آفتاب عدالت

آفتاب عدالت13%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 185369 / ڈاؤنلوڈ: 5869
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

لایا گیا آپ(ص) نے اپنا ہاتھ اس میں رکھا، اچانک انگلیوں کے درمیان سے پانی ابلنے لگا پوری قوم نے اس پانی سے وضو کیا، قتادہ کہتے ہیں: میں نے انس سے پوچھا ، تم لوگ کتنے آدمی تھے انھوں نے جواب دیا: تقریبا ۳۰۰ آدمی تھے۔

جابر بن عبداللہ کہتے ہیں:

روز حدیبیہ لوگ پیاسے ہوئے پانی کا ایک برتن آںحضرت(ص) کی بغل میں تھا۔ آںحضرت(ص) نے وضو کیا لوگ گھبرائی ہوئی حالت میں آںحضرت(ص) کے پاس آئے، آںحضرت(ص) نے فرمایا: تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے؟ بولے: وضو کرنے یا پینے کے لیے بس یہی پانی ہے۔ آںحضرت(ص) نے اپنا ہاتھ پانی میں رکھا اچانک آپ کی انگلیوں کے درمیان سے پانی ایسے ابلنے لگا جیسے چشمہ ابلتا ہے۔ پس ہم نے اس  میں سے پیا اور وضو کیا۔ہم نے پوچھا کتنے لوگ تھے؟ انہوں نے جواب دیا: ڈیڑھ ہزار لوگ تھے لیکن ایک لاکھ لوگ بھی ہوتے تو بھی پانی کافی تھا۔

علقمہ عبداللہ سے نقل کرتے ہیں کہ :

ہم رسول خدا(ص) کے ساتھ ہم سفر تھے۔ پانی کم ہوگیا، آںحضرت(ص) نے فرمایا : تھوڑا سا پانی لاؤ، ایک برتن میں پیش کیا گیا جس میں تھوڑا سا پانی تھا۔ آںحضرت(ص) نے اپنا ہاتھ اس میں ڈال دیا، اور فرمایا پاک و مبارک پانی کی طرف دوڑ پڑو یہ خدا کی برکت ہے، ہم نے پانی کو دیکھا جو انگلیوں کے درمیان سے ابل رہا تھا۔

۲۰۱

وہابیت کی تاریخی حیثیت

اگر ہم اپنی تاریخ کی طرف نگاہ اٹھائیں اور اس کے درد ناک اوراق کو پلٹ کر دیکھیں تو ان میں سے بعض واقعات ہمیں ٹھہرنے پر مجبور کردیں گے۔ تاکہ ہمیں سمجھا سکیں کہ یہ وہابیت جسے ہم نے اس قرآن میں پہچانا ہے۔ اسکی بھی تاریخی حیثیت ہے جو کبھی ظاہر تو کبھی پوشیدہ رہی ہے۔ کبھی جرات کر کے ظاہر ہوئی اور کبھی تقیہ و خوف سےپوشیدہ رہی ہے۔ یہاں تک کہ اسلام پر ایسے دن آپڑے اور استعمار نے اس نئی فکر کو تقویت بخشی، اس کا مقصد اور ہدف یہ ہے کہ وہ ہالہ یا دائرہ جو آںحضرت(ص) کے گرد ہے اور آپ کا وہ احترام و اکرام جو مسلمان کرتے ہیں ختم اور بے اثر ہوجائے۔ استعمار کو پتہ ہےکہ مسلمان دو چیزوں کو مقدس سمجھتے ہیں۔ قرآن اور سنت پیغمبر(ص) اور یہ دونوں شریعت اسلام کے بنیادی مصدر ہیں جو ان کے حملہ کا نشانہ قرار پائے ہیں۔

اور یہ بھی سمجھ چکے ہیں کہ کتاب خدا میں کسی باطل کے نفوذ کی گنجائش نہیں اور خداوند عالم اس کی حفاظت کا خود ضامن ہے لیکن سنت رسول(ص) میں جعل و تحریف کی جاسکتی ہے اور آںحضرت(ص) کی وفات کے پہلے روز سے ہی سنت میں اختلاف پید ہوگیا۔

