سيرت آل محمد(عليهم السلام)

سيرت آل محمد(عليهم السلام)0%

سيرت آل محمد(عليهم السلام) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

سيرت آل محمد(عليهم السلام)

مؤلف: آیۃ اللہ شهید مرتضيٰ مطہرى
زمرہ جات:

مشاہدے: 26619
ڈاؤنلوڈ: 3483

تبصرے:

سيرت آل محمد(عليهم السلام)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 19 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 26619 / ڈاؤنلوڈ: 3483
سائز سائز سائز
سيرت آل محمد(عليهم السلام)

سيرت آل محمد(عليهم السلام)

مؤلف:
اردو

امام موسی کاظمعليه‌السلام کی شھادت اور اس کے محرکات

"انتم الصراط الاقوم والسبیل الاعظم وشهداء دار الفناء وشفعاء دار البقاء" (۲۸)

"آپ ہی صراط اقوام (بہت ہی سیدھا راستہ) ہیں، عظیم ترین راستہ (وسیلہ) اس فانی دنیا کے گواہ، باقی رہنے والی دنیا کے شفیع ہیں۔"

چونکہ حضرت امام زمانہ علیہ السلام اللہ تعالی کے حکم اور مشیت سے زندہ ہیں ان کے علاوہ باقی آئمہ طاہر ین علیھم السلام جام شھادت نوش فرما چکے ہیں۔ان میں سے کوئی امام بھی طبعی موت یا کسی بیماری کی وجہ سے اس دنیا سے نہیں گیا۔ ہمارے آئمہ اطہار شھادت کو اپنے لئے باعث افتخار سمجھتے ہیں۔ سب سے پھلے تو ہمارا ہر امام ہمیشہ اپنے لیے خدا سے شھادت کی دعا کرتا ہے۔ پھر انھوں نے جو ہمیں دعائیں تعلیم فرمائیں ہیں ان میں سے بھی شھادت سب سے پسندیدہ چیز متعارف کی گئی ہے جیسا کہ ہمارا آقا و مولا حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں۔ میں بستر کی موت کو سخت ناپسند کرتا ہوں۔ مجھ پر ھزار ٹوٹ پڑنے والی تلواریں اور ھزاروں زخم اس سے کھیں بھتر ہیں کہ میں آرام سے بستر کی موت مروں۔ ان کی دعاؤں میں یھی التجاء ہے، تمناؤں میں یھی تمنا، آرزوؤں میں یھی آرزو، مناجات میں یھی دعا ہے کہ خدا ہمیں شھادت کے سرخ خون سے نھلا کر اپنی ابدی زندگی عطا فرما، غیرت رحمیت، حریت، و عظمت میری زندگی کا نصب العین ٹھرے۔ زیارت جامعہ کبیرہ میں ہم پڑھتے ہیں کہ:

"انتم الصراط الاقوم، والسبیل الاعظم و شهداء دار الفناء وشفعاء دار البقاء"

کہ آپ بہت ہی سیدھا راستہ، عظیم ترین شاہر اہ آپ اس جھان کے شھید اور اس جھان کے شفاعت کرنے، بخشوانے والے ہیں۔"

لفظ شھید امام حسین علیہ السلام کی ذات گرامی کے ساتھ وقف کیا گیا ہے ہم عام طور پر جب بھی آپ کا نام لیتے ہیں"تو الحسین الشھید"کھتے ہیں اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام کے ساتھ صادق اور امام موسی ابن جعفر کا لقب موسی الکاظم اور سید الشھداء کا لقب حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ خاص ہے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہ لیا جائے کہ ائمہ طاہر ین علیھم السلام میں سے امام حسین علیہ السلام ہی شھید ہوئے ہیں؟ اس طرح موسی ابن جعفر کے ساتھ کاظم کا لقب ہے اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ صرف وھی کاظم ہیں، امام رضا علیہ السلام کے ساتھ الرضا کا لقب خاص ہے اس کا یہ معنی نہیں کہ دوسرے ائمہ رضا نہیں ہیں اگر امام جعفر صادق کو صادقعليه‌السلام کھتے ہیں تو اس کا یہ مفھوم نہیں ہے کہ دوسرے ائمہ صادق نہیں ہیں۔ یہ سارے کے سارے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی ہیں اور علیعليه‌السلام بھی ان کی زندگی ایک دوسرے کی زندگی کا عکس ہے۔ تاثیر بھی ایک، خوشبو بھی، ایک سلسلہ نسب بھی ایک مقصد حیات بھی ایک۔

جھاد اور عصری تقاضے

یھاں پر ایک سوال اٹھتا ہے کہ تمام ائمہ اطہار علیھم السلام شھید کیوں ہوئے ہیں؟ حالانکہ تاریخ ہمیں بتلاتی ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے سوا کوئی امام تلوار لے کر میدان جھاد میں نہیں آیا۔ امام سجادعليه‌السلام خاموشی کے باوجود شھید کیوں ہوئے؟ اسی طرح امام باقرعليه‌السلام ، امام صادقعليه‌السلام امام موسی کاظمعليه‌السلام اور باقی تمام ائمہ شھید کیوں ہوئے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے یہ ہماری بہت بڑی غلطی ہوگی کہ اگر یہ سمجھیں کہ امام حسینعليه‌السلام اور دیگر ائمہ طاہر ینعليه‌السلام کے انداز جھاد میں فرق ہے؟ اسی طرح کچھ ناسمجھ لوگ تک بھی کھہ دیتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام ظالم حکمرانوں کے ساتھ لڑنے کو ترجیح دیتے تھے اور باقی ائمہ خاموشی کے ساتھ زندگی گزارنا پسند کرتے تھے۔ درحقیقت اعتراض کرنے والے یہ کہہ کر بہت غلطی کرتے ہیں۔ ہمارے مسلمان بھائیوں کو حقیقت حال کو جانچنا اور پھچاننا چاہی ے۔ ہمارے ائمہ طاہر ینعليه‌السلام میں سے کوئی امام ظالم حکومت کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کرسکتا اور نہ ہی وہ اس لیے خاموش رہتے تھے کہ ظالم حکمران حکومت کرتے رہیں۔ حالات و واقعات کا فرق تھا موقعہ محل کی مناسبت کے ساتھ ساتھ جھاد میں بھی فرق ہے۔ کسی وقت ان کو مجبوراً تلوار اٹھانا پڑی اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ حالات میں سخت گھٹن پیدا ہوگئی، یہاں تک کہ لوگوں کا سانس لینا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ اس کے باوجود ہمارے کسی امام نے بھی حکومت وقت کے ساتھ سمجھوتہ نہ کیا بلکہ وہ ظالموں، آمروں کو بار بار ٹوکتے اور ان کے مظالم کے خلاف آواز حق بلند کرتے تھے۔

