آفتاب عدالت

آفتاب عدالت0%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آيت اللہ ابراہيم اميني
زمرہ جات: صفحے: 455
مشاہدے: 157688
ڈاؤنلوڈ: 3564

تبصرے:

آفتاب عدالت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 157688 / ڈاؤنلوڈ: 3564
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ہوئی ہے کہ جس سے آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے؟

ڈاکٹر نفیسی : انسان کی زندگی کیلئے ایسی کوئی حد معین نہیں ہے کہ جس سے تجاوز محال ہو لیکن نوع انسان کی طویل ترین عمر حسب معمول سو سال سے زیادہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ان زمانوں سے بہت زیادہ مختلف نہیں سے جو مدون تاریخ میں وجود ہیں _ لیکن ، ممالک ، آب و ہوا ، نسل و میراث اور زندگی کی نوعیت کے لحاظ سے عمر کا اوسط مختلف ہے اور زمانہ میں متفاوت ہوتا ہے _ جیسا کہ آخری صدی میں عمر کے اوسط میں نمایان فرق آیا ہے _ مثلاً برطانیہ میں ۱۸۲۳ء مردوں کی عمر کا اوسط ۹۱/۲۹ اور عورتوں کی عمر کا اوسط ۸۵/ ۴۱ تھا لیکن ۱۹۳۷ ء میں مردوں کی عمر کا ۱۸/ ۶۰ اور عورتوں کی عمر کا اوسط ۴۰/۶۴ تھا _

۱۹۰۱ ء میں امریکہ میں مردوں کی عمر کا اوسط ۲۳/ ۴۸ اور عورتوں کا ۸۰/۵۱ سال تھا جبکہ ۱۹۴۴ ء میں مردوں کی عمر کے اوسط میں ۵۰/ ۶۳ اور عورتو ں کی عمر کے اوسط میں ۹۵/۶۸ تک اضافہ ہوا ہے _ یہ اضافہ بچوں کو شامل ہے اور یہ طبی حالت کی بہتر اور بیماریوں کی خصوصاً متعدی بیماریوں کے سد باب کا مرہون منت ہے لیکن بڑھاپے کی بیماریوں میں ، کہ جن کو استحالہ بھی کہتے ہیں ، جیسے شرایین کا سخت ہونے کے ، علاج و دو ا میںکوئی بہتری نہیں ہوتی ہے _

ہوشیار: کیا زندہ موجودات کی حیات کی تعیین کیلئے کوئی قاعدہ اور معیار ہے؟

ڈاکٹر نفیسی : عام خیال یہ ہے کہ بدن کے حجم اور مدت عمر کے درمیان ایک نسبت برقرار ہے _ مثلاً جلد ختم ہونے والی عمر ، پروانہ ، پشہ اور کچھولے کی زندگی قابل توجہ

۲۲۱

ہے لیکن یادرہے یہ نسبت ہمیشہ ثابت نہیں رہتی ہے کیونکہ طولا ، کوّا اور غاز اکثر اپنے سے بڑے پرندوں یہاں تک کہ اکثر دودھ پلانے والے جانوروں سے بھی زیادہ طویل زندگی گزارتے ہیں _

بعض مچھلیاں جیسے ''سالموں '' سوسال ، کریپ ایک سو پچاس اور پیک دو سو سال تک زندہ رہتی ہیں ان کے مقابلہ میں گھوڑے کو دیکھئے کہ تیس سال سے زیادہ زندہ نہیں رہتے ارسطو کے زمانہ میں لوگوں کا عقیدہ تھا کہ ہر موجود کی زندگی کی مدت کو اسی کے رشد و تمو کے زمانہ کی ضرب سے نکالا جا سکتا ہے _ اس ضرب کی شکل کو '' فرانسیس بیکن'' نے حیوانات میں چالیس گنا اور '' فلورنس'' نے پانچ گنا کو اس حیوان کے بلوغ کے لئے لازمی قرار دیا ہے _

''بوفن'' اور'' فلورانس'' نے انسان کی طبیعی عمر سو سال قرار دی ہے اور اب بھی عام خیال یہی ہے جبکہ داؤد پیغمبر نے عمر طبیعی ستّر سال قرارد دی ہے _

اس کے دوران بہت سے ایسی سن رسیدہ اور طویل العمر افراد کے بارے میں رپورٹ دی ہے کہ جن کی عمر سو سال سے زائد تھی اگر چہ عمر کی تعیین اور تخمینہ میں مبالغہ اور اغراق کا امکان ہے _

منجملہ ان معمرین کے ہانرے چنکنیز ۱۶۹ ، تماس پارس ، ۲۰۷ سال ، کاترین کنتس ڈسمونڈ ۱۴۰ سال کے تھے اس کے علاوہ بھی ایران اور دیگر ممالک کے اخباروں میںدوسرے افراد کے نام ملتے ہیں _

طول عمر کے اسباب

ہوشیار: طول عمر میں کونسے عوامل مؤثر ہیں؟

۲۲۲

ڈاکٹر: طول عمر کے عوامل درج ذیل ہیں

موروتی عامل: طول عمر میں موروثی عامل کی اہمیت واثر واضح ہے _ ایسے خاندان بھی پائے جاتے ہیں کہ جس کے افراد کی عمر کا اوسط عام طور پر زیادہ ہے مگر یہ کہ ان میں سے کوئی حادثاتی طور پر مرجائے _

اس سلسلے میں جو دلچسپ اور تحقیقی مطالعات ہوئے ہیں ان میں سے ایک '' ریمونڈ'' پیرل کا مطالعہ ہے _ اس نے اپنی بیٹی کے تعاون سے ایک کتاب تالیف کی اور اس میں ایک خاندان کی طویل العمری ، جس میں ایک فرد کی سات پشتوں ، دادا، پر دادا، نواسہ ، نواسہ کی اولاد اور موخر الذکر کی اولاد کی اولاد _ کی مجموعی عمر ۶۹۹ سا ل ہوتی ہے جبکہ اس خاندان کے دو اشخاص حادثہ میں مرگئے تھے _ بیمہ کمپنیوں کی تحقیق سے جو نئی شرح ''لوئی دوبلین'' اور ''ہربرٹ مارکس'' نے پیش کی میں انہوں نے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ اسلاف کی درازی عمر اخلاف کی عمر پر اثر انداز ہوتی ہے _

