امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت28%

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت مؤلف:
زمرہ جات: امامت
صفحے: 271

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 271 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 114758 / ڈاؤنلوڈ: 4270
سائز سائز سائز
امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

امامت اورائمہ معصومین کی عصمت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

دستاویزات موجود ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ ۳ ۱ ھ کو جناب ابوبکر کی وفات کی خبر لشکر تک پہنچنے سے پہلے یا کم از کم ابوعبیدہ جراح کے اس خبر کو ظاہر کرنے سے پہلے دمشق فتح ہوگیا تھا_ اور اہل دمشق کے ساتھ مصالحت کرنے والے بھی اس وقت کے سردار لشکر خالد بن ولید ہی تھے_

حتی کہ اگر اس تحریر کی تاریخ ۱۵ ہجری بھی مان لی جائے تب بھی ہماری مدعا کے لئے نقصان دہ نہیں ہے_ تمام مورخین کا اتفاق ہے کہ حضرت عمر کی حکومت کا واقعہ اس کے بعد یعنی ۱۶ ھ یا ۱۷ ھ میں تھا_

ابوعبیدہ، ابن قتیبہ ، واقدی ، بلاذری(۱) اور دوسرے بہت سے حضرات نے تصریح کی ہے کہ صلح خالد کے ہاتھ پر ہوئی اور اس سے واضح ہے کہ صلح کے وقت لشکر کا امیر وہی تھا_

بلکہ واقدی کا کہناہے کہ ان کے ساتھ خالد کے صلح کرنے کی وجہ سے ابو عبیدہ اور خالد کے درمیان سخت تکرار اور مقابلہ بازی پیش آئی _اس سے ہمارے لئے واضح ہوجاتاہے کہ خالد اپنے موقف میں کس قدر سرسخت تھا اور ابوعبیدہ اس کے مقابلہ میں کس قدر کمزور(۲) _یہی چیز ہمارے اس نظریئےے ساتھ بہت زیادہ ہماہنگی رکھتی ہے کہ لشکر کی قیادت اس وقت خالد کے پاس تھی_

بلکہ بلاذری و غیرہ نے ذکر کیا ہے کہ ابوعبیدہ مشرقی دروازے پر تھا اور قہر و غلبہ سے شہر میں داخل ہوا تو شہر والے خالدکے پاس آئے اور اس سے صلح کرلی_ اس نے ان کے لئے تحریر لکھی اور انھوں نے اس کے لئے دروازہ کھول دیا پھر بلاذری نے ابی مخنف کے قول کو بھی نقل کیا ہے جو مذکورہ واقعہ کے بالکل برعکس ہے_ پھر اس کے بعد کہتاہے کہ پہلا قول نہایت مناسب ہے(۳) _

ہم بھی کہتے ہیں : کہ ہاں یہی قول درست ہے کیونکہ اکثر مورخین بھی اسی کے قائل ہیں، اس بحث کی ابتداء میں مذکور صلح نامہ کی عبارت اور دیگر دستاویزات بھی اس بات پر قطعی دلالت کرتی ہیں کہ اہل دمشق سے صلح کرنے والا خالد ہی تھا اور وہی امیر لشکر تھا_

____________________

۱) المعارف لابن قتیبة ص ۷۹ ط ۱۳۹۰ بیروت ، فتوح الشام ج/۱ ص ۵۸ ، ۵۹ ، فتوح البلدان ازص ۱۲۸ تا ص ۱۳۱ و دیگر کتب_

۲) فتوح الشام ج۱ ص ۵۸ ، ۶۰_ (۳) فتوح البلدان ص ۱۲۹ ، البدایة والنھایة ج/۷ ص ۲۱_

۶۱

البتہ خالد کی معزولی کا حکم مسلمانوں کو اس وقت پہنچا تھاجب وہ دمشق کا محاصرہ کئے ہوئے تھے تو ابوعبیدہ نے تقریباً بیس دن تک اسے مخفی رکھا یہاں تک کہ دمشق کو فتح کرلیا گیا تا کہ دشمن کے مقابلے پر ڈٹے رہنے والے مسلمانوں کو خالد کا مسئلہ کمزور نہ کردے(۱)

البتہ واقدی کہتاہے کہ دمشق کی فتح حضرت ابوبکر کی وفات والی رات ہوئی(۲) _

اور زینی دحلان کہتاہے : '' کہا گیا ہے کہ حضرت ابوبکر کی وفات کی خبر دمشق کی فتح کے بعد ۱۳ ھ میں آئی اورحضرت ابوبکر کی وفات اسی رات ہوئی جس رات مسلمان دمشق میں داخل ہوئے اور یہ ۲۲جمادی الثانی ۱۳ ھ کا واقعہ ہے _ اور جو قائل ہیں کہ وفات کی خبر دمشق کی فتح کے بعد آئی وہی افراد اس بات کے قائل ہیں کہ یرموک کا واقعہ فتح دمشق کے بعد پیش آیا(۳) _

اور ابن کثیر کہتاہے کہ '' سیف بن عمر کی عبارت کے سیاق سے ظاہر ہوتاہے کہ ۱۳ ھ میں دمشق فتح ہوا لیکن خود سیف عمومی نظریئے کے مطابق تصریح کرتے ہیں کہ ۱۵ رجب ۱۴ ھ کو دمشق فتح ہوا ''(۴) _

اورعبدالرحمن بن جبیر سے منقول ہے کہ ابوعبیدہ خود حضرت ابوبکر کو فتح دمشق کی خوشخبری دینے کے لئے گیا تھا لیکن حضرت ابوبکر پہلے ہی وفات پاچکے تھا او ر حضرت عمر نے اسے لشکر کا امیر بنادیا پھر جب وہ دمشق واپس آیا تو مسلمانوں نے یہ کہتے ہوئے اس کا استقبال کیا : '' ایسے شخص کو خوش آمدید جسے ہم نے قاصد بنا کر بھیجا تھا اور وہ ہم پر امیر بن کر واپس آیا ہے''(۵) _

بہرحال یہ صلح نامہ اور تمام گذشتہ دستاویزات گواہ ہیں کہ اکثر مؤرخین کے مطابق خالد نے ہی اہل شام سے صلح کی تھی اور ہم یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر فرض کریں کہ یہ تحریر ۱۵ ھ میں بھی لکھی گئی ہو یا یہ دوسری تحریر ہو تب بھی واضح طور پر دلالت کرتی ہے کہ تاریخ حضرت عمر کی خلافت سے پہلے مقرّر کی جاچکی تھی_

____________________

۱)البدایہ والنہایہ ج۷ ص ۲۳ و فتوح البلدان ص ۱۲۷ و ۱۲۹_

۲) فتوح الشام ج/۱ ص ۵۸ ، ص ۵۹_ (۳) الفتوحات الاسلامیة ج/۱ ص ۴۷_

۴) البدایة والنھایة ج/۷ ص ۲۲_ (۵) البدایة والنھایة ج/۱ ص ۲۴_

۶۲

رہی یہ بات کہ مؤرخین اور راویوں نے اس حقیقت سے روگردانی کیوں کی ؟شاید واقعات و حوادث کاپے درپے واقع ہونا اور ایک دوسرے کے نزدیک ہونا ان کے اشتباہ کا موجب بناہواور ان پر اچھا گما ن کرتے ہوئے (کیونکہ ان کے متعلق اچھا گمان ہی کیا جاسکتاہے) یہی کہہ سکتے ہیں کہ شاید وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ حضرت عمر کا دور حکومت عظیم فتوحات ا ور کشور کشائی کادور تھا اور فتح شام بھی چونکہ نہایت اہم معرکہ تھا اس لئے اسے بھی عمر کے دور حکومت میں ہونا چاہئے ، حضرت ابوبکر کے عہد میں نہیں_اور اسی طرح خالد کی شجاعت اور مختلف مواقع میں اس کی قوت و بہادری ثابت اور ظاہر کرناچاہتے تھے اور یہ بتانا چاہتے تھے کہ وہ بلا شرکت غیرے تلوار کا دھنی ہے _ پس اس کا شام پر غلبہ حاصل کرنا ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ شامیوں سے مصالحت کرنے والا کوئی اور ہو چاہے یہ معاملہ جھوٹ اور مکرو فریب سے ہی حل ہوا ہو _ لیکن کیا یہ مذکورہ باتیں ہی ان لوگوں کی حقیقت سے روگردانی کا حقیقی سبب ہیں _ مجھے تو نہیں معلوم لیکن شاید ذہین و فطین قارئین کو اس کا علم ہوگا_

۸_ سیوطی نے ابن القماح کے ہاتھ سے تحریر شدہ مجموعہ سے ایک بات نقل کی ہے جس میں مذکور ہے کہ ابن الصلاح نے کہا ہے : ''ابوطاہر محمد بن محمش الزیادی نے تاریخ الشروط میں ذکر کیا ہے کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب نجران کے نصاری کے لئے تحریر لکھی اس میں ہجرت کی تاریخ قلمبند فرمائی اور علیعليه‌السلام کو حکم دیا کہ یہ عبارت لکھیں '' انہ کتب لخمس من الھجرة'' کہ ہجرت کے پانچویں سال میں لکھی گئی ہے''_ (پھر ) کہتاہے ''ہجرت کے ساتھ تاریخ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اجازت سے لکھی گئی اور تاریخ لکھنے میں حضرت عمر نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی کی ہے''(۱)

اسی طرح سیوطی کہتاہے '' کہا جاتاہے یہ بات صداقت رکھتی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجرت کے پانچویں برس تاریخ لکھی اور پہلی حدیث ( زھری کی گذشتہ روایت) میں تھا کہ ''آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ پہنچنے کے دن تاریخ لکھی '' اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ان دونوں میں کوئی منافات نہیں چونکہ ظرف (یوم قدم المدینة ) فعل (امر)

____________________

۱)الشماریخ فی علم التاریخ، سیوطی ص ۱۰ نیز التراتیب الاداریہ ج ۱ ص ۱۸۱_

۶۳

سے متعلق نہیں بلکہ مصدر ( التاریخ) سے متعلق ہے تو اصل عبارت اس طرح ہوگی _امربان یورخ بذلک الیوم لا ان الامر کان فی ذلک الیوم یعنی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا کہ اس دن سے تاریخ لکھی جائے نہ یہ کہ یہ فرمان اس دن جاری ہوا'' (یعنی ہوسکتاہے کہ پانچ ہجری کو حکم دیا ہو کہ مدینہ تشریف آوری سے تاریخ شمار کی جائے _از مترجم)(۱) یہ سیوطی کا کلام ہے_

لیکن اس سے واضح تر جواب یہ ہے کہ آپ نے مدینہ پہنچتے ہی تاریخ لکھنے کا حکم دیا اور ربیع الاول کو مبداء قرار دیا اور خودنبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب ۵ میں نجران کے نصرانیوں کے لئے تحریر لکھی تو اس وقت اسی تاریخ سے استفادہ کیا_

بہر حال سخاوی کہتاہے کہ '' اگر یہ بات ثابت ہوجائے تو عمر پیروی کرنے والا ہوگا پہل کرنے والا نہیں''(۲) _

اور عباس مکی کہتاہے کہ '' تاریخ ایک گذشتہ سنت اور پسندیدہ طریقہ ہے کہ جس کا حکم رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نجران کے نصاری کی طرف نامہ لکھتے ہوئے دیا تھا _آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علیعليه‌السلام کو حکم دیا کہ اس میں لکھیں (کتب لخمس من الہجرة)(۳) _پھر ابن شہاب کی گذشتہ روایت نقل کی ہے_

۹_ صحیفہ سجادیہ کی خبر سے ظاہر ہوتاہے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کو تاریخ کا مبدا قرار دینااللہ جلّ شانہ کی منشاء کے مطابق تھاکیونکہ حدیث میں آیاہے کہ جبرائیلعليه‌السلام نے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا کہ '' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت سے اسلام کی چکی چلے گی اور دس سال تک چلتی رہے گی اور ہجرت سے پینتیس (۳۵) برس بعد پھراسلام کی چکی چلے گی اور پانچ سال تک چلتی رہے گی''(۴) _

____________________

۱)الشماریخ فی علم التاریخ ص ۱۰ ، التراتیب الاداریة ج۱ ، ص ۱۸۱_

۲) التراتیب الاداریة ج/۱ ص ۱۸۱_

۳) نرھة الجلیس ج/۱ص ۲۱_

۴) البحار ج/۵۸ ص ۳۵۱ (البتہ صفحات کی تصحیح کرنے کے بعد) سفینة البحار ج/۲ ص ۶۴۱ ، الصحیفة السجادیة ص ۱۰ ، البتہ یہ روایت کئی اور اسناد سے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم سے بھی وارد ہوئی ہے جنہیں البدایة والنھایة ج۶ ص۲۰۶ ، ۲۰۷ ، ج/۷ ص ۲۱۹ ، ۲۷۵ ، ص ۲۷۶ ، میں ذکر کیا گیا ہے نیز ملاحظہ ہو سنن ابی داؤد مطبوعہ دار الکتاب العربی ج۴ ص ۱۵۹ ، ص ۱۶۰_ و دیگر کتب

۶۴

۱۰ _ ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :''میری ہجرت کے ساٹھ (سال) پورے ہونے پر حسینعليه‌السلام بن علیعليه‌السلام کو شہید کیا جائے گا''(۱) _

۱۱ _ انس سے ایک روایت منقول ہے کہ اس نے کہا :' ' نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب نے ہمارے لئے روایت بیان کی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ ہجرت کے (۱۰۰) سال پورے ہونے تک تم میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا''_(۲)

