سيرت آل محمد(عليهم السلام)

سيرت آل محمد(عليهم السلام)0%

سيرت آل محمد(عليهم السلام) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

سيرت آل محمد(عليهم السلام)

مؤلف: آیۃ اللہ شهید مرتضيٰ مطہرى
زمرہ جات:

مشاہدے: 26621
ڈاؤنلوڈ: 3483

تبصرے:

سيرت آل محمد(عليهم السلام)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 19 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 26621 / ڈاؤنلوڈ: 3483
سائز سائز سائز
سيرت آل محمد(عليهم السلام)

سيرت آل محمد(عليهم السلام)

مؤلف:
اردو

امام حسن عسکریعليه‌السلام کے بارے میں چند باتیں

آج کی رات امام عسکری علیہ السلام کی ولادت باسعادت کی رات ہے، عید کی رات ہے اور ہمارے گیارہویں امام حسن عسکری علیہ السلام کے دنیا میں تشریف لانے کی رات ہے چناچہ اسی مناسبت سے ہم حضرت امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی خدمت اقدس میں ھدیہ تبرک پیش کرتے ہیں۔ میں اس نشست میں امام عسکری علیہ السلام کے بارے میں کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کا دور انتھائی پریشانیوں اور مشکلات کا دور ہے۔ امام زمانہ علیہ السلام کی ولادت کا زمانہ جوں جوں نزدیک ہوتا جارہا تھا سلاطین جور کی طرف آئمہ پر سختیاں بڑھتی جا رہی تھیں۔ امام حسن عسکری علیہ السلام سامرا میں سکونت پزیر تھے۔ اسی وقت مرکز خلافت یھی شھر تھا۔ معتصم کے زمانہ حکومت میں مرکز خلافت بغداد سے سامرا منتقل ہو گیا۔ کچھ مدت یھی مرکز رہا۔ اس کے بعد دو مرتبہ بغداد بنا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ معتصم کے فوجی لوگوں پر بے تحاشہ ظلم کرتے، بے گناہوں کو بلا وجہ سے ستاتے پریشان کرتے تھے۔ لوگوں نے مظالم سے تنگ آکر شکایت کی۔ شروع شروع میں معتصم نے پروانہ کی لیکن، پھر عوام نے اس مرکز کی منتقلی پر رضا مند کر لیا۔ اس کی ایک اور وجہ بھی تھی کہ فوج اور مردوں میں فاصلہ رہے۔ اس لیے مرکز سامرا آگیا۔ امام حسن عسکری علیہ السلام اور امام ھادی علیہ السلام کو مجبوراً سامرا آنا پڑا۔ آپ "العسکر یا العسکری محلہ" میں رہائش پذیر ہوئے۔ ہوسکتا ہے کہ وہاں فوج رھتی ہو اور آپ کو نظر بند کیا گیا ہو۔ امام حسن عسکری علیہ السلام جب شھید ہوئے تو آپ کا سن مبارک ۲۸ سال تھا۔

آپ کے والد گرامی کی عمر مبارک شھادت کے وقت ۴۲ برس تھی۔امام حسن عسکری علیہ السلام کا دور امامت چھ سال ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ آپ ان چھ سالوں کے دوران یا تو قید میں رہے اگر کچھ دنوں کیلئے آزادی ملی تو پھر بھی آپ کو پابندیوں میں رکھا گیا۔ لوگوں کا آپ کو ملنا جلنا اور آپ سے ملاقات کرنا بھی ممنوع تھا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ آپ کی زندگی قیدیوں سے بھی زیادہ پریشان کن تھی۔ کبھی کبھی امام حسن عسکری علیہ السلام کو دربار مین بلوا کر پریشان کیا جاتا تھا۔ عجیب و غریب صورت حال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گھٹن ہی گھٹن، کوئی بھی نہیں ہے کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کی دلجوئی کرے۔ ان کر بناک لمحوں میں امام علیہ السلام نے کس طرح وقت پاس کیا ہوگا؟ یہ تو امام ہی جانتے ہیں۔ یوں تو ہمارے تمام آئمہ طاہر ین علیھم السلام تمام لوگوں سے ممتاز تھے، لیکن ہر امام تمام خوبیوں کی موجودگی میں ایک الگ خوبی بھی رکھتا تھا۔ جیسا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کا رعب و جلال اور شان و شوکت اتنی زیادہ تھی دیکھنے والے دیکھتے ہی رہ جاتے تھے۔ آپ سکون و وقار کے ساتھ قدم رکھتے، انتھائی شائستگی وشفتگی کے ساتھ بات کرتے۔ متانت کے ساتھ تبسم فرماتے تھے۔ جب آپ گفتگو کرتے تو علم وعرفان کی بارش برس پڑتی تھی۔ آپ کا دشمن کے سامنے آیا موم ہوگیا۔ اس وقت کا جابر سے جابر شخص بھی آپ کی طرف آنکھ کر کے دیکھنے اور بات کرنے کی جرات نہ کرسکتا تھا۔

اس سلسلے مین جناب محدث قمی نے اپنی کتاب "الانوار البھیہ" میں ایک واقعہ نقل کیا ہے یا اس کو روایت کیا ہے۔ احمد بن عبداللہ حافان یہ وزیر المعتمد علی اللہ کا بیٹا تھا۔ انھوں نے اپنے آباؤ اجداد سے واقعہ نقل کیا ہے بہت ہی عجیب و غریب واقعہ ہے۔

امام حسن عسکری علیہ السلام قید با مشقت کی سزا بھگت رہے تھا۔ اس وقت کے حکمرانوں اور لوگوں میں یہ بات عام تھی کہ اسی امام کی صلب میں بارہویں لعل ولایت نے ظھور فرمانا ہے۔ جیسا سلوک فرعون نے بنی اسرائیل کے ساتھ کیا تھا اس سے بدتر اس عظیم الشان امام کے ساتھ روا رکھا گیا۔ فرعون کو نجومیوں نے بتایا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہوگا وھی بچہ تمہارے اقتدار کے زوال کا باعث بنے گا۔ فرعون کے فوجی لڑکوں کو مارتے گئے اور بچیوں کو رہنے دیا۔ بار آور خواتین پر جاسوس عورتیں مقرر کی گئیں۔ یھی صورت حال امام حسن عسکری علیہ السلام کے دور امامت میں پیدا ہو گئی۔ جناب مولوی نے کیا خوب شعر کھا ہے ۔

حملہ بردی سوی دربندان غیب

تا ببندی راہ بر مردان غیب

یہ بھی کتنا بے وقوف تھا کہ اگر جاسوس کی خبر صحیح بھی ہو کیا وہ حکم الھی کو روک سکتا ہے؟ جب امام حسن عسکری علیہ السلام شھید ہوئے تو چند جاسوس عورتوں کو آپ کے گھر تفتیش کے لیے بھیجا گیا۔ ان کو بتانے والوں نے بتایا دیا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کا "محمد"نام سے بیٹا پیدا ہوچکا ہے۔ لیکن اللہ تعالی کے حکم و مھربانی سے ابھی تک یہ راز انتھائی پوشیدہ ہے یہاں تک کہ ولادت کے وقت کسی کو بھی خبر نہ تھی۔ امام مھدی علیہ السلام چھ سال کے تھا کہ والد گرامی کا سایہ اٹھ گیا۔ چند خاص مومنوں کے علاوہ اس معصوم شھزادے کے بارے میں کسی کو خبر نہ تھی ۔

کبھی کبہار حکومت کی جاسوس عورتیں امام علیہ السلام کے گھر میں جاتیں کہ شاید ان کو امام مھدی (عج) نظر آجائیں اور ان کو اسی وقت قتل کر دیا جائے لیکن جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ اللہ تعالی کی تقدیر کا مقابلہ تو نہیں کیا جاسکتا۔ اور نہ ہی کوئی مقابلہ کرنے کی جسارت کرسکتا ہے۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کی شھادت کے دن پولیس نے امام علیہ السلام کے گھر کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ کثیر تعداد میں جاسوس عورتیں خانہ امام میں داخل ہو گئیں شاید اسی گھر میں کوئی بار آور خاتون ہو؟ تلاشی لینے کے بعد عورتوں کو ایک کنیز نظر آئی ان کو اس پر شک گزار اس کو گرفتار کر کے زندان میں ڈالا گیا۔ ایک سال تک وہ بیچاری زندان کی سلاخوں کے پیچھے بند رہی لیکن جب سال گزر گیا تو ان کو پتہ چلا کہ یہ خاتون بے قصور ہے۔ بالآخر اس عورت کو رہا کر دیا گیا ۔

امام حسن علیہ السلام کی والدہ ماجدہ کا نام نامی"حدیث" تھا ان کو جدہ بھی کھا جاتا ہے۔ چونکہ یہ بی بی سرکار امام زمانہ علیہ السلام کی جدہ ہیں اس لیے ان کو جدہ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ تاریخ میں کچھ ایسی خواتین بھی ہیں کہ جن کو "جدہ" کھا جاتا ہے۔ اصفھان میں دو دینی مدارس "جدہ"کے نام سے رکھے گئے ہیں۔ یہ بی بی جدہ کے نام سے شھرت رکھتی تھیں۔ یہ معظّمہ بہت ہی عظمت و رفعت، رتبہ و منزلت کی مالکہ تھیں۔ جناب محدث قمی رضوان اللہ علیہ نے اپنی کتاب الانوار البھیہ میں لکھا ہے ۔

یہ بی بی امام حسن عسکری علیہ السلام کی شھادت کے بعد مرکزی شخصیت کے طور پر زندگی گزار رہی تھیں۔ شیعہ خواتین آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر اپنے اپنے مسائل حل کراتی تھیں۔ چونکہ امام حسن عسکری علیہ السلام ۲۸ برس کی عمر میں شھید ہوئے تھے، اس لحاظ سے اس بی بی کی عمر ۶۵ برس کے لگ بھگ لگتی ہے ۔

بھت ہی جلیل القدر خاتون تھیں۔ آپ خواتین کے ذریعہ تمام مومنین، مومنات کے علمی و روحانی مسائل حل کرتی تھیں۔ ایک شخص بیان کرتا ہے کہ میں امام جوادعليه‌السلام کی صاجزادی جناب حلیمہ خاتون کے در اقدس پر گیا۔ یہ بی بی امام حسن عسکری علیہ السلام کی پھوپھی تھیں دروازہ پر کھڑے ہو کر میں نے مسئلہ امام کی بابت آپ سے سوال کیا، تو بی بی نے فرمایا گیارہویں امام حسن عسکری علیہ السلام ہیں۔ اور بارہویں امام ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تھوڑی خاموش ہوگئیں پھر فرمایا ان کا فرزند اجمند۔ ۔ ۔۔ ۔ جو کہ اب لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہے وہ آخری امام ہے۔ میں نے عرض کیا بی بی اگر ہم اپنے امام وقت سے ملاقات نہ کر سکیں تو شرعی مسائل کے بارے میں کس سے سوال کریں؟ آپ نے فرمایا جدہ کی طرف رجوع کریں۔ میں نے کھا کہ آقا اس دنیا سے چلے گئے ہیں اور ایک خاتون کے بارے میں وصیت کر گئے ہیں۔ فرمایا امام حسن عسکری علیہ السلام نے وھی کام کیا ہے جو حضرت امام حسین علیہ السلام نے کیا تھا۔ حقیقت میں امام عالی مقام کے وصی امام سجاد علیہ السلام تھے لیکن امام زین العابدین علیہ السلام کی بیماری کی باعث آپ نے اکثر وصیتیں اپنی بھن جناب زینب سلام اللہ علیھا سے کی ہیں، یھی کام امام حسن عسکری علیہ السلام کو کرنا پڑا، کیونکہ آپ کے نائب تو امام مھدی علیہ السلام ہیں لیکن وہ پردہ غیبت میں ہیں اس لیے دینی و شرعی مسائل کی بابت جدہ کی طرف رجوع کیا جاتا تھا ۔

عدل و انصاف

( وعد الله الذین آمنو و عملو الصالحات یستخلقنهم فی الارض کما استخلف الذین من قبلهم ولیمکنن لهم دینهم الذی ارتضی لهم ولیبد لنهم من بعد خوفهم امنا یعبدوننی لا یشرکون بی شیاءً ومن کفر بعد ذلک فاولئک هم الفاسقون ) (۳۳)

"اے ایماندارو! تم میں سے جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے کام کئے ان سے خدا نے وعدہ لیا ہے کہ وہ ان کو (ایک نہ ایک دن) روئے زمین پر ضرور اپنا نائب مقرر کرے گا جس طرح ان لوگوں کو نائب بنایا جو ان سے پھلے گزر چکے ہیں اور جس کو اس نے ان کے لیے پسند فرمایا ہے (اسلام) اس پر انھیں ضرور ضرور پوری قدرت دے گا اور ان کے خائف ہونے کے بعد (ان کے خوف کو) امن سے ضرور بدل دے گا کہ وہ (اطمینان سے) میری ہی عبادت کرتے رہیں گے اور کسی کو ہمارا شریک نہ بنالیں اور جو شخص اس کے بعد بھی نا شکری کرے تو ایسے ہی لوگ بدکار ہیں۔"