ممکن ہے یہ عامل کبھی دیگر عوامل جیسے ماحول اور بری عادت و غیرہ کے اثر کو ختم کردے _ چنانچہ اس بناپر کہا جا سکتا ہے کہ نامسا عد حالات میں بعض افراد کی طور عمر کا یہی راز ہے _ مثلاً ممکن ہے ایک شخص الکحل پیتا ہے لیکن موروثی عامل کی بناپر طویل عمر پاتا ہے _

اولاد، ماں، باپ سے اعضاء سالم و طاقت ور قوامیراث میں پاتے ہیں جو کہ طول عمر میں موثر ہیں اور میراث ملنے والی درجہ اول کی چیزوں میں اعصاب کی مشنری اور خون کی گردش کا نام پیش کیا جا سکتا ہے _ انسان کی عمر اس کے شرائی کی رد سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے یعنی بعض لوگوں کی سرخ رگین بڑھاپے کی عمر سے پہلے ہی سخت

۲۲۳

ہوجاتی ہیں _ واضح ہے کہ اس سکتہ کی وجہ شرائین کی سختی اور ان چھلنی ہوجاتی ہے _

دوسرا عامل ما حول ہے : جس ماحول کی ہوا معتدل ، صاف ، حراثیم اور زہر سے پاک ، شور و ہنگامہ سے خالی ، سکون سے مالا مال اور سورج کی شعاعوں کا مر کز ہوگی اس کے باشند وں کی عمر وراز ہو گی _

تیسرا عامل ، شغل کی نوعیت اور کام کی مقدارہے _ کام میں جدو جہد خصوصا روحی و عصبی فعالیت درازی عمرمیں بہت موثر ہے ، جب بدن سالم اور ذہن آزاد ہوتو

بدن اور روح کوبے کاری سے جورنگ لگتا ہے وہ بدن وروح کی پر کاری کے نتیجہ کی فر سودگی سے زیادہ ہوتا ہے اور اس سے عمرمیں کمی واقع ہوتی ہے _ اسی لئے طویل عمر لوگوں کی ، وزیرا عظیم اور پادر یوں کی عمر معمولی افراد سے زیادہ ہے _ یہ عمر طویل ان کی سعی پیہم کا نتیجہ ہے اور اس بناپر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جوانی کےعالم میں رٹائر ڈمنٹ لے لینے اور جلد بیکار بیٹھنے سے بہت سے خطرات پیدا ہوجاتے ، میں اور اس سے عمر کم ہوتی ہے _

چوتھا عامل : غذا کی کیفیت ہے _ غذا بھی مقدار اور نوعیت کے اعتبار سے درازی عمر پر گہر ا اثر چھوڑی ہے_ جن لوگوں کی عمر سو سال سے زیادہ ہوئی ہے ان میں سے اکثر کم خوراک تھے ، خشک خوراکی کیلئے بہت سی ضرب المثل کہی گئی میں ، مونتین کہتا ہے : انسان مرتا نہیں بلکہ خود کشی کرتا ہے _ دوسّری ضرب المثل کہتا ہے :

تم اپنے دانتوں سے اپنی قبر کھودتے ہو _ زیادہ کھا نے سے جہاں بدن کی مختلف مشنریوں کی فعالیت بڑ ھ جاتی ہے وہاں بہت سی بیماریاں جیسے شکر کی بیماری ، رگوں ، قلب اور

۲۲۴

پھیھپڑوں کی بیماری لاحق ہوجاتی ہے افسوس ہے کہ ایسے افرادکی بدنی طاقت بیماری کے ظاہر ہونے سے قبل بہت زیادہ ہوتی ہے اور وہ اس جھوٹی طاقت پر فنحر بھی کرتے ہیں پہلی جنگ عظیم کے دوران اس بات کا مشاہدہ کیا گیا کہ بعض ممالک میں شکرکے مرض میں مرنے والوں کی تعداد میں کافی کمی واقع ہوئی _ اس کی علت جنگ کے زمانہ میں غذا کی کمیابی کو سمجھنا چاہئے _ اس بناپر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ فقر ابہت بڑا عطیہ ہے جو غذا کو معتدل اور اس میں کمی واقع کردے _ اور زیادہ گوشت کھانا ، خوصوصا چالیس سال کی عمر کے بعد بہت نقصاندہ ہے _

کورفل نیویارک یونیورسٹی میں ڈاکٹر mccay نے چوہوں پر ریسرچ کی ہے اس میں ا س بات کو ثابت کیا ہے کہ لاغر چوہے موٹے چوہو ں کو قبر میں پہنچاتے ہیں _ عام طور پر چوہے چار ماہ میں کامل و بالغ اور دو سال میں بوڑھے ہوجاتے ہیں اور تین سال سے پہلے مرجاتے ہیں _ ڈاکٹر mccay نے کچھ چوہے لئے اور انھیں کم کیلری والی غذا میں پالا لیکن ویٹامن اور معدنی مواد کے لحاظ سے یہ غذا قوی تھی _ اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ ان چوہوں کا رشد چار ماہ کے علاوہ ہزار دن تک جاری رہ سکتا ہے _ ان تجربوں میں اس نے مشاہدہ کیا کہ جن چوہوں نے معمولی غذا میں زندگی گزاری ہے وہ ۹۶۵ دن کے بعد مرے ہیں لیکن جن چوہوں کو کم کیلری والے غذا میں پالا تھا وہ اس کے بعد تک جو ان و زندہ رہے اگر ہم کم غذا کھانے والے چوہوں کا انسان سے موازن کریں تو انہوں نے نوع انسانی کی اس فرد کی ، جو کہ سو سے ایک سو پچاس سال تک زندہ رہتا ہے ، زندگی گزاری ہے _ اس کے: علاوہ یہ چوہے بہت کم بیمار ہوئے اور معمولی غذا میں زندہ رہنے والے چوہوں سے زیادہ چالاک تھے ایسے

