امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت21%

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت مؤلف:
زمرہ جات: امامت
صفحے: 271

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 271 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 114762 / ڈاؤنلوڈ: 4270
سائز سائز سائز
امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

لفظ ”انفسنا“ کے علی علیہ السلام کی ذات پر اطلاق ہونے کا قرینہ ”ندع“ و ”انفسنا“ کے درمیان پائی جا نے والی مغایرت ہے کہ جوعقلاًوعرفاً ظہور رکھتی ہے۔اس فرض میں ”ندع“بھی اپنے معنی میں استعمال ہواہے اور”ابناء نا“بھی اپنے حقیقی معنی میں استعمال ہواہے۔

لیکن یہ کہ آلوسی کی بات دلیل کے خلاف ہے،کیونکہ اتنی سا ری احادیث جونقل کی گئی ہیںوہ سب اس بات پردلالت کرتی تھیں کہ”انفسنا“سے مرادعلی علیہ السلام ہیں اوریہ دعویٰ تواترکے ذریعہ بھی ثابت ہے(۱) لہذاوہ سب احادیث اس قول کے خلاف ہیں۔

شیعوں کے استدلال پرآلوسی کادوسرااعتراض

شیعوں کے استدلال پرآلوسی کادوسراجواب یہ ہے:اگرفرض کریں کہ”انفسنا“کا مقصداق علی(علیہ السلام)ہوں،پھربھی آیہء شریفہ حضرت علی(ع)کی بلافصل خلافت پر دلالت نہیں کرتی ہے۔کیونکہ”انفسنا“ کااطلاق حضرت علی(ع)پراس لحاظ سے ہے کہ نفس کے معنی قربت اورنزدیک ہو نے کے ہیں اوردین و آئین میں شریک ہونے کے معنی میں ہے اوراس لفظ کا اطلاق حضرت علی(ع)کے لئے شاید اس وجہ سے ہوان کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ دامادی کارشتہ تھااوردین میں دونوں کا اتحادتھا۔اس کے علاوہ اگرمقصودوہ شخص ہوجوپیغمبراکرم

____________________

۱۔معرفةعلوم الحدیث،ص۵۰،دارالکتب العلمیہ،بیروت

۸۱

(ص)کے مساوی ہے تو کیامساوی ہونے کامعنی تمام صفات میں ہے یابعض صفات میں ؟اگر تمام صفات میں مساوی ہونامقصود ہے تواس کالازمہ یہ ہوگاکہ علی(علیہ السلام)پیغمبر (ص)کی نبوت اورخاتمیت اورتمام امت پرآپکی بعثت میں شریک ہیں اوراس قسم کامساوی ہونامتفقہ طورپرباطل ہے۔اوراگرمساوی ہونے کامقصدبعض صفات میں ہے یہ شیعوں کی افضلیت وبلا فصل امامت کے مسئلہ پردلالت نہیں کرتاہے۔

اس اعتراض کا جواب

آلوسی کے اس اعتراض واستدلال کا جواب دیناچند جہتوں سے ممکن ہے:

سب سے پہلے تو یہ کہ:”نفس کے معنی قربت و نزدیکی“اوردین وآئین میں شریک ہوناکسی قسم کی فضیلت نہیں ہے،جبکہ احادیث سے یہ معلوم ہوتاہے کہ یہ اطلاق حضرت علی علیہ السلام کے لئے ایک بہت بڑی فضیلت ہے اور جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا ہے ایک حدیث کے مطابق سعدبن ابی وقاص نے معاویہ کے سامنے اسی معنی کوبیان کیااوراسے حضرت علی علیہ السلام کے خلاف سبّ وشتم سے انکار کی دلیل کے طورپر پیش کیاہے۔

دوسرے یہ کہ :نفس کے معنی کا اطلاق دین و آئین میں شریک ہونایارشتہ داری وقرابتداری کے معنی مجازی ہے اوراس کے لئے قرینہ کی ضرورت ہے اوریہاں پرایسا کوئی قرینہ موجودنہیں ہے۔

تیسرے یہ کہ:جب نفس کے معنی کااطلاق اس کے حقیقی معنی میں ممکن نہ ہوتواس سے مرادوہ شخص ہے جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جانشین ہواوریہ جا نشینی اورمساوی ہو نا مطلقاًہے اوراس میں پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام اوصاف اورعہدے شامل ہیں،صرف نبوت قطعی دلیل کی بناء پراس دائرہ سے خارج ہے۔

۸۲

چوتھے یہ کہ:اس صورت میں آلوسی کی بعد والی گفتگو کے لئے کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ہے کہ مساوات تمام صفات میں ہے یا بعض صفات میں ،کیونکہ مساوات تمام صفات میں اس کے اطلاق کی وجہ سے ہے،صرف وہ چیزیں اس میں شامل نہیں ہیں جن کو قطعی دلیلوں کے ذریعہ خارج و مستثنی کیا گیا ہے جیسے نبوت و رسالت ۔لہذا پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی افضیلت اور امت کی سر پرستی نیز اسی طرح کے اور تمام صفات میں حضرت علی علیہ السلام پیغمبر کے شریک نیز ان کے برابر کے جا نشین ہیں ۔

شیعوں کے استدلال پر آلوسی کا تیسرا عتراض

آلوسی کا کہنا ہے:اگریہ آیت حضرت علی(علیہ السلام) کی خلافت پر کسی اعتبار سے دلالت کرتی بھی ہے تواس کا لازمہ یہ ہوگا کہ:حضرت علی(ع)پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں امام ہوں اوریہ متفقہ طورپر باطل ہے۔ییی

اگر یہ خلافت کسی خاص وقت کے لئے ہے تو سب سے پہلی بات یہ کہ اس قید کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے اور دوسرے یہ کہ اہل سنت بھی اسے قبول کرتے ہیں یعنی حضرت علی(ع)ایک خاص وقت، میں کہ جوان کی خلافت کازمانہ تھا،اس میں وہ اس منصب پرفائزتھے۔

اس اعتراض کاجواب

سب سے پہلی بات یہ کہ :حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی آنحضرت صل (ص)کے زمانہ میں ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جو بہت سی احادیث سے ثا بت ہے اورا س کے لئے واضح ترین حدیث،حدیث منزلت ہے جس میں حضرت علی علیہ السلام کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

۸۳

کی نسبت کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ان کی مثال ایسی ہی تھی جیسے ہارون کی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے، واضح ر ہے کہ حضرت ہارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں ان کے جانشین تھے کیوں کہ قرآن مجید حضرت ہارون علیہ السلام کے بارے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قول ذکر کرتا ہے کہ آپ نے فرمایا ”اخلفنی فی قومی“(۱) ” تم میری قوم میں میرے جانشین ہو۔“

اس بناء پر جب کبھی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حاضر نہیں ہو تے تھے حضرت علی علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین ہو تے تھے )چنانچہ جنگ تبوک میں ایساہی تھا)اس مسئلہ کی حدیث منزلت میں مکمل وضاحت کی گئی ہے۔(۲)

دوسرے یہ کہ:حضرت علی علیہ السلام کا نفس پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قرار دیا جانا جیسا کہ آیہء شریفہ مباہلہ سے یہ مطلب واضح ہے،اوراگر کوئی اجماع واقع ہو جائے کہ آنحضرت کی زندگی میں حضرت علی علیہ السلام آپ کے جانشین نہیں تھے،تویہ اجماع اس اطلاق کوآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں مقید و محدود کرتا ہے۔ نتیجہ کے طور پریہ اطلاق آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے وقت اپنی پوری قوت کے ساتھ باقی ہے۔

لہذایہ واضح ہوگیا کہ آلوسی کے تمام اعتراضات بے بنیاد ہیں اورآیہء شریفہ کی دلالت حضرت علی علیہ السلام کی امامت اور بلافصل خلافت پر بلا منا قشہ ہے۔

فخررازی کا اعتراض:

فخررازی نے اس آیہء شریفہ کے ذیل میں محمودبن حسن حصمی(۳) کے استدلال کو ،کہ جو انھوں نے اسے حضرت علی علیہ السلام کی گزشتہ انبیاء علیہم السلام پرافضلیت کے سلسلہ میں پیش کیا ہے،ٰٰنقل کرنے کے بعد)ان کے استدلال کو تفصیل سے ذکر کیا ہے)اپنے اعتراض کو یوں ذکر کیا ہے:

ایک تویہ کہ اس بات پراجماع قائم ہے کہ پیغمبر (ص)غیرپیغمبرسے افضل ہو تا ہے۔

دوسرے: اس بات پر بھی اجماع ہے کہ)علی علیہ السلام)پیغمبرنہیں تھے۔مذکورہ ان

_____________________

۱۔اعراف /۱۴۲

۲۔اس سلسلہ میں مصنف کا پمفلٹ”حدیث غدیر،ثقلین ومنزلت کی روشنی میں امامت“ملاحظ فرمائیں۔

۳۔شیعوں کاایک بڑا عقیدہ شناس عالم جس کا پہلے ذکرآیا ہے۔

۸۴

دومقدموں کے ذریعہ ثابت ہو جاتا ہے کہ آیہء شریفہ حضرت علی(علیہ السلام)کی گزشتہ انبیاء)علیہم السلام)پرافضلیت کو ثابت نہیں کرتی ہے۔

فخررازی کے اعتراض کا جواب

ہم فخررازی کے جواب میں کہتے ہیں:

پہلی بات یہ کہ ا س پر اجماع ہے کہ ہر ”نبی غیر نبی سے افضل ہے“اس میں عمومیت نہیں ہے کہ جس سے یہ ثابت کریں کہ ،ہر نبی دوسرے تمام افرادپر حتی اپنی امت کے علاوہ دیگر افراد پر بھی فوقیت وبرتری رکھتا ہے بلکہ جو چیز قابل یقین ہے وہ یہ کہ ہر نبی اپنی امت سے افضل ہوتا ہے۔اور اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے یہ کہاجائے:”مرد عورت سے افضل ہے“ ا ور یہ اس میں معنی ہے کہ مردوں کی صنف عورتوں کی صنف سے افضل ہے نہ یہ کہ مردوں میں سے ہرشخص تمام عورتوں پرفضیلت وبر تری رکھتا ہے۔اس بناء پراس میں کوئی منافات نہیں ہے کہ بعض عورتیں ایسی ہیں جو مردوں پر فضیلت رکھتی ہیں۔

دوسرے یہ کہ:مذکورہ مطلب پر اجماع کاواقع ہونا ثابت نہیں ہے،کیونکہ شیعہ علماء نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی ہے اوروہ اپنے ائمہ معصو مین) علیہم السلام) کو قطعی دلیل کی بناء پر گزشتہ انبیاء سے برتر جانتے ہیں۔

ابوحیان اندلسی نے تفسیر”البحرالمحیط ۱“ میں شیعوں کے استدلال پرآیت میں نفس سے مراد تمام صفات میں ہم مثل اور مساوی ہو ناہے)فخررازی ۲ کا ایک اور اعتراض نقل

کیا ہے جس میں یہ کہا ہے:

”نفس کے اطلاق میں یہ ضروری نہیں ہے تمام اوصاف میں یکسانیت ویکجہتی

____________________

۱۔البحرالمحیط،ج۲،ص۴۸۱،مؤسسہ التاریخ العربی ،داراحیائ التراث العربی

۲۔اگرابوحیان کارازی سے مقصودوہی فخررازی ہے توان اعتراضات کواس کی دوسری کتابوں سے پیداکرناچاہئے،کیونکہ تفسیرکبیرمیں صرف وہی اعتراضات بیان کئے گئے ہیں جوذکرہوئے۔

۸۵

ہو،چنانچہ متکلمین نے کہا ہے:” صفات نفس میں یک جہتی اوریک سوئی یہ متکلمین کی ایک اصطلاح ہے،اورعربی لغت میں یکسانیت کابعض صفات پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔عرب کہتے ہیں:”ہذامن انفسنا“یعنی:یہ”اپنوں میں سے ہے،یعنی ہمارے قبیلہ میں سے ہے۔“

اس کاجواب یہ ہے کہ تمام صفات یابعض صفات میں یکسا نیت ویکجہتی یہ نہ تو لغوی بحث ہے اور نہ ہی کلامی ،بلکہ یہ بحث اصول فقہ سے مربوط ہے،کیونکہ جب نفس کا اس کے حقیقی معنی میں استعمال نا ممکن ہو تو ا سے اس کے مجازی معنی پر عمل کرنا چاہے اور اس کے حقیقی معنی سے نزدیک ترین معنی کہ جس کو اقرب المجازات سے تعبیرکیا جاتا ہے )کواخذ کر نا چا ہیئے اور”نفس“کے حقیقی معنی میں اقرب المجازات مانندو مثل ہوناہے۔

یہ مانندو مثل ہونامطلق ہے اوراس کی کوئی محدودیت نہیں ہے اوراس اطلاق کاتقاضاہے کہ علی علیہ السلام تمام صفات میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مانندو مثل ہیں،صرف نبوت ورسالت جیسے مسائل قطعی دلائل کی بناپراس مانندو مثل کے دائرے سے خارج ہیں۔اس وضاحت کے پیش نظرتمام اوصاف اورعہدے اس اطلاق میں داخل ہیں لہذامن جملہ تمام انبیاء پرفضیلت اورتمام امت پرسرپرستی کے حوالے سے آپ (علیہ السلام)علی الاطلاق رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ما نندہیں۔

۸۶

ابن تیمیّہ کا اعتراض

ابن تیمیّہ حضرت علی علیہ السلام کی امامت پرعلامہ حلی کے استدلال کوآیہء مباہلہ سے بیان کرتے ہوئے کہتاہے:

”یہ کہ پیغمبراکرم (ص)مباہلہ کے لئے علی،فاطمہ اورحسن وحسین )علیہم

السلام)کو اپنے ساتھ لے گئے یہ صحیح حدیث میں ایاہے(۱) ،لیکن یہ علی(علیہ السلام)کی امامت اور ان کی افضلیت پردلالت نہیں کر تاہے،کیونکہ یہ دلالت اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب آیہء شریفہ علی(علیہ السلام)کے پیغمبر (ص)کے مساوی ہونے پردلالت کرے حالانکہ آیت میں ایسی کوئی دلالت نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی شخص پیغمبر (ص)کے مساوی نہیں ہے،نہ علی(علیہ السلام)اورنہ ان کے علاوہ کوئی اور۔

دوسرے یہ کہ”انفسنا“کالفظ عربی لغت میں مساوات کا معنی میں نہیں ایاہے(۲) اورصرف ہم جنس اور مشابہت پردلالت کرتاہے۔اس سلسلہ میں بعض امور مشابہت،جیسے ایمان یادین میں اشتراک کافی ہے اوراگرنسب میں بھی اشتراک ہوتواور اچھا ہے۔ اس بناپرآیہ شریفہ ۔۔۔( اٴنفسنا واٴنفسکم ) ۔۔۔ میں ”انفسنا“ سے مرادوہ لوگ ہیں جودین اورنسب میں دوسروں سے زیادہ نزدیک ہوں۔اس لحاظ سے آنحضرت (ص)۔ بیٹوں میں سے حسن وحسین)علیہما السلام)اور عورتوں میں سے فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)اورمردوں میں سے علی)علیہ ا لسلام)کواپنے ساتھ لے گئے اورآنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے لئے ان سے زیادہ نزدیک ترکوئی نہیں تھا۔دوسرے یہ کہ مباہلہ اقرباء سے انجام پاتاہے نہ ان افرادسے جوانسان سے دورہوں،اگرچہ یہ دوروالے افرادخداکے نزدیک افضل وبرترہوں۔

____________________

۱۔ابن تیمیہ نے قبول کیا ہے کہ آیہء شریفہ میں ”انفسنا“مذکورہ حدیث کے پیش نظر علی علیہ السلام پرانطباق کرتاہے

۲۔ابن تیمیہ نے اپنی بات کے ثبوت میں قرآن مجیدکی پانچ آیتوں کوبیان کیاہے،من جملہ ان میں یہ آیتیں ہیں:

الف۔( و لولا إذسمعتموه ظن المؤمنون والمؤمنات باٴنفسهم خیراً ) نور/۱۲”آخرایساکیوں نہ ہواکہ جب تم لوگوں نے اس تہمت کوسناتومومن ومومنات اپنے بارے میں خیرکاگمان کرتے“مقصودیہ ہے کہ کیوں ان میں سے بعض لوگ بعض دوسروں پراچھاگمان نہیں رکھتے ہیں۔

ب۔( ولا تلمزوا اٴنفسکم ) حجرات/۱۱ ”آپس میں ایک دوسرے کوطعنے بھی نہیں دینا“

۸۷

ابن تیمیہ کہ جس نے رشتہ کے لحاظ سے نزدیک ہونے کا ذکرکیاہے اوردوسری طر ف پیغمبر (ص)کے چچاحضرت عباس کہ جورشتہ داری کے لحاظ سے حضرت علی علیہ السلام کی بہ نسبت زیادہ قریب تھے اورزندہ تھے۔ کے بارے میں کہتاہے:

”عباس اگرچہ زندہ تھے،لیکن سابقین اولین)دعوت اسلام کو پہلے قبول کر نے والے) میں ان کا شمارنہیں تھااورپیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچیرے بھائیوں میں بھی کوئی شخص علی(علیہ السلام)سے زیادہ آپ سے نزدیک نہیں تھا۔اس بنا پرمباہلہ کے لئے علی(علیہ السلام)کی جگہ پرُ کر نے والاپیغمبر (ص)کے خاندان میں کوئی ایسا نہیں تھا کہ جس کو آپ انتخاب کرتے یہ مطلب کسی بھی جہت سے علی(علیہ السلام)کے آنحضرت (ص)سے مساوی ہونے پردلالت نہیں کرتاہے۔“

ابن تیمیّہ کے اعتراض کا جواب

ابن تیمیہ کاجواب چندنکتوں میں دیاجاسکتاہے:

۱ ۔ اس کا کہناہے:”پیغمبر (ص)کے مساوی ومانند کوئی نہیں ہوسکتا ہے“۔اگرمساوی ہونے کا مفہوم و مقصدتمام صفات،من جملہ نبوت و رسالت میں ہے تویہ صحیح ہے۔لیکن جیسا کہ بیان ہوا مساوی ہونے کا اطلاق پیغمبر (ص)کی ختم نبوت پر قطعی دلیلوں کی وجہ سے مقید ہے اوراس کے علاوہ دوسرے تمام امورمیں پیغمبر کے مانند و مساوی ہونا مکمل طورپراپنی جگہ باقی ہے اوراس کے اطلاق کو ثابت کرتا ہے دوسری طرف سے اس کی یہ بات کہ”انفسنا“کا لفظ عربی لغت میں مساوات کے معنی کا اقتضاء نہیں کر تا ہے“صحیح نہیں ہے اگرچہ اس نے قرآن مجید کی چند ایسی آیتوں کو بھی شاہد کے طورپر ذکرکیا ہے جن میں ”اٴنفسهم یااٴنفسکم “کا لفظ استعمال ہوا ہے،حتی کہ ان آیتوں میں بھی مساوی مراد ہے۔مثلاًلفظ”ولاتلمزوا اٴنفسکم “یعنی”اپنی عیب جوئی نہ کرو“جب لفظ”انفس“کا اطلاق دوسرے افرادپرہوتاہے،تومعنی نہیںرکھتاہے وہ حقیقت میں خودعین انسان ہوں۔ناچاران کے مساوی اورمشابہ ہونے کامقصد مختلف جہتوں میں سے کسی ایک جہت میں ہے اور معلوم ہے کہ وہ جہت اس طرح کے استعمالات میں کسی ایمانی مجموعہء یاقبیلہ کے مجموعہ کا ایک جزو ہے۔

۸۸

اس بناء پران اطلاقات میں بھی مساوی ہونے کالحاظ ہوا ہے ،لیکن اس میں قرینہ موجودہے کہ یہ مساوی ایک خاص امر میں ہے اوریہ اس سے منافات نہیں رکھتاہے اور اگر کسی جگہ پرقرینہ نہیں ہے تومساوی ہونے کا قصد مطلق ہے،بغیراس کے کہ کوئی دلیل اسے خارج کرے۔

۲ ۔ابن تیمیہ نے قرابت یا رشتہ داری کو نسب سے مر تبط جانا ہے،یہ بات دودلیلوں سے صحیح نہیں ہے:

سب سے پہلے بات تو یہ، مطلب آیہء شریفہ ”نسائنا ونسا ئکم“سے سازگار نہیں ہے،کیونکہ ”نسائنا“کا عنوان نسبی رشتہ سے کوئی ربطہ نہیں رکھتا ہے۔البتہ یہ منافی نہیں ہے کہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دختر گرامی تھیں اورآپ سے نسبی قرابت رکھتی تھیں،کیونکہ واضح ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ”بنا تنا“ ”ہماری“ بٹیاں)جو نسبی قرابت کی دلیل ہے)کے ذریعہ تعبیر نہیں کیا گیا ہے،بلکہ ”نساء نا“کی تعبیر آئی ہے،اس لحاظ سے چونکہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اس خاندان کی عورتوں میں سے ہیں اس لئے اس مجموعہ میں شامل ہیں۔اس کے علاوہ کوئی اور عورت کہ جو اس لائق ہوکہ مباہلہ میں شریک ہو سکے وجود نہیں رکھتی تھی ۔(۱)

دوسرے یہ کہ اگرمعیارقرابت نسبی اور رشتہ داری ہے توآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچاحضرت عباس(ع)اس جہت سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے زیادہ نزدیک تھے لیکن اس زمرے میں انھیں شریک نہیں کیاگیاہے!

____________________

۱۔جیساکہ پہلے بیان کیاگیاہے۔

۸۹

اس لحاظ سے قرابت،یعنی نزدیک ہونے سے مرادپیغمبراکرم (ص)سے معنوی قرابت ہے۔جس کاابن تیمیّہ نے مجبورہوکراعتراف کیاہے اورکہتاہے:

”علی(علیہ السلام)سابقین اوراولین میں سے تھے،اس لحاظ سے دوسروں کی نسبت آنحضرت (ص)سے زیادہ نزدیک تھے۔“

احادیث کی روسے مباہلہ میں شامل ہو نے والے افرادپیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاص رشتہ دارتھے کہ حدیث میں انھیں اہل بیت رسول علیہم السلام سے تعبیرکیاگیاہے۔

ان میں سے ہرایک اہل بیت پیغمبر)علیہم السلام)ہونے کے علاوہ ایک خاص عنوان کا مالک ہے،یعنی ان میں سے بعض”ابنائنا“کے عنوان میں شامل ہیں اوربعض”نسائنا“کے عنوان میں شامل ہیں اوربعض دوسرے”انفسنا“کے عنوان میں شامل ہیں۔

مذکورہ وضاحت کے پیش نظریہ واضح ہوگیاکہ”انفسنا“کے اطلاق سے نسبی رشتہ داری کا تبادر وانصراف نہیں ہوتاہے اورعلی علیہ السلام کاپیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مانندومساوی ہو ناتمام صفات،خصوصیات اورعہدوں سے متعلق ہے،مگریہ کہ کوئی چیزدلیل کی بنیادپراس سے خارج ہوئی ہو۔

اہل بیت علیہم السلام کے مباہلہ میں حاضر ہو نے کامقصدواضح ہوگیاکہ مباہلہ میں شریک ہونے والے افرادکی دعارسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعاکے برابرتھی اوران افراد کی دعاؤں کا بھی وہی اثرتھاجوآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعاکاتھااوریہ اس مقدس خاندان کے لئے ایک بلندوبرترمرتبہ ومقام ہے۔

۹۰

تیسراباب:

امامت،آیہ اولی الامر کی روشنی میں

( یا اٴیّها الّذین آمنوا اٴطیعوا اللَّه و اٴطیعوا الرسول واولی الاٴمر منکم فإن تنازعتم فی شیءٍ فردوه إلی اللّٰه و الرّسول إن کنتم تؤمنون با اللّٰه و الیوم الاٴخر، ذلک خیر و اٴحسن تاٴویلاً ) (نساء/۵۹)

”اے صاحبان ایمان!اللہ کی اطاعت کرورسول اوراولوالامرکی اطاعت کرو جوتمھیں میں سے ہیں پھراگرآپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تواسے خدااوررسول کی طرف پلٹادواگرتم اللہ اورروزآخرت پرایمان رکھنے والے ہو۔یہی تمھارے حق میں خیراورانجام کے اعتبارسے بہترین بات ہے۔“

خداوندمتعال نے اس آیہ شریفہ میں مومنین سے خطاب کیاہے اورانھیں اپنی اطاعت، پیغمبراسلام (ص)کی اطاعت اوراولی الامر کی اطاعت کرنے کاحکم فرمایاہے۔

یہ بات واضح ہے کہ پہلے مرحلہ میں خداوندمتعال کی اطاعت،ان احکام کے بارے میں ہے کہ جوخداوندمتعال نے انھیں قرآن مجیدمیں نازل فرمایاہے اورپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان احکام کولوگوں تک پہنچایاہے،جیسے کہ یہ حکم:( اٴقیمواالصلوٰ ةوآتواالزکوٰة ) پیغمبر (ص)کے فرامین کی اطاعت دو حیثیت سے ممکن ہے :

۱ ۔وہ فرمان جوسنّت کے عنوان سے آنحضرت)ص)کے ذریعہ ہم تک پہنچے ہیں:

یہ اوامراگرچہ احکام الٰہی ہیں جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بصورت وحی نازل ہوئے ہیں اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انھیں لوگوں کے لئے بیان فرمایاہے،لیکن جن مواقع پریہ اوامر”امرکم بکذااوانّہاکم من ہذا“)میں تم کو اس امرکا حکم دیتا ہوںیااس چیزسے منع کرتاہوں)کی تعبیرکے ساتھ ہوں)کہ فقہ کے باب میں اس طرح کی تعبیریں بہت ہیں )ان اوامراورنواہی کوخودآنحضرت (ص)کے اوامر ونواحی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے نتیجہ کے طور پر ان کی اطا عت آنحضرت کی اطاعت ہوگی،چونکہ مذکورہ احکام خداکی طرف سے ہیں،اس لئے ان احکام پرعمل کرنا بھی خداکی اطاعت ہوگی۔

۲ ۔وہ فرمان،جوآنحضرت)ص)نے مسلمانوں کے لئے ولی اورحاکم کی حیثیت سے جاری کئے ہیں۔

یہ وہ احکام ہیں جوتبلیغ الہی کا عنوان نہیںرکھتے ہیں بلکہ انھیں انحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس لحاظ سے جاری فرمایاہے کہ آپ مسلمانوں کے ولی،سرپرست اورحاکم تھے،جیسے جنگ وصلح نیزحکومت اسلامی کوادارہ کرنے اورامت کی سیاست کے سلسلہ میں جاری کئے جا نے والے فرامین۔

۹۱

آیہء شریفہ میں( واٴطیعواالرّسول ) کاجملہ مذکورہ دونوں قسم کے فرمانوں پرمشتمل ہے۔

تمام اوامرونواہی میں پیغمبر(ص)کی عصمت

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عصمت کوثابت کرنے کے بارے میں علم کلام میں بیان شدہ قطعی دلائل کے پیش نظر،آنحضرت (ص)ہر شی کا حکم دینے یا کسی چیز سے منع کرنے کے سلسلہ میں بھی معصوم ہیں۔آپ(ع)نہ صرف معصیت وگناہ کا حکم نہیں دیتے ہیں،بلکہ آنحضرت (ص)،امرونہی میں بھی خطا کر نے سے محفوظ ہیں۔

