداکی قسم دیتے ہیں اور ان تمام فضیلتوں کو اپنی ذات سے مختص ہونے کاان سے اعتراف لیتے ہیں۔حدیث یوں ہے:

۵۷

”اٴخبر نا اٴبو عبد اللّٰه محمد بن إبرهم، اٴنا ابوالفضل اٴحمد بن عبدالمنعم بن اٴحمد ابن بندار، اٴنا اٴبوالحسن العتیقی، اٴنا اٴبوالحسن الدارقطنی، اٴنا اٴحمد بن محمد بن سعید، اٴنا یحی بن ذکریا بن شیبان، اٴنا یعقوب بن سعید، حدثنی مثنی اٴبو عبداللّٰه،عن سفیان الشوری، عن اٴبن إسحاق السبیعی، عن عاصم بن ضمرةوهبیرة و عن العلاء بن صالح، عن المنهال بن عمرو، عن عبادبن عبداللّٰه الاٴسدی و عن عمروبن و اثلة قالوا: قال علیّ بن اٴبی طالب یوم الشوری: واللّٰه لاٴحتجنّ علیهم بمالایستطیع قُرَشیّهم و لا عربیّهم و لا عجمیّهم ردّه و لا یقول خلافه ثمّ قال لعثمان بن عفان ولعبدالرحمن بن عوف و الزبیر و لطلحة وسعد - و هن اٴصحاب الشوری و کلّهم من قریش، و قد کان قدم طلحة - اُنشدکم باللّٰه الذی لا إله إلّاهو، اٴفیکم اٴحد وحّد اللّٰه قبلی؟ قالوا:اللّهمَّ لا قال: اٴنشدکم باللّٰه، اٴفیکم اٴحد اٴخو رسول اللّٰه - صلی اللّٰه علیه وسلم - غیری، إذ آخی بین المؤمنین فاٴخی بینی و بین نفسه و جعلنی منه بمنزلة هارون من موسی إلّا اٴنی لست بنبیً؟قالوا:لاقال:اٴنشدکم باللّٰه،اٴفیکم مطهَّرغیری،إذسدّ رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اٴبوابکم و فتح بابی و کنت معه فی مساکنه ومسجده؟ فقام إلیه عمّه فقال: یا رسول اللّٰه، غلّقت اٴبوابنا و فتحت باب علیّ؟ قال: نعم، اللّٰه اٴمر بفتح با به وسدّ اٴبوابکم !!! قالوا:اللّهمّ لا قال: نشدتکم باللّٰه، اٴفیکم اٴحد اٴحب إلی للّٰه و إلی رسوله منّی إذ دفع الرایة إلیّ یوم خیر فقال : لاٴعطینّ الرایة إلی من یحبّ اللّٰه و رسوله و یحبّه اللّٰه و رسوله، و یوم الطائر إذ یقول: ” اللّهمّ ائتنی باٴحب خلقک إلیک یاٴکل معی“، فجئت فقال: ” اللّهمّ و إلی رسولک ، اللّهمّ و إلی رسولک“

۵۸

غیری؟(۱) قالوا:اللّهمّ لا قال:نشدتکم باللّٰه، اٴفیکم اٴحد قدم بین یدی نجواه صدقة غیری حتی رفع اللّٰه ذلک الحکم؟ قالوا: اللّهمّ لاقال:نشدتکم باللّٰه، اٴفیکم من قتل مشرکی قریش و العرب فی اللّٰه و فی رسوله غیری؟ قالوا:اللّهمّ لاقال: نشدتکم باللّٰه، اٴفیکم اٴحد دعا رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فیالعلم و اٴن یکون اُذنه الو اعیة مثل ما دعالی؟ قالوا: اللّهمّ لا قال: نشدتکم باللّٰه، هل فیکم اٴحد اٴقرب إلی رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی الرحم و من جعله و رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نفسه و إبناء اٴنبائه وغیری؟ قالوا:اللّٰهم لا“(۲)

اس حدیث کومعاصم بن ضمرةوہبیرةاورعمروبن وائلہ نے حضرت )علی علیہ السلام) سے روایت کی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے شوریٰ کے دن یوں فرمایا:

”خداکی قسم بیشک میں تمہارے سامنے ایسے استدلال پیش کروں گا کہ اھل عرب و عجم نیز قریش میں سے کوئی شخص بھی اس کومستردنہیں کرسکتااورمذھبی اس کے خلاف کچھ کہہ سکتا ہے۔میں تمھیں اس خداکی قسم دلاتاہوں جس کے سوا کوئی خدانہیں ہے،کیاتم لوگوں میں کوئی ایسا ہے جس نے مجھ سے پہلے خدائے واحدکی پرستش کی ہو۔؟ انہوں نے کہا: خدا شاہد ہے! نہیں۔ آپ(ع)نے فرمایا:تمھیں خداکی قسم ہے،کیاتم لوگوں میں میرے علاوہ کوئی ہے،جورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بھائی ہو،جب)آنحضرت (ص)نے)مؤمنین کے درمیان اخوت اوربرادری برقرارکی،اورمجھے اپنا بھائی بنایااور میرے بارے

____________________

۱۔شائدمقصودیہ ہوکہ”خداوندا!تیرے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے نزدیک بھی محبوب ترین مخلوق علی)علیہ السلام ہیں۔“

۲۔تاریخ مدینہ دمشق،ج۴۲،ص۴۳۱،دارالفکر

۵۹

میں یہ ارشاد فر ما یا کہ:” تمہاری نسبت مجھ سے ویسی ہی جیسے ہارون کی موسی سے تھی سوائے اس کے کہ میں نبی نہیں ہوں “۔

انہوں نے کہا:نہیں۔فرمایا:تمھیں خداکی قسم دے کر کہتاہوں کہ کیامیرے علاوہ تم لوگوں میں کوئی ایساہے جسے پاک وپاکیزہ قراردیاگیاہو،جب کہ پیغمبرخداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمھارے گھروں کے دروازے مسجدکی طرف بندکردئیے تھے اورمیرے گھرکادروازہ کھلارکھا تھااورمیں مسکن ومسجدکے سلسلہ میں انحضرت (ص)کے ساتھ )اور آپ کے حکم میں )تھا،چچا)حضرت)عباس اپنی جگہ اٹھے اورکہا:اے اللہ کے رسول !ہمارے گھروں کے دروازے بند کر دئیے اورعلی) علیہ السلام )کے گھرکاادروازہ کھلارکھا؟

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:یہ خدائے متعال کی طرف سے ہے کہ جس نے ان کے دروازہ کوکھلارکھنے اورآپ لوگوں کے دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا؟

انہوں نے کہا:خداشاہدہے،نہیں۔فرمایا:تمھیں خداکی قسم دلاتاہوں،کیا تمہارے درمیان کوئی ہے جسے خدااوررسول مجھ سے زیادہ دوست رکھتے ہوں،جبکہ پیغمبر (ص)نے خیبرکے دن علم اٹھاکرفرمایا”بیشک میں علم اس کے ہاتھ میں دونگاجوخداورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کودوست رکھتاہے اورخدااوررسول اس کودوست رکھتے ہیں“اورجس دن بھنے ہوئے پرندہ کے بارے میں فرمایا:”خدایا!میرے پاس اس شخص کو بھیج جسے توسب سے زیادہ چاھتا ہے تاکہ وہ میرے ساتھ کھا نا کھائے۔“اوراس دعاکے نتیجہ میں ،میں اگیا۔میرے علاوہ کون ہے جس کے لئے یہ اتفاق پیش آیا ہو؟

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

امام علیہ السلام سے کہنے لگے : اپنے ارادہ سے منصرف ہو جائیے! آپ کہاں جارہے ہیں ! امام علیہ السلام نے انکار کیا اور دونوں فریق اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہے یہاں تک کہ انھوں نے تازیانہ بلندکر لیا لیکن امام علیہ السلام اپنی راہ پر گامزن رہے۔ جب امام علیہ السلام کو ان لوگوں نے جاتے ہوئے دیکھاتوبلند آوازمیں پکارکر کہا : اے حسین !کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے جو جماعت سے نکل کر اس امت کے درمیان

تفرقہ اندازی کررہے ہو ! ان لوگوں کی باتیں سن کر امام علیہ السلام نے قران مجید کی اس آیت کی تلاوت فرمائی( : لِیْ عَمَلِیْ وَلَکُمْ عَمَلُکُمْ اَنْتُمْ بَرِيْئُوْنَ مِمَّا اَعْمَلُ وَاَنَا بَرِی ئْ مِمَّا تَعْمَلُوْنَ'' ) (١) و(٢)

اگر وہ تم کو جھٹلائیں تو تم کہہ دو کہ ہمارا عمل ہمارے لئے اور تمہاری کارستانی تمہارے لئے ہے، جو کچھ میں کرتا ہوں اس کے تم ذمہ دار نہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے میں بری ہوں ۔

عبداللہ بن جعفر کاخط

چوتھے امام حضرت علی بن حسین بن علی (علیہم السلام) کا بیان ہے کہ جب ہم مکہ سے نکل رہے تھے تو عبداللہ بن جعفربن ابیطالب(٣) نے ایک خط لکھ کر اپنے دونوں فرزندوں عون و محمد(٤) کے ہمراہ روانہ کیا جس کی عبارت یہ ہے:

____________________

١۔ سورہ ٔیونس ٤١

٢۔ طبری، ج٥، ص ٣٨٥،ابو مخنف کا بیان ہے کہ حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے مجھ سے یہ روایت بیان کی ہے ۔