آپ اگر ائمہ طاہر ینعليه‌السلام کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہمیشہ اور ہر دور میں ظلم کے خلاف آواز اٹھائی اور مظلوموں کی نہ صرف حمایت کی بلکہ ان کی ہر طرح کی مدد بھی کی۔ جب کبھی ان کی اپنے دور کے حکمران سے ملاقات ہوتی تھی تو وہ اس کے منہ پر ٹوک دیتے تھے۔ آپ کو تاریخ میں یہ کبھی نہیں ملے گا کہ آئمہ اطہارعليه‌السلام میں کسی امام نے کسی حکمران کی حمایت کی ہو۔ وہ ہمیشہ مجاہدت میں رہے۔ تقیہ کا یہ مقصد نہیں ہے کہ وہ آرام و سکون سے زندگی بسر کرنا چاہتے تھے تقیہ وقی سے جیسا کہ تقوی کا مادہ بھی وقی ہے ۔ تقیہ کا معنی یہ ہے کہ خفیہ طور پر اپنا اور اپنے نظریے کا دفاع کرنا۔ ہمارے ائمہ طاہر ینعليه‌السلام تقیہ کی حالت میں جو جو کارنامے سرانجام دیتے شاید تلوار ٹھانے کی صورت میں حاصل نہ ہوتے۔ ہمارے ائمہ کی بھترین حکمت عملی، حسن تدبر اور مجاہدت کی زندگی بسر کرنا ہمارے لیے باعث فخر ہے۔ وقت گزر گیا مورخین نے لکھ دیا کہ آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حق پر تھے۔ ان کا ہر کام اپنے جد امجد رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مقدس ترین دین کو تحفظ فراہم کر نے کیلئے تھا۔ آج ان کا دشمن دنیا بھر کے مسلمانوں کے نزدیک قابل نفرین اور مستحق لعنت ہے۔ صدیاں بیت گئیں۔ عبدالملک مروان، اولاد عبدالملک، عبد الملک کے بھتیجے بنی العباس، منصور دوانیقی، ابو العباس سفاح، ہارون الرشید، مامون و متوکل تاریخ انسانیت کے بدنام ترین انسان شمار کیے جاتے ہیں۔ ہم شیعوں کے نزدیک یہ لوگ غاصب ترین حکمران تھے انھوں نے شریعت اسلامیہ کو جتنا نقصان پھنچایا ہے۔ اس پر ان کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اگر ہمارے ائمہ طاہر ینعليه‌السلام ان کے خلاف جھاد نہ کرتے تو وہ اس سے بڑھ کر بلکہ علانیہ طور پر فسق و فجور کا مظاہر ہ کرتے، نہ جانے کیا سے کیا ہو جاتا۔ یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کے حق میں مخلص نہ تھےائمہ طاہر ینعليه‌السلام کے ساتھ مقابلہ کرنے اور لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے ظاہر ی طور پر اسلام کا نام لیتے اور علمی مراکز اور مساجد قائم کر کے لوگوں کو باور کرانے کی کوشش کرتے کہ وہ پکے اور سچے مسلمان ہیں۔ لیکن ائمہ حق نے نہ صرف ان کے منافقانہ چھروں سے نقاب اٹھا کر ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا بلکہ لوگوں کو بھی راہ راست پر لانے کی بھر پور کوشش کی۔

اگر آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان ظالموں کے خلاف مجاہدت و مقاومت نہ کرتے تو آج تاریخ اسلام میں ان جیسے منافق، خود نما مسلمان حکمرانوں کو اسلام کے ھیرو کے طور پر متعارف کرایا جاتا۔ اگر چہ کچھ اب بھی ان کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن مسلمان کی اکثریت تاریخی حقائق کو ان کی بات کی طرف دھیان نہیں دیتی۔ اس نشست میں ہم امام موسی کاظم علیہ السلام کی شھادت کی وجوہات اور محرکات پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں کہ امام علیہ السلام کو شھید کیوں کیا گیا؟ آپ کو سالھا سال کی قید با مشقت اور اسیری کے انتھائی تکلیف دہ ایام گزارنے کے باوجود آپ کو زھر دے کر شھید کیوں کردیا گیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ پر بے پناہ مظالم ڈھانے کے بعد بھی وہ امام کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ جب وہ ہر طرح سے ناکام و نامراد ہوگئے تو استقامت اور پائیداری کے اس عظیم المنزلت پہاڑ کو بزدلانہ حرکت کے ذریعہ گرانے کی ناکام کوشش کی گئی کہ آپ کو زھر دے کر شھید کر دیا گیا۔

امام زندان بصرہ میں

امام موسی کاظم علیہ السلام کو ایک زندان میں نہیں رکھا گیا بلکہ آپ کو مختلف زندانوں میں رکھا جاتا۔ آج ایک زندان میں توکل کسی اور زندانوں میں منتقل کیا جاتا تھا۔ اس کی ایک وجہ تو آپ کو طرح طرح کی اذیتیں دینا مقصود تھا اور دوسری وجہ آپ جس جیل میں جاتے وہاں کے قیدی آپ کے مرید بن جاتے۔ سب سے پھلے امام کو عیسی بن ابی جعفر منصور کے زندان میں بھیجا گیا۔ یہ منصور دوانیقی کا پوتا تھا اور بصرہ کا گورنر تھا امام علیہ السلام کی نگرانی اس کے ذمہ تھی۔ یہ عیاش ترین شخص تھا۔ھر وقت نشہ میں مدھوش رھتا اور رقص و سرور، ناچ گانے کی محفلیں منعقد کرتا تھا۔ ایک کسان کے بقول کہ اس عارف خدا ترس، عابد و زاہد انسان کو ایسی جگہ پر قیدی بنا کر لایا گیا کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، آپ کے کانوں میں ناچنے گانے والوں کی آوازیں آتی تھیں۔ ایسی آوازیں کہ آپ نے زندگی بھر نہ سنی تھیں۔ ۷ ذی الحجہ سال ۱۷۸ کو امام علیہ السلام کو زندان بصرہ میں لایا گیا۔ عید الاضحی کا دن تھا اس لیے لوگ خوشیاں اور جشن منارہے تھے۔ آپ کو روحانی و ذھنی لحاظ سے بہت زیادہ تکلیف پھنچائی گئی۔

آپعليه‌السلام ایک طویل مدت تک اس زندان میں رہے۔ عیسی بن جعفر اہستہ اہستہ آپ کا مرید ہوگیا۔ وہ پھلے آپ کے بارے میں کچھ اور خیال کرتا تھا وہ سمجھتا تھا کہ امام موسی کاظمعليه‌السلام حکومت و سیاست کیلئے کوشاں ہیں لیکن اس نے جب دیکھا کہ امام علیہ السلام تو بہت ہی عظیم اور عبادت گزار شخصیت ہیں۔ اس کے بعد اس کی سوچ یکسر بدل گئی چناچہ اس نے اپنے نوکروں کو حکم دیا کہ امام علیہ السلام کے لیے بھترین کمرہ مھیا کیا جائے۔ آپ کا غیر معمولی طور پر احترام کیا جانے لگا۔ ہارون نے اسے پیغام بھیجا کہ اس قیدی کا خاتمہ کر دے۔ عیسی نے جواب میں کھا کہ میں ایسا ہر گز نہیں کرسکتا۔ بھتر یہ ہے کہ یہ قیدی مجھ سے واپس لے لیا جائے۔ ورنہ میں ان کو آزاد کردوں گا۔ میں اس قسم کے عظیم انسان کو اپنے قید خانے میں نہیں رکھ سکتا چونکہ وہ خلیفہ وقت کا چچا زاد بھائی اور منصور کا پوتا تھا اس لیے اس کی بات میں وزن تھا اور امام کو کسی دوسرے زندان میں منتقل کر دیا گیا۔

امام علیہ السلام مختلف زندانوں میں

حضرت امام موسی کاظم کو بغداد لایا گیا یہاں پر فضل بن ربیع مشھور دروغہ تھا۔ امامعليه‌السلام کو اس کے سپرد کر دیا گیا۔ اس پر تمام خلفاء اعتماد کرتے تھے۔

