سيرت آل محمد(عليهم السلام)

سيرت آل محمد(عليهم السلام)0%

سيرت آل محمد(عليهم السلام) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

سيرت آل محمد(عليهم السلام)

مؤلف: آیۃ اللہ شهید مرتضيٰ مطہرى
زمرہ جات:

مشاہدے: 26557
ڈاؤنلوڈ: 3430

تبصرے:

سيرت آل محمد(عليهم السلام)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 19 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 26557 / ڈاؤنلوڈ: 3430
سائز سائز سائز
سيرت آل محمد(عليهم السلام)

سيرت آل محمد(عليهم السلام)

مؤلف:
اردو

صلح امام حسن علیہ السلام ۱

حضرت امام حسن علیہ السلام کا امیر شام کے ساتھ صلح کرنا ایک ایسا مسئلہ ہے جو اس وقت سے لے کر اب تک زیر بحث چلا آرہا ہے۔ امام علیہ السلام کے دور امامت میں بعض اشخاص نے " صلح امام حسنعليه‌السلام پر اعتراض کیا دیگر ائمہ معصومینعليه‌السلام کے ادوار میں بھی کچھ لوگ اسی طرح کے اعتراضات کرتے رہے اور یہ مسئلہ آج تک زیر بحث چلا آرہا ہے کہ حضرت امام حسن علیہ السلام نے معاویہ کے ساتھ صلح کیوں کی؟ اس قسم کے افراد سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ امام حسن مجتبی علیہ السلام نے حاکم وقت کے ساتھ مصالحت کرلی تھی اور امام حسین علیہ السلام نے یذید کے ہاتھ پر بیعت قبول نہ کی۔ اور ابن زیاد کو صاف جواب دے دیا کہ مجھ جیسا معصوم یزید جیسے فاسق وفاجر کی بعیت نہیں کرسکتا۔ درحقیقت بات یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام چونکہ امام وقت تھے اور ان کےزمانئہ امامت میں ان سے بھتر شخص اور کوئی نہیں تھا۔ یزید تو یزید وہ دنیا کے کسی بڑے شخص کی بھی بیعت نہیں کر سکتے تھے کیو نکہ وہ امام وقت تھے۔

اعتراض کرنے والے حضرات اگر حقیقت حال کا مطالعہ کر لیتے تو وہ صلح امام حسن علیہ السلام پر کبھی بھی اعتراض نہ کرتے کیونکہ امام حسنعليه‌السلام کی صلح اور امام حسینعليه‌السلام کے قیام میں بہت بڑا فرق ہے۔ حالات اور ماحول کا بہت فرق تھا بعض لوگ کھتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام چونکہ ایک صلح پسندتھے اور امام حسین علیہ السلام جنگجو تھے اس لئے ایک جگہ پر صلح ہوئی اور دوسری جگہ پر جنگ اور قتل و کشتار جیسی صورت حال پیدا ہوگئی حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ ان تمام اعتراضات کا ہم ایک ایک کرکے جواب دیں گے اور اس ثبوت کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے یہ دونوں شھزادے حق پر تھے انھوں نے جو جو بھی اقدام کیا وہ بھی حق پر تھا۔

اگر امام حسن علیہ السلام"امام حسین علیہ السلام کی جگہ پر ہوتے یا امام حسینعليه‌السلام امام حسنعليه‌السلام کی جگہ پر ہوتے تو ایک جیسی صورت حال پیدا ہوتی۔صلح حسنعليه‌السلام کے وقت حالات اور طرح کے تھے اور کربلا میں زمانہ اور حالات کا رخ کچھ اور تھا۔ امام حسن علیہ السلام کے دور امامت میں اسلام کی بقاء اس خاموشی میں مضمر تھی اور کربلا میں اسلام جھاد کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔

بقول مولانا ظفر علی خان ؂

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

میں بھی چاہتا ہوں کہ اس مسئلہ کے اردگرد بحث کروں عام طور پر جو لوگ صلح حسنیعليه‌السلام اور قیام حسینعليه‌السلام کے بارے میں بحث تمحیص کرتے ہیں ان کی گفتگو کا محور بھی یھی ہوتا ہے لیکن کچھ تجزیہ نگار اپنی پٹری سے اتر جاتے ہیں۔ وہ کھنا کچھ چاہتے ہیں کھہ کچھ اور دیتے ہیں۔ دراصل اسلام میں جھاد کا مسئلہ ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے اگر ان دونوں مسئلوں کو دیکھا جائے تو ان دونوں ہی میں فلسفہ جھاد عملی طور پر نمایاں نظر آئے گا۔ اسی جھاد کو مد نظر رکھتے ہوئے امام حسنعليه‌السلام نے خاموشی اختیار کر لی تھی اور اسی جھاد کی خاطر امام حسینعليه‌السلام نے میدان جنگ میں آکر صرف اپنا نہیں بلکہ اسلام و قرآن کا دفاع کیا۔ ہماری بحث کا محور بھی یھی بات رہے گی کہ امام حسن علیہ السلام نے حاکم وقت کے ساتھ صلح کی توکیوں کی اور امام حسینعليه‌السلام میدان جھاد میں یزیدی فوجوں سے نبرد آزما ہوئے تو کیوں ہوئے؟

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور صلح

جب ہم غور وخوض کرتے ہیں تو ہمیں واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ صلح صرف امام حسنعليه‌السلام کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ یہ مسئلہ پیغمبر اسلام کے دور رسالت سے بھی مطابقت رکھتا ہے۔ جناب رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بعثت کے ابتدائی سالوں سے لے کر آخر مدت تک مکہ میں رہے لیکن جب آپ دوسرے سال میں مدینہ تشریف لائے تو آپ کا رویہ مشرکین کے ساتھ انتھائی نرم اور ملائم تھا۔ حالانکہ مشرکین نے حضور پاک کو اور دیگر مسلمانوں کو بہت زیادہ اذیتیں دی تھیں اور ان کا جینا حرام کردیا تھا۔ آخر مسلمانوں نے تنگ آکر حضور سے جنگ کی اجازت چاہی اور عرض کی سرکار آپ ہمیں صرف ایک مرتبہ جنگ کی اجازت مرحمت فرما دیں تو ہم ان کافروں، مشرکوں کو ایسا یاد گار سبق سکھائیں کہ یہ آئندہ ہماری طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھیں گے آپ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت نہ دی اور ان کو امن وآشتی اور صبر وتحمل کے ساتھ زندگی گزارنے کی تلقین کی۔

آپ نے فرمایا لڑنے جھگڑنے سے صورت حال مزید خراب ہوگی اس لئے بھتر یہ ہے کہ خاموش رہا جائے۔ اگر کسی کو اس حالت میں نہیں رھنا ہے تو وہ سرزمین حجاز سے حبشہ کی طرف ہجرت کرسکتا ہے۔ لیکن پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی ۔

( اذن للذین یقاتلون بانهم ظلموا وان الله علی نصرهم لقدیر ) (۱۲)

"یعنی جن (مسلمانوں) سے (کفار) لڑا کرتے تھے چونکہ وہ (بہت) ستائے گئے اس وجہ سے انھیں بھی (جھادکی) اجازت دے دی گئی اور خدا تو ان لوگوں کی مدد پر یقیناً قادر (و توانا) ہے" اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا اسلام جنگ کا دین ہے یا صلح کا؟ اگر صلح کا دین ہے تو ہمیشہ اسی پالیسی پر عمل کرنا چاہی ے۔ دین کا کام تو لوگوں کو نیک کام کی دعوت دینا ہے ۔ گویا دین ایک پیغام ہے پھنچ گیا تو ٹھیک نہ پھنچا تو کوئی بات نہیں ۔

اگر اسلام جنگ کا دین ہوتا تو پھر رسول خدا نے مکہ میں تیرہ ۱۳ سال تک جنگ کی اجازت کیوں نہیں دی یہاں تک کہ دفاع کی اجازت بھی نہ دی۔ دراصل بات یہ ہے کہ اسلام وقت اقر حالات کو دیکھتا ہے اگر صلح کا مقام ہو تو حکم دیتا ہے کہ جنگ نہ کرو اور جنگ اور دفاع کی نوبت آجائے تو پھر سکوت کو جائز قرار نہیں دیتا ۔ ہم رسول خدا کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ میں کچھ مقامات پر کفار و مشرکین کے ساتھ جنگیں کررہے ہیں اور بعض مقامات پر صلح کی قراردادوں پر دستخط کررہے ہیں جیسا کہ حدیبیہ کے مقام پر آپ مشرکین مکہ سے صلح کررہے ہیں۔ حالانکہ یہ مشرک آپ کے سخت ترین دشمن تھے ۔ یہاں پر صحابہ کرام نے بھی صلح پر دستخط کیے۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ آپ مدینہ میں یھودیوں کےساتھ یہ عھد و پیمان کر رہے ہیں کہ ان کے ذاتی امور میں ان کو آزاد چھوڑا جائے گا۔ یہ فرمایئے اس کے متعلق آپ کیا کھیں گے؟

