آفتاب عدالت

آفتاب عدالت0%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آيت اللہ ابراہيم اميني
زمرہ جات: صفحے: 455
مشاہدے: 157895
ڈاؤنلوڈ: 3565

تبصرے:

آفتاب عدالت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 157895 / ڈاؤنلوڈ: 3565
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

رسول خدا (ص) کا ارشاد ہے : مہدی (عج) میری اولاد سے ہے وہ میرا ہم نام و ہم کنیت ہوگا ، اخلاق و خلق میں تمام لوگوں کی بہ نسبت وہ مجھ سے مشابہ ہے ، اس کی غیبت کے دوران لوگ سرگردان اور گمرا ہ ہوں گے _ اس کے بعد وہ چمکتے ہوئے ستارے کی مانند ظاہر ہوگا اور زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پرکرے گا جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھرچکی ہوگی _(۱)

ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ ان احادیث میں جس طرح مہدی کی تعریف و توصیف کی گئی ہے اس سے کسی قسم کے شک کی گنجائشے باقی نہیں رہتی _

یہاں یہ بات عرض کردینا ضروری ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے بعض احادیث میں ایک ہی شخص میں اپنے نام اور اپنی کنیت کوجمع کرنے سے منع فرمایا ہے _

ابوہریرہ نے روایت کی ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا : میرے نام اور کنیت کو ایک شخص میں جمع نہ کرو _(۲)

چنانچہ اسی ممانعت کی بناپر جب حضرت علی بن ابیطالب نے اپنے بیٹے محمد بن حنفیہ کا نام محمد اور کنیت ابوالقاسم رکھی تو بعض صحابہ نے اعتراض کیا لیکن حضرت علی بن ابی طالب نے فرمایا : میں نے اس سلسلے میں رسول خدا سے خصوصی اجازت لی ہے _ صحابہ کی ایک جماعت نے بھی حضرت علی (ع) کی بات کی تائید کی _ اگر اس بات کو ان احادیث کے ساتھ ضمیمہ کرلیا جائے کہ جن میں مہدی کو رسول خدا کا ہم نام و ہم کنیت قراردیا گیا ہے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ رسول خدا (ص) نام محمد اور ابوالقاسم کنیت کے اجتماع کو مہدی کی علامت

____________________

۱_ بحارالانوار جلد ۵۱ ص ۷۲_

۲_ الطبقات الکبری طبع لندن جلد ۱ ص ۶۷_

۱۰۱

بنانا اور اسے دوسروں کیلئے ممنوع قرار دینا چاہتے تھے _ اسی بنیاد پر محمد بن حنفیہ نے اپنے مہدی ہونے کے سلسلہ میں اپنے نام اور کنیت کی طرف اشارہ کرکے کہا تھا : میں مہدی ہوں میرا نام رسول(ص) کا نام ہے اور میری کنیت رسول (ص) خدا کی کنیت ہے _(۱)

مہدی امام حسین (ع) کی اولاد سے ہیں

فہیمی: ہمارے علماء تو مہدی کو حسن (ع) کی اولاد سے بتاتے ہیں اور ان کا مدرک وہ حدیث ہے جو سنن ابی داؤد میںنقل ہوئی ہے _

ابواسحاق کہتے ہیں : علی (ع) نے اپنے بیٹے حسن (ع) کو دیکھ کر فرمایا: میرا بیٹا سید ہے کہ رسول (ص) نے انھیں سید کہا ہے ان کی نسل سے ایک سید ظاہر ہوگا کہ جس کا نام رسول کا نام ہوگا _ اخلاق میں رسول (ص) سے مشابہہ ہوگا لیکن صورت میں ان جیسا نہ ہوگا _(۲)

ہوشیار: اولاًممکن ہے کتابت و طباعت میں غلطی کی وجہ سے حدیث میں اشتباہ ہواہو اور حسین کے بجائے حسن چھپ گیا ہو کیونکہ بالکل یہی حدیث اسی متن و سند کے ساتھ دوسری کتابوں میں موجودہے اور اس میں حسن کے بجائے حسین مرقوم ہے _(۳)

ثانیاً : اس حدیث کا ان احادیث کے مقابل کوئی اعتبار نہیں ہے جو کہ شیعہ ، سنّی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں اور ان میں مہدی کو اولاد حسین سے بتایا گیا ہے _ مثال کے

____________________

۱_ الطبقات الکبری ج ۵ ص ۶۶_

۲_ سنن ابی داؤد ج ۲ ص ۲۰۸_

۳_ اثبات الہداة ج ۲ ص ۲۰۸_

۱۰۲

طور پر اہل سنّت کی کتابوں سے یہاں چند حدیثیں پیش کی جاتی ہیں :

حذیفہ کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا :

'' اگر دنیا کا ایک ہی دن باقی رہے گا تو بھی خدا اس دن کو اتنا طولانی بنادے گا کہ میری اولاد سے میرا ہمنام ایک شخص قیام کرے گا _ سلمان نے عرض کی : اے اللہ کی رسول (ص) وہ آپ کے کس بیٹے کی نسل سے ہوگا؟ رسول اکرم (ص) نے اپنا ہاتھ حسین(ع) کی پشت پر رکھا اورفرمایا : اس سے ''(۱)

ابوسعید خدری نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا :

'' اس امت کا مہدی ، کہ جن کی اقتداء میں جناب عیسی نماز پڑھیں گے ، ہم سے ہوگا _ اس کے بعد آپ (ص) نے اپنا دست مبارک حسین (ع) کے شانہ پر رکھا اور فرمایا : اس امت کا مہدی میرے اس بیٹے کی نسل سے ہوگا ''_(۲)

سلمان فارسی کہتے ہیں کہ میں رسول خدا کی خدمت میں شرفیاب ہواتو حسین (ع) آنحضرت (ص) کے زانو پر بیٹھے ہوئے تھے ، آپ (ص) ان کے ہاتھ اور رخسار کو چوم رہے تھے اور فرمارہے تھے:

''تم سید ، سید کے بیٹے ، سید کے بھائی ، امام کے بیٹے ، امام کے بھائی ، حجّت ، حجت کے بیٹے اور حجت کے بھائی ہو ، تم نو حجت خدا کے باپ ہو کہ جن میں نواں قائم ہوگا _(۳)

____________________

۱_ ذخائر العقبی ص ۱۳۶_

۲_ کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان باب ۹_

۳_ ینابیع المودة ج۱ ص ۱۴۵_

۱۰۳

ان احادیث کا اقتضا جو کہ مہدی کے اولاد حسین(ع) سے ہونے پر دلالت کررہی ہیں ، یہ ہے کہ اس حدیث کی پروا نہیں کرنا چاہئے ، جو کہ مہدی کو نسل حسن (ع) سے قراردیتی ہے _ اگر متن و سند کے اعتبار سے یہ حدیث صحیح بھی ہو تو پہلی حدیث کے ساتھ جمع کیا جا سکتا ہے _ کیونکہ امام حسن (ع) و امام حسین (ع) دونوں ہی امام زمانہ کے جد ہیں ۷ اس لئے امام محمد باقر کی مادر گرامی امام حسن کی بیٹی تھیں ، درج ذیل حدیث سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے ، پیغمبر اکرم (ص) نے جناب فاطمہ (ع) زہرا سے فرمایا:

'' اس امت کے دو سبط مجھ سے ہوں گے اور وہ تمہارے بیٹے حسن (ع) و حسین (ع) ہیں جو کہ جوانان جنت کے سردار ہیں _ خدا کی قسم ان کے باپ ان سے افضل ہیں _ اس خدا کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اس امت کا مہدی تمہارے ان ہی دونوں بیٹوں کی اولاد سے ہوگا جب دنیا شورش ہنگاموں میں مبتلا ہوگی ''(۲)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۱۸۳_

۱۰۴

اگر مہدی مشہور ہوتے ؟

جلالی : اگر مہدی موعود کی شخصیت اتنی ہی مشہور ہوتی اور صدر اسلام کے مسلمان ائمہ اور اصحاب نے مذکورہ تعریض سنی ہوتیں تو اصولی طور پر اشتباہ اور کج فہمی کا سد باب ہوجانا چاہئے تھا اور اصحاب و ائمہ اور علماء سے اشتباہ نہ ہوتا جبکہ دیکھنے میں تو یہ بھی آتا ہے کہ ائمہ اطہا رکی بعض اولاد کو بھی اس کی خبر نہ تھی ، پس جعلی و جھوٹے مہدی جو کہ صدر اسلام میں پیدا ہوئے انہوں نے خود کو اسلام کے مہدی کا قالب میں ڈھال کر لوگوں کو فریب دیتے ہیں ، نے کیسے کامیابی حاصل کی ؟ اگر مسلمان مہدی کے نام ، کنیت ، ان کے ماں ، باپ کے نام ، ان کے بارہویں امام ہونے اور دوسری علامتوں کے باوجود لوگ کیسے دھوکہ کھا گئے او رمحمد بن حنفیہ ، محمد بن عبداللہ بن حسن یا حضرت جعفر صادق و موسی کا ظم (ع) کو کیسے مہدی سمجھ لیا ؟

ہوشیار: جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ صدر اسلام میں مہدی کے وجود کا عقیدہ مسلمانوں کے درمیان مسلم تھا ، ان کے وجود میں کسی کو شک نہیں تھا _ پیغمبر اکرم وجود مہدی، اجمالی صفات ، توحید و عدالت کی حکومت کی تشکیل ، ظلم و ستم کی بیخ کنی ، دین اسلام کا تسلط اور ان کے ذریعہ کائنات کی اصلاح کے بارے میں مسلمانوں کو خبر دیا کرتے تھے اور ایسے خوشخبریوں کے ذریعہ ان کے حوصلہ بڑھاتے تھے_ لیکن مہدی کی حقیقی خصوصیات اور علامتوں کو بیان نہیں کرتے تھے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ اس موضوع کو کسی حد تک راز میں رکھتے او راسرار نبوت کے حاملین اور قابل اعتماد افراد ہی سے بیان کرتے تھے _