٣۔ آپ جنگ جمل میں امیر المومنین کے لشکر میں تھے اور عائشہ کو مدینہ پہنچانے میں آپ نے آنحضرت کی مدد فرمائی تھی ۔(طبری، ج٤، ص٥١٠)آپ کی ذات وہ ہے جس سے حضرت امیر المومنین کوفہ میں مشورہ کیا کرتے تھے۔ آ پ ہی نے حضرت کو مشورہ دیا تھا کہ محمد بن ابی بکر جو آپ کے مادری بھائی بھی تھے، کو مصر کا والی بنادیجئے۔ (طبری ،ج٤، ص ٥٥٤)آپ جنگ صفین میں بھی حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ تھے اور آپ کے حق میں بڑھ بڑھ کر حملہ کررہے تھے۔ (طبری ،ج٥ ، ص ١٤٨)بنی امیہ کے خلاف امام حسن علیہ السلام کے قیام میں بھی آپ ان کے مدد گار تھے (طبری ،ج٥،ص ١٦٠) اور جب صلح کے بعد سب مدینہ لوٹنے لگے تو دونو ں امامو ں کے ہمراہ آپ بھی مدینہ لوٹ گئے۔ (طبری ،ج٥ ، ص ١٦٥) آپ کے دونو ں فرزند عون و محمد امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ تھے۔ جب آپ تک ان کی شہادت کی خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا :''واللّه لو شهدته ،لأ حببت الّا أفارقه حتی أقتل معه'' خداکی قسم اگر میں موجود ہوتا تو واقعاً مجھے یہ محبوب تھا کہ میں ان سے جدا نہ ہو ں یہا ں تک کہ ان کے ہمراہ قتل ہوجاؤ ں ۔ (طبری ج٥ ، ص ٤٦٦)

٤۔یہ دونو ں امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ کربلامیں جام شہادت نوش فرماکرسرفراز ہوئے۔ طبری کے بیان کے مطابق عون کی ما ں جمانہ بنت مسیب بن نجبہ بن فزاری ہیں (مسیب بن نجبہ توابین کے زعماء میں شمار ہوتے ہیں ) اور محمد کی ما ں خو صاء بنت خصفہ بنت ثقیف ہیں جو قبیلہ بکربن وائل سے متعلق ہیں ۔

۲۲۱

'' امابعد ، فانّی أسألک باللّه لمّا انصرفت حین تنظر فی کتابی فانّی مشفق علیک من الوجه الذی تتوجه له أن یکون فیه هلاکک واستئصال اهل بیتک ، أن هلکت الیوم طفیٔ نور الارض فانک علم المهتدین ورجاء المؤمنین، فلا تعجل بالسیر فانّی فی أثر الکتاب؛ والسلام ''

اما بعد : جب آپ کی نگاہ میرے خط پر پڑے تو میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنے ارادہ سے منصرف ہو جائیے ؛کیو نکہ آپ نے جس طرف کا رخ کیا ہے مجھے خوف ہے کہ اس میں آپ کی ہلا کت اور آپ کے خاندان کی اسیری ہے اور اگر آپ دنیا سے گذرگئے تو زمین کا نور خاموش ہو جا ئے گا؛ کیوں کہ آپ ہدایت یافتہ افراد کے پر چمدار اور مو منین کی امید ہیں ؛ لہٰذا آپ سفر میں جلدی نہ کریں ۔ میں اس خط کے پہنچتے پہنچتے آپ کی خدمت میں شر فیاب ہو رہا ہوں ۔ والسلام

عبد اللہ بن جعفر اس خط کے فوراًبعد عمرو بن سعید بن عاص کے پاس گئے اور اس سے گفتگو کرتے ہو ئے کہا : حسین (علیہ السلام) کو ایک خط لکھو جس میں تم ان کے امن وامان کا تذکرہ کرو ، اس میں ان سے نیکی اور صلہ رحم کی تمنا وآرزو کرو اور اطمینان دلا ؤ، ان سے پلٹنے کی درخواست کرو، شائد وہ تمہاری باتوں سے مطمئن ہو کر پلٹ آئیں اور اس خط کو اپنے بھائی یحٰی بن سعید کے ہمراہ روانہ کرو؛ کیو نکہ وہ زیادہ سزاوار ہے کہ اس سے وہ مطمئن ہوں اور ان کو یقین ہو جا ئے کہ تم اپنے قصد میں مصمم ہو۔عمر وبن سعید نے عبد اللہ بن جعفر کو جواب دیتے ہو ئے کہا : تم جو چا ہتے ہو لکھ کر میرے پاس لے آؤ میں اس پر مہر لگا دوں گا، بنابر یں عبد اللہ بن جعفر نے اس طرح نامہ لکھا :

بسم اللہ الر حمن الر حیم ،یہ خط عمر وبن سعید کی جانب سے حسین بن علی کے نام ہے ۔

اما بعد : میں خدا وند متعال سے در خواست کر تا ہوں کہ آپ کو ان چیزوں سے منصرف کر دے جس میں آپ کا رنج و ملال ہے اور جس میں آپ کی ہدایت ہے اس طرف آپ کو سر فراز کرے ۔مجھے خبر ملی ہے کہ آپ نے عراق کا رخ کیا ہے ۔

خداوند عالم آپ کو حکومت کی کشمکش او رمخالفت سے محفو ظ رکھے؛ کیونکہ مجھے خوف ہے کہ اس میں آپ کی ہلاکت ہے۔ میں آپ کی طرف عبداللہ بن جعفر اور یحٰبن سعید کوروانہ کررہا ہوں ؛آپ ان دونوں کے ہمراہ میرے پاس تشریف لے آئیے کیونکہ میرے پاس آپ کے لئے امان ، صلہ رحم ، نیکی اورخانہ خداکے پاس بہترین جائیگاہ ہے۔ میں خداوند عالم کو اس سلسلے میں گواہ ، کفیل ، ناظر اور وکیل قر ار دیتاہوں ۔ والسلام

۲۲۲

خط لکھ کر آپ اسے عمر و بن سعید کے پاس لے کر آئے اور اس سے کہا: اس پر مہر لگاؤ تواس نے فوراًاس پر اپنی مہر لگادی اور اس خط کو لے کرعبداللہ بن جعفر اور یحٰی امام علیہ السلام کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر آپ کی خدمت میں یحٰی بن سعیدنے خط پڑھا تو امام حسین علیہ السلام نے عمر و بن سعید کو خط کا جواب اس طرح لکھا:

بسم اللّہ الرحمن الرحیم

امابعد، فانه لم یشاقق الله ورسوله من دعاالی اللّٰه عزَّو جلَّ وعمل صالحاًو قال أنّنی من المسلمین؛وقد دعوت الیٰ الامان والبرّو الصلة فخیرالامان امان الله ولن یؤمّن اللّٰه یوم القیامةمن لم یخفه فی الدنیا، فنسأل اللّٰه مخافة فی الدنیاتوجب لنا أمانه یو م القیامة فان کنت نویت بالکتاب صلتی و برّی فجُزیتَ خیراًفی الدنیاوالآخرة ۔ والسلام

بسم اللّہ الرحمن الرحیم ، امابعد،ہر وہ شخص جو لوگوں کو خدائے عزّو جلّ کی طرف دعوت دیتاہے اور عمل صالح انجام دیتاہے اور کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں تو وہ خدااور رسول کی مخالفت نہیں کرتا ہے اور تم نے جو مجھے امان ، نیکی اور صلہ رحم کی دعوت دی ہے تو جان لو کہ بہترین امان خداوندمتعال کی امان ہے اور قیامت میں وہ شخص اللہ کی امان میں نہیں ہے جو دنیا میں اللہ سے نہیں ڈرتا ۔میں دنیامیں خدا سے اس خوف کی درخواست کرتا ہوں جو آخرت میں قیامت کے دن ہمارے لئے اما ن کا باعث ہو۔اب اگر تم نے اپنے خط کے ذریعہ میر ے ساتھ صلہ رحم اور نیکی کی نیت کی ہے تو تم کو دنیاوآخر ت میں اس کی جزا ملے گی۔

۲۲۳

وہ دونوں امام علیہ السلام کا جواب لے کرعمرو بن سعید کے پاس آئے اور کہنے لگے: ہم دونوں نے تمہارے خط کو ان کے سامنے پڑھا اور اس سلسلے میں بڑی کو شش بھی کی لیکن اس سلسلہ میں ان کا عذر یہ تھا کہ وہ فر ما رہے تھے :'' انّی رأیت رؤیاً فیهارسول اللّٰه صلّی اللّٰه علیه (وآله) وسلم وأُمرتُ فیها بأ مرٍأنا ما ضٍ له، علیّ کان أولٰ''

میں نے ایک ملکو تی خواب دیکھا ہے جس میں رسو ل خدا صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم موجو د تھے۔ اس خوا ب میں آپ نے مجھ کو ایک چیز کا حکم دیا گیا ہے۔میں اس پر ضرور عمل کروں گا اور یہ مجھ پر سب سے زیادہ اولیٰ ہے۔

جب ان دونوں نے امام علیہ السلام سے پوچھا کہ وہ خواب کیا تھا ؟تو آپ نے فر مایا :'' ما حدثت بها أحداً وما أنا محدّ ث بها حتی ألقی ربِّی'' (١) اور(٢) میں یہ خواب کسی سے بیان نہیں کرسکتا اور نہ ہی میں یہ خواب کسی سے بیان کرنے والا ہوں یہاں تک کہ اپنے رب سے ملا قات کر لوں ۔

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ حارث بن کعب والبی نے علی بن الحسین (علیہما السلام) کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥،ص٣٨٨)