حضرت علیعليه‌السلام اور صلح

اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت امیرالمومنینعليه‌السلام ایک جگہ پر لڑتے ہیں اور دوسری جگہ پر نہیں لڑتے۔ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد خلافت کا مسئلہ پیدا ہوجانا اور خلاف دوسرے لے جاتے ہیں علی علیہ السلام اس مقام پر جنگ نہیں کرتے، تلوار اپنے ہاتھ میں نہیں لیتے اور فرماتے ہیں کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ میں نہ لڑوں اور نہ ہی مجھے لڑائی میں حصہ لینا چاہی ے۔ دوسروں کی طرف سے جوں جوں سختی پریشانی بڑھتی جاتی ہے آپ اس قدر نرم ہوتے جارہے ہیں۔ ایک وقت ایسا بھی آجاتا ہے کہ حضرت زھراعليه‌السلام کو پوچھنا پڑتا ہے کہ

"ما لک یاابن ابی طالب اشتملت شملة الجنین و قعدت حجرة الطنین" (۱۳) اے ابو طالب کے بیٹے آپ کی حالت جنین کی طرح کیوں ہوگئی ہے کہ جو شکم مادر میں ہاتھ اور پاؤں کو سمیٹ لیتا ہے آپ اس شخص کی مانند ایک کمرہ میں گوشہ نشین ہو کر رہ گئے ہیں کہ جو لوگوں کے شرم کی وجہ سے گھر سے باہر نہیں نکلتا؟ آپ وھی تو ہیں کہ آپ کے سامنے میدان جنگ میں بڑے بڑے پھلوانوں کے پتے پانی ہوجایا کرتے اور آپ کو دیکھ کر بڑے بڑے جری بھادر جرنیل بھاگ جاتے تھے۔ اب آپ کی حالت یہ ہے کہ یہ ٹڈی دل لوگ آپ پر غالب آگئے ہیں آخر کیوں"؟

حضرت فرماتے ہیں اے میرے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیاری بیٹی!اس وقت میری ذمہ داری اس طرح کی تھی اور اب میرا فریضہ یہ ہے کہ میں چپ رہوں، خاموش رہوں، صبر وتحمل سے کام لوں۔ یہاں تک کہ پچیس سال اسی حالت میں گزرجاتے ہیں۔ ان پچیس ( ۲۵) سالوں کی مدت میں علیعليه‌السلام خاموش رہے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ عثمان غنی قتل کردیئے جاتے ہیں۔ حالات بدل جاتے ہیں، لوگوں کا بہت بڑا ہجوم آپ کے در عصمت پر آتا ہے ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو علیعليه‌السلام کو قتل عثمان میں ملوث کرنا چاہتے ہیں کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو کھتے ہیں مولا آپ مسند خلافت پر تشریف لے آیئے کچھ ایسے بھی ہیں جو آپ سے تقاضا کرتے ہیں کہ یا علیعليه‌السلام قاتلین عثمان کو پکڑ کر قرار واقعی سزادی جائے آخر وھی وقت آگیا جس کی نشاندھی آپ نے نھج البلاغہ میں کی ہے۔ آپ نے عثمان سے کھا تھا کہ مجھے ڈر ہے کہ کوئی شخص آپ کو قتل کرکے مسلمانوں کے درمیان عجیب صورت حال پیدا ہوگئی ایک طرف عثمان کے مخالفوں کا گروہ تھا دوسری طرف عثمان تھے"لیکن آپ نے ہمیشہ عدل وانصاف کے ساتھ فیصلہ کیا۔

قارئین کرام ! آیتہ اللہ شھید مطھری (رح) اور علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم کی عبارتیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں اس لئے ہم مفتی صاحب قبلہ کی عبارت پیش کرتے ہیں وہ نھج البلاغہ کے صفحہ نمبر ۱۱۴ پر رقمطراز ہیں کہ جب حضرت عمر ابو لولوکے ہاتھ وں سے زخمی ہوئے اور دیکھا کہ اس کاری زخم سے جانبر ہونا مشکل ہے تو آپ نے انتخاب خلیفہ کیلئےایک مجلس شوری تشکیل دی جس میں علی ابن ابی طالب، عثمان ابن عفان ، عبدالرحمٰن ابن عوف، زبیر ابن عوام، سعد ابن ابی وقاص اور طلحہ ابن عبیداللہ کو نامزد کیا اور ان پر یہ پابندی عائد کردی کہ وہ انکے مرنےکے بعد تین دن کے اندر اندر اپنے میں سے ایک کو خلافت کے لئے منتخب کر لیں اور یہ تینوں دن امامت کے فرائض انجام دیں۔ ان ھدایت کے بعد ارکان شوری میں سے کچھ لوگوں نے ان سے کھا کہ آپ ہمارے متعلق جو خیالات رکھتے ہوں ان کا اظہار فرماتے جائیں تاکہ انکی روشنی میں قدم اٹھایا جائے۔ اس پر آپ نے فرداً فرداً ہر ایک کے متعلق اپنی زریں رائے کا اظہار فرمایا۔ چنانچہ سعد کے متعلق کھا کہ وہ درشت خو اور تند مزاج ہیں اور عبدالرحمن اس امت کے فرعون ہیں اور زبیر خوش ہوں تو مومن اور غصہ میں ہوں تو کافر اور طلحہ غرور و نخوت کا پتلا ہے اگر انھیں خلیفہ بنایا گیا تو خلافت کی انگوٹھی اپنی بیوی کے ہاتھ میں پھنا دیں گے اور عثمان کو اپنے قوم وقبیلہ کے علاوہ کوئی دوسرا نظر نہیں آتا رہے علی علیہ السلام تو وہ خلافت پر ریجھے ہوئے ہیں۔

اگر چہ میں جانتا ہوں کہ ایک وھی ایسے ہیں جو خلافت کو صحیح راہ پر چلائیں گے مگر اس کے اعتراف کے باوجود آپ نے مجلس شوری کی تشکیل ضروری سمجھی اور اس کے انتخاب ارکان اور طریق کار میں وہ تمام صورتیں پیدا کردیں کہ جس سے خلافت کا رخ ادھر ہی بڑھے جدھر آپ موڑنا چاہتے تھے۔ چنانچہ تھوڑی بہت سمجھ بوجھ سے کام لینے والا بآسانی اس نتیجے پر پھنچ سکتا ہے کہ اس میں عثمان کی کامیابی کے تمام اسباب فراہم تھے اس کے ارکان کو دیکھئے تو ان میں ایک عثمان کے بھنوئی عبدالرحمٰن بن عوف ہیں اور دوسرے سعد بن وقاص ہیں جو امیر المومنینعليه‌السلام سے کینہ وعناد رکھنے کے باوجود عبدالرحمٰن کے عزیز و ہم قبیلہ بھی ہیں ان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی عثمان کے خلاف تصور نہیں کیا جاسکتا، تیسرے طلحہ بن عبید اللہ تھے طبری وغیرہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ طلحہ اس موقعہ پر مدینہ میں موجود نہ تھے لیکن ان کی عدم موجودگی عثمان کی کامیابی میں سدراہ نہ تھی بلکہ وہ موجود بھی ہوتے، جیسا کہ شوری کے موقعہ پر پھنچ گئے تھے اور انھیں امیر المومنینعليه‌السلام کا ہمنوا بھی سمجھ لیا جائے تب بھی عثمان کی کامیابی میں کوئی شبہ نہ تھا کیونکہ حضرت عمر کے ذھن رسانے طریقہ کار یہ تجویز کیا تھا "کہ اگر دو ایک پر اور دو ایک پر رضامند ہوں تو اس صورت میں عبداللہ بن عمر کو ثالث بناؤ جس فریق کے متعلق وہ حکم لگائے وہ فریق اپنے میں سے خلیفہ کا انتخاب کرے اور اگر وہ عبداللہ ابن عمر کے فیصلے پر رضا مند نہ ہوں تو تم اس فریق کا ساتھ دو جس میں عبدالرحمٰن بن عوف ہو اور دوسرے لوگ اگر اس سے اتفاق نہ کریں تو انھیں اس متفقہ فیصلے کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے قتل کردو ۔(۱۴)