ہم اس آیہء شریفہ میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت مطلق اورکسی قیدوشرط کے بغیربیان ہوئی ہے۔ اگرآنحضرت (ص)کے امرونہی کرنے کے سلسلہ میں کوئی خطاممکن ہوتی یااس قسم کااحتمال ہوتا تو آیہء شریفہ میں انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کا حکم قید و شرط کے ساتھ ہوتا اورخاص مواقع سے مربوط ہوتا۔

ماں باپ کی اطاعت جیسے مسائل میں ،کہ جس کی اہمیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت سے بہت کم ہے،لیکن جب خدائے متعال والدین سے نیکی کرنے کاحکم بیان کرتا ہے، تو فرماتا ہے:

( و وصّینا الاٴنسان بوالدیه حسناً و إن جاهدک لتشرک بی مالیسلک به علم فلا تطعهما ) (عنکبوت/۸)

”اورہم نے انسان کوماں باپ کے ساتھ نیکی کا برتاؤکرنے کی وصیت کی ہے اوربتایا ہے کہ اگروہ تم کومیراشریک قرار دینے پرمجبورکریں کہ جس کہ کاتمھیں علم نہیں ہے توخبرداران کی اطاعت نہ کرنا۔“

جب احتمال ہوکہ والدین شرک کی طرف ہدایت کریں توشرک میں ان کی اطاعت کرنے سے منع فرماتاہے،لیکن آیہء کریمہ( اُولیّ الاٴمر ) میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کوکسی قیدوشرط سے محدودنہیں کیاہے۔

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کوکسی قیدوشرط کے بغیرتائیدوتاکیدکرنے کے سلسلہ میں ایک اورنکتہ یہ ہے کہ قرآن مجیدکی متعددآیات میں انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت خداوندمتعال کی اطاعت کے ساتھ اورلفظ”اطیعوا“کی تکرارکے بغیرذکرہوئی ہے۔آیہء شریفہ( واٴطیعوااللّٰه والرّسول لعلّکم ترحمون ) یعنی”خدااوررسول کی اطاعت کروتاکہ موردرحمت قرارپاؤ “مذکورہ میں صرف ایک لفظ”اطیعوا“کاخدااورپیغمبردونوں کے لئے استعمال ہونا اس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کا واجب ہوناخداکی اطاعت کے واجب ہونے کے مانندہے۔اس بناء پرپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے امرپراطاعت کرناقطعی طورپراطلاق رکھتا ہے اورناقابل شک وشبہ ہے۔

۹۲

اُولوالاامرکی اطاعت

ائمہ علیہم السلام کی امامت و عصمت کے سلسلہ میں آیةمذکورہ سے استفادہ کر نے کے لئے مندرجہ چندابعادپرتوجہ کرناضروری ہے:

ا۔اولوالامرکامفہوم

۲ ۔اولوالامرکامصداق

۳ ۔اولوالامراو رحدیث ”منزلت“حدیث”اطاعت“اورحدیث”ثقلین“

۴ ۔شیعہ اورسنی منابع میں اولوالامرکے بارے میں چنداحادیث

اولوالامرکامفہوم

اولو الامر کا عنوان ایک مرکب مفہوم پرمشتمل ہے۔اس جہت سے پہلے لفظ”اولوا“ اور پھر لفظ ”الامر“پرتوجہ کرنی چاہئے:

اصطلاح”اولوا“صاحب اور مالک کے معنی میں ہے اورلفظ”امر“دومعنی میں ایاہے: ایک ”فرمان“ کے معنی میں دوسرا”شان اورکام“کے معنی میں ۔”شان وکام“کامعنی زیادہ واضح اور روشن ہے،کیونکہ اسی سورئہ نساء کی ایک دوسری آیت میں لفظ”اولی الامر“بیان ہواہے:

( و إذجاء هم اٴمر من الاٴمن اٴو الخوف اٴذاعوا به و لوردّوه إلی الرّسول و إلی اٴولی الاٴمر منهم لعلمه الذین یستنبطونه منهم ) ۔۔(نساء/۸۳)

”اورجب ان کے پاس امن یاخوف کی خبرآتی ہے توفوراًنشرکردیتے ہیں حالانکہ اگررسولاورصاحبان امرکی طرف پلٹادیتے توان میں ایسے افراد تھے کہ جوحقیقت حال کاعلم پیداکرلیتے-“

اس آیہء شریفہ میں دوسرامعنی مقصودہے،یعنی جولوگ زندگی کے اموراوراس کے مختلف حالتوں میں صاحب اختیارہیں،اس آیت کے قرینہ کی وجہ سے”اولی الامر“کالفظ مورد بحث آیت میں بھی واضح ہوجاتاہے۔

۹۳

مورد نظرآیت میں اولوالامرکے مفہوم کے پیش نظر ہم اس نکتہ تک پہنچ جاتے ہیں کہ”اولوالامر“کا لفظ صرف ان لوگوں کو شامل ہے جو در حقیقت فطری طورپرامورکی سرپرستی اورصاحب اختیارہونے کے لائق ہیں اورچونکہ خداوندمتعال ذاتی طورپرصاحب اختیارہے اورتمام امورمیں سرپرستی کااختیاررکھتاہے،اس لئے اس نے یہ سرپرستی انھیں عطاکی ہے ۔خواہ اگربظاہرانھیں اس عہدے سے محروم کر دیاگیا ہو،نہ ان لوگوں کوجوزوروزبردستی اورناحق طریقہ سے مسلط ہوکرلوگوں کے حکمران بن گئے ہیں۔اس لئے کہ صا حب خانہ وہ ہے جوحقیقت میں اس کامالک ہو چا ہے وہ غصب کر لیا گیا ہو،نہ کہ وہ شخص جس نے زورو زبر دستی یامکروفریب سے اس گھرپرقبضہ کر لیا ہے۔

اولوالامرکا مصداق

اولوالامرکے مصادیق کے بارے میں مفسرین نے بہت سے اقوال پیش کئے ہیں۔اس سلسلہ میں جونظریات ہمیں دستیاب ہوئے ہیںوہ حسب ذیل ہیں:

۱ ۔امراء

۲ ۔اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

۳ ۔مہاجرین وانصار

۴ ۔اصحاب اورتابعین

۵ ۔چاروخلفاء

۶ ۔ابوبکروعمر

۷ ۔علماء

۹۴

۸ ۔جنگ کے کمانڈر

۹ ۔ائمہء معصومین)علیہم السلام)

۱۰ ۔علی(علیہ السلام)

۱۱ ۔وہ لوگ جوشرعی لحاظ سے ایک قسم کی ولایت اورسرپرستی رکھتے ہیں۔

۱۲ ۔اہل حل وعقد

۱۳ ۔امرائے حق(۱)

ان اقوال پرتحقیق اورتنقیدکرنے سے پہلے ہم خودآیہء کریمہ میں موجودنکات اورقرائن پرغورکرتے ہیں:

آیت میں اولوالامرکامرتبہ

بحث کے اس مرحلہ میں ایہء شریفہ میں اولوالامرکی اطاعت کرنے کی کیفیت قابل توجہ ہے:

پہلانکتہ: اولوالامرکی اطاعت میں اطلاق آیہء شریفہ میں اولوالامرکی اطاعت مطلق طور پرذکرہوئی ہے اوراس کے لئے کسی قسم کی قیدوشرط بیان نہیں ہوئی ہے،جیساکہ رسول اکرم صلصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت میں اس بات کی تشریح کی گئی۔

یہ اطلاق اثبات کرتاہے کہ اولوالامرمطلق اطاعت کے حامل و سزاوارہیں اوران کی اطاعت خاص دستور،مخصوص حکم یا کسی خاص شرائط کے تحت محدودنہیں ہے،بلکہ ان کے تمام اوامرونواہی واجب الاطاعت ہیں۔

____________________

۱۔تفسیرالبحرالمحیط،ج۳،ص۲۷۸،التفسیرالکبیر

۹۵

دوسرانکتہ:اولوالامرکی اطاعت،خدااوررسولکی اطاعت کے سیاق میں یعنی ان تین مقامات کی اطاعت میں کوئی قیدوشرط نہیں ہے اوریہ سیاق مذکورہ اطلاق کی تاکیدکرتاہے۔

تیسرانکتہ:اولوالامرمیں ”اطیعوا“کاتکرارنہ ہونا۔گزشتہ نکات سے اہم تراس نکتہ کامقصدیہ ہے کہ خدا ورسولکی اطاعت کے لئے آیہء شریفہ میں ہرایک کے لئے الگ سے ایک”اطیعوا“لایاگیاہے اور فرمایاہے: ۔۔۔( اٴطیعواللّٰه واٴطیعواالرّسول ) لیکناولوالامرکی اطاعت کے لئے”اطیعوا“کے لفظ کی تکرارنہیں ہوئی ہے بلکہاولی الامر”الرسول“پرعطف ہے،اس بناپروہی”اطیعوا“جورسول کے لئے آیا ہے وہ اولی الامرسے بھی متعلق ہے۔

اس عطف سے معلوم ہوتاہے کہ”اولوالامر“اور”رسول“کے لئے اطاعت کے حوالے سے دوالگ الگ واجب نہیں ہیں بلکہ وجوب اطاعت اولوالامر وہی ہے جو وجوب اطاعت رسولہے یہ اس امر کی دلیل ہے کہ اولوالامر کی اطاعت تمام امر ونہی میں رسول اکرم (ص)کی اطاعت کے مانندہے اوراس کانتیجہ گناہ وخطاسے اولوالامرکی عصمت،تمام اوامرونواہی میں رسول کے مانندہے۔

اس برہان کی مزیدوضاحت کے لئے کہاجاسکتاہے:آیہء شریفہ میں رسول اکرم صلصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اوراولوالامرکی اطاعت کے لئے ایک”اطیعوا“سے زیادہ استعمال نہیں ہوا ہے اوریہ”اطیعوا“ایک ہی وقت میں مطلق بھی ہواورمقیّدبھی یہ نہیں ہوسکتاہے یعنی یہ نہیں کہا جاسکتاہے کہ یہ”اطیعوا“رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں مطلق ہے اوراولوالامرکے بارے میں مقیّدہے،کیونکہ اطلاق اور قیدقابل جمع نہیں ہیں۔اگر”اطیعوا“پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں مطلق ہے اورکسی قسم کی قیدنہیں رکھتا ہے،)مثلاًاس سے مقیّدنہیں ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا امرونہی گناہ یا اشتباہ کی وجہ سے نہ ہو)تواولوالامر کی اطاعت بھی مطلق اوربلا قید ہو نی چاہئے ورنہ نقیضین کاجمع ہونا لازم ہوگا۔

۹۶

ان نکات کے پیش نظریہ واضح ہوگیاکہ آیہء کریمہ اس امر پر دلالت کر تی ہے کہ اس آیت میں ”اولوالامر“پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مانند معصوم ہیں۔

یہ مطلب کہ”اولوالامر کی اطاعت“آیہء کریمہ میں مذکورہ خصوصیات کے پیش نظر،اولوالامر کی عصمت پر دلالت ہے،بعض اہل سنّت(۱) مفسرین،من جملہ فخررازی کی توجہ کا سبب بنا ہے۔اس لحاظ سے یہاں پران کے بیان کاخلاصہ جواس مطلب پر قطعی استدلال ہے کی طرف اشارہ کرنا مناسب ہے:

آیہء اولوالامر کے بارے میں فخررازی کا قول

فخررازی نے بھی”اولوالامر“کی عصمت کو آیہء شریفہ سے استفادہ کیا ہے ان کے بیان کا خلاصہ حسب ذیل ہے:

”خداوند متعال نے آیہء کریمہ میں ”اولوالامر“ کی اطاعت کو قطعی طورپرضروری جانا ہے،اورجس کسی کے لئے اس قسم کی اطاعت واجب ہواس کاخطاواشتباہ سے معصوم ہو ناناگزیر ہے،کیونکہ اگر وہ خطاواشتباہ سے معصوم نہ ہو اور بالفرض وہ خطا کا مر تکب ہو جائے تو ،اس آیت کے مطابق اس کی اطاعت کرنی ہوگی!اوریہ ایک امر خطا واشتباہ کی اطاعت ہوگی،جبکہ خطااوراشتباہ کی نہی کی جاتی ہے لہذا انہیں چاہے کر اس کے امر کی پیروی کیجائے، کیونکہ اس قسم کے فرض کا نتیجہ فعل واحد میں امرونہی کا جمع ہو نا ہے )جو محال ہے)(۲) ۔

فخررازی اولوالامرکی عصمت کوآیہء سے استدلال کرنے کے بعد،یہ مشخص کرنے کے لئے کہ اولوالامر سے مراد کون لوگ ہیں کہ جن کامعصوم ہونا ضروری ہے کہتا ہے:

____________________

۱۔غرائب القرآن،نیشا بوری،ج۲،ص۴۳۴،دارالکتب العلمیة بیروت،تفسیرالمنار،شیخ محمدعبدہ ورشیدرضا،ج۵،ص۱۸۱دارالمعرفةبیروت

۲۔التفسیرالکبیر،آیت کے ذیل میں

۹۷

” اولوالامر سے مرادشیعہ امامیہ کے ائمہ معصو مین علیھم السلام(ع)نہیں ہو سکتے

ہیں،بلکہ اس سے مراداہل حل وعقد)جن کے ذمہ معاشرہ کے اہم مسائل کے حل کرنے کی ذمہ داری ہے)کہ جواپنے حکم اورفیصلے میں معصوم ہوتے ہیں اوران کے فیصلے سوفیصد صحیح اورمطابق واقع ہوتے ہیں“۔