ہارون نے اس سے خاص تاکید کی تھی کہ امام علیہ السلام کے ساتھ کسی قسم کی نرمی نہ برتے بلکہ جتنا ہوسکے ان پر سختی کی جائے لیکن فضل امام کے معصومانہ کردار کو دیکھ کر پسیج گیا اور آپ کا عقیدت مند بن گیا۔ سختی کی بجائے نرمی سے پیش آنے لگا۔ زندان کے کمرے کو ٹھیک کیا اور امام علیہ السلام کو قدرے سھولتیں فراہم کیں۔ جاسوس نے ہارون کو خبر دی کہ امام موسی کاظم فضل بن ربیع کے زندان میں آرام و سکون کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں۔ یوں محسوس ہورہا ہے کہ زندان نہیں ہے بلکہ مھمان سرا ہے۔ ہارون نے امام علیہ السلام کو اس سے لے کر فضل بن یحیی برمکی کی نگرانی میں دے دیا۔ فضل بن یحیی بھی کچھ عرصہ کے بعد امامعليه‌السلام سے محبت کرنے لگا۔ ہارون کو جب اس کے رویے کی تبدیلی کی خبر ملی تو سخت غضبناک ہوا اور اپنے جاسوس کو بھیجا کہ جاکر معاملہ کی تحقیق کریں۔ جب جاسوس آئے تو معاملہ ویسا ہی تھا جیسا کہ ہارون کو بتیا گیا تھا۔ہارون فضل برم، کی پر سخت ناراض ہوا اس کا باپ وزیر تھا، یہ ایرانی النسل تھا۔ بہت ہی ملعون شخص تھا۔ اس کو ڈر لاحق ہوا کہ کھیں اس کا بیٹا خلیفہ کی نظروں میں گر نہ جائے، یہ فوری طور پر ہارون کے پاس آیا اور کھا کہ وہ اس کے بیٹے کی غلطی کو معاف کر دے۔ اس کی جگہ پر میں معافی مانگتا ہوں۔ اور میرا بیٹا بھی اپنے کیے پر شرمندہ ہے۔ پھر وہ بغداد آیا امامعليه‌السلام کو اپنے بیٹے کی نگرانی سے لے کر سندی بن شاہک کی نگرانی میں دیا۔ یہ انتھائی ظالم اور سفاک آدمی میں تھا اور مسلمان بھی نہ تھا، اس لیے امام علیہ السلام کے بارے میں اس کے دل ذرا بھر رحم نہ تھا۔ پھر کیا ہوا؟ امام علیہ السلام پر سختی کی جانے لگی اس کے بعد میرے آقا نے کسی لحاظ سے سکون نہیں دیکھا ۔

ہارون کا امام علیہ السلام سے تقاضا

امام علیہ السلام کے زندان میں آخری دن تھے، یہ تقریباً شھادت سے ایک ھفتہ پھلے کی بات ہے۔ ہارون نے یحیی برمکی کو امام علیہ السلام کے پاس بھیجا اور انتھائی نرم اور ملائم لھجہ کے ساتھ اس سے کھا کہ میری طرف سے میرے چچا زاد بھائی کو سلام کھنا اور ان سے یہ بھی کھنا کہ ہم پر ثابت ہو چکا ہے کہ آپ بے قصور ہیں آپ کا کوئی گناہ نہیں ہے لیکن افسوس کہ میں نے قسم اٹھا رکھی ہے کہ اس کو توڑ نہیں سکتا۔ میری قسم یہ کہ جب تک آپ اپنے گناہ کا اعتراف نہ کریں گے اور مجھ سے معافی نہیں مانگیں گے تو آپ کو آزاد نہیں کروں گا اور کسی کو پتہ بھی نہ چلے آپ صرف یحیی کے سامنے اعتراف جرم کرلیں۔ میرے سامنے معافی مانگنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ اعتراف جرم کے وقت بہت سے لوگ موجود ہوں میں تو صرف اتنا ہی چاہتا ہوں کہ اپنی قسم نہ توڑوں۔ آپ یحیی برمکی کے سامنے اعتراف گناہ کر لیں اور صرف اتنا کھہ دیں کہ معافی چاہتا ہوں، میں نے غلطی کی ہے مجھے معاف کر دیجئے تو میں آپ کو آزاد کردوں گا۔ اس کے بعد میرے پاس تشریف لے آیئے اور میں آپ کی ہر طرح کی خدمت کروں گا۔

اب اس استقامت کوہ گراں کی طرف دیکھئے۔ یہ شفیح روز جزاء کیوں ہیں؟ یہ شھید کیوں ہو جاتے ہیں؟ یہ ایمان اور اپنے نظریہ کی پختگی کی وجہ سے شھید کیے گئے اگر یہ سب آئمہ اپنے موقف کو بدل دیتے اور احکام وقت کی ہاں میں ہاں ملاتے تو ہر طرح کا آرام و سکون حاصل کر سکتے تھے۔ لیکن رات اور دن اور حق و باطل، روشنی اور تاریکی، سچ اور جھوٹ ایک جگہ پر جمع نہیں ہوسکتے۔ بھلا امام وقت کسی حاکم وقت کے ساتھ کس طرح سمجھوتہ کر سکتا ہے؟! آپ نے یحی کو جو جواب دیا وہ یہ تھا کہ ہارون سے کھہ دینا کہ میری زندگی کے دن ختم ہو چکے ہیں اس کے بعد تو جان اور تیرا کام جانے۔ ہم نے جو کرنا تھا وہ کرچکے۔ اس کے بعد میرے آقا کو زھر دے کر شھید کر دیا گیا ۔

امام علیہ السلام کی گرفتاری کی وجہ

اب سوال یہ ہوتا ہے کہ ہارون نے امام علیہ السلام کو گرفتار کرنے کا حکم کیوں دیا تھا؟ اس لیے کہ وہ امام علیہ السلام کی عوام میں غیر معمولی مقبولیت کے باعث آپ سے حسد کرتا تھا اور اس کو یہ بھی ڈر تھا کہ لوگ ہمیں چھوڑ کر امام علیہ السلام کو اپنا مذھبی و سیاسی رھنما نہ بنالیں۔ ہارون دیگر خلفاء کی مانند آل محمد علیھم السلام کے ہر فرد سے ھراساں رھتا وہ اس خدشہ کے تحت ہمیشہ چوکنا رھتا تھا کہ آل رسول کھیں انقلاب نہ لے آئیں۔ وہ روحانی و نظریاتی انقلاب سے بھی ڈرتے تھے۔ اس لیے وہ لوگوں کو آئمہ طاہر ین علیھم السلام کے ساتھ ملنے نہ دیا کرتے، لوگوں کی آمد و رفت پر مکمل طور پر پابندی تھی۔ جب ہارون نے چاہا کہ اپنے بیٹوں امین اور اس کے بعد مامون اور اس کے بعد موتمن کی ولیعھدی کا دوبارہ رسمی طور پر اعلان کرے تو وہ شھر کے علماء اور زعماء کو دعوت کرتا ہے کہ وہ مکہ میں اس سلسلے میں بلائی جانے والی عالمی کانفرنس میں شرکت کریں اور سب لوگ اس کی دوبارہ بیعت کریں لیکن سوچتا ہے کہ اس منصوبہ اور پروگرام کے سامنے رکاوٹ کون ہے؟وہ کون ہے کہ جس کی موجودگی خلیفہ کے لیے بہت بڑی مشکل کھڑی کر سکتی ہے۔ کون ہے وہ کہ جس کی علمی استعداد اور پاکیزگی کردار لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے۔

کون ہے وہ کہ جس کی معصومانہ کشش اور مظلومانہ انداز احتجاج اس کی حکومت ظلم کی چولیں ھلاسکتا ہے؟ ظاہر ہے وہ امام موسی کاظم علیہ السلام ہی ہو سکتے ہیں۔ وہ مدینہ آتے ہی امامعليه‌السلام کی گرفتاری کا آرڈر جاری کر دیتا ہے۔ یھی یحیی برمکی ایک شخص سے کھتا ہے کہ مجھے گمان ہے کہ خلیفہ وقت آج نہیں توکل امام علیہ السلام کو گرفتار کرنے کا حکم صادر کر دے گا۔ اس شخص نے پوچھا وہ کیسے؟ بولا میں خلیفہ مسجد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں گئے تو اس نے اس انداز میں حضور پر سلام کیا السلام علیک یاابن العم۔ سلام ہو آپ پر اے میرے چچا کے بیٹے۔ آپ سے معزرت چاہتا ہوں ۔ میں آپ کے بیٹے موسی کاظم کو گرفتار کرنے پر مجبور ہوں (گویا وہ پیغمبر اسلام کے سامنے بھی جھوٹ بول رہا تھا) اگر میں ایسا اقدام نہ کروں تو ملک میں بہت بڑا فتنہ کھڑا ہوجائے گا۔ اجتماعی اور ملکی مفاد کیلئے کچھ دیر کیلئے امام علیہ السلام کو نظر بند کر رہا ہوں۔ یا رسول اللہ میں آپ سے معافی چاہتا ہوں۔ یحیی نے اپنے ساتھی سے کھا دیکھ لینا آج کل امام علیہ السلام نظر بند ہو جائیں گے۔ چناچہ ہارون نے امام کی گرفتاری کے لیے احکامات صادر کر دیئے۔ پولیس امامعليه‌السلام کے گھر گئی تو آپ وہاں پر موجود نہ تھے۔ پھر وہ مسجد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں آئے دیکھا تو آپ نماز پڑھ رہے تھے۔ ان ظالموں نے آپ کو نماز مکمل کرنے کا موقعہ ہی نہ دیا۔ نماز کے دوران امام کو پکڑ کر زبردستی مسجد سے باہر لے آئے۔ اس وقت حضرت نے قبر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر حسرت بھری نگاہ سے دیکھا اور عرض کی "السلام علیک یا رسول اللہ السلام علیک یا جداہ" نانا اپنے اسیر و مجبور بیٹے کا سلام قبول فرمائے دیکھ لیا آپ نے کہ آپ کی امت آپ کی اولاد کے ساتھ کیا سلوک کر رہی ہے؟