۱۰۵

رسول اسلام نے مہدی کی حقیقی علامتوں کو علی بن ابیطالب (ع) ، فاطمہ زہرا (ع) اور اپنے بعض راز دار صحابہ سے بیان کرتے تھے لیکن عام صحابہ سے اسے سربستہ اور اجمالی طور پر بیان کرتے تھے _ ائمہ اطہار بھی اس سلسلے میں پیغمبر (ص) کی سیرت پر عمل کرتے اور عام مسلمانوں کے سامنے اسے مجمل طریقہ سے بیان کرتے تھے _ لیکن ایک امام دوسرے سے مہدی کی حقیقی و مشخص علامتیں بیان کرتا تھا اور راز دار قابل اعتماد اصحاب سے بیان کرتا تھا _ لیکن عام مسلمان یہاں تک ائمہ کی بعض اولاد بھی اس کی تفصیل نہیں جانتی تھی _

اس اجمالی گوئی سے پیغمبر اور ائمہ اطہار کے دو مقصد تھے ، ایک یہ کہ اس طریقہ سے حکومت توحید کے دشمن ظالموں اور ستمگروں کو حیرت میں ڈالنا تھا تا کہ وہ مہدی موعود کو نہ پہچان سکیں چنانچہ اسی طریقہ سے انہوں نے مہدی کو نجات دی ہے _ پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہا رجانتے تھے کہ اگر ظالم اور بر سر اقتدار حکومت و قت اور حلفاء مہدی کو نام ، کنیت اور ان کے ماں باپ و دیگر خصوصیات کے ذریعہ پہچان لیں گے تو یقینی طور پر انکے آبا و اجداد کو قتل کرکے ان کی ولادت میںمانع ہوں گے _ اپنی حکومت کو بچانے کے لئے بنی امیہ و بنی عباس ہر احتمالی خطرہ سے نمٹنے کیلئے تمام تھکنڈے استعمال کرتے تھے اور اس سلسلے میں قتل و غارت گری سے بھی درگزر نہیں کرتے تھے جس شخص کے متعلق وہ یہ سوج لیتے تھے کہ وہ ان کی حکومت کے لئے خطرہ بن سکتا ہے اسی کے قتل کے درپے ہوجاتے تھے خواہ متہم شخص ان کا عزیز، خدمت گارہی ہوتا ، اپنی کرسی کو بچان کیلئے وہ اپنے بھائی اور بیٹے کے قتل سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے _ بنی امیہ اور بنی عباس کو مہدی کی علامتوں اور خصوصیات کی کامل اطلاع نہیں تھی اس کے باوجود انہوں نے احتمالی خطرہ کے سد باب کے لئے اولاد فاطمہ اور علویوں میں سے ہزاروں افراد کو

۱۰۶

تہ تیغ کرڈالا ، صرف اس لئے تاکہ مہدی قتل ہوجائے یا وہ قتل ہوجائے کہ جس سے آپ (ع) پیدا ہونے والے ہیں _ امام جعفر صادق (ع) نے ایک حدیث میں مفضل و ابو بصیر اور ابان بن تغلب سے فرمایا:

'' بنی امیہ و بنی عباس نے جب سے یہ سنا ہے کہ ہمارے قائم ستمگروں کی حکومت کا خاتمہ کریں گے اسی وقت سے وہ ہماری دشمنی پر اتر آئے ہیں اور اولاد پیغمبر کے قتل کیلئے تلوار کیھنچ لی اور اس امید پر کہ وہ مہدی کے قتل میں کامیاب ہوجائیں _ نسل رسول (ص) کو مٹانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے لیکن خدا نے اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے ستمگروں کو حقیقی واقعات کی اطلاع ہی نہ ہونے دی ''_(۱)

ائمہ اطہار(ع) مہدی کی خصوصیات کے شہرت پا جانے کے سلسلے میں اتنے خوفزدہ رہتے تھے کہ اپنے اصحاب اور بعض علویوں سے بھی حقائق پوشیدہ رکھتے تھے _

ابوخالد کابلی کہتے ہیں کہ : میں نے امام محمد باقر(ع) سے عرض کی مجھے قائم کا نام بتادیجئے تا کہ میں صحیح طریقہ سے پہچان لوں _ امام نے فرمایا:

'' اے ابوخالد تم نے ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا ہے کہ اگر اولاد فاطمہ سن لیں تو مہدی کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالیں گے '' _(۲)