۲۲۵

ہی تجربے کچھ مچھلیوں اور دیگر حیوانات پر RMPHIBIEN نے کئے ہیں اور اسی نتیجہ پر پہنچا ہے جیسا کہ پر خوری سے عمر کم ہوتی ہے اسی طرح غذا کی کمی بھی مرض کے پیدا ہونے اور عمر گھٹانے کے سلسلے میں گہر اثر رکھتی ہے یعنی اگر غذائی نظام میں ضروری مواد نہیں ہوگا تو امراض کو وجود میں لائے گی _

ضعیفی اور اس کے اسباب

ہوشیار: ضعیفی کیا ہے ؟

ڈاکٹر: جس وقت بدن کے اعضاء رئیسہ ، جیسے قلب ، پھیپھڑے ، جگر ، مغز اور داخلی غدود فرسودہ ہوکر اپنے فرائض کی انجام دی ، سے معذور ہوجاتے ہیں _ خون کے تصفیہ اور ضروری ترشحات سے عاجز ہوجاتے ہیں تو بدن پر ضعف و ناتوانی کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں اور بڑھا پا آجاتا ہے _

ہوشیار: بڑھاپے کے بنیادی اسباب کیا ہیں؟

ڈاکٹر: بڑھاپے کی علامتیں عام طور پر کسی بھی شخص میں معین وقت پر ظاہر ہوتی ہیں _ لیکن یہ بھی مسلّم نہیں ہے کہ بڑھا پے کی اصل وجہ عمر کی یہی مقدار نہیں ہے کہ بدن کے اعضاء پر اتنی مدت گزرجائے تو بڑھاپا آجاتا ہے بلکہ ضعیفی کی بنیادی علت اختلال کی پیدائشے کو قرار دیا جا سکتا ہے اور یہ اختلال عام طور پر اسی عمر میں پیدا ہوتا ہے اس بنا پر ضعیفی کی علت مرور زمان نہیں ہے بلکہ اس کی اصل علت اختلال ہے جو کہ اسی عمر میں اعضاء بدن میں پیدا ہوتا ہے _ اور اسی عمر میں بدن کی مختلف مشنریوں کی فعالیت میں کمی واقع ہوتی ہے اور تشریح الاعضاء کے نقطہ نظر سے ان کی مختلف

۲۲۶

صنعتیں سکڑجاتی ہیں_ ان کی رگوں کی تعداد بھی کم ہوجاتی ہے ، نظام ہا ضمہ بیکار اور ضروری غذائیں فراہم کرنے سے عاجر ہوجاتا ہے اور نتیجہ میں پورے بدن پر ضعف طاری ہوجاتاہے ، طاقت تناسل کم اور مغز کی حرکت مدہم پڑجاتی ہے _ بعض اشخاص کا حافظہ خصوصاً اسماء کے سلسلہ میں بے کار ہوجاتا ہے ، نیز قوت ارادی متاثر ہوجاتی ہے _ لیکن یہ ممکن ہے کہ بدنی قوت کے کم ہونے سے روحانی طاقت میں اضافہ ہوجائے _ ممکن ہے تمام اعضاء بدن کی طرح داخلی مترشح غدود بھی چھوٹے اور ضروری ترشحات سے معذور ہوجائیں _ لیکن مذکورہ حوادث اور ناتوانیاں بدن میں واقع ہونے والے اختلال کی پیدا وارہیں _ پس یہ کہنا چاہئے کہ ضعیفی علت نہیں ہے بلکہ معلول ہے یہاںتک کہ اگر کوئی شخص ایسا پایا جائے کہ جس کے اعضاء بدن میں طویل عمر کے باوجود اختلال پیدا نہیں ہوا ہے تو وہ سالم و شاداب بدن کے ساتھ عرصہ دراز تک زندہ رہ سکتا ہے جیسا کہ ایسے افراد بھی مشاہدہ کئے جاتے ہیں کہ جو کم عمری کے باوجود طبیعی حالات کے تحت جلد فرسودہ ہوجاتے ہیں اور جلد ان پر برھاپا طاری ہوجاتا ہے _

ہوشیار: بدنی ضرورتوں کو منظم کرنے والی مشنریوں کی فرسودگی اور ناتوانی کا سرچشمہ کیا ہے؟

ڈاکٹر: پیدائشے کے وقت ہر شخص کے اعضاء بدن کام کرنے کی صلاحیت واستعداد سے مالامال ہوتے ہیں اور یہ خود والدین کے جسم ، غذا کی کیفیت ، ان کی زندگی کے ماحول اور آب و ہوا کی پیداوار ہوتے ہیں _ اس کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب تک ان کے اعضاء میں کوئی اختلال پیدا نہ ہوگا تو وہ اپنی طبیعی استعداد کے اختتام تک اپنا کام جاری رکھیں گے اور انسان زندہ رہے گا _ لیکن جب تمام اعضاء یا

۲۲۷

ان میں سے ایک میں کوئی خلل پیدا ہوجائے گا تو وہ بے کار ہوجائے گا اور بدن کا کارخانہ نصف کام انجام دے گا اور ضعیفی کے آثار آشکار ہوجائیں گے _

مختصر یہ کہ انسان کا بدن مستقل مختلف اقسام کے دائر س ، بیکٹیریا ، جراثیم اور زہریلی چیزوں کی زدمیں رہتا ہے جو مختلف طریقوں سے اس پر حملہ آور ہوتے ہیں اور بدن کے اندر زیریلا مواد ترشح کرتے ہیں اور بے گناہ خلیوں کو نقصان پہنچاتے ہوئے ان گی زندگی کا خاتمہ کردیتے ہیں _