۱۲_ ڈاکٹر سعاد ماہر محمد نے اپنے رسالے (مشہدالامام علیعليه‌السلام فی النجف الاشرف) ص ۱۰۴، ص ۱۰۵ میں اہل حیرہ کے لئے خالد بن ولید کی لکھی ہوئی تحریر کا متن درج کیا ہے اور اس کے آخر میں یہ عبارت ہے ( اور اگر انہوں نے فعل یا قول کے ساتھ بدعہدی اور خیانت کی تو ہم ان سے بری الذمہ ہوں گے اور ( یہ تحریر) ۱۲ ھ ماہ ربیع الاول میں لکھی گئی) _

اور یہ بات واضح ہے حیرہ کی فتح خالد کے ہاتھوں حضرت ابوبکر کے دور میں ہوئی تھی اس کا معنی یہ ہے کہ تاریخ حضرت عمر کی خلافت سے بھی پہلے وضع کی جاچکی تھی اور اس سے پہلے سے ہی استعمال بھی ہورہی تھی پس کس طرح حضرت عمر نے ۱۶ ھ میں تاریخ معین کی ؟اور سھیلی و ابن عباس و غیرہ کے کلام سے مذکورہ بات کی تائید ممکن ہے_

۱۳_ حافظ عبدالرزاق نے ابوھریرہ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا: ''ہلاکت ہے عربوں کے لئے اس بدبختی سے جو ساٹھ سال پورے ہونے پر آئے گی _جب امانت کو غنیمت سمجھا جائے گا ...''(۳) _

۱۴_ اسی طرح عبدالرزاق نے ہی ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا :''جب پینتیس برس

____________________

۱) مجمع الزوائد ج۹ ص۱۹۰عن الطبری اوراس کی سند میں کوئی اعتراض نہیں مگر سعد بن طریف میں اور وہ بھی خود ان کی تصریح کے مطابق اس کے شیعہ ہونے کی وجہ سے ہے تاریخ بغدادج/۱ص۱۴۲، الالمام ج/۵ص ۲۹۹، کنزالعمال ج/۱۳ص۱۱۳ط حیدرآباد،میزان الاعتدال ج/۱ص۲۱۲عن الطبرانی وا لخطیب و ابن عساکر ،منتخب کنز العمال (حاشیہ مسنداحمد)ج/۵ ص۱۱۱، مقتل الحسین خوارزمی ج/۱ ص ۱۶۱ ، احقاق الحق ج/۱۱ ص ۳۵۴ از گذشتہ بعض و از مفتاح النجا ص ۱۳۶ قلمی نیز از امعجم الکبیر طبرانی، زندگینامہ امام حسینعليه‌السلام از تاریخ دمشق با تحقیق محمودی ص ۱۸۵_

۲) مجمع الزوائدج/۱ص ۱۹۷ ، عن ابی یعلی ، یہ روایت مختلف الفاظ اور مختلف اسناد سے نقل کی گئی ہے ، لیکن ان میں لفظ ( من الہجرة) نہیں ہے_

۳)مصنف عبدالرزاق ج/۱۱ ص ۳۷۳ و ۳۷۵_

۶۵

پورے ہوں گے تو ایک امر عظیم حادث ہوگا پس اگر تم ہلاک ہوگئے تو اس کے لائق ہو گے اور اگر نجات پاگئے تو اس کی امید ہے اور جب ستر برس پورے ہوں گے تو تم انوکھی چیزیں دیکھوگے(۱) _

ابن مسعوداور ابوہریرہ نے اس کا علم نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حاصل کیا ہے کیونکہ یہ غیب گوئی ہے اور یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ خود نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجری تاریخ مقر ر فرمائی _

۱۵_ ایک حدیث جس کے راوی موثق ہیں یہ ہے کہ : ہم ساٹھ ہجری سال کے پورے ہونے سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں ایک اور روایت میں ہے کہ ۶۰ ھ اور بچوں کی فرمانروائی سے(۲) _

ابوہریرہ سے مروی ہے : '' خدایا مجھے ۶۰ ھ اور بچوں کی حکومت دیکھنا نصیب نہ کر''(۳) _

۱۶_ مالک نے نافع سے اور اس نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ جب ایک سوستر سال پورے ہوجائیں تو جدّہ میں رہائشے پذیر ہونا بہترین اقامت اختیار کرنے میں سے ہوگا(۴) _

خلاصہ بحث:

گذشتہ امور سے واضح ہوجاتاہے کہ لوگوں کے درمیان مشہور یہ بات کہ حضرت عمر نے اسلامی ہجری تاریخ کی بنیاد رکھی، ناقابل قبول ، بلا دلیل اور بے بنیاد ہے_ البتہ حضرت عمر کے دور میں صرف یہ ہوا کہ ربیع الاّول کی بجائے محرم کو ہجری سال کا مبدا قرار دیا گیا اورایسا انہوں نے یا توخود کیا تھا یا حضرت عثمان کے مشورہ سے _ جبکہ محرم ( جیسا کہ سب کو معلوم ہے) زمانہ جاہلیت میں سال کا مبداء شمار ہوتا تھا(۵) _ بعید نہیں کہ ہجری تاریخ جسے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مقرر فرمائی تھی اور کئی بار لکھی بھی تھی،اس زمانہ میں تاریخ کی ضرورت کم ہونے کی وجہ سے لوگوں میں مشہور نہ ہوسکی ہو اور پھر حضرت عمر نے صحابہ کو اکٹھا کیا ہو تا کہ تاریخ

____________________

۱)مصنف عبدالرزاق ج/۱۱ ص ۳۷۳ و ۳۷۵_ (۲) تطہیر الجنان واللسان ص ۶۶ ۱۳۷۰ نیز کنز العمال ج۱۱ ص ۱۱۳_

۳)الاتحاف بحبّ الاشراف ص ۶۵ از ابن ابی شیبہ و غیرہ _ (۴) لسان المیزان ج/۲ ص ۷۹_

۵)البدایة والنہایہ ج۳ ص ۲۰۶ و ص ۲۰۷ نیز السیرة النبویة ابن کثیر ج۲ ص ۲۸۸ و ۲۸۹_

۶۶

پر اتفاق حاصل ہوجائے(۱) لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے کہ جن کی غرض یہ تھی کہ جس تاریخ کا نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا تھا اور جس تاریخ کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مقرر فرمایا تھا اس کو طاق نسیان میں رکھ دیا جائے _ اس لئے کہ فلاں آدمی رومی تاریخ کا مشورہ دے رہا تھا، یہود یت سے اسلام لانے والے کچھ مسلمان ایسی تاریخ کا مشورہ دیتے ہیں جو سکندر اورہر مزان کے دورکی طرف لوٹتی ہے اور ان لوگوںسے حضرت عمر یہ مشورے لے رہے تھے حالانکہ حضرت عمر ایرانیوں سے شدید نفرت کرتے تھے لیکن پھر بھی وہ لوگ اسے ایرانی تاریخ کا مشورہ دیتے ہیں کہ جب کوئی بادشاہ ہلاک ہوجاتا تو وہ نئے بادشاہ کی تاج پوشی کے دن سے تاریخ کی ابتدا کرتے تھے_ (یعنی ...؟) کوئی مولد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یعنی عام الفیل کو تاریخ کا مبداء قرار دینے کا مشورہ دیتاہے واضح رہے کہ زمانہ جاہلیت کے آخری سالوں میں عرب عام الفیل سے تاریخ لکھتے تھے_ اور مسعودی کے الفاظ کے مطابق:

(و کثر منهم القول و طال الخطب فی تواریخ الاعاجم و غیرها) (۲)

عجمیوں و غیرہ کی تاریخوں میں ان کے درمیان اقوال زیادہ ہوگئے اور بحث لمبی ہوگئی_

یعنی جتنے منہ اتنی باتیں ہوئیں تو محافظ دین اورحق کے علمبردار حضرت علیعليه‌السلام نے مناسب وقت میں اس ہجری تاریخ کا اعلان کیا جسے خود رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مقرّر فرمایا تھا اور خود انہوں نے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اکرم کی حیات طیبہ میں متعدد خطوط اور معاہدوں میں لکھا تھا_

آپعليه‌السلام کی رائے اور نظریہ کو قبول کرنے اور آپعليه‌السلام کے مشورہ کو دل و جان سے مان لینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کیونکہ یہ حق ہے''والحق یعلو ولا یعلی علیه '' _نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے یوم ولادت و رحلت کی بجائے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کو تاریخ کا مبداء قرار دینے کی وجہ ارض شرک سے (جہاں ذلت، گمراہی اور پستی تھی) ارض

____________________

۱) علامہ محقق سید مہدی روحانی نے اپنے مقالہ میں یہ احتمال دیا ہے اور یہ مقالہ ما ہنامہ '' الھادی'' سال اول شمارہ نمبر ۴ ص ۴۸ میں شائع ہوا ہے_

۲) التنبیہ الاشراف ص ۲۵۲_

۶۷

اسلام کی طرف (جہاں عزت ، شرافت اور سربلندی تھی) ہجرت کی اہمیت تھی اور انسانیت اور تاریخ کی تشکیل کے اعتبار سے یہ چیز نہایت اہمیت کی حامل ہے_ اسی طرح آپعليه‌السلام نے اس عمل سے ہرذلت آمیز رائے اور ظالم و جابر اور طاغوتی حکمرانوں سے وابستہ واقعات کو تاریخ کا مبداء قرار دینے سے اجتناب کیا _ اور بہتی گنگا کی لہروں کا دھارا بننے سے بھی پرہیز کیا جبکہ عام لوگوں میں یہ چیز عام ہوتی ہے اور ان کی رگ و پے میں خون اور زندگی کی طرح گردش کررہی ہوتی ہے_

پھر عیسوی تاریخ کیوں؟

اس کے بعد ہم یہاں نہایت افسوس اور گہرے ملال سے یہ لکھنے پر مجبور ہیں کہ اہل مغرب اور غیر مسلم تواپنی تاریخ، تمدن اور واقعات کی حفاظت کرتے ہیں _ اور خواہ وہ کتنے ہی حقیر اور بے اہمیت ہوں کسی طر ح بھی ان سے دستبردار نہیں ہوتے بلکہ انہیں پھیلانے اور دوسری قوموں میں انہیں ترویج دینے اور راسخ کرنے کے درپے ہوتے ہیں _ حتی کہ اسلامی واقعات اور تاریخ کو لکھنا چاہتے ہیں تو ہجری تاریخ کو عیسوی تاریخ سے بدل کر لکھنے پر اصرار کرتے ہیں خواہ ایسا کرنے سے کتنے ہی حقائق مسخ ہوجائیں اور ان میں اشتباہ و غلطی ہوجائے_

لیکن دوسری طرف ہم ترقی ، ترقی یافتہ اور تہذیب و ثقافت و غیرہ جیسے بے وزن اور خوشنما الفاظ اور نعروں کا فریب کھاکے اپنی بہت سی بنیادی اور اساسی چیزوں سے بآسانی دستبردار ہوجاتے ہیں حالانکہ ان نعروں کے پس پردہ ہزاروں خطرات اور بربادیاں چھپی ہوئی ہوتی ہیں _ حتی کہ بعض اسلامی ممالک نے تو عربی رسم الخط کو چھوڑ کر لاطینی اور انگریزی رسم الخط کو اپنا لیا ہے _ بلکہ اپنے رنگ ڈھنگ اور لباس جیسے حیاتی اور ضروری امور کو چھوڑ کر غیروں کے اقدار اپنالئے ہیں_ بالکل یہی صورتحال ہجری تاریخ کے متعلق بھی ہے_

ہم نے کس سہولت سے ہجری تاریخ کو چھوڑ دیا ہے جب کہ یہ ہماری عزت و سربلندی کا سرچشمہ تھی

۶۸

اس سے ہماری تاریخ اور ثقافت قائم تھی ہم نے اس کی جگہ عیسوی تاریخ کو اپنا لیا جو تقریباً چوتھی صدی ہجری میںیعنی اسلامی ہجری تاریخ کے وضع ہونے کے بہت عرصہ بعد ظاہر ہوئی عیسائی حضرت عیسیعليه‌السلام کی ولادت کے دن سے نہیں بلکہ ان کے آسمان کی طرف اٹھائے جانے کے دن سے اپنی تاریخ لکھتے ہیں _(۱) بلکہ ایک اور دستاویز کے مطابق جناب سکندر ذوالقرنین کے دور سے اپنی تاریخ لکھتے ہیں(۲) حتی کہ ابن العبری نے بھی ( جو عیسائیوں کے بہت بڑے پادری شمار ہوتے تھے اور کارڈینال کے درجہ کے برابر ان کا رتبہ تھا اور ۶۸۵ ہجری کو فوت ہوئے انہوں نے بھی) اپنی کتاب میں عیسوی تاریخ کبھی نہیں لکھی بلکہ کئی مقامات پر تاریخ سکندری سے کتاب کو مزین کیا _ پس اگر اس وقت عیسوی تاریخ عام اور معروف ہوتی تو وہ اس سے ہرگز روگردانی نہ کرتے_ اسی طرح ۹۰۲ ہجری کو وفات پانے والے سخاوی کے کلام سے بھی ظاہر ہوتاہے کہ دسویں صدی ہجری کے اوائل تک بھی میلاد مسیح کی تاریخ رائج نہیں تھی_

لیکن بہت سی ایسی حکومتیں ہمارے سامنے ہیں جو اپنے آپ کو اسلامی حکومت کے نام سے یاد کرتی ہیں اور بہت سی قومیں جو خود کو اسلام سے منسوب کرتی ہیں انہوں نے صرف عیسوی تاریخ کو اپنا رکھاہے فارسی اور رومی تاریخ کو بھی نہیں اپنایا ہاں انہوں نے صرف تمدن و ترقی کے نام پر اور اس قسم کے دلکش اور پرفریب نعروں کی وجہ سے عیسوی تایخ کو محور نظام بنایا جبکہ اپنی عظمت و سربلندی کی اساس ،تاریخ اور ثقافت کو چھوڑ دیا ہے اس طرح بہت سے عظیم اور اہم امور سے دستبردار ہوچکے ہیں جب کہ ان سے پیچھے ہٹنا نہایت دشوار اور خطرناک ہے_