فخررازی کاجواب

یہ بات کہ اولوالامر سے مراد اہل حل وعقد ہیں اور وہ اپنے حکم اور فیصلہ میں معصوم ہیں،مندرجہ ذیل دلائل کے پیش نظر صحیح نہیں ہے:

۱ ۔آیہء کریمہ میں ”اولوالامر“کا لفظ جمع ا ور عام ہے کہ جو عمو میت و استغراق پر دلالت کر تا ہے۔اگر اس سے مراد اہل حل وعقد ہوں گے تو اس کی دلالت ایک مجموعی واحد پر ہو گی اور یہ خلاف ظاہر ہے۔

وضاحت یہ ہے کہ آیہء کریمہ کاظاہریہ بتاتاہے کہ ایسے صاحبان امرکی اطاعت لازم ہے جن میں سے ہر کوئی، واجب الاطاعت ہو ،نہ یہ کہ وہ تمام افراد ) ایک مشترک فیصلہ کی بنیاد پر)ایک حکم رکھتے ہوں اور اس حکم کی اطا عت کر نا واجب ہو ۔

۲ ۔عصمت،ایک تحفظ الہٰی ہے،ایک ملکہ نفسانی اورحقیقی صفت ہے اوراس کے لئے ایک حقیقی موصوف کاہوناضرودری ہے اوریہ لازمی طور پرایک امرواقعی پر قائم ہو نا چاہئے جبکہ اہل حل وعقدایک مجموعی واحدہے اورمجموعی واحد ایک امراعتباری ہو تا ہے اورامر واقعی کا امراعتباری پر قائم ہونا محال ہے۔

۳ ۔مسلمانوں کے درمیان اس بات پر اتفاق نظر ہے کہ شیعوں کے ائمہ اورانبیاء کے علاوہ کوئی معصوم نہیں ہے۔

۹۸

ائمہء معصومین )ع )کی امامت پر فخررازی کے اعتراضات

اس کے بعد فخررازی نے شیعہ امامیہ کے عقیدہ، یعنی”اولوالامر“سے مرادبارہ ائمہ معصومین ہیں،کے بارے میں چنداعتراضات کئے ہیں:

پہلا اعتراض:ائمہء معصومین )علیہم السلام) کی ا طاعت کا واجب ہونا یا مطلقاً ہے یعنی اس میں ان کی معرفت وشناخت نیزان تک رسائی کی شرط نہیں ہے،تو اس صورت میں تکلیف مالایطاق کا ہو نا لازم آتا ہے،کیونکہ اس فرض کی بنیاد پر اگر ہم انھیں نہ پہچان سکیں اوران تک ہماری رسائی نہ ہو سکے،تو ہم کیسے ان کی اطاعت کریں گے؟یا ان کی شناخت اور معرفت کی شرط ہے،اگر ایسا ہے تویہ بھی صحیح نہیں ہے ،کیونکہ اس بات کا لازمہ ان کی اطاعت کا واجب ہونامشروط ہوگا،جبکہ آیہء شریفہ میں ان کی اطاعت کا واجب ہو نا مطلقاً ہے اوراس کے لئے کسی قسم کی قیدوشرط نہیں ہے ۔

جواب:ائمہء معصومین کی اطاعت کے واجب ہونے میں ان کی معرفت شرط نہیں ہے تاکہ اگرکوئی انھیں نہ پہچانے تواس پران کی اطاعت واجب نہ ہو،بلکہ ان کی اطاعت بذات خودمشروط ہے۔نتیجہ کے طور پر انھیں پہچاننا ضروری ہے تاکہ ان کی اطاعت کی جاسکے اوران دونوں کے درمیان کافی فرق ہے۔

مزیدوضاحت:بعض اوقات شرط، شرط وجوب ہے اور بعض اوقات شرط،شرط واجب ہے۔مثلاً وجوب حج کے لئے استطاعت کی شرط ہے اورخوداستطاعت وجوب حج کی شرط ہے۔اس بناء پر اگر استطاعت نہ ہو توحج واجب نہیں ہو گا۔لیکن نمازمیں طہارت شرط واجب ہے،یعنی نماز جو واجب ہے اس کے لئے طہارت شرط ہے۔اس بناء پر اگرکسی نے طہارت نہیں کی ہے تووہ نماز نہیں پڑھ سکتا ہے،وہ گناہ کا مرتکب ہوگا،کیونکہ اس پر واجب تھاکہ طہارت کرے تاکہ نماز پڑھے۔لیکن حج کے مسئلہ میں ،اگراستطاعت نہیںرکھتا ہے تواس پر حج واجب نہیں ہے اور وہ کسی گناہ کا مرتکب نہیں ہوا ہے۔

اس سلسلہ میں بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورامام(ع)دونوں کی اطاعت کے لئے ان کی معرفت کی شرط ہے۔اس لحاظ سے ان کی معرفت حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ ان کی اطاعت کی جاسکے۔پس ان کی اطاعت کاوجوب مطلقاًہے،لیکن خوداطاعت مشروط ہے۔

۹۹

خدائے متعال نے بھی قطعی دلالت سے اس معرفت کے مقدمات فراہم کئے ہیں۔جس طرح پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قطعی دلائل کی بناپرپہنچانے جاتے ہیں،اسی طرح ائمہ معصومین علیہم السلام کو بھی جوآپکے جانشین ہیں قطعی اورواضح دلائل کی بناپر جیسا کہ شیعوں کے کلام اورحدیث کی کتابوں میں مفصل طورپرآیاہے اوران کے بارے میں معرفت اورآگاہی حاصل کرناضروری ہے۔

دوسرااعتراض:شیعہ امامیہ کے عقیدہ کے مطابق ہرزمانہ میں ایک امام سے زیادہ نہیں ہوتا ہے،جبکہ”اولوالامر“جمع ہے اورمتعدداماموں کی اطاعت کوواجب قراردیتاہے۔

جواب:اگرچہ ہرزمانے میں ایک امام سے زیادہ نہیں ہوتاہے،لیکن ائمہ کی اطاعت مختلف ومتعددزمانوں کے لحاظ سے ہے،اوریہ ہرزمانہ میں ایک امام کی اطاعت کے واجب ہونے کے منافی نہیں ہے۔نتیجہ کے طورپرمختلف زمانوں میں مومنین پرواجب ہے کہ جس آئمہ معصوم کی طرف سے حکم ان تک پہنچے،اس کی اطاعت کریں۔

تیسرااعتراض:اگرآیہء شریفہ میں ”اولوالامر“سے مراد آئمہ معصومین ہیں توآیہ شریفہ کے ذیل میں جوحکم دیاگیاہے کہ اختلافی مسائل کے سلسلہ میں خدائے متعال اوررسول (ص)کی طرف رجوع کریں،اس میں ائمہ معصومین(ع)کی طرف لوٹنے کا بھی ذکرہوناچاہئے تھا جبکہ آیت میں یوں کہاگیاہے:( فإن تنازعتم فی شیءٍ فردّوه إلی اللّٰه والرّسول ) ”پھراگرآپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تواسے خدااور رسولکی طرف ارجاع دو۔“جبکہ یہاں پر”اولوالامر“ذکرنہیں ہواہے۔

جواب:چونکہ ائمہ معصومین علیہم السلام اختلافات کو حل کرنے اوراختلافی مسائل کے بارے میں حکم دینے میں قرآن مجیداورسنّت (ص)کے مطابق عمل کرتے ہیں اورکتاب وسنّت کے بارے میں مکمل علم وآگاہی رکھتے ہیں،اس لئے اختلافی مسائل میں کتاب و سنت کی طرف رجوع کرناخدا اوررسولکی طرف رجوع کرناہے۔اسی لئے”اولوالامر“کاذکر اور اس کی تکرارکرنایہاں پرضروری نہیں تھا۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

ترجمہ : انسانوں ميں ايسے لوگ بھى ہيں جنكى باتيں زندگانى دنيا ميں بھلى لگتى ہيں اور وہ اپنے دل كى باتوں پر خدا كو گواہ بناتے ہيں حالانكہ وہ بد ترين دشمن ہيں ، كو حضرت على (ع) سے منسوب كر دے اور'' و من الناس من يشرى نفسہ بتغاء مرضات اللہ واللّہ رئوف با العباد '' سورہ بقرہ آيت ۲۰۷كو جو حضرت على (ع) كى شان ميں نازل ہوئي تھى اسكے متعلق ايك حديث رسول (ص) سے منسوب كر كے امير المومنين كے قاتل ابن ملجم كے نام كر دے ، سمرہ بن جندب نے قبول نہيں كيا _

معاويہ نے مزيد دو لاكھ درہم بھجوائے پھر بھى قبول نہيں كيا ليكن جب معاملہ چار لاكھ درہم تك پہونچ گيا تب جا كر سمرہ بن جندب نے رسول اكرم (ص) سے جھوٹى حديث ان آيتوں كے سلسلے ميں گڑھى اور لوگوں سے بيان كيا(۱)

معاويہ كے مقابلے ميں بعض دليروں كا كردار

پرو پيگنڈے كى جنگ اتنى خطرناك تھى كہ ايمان كى اساس طوفان كے زد پر اكر فنا ہو رہى تھى ، اور بعض صحابہ و تابعين نے معاويہ كى آواز پر لبيك كہہ كر اپنا خوب پيٹ بھرا_

مملكت اسلامى كے با رسوخ افراد مسلمانوں كے بيت المال سے خريدے جانے لگے اور ان لوگوں كو خوب سونے اور چاندى كى تھيلياں دى جانے لگيں يا كسى حكومتى عہدے پر فائز كر ديا گيا ، مگر ايك چھوٹا سا گروہ تھا جس نے دين و شرافت كو مد نظر ركھتے ہوئے معاويہ كى ہونكارى نہيں بھرى تھى ، ان لوگوں كو اتنا ستايا گيا كہ انھوں نے اپنى جان و مال سب كچھ راہ خدا ميں قربان كر ديا _

جس كا نتيجہ يہ ہوا كہ ہزاروں جھوٹى حديثيں منظر عام پر اگئيں اور اسلامى معاشرہ تاريك ماحول ميں چلا گيا ، ان گڑھى ہوئي حديثوں كے ہوتے ہوئے كون انسان اسلام حقيقى كو پہچان سكتا تھا اور دوسرے يہ كہ وہ ہزاروں افراد جو متقى و پرہيزگار تھے وہ سختيوں كو جھيل كر موت كے دامن ميں سو چكے تھے _

ہم نے اس سے پہلے ان لوگوں كا تذكرہ كيا ہے جنھوں نے معاويہ كے دام فريب ميں اكر جھوٹى حديثيں گڑھيں كہ انہى ميں ايك سمرہ بن جندب ہے ، يہ وہ شخص ہے جو معاويہ كے اشارے پر ناچتا رہا جسكى وجہ سے اسكو بصرہ كى حكومت ملى تھى _

سمرہ كى اور سياہكاريوں كو چھوڑ كر صرف جو كوفہ ميں تباہياں اور قتل و غارتگرى كا اس نے بازار گرم كيا تھا ، اسكو طبرى يوں بيان كرتا ہے _

____________________

۱_شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۳۶۱

۱۸۱

مشہور عالم ابن سيريں سے پوچھا گيا كہ سمرہ بن جندب نے كسى كو قتل كيا ہے يا نہيں سيرين نے جواب ديا ، تم لوگ سمرہ كے قتل كو شمار كر لو گے ؟

ايك مرتبہ زياد نے بصرہ ميں اپنا جا نشين بنا ديا تو چھہ مہينے كے اندر اس نے اٹھ ہزار بے گناہ مسلمانوں كو قتل كيا جن ميں پينتاليس افراد وہ تھے جو حافظان قران تھے(۲)

طبرى مزيد كہتا ہے ، جب معاويہ نے زياد كى جگہ سمرہ بن جندب كو چند مہينے تك حاكم بصرہ بنا كر معزول كر ديا تو اس نے كہا ، خدا معاويہ كو غارت كرے ، خدا كى قسم ، ميں نے جس طرح معاويہ كے حكم كو مانا تھا اگر اسى طرح اپنے پروردگار كى اطاعت كرتا تو ہرگز مستحق عذاب نہ ہوتا(۳)

انھيں ميں دوسرا ضمير فروش مغيرہ بن شعبہ تھا ، جس نے سات سال كچھ مہينے كوفہ پر حكومت كى اور ايك لمحہ بھى حضرت على (ع) اور قاتلان عثمان پر نفريں كئے بغير اور عثمان كے حق ميں دعا كئے بغير چين و سكون سے نہيں بيٹھا _

البتہ مغيرہ اپنى چالاكى و ذہانت كيوجہ سے حكومتى امور كو كبھى نرميت اور خاطر مدارات كے ذريعے تو كبھى سختى سے انجا م ديتا تھا _

طبرى لكھتے ہيں :

ايك روز مغيرہ بن شعبہ نے صحابى امام (ع) صعصہ بن صوحان سے كہا ، ذرا كان كھول كر سن لو ، ايسا نہ ہو كہ ايك دن تمھارى خبر عثمان كى بد گوئي كرتے ہوئے ميرے كانوں تك پہونچے ، اگر على (ع) كے فضائل كو بيان كرنا ہے تو علنى طور پر بيان نہ كرنا بلكہ مخفى مقام پر بيان كرنا جس طرح على (ع) كے فضائل تم جانتے ہو اسى طرح ميں بھى واقف ہوں ليكن كيا كروں حكومت اموى كى طرف سے ڈنڈا ہے كہ على (ع) كو برا بھلا كہو ، البتہ ميں نے اكثر مقامات پر ان امور ميں رو گردانى كى ہے مگر جہاں پر مجبور ہو جاتا ہوں تو اپنى محافظت كے لئے بعض جملے برائي كے كہہ ڈالتا ہوں ، اگر زياد ہ فضائل على (ع) كے بيان كرنے كا شوق ركھتے ہو تو اپنے قريبى رشتہ داروں كے گھروں ميں بيان كرنا مگر مسجد اور شاہراہ پر بيان كرنا ايك ايسا مسئلہ ہے جسكو خليفہ ( معاويہ ) برداشت نہيں كر سكتا ، اور نہ ہى اس سلسلے ميں ميرے عذر كو قبول كر سكتا ہے(۴)