اس اجمال گوئی کا دوسرا مقصد یہ تھا کہ کمزور ایمان والے دین کے تسلط سے مایوس نہ ہوجائیں کیونکہ صدر اسلام سے انہوں نے پیغمبر اکرم اور حضرت علی (ع) پاکیزہ

____________________

۱_ کمال الدین جلد ۲ ص ۲۳_

۲_ غیبت شیخ ص ۳۰۲_

۱۰۷

زندگی اور ان کی عدالت کا مشاہدہ کیا تھ ا اور دین حق کے غلبہ پانے کی بشارتیں سنی تھیں ، ظلم و ستم سے عاجز آچکے تھے_ ہزاروں امیدوں کے ساتھ اسلام میں داخل ہوئے تھے اور چونکہ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے ، ان کے کفر کا زمانہ قریب تھا ، ابھی ان کے دلوں میں ایمان راسخ نہیں ہوا تھا اور تاریخ کے ناگورا حوادث سے جلد متاثر ہوجاتے تھے _ دوسری طرف بنی امیہ و بنی عباس کے کردار کا مشاہد کررہے تھے اور اسلامی معاشرہ کی زبوں حالی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے _ ان ناگوار حوادث اور شورشوں نے انہیں حیرت زدہ کررکھا تھا _ اس بات کا خوف تھا کہ کہیں کمزور ایمان والے دین اور حق کے غلبہ پانے سے مایوس ہوکر اسلام سے نہ پھر جائیں جن موضوعات نے مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کرنے ، ان کی امید بندھانے اور ان کے دلوں کو شاداب کرنے میں کسی حد تک مثبت کردار ادا کیا ہے ان میں سے ایک یہی مہدی موعود کا انتظار تھا _ لوگ ہرروز اس انتظار میں رہتے تھے کہ مہدی موعود قیام کریں اور اسلام و مسلمانوں کے ناگفتہ بہ حالات کی اصلاح کریں ظلم و ستم کا قلع و قمع کریں اور قانون اسلام کو عالمی سطح پر رائج کریں _ ظاہر ہے اس کا نتیجہ اسی وقت برآمد ہوسکتا تھا کہ جب مہدی کی حقیقی علامتوں اور خصوصیات کہ لوگوں کو واضح طور پر نہ بتا یا جاتا ورنہ اگر مکمل طریقہ سے ظہور کا وقت اور علامتیں بتادی جاتیں اور انھیں یہ معلوم ہوجاتا کہ مہدی کس کے بیٹے ہیں اور کب قیام کریں گے _ مثلاً ظہور میں کئی ہزار سال باقی ہیں تو اس کا مطلوبہ نتیجہ کبھی حاصل نہ ہوتا _ اسی اجمال گوئی نے صدر اسلام کے کمزور ایمان والے افراد کے امید بندھائی چنانچہ انہوں نے تمام مصائب و آلام کو برداشت کیا _

یقطین نے اپنے بیٹے علی بن یقطین سے کہا : ہمارے بارے میں جو پیشین گوئیاں

۱۰۸

ہوئی ہیں وہ تو پوری ہوتی ہیں لیکن تمہارے مذہب کے بارے میں جو پیشین گوئی ہوئی ہیں وہ پوری نہیں ہورہی ہیں؟ علی بن یقطین نے جواب دیا : ہمارے اور آپ کے بارے میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں ان کا سرچشمہ ایک ہی ہے لیکن چونکہ آپ کی حکومت کا زمانہ آگیا ہے لہذا آپ سے متعلق پیشین گوئیاں یکے بعد دیگرے پوری ہورہی ہیں _ لیکن آل محمد (ص) کی حکومت کا زمانہ ابھی نہیں آیا ہے اس لئے ہمیں مسرت بخش امیدوں کا سہارا دے کر خوش رکھا گیا ہے _ اگر ہم سے بتادیا جاتا کہ آل محمد (ص) کی حکومت دو سو یا تین سو سال تک قائم نہیں ہوگی تو لوگ مایوس ہوجاتے اور اسلام سے خارج ہوجاتے لیکن یہ قضیہ ہمارے لئے اس طرح بیان ہوا ہے کہ ہمارا ہر دن آل محمد (ص) کی حکومت کی تشکیل کے انتظار میں گزرتا ہے _(۱)

____________________

۱_ غیبت شیخ طبع دوم ص ۲۰۷_

۱۰۹

احادیث اہل بیت (ع) تمام مسلمانوں کیلئے حجّت ہیں

فہیمی :انصاف کی بات تو یہ ہے کہ آپ کی احادیث نے مہدی کی خوب تعریف و توصیف کی ہے مگر آپ کے ائمہ کے اقوال و اعمال ہم اہل سنّت کے نزدیک معتبر نہیں ہیں اور ان کی قدر و قیمت نہیں ہے _