٢۔امام علیہ السلام یہ مناسب نہیں دیکھ رہے تھے کہ اپنے سفر کے رازسے سب کو آشنا کر تے کیو نکہ انسان جوکچھ جا نتا ہے وہ سب بیان نہیں کر دیتا ہے خصوصاً جبکہ انسان ظرف و جودکے لحاظ سے مختلف و متفاوت ہو ں اور امام علیہ السلام پر واجب ہے کہ ہر شخص کو اس کے وجود کی وسعت اور معرفت کی گنجا ئش کے اعتبار سے آشنائی بہم پہنچائی ں ، اسی لئے امام علیہ السلام نے ان لوگو ں کو ایک واقعی جو اب دیدیا کہ''لم یشا قق الله ورسوله من دعا الی اللّٰه وعمل صالحاً ...وخیر الا مان أمان اللّٰه و لن یؤمن اللّٰه یوم القیامةمن لم یخفه فی الدنیا فنسأل اللّٰه مخافةفی الدنیا تو جب لنا أما نه یوم القیامه ''

اور جب وہ لوگ اس جواب سے قانع نہ ہو ئے تو امام علیہ السلام نے کہہ دیاکہ آپ کو ایک ایسے خواب میں حکم دیا گیا ہے جس میں خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود تھے کہ آپ اپنے سفر کو جاری رکھی ں ؛ لیکن آپ نے اس خواب کو بیان نہیں کیا اور یہ کہہ کربات تمام کردی : ''وما أنا محدث لها حتی ألقی ربی ''

شاید یہیں پرا حمد بن اعثم کوفی متوفی ٣١٠ ھ نے امام علیہ السلام کے اس خواب کا تذکر ہ کر دیا ہے جو آپ نے اپنے جد کی قبر پر مد ینہ میں دیکھا تھا لیکن یہ کیسے معلوم کہ یہ خواب وہی ہے ؟ جب امام علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ خواب خدا کی ملا قات سے قبل میں کسی سے بھی بیان نہیں کرو ں گا یعنی یہ وہی بات ہے جس کا میں نے عہد کیا ہے ۔ واللہ اعلم بہ ، اللہ اس سے بہتر آگاہ ہے۔

۲۲۴

راستہ کی منزلیں

* پہلی منزل: تنعیم

* دوسری منزل : صفاح

*تیسری منزل : حاجر

* چوتھی منزل:چشمۂ آب

* پانچویں منزل : خزیمیہ

* زہیر بن قین کا امام علیہ السلام سے ملحق ہونا

* ایک اور نامہ

* چھٹی منزل :زرود

* ساتویں منزل :ثعلبیہ

* آٹھویں منزل:زبالہ

* نویں منزل : درّہ عقبہ

* دسویں منزل : شراف

* گیارہویں منزل : ذو حسم

* بارہویں منزل : البیضہ

* تیرہویں منزل : عذیب الھجانات

* چودہویں منزل : قصر بنی مقاتل

* قربان گاہ عشق نینوا

۲۲۵

راستہ کی چودہ (١٤)منزلیں

پہلی منزل :تنعیم(١)

امام حسین علیہ السلام نے اپنے سفرکو جاری رکھااورراستہ میں آپ کا گذرایک ایسی جگہ سے ہوا جسے تنعیم کہتے ہیں ۔ وہاں آپ کی ملاقات ایک قافلہ سے ہوئی جسے بحیر بن ریسان حمیر ی(٢) نے یزید بن معاویہ کی طرف روانہ کیا تھا۔ یہ شخص یمن میں یزید کاکار گزار تھا۔ اس قافلہ کے ہمراہ الورس(٣) اور بہت سارے شاہانہ لباس تھے جسے عامل یمن نے یزید کے پاس روانہ کیا تھا۔امام علیہ السلام نے اس کا روان کے سارے بار کو اپنی گرفت میں لے لیا اور قافلہ والوں سے فرمایا :''لا أکر هکم من أحب أن یمضی معنا الی العراق أوفینا کراء ه وأحسنا صحبته، ومن أحب أن یفارقنا من مکاننا هذا أعطیناه من الکراء علیٰ قدر ماقطع من الارض''

____________________

١۔یہ مکہ سے دوفرسخ پر ایک جگہ ہے جیساکی معجم البلدان ج٢،ص٤١٦پر مرقوم ہے ۔ مکہ کے داہنی جانب ایک پہاڑہے جسے تنعیم کہتے ہیں اور شمالی حصہ میں ایک دوسراپہاڑہے جسے ''ناعم ''کہتے ہیں او راس وادی کو ''نعیمان''کہتے ہیں ۔وہا ں پر ایک مسجد موجود ہے جو قر یب ترین میقات اورحرم سے نزدیک ترین احرام سے باہر آنے کی جگہ ہے آج کل یہ جگہ مکہ کے مرکزی علاقہ سے ٦ کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے جس کا مطلب یہ ہو ا کہ ایک فرسخ ہے نہ کہ دو فرسخ ۔ اس وقت شہر سے لے کر یہا ں تک پورا ایک متصل اور وسیع علاقہ ہے جو مدینہ یا جدہ سے مکہ آنا چاہتا ہے اسے ادھر ہی سے ہو کر گذرنا پڑتا ہے۔

٢۔گویایہ وہی شخص ہے جو علم نجوم میں صاحب نظر تھاکیونکہ اس نے عبداللہ بن مطیع کو بتایا تھا کہ جب ابن زبیر قیام کرے گا تو وہ کوفہ کاوالی بنے گا۔(طبری ،ج٦، ص ٩) طاوؤ س یمانی جو بہت معروف ہیں اس شخص کے آقا تھے۔طاوؤ س یمانی نے مکہ میں ١٠٥ھ میں وفات پائی۔(طبری، ج٦، ص٢٩)

٣۔ الورس؛ یہ خاص قسم کی گھاس ہے جو تل کی طرح ہوتی ہے اور رنگ ریزی کے کام آتی ہے اور اس سے زعفران بھی بنایا جاتا ہے۔ یہ گھاس یمن کے علاوہ کہیں بھی نہیں ملتی ہے۔

ممکن ہے کہ بادی النظر فکر میں کسی کو امام علیہ السلام کا یہ فعل العیاذباللہ نا مناسب لگے کہ آپ نے درمیان سے قافلہ کے بار کو اپنی گرفت میں کیو ں لیا؟ یہ تو غصب ہے لیکن وہ افراد جو تاریخ کی ابجد خوانی سے بھی واقف ہو ں گے وہ بالکل اس کے برعکس فیصلہ کری ں گے۔ ہمارے عقیدہ کے مطابق تو امام علیہ السلام کا کام غلط ہوہی نہیں سکتا، انھو ں نے جو کیا وہی حق ہے لیکن ایک غیر کے لئے تا ریخ کی ورق گردانی کافی ہوگی اور جب وہ تاریخ کے اوراق میں امام حسن علیہ ا لسلام کی صلح کے شرائط پر نگاہ ڈالے گا تو ظاہری اعتبار سے بھی یزید کا تخت حکومت پر براجمان ہونا غلط ثابت ہوگا اور وہ ایک باغی شمار کیا جائے گا جس نے مسلمانو ں کے بیت المال کو غصب کیاہے اور امام حسین علیہ السلام امت مسلمہ کے خلیفہ قرار پائی ں گے جن کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی ہر ممکن کوشش صرف کرکے اس غاصب و باغی تک اموال مسلمین پہنچنے سے مانع ہو ں پس یمن کے اس قافلہ کو روک کر اموال کو اپنی گرفت میں لینا امام علیہ السلام کا اولین فریضہ تھا لہٰذا ہم ملاحظہ کرتے ہیں کہ امام علیہ السلام نے قافلہ والو ں سے بڑی دلنشین گفتگو کی جب کہ ظالم وجابر حکومت کی نگاہ میں ایسے افراد لائق گردن زدنی یا قابل قید و بندہوتے ہیں ۔(مترجم)

۲۲۶

میں تم لوگوں پر کوئی زبر دستی نہیں کرتا لیکن تم میں جو یہ چاہتا ہے کہ ہمارے ساتھ عراق چلے تو ہم اس کو کرایہ سفر بھی دیں گے اور اس کی ہمراہی کو خوش آمدید بھی کہیں گے اور جو ہم سے یہیں سے جدا ہونا چاہتا ہے اسے بھی ہم اتنا کرایہ سفر دے دیں گے کہ وہ اپنے وطن تک پہنچ جائے ۔

امام علیہ السلام کی اس دلنشین گفتار کے بعد جو بھی اس قافلہ نور سے جدا ہوا اسے امام علیہ السلام نے اس کا حق دے دیا اور جس نے رکنا چاہا اسے کرایہ دینے کے علاوہ اما م علیہ السلام نے لباس بھی عطا کیا۔(١)

دوسری منزل : الصفاح(٢)

عبداللہ بن سلیم اسدی اور مذری بن مشمعل اسدی کا بیان ہے کہ پہلی منزل سے چلنے کے بعدہم لوگ امام حسین علیہ السلام کے قافلہ کے ہمراہ دوسری منزل پر پہنچے جسے '' الصفاح '' کہتے ہیں اور وہاں ہماری ملاقات فرزدق بن غالب(٣) شاعر سے ہوئی۔ وہ حسین علیہ السلام کے پاس آئے اور کہا: خدا وند متعال آپ کی حاجت کو پورا کرے اور آ پ کی تمنا و آرزو کو منزل مراد تک پہنچائے ۔

____________________

١۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری،ج٥، ص ٣٨٥)

٢۔یہ جگہ حنین اور انصاب الحرم کے درمیان ہے جو بہت آ سانی سے مکہ میں داخل ہونے کا راستہ ہے ۔