ہارون ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس لیے کہ اپنے بیٹوں کی ولی عھدی کیلئے لوگوں کو بیعت پر مجبور کرے ۔ امام موسی کاظم علیہ السلام خاموش رہے ۔ صبر و تحمل سے کام لیا کسی قسم کا انقلاب برپا کرنے کی بات نہ کی کیونکہ اس وقت کا ماحول بالکل آپ کے خلاف تھا کوئی بھی نہ تھا کہ جو آپ کی حمایت کرتا جو حامی تھے وہ بہت مجبور تھے۔ لیکن آپ کی اسیری کا انداز ظالمانہ نظام حکومت کے خلاف پر زور احتجاج بھی تھا اور آمریت کے منہ پر طمانچہ بھی آپ نے قول و فعل سے ثابت کر دیا ہے کہ ہارون اور اس کے بیٹے غاصب ہیں، مجرم ہیں ملت اسلامیہ کے دشمن ہیں ۔

مامون کی باتیں

مامون کا طرز زندگی ایسا تھا کہ بہت سے مورخین اس کو شیعہ کھتے اور لکھتے ہیں۔ میرے عقیدہ کے مطابق یہ ضروری نہیں ہے کہ ایک شخص ایک چیز پر عقیدہ رکھتا ہو لیکن وہ عمل بھی اس پر کرے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ شیعہ ہو اور اس کا شمار شیعہ دانشوروں میں سے ہوتا ہو۔ تاریخ میں یہ بھی درج ہے کہ اس نے علماء اہل سنت کے ساتھ متعدد بار مباحثے و مناظرے کیے ہیں۔ میں نے کسی ایسے شیعہ عالم کو نہیں دیکھا جو اس جیسی بھترین گفتگو کرتا ہو۔ چند سال پیش ترکی کے ایک سنی جج کی ایک کتاب چھپی اس کا فارسی زبان میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے ۔ اس کتاب میں مامون کے اہل سنت علماء کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت حقہ کے بارے میں مباحثے، مناظرے درج کیے گئے ہیں۔ مامون کی عالمانہ، فاضلانہ، دانشمندانہ آراء کو پڑھ کر انسان حیران ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس طرح کی بحثیں تو بڑے سےبڑا عالم بھی نہ کرسکے ۔ مورخین نے لکھا ہے کہ مامون نے ایک مرتبہ کھا ہے کہ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ میں نے شیعہ ہونا کس سے سیکھا ہے تو میں کھوں گا کہ میں نے شیعیت کا درس اپنے بابا ہارون سے حاصل کیا ہے ۔

کسی نے بالآخر کھہ ہی دیا کہ تمہارے بابا تو شیعہ اور آئمہ شیعہ کا سخت ترین مخالف ار کٹر دشمن تھا، تو اس نے کھا ھاں ایسا ہی ہے، لیکن میں آپ کو ایک واقعہ سنا تا ہوں وہ یہ کہ میں ایک مرتبہ اپنے بابا کے ہمراہ حج پر گیا اس وقت میں بچہ تھا سب لوگ بابا سے ملنے کیلئے آجارہے تھے ۔ خاص طور پر علماؤ، مشائخ اور زعمائے ملت کی خلیفہ وقت کے ساتھ خصوصی میٹنگیں تھیں ۔ بابا کا حکم تھا کہ جو بھی آئے سب سے پھلے اپنا تعارف خود کروائے، یعنی اپنا نام تمام شجرہ نسب بیان کرے تاکہ خلیفہ کو معلوم ہو کہ یہ قریش سے ہے یا غیر قریش ہے۔ اگر انصار میں سے ہے تو خرزی قبیلہ سے ہے یا اوسی قبیلہ سے۔ سب سے پھلے نوکر اطلاع کرتا کہ آپ کو فلاں شخص، فلاں کا بیٹا ملنے آیا ہے ۔ ایک روز نوکر آیا اس نے بابا سے کھا کہ آپ سے ایک نوجوان ملنے آیا ہے، اور کھتا ہے کہ وہ موسی ابن جعفر بن محمد بن علی ابن الحسین بن علی ابن ابی طالبعليه‌السلام ہے۔ اس نے اتنا ہی کھنا تھا کہ میرا بابا اپنی جگہ سے اٹھا اور کھا کہ ان سے کھو کہ تشریف لے آئیں۔ پھر بولا کہ ان کو سواری سمیت آنے دیا جائے اور ہمیں حکم دیا کہ اس عظیم القدر شھزادے کا استقبال کیا جائے۔ جب ہم استقبال کیلئے گئے تو دیکھا کہ عبادت وتقوی کے آثار آپ کی پیشانی سے جھلک رہے تھے۔ چھرہ اقدس پر نور ہی نور تھا۔ ان کو دیکھتے ہی ہر انسان نجوبی سمجھ جاتا تھا کہ یہ نوجوان انتھائی پ رہی زگار اور متقی شخص ہے۔ بابا نے دور سے زور سے آواز دی کہ آپ کو قسم دیتا ہوں کہ آپ سواری سمیت آئیں۔ وہ نوجوان چند قدم سواری سمیت آیا ہم جلدی سے دوڑے اور اس کی رکاب پکڑ کر اس کو نیچے اتارا۔ انھوں نے انتھائی شائستگی و متانت سے سب کو سلام کیا۔ بابا نے ان کا بہت زیادہ احترام کیا ان کی اور ان کے بچوں کی خیر خیریت دریافت کی۔ پھر پوچھا کوئی مالی پریشانی تو نہیں ہے۔ انھوں نے جواب میں کھا الحمد للہ میں اور میرے اہل و عیال سب ٹھیک ہیں۔ اور کسی قسم کی پریشانی نہیں ہے ۔ جب وہ جانے لگے تو بابا نے ہم سے کھا جاؤ ان کو گھوڑے پر سوار کراؤ۔

جب میں ان کے قریب گیا تو اہستگی سے مجھ سے کھا کہ تم ایک وقت خلیفہ بنو گے میں تم کو ایک نصیحت کرتا ہوں کہ میری اولاد سے برا سلوک نہ کرنا۔ مجھے پتہ نہیں تھا کہ یہ کون ہیں۔ واپس آیا مین تمام بھائیوں کی نسبت زیادہ جرات مند تھا۔ موقع پا کر بابا کے پاس آیا اور کھا کہ جس کا آپ اتنا زیادہ احترام کر رہے تھے وہ تھا کون؟ بابا مسکرا کر کھنے لگے بیٹا اگر تو سچ پوچھتا ہے تو جس مسند پر ہم بیٹھے ہیں یہ ان ہی کی تو ہے ۔ میں نے کھا کیا آپ جو کھہ رہے ہیں دل سے کھہ رہے ہیں؟ بابا نے کھا کیوں نھیں۔ میں نے کھا بس خلافت ان کو دے کیوں نہیں دیتے؟کھا کیا تو نہیں جانتا کہ "الملک عقیم"؟ تو میرا بیٹا ہے اگر مجھے پتا چلے کہ میری حکومت کے خلاف تیرے دل میں فطور پیدا ہوا ہے اور تو میرے خلاف سازش کرنا چاہتا ہے تو تیرا سر قلم کر دوں گا۔ وقت گزرتا رہا ہارون لوگوں کو انعامات سے نوازتا رہا۔ پانچ ھزار سرخ دینار ایک شخص کی طرف اور چار ھزار دینار کسی دوسرے شخص کی طرف۔ میں نے سمجھا کہ بابا جس شخصیت کا حد سے زیادہ احترام کر رہے تھے ان کی طرف بھی زیادہ مقدار میں بھیجیں گے لیکن اس نے ان کی طرف سے سب سے کم رقم ارسال کی یعنی دوسو دینار۔ میں نے وجہ پوچھی تو بابا نے کھا کیا تو نہیں جانتا کہ یہ ہمارے رقیب ہیں سیاست کا تقاضا یہ ہے کہ یہ ہمیشہ تنگدست رہیں۔ ان کے پاس پیسہ نہ ہو کیونکہ اگر ان کے پاس دولت آگئی تو ممکن ہے ایک لاکھ تلوار کے ساتھ تمہارے بابا کے خلاف انقلاب برپا کردیں ۔

