امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت28%

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت مؤلف:
زمرہ جات: امامت
صفحے: 271

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 271 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 114732 / ڈاؤنلوڈ: 4269
سائز سائز سائز
امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

۶ ۔مردوں کے لئے خالص ریشم کے کپڑے کا استعمال حرام ہے خواہ نماز میں ہو یا غیر نماز میں۔ ہاں اگر اس میں اتنا سوت وغیرہ ملا دیا جائے کہ وہ ریشمی نہ کہلائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

۷ ۔ سونے کے توروں سے بنے ہوئے کپڑوں کا ستعمال مردوں کے لئے حرام ہے اسی طرح مردوں کے لئے سونے سے زینت اور آرائش بھی ناجائز ہے۔ جیسے سونے کی انگوٹھی ، چین ، چشمہ کا فریم ، گھڑی ، بٹن وغیرہ ۔ عورتوں کے لئے یہ تمام باتیں جائز ہیں۔

مردوں کے لئے سونے کا استعمال نماز اور غیر نماز دونوں حالتوں میں حرام ہے لیکن یہ بھی یاد رہے کہ سونے میں خالص کی قید نہیں بلکہ اگر مخلوط بھی ہے تو بھی ناجائز ہے۔ جب تک کہ اس میں تانبا یا کوئی دوسری دھات اتنی نہ ملا دی جائے کہ اسے سونا نہ کہہ سکیں۔

سوالات :

۱ ۔ نماز میں مرد اور عورت کو کتنا جسم چھپانا واجب ہے ؟

۲ ۔ نماز کے لباس کی تین شرطیں بیان کرو ؟

۳ ۔ نائلون کے کپڑے میں نماز کب ناجائز ہے ؟

۴۱

اکیسواں سبق

مکان

مکان سے مراد وہ جگہ ہے جہاں کھڑے ہو کر انسان نماز ادا کرتا ہے اس جگہ کے لئے پاک ہونے کی کوئی قید نہیں ہے بلکہ نجس بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ جگہ کی تری بدن اور کپڑے تک نہ پہونچ جائے مگر سجدہ کی جگہ کا پاک ہونا بہرحال ضروری ہے۔

مکان نماز میں حسب ذیل شرائط ضروری ہیں :

۱ ۔ مباح و جائز ہو ۔ دوسرے کی زمین پر یا مشتر کہ اراض میں بغیر مالک و شریک کی اجازت کے نماز باطل ہے۔ عام موقوفات یعنی مسجد وغیرہ میں جو پہلے جگہ لے لے اُسے اُس کی جگہ سے ہٹایا نہیں جا سکتا ایسا کرنے سے نماز باطل ہو جائےگی۔ اجازت کے صریح بیان کی ضرورت نہیں ہے بلکہ مالک کے راضی رہنے کا یقین ہونا کافی ہے۔

۲ ۔ نماز میں معصوم کی قبر کے آگے نہ ہونا چاہئے بلکہ پیچھے پڑھے یا زیادہ سے زیادہ برابر کھڑا ہو آگے ہونا خلاف ادب ہے ہاں اگر کافی ٖاصلہ ہو جائے یا درمیان میں کوئی چیز جائل ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

۳ ۔ نماز کی جگہ کو ساکن اور ٹھرا ہوا ہونا چاہئے۔ چلتی ہوئی گاڑی پر اس وقت تک نماز جائز ہے جبکہ آخر وقت تک اُتر کر یا رُکی ہوئی گاڑی میں نماز پڑھنا ممکن رہے۔

۴۲

یوں تو نماز کے لئے کوئی جگہ معین نہیں ہے لیکن مسجد کو دیگر مقامات پر فوقیت و فضیلت حاصل ہے چاہے وہاں نماز جماعت ہو یا نہ ہو۔ جماعت کا ہونا مزید ثواب و برکت کا باعث ہے۔

مسجد کی عظمت یہ ہے کہ عام مسجدوں میں ایک نماز پچیس نمازوں کے برابر ہے اور جامع مسجد میں سو نمازوں کے برابر ہے۔ مسجد کے بارے میں ایک روایت یہ ہے کہ مسجد کے پڑوسی کی نماز بغیر مسجد میں پڑھے مقبول نہیں ہو سکتی سوا اس کے کہ کوئی مجبوری ہو اور دوسری روایت یہ ہے کہ مسجد روز قیامت ان نمازوں سے فریاد کرےگی جو نماز پڑھتے تھے لیکن مسجد میں نہیں آتے تھے۔

سوالات :

۱ ۔ کیا نجس جگہ نماز پڑھ سکتے ہیں ؟

۲ ۔ ریل پر نماز کیونکر پڑھی جائےگی ؟

۳ ۔ معصوم کی قبر کے آگے نماز پڑھنا کیسا ہے ؟

۴ ۔ گھر کی نماز اور عام مسجد کی نما میں کیا فرق ہے ؟ عام مسجد اور جامع مسجد کی نماز میں کیا فرق ہے ؟

۵ ۔ جامع مسجد مین ایک نماز کا ثواب کیا ہے ؟

۶ ۔ چلتی ہوئی گاڑی میں نماز جائز ہے یا نہیں ؟

۴۳

بائیسواں سبق

اذان و اقامت

اذان و اقامت صرف پنچگانہ نمازوں کے لئے مستحب ہے اور انتہائی تاکید کے ساتھ مستحب ہے۔ باقی نمازوں میں اذان و اقامت ناجائز ہے چاہے وہ واجب ہوں یا غیر واجب۔ اذان اور اقامت میں حسب ذیل امور کا لحاظ ضروری ہے :

۱ ۔ نیت ۔ یعنی دونوں کو قربت کی نیت سے انجام سے اس لئے کہ کسی عبادت میں بغیر قصد قربت کے ثواب نہیں مل سکتا۔

۲ ۔ عقل ۔ دیوانے کی اذان و اقامت کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔

۳ ۔ بلوغ ، نابالغ کی اذان و اقامت ناکافی ہے۔

۴ ۔ ذکوریت ، عورت کی اذان و اقامت مرد کے لئے نا کافی ہے البتہ عورت کا اذان و اقامت کہنا عورتوں کے لئے کافی ہے۔

۵ ۔ ترتیب ۔ پہلے اذان اس کے بعد اقامت کہنا چاہئے۔

۶ ۔ موالات ۔ اذان کے بعد جلد ہی اقامت اور اقامت کے بعد فوراً نماز پڑھے۔ سلسلہ کے ٹوٹ جانے سے اذان و اقامت بیکار ہو جاتی ہے۔

۷ ۔ عربی ۔ اُردو میں یا غلط عربی میں اذان و اقامت درست نہیں ہے۔

۴۴

۸ ۔ وقت ۔

نماز کے وقت سے پہلے اس کا ادا کرنا غلط ہے البتہ قضا نماز پڑھی جا سکتی ہے اس لئے اس کا وقت ہر وقت رہتا ہے۔ اذان کے لئے طہارت ۔ قیام ۔ استقبال قبلہ مسجد ہے لیکن اقامت میں طہارت و قیام ضروری ہے۔ یہ رسم کہ اقامت کہتے کہتے قدقامت الصلوٰۃ پر کھڑے ہو گئے فرادی نماز میں بالکل نامناسب ہے اس طرح اقامت کا ثواب نہیں مل سکتا۔ اذان و اقامت دونوں میں ذکر رسولؐ اکرم کے بعد ذکر امیرالمومنین علیؐ ابن ابی طالبؐ ہونا چاہئے جو اذان کا جز نہیں ہے۔ لیکن حکم پیغمرؐ کی بنا پر مسحب ہے۔

اگر کوئی شخص اذان و اقامت دونوں بھول جائے اور نماز شروع کر دے تو اس کے لئے جائز ہے کہ رکوع میں پہونچنے سے پہلے نماز کو توڑ دے اور اذان و اقامت کہہ کر پھر نماز شروع کرے لیکن اگر صورف اقامت بھول گیا ہے تو الحمد شروع کرنے کے بعد نماز نہیں توڑ سکتا البتہ اس سے پہلے توڑ سکتا ہے۔ تنہا اذان کے بھول جانے سے نماز نہیں توڑی جا سکتی۔ اسی طرح کسی ایک کے بھی قصداً چھوڑ دینے پر نماز کا قطع کرنا حرام ہے۔

سوالات :

۱ ۔ نابالغ کی اذان و اقامت کیا کافی ہے ؟

۲ ۔ اقامت و نماز کے درمیان وقت کا فاصلہ کیا ہے ؟

۳ ۔ اگر نمازی اذان و اقامت بھول کر نماز شروع کر دے تو کیا حکم ہے ؟

۴ ۔ اقامت کی کوئی تین شرطیں بتاؤ ؟

۵ ۔ اذان اور اقامت میں جن باتوں کا لحاظ ضروری ہے وہ کتنی ہیں ؟

۴۵

تئیسواں سبق

واجبات نماز

نماز میں گیارہ چیزیں واجب ہیں اور انھیں کے مجموعہ کا نام نماز ہے۔

نیت : تکبیرۃ الاحرام ۔ قیام ۔ قرائت ۔ ذکر ۔ رکوع ۔ سجود ۔ تشہد ۔ سلام ۔ ترتیب ۔ موالات ۔ ان میں سے پانچ واجب کن ہیں یعنی ان کی کمی زیادتی بھولے سے بھی نماز کو باطل کر دیتی ہے۔ نیت تکبیرۃ الاحرام۔ قیام ۔ رکوع ۔ دونوں سجدے باقی سب غیر رکن ہیں یعنی ان کو قصداً چھوڑ دینے سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔ لیکن بھولے سے باطل نہیں ہوتی بلکہ ان کی قضا کرنا پڑتی ہے۔

نیت :

نیت رکن ہے اس کو ہمیشہ دل میں ہونا چاہئے زبان سے ادا کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ نماز احتیاط میں تو زبان سے ادا کرنا نماز کو باطل کر دیتا ہے۔

تکبیرۃ الاحرام ۔

نیت کے بعد اللہ اکبر کہنا رکن نماز ہے اور پوری نماز میں یہی ایک تکبیر واجب ہے اس کے علاوہ تمام تکبیریں سنت ہیں۔

قیام۔

انسان اپنے مکان بھر کھڑے ہوکر نماز پڑھے رونہ بیٹھ کر پڑھے اور اگ بیمار یا کمزور ہے تو جتنی دیر کھڑا رہ سکے ٹھرا رہے پھر اگر طاقت آ جائے تو پھر کھڑا ہو جائے اور جو بیٹھ بھی نہ سکے وہ لیٹ جائے داہنے یا بائیں کروٹ یا چت۔ بشرطیکہ قبلہ کی طرف اس کا چہرہ رہے۔ قیام ۔ الحمد اور سورہ ، پڑھتے وقت واجب ہے لیکن تکبیر کے وقت رکن ہے اور سورہ ، پڑھتے وقت واجب ہے لیکن تکبیر کے وقت رکن ہے اور اسی طرح رکوع سے پہلے بھی رکن ہے یعنی رکوع میں قیام سے جانا چاہئے یہی قیام متصل برکوع ہے۔ اس قیام کے رکن ہونے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اگر انسان حمد و سورہ کے بعد بھولے سے سجدہ کے لئے جھک گیا اور سجدہ کرنے سے پہلے یاد آیا کہ رکوع نہیں کیا ہے تو اب وہیں سے رکوع میں نہیں جا سکتا ورنہ نماز باطل ہو جائےگی بلکہ اسے چاہئے کہ سیدھے کھڑا ہو اور اس کے بعد رکوع میں جائے۔