نکتہ:

ایک روایت کے مطابق حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام سے پوچھا گیا کہ عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت عیسیعليه‌السلام کی ولادت کانون (رومی مہینہ) کی چوبیس تاریخ کو ہے (آپعليه‌السلام کیا فرماتے ہیں ؟) جس پر آپعليه‌السلام نے فرمایا: '' وہ

____________________

۱)الاعلان بالتوبیخ لمن یذم التاریخ ص ۸۳ _

۲)نزہة الجلیس ج۱ ص ۲۲ نیز ملاحظہ ہو کنز العمال ج ۱۰ ص ۱۹۵ از مستدرک و از کتاب الادب صحیح بخاری_

۶۹

جھوٹ کہتے ہیں بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ولادت حزیران (رومی مہینہ) کے نصف میں ہوئی جو گردش ایام کے حساب سے آذر (فارسی مہینہ) کا بھی نصف بنتاہے''(۱) ( جس سے معلوم ہوتاہے کہ فارسی اور رومی مہینے، عیسوی مہینوں سے پہلے اور معروف تھے کہ عیسائی حضرت عیسیعليه‌السلام کی پیدائشے کو ان تاریخوں سے مطابقت دے رہے ہیں _ اور یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ وہ صحیح مطابقت نہیں دے پائے_ از مترجم)

مخلصانہ اپیل

ہم امت مسلمہ کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنے امور اور تقویم ( کیلنڈروں ) میںہجری تاریخ کو اپنائیں چونکہ اس طرح ان کا ماضی ان کے حال سے متصل ہوجائے گا اور یہی چیز انہیں ان کی عزت و سربلندی کا راز یاد دلائے گی اور یہی وہ دین ہے جسے اللہ تعالی نے ان کے لئے اور تمام انسانیت کے لئے اختیار فرمایا ہے_ علاوہ ازیں اگر فرض کریں کہ تاریخ کا مبداء بڑے اور عظیم واقعات ہونے چاہئیں تو پھر کونسا واقعہ نبی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے ظہور سے عظیم تر ہے اور کونسا بڑا واقعہ اس عظیم واقعہ کی برابری کرسکتاہے_

علامہ مجلسی (رہ) کا کہنا ہے : (ہجری تاریخ کو اپنانے کی) اصلی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ یہ (ہجرت) اسلام اور مسلمانوں کے غلبہ کا ابتدائیہ، دینی احکام کے ظہور کا افتتاحیہ، مشرکوں کی قید سے مسلمانوں کی رہائی کی شروعات اور ہجرت کے بعد دین مبین کے قواعد کی تاسیس جیسے دوسرے اہم کاموں کا ابتدائیہ تھی''(۲) _

میں امت اسلامی خصوصاً عربوں سے گزارش کرتاہوں اگر ہم دینی لحاظ سے بھی اس سے صرف نظر کرلیں تب بھی عرب ہونے کے ناطے اس کو اہمیت دینی چاہئے اور اس مقام پر انہیں سید الشہداء امام حسینعليه‌السلام

____________________

۱)بحارالانوار ج۷۵ ص ۳۶ ، تحف العقول ، مختصر التاریخ ابن کازروفی ص ۶۷ اور مروج الذہب ج۲ ص۱۷۹ و ص ۱۸۰_

۲)بحارالانوار ج۸۵ ص ۳۵۱_

۷۰

کا بہترین قول یاد دلاتاہوں کہ آپعليه‌السلام نے فرمایا:

(ان لم یکن لکم دین و کنتم لا تخافون المعاد فکونوا احراراً فی دنیاکم هذه و ارجعوا الی احسابکم ان کنتم عرباً کما تزعمون )(۱)

اگر تم کسی دین کے قائل نہیں اور قیامت کا خوف نہیں رکھتے تو کم از کم اپنی اس دنیا کے معاملے میں تو آزاد رہو اور اپنے آبا ء و اجداد کے محاسن ومفاخر کو مدّنظر رکھو اگر تم اپنے آپ کوعرب سمجھتے ہو_

بارگاہ رب العزت میں دعا ہے کہ وہ انہیں ان کا بہترین منشور عطا فرمائے او ر اپنی عقول و ضمائرسے راہنمائی حاصل کرنے والوں میںقرار دے_

اگروہ ہر چیز میں دوسروں کی تقلید کرنا چاہتے ہیں تو اس معاملے میں بھی ان کی تقلید کریں یعنی دوسروں کی تقلید اس طرح کریں کہ ہم اپنے عظیم تمدن اور اعلی روایات سے دستبردار نہ ہونے پائیں تا کہ دوسروں کے دست نگر نہ ہوں اور ایسی چیزیں اخذ نہ کریں جن کا نقصان ان کے فائدے سے زیادہ ہو_

''قل هذا سبیلی ادعوا الی الله علی بصیرة اناومن اتبعنی''

۲_ مدینہ میں مسجد کی تعمیر :

مسجد والی جگہ یا تو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خریدی تھی یا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہدیہ کی گئی تھی ، اس بارے میں کہا جاتاہے کہ اس جگہ قبیلہ خزرج کے دو یتیم بچوں کے اونٹوں کا باڑہ تھا اور وہ بچے اسعد بن زرارہ یا کسی اور شخص کے زیر کفالت تھے، ایک قول کے مطابق آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ جگہ دس دینار میں خریدی _

وہاں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسجد کی بنیاد رکھی، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہ نفس نفیس اپنے اصحاب کے ساتھ مل کر(مدینہ کے

____________________

۱)اللہوف ص۵۰ نیز مقتل الحسین مقرم ص ۳۳۵ ازلہوف_

۷۱

مضافات میں) سیاہ پتھروں پر مشتمل ''حرّہ'' نامی زمین سے پتھر اٹھاکر لاتے تھے، اس کام میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شرکت کی وجہ سے اصحاب اور زیادہ کوشش اورتگ و دو سے کام کرتے تھے، یہاں تک کہ ان میں سے ایک نے یہ شعر پڑھا_

لئن قعدنا و النبی یعمل

لذاک منا العمل المضلل

(اگر ہم آرام سے بیٹھ جائیں اور رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کام میں مشغول رہیں ( تو یہ درست نہیں) لہذا ہم اسی وجہ سے سخت طاقت فرسا کام میں مصروف ہیں)_

مسجد کی تعمیر کے وقت مسلمین یہ رجز پڑھ رہے تھے_

لا عیش الا عیش الآخرة

اللّهم ارحم الانصار والمهاجرة

(زندگی تو صرف آخرت اور جنت کی ہی زندگی ہے، خدایا انصار و مہاجرین پر رحم فرما)

اور اسطرح کے دیگر اشعار(۱) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسجد کا طول و عرض تقریباً سوسو ذراع (ہاتھ)قرار دیا(۲) ایک اور قول کے مطابق طول ستر ذراع (ہاتھ)(۳) اور عرض ساٹھ ذراع قرار دیا(۴) ، احتمال ہے کہ یہ دونوں قول صحیح ہوں اور وہ اس طرح کہ پہلی دفعہ تعمیر کرتے وقت آپ نے لمبائی میں ستر اور چوڑائی میں ساٹھ ذراع پر بنیادیں رکھی ہوں جبکہ تعمیر نو کے وقت اس میں توسیع کردی ہو(۵) _

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسجد کے اطراف میں اپنے اور اپنے اصحاب کے گھر بنائے شروع میں ہر گھر کا دروازہ مسجد کے صحن کی طرف کھلتا تھا لیکن بعد میں امیر المؤمنین علیعليه‌السلام کے گھر کے علاوہ باقی تمام دروازے بند کردیئے گئے ، انشاء اللہ بعد میں ہم اس بات کی زیادہ وضاحت کریں گے _ آگے بڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم یہاں مؤرخین کے بعض اقوال کا جائزہ لیں_

____________________

۱) السیرة الحلبیة ج۲ص ۶۵ ص ۶۴ و ۶۷ و ۷۱_ (۲)یعنی تقریباً ۹۱ میٹر سے کچھ زیادہ طول اور اتنا ہی عرض (مترجم)

۳)یعنی تقریباً ۶۷ میٹر کے لگ بھگ (مترجم) (۴)یعنی تقریباً ۴۹ میٹر سے کچھ کم (مترجم)

۵)وفاء الوفاء ج۱ ص ۳۴۰ اور اس کے بعد _ نیز ملاحظہ ہو: تاریخ الخمیس ج۱ ص ۳۶۵ و ۳۶۶ اور التراتیب الاداریہ ج۲ ص ۷۷_

۷۲

الف: حضرت ابوبکر اوردس دینار:

اہل سنت مؤرخین نے لکھا ہے کہ مسجد کی جگہ کو خریدنے کیلئے حضرت ابوبکر نے دس دینار ادا کئے(۱) _

لیکن ہماری نظر میں یہ بات مشکوک ہے اس لئے کہ :

اولاً: حضرت ابوبکر کی مالی حالت اس قدر مستحکم نہ تھی کہ وہ یہ رقم ادا کرسکتے، اگر فرض کریں کہ ان کی مالی حالت بہتر تھی تب بھی ہمیں شک ہے کہ انہوں نے یہ قدم اٹھایا ہو اور اس کی دلیل ہم واقعہ غار میں ذکر کرچکے ہیں_

ثانیاً:اگر یہ بات مان بھی لی جائے تو بھی اس کے برعکس کچھ اور روایات بھی موجود ہیں _ جن میں سے ایک روایت کے مطابق اسعد بن زرارہ نے اس زمین کے بدلے میںبنی بیاضہ میں اپنا کھجور کا ایک درخت ان یتیموں کو دیا تھا، جبکہ دوسری روایت میں آیاہے کہ ابوایوب نے کسی طرح انہیں راضی کیا تھا اور تیسری روایت کے بقول معاذ بن عفراء نے یہ کام انجام دیا تھا(۲) _

بعض مؤرخین نے احتمال دیا ہے کہ ممکن ہے حضرت ابوبکر نے زمین کی قیمت ادا کی ہو جبکہ بعض دیگر صحابہ نے محض اجر و ثواب اور نیکی کے طور پر زمین کی اصل قیمت کے علاوہ ان یتیموں کو یہ سب کچھ دیا ہو(۳) _

لیکن یہ احتمال بھی دیا جاسکتاہے کہ دیگر صحابہ نے زمین کی اصل قیمت ادا کی ہو اور حضرت ابوبکر نے صلہ و نیکی کے طور پر کچھ رقم ادا کی ہو، اس طرح پہلے احتمال کو اس دوسرے احتمال پر ترجیح نہیں دی جاسکتی ، علاوہ ازیں یہ احتمال روایت میں موجود کلمہ ''عوضھما'' کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا اس لئے کہ اس کلمے سے واضح ہوتاہے کہ ایک تو یہ چیز زمین کی قیمت تھی اور دوسرا وہ رقم اس زمین کے بدلے میں تھی نیکی اور صدقہ کے طور پر نہیں تھی_

ثالثاً : صحیح بخاری و غیرہ میں لکھا ہے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک شخص کو بنی نجار کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا

____________________

۱)سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۶۵_

۲) البدایة و النہایةج ۳ص۳۱۵ ، وفاء الوفاء ج۱ص۳۲۳ و ص ۳۲۴، (روایت ابن حجر) ، السیرة الحلبیة ج ۲ص ۶۵_

۳) السیرة الحلبیة ج۲ص ۶۵ ، وفاء الوفاء ج۱ص ۳۲۳ ، ۳۲۴_

۷۳

کہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس زمین کے محدودے کی قیمت طے کریں_ تو انہوں نے جواب دیا :'' قسم بخدا ہم خدا کے علاوہ کسی اور سے اس زمین کی قیمت وصول نہیں کریں گے''(۱) _

ب: پتھراور خلافت

حاکم نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ مسجد کیلئے سب سے پہلا پتھر خود رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اٹھاکر لائے تھے پھر دوسرا پتھر حضرت ابوبکر (تیسرا حضرت عمر(۲) )اور چوتھا حضرت عثمان اٹھاکر لائے ، حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ یہ دیکھ کر میں نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عرض کی : ''کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کی طر ف نہیں دیکھتے کہ یہ کس طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کررہے ہیں ''؟ تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : ''اے عائشہ ، میرے بعد یہ میرے خلیفہ ہوں گے ''یہ حدیث شیخین کے معیار کے مطابق صحیح ہے لیکن خود انہوں نے اسے ذکر نہیں کیا(۳) _

اس روایت کے الفاظ میں موجود تضاد و تناقض کے علاوہ درج ذیل امور کی بنا پر اس حدیث کا صحیح ہونا ہرگز ممکن نہیں_

اولاً : ذہبی اس حدیث کی سند کو ضعیف قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں : اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو یہ تینوں خلفاء کی خلافت پر نصّ ہوتی جبکہ یہ کسی طرح بھی صحیح نہیں ، اس لئے کہ حضرت عائشہ اس وقت ایک کم سن پردہ نشین بچی تھیں اور ابھی رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہی نہیں ہوئی تھیں ، پس ان سے اس حدیث کو منسوب کرنا، اس حدیث کے جھوٹے ہونے پر دلالت کرتاہے(۴) _البتہ ہم ان کے کم سن ہونے والی بات پر اپنی رائے محفوظ رکھتے ہیں_

