امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت28%

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت مؤلف:
زمرہ جات: امامت
صفحے: 271

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 271 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 114771 / ڈاؤنلوڈ: 4271
سائز سائز سائز
امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

انہوں نے کہا:خداشاہد ہے،نہیں۔

فرمایا:تمھیں خداکی قسم دلاتاہوں،کیاتم لوگوں میں میرے علاوہ کوئی ہے،جس نے پیغمبر سے سرگوشی سے پہلے صدقہ دیاہو،یہاں تک کہ خدائے وند متعال نے اس حکم کو منسوخ کر دیا؟

انہوں نے کہا۔خدا شاہدہے نہیں۔

فرمایا:تمھیں خداکی قسم ہے،کیاتم لوگوں میں میرے علاوہ کوئی ہے،جس نے قریش اورعرب کے مشرکین کوخدااوراس کے رسول (ص)کی راہ میں قتل کیاہو؟

انہوں نے کہا:خدا گواہ ہے،نہیں۔

فرمایا:تمھیں خداکی قسم ہے،کیاتم لوگوں میں میرے علاوہ کوئی ہے،جس کے حق میں پیغمبراکرم (ص))افزائش)علم کے سلسلہ میں دعاکی ہواوراذن واعیہ)گوش شنوا)کا خدا سے مطالبہ کیاہو،جس طرح میرے حق میں دعاکی؟انہوں نے کہا:خدا گواہ ہے،نہیں۔فرمایا:تمھیں خداکی قسم ہے،کیاتم لوگوں میں کوئی ہے جوپیغمبراکرم (ص)سے رشتہ داری میں مجھ سے زیادہ نزدیک ہواورجس کوپیغمبرخدا (ص)نے اپنا نفس،اس کے بیٹوں کواپنے بیٹے کہاہو؟انہوں نے کہا:خدا گواہ ہے،نہیں۔“

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اس حدیث میں مباہلہ میں شریک ہو نے والے افراد،کہ جنھیں پیغمبراکرم (ص)اپنے ساتھ لائے تھے وہ،علی،فاطمہ،حسن،وحسین )علیہم السلام)کی ذات تک محدود ہیں۔

حدیث کامعتبرراورصحیح ہونا:

ا ہل سنت کی احادیث کے بارے میں ہم صرف مذکورہ احادیث ہی پراکتفاکرتے ہیں،اوران احادیث کے مضمون کی صحت کے بارے میں یعنی مباہلہ میں صرف پنجتن آل عبا)پیغمبر کے علاوہ علی،فاطمہ حسن وحسین علیہم السلام)ہی شا مل تھے اس حوالے سے صرف حاکم نیشابوری کے درج ذیل مطالب کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

۶۱

وہ اپنی کتاب”معرفةعلوم الحدیث“(۱) میں پہلے آیہء مباہلہ کے نزول کوابن عباس سے نقل کرتاہے اور وہ انفسنا سے حضرت علی علیہ السلام،”نسائنا“سے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہااور”ابناء نا“سے حسن وحسین علیہما السلام مراد لیتا ہے۔اس کے بعدابن عباس اور دوسروں سے اس سلسلہ میں نقل کی گئی روایتوں کومتواترجانتے ہوئے کے اہل بیت(ع)کے بارے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس فرمائش:”هؤلائ اٴبنائناواٴنفسنا ونسائنا “کے سلسلہ میں یاددہانی کراتاہے۔

چنا نچہ اس باب میں اصحاب کے ایک گروہ جیسے جابربن عبداللہ،ابن عباس اور امیرالمؤمنین کے حوالے سے مختلف طرق سے احادیث نقل ہو ئی ہیں،اس مختصرکتاب میں بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے،اس لئے ہم حاشیہ میں بعض ان منابع کی طرف اشارہ کرنے ہی پر اکتفاکرتے ہیں(۲)

____________________

۱۔معر فة علوم الحدیث،ص۵۰،دارالکتب العلمیة،بیروت

۲۔احکام القرآن /جصاص/ج۲/ص۱۴دارالکتاب العربی بیروت، اختصاص مفید/ص۵۶/من منشورات جماعة المدرسین فی الحوزة العلمیة، اسباب النزول /ص۶۸/دارالکتب العلمیة بیروت،اسد الغابة/ ج۴/ ص۲۵/ داراحیائ التراث العربی بیروت الا صابہ/ج۲/جزء ۴/ص۲۷۱، البحر المحیط/ج۳/ ص۴۷۹/ داراحیائ التراث العربی بیروت،البدایة و النھایة/ ج۵/ ص۴۹ دارالکتب العلمیة بیروت، البرھان/ ج۱/ص۲۸۹/ مؤسسہ مطبوعاتی اسماعیلیان، التاج الجامع للاصول/ ج۳/ ص۳۳۳/داراحیاء التراث العربی بیروت، تاریخ مدینہ دمشق/ج۴۲/ص۱۳۴/ دارالفکر، تذکرہ خواص الامة/ ص۱۷/ چاپ نجف، تفسیر ابن کثیر/ج۱/ص۳۷۸/دارالنعرفة بیروت،تفسیربیضاوی/ج۱/ص۱۶۳/دارالکتب العلمیة بیروت، تفسیرخازن) الباب التاویل) /ج۱/ص۲۳۶/دارالفکر، تفسیر الرازی/ج۸/ص۸۰/داراحیاء التراث العربی بیروت، تفسیرالسمر قندی) بحرالعلوم)/ج۱ص/۲۷۴دارالکتب العلمیة بیروت، تفسیر طبری/ ج۳ /ص۳۰۱۔۲۹۹/دالفکر،تفسیر طنطاوی/ ج۲/ ص۱۳۰/ دارالمعارف القاہرة، تفسیر علی بن ابراہیم قمی /ج۱/ص۱۰۴، تفسیر الماوردی/ ج۱/ ص۳۸۹و۳۹۹/ مؤسسة ظالکتب الثقافیة/ دارالکتب العلمیة بیروت، التفسیر المنیر/ج۳/ ص۲۴۵ ،۲۴۸، ۲۴۹/ دارالفکر، تفسیرالنسفی) در حاشیہئ خازن)/ ج۱/ ص۲۳۶/دارالفکر،تفسیر النیشابوری/ج۳/ص۲۱۳/دارالمعرفة بیروت،تلخیص المستدرک/ج۳/ص۱۵۰/دارالمعرفة بیروت،جامع احکام القرآن/قرطبی/ج۴/ص۱۰۴/دارالفکر، جامع الاصول/ج۹/ص۴۶۹داراحیاء التراث العربی،الجامع الصحیح للترمذی/ج۵/ص۵۹۶/دارالفکر، الدرالمنثور/ج۲/ص۲۳۳۔۲۳۰/دارالفکر، دلائل النبوة ابونعیم اصفہانی/ص۲۹۷، ذخائر العقبی/ص۲۵/مؤسسةالوفائ بیروت، روح المعانی/ج۳/ص۱۸۹/داراحیائ التراث العربی، الریاض النضرة/ج۳/ص۱۳۴/دارالندوة الجدید بیروت، زاد المسیر فی علم التفسیر/ج۱/ص۳۳۹/دارالفکر، شواہد التنزیل/حاکم حسکانی/ج۱/ص۱۶۷۔۱۵۵/مجمع احیائ الثقافة الاسلامیة، صحیح مسلم/ج۵/ص۲۳/کتاب فضائل الصحابة/باب فضائل علی بن ابی طالب /ح۳۲/مؤ سسة عزّالدین، الصواعق المحرقة/ص۱۴۵/مکتبة القاہرة، فتح القدیر/ج۱/ص۳۱۶/ط مصر )بہ نقل احقاق)، فرائد السمطین/ج۲/ص۲۳،۲۴/مؤ سسةالمحمودیبیروت، الفصول المہمة/ص۲۵۔۲۳،۱۲۶۔۱۲۷/منشورات الاعلمی، کتاب التسہیل لعلوم التنزیل /ج۱/ص۱۰۹/دارالفکر، الکشاف/ج۱/دارالمعرفة بیروت، مدارج النبوة/ص۵۰۰بمبئی)بہ نقل احقاق)،المستدرک علی الصحیحن/ج۳/ص۱۵۰/دارالعرفةبیروت،مسند احمد/ج۱/ص۱۸۵/دار صادربیروت، مشکوةالمصابیح/ج۳/ص۱۷۳۱/المکتب الاسلامی، مصابیح السنة/ج۴/ص۱۸۳/دارالمعرفة بیروت، مطالب السئول/ص۷/چاپ تہران، معالم التنزیل /ج۱/ص۴۸۰/دارالفکر، معرفة اصول الحدیث/ص۵۰/دارالکتب العلمیة بیروت، مناقب ابن مغازلی /ص۲۶۳/المکتبة الاسلامیة تہران

۶۲

۲ ۔شیعہ امامیہ کی احادیث

شیعہ روایتوں میں بھی اس واقعہ کے بارے میں بہت سی فراوان احادیث موجود ہیں،یہاں پرہم ان میں سے چنداحادیث کونمونہ کے طورپرذکرکرتے ہیں:

پہلی حدیث

امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ،جب نجران کے عیسائی پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئے،ان کی نمازکا وقت ہو گیاوہیں پرگھنٹی بجائی اور)اپنے طریقہ سے)نماز پڑھنا شروع کےا۔اصحاب نے کہا:اللہ کے رسول یہ لوگ آپکی مسجد میں یوںعمل کررہے ہیں!آپ نے فرما یا: انھیں عمل کر نے دو۔

جب نمازسے فارغ ہوئے،پیغمبراکرم (ص)کے قریب آئے اورکہا:ہمیں آپ کس چیزکی دعوت دیتے ہو؟

آپنے فرمایا:اس کی دعوت دیتاہوں کہ،خدائے واحدکی پرستش کرو، میں خدا کارسول ہوں اورعیسیٰ خدا کے بندے اور اس کے مخلوق ہیںوہ کھاتے اورپیتے ہیں نیزقضائے حاجت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا:اگروہ خدا کے بندے ہیں تواس کاباپ کون ہے؟

پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پروحی نازل ہوئی کہ اے رسول ان سے کہدیجئے کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں کیاکہتے ہیں؟وہ خداکے بندے اوراس کی مخلوق ہیں اورکھاتے اورپیتے ہیںاورنکاح کرتے ہیں۔

آپنے فرمایا:اگرخداکے ہربندے اورمخلوق کے لئے کوئی باپ ہوناچاہئے توآدم علیہ السلام کا باپ کون ہے؟وہ جواب دینے سے قاصررہے۔خدائے متعال نے درج ذیل دوآیتیں نازل فرمائیں:

( إنّ مثل عیسی عند اللّٰه کمثل آدم خلقه من تراب ثم قال له کن فیکون فمن حاجّک فیه من بعد ماجاء ک من العلم قل تعالوا ندع اٴبناء نا واٴبنائکم ونسائنا ونسائکم واٴنفسنا واٴنفسکم ) (آل عمران /۶۱)

”عیسی کی مثال اللہ کے نزدیک آدم جیسی ہے کہ انھیں مٹی سے پیداکیااورپھرکہاہوجاتو وہ پیداہوگئےاے پیغمبر!علم کے آجانے کے بعدجولوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہدیجئے کہ ٹھیک ہے تم اپنے فرزند،اپنی عورتوں اوراپنے نفسوں کو بلاؤاور ہم بھی اپنے فرزند،اپنی اپنی عورتوں اور اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں پھرخداکی بارگاہ میں دونوں ملکردعاکریں اورجھوٹوں پرخداکی لعنت کریں“