اس وقت انسان کے بدن پر اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے _ ایک طرف اسے غذائی ضرورت کو پورا کرتا ہے ، اور دوسری طرف متعدی بیماریوں اور ضرر رساں جراثیموں کو نابود کرنے کی کوشش کرتا ہے _ خراب اعضاء کو مدد دیتا ہے ، لیکن ابھی اس دشمن کے حملہ کو ناکام نہیں بنا پاتا کہ دوسرا دشمن حملہ آور ہوتا ہے _ اس لحاظ سے بدن کی داخلی طاقت کو ہمیشہ آمادہ _ اٹینشن _ اور جنگ کے لئے تیار ، رکھتا ہے _

انسان کا بدن مبارزہ کے وسائل اور رزق فراہم کرنے کے لئے مجبور ہے _ باہر سے وارد ہونے والی غذائی طاقت سے مدد حاصل کرتا ہے _ افسوس ہے کہ ہمیں وجودی تعمیر اور اپنی درونی احتیاجات کے بارے میں کافی معلومات نہیں ہیں _ اور اس مقدس جہاد میں صرف اس کی مدد ہی نہیں کرتے بلکہ جہالت و نادانی کی بناپر اس کے دشمن کی مدد کرتے ہیں اور مضر غذا کھاکر دشمن کے لئے راستہ کھولتے اور اپنے حیات کی جڑیں کاٹتے ہیں _ واضح ہے کہ جب اپنی ضرورت کی چیزوں کو باہر سے حاصل نہیں کیا جائے گا ، تو جراثیموں کے حملہ کے مقابلہ میں مقاومت نہیں کرسکیں گے اور اپنے فرائض کی انجام وہی ہے

۲۲۸

عاجز ہوجائیں گے ، سرزمین بدن کو دشمنوں کے حملہ سے بچانے کیلئے کوئی طاقت نہ ہوگی اور اس میں ضعف و ناتوانی کے آثار نمایاں ہوجائیں گے _

جیسا کہ کبھی بدن زیاد ہ محنت و مشقت کی وجہ سے ضعیف ہوجاتا ہے ، کبھی غیر معمولی حوادث کی وجہ سے طبیعی عمر سے پہلے ہی بلاء میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اس پر بہت جلد بڑھاپا طاری ہوجاتا ہے _ بعض سائندانوں کا خیال ہے کہ بعض بیماریوں اور بری عادتوں سے انسان پر جلد بڑھا پا طاری ہوجاتا ہے _'' مچنیکوف'' کا نظریہ ہے ROTRTIK اور خشکی کے خمیر سے جو زہر یلے جراثم وجود میں آتے ہیں وہ بھی انسان کے ضعف و بڑھاپے کا باعث ہوتے ہیں اگر ان کو ختم کردیا جائے تو اس کی عمر میں اضافہ ہوجائے گا _

اس نظریہ کی بنیاد اس تجربہ پر استوار تھی چونکہ ، بالکان خصوصاً بلغارستان ترکی اور قفقاز میں سو سال سے زیادہ بوڑھوں کی تعداد اچھی خاصی ہے ، لہذا اس عمر درازی کی علت دھی کے استعمال کو قرار دیا ، اس کا نظریہ تھا کہ دھی میں چونکہ کھٹاس ہوتا ہے جو کہ ROTROTK کو ختم کردیتا ہے اور طول عمر میں معاون ہوتا ہے _ لیکن واضح ہے کہ ان کوہ نشین لوگوں کی طول عمر کا راز ان کی غذا ہی نہیں ہے بلکہ آب و ہوا ، پر سکون زندگی ، مستقل جد و جہد او رموروثی عوامل کم و بیش سب ہی اس میں دخیل ہیں _ ان مشاہدات کی نظیر ایران کے کوہ نشین انسانوں میں بھی موجود ہے _

ہوشیار: کیا موت اور کارخانہ بدن کے بیکار ونے کی اصل علت طول عمر اور اعضاء کے کام کی کثرت ہے کہ جس سے بڑھاپے میں موت یقینی ہے یا موت کی بنیادی علت کوئی اور چیز ہے ؟

ڈاکٹر: موت کی اصلی علت بدن کے تمام اعضاء رئیسہ یا ان میں سے

۲۲۹

ایک میں خلل کا پیدا ہونا ہے جب تک خلل پیدا نہیں ہوگا اس وقت تک موت واقع نہیں ہوگی _ یہ خلل اگر ضعیفی کے زمانہ سے قبل پیدا ہوجاتا ہے تو جوان انسان بھی مرجاتا ہے لیکن اگر حوادث کی گزند سے محفوظ رہے کہ عام طور پر ضعیفی کے زمانہ میں ان حوادث کا پیدا ہونا ضروری ہے _لیکن اگر کوئی ممتاز انسان پایا جائے جس نے طویل عمر پائی ہو تو اپنے جسم کی مخصوص ترکیب اور تمام شرائط کی موجود گی کی بناپر اس کے کسی بھی عضو میں خلل پیدا ہوا ہو تو طول عمر اس کی موت کا باعث نہ ہوگی _

ہوشیار : کیا مستقبل میں انسان ایسی دو کے انکشاف میں کامیاب ہو سکتا ہے کہ جس سے وہ اپنے بدن کی استعداد میں اضافہ کر سکے اور ضعیفی اور جسمانی خلل کو روک سکے ؟

ڈاکٹر: یہ ایسا موضوع ہے جو ممکن ہے اسے آج ناقص علم سے اور قیاس کی روسے غلط نہیں کہا جا سکتا _ اس سلسلے میں سائنسداں امید اور سنجیدگی کے ساتھ تحقیق میں مشغول تھے اور ہیں ، امید ہے کہ طو ل عمر کا راز جلد ہی کشف ہوجائے گا اور انسان ضعیفی اور کم عمرپر غلبہ پائے گا _

صاحب الامر کی طویل عمر

ہوشیار: جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ شیعہ ، مہدی موعود بن حسن عسکری کہ ، جو کہ ۲۵۵ یا ۲۵۶ ھ میں پیدا ہوئے تھے ، ابھی تک با حیات سمجھتے ہیں ، ان کا عقیدہ ہے کہ آپ غیبت کی زندگی بسرکررہے ہیں اور شائد اسی طرح سیکڑوں سال تک زندہ رہیں گے _ کیا علم حیات و طب ایسی غیر معمولی عمر کو محال قرار دیتا ہے ؟