اس مقام پر عبداللہ ابن عمر کے فیصلہ پر نارضامندی کے کیا معنی جب کہ انھیں یہ ھدایت کر دی جاتی ہے کہ وہ اسی گروہ کا ساتھ دیں جس میں عبدالرحمٰن ہوں۔ چنانچہ عبداللہ کو حکم دیا کہ اے عبداللہ اگر قوم میں اختلاف ہو تو تم اکثریت کا ساتھ دینا اور اگر تین ایک طرف ہوں اور تین ایک طرف تو تم اس فریق کا ساتھ دینا جس میں عبدالرحمٰن ہوں۔ اس فھمائش سے اکثریت کی ہمنوائی سے بھی یھی مراد ہے کہ عبدالرحمٰن کا ساتھ دیا جائے کیونکہ دوسری طرف اکثریت ہوھی کیونکر سکتی تھی جب کہ ابو طلحہ انصاری کی زیر قیادت پچاس خونخوار تلواروں کو حزب مخالف کے سروں پر مسلط کر کے عبدالرحمٰن کے اشارہ چشم وآبرو پر جھکنے کیلئے مجبور کردیا گیا تھا۔ چنانچہ امیر المومنینعليه‌السلام کی نظروں نے اس وقت بھانپ لیا تھا کہ خلافت عثمان کی ہوگی جیسا کہ آپ کے اس کلام سے ظاہر ہے جو ابن عباس سے مخاطب ہو کر فرمایا خلافت کا رخ ہم سے موڑ دیا گیا ہے۔ انھوں نے کھا کہ یہ کیسے معلوم ہوا فرمایا کہ میرے ساتھ عثمان کو بھی لگا دیا ہے اور یہ کھا ہے کہ اکثریت کا ساتھ دو اور اگر دو ایک پر اور دو ایک پر رضامند ہوں تو تم ان لوگوں کا ساتھ دو جن میں عبدالرحمٰن بن عوف ہو۔ چنانچہ سعد تو اپنے چچیرے بھائی عبدالرحمٰن کا ساتھ دے گا اور عبدالرحمٰن تو عثمان کا بھنوئی ہوتا ہی ہے۔

بھر حال حضرت عمر کی رحلت کے بعد یہ اجتماع ہوا اور دروازہ پر ابو طلحہ انصاری پچاس آدمیوں کے ساتھ شمشیر بکف آکھڑا ہوا۔ طلحہ نے کارروائی کی ابتداء کی اور سب کو گواہ بنا کر کھا کہ میں اپنا حق رائے دھندگی عثمان کو دیتا ہوں۔ اس پر زبیر کی رگ حمیت پھڑکی (کیونکہ ان کی والدہ حضرت کی پھوپھی صفیہ بنت عبدالمطلب تھیں) اور انھوں نے اپنا حق رائے دھندگی عبد الرحمٰن کے حوالے کردیا۔ اب مجلس شوری کے ارکان صرف تین رہ گئے جن میں عبدالرحمٰن نے کھا کہ میں اس شرط پر اپنے حق سے دستبردار ہونے کیلئے تیار ہوں کہ آپ دونوں (علی ابن ابی طالبعليه‌السلام اور عثمان ابن عفان) اپنے میں سے ایک کو منتخب کر لینے کا حق مجھے دینے دیں یا آپ میں سے کوئی دستبردار ہو کر یہ حق لے لے۔

یہ ایک ایسا جال تھا جس میں امیر المومنینعليه‌السلام کو ہر طرف سے جکڑ لیا گیا تھا کہ یاتو اپنے حق میں دستبردار ہوجائیں یا عبدالرحمٰن کو اپنی من مانی کاروائی کرنے دیں۔ پھلی صورت آپ کیلئے ممکن ہی نہ تھی کہ حق سے دستبردار ہو کر عثمان یا عبد الرحمٰن کو منتخب کریں۔ اس لئے آپ اپنے حق پر جمے رہے اور عبدالرحمٰن نے اپنے کو اس سے یہ اختیار سنبھال لیا اور امیر المومنینعليه‌السلام سے مخاطب ہو کر کھا، میں اس شرط پر آپ کی بیعت کرتا ہوں کہ آپ کتاب خدا، سنت رسول اور ابو بکر کی سیرت پر چلیں" آپ نے کھا نہیں میں اللہ کی کتاب، رسول کی سنت اور اپنے مسلک پر چلوں گا۔ تین مرتبہ دریافت کرنے کے بعد جب یھی جواب ملا تو عثمان سے مخاطب ہو کر کھا کیا آپ کو یہ شرائط منظور ہیں۔ ان کے لئے انکار کی کوئی وجہ نہ تھی انھوں نے ان شرائط کو مان لیا اور ان کی بیعت ہوگئی۔ بھرصورت امیر المومنینعليه‌السلام نے فتنہ و فساد کو روکنے اور حجت تمام کرنے کیلئے اس میں شرکت گوارا فرمائی تاکہ ان کے ذھنوں پر قفل پڑجائیں اور یہ نہ کھتے پھریں کہ ہم تو انھی کےحق میں رائے دیتے مگر خود انھوں نے شوری سے کنارہ کشی کرلی اور ہمیں موقع نہ دیا کہ ہم آپ کو منتخب کرتے ۔)

آیۃ اللہ شھید مطھری تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ آپ نے یہاں پر ایسی سیاست اختیار کیوں کی؟ تو آپ نے فرمایا :

"والله لاسلمن ما سلمت امور المسلمین ولم یکن فیها جورالاعلی خاصة" (۱۵)

"خدا کی قسم جب تک مسلمانوں کے امور کا نظم ونسق برقرار رہے گا اور صرف میری ہی ذات ظلم وجور کا نشانہ بنتی رہے گی میں خاموشی اختیار کرتا رہوں گا۔"

عثمان کی رحلت کے بعد لوگ آپ کے دردولت پر آکر بیعت کرتے ہیں۔ یہ معاویہ کا دور ہے۔ ماحول بدل جاتا ہے یہاں پر حضرت علی علیہ السلام ناکثین، قاسطین، مارقین، یعنی اصحاب جمل، اصحاب صفین، اصحاب نھروان سے جنگ کرتے ہیں۔ اور یہ جنگ طول پکڑ جاتی ہے۔ چنانچہ صفین کے بعد عمر وعاص اور معاویہ کی عیارانہ ومکارانہ پالیسی کام دکھا جاتی ہے۔ خوارج قرآن مجید کو نیزوں پر بلند کرکے آواز بلند کرتے ہیں کہ اس جنگ میں قرآن مجید کے فیصلہ کے مطابق عمل کرنا چاہی ے۔ قرآن کو نوک نیزہ پر دیکھ کر کچھ لوگ کھتے ہیں کہ جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والے حق پر ہیں۔ امیر المومنینعليه‌السلام کے لشکر میں کھلبلی مچ گئی۔ اب مولا علیعليه‌السلام کو مصلحت کے مطابق خاموشی اختیار کرنا پڑی۔