۴۶

قرات ۔ تکبیر کے بعد پہلی دو رکعت میں الحمد اور اس کے بعد کوئی ایک سورہ پڑھنا واجب ہے۔ البتہ واجب سجدہوں والے سورے نہ پڑھے اور اتنے لمبے سورے نہ پڑھے کہ نماز کا وقت نکل جائے۔ جماعت کی حالت میں یہی دو سورے ماموم نہیں پڑھتا ہے ورنہ باقی نماز ماموم خود ادا کرےگا۔ آخری دو رکعتوں میں انسان کو اختیار ہے چاہے سورہ حمد پڑھے یا ایک مرتبہسُبحَانَ اللهِ وَ الحَمدُ لِلهِ وَ لاَ اِلٰهَ اِلاَّ للهُ وَ اللهُ اَکبَر پڑھے۔ تین مرتبہ پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔

رکوع ۔ نماز کا ایک اہم رکن ہے اگر اتفاقاً کبھی رہ جائے یا ایک سے دو ہو جائے تو نماز باطل ہے۔ رکوع میں اتنا جھکنا چاہئے کہ ہتھیلی گٹھنے تک پہونچ سکے۔ گٹھنے پر ہتھیلی کا رکھنا واجب نہیں ہے۔ رکوع میں ایک مرتبہ سبحان ربی العظیم و بحمدہ یا تین مرتبہ سبحان اللہ کہنا ضروری ہے۔ اس کے بعد ان کلمات کو بار بار دھرانا افضل و مستحب ہے۔ رکوع ختم کرنے کے بعد سیدھے کھڑا ہو کر سجدہ میں جائے اس لئے کہ یہ قیام بھی واجب ہے۔ کھڑے ہونے کے بعد سمع اللہ لمن حمدہ ۔ اللہ اکبر کہنا مستحب ہے۔

سجدہ ۔

یہ بھی نماز کا ایک رکن ہے لیکن دونوں ملاکر جس کا مطلب یہ ہے کہ دو کے چار ہو جائیں یا اتفاق سے کسی رکعت میں ایک بھی نہ ہو سکے تو نماز باطل ہو جائےگی۔ سجدہ میں سات اعضا ، کا زمین پر ٹکنا ضروری ہے۔ پیشانی ۔ دونوں ہتھیلیاں ۔ دونوں گٹھنے ۔ دونوں پیر کے انگوٹھے سجدہ کا ذکرسبحان ربی الا علیٰ و بحمده یا تین مرتبہسبحان الله ہے۔ سجدہ مٹی پر ہوگا یا جو چیزیں زمین سے اُگی ہوں ان پر ہوگا بشرطیکہ وہ کھانے اور پہننے میں کام نہ آتی ہوں۔ خاک کربلا پر سجدہ کرنے کا زیادہ ثواب ہے۔ اس لئے کہ یہ خاک اسلامی قربانیوں کو یاد دلانے والی اور مسلمانوں میں جوش عقیدت کو ابھارنے والی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ سجدہ کا جو ازارسی خاک پاک میں منحصر نہیں ہے بلکہ ہر پاک مٹی ، لکڑی ، پتے پر اپنے شرائط کے ساتھ سجدہ کیا جا سکتا ہے۔

۴۷

تشہد ۔

دوسری رکعت اور آخری رکعت میں دونوں سجدوں کے نعد تشہد واجب ہے جس کی صورت یہ ہےاَشهَدُ اَن لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ وَحدَهُ لَا شَرِیکَ لَهُ وَ اَشهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبدُهُ وَ رَسُولَهُ اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ ٰالِ مُحَمَّد ! اگر کوئی شخص تشہد بھول جائے اور بھول کر کھڑا ہو جائے تو فوراً بیٹھ کر تشہد پڑھے اور نماز کے بعد دو سجدہ سہو کرے۔

سلام ۔

نماز کے خاتمہ پر ایک سلام واجب ہے چاہےاِلسِّلاِمُ عَلَینَا وَ عَلیٰ عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِینُ "یا "اَلسَّلاَم عَلَیکُم وَ رَحمَةُ اللهِ وَ بَرَکاتُهُ بہر حال مستحب ہے۔ سلام نماز کا جز ہے۔

ترتیب ۔

نماز کو اپنی صحیح ترتیب کے ساتھ پڑھنا چاہئے مثلا نیت کر کے تکبیر کہے پھر سورہ حمد پڑھے دوسرا سورہ پڑھے پھر رکوع میں جائے۔ رکوع سے اُٹھ کر سجدہ میں جائے۔ ایک سجدہ سے اُٹھ کر پھر دوسرا سجدہ کریں پھر اسی طرح دوسری رکعت پڑھے۔ اگر دو ہی رکعت پڑھنا ہے تو سجدہ کے بعد تشہد و سلام پڑھ کر ختم کر دے ورنہ باقہ نماز اسی ترتیب سے ادا کرے۔

موالات ۔

نماز کے تمام اگعال کو پے در پے ہونا چاہئے۔ درمیان میں اتنا فاصلہ یا ایسی خاموشی نہ ہو جائے کہ صورت نماز ہی ختم ہو جائے۔

قنوت ۔

یہ دوسری رکعت میں رکوع سے پہلے مستحب ہے اس میں ایک صلوات کا پڑھنا بھی کافی ہے۔

سوالات :

۱ ۔ ارکان نماز کتنے ہیں اور ان کا کیا حکم ہے ؟

۲ ۔ کون سا قیام رکن ہے اور قیام متصل برکوع کا کیا مطلب ہے ؟

۳ ۔ واجب نماز کتنے ہیں ؟

۴ ۔موالات کسے کہتے ہیں ؟

۴۸

چوبیسواں سبق

مبطلات نماز

نو چیزیں ایسی ہیں جن سے نماز ٹوٹ جاتی ہے اور اس کا دوبارہ ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔

۱ ۔ کسی ایسے حدث کا صادر ہو جانا جس سے وضو باطل ہو جاتا ہے یا غسل واجب ہو جاتا ہے اسلئے کہ ان چیزوں سے طہارت ختم ہو جاتی ہے اور طہارت کے بغیر نماز نہیں ہو سکتی۔

۲ ۔ پورے بدن کا قبلہ سے منحرف ہو جانا یا تنہا چہرا کا اس قدر مڑ جانا جس سے پس پشت تک کی چیزیں دیکھ سکے، رہ گیا داہنے بائیں تھوڑا سا انحراف و التفات ہوتو اس سے نماز باطل نہیں ہوتی۔

۳ ۔ حالت نماز میں ایسے کام انجام دینا جو جائز ہیں یا جن کے کرنے سے نماز کی صورت باقی نہیں رہتی۔ جیسے ناچنا ۔ گانا ۔ سینا پرونا وغیرہ

اسکے علاوہ ہاتھوں کو حرکت دینا کسی ضرورت سے جھکنا ۔ دو ایک قدم آگے پیچھے ۔ داہنے بائیں ہٹ جانا ۔ خطرہ میں سانپ بیچھو کا قتل کر دینا ۔ بچہ کو گود میں اٹھا لینا یا اس قسم کے دوسرے معمولی افعال سے نماز باطل نہیں ہوتی بشرطیہ حرکت کی حالت میں خاموش رہے کوئی ذکر وغیرہ کا خاص خیال رکھے۔بلا ضرورت یہ باتیں کسی طرح مناسب نہیں ہیں۔

۴۹

۴ ۔ کلام نماز کی حالت میں علاوہ ذکر و دعا کے کسی بھی لفظ کا استعمال کرنا نماز کو باطل کر دیتا ہے۔ دعا وغیرہ میں بھی خطاب پروردگار عالم سے ہونا چاہئے کسی آدمی سے خطاب کر کے اسے دعا دینا ناجائز ہے۔نماز پڑھنے والے کو سلام کرنے کی ابتدا نہیں کرنی چاہئے لیکن اگر کوئی سلام کر دی تو فوراً سلام علیکم کہہ کر جواب دینا چاہئے علیکم السلام کہہ کر نہیں۔ اگر پوری جماعت کو سلام کیا جائے تو ایک شخص کا جواب کافی ہے لیکن اگر سب جواب کو ٹال جائیں گے تو گناہ میں بھی سب شریک رہیںگے۔

ہندوستان کے رسمی سلام "اداب عرض " ہے۔ تسلیمات وغیرہ جیسے فقروں کا جواب واجب نہیں ہے بلکہ حالت نماز میں تو ان الفاظ کا ادا کرنا جائز بھی نہیں ہے۔

۵ ۔ نماز میں آواز کے ساتھ یا اتنی شدت سے ہنسنا کہ سارا چہرہ سرخ ہو جائے خواہ آواز نہ بھی نکلے نماز کو باطل کر دیتا ہے البتہ معمولی مسکراہٹ میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ہنسی سے جب چہرہ سرخ ہو جائے تو بہتر یہ ہے کہ نماز کو تمام کرے اور دوبارہ نماز پڑھے۔

۶ ۔ گریہ و بکا ۔ حالت نماز میں دنیاوی کاموں کے لئے رونا نماز کو باطل کر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر دفعتاً خود بخود رونا آ گیا اور انسان اس پر قابو نہ پا سکا جب بھی نماز باطل ہو جائےگی۔ سیدالشہدا پر گریہ کرنا خدا کی خوشنودی کی نیت سے جائز ہے۔

۵۰

۷ ۔ کھانا پینا ۔ نماز کی حالت میں کسی مقدار میں بھی کھانا پینا ناجائز ہے بلکہ مبطل نماز ہے ہاں اگر منھ میں شکر وغیرہ کے کچھ ریزے رہ گئے ہیں اور وہ پگھل کر اندر چلے جائیں تو اس سے کوئی اثر نماز پر نہیں پڑتا۔ اگر کوئی شخص درمیان نماز میں بھولے سے کھانے پینے میں مشغول ہو گیا تو اس کی نماز باطل نہ ہوگی بشرطیہ نمازی جانماز پر معلوم ہوتا ہو دسترخوان پر نہیں۔ اس حکم سے صرف وہ شخص آزاد ہے جو نماز وتر پڑھ رہا ہے اور صبح کے وقت اُسے روزہ رکھنا ہے۔ ایسے آدمی کو نہ اختیار رہے کہ نماز کی حالت میں پانی پی لے ۔ کھانا وہ بھی نہیں کھا سکتا۔ پانی پینے میں بھی قبلہ کا لحاظ انتہائی ضروری ہے۔

۸ ۔ تکفیر ۔ نماز میں ہاتھ باندھنا شریعت اسلام کی رو سے ناجائز ہے۔

۹ ۔ سورہ حمد کے خاتمہ پر عام مسلمانوں کی طرح آمین کہنا فقہ آل محمدؐ کی رو سے ناجائز بلکہ مبطل نماز ہے اتفاقی طور سے زبان سے نکل جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

۵۱

یہ وہ مقامات ہیں جہاں نماز خود بخود باطل ہو جاتی ہے اس کے علاوہ کسی موقع پر بھی باطل ضرورت نماز کا قطع کرنا جائز نہیں ہے۔ البتہ ضرورت کے وقت ایسا ہو سکتا ہے چاہے وہ ضرورت دنیاوی ہو یا دینی بلکہ بعض حالات میں اگر جان و مال و آبرو کا خطرہ ہے تو نماز کا توڑ دینا واجب ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ نماز توڑتے وقت ایک سلام پڑھے۔