ہوشیار: میں امامت وولایت کاموضوع آپ کے لئے ثابت نہیں کرنا چاہتا ہوں لیکن اتنا ضرور کروں گا کہ عترت رسول (ص) کے اقوال تمام مسلمانوں کیلئے حجت اور معتبر ہیں خواہ وہ انھیں امام تسلیم کرتے ہوں یا نہ کرتے ہوں _ کیونکہ رسول (ص) نے اپنی احادیث میں جو کہ قطعی ہیں اور شیعہ ، سنی دونوں کے نزدیک صحیح ہیں ، اہل بیت کو علمی مرجع قرار دیا ہے اور ان کے اقوال و اعمال کو صحیح قرار دیا ہے _ مثلاً:

رسول اکرم (ص) کا ارشاد ہے :

'' میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑرہا ہوں اگر تم نے ان سے تمسک کیا تو کبھی گمراہ نہ ہوگے _ ان میں سے ایک دوسرے سے بڑی ہے _ ان میں سے ایک کتاب خدا ہے جو کہ زمین و آسمان کے درمیان

۱۱۰

واسطہ اور وسیلہ ہے دوسرے میرے اہل بیت عترت ہیں یہ دونوں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے _ دیکھو تم ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو''(۱)

اس حدیث کو شیعہ اور اہل سنّت دونوں مختلف اسناد و عبارت کے ساتھ اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اور صحیح مانا ہے _ صواعق محرقہ میں ابن حجر لکھتے ہیں : نبی اکرم سے یہ حدیث بہت سے طرق و اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہے اور بیسویں راویوں نے اسکی روایت کی ہے _ پیغمبر اسلام قرآن و اہل بیت کو اس قدر اہمیت دیتے تھے کہ بارہا مسلمانوں سے ان کے بارے میں تاکید کی ہے چنانچہ حجة الوداع ، غدیر خم اور طائف سے واپسی پر ان کے بارے میں تاکید کی _

ابوذر نے رسول (ص) اسلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

'' میرے اہل بیت کی مثال کشتی نوح کی سی ہے ، جو سوار ہوگیا اس نے نجات پائی اور جس نے روگردانی کی وہ ہلاک ہوا ''(۲)

رسول (ص) کاارشاد ہے :

'' جو چاہتا میری زندگی جئے او رمیری موت مرے اورجنت میں درخت طوبی کے سایہ میں کہ جس کو خدا نے لگایا ہے ، ساکن ہوا سے چاہئے کہ وہ میرے بعد

____________________

۱_ ذخائر العقبی طبع قاہرہ ص ۱۶ ، صواعق محرقہ ص ۱۴۷ ، فصول المہمہ ص ۲۲ _ البدایہ و النہایہ ج ۵ ص ۲۰۹_ کنز العمال طبع حیدر آباد ص ۱۵۳و ۱۶۷ ، درر السمطین مولفہ محمد بن یوسف طبع نجف ص ۲۳۲ ، تذکرة الخواص ص ۱۸۲

۲_ صواعق محرقہ ص ۱۵۰ و ص ۱۸۴_ تذکرة الخواص ص ۱۸۲ _ذخائر العقبی ص ۲۰ _ دررالسمطین ص ۲۳۵_

۱۱۱

علی کو اپنا ولی قرار دے اور ان کے دوستوں سے دوستی کرے اور میرے بعد ائمہ کی اقتدا کرے ، کیونکہ وہ میری عترت ہیں ، میری ہی طینت سے خلق کئے گئے ہیں اور علم و فہم کے خزانے سے نوازے گئے ہیں _ تکذیب کرنے والوں اور ان کے بارے میں میرا احسان قطع کرنے والوں کے لئے تباہی ہے ، انھیں ہرگز میری شفاعت نصیب نہیں ہوگی ''(۱)

رسول خد ا نے حضرت علی (ع) سے فرمایا:

'' اے علی آپ اور آپ کی اولاد سے ہونے والے ائمہ کی مثال کشتی نوح کی سی ہے جو سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جس نے روگردانی کی وہ ہلاک ہوا آپکی مثال ستاروں جیسی ہے ایک غروب ہوتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ طلوع ہوتا ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا _(۲)

جابر بن عبداللہ انصاری نے رسول خدا سے روایت کی ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا:

'' علی (ع) کے دو بیٹے جوانان جنت کے سردار ہیں اور وہ میرے بیٹے ہیں ، علی ان کے دونوں بیٹے اور ان کے بعد کے ائمہ خدا کے بندوں پر اس کی حجت ہیں _ میری امت کے درمیان وہ علم کے باب ہیں _ ان کی پیروی کرنے والے آتش جہنّم سے بری ہیں _ ان کی اقتداء کرنے والا صراط مستقیم پر ہے ان کی محبت خدا اسی کو نصیب کرتا ہے جو جنتی ہے ''(۳)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۲ ص ۱۵۳_