٣۔ اس شخص کا نام ھمام بن غالب بن صعصہ ہے۔ ان کے دونو ں چچا'' ذھیل'' اور ''زحاف ''بصرہ میں زیاد بن سمیہ کے دیوان میں دو دو ہزار بخشش لیا کرتے تھے ۔انھو ں نے بنی نہشل اور فقیم کی ہجو میں اشعار کہے تو ان دونو ں نے زیاد سے جا کر ان کی

۲۲۷

شکایت کی ۔جب اس نے فرزدق کو طلب کیا تویہ وہا ں سے بھاگ گئے۔ اس کے بعد نوبت یہ آ گئی جب زیاد بصرہ آتا تھا تو فرزدق کوفہ آجاتے تھے اور جب وہ کوفہ آتا تھا تو فرزدق بصرہ روانہ ہوجاتے تھے۔ واضح رہے کہ زیاد ٦ مہینہ بصرہ رہتا تھااور ٦ مہینہ کوفہ کے امور سنبھالتا تھا۔ اس کے بعد یہ حجاز چلے گئے اور وہیں مکہ ومدینہ میں رہنے لگے۔اس طرح زیاد کی شرارتو ں سے بچ کر سعید بن عاص کی پناہ میں رہنے لگے یہا ں تک کہ زیاد ہلاک ہوگیا(طبری، ج٥، ص ٢٤٢، ٢٥٠)تو انھو ں نے اس کی ہجو میں مرثیہ کہا :

بکیت امرئً امن آ ل سفیان کافراً ککسری علی عدوانہ أو کقیصراً (طبری، ج٥،ص ٢٩٠)میں نے آل سفیان کے ایک مرد پر گریہ کیا جو کافر تھا جیسے قیصر و کسری اپنے دشمن پر روتے ہیں ۔

ابن زیاد کی ہلاکت کے بعد یہ دوبارہ بصرہ پلٹ گئے اور وہیں رہنے لگے۔ ٦٠ھمیں یہ اپنی ما ں کے ہمراہ حج پر آ رہے تھے جب ان کی امام حسین علیہ السلام سے ملاقات ہوئی شاید اسی لئے حسین علیہ السلام کے ہمراہ کربلا میں حاضری نہ دے سکے۔ (طبری، ج٥، ص ٣٨٦) انھو ں نے حجاج کے لئے بھی شعر کہے ہیں ۔(طبری ،ج٦،ص ٣٨٠و ٩٣٩٤) سلیمان بن عبدالملک کے محل میں بھی ان کی آمد ورفت تھی۔ (طبری ،ج٥، ص ٥٤٨)١٠٢ھ تک یہ شاعر زندہ رہے۔(طبری ،ج٥، ص ٢٤٢ ، ٢٥٠) بنی نہشل کی ہجو میں جب انھو ں نے اشعار کہے تھے تو یہ جوان تھے بلکہ ایک نوجوان اعرابی تھے جو دیہات سے آئے تھے۔ (طبری ،ج٥ ، ص ٢٤٢) ایسی صورت میں امام علیہ السلام سے ملاقات کے وقت ان کی عمر ٣٠سال سے کم تھی۔

امام علیہ السلام نے اس سے کہا :''بيّن لنا نبأ الناس خلفک'' تم جس شہر اور جہا ں کے لوگو ں کو اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو ان کی خبری ں ہمارے لئے بیان کرو ۔فرزدق نے کہا : آ پ نے واقف کار شخص سے سوال کیا ہے تو سنئے :'' قلوب الناس معک ''لوگو ں کے دل آپ کے ساتھ ہیں ''و سیوفهم مع بنی امیه'' اور ان کی تلواری ں بنی امیہ کے ساتھ ہیں'' والقضاء ینزل من السمائ'' لیکن فیصلہ و قضا تو خدا وند عالم کی طرف سے ہے ''واللّہ یفعل ما یشائ'' اور اللہ وہی کرتا ہے جو چاہتا ہے۔

۲۲۸

امام حسین علیہ السلام نے ان سے کہا : تم نے سچ کہا، اللہ جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے ؛ہمارے رب کی روزانہ اپنی ایک خاص شان ہے لہٰذا اگر اس کا فیصلہ ایسا ہوا جو ہمیں محبوب ہے تو اس کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کریں گے اور شکر کی ادائیگی میں وہ ہمارا مدد گا ر ہے اور اگرفیصلہ الہٰی ہماری امیدوں کے درمیان حائل ہوگیا تب بھی اس شخص کے لئے کچھ نہیں ہے جس کی نیت حق اور جس کی سرشت تقویٰ ہے۔ یہ کہہ کر امام علیہ السلام نے اپنی سواری کو حرکت دی تو انھوں نے امام کو سلام کیا اور دونوں جدا ہوگئے۔(١) و(٢) جب عبیداللہ بن زیاد کو خبر ملی کہ امام حسین علیہ السلام مکہ سے عراق کی طرف آرہے ہیں تو اس نے اپنی پولس کے سربراہ حصین بن تمیم تمیمی کو روانہ کیا۔ اس نے مقام قادسیہ میں آکر پڑاؤ ڈالا اور قادسیہ(٣) و خفا ن(٤) کے درمیان اپنی فوج کو منظم کیا اسی طرح قادسیہ اور قطقطانہ(٥) اورلعلع کے درمیان اپنی فوج کو منظم کرکے کمین میں لگادیا۔(٦)

____________________

١۔ ابومخنف کا بیان ہے کہ ابی جناب نے عدی بن حرملہ سے اور اس نے عبداللہ بن سلیم سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥، ص ٣٨٦) یہ بیان اس بیان سے میل نہیں کھاتا جو ان دونو ں سے عنقریب بیان ہو گا کہ یہ دو نو ں کہتے ہیں کہ ہم لوگ مقام '' زرود میں امام علیہ السلام سے ملحق ہوئے اور یہ منزل صفاح کے بعد کوفہ کے راستہ میں چندمنازل کے بعد ہے مگر یہ کہا جائے کہ ان کے قول''اقبلنا حتی انتھینا ''کا مطلب یہ ہوکہ ہم لوگ کوفہ سے روانہ ہوکر صفاح تک پہنچے جو مکہ میں داخل ہونے کا راستہ ہے پھر مناسک حج انجام دینے کے بعد منزل زرود میں امام علیہ السلام سے دوبارہ ملحق ہوگئے ۔

٢۔طبری نے کہا : ہشام نے عوانہ بن حکم کے حوالے سے، اس نے لبطہ بن فرزدق بن غالب سے اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ اس کے باپ نے کہا : میں نے ٦٠ھ میں حج انجام دیا اور ایام حج میں حرم میں داخل ہو ا تو دیکھا حسین بن علی مکہ سے نکل رہے ہیں میں ان کے پاس آیا اورعرض کی: بأبی أنت و أمی یا بن رسول اللّٰہ! ما اعجلک عن الحج؟ فرزند رسول خدا میرے ما ں باپ آپ پر قربان ہوجائی ں !آپ کو اتنی بھی کیا جلدی تھی کہ آپ حج چھوڑ کر جارہے ہیں ؟ امام علیہ السلام نے جواب دیا : لو لم أعجل لأْ خذت اگر میں جلدی نہ کرتا تو پکڑ لیا جاتا ۔ فرزدق کہتا ہے کہ پھر آپ نے مجھ سے پوچھا ممن أنت ؟تم کہا ں کے رہنے والے ہو ؟ تو میں نے جواب دیا : میں عراق کا رہنے والا ایک شخص ہو ں ؛ خدا کی قسم !اس سے زیادہ انھو ں نے میرے بارے میں تفتیش نہیں کی ؛ بس اتنا فرمایا : جن لوگو ں کو تم اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو مجھے ان کی خبر بتاؤ تو میں نے کہا: انکے قلوب آپ کے ساتھ ہیں اور تلواری ں بنی امیہ کے ہمراہ ہیں اور قضاء اللہ کے ہاتھ میں ہے۔آپ نے مجھ سے فرمایا : تم نے سچ کہا! پھر میں نے نذر اور مناسک حج کے سلسلہ میں کچھ سوالات کئے تو آپ نے اس کے جواب سے مجھے بہرہ مند فرمایا۔(طبری، ج٥، ص ٣٨٦)

٣۔قادسیہ او ر کوفہ کے درمیان ١٥ فرسخ کی مسافت ہے اور اس کے وعذیب کے درمیان ٤میل کا فاصلہ ہے اور اسے دیوانیہ کہتے ہیں ۔ حجاز کے دیہات کی طرف یہ(قادسیہ) عراق کا سب سے پہلا بڑاشہر ہے۔ اسی جگہ پر عراق کی سب سے پہلی جنگ بنام جنگ قادسیہ سعد بن ابی وقاص کی قیادت میں ہوئی ہے ۔

٤۔ یہ ایک قریہ ہے جو کوفہ سے نزدیک ہے جہا ں بنی عباس کا ایک پانی کاچشمہ ہے جیسا کہ معجم البلدان، ج ٣ ، ص٤٥١ پر موجود ہے ۔

٥۔ قطقطانہ ، رہیمہ سے کوفہ کی طرف تقریباً ٢٠میل کے فاصلہ پرہے۔ (طبری، ج٧ ، ص ١٢٥) یعقوبی کا بیان ہے : جب امام علیہ السلام کومسلم کی شہادت کی خبر ملی تو آپ قطقطانہ میں تھے۔ (طبری، ج٢، ص ٢٣٠)

٦۔ابو مخنف کا بیان ہے : مجھ سے یونس بن ابی اسحاق سبیعی نے اس کی روایت کی ہے۔(طبری ،ج٥،ص٣٩٤)