تنبیہ ۔

نماز یومیہ میں صبح ، مغرب اور عشا کی پہلی دو رکعتیں بآواز پڑھی جائیںگی۔ ظہر و عصر مکمل اور مغربین کی آخری رکعتیں آہستہ پڑھی جائینگی لیکن یہ خیال رہے کہ بات صرف حمد و سورہ کے بارے میں ہے اس کے علاوہ پوری نماز کے بارے میں انسان کو اختیار ہے کہ چاہے آہستہ پڑھے یا بآواز۔ حمد و سورہ اور دیگر ذکر و دعا کے پڑھنے میں عربی قواعد کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ حمد و سورہ بآواز پڑھتے وقت ہر ہر حرف کا آواز سے پڑھنا واجب ہے۔ مثلا ضآلین کا نون بھی آواز سے ادا کرنا ضروری ہے۔

سوالات :

۱ ۔ حالت نماز میں سانپ ، بچھو کا مارنا کیسا ہے نماز صحیح رہے گی یا باطل ہو جائےگی ؟

۲ ۔ کیا مسکراہٹ سے نماز باطل ہو جائےگی ؟

۳ ۔ نماز میں پانی پینا کیسا ہے ؟

۴ ۔ تکفیر کے معنی کیا ہیں ؟

۵ ۔ مبطلات نماز بتلائیے ؟

۶ ۔ کیا حالت نماز میں آداب عرض ، یا تسلیمات عرض کہا جائے تو نماز صحیح ہوگی ؟

۵۲

پچیسواں سبق

آداب ذکر و قرائت

۱ ۔ نیت کے موقع پر بعض حضرات قربتہً الا اللہ کہہ دیتے ہیں حالانکہ یہ لفظ " الی اللہ " ہے۔

۲ ۔ صلوات میںاَللهُم سَلِّ سے کہہ دیا جاتا ہے حالانکہ یہ رسولؐ اکرم کے لئے بد دعا ہے اصل لفظصَلِّ صاد سے ادا ہوتا ہے۔

۳ ۔اَشهَدُ اَن لاَ اِلٰهَ اِلاَّ الله میں اَن کا نون گرا کر الف کو بعد کے لام سے ملا کراَلاَّ اِلٰهَ پڑھنا چاہئے۔

۴ ۔ صلوات میں محمدٍّ و آلِ محمد میں واؤ پر تشدید دیکر وال کو واؤ سے ملاکر پڑھنا چاہئے۔

۵ ۔ کفو احد مٰیں لفظ کفوا کو کُفُواً واؤ کے ساتھ اور کُفُواً ۔ کُفؤاً ہمزہ کے ساتھ چار طرح سے پڑھ سکتے ہیں۔

۶ ۔ حی علی الصلوۃ اور قد قامت الصلوۃ میں "ت" کو "ہ" پڑھنا چاہئے اس لئے کہ وقف اور ٹھراؤ میں گول ۃ "ہ "سے بدل جاتی ہے۔

۷ ۔ تشہد میںاَشهَدُ اَنَّ مُحمَداً عَبدُهُ وَ رَسُولَهُ میں عَبدَہُ کے دال پر پیش ہونا چاہئے زبر غلط ہے۔

۸ ۔ سورہ حمد میں المستقیم پر ٹھہر بھی سکتے ہیں اور المستقیمَ پڑھ کر بعد سے ملا بھی سکتے ہیں۔

۹ ۔ نماز کی حالت میں جتنے بھی ذکر واجب یا مستحب ہیں سب کو سکون و اطمینان کی حالت میں ادا کرنا چاہئے حرکت و اضطراب میں سوائےبِحولِ الله وَ قُوتهِ اَقُومُ وَ اَقعُد کے کسی ذکر کا ادا کرنا مناسب نہیں ہے۔

سوالات :

۱ ۔ کتنی چیزیں ایسی ہیں جن سے نماز ٹوٹ جاتی ہے ؟

۲ ۔ نیت میں اِلا اللہ درست ہے یا اِلی اللہ صحیح ہے ؟

۳ ۔ نماز میں وہ کون سی چیز ہے جس کو حرکت کی حالت میں بھی پڑھ سکتے ہیں ؟

۵۳

چھبیسواں سبق

نماز قضا

اگر انسان سے اپنی نماز ترک ہو گئی ہے یا بڑے بیٹے پر باپ کی قضا نماز واجب ہو گئی ہے تو اس کا فریضہ ہے کہ ان سب کی قضا ادا کرے قضا نماز تمام احکام مین باطل ادا جیسی ہے اگر سفر کی قجا ہے تو گھر میں بھی قصر ہی ادا کی جائے گی اور اسی طرح بر عکس۔ اگر جہری ہے تو جہری رہےگی اخفاقی ہے تو اخفاقی رہےگی۔فرادی بھی ہو سکتی ہے جماعت سے بھی ہو سکتی ہے ترتیب کا لحاظ بھی ضروری ہوگا۔ مثلا پہلے ظہر کی پھر عصر کی پہلے مغرب کی پھر عشاء کی البتہ یہ ممکن ہے کہ صبح کی قضا نماز ظہرین کی ادا کے بعد پڑھے یا ظہرین کی قضا نماز مغربین کی ادا کے بعد پڑھے۔ قضا کا کوئی وقت معین نہیں ہے ہر نماز کی قضا ہر وقت پرھی جا سکتی ہے۔

والدین کی نماز اگر خود ادا ادا کرنے پر قادر نہیں ہے تو اجرت دے کر پڑھوائے اجرت پڑھنے والا مرنے والے کی طرف سے نیت کر کے ویسی نماز پڑھے جیسی نماز مرنے والے کی قضا ہوئی ہے۔ لیکن جہر و اخفات میں اپنا طاظ کرے گا یعنی اگر مرد عورت کی طرف سے پڑھ رہا ہے تب بھی جس نماز میں مرد سورے آواز سے پڑھتا ہے اس نماز میں آواز سے ہی پڑھےگا۔ بڑے بیٹے کے علاوہ قضاء والد کسی دوسرے پر واجب نہیں ہے یہ اور بات ہے کہ بڑے بیٹے کی نالائقی یا اس کے نہ ہونے کی صورت میں دیگر اولاد و اعزاء کو ازراہ ہمدردی اس فیضہ کو ادا کر دینا چاہئے۔ عورت پر زمانہ حیض و نفاس میں چھوٹ جانے والی نمازوں کی قضا واجب نہیں ہے البتہ اس زمانہ کے روزے کی قضا ضروری ہے۔

۵۴

مردے کی طرف سے اگر کوئی شخص ازخود نماز ادا کر دے تو وارث کو پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بیمار آدمی قضائے عمری کو بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتا بلکہ صحت کا انتظار کرےگا۔ ہاں اگر صحت سے مایوس ہو گیا ہے تو بیٹھ کر ہی ادا کرےگا۔عام طور سے جمعتہ الوداع کے دن چار رکعت نماز کو زندگی بھر کا کفارہ مشہور کر دیا گیا ہے اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے بلکہ قضا کا ادا کرنا بہرحال ضروری ہے۔

سوالات :

۱ ۔ جہری نمازیں کون ہیں اور اخفائی کون ؟

۲ ۔ باپ کی نماز کس بیٹے پر واجب ہے ؟

۳ ۔ اجرت پر نماز پڑھنے والے کا کیا حکم ہے ؟

۵۵

ستائیسواں سبق

نماز کی غلطیاں

بھول

نماز مین غلطیوں کی دو صورتیں ہوتی ہیں ، بھول اور شک۔ بھول جانے کی صورت یہ ہے کہ انسان حالت نماز میں کسی واجب کے ادا کرنے سے غافل ہو جائے۔ ایسی صورت میں اگر بھولی بات اگلے رکن میں داخل ہونے سے پہلے یاد آ جائے تو فوراً پلٹ کر اسے بجا لائے اور اگر رکن میں داخل ہونے کے بعد یاد آئے جیسے رکوع میں پہونچکر سورہ حمد یا دوسرے سورہ کا بھول جانا یاد آیا تو ایسی حالت میں جس چیز کو بھولا ہے اگر وہ خود رکن نہیں ہے تو نماز کو آگے پڑھا دے اور بعد میں ہر بھولی ہوئی بات کے لئے دو سجدہ سہو کرے اور اگر بھولی ہوئی بات خود رکن تھی تو نماز باطل ہو گئی پھر سے پڑھے۔ اگر پلٹ کر واجب کو ادا کرنے میں کوئی زیادتی ہو گئی ہے تو اس زیادتی کے لئے بھی سجدہ سہو کرےگا۔ مثلا کھڑے ہو جانے کے بعد یاد آئے کہ تشہد نہیں پڑھا ہے تو فوراً بیٹھ جائے اور تشہد پڑھے اور نماز کے بعد سجدہ سہو کرے اس لئے کہ کھڑا ہو کر پھر بیٹھنا پڑا اور تشہد کے بعد پھر کھڑا ہونا پڑا۔ اس زیادتی کے لئے سجدہ سہو کرنا ہوگا۔

۵۶

سجدہ سہو چھ اسباب سے واجب ہوگا۔

۱ ۔ بھولے سے درمیان نماز میں کلام کر لینا ایسے میں نماز باطل نہ ہوگی بلکہ سجدہ سہو کرےگا۔

۲ ۔ بے محل سلام پڑھ دینا۔

۳ ۔دوسرے سجدہ کے بعد چوتھی اور پانچویں رکعت یا حالت قیام میں چوتھی یا پانچویں یا یا پانچویں اور چھٹی رکعت میں شک کرنا۔

۴ ۔ ایک سجدہ کا بھول جانا دونوں کے بھولنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے اس لئے وہ رکن ہیں۔

۵ ۔ بے محل کھڑا ہو جانا جیسے کہ دوسری رکعت میں بجائے تشہد کے قیام کرنا۔ ایسے میں بیٹھ کر تشہد پڑھےگا۔ اور نماز کے بعد سجدہ سہو کرےگا۔

۶ ۔ خود تشہد کا فراموش کر دینا اور بعد والی رکعت کے رکوع میں جاکر یاد آنا۔

سجدہ سہو کی ترکیب

نماز کے ختم ہوتے ہی قبلہ سے منحرف ہوئے بغیر فوراً دل میں نیت کرے کہ دو سجدہ سہو فلاں غلطی کی بنا پر کرتا ہوں واجب قربتہً الی اللہ اور یہ قصد کر کے فوراً سجدہ میں جائے اور یہ ذکر کرے " "بِسمِ اللهِ وَ بِاللهِ اَلسَّلاَمُ عَلَیکَ اَيهُّا النَّنِیُ وَ رَحمَةُ اللهِ وَ بَرَکَاتُهُ " پھر سر اٹھا کر دوبارہ سجدہ کرے اور یہی ذکر پڑھے پھر سر اٹھا کر تشہد و سلام پڑھ کر کلام تمام کرے۔

اگر نماز میں ایک سجدہ یا تشہد بھول گہا تھا تو خاتمہ نماز پر پہلے اس سجدہ یا تشہد کی قضا کرے، اس کے بعد سجدہ سہو کرے۔

۵۷

شک

نماز میں شک پیدا ہونے کی دو صورتیں ہیں۔ کبھی شک کا تعلق نماز کے

افعال سے ہوتا ہے اور کبھی نماز کی رکعتوں سے۔ افعال میں شک کا مطلبیہ ہے کہ دوران نماز تکبیر کہنے ، حمد یا سورہ پڑھنے ، رکوع یا سجدہ کونے وغیرہ میں شک ہو جائے ، ایسی صورت کا حکم یہ ہے کہ اگر بعد والے عمل میں داخل ہونے کے بعد کسی پہلے والے فعل میں شک ہوا ہے تو اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی جائےگی بلکہ نماز کو صحیح قرار دیا جائےگا مثلا کسی شخص کو قل ھو اللہ احد پڑھتے وقت سورہ حمد کے پڑھنے میں شک ہو گیا تو وہ بجائے پلٹنے کے نماز آگے پڑھتا رہےگا اور انشاء اللہ صحیح رہےگی۔