۶۳

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:”میرے ساتھ مباہلہ کرو،اگر میں نے سچ کہاہوگاتوتم لوگوں پرعذاب نازل ہوگااوراگرمیں نے جھوٹ کہاہوگاتومجھ پر عذاب نازل ہوگا“

انہوں نے کہا:آپنے منصفانہ نظریہ پیش کیاہے اورمباہلہ کوقبول کیا۔جب وہ لوگ اپنے گھروں کولوٹے،ان کے سرداروں نے ان سے کہا:اگرمحمد (ص)اپنی قوم کے ہمراہ مباہلہ کے لئے تشریف لا ئیں ،تووہ پیغمبرنہیں ہیں،اس صورت میں ہم ان کے ساتھ مباہلہ کریں گے،لیکن اگر وہ اپنے اہل بیت)علیہم السلام)اوراعزہ کے ہمراہ تشریف لا ئیں توہم ان کے ساتھ مباہلہ نہیں کریں گے۔

صبح کے وقت جب وہ میدان مباہلہ میں اگئے تودیکھاکہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ علی،فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام ہیں۔اس وقت انہوں نے پوچھا:یہ کون لوگ ہیں؟ان سے کہاگیا:وہ مردان کاچچا زادبھائی اورداماد علی بن ابیطالب ہیں اور وہ عورت ان کی بیٹی فاطمہ ہے اوروہ دوبچے حسن اورحسین )علیہماالسلام)ہیں۔

انہوں نے مباہلہ کر نے سے انکار کیا اورآنحضرت (ص)سے کہا:”ہم آپ کی رضایت کے طا لب ہیں۔ہمیں مباہلہ سے معاف فرمائیں۔“آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے ساتھ صلح کی اورطے پایاکہ وہ جزیہ اداکریں۔(۱)

دوسری حدیث

سیدبحرانی،تفسیر”البرہان“میں ابن بابویہ سے اورحضرت امام رضا علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں:

”حضرت)امام رضا علیہ السلام)نے مامون اور علماء کے ساتھ)عترت وامت میں فرق اورعترت کی امت پرفضیلت کے بارے میں )اپنی گفتگو میں فرمایا:جہاں پر خدائے متعال

____________________

۱۔تفسیر علی بن ابراھیم،مطبعة النجف ،ج۱،ص۱۰۴،البرہان ج۱،ص۲۸۵

۶۴

ان افرادکے بارے میں بیان فرماتاہے جو خدا کی طرف سے خاص طہار ت و پاکیزگی کے مالک ہیں،اور خدااپنے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کوحکم دیتاہے کہ مباہلہ کے لئے اپنے اہل بیت کو اپنے ساتھ لائیں اورفرماتاہے: ۔۔۔( فقل:تعالوا ندع اٴبنائنا واٴبنائکم ونسائنا ونسائکم واٴنفسنا واٴنفسکم ) ۔۔۔

علماء نے حضرت سے کہا: آیہ میں ’انفسنا“سے مرادخودپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں!امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:آپ لوگوں نے غلط سمجھا ہے۔بلکہ”انفسنا“ سے مرادعلی بن ابیطالب(علیہ السلام)ہیں۔اس کی دلیل یہ ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بنی ولیعہ سے فرمایا: ”اٴولاٴبعثنّ إلیهم رجلاً کنفسی “یعنی:”بنی ولیعہ کواپنے امورسے دست بر دار ہو جا ناچاہئے، ورنہ میں اپنے مانندایک مردکوان کی طرف روانہ کروں گا۔“

”ابنا ء نا“ کے مصداق حسن وحسین)علیہماالسلام)ہیں اور”نساء نا“سے مراد فاطمہ (سلام اللہ علیہا) ہیں اوریہ ایسی فضیلت ہے،جس تک کوئی نہیں پہونچ سکااوریہ ایسی بلندی ہے جس تک انسان کاپہنچنااس کے بس کی بات نہیں ہے اوریہ ایسی شرافت ہے جسے کوئی حاصل نہیں کرسکتاہے۔یعنی علی(علیہ السلام)کے نفس کواپنے نفس کے برابرقراردیا۔(۱)

تیسری حدیث

اس حدیث میں ،ہارون رشید،موسی بن جعفر علیہ السلام سے کہتاہے:آپ کس طرح اپنے آپ کوپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اولادجانتے ہیں جبکہ انسانی نسل بیٹے سے پھیلتی ہے اورآپ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیٹی کے بیٹے ہیں؟

امام )علیہ السلام )نے اس سوال کا جواب دینے سے معذرت چاہی ۔ہارون نے کہا:اس مسئلہ میں اپ کواپنی دلیل ضروربیان کرنا ہو گی آپ فرزندان،علی علیہ السلام کا یہ دعوی

____________________

۱۔تفسیر البرہان،ج۱،ص۲۸۹،مؤسسہئ مطبو عاتی اسما عیلیان

۶۵

ہے آپ لوگ قرآن مجیدکامکمل علم رکھتے ہیں نیز آپ کا کہنا ہے کہ قرآن مجیدکاایک حرف بھی آپ کے علم سے خارج نہیں ہے اوراس سلسلہ میں خداوندمتعال کے قول: ۔۔۔( ما فرّطنا فی الکتاب من شیء ) ۔۔۔(۱)

سے استدلال کرتے ہیں اوراس طرح علماء کی رائے اوران کے قیاس سے اپنے آپ کوبے نیاز جانتے ہو!

حضرت)امام مو سی کاظم علیہ السلام)نے ہارون کے جواب میں اس آیہء شریفہ کی تلاوت فرمائی جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوحضرت ابراھیم علیہ السلام کی ذریت تایاگیا ہے:

( و من ذرّیّته داود و سلیمان و اٴیوب و یوسف و موسی و هارون و کٰذلک نجزی المحسنین زکریا و یحی و عیسی وإلیاس ) ۔۔۔(۱)

”اورپھرابراھیم کی اولاد میں داؤد،سلیمان،ایوب،یوسف،موسیٰ اورہارون قراردیا اورہم اسی طرح نیک عمل کرنے والوں کوجزادیتے ہیں۔اورزکریا،یحیٰ،عیسیٰ اورالیاس کو بھی رکھاجوسب کے سب نیک عمل انجام دینے والے ہیں ۔“

اس کے بعد امام (علیہ السلام)نے ہارون سے سوال کیا:حضرت عیسیٰ(علیہ السلام)کاباپ کون تھا؟اس نے جواب میں کہا:عیسیٰ(علیہ السلام)بغیرباپ کے پیداہوئے ہیں۔امام (ع)نے فرمایا:جس طرح خدائے متعال نے جناب عیسی کوحضرت مریم(سلام اللہ علیہا)کے ذریعہ ذریت انبیاء)علیہم السلام)سے ملحق کیاہے اسی طرح ہمیں بھی اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہاکے ذریعہ پیغمبراکرم (ص)سے ملحق فرمایاہے۔

اس کے بعد حضرت(ع)نے ہارون کے لئے ایک اور دلیل پیش کی اور اس کے لئے

____________________

۱۔انعام/۳۸

۲۔انعام/۸۴۔۵

۶۶

آیہء مباہلہ کی تلاوت کی اورفرمایا:کسی نے یہ دعوی نہیں کیاہے کہ مباہلہ کے دوران، پیغمبراکرم (ص)نے علی،فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام کے علاوہ کسی اورکو زیر کساء داخل کیاہو۔اس بناء پر آیہء شریفہ میں ”ابنائنا“سے مرادحسن وحسین) علیہماالسلام) ”نسائنا“سے مرادفاطمہ (سلام اللہ علیہا) اور”انفسنا“سے مرادعلی علیہ السلام ہیں۔(۱)

چوتھی حدیث

اس حدیث میں کہ جسے شیخ مفیدنے”الاختصاص“میں ذکرکیاہے۔موسی بن جعفرعلیہ السلام نے فرمایا:پوری امت نے اس بات پراتفاق کیاہے کہ جب پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اہل نجران کومباہلہ کے لئے بلایا تو زیر کساء)وہ چادر جس کے نیچے اہل بیت رسول تشریف فرما تھے (علی، فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا۔اس بنائ پرخدائے متعال کے قول:( فقل تعالوا ندع اٴبنائنا و اٴبناء کم و نساء نا و نسائکم و اٴنفسنا و اٴنفسکم ) میں ”ابنائنا“سے حسن وحسین)علیہماالسلام)”نسائنا“سے فاطمہ سلام اللہ علیہااور ”انفسنا“سے علی بن ابیطالب علیہ السلام مرادہیں۔(۲)

شیخ محمدعبدہ اوررشیدرضاسے ایک گفتگو

صاحب تفسیر”المنار“پہلے تو فر ما تے ہیں کہ”روایت ہے کہ پیغمبراکرم (ص)نے مباہلہ کے لئے علی(ع)وفاطمہ(س)اوران کے دو نوں بیٹوں کہ خدا کا ان پر درودو سلام ہوکاانتخاب کیااورانھیں میدان میں لائے اور ان سے فرمایا:”اگرمیں دعا کروں تو تم لوگ آمین کہنا“روایت کوجاری رکھتے ہوئے اختصار کے ساتھ مسلم اورترمذی کو بھی نقل کرتے ہیں اس کے بعد کہتے ہیں:

____________________

۱۔البرہان ،ج۱،ص۲۸۹،مؤسسہ مطبو عاتی اسماعیلیان

۲۔الاختصاص،ص۵۶،من منشورات جماعةالمدرسین فی الحوزةالعلمیة

۶۷

استادامام)شیخ محمدعبدہ)نے کہاہے:اس سلسلہ میں روایتیں متفق علیہ ہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مباہلہ کے لئے علی(ع)فاطمہ(س)اوران کے بیٹوں کومنتخب کیا ہے اورآیہء شریفہ میں لفظ”نسائنا“ فاطمہئ کے لئے اورلفظ”انفسنا“ کا استعمال علی کے لئے ہواہے۔لیکن ان روایتوں کاسرچشمہ شیعہ منابع ہیں)اورانہوں نے یہ احادیث گھڑلی ہیں)اور اس سے ان کا مقصدبھی معلوم ہے۔وہ حتی الامکان ان احادیث کو شائع و مشہور کرنا چاہتے ہیں اوران کی یہ روش بہت سے سنّیوں میں بھی عام ہو گئی ہے!لیکن جنہوں نے ان روایتوں کوگھڑا ہے،وہ ٹھیک طریقہ سے ان روایتوں کو آیتوں پر منبطق نہیں کرسکے ہیں،کیونکہ لفظ”نساء“کا استعمال کسی بھی عربی لغت میں کسی کی بیٹی کے لئے نہیں ہواہے،بالخصوص اس وقت جب کہ خود اس کی بیویاں موجودہوں،اور یہ عربی لغت کے خلاف ہے اوراس سے بھی زیادہ بعید یہ ہے کہ ”انفسنا“سے مراد علی (ع)کو لیا جائے“ ۱

استاد محمدعبدہ کی یہ بات کہ جن کا شمار بزرگ علماء اورمصلحین میں ہوتا ہے انتہائی حیرت انگیزہے۔باوجوداس کے کہ انھوں نے ان روایتوں کی کثرت اوران کے متفق علےہ ہونے کو تسلیم کیا ہے،پھربھی انھیں جعلی اور من گھڑت کہاہے۔

کیاایک عام مسلمان ،چہ جائیکہ ایک بہت بڑاعالم اس بات کی جرائت کرسکتاہے کہ ایک ایسی حقیقت کوآسانی کے ساتھ جھٹلادے کہ جورسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی صحیح ومعتبر سنّت میں مستحکم اور پائداربنیادرکھتی ہو؟!اگرمعتبرصحاح اورمسانیدمیں صحیح سندکے ساتھ روایت نقل ہوئی ہے وہ بھی صحیح مسلم جیسی کتاب میں کہ جواہل سنّت کے نزدیک قرآن مجیدکے بعددومعتبرترین کتابوں میں سے ایک شمارہوتی ہے،اس طرح بے اعتبارکی جائے،تومذاہب اسلامی میں ایک مطلب کوثابت کرنے یامستردکرنے کے سلسلہ میں کس منبع و ماخذپراعتماد کیا جا سکتا ہے ؟اگر ائمہ

___________________

۱۔المنار،ج ۳،ص۳۲۲،دارالمعرفة بیروت

۶۸

مذاہب کی زبانی متوا تراحادیث معتبرنہیں ہو ں گی توپھرکونسی حدیث معتبرہوگی؟!