ابن کثیر کہتے ہیں : ''اس سیاق و سباق کے ساتھ یہ حدیث بالکل عجیب وغریب ہے''(۵) _

____________________

۱) صحیح البخاری ج۱ص ۵۷ ، تاریخ الطبری ج۲ص ۱۱۶ ، الکامل لابن اثیرج ۲ ص۱۱۰ وفاء الوفاء ج ۱ص ۳۲۳ _ نیز التراتیب الاداریہ ج۲ ص ۷۷_

۲) حضرت عمر کا ذکر صرف تلخیص المستدرک کی روایت میں ہوا ہے_

۳) مستدرک الحاکم ج۳ص۹۶ ، ۹۷ ، وفاء الوفاج ۱ص۳۳۲ ، ۳۳۳ ، ۳۵۱ ، البدایة والنہایة ج۳ ص ۲۱۸ ، اورج ۶ص ۲۰۴ ( انہوں نے وضاحت کی ہے کہ یہ واقعہ مسجدمدینہ کی تعمیر کے وقت پیش آیا) السیرة الحلبیةج ۲ص ۵۶ ، ۶۶ ، تاریخ الخمیس ج۱ص ۳۴۴ ، ۳۴۳ نیز دلائل النبوة بیہقی ج۲ ص ۲۷۲_

۴) تلخیص المستدرک ذہبی ج ۳ص ۹۷ ( مستدرک الحاکم ج۳ ص ۹۷کے حاشیے پرمطبوع )_ (۵) البدایة والنہایة ج۳ص ۲۱۸ _

۷۴

ثانیاً:حدیث سفینہ پر اشکال و اعتراض کرتے ہوئے بخاری نے '' خلافت اور پتھر'' کی حدیث(۱) کے بارے اپنی تاریخ میںلکھا ہے :_

ابن حبان نے اس حدیث کو قبول نہیں کیا کیونکہ حضرت عمر ، حضرت عثمان اور حضرت علیعليه‌السلام ( البتہ یہ انہی لوگوں کے الفاظ ہیں)کہا کرتے تھے : '' نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کسی شخص کو اپنا خلیفہ مقرر نہیں کیا ''(۲) _

یہاں بخاری یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس لحاظ سے یہ حدیث خود اہل سنت کے اس عقیدے سے بھی تضاد رکھتی ہے کہ جس کے مطابق رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نہ تو کسی شخص کو اپنے بعد خلیفہ مقرر کیا تھا اور نہ ہی خلافت کے بارے میں کوئی وضاحت فرمائی تھی ، اور اسی بناپر اہل سنت حضرت ابوبکر کے ہاتھ آنے والی خلافت کو درست قرار دیتے ہیں_ بلکہ حضرت عائشہ سے یہ روایت بھی منقول ہے : '' اگر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی شخص کو اپنا خلیفہ مقرر فرماتے تو (میرے خیال میں) ضرورحضرت ابوبکر و حضرت عمرکوہی خلیفہ مقرر فرماتے'' اس حدیث کو ذہبی اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے(۳) _

علامہ امینی علیہ الرحمہ نے اپنی گراں قدر تصنیف '' الغدیر'' (ج/۵ ص ۳۵۷ تا ۳۷۵) میں علمائے اہل سنت کے بہت سے اقوال نقل کئے ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ خلافت ایک انتخابی امر ہے (یعنی معاملہ لوگوں کے انتخاب پر چھوڑ دیا گیا ہے) پس یہ حدیث ان کے مذہب کے مطابق بھی جھوٹی ہے اور حقیقت میں بھی جھوٹی ہے اس لئے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام کو اپنے بعد خلیفہ مقرر کرنے کا واضح اعلان فرمایا اور اس بارے میں بے شمار روایات منقول ہیں انہی روایات کے ذریعے امیرالمؤمنینعليه‌السلام ، آپعليه‌السلام کے اصحاب ، اہل بیت ، آپکی اولاد اور آپعليه‌السلام کے شیعہ ، اس وقت سے آج تک آپعليه‌السلام کی خلافت پر استدلال کرتے چلے آرہے ہیں، شاید ہی کوئی کتاب ایسی ہوکہ جس میں ان بے شمار متواتر روایات یا خبر واحدمیں سے کوئی روایت نقل نہ کی گئی ہو(۴) _

____________________

۱) مستدرک الحاکم ج۳ ص ۱۳_ (۲) السیرة الحلبیہ ج ۲ص۶۶_

۳) مستدرک الحاکم ج۳ ص ۷۸_

۴)بطور مثال ملاحظہ ہو: الغدیر ج۱ ص ۱۹۵ ا ص ۲۱۳_

۷۵

ثالثاً : اس روایت کے مطابق مسجد کی تعمیر میں سب سے پہلے پتھر رکھنے والوں میں حضرت عثمان بھی شامل تھے لیکن خود اہل سنت کے مؤرخین کے بقول حضرت عثمان اس وقت حبشہ میںتھے اور مدینہ میں موجود نہ تھے جیسا کہ سمہودی نے اس طرف اشارہ کیا ہے اسی وجہ سے سہیلی نے اس روایت کو نقل کرتے ہوئے حضرت عثمان کو حذف کرتے ہوئے اس کے نام کو ذکر نہیں کیا(۱) _

اور جب حاکم کی کتاب طبع ہوئی تو اس روایت میں سے حضرت عثمان کا نام حذف کردیا گیا اس کے پیچھے بھی شاید یہی راز پوشیدہ تھا ، حالانکہ ذہبی نے اپنی تلخیص میں اس روایت کو ذکر کیا ہے _اور اسے تحریف کہا جاتاہے جو دین، امت اور کسی فرقے کے حقائق کے ساتھ خیانت میں شمار ہوتی ہے_

کیونکہ بطور خلاصہ واقعہ یوں ہے کہ حضرت عثمان اگر چہ اہل مکہ کے اسلام لانے کی خبر سن کر مکہ پلٹ آئے تھے لیکن حقیقت حال کا پتہ چلنے پردوبارہ واپس حبشہ چلے گئے تھے ، جیسا کہ خود اہل سنت مؤرخین کہتے ہیں کہ حضرت عثمان نے دو دفعہ حبشہ کی طرف ہجرت کی(۲) عسقلانی کہتے ہیں :'' جب حبشہ میں موجود مسلمانوں کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کا علم ہوا تو ان میں سے تیس آدمی واپس مکہ لوٹ آئے ، ان میں ابن مسعود بھی تھے ، جو اس وقت مکہ پہنچے جب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ بدر کی تیاریوں میں مصروف تھے(۳) (تو پھر عثمان کہاں سے شریک ہوسکتے ہیں؟)_

ج: حضرت عثمان اور حضرت عمار:

مؤرخین لکھتے ہیں : حضرت عثمان بہت صفائی پسند اور صاف ستھرے رہنے والے آدمی تھے، جب مسجد کی تعمیر کیلئے اینٹیں اٹھاتے تو انہیں اپنے کپڑوں سے دور رکھتے تھے اور جب اینٹوں کو مسجد کے پاس رکھتے تو

____________________

۱) وفاء الوفاء ج۱ ص ۲۵۲ _

۲) طبقات ابن سعد ج ۱حصہ اول ص۱۳۸ ، الکامل لابن اثیرج۳ص۱۸۵،البدء والتاریخ ج۱ص۲۲،اس کتاب کی روایت کے مطابق حبشہ کی طرف پہلی ہجرت کے وقت کشتی میںحضرت عثمان کی زوجہ حضرت رقیہ کا حمل گر گیا تھا _

۳) فتح الباری ج۷ص۱۴۵_

۷۶

اپنی آستینوں کو جھاڑتے اور اپنے کپڑوں کو دیکھتے کہ کہیں ان پر مٹی تو نہیں لگی ، اگر مٹی لگی دیکھتے تو اسے جھاڑ دیتے تھے، حضرت علیعليه‌السلام ابن ابیطالب نے انہیں دیکھ کر یہ اشعار پڑھے_

لا یستوی من یعمر المساجدا

یدأب فیها قائما ً و قاعداً

و من یری عن التراب حائداً

( وہ شخص جو مساجد کی تعمیر میں کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر نہایت کوشش و مشقت سے کام کرتاہے اس شخص کے برابرنہیں ہوسکتا جو مٹی سے دور رہنے کی کوشش کرتاہے)_

جب حضرت عمار یاسر نے یہ اشعار سنے تو انہوں نے ان اشعار کو دہرانا شروع کردیا ، اگر چہ انہیں معلوم نہ تھا کہ ان اشعار سے مراد کون ہے؟ اسی اثناء میں جب وہ حضرت عثمان کے پاس سے گزرے تو حضرت عثمان( جن کے ہاتھ میں اس وقت ایک چھڑی تھی) نے ان سے کہا : ''اے سمیہ کے بیٹے یہ کس کی عیب جوئی کررہے ہو؟'' پھر کہا :'' چپ ہوجاؤ ورنہ (یہی چھڑی) تیرے چہرے پر ماروںگا''_ یہ بات نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سن لی ، اس وقت آ پصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حجرہ ام سلمہ کے سائے میں تشریف فرماتھے، یا ایک اور روایت کے مطابق اپنے حجرہ کے سائے میں آرام کررہے تھے، یہ سن کر آنحضرت سخت غضبناک ہوئے اور فرمایا: ''بے شک عمار بن یاسر میری ناک اور آنکھوں کے درمیان موجود جلد (پیشانی) کی مانند ہیں''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی دو آنکھوں کے درمیان اپنا دست مبارک رکھا اور فرمایا: ''جب کوئی شخص اس مقام تک پہنچ جائے تو یہ قربت کی انتہا ہے''_

یوں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں کو انہیں آزار و اذیت پہنچانے سے باز رکھا، پھر لوگوں نے حضرت عمار سے کہا : ''رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی وجہ سے ہمارے ساتھ ناراض اور غضبناک ہوئے ہیں، ہمیں ڈر ہے کہیں ہمارے بارے میں کوئی قرآنی آیت نازل نہ ہوجائے'' حضرت عمار نے کہا : ''جس طرح آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ناراض و غضبناک ہوئے ہیں میں ابھی اسی طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو راضی کرتاہوں''_

پھر حضرت عمار نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں عرض کی : ''یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کو مجھ سے کیا

۷۷

دشمنی ہے؟ ''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :'' ان کی طرف سے تمہیں کیا تکلیف پہنچی ہے؟ ''عرض کی :'' وہ میرے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں ، خود تو ایک ایک اینٹ اٹھاتے ہیں جبکہ میرے اوپر دو دو تین تین اینٹیں لاد دیتے ہیں''_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت عمار کا ہاتھ پکڑا اور مسجد کے اندر چکر لگایا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے بالوں سے خاک جھاڑتے ہوئے فرمایا : ''اے ابن سمیہ تمہیں میرے اصحاب قتل نہیں کریں گے بلکہ تم ایک باغی گروہ کے ہاتھوں قتل ہوگے(۱) ...''_

کیا حضرت عثمان حبشہ میں نہ تھے؟

ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ حضرت عثمان مسجد کی تعمیر کے وقت وہاں موجود نہ تھے اور اس وقت وہ حبشہ میں تھے_

شاید یہی وجہ ہے کہ عسقلانی اور حلبی نے حضرت عثمان بن عفان کی جگہ اس روایت میں عثمان بن مظعون کا نام ذکر کیا ہے(۲) _

ہم اس سوال اور اعتراض کا جواب دینے سے پہلے گذشتہ اس امر کی طرف بھی اشارہ کرتے چلیں کہ اس کی یہ توجیہ کرنا بھی نامناسب ہے کہ '' رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک سال یا سات ماہ تک ابوایوب کے ہاں قیام پذیر رہے اور اسی دوران آپ اپنے گھر اور مسجد کی تعمیر میں مصروف رہے، ممکن ہے کہ اس وقت یہ خبر حبشہ میں مہاجرین تک پہنچی ہو اور اس دوران وہ مدینہ آتے رہے ہوں اور شاید حضرت عثمان بھی ان میں سے ایک ہوں وہاں انہوں نے مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا اور مذکورہ واقعہ پیش آیا ہو، اگر چہ مسجد کی بنیاد رکھتے وقت اور خلافت کے پتھر رکھنے میں وہ شریک نہ ہوسکے ہوں''_

بہر حال ہمارے نزدیک یہ بعید ہے کہ مسلمان اتنے طویل عرصہ تک مسجد کی تعمیر میں مصروف رہے ہوں

____________________

۱) سیرة ابن ھشام ج۲ص۱۴۲، تاریخ الخمیس ج۱ص ۳۴۵ ، اعلاق النفیسة ، وفاء الوفاء ج۱ص ۳۲۹ ، السیرة الحلبیة ج۲ص۷۲ ، علامہ امینی نے '' الغدیر'' کی نویں جلد میں (ص ۲۱ سے ۲۷ تک) اس واقعہ کے بہت زیادہ مصادر و منابع ذکر کئے ہیں، ہم نے صرف چند ایک ذکر کئے ہیں ، مزید تحقیق کیلئے '' الغدیر'' ج۹ کی طرف رجوع فرمائیں_

۲) السیرة الحلبیة ج ۲ص۷۱ ، حاشیہ سیرت النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابن ھشام ج ۲ص۱۴۲_ از مواہب اللدنیہ_

۷۸

اس لئے کہ وہ دسیوں کی تعداد میں تھے اور اہل مدینہ میں سے اسی(۸۰) سے زیادہ افرادتو مقام عقبہ پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بیعت کرچکے تھے_

صحیح بات یہ ہے کہ ظاہراً حضرت عمار اور حضرت عثمان کا مذکورہ واقعہ مسجد کی دوبارہ تعمیر کے وقت پیش آیا اور یہ جنگ خیبر کے بعد کی بات ہے یعنی ہجرت کے ساتویں سال(۱) اور درج ذیل امور اسی بات کے صحیح ہونے پر دلالت کرتے ہیں:

اولاً: بیہقی نے اپنی کتاب'' الدلائل'' میں روایت کی ہے کہ جب حضرت عمار قتل کردیئے گئے تو عبداللہ بن عمرو بن العاص نے اپنے والد(عمرو بن العاص) سے کہا: ''اس شخص (حضرت عمار) کو ہم نے قتل کیا ہے جبکہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے بارے میں جو کچھ فرمایا تھا وہ بھی پتاہے''_ اس کے والد نے پوچھا:'' تم کس شخص کی بات کررہے ہو؟ ''تو اس نے جواب دیا : ''عمار یاسر کی'' پھر کہا : ''کیا تمہیں یاد نہیں جب رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسجد تعمیر کررہے تھے تو اس وقت ہم ایک ایک اینٹ اٹھاکر لارہے تھے جبکہ عمار یاسر دو دو ا ینٹیں اٹھالاتا تھا چنانچہ اسی دوران جب وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس سے گزرا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ تم دو دو اینٹیں اٹھاکر لارہے ہو حالانکہ تمہارے لئے یہ ضروری نہیں ہے جان لو کہ تمہیں ایک باغی گروہ قتل کرے گا اور تم اہل جنت میں سے ہو''_ پھر عمرو معاویہ کے پاس گیا الخ_(۲)

سمہودی نے اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد کہا ہے:'' اس بات سے پتہ چلتاہے کہ دوسری بار مسجد کی تعمیرکے وقت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت عمار کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا تھا، اس لئے کہ عمرو نے ہجرت کے پانچویں برس اسلام قبول کیا تھا ''(۳) _

عبدالرزاق و غیرہ سے مروی ہے کہ عمرو بن عاص معاویہ کے پاس گیا اور اس نے معاویہ سے کہا کہ ہم

____________________

۱) وفاء الوفاء ج ۱ص۳۳۸_

۲)تذکرة الخواص ص ۹۳ از طبقات ابن سعد، الفتوح ابن اعثم ج۳ ص ۱۱۹ و ۱۳۰ ، الثقات ابن حبان ج۲ ص ۲۹۱ ، انساب الاشراف ; با تحقیق محمودی ج ۲ ص ۳۱۳و ص ۳۱۷ ، طبقات ابن سعد ج۳ حصہ اول ص ۱۸۰ و ۱۸۱ المصنف ابن ابی شیبہ ، مسند احمد بن حنبل ج ۲ ص ۱۶۴ ، حاشیہ انساب الاشراف ج ۲ ص ۳۱۳ ; تحقیق محمودی،المناقب خوارزمی ص ۱۶۰ ، وفاء الوفاء ج۱ ص ۳۳۱و ۳۳۲_

۳) وفاء الوفاء ج۱ ص ۳۳۱ و ۳۳۲_

۷۹

نے سنا کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عمار کے بارے ہیں فرمارہے تھے: ''اسے (عمار کو) ایک باغی گروہ قتل کرےگا''(۱) _

اور معاویہ کے پاس دو آدمی آئے جو حضرت عمار کے سرکے بارے میں آپس میں جھگڑ رہے تھے ، عبداللہ بن عمرو بن العاص نے انہیں دیکھ کر کہا :'' عمار کے سر کی بابت تمہیں اپنے ساتھی کے لئے راضی ہو جانا چاہئے ، کیونکہ میں نے عمار کے بارے میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : '' عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا _'' اس پر معاویہ نے عمرو سے کہا: ''تو اپنے اس پاگل کو ہم سے دور کیوں نہیں کرلیتا ''(۲) _

اور یہ واضح ہے کہ حضرت عمار کا واقعہ ایک ہی دفعہ اور ایک ہی مناسبت سے پیش آیاہے_

ثانیاً: خود روایت میں قرینہ موجود ہے جس سے واضح ہوتاہے کہ یہ واقعہ مسجد کی دوبارہ تعمیر کے دوران پیش آیا تھا، کیونکہ روایت میں ہے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس وقت حضرت ام سلمہ کے حجرے کے سائے میں تشریف فرماتھے اور یہ بات واضح ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب سے پہلے مسجد تعمیر فرمائی تھی اور اس کے بعد اپنے حجرے تعمیر کئے تھے(۳) نیز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ گھر اکٹھے تعمیر نہیں کئے تھے بلکہ ضرورت کے ساتھ ساتھ انہیں تدریجی طور پر تعمیر کیا تھا، چنانچہ سب سے پہلے حضرت سودہ اور حضرت عائشہ کا حجرہ تعمیر کیا گیا(۴) اور اس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائشے نہیں کہ مسجد نبوی کی تعمیر مکمل ہونے کے کافی دیر بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت ام سلمہ کیلئے حجرہ تعمیر کیا تھا_

____________________

۱) المصنف ج۱۱ص۲۴۰ ، مجمع الزوائدج ۹ص ۲۹۷ ،ج ۷ص۲۴۲ ، ( امام احمد کی مسند اور طبرانی سے روایت نقل ہوئی ہے)_

۲) انساب الاشراف ج۲ص۳۱۳، مسند احمد،مسند عبداللہ بن عمرو، مصنف ابن ابی شیبہ اور فتح الباری کے علاوہ دیگر بہت سے مصادر و منابع میں یہ روایت نقل ہوئی ہے_

۳) زاد المعاد ج۱ص۲۵ ، السیرة الحلبیة ج۲ ص۸۷ _

۴) تاریخ الخمیس ج۱ص۳۴۶ ، وفاء الوفا ج ۲ص ۴۵۸ وفاء الوفاء کے صفحہ ۴۶۲ پر ذھبی سے نقل ہواہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب سے پہلے حضرت سودہ کا گھرتعمیر کیا ، پھر جب حضرت عائشہ کیلئے گھر کی ضرورت پڑی تو ان کے لئے گھر تعمیر کردایا، اسی طرح مختلف مواقع پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے باقی گھر تعمیر کروائے_

۸۰

لفظ ”انفسنا“ کے علی علیہ السلام کی ذات پر اطلاق ہونے کا قرینہ ”ندع“ و ”انفسنا“ کے درمیان پائی جا نے والی مغایرت ہے کہ جوعقلاًوعرفاً ظہور رکھتی ہے۔اس فرض میں ”ندع“بھی اپنے معنی میں استعمال ہواہے اور”ابناء نا“بھی اپنے حقیقی معنی میں استعمال ہواہے۔

لیکن یہ کہ آلوسی کی بات دلیل کے خلاف ہے،کیونکہ اتنی سا ری احادیث جونقل کی گئی ہیںوہ سب اس بات پردلالت کرتی تھیں کہ”انفسنا“سے مرادعلی علیہ السلام ہیں اوریہ دعویٰ تواترکے ذریعہ بھی ثابت ہے(۱) لہذاوہ سب احادیث اس قول کے خلاف ہیں۔

شیعوں کے استدلال پرآلوسی کادوسرااعتراض

شیعوں کے استدلال پرآلوسی کادوسراجواب یہ ہے:اگرفرض کریں کہ”انفسنا“کا مقصداق علی(علیہ السلام)ہوں،پھربھی آیہء شریفہ حضرت علی(ع)کی بلافصل خلافت پر دلالت نہیں کرتی ہے۔کیونکہ”انفسنا“ کااطلاق حضرت علی(ع)پراس لحاظ سے ہے کہ نفس کے معنی قربت اورنزدیک ہو نے کے ہیں اوردین و آئین میں شریک ہونے کے معنی میں ہے اوراس لفظ کا اطلاق حضرت علی(ع)کے لئے شاید اس وجہ سے ہوان کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ دامادی کارشتہ تھااوردین میں دونوں کا اتحادتھا۔اس کے علاوہ اگرمقصودوہ شخص ہوجوپیغمبراکرم

____________________

۱۔معرفةعلوم الحدیث،ص۵۰،دارالکتب العلمیہ،بیروت

۸۱

(ص)کے مساوی ہے تو کیامساوی ہونے کامعنی تمام صفات میں ہے یابعض صفات میں ؟اگر تمام صفات میں مساوی ہونامقصود ہے تواس کالازمہ یہ ہوگاکہ علی(علیہ السلام)پیغمبر (ص)کی نبوت اورخاتمیت اورتمام امت پرآپکی بعثت میں شریک ہیں اوراس قسم کامساوی ہونامتفقہ طورپرباطل ہے۔اوراگرمساوی ہونے کامقصدبعض صفات میں ہے یہ شیعوں کی افضلیت وبلا فصل امامت کے مسئلہ پردلالت نہیں کرتاہے۔

اس اعتراض کا جواب

آلوسی کے اس اعتراض واستدلال کا جواب دیناچند جہتوں سے ممکن ہے:

سب سے پہلے تو یہ کہ:”نفس کے معنی قربت و نزدیکی“اوردین وآئین میں شریک ہوناکسی قسم کی فضیلت نہیں ہے،جبکہ احادیث سے یہ معلوم ہوتاہے کہ یہ اطلاق حضرت علی علیہ السلام کے لئے ایک بہت بڑی فضیلت ہے اور جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا ہے ایک حدیث کے مطابق سعدبن ابی وقاص نے معاویہ کے سامنے اسی معنی کوبیان کیااوراسے حضرت علی علیہ السلام کے خلاف سبّ وشتم سے انکار کی دلیل کے طورپر پیش کیاہے۔

دوسرے یہ کہ :نفس کے معنی کا اطلاق دین و آئین میں شریک ہونایارشتہ داری وقرابتداری کے معنی مجازی ہے اوراس کے لئے قرینہ کی ضرورت ہے اوریہاں پرایسا کوئی قرینہ موجودنہیں ہے۔

تیسرے یہ کہ:جب نفس کے معنی کااطلاق اس کے حقیقی معنی میں ممکن نہ ہوتواس سے مرادوہ شخص ہے جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جانشین ہواوریہ جا نشینی اورمساوی ہو نا مطلقاًہے اوراس میں پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام اوصاف اورعہدے شامل ہیں،صرف نبوت قطعی دلیل کی بناء پراس دائرہ سے خارج ہے۔

۸۲

چوتھے یہ کہ:اس صورت میں آلوسی کی بعد والی گفتگو کے لئے کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ہے کہ مساوات تمام صفات میں ہے یا بعض صفات میں ،کیونکہ مساوات تمام صفات میں اس کے اطلاق کی وجہ سے ہے،صرف وہ چیزیں اس میں شامل نہیں ہیں جن کو قطعی دلیلوں کے ذریعہ خارج و مستثنی کیا گیا ہے جیسے نبوت و رسالت ۔لہذا پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی افضیلت اور امت کی سر پرستی نیز اسی طرح کے اور تمام صفات میں حضرت علی علیہ السلام پیغمبر کے شریک نیز ان کے برابر کے جا نشین ہیں ۔

شیعوں کے استدلال پر آلوسی کا تیسرا عتراض

آلوسی کا کہنا ہے:اگریہ آیت حضرت علی(علیہ السلام) کی خلافت پر کسی اعتبار سے دلالت کرتی بھی ہے تواس کا لازمہ یہ ہوگا کہ:حضرت علی(ع)پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں امام ہوں اوریہ متفقہ طورپر باطل ہے۔ییی

اگر یہ خلافت کسی خاص وقت کے لئے ہے تو سب سے پہلی بات یہ کہ اس قید کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے اور دوسرے یہ کہ اہل سنت بھی اسے قبول کرتے ہیں یعنی حضرت علی(ع)ایک خاص وقت، میں کہ جوان کی خلافت کازمانہ تھا،اس میں وہ اس منصب پرفائزتھے۔

اس اعتراض کاجواب

سب سے پہلی بات یہ کہ :حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی آنحضرت صل (ص)کے زمانہ میں ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جو بہت سی احادیث سے ثا بت ہے اورا س کے لئے واضح ترین حدیث،حدیث منزلت ہے جس میں حضرت علی علیہ السلام کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

۸۳

کی نسبت کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ان کی مثال ایسی ہی تھی جیسے ہارون کی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے، واضح ر ہے کہ حضرت ہارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں ان کے جانشین تھے کیوں کہ قرآن مجید حضرت ہارون علیہ السلام کے بارے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قول ذکر کرتا ہے کہ آپ نے فرمایا ”اخلفنی فی قومی“(۱) ” تم میری قوم میں میرے جانشین ہو۔“

اس بناء پر جب کبھی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حاضر نہیں ہو تے تھے حضرت علی علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین ہو تے تھے )چنانچہ جنگ تبوک میں ایساہی تھا)اس مسئلہ کی حدیث منزلت میں مکمل وضاحت کی گئی ہے۔(۲)

دوسرے یہ کہ:حضرت علی علیہ السلام کا نفس پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قرار دیا جانا جیسا کہ آیہء شریفہ مباہلہ سے یہ مطلب واضح ہے،اوراگر کوئی اجماع واقع ہو جائے کہ آنحضرت کی زندگی میں حضرت علی علیہ السلام آپ کے جانشین نہیں تھے،تویہ اجماع اس اطلاق کوآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں مقید و محدود کرتا ہے۔ نتیجہ کے طور پریہ اطلاق آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے وقت اپنی پوری قوت کے ساتھ باقی ہے۔

لہذایہ واضح ہوگیا کہ آلوسی کے تمام اعتراضات بے بنیاد ہیں اورآیہء شریفہ کی دلالت حضرت علی علیہ السلام کی امامت اور بلافصل خلافت پر بلا منا قشہ ہے۔

فخررازی کا اعتراض:

فخررازی نے اس آیہء شریفہ کے ذیل میں محمودبن حسن حصمی(۳) کے استدلال کو ،کہ جو انھوں نے اسے حضرت علی علیہ السلام کی گزشتہ انبیاء علیہم السلام پرافضلیت کے سلسلہ میں پیش کیا ہے،ٰٰنقل کرنے کے بعد)ان کے استدلال کو تفصیل سے ذکر کیا ہے)اپنے اعتراض کو یوں ذکر کیا ہے:

ایک تویہ کہ اس بات پراجماع قائم ہے کہ پیغمبر (ص)غیرپیغمبرسے افضل ہو تا ہے۔

دوسرے: اس بات پر بھی اجماع ہے کہ)علی علیہ السلام)پیغمبرنہیں تھے۔مذکورہ ان

_____________________

۱۔اعراف /۱۴۲

۲۔اس سلسلہ میں مصنف کا پمفلٹ”حدیث غدیر،ثقلین ومنزلت کی روشنی میں امامت“ملاحظ فرمائیں۔

۳۔شیعوں کاایک بڑا عقیدہ شناس عالم جس کا پہلے ذکرآیا ہے۔

۸۴

دومقدموں کے ذریعہ ثابت ہو جاتا ہے کہ آیہء شریفہ حضرت علی(علیہ السلام)کی گزشتہ انبیاء)علیہم السلام)پرافضلیت کو ثابت نہیں کرتی ہے۔

فخررازی کے اعتراض کا جواب

ہم فخررازی کے جواب میں کہتے ہیں:

پہلی بات یہ کہ ا س پر اجماع ہے کہ ہر ”نبی غیر نبی سے افضل ہے“اس میں عمومیت نہیں ہے کہ جس سے یہ ثابت کریں کہ ،ہر نبی دوسرے تمام افرادپر حتی اپنی امت کے علاوہ دیگر افراد پر بھی فوقیت وبرتری رکھتا ہے بلکہ جو چیز قابل یقین ہے وہ یہ کہ ہر نبی اپنی امت سے افضل ہوتا ہے۔اور اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے یہ کہاجائے:”مرد عورت سے افضل ہے“ ا ور یہ اس میں معنی ہے کہ مردوں کی صنف عورتوں کی صنف سے افضل ہے نہ یہ کہ مردوں میں سے ہرشخص تمام عورتوں پرفضیلت وبر تری رکھتا ہے۔اس بناء پراس میں کوئی منافات نہیں ہے کہ بعض عورتیں ایسی ہیں جو مردوں پر فضیلت رکھتی ہیں۔

دوسرے یہ کہ:مذکورہ مطلب پر اجماع کاواقع ہونا ثابت نہیں ہے،کیونکہ شیعہ علماء نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی ہے اوروہ اپنے ائمہ معصو مین) علیہم السلام) کو قطعی دلیل کی بناء پر گزشتہ انبیاء سے برتر جانتے ہیں۔

ابوحیان اندلسی نے تفسیر”البحرالمحیط ۱“ میں شیعوں کے استدلال پرآیت میں نفس سے مراد تمام صفات میں ہم مثل اور مساوی ہو ناہے)فخررازی ۲ کا ایک اور اعتراض نقل

کیا ہے جس میں یہ کہا ہے:

”نفس کے اطلاق میں یہ ضروری نہیں ہے تمام اوصاف میں یکسانیت ویکجہتی

____________________

۱۔البحرالمحیط،ج۲،ص۴۸۱،مؤسسہ التاریخ العربی ،داراحیائ التراث العربی

۲۔اگرابوحیان کارازی سے مقصودوہی فخررازی ہے توان اعتراضات کواس کی دوسری کتابوں سے پیداکرناچاہئے،کیونکہ تفسیرکبیرمیں صرف وہی اعتراضات بیان کئے گئے ہیں جوذکرہوئے۔

۸۵

ہو،چنانچہ متکلمین نے کہا ہے:” صفات نفس میں یک جہتی اوریک سوئی یہ متکلمین کی ایک اصطلاح ہے،اورعربی لغت میں یکسانیت کابعض صفات پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔عرب کہتے ہیں:”ہذامن انفسنا“یعنی:یہ”اپنوں میں سے ہے،یعنی ہمارے قبیلہ میں سے ہے۔“

اس کاجواب یہ ہے کہ تمام صفات یابعض صفات میں یکسا نیت ویکجہتی یہ نہ تو لغوی بحث ہے اور نہ ہی کلامی ،بلکہ یہ بحث اصول فقہ سے مربوط ہے،کیونکہ جب نفس کا اس کے حقیقی معنی میں استعمال نا ممکن ہو تو ا سے اس کے مجازی معنی پر عمل کرنا چاہے اور اس کے حقیقی معنی سے نزدیک ترین معنی کہ جس کو اقرب المجازات سے تعبیرکیا جاتا ہے )کواخذ کر نا چا ہیئے اور”نفس“کے حقیقی معنی میں اقرب المجازات مانندو مثل ہوناہے۔

یہ مانندو مثل ہونامطلق ہے اوراس کی کوئی محدودیت نہیں ہے اوراس اطلاق کاتقاضاہے کہ علی علیہ السلام تمام صفات میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مانندو مثل ہیں،صرف نبوت ورسالت جیسے مسائل قطعی دلائل کی بناپراس مانندو مثل کے دائرے سے خارج ہیں۔اس وضاحت کے پیش نظرتمام اوصاف اورعہدے اس اطلاق میں داخل ہیں لہذامن جملہ تمام انبیاء پرفضیلت اورتمام امت پرسرپرستی کے حوالے سے آپ (علیہ السلام)علی الاطلاق رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ما نندہیں۔

۸۶

ابن تیمیّہ کا اعتراض

ابن تیمیّہ حضرت علی علیہ السلام کی امامت پرعلامہ حلی کے استدلال کوآیہء مباہلہ سے بیان کرتے ہوئے کہتاہے:

”یہ کہ پیغمبراکرم (ص)مباہلہ کے لئے علی،فاطمہ اورحسن وحسین )علیہم

السلام)کو اپنے ساتھ لے گئے یہ صحیح حدیث میں ایاہے(۱) ،لیکن یہ علی(علیہ السلام)کی امامت اور ان کی افضلیت پردلالت نہیں کر تاہے،کیونکہ یہ دلالت اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب آیہء شریفہ علی(علیہ السلام)کے پیغمبر (ص)کے مساوی ہونے پردلالت کرے حالانکہ آیت میں ایسی کوئی دلالت نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی شخص پیغمبر (ص)کے مساوی نہیں ہے،نہ علی(علیہ السلام)اورنہ ان کے علاوہ کوئی اور۔

دوسرے یہ کہ”انفسنا“کالفظ عربی لغت میں مساوات کا معنی میں نہیں ایاہے(۲) اورصرف ہم جنس اور مشابہت پردلالت کرتاہے۔اس سلسلہ میں بعض امور مشابہت،جیسے ایمان یادین میں اشتراک کافی ہے اوراگرنسب میں بھی اشتراک ہوتواور اچھا ہے۔ اس بناپرآیہ شریفہ ۔۔۔( اٴنفسنا واٴنفسکم ) ۔۔۔ میں ”انفسنا“ سے مرادوہ لوگ ہیں جودین اورنسب میں دوسروں سے زیادہ نزدیک ہوں۔اس لحاظ سے آنحضرت (ص)۔ بیٹوں میں سے حسن وحسین)علیہما السلام)اور عورتوں میں سے فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)اورمردوں میں سے علی)علیہ ا لسلام)کواپنے ساتھ لے گئے اورآنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے لئے ان سے زیادہ نزدیک ترکوئی نہیں تھا۔دوسرے یہ کہ مباہلہ اقرباء سے انجام پاتاہے نہ ان افرادسے جوانسان سے دورہوں،اگرچہ یہ دوروالے افرادخداکے نزدیک افضل وبرترہوں۔

____________________

۱۔ابن تیمیہ نے قبول کیا ہے کہ آیہء شریفہ میں ”انفسنا“مذکورہ حدیث کے پیش نظر علی علیہ السلام پرانطباق کرتاہے

۲۔ابن تیمیہ نے اپنی بات کے ثبوت میں قرآن مجیدکی پانچ آیتوں کوبیان کیاہے،من جملہ ان میں یہ آیتیں ہیں:

الف۔( و لولا إذسمعتموه ظن المؤمنون والمؤمنات باٴنفسهم خیراً ) نور/۱۲”آخرایساکیوں نہ ہواکہ جب تم لوگوں نے اس تہمت کوسناتومومن ومومنات اپنے بارے میں خیرکاگمان کرتے“مقصودیہ ہے کہ کیوں ان میں سے بعض لوگ بعض دوسروں پراچھاگمان نہیں رکھتے ہیں۔

ب۔( ولا تلمزوا اٴنفسکم ) حجرات/۱۱ ”آپس میں ایک دوسرے کوطعنے بھی نہیں دینا“

۸۷

ابن تیمیہ کہ جس نے رشتہ کے لحاظ سے نزدیک ہونے کا ذکرکیاہے اوردوسری طر ف پیغمبر (ص)کے چچاحضرت عباس کہ جورشتہ داری کے لحاظ سے حضرت علی علیہ السلام کی بہ نسبت زیادہ قریب تھے اورزندہ تھے۔ کے بارے میں کہتاہے:

”عباس اگرچہ زندہ تھے،لیکن سابقین اولین)دعوت اسلام کو پہلے قبول کر نے والے) میں ان کا شمارنہیں تھااورپیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچیرے بھائیوں میں بھی کوئی شخص علی(علیہ السلام)سے زیادہ آپ سے نزدیک نہیں تھا۔اس بنا پرمباہلہ کے لئے علی(علیہ السلام)کی جگہ پرُ کر نے والاپیغمبر (ص)کے خاندان میں کوئی ایسا نہیں تھا کہ جس کو آپ انتخاب کرتے یہ مطلب کسی بھی جہت سے علی(علیہ السلام)کے آنحضرت (ص)سے مساوی ہونے پردلالت نہیں کرتاہے۔“

ابن تیمیّہ کے اعتراض کا جواب

ابن تیمیہ کاجواب چندنکتوں میں دیاجاسکتاہے:

۱ ۔ اس کا کہناہے:”پیغمبر (ص)کے مساوی ومانند کوئی نہیں ہوسکتا ہے“۔اگرمساوی ہونے کا مفہوم و مقصدتمام صفات،من جملہ نبوت و رسالت میں ہے تویہ صحیح ہے۔لیکن جیسا کہ بیان ہوا مساوی ہونے کا اطلاق پیغمبر (ص)کی ختم نبوت پر قطعی دلیلوں کی وجہ سے مقید ہے اوراس کے علاوہ دوسرے تمام امورمیں پیغمبر کے مانند و مساوی ہونا مکمل طورپراپنی جگہ باقی ہے اوراس کے اطلاق کو ثابت کرتا ہے دوسری طرف سے اس کی یہ بات کہ”انفسنا“کا لفظ عربی لغت میں مساوات کے معنی کا اقتضاء نہیں کر تا ہے“صحیح نہیں ہے اگرچہ اس نے قرآن مجید کی چند ایسی آیتوں کو بھی شاہد کے طورپر ذکرکیا ہے جن میں ”اٴنفسهم یااٴنفسکم “کا لفظ استعمال ہوا ہے،حتی کہ ان آیتوں میں بھی مساوی مراد ہے۔مثلاًلفظ”ولاتلمزوا اٴنفسکم “یعنی”اپنی عیب جوئی نہ کرو“جب لفظ”انفس“کا اطلاق دوسرے افرادپرہوتاہے،تومعنی نہیںرکھتاہے وہ حقیقت میں خودعین انسان ہوں۔ناچاران کے مساوی اورمشابہ ہونے کامقصد مختلف جہتوں میں سے کسی ایک جہت میں ہے اور معلوم ہے کہ وہ جہت اس طرح کے استعمالات میں کسی ایمانی مجموعہء یاقبیلہ کے مجموعہ کا ایک جزو ہے۔

۸۸

اس بناء پران اطلاقات میں بھی مساوی ہونے کالحاظ ہوا ہے ،لیکن اس میں قرینہ موجودہے کہ یہ مساوی ایک خاص امر میں ہے اوریہ اس سے منافات نہیں رکھتاہے اور اگر کسی جگہ پرقرینہ نہیں ہے تومساوی ہونے کا قصد مطلق ہے،بغیراس کے کہ کوئی دلیل اسے خارج کرے۔

۲ ۔ابن تیمیہ نے قرابت یا رشتہ داری کو نسب سے مر تبط جانا ہے،یہ بات دودلیلوں سے صحیح نہیں ہے:

سب سے پہلے بات تو یہ، مطلب آیہء شریفہ ”نسائنا ونسا ئکم“سے سازگار نہیں ہے،کیونکہ ”نسائنا“کا عنوان نسبی رشتہ سے کوئی ربطہ نہیں رکھتا ہے۔البتہ یہ منافی نہیں ہے کہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دختر گرامی تھیں اورآپ سے نسبی قرابت رکھتی تھیں،کیونکہ واضح ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ”بنا تنا“ ”ہماری“ بٹیاں)جو نسبی قرابت کی دلیل ہے)کے ذریعہ تعبیر نہیں کیا گیا ہے،بلکہ ”نساء نا“کی تعبیر آئی ہے،اس لحاظ سے چونکہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اس خاندان کی عورتوں میں سے ہیں اس لئے اس مجموعہ میں شامل ہیں۔اس کے علاوہ کوئی اور عورت کہ جو اس لائق ہوکہ مباہلہ میں شریک ہو سکے وجود نہیں رکھتی تھی ۔(۱)

دوسرے یہ کہ اگرمعیارقرابت نسبی اور رشتہ داری ہے توآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچاحضرت عباس(ع)اس جہت سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے زیادہ نزدیک تھے لیکن اس زمرے میں انھیں شریک نہیں کیاگیاہے!