رکعات میں شک کا مطلب یہ ہے کہ رکعتوں کی صحیح تعداد یاد نہ رہے اس شک کی بظاہر بہت سی صورتیں ہیں لیکن صرف ۹ صورتوں میں نماز صحیح ہو سکتی ہے۔ باقی تمام صورتوں میں باطل ہوگی۔ اس کا قاعدہ یہ ہے کہ شک پیدا ہوتے ہی دماغ پر زور دے کہ صحیح بات یاد کرنے کی کوشش کرے۔ اب اگر کوئی فیصلہ نہ کر سکے تو شریعت کی تفصیل یہ ہے۔

ان قوانین کی تفصیل یہ ہے :

۱ ۔ دوسرے سجدہ کے بعد یہ شک ہو کہ یہ سجدہ دوسری رکعت کا تھا یا تیسری رکعت کا۔ ایسی صورت میں تیسری سمجھ کر اسی حساب سے نماز تمام کرے اور ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے اس لئے کہ اگر واقعی دوسری رکعت تھی تو ایک ہی رکعت کی کمی ہوئی ہے۔

۵۸

۲ ۔تیسری اور چوتھی رکعت کے بارے میں کسی حالت میں شک ہو ۔ ایسے میں چوتھی قرار دے کر نماز تمام کرے اور ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے۔

۳ ۔ دوسری سجدہ کے بعد دو اور چار میں شک ہو ۔ ایسے میں چوتھی رکعت ورار دے کر نمام تمام کرے اور دو رکعت نماز احتیاط پڑھے۔

۴ ۔ دوسرے سجدہ کے بعد شک کرے کہ یہ رکعت دوسری تھی یا تیسری یا چوتھی ۔ ایسے میں چوتھی سمجھے اور پہلے دو رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پرھے پھر دو رکعت بیٹھ کر۔

۵ ۔ دوسرے سجدہ کے بعد شک ہو کہ یہ رکعت چوتھی تھی یا پانچویں ۔ ایسے میں نماز وہیں پر تمام کرے اور دو سجدہ سہو کرے۔

۶ ۔ حالت قیام میں شک ہو کہ یہ چوتھی ہے یا پانچویں ۔ ایسے میں فوراً بیٹھ کر نماز تمام کر دے اور ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے اور دو سجدہ سہو بھی کرے۔

۷ ۔ حالت قیام میں شک ہو کہ یہ تیسری ہے یا پانچویں ۔ ایسے میں بیٹھا کر نماز ختم کر دے اور دو رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے۔ اور دو سجدہ سہو بھی کرے۔

۸ ۔ حالت قیام میں شک ہو کہ یہ تیاری ہے یا چوتھی یا پانچویں ۔ ایسے میں بیٹھ کر نماز تمام کر دے اور دو رکعت کھڑے ہو کر اور دو رکعت بیٹھ کر نماز احتیاط پڑھے۔ اور دو سجدہ سہو بھی کرے۔

۹ ۔ حالت قیام میں شک ہو کہ یہ پانچویں ہے یا چھٹی ۔ ایسے میں بیٹھ کر نماز تمام کرے اور دو سجدہ سہو کرے۔ نیز بنا پر احتیاط واجب بےجا قیام کے لئے دو سجدہ مزید کرے۔

۵۹

شک کے بارے میں یہ بات ضرور ہیش نظر رہنی چاہے کہ یہ سارے احکام صرف اس نماز کے لئے ہیں جس میں چار رکعتیں ہوتی ہیں۔ سہ رکعتی نماز یعنی مغرب اور دو رکعتی نماز یعنی صبح اور حالت سفر کی ظہر و عصر و عشا کا حکم یہ ہے کہ شک پیدا ہوتے ہی کسی مقدار میں غور کرے اگر کوئی بات یاد آ جائے تو اس پر عمل کرے ورنہ نماز کو اسی جگہ سے توڑ دے اور دوبارہ چروع کرے۔

نماز احتیاط

اس نماز کا طریقہ یہ ہے کہ اصل نماز کے ختم کرنے کے بعد فوراً ہی بلا فاصلہ نیت کرے کہ نماز احتیاط ایک رکعت یا دو رکعت پڑھتا ہوں واجب قربتہً الی اللہ اس نیت کا زبان سے ادا کرنا جائز ہے۔ اس کے بعد فقط سورہ حمد اور وہ بھی آہستہ پڑھ کر رکوع اور سجدہ کرے اگر ایک رکعتی ہے تو تشہد و سلام پڑھ کر نماز تمام کر دے ورنہ دوسری رکعت بھی پہلی رکعت کی طرح پڑھے اور سجدوں کے بعد تشہد و سلام ادا کر کے نماز ختم کر دے۔ نماز احتیاط میں الحمد کے علاوہ دوسرا سورہ یا قنوت نہیں پڑھا جاتا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ اگر نماز میں کسی واجب کو ادا کرنا بھول جائے تو کیا کرے ؟

۲ ۔ سجدہ سہو کہاں واجب ہوتا ہے ؟

۳ ۔ سجدہ سہو اور نماز احتیاط کی ترکیب بتاؤ ؟

۴ ۔ شک کی کتنی صورتوں میں نماز صحیح رہےگی ؟

۵ ۔ نماز احتیاط یا سجدہ سہو چھوڑ کر کیا نماز دوبارہ پڑھی جا سکتی ہے ؟

۶۰

انہوں نے کہا:خداشاہد ہے،نہیں۔

فرمایا:تمھیں خداکی قسم دلاتاہوں،کیاتم لوگوں میں میرے علاوہ کوئی ہے،جس نے پیغمبر سے سرگوشی سے پہلے صدقہ دیاہو،یہاں تک کہ خدائے وند متعال نے اس حکم کو منسوخ کر دیا؟

انہوں نے کہا۔خدا شاہدہے نہیں۔

فرمایا:تمھیں خداکی قسم ہے،کیاتم لوگوں میں میرے علاوہ کوئی ہے،جس نے قریش اورعرب کے مشرکین کوخدااوراس کے رسول (ص)کی راہ میں قتل کیاہو؟

انہوں نے کہا:خدا گواہ ہے،نہیں۔

فرمایا:تمھیں خداکی قسم ہے،کیاتم لوگوں میں میرے علاوہ کوئی ہے،جس کے حق میں پیغمبراکرم (ص))افزائش)علم کے سلسلہ میں دعاکی ہواوراذن واعیہ)گوش شنوا)کا خدا سے مطالبہ کیاہو،جس طرح میرے حق میں دعاکی؟انہوں نے کہا:خدا گواہ ہے،نہیں۔فرمایا:تمھیں خداکی قسم ہے،کیاتم لوگوں میں کوئی ہے جوپیغمبراکرم (ص)سے رشتہ داری میں مجھ سے زیادہ نزدیک ہواورجس کوپیغمبرخدا (ص)نے اپنا نفس،اس کے بیٹوں کواپنے بیٹے کہاہو؟انہوں نے کہا:خدا گواہ ہے،نہیں۔“

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اس حدیث میں مباہلہ میں شریک ہو نے والے افراد،کہ جنھیں پیغمبراکرم (ص)اپنے ساتھ لائے تھے وہ،علی،فاطمہ،حسن،وحسین )علیہم السلام)کی ذات تک محدود ہیں۔

حدیث کامعتبرراورصحیح ہونا:

ا ہل سنت کی احادیث کے بارے میں ہم صرف مذکورہ احادیث ہی پراکتفاکرتے ہیں،اوران احادیث کے مضمون کی صحت کے بارے میں یعنی مباہلہ میں صرف پنجتن آل عبا)پیغمبر کے علاوہ علی،فاطمہ حسن وحسین علیہم السلام)ہی شا مل تھے اس حوالے سے صرف حاکم نیشابوری کے درج ذیل مطالب کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

۶۱

وہ اپنی کتاب”معرفةعلوم الحدیث“(۱) میں پہلے آیہء مباہلہ کے نزول کوابن عباس سے نقل کرتاہے اور وہ انفسنا سے حضرت علی علیہ السلام،”نسائنا“سے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہااور”ابناء نا“سے حسن وحسین علیہما السلام مراد لیتا ہے۔اس کے بعدابن عباس اور دوسروں سے اس سلسلہ میں نقل کی گئی روایتوں کومتواترجانتے ہوئے کے اہل بیت(ع)کے بارے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس فرمائش:”هؤلائ اٴبنائناواٴنفسنا ونسائنا “کے سلسلہ میں یاددہانی کراتاہے۔

چنا نچہ اس باب میں اصحاب کے ایک گروہ جیسے جابربن عبداللہ،ابن عباس اور امیرالمؤمنین کے حوالے سے مختلف طرق سے احادیث نقل ہو ئی ہیں،اس مختصرکتاب میں بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے،اس لئے ہم حاشیہ میں بعض ان منابع کی طرف اشارہ کرنے ہی پر اکتفاکرتے ہیں(۲)