۲_ اثبات الہداة ج ۱ ص ۲۴_

۳_ اثبات الہداة ج ۱ ص ۵۴_

۱۱۲

حضرت علی بن ابیطالب نے لوگوں سے فرمایا:

'' کیا تم جانتے ہو کہ رسول (ص) خدا نے اپنے خطبہ میں یہ فرمایا تھا :لوگو میں کتاب خدا اور اپنے اہل بیت کو تمہارے درمیان چھوڑ رہاہوں ان سے وابستہ ہوجاؤگے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے کیونکہ مجھے خدائے علیم نے خبر دی ہے کہ یہ دونوں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے _ یہ سن کہ عمر بن خطاب غضب کی حالت میں کھڑے ہوئے اور عرض کی : اے اللہ کے رسول کیا یہ چیز آپ (ص) کے تمام اہل بیت کے لئے ہے ؟ فرمایا : نہیں یہ صرف میرے اوصیاء کے بارے میں ہے کہ ان میں سے پہلے میرے وزیر ، میرے وارث ، میرے جانشین اور مومنین کے مولا علی ہیں اور علی (ع) کے بعد میرے بیٹے حسن (ع) اور ان کے بعد میرے بیٹے حسین اور ان کے بعد حسین (ع) کی اولاد سے میرے نو اوصیا ہوں گے جو کہ قیامت تک یکے بعد دیگرے آئیں گے _ وہ روئے زمین پر علم کا خزانہ ، حکمت کے معادن اور بندوں پر خدا کی حجت ہیں _ جس نے ان کی اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے ان کی نافرمانی کی اس نے خدا کی معصیت و نافرمانی کی _ جب حضرت کا بیا یہاں تک پہنچا تو تمام حاضرین نے بیک زبان کہا : ہم گواہی دیتے ہیں رسول خدا نے یہی فرمایا تھا ''_(۱)

اس قسم کی احادیث سے کہ جن سے شیعہ ، سنی کتابیں بھری پڑی ہیں ، چند چیزیں سمجھ میں آتی ہیں:

____________________

۱_ جامع احادیث الشیع ج ۱ مقدمہ _

۱۱۳

الف: جس طرح قرآن قیامت تک لوگوں کے درمیان باقی رہے گا اسی طرح اہل بیت رسول بھی قیامت تک باقی رہیں گے _ ایسی احادیث کو امام غائب کے وجود پر دلیل قراردیا جا سکتا ہے _

ب: عترت سے مراد رسول (ص) کے بارہ جانشین ہیں_

ج: رسول (ص) نے اپنے بعد لوگوں کو حیرت کے عالم میں بلا تکلیف نہیں چھوڑا ہے ، بلکہ اپنی اہل بیت کو علم و ہدایت کا مرکز قراردیا اور ان کے اقوال و اعما ل کو حجب جانا ہے ، اور ان سے تمسک کرنے پر تاکید کی ہے _

د: امام قرآن اور اس کے احکام سے جدا نہیں ہوتا ہے _ اس کا پروگرام قرآن کے احکام کی ترویج ہوتا ہے _ اس لئے اسے قرآن کے احکام کا مکمل طور پر عالم ہونا چاہئے جس طرح قرآن لوگوں کو گمراہ نہیں کرتا بلکہ اپنے تمسک کرنے والے کو کامیابی عطا کرتا ہے _ اسی طرح امام سے بھی راہ ہدایت میں خطا نہیں ہوتی ہے اگر ان کے اقوال و اعمل کا لوگ اتباع کریں گے تو یقینا کامیاب و رستگار ہوں گے کیونکہ امام خطا سے معصوم ہیں _

علی(ع) علم نبی (ص) کا خزانہ ہیں

رسول (ص) کی احادیث اور سیرت سے واضح ہوتاہے کہ جب آنحضرت نے یہ بات محسوس کی کہ تمام صحابہ علم نبی (ص) کے برداشت کرنے کی صلاحیت و قابلیت نہیں رکھتے اور حالات بھی سازگار نہیں ہیں اور ایک نہ ایک دن مسلمانوں کو اس کی ضرورت ہوگی تو آپ (ص) نے اس کے لئے حضرت علی (ع) کو منتخب کیا اور علوم نبوت اور معارف اسلام کو آپ (ع) سے

۱۱۴

مخصوص کیا اور ان کی تعلیم و تربیت میں رات ، دن کوشاں رہے _ اس سلسلہ میں چند حدیثیں نقل کی جاتی ہیں تا کہ حقیقت واضح ہوجائے :

''علی (ع) نے آغوش رسول میں تربیت پائی اور ہمیشہ آپ(ص) کے ساتھ رہے''(۱)

پیغمبر (ص) نے حضرت علی (ع) سے فرمایا:

''خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمھیں قریب بلاؤں اور اپنے علوم کی تعلیم دوں تم بھی ان کے حفظ و ضبط میں کوشش کرو اور خدا پر تمہاری مدد کرنا ضروری ہے ''(۲)