۲۲۹

تیسری منزل : حاجر(١)

اس کے بعد امام حسین علیہ السلام اپنے مقصد کی طرف روانہ ہوتے ہوئے حاجر بطن رمہ(٢) تک پہنچے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے قیس بن مسہر صیداوی کو اہل کوفہ کی طرف روانہ کیا اور ان کے ہمراہ اہل کوفہ کے نام ایک خط لکھا :

''بسم اللّه الرحمن الرحیم ! من الحسین بن علی الی اخوانه من المومنین و المسلمین، سلام علیکم : فانّی أحمد الیکم اللّٰه الذی لا اله الا هو ، أما بعد ، فان کتاب مسلم بن عقیل جاء ن یخبرن فیه بحسن رأیکم و اجتماع ملئکم علی نصرنا و الطلب بحقنا فسألت اللّٰه أن یحسن لنا الصنع وأن یثیبکم علی ذالک أعظم الاجر ، وقدشخصت من مکة یوم الثلاثاء لثمان مضین من ذی الحجه یوم التروية فاذا قدم علیکم رسول فا کمشوا أمرکم و جدّ وا، فان قادم علیکم فأیام هٰذه، ان شاء اللّٰه؛ والسلام علیکم ورحمة اللّه وبرکا ته ''

بسم اللّہ الرحمن الرحیم ! یہ خط حسین بن علی کی جانب سے اپنے مومنین و مسلمین بھائیوں کے نام، سلام علیکم ، میں اس خدا کی حمد و ثنا کرتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ۔امابعد ، حقیقت یہ ہے کہ مسلم بن عقیل کا خط مجھ تک آچکا ہے، اس خط میں انھوں نے مجھے خبر دی ہے کہ تم لوگوں کی رائے اچھی ہے اور تمہارے بزرگوں نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ وہ ہماری مدد کریں گے اور ہمارے حق کو ہمارے دشمنوں سے واپس لے لیں گے تو میں خدا سے سوال کرتا ہوں کہ وہ ہمارے لئے اچھی راہ قرار دے اور اس کے ثواب میں تم لوگوں کو اجرعظیم سے نوازے ۔

____________________

١ ۔حاجرنجد کی بلند وادی کو کہتے ہیں ۔

٢۔ بطن رمہ وہ جگہ ہے جہا ں اہل کو فہ و بصرہ اس وقت یکجا ہوتے تھے جب وہ مدینہ جانے کا ارادہ کرتے تھے جیسا کہ معجم البلدان، ج ٤،ص ٢٩٠،اور تاج العروس، ج ٣،ص١٣٩پر مرقوم ہے۔

۲۳۰

اس سے تم لوگ آگاہ رہوکہ میں بروز سہ شنبہ ٨ ذی الحجہ یوم الترویہ مکہ سے نکل چکا ہوں لہذا جب میرا نامہ بر تم لوگوں تک پہنچے تو جو کام تم کو کرنا چاہئیے اس کی تدبیر میں لگ جاؤ اور اس مسئلہ میں بھر پور کوشش کرو کیونکہ میں انشا ء اللہ انہی چند دنوں میں تم تک پہنچنے والا ہوں ۔ والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

امام حسین علیہ السلام کا یہ خط لے کر قیس بن مسہر صیداوی کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے۔آپ جب قادسیہ پہنچے تو حصین بن تمیم نے آپ کو گرفتار کر کے عبیداللہ بن زیاد کے پاس بھیج دیا ۔

ابن زیاد نے آپ سے کہا محل کی چھت پر جاؤ اور کذاب بن کذاب کو گالیاں دو !

قیس بن مسہر شجاعت وشہا مت کے ساتھ محل کی چھت پر آئے اور کہا :'' أیھا الناس ! ان الحسین علیہ السلام بن علی خیر خلق اللّٰہ ابن فاطمہ بنت رسول اللہ وأنا رسولہ الیکم وقد فارقتہ بالحاجر فأجیبوہ ثم لعن عبید اللہ بن زیاد وأباہ واستغفر لعلیِّ بن أبی طالب '' اے لوگو ! حسین بن علی خلق خدا میں بہتر ین مخلوق ہیں ، آپ فرزند فاطمہ بنت رسول خدا ہیں اور میں ان کا نامہ بر ہوں ، میں ان کو مقام حاجر میں چھوڑ کر یہاں آیا ہوں ۔ تم لوگ ان کی عدالت خواہ آواز پر لبیک کہنے کے لئے آمادہ ہو جاؤ پھر آپ نے عبید اللہ اور اس کے باپ پر لعنت کی اور علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کے لئے طلب مغفرت کی۔عبید اللہ نے حکم دیا کہ انھیں محل کے اوپر سے نیچے پھینک دیا جائے، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور آپ کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا۔اس طرح آپ شہید ہو گئے ۔] اللہ آپ پر نزول رحمت فر مائے[(١)

چو تھی منزل : چشمۂ آب

امام حسین علیہ السلام کا قافلہ کوفہ کی طرف رواں دواں تھا؛ راستے میں آپ کا قافلہ عرب کے ایک پا نی کے چشمہ کے پاس جا کر ٹھہرا۔ وہاں عبد اللہ بن مطیع عدوی بھی موجود تھے جو پا نی لینے کی غرض سے وہاں اترے تھے۔جیسے ہی عبد اللہ بن مطیع نے امام حسین علیہ السلام کو دیکھا ویسے ہی آپ کی خدمت میں

____________________

١۔ کتاب کے مقدمہ میں شرح احوال موجود ہے۔

۲۳۱

آکر کھڑے ہو گئے اور عرض کی: فرزند رسول خدا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں !کون سا سبب آپ کو یہاں تک لے آیا ؟

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : اہل عراق نے خط لکھ کر مجھے اپنی طرف بلا یا ہے۔عبد اللہ بن مطیع نے آپ سے عرض کیا: فرزند رسول اللہ آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ اس راہ میں آپ اسلام کی ہتک حرمت نہ ہو نے دیں ، میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ(وآلہ) وسلم کی حرمت خطرے میں نہ پڑے ،خدا کے لئے عرب کی حرمت خطرے میں نہ ڈالئے۔خدا کی قسم! اگر حق کو بنی امیہ سے واپس لینا چاہیں گے تو وہ آپ کو قتل کر ڈالیں گے اور اگر ان لوگوں نے آپ کو قتل کردیا تو آپ کے بعد کسی کو نگا ہ میں نہیں لا ئیں گے ۔(١) خدا کی قسم! اسلام کی حرمت، قریش کی حرمت ہے اورعربوں کی حرمت خاک میں مل جائے گی ،پس آپ ایسا نہ کریں اور کوفہ نہ جائیں اور بنی امیہ سے نہ الجھیں !عبد اللہ بن مطیع نے اپنے نظر یہ کو پیش کیا اور امام علیہ السلام اسے بغور سنتے رہے لیکن اپنے راستے پر چلتے رہے۔

پانچو یں منزل:خزیمیہ(٢)

امام حسین علیہ السلام کا سفر اپنے مقصد کی طرف جاری تھا۔ چلتے چلتے پھر ایک منزل پررکے جو مقام '' زرود'' سے پہلے تھی یہاں پر پانی موجود تھا،(٣) اس جگہ کا نام خزیمیہ ہے ۔

____________________

١۔ امام کے عمل سے نہ تو اسلام کی بے حرمتی ہوئی نہ ہی رسول خدا ، عرب اور قریش کی ہتک حرمت ہوئی بلکہ اسلام دشمن عناصر کی کا رستا نیو ں سے یہ سب کچھ ہوا ۔ابن مطیع نے اپنے اس جملہ میں خطا کی ہے جو یہ کہہ دیا کہولئن قتلوک لا یها بون بعد ک احداابدا کیونکہ امام علیہ السلام کے بعد ان لوگو ں کو جرأ ت ملی جو مکہ ومدینہ وکوفہ میں اس سے پہلے اپنے ہاتھو ں میں چوڑیا ں پہنے بیٹھے تھے انھی ں میں سے خود ایک ابن مطیع بھی ہے جو ابن زبیر کے زمانے میں کوفہ کا والی بنا۔ اگر امام حسین علیہ السلام نے قیام نہ کیا ہوتا تو بنی امیہ کے خلا ف کسی میں جرأ ت پیدا نہ ہوتی اور اسلام کو مٹا نے میں وہ جو چاہتے وہی کرتے ۔

٢۔یہ جگہ مقام زرود سے پہلے ہے اس کے بعدکاراستہ کوفہ جانے والو ں کے لئے ہے جیسا کہ معجم البلدان میں آیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے اس کے اورثعلبیہ کے درمیان ٣٢کیلومیٹرکا فاصلہ ہے۔ یہ درحقیقت ثعلبیہ کے بعدحجاج کی پہلی منزل ہے۔

٣۔ طبری ،ج٥،ص ٣٩٤، ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے محمد بن قیس نے یہ روایت بیان کی ہے ۔شاید یہ قیس بن مسہر کے فرزند ہیں ۔