روحانی اعتبار سے امامعليه‌السلام کا اثر و رسوخ

یھاں سے آپ اندازہ لگایئے کہ شیعوں کے آئمہ کا روحانی اثر و رسوخ کس قدر زیادہ تھا۔ وہ نہ تلوار اٹھاتے تھے اور نہ کھلے عام تبلیغ کر سکتے تھے ۔ لیکن ان کی عوام کے دلوں پر حکومت تھی۔ ہارون کی حکومتی مشنری میں ایسے ایسے افراد موجود تھے جو امام علیہ السلام کو دل و جان سے چاہتے تھے ۔ دراصل حق اور سچ ایسی حقیقت ہے جو اندر بلا کی کشش رکھتی ہے ۔ آج آپ نے اخبار میں پڑھا ہو گا کہ اردن کے شاہ حسین نے کھا کہ میں اب سمجھا کہ میرا ڈرائیور میرے مخالفوں کا آلہ کار ہے اور میرا کچن بھی انھیں کی سازشوں کی زد میں ہے ۔ ادھر علی بن یقطین ہارون الرشید کا وزیر ہے یہ مملکت کا دوسرا ستون ہے۔ لیکن شیعہ ہے۔ تقیہ کی حالت میں زندگی بسر کررہا ہے۔ ظاہر میں ہارون کا کارندہ ہے لیکن پس پردہ امام امام موسی علیہ السلام کے پاک و پاکیزہ اہداف کی ترجمانی کرتا ہے۔ دو تین مرتبہ علی بن یقطین کے خلاف خلیفہ کو رپوٹ پیش کی گئی لیکن امام علیہ السلام نے اسے قبل از وقت بتا دیا اور اس کو ہوشیار رہنے ک تلقین ک جس کی وجہ سے علی بن یقطین حاکم وقت کے شر سے محفوظ رہا۔ ہارون کی حکومت میں ایسے افراد بھی موجود تھے جو امام علیہ السلام کے بیحد عقیدت مند تھے۔ لیکن حالات کی وجہ سے امام علیہ السلام سے رابط نہیں رکھ سکتے تھے ۔ اہواز کا رہنے والا ایک ایرانی شیعہ کھتا ہے کہ حکومت وقت نے مجھ پر بہت زیادہ ٹیکس عائد کر دیا تھا۔ ادائیگی ک صورت ہی میں مجھے چھٹکارا مل سکتا تھا۔ اتفاق سے انھیں دنوں میں اہواز کا گورنر معزدل ہوگیا۔ نیا گورنر آیا مجھے خوف تھا کہ اس نے آتے ہی مجھ سے ٹیکس کا مطالبہ کرنا ہے ۔ میری فائل کھل گئی تو میرا کیا بنے گا؟ لیکن میرے بعض دوستوں نے مجھ سے کھا کہ گھبراؤ نہیں نیا گورنر اندر سے شیعہ ہے اور تم بھی شیعہ ہو۔ ان کی باتوں کو سن کر مجھے قدرے دلی سکون ہوا۔ لیکن مجھ میں گورنر کے پاس جانے کی ہمت نہ تھی ۔

میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ مدینہ جا کر امام موسی کاظم علیہ السلام کا رقعہ لے آؤں (اس وقت آقا گھر پر تھے) میں امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارا ماجرا گوش گزارا کیا۔ آپ نے تین چار جملے تحریر فرمائے جس میں آپ نے تحریر فرمایا کہ ہمارا حکم ہے کہ اس مرد مومن کی مشکل حل کی جائے ۔ آخر میں آپ نے لکھا کہ مومن کی مشکل کو حل کرنا اللہ کے نزدیک بہت ہی پسندیدہ عمل ہے۔وہ خط لے کر چھپتے چھپاتے اہواز آیا۔ اب مسئلہ خط پھنچانے کا تھا۔ چناچہ میں رات کی تاریکی میں بڑی احتیاط کے ساتھ گورنر صاحب کے گھر پھنچا۔ دق الباب کیا۔ گورنر کا نوکر باہر آیا میں نے کھا اپنے صاحب سے کھہ دو کہ ایک شخص موسی ابن جعفرعليه‌السلام کی طرف سے آپ کو ملنے آیا ہے۔ میں نے دیکھا کہ گورنر صاحب فوری طور پر خود دروازے پر آگئے۔ سلام ودعا کے بعد آنے کی وجہ پوچھی میں نے امام علیہ السلام کا خط اس کو دے دیا۔ اس نے خط کو کھول کر اپنی آنکھوں پر لگایا اور آگے بڑھ کر مجھے گلے لگایا اور میری پیشانی پر بوسہ دیا۔ اس کے بعد مجھے اپنے گھر میں لے گیا۔ اور مجھے کرسی پر بٹھایا اور خود زمین پر بیٹھ گیا۔ بولا کیا تم امام علیہ السلام کی خدمت اقدس سے ہوکر آئے ہو؟ میں نے کھا جی ھاں پھر گورنر بولا کی آپ نے انھیں آنکھوں سے امام علیہ السلام کی زیارت کی ہے۔ میں نے کھا جی ھاں۔ پھر کھا آپ کی پریشانی کیا ہے؟میں نے اپنی مجبوری بتائی۔ آپ نے اسی وقت افسروں کو بلایا اور میری فائل کی درستگی کے آرڈر جاری کیے۔ چونکہ امام علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ مومن کو خوش کرنے سے اللہ تعالی کی رضا حاصل ہوتی ہے گورنر صاحب جب میرا کام کرچکے تھے تو مجھ سے بولے ذرا ٹھر جاؤ میں آپ کی خدمت کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ کہ میرے پاس جتنا سرمایہ ہے اس کا آدھا حصہ آپ کو دیتا ہوں، میری آدھی رقم اور میرا آدھا سرمایہ آپ کا ہے۔ وہ مومن روایت کرتا ہے کہ ایک تو میری بہت بڑی مشکل حل ہوچکی تھی دوسرا گورنر صاحب نے مجھے امام علیہ السلام کی برکت سے مالا مال کردیا تھا۔ میں گورنر کو دعائیں دیتا ہوا گھر واپس آگیا۔ ایک سفر پہ میں امامعليه‌السلام کی خدمت اقدس میں گیا تو سارا ماجرہ عرض کیا آپ علیہ السلام سن کر مسکرا دیئے اور خوشی کا اظہار فرمایا۔

اب سوال یہ ہے کہ ہاروں کو ڈر کس چیز سے تھا؟ جواب صاف ظاہر ہے وہ حق ک جاذبیت اور کشش سے خوف زدہ تھا:

"کونوا دعاة الناس بغیر السنتکم"

"یعنی آپ لوگ کچھ کھے بغیر لوگوں کو حق کی دعوت دیں۔ زبان کی باتوں میں اثر اکثر کم ہی ہوتا ہے۔ اثر و تاثیر تو عمل ہی سے ہے۔"