کیاحدیث کوقبول اورمستردکرنے کے لئے کوئی قاعدہ و ضابط ہے یاہرکوئی اپنے ذوق وسلیقہ نیزمرضی کے مطابق ہرحدیث کوقبول یامستردکرسکتاہے؟کیایہ عمل سنّت رسول (ص)کے ساتھ زیادتی اوراس کامذاق اڑانے کے مترادف نہیں ہے؟

شیخ محمدعبدہ نے آیہء شریفہ کے معنی پردقت سے توجہ نہیں کی ہے اورخیال کیاہے کہ لفظ ”نسائنا“حضرت فاطمہ زہراء )سلام اللہ علیہا )کے بارے میں استعمال ہواہے۔جبکہ”نسائنا“خوداپنے ہی معنی میں استعمال ہواہے،رہاسوال رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویوں کا کہ جن کی تعداداس وقت نوتھی ان میں سے کسی ایک میں بھی وہ بلند مرتبہ صلاحیت موجودنہیں تھی اورخاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں تنہاعورت،جوآپ کے اہل بیت میں شمارہوتی تھیں اورمذکورہ صلاحیت کی مالک تھیں،حضرت فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا)تھیں،جنھیں انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے ساتھ مباہلہ کے لئے لے گئے۔(۱)

”انفسنا“کے بارے میں اس کتاب کی ابتداء میں بحث ہوچکی ہے انشا اللہ بعد والے محور میں بھی اس پرتفصیل سے روشنی ڈالی جائیگی ۔

ایک جعلی حدیث اوراہل سنّت کااس سے انکار

مذکورہ روایتوں سے ایک دوسرامسئلہ جوواضح ہوگیاوہ یہ تھاکہ خامس آل عبا)پنجتن پاک علیہم السلام)کے علاوہ کوئی شخض میدان مباہلہ میں نہیں لایاگیا تھا۔

مذکورہ باتوں کے پیش نظربعض کتابوں میں ابن عساکر کے حوالے سے نقل کی گئی روایت کسی صورت میں قابل اعتبار نہیں ہے،جس میں کہاگیاہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابوبکراوران کے فرزندوں،عمراوران کے فرزندوں،عثمان اوران کے فرزندوں اورعلی علیہ السلام اوران کے

____________________

۱۔اس سلسلہ میں بحث ،آیہء تطہیرکی طرف رجوع کیا جائے ۔

۶۹

فرزندوں کواپنے ساتھ لائے تھے۔

ایک تو یہ کہ علماء ومحققین،جیسے آلوسی کی روح المعانی(۱) میں یادہانی کے مطابق،یہ حدیث جمہورعلماء کی روایت کے خلاف ہے،اس لئے قابل اعتمادنہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ اس کی سندمیں چند ایسے افرادہیں جن پرجھوٹے ہونے کاالزام ہے،جیسے:سعیدبن عنبسہ رازی،کہ ذہبی نے اپنی کتاب میزان الاعتدال(۲) میں یحییٰ بن معین کے حوا لے سے کہاہے کہ:”وہ انتہائی جھوٹ بولنے والا ہے“اورابوحاتم نے کہاہے کہ:”وہ سچ نہیں بولتاہے۔“اس کے علاوہ اس کی سندمیں ھیثم بن عدی ہے کہ جس کے با رے میں ذہبی کاسیراعلام النبلاء(۳) میں کہناہے:ابن معین اورابن داؤدنے کہاہے:”وہ انتہائی جھوٹ بولنے والاہے“اس کے علاوہ نسائی اوردوسروں نے اسے متروک الحدیث جانا ہے۔

افسوس ہے کہ مذکورہ جعلی حدیث کاجھوٹامضمون حضرت امام صادق اورحضرت امام باقر )علیہماالسلام)سے منسوب کر کے نقل کیاگیاہے!

____________________

۱۔روح المعانی،ج۳،ص۱۹۰،داراحیائ التراث ا لعربی

۲۔میزان الاعتدال،ج۲،ص۱۵۴،دارالفکر

۳۔سیراعلام النبلاء،ج۱۰،ص۱۰۴،مؤسسہ الرسالہ

۷۰

چھوتھامحور

علی(ع)نفس پیغمبر (ص)ہیں

گزشتہ بحثوں میں یہ واضح ہوچکا ہے کہ”انفسنا“سے مرادکاخودپیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہیں ہوسکتے ہیں اورچونکہ مذکورہ احادیث کی بناء پرمباہلہ میں شا مل ہونے والے افرادمیں صرف علی،فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام تھے،لہذاآیہء شریفہ میں ”انفسنا“کامصداق علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتاہے۔یہ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی واضح بلکہ برترین فضیلتوں میں سے ہے۔

قرآن مجید کی اس تعبیرمیں ،علی علیہ السلام ،نفس پیغمبر (ص)کے عنوان سے پہچنوا ئے گئے ہیں۔چونکہ ہرشخص کاصرف ایک نفس ہوتا ہے،اس لئے حضرت علی علیہ السلام کاحقیقت میں نفس پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونا بے معنی ہے۔معلوم ہوتاہے کہ یہ اطلاق،اطلاق حقیقی نہیں ہے بلکہ اس سے مرادماننداورمماثلت ہے۔چونکہ یہاں پریہ مماثلت مطلق ہے اس لئے اس اطلاق کاتقاضاہے کہ جوبھی خصوصیت اورمنصبی کمال پیغمبراکرم (ص)کی ذات میں موجود ہے وہ حضرت علی علیہ السلام میں بھی پاےاجانا چاہئے،مگر یہ کہ دلیل کی بناء پرکوئی فضیلت ہو،جیسے آپ پیغمبرنہیں ہیں۔رسا لت و پیغمبری کے علاوہ دوسری خصوصیات اورکمالات میں آپ رسول کے ساتھ شریک ہیں،من جملہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی امت کے لئے قیادت وزعامت اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سارے جہاں،یہاں تک گزشتہ انبیاء پرافضلیت۔اس بناء پرآیہء شریفہ حضرت علی علیہ السلام کی امامت پردلالت کر نے کے علاوہ بعد از پیغمبر ان کی امت کے علاوہ تمام دوسرے انبیاء سے بھی افضل ہو نے پر دلالت کرتی ہے۔

۷۱

آیت کے استدلال میں فخررازی کابیان

فخررازی نے تفسیرکبیرمیں لکھاہے:

”شہرری میں ایک شیعہ اثناعشری شخص(۱) معلم تھاا س کاخیال تھاکہ حضرت علی(علیہ السلام) حضرت محمدمصطفی (ص)کے علاوہ تمام انبیاء)علیہم السلام)سے افضل وبرترہیں، اور یوں کہتاتھا:جوچیزاس مطلب پردلالت کرتی ہے،وہ آیہء مباہلہ میں خدا وندمتعال کایہ قول( واٴنفسنا واٴنفسکم ) ہے کیونکہ”انفسنا“ سے مرادپیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہیں ہیں،کیونکہ انسان خودکونہیں پکارتاہے۔اس بناء پر نفس سے مرادآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علاوہ ہے اوراس بات پر اجماع ہے کہ نفس سے مرادعلی بن ابیطالب(علیہ السلام) ہیں لہذاآیہ شریفہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نفس علی(علیہ السلام)سے مراد درحقیقت نفس پیغمبر (ص)ہے،اس لئے ناچار آپ کا مقصدیہ ہے کہ نفس علی نفس رسول کے مانندہے اوراس کالازمہ یہ ہے کہ

____________________

۱۔یہ بزرگ مرد،کہ جس کے بارے میں فخررازی نے یوں بیان کیاہے،جیسے کہ اس کی زندگی کے حالات کی تشریح کتابوں میں کی گئی ہے،شیعوں کے ایک بڑے مجتہداورعظیم عقیدہ شناس اورفخر رازی کے استادتھے۔مرحوم محدث قمی اس کے بارے میں لکھتے ہیں:شیخ سدید الدین محمودبن علی بن الحسن حمصی رازی ،علّامہ فاضل، متکلم اور علم کلام میں کتاب”التعلیق العراقی“کے مصنف تھے۔شیخ بہائی سے ایک تحریرکے بارے میں روایت کرتاہے کہ وہ شیعہ علماء ومجتہدین میں سے تھے اورری کے حمص نامی ایک گاؤں کے رہنے والے تھے،کہ اس وقت وہ گاؤںویران ہوچکاہے۔ )سفینة البحار،ج۱،ص۳۴۰،انتشارات کتاب خانہ محمودی)

مرحوم سیدمحسن امین جبل عاملی کتاب”التعلیق العراقی،یاکتاب المنقذمن التقلید“کے ایک قلمی نسخہ سے نقل کرتے ہیں کہ اس پرلکھا گیاتھا:”انهامن إملائ مولانا ا لشیخ الکبیر العالم سدید الدّین حجّةالاسلام والمسلمین لسان الطائفةوالمتکلمین اسد المناظرین محمودبن علی بن الحسن الحمصی ادام اللّٰه فی العزّبقائ هوکبت فی الذّلّ حسدته واعداه ۔۔۔“یعنی :یہ نسخہ استاد بزرگ اوردانشورسدیدالدین حجةالاسلام والمسلمین، مذہب ش یعیت کے تر جمان اور متکلمین،فن منا ظرہ کے ماہرمحمود بن علی بن الحسن الحمصی کااملا ہے کہ خدائے متعال اس کی عزت کو پائدار بنادے اور اس کے حاسدوں اور دشمنوں کو نابودکردے۔ )اعیا الشیعہ ،ج۱۰،ص۵ہ۱،دارالتعارف للمطبو عات،بیروت)

فیروزآبادی کتاب”القاموس المحیط“میں کہتاہے:”محمودبن الحمصی متکلم اخذ عنہ الامام فخر الدین“)القاموس المحیط،ج۲،ص۲۹۹،دار المعرفة،بیروت)

فیروزآبادی کی اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عظیم عقیدہ شناس فخررازی کا استاد تھالیکن فخررازی نے اس بات کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے۔

۷۲

یہ نفس تمام جہت سے اس نفس کے برابرہے۔اوراس کلیت سے صرف دوچیزیں خارج ہیں:ایک نبوت اوردوسرے افضلیت،کیونکہ اس پر سب کااتفاق ہے کہ علی(علیہ السلام)پیغمبرنہیں ہیں اور نہ ہی وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے افضل ہیں۔ان دومطالب کے علاوہ،دوسرے تمام امور ومسائل میں یہ اطلاق اپنی جگہ باقی ہے اوراس پراجماع ہے کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام انبیائے الہٰی سے افضل ہیں،لہذاعلی(علیہ السلام)بھی ان سب سے افضل ہوں گے۔“

مزید اس نے کہاہے:

”اس استدلال کی ایک ایسی حدیث سے تائید ہوتی ہے،جس کو موافق ومخالف سب قبول کرتے ہیں اوروہ حدیث وہ قول پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہے کہ جس میں اپ نے فرمایا:جوآدم(علیہ السلام)کو ان کے علم میں ،نوح(علیہ السلام)کوان کی اطاعت میں اورابراھیم(علیہ السلام)کو ان کی خُلّت میں ،موسیٰ(علیہ السلام)کوان کی ہیبت میں اورعیسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی صفوت میں دیکھناچاہے تواسے علی بن ابیطالب(علیہ السلام)پرنظرڈالناچاہئے۔“

فخررازی نے اپنی بات کوجاری رکھتے ہوئے مزید لکھاہے:

”شیعہ علماء مذکورہء آیہء شریفہ سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ علی(علیہ السلام)تمام اصحاب سے افضل ہیں۔کیونکہ جب آیت دلالت کرتی ہے کہ نفس علی (علیہ السلام)نفس رسول (ص)کے مانند ہے،سواء اس کے جو چیزدلیل سے خارج ہے اورنفس پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام اصحاب سے افضل ہے،لہذانفس علی(علیہ السلام)بھی تمام اصحاب سے افضل قرار پائیگا“

فخررازی نے اس استدلال کے ایک جملہ پراعتراض کیا ہے کہ ہم اس آیہء شریفہ سے مربوط سوالات کے ضمن میں آیندہ اس کاجواب دیں گے۔

۷۳

علی(ع)کونفس رسولجاننے والی احادیث

حضرت علی علیہ السلام کونفس رسول (ص)کے طورپرمعرفی کرنے والی احادیث کوتین گروہوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے:

پہلاگروہ:وہ حدیثیں جوآیہء مباہلہ کے ذیل میں بیان ہوئی ہیں:

ان احادیث کا ایک پہلو خامس آل عبا علیہم السلام کے مباہلہ میں شرکت سے مربوط تھا کہ جس کو پہلے بیان کیاگیاہے اوریہاں خلاصہ کے طورپرہم پیش کرتے ہیں:

الف:ابن عباس آیہء شریفہ کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:”وعلی نفسہ“”علی(ع)نفس پیغمبر)ص)ہیں۔“یہ ذکرآیہء مباہلہ میں ایاہے۔(۱)

ب:شعبی ،اہل بیت،علہیم السلا م کے بارے میں جابر بن عبداللہ کا قول نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں:”ابناء نا“ سے حسن وحسین)علیہم السلام)”نساء نا“سے جناب فاطمہ(سلام اللہ علیہا)اور”انفسنا“سے علی بن ابیطالب)علیہ السلام ) مرادہیں۔(۲)

ج:حاکم نیشابوری،عبداللہ بن عباس اوردیگر اصحاب سے،پیغمبراکرم (ص)کے ذریعہ مباہلہ میں علی،فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام کو اپنے ساتھ لانے والی روایت کومتواترجانتے ہیں اورنقل کرتے ہیں کہ”ابناء نا“سے حسن وحسین علیہم السلام،”نساء نا“سے فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہااور”انفسنا“سے علی بن ابیطالب علیہ السلام مرادہیں۔(۳)

د۔حضرت علی علیہ السلام کی وہ حدیث،جس میں اپ(ع)اصحاب شوریٰ کوقسم دے کراپنے فضائل کا ان سے اقرار لیا ہے آپ فرماتے ہیں:

____________________

۱۔معرفةعلوم الحدیث،ص۵۰،دارالکتب العلمیہ،بیروت

۲۔اسباب النزول،ص۴۷،دارالکتب العلمیہ،بیروت

۳۔معرفةعلوم الحدیث،ص۵۰،دارالکتب العلمیہ،بیروت

۷۴

نشدتکم اللّٰه هل فیکم اٴحد اٴقرب إلیر سول اللّٰه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی الرحم ومن جعله رسول اللّٰه نفسه وإبناء ه غیری ؟“(۱)

”یعنی:میں تمھیں خداکی قسم دیتاہوں!کیا تم لوگوں میں قرابت اور رشتہ داری کے لحاظ سے کوئی ہے جومجھ سے زیادہ رسول اللہ (ص)کے قریب ہو؟کوئی ہے جسے آنحضرت (ص)نے اپنانفس اوراسکے بیٹوں کواپنابیٹاقراردیاہو؟انہوں نے جواب میں کہا:خداشاہدہے کہ ہم میں کوئی ایسا،نہیں ہے۔“

دوسراگروہ:وہ حدیثیں جوقبیلہء بنی ولیعہ سے مربوط ہیں:یہ احادیث اصحاب کے ایک گروہ جیسے ابوذر،جابربن عبداللہ اورعبداللہ بن حنطب سے نقل ہوئی ہیں۔ان حدیثوں کامضمون یہ ہے کہ پیغمبراکرم (ص)نے)ابوذر کے بقول) فرمایا:

ولینتهینّ بنوولیعه اٴولاٴبعثَنّ إلیهم رجلاًکنفسی یمضی فیهم اٴمری فیقتل المقا تله ولیسبی الذریة ۔۔۔(۲)

قبیلہء بنی ولیعہ کواپنے امور سے باز آجاناچاہئے،اگر انھوں نے ایسانہیں کیاتو میں ان کی طرف اپنے مانند ایک شخص کوبھیجوں گا جومیرے حکم کوان میں جاری کرے گا۔جنگ کرنے والوں کو وہ قتل کرے گااوران کی ذرّیت کواسیربنائے گا۔

عمر،جو میرے پیچھے کھڑے ہو ئے تھے انہوں،نے کہا:آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کااس سے مرادکون ہے؟میں نے جواب دیاتم اور تمہارادوست)ابوبکر) اس سے مرادنہیں ہے تو اس نے

____________________

۱۔تاریخ مدینتہ دمشق،ج۴۲،ص۴۱۳۱،دارالفکر

۲۔السنن الکبیر للنسائی،ج۵،ص۱۲۷،دارالکتب العلمیہ،بیروت۔

۷۵

اس کے محقق نے اس ضمن میں کہاہے:اس حدیث کی سند میں موثق راوی موجود ہیں۔

المنصف لابن ابی شیبتہ، ج ۶ ، ص ۳۷۴ ، دارالتاج، المعجم الاوسط للطبرانی،ج ۴ ،ص ۴۷۷ ،مکتبة المعارف،الریاضی۔یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ”المعجم الاوسط“میں عمداً یا غلطی سے ”کنفسی“کے بجائے”لنفسی“آیا ہے،اورھیثمی نے مجمع الزوائد میں طبرانی سے ” کنفسی“روایت کی ہے۔مجمع الزوائد۔مجمع الزوائد ھیثمی ،ج ۷ ،ص ۱۱۰ ،دارالکتاب العربی و ص ۲۴۰ ،دارالفکر۔

کہاکون مرادہے؟میں نے کہا:اس سے مرادوہ ہے جواس وقت اپنی جوتیوں کو پیوندلگانے میں مصروف ہے۔کہا تو پھرعلی(علیہ السلام)ہیں جواپنی جویتوں کوٹانکے میں مصروف ہیں۔تیسراگروہ:وہ حدیثیں جوپیغمبر)ص)کے نزدیک محبوب ترین افراد کے بارے میں ہیں۔

بعض ایسی حدیثیں ہیں کہ جس میں پیغمبراکرم صلصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال ہوتاہے کہآپ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟جواب کے بعدآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے علی(علیہ السلام)کی محبوبیت یاافضلیت کے بارے میں سوال کیاجاتاہے۔پیغمبراکرم (ص)اپنے اصحاب سے مخاطب ہوکرفرماتے ہیں:”إنّ هذایساٴلنی من النفسی “یعنی:یہ سوال مجھ سے خود میرے بارے میں ہے!یعنی علی(علیہ السلام)میرانفس ہے۔(۱) ان میں سے بعض احادیث میں ،حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)پیغمبراسلام (ص)سے سوال کرتی ہیں،کیاآپنے علی(علیہ السلام)کے بارے میں کچھ نہیں فرمایاہے؟آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

علیّ نفسی فمن راٴیته اٴن یقول فی نفسه شیئاً (۲)

یعنی:علی(علیہ السلام)میرانفس ہے تم نے کس کودیکھاہے،جواپنے نفس کے بارے میں کچھ کہے؟یہ احادیث عمروعاص،عائشہ اورجد عمروبن شعیب جیسے بعض اصحاب سے نقل ہوئی ہیں۔

اس طرح کی حدیثیں مختلف زبانوں سے روایت ہوئی ہیں اوران کی تعدادزیادہ ہے۔جس سے یہ استفادہ ہوتاہے کہ علی علیہ السلام،نفس پیغمبر (ص)ہیں اورآیہ شریفہ کی دلالت پرتاکیدکرتی ہے، سواء اس کے کہ کوئی قطعی ضرورت اورخارجی دلالت کی وجہ سے اس اطلاق سے خارج ہوا جائے)جیسے نبوت جواس سے خارج ہے)لہذاآنحضرت (ص)کے

____________________

۱۔جامع الاحادیث،سیوطی،ج۱۶،ص۲۵۷۔۲۵۶،دارالفکر،کنز العمال،ج۱۳،ص۱۴۳۔۱۴۲،مؤسسہ الرسالہ

۲۔مناقب خوارزمی،ص۱۴۸،مؤسسہ النشرالاسلامی،مقتل الحسین علیہ السلام،ص۴۳،مکتبہ المفید۔

۷۶

دوسرے تمام عہدے من جملہ تمام امت اسلامیہ پر آپ (ص)کی فضیلت نیز قیادت وزعامت ا س اطلاق میں داخل ہے۔

پانچواں محور

آیت کے بارے میں چندسوالات اور ان کے جوابات

آلوسی سے ایک گفتگو:

آلوسی،اپنی تفسیر”روح المعانی(۱) “ میں اس آیہء شریفہ کی تفسیر کے سلسلہ میں کہتاہے:

”اہل بیت پیغمبر (ص)کے آل اللہ ہونے کی فضیلت کے بارے میں اس آیہء شریفہ کی دلالت کسی بھی مومن کے لئے ناقابل انکارہے اوراگرکوئی اس فضیلت کوان سے جداکرنے کی کوشش کرتا ہے تویہ ایک قسم کی ناصبیت وعنادہے اورعناد و ناصبیت ایمان کے نابود کر نے کاسبب ہے۔“

شیعوں کااستدلال

اس کے بعد)آلوسی)آیہء مذکورہ سے رسول خدا (ص)کے بعدعلی علیہ السلام کے بلافصل خلیفہ ہونے کے سلسلہ میں شیعوں کے استدلال کوبیان کرتاہے اوراس روایت سے استنادکرتاہے کہ آیہء کریمہ کے نازل ہونے کے بعد پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مباہلہکے لئے علی،فاطمہ،اورحسنین علیہم السلام کو اپنے ساتھ لائے،اس کے بعدکہتاہے:

”اس طرح سے”ابناء نا“کا مراد سے حسن وحسین)علیہماالسلام)،”نساء نا“سے مرادفاطمہ(سلام اللہ علیہا)اور”انفسنا“سے مرادعلی(علیہ السلام)ہیں۔جب علی(علیہ السلام)نفس رسول قرار پائیں گے تو اس کا اپنے حقیقی معنی میں استعمال محال ہو گا)کیونکہ

____________________

۱۔روح المعانی،ج۳،ص۱۸۹،داراحیائ التراث العربی

۷۷

حقیقت میں علی علیہ السلام خودرسول اللہ (ص)نہیں ہوسکتے ہیں) لہذا قھراً اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مساوی اورمماثل ہیں۔چونکہ پیغمبراسلام (ص)امورمسلمین میں تصرف کرنے کے سلسلہ میں افضل اوراولٰی ہیں،لہذا جو بھی ان کے مماثل ہو گاوہ بھی ایساہی ہوگا۔اس طرح سے پوری امت کے حوالے سے حضرت علی(علیہ السلام)کی افضیلت اورامت پر ان کی سرپرستی اس آیہء شریفہ سے ثابت ہوتی ہے۔“

شیعوں کے استدلال کے سلسلہ میں الوسی کاپہلااعتراض

اس کے بعدآلوسی شیعوں کے استدلال کاجواب دیتے ہوئے کہتاہے:شیعوں کے اس قسم کے استدلال کاجواب یوں دیاجاسکتاہے:

ہم تسلیم نہیں کرتے ہیں کہ ”انفسنا“سے مراد حضرت امیرالمؤمنین (علیہ السلام)ہوں گے،بلکہ نفس سے مرادخودپیغمبر (ص)ہی ہیں اورحضرت امیر (علیہ السلام) ”ابنائنا“میں داخل ہیں کیونکہ دامادکوعرفاًبیٹاکہتے ہیں۔

اس کے بعدشیعوں کے ایک عظیم مفسرشیخ طبرسی کابیان نقل کرتاہے کہ انہوں نے کہاہے کہ”انفسنا“سے مرادخودپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہیں ہوسکتے ہیں،کیونکہ انسان کبھی بھی اپنے آپ کونہیں بلاتاہے،اس نے)شیخ کی)اس بات کوہذیان سے نسبت دی ہے؟!