۲۳۲

زہیر بن قین کا امام حسین علیہ السلام سے ملحق ہونا

قبیلہء بنی فنرارہ کے ایک مرد کا بیان ہے : ہم زہیر بن قین بجلی کے ہمراہ تھے اور ہم اسی راستے پر چل رہے تھے جس راستہ پر حسین (علیہ السلام) محو سفر تھے لیکن ہمارے لئے سب سے زیادہ نا پسند امر یہ تھا کہ ہم ان کے ہمراہ ایک ساتھ سفر کریں اور ایک منزل پر ٹھہریں لہٰذ ا زہیر کے حکم کے مطا بق حسین جہاں ٹھہر تے تھے ہم وہاں سے آگے بڑھ جا تے اور وہ جہاں پر آگے بڑھتے ہم وہاں پڑاؤ ڈال کر آرام کرتے تھے؛ لیکن راستے میں ہم ایک ایسی منزل پر پہنچے کہ چارو نا چار ہم کو بھی وہیں پر رکنا پڑا جہاں پر امام حسین نے پڑاؤ ڈالا تھا۔ امام حسین نے ایک طرف اپنا خیمہ لگا یا اور ہم نے اس کے دوسری طرف ؛ ہم لوگ ابھی بیٹھے اپنے خیمے میں کھا نا ہی کھا رہے تھے کہ یکایک حسین کا پیغام رساں حاضر ہوا اور اس نے سلام کیاپھر خیمہ میں داخل ہوا اور کہا : اے زہیر بن قین ! ابو عبد اللہ حسین بن علی نے مجھے تمہاری طرف بھیجا ہے تا کہ تم ان کے پاس چلو۔ اس جملہ کا اثر یہ ہوا کہ حیرت وتعجب سے جس انسان کے ہاتھ میں جو لقمہ تھا وہ نیچے گر گیا؛ سکوت کا یہ عالم تھا کہ ایسا محسوس ہو تا تھا کہ ہم سب کے سروں پر طائر بیٹھے ہیں ۔(١) زہیر بن قین کی زوجہ دلھم بنت عمر کہتی ہے کہ میں نے زہیر سے کہا : فرزند رسول اللہ تمہارے پاس پیغام بھیجے اور تم ان کے پاس نہ جائو !سبحان اللہ! اگر انھوں نے مجھے بلایا ہوتاتو میں ضرور جاتی اور ان کے گہر بار کلام کو ضرور سنتی، پھر میں نے کچھ نہ کہا لیکن زہیر بن قین اٹھے اور امام علیہ السلام کی بارگاہ میں روانہ ہوگئے ۔ابھی کچھ دیر نہ گزری تھی کہ واپس آگئے لیکن اب تو بات ہی کچھ اور تھی؛ چہرے پر خوشی کے آثار تھے اور چہرہ گلاب کی طرح کھلا جارہاتھا۔

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سدّی نے بنی فزارہ کے ایک جوان کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ جب حجاج بن یوسف کے زمانے میں ہم لوگ زہیر بن قیس بجلی کے مکان میں چھپے تھے جہا ں اہل شام داخل نہیں ہو تے تھے تو میں نے فزاری سے پوچھا: ذرا مجھ سے اس واقعہ کو بیان کرو جب تم لوگ حسین بن علی کے ہمراہ، سفر میں تھے تو اس نے یہ روایت بیان کی۔(طبری، ج٥، ص ٣٩٦، ارشاد، ص ٢٢١، خوارزمی، ص٣٢٥)

۲۳۳

اسی عالم میں زہیر نے اپنے ہمراہیوں سے کہا : تم میں سے جو ہمارے ساتھ آناچاہتا ہے آ جائے اور اگر نہیں تو اب اس سے میرا یہ آخری دیدار ہے۔اس کے بعداپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے زہیر نے کہا : میں تم لوگوں سے ایک روایت بیان کرنا چاہتا ہوں ، اسے غور سے سنو !ہم لوگ جب مقام '' بلنجر ''(١) پر لڑنے کے لئے گئے تو خداوندمتعال نے ہم لوگوں کو دشمنوں پر کامیابی عطاکی اور بڑی مقدار میں مال غنیمت بھی ہاتھ آیا۔اس وقت سلمان باہلی(٢) نے ہم لوگوں سے کہا : کیا تم لوگ اس بات پر خوش ہو کہ خدا وند عالم نے تم لوگوں کو فتح و ظفر سے نوازاہے اور کافی مقدار میں مال غنیمت تمہارے ہاتھوں لگاہے ؟ ہم لوگوں نے کہا : ہاں کیوں نہیں !تواس نے ہم لوگوں سے کہا : جب تم لوگ آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کی جوانی دیکھو گے تو تمہاری ان کے ساتھ جنگ کی خوشی اس مال غنیمت ملنے کی خوشی سے زیادہ ہو گی اورجہاں تک میری بات ہے تو اب میں تم لوگوں سے خدا حافظی کر تا ہوں ۔

پھر زہیر بن قین نے اپنی زوجہ کی طرف رخ کرتے ہوئے کہا : اب میں تم کو طلا ق دے رہا ہوں تاکہ تم آزاد ہو جاؤ اورگھروالوں کے پاس جا کر وہیں زندگی بسر کرو؛ کیونکہ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میری وجہ سے تمہیں کوئی نقصان پہنچے۔میں تمہارے لئے بہتری چاہتاہوں ۔(٣) و(٤)

____________________

١۔ یہ تاتا ریو ں (یا خزریو ں) کا شہر ہے جو انہیں کے دروازو ں میں سے ایک دروازے کے نزدیک ہے ٣٣ھ عہد عثمان میں سلمان بن ربیعہ باہلی کے ہاتھو ں یہ جنگ فتح کی گئی جیسا کہ معجم البلدان میں یہی موجود ہے ۔

٢۔ طبری ،ج٤، ص ٣٠٥ پر ہے کہ سلمان فارسی اور ابو ہریرہ اس جنگ میں لشکر کے ہمراہ موجود تھے ۔یہ بیان ابن اثیر کی الکامل میں ہے (ج ٤،ص ١٧)پھریہ بیان ہے کہ جس شخصیت نے ان لوگو ں سے یہ گفتگوکی وہ سلمان فارسی ہیں نہ کہ باہلی۔ ابن اثیر نے ا پنی تاریخ الکامل فی التاریخ میں اس بات کا ارادہ کیا ہے کہ تاریخ طبری کو کامل کری ں لہٰذاوہ اکثرو بیشتر اخبار میں طبری سے ناقل دکھائی دیتے ہیں ۔شیخ مفید نے ارشاد میں اور فتال نے روضة الواعظین میں ص ١٥٣پر ، ابن نمانے مثیر الاحزان میں ص ٢٣پر ، خوارزمی نے اپنے مقتل میں ج١، ص ٢٢٥پر اور البکری نے معجم ج١ ،ص٣٧٦ پر واضح طور سے اس بات کی صراحت کی ہے کہ وہ شخص جناب سلمان فارسی ہی تھے جنہو ں نے یہ جملہ کہا تھا۔ اس بات کی تائید طبری نے بھی کی ہے کیونکہ طبری کے بیان کے مطابق جناب سلمان وہا ں موجود تھے ؛ لیکن ظاہر یہ ہے کہ مدائن فتح ہونے کے بعد جناب سلمان فارسی وہیں کے گورنر رہے اور وہیں اپنی وفات تک قیام پذیر رہے اور کسی بھی جنگ کے لئے وہا ں سے نہیں نکلے؛ بلکہ اس جنگ سے قبل عمر کے عہد حکومت میں آپ نے اس دنیا کو الوداع کہہ دیا تھا ۔

٣۔ ابو مخنف کا بیان ہے : مجھ سے یہ خبر زہیر بن قین کی زوجہ دلھم بنت عمر و نے بیان کی ہے۔(طبری ،ج٥،ص٣٩٦، الارشاد، ص ٢٢١)

٤۔ عنقریب یہ بات کربلامیں زہیر بن قین کے خطبے سے معلوم ہوجائے گی کہ اس سے قبل زہیراس بات پر معاویہ کی مذمت کیا کرتے تھے کہ اس نے زیاد کو کس طرح اپنے سے ملحق کرلیا؛اسی طرح حجر بن عدی کے قتل پر بھی معاویہ سے ناراض تھے ۔

۲۳۴

ایک اور نامہ بر

اسی جگہ سے امام حسین علیہ السلام نے عبداللہ بن بقطر حمیری(١) کو بعض راستوں سے مسلم بن عقیل(٢) کی طرف روانہ کیا۔ سپاہ اموی جو حصین بن تمیم کے سربراہی میں کوفہ کے قریب قادسیہ میں چھاؤنی ڈالے راہوں کو مسدود کئے تھی اور آمد و رفت پر سختی سے نظررکھے ہوئی تھی؛ اس نے عبداللہ بن بقطر کوگرفتار کر کے عبیداللہ بن زیاد کے پاس بھیج دیا۔ جب آپ عبیداللہ کے پاس لائے گئے تو اس نے کہا : محل کے اوپر جاؤ اور کذاب بن کذاب پر لعنت بھیجو پھر نیچے اتر آؤ تاکہ میں تمہارے سلسلے میں اپنانظریہ قائم کرسکوں ۔یہ سن کر عبداللہ بن بقطر محل کے اوپر گئے اور جب دیکھا کہ لوگ تماشابین کھڑے ہیں تو آپ نے فرمایا :

'' أیھاالناس انی رسول الحسین علیہ السلام بن فاطمہ بنت رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم لتنصروہ و توازروہ علی بن مرجانة بن سمیہ الدعی ! ''

اے لوگومیں حسین فرزند فاطمہ بنت رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام رساں ہوں تاکہ تم لوگ ان کی مدد و نصرت کر سکو اور اس مرجانہ بن سمیہ کے بچے جس کی پیدائش کا بستر معلوم نہیں ہے، کے خلاف ان کی پشت پناہی کرو ،یہ سنتے ہی عبیداللہ بن زیادنے حکم دیاکہ انھیں چھت سے پھینک دیاجائے۔ اس کے کارندوں نے آپ کو محل کے اوپر سے نیچے پھینک دیا؛جس کی وجہ سے آ پ کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں ؛ لیکن ابھی رمق حیات باقی تھی۔عبدالملک بن عمیرلخمی(٣) آپ کے پاس آ یا اور آپ کو ذبح کر کے شہید کر ڈالا۔