____________________

۱۔جیساکہ پہلے بیان کیاگیاہے۔

۸۹

اس لحاظ سے قرابت،یعنی نزدیک ہونے سے مرادپیغمبراکرم (ص)سے معنوی قرابت ہے۔جس کاابن تیمیّہ نے مجبورہوکراعتراف کیاہے اورکہتاہے:

”علی(علیہ السلام)سابقین اوراولین میں سے تھے،اس لحاظ سے دوسروں کی نسبت آنحضرت (ص)سے زیادہ نزدیک تھے۔“

احادیث کی روسے مباہلہ میں شامل ہو نے والے افرادپیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاص رشتہ دارتھے کہ حدیث میں انھیں اہل بیت رسول علیہم السلام سے تعبیرکیاگیاہے۔

ان میں سے ہرایک اہل بیت پیغمبر)علیہم السلام)ہونے کے علاوہ ایک خاص عنوان کا مالک ہے،یعنی ان میں سے بعض”ابنائنا“کے عنوان میں شامل ہیں اوربعض”نسائنا“کے عنوان میں شامل ہیں اوربعض دوسرے”انفسنا“کے عنوان میں شامل ہیں۔

مذکورہ وضاحت کے پیش نظریہ واضح ہوگیاکہ”انفسنا“کے اطلاق سے نسبی رشتہ داری کا تبادر وانصراف نہیں ہوتاہے اورعلی علیہ السلام کاپیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مانندومساوی ہو ناتمام صفات،خصوصیات اورعہدوں سے متعلق ہے،مگریہ کہ کوئی چیزدلیل کی بنیادپراس سے خارج ہوئی ہو۔

اہل بیت علیہم السلام کے مباہلہ میں حاضر ہو نے کامقصدواضح ہوگیاکہ مباہلہ میں شریک ہونے والے افرادکی دعارسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعاکے برابرتھی اوران افراد کی دعاؤں کا بھی وہی اثرتھاجوآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعاکاتھااوریہ اس مقدس خاندان کے لئے ایک بلندوبرترمرتبہ ومقام ہے۔

۹۰

تیسراباب:

امامت،آیہ اولی الامر کی روشنی میں

( یا اٴیّها الّذین آمنوا اٴطیعوا اللَّه و اٴطیعوا الرسول واولی الاٴمر منکم فإن تنازعتم فی شیءٍ فردوه إلی اللّٰه و الرّسول إن کنتم تؤمنون با اللّٰه و الیوم الاٴخر، ذلک خیر و اٴحسن تاٴویلاً ) (نساء/۵۹)

”اے صاحبان ایمان!اللہ کی اطاعت کرورسول اوراولوالامرکی اطاعت کرو جوتمھیں میں سے ہیں پھراگرآپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تواسے خدااوررسول کی طرف پلٹادواگرتم اللہ اورروزآخرت پرایمان رکھنے والے ہو۔یہی تمھارے حق میں خیراورانجام کے اعتبارسے بہترین بات ہے۔“

خداوندمتعال نے اس آیہ شریفہ میں مومنین سے خطاب کیاہے اورانھیں اپنی اطاعت، پیغمبراسلام (ص)کی اطاعت اوراولی الامر کی اطاعت کرنے کاحکم فرمایاہے۔

یہ بات واضح ہے کہ پہلے مرحلہ میں خداوندمتعال کی اطاعت،ان احکام کے بارے میں ہے کہ جوخداوندمتعال نے انھیں قرآن مجیدمیں نازل فرمایاہے اورپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان احکام کولوگوں تک پہنچایاہے،جیسے کہ یہ حکم:( اٴقیمواالصلوٰ ةوآتواالزکوٰة ) پیغمبر (ص)کے فرامین کی اطاعت دو حیثیت سے ممکن ہے :

۱ ۔وہ فرمان جوسنّت کے عنوان سے آنحضرت)ص)کے ذریعہ ہم تک پہنچے ہیں:

یہ اوامراگرچہ احکام الٰہی ہیں جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بصورت وحی نازل ہوئے ہیں اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انھیں لوگوں کے لئے بیان فرمایاہے،لیکن جن مواقع پریہ اوامر”امرکم بکذااوانّہاکم من ہذا“)میں تم کو اس امرکا حکم دیتا ہوںیااس چیزسے منع کرتاہوں)کی تعبیرکے ساتھ ہوں)کہ فقہ کے باب میں اس طرح کی تعبیریں بہت ہیں )ان اوامراورنواہی کوخودآنحضرت (ص)کے اوامر ونواحی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے نتیجہ کے طور پر ان کی اطا عت آنحضرت کی اطاعت ہوگی،چونکہ مذکورہ احکام خداکی طرف سے ہیں،اس لئے ان احکام پرعمل کرنا بھی خداکی اطاعت ہوگی۔

۲ ۔وہ فرمان،جوآنحضرت)ص)نے مسلمانوں کے لئے ولی اورحاکم کی حیثیت سے جاری کئے ہیں۔

یہ وہ احکام ہیں جوتبلیغ الہی کا عنوان نہیںرکھتے ہیں بلکہ انھیں انحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس لحاظ سے جاری فرمایاہے کہ آپ مسلمانوں کے ولی،سرپرست اورحاکم تھے،جیسے جنگ وصلح نیزحکومت اسلامی کوادارہ کرنے اورامت کی سیاست کے سلسلہ میں جاری کئے جا نے والے فرامین۔

۹۱

آیہء شریفہ میں( واٴطیعواالرّسول ) کاجملہ مذکورہ دونوں قسم کے فرمانوں پرمشتمل ہے۔

تمام اوامرونواہی میں پیغمبر(ص)کی عصمت

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عصمت کوثابت کرنے کے بارے میں علم کلام میں بیان شدہ قطعی دلائل کے پیش نظر،آنحضرت (ص)ہر شی کا حکم دینے یا کسی چیز سے منع کرنے کے سلسلہ میں بھی معصوم ہیں۔آپ(ع)نہ صرف معصیت وگناہ کا حکم نہیں دیتے ہیں،بلکہ آنحضرت (ص)،امرونہی میں بھی خطا کر نے سے محفوظ ہیں۔

ہم اس آیہء شریفہ میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت مطلق اورکسی قیدوشرط کے بغیربیان ہوئی ہے۔ اگرآنحضرت (ص)کے امرونہی کرنے کے سلسلہ میں کوئی خطاممکن ہوتی یااس قسم کااحتمال ہوتا تو آیہء شریفہ میں انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کا حکم قید و شرط کے ساتھ ہوتا اورخاص مواقع سے مربوط ہوتا۔

ماں باپ کی اطاعت جیسے مسائل میں ،کہ جس کی اہمیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت سے بہت کم ہے،لیکن جب خدائے متعال والدین سے نیکی کرنے کاحکم بیان کرتا ہے، تو فرماتا ہے:

( و وصّینا الاٴنسان بوالدیه حسناً و إن جاهدک لتشرک بی مالیسلک به علم فلا تطعهما ) (عنکبوت/۸)

”اورہم نے انسان کوماں باپ کے ساتھ نیکی کا برتاؤکرنے کی وصیت کی ہے اوربتایا ہے کہ اگروہ تم کومیراشریک قرار دینے پرمجبورکریں کہ جس کہ کاتمھیں علم نہیں ہے توخبرداران کی اطاعت نہ کرنا۔“

جب احتمال ہوکہ والدین شرک کی طرف ہدایت کریں توشرک میں ان کی اطاعت کرنے سے منع فرماتاہے،لیکن آیہء کریمہ( اُولیّ الاٴمر ) میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کوکسی قیدوشرط سے محدودنہیں کیاہے۔

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کوکسی قیدوشرط کے بغیرتائیدوتاکیدکرنے کے سلسلہ میں ایک اورنکتہ یہ ہے کہ قرآن مجیدکی متعددآیات میں انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت خداوندمتعال کی اطاعت کے ساتھ اورلفظ”اطیعوا“کی تکرارکے بغیرذکرہوئی ہے۔آیہء شریفہ( واٴطیعوااللّٰه والرّسول لعلّکم ترحمون ) یعنی”خدااوررسول کی اطاعت کروتاکہ موردرحمت قرارپاؤ “مذکورہ میں صرف ایک لفظ”اطیعوا“کاخدااورپیغمبردونوں کے لئے استعمال ہونا اس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کا واجب ہوناخداکی اطاعت کے واجب ہونے کے مانندہے۔اس بناء پرپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے امرپراطاعت کرناقطعی طورپراطلاق رکھتا ہے اورناقابل شک وشبہ ہے۔

۹۲

اُولوالاامرکی اطاعت

ائمہ علیہم السلام کی امامت و عصمت کے سلسلہ میں آیةمذکورہ سے استفادہ کر نے کے لئے مندرجہ چندابعادپرتوجہ کرناضروری ہے:

ا۔اولوالامرکامفہوم

۲ ۔اولوالامرکامصداق

۳ ۔اولوالامراو رحدیث ”منزلت“حدیث”اطاعت“اورحدیث”ثقلین“

۴ ۔شیعہ اورسنی منابع میں اولوالامرکے بارے میں چنداحادیث

اولوالامرکامفہوم

اولو الامر کا عنوان ایک مرکب مفہوم پرمشتمل ہے۔اس جہت سے پہلے لفظ”اولوا“ اور پھر لفظ ”الامر“پرتوجہ کرنی چاہئے:

اصطلاح”اولوا“صاحب اور مالک کے معنی میں ہے اورلفظ”امر“دومعنی میں ایاہے: ایک ”فرمان“ کے معنی میں دوسرا”شان اورکام“کے معنی میں ۔”شان وکام“کامعنی زیادہ واضح اور روشن ہے،کیونکہ اسی سورئہ نساء کی ایک دوسری آیت میں لفظ”اولی الامر“بیان ہواہے:

( و إذجاء هم اٴمر من الاٴمن اٴو الخوف اٴذاعوا به و لوردّوه إلی الرّسول و إلی اٴولی الاٴمر منهم لعلمه الذین یستنبطونه منهم ) ۔۔(نساء/۸۳)

”اورجب ان کے پاس امن یاخوف کی خبرآتی ہے توفوراًنشرکردیتے ہیں حالانکہ اگررسولاورصاحبان امرکی طرف پلٹادیتے توان میں ایسے افراد تھے کہ جوحقیقت حال کاعلم پیداکرلیتے-“

اس آیہء شریفہ میں دوسرامعنی مقصودہے،یعنی جولوگ زندگی کے اموراوراس کے مختلف حالتوں میں صاحب اختیارہیں،اس آیت کے قرینہ کی وجہ سے”اولی الامر“کالفظ مورد بحث آیت میں بھی واضح ہوجاتاہے۔

۹۳

مورد نظرآیت میں اولوالامرکے مفہوم کے پیش نظر ہم اس نکتہ تک پہنچ جاتے ہیں کہ”اولوالامر“کا لفظ صرف ان لوگوں کو شامل ہے جو در حقیقت فطری طورپرامورکی سرپرستی اورصاحب اختیارہونے کے لائق ہیں اورچونکہ خداوندمتعال ذاتی طورپرصاحب اختیارہے اورتمام امورمیں سرپرستی کااختیاررکھتاہے،اس لئے اس نے یہ سرپرستی انھیں عطاکی ہے ۔خواہ اگربظاہرانھیں اس عہدے سے محروم کر دیاگیا ہو،نہ ان لوگوں کوجوزوروزبردستی اورناحق طریقہ سے مسلط ہوکرلوگوں کے حکمران بن گئے ہیں۔اس لئے کہ صا حب خانہ وہ ہے جوحقیقت میں اس کامالک ہو چا ہے وہ غصب کر لیا گیا ہو،نہ کہ وہ شخص جس نے زورو زبر دستی یامکروفریب سے اس گھرپرقبضہ کر لیا ہے۔

اولوالامرکا مصداق

اولوالامرکے مصادیق کے بارے میں مفسرین نے بہت سے اقوال پیش کئے ہیں۔اس سلسلہ میں جونظریات ہمیں دستیاب ہوئے ہیںوہ حسب ذیل ہیں:

۱ ۔امراء

۲ ۔اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

۳ ۔مہاجرین وانصار

۴ ۔اصحاب اورتابعین

۵ ۔چاروخلفاء

۶ ۔ابوبکروعمر

۷ ۔علماء

۹۴

۸ ۔جنگ کے کمانڈر

۹ ۔ائمہء معصومین)علیہم السلام)

۱۰ ۔علی(علیہ السلام)

۱۱ ۔وہ لوگ جوشرعی لحاظ سے ایک قسم کی ولایت اورسرپرستی رکھتے ہیں۔

۱۲ ۔اہل حل وعقد

۱۳ ۔امرائے حق(۱)

ان اقوال پرتحقیق اورتنقیدکرنے سے پہلے ہم خودآیہء کریمہ میں موجودنکات اورقرائن پرغورکرتے ہیں:

آیت میں اولوالامرکامرتبہ

بحث کے اس مرحلہ میں ایہء شریفہ میں اولوالامرکی اطاعت کرنے کی کیفیت قابل توجہ ہے:

پہلانکتہ: اولوالامرکی اطاعت میں اطلاق آیہء شریفہ میں اولوالامرکی اطاعت مطلق طور پرذکرہوئی ہے اوراس کے لئے کسی قسم کی قیدوشرط بیان نہیں ہوئی ہے،جیساکہ رسول اکرم صلصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت میں اس بات کی تشریح کی گئی۔

یہ اطلاق اثبات کرتاہے کہ اولوالامرمطلق اطاعت کے حامل و سزاوارہیں اوران کی اطاعت خاص دستور،مخصوص حکم یا کسی خاص شرائط کے تحت محدودنہیں ہے،بلکہ ان کے تمام اوامرونواہی واجب الاطاعت ہیں۔