____________________

۲_ طبرى ج۶ ص ۱۳۲ ، ابن اثير ج۳ ص ۱۸۹

۳_طبرى ج۶ ص ۱۶۴ ، ابن اثير ج۳ ص ۲۱۲

۴_طبرى ج۶ ص ۱۰۸

۱۸۲

اخر ى فرد زياد بن ابيہ كى ہے جس نے معاويہ كے حكم كو نافذ كرنے ميں بہت مشكلات كا سامنا كيا ہے ، حجر اور انكے ساتھيوں كے ساتھ جو اس نے سلوك كيا تھا اسكو اپ نے ملاحظہ فرمايا ليكن اس وقت اسى واقعہ كى ايك كڑى جو زياد اور صيفى بن فسيل كے درميان آيا تھا اسكو بيان كر رہا ہوں _

ايك روز زياد نے صيفى كو بلوايا اور اس سے كہا ، اے دشمن خدا تم ابو تراب كے بارے ميں كيا كہتے ہو ، صيفى نے كہا ، ابو تراب كس كا نام ہے _

زياد نے كہا _ تمھيں نہيں معلوم ہے ارے تم اچھى طرح سے ان كو پہچانتے ہو _

صيفى نے كہا _ مجھے نہيں معلوم ہے _

زياد نے كہا _ على بن ابيطالب كا لقب ہے _

صيفى نے كہا _ اچھا وہ ہيں _

ايك طويل مدت تك ايسے ہى مكالمہ ہوتا رہا ، اخر زياد نے چھڑى منگوائي اور صيفى سے كہا كہ اب بتائو تمھارا على (ع) كے بارے ميں كيا خيال ہے _

صيفى نے كہا ، اس بندئہ خدا ميں جو خوبى ہو گى اسى كو بيان كرونگا _

زياد نے اپنے جلادوں سے كہا كہ اسكو اتنا مارو كہ انكى گردن ٹوٹ جائے ، ان لوگوں نے صيفى كى خوب پٹائي كى _

زياد نے پھر پوچھا ، اب على (ع) كے بارے ميں كيا كہتے ہو _

صيفى نے كہا خدا كى قسم ، اگر تم لوگ مجھے تلوار سے ٹكڑے ٹكڑے بھى كر دو گے تو وہى كہوں گا جو انكى خوبى كى علامت ہے _

زياد نے كہا _ اگر على (ع) پر نفرين نہيں كرو گے تو تمہارى گردن اڑا دو نگا _

صيفى نے جواب ديا _ تم ميرى گردن كو تن سے جدا كر سكتے ہو مگر جس چيز كو سننا چاہتے ہو اسكو ميرى زبان سے نہيں سن سكتے ہو ، ميں قتل ہو كر خوش نصيب بن جائو نگا اور تم قتل كر كے بدبخت ہو جائو گے _

يہ سننا تھا كہ زياد نے حكم ديا كہ اسكو زنجيروں ميں جكڑ كر قيد خانہ ميں ڈال ديا جائے اخر اس شخص ( صيفى ) كو بھى حجر اور انكے ساتھيوں كے ساتھ شھيد كر ديا گيا(۵)

____________________

۵_ طبرى ج۶ ص ۱۴۹ ، ابن اثير ج۳ ص ۲۰۴ ، اغانى ج ۱۶ ص ۷ ، ابن عساكر ج ۶ ص ۴۵۹

۱۸۳

،واقعہ يہ ہے كہ زياد نے حضر موت كے اطراف سے دو ادميوں كو معاويہ كے پاس بھيجا اور اس نے خط ميں يہ لكھا كہ يہ لوگ دين على (ع) اور انكے چاہنے والے ہيں _

معاويہ نے جواب ديا _ جو بھى دين على (ع) اور انكى اطاعت ميں ہے انكو قتل كر كے ان كى لاشوں كو پا ئمال كر دو _

زياد نے ان دونوں محبان على (ع) كو كوفے كے دار الامارہ پر سولى ديدى(۶)

ايك دوسرا خط معاويہ كے پاس يہ لكھا كہ ايك قبيلہ خثعمى كے فرد نے ميرے سامنے على (ع) كى مدح سرائي كى ہے اور عثمان كو

برے الفاظ سے ياد كيا ہے ، اس سلسلہ ميں تمھارا حتمى فيصلہ كيا ہے _

معاويہ نے جواب ديا _ اس شخص كو زندہ در گور كر دو ، زياد نے يہ كام معاويہ كے كہنے پر انجام ديا كہ لوگ خوف و دہشت كے مارے فضائل على (ع) كو بيان نہ كر سكيں(۷) _

مورخين نے زياد كى تباہكاريوں كے سلسلے ميں بہت كچھ تحرير كيا ہے خود ابن عساكر لكھتا ہے ، ايك روز زياد نے تمام اہل كوفہ كو دعوت دى جب مسجد كوفہ لوگوں سے بھر گئي تو زياد نے اس جم غفير كو حكم ديا كہ تم لوگ على (ع) پر نفريں كرو(۸) _

مسعودى لكھتے ہيں :

زياد نے اہل كوفہ كو اپنے قصر ميں بلايا اور ان لوگوں سے كہا كہ تم لوگ على (ع) كو برا بھلا كہو اور اپنے مامورين سے جتا ديا كہ اگر كوئي شخص على (ع) پر نفرين كرنے سے كترائے تو اسكى گردن فوراً اڑا دو مگر خوش قسمتى يہ رہى كہ اسى وقت مرض طاعون ميں مبتلا ہو گيا اور اس دنيا سے مر كھپ گيا اس طرح اہل كوفہ نے چين و سكون كى سانس لى(۹)

____________________

۶_ المحبر ص ۴۷۹

۷_طبرى ج۶ ص ۱۶۰ ، ابن اثير ج۳ ص ۲۰۹ ، ا غانى ج ۱۶ ص ۱۰ ، ابن عساكر ج۲ ص ۳۷۹

۸_ ابن عساكر ج۲ ص ۵۱۷

۹_ مروج الذھب ج۳ ص ۳۰

۱۸۴

عمرو بن حمق خزاعى كى ذات وہ تھى جن كا شماربہادروں ميں ہوتا تھا ، مگر حاكم كوفہ زياد نے انكے قتل كا فرمان جارى كر ديا تھا ، يہ امام عليہ السلام پر تبرا نہ بھيجنے كے ڈر سے جنگل ميں جا كر چھپ گئے ، ليكن حاكم كوفہ ( زياد ) كے ظالم سپاہيوں نے انكو چراغ كے ذريعہ ڈھونڈھنا شروع كيا اخر كار عراق كے تپتا صحراء كے ايك غار ميں انكو گرفتار كر ليا گيا اور حاكم كوفہ كى خدمت ميں پيش كيا گيا ، مگر عمر و بن حمق خزاعى نے امام (ع) كو كچھ نہ كہا جسكے بدلے ميں انكو زياد نے قتل كر ديا پھر انكے سر كو معاويہ كے پاس بھيجا اس نے حكم ديا كہ اس سر كو بازار ميں لٹكا ديا جائے تاكہ لوگ اس سر سے عبرت ليں _

چند دنوں بعد اس سر كو عمرو بن حمق كى بيوى كے پاس بھيجا گيا جو خود اسى محبت على (ع) كيوجہ سے قيد خانہ كى صعوبتوں كو برداشت كر رہى تھيں ، جب انھوں نے اپنے شوہر كے كٹے ہوئے سر كو ديكھا تو حسرت و ياس كے مارے يہ كہا ، كتنا زمانہ ہو گيا كہ تم لوگوں نے ميرے شوہر كو مجھ سے چھڑا ديا تھا ، ليكن اب اسكے سر كو ميرى خدمت ميں تحفہ بنا كر پيش كرتے ہو ارے يہ تحفہ بڑا قيمتى _(۱۰) _

بلاد اسلامى كے منبروں سے امير المومنين پر نفرين

امام عليہ السلام كے اصحاب كو صفحہ ہستى سے مٹانے كى كوشش اور جھوٹى حديثوں كے ذريعہ نيك كردار كو بد نام كرنا نيز بد كردار كو نيك كردار كرنے كى سازش يہ سارى كى سارى معاويہ كى سياست تھى جو تمام بلاد اسلامى ميں اگ كى طرح پھيل چكى تھى ، زياد بن ابيہ اور معاويہ كے ديگر حكمرانوں نے اس سياست كو تر ويج دينے ميں بہت مشكلات كا سامنا كيا تھا اور اس سلسلہ ميں مورخين نے ان حكمرانوں كى زيادتيوں اور تباہكاريوں كو بيان بھى كيا ہے _

يہ تمام تباہكارياں اور گندى سياست بنى اميہ كے دور ميں ديكھنے ميں اتى ہے ، كيونكہ ان لوگوں نے مسلمانوں كے ذہن و دماغ كو اسى لئے حقائق سے دور ركھا تھا تاكہ تمام بلاد اسلامى كے منبروں سے حضرت على (ع) كو برا بھلا كہا جائے اور صرف ايك سيستان كا صوبہ تھا جو معاويہ كے حكم كو نہيں مان رہا تھا اور ايك مرتبہ كے علاوہ اہل سيستان نے منبروں سے حضرت على (ع) كو برا بھلا نہيں كہا :

____________________

۱۰_ابن قتيبہ كى المعارف ص ۱۲۷ ، استيعاب ج۲ ص ۵۱۷ ، اصابہ ج۲ ص ۵۲۶ ، ابن كثير ج۸ ص ۴۸ ، المعبر ص ۴۹۰

۱۸۵

اس ايك مرتبہ كے بعد سيستانيوں نے اموى اركان خلافت سے عہد و پيمان كيا كہ ہم كو حضرت امير المومنين (ع) پر نفرين كرنے سے باز ركھا جائے ، درانحاليكہ اسى زمانے ميں شہر اسلامى كے دو مقدس ترين شھروں ( مكہ و مدينہ ) ميں منبروں سے امام (ع) پر لعنت بھيجى جا رہى تھى(۱۱)

ضمير فروش خطيبوں نے خاندان علوى (ع) كے سامنے امام (ع) بزرگوار پر لعن و طعن كى تھى جنھيں مورخين نے نقل كئے ہيں ،ليكن ميں ان تمام واقعات كو چھوڑتے ہوئے صرف ايك واقعہ پيش كر رہا ہوں _

ايك مرتبہ عمر و بن عاص نے منبر سے حضرت على (ع) كو خوب برا بھلا كہا ، جب يہ اترگيا تو اسكے بعد مغيرہ بن شعبہ منبر پر اگيا اور اس نے بھى امام (ع) كے حق ميں نا زيبا كلمات زبان پر جارى كئے ، درانحاليكہ اس مجلس ميں حضرت امام حسن مجتبى (ع) موجود تھے ، حاضرين نے امام (ع) سے ان دونوں ( عمر و عاص، مغيرہ ) كا جواب دينے كے لئے كہا :

انحضرت (ص) نے ايك صورت ميں جواب دينے كى پيشكش كو قبول كيا كہ اگر ميں حق بات كہوں تو تم سب ميرى تصديق كرنا اور اگر نا حق بات كہوں تو ( العياذ باللہ ) ميرى تكذيب كرنا ، امام عليہ السلام اس عہد و پيمان كے بعد منبر پر گئے اور حمدالہى كے بعد عمر واور مغيرہ سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ ، تم دونوں سے خدا كى قسم ديكر پوچھتا ہوں كہ آيا تم دونوں بھول گئے ہو جو رسول (ص) نے مہار پكڑنے والے كو اور مركب ہنكانے والے كو نيز سوار پر لعنت بھيجى تھى جن ميں ايك فلاں شخص ( معاويہ ) تھا(۱۲) _

حاضرين نے كہا اپ سچ كہتے ہيں :

دوسرى مرتبہ پھر عمر و عاص و مغيرہ كو مخاطب كرتے ہوئے كہا :

ايا تم دونوں كو معلوم نہيں ہے جو پيغمبر اسلام (ص) نے عمر و عاص كے ہر شعركے بيت پر لعنت بھيجى تھى(۱۳) ، تمام لوگوں نے كہا خدا كى قسم اپ سچ كہتے ہيں(۱۴) _

____________________

۱۱_ياقوت حموى ج۵ ص ۳۸ مطبوعہ مصر

۱۲_ سوار ابو سفيان، مہار تھامنے والا يزيد بن ابو سفيان نيز ہنكانے والا معاويہ تھا اور پيغمبر اسلام (ص) نے ان تينوں پر لعنت بھيجى تھي

۱۳_ عمر و عاص نے عصر جاہليت ميں ايك قصيدہ رسول (ص) كى مذمت ميں كہا تھا انحضرت نے بد دعا كر كے خدا وند عالم سے درخواست كى كہ اسكے ہر بيت پر ايك لعنت بھيجے

۱۴_ تطہير اللسان ص۵۵

۱۸۶

ليكن جو مومن اور اہلبيت عليہم السلام كے چاہنے والے تھے كبھى بھى خطبوں ميں نيز جس نشست ميں على (ع) كو برا بھلا كہا جاتا تھا اس ميں شريك نہيں ہوتے تھے ، اور قبل اسكے كہ خطبہ ديا جائے مسجد كو چھوڑ ديتے تھے _