تمام انبیاء اکرامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ تعالی کی طرف سے لوگوں میں ہی مبعوث ہوئے ہیں ان کی تشریف آوری کے دو بنیادی مقاصد تھے۔ ایک مقصد تو یہ تھا کہ اللہ تعالی و مخلوق کے درمیان صحیح طریقے سے رابطہ قائم ہو، دوسرے لفظوں میں اپنے معبود حقیقی اور خالق حقیقی کے سوا کسی کی پرستش اور عبادت نہ کی جائے جیسا کہ کلمہ طیبہ میں کھا گیا ہے:

"لااله الا الله "

کوئی معبود نہیں سوائے اللہ تعالی کے ۔"

انبیاء کرام کی بعثت کا دوسرا مقصد انسانیت کے مابین اچھا اور سازگار ماحول پیدا کرنا اور ان کو اچھے طریقے سے رہنے کی تعلیم دینا گویا تعلیم و تربیت انسانی زندگی کا اہم حصہ ہے، ان تمام نبیوں، رسولوں نے بنی نوع انسان کو عملی طور پر تلقین کی ہے کہ وہ عدل و انصاف، پیار و محبت اور ایک دوسرے کی خدمت کے جذبے کے ساتھ زندگی بس کریں۔ قرآن مجید نے ان دو اہداف کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ پھلے مقصد کی بابت خاتم الانبیاء کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے:

یا یها النبی انا ارسلناک شاهداً و مبشراً نذیراً و داعیاً الی الله باذنه وسراجاً منیرا"

اے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! ہم نے آپ کو (لوگوں کا) گواہ اور (نیکیوں کو بھشت کی) خوشخبری دینے والا اور (بروں کو) عذاب سے ڈرانے والا اور خدا کی طرف سے اسی کے حکم سے بلانے والا (ایمان وھدایت کا) روشن چراغ بنا کر بھیجا۔"

مقصد بعثت کو کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے:

( لقد ارسلنا رسلنا بالبینات وانزلنا معهم الکتاب والمیزان لیقوم الناس بالقسط ) (۳۴)

"ھم نے یقیناً اپنے پیغمبروں کو واضح و روشن معجزے دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ ساتھ کتاب اور (انصاف کی) ترازو نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں ۔"

قرآن مجید نے کھلے لفظوں اور پوری و ضاحت کے ساتھ بتایا ہے کہ انبیاء کرام کی بعثت کا مقصد لوگوں میں عدل و انصاف کو نافذ کرنا ہے۔ آخری آیت میں ارشاد الٰھی ہے کہ ہم نے ان کو کتاب، دستور اور منشور کے ساتھ ساتھ میزان بھی دیا ہے تاکہ وہ لوگوں کو عادلانہ نظام کے قیام کی تلقین کریں۔ گویا عدل و انصاف ہی انسانیت کی خوشحالی اور بقاء کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ۔

عدالت روشنی بھی ہے اور زندگی بھی، اگر یہ نہ ہوتی تو انسانیت ایک دوسرے کی زیادتیوں کا شکار ہو کر صفحہ ہستی سے مٹ جاتی۔ تمام انبیاء کرام اس عظیم مقصد کو لے کر انسانوں ہی میں تشریف لائے، ان کا ایک مقصد تھا، ایک مشن تھا ایک ذمہ داری تھی وہ تھی عدالت ہی عدالت ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن مجید نے تعلیم و تربیت اور عدالت کو انتھائی اہمیت کے ساتھ بیان کیا ہے ۔

ایک اور مسئلہ پر عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ آیا عدالت کلی مراد ہے یا عدالت عمومی؟ یعنی کیا اور ایسا دور کبھی آئے گا کہ اس پوری کائنات میں ہر طرح کے طلم و ستم، جنگوں، نفرتوں، لڑائیوں اور چپقلشوں کا خاتمہ ہوا اور ہر طرح کی برائی کا خاتمہ ہو؟ کیا آنے والی صدیوں، یا مستقبل میں اس قسم کی گھڑی آئے گی کہ جس میں امن ہی امن ہو؟ھماتے دوسرے مسلمان بھائیوں کا عقیدہ ہے کہ مکمل طور پر ہمہ جھت عدالت کبھی کبھی قائم نہیں ہوگی، کیونکہ این خیال است و محال یہ دنیا بہت پست ہے اور اس کے باسی بہت ظلم ہیں۔ یہاں پر تاریکیوں، پریشانیوں، دکھوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ اس میں عدل و انصاف مکمل طور پر نافذ ہو۔ ھرطرح کے جرائم اور مظالم ہوتے رہیں گے۔ عدالت تو صرف آخرت میں ہوگی جو کہ اللہ تعالی خود نافذ فرمائے گا اور خود ہی فیصلہ کرے گا، کچھ غیر اسلامی طبقہ بھی اس طرح کی سوچ رکھتا ہے، لیکن شیعہ مذھب کھتا ہے کہ آپ کو مایوس نہیں ہونا چاہی ے۔ ظلم و ستم، جھگڑا و فساد عارضی چیزیں ہیں۔ انھوں نے ایک نہ ایک روز ختم ہونا ہی ہے۔ عدالت ضرور نافذ ہو کر رہے گی یہ روشنی، یہ امید صرف اور صرف مذھب شیعہ میں ہے۔ دیگر مذھب و ادیان اس طرح عقیدہ نہیں رکھتے۔

ہمارے نزدیک انسانیت کا مستقبل تاریک نہیں بلکہ روشن ہے۔ عدالت کا قیام اور ارتقاء ایک نہ ایک دن ضرور عمل میں لایا جائے گا۔ قرآن مجید بھی ہمارے اس موقف کی تائید کرتے ہوئے نوید دے رہا ہے کہ کائنات کا مستقبل روشن ہے اس سے متعلق متعدد آیات موجود ہیں۔ ان میں ایک آیت یھی ہے جس کو میں نے عنوان مجلس قرار دیا ہے۔ قرآن مجید نے انبیاء کرام کی بعثت کے دو اہم مقاصد بیان کیے ہیں۔ ایک توحید اور دوسرا عدالت کا نفاذ اور اجراء ۔ سب سے پھلے تو انسان کا اپنے معبود حقیقی کے ساتھ رابطہ، دوسرا انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رھنا چاہی ے، بنی نوع انسانوں کو عدل وانصاف کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے زندگی گزارانی لوگوں یہ بات یاد کرانی چاہی ے کہ ہمیں ایک نہ ایک روز اس خالق اکبر کے حضور پیش ہونا ہے، اس لیے ہمیں اس کی رضا کیلئے کام کرنا چاہی ے۔ یہ ایک حتمی امر ہے کہ اس جھاں مین انسان نے ایک عادلانہ نظام کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا ہے ۔ ایک ایسا نظام جس میں عدالت ہی عدالت ہوگی۔ تمام تر تاریکیاں ختم ہوجائیں گی۔ ہر طرف روشنیوں کی حکمرانی ہوگی عدالت کی معطر ہوا تھکی ماندہ اسنانیت کو سکون فراہم کر گی۔ ہماری بحث کا مقصد یہ ہے کہ ایک روز ضرور ہی ایک مستقبل اور ہمہ جھت عدالت قائم ہوگی۔ اسلام بھی یہ کھتا ہے کہ ہم تین موضوعات پر بحث کریں گے۔ سب سے پھلے تو دیکھنا یہ ہے عدالت کیا ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ کیا عدالت انسان کی فطرت میں شامل ہے؟ یا فطرت میں شامل نہیں ہے؟ یا جس وقت انسان عدالت کے کھڑے میں کھڑا ہوگا کیا ہ زبردستی طور پر ہوگا یا اس کی اس میں رضا بھی شامل ہوگی؟ تیسری بات کہ عدالت عملی ہوگی یا نھیں، اگر ہوگی تو کس طریقے سے ہوگی؟۔

عدالت کیا ہے؟

پھلی بات تو یہ ہے کہ عدالت کیا چیز ہے؟ شاید اس کی تعریف و تشریح بیان کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ کیونکہ ہم میں سے ہر شخص ظلم سے بخوبی واقف ہے اور عدالت ظلم کے مقابلے میں ایک حقیقت کا نام ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہر شخص اپنی ضروریات اور خواہش لے کر دنیا میں آیا ہے اور انھیں ضروریات کو پورا کرنے کیلئے وہ زندگی بھر مصروف کار رھتا ہے۔ عدالت کا معنی یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنا حق ملے کہ ظلم کے برعکس ہے۔ ظلم یہ ہے کہ حقدار کو حق نہ دیا جائے یا کسی کو بے جاستانا، یا پریشان کرنا بھی ظلم کے زمرے میں آتا ہے۔ قدیم زمانوں میں ایسے لوگ بھی تھے جو عدالت کو سرے ہی سے مانتے تھے۔ قدیم یونان کے فلاسفہ اور یورپ کے مفکرین نے بھی اس موقف کی تائید کی ہے۔ ان کے نزدیک عدالت نامی چیز کا کوئی وجود ہی نہیں ہے اور عدالت کا تعلق طاقت سے ہے۔ قانون کا مقصد یہ ہے کہ انسان سے زبردستی طور پر فیصلے منوائے جائیں۔ میں ان مفکرین کا جواب نہیں دینا چاہتا ورنہ اپنی گفتگوں کا مقصد بھی کھو بیٹھوں گا۔ دراصل عدالت حقیقی ہے اور یہ خلقت سے اخذ شدہ ہے چونکہ خلقت حقیقت ہے اور جو بھی موجود ہے وہ حقدار ہے۔ انسان کو اس کی محنتوں، کاوشوں کا صلہ ملنا چاہی ے۔ عدالت کا معنی یہ ہے کہ حقدار کو حق ملنا چاہی ے۔ متذکرہ بالا عبارت میں جو سوالات پیش کئے گئے ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ بے معنی سی گفتگو کا معنی ہی کیا ہوسکتا ہے؟

کیا عدالت فطری امر ہے؟

میری بحث کا دوسرا حصہ ا س امر سے متعلق ہے کہ کیا انسان عدالت کی طرف فطری میلان رکھتا ہے کہ نھیں؟ ایک مثال دے کر آپ کو بات سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں، آپ نے اس اجتماع میں شرکت کی ہے۔ آپ لکھے ہوئے بیزز کو دیکھیں کہ درمیان میں "لا الہ الا اللہ" لکھا ہوا ہے اور دائیں طرف "محمد رسول اللہ" اور بائیں طرف "علی ولی اللہ" درج ہے۔ کالے رنگ کا ستارہ نظر آرہا ہے یہ بی بی فاطمۃ الزھرا سلام اللہ علیھا کی عصمت کو بیان کرتا ہے۔ دوسری طرف بارہ اماموں کے نام لکھے ہوئے ہیں۔ قرآنی آیات کو دیکھئے یہ سب آسمانی شعار ہیں۔ کھیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلکھے ہوئے فرامین نظر آرہے ہیں، تو کھیں پر مولائے کائنات علیہ السلام کے ارشادات درج ہیں، کھیں پر امام حسین علیہ السلام کے اقوال زرین لکھے ہیں اور کھیں پر امام حسین علیہ السلام کے ارشادات نظر آرہے ہیں۔ ان خوبصورت فرامین کو انتھائی خوبصورت انداز کے ساتھ تحریر کیا گیا ہے۔ آپ ان خوبصورت تحریوں کو دیکھ کر، پڑھ کر خوش ہوتے ہیں۔ ان کو پسند کرنے پر کسی نے آپ کو مجبور تو نہیں کیا ہے؟ اچھی اور عمدہ تحریریں تھیں، آپ کو پسند آگئیں۔ ہر انسان میں یہ قوت موجود ہے کہ جب بھی وہ اچھی اور خوبصورت چیز کو دیکھتا ہے تو اسے پسند کرتا ہے، یا اس کی خوبصورتی کی تعریف کرتا ہے اب اس کے لیے کسی قانون کی ضرورت نہیں ہے نہ ہی وہ اس کے لیے کسی کی پابندی قبول کرتا ہے۔ یہ ایک فطری امر ہے اور فطرت پر کسی کو کسی قسم کا زور نہیں ہے۔ اس نوعیت کے تمام امور انسانی فطرت کے تابع ہیں۔ علم دوستی اور اس طرح کی دوسری چیزیں بھی بشری فطرت میں شامل ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا عدالت کو پسند کرنا، یا عادل ہونا، یا عادل شخص سے محبت کرنا، انسانی فطرت میں شامل نہیں ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ اس میں انسان کو کس قسم کا ذاتی قائدہ بھی نہ ہو پھر بھی وہ عدالت کو پسند کرے گا۔ یہاں تک کہ بعض عادل حکمرانوں کی کئی نسلوں تک قومی ھیرو کے طور پر جانا پھچانا جاتا ہے۔ اس موضوع پر مزید بحث کرنے کیلئے ہم مزید آگے قدم بڑھاتے ہیں دیکھتے ہیں کہ ا س کے بارے میں دوسرے دانشور حضرات کیا کھتے ہیں؟