۷۸

اس اعتراض کاجواب

آلوسی اپنی بات کی ابتداء میں اس چیز کو تسلیم کرتاہے کہ آیہء کریمہ پیغمبر (ص)وکے خاندان کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے اور اس فضیلت سے انکار کو ایک طرح کے بغض و عناد سے تعبیر کرتاہے۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس عظیم فضیلت کوآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان سے منحرف کرنے کے لئے کس طرح وہ خودکوشش کرتاہے اوراپنے اس عمل سے اس سلسلہ میں بیان کی گئی تمام احادیث کی مخا لفت کرتا ہے اورجس چیز کوابن تیمیہ نے بھی انجام نہیں دیاہے)یعنی”انفسنا“کے علی علیہ السلام پرانطباق سے انکارکرنا)اسے انجام دیتا ہے۔

اگرچہ ہم نے بحث کی ابتداء میں ”انفسنا“کے بارے میں اوریہ کہ اس سے مراد خودپیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہیں ہوسکتے ہیں،بیان کیاہے،لیکن یہاں پر بھی اشارہ کرتے ہیں کہ اگر”انفسنا“سے مرادخودپیغمبراسلام (ص)ہوں اورعلی علیہ السلام کو”ابناء نا“کے زمرے میں داخل کر لیا جائے تو یہ غلط ہے اور دوسرے یہ کہ خلاف دلیل ہے۔

اس کاغلط ہونااس لحاظ سے ہے کہ آیہء شریفہ میں ”بلانا اپنے“حقیقی معنی میں ہے۔اور جوآلوسی نے بعض استعمالات جیسے”دعتہ نفسہ“کورائج ومرسوم جا ناہے،اس نے اس نکتہ سے غفلت کی ہے کہ اس قسم کے استعمالات مجازی ہیں اوران کے لئے قرینہ کی ضرورت ہوتی ہے اور آیہء مذکورہ میں کوئی ایسا قرینہ موجودنہیں ہے،بلکہ یہاں پر”دعتہ نفسہ“کے معنی اپنے آپ کو مجبوراورمصمم کرناہے نہ اپنے آپ کو بلانااورطلب کرنا۔

۷۹

اس کے علاوہ”ابنائنا“ کے زمرے میں امیرالمؤمنین(علیہ السلام)کو شامل کر نا صرف اس لئے کہ وہ آنحضرت (ص)کے داماد تھے گویالفظ کو اس کے غیر معنی موضوع لہ میں ہے اور لفظ کواس کے معانی مجازی میں بغیر قرینہ کے حمل کر تاہے۔

اس لئے”ابناء نا“کا حمل حسنین علیہما السلام کے علاوہ کسی اورذات پر درست نہیں ہے اور”انفسنا“کا لفظ حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کسی اورپر منطتبق نہیں ہو تاہے۔

اگرکہاجائے کہ:کونسامرجح ہے کہ لفظ ”ندع“کا استعمال اس کے حقیقی معنی میں ہو اور”انفسنا“کااستعمال حضرت علی علیہ السلام پر مجازی ہو؟بلکہ ممکن ہے کہا جائے”انفسنا“خودانسان اوراس کی ذات پراطلاق ہو جوحقیقی معنی ہے اور”ندع“کے معنی میں تصرف کر کے ”نحضر“کے معنی لئے جائیںیعنی اپنے آپ کوحاضرکریں۔

جواب یہ ہے کہ:اگر”ندع“ کا استعمال اپنے حقیقی معنی ہےں ہوتوایک سے زیادہ مجاز در کارنہیں ہے اوروہ ہے”انفسنا“کا حضرت علی علیہ السلام کی ذات پراطلاق ہو نالیکن اگر”ندع“کو اس کے مجاز ی معنی پر حمل کریں تو اس سے دوسرے کا مجاز ہونابھی لازم آتاہے یعنی علی علیہ السلام کا ”ابناء نا“پراطلاق ہونا،جوآنحضرت صلی (ص)کے داماد ہیں اوراس قسم کے مجاز کے لئے کوئی قرینہ موجودنہیں ہے۔

۸۰

خدمت میں عرض کیا تھا کہ فاطمہ (ع) اللہ کی اطاعت میں میری بہترین مددگار اور یاور ہے _(۱)

بچوں کی تعلیم و تربیت

جناب زہرا ء کی ذمہ داریوں میں سے سب سے زیادہ سخت ذمہ داری اولاد کی تربیت تھی_ آپ کے پانچ بچے ہوئے، جناب امام حسن(ع) اور امام حسین (ع) اور جناب زینب خاتوں اور جناب ام کلثوم اور پانچوں فرزند کا نام محسن تھا جو ساقط کردیا گیا، آپ کے دو لڑکے اور دو لڑکیاں زندہ ہیں آپ کی اولاد عام لوگوں کی اولاد کی طرح نہ تھی بلکہ یوں ہی مقدر ہوچکا تھا کہ پیغمبر اکرم(ص) کی نسل مبارک جناب فاطمہ (ع) سے چلے_

جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرمایا کرتے تھے باقی پیغمبروں کی ذریت ان کے صلب سے ہے لیکن میری نسل علی (ع) کے صلب سے مقرر ہوئی ہے میں فاطمہ (ع) کی اولاد کا باپ ہوں_(۲)

خدا نے مقرر فرمایا ہے کہ دین کے پیشوا اور رسول خدا(ص) کے خلفاء جناب زہرا(ع) کی پاک نسل سے ہوں لہذا جناب زہرا(ع) کی سب سے زیادہ سخت ذمہ داری اولاد کی تربیت تھی_

تربیت اولاد ایک مختصر جملہ ہے لیکن یہ لفظ بہت مہم اور وسیع المعنی ہے شاید کسی کے ذہن میں آئے کہ اولاد کی تربیت صرف اور صرف باپ کا ان کے لئے لوازم زندگی

____________________

۱) بحارالانوار، ج ۴۳ ص ۱۱۷_

۲) مناقب ابن شہر آشوب، ج ۳ص ۲۸۷_

۸۱

فراہم کرنا ہی نہیں اور ماں ان کے لئے خشک و ترسے غذا مہیا کردے اور لباس دھو دے اور بس اس کے علاوہ اور کوئی بھی ذمہ داری اولاد کی ان پر عائد نہیں ہوتی لیکن معلوم ہونا چاہیئےہ اسلام اسی حد تک اولاد کی تربیت میں اکتفا نہیں کرتا بلکہ ماں باپ کو ان کے بہت بڑے وظیفہ کا مسئول قرار دیتا ہے_

اسلام بچے کی بعد میں بننے والی شخصیت کو ماں باپ کی پرورش او رتربیت اور ان کی نگہداری کے مرہون منت سمجھتا ہے ماں باپ کے تمام حرکات او رسکنات اور افعال و کردار بچے کی لطیف اور حساس روح پر اثرانداز ہوتے ہیں، ہر بچہ ماں باپ کے رفتار اور سلوک کی کیفیت کا نمائندہ ہوتا ہے_ ماں باپ کا وظیفہ ہے کہ بہت زیادہ احتیاط سے بچے کے مستقبل کے مراقب او رمواظب ہوں تا کہ بے گناہ بچہ کہ جس کی نہاد اچھائی خلق ہوئی ہے فاسد اور بدبخت نہ ہوجائے_

جناب زہرا(ع) نے خود دامن وحی میں تربیت پائی تھی او راسلامی تربیت سے نا آشنا او رغافل نہ تھیں_ یہ جانتی تھیں کہ کس طرح ماں کا دودھ اور اس کے معصوم بچے کے لبوں پر بوسے لے کر اس کے تمام حرکات اور سکنات اعمال اور گفتار اس کی حساس روح پر اثرانداز ہوا کرتے ہیں_ جانتی تھیں کہ مجھے امام کی تربیت کرتا ہے اور معاشرہ اسلامی کو ایک ایسا نمونہ دینا ہے جو روح اسلام کا آئینہ دار اور حقیقت کا معرف ہوگا، معارف اور حقائق ان کے وجود میں جلوہ گر ہوں اور یہ کام کوئی آسانی کا م نہ تھا_

جناب فاطمہ (ع) جانتی تھیں کہ مجھے اس حسین (ع) کی تربیت کرنا ہے کہ جو اسلام کی ضرورت کے وقت اپنی اور اپنے عزیزوں کی جان دین اسلام کے دفاع اور ظلم سے مبارزہ کر کے فداکر سکے اور اپنے عزیزوں کے پاک خون سے اسلام کے درخت کو سیراب کردے_ جانتی تھیں کہ انھیں ایسی لڑکیاں زینب او رام کلثوم تربیت

۸۲

کرنی ہیں جو اپنے پر جوش خطبوں اور تقریروں سے بنی امیہ کی ظلم و ستم کی حکومت کو رسوا اور مفتضح کردیں اور ان کے ناپاک ارادوں کو ناکام بنادے_ فاطمہ (ع) زہرا گھریلو یونیورسٹی میں زینب کو فداکاری اور شجاعت اور یزید کے ظلم سے مرعوب نہ ہونے کا دس دے رہی تھیں تا کہ اپنی شعلہ بیانی سے دوست اور دشمن کو رلائے اور اپنے بھائی کی مظلومیت اور بنو امیہ کی بیدادگی اور ظلم سے مرعوب نہ ہونے کا درس دے رہی تھیں، جانتی تھیں کہ ایک متحمل مزاج فرزند امام حسن جیسا تربیت کرنا ہے تا کہ اسلام کے حساس موقع پر اپنے جگر کا خون پیتا رہے اور اسلام کے منافع اور اساسی انقلاب کے لئے زمین ہموار کرنے کے لئے ساکت رہے اور شام کے حاکم سے صلح کر کے عالم کو بتلا دے کہ اسلام جب تک ممکن ہو صلح کو جنگ پر ترجیح دیتا ہے اور اس طرح کر کے حاکم شام کی عوام فریبی اور دغل بازی کو ظاہر کردے، غیر معمولی نمونے جو اس اعجازآمیز مکتب سے نکلے ہیں وہ حضرت زہرا (ع) کی غیر معمولی طاقت اور عظمت روحی کے ظاہر کر نے کے لئے کافی ہیں_