آپ نے مجبور ہو کر حکم کو تسلیم کیا۔ آپ نے فرمایا حکم قرآن وسنت کے مطابق فیصلہ کریں۔ دراصل یہ ایک طرح کی منافقانہ چال تھی یہ لوگ مولا علی علیہ السلام کو وقتی طور پر خاموش کرنا چاہتے تھے۔ عمر وعاص اپنے مشن میں کامیاب ہو گیا اس نے ابو موسی کو بھی دھوکہ دیا لیکن حقیقت بعد میں کھل کر سامنے آگئی کہ ان دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ دھوکہ کیا ان میں سے ایک شخص کھتا ہے کہ دو ھزار افراد پر مشتمل لشکر میری وجہ سے پیچھے ھٹا ہے کہ نوبت گالی گلوچ تک پھنچ گئی۔ دراصل یہ خود ساختہ حکمیت کا اعجاز تھا۔ اب اعتراض کرنے والے کھتے ہیں کہ اگر چہ مولانے خوارج کے ہاتھ وں مجبور ہو کر جنگ بندی کا اعلان کر دیا زیادہ سے زیادہ یھی ہوجاتا کہ آپ قتل ہو جاتے یا آپ کے بیٹوں میں سے ایک شھید ہو جاتا وہ یہ بھی کھتے ہیں کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ میں پہل نہیں کی۔ زیادہ سے زیادہ وہ شھید ہوجاتے۔ آپ نے حدیبیہ کے مقام پر صلح کیوں کی؟ جس طرح کربلا میں امام حسینعليه‌السلام شھید ہوگئے" رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی شھید ہوجاتے؟ پھر امیر المومنین نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد خاموشی اختیار کیوں کی؟زیادہ سے زیادہ آپ شھید ہو جاتے؟ آپ نے حکمیت کو کیوں تسلیم کیا؟ آپ کو چاہی ے تھا کہ جان کی پروا کیے بغیر جنگ جاری رکھتے؟ مسئلہ امام حسنعليه‌السلام کی صلح اور امام حسینعليه‌السلام کی جنگ پر ختم نہیں ہوتا بلکہ بات باقی آئمہ طاہر ینعليه‌السلام تک بھی پہنچتی ہے۔ میں ان تمام سوالات، ابھامات کا ایک ایک جواب دوں گا۔ سب سے پہلے میں آپ کیلئے کتاب جھاد میں فقہ کے ایک باب کو بیان کرتا ہوں تاکہ آپ کو میری گفتگو کے دیگر نکات بخوبی سمجھ میں آسکیں ۔

فقہ جعفریہ میں جھاد کا تصور

بلا شبہ اسلام جھاد کا دین ہے اور یہ چند مقامات پر واجب ہے۔ ان میں سے ایک ابتدائی جھاد ہے یعنی یہ اس وقت واجب ہوتا ہے جب مد مقابل غیر مسلمان ہوں۔ خاص طور پر اگر وہ مشرک ہوں۔ اگر کوئی مشرک مسلمانوں پر حملہ کرتا ہے تو اس کو منہ توڑ جواب دیا جائے ایسا جھاد بالغ، عاقل اور آزاد شخص پر واجب ہے ۔ اور مجاہد مرد ہونا ضروری ہے۔ عورتوں کیلئے جھاد میں حصہ لینا ضروری نہیں ہے ۔ اس قسم کے جھاد میں امام علیہ السلام یا ان کے نائب سے اجازت لینا ضروری ہے ۔ شیعہ فقہ کے نزدیک اس وقت ایک حاکم شرعی اپنی طرف سے جھاد ابتدائی کو اپنی طرف سے شروع نہیں کرسکتا۔ دوسرا مقام یہ ہے کہ جب مسلمانوں کو کافروں، مشرکوں کی طرف سے خطرہ یا وہ جان بوجھ کر مسلمانوں کے خلاف دست درازی کرے یا ایک ملک کسی دوسرے اسلامی ملک کی زمین پر قبضہ کرنا چاہے یا قبضہ کر چکا ہو یا اس قسم کا کوئی ناجائز اقدام کرے تو اس صورت میں عورت مرد، چھوٹے بڑے، آزاد غلام پر جھاد میں شرکت کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ اس جھاد میں امام علیہ السلام یا ان کے نائب سے اجازت لینا ضروری نہیں ہے ۔ یہ تمام شیعہ فقھاء کا متفقہ طور پر فتوی ہے اس سلسلے میں شھید ثانی علیہ الرحمہ کی فقھی رائے پیش خدمت ہے جناب محقق کی فقہ پر ایک کتاب ہے ۔ اس کا نام ہے شرائع الاسلام، اس کتاب کو شیعہ علما ء میں بڑی عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جناب شھید ثانی نے" مسالک الافھام " کے نام سے اس کی شرح کی ہے، بہت ہی عمدہ شرح ہے۔ جناب شھید ثانی کا شمار شیعوں کے صف اول کے فقھاء میں سے ہوتا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب کوئی کافر یا مشرک یا کوئی بے دین شخص مسلمانوں پر حملہ کرتا ہے تو تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ سب مل کر جھاد میں بھر پور طریقے کے ساتھ حصہ لیں ۔

آپ اسرائیل کو لے لیجئے اس نے مسلمانوں کی سر زمین پر قبضہ کر رکھا ہے اور آئے روز فلسطینی مسلمانوں کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرتا رھتا ہے۔ تو یہاں پر دنیا بھر کے تمام مسلمانوں پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اسرائیل کی ظالمانہ کاروائیوں کے خلاف عملی طور پر جھاد میں شریک ہوں" یہاں پر امام علیہ السلام کی اجازت کی شرط نہیں ہے ۔ اسی طرح دوسرے اسلامی ممالک جو غیر اسلامی ملک کی حمایت کرسکتا ہے کرے۔ یہ سب کچھ جھاد کے زمرے میں آجاتا ہے۔ جناب شھید ثانی تحریر فرماتے ہیں کہ:

"ولا یختص بمن قصد ومن المسلمین بل یجب علی من علم بالحال النهوض اذا لم یعلم قدرة المقصودین علی المقاومة" (۱۶)

" یعنی یہ جھاد (ان لوگوں کے ساتھ خاص نہیں ہے کہ جن کی سر زمین، مال، جان اور ناموس غیر مسلموں کے قبضہ میں ہے بلکہ یہ ہر اس مسلمان پر واجب ہے کہ جس کو دوسرے مسلمان کی اس مشکل کے بارے میں علم ہو تو اس پر جھاد واجب ہے مگر شرط یہ ہے، اگر وہ لوگ خود طاقت ورہوں اور خود دفاع کرسکتے ہوں تو پھر یہ وجوب ساقط ہو جاتا ہے ۔ اگر اس کو یہ علم ہو کہ جن مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے ان کو دوسرے مسلمانوں کی مدد کی ضرورت ہے تو پھر ہر مسلمان پر واجب ولازم ہے کہ جس طرح بھی ہوسکے وہ اپنے مظلوم بھائیوں کی ہر طرح سے بھر پور مدد کرے ۔"

تیسری قسم جھاد خصوصی کی ہے اس کے احکام اور عمومی جھاد کے احکام میں فرق ہے۔ عمومی جھاد کے مسائل خاص نوعیت کے ہیں۔ اس جھاد میں اگر کوئی قتل ہو جائے تو وہ شھید ہے اور غسل نہیں ہے۔ جو شخص رسمی جھاد میں مارا جائے تو اس کو اسی لباس کے ساتھ غسل دیئے بغیر اس خون کے ساتھ دفن کیا جائے ؂

خون، شھیدان راز آب اولی تراست

ایں گنہ از صد ثواب اولی تر است

" شھید کا خون پاک ترین، خالص ترین پانی سے بھتر ہے یہ گناہ ھزار ثواب سے بھتر ہے"۔

اصطلاح میں تیسری قسم کو جھاد کھتے ہیں لیکن اس جھاد کے احکام جھاد کی مانند نہیں ہیں۔ اس کا ثواب جھاد کے اجر کی مانند ہے۔ اس میں حصہ لینے والا شھید ہے، وہ ایسے ہے کہ اگر ایک شخص سرزمین کفر میں ہو اگر وہاں کافروں کی لڑائی دوسرے کفار کے ساتھ ہو جائے مثلاًوہ فرانس میں ہے اور فرانس اور جرمنی میں جنگ چھڑ جاتی ہے، اب ایک مسلمان پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟ اس پر لازم ہے کہ وہ خود کو ہر لحاظ سے بچانے کی کوشش کرے، اس کو وہاں کے لوگوں کی خاطر نہیں لڑنا چایئے، اگر وہ جانتا ہے کہ اگر وہ دوسرے ملک کی فوجوں کے ساتھ لڑائی میں شریک نہیں ہوتا تو اس کی جان کو خطرہ ہے اگر اسی خطرہ کے پیش نظر وہ میدان جنگ میں آکر لڑتا ہے تو شھید ہے۔ آپ اسے مجاہد کھہ سکتے ہیں، اگر چہ وہ شھیدوں جیسا حکم نہیں رکھتا۔ اس کو غسل دیا جائے گا کفن دینا پڑے گا۔