نیچہ اور ماکیاول کے نظریات

بعض دانشوروں کا خیال ہے کہ انسانی فطرت میں ا س قسم کی قوت سرے ہی سے موجود نہیں ہے۔ یورپ کے اکثر فلاسفر یھی سوچ رکھتے ہیں۔ ان کا کھنا ہے کہ عدالت کا تصور کمزور طبقہ کا ایجاد کردہ نعرہ ہے۔ جب یہ لوگ طاقتور افراد کے مقابلے میں آتے ہیں بے بس ہو کر عدل و انصاف کا نعرہ بلند کرنے لگ جاتے ہیں۔ ان کے بقول عدالت اچھی چیز ہے انسان کو عادل ہونا چاہی ے۔ اس قسم کی باتیں زبانی جمع خرچی کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں، کیونکہ آج کا کمزور شخص کل طاقتور بن جائے تو وہ پسماندہ طبقہ کے خلاف جارجیت کا ارتکاب کرنے لگ جاتا ہے ۔ جرمن فلاسفر نیچہ کھتا ہے کہ مجھے ھنسی آتی ہے کہ لوگوں کو عدالت کی آواز بلند کرتے ہوئے دیکھتا ہوں، سوچتا ہوں اگر اس شخص کے پاس دولت اور طاقت آجائے تو نہ جانے یہ کیا سے کیا کر گزرے۔ ان فلاسفر کے نزدیک انسانوں کو عدالت پر یقین ہی نہیں ہے۔ یہ جو باتیں سننے میں آتی ہیں یہ سب خالی خولی نعرے ہی تو ہیں ۔

یہ تمام مفکرین اور دانشور انسانی فطرت میں عدالت کے وجود کے قائل ہی نہیں ہیں۔ پھر یہ حضرات دو گروہوں میں بٹ جاتے ہیں۔ ایک گروہ کھتا ہے کہ انسان کو عدالت کے پیچھے آروزو کی تمنا کرتے ہوئے نہیں بھاگنا چاہی ے، بلکہ اسے قوت و طاقت بنانا چاہی ے۔ عدالت تو برائے نام چیز ہے۔ اس کی آرزو بھی نہیں کرنی چاہی ے، اور نہ ہی اس کے پیچھے دوڑنا چاہی ے۔ اس کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ یہ دونوں گروہ عدالت کی بجائے طاقت کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک عدالت نامی چیز کا کوئی تصور بھی نہیں ہے ۔

برٹرنڑرسل کا نظریہ

لیکن دوسرا گروہ اس قسم کی باتیں نہیں کرتا ان کا کھنا ہے کہ عدالت کے نہیں پیچھے دوڑنا چاہی ے۔ لیکن یہ بات مسلم ہے کہ انسان کا فائدہ صرف اور صرف عدالت میں مضمر ہے۔ مسڑراسل کا بھی یھی نظریہ ہے وہ انسانی دوستی کے تصور کو دوسرے کاموں پر ترجیح دیتا ہے۔ ان کا نظریہ ہے کہ انسان چونکہ فطری طور پر منفعت پرست پیدا ہوا ہے، اس لیے سوچنے کی ضرورت ہے کہ آیا عدالت برقرار کی جائے؟ کیا انسان عدالت پسند ہے؟ ان تمام تر سوالات کا جواب دینے کے لیے ایک کام کرنا ضروری ہے کہ انسان علمی، عقلی اور فکری صلاحتیوں میں نکہار پیدا کریں۔ یہاں تک کہ انسانیت درست سمت کی طرف رواں دواں ہوجائے، چونکہ عدالت کے بغیر کوئی شخص کسی قسم کے فائدہ حاصل نہیں کرسکتا۔ اس لیے عدالت کے تصور کو عملی جامہ پھنانا از بس ضروری ہے۔ اگر آپ سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں تو آپ لازمی اس نتیجہ پر پھنچیں گے کہ عدالت میں ہی سب کے فائدے موجود ہیں۔ مسڑرسل عدالت کو ذاتی طور پر نہیں مانتے لیکن وہ کھتا ہے کہ عدالت سے انسان کو فکر و دانش کو تقویت حاصل ہوتی ہے اس لیے عدالت کا قیام ایک لازمی امر ہے ۔

نھیں مسڑراسل!! ہر گز نھیں! یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ یہ تھیوری قطعی طور پر قابل نہیں ہے۔ مثال پیش کرتا ہوں کہ میں ایک کمزور آدمی ہوں اپنے ہمسایہ سے اس لیے ڈرتا ہوں کہ وہ مجھ سے زیادہ طاقتور ہے۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ میں طاقتور ہو جاتا ہوں اب میں اس سے اس لیے نہیں ڈرتا کہ وہ مجھ سے کمزور ہے اس وقت میں کس طرح عادل ہوسکتا ہوں؟ میرا علم مجھے کس طرح عادل بنا سکتا ہے؟ آپ نے کھا ہے کہ انسان مفاد پرست ہے۔ ادھر علم کھتا ہے کہ مفاد کے لیے بھی عدالت کو مد نظر رکھنا چاہی ے۔ یہ اس وقت ہو گا کہ میں مد مقابل کے سامنے خود کو طاقتور خیال کرتا ہوں، لیکن جب خود کو مد مقابل کے سامنے طاقتور نہیں سمجھتا تو کس طرح عادل ہوسکتا ہوں؟ لھذا راسل کا فسلفہ انسان دوستی کے تمام تقاضوں کے خلاف ہے۔ وہ دنیا کے تمام تر طاقتور لوگوں کو جواز فراہم کرتا ہے کہ وہ جتنا بھی غریبوں، مظلوموں پر ظلم کرسکتے ہیں کریں ۔

مارکسیزم کا نظریہ

ان گروہوں میں تیسرا گروہ بھی ہے جو کھتا ہے کہ عدالت عملی ہے لیکن انسان کے ذریعہ سے نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ انسان عدالت کو برقرار رکھ سکتا ہے۔ یہ کام انسان کا نہیں ہے اور نہ ہی انسان کی اس لحاظ سے تربیت کی جاسکتی ہے کہ وہ دل و جان سے عدالت کی آرزو رکھے اور نہ ہی علم و دانش انسان کو عدالت کی جستجو کا درس دیتی ہے۔ آپ عدالت کے پیچھے نہیں دوڑ سکتے ۔ اگر آپ عدالت کو تلاش کرتے ہیں تو یہ سراسر جھوٹ ہے۔ آپ سرے ہی سے عدالت کے طالب نہیں ہیں۔ اگر تم سوچتے ہو تمہاری عقل ایک روز تمھیں عدالت کی طرف بلائے گی تو یہ تمہاری بھول ہے۔ لیکن حالات انسان کو خود بخود عدالت کی طرف لے جائیں گے۔ معاشی و اقتصادی ضروریات انسان کو آگے بڑھاتے ہیں۔ سو شلزم کے نزدیک حالات کی وجہ سے عدالت وجود میں آتی ہے۔ آپ اگر چاہیں یا نہ چاہیں عدالت کو نافذ نہیں کرسکتے۔ انداز کیجئے۔ کہ آیا میری عقل مجھے عدالت کی طرف لے جائے گی آیا میری تربیت مجھے عدالت کی ضرورت کا احساس دلائے گی؟ وہ کھتے ہیں یہ سب باتیں جھوٹی ہیں ۔

اسلام کا نظریہ

اسلام کھتا ہے کہ عدالت انسان کی فطرت میں شامل ہے جو لوگ عدالت سے گریزاں ہیں وہ ابھی تک منزل ارتقاء تک نہیں پھنچے۔ اگر انسان کی صحیح طریقے پر تربیت کی جائے اور اس کی تربیت کرنے والا اچھا انسان ہو تو وہ فطری طور پت عدالت کو ہی پسند کرے گا، جس طرح انسان خوبصورت اور عمدہ چیز کو پسند کرتا ہے۔ اسی طرح وہ عدالت کو بھی پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے۔ ہم مسلمان مفادات کی خاطر اپنے مذھب اور دین کو پسند نہیں کرتے، بلکہ اسے اس لیے پسند کرتے ہیں کہ یہ مذھب ہم مسلمانوں کو زندگی کے کسی موڑ پر تنھا اور بے سہارا نہیں چھوڑتا۔ ہماری تاریخ میں ایسے افراد بھی پیدا ہوئے ہیں کہ جو خود بھی عادل تھے اور عدالت کو پسند کرتے تھے۔ لیکن انھوں نے ذاتی منفعت کو ذرا بھر ترجیح نہ دی، وہ عدالت کو بہت زیادہ چاہتے تھے، اور عدالت کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا یہ لوگ اپنے اپنے دور میں بے مثال انسان تھے۔ انھوں نے حتمی المقدور بنی نوع انسان کو سیدھے راستے پر چلنے کی ھدایت کی۔ اب اگر ہم ان جیسا کردار ادا نہیں کرسکتے تو کم از کم ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عادلانہ نظام کے قیام کیلئے راہ ہموار تو کر سکتے ہیں ۔

علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ذات گرامی ک ودیکھ لیجئے آپ نہ فقط انسان کامل تھے بلکہ پوری نوع انسان کیلئے نمونہ عمل بھی ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام اور آپ کی محبت کا دم بھرنے والوں نے زندگی کے تمام شعبوں میں کردار و گفتار کے حوالے سے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ اب بھی دیندار طبقہ عدالت کو بیحد پسند کرتا ہے۔ ان کی اولین خواہش عدالت کا نفاذ و اجراء ہی ہے۔ آنے والی نسلوں میں بھی یھی جذبہ کار فرما رہے گا۔

بھت سے لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت امام مھدی علیہ السلام کا دور مبارک مشکلات اور سختیوں کا دور ہوگا۔ حالانکہ یہ بالکل ہی غلط ہے۔ آپ کا دور حکومت عملی، فکری، اخلاقی غرض کہ ہر لحاظ سے انتھائی ترقی اور خوشحال کا دور ہوگا۔ عدالت اپنے عروج کو پھنچے گی۔ یہ دین اسلام جو ہم تک پھنچا ہے اس نے حضرت حجت کے ظھور کو عدل مکی سے تعبیر کیا ہے ۔ اصول کافی کی حدیث میں ہے جب قائم آل محمد علیہ السلام ظھور کریں گے کہ تو رحمتوں اور برکتوں کی بارش برسے گی، لوگوں کے اذھان حد سے زیادہ ترقی کریں گی قوت فکر کے غیر معمولی اضافہ کے ساتھ ساتھ قوت عمل بھی حیرت انگیز طور پر بڑھے گی۔ آپ کے ظھور کے بعد بھیڑیئے اور گوسفند کی دیرینہ رقابت بالکل ختم ہو جائے گی۔ یہاں تک کہ بھیڑیئے بھی ایک دوسرے سے صلح کرکے آرام و سکون سے زندگی بسر کریں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ کونسے بھیڑیئے؟ جنگلوں میں رہنے والے خونخوار بھیڑیئے یا انسانی شکل و صورت میں چلنے پھرنے والے بھیڑیئے؟

دراصل ہر طرح کے خونخوار جانور اپنا وحشی پن چھوڑ دیں گے، ظلم و ستم کا مکمل خاتمہ ہوگا۔ اب آتے ہیں آپ کی عمر مبارک کی طرف۔ کیا امام علیہ السلام اب تک زندہ ہیں اور آپ کی طولانی عمر کا کیا راز ہے؟ اور آپ کب تک زندہ رہیں گے؟