ڈاکٹر : اس سلسلے میں ابھی تک میں نے جو کچھ کتابوں میں پڑھاہے اس سے

۲۳۰

معلوم ہوتا ہے کہ قائم آل محمد کی طول عمر کا راز کسی پر عیان نہیں ہوا ہے _ لیکن ایسا لگتا ہے کہ علوم کی جو ترقی ہوئی ہے اور ہورہی ہے اور خدا کی مدد سے یہ مشکل بہت جلد حل ہوجائیگی اور عقیدت مندوں کے اختیار میں پہنچ جائے گی _

سردست جو کچھ جانتا ہوں اسے بیان کرتا ہوں : آج کے ناقص علم اور قیاس کی بناپر اسے باطل نہیں قرار دیا جا سکتا کیونکہ اصل امکان کے علاوہ ہمارے پاس غیر معمولی طول عمر کے چند نمونے موجود ہیں جن کے ثبوت میں کسی قسم کی شک و تردید نہیں ہے :

الف: نباتات کے درمیان ایسے طویل العمر درخت موجود ہیں جنھیں روئے زمین پر قدیم ترین موجودات کہا جاتا ہے ، منجملہ ان کے SEQUOIA ہے یہ کالیفورنیا میں موجود ہے _ ان میں سے بعض ۳۰۰ فٹ لمبے اور ۱۱۰ فٹ موٹے ہیں _ ان میں سے بعض کی عمر پانچ ہزار سال سے زیادہ ہے _ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ جب فرعون اول ، KHORFU نے مصر کے بڑے ہرم کی تعمیر شروع کی تھی اس وقت یہ درخت شاداب و جوان تھا اور حضرت عیسی کی ولادت کے وقت اس کی چھال کی ضخامت ۴۰/۳ سنٹی میٹر تھی _ مثلاً( sequeiagentea ) ، قسم کے ایک درخت کے تنے _ جو کہ ( s: kensington ، کنسنگٹن جنوبی کے میوزیم میں موجود ہے _ میں ۱۳۳۵ حلقے ہیں یعنی اس کی عمر اتنے ہی سال(۱)

سن رسیدہ ترین زندہ موجود جو کہ آج بھی زندہ ہے جس کی عمر تقریباً ۴۳۰۰ سال ہے وہ ایک قسم کی کاجی ہے جس کا نام ( pinus aristata ) ہے اور یہ کالیفورنیا کے مشرقی مرکز میں موجود ہے _ حیوانات میں سب سے زیادہ طویل العمر ایک قسم کا زندہ کچھواہے جو کہ گالاگوش جزیرہ میں موجودہے _ اس کی عمر ایک سو ستّر (۱۷۰) سال

____________________

۱_ دائرة المعارف بریٹانیائی ج ۱۴ ص ۳۷۶_

۲۳۱

ہے _ وزن تقریباً ۴۵۰ پونڈ ہے اور طول چار فٹ ہے _(۱)

ب: قدیم مصر میں کھدائی ہوئی تو مصر کے جوان مرگ فرعون کے مقبرہ میں گیہوں نکلے ، میں نے خود مذکورہ مقبرہ میںوہ گیہوں دیکھے ہیں اور اخباروں میں پڑھاہے کہ بعض علاقوں میں انھیں بویا گیا تو وہ کامل طور پر سر سبز و شاداب ہوئے اور فصل دی _ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے گندم کا حیاتی نقطہ تقریباً تین یا چار ہزار سال تک زندہ رہا ہے _

ج: متعدی بیماری کے جراثیم کو قدیم ترین زندہ موجود قرار دیا جا سکتا ہے _ یہ ایسے زندہ موجودات ہیں کہ ممکن ہے جن کی زندگی کا مطالعہ حیات کے راز کو آشکار کردے _ ان ہی سے بعض نباتی ، حیوانی اور انسانی بیماریاں جیسے زکام انفلوانزا، خصرہ ، چیچک، پیدا ہوتی ہیں _ آثار قدیمہ کے ماہروں نے ان جراثیم کا وجود ما قبل تاریخ بتایا ہے _ یعنی یہ موجودات ایک لاکھ سال کے بعد بھی زندہ ہیں ، اور ان کی زندگی کے آثار ختم نہیں ہوئے ہیں _ اگر چہ اس دوران انہوں نے خفتہ و نہفتہ زندگی بسر کی ہے اور اس وقت بظاہر مردہ موجودات سے مختلف نہیں تھے _(۲)

د: چند سال قبل میں نے اخباروں میں پڑھا تھا کہ '' سائبیریا'' کے نواح کے کھدائی میں اکی بڑا جانور نکلا ہے جو کہ برف کی وجہ سے منجمد تھا _ چنانچہ جب اسے سورج کی دھوپ میں رکھا گیا تو اس میں زندگی کے آثار نمایان ہوگئے _

ھ: جن طریقوں سے ایک زندہ موجود کی عمر کو طولانی بنایا جا سکتا ہے اور اسے نیم جاں

____________________

۱_ دائرة المعارف امریکائی ج ۱۷ ص ۴۶۳

۲_ روزنامہ اطلاعات

۲۳۲

کرکے قابل مطالعہ قرار دیا جا سکتا ہے _ ان میں سے ایک ہایبرنیشن _ سردی کی نیند ہے یہ نیند بعض حیوانات پر سردی بصر طاری رہتی ہے اور بعض پرگرمی کے موسم میں طاری رہتی ہے _ جب حیوانات پر یہ نیند طاری ہوجاتی ہے تو اس وقت ان کی غذا کی احتیاج ختم ہوجاتی ہے اور بدن کی ما یحتاج چیزوں میں ۳۰ سے سوتک کمی واقع ہوتی ہے اس کی حرارت کو منظم رکھنے والی مشنری وقتی طور پر بند ہوجاتی ہے اور فضا کی حرارت کم ہوجانے سے اس کی کھال اور بال ٹھٹھر کر سخت نہیں بن جاتے ، اس کے بدن پر لرزہ طاری نہیں ہوتا ، بلکہ اس کے بدن کی حرارت فضا و ماحول کی مانند ہوجاتی ہے کہ ممکن ہے درجہ حرارت نقطہ انجماد ہے ۳۹_ ۴۱ f سے بھی اوپر پہنچ جائے کہ جس سے سانس کی رفتار کم اور نامنظم ہوجاتی ہے اور حرکت قلب کبھی کبھی ہوتی ہے _ (زمین کے سنجاب کے دل کی حرکت فی منٹ ۷ سے ۱۰ ہوتی ہے جبکہ عام طور پر فی منٹ تین سو مرتبہ ہونی چاہئے ) اعصاب کے مختلف رفلکس رک جاتے ہیں اور ۵۲ سے ۶۶ فارن ہائٹ درجہ حرارت سے نیچے مغز کی برقی امواج کا مشاہدہ نہیں ہوتا ہے _