يہى وجہ تھى جو معاويہ كے حكمرانوں نے حكم خدا و رسو ل(ص) كو بدل ديا تھا ، اور جس نماز ميں پہلے خطبہ تھا اسكو بعد ميں پڑھا گيا _

كتاب محلى ميں ابن حزم رقمطراز ہيں :

بنى اميہ كى حكومت ميں سب سے پہلے جو كام انجام ديا گيا وہ يہ تھا كہ خطبہ نماز كو نماز پر مقدم كر ديا گيا ، ان لوگوں نے اپنے نا مشروع فعل كى توجيہ و تاويل اس طرح كى كہ لوگ نماز ختم ہونے كے بعد چلے جاتے ہيں اور خطبہ كو نہيں سنتے ہيں _

ليكن حقيقت تو يہ ہے كہ ان لوگوں نے اتنا على (ع) كو برا بھلا كہا كہ نمازى اپنى نماز تمام كر كے مسجد سے بھاگ جاتے تھے اور مسلمان كا يہ فعل صحيح معنوں ميں درست و حق تھا(۱۵)

صحيح بخارى اور صحيح مسلم نيز حديث كى دوسرى معتبر كتابوں ميں ابو سعيد خدرى سے يوں نقل ہوا ہے _

ميں ( سعيد ) حاكم مدينہ مروان كے ساتھ عيد الاضحى يا عيد الفطر كى نماز عيد گاہ ميں پڑھنے گيا ، كثير بن صلت كے بنائے ہوئے منبر كے قريب جيسے ہى مروان پہونچا تو اس پر چڑھ گيا اور نماز سے پہلے خطبہ دے ڈالا ، ميں نے اسكو لاكھ روكا مگر وہ نہ مانا ، جب خطبہ ديكر مروان نيچے اترا تو ميں نے اس سے كہا كہ خدا كى قسم ، تم نے تو دين و شريعت كو بدل ڈالا ہے

مروان نے كہا ، اے ابو سعيد جن چيزوں كو تم بنام دين سمجھتے ہو وہ تمام كى تمام دنيا سے اٹھ گئي ہيں _

ابو سعيد نے كہا ، خدا كى قسم ، ان بدعتوں سے بھتر يہ تھا كہ كچھ جانتے ہى نہيں ، مروان نے كہا ، اگر نماز سے پہلے خطبہ نہ ديتے تو لوگ ميرے خطبے كو ہرگز نہيں سنتے اسى وجہ سے ميں نے نماز سے پہلے خطبہ ديديا ہے(۱۶)

____________________

۱۵_ محلى ج۵ ص ۱۸۶ ، امام شافعى ج۱ ص ۲۰۸

۱۶_بخارى ج۲ ص ۱۱۱ ، مسلم ج۳ ص ۲۰ ، سنن ابى داو د ج۱ ص ۱۷۸ ، ابن ماجہ ج۱ ص ۳۸۶ ، بيہقى ج۳ ص ۲۹۷ ، مسند احمد ج۳ ص ۲۰

۱۸۷

بعض لوگوں كا لعنت سے گريز خلافت اموى كے حكام و مامورين نے صرف عام لوگوں سے حضرت على (ع) پر لعنت نہيں بھجوائي ، بلكہ اصحاب رسول (ص) جو اسلام كى معرفت ركھنے كيوجہ سے زيادہ مستحق پيروى تھے ان سے بھى كہا كہ ميرے حكم كو مانيں اور على (ع) پر لعنت بھيجيں _

سہل بن سعد كہتے ہيں :

ايك روز ال مروان(۱۷) كے ايك حاكم نے مدينہ ميں مجھے طلب كيا اور ہم سے كہا كہ تم على (ع) پر لعنت بھيجو ، ميں نے حاكم مدينہ كى بات كو ٹھكرا ديا _

حاكم نے كہا اچھا ابو تراب(ع) پر لعنت بھيج دو _

سہل نے كہا ، حضرت على (ع) كو سارے ناموں ميں سب سے زيادہ محبوب نام ابو تراب(ع) تھا اور جب لوگوں نے اس نام سے ياد كيا تو اپ بہت خوش ہوئے _

حاكم مدينہ نے كہا _ مجھے اس نام كى داستان سے مطلع كرو اور خوش ہونے كا سبب بتائو ، ميں نے كہا ايك مرتبہ پيغمبر(ص)

اسلام جناب سيدہ(ع) كے گھر تشريف لائے اور على (ع) كو وہاں موجود نہ پاكر اپنى بيٹى سے پوچھا كہ تمھارے چچا زاد بھائي كہا ں ہيں _

فاطمہ(ع) نے كہا كہ ميرے اور ان كے درميان تھوڑا سا سخت كلامى ہو گئي ہے اور اسكے بعد انھوں نے گھر ميں ارام نہيں كيا اور باہر چلے گئے _

انحضرت (ص) نے ايك شخص سے كہا كہ جا كر ديكھوكہ على (ع) كہا ں ہيں اس نے جب مسجد ميں حضرت على (ع) كو ليٹے ہوئے ديكھا تو رسول اكرم (ص) سے جا كر كہا كہ وہ مسجد ميں سو رہے ہيں ، جب رسول اكرم (ص) نے على (ع) كو خاك ميں اٹے ہوئے ديكھا تو بڑى مہر بانى سے انكے جسم سے خاك كو جھاڑا اور كہا ، اٹھو ابو تراب ، اٹھو ابو تراب(۱۸)

____________________

۱۷_مقصود مروان بن حكم ہو گا

۱۸_صحيح مسلم ج ۷ ص ۱۲۴

۱۸۸

ابو تراب كے معنى مٹى كو دوست ركھنے والا ہے بنى اميہ نے يہ گمان كر ليا تھا كہ على (ع) كى يہ كيفييت ذليل و حقير ہے درانحاليكہ انكو يہ بھى نہ معلوم ہو سكا كہ يہ لقب خود على (ع) كے كمال كى دليل ہے جو اس طرح رسول (ص) اپ سے لطف و مہربانى سے پيش ارہے تھے ، ورنہ بنى اميہ لوگوں سے يہ نہ كہتے كہ ابو تراب(ع) پر لعنت بھيجو _

عامر بن سعد جو خود اس واقعہ كا چشم ديد گواہ ہے كہتا ہے :

ايك مرتبہ معاويہ نے ميرے باپ ( سعد ) كو اپنى خدمت ميں بلايا اور ان سے كہنے لگا كہ تم على (ع) كو برا بھلا كيوں نہيں كہتے ہو ؟

ميرے باپ نے جواب ديا كہ _ اے معاويہ جب تك مجھے يہ تين حديثيں ياد رہيں گى كبھى على (ع) كو برا بھلا نہيں كہہ سكتا ، اور رسول (ص) كى يہ حديثيں ميرى نظر ميں عرب كے سرخ رنگ كے اونٹوں سے زيادہ قيمتى ہيں _

۱_ جب رسول (ص) ايك جنگ ( تبوك ) ميں جا رہے تھے اور على (ع) كو ساتھ نہ لے گئے اور انكو شہر مدينہ كے منافقوں سے نپٹنے كے لئے چھوڑ ديا تھا تو اس وقت على (ع) نے بہت گريہ كيا اور انحضرت (ص) سے فرمايا : اے رسول(ص) خدا مجھے عورتوں اور بچوں كے درميان چھوڑ كر جاتے ہيں تو ميں نے اپنے كانوں سے رسول(ص) اكرم كو يہ فرماتے ہوئے سنا تھا ''اما ترضى ان تكون منى بمنزلة هارون من موسى الّا انه لا نبى بعدى ''

ترجمہ : آيا تم راضى نہيں ہو كہ تمھارا وہى مرتبہ ہے جو موسى كے لئے ہارون كا تھا فرق اتنا ہے كہ ميرے بعد كوئي نبى ہونے والا نہيں ہے _

۲_ دوسرى مرتبہ جنگ خيبر ميں كہتے ہوئے سنا تھا''لاعطينّ الراية غدا رجلا ً يحب الله و رسوله و يحبه الله و رسوله ''

ترجمہ : كل ميں اس مرد كو علم دوں گا جو خدا و رسول كو دوست ركھتا ہے اور خدا و رسول (ص) اسے دوست ركھتے ہيں ،ہم تمام لوگ گردنوں كو بلند كر كے رسول (ص) خدا كو ديكھنے لگے اپ (ص) نے فرمايا : على (ع) كہاں ہيں ؟

۱۸۹

حاضرين ان كو بلانے كے لئے دوڑے جبكہ على (ع) كے انكھوں ميں شديد درد تھا وہ اسى حالت ميں پيغمبر اكرم (ص) كى خدمت ميں لائے گئے ، انحضرت (ص) نے ان كى انكھوں ميں اپنا لعاب دہن لگايا پھر علم جنگ انكے ہاتھوں ميں ديا جسكے بعد خدا وند عالم نے انكو فتحيابى سے ہمكنار كيا _

مجھے وہ بھى وقت ياد ہے جب يہ آيت نازل ہوئي تھى ،كہ''فقل تعالوا ندع ابنا ئنا الخ_

ترجمہ : پس ان سے كہو كہ ائو اس طرح فيصلہ كر ليں كہ ہم اپنے بيٹوں كو لاتے ہيں تم اپنے بيٹوں كو لائو ، پيغمبر(ص) اسلام نے على (ع) ، فاطمہ(ع) ، حسن(ع) ، حسين(ع) كو بلايا اور كہا ، اے ميرے مالك يہى ہمارے اہلبيت(ع) ہيں _

مسعودى سعد بن وقاص اور معاويہ كى ملاقات كو طبرى سے يوں نقل كرتا ہے _

جب معاويہ حج كرنے كے لئے مكہ آيا تو سعد بن وقاص سے طواف كعبہ كے وقت ملاقات ہوئي ، جب طواف كر چكا تو سعد كو ليكر دار الندوہ ( جو عصر جاہليت ميں بزرگان قريش كے اجتماع كى جگہ تھى ) آيا اور سعد سے كہا كہ تم على (ع) پر لعنت بھيجو ، معاويہ كى اس بات پر سعد كو اتنا غصہ آيا كہ اپنى جگہ سے كھڑے ہو گئے اور كہا :

اے معاويہ ، تو مجھے اسى لئے ليكر آيا ہے تاكہ على (ع) جيسے شخص پر لعن و طعن كروں خدا كى قسم ، اگر على كے فضائل و كمالات ميں سے ايك فضيلت ميرے اندر ہوتى تو دنيا كى تمام چيزوں سے زيادہ محبوب و قيمتى ہوتى(۱۹)

مسعودى نے اس واقعہ كو لكھنے كے بعد ايك عبارت پيش كى ہے جو اس واقعہ سے تھوڑا سا فرق ركھتى ہے_

سعد نے معاويہ سے كہا كہ ، خدا كى قسم ، جب تك زندہ رہو نگا تيرے گھر ميں قدم نہيں ركھوں گا يہ كہا اور اٹھ كھڑے ہوئے(۲۰)

ابن عبد ربہ اندلسى اپنى كتاب ميں لكھتے ہيں :

امام حسن (ع) مجتبى كى شہادت كے بعد معاويہ خليفہ بن كر مكہ حج كرنے گيا پھر مدينہ كى طرف رخ كيا اسكى اس سفر ميں يہ خواہش تھى كہ مسجد النبوى (ص) كے منبر سے على (ع) كو برا بھلا كہے_

____________________

۱۹_صحيح مسلم ج۷ ص ۱۲۰ ، ترمذى ج ۱۳ ص ۱۷۱ ، مستدرك ج۳ ص ۱۰۹ ، اصابہ ج۲ ص ۵۰۲

۲۰_مروج الذھب ج۳ ص ۲۴

۱۹۰

معاويہ كے اطرافيوں نے اس سے كہا ، اس شہر ( مدينہ ) ميں فاتح ايران اور با عظمت صحابى سعد بن وقاص رہتے ہيں ، وہ اس كام كو ہرگز ہونے نہيں ديں گے لہذا بہتر يہى ہے كہ انكے پاس جا كر ان سے پوچھ ليا جائے _

مامورين معاويہ، سعد كے پاس گئے جيسے ہى انھوں نے سنا تو ان لوگوں سے كہا _ اگر اس كام كو انجام ديا گيا تو ياد ركھو جس مسجد كے در سے على (ع) كو برا بھلا كہا گيا اس در ميں ہرگز قدم نہيں ركھےں گے_

يہ بات اس وقت واضح ہوگى جب ہميں يہ معلوم ہو جائے كہ مدينہ ميں مسجد نبوى (ص) كے بارے ميں گفتگو ہوئي تھى يا كوئي اور مسجد تھى _

معاويہ سعد كے نفوذ كے سامنے مات كھا گيا اورجب تك وہ زندہ رہے معاويہ اس كام كو انجام نہ دے سكا _

ليكن جب سعد بن وقاص اس دنيا سے چلے گئے تو معاويہ نے مدينہ كے اندر بار ديگر سعى و كوشش كى اور امام على (ع) كو مسجد نبوى (ص) كے منبر سے گالى دي_

يہى وہ دور تھا جس ميں معاويہ نے اپنے تمام كارندوں كو خط لكھا اور حضرت على (ع) پر تمام بلاد اسلامى كے منبروں سے لعن و طعن كروائي _

زوجہ رسول (ص) ام سلمى نے كئي خطوط معاويہ كے پاس بھيجے جن ميں ان باتوں كو لكھا اے معاويہ ، تو تمام منبروں سے على (ع) اور انكے ساتھيوں پر نفرين كروا رہا ہے جبكہ يہ نفرين خدا و رسول (ص) پر ہو رہى ہے _

ميں قسم كھاتى ہوں كہ خدا اور پيغمبر(ص) اسلام اسكو دوست ركھتے تھے ، مگر ام سلمى كے خط نے كوئي خاص اثر معاويہ پر نہيں ڈالا