اب ایک اور صورت پیدا ہو جاتی ہے اس کے بارے میں فقھاء نے رائے دی ہے کہ اگر ایک شخص پر اس کا ایک دشمن حملہ کرتا ہے اس کی جان یا عزت کو خطرہ لاحق ہے اور اس کا یہ دشمن مسلمان ہے مثال کے طور پر ایک گھر میں سویا ہوا ہے کہ ایک چور یا ڈاکو گھس آتا ہے۔ (حاجی کلباسی نے کہا تھا کہ اگر نماز تھجد بھی پڑھتا ہو چور چور ہے، ڈاکو ڈاکو ہے اس کے نماز روزے اور مسلمان ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے) تو یہاں پر اگر اس کو جان مال اور عزت کا خطرہ ہے، تو اس کو یہاں پر دفاع کرنا چاہی ے، حتی الامکان چوروں، ڈاکوؤں کا مقابلہ کرنا چاہی ے وہ یہ نہ سوچے کہ اگر وہ مجھ پر حملہ کرے گا تو میں اس کا جواب دوں گا۔ بلکہ اس پر لازم ہے کہ ڈاکو کو جان سے مار دے۔ اس حالت میں اگر وہ مارا جاتا ہے تو وہ شھید کے حق میں ہے۔ یہ ایک لمبی بحث ہے فقہ کی کتب میں آپ اس کی تفصیل ملاحظ کرسکتے ہیں۔

سر کشوں سے جنگ

جھاد کے میں نے تین مقامات ذکر کیے ہیں، دو مقامات اور بھی ہیں، ایک کو سرکشوں کے ساتھ جنگ کرنے کو کھتے ہیں۔ اگر مسلمانوں کے درمیان جنگ چھڑ جاتی ہے ایک گروہ دوسرے گروہ کو قتل کرنا چاہتا ہے تو یہاں پر دوسرے تمام مسلمانوں پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ سب سے پھلے تو ان کے درمیان صلح کرائیں۔ ان کو ہر حال میں لڑنے جھگڑنے سے ھٹائیں اگر ایک گروہ ان مسلمانوں کی نہ مانے اور مسلسل جنگ پر آمادگی کا اظہار کرے تو ان پر لازم ہے کہ وہ مظلوم گروہ کی حمایت کریں اور سرکش گروہ کے ساتھ مقابلہ کریں چنانچہ ارشاد الہٰی ہے۔

" وان طائفتان من المومنین اقتتلو فاصلحوا بینهما فان بغت احدیهما علی الاخری فقاتلوا التی تبغی حتی تفتئی الی امر الله" (۱۷)

" اور اگر مومنین میں سے دو فرقے آپس میں لڑ پڑیں تو ان دونوں میں صلح کرادو پھر اگر ان میں سے ایک (فریق) دوسرے پر زیادتی کرے تو جو فرقہ زیادتی کرے تم (بھی) اس سے لڑو یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع کرے"۔

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی شخص ایک عادل امام کے خلاف بغاوت کرتا ہے چونکہ وہ امامعليه‌السلام ہے اس لئے حق پر ہے، اور امامعليه‌السلام کے خلاف آنے والا جو بھی ہوگا باطل پر ہوگا۔ اب دوسرے لوگوں پر واجب ہے کہ وہ امام کا ساتھ دیں اور دشمن امامعليه‌السلام کے خلاف جنگ کریں۔ جھاد کا ایک اور مرحلہ یا مقام بھی ہے اگر چہ فقھا کا اس میں کچھ اختلاف ہے وہ ہے امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کیلئے خونی انقلاب برپا کرنا۔

صلح اور فقہ جعفریہ

ایک مسئلہ جو کتاب جھاد میں سامنے آیا ہے وہ مسئلہ صلح ہے۔ فقھاء کی اصطلاح میں اس کو مھدیا مھادنہ کھا جاتا ہے مھادنہ یعنی مصالحت، ھدنہ یعنی صلح، صلح کا معنی یہ ہے کہ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ۔ آج کل کی اصطلاح میں ایک دوسرے کے ساتھ صلح وصفائی کے ساتھ رہنے کے عھد و پیمان کو صلح نامہ کھا جاتا ہے۔ جناب محقق شرائع الاسلام میں فرماتے ہیں کہ

"المهادنة وهی المعاقدة علی ترک الحرب مدة معینة"

" یعنی جنگ نہ کرنے اور امن وآشتی کے ساتھ رہنے پر عھد وپیمان باندھنے کو صلح کھا جاتا ہے لیکن اس کیلئے ایک مدت معین کی جائے" فقہ کی کتب میں لکھا ہے کہ اگر ایک شخص مشرک ہے کہ جس سے کرنا جائز ہے اس کے ساتھ بھی صلح کی جاسکتی ہے لیکن عھد و پیمان کی ایک مدت مقرر کی جائے۔ اس کے ساتھ چھ مہینوں، ایک سال، دس سال یا اس سے زیادہ کی مدت معین کرے۔ جیسا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر دس سال کا معاہدہ کیا تھا:

"وهی جائزة اذا تضمنت مصلحة للمسلمین"

جناب محقق کھتے ہیں اگر اس میں مسلمانوں کو فائدہ پہچنے تو صلح کرنا جائز ہے حرام نہیں ہے۔"

لیکن میں نے عرض کیا ہے کہ اگر ایسا موقعہ ہو کہ جھاں جنگ کرنا ضروری ہے جیسا کہ مسلمانوں کی سر زمین پر کفار نے حملہ کیا ہے یا مسلمانوں کی سر زمین پر قبضہ کردیا جاتا ہے، تو دوسرے مسلمانوں پر واجب ہے کہ ہر حالت میں اس عظیم سرزمین کو دشمن کے قبضہ سے چھڑانا چاہی ے۔ اب اگر مصلحت کے تحت وھی دشمن صلح نامہ لے آتا ہے تو آیا اس پر دستخط کرنا جائز ہے یا نھیں؟جناب محقق کا کہنا ہے کہ اگر مصلحت بھی ہو تو ایک مدت معین کرنی چاہی ے۔ اس کا مقصد یہ کہ یہ صلح ایک عارضی مدت کے لئے ہو رہی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ مسلمان کس صلح نامہ کو قبول کریں؟ جناب محقق کھتے ہیں:

"اما لقلتهم عن المقاومة"

"یعنی جب مسلمانوں میں جنگ کرنے کی طاقت نہ ہو تو انھیں چاہی ے کہ کچھ مدت کیلئے صبر کریں اور خود کو مسلح اور طاقتور بنائیں" اور

او لما یحصل به الا استظهار"

"یا وہ جنگ بندی ا س لئے کر رہے ہیں کہ وہ جنگ کی مزید تیاری کرلیں"۔

او لرجاء الدخول فی الاسلام مع التربص"

"یا صلح اس امید کے ساتھ کی جا رہی ہے کہ حزب مخالف اسلام قبول کرنا چاہتا ہو یہ اس وقت ہوگا جب مخالف کافر ہوں۔"

یعنی ہم ایک مدت کیلئے دشمن سے صلح کر رہے ہیں۔ اس عرصہ کے دوران ہم روحانی و فکری لحاظ سے ان پر غلبہ حاصل کرلیں گے جیسا کہ صلح حدیبیہ میں تھا۔ اس کے بارے میں چند مطالب آگے چل کر بیان کروں گا۔

"ومتی ارتفعت ذلک وکان فی المسلمین قوة علی الخصم لم یجز"

جس وقت یہ شرائط ختم ہو جائیں تو صلح بر قرار رکھنا جائز نہیں ہے۔"

اب تھوڑی سی گفتگو کے بعد یہ بات واضح وروشن ہوگئی کہ اسلامی فقہ کے نزدیک صلح چند خاص شرائط کے تحت جائز ہے۔ اب یہ صلح خواہ ایک قرار داد کی صورت میں ہو یا فقط زبانی طور پر جنگ بندی کا معاہدہ کیا جائے۔ یہاں پر دو باتیں قابل ذکر ہیں ایک وقت میں ہم کھتے ہیں کہ صلح کا معنی یہ ہے کہ ایک قرار داد باندھی جائے یہ اس جگہ پر ہوگا جب دو مخالف گروہ صلح پر آمادگی کا اظہار کریں جیسا کہ ہمارے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کھا ہے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت طیبہ پر عمل کرتے ہوئے امام حسن علیہ السلام نے کھا ایک موقعہ پر ہم کھتے ہیں کہ صلح یعنی جنگ نہ کرنا اور امن وآشتی کی راہ کو تلاش کرنا۔ کھا گیا ہے کہ ایک وقت ہم دیکھتے ہیں کہ ہم میں جنگ کی طاقت نہیں ہے تو اس وقت جنگ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اس لیے ہم جنگ نہ کریں۔ صدر اسلام میں تو اسی طرح صورت حال پیش آئی تھی۔ اس وقت مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی، اگر وہ اس وقت لڑتے تو اپنا ہی نقصان کرتے۔ ممکن ہے جنگ بندی اس لئے کی گئی ہو کہ اس وقفے کے دوران خود کو مضبوط اور طاقتور کرنا چاہتے ہوں یا فکری لحاظ سے ان کی سوچ بدل کر ان کو مومن ومسلمان بنانا مقصود ہو۔ اب ہم آپ کے لئے صلح حدیبیہ کے بارے میں کچھ مطالب پیش کرتے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ امام حسن علیہ السلام کا صلح کرنے کا انداز بالکل اپنے جد امجد حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جیسا تھا۔ آپ نے حالات و واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے یا ایک خاص وقت کے انتظار یا تیاری میں ھتھیار نہ اٹھائے بلکہ انتھائی حکمت ودانشمندی کے ساتھ دشمن کے ساتھ صلح کر لی۔