بعض حیوانات عرصہ دراز تک غیر معمولی سردسیال چیزوں میں زندہ رہ سکتے ہیں _ چنانچہ ناروے کے علاقوں میں مچھلیاں اسی طرح زندہ رہتی ہیں _ بہت سے زندہ خلئے جیسے انسان اور حیوان کے نطفہ کو پیوند کے لئے اور خون کے r.b.c کو ٹرانسفوجن کے لئے انجماد کی صورت میں محفوظ رکھا جا سکتا ہے _ اسی طرح بہت سے چھوٹے چھوٹے جانداروں کو باربار برف میں منجمد اور گرم کیا جا سکتا ہے جبکہ اس سے ان کے بدن کو کوئی آنچ نہیں آتی _

۲۳۳

سردی کی نیند اس لحاظ سے قابل توجہ ہے کہ شاید اس کے ذریعہ طول عمر کا راز منکشف ہوجائے اور انسان کو طول عمر نصیب ہوجائے _

طویل العمر درختوں کا مطالعہ ، نباتات کے نطفہ حیاتی کاکئی ہزار سال تک زندہ رہتا ، متعدی بیماری کے جراثیم کی زندگی سردی ، گرمی کی حیرت انگیز نیند نے اور علم طب و علم حیات کی محیر العقول ترقی و غیرہ نے عمر طویل بنانے اور ضعیفی پر غلبہ پانے کے سلسلے میں انسان کی امید بندھائی ہے اور اسے تحقیق و کوشش پر ابھارا ہے امید ہے کہ دانشور بشریت کے اس مقدس آرزو میں کامیاب ہوں گے اور نتیجہ میں قائم آل محمد کی طول عمر کے راز کو آشکار کریں گے _

اس دن کی آمد کی امید کے ساتھ

ڈاکٹر ابو تراب نفیسی

پروفیسر ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ میڈیکل کالج اصفہان

ہوشیار: اس مدت کے دوران ایک دلچسپ مقالہ میری نظروں سے گزراہے جس کا ایک فرانسیسی مجلہ سے ترجمہ کیاگیا ہے _ چونکہ ہماری بحث سے مربوط ہے اس لئے میں نے اس کے متن کو لکھ لیا تھا _ اگر احباب کی اجازت ہو تو پڑھ لوں ،

وستین گلاس کا مقالہ

علم الحیات کے ماہروں نے زندہ موجودات کی عمر چند گھنٹوں سے لے کر سیکڑوں سال تک بتائی ہے _ بعض حشرات الارض کی عمر ایک دن اور بعض کی ایک سال ہوتی ہے لیکن ہر نوع میں بعض افراد مشاہدہ کئے جاتے ہیں کہ جن کی عمر اپنے ہم جنس کی طبیعی عمر کے

۲۳۴

دو تین گناہوتی ہے _ جرمنی میں ایک سرخ پھول کا درخت ہے کہ جس کی عمر اس کے ہم جنس درختوں سے سیکڑوں سال زیادہ ہے _ میکسکو میں سرد کا ایک درخت ہے کہ جس کی عمر ۲۰۰۰ سال ہے _ بعض ایسے نہنگ پائے گئے ہیں جن کی عمر ۱۷۰۰ سال ہے _

سولھویں صدی میں لندن میں تماس پار نام کا ایک شخص تھا جس کی عمر ۲۰۷ سال تھی _ آجی بھی ایران کے شمالی علاقہ میں ایک شخص سید علی نام کا ہے کہ جس کی عمر ۱۹۰ سال اور اس کے بیٹے کی عمر ۱۲۰ سال ہے _ روس میں لوئی یوف پواک نامی شخص کی عمر ۱۳۰ سال ہے _ میکو خوپولوف قفقازی کی عمر ۱۴۰ سال ہے _

علم الحیات کے ماہروں کا خیال ہے کہ یہ غیر معمولی عمریں کسی ایے درونی عامل سے مربوط ہیں جو کہ کسی شخص کی عمر کو حد سے زیادہ بڑھانے کا باعث ہوا ہے _

علم الحیات کے ماہروں کے نظریہ کے مطابق ہر نوع کے زندہ موجود کی عمر طبیعی کو اس فرد کی نوع کے سات یا ۱۴ گنا ہونا چاہئے اور چونکہ انسان کے رشد کی عمر پچیس سال ہے اس لحاظ سے انسان کی عمر ۲۸۰ سال ہونا چاہئے _

مناسب و موزوں غذاؤںکے استعمال سے بھی عمر طبیعی کے قاعدہ کو باطل کیا جا سکتا ہے _ اس کی مثال شہد کی مکھیاں ہیں _ عام طور پر ان کی عمر چار پانچ ماہ ہوتی ہے _ جبکہ ان کی ملکہ کی عمر ۸ سال ہوتی ہے در آن حالیکہ وہ بھی تخم و تولید میں ان ہی کی مانند ہے لیکن و ہ شاہا نہ غذا میوہ کھاتی ہے _