جی ہاں حضرت زہرا (ع) کوتاہ فکر عورتوں سے نہ تھیں کہ جو گھر کے ماحول اور محیط کو معمولی شمار کرتے ہوئے بلند پرواز کرتی ہیں_ حضرت زہرا(ع) کے گھر کے ماحول کو بہت بڑا اور حساس خیال کرتی تھیں اسے انسان سازی کا ایک بہت بڑا کارخانہ اور فوجی تمرین اور فداکاری کی ایک اہم یونیورسٹی شمار کرتی تھیں اور جانتی تھیں کہ اس درسگاہ کے تربیت شدہ کو جو درس دیا جائے گا وہ نہیں معاشرہ کے بہت بڑے میدان میں ظاہر کرنا ہوگا، جو یہاں ٹریننگ لیں گے اس پر انہیں مستقبل میں عمل کرنا ہوگا، جناب زہرا (ع) عورت ہونے میں احساس کمتری میں مبتلا نہ تھیں اور عورت کے مقام اور مرتبے کو اہم اور اعلی جانتی تھیں اور اس قسم کی بھاری

۸۳

استعداد اپنے میں دیکھ رہی تھیں کہ کارخانہ خلقت نے ان پر اس قسم کی بھاری اور مہم ذمہ داری ڈال دی ہے اور اس قسم کی اہم مسئولیت اس کے سپرد کردی ہے_

تربیت کی اعلی درسگاہ

حضرت زہرا(ع) کے گھر میں بچوں کی ایک اسلامی تربیت اور اعلی درسگاہ کی بنیاد رکھی گئی یہ درسگاہ اسلام کی دوسری شخصیت اور اسلام کی خاتون اول کی مدد سے یعنی علی (ع) اور فاطمہ زہرا (ع) کی مدد سے چلائی جارہی تھی اور اسلام کی پہلی شخصیت یعنی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیرنگرانی چل رہی تھی_اس میں تربیت کے قواعد اور پروگرام بلاواسطہ پرودگار جہان کی طرف سے نازل ہوتے تھے، تربیت کے بہترین پروگرام اس میںجاری کئے جاتے تھے اور بہترین افراد کو تربیت دی گئی تھی میں یہاں اس مطلب کے اعتراف کرنے پر مجبور ہوں کہ اس عالی پروگرام کے جزئیات ہمارے لئے بیان نہیں کئے گئے، کیوں کہ اول تو اس زمانے کے مسلمان اتنی فکری رشد نہیں رکھتے تھے کہ وہ تربیتی امور کی اہمیت کے قائل ہوں اور اس کی قدر کریں اور پیغمبر اور علی (ع) اور فاطمہ علیہم السلام کی گفتار اور رفتار کو جو وہ بجالائے تھے محفوظ کر لیتے اور دوسروں کے لئے روایت کرتے دوسرے بچوں کی تربیت کا اکثر لائحہ عمل گھر کے اندر جاری کیا جاتا تھا کہ جو دوسروں سے اندرونی اوضاع غالباً پوشیدہ رہتے تھے_

لیکن اس کے باوجود اجمالی طور سے کہا جاسکتا ہے کہ ان کی تربیت کا لائحہ عمل وہی تھا جو قرآن کریم اور احادیث پیغمبر(ص) اور احادیث آئمہ اطہار میں وارد ہوا ہے اور پھر جو تھوڑی بہت جزئیات نقل کی گئی ہیں اس سے ایک حد تک ان کی تربیت

۸۴

کی طرف راہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے_

یہ بھی واضح رہے کہ میں نہیں چاہتا ہوں کہ مفصول طور پر اصول تربیت پر بحث کروں کیوں کہ یہاں اس بحث کے لئے گنجائشے نہیں ہے_ لیکن ان میں سے کچھ اصول تربیت کو جو حضرت زہرا(ع) کی اولاد کی تربیت میں استعمال کئے گئے ہیں اور ہمارے لئے نقل ہوئے ہیں اختصار کے طور پر یہاں بیان کرتا ہوں_

پہلا درس

محبت

شاید اکثر لوگ یہ خیال کریں کے بچے کی تربیت کا آغاز اس وقت سے ہونا چاہیئے جب اچھائی اور برائی کو بچہ درک کرنے لگے اور اس سے پہلے بچے کی تربیت کرنا موثر نہ ہوگی، کیوں کہ اس سے پہلے بچہ خارجی عوامل سے متاثر نہیں ہوتا لیکن یہ خیال درست نہیں ہے کیوں کہ فن تربیت کے دانشمندوں کی تصدیق کے مطابق بچے کی پرورش اور تربیت کا آغاز اس کی پیدائشے سے ہی شروع کردینا چاہیئے، دودھ پلانے کی کیفیت اور ماں باپ کے واقعات اور رفتار نو مولود کی پرورش میں ایک حد تک موثر واقع ہوتے ہیں اور اس کی مستقبل کی شخصیت اسی وقت سے شروع جاتی ہے_

فن تربیت اور نفسیات کے ماہرین کے نزدیک یہ مطلب یا یہ ثبوت کو پہنچ گیا ہے کہ بچے بچپن کے زمانے سے ہی محبت اور شفقت کے محتاج ہوتے ہیں_ بچہ چاہتا ہے کہ اس کے ماں باپ اسے حد سے زیادہ دوست رکھیں

۸۵

اور اس کے ساتھ شفقت کا اظہار کریں بچے کو اس کی زیادہ فکر نہیں ہوتی کہ وہ قصر میں زندگی گزار رہا ہے یا خیمے میں اس کا لباس بہت اعلی اور نفیس ہے یا نہیں، لیکن اسے اس موضوع سے زیادہ توجہ ہوتی ہے کہ اس سے محبت کی جاتی ہے یا نہیں، بچے کے اس اندورنی احساس کو سوائے محبت کے اظہار اور شفقت کے اور کوئی چیز ختم نہیں کرسکتی، بچے کی مستقبل کی شخصیت اور اخلاق کا سرچشمہ اس سے محبت کا اظہار ہے یہی ماں کی گرم گود اور باپ کی مخلصانہ نوازش بچے میں بشر دوستی کی حس اور ہم جنس سے علاقہ مندی پیدا کرتی ہے_ یہی بچے سے بے ریاء نوازش بچے کو تنہائی کے خوف اور ضعف سے نجات دیتی ہے اور اسے زندگی کا امیدوار بناتی ہے، یہی خالص پیار و محبت بچے کی روح میں اچھی اخلاق اور حسن ظن کی آمیرش کرتی ہے اور اسے اجتماعی زندگی اور ایک دوسرے سے تعاون و ہمکاری کی طرف ہدایت کرتی ہے اور گوشہ نشینی اور گمنامی سے نجات دیتی ہے انہیں نوازشات کے واسطے سے بچے میں اپنی شخصیت کا احساس پیدا ہوتا ہے اور اپنے آپ کو دوستی کے لائق سمجھتا ہے_

جس بچے میں محبت کی کمی کا احساس ہو وہ عام طور سے ڈرپوک، شرمیلا ضعیف، بدگمان، گوشہ نشین، بے علاقہ، پمردہ اور مریض ہوا کرتا ہے، اور کبھی ممکن ہے کہ اس کے رد عمل کے اظہار کے لئے اور اپنی بے نیازی کو بتلانے کے لئے مجرمانہ افعال کے بجالانے میں ہاتھ ڈال دے جیسے جنایت، چوری، قتل و غیرہ تا کہ اس وسیلہ سے اس معاشرہ سے انتقام لے سکے جو اسے دوست نہیں رکھتا اور اس سے بے نیازی کا مظاہرہ کرسکے_

پس بچے سے محبت اور شفقت اس کی ضروریات میں شمار ہوتی ہیں اور اس

۸۶

کی پرورش میں محبت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے_

اس چیز کا درس حضرت زہرا(ع) کے گھر میں کامل طور سے دیا جاتا تھا اور پیغمبر اکرم(ص) یہ جناب فاطمہ (ع) کو یاد دلاتے تھے_

روایت میں آیا ہے کہ جب امام حسن (ع) متولد ہوئے تو آپ کو زرد کپڑے میں لپیٹ کر پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں لایا گیا تو آپ نے فرمایا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ نو مولود کو زرد کپڑے میں نہ لپیٹا کرو؟ اس کے بعد امام حسن (ع) کے زرد کپڑے کو اتار پھینکا اور انہیں سفید کپڑے میں لپیٹا اور بغل میں لیا او رانہیں بوسہ دینا شروع کیا، یہی کام آپ نے امام حسین علیہ السلام کی پیدائشے وقت بھی انجام دیا_(۱)

روایت میں آیا ہے کہ ایک دن جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز جماعت میں مشغول تھے آپ جب سجدے میں جاتے تو امام حسین (ع) آپ کی پشت مبارک پر سوار ہوجاتے اور پاؤں کو حرکت دینے اور جب سجد سے سر اٹھاتے تو امام حسین علیہ السلام کو پشت سے ہٹاکر زمین پر بٹھا دیتے اور جب آپ دوبارہ سجدے میں جاتے تو امام حسین علیہ و آلہ و سلم انہیں ہٹا دیتے، پیغمبر اکرم(ص) نے اسی کیفیت سے نماز پوری کی، ایک یہودی جو یہ کیفیت دیکھ رہا تھا اس نے عرض کی کہ بچوں کے ساتھ آپ کا جو برتاؤ ہے اس کو ہم پسند نہیں کرتے_ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا کہ اگر تم بھی خدا اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہوتے تو تم بھی بچوں کے ساتھ ایسی ہی نرمی سے پیش آتے وہ یہودی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم

____________________

۱) بحارالانوار، ج ۴۳ ص ۲۴۰_

۸۷

کے اس رویہ کی وجہ سے مسلمان ہوگیا_(۱)

ایک دن پیغمبر(ص) جناب امام حسن (ع) کو بوسہ اور پیار کر رہے تھے کہ اقرع بن حابس نے عرض کی کہ میرے دس فرزند ہیں لیکن میں نے ابھی تک کسی کو بھی بوسہ نہیں دیا_ پیغمبر (ص) غضبناک ہوئے اور فرمایا کہ اگر خدا نے تیرے دل سے محبت کو لے لیا ہے تو میں کیا میں کیا کروں؟ جو شخص بھی بچوں پر ترحم نہ کرے اور بڑوں کا احترام نہ کرے وہ ہم سے نہیں ہے _(۲)

ایک دن جناب رسول خدا(ص) کا جناب فاطمہ (ع) کے گھر سے گزر ہوا آپ نے امام حسین علیہ السلام کے رونے کی آواز سنی آپ نے جناب فاطمہ (ع) کو آواز دی اور فرمایا کیا تم کو معلوم نہیں کہ حسین (ع) کو رونا مجھے اذیت دیتا ہے_(۳)

ابوہریرہ کہتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کو اپنے کندھے پر سوار کیا تھا راستے میں کبھی امام حسن علیہ السلام کا بوسہ لیتے تھے اور کبھی امام حسین علیہ السلام کا، ایک آدمی نے عرض کی_ یا رسول اللہ(ص) آپ ان دو بچوں کو دوست رکھتے ہیں آپ نے فرمایا_ ہاں، جو شخص حسن (ع) اور حسین (ع) کو دوست رکھے وہ میرا دوست ہے اور جو شخص ان سے دشمنی کرے وہ میرا دشمن ہے _(۴)

پیغمبر اسلام(ص) کبھی جناب فاطمہ (ع) سے فرماتے تھے، حسن اور حسین کو میرے پاس لاؤ

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۹۶_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۸۲_