۱۹۱

بلكہ اس نے ان خطوط كو ردى كى ٹوكرى ميں ڈال ديا تھا _(۲۱) _

معاويہ كا اخرى ہدف

جب بھى معاويہ اپنے حسب و نسب اور اپنے خاندان كے كرتوت پر (جو اسلام كے مقابلے ميں جنگ كى تھى )نظر دوڑاتا تھا تو شرم و حياء كے مارے اسكا سر جھك جاتا تھا اور يہ تمام چيزيں اسكى حيرانى و پريشانى كى باعث بن جاتى تھيں ، كيونكہ ايك طرف اسلام نے اس كو اور اسكے خاندان كو ضرب كارى لگا كر ذلت و رسوائي كے كھنڈر ميں ڈال ديا تھا _

دوسرى طرف اس كے ديرينہ رقيب بنى ہاشم شہرت كے فلك چہارم پر جا رہے تھے ، يہ تمام مشكلات اسكے ذہن و دماغ پر پہاڑ كى طرح بوجھ بنى ہوئي تھى ، جنكو ہلكا كرنے كے لئے اس نے اصحاب پيغمبر (ص) سے جنگ كى تھى _

ليكن ان تمام جنگوں ميں امير شام معاويہ كى يہى كوشش رہى كہ كہيں سے اپنے كينے كا اظہار نہ ہو كيونكہ ابھى حكومت نئي ہے ورنہ جان و مال خطرے ميں پڑ جائے گا ، ليكن جب ايك دن مغيرہ بن شعبہ كے ساتھ تنہائي ميں بيٹھا، چونكہ دونوں عصر جاہليت سے اپس ميں دوست تھے نيز سالہا سال دونوں سياہكاريوں و تباہكاريوں ميں ايك دوسرے كا ہاتھ بٹا رہے تھے تو معاويہ نے اپنى سياست كو فاش كر ديا _

كتاب الموفقيات ميں زبير بن بكار ، مطرف بن مغيرہ ، سے نقل كرتے ہيں ، ميں اپنے والد (مغيرہ ) كے ساتھ شام گيا ہم دونوں كا قيام معاويہ كے يہاں تھا ميرے والد ہر روز امير شام معاويہ كے پاس جا يا كرتے تھے اور جا كر گھنٹوں باتيں كيا كرتے تھے اور جب معاويہ كے پاس سے اتے تھے تو سارى باتوں كو بيان كرتے تھے _ايك دن معاويہ كے پاس سے آئے تو ميں نے كھانا حاضر كيا ، ليكن انھوں نے نہيں كھايا ، ميں اپنے دل ميں سوچنے لگا كہ كہيں ہم سے كوئي خطا تو سرزد نہيں ہو گئي ہے _

لہذا ميں نے اپنے باپ ( مغيرہ ) سے سوال كيا كہ اج كى شب اپ كيوں اتنا كبيدہ خاطر ہيں _

____________________

۲۱_عقد الفريد ج۳ ص ۱۲۷

۱۹۲

ميرے باپ نے جواب ديا كہ ، اے ميرے لال ، اج ہم خبيث ترين و كافر ترين شخص كے پاس سے ارہے ہيں _

ميں نے پوچھا وہ كون ہے ؟

ميرے باپ نے كہا ارے وہى معاويہ ہے اج اسكى مجلس اغيار سے خالى تھى ، تو ميں نے اس سے كہا كہ اے امير المومنين اپ تو اپنے ہدف تك پہونچ گئے ہيں _

لہذا اس بوڑھاپے ميں عدل و انصاف سے كام ليجئے اور اپنے رشتہ داروں ( بنى ہاشم ) پر رحم و كرم كيجئے تاكہ لوگ اپكى تعريف و تمجيد كريں _

خدا كى قسم ، اب ان لوگوں سے كسى چيز كا خوف نہيں ہے _

اس پر معاويہ نے كہا ، جو كچھ تم نے كہا ہے بہت مشكل ہے ، ابو بكر تخت خلافت پر آئے عدل و انصاف كيا تمام زحمتوں كو برداشت كيا مگر خدا كى قسم ، ايك موذن بھى ان كا نام اذان ميں نہيں ليتا ہے _

عمر خليفہ بنے دس سال كى طويل مدت تك سختيوں كو جھيلا مرنے كے بعد كوئي بھى ان كا نام ليوا نہيں ہے _

اخر ميں ہمارے بھائي عثمان تخت خلافت پربرا جمان ہوئے جو نسب كے اعتبار سے كوئي بھى ان كا ہم پلہ نہيں ہے اور جو كچھ كرنا تھا انھوں نے انجام ديا ليكن ان كے ساتھ كيسا حادثہ پيش آيا جسكى وجہ سے مار ڈالے گئے ، مگر ان كا بھى كوئي نام نہيں ليتا ہے ، اور لوگوں نے انكى كار كردگى كو بالائے طاق ركھ ديا ہے درانحاليكہ اس مرد ہاشمى ( محمد(ص) ) كا نام موذن ہر روز پانچ مرتبہ تمام بلاد اسلامى كے گلدستہ اذان سے ليتا ہے كہ

اشھد ان محمد رسول(ص) اللہ_

اے مغيرہ تم ہى فيصلہ كرو كہ ايسى صورت ميں كون سا اچھا كام اور كس كا نام باقى رہ سكتا ہے _

خدا كى قسم ، جب تك اس نام كو نہ مٹادونگا اس وقت تك چين و سكون سے نہيں بيٹھوں گا(۲۲) رسول خدا (ص) كى شہرت

عامہ سے معاويہ كا سينہ اگ كى بھٹى ہو رہا تھا ( كيونكہ معاويہ كے بھائي ، ماموں اور دوسرے رشتہ داروں كو جنگ بدر ميں مارا تھا ) لہذا اس نام كو مٹانے كے لئے اس نے ان دو سياستوں انتخاب كيا ، اسكى پہلى سياست يہ تھى جس كا خلاصہ يہ ہے ، كہ بنى ہاشم كى ايك فرد بھى زمين پر زندہ نہ رہے يہ بات صرف ميں نہيں كہہ رہا ہوں ، بلكہ اسكى وضاحت خود مولائے

____________________

۲۲_مروج الذھب ج ۹ ص ۴۹ ، شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۴۶۳

۱۹۳

كائنات امير المومنين (ع) نے بھى كى ہے كہ خدا كى قسم معاويہ چاہتا ہے كہ بنى ہاشم كى ايك فرد بھى روئے زمين پر باقى نہ رہے اور خدا كا نور بجھ جائے درانحاليكہ خدا وند عالم اپنے نور كو تمام عالم ميں پھيلا كر رہے گا چاہے كافروں كو برا ہى كيوں نہ لگے(۲۳)

معاويہ كى دوسرى سياست يہ تھى كہ بنى ہاشم كے نام و نشان كو صفحہ ہستى سے مٹا ديا جائے اسى لئے جھوٹى حديثوں اور سيرت و تاريخ كا ايك بڑا كارخانہ كھولا تاكہ ان كى منقصت كر كے كردار كو بد نام كر ديا جائے اور بنى اميہ كى فضيلت و منزلت كا پر چار كيا جائے ، يہى وجہ تھى كہ اس نے رسول (ص) كى لعنت والى حديث جو خود اسكے اور ابو سفيان يا خاندان اموى كى كسى ايك فرد جسيے عمر و بن عاص كے سلسلے ميں تھى كے مقابلے ميں رسول اسلام (ص) سے جھوٹى حديث منسوب كر كے لوگوں كے درميان پر چار كرائي كہ ، بارالہا ميں انسان ہوں _

اگر غصے كى حالت ميں كسى پر غلطى سے لعنت بھيجدى ہے يا اسكى مذمت كر دى ہے تو اس لعن و تشنيع كے بدلہ ميں اسكے گناہوں كو معاف كر دے تاكہ پاك و پاكيزہ ہو جائے _

ان جعلى حديثوں نے معاويہ كے حق ميں شمشير برّان كا كام كيا ، ايك طرف رسول اكرم (ص) نے جو كچھ ا س كے يا اس كے خاندان والوں كے سلسلے ميں كہا تھا جو حقيقت ميں سچ تھا ان حديثوں سے اس نے داغدار دامن كو پاك و صاف كر ليا _

دوسرى طرف پيغمبروں (ص) كو ايك معمولى انسان دكھايا كہ انھوں نے جو كچھ كہا تھا وہ سب غصے ميں كہا ، جبكہ اپ لوگ اچھى طرح سے جانتے ہيں كہ خدا وند عالم نے اپنے رسول(ص) كے اخلاق و كردار كى كتنى تعريف و تمجيد كى ہے ، اور انكو انك لعلى خلق عظيم سے ياد كيا ہے ، اور اپكے متعلق سورہ ال عمران ميں ارشاد فرمايا ہے ، ''فبما رحمة من اللہ لنت لھم ولو كنت فظا غليط القلب لا نفضوا من حولك ''نيز دوسرى جگہ كہا كہ ، انكى تمام باتيں وحى الہى كا سر چشمہ ہيں '' وما ينطق عن الھوى ان ھو الّا وحى يوحى '' سورہ نجم آيت۳_۳

معاويہ كى اس برى سياست كو ہر كس و نا كس نہيں سمجھ پايا تھا يہى وجہ تھى جو سادہ لوح افراد تھے اور وہ اپنى ذات سے بے بہرہ تھے اسكى آواز پر دوڑنے لگے ، اور معاويہ كى ہاں ميں ہاں ملانے لگے ، اور جو ضمير فروشوں نے اسكے حكم سے بناوٹى حديثيں تيار كى تھيں انھيں ہر جگہ بيان كرنے لگے اگر چہ معاويہ نے اپنے اندر ونى كينے كو لوگوں كے سامنے ظاہر نہيں كيا

____________________

۲۳_ مروج الذھب ج۳ ص ۲۸

۱۹۴

ليكن اپنى نا پاك تمنائوں كو كھلے عام انجام ديا ہاں ،اس نے ايك طرف عثمان اور ان كے ہمراہيوں كا كھل كر ساتھ ديا_ اور دوسرى طرف على (ع) اور ان كے خاندان والوں نيز ان كے چاہنے والوں پر كہ جنھوں نے اس كى سياہكاريوں ميں ہاتھ نہيں بٹايا تھا ظلم و ستم كا پہاڑ ڈھايا ، اور كسى كو اذيت دى تو كسى كو قيد خانے ميں ڈلوايا تو كسى كو زندہ در گور كيا گيا ، ہمارى بحث كى محور ام المومنين عائشه كى ذات ہے كہ جس وقت انسانيت سولى پر چڑھائي جا رہى تھى اور شيعيان على (ع) كو شكنجوں اور قيد خانوں كى اذيتوں ميں مبتلا كيا جا رہا تھا اپ اسوقت بھى اركان حكومت اموى كى نظر ميں باعث صد احترام تھيں اور معاويہ نے جو امير المومنين (ع) سے جنگ كى تھى تو اس ميں بھى اپ نے معاويہ ہى كا ساتھ ديا تھا ،جب اپ حضرات نے يہاں تك ان كى كاركردگى كو ملاحظہ فرما ليا تو اس بات كو بھى ذہن نشين كر ليجئے كہ انھوں نے معاويہ كى جعلى حديثوں كے كار خانے ميں كتنا حصہ ليا ہے_

سعد بن ہشام نے حكيم بن افلح سے عائشه كے گھر جانے كو كہا ، اس نے كہا كہ ہم ان كے يہاں ہر گز نہيں جائيں گے ، ميں نے عائشه كو جب دو گروہوں (حزب علوى اور حزب عثمان ) ميں اختلاف چل رہا تھا تو ان كو مداخلت كرنے سے منع كيا ليكن انھوں نے ميرى بات نہيں مانى اور اپنى ڈگر پر چلتى رہيں(۲۴) يہ جو افلح نے عائشه كے بارے ميں كہا كہ حزب علوى (ع) اور حزب عثمان كے اختلاف ميں مداخلت كي، اس كا مطلب كيا ہے ؟

اپ نے پہلے ديكھا نيز ائندہ ملاحظہ فرمائيں گے كہ عائشه نے ان حالات ميں عثمان كے پارٹى كى خوب تعريف و تمجيد كى اور ان كے حق ميں رسول اسلام(ص) سے جھوٹى حديثوں كو منسوب كر كے بيان كيا تھا _

انھوں نے حزب علوى (ع) كى خدمت ميں يقيناً حديثيں گڑھى ہو نگى ، ان ہى باتوں كى وجہ سے حكيم افلح نے انكو منع كيا ليكن انھوں نے اسكى بات پر كان نہيں دھرا _

عائشه كى ايك حديث

احمد بن حنبل اپنى مسند ميں نعمان بن بشير سے نقل كرتے ہيں :

معاويہ نے مجھے ايك خط ديكر عائشه كے يہاں بھيجا ، ميں نے اس خط كو عائشه كى خدمت ميں پيش كيا تو اپ نے فرمايا ، اے ميرے لال ، ميں نے جو كچھ پيغمبر(ص) اسلام سے سنا ہے اس كو تم سے بيان نہ كروں ؟

___________________

۲۴_مسند احمد ج۶ ص ۵۶ ، تہذيب التہذيب ج۲ ص ۴۴۴

۱۹۵

نعمان نے كہا ، ضرور بيان كيجئے :

عائشه نے كہا ، ايك روز ہم اور حفصہ رسول (ص) كى خدمت ميں بيٹھى ہوئي تھى كہ اپ(ص) نے فرمايا كہ كتنا اچھا ہوتا كہ كوئي بات كرنے والا اجاتا _

عائشه نے كہا اے رسول خدا (ص) ہم اپنے باپ ( ابو بكر ) كو بلا ديں

انحضرت (ص) نے كچھ جواب نہيں ديا

رسول (ص) نے بار ديگر اپنى خواہش بيان كى حفصہ نے كہا ہم اپنے باپ ( عمر )كو بلاديں حضور (ص) خاموش رہے _