البتہ انسان کے بارے میں ایسا نہیں ہے_ ہم شہد کی مکھیوں کی ملکہ کی طرح مخصوص جگہ زندگی نہیں گزار سکتے کہ جہاں گرمی بھی قابو میں ہو ، غذا محدود اور مخصوص قسم کی ہوا اور سیکڑوں محافظ و نگہبان ہوں _ ہمارے سامنے بہت سے خطرات ہیں _ علم الحیات

۲۳۵

کے ماہروں کے نقطہ نظر سے بعض یہ ہیں : خود بخود پیدا ہونے والا زہر ، وٹامن کی کمی اور شرایین کا سخت ہوجانا _ لیکن لندن کا ایک اسپیشلسٹ کہتا ہے : فولاد ، میگنشیم اور بدن کے پوٹاسیم ذخیرہ میں تعادل کے بگڑجانے سے جب ایک دوسرے پر غالب آجاتا ہے تو موت واقع ہوجاتی ہے _ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تمام خطرات کے درمیان ، خصوصاً ضعیفی کا نام نہیں ہے _ موت کی علت بڑھاپا نہیں ہے _

ڈاکٹر سوئڈی ( امریکہ کی دراز عمر علمی انجمن کے صدر) کا نظریہ ہے کہ بڑھاپا طاری ہونے کی وجہ یہ ہے کہ : '' پروٹین کے مالکولی بدن کے خلیوں میں گرہ لگاتے ہیں اور آہستہ آہستہ انھیں ان کے کام سے روکتے اور موت کا باعث ہوتے ہیں _ اسی ڈاکٹر نے تحقیق و تلاش کے دوران ایک مادہ کشف کیا ہے جو اس گرہ کو کھولتا اور بدن کی مشنری ک از سر نو حرکت میں لاتا ہے _ اس ترتیب سے بڑھا پے کے زمانہ کو ختم کرتا ہے _ لیبارٹریوں میں محققین اس تجربہ میں کامیاب ہوئے ہیں کہ بعض تجرباتی حیوانات جیسے ہندوستان کے خوک کی مدت عمر کو ، اس کی خوراک میں وٹامن '' b '' نو کلیک اسیڈ اور پانتونکسیک اسیڈ ۴/۴۶ فیصد بڑھانے سے بڑھایا جا سکتا ہے _

''فیلاتف'' روس کے حیات شناس نے توقع ظاہری کی ہے کہ ضعیفی کے زمانہ کو غلط پیوند کاری کے ذریعہ ختم کیا جا سکتا ہے اس اجزاء ترکیبی فاسد میں کتنی عجیب طاقت ہے کہ کھاد کی مانند ہمارے بدن کے مزرعہ کو زر خیز بناتا ہے _ اس کے علاوہ کچھ ایسے اصول بھی ہیں کہ جن کی رعایت سے عمر بڑھتی ہے یہ اصول عبارت ہیں غذائی دستورات اور بیوکمسٹری ، سانس لینے کے قواعد ، استرخا کے طریقے ، غذا کے بعض ماہروں کا خیال ہے کہ صرف طبی اصول کے مطابق غذا کے ذریعہ سو سال سے زیادہ زندہ رہ جا سکتا

۲۳۶

ہے ہم جو کچھ کھاتے ہیں اسی کے بنے ہوئے ہیں _

طول عمر سے متعلق تحقیقات

میں نے ایک عربی مجلہ میں ، ایک مقالہ پڑھاہے چونکہ ہماری بحث سے مربوط ہے _ اس لئے آپ کی خدمت میں اس کا ترجمہ پیش کرتاہوں _

قابل اعتماد سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ حیوان کے بدن کے اعضاء رئیسہ میں سے ہر ایک میں لا محدود مدت تک زندہ رہنے کی صلاحیت موجود ہے _ اگر انسان کے سامنے ایسے عوارض و حوادث پیش نہ آئیں جو کہ اس کی حیا ت کا سلسلہ منقطع کردیں تو وہ ہزاروں سال تک زندہ رہ سکتا ہے _ ان سائنس دانوں کا قول کوئی خیال و تخمینہ نہیں ہے بلکہ ان کے تجربوں کا نتیجہ ہے _

ایک جرّاح ایک جاندار کے کٹے ہوئے جز کو اس حیوان کی معمولی زندگی سے زیادہ دنوں تک زندہ رکھنے میں کامیاب ہوگیا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ کٹے ہوئے جز کی حیات کا دارومدار اس کے لئے فراہم کی جانے والی غذا سے پر ہے جب تک اسے کافی غذا ملتی رہے گی اس وقت وہ زندہ رہے گا _

اس جراح کا نام ڈاکٹر '' الکسیس کارل'' تھا جو کہ راکفلر کے علمی ادارہ نیویارک میں ملازم تھا _ یہ تجربہ اس نے ایک چوزہ کے کٹّے ہوئے جز پر کیا تھا ، یہ مقطوع جز آٹھ سال سے زائد زندہ رہا اور رشد کرتا رہا _ موصوف اور دیگرا افراد نے یہی تجربہ انسان کے مقطوع اجزاء جیسے عضلات قلب اور پھپڑے پر بھی کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ جب تک اجزاء کو ضروری غذا ملتی رہے گی اس وقت تک وہ اپنی حیات و نمو کا

۲۳۷

سلسلہ جاری رکھیں گے _ یہاں تک کو جونس ہبکس یونیورسٹی کے پروفیسر ''ریمونڈ'' اور ''برل'' کہتے ہیں انسان کے جسم کے اعضاء رئیسہ میں دائمی قابلیت و استعداد موجود ہے _ یہ بات تجربات سے ثابت ہوچکی ہے کم از کم احتمال کو ترجیح ہے کیونکہ اجزاء کی حیات کے سلسلہ میں ابھی تک تجربات ہورہے ہیں _ مذکورہ نظریہ نہایت ہی واضح اور اہم اور علمی غور و فکر کے بعد صادر ہوا ہے _