۳) بحار الانوار، ج ۴۳ص ۲۹۵_

۴) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۸۱_

۸۸

اور جب آپ ان کو حضور کی خدمتم یں لے جاتیں تو رسول اکرم(ص) ان کو سینے سے لگاتے اورپھول کی طرح ان کو سونگھتے _(۱)

ابوہریرہ کہتے ہیں کہ میں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حسن(ع) اور حسین(ع) کے لبوں کو اس طرح چوستے دیکھا ہے جیسے خرما کو چوسا جاتا ہے_(۲)

دوسرا درس

شخصیت

نفسیات کے ماہر کہتے ہیں کہ بچے کی تربیت کرنے والے کو بچے کی شخصیت کی پرورش کرنی چاہیئے اور بچے کو خود اعتماد کا درس دینا چاہیئے_ یعنی اس میں اعتماد نفس اجاگر کیا جائے تا کہ اسے بڑی شخصیت اور بڑا آدمی بنایا جاسکے_

اگر بچے کی تربیت کرتے والا بچے کا احترام نہ کرے اور اسے حقیر شمار کرے اور اس کی شخصیت کو ٹھیس پہنچاتا رہے تو خودبخود وہ بچہ ڈرپوک اور احساس کمری کا شکار ہوجائے گا اور اپنے آپ کو بے قیمت اور حقیر جاننے لگے گا_ اور جب جوان ہوگا تو اپنے آپ کو اس لائق ہی نہیں سمجھے گا کہ کوئی بڑا کارنامہ انجام دے سکے_ اس قسم کا آدمی معاشرہ میں بے اثر ہوگا اور اپنے آپ کو بہت آسانی سے پست کاموں کے لئے حاضر کردے گا_

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۹۹_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۸۴_

۸۹

بخلاف اگر اپنے آپ کو صاحب شخصیت اور با وقار سمجھتا ہو تو پھر وہ پست کاموں کے لئے تیار نہ ہوگا اورذلت وخواری کے زیر بار نہ ہوگا_ اس قسم کی نفسیاتی کیفیت ایک حد تک ماں باپ کی روحی کیفیت اور خاندانی تربیت سے وابستہ ہوا کرتی ہے_

نفسیات کے ماہر بچے کی تربیت کے لئے تربیت کرنے والوں سے سفارش کرتے ہیں کہ جن میں سے بعض یہ مطالب ہیں_

اول: بچے سے محبت اور نوازش کااظہار کرتا ہم اسے پہلے درس میں بیان کرچکے ہیں اور ہم نے ذکر کیا تھا کہ جناب امام حسن(ع) اور جناب امام حسین(ع) ماں باپ اور حضرات رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بہت زیادہ محبت سے بہرہ ور تھے_

دوم: بچے کی اچھی صفات کا ذکر کیا جائے اور اس کی اپنے دوستوں کے سامنے تعریف اورتوصیف کی جائے اور اسے نفس کی بزرگی کا درس دیا جائے_

جناب رسول خدا(ص) نے کئی دفعہ امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے بارے میں فرمایا کہ یہ جوانان جنت کے بہترین افراد سے ہیں اور ان کا باپ ان سے بھی بہتر ہے_(۱)

پیغمبر اکرم(ص) نے امام حسین اور امام حسین علیہما السلام سے فرمایا کہ تم خدا کے ریحان ہو_(۲)

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳_ ص ۲۶۴_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ج_ ص۲۸۱_

۹۰

جناب ابوبکر کہتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر پر تشریف فرماتھے اور جناب امام حسن (ع) آپ کے پہلوں میں بیٹھے ہوئے تھے جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کبھی لوگوں کی طرف دیکھتے اور کبھی جناب امام حسن علیہ السلام کی طرف اور فرماتے تھے کہ حسن (ع) سید وسردار ہے_ شاید اس کی برکت سے میری امت میں صلح واقع ہو_(۱)

جابر کہتے ہیں کہ میں ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ امام حسن اور امام حسین علیہما السلام جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی پشت پر سوار ہیں اور آپ گھٹنوں اور ہاتھوں پر چل رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ تمہاری سواری بہترین ہے اورتم بہترین سوار ہو_(۲)

یعلی عامری کہتے ہیں کہ ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیکھا کہ امام حسین علیہ السلام بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں، آپ نے اپنے ہاتھ بڑھائے تا کہ آپ کو پکڑلیں جناب امام حسین علیہ السلام اس طرف اور اس طرف بھاگتے تھے_ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہنستے ہوئے امام حسین علیہ السلام کو بغل میں لے لیا اور اس وقت اپنا ایک ہاتھ امام حسین علیہ السلام کی ٹھوڑی کے نیچے اور دوسرا ہاتھ گردن کے پیچھے رکھا اور اپنے دہن مبارک کو امام حسین(ع) کے لبوں پر رکھ کر بوسہ دیا اور فرمایا کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں_ جو شخص اسے دوست رکھے خدا اسے دوست رکھتا ہے_

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳، ص ۲۰۵_

۲) بحار الانوار،ج ۴۳_ ص ۲۸۵_

۹۱

حسین (ع) میری بیٹی کا فرزند ہے_(۱)

حضرت علی بن ابی طالب امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) سے فرمایا کرتے تھے کہ تم، لوگوں کے پیشوا اور جوانان جنت کے سردار ہو اور معصوم ہو خدا اس پر لعنت کرے جو تم سے دشمنی کرے_(۲)

جناب فاطمہ (ع) ایک دن امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) کو جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خدمت میں لائیںاور عرض کی یا رسول اللہ(ص) حسن (ع) اور حسین آپ کے فرزند ہیں ان کو کچھ عطا فرمایئےرسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنی سیادت و ہیبت حسن کو بخشی، اور اپنی شجاعت اور سخاوت حسین (ع) کو دی_

سلمان فارسی کہتے ہیں کہ میںنے امام حسین (ع) کو دیکھا کہ آپ پیغمبر(ص) کے زانو پر بیٹھے ہوئے ہیں اور آپ ان کو بوسہ دے رہیں اور فرماتے ہیں کہ تم سردار اورسردار زادہ ہو امام اور امام کے فرزند اور ماموں کے باپ ہو تم حجت ہو اور حجت کے فرزند اور نوحجتوں کے باپ ہو کہ آخری حجت امام مہدی قائم ہوں گے_(۳)

جی ہاں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جناب زہرا(ع) کی اولاد کی تربیت میں کوشش کرتے تھے جناب زہراء اور حضرت علی بھی اسی لائحہ عمل پرآپ کی متابعت کرتے تھے کبھی بھی انہوں نے بچوں کو حقیر نہیں سمجھا اور ان کی شخصیت کو دوسروں کے

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۷۱_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۶۵_

۳) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۹۵_

۹۲

سامنے ہلکاپھلکا بنا کر پیش نہیں کیا، اور ان کے روح اور نفس پر اس قسم کی ضرب نہیں لگائی یہی وجہ تھی کہ آپ کے یہاں سید و سردار نے تربیت پائی_

روایت میںآیا ہے کہ ایک آدمی نے ایک گناہ کا ارتکاب کیا کہ جس کی اسے سزا ملنی تھی اس نے اپنے آپ کو جناب رسول خدا(ص) سے مخفی رکھا یہاں تک کہ ایک دن راستے میں امام حسن (ع) اورامام حسین (ع) سے اس کی ملاقات ہوگئی ان دونوں کو کندھے پر بیٹھایا اور جناب رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوگیا اور عرض کی یا رسول اللہ(ص) میں حسن (ع) اور حسین (ع) کو شفیع اورواسطہ قرار دیتا ہوں پیغمبر اکرم(ص) ہنس دیئے اورفرمایا میںنے تمہیں معاف کردیا اس کے بعد امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) سے فرمایا کہ میں نے تمہاری سفارش اور شفاعت قبول کرلی ہے _(۱)

یہی عظمت نفس اور بزرگی تھی کہ امام حسین علیہ السلام اپنی مختصر فوج سے یزید کے بے شمار لشکر کے سامنے ڈٹ گئے اور مردانہ وار جنگ کی لیکن ذلت اور خواری کو برداشت نہ کیا آپ فرماتے تھے میں غلاموں کی طرح بھاگوں گا نہیں اور ذلت اور خواری کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کروں گا _(۲)

اسی تربیت کی برکت تھی کہ زینب کبری ان تمام مصائب کے باوجود یزید کے ظلم و ستم کے سامنے حواس باختہ نہ ہوئیں اور اس سے مرعوب نہ ہوئیں اور پرجوش خطابت سے کوفہ اور شام کو منقلب کر گئیں اور یزید کی ظالم اور خونخوار حکوت کو ذلیل اور خوار کر کے رکھ دیا_

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۳۱۸_

۲) مقتل ابن مختف، ص ۴۶_

۹۳

تیسرا درس

ایمان اورتقوی

نفسیات کے ماہرین کے درمیان یہ بحث ہے کہ بچوں کے لئے دینی تعلیمات اور تربیت کس وقت سے شروع کی جائے ایک گروہ کا نظریہ یہ ہے کہ بچہ جب تک بالغ اوررشید نہ ہو وہ عقائد اورافکار دینی کو سمجھنے کی استعداد نہیں رکھتا اور بالغ ہوتے تک اسے دینی امور کی تربیت نہیں دینی چاہیئے_ لیکن ایک دوسرے گروہ کاعقیدہ یہ ہے کہ بچے بھی اس کی استعداد رکھتے ہیں اور انہیں دینی تربیت دی جانی چاہیئےربیت کرنے والے دینی مطالب اور مذہبی موضوعات کو سادہ اور آسان کر کے انہیں سمجھائیں اور تلقین کریں اور انہیں دینی امور اور اعمال کو جو آسان ہیں بجالانے پر تشویق دلائیں تا کہ ان کے کان ان دینی مطالب سے آشنا ہوں اور وہ دینی اعمال اورافکار پرنشو و نما پاسکیں_ اسلام اسی دوسرے نظریئے کی تائید کرتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ بچوں کو جب وہ سات سال کے ہوجائیں تو انہیں نماز پڑھنے کی تاکید کریں _(۱)

پیغمبر اسلام(ص) نے دینی امور کی تلقین حضرت زہرا(ع) کے گھر بچپن اور رضایت کے زمانے سے جاری کردی تھی_ جب امام حسن علیہ السلام دنیا میں آئے اور انہیں رسول خدا(ص) کی خدمت میں لے گئے تو آپ نے انہیں بوسہ دیا اوردائیں کان میں

____________________

۱) شافی ج ۲ ص ۱۴۹_

۹۴

اذان اور بائیں کان میں اقامت اور امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے موقع پربھی یہی عمل انجام دیا(۱) _

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں ایک دن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھنا چاہتے تھے امام حسین علیہ السلام بھی آپ کے پہلو میں کھڑے ہوگئے جب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تکبیر کہی توجناب امام حسین علیہ السلام نہ کہہ سکے رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے سات مرتبہ تکبیرکی تکرار کی یہاں تک کہ امام حسین (ع) نے بھی تکبیر کہہ دی _(۲)

جناب رسو ل خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دینی تلقین کو اس طرح موثر جانتے تھے کہ تولد کے آغاز سے ہی آپ نے امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کے کانوں میں اذان اور اقامت کہی تا کہ اولاد کی تربیت کرنے والوں کے لئے درس ہوجائے یہی وجہ تھی کہ جناب فاطمہ (ع) جب امام حسن (ع) کو کھلایا کرتیں اورانہیں ہاتھوں پرا ٹھا کر اوپر اور نیچے کرتیں تو اس وقت یہ جملے پڑھتیں اے حسن(ع) تو باپ کی طرح ہوتا حق سے دفاع کرنا اور اللہ کی عبادتکرنا اوران افراد سے جو کینہ پرور اور دشمن ہوں دوستی نہ کرنا_(۳)