صلح حدیبیہ

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب اپنے دور رسالت میں صلح کی تو آپ کے بعض صحابہ کرام نے نہ فقط تعجب کیا بلکہ سخت پریشان بھی ہوئے۔ لیکن ایک یا دو سال گزرنے کے بعد ان پر اس صلح کے ثمرات ونتائج ظاہر ہوئے تو پھر ماننے پر مجبور ہوگئے کہ سرکار رسلت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو بھی کیا ٹھیک کیا تھا۔ چھ ہجری ہے جنگ بدر کا ایسا خونی واقعہ رونما ہوا قریش مکہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں اپنے دل میں سخت بغض وکینہ رکھتے تھے۔ اس کے بعد جنگ احد ہوئی جس طرح قریش حضور کے بارے میں سخت نفرت کا اظہار کرتے تھے۔ مسلمان اس سے بڑھ کر قریش سے نفرت کرتے تھے گویا قریش کے نزدیک ان کے سخت ترین دشمن پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھے اور مسلمانوں کے نزدیک ان کے سب سے بڑے دشمن قریش تھے۔ ادھر ماہ ذی الحجہ کا چاند نظر آگیا یہ ان کی اصطلاح میں ماہ حرام کھلاتا تھا ۔

ان کی جاہلانہ رسم کے مطابق یہ بات طے تھی کہ ماہ حرام میں وہ اسلحہ زمین پر رکھ دیتے اور مکمل طور پر جنگ سے ہاتھ اٹھا لیتے تھے۔ عربوں میں بہت زیادہ دشمنیاں تھیں، یھی وجہ ہے اس زمانے میں قتل وکشتار بھی اتنا زیادہ تھا لیکن ماہ حرام میں اس مھینہ کے احترام میں وہ خاموش ہوجاتے۔ بڑے سے بڑے دشمن کو بھی کچھ نہیں کھتے تھے، حضور رسالتمآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سوچا کہ کیوں نہ ان کی جاہلانہ رسم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مکہ تشریف لے جائیں اور وہاں سے عمرہ کر کے واپس تشریف لے آئیں۔ اس کے علاوہ آپ کا اور کوئی ارادہ نہ تھا اور تیاری کا اعلان فرمایا اور سات سو آدمی (ایک اور روایت کے مطابق چودہ سو آدمی جن میں آپ کے صحابہ کرام اور دیگر لوگ بھی شامل تھے۔ مکہ کی طرف رہسپار ہوئے۔ لیکن آپ جب مدینہ سے نکلے تو حالت احرام میں آگئے، چونکہ آپ کا حج قران تھا، اس لئے آپ کی قربانی کے جانور آپ کے آگے آگے چلے۔ قربانی کے جانوروں کے گلے میں جوتی لٹکا دی، زمانہ قدیم میں یہ رسم تھی کہ جو بھی کسی جانور کو اس حالت میں دیکھتا تو وہ خود بخود سمجھ جاتا تھا کہ یہ قربانی کا جانور ہے۔ چنانچہ سات سو افراد کی مناسبت سے سات سو جانور خریدا گیا اور اسی خاص علامت کے ساتھ ان کو قافلے کے آگے اپنے ہمراہ لیا۔ تاکہ دیکھنے والے یہ بخوبی اندازہ لگا سکیں کہ یہ لوگ حج کرنے جارہے ہیں۔ جنگ کی غرض سے نہیں آئے ہیں یہ کام اور یہ پروگرام علانیہ تھا اس لئے قریش کو سب سے حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ کے ساتھیوں کی آمد کی اطلاع مل چکی تھی تو جب آپ مکہ کے قریب پھنچے تو زن ومرد چھوٹے بڑے غرضیکہ تمام قریش گھروں سے باہر نکل کر مکہ سے باہر آگئے اور انھوں نے کھا کہ خدا کی قسم! ہم محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مکہ میں داخل ہونے کی اجازت ہر گز نہیں دیں گے۔

حالانکہ وہ ماہ حرام تھا اور کھا کہ ہم اس مہینے میں بھی جنگ کریں گے وہ عربوں کی اس پرانی اور مروجہ رسم کی خلاف ورزی کرنا چاہتے تھے، آپ قریش کے خیموں کے پاس تشریف لے گئے اور اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ اپنی اپنی سواریوں سے نیچے اترآئیں اور قریش سے کھا کہ تم بھی اپنے چند آدمی تیار کرو تاکہ یا ہمی تبادلہ خیال سے مسئلہ حل ہو سکے۔ چنانچہ قریش کے چند بزرگ آدمی حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آئے اور کہا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہاں کیوں اور کس مقصد کیلئے آئے ہیں؟ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا میں حاجی ہوں اور حج ہی کی ادئیگی کیلئے آیا ہوں اس کے سوا میرا کوئی کام نہیں ہے۔ حج سے فراغت پاتے ہی فوراً واپس چلا جاؤں گا۔

ان میں سے جو بھی آتا ان کو دیکھ کر واپس چلا جاتا اگر چہ وہ مطمئن تھے پھر بھی انھوں نے بات نہ مانی۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ کے ہمراہی وں نے یہ پکا ارادہ کر لیا کہ وہ ہر صورت میں مکہ میں داخل ہوں گے۔ ان کا پروگرام لڑائی کا نہ تھا۔ ھاں اگر ہم پر قریش نے حملہ کیا تو ان کا دندان شکن جواب دیں گے۔ سب سے پھلے تو بیعت الرضوان کی رسم ادا کی گئی۔ اصحاب نے از سر نو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیعت کی، جس میں طے یہ پایا۔ اگر قریش کا نمائندہ صلح کا پیغام لے کر آیا تو ہم بھی صلح کریں گے، طرفین سے نمائندوں کی آمد و رفت شروع ہوئی۔ آپ نے اپنے نمائندوں سے کھا کہ جاکر قریش سے کہہ دو کہ:

"ویح قریش اکلتهم الحرب"

افسوس ہے قریش پر جنگ نے ان کو کھا لیا"

اب یہ لوگ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟ مجھے یہ لوگ دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مکہ میں جانے دیں گے تو اس سے بھی قریش کو فائدہ ہو گا۔ انھوں نے کھا ہمیں آپ کی کوئی شرط قابل قبول نہیں ہے ہم صرف اور صرف صلح کیلئے قرار داد پاس کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں قریش کی طرف سے سھیل بن عمرو نمائندگی کے فرائض ادا کر رہا تھا۔ صلح نامہ میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم امسال واپس چلے جائیں اور اگلے سال آئیں اور تین روز تک قیام کرسکتے ہیں۔ آپ عمرہ کرکے واپس چلے جائیں یہ صلح نامہ اگر چہ ظاہر میں مسلمانوں کے حق میں بھتر نہ تھا ان میں ایک شرط یہ تھی کہ اگر ایک قریشی دیگر مسلمانوں کے ساتھ مل جائے تو قریش کا حق حاصل ہوگا کہ وہ اس کو اپنے پاس لے آئیں۔ اگر ایک مسلمان قریش کے ساتھ مل جائے تو مسلمانوں کو حق حاصل نہ ہوگا کہ اس کو وہاں سے لے جائیں۔ آپ نے فرمایا ہماری بھی ایک شرط ہے کہ مسلمان مکہ میں آزادی کے ساتھ رہیں اور ان پر کسی قسم کی سختی نہ کی جائے۔ آپ نے ایک شرط کی خاطر ان کی تمام شرائط کو قبول کر لیا، اور اس ایک شرط کی خاطر قرار داد پر دستخط کر دیئے۔ اس سے کچھ مسلمان کو سخت تکلیف ہوئی۔ عرض کی یا رسول اللہ یہ ہماری بے عزتی ہے کہ ہم مکہ کے نزدیک آکر واپس لوٹ جائیں۔ کیا یہ بات درست ہے؟ ہم تو واپس نہیں جائیں گے۔ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا قرار داد تو یھی ہے اور اس پر طرفین کے دستخط بھی ہوچکے ہیں اب تو ہمیں عمل کرنا ہوگا۔ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا یھیں پر قربانی کے جانوروں کو ذبح کردو اور میرے سر کے بالوں کو مونڈوا لیجئے۔