امام زمانہ (عج) کی لمبی عمر کا راز کیا ہے؟

بھت سے لوگ ایسے بھی ہیں کہ جو امام زمانہ علیہ السلام کی طولانی عمر کے بارے میں سن کر تعجب کا اظہار کرنے لگ جاتے ہیں۔ ان کا کھنا ہے کہ بھلا ایک شخص ایک ھزار دو سو سال کس طرح زندہ رہ سکتا ہے؟ یہ تو قانون فطرت کے خلاف ہے ان لوگوں کا خیال ہے کہ اب تک جتنے بھی دنیا میں کام ہوئے ہیں وہ فطرت کے عین مطابق ہیں دوسرے لفظوں مین آج کے جدید علوم مبنی پر حقیقت ہیں۔ ان کے نزدیک انسانی زندگی کے تمام تر تغیرات و معمولات غیر فطری ہیں۔ کیا روئے زمین پر حیات انسانی کا وجود علومطبعیات کے ساتھ مطابق رکھتا ہے؟ انسان نے سب سے پھلے جو قدم رکھا ہے وہ کونسے طبعی و فطری قانون کے مطابق تھا؟ جدید علوم کی رو سے جاندار سے ہمیشہ جاندار چیز جنم لیتی ہے۔ یہ کبھی نہیں ہوتا کہ غیر جاندار سے جاندار چیز پیدا ہو۔ سائنس اس کا اب تک جواب نہ دے سکی۔ سب سے پھلی چیز جاندار نے روئے زمین پر کیسے اور کس طرح قدم رکھا؟پھر دو انسانوں سے تخلیق کا عمل کیسے آگے بڑھا؟

اس کے بعد وہ کھتے ہیں تخلیق کا عمل شروع ہی سے دو حصوں میں بٹ گیا، ایک بناتات اور دوسرا حیوانات، نباتات کا سلسلہ خلقت اور ہے اور حیوانات کا اور بعض امور مین ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ایسا بھی ہے کہ گھاس ہو اور حیوان نہ ہو۔ اور حیوان ہو اور گھاس نہ ہو۔ درخت پودے یہ سب جاندار چیزیں ہیں، ان کا ماحول کو صحت مند اور پرفضا بنانے میں بہت بڑا کردار ہے۔ آج تک سائنس یہ نہ بتا سکی کہ یہ سلسلہ کب اور کس طرح شروع ہوا تھا۔ جس طرح سائنس انسانی تخلیق کے بارے میں حیران ہے، اس طرح وہ نباتات کے بارے میں بھی سرگرداں ہے۔ بعد کے کچھ مراحل کے متعلق تو کچھ حد تک معلومات حاصل کی گئی ہیں۔ لیکن تخلیق کے آغاز کی بابت سائنسدان آج تک کوئی نتیجہ نہیں نکال سکے۔ انسان کے اندر ایک بہت بڑی کائنات پوشیدہ ہے۔ اس کی زندگی کا ہر راز ابھی تک پوری طرح سے کھل کر سامنے نہ آسکا۔ انسان کی تخلیق اور قوت مشاہدہ، پختگی شعور اور قوت گویائی، دیگر محسوسات اپنی جگہ پر قدرت کا عظیم شاہکار ہیں۔

کیا وحی کوئی معمولی کام ہے؟ وہ وحی جو انسان کے پاس پھنچ کر غیر معمولی خبریں اور امور کی نشاندھی کرتی رہی کیا وہ انسان کے ایک ھزار تین سو سال تک زندہ رہنے سے کیا کم ہے؟ دراصل یہ ایک فطری امر اور قدرتی عمل ہے۔ یہ قانون فطرت تو ہے جو انسانی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر جدید سے جدید کام لے رہا ہے۔ آج انسان نئی سے نئی ایجادات سامنے لا رہا ہے۔ جدتوں، ندرتوں کی دنیا رنگ برنگی روشنیوں میں بکھر چکی ہے، اور جدید تحقیق کا سلسلہ مزید جاری و ساری ہے۔ بلکہ لمبی عمر پانے کے نئے نئے فارمولے ایجاد کئے جارہے ہیں۔ کوئی شخص یہ نہیں کھہ سکتا کہ قانون فطرت یہ ہے کہ انسان ایک سو سال، پچاس سال یا دو سو سال ہا پانچ سو سال زندہ رہے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی وقت ایسا بھی ہو کہ انسان کی لمبی عمر کا راز حاصل کیا جائے۔ اللہ تعالی ہمیشہ اپنی قدرت نمائی اور اپنے معجزات لوگوں کو دکھلاتا رھتا ہے۔ ایک ایسی صورت پیدا ہوتی ہے کہ ہم اس کانون فطرت کے ساتھ موازنہ نہیں کر سکتے۔ خدا کی باتیں خدا ہی جانے، اس لیے یہ ایسا موضوع نہیں ہے کہ اس میں مزید بحث و تمحیض کی جائے۔ یا نعوذ باللہ اس میں شک و شبہ کیا جائے۔ دین اور دنیا سب کے لیے، اور اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنی چشم بصیرت کھولے، اور اپنے شعور کی دنیا آباد کرے، اور اپنی فکر کو محدود ماحول سے نکال کر وسیع و عریض فضاؤں میں لے جائے۔ میں نے عرض کیا تھا کہ امام مھدی علیہ السلام کے دور مبارک میں انسان علم و حکمت، فکر و نظر، عقل و شعور غرضیکہ زندگی کے تمام شعبوں میں ترقی کر گا۔ ا سکے بارے مین ہم مزید مطالب بیان کرنا چاہتے ہیں آپ کی صرف اور صرف توجہ در کار ہے ۔

حضرت امام مھدی (عج) کے دور حکومت کی خصوصیات

شیعہ سنی علماء و مورخین کا اتفاق ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آل وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ

لو لم یبق من الدنیا الا یوم واحد لطول الله ذلک الیوم حتی یخرج رجل من ولدی"

یعنی اگر فرض کریں کہ دنیا میں سے ایک دن سے زیادہ وقت نہ رہ گیا ہو تو اللہ تعالی اس کو اتنا طولانی کر دے گا کہ میرے بیٹے قائم آل محمد علیہ السلام ظھور کریں گے۔"

اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ ایک یقینی اور حتمی امر ہے کہ اگر دنیا ختم ہونے والی ہو تو بھی امام مھدی علیہ السلام نے تشریف لانا ہے۔ اس روایت کو اہلسنت اور اہل تشیع دونوں فرقوں نے متفقہ طور پر تسلیم کیا ہے۔

ہمارے بعض احباب جب دیکھتے ہیں کہ حجاز سے آئے ہوئے ہمارے مھمانان گرامی جناب شیخ خلیل الرحمن ہمیشہ امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں گفتگو کرتے رہتے ہیں تو یہ لوگ تعجب کرتے ہیں کہ یہ شیعہ بھی نہیں ہیں لیکن امام علیہ السلام کے ظھور کی باتیں کر رہے ہیں۔ واقعتاً یہ حضرات امام زمانہعليه‌السلام کے ظھور کے منتظر ہیں۔ دراصل یہ بات کسی ایک فرقے کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ امام مھدی علیہ السلام ایک نہ ایک دن ضرور ظھور فرمائیں گے۔

اس سے آگے چل کر دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم امام مھدی علیہ السلام کے دور حکومت کو انسانی ارتقاء کے آخری سٹیج سے تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"المهدی یبعث فی امتی علی اختلاف من الناس والزلازل"

کہ حضرت مھدی علیہ السلام اس حالت میں تشریف لائیں گے کہ لوگوں کے درمیان شدید اختلافات اور زلزلے آئیں گے۔ ان زلزلوں سے مراد یہ ہے کہ لوگوں پر خطرات کے بادل منڈ لائیں گے۔

"فیملاء الارض قسطا و عدلاً کما ملئت ظلماً وجورا"

کہ جب پیمانہ ظلم و جور بھر چکے گا تو آپ تشریف لا کر دنیا کو عدل وانصاف سے پر کردیں گے۔

"یرضی عنه ساکن السماء و ساکن الارض"

کہ ان سے خدائے آسمان راضی ہے اور مخلوق خدا بھی اور لوگ شکر خداوندی بجالاتے ہوئے کھیں گے کہ اب ظلم و ستم ختم ہوگیا ہے۔

اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا:

"یقسم المال صحاحا"

کہ حضرت مھدی علیہ السلام لوگوں میں مال و دولت صحیح طریقے سے تقسیم کریں گے ۔

پوچھا گیا۔ یا رسول اللہ وہ کیسے؟آپ نے فرمایا عدل و انصاف کے ساتھ برابر حصوں میں تقسیم کریں گے۔

"و یملا الله قلوب امة محمد غنی و یسعهم عدله" (۳۵)

اور اللہ تعالی امت اسلام کے دلوں کو غنی کر دے گا۔ ان کے دل بھی دنیاوی آسائشوں اور الآئشوں سے بھر جائیں گے اور مالی وسائل کے لحاظ سے بھی وہ بے نیاز ہو جائیں گے غربت و افلاس کا مکمل طور پر خاتمہ ہو گا۔ ہر طرح کی رقابتیں، دشمنیاں ختم ہوں گی۔

حضرت علی علیہ السلام نھج البلاغہ میں فرماتے ہیں:

"حتی تقوم الحرب بکم علی ساق بادیا نواجذھا مملوئۃ اخلافھا حلوا رضاعھما علقما عاقبتھا"

"یعنی (اس داعی حق سے پھلے) یہاں تک نوبت پھنچے گی کہ جنگ اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائے گی، دانت نکالے ہوئے اور تھن بھرے ہوئے، جن کا دودھ شیرین و خوش گوار معلوم ہوگا لیکن اس کا انجام تلخ و ناگوار ہوگا۔"

الاوفی غدو سیاتی غد بما لا تعرفون"

ھاں کل اور یہ کل بہت نزدیک ہے کہ ایسی چیزوں کو لے کر آجائے جنھیں ابھی تک تم نہیں پھچانتے ۔

"یا خذ الوالی من غیرہا عما لھا علی مساوی اعمالھا"

حاکم و والی جو اس جماعت میں سے نہیں ہوگا تمام حکمرانوں سے ان کی بدکرداروں کی وجہ سے مواخذہ کر گا۔

"و تخرج له الارض افالیذ کبدها"

اور زمین اس کے سامنے اپنے خزانے انڈیل دے گی۔

"و تلقی الیه سلماً مقالیدها"

اور اپنی کنجیاں اس کے آگے ڈال دے گی۔

"فیریکم کیف عدل السیرة"

چانچہ وہ تمھیں دکھائے گا کہ حق و عدالت کی روشنی کیا ہوتی ہے۔

"و یحیی میت الکتاب والسنة"

اور وہ دم توڑ چکنے والی کتاب و سنت پھر سے زندہ کر دے گا۔

ایک اور جگہ پر فرمایا کہ :

"اذا قام القائم حکم بالعدل"

جب قائم آل محمد علیہ السلام تشریف لائیں گے تو عدل و انصاف پر مبنی حکومت قائم کریں گے۔ ہمارے ہر امام کا ایک مخصوص لقب ہے جیسا کہ امیر المومنین کا علی مرتضیعليه‌السلام ، امام حسن کا حسن مجتبیعليه‌السلام ، امام حسینعليه‌السلام کا سید الشھداء اور دوسرے آئمہ السجاد، الباقر، الصادق، الکاظم، الرضا، التقی، النقی، الزکی، العسکری، لقب سے اس طرح امام زمانہ کا قائم ہے۔ یعنی قیام کرنے والا، انقلاب برپا کرنے والا۔ عدل و انصاف کو نافذ کرنے والا، گویا ہمہ گیر انقلاب اور عدالت آپ کی ذات اقدس کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔

"وارتفع فی ایامه الجور"

آپ کے دور حکومت میں ظلم وجود کا نام و نشان تک نہ رہے گا۔

"وامنت به السبل"

تمام راستے امن و سلامتی کی علامت بن جائیں گے۔"

یعنی دریائی، زمینی اور ہوائی سفر محفوظ ترین ہوجائے گا۔ چونکہ عدل و انصاف کے نہ ہونے کی وجہ سے جرائم ھنم لیتے ہیں لیکن جب عدل برقرار ہوگا، تو جرائم خود بخود ختم ہوجائیں گے۔ پھر عدالت کا تصور انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہے، اسلئے بدامنی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

"واخرجت الارض برکاتها"

زمین اپنی تمام برکتوں اور اپنے تمام خزانوں کو باہر لے آئے گی۔

"ولا یجد الرجل منکم یومئذ موضعا لصدقته ولا بره"

(یھاں تک کہ) لوگوں میں صدقہ خیرات لینے والا (اور مانگنے والا) نہ ملے گا۔

"وهو قوله تعالی والعاقبة للمتقین"

ارشاد خداوندی ہے کہ اچھا انجام اور کامیابی نیکوکاروں ہی کیلئے ہے:

اس وقت کے لوگوں کے لیے سب سے مشکل یہ ہوگی کہ ان کو صدقہ دینے کے لیے کوئی فقیر و نادار نہیں ملے گا، گویا غربت و افلاس کا نام تک نہ رہے گا۔ امام علیہ السلام توحید کے بارے میں فرماتے ہیں:

"حتی یوحدوا الله ولا یشرک به شیاء"