جسم حیوان کے اجزاء پر بظاہر مذکورہ تجربہ سب سے پہلے ڈاکٹر ''جاک لوب'' نے کہا تھا وہ بھی علمی ادارہ راکفلر میں ملازم تھا ، جس وقت وہ مینڈک کو تلقیح نہ شدہ تخم سے پیدا کرنے والے موضوع پر تحقیق میں مشغول تھا اس وقت اچانک اس بات کی طرف متوجہ ہوا کہ بعض انڈوں کو مدت دراز تک زندہ رکھا جا سکتا ہے اس کے برعکس بہت سے کم عمر میں مرجاتے ہیں _ یہ قضیہ باعث ہوا کہ وہ مینڈک کے جسم کے اجزاء پر تجربہ کرے چنانچہ اس تجربہ میں انھیں مدت دراز تک زندہ رکھنے میں کامیاب ہوا _ اس کے بعد ڈاکٹر ''ورن لویس'' نے اپنی زوجہ کے تعاون سے یہ ثابت کیا کہ : پرندے کے جنین کے اجزاء کو نمکین پانی میں زندہ رکھا جا سکتا ہے ، اس طرح کہ جب بھی اس میں آبی مواد کا ضمیمہ کیا جائے گا اسی وقت ان کے رشد و نمو کی تجدید ہوگی _ ایسے تجربہ مسلسل ہوتے رہے اور اس بات کو ثابت کرتے رہے کہ حیوان کے زندہ خلیے ایسی سیال چیز میں اپنی حیات کے سلسلہ کو جاری رکھ سکتے ہیں کہ جس میں ضروری غذائی مواد موجود ہوتا ہے _ لیکن اسی وقت تک ان کے پاس ایسی کوئی نہیں تھی جس سے وہ موت کی نفی کرتے _

ڈاکٹر کارل نے اپنے پے درپے تجربوں سے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ اجزاء ضعیف نہیں ہوتے جن پر تجربہ کیا جاتا ہے اور پھر جو انوں کی زندگی بھی طویل ہوتی ہے _

۲۳۸

اس نے جنوری ۱۹۱۲ ء میں اپنے کام آغاز کیا ، اس سلسلے میں مشکلات پیش آئے ، لیکن اس اور اس کے عملہ نے ان پر غلبہ پالیا اور درج ذیل موضوعات کا انکشاف کیا _

الف: جب تک تجربہ کئے جانے والے زندہ خلیوں پر کوئی ایسا عارضہ نہ ہو جو ان کی موت کا باعث ہو ، جیسے جراثیم کا داخل ہونا یا غذائی مواد کا کم ہونا ، تو وہ زندہ رہیں گے _

ب : مذکورہ اجزاء صرف حیات ہی نہیں رکھتے بلکہ ان میں رشد و کثرت بھی پائی جاتی ہے _ بالکل ایسے ہی جیسے یہ اس وقت رشد و کثرت اختیار کرتے جب حیوان کے بدن کا جز ہوتے _

ج: ان کے نمو اور تکاثر کا ان کے لئے فراہم کی جانے والی غذا سے موازنہ کیا جاسکتا ہے اور اندازہ لگایا جا سکتا ہے _

د: ان پرمرور زمان کا اثر نہیں ہوتا ہے ، ضعیف و بوڑھے نہیں ہوتے بلکہ ان میں ضعیفی کا معمولی اثر بھی مشاہدہ نہیں کیا جاتا _ وہ ہر سال ٹھیک گزشتہ سال کی نمو پاتے اور بڑھتے ہیں _ ان موضوعات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب تجربہ کرنے والے ان اجزاء کی دیکھ بھال کریں گے ، انھیں ضروری و کافی غذا دیں گے اس وقت وہ اپنی حیات اور رشد کو جاری رکھیں گے _

یہاں سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بڑھاپا علت نہیں ہے بلکہ معلول و نتیجہ ہے _ پھر انسان کیوں مرتا ہے ؟ اس کی حیات کی مدت محدود کیوں ہے ، معدود افراد کی عمر ہی سو سال سے آگے کیوں بڑھتی ہے اور عام طور پر اس کی عمر ستّر یا اسی سال ہوتی ہے؟ ان سوالوں کا جواب یہ ہے کہ حیوان کے جسم کے اعضائ

۲۳۹

زیادہ اور مختلف ہیں اوران کے در میان کمال کا ارتباط و اتصال ہے _ ان میں سے بعض کی حیات دوسرے کی زندگی پر موقوف ہے _ اگر ان میں سے کوئی کسی وجہ سے نا تواں ہو جائے اور مرجائے تو اس کی موت کی وجہ سے دوسرے اعضاء کی بھی موت آجاتی ہے ، اس کے ثبوت کے لئے وہ موت کافی ہے جو کہ جراثیم کے حملہ سے اچانک واقع ہوجاتی ہے ، یہی چیز اس بات کا سبب ہوئی کہ عمر کا اوسط ستر ، اسی سال سے بھی کم قرار پائے بہت سے بچپنے ہی مرجا تے ہیں _

یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ستر ، اسی سویا اس سے زیادہ سال کی عمر ، موت کی علت نہیں ہے بلکہ اس کی اصلی علت : اعضا ہیں سے کسی ایک پر عوارض ، امراض کا حملہ کر کے اسے بیکار بنانا ہے چنانچہ اعضاء کی موت واقع ہو جاتی ہے _پس جب علم عوارض کا علاج تلاش کرنے یا ان کے اثر کو بیکار بنا نے میں کا میاب ہوجائے گا تو پھر سیکڑوں سالہ زندگی کے لئے کوئی چیز مانع ہوگی _ جیسا کہ بعض درختوں کی بہت طولانی عمر ہے ، لیکن اس بات کی توقع نہیں ہے کہ علم طب و حفظان صحت اتنی جلد اس عالی مقصد تک پہنچ جائیں گے _ لیکن اس مقصد سے نزدیک ہونے اور موجود عمر کی بہ نسبت دویا تیں گنا عمر تک پہنچنا بعید نہیں ہے _ ۱_

پھر طول عمر

بر طانیہ کے ایک ڈاکٹر نے اپنے تفصیلی مقالہ کے ضمن میں لکھا ہے : بعض

____________________

۱ _ المہدی تالیف آیت اللہ صدر منقول از مجلہ ء المقتطف شمارہ ۳

۲۴۰