____________________

۱۔معر فة علوم الحدیث،ص۵۰،دارالکتب العلمیة،بیروت

۲۔احکام القرآن /جصاص/ج۲/ص۱۴دارالکتاب العربی بیروت، اختصاص مفید/ص۵۶/من منشورات جماعة المدرسین فی الحوزة العلمیة، اسباب النزول /ص۶۸/دارالکتب العلمیة بیروت،اسد الغابة/ ج۴/ ص۲۵/ داراحیائ التراث العربی بیروت الا صابہ/ج۲/جزء ۴/ص۲۷۱، البحر المحیط/ج۳/ ص۴۷۹/ داراحیائ التراث العربی بیروت،البدایة و النھایة/ ج۵/ ص۴۹ دارالکتب العلمیة بیروت، البرھان/ ج۱/ص۲۸۹/ مؤسسہ مطبوعاتی اسماعیلیان، التاج الجامع للاصول/ ج۳/ ص۳۳۳/داراحیاء التراث العربی بیروت، تاریخ مدینہ دمشق/ج۴۲/ص۱۳۴/ دارالفکر، تذکرہ خواص الامة/ ص۱۷/ چاپ نجف، تفسیر ابن کثیر/ج۱/ص۳۷۸/دارالنعرفة بیروت،تفسیربیضاوی/ج۱/ص۱۶۳/دارالکتب العلمیة بیروت، تفسیرخازن) الباب التاویل) /ج۱/ص۲۳۶/دارالفکر، تفسیر الرازی/ج۸/ص۸۰/داراحیاء التراث العربی بیروت، تفسیرالسمر قندی) بحرالعلوم)/ج۱ص/۲۷۴دارالکتب العلمیة بیروت، تفسیر طبری/ ج۳ /ص۳۰۱۔۲۹۹/دالفکر،تفسیر طنطاوی/ ج۲/ ص۱۳۰/ دارالمعارف القاہرة، تفسیر علی بن ابراہیم قمی /ج۱/ص۱۰۴، تفسیر الماوردی/ ج۱/ ص۳۸۹و۳۹۹/ مؤسسة ظالکتب الثقافیة/ دارالکتب العلمیة بیروت، التفسیر المنیر/ج۳/ ص۲۴۵ ،۲۴۸، ۲۴۹/ دارالفکر، تفسیرالنسفی) در حاشیہئ خازن)/ ج۱/ ص۲۳۶/دارالفکر،تفسیر النیشابوری/ج۳/ص۲۱۳/دارالمعرفة بیروت،تلخیص المستدرک/ج۳/ص۱۵۰/دارالمعرفة بیروت،جامع احکام القرآن/قرطبی/ج۴/ص۱۰۴/دارالفکر، جامع الاصول/ج۹/ص۴۶۹داراحیاء التراث العربی،الجامع الصحیح للترمذی/ج۵/ص۵۹۶/دارالفکر، الدرالمنثور/ج۲/ص۲۳۳۔۲۳۰/دارالفکر، دلائل النبوة ابونعیم اصفہانی/ص۲۹۷، ذخائر العقبی/ص۲۵/مؤسسةالوفائ بیروت، روح المعانی/ج۳/ص۱۸۹/داراحیائ التراث العربی، الریاض النضرة/ج۳/ص۱۳۴/دارالندوة الجدید بیروت، زاد المسیر فی علم التفسیر/ج۱/ص۳۳۹/دارالفکر، شواہد التنزیل/حاکم حسکانی/ج۱/ص۱۶۷۔۱۵۵/مجمع احیائ الثقافة الاسلامیة، صحیح مسلم/ج۵/ص۲۳/کتاب فضائل الصحابة/باب فضائل علی بن ابی طالب /ح۳۲/مؤ سسة عزّالدین، الصواعق المحرقة/ص۱۴۵/مکتبة القاہرة، فتح القدیر/ج۱/ص۳۱۶/ط مصر )بہ نقل احقاق)، فرائد السمطین/ج۲/ص۲۳،۲۴/مؤ سسةالمحمودیبیروت، الفصول المہمة/ص۲۵۔۲۳،۱۲۶۔۱۲۷/منشورات الاعلمی، کتاب التسہیل لعلوم التنزیل /ج۱/ص۱۰۹/دارالفکر، الکشاف/ج۱/دارالمعرفة بیروت، مدارج النبوة/ص۵۰۰بمبئی)بہ نقل احقاق)،المستدرک علی الصحیحن/ج۳/ص۱۵۰/دارالعرفةبیروت،مسند احمد/ج۱/ص۱۸۵/دار صادربیروت، مشکوةالمصابیح/ج۳/ص۱۷۳۱/المکتب الاسلامی، مصابیح السنة/ج۴/ص۱۸۳/دارالمعرفة بیروت، مطالب السئول/ص۷/چاپ تہران، معالم التنزیل /ج۱/ص۴۸۰/دارالفکر، معرفة اصول الحدیث/ص۵۰/دارالکتب العلمیة بیروت، مناقب ابن مغازلی /ص۲۶۳/المکتبة الاسلامیة تہران

۶۲

۲ ۔شیعہ امامیہ کی احادیث

شیعہ روایتوں میں بھی اس واقعہ کے بارے میں بہت سی فراوان احادیث موجود ہیں،یہاں پرہم ان میں سے چنداحادیث کونمونہ کے طورپرذکرکرتے ہیں:

پہلی حدیث

امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ،جب نجران کے عیسائی پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئے،ان کی نمازکا وقت ہو گیاوہیں پرگھنٹی بجائی اور)اپنے طریقہ سے)نماز پڑھنا شروع کےا۔اصحاب نے کہا:اللہ کے رسول یہ لوگ آپکی مسجد میں یوںعمل کررہے ہیں!آپ نے فرما یا: انھیں عمل کر نے دو۔

جب نمازسے فارغ ہوئے،پیغمبراکرم (ص)کے قریب آئے اورکہا:ہمیں آپ کس چیزکی دعوت دیتے ہو؟

آپنے فرمایا:اس کی دعوت دیتاہوں کہ،خدائے واحدکی پرستش کرو، میں خدا کارسول ہوں اورعیسیٰ خدا کے بندے اور اس کے مخلوق ہیںوہ کھاتے اورپیتے ہیں نیزقضائے حاجت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا:اگروہ خدا کے بندے ہیں تواس کاباپ کون ہے؟

پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پروحی نازل ہوئی کہ اے رسول ان سے کہدیجئے کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں کیاکہتے ہیں؟وہ خداکے بندے اوراس کی مخلوق ہیں اورکھاتے اورپیتے ہیںاورنکاح کرتے ہیں۔

آپنے فرمایا:اگرخداکے ہربندے اورمخلوق کے لئے کوئی باپ ہوناچاہئے توآدم علیہ السلام کا باپ کون ہے؟وہ جواب دینے سے قاصررہے۔خدائے متعال نے درج ذیل دوآیتیں نازل فرمائیں:

( إنّ مثل عیسی عند اللّٰه کمثل آدم خلقه من تراب ثم قال له کن فیکون فمن حاجّک فیه من بعد ماجاء ک من العلم قل تعالوا ندع اٴبناء نا واٴبنائکم ونسائنا ونسائکم واٴنفسنا واٴنفسکم ) (آل عمران /۶۱)

”عیسی کی مثال اللہ کے نزدیک آدم جیسی ہے کہ انھیں مٹی سے پیداکیااورپھرکہاہوجاتو وہ پیداہوگئےاے پیغمبر!علم کے آجانے کے بعدجولوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہدیجئے کہ ٹھیک ہے تم اپنے فرزند،اپنی عورتوں اوراپنے نفسوں کو بلاؤاور ہم بھی اپنے فرزند،اپنی اپنی عورتوں اور اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں پھرخداکی بارگاہ میں دونوں ملکردعاکریں اورجھوٹوں پرخداکی لعنت کریں“

۶۳

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:”میرے ساتھ مباہلہ کرو،اگر میں نے سچ کہاہوگاتوتم لوگوں پرعذاب نازل ہوگااوراگرمیں نے جھوٹ کہاہوگاتومجھ پر عذاب نازل ہوگا“

انہوں نے کہا:آپنے منصفانہ نظریہ پیش کیاہے اورمباہلہ کوقبول کیا۔جب وہ لوگ اپنے گھروں کولوٹے،ان کے سرداروں نے ان سے کہا:اگرمحمد (ص)اپنی قوم کے ہمراہ مباہلہ کے لئے تشریف لا ئیں ،تووہ پیغمبرنہیں ہیں،اس صورت میں ہم ان کے ساتھ مباہلہ کریں گے،لیکن اگر وہ اپنے اہل بیت)علیہم السلام)اوراعزہ کے ہمراہ تشریف لا ئیں توہم ان کے ساتھ مباہلہ نہیں کریں گے۔

صبح کے وقت جب وہ میدان مباہلہ میں اگئے تودیکھاکہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ علی،فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام ہیں۔اس وقت انہوں نے پوچھا:یہ کون لوگ ہیں؟ان سے کہاگیا:وہ مردان کاچچا زادبھائی اورداماد علی بن ابیطالب ہیں اور وہ عورت ان کی بیٹی فاطمہ ہے اوروہ دوبچے حسن اورحسین )علیہماالسلام)ہیں۔

انہوں نے مباہلہ کر نے سے انکار کیا اورآنحضرت (ص)سے کہا:”ہم آپ کی رضایت کے طا لب ہیں۔ہمیں مباہلہ سے معاف فرمائیں۔“آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے ساتھ صلح کی اورطے پایاکہ وہ جزیہ اداکریں۔(۱)

دوسری حدیث

سیدبحرانی،تفسیر”البرہان“میں ابن بابویہ سے اورحضرت امام رضا علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں:

”حضرت)امام رضا علیہ السلام)نے مامون اور علماء کے ساتھ)عترت وامت میں فرق اورعترت کی امت پرفضیلت کے بارے میں )اپنی گفتگو میں فرمایا:جہاں پر خدائے متعال

____________________

۱۔تفسیر علی بن ابراھیم،مطبعة النجف ،ج۱،ص۱۰۴،البرہان ج۱،ص۲۸۵

۶۴

ان افرادکے بارے میں بیان فرماتاہے جو خدا کی طرف سے خاص طہار ت و پاکیزگی کے مالک ہیں،اور خدااپنے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کوحکم دیتاہے کہ مباہلہ کے لئے اپنے اہل بیت کو اپنے ساتھ لائیں اورفرماتاہے: ۔۔۔( فقل:تعالوا ندع اٴبنائنا واٴبنائکم ونسائنا ونسائکم واٴنفسنا واٴنفسکم ) ۔۔۔

علماء نے حضرت سے کہا: آیہ میں ’انفسنا“سے مرادخودپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں!امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:آپ لوگوں نے غلط سمجھا ہے۔بلکہ”انفسنا“ سے مرادعلی بن ابیطالب(علیہ السلام)ہیں۔اس کی دلیل یہ ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بنی ولیعہ سے فرمایا: ”اٴولاٴبعثنّ إلیهم رجلاً کنفسی “یعنی:”بنی ولیعہ کواپنے امورسے دست بر دار ہو جا ناچاہئے، ورنہ میں اپنے مانندایک مردکوان کی طرف روانہ کروں گا۔“

”ابنا ء نا“ کے مصداق حسن وحسین)علیہماالسلام)ہیں اور”نساء نا“سے مراد فاطمہ (سلام اللہ علیہا) ہیں اوریہ ایسی فضیلت ہے،جس تک کوئی نہیں پہونچ سکااوریہ ایسی بلندی ہے جس تک انسان کاپہنچنااس کے بس کی بات نہیں ہے اوریہ ایسی شرافت ہے جسے کوئی حاصل نہیں کرسکتاہے۔یعنی علی(علیہ السلام)کے نفس کواپنے نفس کے برابرقراردیا۔(۱)

تیسری حدیث

اس حدیث میں ،ہارون رشید،موسی بن جعفر علیہ السلام سے کہتاہے:آپ کس طرح اپنے آپ کوپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اولادجانتے ہیں جبکہ انسانی نسل بیٹے سے پھیلتی ہے اورآپ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیٹی کے بیٹے ہیں؟

امام )علیہ السلام )نے اس سوال کا جواب دینے سے معذرت چاہی ۔ہارون نے کہا:اس مسئلہ میں اپ کواپنی دلیل ضروربیان کرنا ہو گی آپ فرزندان،علی علیہ السلام کا یہ دعوی

____________________

۱۔تفسیر البرہان،ج۱،ص۲۸۹،مؤسسہئ مطبو عاتی اسما عیلیان

۶۵

ہے آپ لوگ قرآن مجیدکامکمل علم رکھتے ہیں نیز آپ کا کہنا ہے کہ قرآن مجیدکاایک حرف بھی آپ کے علم سے خارج نہیں ہے اوراس سلسلہ میں خداوندمتعال کے قول: ۔۔۔( ما فرّطنا فی الکتاب من شیء ) ۔۔۔(۱)

سے استدلال کرتے ہیں اوراس طرح علماء کی رائے اوران کے قیاس سے اپنے آپ کوبے نیاز جانتے ہو!