''حضرت علی (ع) نے فرمایا: میں نے جو کچھ رسول خدا سے سنا اسے فراموش نہیں کیا '' _(۳)

آپ (ع) ہی کا ارشاد ہے :'' رسول (ص) خدا نے ایک گھنٹہ رات میں اور ایک گھنٹہ دن میں مجھ سے مخصوص کررکھا تھا کہ جس میں آپ کے پاس میرے سو اکوئی نہیں ہوتا تھا''(۴)

حضرت علی (ع) سے دریافت کیا گیا : آپ (ع) کی احادیث سب سے زیادہ کیوں ہیں؟ فرمایا:

'' میں جب رسول خدا سے کوئی سوال کرتا تھا تو آپ (ص) جواب دیتے اور جب میں خاموش ہوتا تو آپ ہی گفتگو کا سلسلہ شروع فرماتے تھے _(۵)

____________________

۱_ اعیان الشیعہ ج ۳ ص ۱۱_

۲_ ینابیع المودة ج ۱ ص ۱۰۴_

۳_ اعیان الشیعہ ج ۳_

۴_ ینابیع المودة ج ۱ ص ۷۷_

۵_ ینابیع المودة ج ۲ ص ۳۶_ طبقات بن سعد ج ۲ ص ۱۰۱_

۱۱۵

حضرت علی (ع) فرماتے ہیں : رسول خدا نے مجھ سے فرمایا:

'' میری باتوں کو لکھ لیا کرو _ میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول کیا آپ کو یہ اندیشہ ہے کہ میں فراموش کردوں گا ؟ فرمایا : نہیں کیونکہ میں نے خداند عالم سے یہ دعا کی ہے کہ تمہیں حافظ اور ضبط کرنے والا قرار دے _ لیکن ان مطالب کو اپنے شریک کار اور اپنی اولاد سے ہونے والے ائمہ کے لئے محفوظ کرلو _ ائمہ کے وجود کی برکت سے بارش ہوتی ہے _ لوگوں کی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں بلائیں ان سے رفع ہوتی ہیں اورآسمان سے رحمت نازل ہوتی ہے _ اس کے بعد حسن (ع) کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: تمہارے بعد یہ پہلے امام ہیں _ بھر حسین(ع) کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا : یہ ان کے دوسرے ہیں اور ان کی اولاد سے نو امام ہونگے ''(۱) _

کتاب علی(ع)

حضرت علی (ع) نے اپنی ذاتی صلاحیت ، توفیق الہی اور رسول خدا کی کوشش سے پیغمبر اسلام کے علوم و معارف کا احاطہ کرلیا اور انھیں ایک کتاب میں جمع کیا اور اس صحیفہ جامعہ کو اپنے اوصیاء کی تحویل میں دیدیا تا کہ وقت ضرورت وہ اس سے استفادہ کریں _

اہل بیت کی احادیث میں یہ موضوع منصوص ہے ازباب نمونہ :

حضرت امام صادق (ع) نے فرمایا:

'' ہمارے پاس ایک چیز ہے کہ جس کی وجہ سے ہم لوگوں کے نیازمند نہیں

____________________

۱_ ینابیع المودة ج ۱ ص ۱۷_

۱۱۶

ہیں جبکہ لوگ ہمارے محتاج ہیں کیونکہ ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو رسول (ص) کا املا اور حضرت علی (ع) کے خط میں مرقوم ہے _ اس جامع کتاب میں تمام حلال و حرام موجود ہے ''(۱) _

حضرت امام محمد باقر (ع) نے جابر سے فرمایا :

'' اے جابر اگر ہم اپنے عقیدہ اور مرضی سے تم سے کوئی حدیث نقل کرتے تو ہلاک ہوجاتے _ ہم تو تم سے وہی حدیث بیا ن کرتے ہیں جو کہ ہم نے رسول خدا سے اسی طرح ذخیرہ کی ہے جیسے لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں ''(۲) _

عبداللہ بن سنان کہتے ہیں : میں نے حضرت صادق (ع) سے سنا کہ آپ (ع) فرماتے ہیں :

''ہمارے پاس ایک مجلد کتاب ہے جو ستر گز لمبی ہے یہ رسول(ص) کا املا اور حضرت علی (ع) کا خط ہے ، لوگوں کی تمام علمی ضرورتیں اس میں موجود ہیں، یہاں تک بدن پروارد ہونے والی خراش بھی مرقوم ہے ''(۳)

علم نبوّت کے وارث

فہیمی صاحب آپ تو اولاد رسول (ص) کی امامت کو قبول نہیں کرتے ہیں لیکن انکے اقوال کو تو بہرحال آپ کو معتبر اور حجت تسلیم کرنا پڑے گا _ جس طرح صحابہ و تابعین کی احادیث کو حجت سمجھتے ہیں _ اسی طرح عترت رسول (ص) کی بیان کردہ احادیث کو بھی حجت سمجھئے بالفرض