وہ شخص جو امام موسی کاظم علیہ السلام یا آپ کے اباؤ اجداد اور اولاد کا نزدیک سے مشاہدہ کر چکا ہو۔ وہ جانتا ہے کہ یہ سب حق پر ہیں اور حق ان کے ساتھ ہے ۔ یہ پاک وپاکیزہ ہستیاں خدا کی حقیقی معرفت رکھتے ہیں۔ اور خوف خدا صحیح معنوں میں انھی میں ہے۔ یہ خدا سے صحیح محبت کرنے والے ہیں، اور جو کچھ بھی کرتے ہیں اسی میں خدا کی رضا ضرور شامل حال ہوتی ہے ۔

ایک جیسی عادتیں

دو عاتیں ایسی ہیں جو تمام آئمہ طاہر ین علیھم السلام میں مشترک ہیں۔ عبادت اور خدا خوفی کا جذبہ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہستیاں خدا کو اس طرح مانتی ہیں جیسا کہ ماننا چاہی ے۔ خدا خوفی ایسی کہ نام الھی زبان پر آنے یا سننے سے ان کا جسم کانپ اٹھتا تھا یوں محسوس ہوتا ھتا جیسا کہ وہ خدا کو دیکھ رہے ہوں۔ جنت و جھنم کے مناظر آنکھوں کے سامنے ہوں؟ امام موسی کاظم علیہ السلام کے بارے میں تاریخ میں ملتا ہے ۔

"حلیف السجده الطویلة والدموع الغزیرة" (۲۹)

"طویل سجدوں اور تیزی کے ساتھ بھنے والے آنسوؤں کے مالک امام ۔"

جب انسان کا دل اندر سے جوش مارتا ہے تو تب اس کی آنکھوں سے آنسو بھتے ۔ آئمہ طاہر ین علیھم السلام کی دوسری مشترک صفت اور عادت یہ ہے کہ تمام آئمہ طاہر ین علیھم السلام غریبوں سے محبت کرتے ان کے ساتھ ہمدردی کے ساتھ پیش آتے اور غریبوں، بے نواؤں کی فوری اور ہر طرح کی مدد کرتے تھے۔ امام حسنعليه‌السلام ، امام حسینعليه‌السلام ، امام زین العابدینعليه‌السلام ، امام محمد باقرعليه‌السلام ، امام جعفر صادقعليه‌السلام ، امام موسی کاظمعليه‌السلام ، اور دیگر آئمہ سیرت و کردار کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہیں۔ جب ہم ان کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں مظلوموں، بے کسوں، یتییموں، اور فقراء کی مدد کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ ظاہر ی سی بات ہے یہ بے سہارا لوگ ان کو دیکھتے بھی ہوں گے۔ ان کے عمل نے ان کو وہاں تک پھنچا دیا جھاں کوئی بھی نہیں پھنچ سکتا ہے ۔

ہارون کی حکومتی مشنری

امام علیہ السلام ایک عرصہ سے زندان سے مظلومانہ زندگی گزار رہے تھے کہ ہارون نے سازش تیار کی کہ امام علیہ السلام کی حیثیت اور عزت کم کی جائے۔

ایک خوبصورت کنیز کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ زندان میں امام علیہ السلام کے ساتھ رہے اور کھانا پینا آپ کی خدمت میں پیش کرتی رہے۔ انھوں نے انتھائی حیسن عورت کو اس لیے ڈیوٹی پر متعین کیا کہ امام ایک قیدی ہیں اور مرد ہونے کی وجہ سے ان کی خوابیدہ خواہشات بیدار ہوں گی اور وہ کوئی ایسا قدم اٹھائیں گے کہ ہم ان کو گناہ میں ملوث کرلیں گے۔ ہارون اور اس کے کارندوں کی غلط فھمی تھی لیکن ادھر کیا ہوا یہ کنیز جب تنگ و تاریک کمرہ میں گئی تو اس کی زندگی میں بہت بڑا انقلاب برپا ہوگیا۔ اور اس نےبھی اپنا سر سجدہ میں رکھ دیا اور عبادت میں مشغول ہوگئی۔ جاسوسوں نے ہارون کو خبر دی کہ کنیز بھی عبادت کرنے لگی ہے۔ ہارون نے اس کو اپنے دربار میں بلوایا دیکھا وہ تو وہ نہ رہی ، کبھی آسمان کی طرف دیکھتی ہے اور کبھی زمین کی طرف۔ پوچھا گیا اے کنیز تو نے اپنا یہ حال کیوں بنایا ہے؟ کھنے لگی میں تو گناہ کی غرض سے گئی تھی جب تقوی اور پ رہی ز گاری کے عظیم پیکر کو دیکھا تو مجھ میں احساس شرمندگی پیدا ہوا کہ ہم کیا کرنا چاہتے ہیں۔ اور یہ قیدی کس طرح عبادت الھی میں منھمک ہے۔ میں اپنی اس غلطی پر اللہ تعالی سے معافی مانگتی ہوں۔ اللہ میرے دوسرے گناہ بھی بخش دے گا۔ یہ کھتے کھتے وہ وھیں پر انتقال کر گئی۔

امام موسی کاظمعليه‌السلام اور بشر حافی

آپ نے بشر حافی کا واقعہ سنا ہے کہ ایک روز امام علیہ السلام بغداد کے ایک کوچے سے گزر رہے تھے۔ اچانک آپ کو رقص وسرود اور ناچ گانے کی آواز سنائی دی۔ اتفاق سے اسی گھر سے ایک نوکرانی باہر نکلی کہ گھر کا کوڑا کرکٹ ایک جگہ پر پھینکنے۔ آپ نے اس کنیز سے فرمایا کہ کیا یہ گھر کسی آزاد شخص کا ہے یا کسی غلام کا؟ سوال بڑا عجیب تھا وہ کنیز بولی آپ مکان کی ظاہر ی خوبصورتی اور زیبائش و آسائش کو نہیں دیکھ رہے کہ یہ کس شخص کا گھر ہوسکتا ہے۔ یہ گھر بشر حافی کا ہے ۔ بغداد کا امیر ترین یہ شخص۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سن کر فرمایا ہاں یہ گھر کسی آزاد ہی کا ہے۔ اگر بندہ ہوتا تو اس کے گھر سے موسیقی، راگ رنگ کی آوازیں بلند نہ ہوتی؟ عجیب تاثیر تھی امام کے جملوں میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔جب وہ نوکرانی کوڑا ڈال کر واپس اپنے مالک کے گھر گئی تو اس نے نوکرانی سے تاخیر کی وجہ پوچھی، تو اس نے کھا کہ ایک شخص نے مجھ سے عجیب و غریب بات کھی ہے۔ بشر بولا وہ کیا؟ بولی کہ اس نے مجھ سے پوچھا کہ یہ گھر کسی آزاد کا ہے یا غلام کا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے کھا آزاد کا ہی گھر ہے۔ اس شخص نے کھاں ہاں واقعی وہ آزاد ہے۔ اگر بندہ ہوتا تو رقص وسرود کی آوازیں اس کے گھر سے بلند نہ ہوتیں۔ بشر نےپوچھا اس شخص کی کوئی خاص نشانی؟ کنیز نے جب اس کی وضع قطع بتائی تو سمجھا کہ آپ موسی بن جعفرعليه‌السلام ہی تھے۔