حضرت)امام مو سی کاظم علیہ السلام)نے ہارون کے جواب میں اس آیہء شریفہ کی تلاوت فرمائی جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوحضرت ابراھیم علیہ السلام کی ذریت تایاگیا ہے:

( و من ذرّیّته داود و سلیمان و اٴیوب و یوسف و موسی و هارون و کٰذلک نجزی المحسنین زکریا و یحی و عیسی وإلیاس ) ۔۔۔(۱)

”اورپھرابراھیم کی اولاد میں داؤد،سلیمان،ایوب،یوسف،موسیٰ اورہارون قراردیا اورہم اسی طرح نیک عمل کرنے والوں کوجزادیتے ہیں۔اورزکریا،یحیٰ،عیسیٰ اورالیاس کو بھی رکھاجوسب کے سب نیک عمل انجام دینے والے ہیں ۔“

اس کے بعد امام (علیہ السلام)نے ہارون سے سوال کیا:حضرت عیسیٰ(علیہ السلام)کاباپ کون تھا؟اس نے جواب میں کہا:عیسیٰ(علیہ السلام)بغیرباپ کے پیداہوئے ہیں۔امام (ع)نے فرمایا:جس طرح خدائے متعال نے جناب عیسی کوحضرت مریم(سلام اللہ علیہا)کے ذریعہ ذریت انبیاء)علیہم السلام)سے ملحق کیاہے اسی طرح ہمیں بھی اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہاکے ذریعہ پیغمبراکرم (ص)سے ملحق فرمایاہے۔

اس کے بعد حضرت(ع)نے ہارون کے لئے ایک اور دلیل پیش کی اور اس کے لئے

____________________

۱۔انعام/۳۸

۲۔انعام/۸۴۔۵

۶۶

آیہء مباہلہ کی تلاوت کی اورفرمایا:کسی نے یہ دعوی نہیں کیاہے کہ مباہلہ کے دوران، پیغمبراکرم (ص)نے علی،فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام کے علاوہ کسی اورکو زیر کساء داخل کیاہو۔اس بناء پر آیہء شریفہ میں ”ابنائنا“سے مرادحسن وحسین) علیہماالسلام) ”نسائنا“سے مرادفاطمہ (سلام اللہ علیہا) اور”انفسنا“سے مرادعلی علیہ السلام ہیں۔(۱)

چوتھی حدیث

اس حدیث میں کہ جسے شیخ مفیدنے”الاختصاص“میں ذکرکیاہے۔موسی بن جعفرعلیہ السلام نے فرمایا:پوری امت نے اس بات پراتفاق کیاہے کہ جب پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اہل نجران کومباہلہ کے لئے بلایا تو زیر کساء)وہ چادر جس کے نیچے اہل بیت رسول تشریف فرما تھے (علی، فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا۔اس بنائ پرخدائے متعال کے قول:( فقل تعالوا ندع اٴبنائنا و اٴبناء کم و نساء نا و نسائکم و اٴنفسنا و اٴنفسکم ) میں ”ابنائنا“سے حسن وحسین)علیہماالسلام)”نسائنا“سے فاطمہ سلام اللہ علیہااور ”انفسنا“سے علی بن ابیطالب علیہ السلام مرادہیں۔(۲)

شیخ محمدعبدہ اوررشیدرضاسے ایک گفتگو

صاحب تفسیر”المنار“پہلے تو فر ما تے ہیں کہ”روایت ہے کہ پیغمبراکرم (ص)نے مباہلہ کے لئے علی(ع)وفاطمہ(س)اوران کے دو نوں بیٹوں کہ خدا کا ان پر درودو سلام ہوکاانتخاب کیااورانھیں میدان میں لائے اور ان سے فرمایا:”اگرمیں دعا کروں تو تم لوگ آمین کہنا“روایت کوجاری رکھتے ہوئے اختصار کے ساتھ مسلم اورترمذی کو بھی نقل کرتے ہیں اس کے بعد کہتے ہیں:

____________________

۱۔البرہان ،ج۱،ص۲۸۹،مؤسسہ مطبو عاتی اسماعیلیان

۲۔الاختصاص،ص۵۶،من منشورات جماعةالمدرسین فی الحوزةالعلمیة

۶۷

استادامام)شیخ محمدعبدہ)نے کہاہے:اس سلسلہ میں روایتیں متفق علیہ ہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مباہلہ کے لئے علی(ع)فاطمہ(س)اوران کے بیٹوں کومنتخب کیا ہے اورآیہء شریفہ میں لفظ”نسائنا“ فاطمہئ کے لئے اورلفظ”انفسنا“ کا استعمال علی کے لئے ہواہے۔لیکن ان روایتوں کاسرچشمہ شیعہ منابع ہیں)اورانہوں نے یہ احادیث گھڑلی ہیں)اور اس سے ان کا مقصدبھی معلوم ہے۔وہ حتی الامکان ان احادیث کو شائع و مشہور کرنا چاہتے ہیں اوران کی یہ روش بہت سے سنّیوں میں بھی عام ہو گئی ہے!لیکن جنہوں نے ان روایتوں کوگھڑا ہے،وہ ٹھیک طریقہ سے ان روایتوں کو آیتوں پر منبطق نہیں کرسکے ہیں،کیونکہ لفظ”نساء“کا استعمال کسی بھی عربی لغت میں کسی کی بیٹی کے لئے نہیں ہواہے،بالخصوص اس وقت جب کہ خود اس کی بیویاں موجودہوں،اور یہ عربی لغت کے خلاف ہے اوراس سے بھی زیادہ بعید یہ ہے کہ ”انفسنا“سے مراد علی (ع)کو لیا جائے“ ۱

استاد محمدعبدہ کی یہ بات کہ جن کا شمار بزرگ علماء اورمصلحین میں ہوتا ہے انتہائی حیرت انگیزہے۔باوجوداس کے کہ انھوں نے ان روایتوں کی کثرت اوران کے متفق علےہ ہونے کو تسلیم کیا ہے،پھربھی انھیں جعلی اور من گھڑت کہاہے۔

کیاایک عام مسلمان ،چہ جائیکہ ایک بہت بڑاعالم اس بات کی جرائت کرسکتاہے کہ ایک ایسی حقیقت کوآسانی کے ساتھ جھٹلادے کہ جورسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی صحیح ومعتبر سنّت میں مستحکم اور پائداربنیادرکھتی ہو؟!اگرمعتبرصحاح اورمسانیدمیں صحیح سندکے ساتھ روایت نقل ہوئی ہے وہ بھی صحیح مسلم جیسی کتاب میں کہ جواہل سنّت کے نزدیک قرآن مجیدکے بعددومعتبرترین کتابوں میں سے ایک شمارہوتی ہے،اس طرح بے اعتبارکی جائے،تومذاہب اسلامی میں ایک مطلب کوثابت کرنے یامستردکرنے کے سلسلہ میں کس منبع و ماخذپراعتماد کیا جا سکتا ہے ؟اگر ائمہ

___________________

۱۔المنار،ج ۳،ص۳۲۲،دارالمعرفة بیروت

۶۸

مذاہب کی زبانی متوا تراحادیث معتبرنہیں ہو ں گی توپھرکونسی حدیث معتبرہوگی؟!

کیاحدیث کوقبول اورمستردکرنے کے لئے کوئی قاعدہ و ضابط ہے یاہرکوئی اپنے ذوق وسلیقہ نیزمرضی کے مطابق ہرحدیث کوقبول یامستردکرسکتاہے؟کیایہ عمل سنّت رسول (ص)کے ساتھ زیادتی اوراس کامذاق اڑانے کے مترادف نہیں ہے؟

شیخ محمدعبدہ نے آیہء شریفہ کے معنی پردقت سے توجہ نہیں کی ہے اورخیال کیاہے کہ لفظ ”نسائنا“حضرت فاطمہ زہراء )سلام اللہ علیہا )کے بارے میں استعمال ہواہے۔جبکہ”نسائنا“خوداپنے ہی معنی میں استعمال ہواہے،رہاسوال رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویوں کا کہ جن کی تعداداس وقت نوتھی ان میں سے کسی ایک میں بھی وہ بلند مرتبہ صلاحیت موجودنہیں تھی اورخاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں تنہاعورت،جوآپ کے اہل بیت میں شمارہوتی تھیں اورمذکورہ صلاحیت کی مالک تھیں،حضرت فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا)تھیں،جنھیں انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے ساتھ مباہلہ کے لئے لے گئے۔(۱)

”انفسنا“کے بارے میں اس کتاب کی ابتداء میں بحث ہوچکی ہے انشا اللہ بعد والے محور میں بھی اس پرتفصیل سے روشنی ڈالی جائیگی ۔

ایک جعلی حدیث اوراہل سنّت کااس سے انکار

مذکورہ روایتوں سے ایک دوسرامسئلہ جوواضح ہوگیاوہ یہ تھاکہ خامس آل عبا)پنجتن پاک علیہم السلام)کے علاوہ کوئی شخض میدان مباہلہ میں نہیں لایاگیا تھا۔

مذکورہ باتوں کے پیش نظربعض کتابوں میں ابن عساکر کے حوالے سے نقل کی گئی روایت کسی صورت میں قابل اعتبار نہیں ہے،جس میں کہاگیاہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابوبکراوران کے فرزندوں،عمراوران کے فرزندوں،عثمان اوران کے فرزندوں اورعلی علیہ السلام اوران کے

____________________

۱۔اس سلسلہ میں بحث ،آیہء تطہیرکی طرف رجوع کیا جائے ۔

۶۹

فرزندوں کواپنے ساتھ لائے تھے۔

ایک تو یہ کہ علماء ومحققین،جیسے آلوسی کی روح المعانی(۱) میں یادہانی کے مطابق،یہ حدیث جمہورعلماء کی روایت کے خلاف ہے،اس لئے قابل اعتمادنہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ اس کی سندمیں چند ایسے افرادہیں جن پرجھوٹے ہونے کاالزام ہے،جیسے:سعیدبن عنبسہ رازی،کہ ذہبی نے اپنی کتاب میزان الاعتدال(۲) میں یحییٰ بن معین کے حوا لے سے کہاہے کہ:”وہ انتہائی جھوٹ بولنے والا ہے“اورابوحاتم نے کہاہے کہ:”وہ سچ نہیں بولتاہے۔“اس کے علاوہ اس کی سندمیں ھیثم بن عدی ہے کہ جس کے با رے میں ذہبی کاسیراعلام النبلاء(۳) میں کہناہے:ابن معین اورابن داؤدنے کہاہے:”وہ انتہائی جھوٹ بولنے والاہے“اس کے علاوہ نسائی اوردوسروں نے اسے متروک الحدیث جانا ہے۔

افسوس ہے کہ مذکورہ جعلی حدیث کاجھوٹامضمون حضرت امام صادق اورحضرت امام باقر )علیہماالسلام)سے منسوب کر کے نقل کیاگیاہے!