کہ سب کے سب توحید پرست بن جائیں گے شرک کا مکمل طور پر خاتمہ ہوگا۔

"و تخرج العجوزة الضعیفة من المشرق ترید المغرب لا یؤذیها احد"

ایک بوڑھی خاتون مشرق سے لے کر مغرب تک بھی اگر اکیلا سفر کرے گی تو اسے کوئی گزندتک نہ پھنچا سکے گا۔

امام علیہ السلام کے بے نظیر عادلانہ نظام کے بارے میں کتابوں بہت کچھ موجود ہے کہ آپ جب حکومت الٰھیہ کو تشکیل دیں گے تو لوگوں کو ہر طرح کا تحفظ حاصل ہوگا۔ برکتوں، رحمتوں کا نزول ہوگا، عوام مین دولت کی مساوی تقسیم ہوگی۔ بے پناہ و سائل موجود ہوں گے۔ ہر چیز کی فراوانی ہوگی۔ برائیوں کا مکمل طور پر خاتمہ ہوگا۔ اس وقت انسان گناہوں سے نفرت کرے گا۔ چھوٹ، غیبت، تھمت، اور ظلم کے ناموں کو لوگ بھول جائیں گے۔ آخر یہ کیا ہے اور کیوں ہوگا؟ جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے کہ اسلام کھتا ہے کہ انسانیت کا انجام عدالت کا قیام ہی ہے۔ اس دور میں عدالت سب سے زیادہ پسندیدہ چیز سمجھی جائے گی۔ انسان کی روحانی طاقت میں بے پناہ اضافہ ہوگا۔ اس کی تعلیم و تربیت پایہ تکمیل تک پھنچے گی۔ وہ حکومت عالمی امن کے قیام کا سب سے بڑا اداعی ہوگا۔

ایمان اپنی پوری قوت سے جلوہ گر ہوگا۔ خدا پرستی اور خدا شناسی اپنے آخری نقطہ تک پھنچے گی۔ قرآن مجید کو سب سے بڑا مقام ملے گا۔ اس لیے ہم مسلمان خوش قسمت ہیں کہ دنیائے کفر انسانیت کے بارے جتنا مایوس کن رویہ اختیار کرتی ہے، ہم اس سے کھیں زیادہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ قیامت کے آنے سے پھلے ایک عظیم اسلامی حکومت قائم ہوگی، ایسی حکومت کہ جس میں عدل و انصاف کے سوا دوسری چیز موجود نہ ہوگی۔

مسڑر اسل اپنی، "نئی امیدیں" میں لکھتا ہے کہ آج دانشوروں میں سے اکثر اپنی امیدیں ختم کر چکی ہے، کہ جدید دنیا کی جدید سوچ رکھنے والوں کا خیال ہے کہ نئی ٹیکنا لوجی اتنی زیادہ ترقی کر چکی ہے کہ انسان کا خاتمہ بھی اس کی وجہ سے ہوگا ایک یورپی دانشور کے بقول انسان نے اپنے ہاتھ سے اپنی قبر بنا رکھی ہے اگر ایٹمی بٹن پر انغلی رکھ دی جائے کہ پوری دنیا جل کر بھسم ہوجائے گی۔ واقعتاً اگر ہمیں خدا اور غیبی طاقت پر یقین نہ ہو اور قرآن کی بشارت پر ہمارا ایمان نہ ہو تو ہم بے اطمینانی و بے سکونی کا شکار ہو جائیں۔ آپ آج کی ترقی یافتہ دنیا کو دیکھ لیں تو خیال کریں کہ وہ حق پر ہیں، لیکن یہ ترقی عارضی اور فنا ہونے والی ہے۔ جب ھیرو شیما میں ایٹمی اسلحہ سے انسانی تباہی کو دیکھ لیں تو ترقی کے نام سے نفرت ہونے لگے گی۔ آج آپ جدید ایٹمی ٹیکنا لوجی کو دیکھ لیجئے کہ سائنسدانوں نےانسانی تباہی و بربادی کے لیے کیا سے کیا کر رکھا ہے، ھیاں تک کہ دنیا اس جگہ پر آکھڑی ہوئی ہے کہ جس میں فاتح مفتوح، غالب مغلوب کا تصور ہی نہیں ہے۔ اگر تیسری عالمی جنگ شروع ہوجائے تو اب یہ کوئی نہیں کھہ سکے گا کہ آیا امریکہ جنگ جیت جائے گا یا روس یا چین فتح حاصل کر لیں گے۔ اگر تیسری عالمی جنگ چھیڑ جائے تو چیز مغلوب ہوگی وہ ہے اسنانیت اور جو چیز غالب ہے اس کا کوئی وجود نہیں ہے لیکن ہم مسلما کھتے ہیں کہ ان تمام تر ایٹمی و سائنسی طاقتوں کے اوپر ایک طاقت ہے قرآن مجید کی سورہ آل عمران آیت نمبر ۱۰۳ میں ارشاد ہے:

"وکنتم علی شفا حفرة من النار فأنقذکم منها"

اور تم (گویا) ہوئی آگ کی بھٹی (دوزخ) کے لب پر (کھڑے تھے) اور گرنا چاہتے تھے، کہ خدا نے تم اس سے بچایا لیا ۔

اور ہمیں یہ بھی کھا گیا ہے کہ :

"افضل الاعمال انتظار الفرج"

کہ تمام اعمال میں سے سب سے بھتر عمل، ایک مکمل کشائش اور فتح کا انتظار کرنا ہے۔"

وہ اس لیے کہ یہ ایک اعلی معیار کی ایمانی طاقت ہے، جو ہمیں امید دلاتی ہے اور کامیابی کی نوید بھی۔ بار الٰھا ہمیں امام زمانہ علیہ السلام کے حقیقی غلاموں اور ماننے والوں میں شمار فرما! خداوند ہمیں ایسا شعور عطا فرما کہ جس سے ہم ان کی حکومت برحق کا صحیح طریقے سے ادراک کر سکیں۔

"اللھم انا رغب الیک فی دولۃ کریمۃ تعزبھا الاسلام واہلہ وتذل بھا النفاق واہلہ وتجعلنا فیھا من الدعاۃ الی طاعتک و القادۃ الی سبیلک"

حضرت امام مھدی علیہ السلام

( وعد الله الذین آمنو منکم وعملوا الصالحات لیستخلفنهم فی الارض کما استخلف الذین من قبلهم ولیمکنن لهم د ینهم الذی ارتضی لهم ولیبد لنهم من بعد خوفهم امنا یعبد وننی لا یشکون بی شیاً ) (۳۶)

"(اے ایماندارو!) تم میں سے جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے کام کیے ان سے خدا نے وعدہ کیا ہے کہ و ان کو (ایک نہ ایک دن) روئے زمین پر ضرور (اپنا) نائب مقرر کرے گا۔ جس طرح ان لوگوں کو نائب بنایا جو ان سے پھلے گزر چکے ہیں اور جس دین کو اس نے ان کیلئے پسند فرمایا (اسلام) اس پر انھیں ضرور ضرور پوری قدرت دے گا اور ان کے خائف ہونے کے بعد (ان کے ہر اس کو) امن سے ضرور بدل دے گا کہ وہ (اطمینان سے) میری ہی عبادت کریں گے اور کسی کو ہمارا شریک نہ بنا لیں گے۔"

امام زمانی علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی مناسبت سے ہماری گزشتہ بحث میں آنجناب علیہ السلام کے بارے میں تھی اور اس نشست میں بھی ہم امام علیہ السلام کے بارے میں چند مطالب بیان کریں گے۔ آج ہم تاریخی حقائق پر روشنی ڈالیں گے جو لوگ تاریخ اسلام اور مذھب حقہ کے بارے میں معلومات نہیں رکھتے ان کا کھنا ہے کہ مھدویت کا تصور امام علیہ السلام کی ولادت کے زمانہ سے شروع ہوا ہے لیکن میں ان حضرت کی خدمت میں حقائق پر مبنی کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں ان کو بتایا یہ مقصود ہے کہ مھدویت کا تصور کھاں سے شروع ہوا اور اس کا مقصد کیا ہے؟

قرآن و حدیث میں مھدویت کا تصور

سب سے پھلے قرآن مجید میں بنی نوع انسان کو واضح الفاظ میں خوشخبری دی گئی ہے۔ حضرت امام زمانہ علیہ السلام نے ہر صورت میں تشریف لا کر یہ عالمگیر اسلامی تشکیل دینی ہے ۔ اس کے بارے میں بہت سی آیات قرآن مجید میں موجود ہیں۔ آپ ان کا مطالعہ کرسکتے ہیں لیکن ہم ان آیات میں ایک کو نقل کرتے ہیں، ارشاد الٰھی ہوتا ہے:

"ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرتها عبادی الصالحون "

اور ہم نے تو نصیحت (توریت) کے بعد یقیناً زبور میں لکھ ہی دیا ہے کہ روئے زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے ۔"(۳۷)

قرآن مجید کھہ رہا ہے کہ اس کائنات پر اس زمین پر ہمیشہ ظالم جاگیرداروں و ڈیروں کا قبضہ نہیں رہے گا۔ اسی طرح تمام مذاہب ختم ہو جائیں گے اور صرف اور صرف اسلام ہی واحد الٰھی مذھب رہ جائے گا۔ قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے۔

"ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق ینطھرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون"(۳۸)

"وھی تو (خدا ہے) جس نے اپنے رسول (محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ھدایت اور سچے دین کے ساتھ (مبعوث کر کے) بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کرے۔ اگر چہ مشرکین برا مانا کریں"

اب آتے ہیں احادیث کی طرف سوال یہ ہے کہ آیا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کے بارے میں کیا فرمایا؟ کیا آپ نے کچھ فرمایا یا نہیں فرمایا؟ اگر امام مھدی علیہ السلام کے ظھور کے بارے میں صرف شیعہ روایات ہیں تو پھر اعتراض کرنے والے اپنی جگہ پر درست کھتے ہیں اگر یہ مسئلہ واقعی بہت بڑا مسئلہ ہے تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ضرور کچھ نہ کچھ فرمایا ہوگا۔ اگر حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تو پھر باقی تمام اسلامی فرقوں کی نقل کردہ روایات کو بھی تسلیم کرنا چاہی ے، صرف شیعوں کی روایات کافی نہیں ہیں؟ ان سولات کا جواب واضح ہے۔ اتفاق سے امام مھدی علیہ السلام کے ظھور کے بارے میں صرف شیعوں کی روایات نہیں ہیں بلکہ اہل تسنن کی روایات کے ظھور امام علیہ السلام کی بابت شیعوں سے زیادہ ہیں۔ اگر آپ ان کی کتابوں کا مطالعہ کریں گے تو حقیقت حال ایسی ہی ہوگی۔

جس زمانے میں ہم قم المقدسہ کے زیر تعلیم تھے اس دور مین دو اہم کتابیں منظر عام پر آئیں ان میں سے ایک کتاب آیت اللہ صدر مرحوم کی تھی۔ یہ کتاب عربی زبان میں تھی اور اس کا نام المھدی رکھا گیا، اس میں امام مھدی علیہ السلام کے بارے میں جتنی بھی روایات نقل کی گئیں۔ وہ سب اہل سنت کی کتب میں سے تھیں۔ اس کتاب کو پڑھ کر بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے مسئلہ مھدویت کے بارے میں اہل سنت کی روایات شیعوں سے زیادہ نہیں ہیں تو کمتر بھی نہیں ہیں۔ دوسری کتاب منتخب الآثر کے نام سے فارسی زبان میں تحریر کی۔ موصوف حوزہ علمیہ قم کے فاضل ترین نوجوان ہیں۔ آیت اللہ بروجردی نے حکم دیا کہ امام علیہ السلام کے بارے میں ایک جامع کتاب تحریر کی جائے۔ چناچہ اس نوجوان فاضل نے یہ کتاب لکھ ڈالی۔ آپ اس کا مطالعہ کریں تو آپ کو زیادہ تر اہل سنت حضرات کی روایات نظر آئیں گی ۔

میں نے روایات کے بارے میں بحث نہیں کرنی۔ میری بحث کا مقصد یہ ہے کہ آیا مسئلہ مھدویت تاریخ اسلام میں موثر ہے کہ نھیں؟جب ہم تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں اس اہم موضوع کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور علی علیہ السلام کے ارشادات موجود ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ظھور کی خبر سنائی اور لوگوں کو بشارت دی کہ ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ جس میں عدل و انصاف کا دور دورہ ہوگا گویا میرا بیٹا اسلامی و الٰھی حکومت کو تشکیل دے گا، وہ گھڑی کتنی خوش نصیب گھڑی ہوگی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔؟

فرمایا مولا علیعليه‌السلام نے

امیر المومنین حضرت علیہ السلام نے نھج البلاغہ میں جو جملہ ارشاد فرمایا ہے آیت اللہ بروجردی کے بقول یہ جملہ احادیث کی دوسری کتب میں تسلسل و تواتر کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ کمیل بن زیاد نخفی کھتے ہیں کہ امیر المو منیں علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے میرا ہاتھ پکڑا اور قبرستان کی طرف لے چلے۔

"فلما اصحر تنفس الصعداء"

جب آبادی سے باہر نکلے تو ایک لمبی آہ کھینچی" اور فرمایا:

"الناس ثلاثة فعالم ربانی و متعلم علی سبیل نجاة و همج رعاع"

دیکھو تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک عالم ربانی دوسرا متعلم کہ جو نجات کی راہ پر بر قرار ہے اور تیسرا عوام الناس کا وہ گروہ کہ جو ہر پکارنے والے کے پیچھے ہوتا ہے۔ آپ نے یہاں اپنی تنھائی کا ذکر فرمایا ہے کہ کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو مجھ سے اسرار و رموز حاصل کرے اور میں اسے دل کی باتیں بتاؤں پھر فرمانے لگے ۔ ھاں یہ زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہے گی۔

"اللهم بلی لا تخلو الارض من قائم لله بحجة اما ظاهراً مشهورا واما خائفا مغمورا لئلا تبطل حجج الله و بیناته یحفظ الله بهم حججه وبینائه حتی یودعوها نظراء هم ویزرعو ها فی قلوب اشباهم" (۳۹)

"ھاں اگر زمین ایسے فرد سے خالی نہیں رھتی کہ جو خدا کی حجت کو برقرار رکھتا ہے چاہے، وہ ظاہر و مشھور ہو خائف و پنھاں ہو تاکہ اللہ کی دلیلیں اور نشان مٹنے نہ پائیں۔ خداوند عالم ان کے ذریعہ سے اپنی حجتوں اور نشانیوں کی حفاظت کرتا ہے یہاں تک کہ وہ ان کو اپنے ایسوں کے سپرد کردیں اور اپنے ایسوں کے دلوں انھیں بودیں۔"

قیام مختار اور نظریہ مھدویت

تاریخ اسلام میں سب سے پھلے نظریہ مھدویت مختار ثقفی کے زمانے میں شروع ہوا ہے مختار امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں سے انتقام لینا چاہتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جناب مختار بہت ہی اچھے، دنیدار، اور مجاہد شخص تھے۔ مختار کو شروع ہی سے پتہ تھا کہ لوگ اس کی قیادت میں جھاد نہیں کریں گے کیونکہ امام وقت حضرت زین العابدین علیہ السلام موجود تھے۔ جناب مختار نے جناب امام سجاد علیہ السلام سے رابط کرکے انتقام لینے کی اجازت چاہی آپ خاموش رہے۔ شاید حالات اس امر کی اجازت نہ دیتے تھے۔ چناچہ مختار نے مسئلہ مھدویت کو لوگوں کے سامنے پیش کیا اور محمد بن حنفیہ فرزند امیر المومنین کا نام استعمال کیا۔ ان کا نام بھی محمد تھا۔ روایات میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کا "اسمہ اسمی" وہ میرے ہمنام ہوگا۔ مختار نے کھا اے لوگو! میں مھدی دوران کا نائب ہوں جس کی پیغمبر اسلام نے بشارت دی تھی۔ جناب مختار ایک عرصہ تک خود کو حضرت مھدی علیہ السلام کے نائب کے طور پر متعارف کرواتے رہے۔ اب سوال یہ ہے کہ محمد بن حنفیہ نے مھدی آخر الزمان کے طور پر اپنا تعارف کروایا تھا؟ بعض مورخین کھتے ہیں کہ یزیدوں سے انتقام لینے کیلئے انھوں نے اس قسم کا اعلان کیا تھا۔ لیکن اس کی حقانیت پر ہمیں اب تک ثبوت نہیں مل سکا۔ (جناب شھید مطھری نے جناب مختار ثفقی کے بارے مین ایک روایت پیش کی ہے ورنہ مختار کی مجاہدت اور ان کی عظمت کی کوئی مثال ہی پیش نہیں کی جاسکتی کیونکہ شھدائے کربلا کے قاتلوں سے جس انداز میں اور جس طرح انتقام لیا وہ کوئی بھی نہ لے سکا اس لیے ان کو مختار آل محمدعليه‌السلام بھی کھا جاتا ہے۔)

زھری کیا کھتے ہیں؟

ابو الفرج اصفھانی جو کہ اموی النسل مورخ ہیں اور شیعہ بھی نہیں ہیں، اپنی کتاب مقاتل الطالبین میں تحریر کرتے ہیں کہ جب زید بن امام سجاد علیہ السلام کی شھادت کی خبر زھری کو ملی تو انھوں نے کھا کہ اہل بیت علیھم السلام کے کچھ افراد جلدی کیوں کرتے ہیں؟ کیونکہ ایک وقت آئے گا کہ ان کا مھدی علیہ السلام ظھور کرے گا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مھدی علیہ السلام کا مسئلہ اس قدر مسلم تھا کہ جب زھری کو جناب زید کی شھادت کی خبر موصول ہوئی تو ان کا ذھن فوراً جناب زید کے انقلاب کی طرف گیا اور انھوں نے کھا کہ اہلبیت علیھم السلام کے انقلابی اور پر خوش نوجوانوں کو صبر کرنا چاہی ے۔ انقلاب تو صرف ایک ہی آئے گا اور ایک ہی لائے گا۔ وہ ہے انقلاب مھدی علیہ السلام، اور اس انقلاب کو لانے والے حضرت امام مھدی علیہ السلام ہی ہوں گے۔ میں زھری کے بارے میں کچھ نہیں جانتا کہ انھوں نے غلط کھا ہے یا درست، عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ حضرت امام مھدی علیہ السلام ایک نہ ایک دن ضرور تشریف لائیں گے اور وہ اپنے مشن و مقصد میں کامیاب و کامران ہوں گے۔

نفس زکیہ کا انقلاب لانا اور عقیدہ مھدویت

ھم پھلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام کے بیٹے کا نام بھی حسن تھا۔ ان کو حسن مثنی کھا جاتا ہے، یعنی دوسرے حسن، جناب حسن، امام حسین علیہ السلام کے داماد تھے۔ فاطمہ بنت الحسین، حسن مثنی کی شریکہ حیات ہیں۔ اللہ تعالی نے ان کو ایک بیٹا عطا فرمایا اس کا نام عبداللہ رکھا گیا۔ چونکہ یہ شھزادہ ماں باپ کے لحاظ سے نجیب الطرفین تھا اس لیے ان کو عبد اللہ کے نام سے پکارا جانے لگا (کہ وہ نوجوان جو خالص الطرفین علوی اور خالص فاطمی ہے) عبد اللہ محض کے دو صاجزادے تھے ایک کا نام محمد اور دوسرے کا نام ابراہی م تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ان کا دور آخری اموی دور سے ملتا جلتا ہے۔ آپ اسے ۱۳۰ ہجری کھہ سکتے ہیں۔ محمد بن عبد اللہ محض بہت ہی دیندار اور شریف انسان تھے۔ اس پیکر اخلاق و شرافت کو نفس زکیہ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ آخری اموی دور میں حسن سادات نے انقلابی تحریک شروع کی کہ یہاں تک عباسیوں نے محمد بن عبد اللہ محض کی بیعت کی۔ حضرت امام صادق علیہ السلام کو بھی میٹنگ میں مدعو کیا گیا۔ آپ سے درخواست کی گئی کہ ہم انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ عبد اللہ بن محض کی بیعت کریں آپ بھی ایک جلیل القدر سید ہیں ان کی بیعت کریں امام علیہ السلام نے فرمایا آپ کا اس سے مقصد کیا ہے؟ اگر محمد امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کی خاطر انقلاب لانا چاہتے ہیں تو ہم ان کے ساتھ ہیں اور ان کی حمایت بھی کریں گے۔

لیکن اگر وہ مھدی دوران بن کر انقلاب لانا چاہتے ہیں۔ تو وہ سخت غلطی پر ہیں، وہ مھدی نہیں ہوسکتے۔ میں ان کی اس حوالے سے تائید نہیں کروں گا۔ اگر کوئی حمایت کرے گا تو غلط فھمی کی بناء پر کرے گا کیونکہ ایک تو ان کا نام محمد تھا دوسرا ان کے کندھے پر تل کا نشان تھا۔ لوگوں کا کھنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ مھدی دوران ہی ہوں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسئلہ مھدویت مسلمانوں میں اس قدر اہم اور ضروری تھا کہ جو بھی صالح شخص انقلاب لانے کی بات کرتا تو اس کو مھدی آخر الزمان علیہ السلام تصور کیا جاتا۔ چونکہ آقائے نامدار حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت امام مھدی علیہ السلام کے ظھور کی مسلمانوں کی خوشخبری دی تھی اس لیے مسلمانوں کے ذھنوں میں یہ بات رچی بسی ہوئی تھی اور یہ تصور ان کی آمد تک رہے گا۔ یعنی اس بات پر سن مسلمان متفق ہیں کہ اللہ تعالی کی آخری حجت حضرت قائم آل محمد علیہ السلام نے ضرور بالضرور تشریف لانا ہے اور دنیا کو عدل و انصاف سے آباد کر دیں گے۔

منصور دوانقی کی شاطرانہ چال

ھم تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ عباسی خلفاء میں ایک خلیفہ مھدی ہے یہ منصور کا بیٹا اور سلطنت عباسیہ کا تیسرا خلیفہ ہے۔ پہلا خلیفہ سفاح، دوسرا منصور، اور تیسرا منصور کا بیٹا مھدی عباسی ہے ۔ مورخین نے لکھا ہے کہ منصور نے اپنے بیٹے مھدی سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کا پروگرام بنایا تاکہ وہ لوگوں کو دھوکہ دے سکے چناچہ حسب پروگرام اس نے اعلان کر دیا کہ اے لوگو! جس مھدی کا تم لوگ انتظار کر رہے ہو وہ میرا بیٹا مھدی ہے۔ مقاتل الطالبین کے مصنف اور دیگر مورخین نے منصور کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ اکثر کھا کرتا تھا کہ میں نے اپنے بیٹے کو مھدی آخر الزمان کھہ کر جھوٹ بول کر کے عوام سے خیانت کی ہے۔ ایک روز منصور کے پاس اس کا ایک قریبی دوست مسلم بن قیتبہ آیا اور منصور نے اس سے پوچھا کہ محمد بن عبد اللہ محض کیا کھتے ہیں؟ مسلم نے کھا کہ وہ کھتا ہے میں مھدی دوراں ہوں۔ یہ سن کر منصور بولا وہ غلط کھتا ہے نہ وہ مھدی ہے اور نہ میرا بیٹا مھدی ہے۔ البتہ کبھی کبہار منصور لوگوں سے کھا کرتا تھا کہ محمد بن عبد اللہ محض مھدی نہیں ہے بلکہ میرا بیٹا مھدی وقت ہے۔ مختصر یہ کہ پیغمبر اسلام کی روایات کی روشنی میں مھدویت کا تصور لوگوں میں عام تھا۔ اس لیے جب بھی کسی انقلابی نوجوان کو دیکھتے یا اس کا نام سنتے تو اس کو مھدی وقت تصور کرتے تھے ۔

محمد بن عجلان اور منصور عباسی

مورخین نے ایک اور اہم واقعہ بھی نقل کیا ہے کہ مدینہ کا ایک فقیھہ محمد بن عجلان نے محمد بن عبد اللہ کے پاس جا کر ان کی بیعت کی۔ بنو عباس شروع میں حسنی سادات کے حامی تھے۔ پھر مسئلہ خلافت پیش آیا اور یہ حاکم وقت ٹھھرے ۔ انھوں نے بر سر اقتدار ہوتے ہی حسن سادات کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ منصور نے محمد بن عجلان کو اپنے دربار میں بلوایا کہ تم نے عبد اللہ کے صاجزادے محمد کی بیعت کیوں کی ہے؟ اس نے حکم دیا کہ ان کا ہاتھ کاٹ دیا جائے کیونکہ انھوں نے ہمارے دشمن کی بیعت کی ہے۔ مورخین نے لکھا ہے کہ مدینہ کے تمام فقھا جمع ہو کر منصور کے پاس آئے اور ابن عجلان کی معافی کی درخواست کی اور اس کی تصدیق کرتے ہوئے کھا اس کا بیعت کرنے میں کوئی قصور نہیں ہے۔ انھوں نے محمد بن عبد اللہ کو مھدی دوران سمجھ کر ان کی بیعت کی ہے۔ اس سے آپ کی دشمنی اور مخالفت کرنا مقصود نہ تھا ۔