____________________

۱_ جامع احادیث الشیعہ ج ۱ مقدمہ

۲_ جامع احادیث الشیعہ ج ۱ مقدمہ

۳_ جامع احادیث الشیعہ ج ۱_

۱۱۷

اگر وہ امام نہیں ہیں تو روایت کرنے کا حق تو ان سے سلب نہیں ہوا ہے _ ان کے اقوال کی اہمیت ایک معمولی راوی سے کہیں زیادہ ہے _ اہل سنّت کے علما نے بھی ان کے علم اور طہارت کا اعتراف کیا ہے _ (۱)

ائمہ نے باربار فرمایا ہے کہ : ہم اپنی طرف سے کوئی چیز بیان نہیں کرتے ہیں بلکہ پیغمبر کے علوم کے وارث ہیں جو کچھ کہتے ہیں اسے اپنے آبا و اجداد کے ذریعہ پیغمبر (ص) سے نقل کرتے ہیں _ از باب نمونہ ملا حظہ فرمائیں :

حضرت امام جعفر صادق (ع) کا ارشاد ہے :

'' میری حدیث میرے والد کی حدیث ہے اور ان کی حدیث میرے جد کی حدیث ہے اور میرے جد کی حدیث حسین (ع) کی حدیث ہے ، حسین (ع) کی حدیث حسن (ع) کی حدیث ہے اور حسن (ع) کی حدیث امیر المؤمنین کی حدیث ہے اور امیر المومنین کی حدیث رسول اللہ (ص) کی حدیث ہے اور حدیث رسول (ص) ، خدا کا قول ہے ''(۲)

فہیمی صاحب آپ سے انصاف چاہتا ہوں کیا جوانان جنّت کے سردار حسن (ع) و حسین (ع) ، زین العابدین ، ایسے عابد و متقی اور محمد باقر (ع) و جعفر صادق جیسے صاحبان علم کی احادیث ابوہریرہ ، سمرہ بن جندب اور کعب الاحبار کی حدیثوں کے برابر بھی نہیں ہیں ؟

پیغمبر اسلا م نے علی (ع) اور ان کی اولاد کو اپنے علوم کا خزانہ قراردیا ہے اور اس موضوع کو باربار مسلمانوں کے گوش گزارکیا ہے اور ہر مناسب موقع محل پر ان کی طرف لوگوں کی راہنمائی

____________________

۱_ روضة الصفا ج۳ ، اثبات الوصیہ مؤلفہ مسعودی

۲_ جامع احادیث الشیعہ ج ۱ مقدمہ

۱۱۸

کی ہے مگر افسوس وہ اسلام کے حقیقی راستہ منحرف ہوگئے اوراہل بیت کے علوم سے محروم ہوگئے جو کہ ان کی پسماندگی کا سبب ہوا _

جلالی : ابھی میرے ذہن میں بہت سے سوالات باقی ہیں لیکن چونکہ وقت ختم ہوچکا ہے اس لئے انھیں آئندہ جلسہ میں اٹھاؤں گا _

انجینئر : اگر احباب مناسب سمجھیں تو آئندہ جلسہ غریب خانہ پر منعقد ہوجائے _

۱۱۹

کیا امام حسن عسکری (ع) کے یہاں کوئی بیٹا تھا؟

ہفتہ کی رات میں احباب انجینئر صاحب کے گھر جمع ہوئے اور جلالی صاحب کے سوال سے جلسہ کا آغاز ہوا _

جلالی : میں نے سنا ہے کہ امام حسن عسکری کے یہاں کوئی بیٹا ہی نہیں تھا

ہوشیار : چند طریقوں سے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ امام حسن عسکری (ع) کے یہاں بیٹا تھا :

الف: پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار علیہم السلام سے نقل ہونے والی احادیث میں اس بات کی تصریح ہوئی ہے کہ حسن بن علی محمد کے یہاں بیٹا پیدا ہوگا جو طولانی غیبت کے بعد لوگوں کی اصلاح کے لئے قیام کرے گا _ اورزمین کو عدل و انصاف سے بھردیگا یہ موضوع روایات میں مختلف تعبیروں میں بیان ہوا ہے :

مثلاً: مہدی حسین (ع) کی نویں پشت میں ہیں ، مہدی حضرت صادق کی چھٹی اولاد ہیں ، مہدی موسی کاظم (ع) کی پانچویں اولاد ہیں ، مہدی امام رضا (ع) کی چوتھی اولاد ہیں مہدی امام محمد تقی کی تیسری اولاد ہیں _

ب _ بہت سی احادیث میں اس بات کی تصریح ہوئی ہے کہ مہدی موعود گیارہویں امام حسن عسکری کے بیٹے ہیں ، بطور مثال ملا حظہ فرمائیں :

۱۲۰