اس كے بعد رسول اسلام (ص) نے ايك شخص كو بلايا اور چپكے سے اسكے كان ميں كچھ كہا وہ ادمى چلا گيا ، تھوڑى دير بعد عثمان اگئے ، انحضرت(ص) نے ان سے خوب باتيں كيں ، گفتگو كے درميان ميں نے سنا كہ حضور(ص) يہ فرما رہے ہيں _

اے عثمان ، عنقريب خدا وند متعال تمہارے جسم پر ايك لباس ( خلافت ) پہنانے والا ہے اگر لوگوں نے اس لباس كو تم سے چھيننے كى كوشش كى تو تم اسكو ہر گز نہ اتارنا _

رسول(ص) خدا نے اس فقرے كو تين بار دہرايا

نعمان بن بشير كہتا ہے كہ ميں نے كہا :

اے ام المومنين يہ حديث عثمان كى مخالفت كرتے وقت اور لوگوں كو انكے خلاف بھڑكاتے وقت ياد نہيں رہى تھى _

عائشه نے كہا اے نعمان ميں اسكو ايسا بھول گئي تھى گويا كبھى سنا ہى نہيں تھا(۲۵)

يہ واقعہ اس زمانہ ميں پيش آيا كہ خليفہ وقت معاويہ نے عائشه كو خط لكھا اور نعمان اس كو ليكر گيا اور يہ اس كا منتظر ہے كہ يہ

جواب ديں ايسے وقت ميں رسول (ص) كى ايك حديث عائشه كو ياد ائي ہے اور قاصد سے بيان فرمائي كہ رسول (ص) نے عثمان كے بارے ميں وصيت كى تھى كہ ائندہ كا خليفہ عثمان ہے پھر لباس خلافت كو ہرگز جسم سے نہ اتارنا _

غور طلب بات يہ ہے كہ اس خط سے حديث كا كيا ربط ہے ؟

ايا معاويہ نے اپنے خط ميں ان سے سفارش كى تھى كہ عثمان كا دفاع كريں ؟

__________________

۲۵_مسند احمد ج۶ ص ۱۴۹

۱۹۶

يا يہ كہ جب قاصد امير شام معاويہ كے يہاں پلٹ كر جائے تو انكى حديث كو معاويہ سے بيان كرے ؟

يا كوئي دوسرى بات تھى ؟

ايا ممكن ہے كہ جو عائشه ايك طويل مدت تك عثمان سے جھگڑا كرتى رہيں اور لوگوں كو ان كے خلاف بھڑكاتى رہيں يا اسى قسم كى دوسرى باتيں جو معاويہ كے زمانے ميں پيش ائيں ، اور لوگوں سے بيان كيا تھا اسكى وجہ صرف اتنى ہے كہ معاويہ كے زمانے ميں عائشه ايك كنيز كى طرح زندگى گذار رہى تھيں _

اور جو كچھ جھوٹى حديثيں اپنے باپ يا عمر و طلحہ نيز خاندان كى فضيلت ميں بيان كى تھى اسكى وجہ يہ تھى كہ معاويہ كى حديث گڑھنے والى سياست كو كامياب بنا كر اس كو خوش كرنا تھا اور اس سلسلہ ميں انھوں نے اپنے رشتہ دار اور چاہنے والوں كے فضائل كو نشر كرنے ميں ايڑى چوٹى كا زور بھى لگايا تھا اسى لئے محاورہ بھى ہے كہ جسكو چوٹ لگتى ہے اسى كو درد ہوتا ہے '' ليست الثكلى المستاجرہ ''

ہم نے ان بحثوں ميں نہ كسى كے فضائل كو بڑھا چڑھا كر بيان كيا ہے اور نہ ہى ميرا مقصد كسى كى عيب جوئي كرنا تھا ، بلكہ ہمارا واحد ہدف يہ تھا كہ ان حديثوں كى جانچ پڑتال كى جائے جو رسول اسلام (ص) سے جھوٹ منسوب كر كے بيان كى گئي ہيں جسكو انشاء اللہ اس كتاب كى اخرى بحث ميں ملاحظہ فرمائيں گے _

تحقيق اور نتيجہ

ہم نے اس سے پہلے زندگانى عائشه كى اچھى طرح تحقيق كى تاكہ ان كى سياسى و اجتماعى اور معاشراتى كارناموں كے ساتھ انكے اغراض و مقاصد سامنے اجائيں ، اب اس كے پس منظر ميں ان چيزوں كو پيش كروں گا كہ وہ كون سى چيز باعث بنى جنھوں نے حديث نقل كرنے پر بر انگيختہ كيا تھا _

اگر اس كا خلاصہ كيا جائے تو يہ ہو گا كہ ، عائشه ايك تيز طرار عورت كے ساتھ ساتھ ايك بہترين خطيبہ تھيں جس كے ذريعہ عالم و جاہل سب كے افكار و قلوب كو جذب كر ليتى تھيں ، ايك بہترين سياستدان تھيں جس كى وجہ سے لشكر عظيم كو كنٹرول كر ليتى تھيں ، ان كا عوام ميں اتنا اثر و رسوخ تھا كہ ايك اشارے پر لوگوں كو خليفہ وقت كے خلاف ايسا بھڑكا ديا كہ انھوں نے اسكى بساط حكومت كو پلٹ ديا _

۱۹۷

عائشه جاہ و حشم كى بھوكى عورت كا نام ہے جس كو حاصل كرنے ميں كسى چيز سے خوف نہيں كھايا تھا ، بلكہ كسى نہ كسى طرح اس كو حاصل كر كے رہيں ، انھوں نے اپنے چاہنے والوں كے ساتھ اتنا مہربانى كى كہ حد سے اگے بڑھ گئيں _

اپنے خاندان اور اپنے مخالفوں كى نسبت اتنى كينہ توز تھيں كہ ان كے دشمنوں سے مرنے مارنے پر اجاتى تھيں ، المختصر يہ كہ ايسى عورت تاريخ ميں ڈھونڈھنے سے بھى نہ ملے گى ، اگر كوئي بات اپنے خاندان يا چاہنے والوں كے حق ميں كہہ دى تو وہ سب كے زبان پر چڑھ جاتى تھى ، اور تاريخ كے صفحات ميں زندہ جاويد ہو جاتى تھى تاكہ لوگوں كے لئے مشعل راہ بن جائے اور انے والى پيڑياں انكى معرفت و شہرت سے پہچان ليں _

اگر كوئي بات اپنے دشمنوں كو شكست دينے كے لئے بيان كر دى تو تاريخ نے ہميشہ كےلئے اپنے دامن ميں جگہ ديدى ، يا يوں كہوں كہ اگر اس نے كسى كى حمايت يا مخالفت ميں كوئي بات كسى سے كہہ ڈالى تو يہ بات مسافروں و كاردانوں كے ذريعہ ايك دوسرے تك پہونچ جاتى تھى اور لوگ اس كو حديث سمجھ كر ايك شہر سے دوسرے شہر تحفہ سمجھ كرلے جاتے تھے اخر ميں يہ باتيں كتابوں ميں منتقل ہو گئيں اور انے والى نسلوں نے ان باتوں كو حديث كا نام دے ديا _

يہ تمام باتيں خود ام المومنين عائشه كى عظمت و منزلت كى بڑى دليليں ہيں ، ہم نے جب عائشه كے چہرے كو تاريخ كى حقيقت ميں ديكھا اور جن لوگوں نے ان كى ذات كو عظمت كے سانچے ميں ڈھال كے پيش كيا تو ان دونوں ميں بہت

۱۹۸

فرق پايا ، ليكن جن لوگوں نے ان كى عظمتوں كا گيت گايا ہے ان سے ميرى ايك درخواست ہے كہ عائشه كے بطن سے ايك رسول (ص) كا بيٹا دكھا ديجئے ، البتہ يہ دونوں فضيلتيں حقيقت سے كوسوں دور ہيں _

ہميں صدر اسلام كى شخصيتوں كى اپنى طرف سے تعريف نہيں كرنى چاہيئے ، كيونكہ ايسى صورت ميں مدح و ثنا ء ايك خيالى ہو كر رہ جائيگى جسكى كوئي حيثيت نہيں ہے ، ہمارى پيش كى ہوئي سارى باتيں حقيقت سے تعلق ركھتى ہيں _

زندگانى عائشه كى تحقيق كا مقصد ہم نے بارہا كہا اور اخر ميں پھر كہتا ہوں كہ ام المومنين عائشه نے اپنے مقاصد تك پہونچنے كے لئے دو زبردست چيزوں كا سہارا ليا تھا _

۱_ عائشه نے اپنى پورى زندگى ميں زوجہء رسول (ص) نيز ام المومنين كے لقب كا سہارا ليا اور اس سے اپنى طرف لوگوں كى توجہ مبذول كروائي ، اور اس موثر حربے كو استعمال كر كے اپنے مخالفوں كى زد و كوب كى اور اپنے چاہنے والوں كى ہمت افزائي كى _

۲_ وقت كى نزاكت كو ديكھتے ہوئے پيغمبر(ص) اسلام سے ان كى حديث نقل كى ، يا اپنى قابليت جھاڑنے كے لئے زوجيت كا فائدہ اٹھا كر جھوٹى حديثيں گڑھيں ، عائشه نے جن جگہوں پر رسول (ص) كى بيوى ہونے كے ناطے فائدہ اٹھايا ہے اس كو اس مختصر بحث ميں بيان كرنا بہت مشكل ہے ، ليكن نمونے كے طور پر دو تين حديثيں پيش كر رہا ہوں _

۱_ مسلم اپنى صحيح ميں نقل كرتے ہيں :

عائشه فرماتى ہيں : جب رسول خدا (ص) بستر مرگ پر تھے تو انھوں نے ہم سے فرمايا:

اے عائشه _ اپنے باپ ( ابو بكر )اور بھائي كو بلا لائو تاكہ ايك وصيت لكھدوں كيونكہ مجھے ڈر ہے كہ كہيں لوگ ارزو نہ كرنے لگيں اور كہنے والے يہ نہ كہنے لگيں كہ ميں خلافت كا زيادہ مستحق تھا ، درانحاليكہ ، خدا اور مومنين ابو بكر ہى كو چاہتے ہيں _

۲_ صحيح بخارى ميں ہے كہ : عائشه فرماتى ہيں ، جب رسول خدا (ص) پر مرض نے شدت پكڑلى تو عبد الرحمن بن ابو بكر سے فرمايا : ہڈى يا كوئي تختى لے ائو تاكہ ميں ابو بكر كے حق ميں نوشتہ لكھدوں تاكہ ميرے بعد كوئي اس ( ابوبكر ) سے خلافت كے

۱۹۹

سلسلے ميں جھگڑا كرنے نہ لگے ، عبد الرحمن ادھر تختى وغيرہ لينے گئے تو پيغمبر اسلام (ص) نے فرمايا :اے ابو بكر خدا اور مومنين تمھارے سلسلہ ميں تھوڑا سا بھى اختلاف نہيں ركھتے ہيں _

اپ نے ديكھا كہ عائشه نے ان دو حديثوں سے اپنے باپ كى حكومت و خلافت كو رسول (ص) كى بيمارى سے ملتے جلتے واقعات سے كس طرح ثابت كر ديا اور اپنے باپ كى خلافت كے لئے دو دليليں پيش كر ديں _

۳_ جب عائشه كے روابط عثمان سے مسالمت اميز تھے تو ان كى خوب مدد كى اور ان كى حكومت كى حمايت ميں بولتى رہيں ، اور زوجيت رسول (ص) سے فائدہ اٹھا تے ہوئے عثمان كے حق ميں ايك حديث بھى گڑھ ڈالى تھى ، جس كو صحيح مسلم نے عائشه سے نقل كيا ہے كہ :

ميں رسول (ص) كے ساتھ ايك چادر ميں ارام كر رہى تھى كہ ابو بكر اگئے ، پيغمبر(ص) اسلام نے انكو اندر بلا ليا ، پھر تھوڑى دير بعد عمر بن خطاب چلے آئے رسول(ص) اسلام نے انكو بھى اسى حالت ميں بلاليا ; ليكن جب حضرت عثمان آئے تو رسول خدا (ص) چادر سے باہر اگئے پھر عثمان كو گھر ميں بلايا ، جب عثمان چلے گئے تو ميں نے رسول(ص) اسلام سے سوال كيا كہ يا رسول(ص) اللہ جب ابو بكر اور عمر آئے تو اپ چادر كے اندر ليٹے رہے ليكن جب عثمان آئے تو اپنے كو چادر سے باہر كر ليا ، اس ميں كيا راز ہے ، پيغمبر(ص) اسلام نے فرمايا : چونكہ عثمان ايك شرم و حيا كا پيكر ہے لہذا ميں ڈرا كہ اگر اسى حالت ميں عثمان سے ملاقات كر ليتا تو وہ شدت شرم سے مجھ سے بات نہ كر پاتا _

۴_ صحيح مسلم نے اسى حديث كو دوسرى طرح سے عائشه كا يوں بيان نقل كيا ہے:

ايك دن پيغمبر(ص) اسلام ميرے ساتھ چادر اوڑھے ليٹے ہوئے تھے ، جيسے ہى عثمان آئے تو رسول (ص) نے مجھ سے كہا اے عائشه تم اپنا لباس وغيرہ ٹھيك كر لو ، ميں نے كہا ، يا رسول(ص) اللہ ، ابو بكر اور عمر كے انے پر اپ نے مجھ سے لباس ٹھيك كرنے كو نہيں كہا ليكن جب عثمان آئے تو اپنے ہوش و حواس كو كھو ديا نيز ان سے ملاقات كرنے كے لئے اپنے جسم پر لباس بھى پہن ليا _

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271