____________________

۱۔روح المعانی،ج۳،ص۱۹۰،داراحیائ التراث ا لعربی

۲۔میزان الاعتدال،ج۲،ص۱۵۴،دارالفکر

۳۔سیراعلام النبلاء،ج۱۰،ص۱۰۴،مؤسسہ الرسالہ

۷۰

چھوتھامحور

علی(ع)نفس پیغمبر (ص)ہیں

گزشتہ بحثوں میں یہ واضح ہوچکا ہے کہ”انفسنا“سے مرادکاخودپیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہیں ہوسکتے ہیں اورچونکہ مذکورہ احادیث کی بناء پرمباہلہ میں شا مل ہونے والے افرادمیں صرف علی،فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام تھے،لہذاآیہء شریفہ میں ”انفسنا“کامصداق علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتاہے۔یہ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی واضح بلکہ برترین فضیلتوں میں سے ہے۔

قرآن مجید کی اس تعبیرمیں ،علی علیہ السلام ،نفس پیغمبر (ص)کے عنوان سے پہچنوا ئے گئے ہیں۔چونکہ ہرشخص کاصرف ایک نفس ہوتا ہے،اس لئے حضرت علی علیہ السلام کاحقیقت میں نفس پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونا بے معنی ہے۔معلوم ہوتاہے کہ یہ اطلاق،اطلاق حقیقی نہیں ہے بلکہ اس سے مرادماننداورمماثلت ہے۔چونکہ یہاں پریہ مماثلت مطلق ہے اس لئے اس اطلاق کاتقاضاہے کہ جوبھی خصوصیت اورمنصبی کمال پیغمبراکرم (ص)کی ذات میں موجود ہے وہ حضرت علی علیہ السلام میں بھی پاےاجانا چاہئے،مگر یہ کہ دلیل کی بناء پرکوئی فضیلت ہو،جیسے آپ پیغمبرنہیں ہیں۔رسا لت و پیغمبری کے علاوہ دوسری خصوصیات اورکمالات میں آپ رسول کے ساتھ شریک ہیں،من جملہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی امت کے لئے قیادت وزعامت اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سارے جہاں،یہاں تک گزشتہ انبیاء پرافضلیت۔اس بناء پرآیہء شریفہ حضرت علی علیہ السلام کی امامت پردلالت کر نے کے علاوہ بعد از پیغمبر ان کی امت کے علاوہ تمام دوسرے انبیاء سے بھی افضل ہو نے پر دلالت کرتی ہے۔

۷۱

آیت کے استدلال میں فخررازی کابیان

فخررازی نے تفسیرکبیرمیں لکھاہے:

”شہرری میں ایک شیعہ اثناعشری شخص(۱) معلم تھاا س کاخیال تھاکہ حضرت علی(علیہ السلام) حضرت محمدمصطفی (ص)کے علاوہ تمام انبیاء)علیہم السلام)سے افضل وبرترہیں، اور یوں کہتاتھا:جوچیزاس مطلب پردلالت کرتی ہے،وہ آیہء مباہلہ میں خدا وندمتعال کایہ قول( واٴنفسنا واٴنفسکم ) ہے کیونکہ”انفسنا“ سے مرادپیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہیں ہیں،کیونکہ انسان خودکونہیں پکارتاہے۔اس بناء پر نفس سے مرادآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علاوہ ہے اوراس بات پر اجماع ہے کہ نفس سے مرادعلی بن ابیطالب(علیہ السلام) ہیں لہذاآیہ شریفہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نفس علی(علیہ السلام)سے مراد درحقیقت نفس پیغمبر (ص)ہے،اس لئے ناچار آپ کا مقصدیہ ہے کہ نفس علی نفس رسول کے مانندہے اوراس کالازمہ یہ ہے کہ

____________________

۱۔یہ بزرگ مرد،کہ جس کے بارے میں فخررازی نے یوں بیان کیاہے،جیسے کہ اس کی زندگی کے حالات کی تشریح کتابوں میں کی گئی ہے،شیعوں کے ایک بڑے مجتہداورعظیم عقیدہ شناس اورفخر رازی کے استادتھے۔مرحوم محدث قمی اس کے بارے میں لکھتے ہیں:شیخ سدید الدین محمودبن علی بن الحسن حمصی رازی ،علّامہ فاضل، متکلم اور علم کلام میں کتاب”التعلیق العراقی“کے مصنف تھے۔شیخ بہائی سے ایک تحریرکے بارے میں روایت کرتاہے کہ وہ شیعہ علماء ومجتہدین میں سے تھے اورری کے حمص نامی ایک گاؤں کے رہنے والے تھے،کہ اس وقت وہ گاؤںویران ہوچکاہے۔ )سفینة البحار،ج۱،ص۳۴۰،انتشارات کتاب خانہ محمودی)

مرحوم سیدمحسن امین جبل عاملی کتاب”التعلیق العراقی،یاکتاب المنقذمن التقلید“کے ایک قلمی نسخہ سے نقل کرتے ہیں کہ اس پرلکھا گیاتھا:”انهامن إملائ مولانا ا لشیخ الکبیر العالم سدید الدّین حجّةالاسلام والمسلمین لسان الطائفةوالمتکلمین اسد المناظرین محمودبن علی بن الحسن الحمصی ادام اللّٰه فی العزّبقائ هوکبت فی الذّلّ حسدته واعداه ۔۔۔“یعنی :یہ نسخہ استاد بزرگ اوردانشورسدیدالدین حجةالاسلام والمسلمین، مذہب ش یعیت کے تر جمان اور متکلمین،فن منا ظرہ کے ماہرمحمود بن علی بن الحسن الحمصی کااملا ہے کہ خدائے متعال اس کی عزت کو پائدار بنادے اور اس کے حاسدوں اور دشمنوں کو نابودکردے۔ )اعیا الشیعہ ،ج۱۰،ص۵ہ۱،دارالتعارف للمطبو عات،بیروت)

فیروزآبادی کتاب”القاموس المحیط“میں کہتاہے:”محمودبن الحمصی متکلم اخذ عنہ الامام فخر الدین“)القاموس المحیط،ج۲،ص۲۹۹،دار المعرفة،بیروت)

فیروزآبادی کی اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عظیم عقیدہ شناس فخررازی کا استاد تھالیکن فخررازی نے اس بات کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے۔

۷۲

یہ نفس تمام جہت سے اس نفس کے برابرہے۔اوراس کلیت سے صرف دوچیزیں خارج ہیں:ایک نبوت اوردوسرے افضلیت،کیونکہ اس پر سب کااتفاق ہے کہ علی(علیہ السلام)پیغمبرنہیں ہیں اور نہ ہی وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے افضل ہیں۔ان دومطالب کے علاوہ،دوسرے تمام امور ومسائل میں یہ اطلاق اپنی جگہ باقی ہے اوراس پراجماع ہے کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام انبیائے الہٰی سے افضل ہیں،لہذاعلی(علیہ السلام)بھی ان سب سے افضل ہوں گے۔“

مزید اس نے کہاہے:

”اس استدلال کی ایک ایسی حدیث سے تائید ہوتی ہے،جس کو موافق ومخالف سب قبول کرتے ہیں اوروہ حدیث وہ قول پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہے کہ جس میں اپ نے فرمایا:جوآدم(علیہ السلام)کو ان کے علم میں ،نوح(علیہ السلام)کوان کی اطاعت میں اورابراھیم(علیہ السلام)کو ان کی خُلّت میں ،موسیٰ(علیہ السلام)کوان کی ہیبت میں اورعیسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی صفوت میں دیکھناچاہے تواسے علی بن ابیطالب(علیہ السلام)پرنظرڈالناچاہئے۔“

فخررازی نے اپنی بات کوجاری رکھتے ہوئے مزید لکھاہے:

”شیعہ علماء مذکورہء آیہء شریفہ سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ علی(علیہ السلام)تمام اصحاب سے افضل ہیں۔کیونکہ جب آیت دلالت کرتی ہے کہ نفس علی (علیہ السلام)نفس رسول (ص)کے مانند ہے،سواء اس کے جو چیزدلیل سے خارج ہے اورنفس پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام اصحاب سے افضل ہے،لہذانفس علی(علیہ السلام)بھی تمام اصحاب سے افضل قرار پائیگا“

فخررازی نے اس استدلال کے ایک جملہ پراعتراض کیا ہے کہ ہم اس آیہء شریفہ سے مربوط سوالات کے ضمن میں آیندہ اس کاجواب دیں گے۔

۷۳

علی(ع)کونفس رسولجاننے والی احادیث

حضرت علی علیہ السلام کونفس رسول (ص)کے طورپرمعرفی کرنے والی احادیث کوتین گروہوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے:

پہلاگروہ:وہ حدیثیں جوآیہء مباہلہ کے ذیل میں بیان ہوئی ہیں:

ان احادیث کا ایک پہلو خامس آل عبا علیہم السلام کے مباہلہ میں شرکت سے مربوط تھا کہ جس کو پہلے بیان کیاگیاہے اوریہاں خلاصہ کے طورپرہم پیش کرتے ہیں:

الف:ابن عباس آیہء شریفہ کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:”وعلی نفسہ“”علی(ع)نفس پیغمبر)ص)ہیں۔“یہ ذکرآیہء مباہلہ میں ایاہے۔(۱)

ب:شعبی ،اہل بیت،علہیم السلا م کے بارے میں جابر بن عبداللہ کا قول نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں:”ابناء نا“ سے حسن وحسین)علیہم السلام)”نساء نا“سے جناب فاطمہ(سلام اللہ علیہا)اور”انفسنا“سے علی بن ابیطالب)علیہ السلام ) مرادہیں۔(۲)

ج:حاکم نیشابوری،عبداللہ بن عباس اوردیگر اصحاب سے،پیغمبراکرم (ص)کے ذریعہ مباہلہ میں علی،فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام کو اپنے ساتھ لانے والی روایت کومتواترجانتے ہیں اورنقل کرتے ہیں کہ”ابناء نا“سے حسن وحسین علیہم السلام،”نساء نا“سے فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہااور”انفسنا“سے علی بن ابیطالب علیہ السلام مرادہیں۔(۳)

د۔حضرت علی علیہ السلام کی وہ حدیث،جس میں اپ(ع)اصحاب شوریٰ کوقسم دے کراپنے فضائل کا ان سے اقرار لیا ہے آپ فرماتے ہیں:

____________________

۱۔معرفةعلوم الحدیث،ص۵۰،دارالکتب العلمیہ،بیروت

۲۔اسباب النزول،ص۴۷،دارالکتب العلمیہ،بیروت

۳۔معرفةعلوم الحدیث،ص۵۰،دارالکتب العلمیہ،بیروت

۷۴

نشدتکم اللّٰه هل فیکم اٴحد اٴقرب إلیر سول اللّٰه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی الرحم ومن جعله رسول اللّٰه نفسه وإبناء ه غیری ؟“(۱)

”یعنی:میں تمھیں خداکی قسم دیتاہوں!کیا تم لوگوں میں قرابت اور رشتہ داری کے لحاظ سے کوئی ہے جومجھ سے زیادہ رسول اللہ (ص)کے قریب ہو؟کوئی ہے جسے آنحضرت (ص)نے اپنانفس اوراسکے بیٹوں کواپنابیٹاقراردیاہو؟انہوں نے جواب میں کہا:خداشاہدہے کہ ہم میں کوئی ایسا،نہیں ہے۔“

دوسراگروہ:وہ حدیثیں جوقبیلہء بنی ولیعہ سے مربوط ہیں:یہ احادیث اصحاب کے ایک گروہ جیسے ابوذر،جابربن عبداللہ اورعبداللہ بن حنطب سے نقل ہوئی ہیں۔ان حدیثوں کامضمون یہ ہے کہ پیغمبراکرم (ص)نے)ابوذر کے بقول) فرمایا:

ولینتهینّ بنوولیعه اٴولاٴبعثَنّ إلیهم رجلاًکنفسی یمضی فیهم اٴمری فیقتل المقا تله ولیسبی الذریة ۔۔۔(۲)

قبیلہء بنی ولیعہ کواپنے امور سے باز آجاناچاہئے،اگر انھوں نے ایسانہیں کیاتو میں ان کی طرف اپنے مانند ایک شخص کوبھیجوں گا جومیرے حکم کوان میں جاری کرے گا۔جنگ کرنے والوں کو وہ قتل کرے گااوران کی ذرّیت کواسیربنائے گا۔

عمر،جو میرے پیچھے کھڑے ہو ئے تھے انہوں،نے کہا:آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کااس سے مرادکون ہے؟میں نے جواب دیاتم اور تمہارادوست)ابوبکر) اس سے مرادنہیں ہے تو اس نے