بشر نے پوچھا پھر وہ شخص کھاں گیا؟ اس نے اشارہ کر کے بتایا کہ وہ بزرگ اس طرف جارہے تھے۔ چونکہ وقت کم تھا اگر جوتا پھنتا تو شاید امام علیہ السلام آگے جا چکے ہوتے۔ لہذا وہ پا برھنہ امام علیہ السلام کے پیچھے دوڑ پڑا۔ آقا کے اس جملے نے اس کی زندگی میں انقلاب برپا کردیا تھا۔ کہ اگر وہ بندہ ہوتا تو اس قسم کا گناہ نہ کرتا۔ یہ ہانپتا کانپتا امام علیہ السلام کی خدمت میں پھنچا۔ مولاعليه‌السلام آپ نےجو کچھ فرمایا سچ فرمایا ہے ۔ میں اپنی غلطی پر خدا سے توبہ کرتا ہوں اور واقعی طور پر اس کا بندہ بننا چاہتا ہوں۔ امام علیہ السلام نےاس کے حق میں دعا کی اور وہ توبہ تائب ہوکر اللہ تعالی کے صالح ترین بندوں میں شامل ہو گیا۔ جب اس طرح کی خبریں ہارون الرشید تک پھنچیں تو وہ اپنے اندر حساس خطر کرنے لگا۔ دل ہی دل میں کھا کہ ایسا نہیں ہونا چاہی ے گویا وہ کھہ رہا تھا کہ "وجودک ذنب" کہ اے موسی ابن جعفر آپ کا زندہ رھنا میرے نزدیک گناہ ہے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا میں تمہارے کیا بگاڑا؟ میں نے کونسا انقلاب برپا کیا ہے؟ میں نے ایسا کونسا کام کیا ہے کہ تم مجھ سے گبھراتے ہو؟ ہارون جواب نہ دے سکا لیکن دل میں کھہ رہا تھا کہ آپ کا موجود رھنا بھی خطرے سے خالی نھین ہے۔ امام علیہ السلام یہ باتیں اپنے تحفظ اور دفاع کی خاطر کرتے تاکہ مومنین ہوشیار رہیں اور حکومتی ھتکنڑوں میں پھنس کر اپنا نقصان نہ کر بیٹھیں۔ ہارون کو ہر وقت آپ سے اور آپ کے ماننے والوں سے خطرہ لاحق رھتا تھا۔ اس لیے وہ امام اور ان کے چند خاص موالیوں کے خاتمہ کیلئے مشیروں سے مشورہ کرتا رھتا تھا۔

صفوان جمال اور ہارون

آپ نے صفوان کا واقعہ سنا ہے؟ یہ شخص اس دور میں اونٹ کرائے پر دیتا تھا۔ اس زمانے میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی سواری اونٹ ہی ہوا کرتا تھا۔ صفوان کا حکومت وقت کےساتھ بھی اچھا رابطہ تھا۔ کبھی کببہار سرکاری ڈیوٹی کے لیے بھی حکومت کو اونٹ مھیا کرتا تھا۔ ایک روز ہارون نے پروگرام بنایا کہ مکہ جائے۔ چناچہ اس نے صفوان کو بلوایا کہ وہ اس کے لیے چند اونٹ تیار کر لے کرایہ وغیرہ طے پاگیا۔ صفوان امام موسی کاظم علیہ السلام کے خاص شیعوں میں تھا۔ ایک روز امام علیہ السلام کی خدمت اقدس مین حاضر ہوا اس نے آتے ہی امام علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ مولاعليه‌السلام میں نے ہارون کو اونٹ کرائے پر دیئے ہیں۔ حضرت نے فرمایا تو نے اس ظالم، ستم گر شخص کو اونٹ کیوں دیئے ہیں۔ صفوان بولا مولاعليه‌السلام میں تو اس سے کرایہ لیا ہے، پھر اس کا سفر کوئی گناہ کی غرض سے نہ تھا بلکہ سفر حج کیلئے ہے۔ اگر وہ حج پر نہ جاتا تو میں اونٹ اس کو کرائے پر نہ دیتا۔ فرمایا تو نے اس سے پیسے لے لیے ہیں؟ یا اس رقم کا بقایا رھتا ہے؟ اپنے دل سے سوال کر، میں نے اونٹ اس کو کرائے پر دیئے ہیں اس لیے دیئے ہیں کہ ہارون واپس لوٹے گا اور میں اس سے کرایہ لوں گا۔ صفوان بولا جی ھاں مولا ایسا ہی ہے آپ نے فرمایا ظالم کی زندگی پر راضی رھنا بھی گناہ ہے ۔ صفوان باہر آیا ۔ ہارون سے دیرینہ تعلقات کے باوجود اس نے اپنے تمام اونٹ بیچ دیئے اور اعلان کیا کہ آئندہ وہ یہ کاروبار بلکل نہیں کرے گا۔ اس کے بعد ہارون کے پاس آیا کہ میں نے جو آپ سے معاہدہ کیا تھا وہ منسوخ کرتا ہوں کیونکہ میں نے مجبوری کی وجہ سے اپنے تمام اونٹ فروخت کر دیئے ہیں۔ ہارون نے پوچھا پھر بھی بتائے کہ اونٹ بیچنے کی وجہ کیا ہے؟ صفوان بولا اے بادشاہ سلامت میں بوڑھا ہوچکا ہوں اب اس طرح کا کام مجھ سے نہیں ہوسکتا ۔

ہارون بڑا چالاک شخص تھا اس نے کھا ایسا نہیں ہے کہ جو تم کھہ رہے ہو دراصل تجھے موسی ابن جعفرعليه‌السلام نے منع کردیا ہے ۔ اور انھوں نے اس کام کو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے اونٹ بیچنے کی تلقین کی ہے ۔ بخدا اگر تمہارے اور ہمارے درمیان پرانی دوستی نہ ہوتی تو تجھے ابھی اور اسی وقت قتل کردیتا ۔ یہ تھے وہ عوامل جو امام علیہ السلام کی شھادت کا سبب بنے ۔ سب سے پھلے تو دشمن کو آپ کے وجود سے سخت خطرہ لاحق تھا۔ دوسرا آپ تقیہ کی حالت میں زندگی گزارتے رہے، یعنی آپ نے اس انداز سے اپنا طور طریقہ رکھا کہ آپ کا دشمن کسی لحاظ سے بھی آپ کو نقصان نہ پھنچا سکا۔ اس کے باوجود آپ تبلیغی فرائض بھی سرانجام دیتے تھے۔ لوگوں کی روحانی و علمی ضروریات پوری کرتے، پسماندہ طبقے کے حقوق کے لیے بھر پور طریقے سے آواز بلند کرتے تھے۔ لیکن آپ نے اس تمام مدت دشمن کو انگشت نمائی کا موقعہ نہ دیا۔

وہ اپنے جاسوسوں، گماشتوں کے ذریعے اس کو کوشش میں رہا کہ امام علیہ السلام پر کوئی نہ کوئی سیاسی یا مذھبی جرم عائد کرکے ان کو سزا دے سکے۔ تیسرا آپ استقامت کا کوہ گراں تھے ۔ جب یحیی برمکی نے آپ سے کھا کہ آپ ایک مرتبہ ہارون سے معافی مانگ لیجئے تو آپ کو نہ صرف رہائی مل سکتی ہے بلکہ وافر مقدار میں انعام واکرام بھی ملے گا۔ آپ نے فرمایا اس زندگی سے مرجانا بھتر ہے اور ہم بہت جلد اس فانی دنیا سے کوچ ہی کرنے والے ہیں ۔

ایک دفعہ ہارون نے کسی دوسرے شخص کو امام کے پاس زندان میں بھیجا اور چاہا کہ پیار و محبت سے امام علیہ السلام سے گناہ کا اعتراف کروایا جائے۔ پھر بھی اس نے یہ لب و لھجہ اپنایا کہ ہم آپ سے دلی عقیدت رکھتے ہیں۔ آپ کا دل و جان سے احترام کرتے ہیں۔ ہماری دلی خواہش ہے کہ آپ یھیں پہ رہیں اور مدینہ نہ جائیں۔ ہم آپ کو زندان میں رکھنا نہیں چاہتے ۔ ہم آپ کو اپنے پاس ایک محفوظ مکان میں رکھنا چاہتے ہیں۔ میں نے آپ کے پاس ایک ماہر باورچی بھیجا ہے تاکہ آپ اپنی پسند کا کھانا تیار کرواسکیں۔ یہ تھا فضل بن ربیع۔ ہارون کو اس پر بہت زیادہ اعتماد تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یھی فضل سادہ لباس میں تلوار اپنے ساتھ حمائل کرکے امام کے پاس پھنچا۔ امام علیہ السلام نماز پڑھنے میں مشغول تھے ۔