____________________

۱۔تفسیرالبحرالمحیط،ج۳،ص۲۷۸،التفسیرالکبیر

۹۵

دوسرانکتہ:اولوالامرکی اطاعت،خدااوررسولکی اطاعت کے سیاق میں یعنی ان تین مقامات کی اطاعت میں کوئی قیدوشرط نہیں ہے اوریہ سیاق مذکورہ اطلاق کی تاکیدکرتاہے۔

تیسرانکتہ:اولوالامرمیں ”اطیعوا“کاتکرارنہ ہونا۔گزشتہ نکات سے اہم تراس نکتہ کامقصدیہ ہے کہ خدا ورسولکی اطاعت کے لئے آیہء شریفہ میں ہرایک کے لئے الگ سے ایک”اطیعوا“لایاگیاہے اور فرمایاہے: ۔۔۔( اٴطیعواللّٰه واٴطیعواالرّسول ) لیکناولوالامرکی اطاعت کے لئے”اطیعوا“کے لفظ کی تکرارنہیں ہوئی ہے بلکہاولی الامر”الرسول“پرعطف ہے،اس بناپروہی”اطیعوا“جورسول کے لئے آیا ہے وہ اولی الامرسے بھی متعلق ہے۔

اس عطف سے معلوم ہوتاہے کہ”اولوالامر“اور”رسول“کے لئے اطاعت کے حوالے سے دوالگ الگ واجب نہیں ہیں بلکہ وجوب اطاعت اولوالامر وہی ہے جو وجوب اطاعت رسولہے یہ اس امر کی دلیل ہے کہ اولوالامر کی اطاعت تمام امر ونہی میں رسول اکرم (ص)کی اطاعت کے مانندہے اوراس کانتیجہ گناہ وخطاسے اولوالامرکی عصمت،تمام اوامرونواہی میں رسول کے مانندہے۔

اس برہان کی مزیدوضاحت کے لئے کہاجاسکتاہے:آیہء شریفہ میں رسول اکرم صلصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اوراولوالامرکی اطاعت کے لئے ایک”اطیعوا“سے زیادہ استعمال نہیں ہوا ہے اوریہ”اطیعوا“ایک ہی وقت میں مطلق بھی ہواورمقیّدبھی یہ نہیں ہوسکتاہے یعنی یہ نہیں کہا جاسکتاہے کہ یہ”اطیعوا“رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں مطلق ہے اوراولوالامرکے بارے میں مقیّدہے،کیونکہ اطلاق اور قیدقابل جمع نہیں ہیں۔اگر”اطیعوا“پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں مطلق ہے اورکسی قسم کی قیدنہیں رکھتا ہے،)مثلاًاس سے مقیّدنہیں ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا امرونہی گناہ یا اشتباہ کی وجہ سے نہ ہو)تواولوالامر کی اطاعت بھی مطلق اوربلا قید ہو نی چاہئے ورنہ نقیضین کاجمع ہونا لازم ہوگا۔

۹۶

ان نکات کے پیش نظریہ واضح ہوگیاکہ آیہء کریمہ اس امر پر دلالت کر تی ہے کہ اس آیت میں ”اولوالامر“پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مانند معصوم ہیں۔

یہ مطلب کہ”اولوالامر کی اطاعت“آیہء کریمہ میں مذکورہ خصوصیات کے پیش نظر،اولوالامر کی عصمت پر دلالت ہے،بعض اہل سنّت(۱) مفسرین،من جملہ فخررازی کی توجہ کا سبب بنا ہے۔اس لحاظ سے یہاں پران کے بیان کاخلاصہ جواس مطلب پر قطعی استدلال ہے کی طرف اشارہ کرنا مناسب ہے:

آیہء اولوالامر کے بارے میں فخررازی کا قول

فخررازی نے بھی”اولوالامر“کی عصمت کو آیہء شریفہ سے استفادہ کیا ہے ان کے بیان کا خلاصہ حسب ذیل ہے:

”خداوند متعال نے آیہء کریمہ میں ”اولوالامر“ کی اطاعت کو قطعی طورپرضروری جانا ہے،اورجس کسی کے لئے اس قسم کی اطاعت واجب ہواس کاخطاواشتباہ سے معصوم ہو ناناگزیر ہے،کیونکہ اگر وہ خطاواشتباہ سے معصوم نہ ہو اور بالفرض وہ خطا کا مر تکب ہو جائے تو ،اس آیت کے مطابق اس کی اطاعت کرنی ہوگی!اوریہ ایک امر خطا واشتباہ کی اطاعت ہوگی،جبکہ خطااوراشتباہ کی نہی کی جاتی ہے لہذا انہیں چاہے کر اس کے امر کی پیروی کیجائے، کیونکہ اس قسم کے فرض کا نتیجہ فعل واحد میں امرونہی کا جمع ہو نا ہے )جو محال ہے)(۲) ۔

فخررازی اولوالامرکی عصمت کوآیہء سے استدلال کرنے کے بعد،یہ مشخص کرنے کے لئے کہ اولوالامر سے مراد کون لوگ ہیں کہ جن کامعصوم ہونا ضروری ہے کہتا ہے:

____________________

۱۔غرائب القرآن،نیشا بوری،ج۲،ص۴۳۴،دارالکتب العلمیة بیروت،تفسیرالمنار،شیخ محمدعبدہ ورشیدرضا،ج۵،ص۱۸۱دارالمعرفةبیروت

۲۔التفسیرالکبیر،آیت کے ذیل میں

۹۷

” اولوالامر سے مرادشیعہ امامیہ کے ائمہ معصو مین علیھم السلام(ع)نہیں ہو سکتے

ہیں،بلکہ اس سے مراداہل حل وعقد)جن کے ذمہ معاشرہ کے اہم مسائل کے حل کرنے کی ذمہ داری ہے)کہ جواپنے حکم اورفیصلے میں معصوم ہوتے ہیں اوران کے فیصلے سوفیصد صحیح اورمطابق واقع ہوتے ہیں“۔

فخررازی کاجواب

یہ بات کہ اولوالامر سے مراد اہل حل وعقد ہیں اور وہ اپنے حکم اور فیصلہ میں معصوم ہیں،مندرجہ ذیل دلائل کے پیش نظر صحیح نہیں ہے:

۱ ۔آیہء کریمہ میں ”اولوالامر“کا لفظ جمع ا ور عام ہے کہ جو عمو میت و استغراق پر دلالت کر تا ہے۔اگر اس سے مراد اہل حل وعقد ہوں گے تو اس کی دلالت ایک مجموعی واحد پر ہو گی اور یہ خلاف ظاہر ہے۔

وضاحت یہ ہے کہ آیہء کریمہ کاظاہریہ بتاتاہے کہ ایسے صاحبان امرکی اطاعت لازم ہے جن میں سے ہر کوئی، واجب الاطاعت ہو ،نہ یہ کہ وہ تمام افراد ) ایک مشترک فیصلہ کی بنیاد پر)ایک حکم رکھتے ہوں اور اس حکم کی اطا عت کر نا واجب ہو ۔

۲ ۔عصمت،ایک تحفظ الہٰی ہے،ایک ملکہ نفسانی اورحقیقی صفت ہے اوراس کے لئے ایک حقیقی موصوف کاہوناضرودری ہے اوریہ لازمی طور پرایک امرواقعی پر قائم ہو نا چاہئے جبکہ اہل حل وعقدایک مجموعی واحدہے اورمجموعی واحد ایک امراعتباری ہو تا ہے اورامر واقعی کا امراعتباری پر قائم ہونا محال ہے۔

۳ ۔مسلمانوں کے درمیان اس بات پر اتفاق نظر ہے کہ شیعوں کے ائمہ اورانبیاء کے علاوہ کوئی معصوم نہیں ہے۔

۹۸

ائمہء معصومین )ع )کی امامت پر فخررازی کے اعتراضات

اس کے بعد فخررازی نے شیعہ امامیہ کے عقیدہ، یعنی”اولوالامر“سے مرادبارہ ائمہ معصومین ہیں،کے بارے میں چنداعتراضات کئے ہیں:

پہلا اعتراض:ائمہء معصومین )علیہم السلام) کی ا طاعت کا واجب ہونا یا مطلقاً ہے یعنی اس میں ان کی معرفت وشناخت نیزان تک رسائی کی شرط نہیں ہے،تو اس صورت میں تکلیف مالایطاق کا ہو نا لازم آتا ہے،کیونکہ اس فرض کی بنیاد پر اگر ہم انھیں نہ پہچان سکیں اوران تک ہماری رسائی نہ ہو سکے،تو ہم کیسے ان کی اطاعت کریں گے؟یا ان کی شناخت اور معرفت کی شرط ہے،اگر ایسا ہے تویہ بھی صحیح نہیں ہے ،کیونکہ اس بات کا لازمہ ان کی اطاعت کا واجب ہونامشروط ہوگا،جبکہ آیہء شریفہ میں ان کی اطاعت کا واجب ہو نا مطلقاً ہے اوراس کے لئے کسی قسم کی قیدوشرط نہیں ہے ۔

جواب:ائمہء معصومین کی اطاعت کے واجب ہونے میں ان کی معرفت شرط نہیں ہے تاکہ اگرکوئی انھیں نہ پہچانے تواس پران کی اطاعت واجب نہ ہو،بلکہ ان کی اطاعت بذات خودمشروط ہے۔نتیجہ کے طور پر انھیں پہچاننا ضروری ہے تاکہ ان کی اطاعت کی جاسکے اوران دونوں کے درمیان کافی فرق ہے۔

مزیدوضاحت:بعض اوقات شرط، شرط وجوب ہے اور بعض اوقات شرط،شرط واجب ہے۔مثلاً وجوب حج کے لئے استطاعت کی شرط ہے اورخوداستطاعت وجوب حج کی شرط ہے۔اس بناء پر اگر استطاعت نہ ہو توحج واجب نہیں ہو گا۔لیکن نمازمیں طہارت شرط واجب ہے،یعنی نماز جو واجب ہے اس کے لئے طہارت شرط ہے۔اس بناء پر اگرکسی نے طہارت نہیں کی ہے تووہ نماز نہیں پڑھ سکتا ہے،وہ گناہ کا مرتکب ہوگا،کیونکہ اس پر واجب تھاکہ طہارت کرے تاکہ نماز پڑھے۔لیکن حج کے مسئلہ میں ،اگراستطاعت نہیںرکھتا ہے تواس پر حج واجب نہیں ہے اور وہ کسی گناہ کا مرتکب نہیں ہوا ہے۔

اس سلسلہ میں بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورامام(ع)دونوں کی اطاعت کے لئے ان کی معرفت کی شرط ہے۔اس لحاظ سے ان کی معرفت حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ ان کی اطاعت کی جاسکے۔پس ان کی اطاعت کاوجوب مطلقاًہے،لیکن خوداطاعت مشروط ہے۔

۹۹

خدائے متعال نے بھی قطعی دلالت سے اس معرفت کے مقدمات فراہم کئے ہیں۔جس طرح پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قطعی دلائل کی بناپرپہنچانے جاتے ہیں،اسی طرح ائمہ معصومین علیہم السلام کو بھی جوآپکے جانشین ہیں قطعی اورواضح دلائل کی بناپر جیسا کہ شیعوں کے کلام اورحدیث کی کتابوں میں مفصل طورپرآیاہے اوران کے بارے میں معرفت اورآگاہی حاصل کرناضروری ہے۔

دوسرااعتراض:شیعہ امامیہ کے عقیدہ کے مطابق ہرزمانہ میں ایک امام سے زیادہ نہیں ہوتا ہے،جبکہ”اولوالامر“جمع ہے اورمتعدداماموں کی اطاعت کوواجب قراردیتاہے۔

جواب:اگرچہ ہرزمانے میں ایک امام سے زیادہ نہیں ہوتاہے،لیکن ائمہ کی اطاعت مختلف ومتعددزمانوں کے لحاظ سے ہے،اوریہ ہرزمانہ میں ایک امام کی اطاعت کے واجب ہونے کے منافی نہیں ہے۔نتیجہ کے طورپرمختلف زمانوں میں مومنین پرواجب ہے کہ جس آئمہ معصوم کی طرف سے حکم ان تک پہنچے،اس کی اطاعت کریں۔

تیسرااعتراض:اگرآیہء شریفہ میں ”اولوالامر“سے مراد آئمہ معصومین ہیں توآیہ شریفہ کے ذیل میں جوحکم دیاگیاہے کہ اختلافی مسائل کے سلسلہ میں خدائے متعال اوررسول (ص)کی طرف رجوع کریں،اس میں ائمہ معصومین(ع)کی طرف لوٹنے کا بھی ذکرہوناچاہئے تھا جبکہ آیت میں یوں کہاگیاہے:( فإن تنازعتم فی شیءٍ فردّوه إلی اللّٰه والرّسول ) ”پھراگرآپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تواسے خدااور رسولکی طرف ارجاع دو۔“جبکہ یہاں پر”اولوالامر“ذکرنہیں ہواہے۔

جواب:چونکہ ائمہ معصومین علیہم السلام اختلافات کو حل کرنے اوراختلافی مسائل کے بارے میں حکم دینے میں قرآن مجیداورسنّت (ص)کے مطابق عمل کرتے ہیں اورکتاب وسنّت کے بارے میں مکمل علم وآگاہی رکھتے ہیں،اس لئے اختلافی مسائل میں کتاب و سنت کی طرف رجوع کرناخدا اوررسولکی طرف رجوع کرناہے۔اسی لئے”اولوالامر“کاذکر اور اس کی تکرارکرنایہاں پرضروری نہیں تھا۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271