ان حقائق کی دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ مھدویت کس قدر اہمیت کا حامل مسئلہ تھا؟ھم جب بھی تاریخ کے مختلف ادوار کو دیکھتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ہمارا امام زمانہ علیہ السلام کے ظھور کا مسئلہ ہر دور میں مسلم رہا ہے۔ یھی وجہ ہے کہ ہمارا ہر امام جب شھید ہوتا ہے تو دنیا والے خیال کرتے تھے کہ وہ امام غائب ہوا ہے مرا نہیں ہے۔ گویا ہر امام کو مھدی دوران کے طور پر تسلیم کیا جاتا تھا۔ یھی مسئلہ امام محمد باقر علیہ السلام، امام جعفر صادق علیہ السلام، امام موسی کاظم علیہ السلام اور دیگر آئمہ کے ساتھ پیش آیا۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک صاجزادے سے بہت پیار کرتے تھے۔ جب حضرت غسل و کفن کا اہتمام کر چکے تو آپ کے اس کے سراہنے آکر بلند آواز سے گریہ فرمایا اور بیٹے کے چھرے سے کپڑا ھٹا کر اپنے اصحاب سے کھا کہ دیکھو میرا بیٹا اسماعیل ہے، یہ انتقال کر گیا ہے۔ کل یہ نہ کھنا کہ وہ مھدی تھا اور غائب ہو گیا ہے۔ اس کے جنازہ کو دیکھیے ۔ اس چھرے کو خوب ملاحظہ کیجئے۔ اسے خوب پھچان کر اس کے انتقال کی گواہی دیں۔ یہ تمام باتیں اور شواہد اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ مسئلہ مھدویت مسلمانوں میں غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے جھاں تک میں نے تاریخ اسلام پر تحقیق کی ہے کہ ابن خلدون کے دور تک کسی ایک عالم دین نے بھی امام مھدی علیہ السلام کے بارے میں احادیث سے اختلاف کیا ہو۔ اختلاف تھا یا تو وہ صرف فرعی اور جزئی تھا کہ آیا یہ شخص مھدی ہیں وہ شخص؟ کیا امام حسن علیہ السلام کا کوئی بیٹا ہے یا نھیں؟کیا وہ امام حسن علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں یا امام حسین علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں؟ لیکن اس امت کا ایک مھدی ضرور ہے؟ اور وہ اولاد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اولاد زھرا سلام اللہ علیھا میں سے ہے اور وہ اس دنیا کو اس طرح عدل و انصاف سے بھر دے گا جیسا کہ وہ ظلم و ستم سے بھری ہوئی تھی ۔ اس بات میں تو کسی کو کسی قسم کا اعتراض نہیں ہے ۔

دعبل کے اشعار

معروف شاعر دعبل خزاعی امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے اشعار پڑھتا ہے ان میں سے ایک شعر یہ ہے:

افاطم لو خلت الحسین مجدلا

وقد مات عطشانا بشط فرات

وہ حضرت زھرا سلام اللہ علیھا سے خطاب کرتے ہوئے ان کی اولاد پر ہونے والے مظالم کو ایک کرکے بیان کرتا ہے۔ دعبل کا مرثیہ تمام عربی مرثیوں میں سب سے بلیغ مرثیہ ہے۔ مورخین نے کھا ہے حضرت امام رضا علیہ السلام دعبل کا مرثیہ سن کر بہت زیادہ گریہ کرتے تھے۔ دعبل اپنے اشعار میں اولاد زھرا علیھا السلام کے مصائب کو ایک ایک کر کے بیان کرتا ہے ۔ کھیں وہ فخ کی مقام پر سوئے ہوئے شھزادوں کا ذکر کرتا ہے، اور کھیں وہ کوفہ کے مزاروں کا درد نام لھجے میں تذکرہ کرتا ہے یعنی محمد بن عبداللہ کی شھادت کو بیان کرتا ہے۔ کھیں پر وہ امام سجاد علیہ السلام کے صاجزادے جناب زید کی شھادت کو بیان کرتا ہے ۔ کبھی سید الشھدا علیہ السلام کا ذکر اور کبھی امام موسی کاظمعليه‌السلام کی شھادت کا تذکرہ اور کھیں پر نفس زکیہ کا ذکر کہ:

"وقبر ببغداد لنفس زکیة"

یہ سن کر امام علیہ السلام فرماتے ہیں یہاں پر اس شعر میں اس چیز کا اضافہ کرو:

"وقبر بطوس یالها من مصیبة"

میں نے عرض کی کہ آقا میں تو اس قبر کو نہیں جانتا فرمایا قبر میری ہے ۔ دعبل اپنے اشعار میں امام مھدی علیہ السلام تک ہونے والے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ آخر ایک روز مصیبتوں، پریشانیوں اور مظالم کی حکمرانی کا دور آئے گا۔ اگر ہم تاریخ کے اوراق کھول کر دیکھیں تو اس موضوع کی بابت ہمیں بے شمار شواہد ملیں گے کہ مسئلہ مھدویت صدر اسلام سے مسئلہ چلا آراہا ہے۔ گویا یہ مسلمانوں کی ضرورت ہے اور پسندیدہ موضوع بھی کہ آخری کوئی تو آئے گا جو ظلم کا خاتمہ کر کے عدل و انصاف کی حکومت قائم کرے گا ۔ ۔ ۔ ۔ یقیناً وہ حضرت امام مھدی علیہ السلام ہوں گے جن کا انتظار کائنات کا ذرہ ذرہ کر رہا ہے۔ جب وہ تشریف لائیں گے تو کائنات کا ذرہ ذرہ جھوم اٹھے گا ۔ ۔ ۔ مرحبا یابن رسول اللہ ۔

اہل تسنن و نظریہ مھدویت

یہ مسئلہ صرف شیعوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ اہل سنت حضرات بھی ظھور امام مھدی علیہ السلام پر یقین رکھتے ہیں۔ آپ اگر غور کریں تو آپ دیکھیں گے کہ مھدویت کا دعوی کرنے والے جتنے شیعہ تھے اتنے ہی سنی تھے۔ جیسا کہ مھدی سو ڈانی نے اپنے اردگرد کثیر تعداد میں افراد جمع کیے اور پھر اعلان مھدویت کر دیا، حالانکہ وہ سنی نشین علاقے اور ملک سے تعلق رکھتا تھا۔ ھندو پاک میں مھدویت کے دعویدار گزرے ہیں۔ اسی طرح قادیانی مھدویت کے عنوان سے منظر عام پر آئے ہیں ۔

روایات میں ہے کہ جب تک امام مھدی علیہ السلام کا ظھور پر نور ہو نہیں جاتا بے شمار جھوٹے دعویدار اور دجال سامنے آتے رہیں گے۔

حافظ کے اشعار

مجھے معلوم نہیں ہے کہ حضرت شیعہ تھے یا سنی۔ خیال غالب یہ ہے کہ وہ سیعہ نہیں تھے لیکن جب ہم حافظ کے اشعار کو دیکھتے ہیں ان میں کھیں پر مسئلہ مھدویت کی خوشبو ضرور آتی ہے۔ وہ ایک جگہ پر کھتے ہیں:

"کجا است صوفی دجال چشم ملحد شکل"

بگو بسوز کہ مھدی دین پناہ رسید"

کھاں ہے صوفی دجال جو کہ ملحد بھی ہے اور ایک آنکھ سے کانا بھی یعنی بد شکل شخص

اس سے کھہ دو کہ وہ جل جائے کہ مھدیعليه‌السلام دین پناہ تشریف لا چکے ہیں۔

مژدہ ای دل کہ مسیحا نفسی می آید

کہ زانفاس خوش بوی کسی می آید

اے دل! تجھے مبارک کہ تیرے مسیحا تشریف لانے والے ہیں۔

کہ اس کے معطر سانسوں میں کسی کی خوشبو مھک رہی ہے۔

از غم و درد مکن نالہ و فریاد کہ دوش

زدہ ام فالی و فریادرسی می آید

غم سے نڈھال نہ ہو زیادہ رو بھی نہیں کیونکہ

میں نے فال نکالی ہے (مجھے یقین ہے) کہ میرا فریاد رس آرہا ہے ۔

کسی ندانست کہ منزلگہ مقصود کجا است

اینقدر است کہ بانگ جرسی می آید

کسی کو خبر نہیں کہ اس کی منزل مراد کھاں ہے۔

بس اتنی سی بات ہے کہ گھنٹی کی آواز آنے والی ہی ہے۔

خبر بلبل ایں باغ میر سید کہ من

نالہ ای می شنوم کز قفسی می آید

وہ بلبل کی خبر اس باغ سے معلوم کر رہا ہے اور میں

رونے کی آواز سن رہا ہوں کہ وہ بھی آزاد ہو جائے گا۔

میں نے تاریخی لحاظ سء جو کچھ کھنا چاہتا تھا کھہ چکا اب دیکھنا یہ ہے کہ مھدویت کا دعوی کرنے والے جھوٹے اشخاص کس طرح اور کب پیدا ہوں گے؟یہ بھی ایک الگ بحث ہے۔ میں اپنی اس تقریر میں تین اہم مطلب بیان کرنا چاہتا ہوں۔ کچھ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ چونکہ دنیا جب تک ظلم و جور سے پر نہیں ہو گی امام زمانہ علیہ السلام تشریف نہیں لائیں گے۔ جب ان کے سامنے اصلاح اور تبلیغ کی بات کی جائے یا کوئی نیکی کا جملہ کھہ دیا جائے تو پریشان ہوجاتے ہیں۔ ان کا خیال ہے ظلم کو بڑھنا چاہی ے۔ تاریکی زیادہ ہوگی تو امام علیہ السلام ظھور فرمائیں گے۔ ان کا کھنا ہے کہ جو لوگ نیکی پھیلاتے ہیں یا نیکی کی بات کرتے ہیں وہ امام زمانہ علیہ السلام کے ظھور کی تاخیر کا سبب بن رہے ہیں۔ میں اس مطلب کو سادہ الفاظ میں بیان کرتا ہوں تاکہ حقیقت کھل کر واضح ہوجائے ۔ میں ان سے کھنا ہے کہ نہیں صاحبو! حقیقت یہ نہیں ہے جو تم کھہ رہے ہو یہ عقیدہ تو کھلی گمراہی ہے ۔

انقلاب مھدیعليه‌السلام

بعض حالات دنیا میں دھماکہ بن کر پیدا ہوتے ہیں۔ آپ کوڑھ کی بیماری کو دیکھ لیجئے خدانخواستہ کسی انسان کے جسم پر جب نمودار ہوتی ہے تو پھیلتی جاتی ہے۔ جوں جوں دوا کی مرض بڑھتا گیا کے تحت اس پر کوئی دوائی اثر نہیں کرتی۔ اچانک پورے جسم کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ بعض ترقی پسند لوگ جو انقلاب کے حامی ہیں وہ حالات و واقعات کو دھماکوں سے تشبیہ دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک ہر چیز جو اس قسم کے دھماکوں کو روکتی ہے، وہ چیز اچھی نہیں ہے اس لیے اصلاحی کاموں کے مخالف ہیں، ان کا کھنا ہے برائیاں ہونے دیں، ظلم و ستم کو مزید بڑھتا چاہی ے، پریشانیاں زیادہ ہوں۔ جب برے کاموں میں حد سے زیادہ اضافہ ہوگا تو تب انقلاب کامیاب ہوگا۔ لیکن اسلام اس کی سخت تردید کرتا ہے۔ وہ امر بالمعروف و نھی عن المنکر کی ہر دور میں تلقین کرتا ہے۔ معاشرہ میں علم کی روشنی پھیلانے نیکی کی تبلیغ وترویج کرنے والوں کی اسلام میں وسیع پیمانے پر حوصلہ افزائی کی گئی ہے ۔

اگر ہم ترقی کا نعرہ بلند کرنے والوں کی بات مان لیں تو ہمارا سوال یہ ہے کیا ہم امر بالمعروف اور نھی عن المنکر جیسا اہم فریضہ ترک کر دیں؟ اپنے بچوں کی تربیت کرنا چھوڑ دیں۔ نماز نہ پڑھیں۔ روزہ نہ رکھیں، زکوٰۃ نہ دیں، حج نہ کریں اور ہر قسم کی برائی کریں۔ اس لیے کہ امام زمانہ کا جلد ظھور ہو؟ دراصل یہ سب کچھ فکری کجروی کے باعث کھا جارہا ہے۔ یہ نعرہ کسی لحاظ سے درست نہیں ہے، بلکہ اسلام کے اصولوں کے خلاف ہے۔ رہی بات انتظار امامعليه‌السلام کی تو ایک حتمی اور ضرور امر ہے۔ انتظار کرنا ہم سب مسلمانوں کے لیے ضروری ہے۔ یہ ایک طرح کی رحمت الٰھی پر امید رکھنے کا نام ہے، تھکے اور ہارے ہوئے انسانوں کیلئے عدل و انصاف کی برقراری وبحالی کی خوشخبری ہے۔ ان لوگوں کے انقلاب آفریں دھماکے کی بات کی ہے یہ تصور بھی غلط ہے، کیونکہ فطرت کا ہر کام ارتقاء کی طرف جاتا ہے۔ آپ پھل کو دیکھ لیجئے۔ یہ اہستہ اہستہ بڑھتا ہے پھر پک کر تیار ہوتا ہے جب تک وہ ارتقاء کی منازل طے نہیں کرلیتا اس وقت تک وہ کھانے کے قابل نہیں ہوتا۔