____________________

١۔ آپ کی ما ں امام حسین علیہ السلام کی دیکھ بھال کیاکرتی تھی ں اسی لئے آپ کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ آ پ حضرت امام حسین علیہ السلام کے رضائی بھائی تھے۔طبری نے بقطر ہی لکھا ہے اسی طرح جزری نے الکامل میں بھی بقطر ہی ذکر کیا ہے؛ لیکن ہمارے بزرگو ں نے(ی) کے ساتھ یعنی یقطر لکھاہے جیسا کہ سماوی نے ابصارالعین، ص٥٢پر یہی لکھا ہے ۔

٢۔ ابومخنف کا بیان ہے : مجھ سے یہ خبرابو علی انصاری نے بکر بن مصعب مزنی کے حوالے سے نقل کی ہے۔(طبری ،ج٥، ص٣٩٨؛ارشاد، ص ٢٢٠) اس خبر کو انھو ں نے قیس بن مسہر صیداوی کی خبرسے خلط ملط کردیا ہے ۔

٣۔ شعبی کے بعد اس نے کوفہ میں قضاوت کا عہدہ سنبھالا۔ ١٣٦ ھ میں وہ ہلاک ہوا ؛اس وقت اس کی عمر ١٠٣ سال تھی جیسا کہ میزان الاعتدال، ج ١، ص ١٥١ ، اور تہذیب الاسمائ، ص٣٠٩ پر تحریرہے۔ عنقریب یہ بات آئے گی کہ منزل زبالہ پر صیداوی کی شہادت کی خبر سے پہلے امام علیہ السلام کو ابن بقطر کی شہادت کی خبر ملی ہے؛ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام نے قیس بن مسہر صیداوی سے پہلے یقطر کو روانہ کیا تھا ۔

۲۳۵

چھٹی منزل: زرود(١)

عبداللہ بن سلیم اسدی اور مذری بن مشمعل سے روایت ہے کہ ان دونوں نے کہا :

جب ہم حج سے فارغ ہوگئے تو ہماری ساری کوشش یہی تھی کہ ہم کسی طرح حسین سے راستے میں ملحق ہو جائیں تاکہ دیکھیں کہ بات کہاں تک پہنچتی ہے؛ لہٰذا ہم لوگوں نے اپنے ناقوں کو سر پٹ دو ڑایا؛ یہاں تک کہ مقام زرود(٢) پر ہم ان سے ملحق ہوگئے۔جب ہم لوگ ان کے قریب گئے تو دیکھا کوفہ کا رہنے والا ایک شخص عراق سے حجاز کی طرف روانہ ہے، جیسے ہی اس نے امام حسین علیہ السلام کو دیکھا اپنے راستے سے پلٹ گیا تاکہ آپ سے اس کی ملاقات نہ ہو لیکن ا مام علیہ السلام وہاں پر کھڑ ے رہے گویا اس کے دیدار کے منتطر تھے لیکن جب دیکھا کہ وہ ملاقات کے لئے مائل نہیں ہے تو اسے چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔

ہم میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا : آؤ اس شخص کے پاس چلیں اور اس سے پوچھیں اگر اس کے پاس کوفہ کی خبر ہو گی تووہ ہم کو اس سے مطلع کرے گا ؛یہ کہہ کر ہم لوگ چلے یہاں تک کہ اس تک پہنچ ہی گئے، پہنچ کر ہم نے کہا : السلام علیک ، تو اس نے جواب دیا: وعلیکم السلام ورحمة اللہ ۔

پھر ہم لوگوں نے پوچھا : تم کس قبیلہ سے ہو ؟ اس شخص نے جواب دیا : ہم قبیلہ بنی اسد سے ہیں ۔

ہم لوگوں نے کہا : ہم لوگ بھی بنی اسد سے متعلق ہیں ؛تمہارا نام کیا ہے ؟

____________________

١۔یہ جگہ خزیمیہ او رثعلبیہ کے درمیان کوفہ کے راستے میں ہے جیسا کہ معجم البلدان، ج٤،ص ٣٢٧میں یہی موجود ہے۔

٢۔ یہ خبر اس خبر سے منافات ر کھتی ہے جوابھی گذرچکی کہ یہ لوگ منزل صفاح پر مقام زرو د سے چند منزل قبل فر زدق والے واقعے میں موجود تھے کیونکہ اس خبر سے یہی ظاہر ہوتاہے بلکہ واضح ہے کہ یہ لوگ امام حسین علیہ السلام سے زرود میں ملحق ہوئے ہیں اور اس سے پہلے یہ لوگ امام کے ساتھ موجود نہیں تھے بلکہ حج کی ادائیگی کے ساتھ یہ ممکن بھی نہیں ہے کیونکہ منزل صفاح اوائل میں ہے جبکہ امام علیہ السلام ''یوم الترویہ'' کو مکہ سے نکلے ہیں ۔ اگر یہ لوگ امام علیہ السلام سے منزل صفاح پر ملحق ہوئے ہیں تو پھر حج کی انجام دہی ممکن نہیں ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ دونو ں خبرو ں کا ایک ہی راوی ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا؛ نہ ہی ابو جناب ، نہ ابو مخنف اورنہ ہی طبری، مگر یہ کہ یہ کہا جائے کہ حج سے پہلے یہ دونو ں منزل صفاح پر امام علیہ السلام سے ملے اور پھر حج کے بعد منزل زرود پر پہنچ کرامام علیہ السلام سے ملحق ہو گئے ۔

اس نے جواب دیا : بکیر بن مثعبہ، ہم لوگو ں نے بھی اپنا نام بتایا اور پھر اس سے پوچھا : کیا تم ہمیں ان لوگو ں کے بارے میں بتاؤ گے جنہیں تم اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو؟

اس نے جواب دیا:ہا ں ! میں جب کوفہ سے نکلاتھا تو مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ قتل کئے جا چکے تھے ۔ ہم نے دیکھا ان دونو ں کے پیرو ں میں رسی باندھ کر انھی ں بازار میں پھرایا جا رہاہے۔ اس خبر کے سننے کے بعد ہم لوگ اس سے جداہوکر اپنے راستے پر چل پڑے یہا ں تک کہ(حسین علیہ السلام) سے ملحق ہوگئے اور ایک دوسری منزل پر ان کے ہمراہ پٹراؤ ڈالا ۔

۲۳۶

ساتویں منزل : ثعلبیہ(١)

شام کا وقت تھا جب امام علیہ السلام نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا جس کا نام'' ثعلبیہ'' تھا۔جب آپ کے خیمہ نصب ہوچکے تو ہم لوگوں نے آپ کی خدمت میں آکر سلام عرض کیا ۔آ پ نے سلام کا جواب دیا تو ہم لوگوں نے آپ سے کہا : اللہ آپ پر رحمت نازل کرے! ہم لوگوں کے پاس ایک اہم خبر ہے۔ اگر آپ چاہیں تو اسے اعلانیہ بیان کریں اوراگر چاہیں ۔ توخفیہ اور پوشیدہ طور پر بیان کریں ۔ امام علیہ السلام نے اپنے اصحاب پر ایک نگاہ ڈالی اور فرمایا: ''مادون ھولاء سر'' ان لوگوں سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ہے جو خبر لائے ہو بیان کردو، ہم لوگوں نے ان سے کہا : آپ نے کل شام اس سوار کو دیکھا تھا جو آپ کے پاس سے گزرا تھا ؟

امام علیہ السلام نے فرمایا : ہاں ! میں اس سے کوفہ کے بارے میں سوال کرناچاہتا تھا۔ ہم نے کہا: ہم نے اس سے آپ کے لئے خبر لے لی ہے اورآپ کے بجائے ہم لوگوں نے کوفہ کے موضوع پر تحقیق کر لی ہے۔ وہ شخص قبیلہ بنی اسد کاایک مرد تھا جو ہمارے ہی قبیلہ سے تھا ۔ وہ صاحب نظر، سچا، اور صاحب عقل و فضل تھا ۔اس نے ہم لوگوں سے بتایا کہ جب وہ وہاں سے نکلا تھا تومسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ قتل ہوچکے تھے حتیٰ اس نے یہ بھی دیکھا تھا کہ ان دونوں کے پیروں میں رسی باندھ کر بازار میں گھسیٹا جارہاہے۔یہ سن کر آپ نے فرمایا :

____________________

١۔ کوفہ سے مکہ جانے کے لئے جو راستہ مڑتا ہے یہ وہی ہے۔ اس کی نسبت بنی اسد کے ایک شخص ثعلبہ کی طرف دی گئی ہے جیسا کہ معجم میں تحریر ہے۔

۲۳۷

'' انّاللّہ وانّاالیہ راجعون'' اس جملہ کی آپ نے چند مرتبہ تکرار فرمائی(١) پھر ہم نے عرض کی : آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ آ پ اپنے گھر والوں کے ہمراہ یہاں سے واپس لوٹ جائیں ؛کیونکہ اب کوفہ میں آپ کا کوئی ناصر ومدد گا ر نہیں ہے بلکہ ہمیں خوف ہے کہ کہیں وہ سب آپ کے مخالف نہ ہوگئے ہو ں ۔ایسے موقع پر فرزندان عقیل بن ابیطالب اٹھے اور انھوں نے اس کی مخالفت کی(٢) اور کہنے لگے : نہیں خدا کی قسم ہم یہاں سے اس وقت تک نہیں جائیں گے۔جب تک ہم ان سے اپنا انتقام نہ لے لیں یا وہی مزہ نہ چکھ لیں جس کاذائقہ ہمارے بھائی نے چکھاہے۔(٣) ان دونوں کا بیان ہے: حسین (علیہ السلام) نے ہم لوگوں پر ایک نگاہ ڈالی اور فرمایا : ''لاخیر فی العیش بعد ھولاء !'' ان لوگوں کے بعد زندگی میں کوئی اچھائی نہیں ہے۔ اس جملہ سے ہم نے بخوبی سمجھ لیا کہ سفر کے ارادے میں یہ مصمم ہیں تو ہم نے کہا : خدا کرے خیر ہو ! آپ نے بھی ہمارے لئے دعا کی اور فرمایا:'' رحمکم اللّہ ''اللہ تم دونوں پر رحمت نازل کرے ۔