جناب فاطمہ زہرا، بچوں کے ساتھ کھیل میں بھی انہیں شجاعت اور دفاع حق اور عبادت الہی کا درس دیتی تھیں اور انہیں مختصر جملوں میں چار حساس مطالبہ بچے کویاد دلا رہی ہیں، یعنی باپ کی طرح بہادر بننا اوراللہ کی عبادت کرنا اور

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۴۱_

۲) بحار الانوار ، ج ۴۳ ص ۲۰۷_

۳) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۸۶_

۹۵

حق سے دفاع کرنااوران اشخاص سے دوستی نہ کرنا جو کینہ پرور اور دشمن ہوں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مالی تقوی اورناپاک غذا کے موارد میں اپنی اسخت مراقبت فرماتے تھے کہ ابوہریرہ نے نقل کیا ہے کہ جناب رسول خدا(ص) کی خدمت میں کچھ خرما کی مقدار زکوة کے مال سے موجود تھی آپ نے اسے فقراء کے درمیان تقسیم کردیا جب آپ تقسیم سے فارغ ہوئے اور امام حسن (ع) کو کندھے پر بیٹھا کر چلنے لگے تو آپ نے دیکھا کہ خرما کا ایک دانہ امام حسن(ع) کے منھ میں ہے_ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنا ہاتھ امام حسن علیہ السلام کے منھ میں ڈال کر فرمایا طخ طخ بیٹا حسن (ع) کیا تمہیں علم نہیں کہ آل محمد(ص) صدقہ نہیں کھاتے _(۱)

حالانکہ امام حسن (ع) بچے اور نابالغ تھے کہ جس پرکوئی تکلیف نہیں ہوا کرتی چونکہ پیغمبر(ص) جانتے تھے کہ ناپاک غذا بچے کی روح پر اثر انداز ہوتی ہے لہذا اسے نکال دینے کا حکم فرمای قاعدتاً بچے کو بچپن سے معلوم ہونا چاہیئے کہ وہ کھانے کے معاملہ میں مطلقاً آزاد نہیں ہے بلکہ وہ حرام اور، حلال کا پابند ہے اس کے علاوہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے اس عمل سے حسن علیہ السلام کی شخصیت اور بزرگی منش ہونے کی تقویت کی اور فرمایا زکوة بیچاروں کا حق ہے اور تمہارے لئے سزاوار نہیں کہ ایسے مال سے استفادہ کرو، حضرت فاطمہ زہرا(ع) کی اولاد میں شرافت، طبع اور ذاتی لحاظ سے بڑا ہونا اس قدر نافذ تھا کہ جناب ام کلثوم نے ویسے ہی کوفہ میں عمل کر دکھایا جو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے جد نے انجام دیا تھا_

مسلم نے کہا کہ جس دن امام حسین علیہ السلام کے اہلبیت قید ہوکر کوفہ میں

____________________

۱) ینابیع المودہ ص ۴۷_ بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۳۰۵_

۹۶

لائے گئے تھے تو لوگوں میںاہلبیت کے بچوں پرترحم اوررقت طاری ہوئی اور انہوں نے روٹیاں، خرمے، اخروٹ بطور صدقہ ان پر ڈالنی شروع کیں اور ان سے کہتے تھے کہ دعا کرنا ہمارے بچے تمہاری طرح نہ ہوں_

جناب زہرا(ع) کی باغیرت دختر اور آغوش وحی کی تربیت یافتہ جناب ام کلثوم روٹیاں اور خرمے اور اخروٹ بچوں کے ہاتھوں اور منھ سے لے کر دور پھینک دیتیں اور بلند آواز سے فرماتیں ہم اہلبیت پرصدقہ حرام ہے _(۱)

اگر چہ امام حسین (ع) کے بچے مکلف نہ تھے لیکن شرافت طبع اور بزرگواری کا اقتضا یہ تھا کہ اس قسم کی غذا سے حتی کہ اس موقع پربھی اس سے اجتناب کیا جائے تا کہ بزرگی نفس اور شرافت اور پاکدامنی سے تربیت دیئے جائیں_

چوتھا درس

نظم اوردوسروں کے حقوق کی مراعات

ایک اہم مطلب جو ماں باپاور دوسرے بچوں کی تربیت کرنے والوں کے لئے مورد توجہ ہونا چاہیئےہ یہ ہے کہ وہ بچے پرنگاہ رکھیں کہ وہ اپنے حق سے تجاوز نہ کرے اور دوسروں کے حق کا احترام کرے بچے کو منظم اور با ضبط ہونا چاہیئے زندگی میں نظم اور ضبط کا برقرار رکھنا اسے سمجھایا جائے اس کی اس طرح تربیت کی

____________________

۱) مقتل ابی مختف، ص ۹۰_

۹۷

جائے کہ اپنے حق کے لینے سے عاجز نہ ہو اوردوسروں کے حق کو پا مال نہ کرے، البتہ اس صفت کی بنیاد گھر اور ماں باپ کو رکھنی ہوگی، ماں باپ کو اپنی تمام اولاد کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرنا چاہیئے کسی ایک کو دوسرے پر مقدم نہ کریں، لڑکے اور لڑکی کے درمیان، چھوٹے اور بڑے کے درمیان، خوبصورت اور بدصورت کے درمیان، ذہین او رکم ذہن کے درمیان فرق نہ کریں یہاں تک کہ محبت کے ظاہر کرنے کے وقت بھی ایک جیسا سلوک کریں تا کہ ان میں حسد اور کینہ کی حس پیدا نہ ہو اور مراکش اور متجاوز نہ نکل آئیں_

اگر بچہ دیکھے کہ گھر میں تمام افراد کے درمیان حقوق کی پوری طرح رعایت کی جاتی ہے تو وہ سمجھ جائے گا کہ جامعہ اور معاشرہ میں بھی ایک دوسرے کے حقوق کی پوری طرح رعایت نہ ہوئی تو اس میںسرکشی اور تجاوز کی عادت تقویت پکڑے گی اگر کوئی بچہ کسی تربیت وار چیز کے خرید نے یا کسی جگہ با تربیت سوار ہونے میں یا کلاس کے کمرے میں باترتیب جانے یا نکلنے میں اس ترتیب اور نظم کا خیال نہ کرے اور دوسروں کے حق کو پا مال کرے اور اس کے ماں باپ اور تربیت کرنے والے افراد اس کے اس عمل میںتشویق کریں تو انہوں نے اس معصوم بچے کے حق میں خیانت کی کیونکہ وہ بچپن سے یہی سمجھے گا کہ دوسروں پر تعدی اور تجاوز بلا وجہ تقدم ایک قسم کی چالاکی اور ہنر ہے_ یہی بچہ جوان ہو کر جب معاشرہ میں وارد ہوگا یا کسی کام کی بجا آوری کا ذمہ دار بنا جائے گا تو اس کی ساری کوشش دوسروں کے حقوق کو تلف اور پائمال کرنا ہوگی اور اپنے ذاتی منافع کے علاوہ اس کا کوئی ہدف نہ ہوگا اس صفت کا درس حضرت زہرا کے گھر میں کامل طور ''اتنی وقت کے ساتھ کہ معمولی سے معمولی ضابطہ کی بھی مراعات کی جات تھی'' دیا جاتا تھا_

مثال کے طور پر حضرت علی (ع) فرماتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

۹۸

ہمارے گھر آرام کر رہے تھے، امام حسن (ع) نے پانی مانگا جناب رسول خدا(ص) اٹھے تھوڑا دودھ برتن میں دودہ کر جناب امام حسن (ع) کو دیا کہ اتنے میں امام حسین علیہ السلام بھی اٹھے اور چاہا کہ دودھ کا برتن امام حسن علیہ السلام کے ہاتھ سے لیں لیکن پیغمبر(ص) نے امام حسین علیہ السلام کو اس کے لینے سے روک دیا، جناب فاطمہ زہرا یہ منظر دیکھ رہی تھیں، عرض کیا یا رسول اللہ(ص) گویا آپ امام حسن (ع) کو زیادہ دوست رکھتے ہیں؟ آپ(ص) نے جواب دیا کہ بات یہ نہیںہے بلکہ اس کے روکنے کی وجہ یہ ہے کہ امام حسن (ع) کو تقدم حاصل ہے اس نے حسین (ع) سے پہلے پانی مانگا تھا لہذا نوبت کی مراعات ہونی چاہیئے _(۱)

پانچواں درس

ورزش اور کھیل کود

تربیت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کہ کھیل کود کی اس کی مرضی کے مطابق آزادی دینی چاہیئے بلکہ اس کے لئے کھیل کود اور سیر و سیاحت کے پورے اسباب فراہم کرنے ہیں آج کل متمدن معاشرے میں یہ موضوع قابل توجہ قرار دیا جاتا ہے اور پرائمری، ہڈل اور ہائی اسکول اور کالجوں میں کھیل اور تفریح کے مختلف وسائل بچوں اور جوانوں کی عمر کے مطابق فراہم کئے جاتے ہیں اور انہیں مل کرکھیلنے اور ورزش کرنے کی تشویق دلاتے ہیں،

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۸۳_

۹۹

گویا وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کھیلنا جیسے بدن کے رشد کرنے کے لئے ضروری ہے ویسے ہی یہ ان کی روح کی تربیت کے لئے بھی بہت تاثیر رکھتا ہے_

بعض لوگ بچوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ بڑوں کی طرح زندگی گزاریں اوراپنے لئے یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ انہیں طفلانہ کھیل گود سے روکے رکھیں اور اگر کوئی بچہ کھیل کود میں مشغول ہو تو اسے بے ادب بچہ قرار دیتے ہیں اوراگر چپ چاپ سر جھکائے اورکھیل گود سے دور ایک گوشہ میں بیٹھا رہنے والا ہو تو اسے شاباشی دیتے ہیں اور اسے با ادب بچہ سمجھتے ہیں_ لیکن نفسیات کے ماہر اس عقیدے کوغلط اور بے جا قرار دیتے ہیں ان کاعقیدہ ہے کہ بچے کو کھیلنا چاہیئے_ اور اگر بچہ نہ کھیلے تو یہ اس کے جسمی اور روحی بیمار ہونے کی علامت ہے_ البتہ ماں باپ کو یہ خیال رکھنا چاہیئے کہ بچہ وہ کھیل کود انجام نہ دے جو اس کے لئے ضرر کا موجب ہو اور دوسروں کے لئے مسرت کے اسباب فراہم کرتا ہو_

ماں باپ صرف بچہ کو کھیل کودکے لئے آزادی ہی نہ دیں بلکہ خود بھی بیکاری کے وقت بچے کے ساتھ کھیلیں، کیوں کہ ماں باپ کا یہ عمل بچے کے لئے لذت بخش ہوتا ہے اوروہ اسے اپنے لئے محبت کی علامت قرار دیتا ہے_

رسول خدا(ص) جناب امام حسن اور امام حسین کے ساتھ کھیلتے تھے_ ابوہریرہ نے نقل کیا ہے کہ میں نے رسول خد ا (ص) کو دیکھا کہ وہ حسن (ع) اور حسین (ع) کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اور ان کے پاؤں کو اپنے سینے پر رکھے ہوئے فرما رہے تھے، فاطمہ (ع) کے نور چشم اور چڑھو، حسن (ع) اور حسین (ع) اوپر چڑھتے یہاں تک کہ ان کے پاؤں آپ

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271