آپ جب سر کے بال منڈوا چکے تو دوسروں نے بھی ایسا ہی کیا، لیکن سخت پریشانی کے ساتھ ۔ اس طرح کا عمل اس بات کی علامت تھا کہ اب یہ سب حالت احرام سے نکل چکے ہیں۔ حضرت عمر سخت ناراض ہوئے اور حضرت ابو بکر سے کھا کہ جو کچھ ہوا ہے اچھا نہیں ہوا ۔ کیا ہم مسلمان نہیں ہیں کیا یہ مشرک نہیں ہیں؟ یہ سب کچھ کیوں ہوا ہے؟ حضور پاک نے اس سے قبل خواب میں دیکھا تھا کہ مسلمان مکہ میں داخل ہو کر مکہ کو فتح کریں گے ۔ یہ دونوں بزرگ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خواب میں نہیں دیکھا تھا کہ ہم مسلمان مکہ میں داخل ہوئے ہیں؟ فرمایا ھاں ایسا ہی تھا عرض کی پس اس خواب کی تعبیر اس طرح کیوں ظاہر ہوئی ہے ۔

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا میں نے خواب میں یہ نہین دیکھا کہ ہم امسال مکہ جائیں گے اور نہ ہی میں نے آپ سے اسی سال کی بات کی ہے میں نے خواب دیکھا ہے اور وہ خواب بھی سچا ہے کہ ہم مکہ ضرور جائیں گے ان دونوں بزرگوں نے عرض کی حضور یہ کوئی قرار داد تو نہ ہوئی کہ وہ لوگ ہمارے آدمی کو ساتھ لے جا سکتے ہیں اور ہم قریش میں سے کسی کو اپنے ساتھ نہیں ملا سکتے؟ آپ نے فرمایا اگر ایک شخص ہم میں سے وہاں جانا چاہتا ہے وہ مسلمان نہیں مرتد ہے ۔اس کی ہمیں قطعی طور پر ضرورت نہیں ہے جو مرتد ہوگیا وہ ہمارے کسی کام کا نہ رہا۔ اگر ان میں سے کوئی مسلمان ہوکر ہمارے پاس آجائے تو ہم اس سے کھیں کہ فی الحال تم مکہ جاؤ اور جس طرح بھی نبھ آئے گزار و اللہ تعالی ایک نہ ایک دن ضرور کوئی وسیلہ پیدا کرے گا۔ واقعتاً عجیب و غریب شرائط ہیں ۔ سھیل بن عمر کا ایک بیٹا مسلمان تھا اور وہ اسی لشکر اسلام میں تھا اس نے بھی اس قرارداد پر دستخط کیے اس کا دوسرا بیٹا قریش کے پاس تھا، وہ دوڑتا ہوا مسلمانوں کے پاس آیا۔ لیکن سھیل نے کھا کہ چونکہ اب ایگریمنٹ ہو چکا ہے اس لئے میں اس کو قریش کے پاس واپس بھیجتا ہوں اس نوجوان کا نام ابو جندل تھا۔

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے فرمایا تم واپس چلے جاؤ اللہ تعالی کوئی بھتر سبب بنائے گا۔ فکر نہ کرو یہ بیچارہ سخت پریشان ہوا اور چیختا چلاتا رہا، کہ مسلمان مجھے کافروں کے درمیان بے یار ومددگار چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ مسلمان بھی پریشان ہوئے عرض کی یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ اجازت دیں کہ ہم اس ایک نوجوان کو واپس نہ جانے دیں۔ آپ نے فرمایا کوئی بات نہیں اسے واپس جانے دو اب یہ نوجوان قرارداد کے مطابق آزادانہ طور پر زندگی بسر کرے گا ۔ ان تمام نوجوانوں کو چاہی ے کہ وہ مکہ میں رہ کر اسلام کی تبلیغ کریں۔ ایک سال کی کم مدت میں اتنے زیادہ مسلمان ہوئے کہ شاید اتنے بیس سالوں کی مدت میں نہ ہوتے۔ اہستہ اہستہ حالات بدلتے گئے ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مکہ شھر مسلمانوں سے چھلک رہا تھا اور اس میں اسلام و قرآن کی باتیں ہو رہی تھیں، علم و عمل کے تزکرے ہورہے تھے۔ ایک بہت اچھا واقع ہے میں چاہوں گا کہ آپ کو بھی سناؤں۔ ابو بصیر نامی ایک شخص مسلمان تھا۔ یہ مکہ میں رہائش پزیر تھا۔ اور بہت ہی بھادر و شجاع تھا۔ یہ مکہ سے فرار ہو کر مدینہ آیا۔ قریش نے دو آدمیوں کو مدینہ بھیجا تاکہ قراردادوں کے مطابق اس کو مکہ لے آئیں، یہ دو شخص آئے اور کھا کہ ابو بصیر کو واپس لوٹا دیجئے۔ حضرت نے فرمایا واقعی ایسا ہی ہے۔

اس نوجوان نے جتنا بھی کھا کہ یارسول اللہ مجھے واپس نہ بھیجئے حضرت نے فرمایا کہ چونکہ ہم ان سے وعدہ کرچکے ہیں جھوٹ بولنا ہمارا شیوہ نہیں ہے۔ تم جاؤ انشاء اللہ حالات بہت جلد بھتر ہو جائیں گے۔ اس کو وہ اپنی حراست میں لے گئے۔ یہ غیر مسلح تھا اور وہ مسلح تھے۔ ذوالحلیفہ نامی جگہ پر پھنچ گئے، تقریباً یھیں سے یعنی مسجد شجرہ سے احرام باندھا جاتا ہے اور مدینہ یہاں سے سات کلو میٹر دور تھا۔ یہ لوگ ایک درخت کے نیچے آرام کرنے لگے۔ ایک شخص کے ہاتھ میں تلوار تھی، ابو بصیر نے اس سے کھا کہ یہ تلوار تو بہت خوبصورت ہے، ذرا مجھے دکھائیے تو سہی، اس نے اس سے تلوار لی اور ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کردیا۔ اس مقتول کا دوسرا ساتھی دوڑ کر مدینہ آگیا اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا یہ کوئی نیا واقعہ ہوا ہے۔ اس نے عرض کی جی ھاں آپ کے آدمی نے ہمارے آدمی کو قتل کردیا ہے۔ کچھ لمحوں کے بعد ابو بصیر بھی وہاں پھنچ گیا عرض کی یا رسول اللہ آپ نے تو قرار داد پر عمل کر دیا۔ وہ قرار داد یہ تھی کہ اگر کوئی شخص قریش سے فرار ہو کر آجائے تو آپ اس کو ان کے حوالے کردیں میں تو خود آیا ہوں اس لئے آپ مجھے کچھ نہ کھیے آپ اسی وقت اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور دریائے احمر کے کنارے پر آئے آپ نے وہاں پر ایک لکیر کھینچی اور اس کو مرکز قرار دیا جو مسلمان مکہ میں مشرکین کی طرف سے تکالیف برداشت کر رہے تھے ان کو پتہ چلا کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی کو اجازت نہیں دے رہے تھے لیکن آپ نے ساحل دریا کو مرکز قرار دیا ہے، وہ ایک ایک کرکے اس جگہ پر پھنچے اور ستر ۷۰ کے لگ بھگ اکٹھے ہو گئے۔ اور ایک "طاقت" بن گئے۔