رات کا سناٹا چھاچکا تھا، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ آپ سپیدہ سحر کے انتظار میں ہیں ؛جیسے ہی سپیدہ سحر نمودار ہوئی ،آپ نے اپنے جوانوں اور نو جوانوں سے فرمایا :''اکثروا من المائ'' پانی زیادہ سے زیادہ جمع کرلو ، ان لوگوں نے خوب خوب پانی جمع کرلیا اور اپنے سفر پر نکل پڑے یہاں تک کہ ایک دوسری منزل تک پہنچ گئے ۔

____________________

١۔ اس روایت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ جناب مسلم کی شہادت کی خبر یہا ں عام ہوگئی لیکن عنقریب یہ بات آئے گی کہ منزل زبالہ میں پہنچ کر امام علیہ السلام نے یہ خط لکھ کر اپنے اصحاب کے سامنے اس کا اعلان کیا تھا؛ یہا ں سے امام علیہ السلام کے اس جملے کا فلسفہ سمجھ میں آتا ہے کہ'' مادو ں ھولاء سر'' یعنی ان کے علاوہ جو لوگ ہیں ان کے لئے یہ خبر سری ہے اور اسی طرح یہ خبر منزل زبالہ تک پوشیدہ ہی رہی لیکن یعقوبی کا بیان ہے کہ مسلم کی شہادت کی خبر آپ کو مقام'' قطقطانہ'' میں ملی تھی۔ (تاریخ یعقوبی ،ج٦ ، ص ٢٣٠ ،ط، نجف)

٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے : ابو جناب کلبی نے عدی بن حرملہ اسد کے حوالے سے اور اس نے عبداللہ سے اس خبر کو ہمارے لئے بیان کیاہے۔ (طبری ،ج٥، ص٣٩٧) ارشاد میں ،ص ٢٢٢ پر ہے کہ عبداللہ بن سلیمان نے یہ روایت بیان کی ہے۔(ارشاد ، طبع نجف)

٣۔ ابومخنف کا بیان ہے : مجھ سے عمر بن خالد نے یہ خبر بیان کی ہے (لیکن صحیح عمرو بن خالد ہے) اور اس نے زید بن علی بن الحسین سے اور اس نے دائود بن علی بن عبداللہ بن عباس سے نقل کیا ہے ۔(طبری ،ج٥، ص ٣٩٧ ؛ارشاد، ص٢٢٢، مسعودی ،ج٣ ،ص ٧٠، الخواص ، ص ٢٤٥ ، طبع نجف)

۲۳۸

آٹھویں منزل : زبالہ(١)

یہ نورانی قافلہ اپنے سفرکے راستے طے کرتا ہوا زبالہ(٢) کے علاقے میں پہنچا تو وہاں امام حسین علیہ السلام کو اپنے رضائی بھائی عبداللہ بن بقطر(٣) کی شہادت کی خبر ملی۔ آپ نے ایک نوشتہ نکال کر لوگوں کو آواز دی اور فرمایا :'' بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم، أمابعد، فقد أتانا خبر فضیع ! قتل ابن عقیل و هانی بن عروةو عبدالله بن یقطر، وقدخذلتنا شیعتنا (٤) فمن أحب منکم الانصراف فلینصرف لیس علیه منا ذمام ''

بسم اللہ الرحمن الرحیم، امابعد،مجھ تک ایک دل دھلانے والی خبر پہنچی ہے کہ مسلم بن عقیل ، ہانی بن عروہ اور عبداللہ بن یقطر قتل کردئے گئے ہیں اور ہمار ی محبت کا دم بھرنے والوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے لہذا اب تم میں سے جو جانا چاہتا ہے وہ چلاجائے، ہماری جانب سے اس پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔

یہ جملہ سنتے ہی لوگ امام علیہ السلام سے جدا ہونے لگے کوئی داہنی طرف جانے لگاکوئی بائیں طرف؛ نتیجہ یہ ہواکہ فقط وہی ساتھی رہ گئے جو مدینہ سے آئے تھے۔ آپ نے یہ کام فقط اس لئے کیاتھا کہ

____________________

١۔ یہ جگہ کوفہ سے مکہ جاتے وقت مختلف راستے پیداہونے سے قبل ہے۔ یہا ں ایک قلعہ اورجامع مسجد ہے جو بنی اسد کی ہے۔ اس جگہ کا نام عمالقہ کی ایک عورت کے نام پر ہے جیسا کہ معجم البلدان میں یہی ہے ۔

(٢) ابومخنف کا بیان ہے : ابوجناب کلبی نے عدی بن حرملہ سے اور اس نے عبداللہ بن سلیم سے میرے لئے یہ خبر بیان کی ہے۔ (طبری، ج٥، ص ٣٩٨)

٣۔ ان کے شرح احوال گزر چکے ہیں اور وہ یہ کہ ان کی والدہ امام حسین علیہ السلام کی دیکھ بھال کیا کرتی تھی ں اسی لئے ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ امام حسین علیہ السلام کے رضائی بھائی ہیں ۔

٤۔ اس جملہ میں امام علیہ السلام کی تصریح ہے کہ کوفہ کے شیعو ں نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا۔ کوفہ اور جناب مسلم بن عقیل کی شہادت کے سلسلے میں یہ پہلا اعلان ہے اگرچہ اس کی خبر آپ کو اس سے قبل منزل زرود میں مل چکی تھی؛ لیکن ظاہر یہ ہے کہ جو لوگ وہا ں موجود تھے۔ ان کے علاوہ سب پر یہ خبر پوشیدہ تھی کیونکہ یہ امام علیہ السلام کے حکم سے ہوا تھا۔آخر کار آپ نے یہا ں '' زبالہ'' میں تمام حاضرین کے لئے اس خبر کا اعلان کردیا ۔

۲۳۹

باد یہ نشین عرب اس گمان میں آپ کے پیچھے پیچھے ہوئے تھے کہ آپ ایسے شہر میں آئیں گے جوظالم حکمرانوں کی حکومت سے پاک ہوگا اور وہاں کے لوگ آپ کے فرمانبردار ہوں گے لہذا امام علیہ السلام نے ناپسند کیا کہ ایسے لوگ آپ کے ہمسفر ہوں ۔امام چاہتے تھے کہ آپ کے ہمراہ صرف وہ رہیں جنہیں معلوم ہو کہ وہ کہاں جارہے ہیں اور امام علیہ السلام کو معلوم تھا کہ جب ان لوگوں پر بات آشکار ہوجائیگی تو کوئی بھی آپ کے ہمراہ نہیں رہے گا مگر وہ لوگ جو عدالت چاہتے ہوں اور موت ان کے ہمراہ چل رہی ہو۔(١) رات اسی منزل پر گزری ،صبح کو آپ نے اپنے جوانوں کو چلنے کا حکم دیاتو انھوں نے سب کو پانی پلاکر اور خوب اچھی طرح پانی بھر کر اپنا سفر شروع کر دیا یہاں تک کہ درّۂ عقبہ سے آپ کا گزرہوا ۔

نویں منزل : درّہ عقبہ(٢)

یہ نورانی قافلہ اپنے مقصد کی طرف آگے بڑھتا ہوا درّہ عقبہ تک پہنچا۔وہاں اس قافلہ نے اپنا پڑاؤ ڈالا۔(٣) بنی عکرمہ کے ایک شخص نے امام سے عرض کیا: آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ آپ یہیں سے پلٹ جائیے، خداکی قسم !آپ یہاں سے قدم آگے نہیں بڑھائیں گے مگریہ کہ نیزوں کی نوک اور تلواروں کی دھار پر آگے بڑھیں گے ، جن لوگوں نے آپ کو خط لکھا تھا اور آپ کوآنے کی دعوت دی تھی اگر یہ لوگ میدان کارزار کی مصیبتیں برداشت کرکے آپ کے لئے راستہ آسان کردیتے تب آپ وہاں جاتے تو آپ کے لئے بہت اچھا ہوتا لیکن ایسی بحرانی حالت میں جس سے آپ خود آگاہ ہیں ، میں نہیں سمجھتا کہ آپ کوفہ جانے کے سلسلے میں قدم آگے بڑھائیں گے۔

____________________

١۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام نے ان لوگو ں کو جانے کی اجازت دی تو آپ کا مقصد کیا تھا؟ امام علیہ السلام کا یہ بیان تمام چیزو ں پر کافی ہے

٢۔واقصہ کے بعد اور قاع سے پہلے مکہ کے راستے میں یہ ایک منزل ہے۔ یہ منزل ان کے لئے ہے جو مکہ جانا چاہتے ہیں ۔

٣۔ ابومخنف کا بیان ہے : ابوعلی انصاری نے بکر بن مصعب مزنی کے حوالے سے مجھ سے یہ خبر بیان کی ہے۔(طبری ،ج٥، ص ٣٩٨ ، ارشاد ،ص ٢٢٢ ،طبع نجف)

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271