امام زمانہ علیہ السلام کا ظھور مبارک بھی ایک ارتقاء کے ساتھ خاص ہے، اس لیے اب تک نہیں ہوا کہ معاشرہ میں گناہ کم ہیں، بلکہ دنیا ابھی ارتقاء کی اس منزل تک نہیں پھنچی، لھذا آپ شیعہ روایات میں دیکھتے ہیں کہ جب تین سو تیرہ مخلص مومن پیدا ہوں گے تو امام علیہ السلام ظھور فرمائیں گے، یعنی اس حدتک دنیا زوال پذیر ہوگی کہ اچھے صالح افراد کا ملنا مشکل ہوجائے گا۔ پریشانی بڑھے گی، لیکن پریشانی پریشانی میں بھی فرق ہے۔ دنیا میں عام طور پر جو بھی مشکل پیش آتی ہے اللہ تعالی اس کا جل پیدا کر دیتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کی دنیا بہت زیادہ پریشان ہے، مسائل اور پریشانیاں بڑھتی جا رہی جا رہی ہیں۔ اب ان مسائل کا حل دنیا کے طاقتور ملکوں اور باختیار ترین حکمرانوں کے پاس بھی نہیں ہے۔ وسائل کے ساتھ مسائل بھی بڑھتے جارہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک وقت میں ان مسائل کا کوئی حل نہیں ہوگا۔ اگر ہوگا تو صرف قائم آل محمد علیہ السلام کے ظھور ہی میں ہوگا۔ اب دیکھیں اس میں ایک سو سال لگتا ہے۔ یا اس سے زیادہ مدت وقت کا کوئی تعین نہیں ہے۔

امام علیہ السلام کے عالمگیر انقلاب اور ظھور کا علم اس ذات اقدس کو ہے جس نے ان کو بھیجنا ہے، اور جس نے امام علیہ السلام کی طولانی عمر اور حفاظت کا اہتمام کر رکھا ہے، اور جس نے اس عظیم امامعليه‌السلام کی برکت سے دنیا کو عدل و انصاف سے پر کرنا ہے۔ اس ترقی یافتہ دور میں دنیا بھر دانشور، مفکرین کا خیال ہے، کہ انسانیت کی تمام تر محرومیوں کا خاتمہ اور حل اس وقت ممکن ہے کہ جب دنیا میں ایک ہی حکمران کی حکومت قائم ہوگی۔ ایک بار پھر میں ان لوگوں سے کھوں گا کہ جو نیکیوں کے فروغ کو ظھور امام علیہ السلام کی تاخیر کا سبب سمجھتے وہ انتھائی غلطی پر ہیں۔ حقیقت میں نیکیاں ہی امام علیہ السلام کے ظھور کو قریب کریں گی۔

انتظار امام علیہ السلام کا مسئلہ ہمارے ذھنوں میں یہ بات نہ ڈال دے کہ چونکہ ہم امام زمانہ کے ظھور کے منتظر ہیں اس لیے فلاں فرض ہم پر ساقط ہے ایسا نہیں ہے، ہر شرعی ذمہ داری ہم پر اسی طرح سے فرض رہے گی جیسا کہ وہ واجب ہوتی ہے۔ اس موضوع کی بابت کچھ اور مطالب بھی ذکر کرنا چاہتا تھا لیکن وقت کی کمی کے باعث اپنی اس گفتگو کو مختصر کرتا ہوں آخر میں صرف اور صرف ایک بات کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مھدویت ایک عالمگیر نظریہ

آپ لوگوں پر فرض ہے کہ مسئلہ انتظار امام علیہ السلام کو ویسے ہی اہمیت دیں جیسا کہ دنیا چاہی ے اور اس کے بارے میں ویسی ہی فکر کریں جیسا کہ اسلام ہمیں اس کی تعلیم دیتا ہے۔ ہم نے اس مسئلہ کو اتنی اہمیت نہیں دی کہ جس کا یہ حقدار تھا۔ ہم اتنے بڑے مسئلہ کو چند جملوں اور چند لفظوں میں بیان کر دیتے ہیں۔ کہ امام علیہ السلام تشریف لائیں گے اور ظالموں سے انتقام لیں گے۔ گویا حضرت امام زمانہ علیہ السلام اللہ تعالی کے حکم کے منتظر ہیں۔ اور وہ تشریف لائیں۔ ہمیں اپنا شرف دیدار عطا فرمائیں۔ حالانکہ جیسا کہ اسلام ایک عالمی دین ہے اس طرح ظھور امام علیہ السلام بھی ایک عالمی مسئلہ ہے۔ ہم شیعیان حیدر کرار علیہ السلام اس مسئلہ کو دنیا کا اہم ترین مسئلہ سمجھتے ہیں۔ بلکہ ہماری زندگیوں کا دارمدار اسی انتظار پر ہے، ہماری سوچوں کا محور یھی انتظار ہے۔ ہم پیدا بھی اسی انتظار کے لیے ہوتے ہیں اور زندہ بھی اسی انتظار کے لیے ہیں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ اس کائنات کا وارث ضرور تشریف لائے گا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے:

( ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثها عبادی الصالحون ) (۴۰)

"ھم نے تو نصیحت توریت کے بعد یقیناً زبور میں لکھ ہی دی ہے کہ روئے زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔"

بات ہو رہی ہے پوری کائنات کی ایک علاقہ کی بات نہیں ہے، اور نہ ہی ایک قوم کی ہے سب سے پھلے تو دنیا کا مستقل خوش آیندہ ہے۔ یورپی مفکرین کا کھنا ہے کہ انسانیت کا مستقل تاریک ہے انسان نے اپنی خود ساختہ ترقی سے اپنی موت خود خرید رکھی ہے۔ ہمارے ہاتھ وں سے بنایا ہوا اپنا ایٹمی اسلحہ ہماری تباہی کا سب سے بڑا سامان بنا ہوا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آئے گا۔ انسان اپنی موت آپ ہی مرجائے گا۔ لیکن ہمارا پاک و پاکیزہ مذھب، اسلام ہمیں درس دیتا ہے کہ گبھرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، انسانیت کا مستقبل انتھائی روشن اور تابناک ہے۔ انسانی زندگی کا دوسرا عقل و عدالت ہے آپ دیکھتے ہیں کہ انسان کی زندگی کے تین دور ہیں۔ پہلا دور بچپن، لڑکپن کا ہے جس میں وہ کھیلتا کودتا ہے، دوسرا دور جذبات کا دور ہے، تیسرا دور بڑھاپے کا ہے۔ انسان ہر لحاظ سے کامل و مکمل ہوتا ہے۔ تجربات انسانی سوچ کو مضبوط اور پختہ بنا دیتے ہیں۔ انسانی معاشرہ بھی تین ادوار اور تین مراحل کو طے کرتا ہے۔ ایک دور افسانوی ہے قرآن نے اس کو زمانہ جاہلیت سے تعبیر کیا ہے۔ دوسرا علم کا دور ہے۔ لیکن علم اور جوانی نے ہمارے دور پر کیا کیا اثرات ڈالے ہیں؟

اگر ہم غور و خوض کریں تو دیکھیں گے کہ ہمارے دور خواہشات و جذبات کا دور ہے۔ ہمارا دور بمبوں کا دور ہے، ایٹمی اسلحہ کا دور ہے۔ ان ادوار کی کوئی حقیقت اور کوئی وقعت نہیں ہے۔ ایسا دور کہ جس میں نہ معرفت موجود ہے نہ عدالت، نہ صلح محبت کا نام و نشان ہے، نہ انسانیت و روحانیت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر ادھورا چھوڑ دیا ہے؟ ہر گز نہیں بلکہ اس نے ایک روز ضرور ہی منزل و مقصود کی طرف پھنچنا ہے۔ چناچہ مھدویت ایک عالمگیر مسئلہ ہے۔ آپ اندازہ فرمایئے کہ اسلام کے پاس کس قدر خوبصورت اور جامع اصول موجود ہیں۔ اسلامی تعلیمات کی ہمہ گیر وسعتوں، گھرائیوں اور بلندیوں کی کوئی حد نہیں ہے۔ اس میں کمال ہی کمال ہے، ارتقاء ہی ارتقا ہے۔ بقاء ہی بقاء، زندگی ہی زندگی، خوشحالی ہی خوشحالی ہے۔ کامیابی ہی کامیابی ہے۔ ۔ ۔ ماہ رمضان کا بابرکت اور مقدس مھینہ نزدیک ہے دعائے افتتاح کی تلاوت ضرورت کرنا۔ یہ دعا حضرت امام مھدی علیہ السلام کی ذات والاصفات کے ساتھ خاص ہے میں بھی اس دعا کو پڑھوں گا اور آپ بھی ضرور پڑھنا۔ ۔ ۔ ۔

"اللهم انا نرغب الیک فی دولة کریمة تعز بها الاسلام و اهله"

پروردگار ! ہم تجھ سے ایسی عظیم حکومت میں زندگی گزارنے کی دعا کرتے ہیں کہ جس میں اسلام اور مسلمانوں کی عزت و رتبہ حاصل ہو۔"

وتذل بها النفاق و اهله"

اور اس میں منافقوں کو ذلت و رسوائی ملے گی۔"

"و تجعلنا فیها من الدعاة الی طاعتک و القادة الی سبیلک"

اور ایسی توفیق دے کہ ہم دوسروں کو تیری اطاعت و عبادت کی طرف دعوت دیں اور تیرے راستہ کی طرف لوگوں کی ھدایت کریں۔

بار الھا! ہمیں دنیا و آخرت کی کامیابیاں عطا فرمایا! اللہ ہم تجھے اپنے اولیاء اور نیک ہستیوں کا واسط دے کر دعا کرتے ہیں کہ وہ کام کریں کہ جس میں صرف اور صرف تیری ذات کی رضا و خوشنودی پوشیدہ ہے ۔

___________________

۱.نھج البلاغہ، خطبہ ۹۲.

۲.بنی اسرایئل، ۳۳.

۳.نھج البلاغہ، ۱۲۴.

۴.نھج البلاغہ، خطبہ ۱۹۱.

۵.استیعاب، ج۱، ص۲۵۹.

۶.نھج البلاغہ، ۲۳۸.

۷.سورہ انعام، ۵۷.

۸.سورہ زمر، ۶۵.

۹.سورہ اعراف، ۲۰۴.

۱۰.سورہ روم، ۴۰.

۱۱.نھج البلاغہ، خطبہ۹۲. ۱۲.سورہ حج، ۳۹.

۱۳.الاحتجاج طبرسی، ج۱، ص۱۰۷.

۱۴.تاریخ طبری، ج۳، ص۲۹۴۴.

۱۵.نھج البلاغہ،۷۲.

۱۶.مسالک الافھام، ج۳، ص۱۱۴.

۱۷.سورہ حجرات، ۹.

۱۸.بقرہ، ۱۹۰.

۱۹.انفال، ۴۱.

۲۰.نساء، ۱۲۸.

۲۱.نھج البلاغہ، خطبہ ۲۴۰.

۲۲.تاریخ طبری، ج۷، ص۳۰۰.

۲۳.نھج البلاغہ، خطبہ۱۸۲.

۲۴.سورہ یوسف، ۸۴.

۲۵.حج، ۳۹.

۲۶.بقرہ، ۲۶۹.

۲۷.نھج البلاغہ، ۱۳۹.

۲۸.زیارت جامعہ کبیرہ.

۲۹.منتھی الآمال، ج۲۲۲، ۲.

۳۰.عنکبوت ۶۵.

۳۱.بحار الانوار، ج ۴۹، ص ۱۴۶

۳۲.سورہ یوسف، ۵۵.

۳۳.نور، ۵۵.

۳۴.سورہ حدید، ۲۵.

۳۵.اعلام الوری، ص۴۰۱.

۳۶.سورہ نور، ۵۵.

۳۷.سورہ انبیاء، ۱۰۵.

۳۸.توبہ، ۳۳.

۳۹.نھج البلاغہ، حکمت ۱۴۷.

۴۰.سورہ انبیاء، ۱۰۵.