قریش اب آمد و رفت نہ رکھ سکتے تھے، انھوں نے خود ہی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں ایک خط لکھا، جس میں کھا کہ یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہم نے ان کو معاف کردیا ہے ہم درخواست کرتے ہیں کہ آپ ان کو لکھیں کہ یہ لوگ مدینہ آجائیں اور ہمارے لئے رکاوٹیں کھڑی نہ کریں، ہم خود ہی اپنی قرارداد سے صرف نظر کرتے ہیں۔ اس قرارداد کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ لوگوں کے افکار ونظریات میں تبدیلی لائی جائے۔ چنانچہ یھی ہوا جو ہمارے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چاہتے تھے۔ اس کے بعد مسلمان مکہ میں آزادانہ طور پر رہنے لگے، اور اس آزادی کی بدولت لوگ فوج در فوج دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے، مشرکین کی تمام تر پابندیاں ختم ہو کر آزادی میں بدل گئیں۔ یہ تھی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدبرانہ سیاست اور اس سے جو دورس نتائج بر آمد ہوئے۔ ان فوائد کو تو شمار ہی نہیں کیا جاسکتا۔ اب آتے ہیں امام حسنعليه‌السلام اور امام حسینعليه‌السلام کی معصومانہ حکمت عملیوں کی طرف۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر امام حسنعليه‌السلام امام حسینعليه‌السلام کی جگہ پر ہوتے تو آپ کربلا میں ویسا ہی کرتے جیسا کہ امام حسینعليه‌السلام نے کیا تھا۔ میں یہاں پر صرف ایک نکتہ عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ اگر کوئی سوال کرتا ہے کہ کیا اسلام صلح کا دین ہے یا جنگ کا دین؟تو ہم اس کو اس طرح جواب دیں گے کہ آیئے قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں دیکھتے ہیں قرآن مجید ہمیں جنگ کا حکم بھی دیتا ہے اور صلح کا بھی۔ ہمارے پاس بہت سی ایسی آیات موجود ہیں جو ہمیں کافروں ومشرکوں کے ساتھ مسلمانوں کی جنگ کی نشاندھی کرتی ہیں۔ ارشاد الھٰی ہے:

( وقاتلوا فی سبیل الله الذین یقاتلونکم ولا تعتدوا ) (۱۸)

"اور جو لوگ تم سے لڑیں تم (بھی) خدا کی راہ میں ان سے لڑو اور زیادتی نہ کرو"

دوسری آیات بھی اس طرح کی ہیں۔ صلح کے بارے میں قرآن مجید کھتا ہے:

( وان جنحوا للسلم ما جنح بها ) (۱۹)

اور اگر یہ کفار صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کی طرف مائل ہوجاؤ"۔

ایک اور جگہ پر ارشاد خدا وندی ہے:

( والصلح خیر ) (۲۰)

"صلح تو (بھر حال) بھتر ہے۔"

آپ خود ہی اندازہ کر لیجئے کہ اسلام کس چیز کا مذھب ہے؟ اسلام نہ صرف صلح کو قبول کرتا ہے بلکہ اس کے لئے بھی وہ شرائط عائد کرتا ہے اور نہ بغیر کسی وجہ کے جنگ کو روا سمجھتا ہے ۔ وہ کھتا ہے صلح اور جنگ چند خاص شرائط کے ساتھ قیام پذیر ہوں گی ۔ مسلمان خواہ حضرت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دور کا ہو یا حضرت امیرعليه‌السلام کے زمانے کا یا حضرت امام حسنعليه‌السلام ، امام حسینعليه‌السلام اور دیگر آئمہ طاہر ین علیھم السلام کے دور امامت سے تعلق رکھتا ہے وہ ہر جگہ پر ایک ھدف اور مقصد کے تحت زندگی گزراتا ہے ۔

اس کا ھدف اصلی اسلام اور مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ اور بازیابی ہے۔ اس کو دیکھنا چاہی ے کہ یہ مقاصد صلح کے ساتھ حاصل ہوتے ہیں تو صلح کی زندگی گزاردے ۔ اگر کسی موقع پر اسلامی، دینی مقاصد کا تحفظ جنگ میں ہے تو اسلام کھتا ہے کہ کافروں، مشرکوں اور ظالموں کے خلاف ڈٹ جاؤ ۔ حقیقت میں یہ مسئلہ جنگ یا صلح کا نہیں ہے بلکہ بات حالات اور شرائط کی ہے جھاں جھاں اسلامی اہداف کا تحفظ ہو وہاں صلح یا جنگ کریں جیسی مناسبت ویسا اقدام ۔ بس ہر موقعہ پر اللہ تعالی کی خوشنودی اور رضا ملحوظ خاطر رہے یعنی یہ اسلام کا بنیادی فلسفہ ہے ۔

ایک سوال اور ایک جواب

سوال: آپ نے فقہ جعفریہ کی سند امام حسن علیہ السلام کے بارے میں بیان کی ہے درست نہیں ہے، کیونکہ شیعہ فقہ ائمہ طاہر ین علیھم السلام کی تعلیمات کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے ۔ اب آپ یہ نہیں کھہ سکتے کہ حضرت امام حسن علیہ السلام نے شیعہ فقہ پر عمل کرتے ہوئے صلح کی ہے؟ جناب محقق اور دیگر علمائے شیعہ نے جو کچھ بھی کھا ہے یا بیان کیا ہے یہ سب کچھ ائمہ اطہارعليه‌السلام سے لیا ہے ۔ براہ کرم اس مسئلہ کی تشریح فرما دیجئے ۔

جواب:آپ نے بہت اچھا سوال کیا ہے آپ نے میری بات پر غور نہیں کیا میں نے کب کھا کہ امام حسن علیہ السلام نے شیعہ فقہ کی پیروی کرتے ہوئے حاکم وقت کے ساتھ صلح کی ہے ۔ میں نے تو فقہ کے بنیادی اصولوں کو سیرت امامعليه‌السلام سے منطبق کرنے کی کوشش کی ہے ۔ دراصل ہماری فقہ ائمہ طاہر ین علیھم السلام کے فرامین سے مرتب کی گئی۔ شریعت اسلامیہ کی تشریح اور وضاحت ان بزرگ ہستیوں نے جس طرح کی ہے اتنی اور کسی نے نہیں کی ۔ ہم نے فقہ کے ایک باب جھاد پر تبصرہ کیا تھا ۔ جناب محقق کی عالمانہ رائے اور نقطہ نظر کو اس لئے بیان کیا تاکہ واضح ہوجائے کہ صلح کے بارے میں شیعہ فقہ کیا کھتی ہے؟بالغرض اگر آج ہمیں یا کسی اسلامی حکمران کو اس قسم کا قدم اٹھانا پڑے اور وہ ہم سے رائے مانگے تو ہم بغیر کسی توقف کے بتاسکیں کہ ہماری فقہ کیا کھتی ہے؟اور ہمارے ائمہ طاہر ین علیھم السلام کی سیرت طیبہ ہمیں کیا درس دیتی ہے؟

یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان ہر وقت لوگوں سے لڑتا جھگڑتا رہے اور وہ اس کو جھاد کا نام دے ۔ بلکہ جھاد اور صلح کے اپنے اپنے تقاضے ہیں اور ان کو ہم نے وضاحت کے ساتھ بیان کردیا ہے ۔ اوقات صبر و تحمل اور خاموشی کی روش اختیار کرنی پڑتی ہے ۔ کبھی کبھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ جارح اور ظالم دشمن کے جواب میں مسلح ہو کر میدان جنگ میں اترنا پڑتا ہے ۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور دیگر ائمہ کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں اس نوع کی یکسانیت و یگرنگی ہے کہ انسان اس میں کسی قسم کی تفریق نہیں کرسکتا ۔

سوال:کیا اہل سنت بھائیوں کا نقطہ نظر جھاد کے بارے میں شیعوں سے مختلف ہے اگر ہے تو کیا ہے؟

جواب:مجھے اس سلسلے میں اہل سنت بھائیوں کی کتب کا مطالعہ کرنا پڑے گا اس کے بعد کچھ اس پر روشنی ڈال سکوں گا لیکن جھاں تک مجھے معلوم ہے وہ یہ ہے کہ جھاد کے بارے میں شیعہ سنی کا کوئی اتنا بڑا فرق نہیں ہے ہم یہ کھتے ہیں کہ جھاد میں امام یا اس کے نائب سے اجازت لینا چاہی ے ان کے نزدیک یہ شرط وقید نہیں ہے ۔ اس مسئلہ میں ہم سب مسلمان متحد ہیں کہ اگر کافر یا مشرک ملک یا شخص ہمارے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرتا ہے یا کسی کافر سے کسی مسلمان کی عزت و مال کو خطرہ ہے تو ہم سب پر واجب ہے کہ ہم اس کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیں ۔