امام علیہ السلام کو جب پتہ چلا کہ فضل بن ربیع آیا ہے ۔ فضل اس انتظار میں تھا کہ آپ نماز کو ختم کریں اور میں آپ کو خلیفہ کا پیغام پھنچاؤں۔ آپ نے نماز ختم کرتے ہی دوبارہ اور نماز شروع کردی۔ اس طرح اس کو سلام کرنے اور بات کرنے کی مھلت بھی نہ دی۔ پھلے تو اس نے سمجھا کہ امام علیہ السلام نے چند نمازیں پڑھنی ہیں لیکن پھر اس کو پتہ چلا کہ آپ اس سے بات کرنا نہیں چاہتے ۔ اس لیے وہ نماز پہ نماز پڑھ رہے ہیں۔ کافی انتظار کرتا رہا پھر اس کے ذھن میں خیال گزرا کہ ہارون کے ذھن میں بدگمانی نہ ہو۔ امام نماز میں مشغول تھے کہ اس نے بات شروع کردی کہ آپ کے چچازاد بھائی ہارون نے آپ کو اس طرح پیغام بھیجا ہے ۔ ہارون نے پیغام میں کھا ہے کہ ہم پر آپ کی بے گناہی ثابت ہو چکی ہے ۔ اسلئے مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ مدینہ جانے کی بجائے یھیں پہ رہیں۔ مجھے ہارون کی طرف سے حکم ملا ہے کہ بھترین باورچی آپ کی خدمت میں پیش کروں تاکہ حسب خواہش آپ اپنا کھانا تیار کرواسکیں ۔

مؤرخین نے لکھا ہے امام علیہ السلام نے اس کے جواب میں صرف اتنا کھہ کر دوبارہ نماز شروع کرلی:

"لا حاضر لی مال فینفصنی وما خلقت سؤولا، الله اکبر"

میرے پاس اپنا مال نہیں ہے کہ خرچ کرسکوں میں مال حلال سے کچھ کھاتا پیتا ہوں باقی رہی کسی سے مانگنے کی بات تو مانگنا تو ہم نے اپنی زندگی میں سیکھا ہی نہیں ہے۔ بھلا دینے والے مانگنا گوارا کب کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد کھا اللہ اکبر اور نماز شروع کر لی۔ "

یہ تھا خلفاء کا ہمارے اماموں کےساتھ رویے، وہ کسی نہ کسی طریقے سے آئمہ کو مجبور کرتے رہتے تھے، لیکن آئمہ طاہر ین علیھم السلام کی حسن سیاست اور تدبر کا کیا کھنا کہ دنیا کے طاقتور ترین حکمران ان کی استقامت کے مقابلے میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئے۔ وہ آئمہ کے وجود کو اس لیے برداشت نہیں کرتے تھے کہ ان کا وجود ہی ظالموں کی موت ہے اس لیے وہ تلوار کے ذریعہ یا زھر دے کر دنیا میں اللہ تعالی کی خاص نشانیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کےلیے عملی طور پر اس قبیح حرکت کے مرتکب ہوتے تھے، لیکن حق کی سچائی اور فتح ملاحظہ کیجئے کہ وہ قتل کر کے آرام سے نہیں رہ سکتے تھے اور یہ مرکر بھی امر ہوجاتے تھے ۔

شھادت امام علیہ السلام

جیسا کہ ہم نے پھلے عرض کیا ہے کہ امام علیہ السلام کے لیے آخری زندان سندی بن شاہک کا تھا۔ وہ مسلمان نہ تھا اس کے دل میں کسی کے بارے میں کسی قسم کا رحم نہ تھا۔ خلیفہ اس کو جو بھی حکم دیتا وہ فوری طور پر بجا لاتا تھا۔ امام علیہ السلام کو تنگ و تاریک کمرہ میں رکھا گیا۔ ان کا خیال تھا کہ آپ اس کمرے کی وحشتناکی سے گھبرا کر اور بیماری سے نڑھال ہوکر یو نھی انتقال کر جائیں گے۔ اس سے عوام میں حکومت کےخلاف رد عمل ظاہر نہ ہوگا۔ مؤرخین نےلکھا ہے کہ یحیی برمکی نے ہارون سے کھا کہ امام علیہ السلام کو قتل کرنے کا کام وہ خود ہی کرے گا۔ اس نے سندی کو بلوایا اور اس کو مزید انعام واکرام اور اعلی عھدے کی لالچ دی اور اس کو حکم دیا کہ وہ امام علیہ السلام کا کام تمام کردے۔ یحیی نے انتھائی خطرناک زھر منگوا کر سندی کو دیا وہ زھر کھجور میں رکھ کر امام علیہ السلام کو کھلایا۔ اس کے فوراً بعد انھوں نے چند سرکاری گواہ منگوائے اور چند علماء اور قاضیوں کو بلوایا گیا۔ حضرت کو اس میٹنگ میں لایا گیا۔ ہارون نے کھا لوگو! گواہ رھنا شیعہ امام موسی کاظم علیہ السلام کے بارے میں طرح طرح کے پروپیگنڑے کرتے ہیں اور ان کا کھنا کہ امام علیہ السلام زندان میں سخت تکلیف میں ہیں آپ خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر لیں کہ وہ تندرست و صحیح و سالم ہیں۔ ہارون کی بات ابھی مکمل نہ ہوئی تھی کہ قیدی امام علیہ السلام بول پڑے فرمایا ہارون جھوٹ کھتا ہے مجھے ابھی ابھی زھر دیا گیا اور میں چند لمحوں کا مھمان ہوں۔ ۔ ۔ ۔ یھان پر بھی ان عیار ترین حکمرانوں کا منصوبہ بھی پورا نہ ہوسکا۔

پھر کیا ہوا بغداد کا قیدی اور شیعوں و مومنوں کا ساتواں امام شھید ہوگیا۔ شھادت کے بعد غریب بغداد کا جنازہ پل بغداد پر رکھا گیا۔ لوگوں میں پھر پروپیگنڑا کیا گیا کہ ویکھو تو سھی امام کا کوئٰ عضو متاثر نہیں ہوا ہے۔ سر اور زبان سلامت ہے۔ یہ اپنی موت آپ مرے ہیں، ان کی وفات میں ہمارا کسی قسم کا ہاتھ نہیں ہے۔ تین دن تک اس پردیسی اور مظلوم ومسموم امام کا جنازہ بغداد کے پل پر پڑا رہا۔ اس سے صرف لوگوں کو یہ بتانا مقصود تھا کہ قتل امام علیہ السلام میں حکومت کا ہاتھ نہیں ہے۔ لیکن امام علیہ السلام کے ماننے والے (جو اس وقت سخت کرب اور پریشانی میں مبتلا تھے) جانتے تھے۔ امام علیہ السلام کو زھر ہی کے ذریعہ شھید کردیا گیا۔

مورخین لکھتے ہیں کہ ایران سے چند مومنین بغداد آئے ان کی دلی خواہش تھے کہ امام علیہ السلام کی زندان میں ملاقات کریں گے ۔ انھوں نے دروغہ جیل سے ملاقات کی اجازت چاہی تو اس نے انکار کر دیا۔ انھوں نے عھد کر لیا کہ وہ ہر ھال میں اپنے غریب و مظلوم آقا سے مل کر جائیں گے۔ حکام نے ان کے پاس چند سپاہی بھیجے کھا کہ آپ کی درخواست منظور کر لی گئی۔ آپ فلاں جگہ پر انتظار کریں۔ آپ کو اپنے امامعليه‌السلام سے ملایا جائے گا۔ یہ بیچارے اس انتظار میں کھڑے رہے اور دل ہی دل میں کھنے لگے جب ہم واپس اپنے وطن لوٹیں گے تو وہاں لوگوں کو امام علیہ السلام کی زیارت کے بارے میں بتائیں گے پھر ہم اپنے آقا سے شرعی مسائل بھی دریافت کریں گے۔ ابھی یہ اس طرح کی باتیں آپس میں ک رہی رہے تھے کہ دیکھا چار مزدوروں نے ایک جنازہ اٹھایا ہوا ہے ہمیں جیل کا ایک ملازم کھنے لگا۔ "امام شما ہمین است"کہ آپ نے جس امام سے ملنا ہے وہ یھی ہے ۔ یہ جنازہ تمہارے بیکس امام ہی کا ہے۔ یہ ایرانی مومنین اپنا منہ پیٹتے رہ گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غریب بغداد کا جنازہ آگے سے گزر گیا۔