____________________

۱۔تاریخ مدینتہ دمشق،ج۴۲،ص۴۱۳۱،دارالفکر

۲۔السنن الکبیر للنسائی،ج۵،ص۱۲۷،دارالکتب العلمیہ،بیروت۔

۷۵

اس کے محقق نے اس ضمن میں کہاہے:اس حدیث کی سند میں موثق راوی موجود ہیں۔

المنصف لابن ابی شیبتہ، ج ۶ ، ص ۳۷۴ ، دارالتاج، المعجم الاوسط للطبرانی،ج ۴ ،ص ۴۷۷ ،مکتبة المعارف،الریاضی۔یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ”المعجم الاوسط“میں عمداً یا غلطی سے ”کنفسی“کے بجائے”لنفسی“آیا ہے،اورھیثمی نے مجمع الزوائد میں طبرانی سے ” کنفسی“روایت کی ہے۔مجمع الزوائد۔مجمع الزوائد ھیثمی ،ج ۷ ،ص ۱۱۰ ،دارالکتاب العربی و ص ۲۴۰ ،دارالفکر۔

کہاکون مرادہے؟میں نے کہا:اس سے مرادوہ ہے جواس وقت اپنی جوتیوں کو پیوندلگانے میں مصروف ہے۔کہا تو پھرعلی(علیہ السلام)ہیں جواپنی جویتوں کوٹانکے میں مصروف ہیں۔تیسراگروہ:وہ حدیثیں جوپیغمبر)ص)کے نزدیک محبوب ترین افراد کے بارے میں ہیں۔

بعض ایسی حدیثیں ہیں کہ جس میں پیغمبراکرم صلصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال ہوتاہے کہآپ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟جواب کے بعدآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے علی(علیہ السلام)کی محبوبیت یاافضلیت کے بارے میں سوال کیاجاتاہے۔پیغمبراکرم (ص)اپنے اصحاب سے مخاطب ہوکرفرماتے ہیں:”إنّ هذایساٴلنی من النفسی “یعنی:یہ سوال مجھ سے خود میرے بارے میں ہے!یعنی علی(علیہ السلام)میرانفس ہے۔(۱) ان میں سے بعض احادیث میں ،حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)پیغمبراسلام (ص)سے سوال کرتی ہیں،کیاآپنے علی(علیہ السلام)کے بارے میں کچھ نہیں فرمایاہے؟آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

علیّ نفسی فمن راٴیته اٴن یقول فی نفسه شیئاً (۲)

یعنی:علی(علیہ السلام)میرانفس ہے تم نے کس کودیکھاہے،جواپنے نفس کے بارے میں کچھ کہے؟یہ احادیث عمروعاص،عائشہ اورجد عمروبن شعیب جیسے بعض اصحاب سے نقل ہوئی ہیں۔

اس طرح کی حدیثیں مختلف زبانوں سے روایت ہوئی ہیں اوران کی تعدادزیادہ ہے۔جس سے یہ استفادہ ہوتاہے کہ علی علیہ السلام،نفس پیغمبر (ص)ہیں اورآیہ شریفہ کی دلالت پرتاکیدکرتی ہے، سواء اس کے کہ کوئی قطعی ضرورت اورخارجی دلالت کی وجہ سے اس اطلاق سے خارج ہوا جائے)جیسے نبوت جواس سے خارج ہے)لہذاآنحضرت (ص)کے

____________________

۱۔جامع الاحادیث،سیوطی،ج۱۶،ص۲۵۷۔۲۵۶،دارالفکر،کنز العمال،ج۱۳،ص۱۴۳۔۱۴۲،مؤسسہ الرسالہ

۲۔مناقب خوارزمی،ص۱۴۸،مؤسسہ النشرالاسلامی،مقتل الحسین علیہ السلام،ص۴۳،مکتبہ المفید۔

۷۶

دوسرے تمام عہدے من جملہ تمام امت اسلامیہ پر آپ (ص)کی فضیلت نیز قیادت وزعامت ا س اطلاق میں داخل ہے۔

پانچواں محور

آیت کے بارے میں چندسوالات اور ان کے جوابات

آلوسی سے ایک گفتگو:

آلوسی،اپنی تفسیر”روح المعانی(۱) “ میں اس آیہء شریفہ کی تفسیر کے سلسلہ میں کہتاہے:

”اہل بیت پیغمبر (ص)کے آل اللہ ہونے کی فضیلت کے بارے میں اس آیہء شریفہ کی دلالت کسی بھی مومن کے لئے ناقابل انکارہے اوراگرکوئی اس فضیلت کوان سے جداکرنے کی کوشش کرتا ہے تویہ ایک قسم کی ناصبیت وعنادہے اورعناد و ناصبیت ایمان کے نابود کر نے کاسبب ہے۔“

شیعوں کااستدلال

اس کے بعد)آلوسی)آیہء مذکورہ سے رسول خدا (ص)کے بعدعلی علیہ السلام کے بلافصل خلیفہ ہونے کے سلسلہ میں شیعوں کے استدلال کوبیان کرتاہے اوراس روایت سے استنادکرتاہے کہ آیہء کریمہ کے نازل ہونے کے بعد پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مباہلہکے لئے علی،فاطمہ،اورحسنین علیہم السلام کو اپنے ساتھ لائے،اس کے بعدکہتاہے:

”اس طرح سے”ابناء نا“کا مراد سے حسن وحسین)علیہماالسلام)،”نساء نا“سے مرادفاطمہ(سلام اللہ علیہا)اور”انفسنا“سے مرادعلی(علیہ السلام)ہیں۔جب علی(علیہ السلام)نفس رسول قرار پائیں گے تو اس کا اپنے حقیقی معنی میں استعمال محال ہو گا)کیونکہ

____________________

۱۔روح المعانی،ج۳،ص۱۸۹،داراحیائ التراث العربی

۷۷

حقیقت میں علی علیہ السلام خودرسول اللہ (ص)نہیں ہوسکتے ہیں) لہذا قھراً اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مساوی اورمماثل ہیں۔چونکہ پیغمبراسلام (ص)امورمسلمین میں تصرف کرنے کے سلسلہ میں افضل اوراولٰی ہیں،لہذا جو بھی ان کے مماثل ہو گاوہ بھی ایساہی ہوگا۔اس طرح سے پوری امت کے حوالے سے حضرت علی(علیہ السلام)کی افضیلت اورامت پر ان کی سرپرستی اس آیہء شریفہ سے ثابت ہوتی ہے۔“

شیعوں کے استدلال کے سلسلہ میں الوسی کاپہلااعتراض

اس کے بعدآلوسی شیعوں کے استدلال کاجواب دیتے ہوئے کہتاہے:شیعوں کے اس قسم کے استدلال کاجواب یوں دیاجاسکتاہے:

ہم تسلیم نہیں کرتے ہیں کہ ”انفسنا“سے مراد حضرت امیرالمؤمنین (علیہ السلام)ہوں گے،بلکہ نفس سے مرادخودپیغمبر (ص)ہی ہیں اورحضرت امیر (علیہ السلام) ”ابنائنا“میں داخل ہیں کیونکہ دامادکوعرفاًبیٹاکہتے ہیں۔

اس کے بعدشیعوں کے ایک عظیم مفسرشیخ طبرسی کابیان نقل کرتاہے کہ انہوں نے کہاہے کہ”انفسنا“سے مرادخودپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہیں ہوسکتے ہیں،کیونکہ انسان کبھی بھی اپنے آپ کونہیں بلاتاہے،اس نے)شیخ کی)اس بات کوہذیان سے نسبت دی ہے؟!

۷۸

اس اعتراض کاجواب

آلوسی اپنی بات کی ابتداء میں اس چیز کو تسلیم کرتاہے کہ آیہء کریمہ پیغمبر (ص)وکے خاندان کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے اور اس فضیلت سے انکار کو ایک طرح کے بغض و عناد سے تعبیر کرتاہے۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس عظیم فضیلت کوآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان سے منحرف کرنے کے لئے کس طرح وہ خودکوشش کرتاہے اوراپنے اس عمل سے اس سلسلہ میں بیان کی گئی تمام احادیث کی مخا لفت کرتا ہے اورجس چیز کوابن تیمیہ نے بھی انجام نہیں دیاہے)یعنی”انفسنا“کے علی علیہ السلام پرانطباق سے انکارکرنا)اسے انجام دیتا ہے۔

اگرچہ ہم نے بحث کی ابتداء میں ”انفسنا“کے بارے میں اوریہ کہ اس سے مراد خودپیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہیں ہوسکتے ہیں،بیان کیاہے،لیکن یہاں پر بھی اشارہ کرتے ہیں کہ اگر”انفسنا“سے مرادخودپیغمبراسلام (ص)ہوں اورعلی علیہ السلام کو”ابناء نا“کے زمرے میں داخل کر لیا جائے تو یہ غلط ہے اور دوسرے یہ کہ خلاف دلیل ہے۔

اس کاغلط ہونااس لحاظ سے ہے کہ آیہء شریفہ میں ”بلانا اپنے“حقیقی معنی میں ہے۔اور جوآلوسی نے بعض استعمالات جیسے”دعتہ نفسہ“کورائج ومرسوم جا ناہے،اس نے اس نکتہ سے غفلت کی ہے کہ اس قسم کے استعمالات مجازی ہیں اوران کے لئے قرینہ کی ضرورت ہوتی ہے اور آیہء مذکورہ میں کوئی ایسا قرینہ موجودنہیں ہے،بلکہ یہاں پر”دعتہ نفسہ“کے معنی اپنے آپ کو مجبوراورمصمم کرناہے نہ اپنے آپ کو بلانااورطلب کرنا۔

۷۹

اس کے علاوہ”ابنائنا“ کے زمرے میں امیرالمؤمنین(علیہ السلام)کو شامل کر نا صرف اس لئے کہ وہ آنحضرت (ص)کے داماد تھے گویالفظ کو اس کے غیر معنی موضوع لہ میں ہے اور لفظ کواس کے معانی مجازی میں بغیر قرینہ کے حمل کر تاہے۔

اس لئے”ابناء نا“کا حمل حسنین علیہما السلام کے علاوہ کسی اورذات پر درست نہیں ہے اور”انفسنا“کا لفظ حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کسی اورپر منطتبق نہیں ہو تاہے۔

اگرکہاجائے کہ:کونسامرجح ہے کہ لفظ ”ندع“کا استعمال اس کے حقیقی معنی میں ہو اور”انفسنا“کااستعمال حضرت علی علیہ السلام پر مجازی ہو؟بلکہ ممکن ہے کہا جائے”انفسنا“خودانسان اوراس کی ذات پراطلاق ہو جوحقیقی معنی ہے اور”ندع“کے معنی میں تصرف کر کے ”نحضر“کے معنی لئے جائیںیعنی اپنے آپ کوحاضرکریں۔

جواب یہ ہے کہ:اگر”ندع“ کا استعمال اپنے حقیقی معنی ہےں ہوتوایک سے زیادہ مجاز در کارنہیں ہے اوروہ ہے”انفسنا“کا حضرت علی علیہ السلام کی ذات پراطلاق ہو نالیکن اگر”ندع“کو اس کے مجاز ی معنی پر حمل کریں تو اس سے دوسرے کا مجاز ہونابھی لازم آتاہے یعنی علی علیہ السلام کا ”ابناء نا“پراطلاق ہونا،جوآنحضرت صلی (ص)کے داماد ہیں اوراس قسم کے مجاز کے لئے کوئی قرینہ موجودنہیں ہے۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271