لیکن انھیں معلوم ہے کہ علمائے امت نےسنت کی حفاظت کی غرض سے جس کی صحت ثابت ہوچکی ہے اسے اکھٹا کرلیا ہے اور اس کے لیے قوانین بنائے ہیں۔ جو اس کو زیادتی  و کمی سے روکتے ہیں۔

اس کے پیش نظر انھوں نے ایک شیطانی چال چلی تاکہ اس کے ذریعہ جو

۲۰۲

چیزیں مسلمانوں کےدرمیان خوشحالی و نشاط کا باعظ ہیں نابود کر ڈالیں۔ چنانچہ جب مسلمان روحانی اور معنوی امور سے جدا ہوں گے تو الحادی مادیت سےنزدیک ہو جائیں گے۔ اور دھیرے دھیرے سیلاب کے اوپر پیدا ہونے والے جھاگ کی طرح ختم ہوجائیں گے۔ اس دوران انھیں ایک ایسے مسلمان شخص کی تلاش ہوئی جو ریاست طلب اور دنیا پرست ہو۔ انہوں نے محمد بن عبدالوھاب کو اس  کےلیے سب سے موزوں پایا۔ اس کے اندر اپنی روح پھونک  دی اور اس کو قانع کردیا کہ وہ اپنے زمانہ کا واحد دانشور ہے۔ اور ایسی ذہانت و ہوش کا مالک ہے کہ جو خلفائے راشدین کے پاس بھی نہ تھی۔ اور خلفائ کے اجتہاد کو کتاب و سنت جیسے صریح نصوص کا مخالف بتایا، خصوصا آںحضرت(ص) کی زندگی میں حضرت عمر کا آپ(ص) کی مخالفت کرنا۔اور محمد بن عبدالوہاب کو مطمئن کردیا  کہ محمد(ص) بشر ہیں، معصوم نہیں ہیں، مختلف مقامات پر ان سے بھول چوک ہوئی ہے۔ اورلوگوں نے ان کے اشتباہ کی اصلاح کی ہے اور یہ شخصیت کی کمزوری کی دلیل ہے۔

پھر اس میں جزیرة العرب پر تسلط اور اس پر حکومت کی طمع پیدا کی اس کے بعد اس میں تمام عرب دنیا اور اس کےبعد پورے عالم اسلام پر حکومت کی امید بندھائی۔

وہابیت انھیں مفاہیم پر استوار ہے اور ہمیشہ اس کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ رسول(ص) کو بی حقیقت اور ان کی اہمیت کو کم کردے۔ جیسا کہ ان کے علماء صراحت کے ساتھ کہتے ہیں وہ شخص مرگیا۔ ـنعوذ باللہ) اور ان کے بزرگ ( محمد بن عبدالوہاب نے کہا) محمد (ص) بوسیدہ مردار ہیں۔ (نعوذ باللہ) جو نہ نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان، یہ میرا عصا ان سے بہتر ہے اس لیے کہ یہ فائدہ بھی پہنچاتا ہے اور نقصان بھی!

اسی سے ملتی جلتی عبارت حجاج بن یوسف کے زمانہ میں بھی کہی جاتی تھی۔

۲۰۳

اسی نے کہا:

ان کے سروں پر خاک! یہ لوگ ایک بوسیدہ مردار کے گرد طواف کرتے ہیں، اگر یہ عبدالملک بن مروان کے محل کےگرد طواف کرتے تو ان کےلیے بہتر ہوتا!

در حقیقت جس چیز نے حجاج او بنی امیہ جیسے ظالموں کو آںحضرت(ص) کے عظیم مقام کی اہانت کی جرات بخشی تھی وہ عمر بن خطاب کا قول تھا جسے اس نے آںحضرت(ص) کے حضور میں کہا تھا:

یہ شخص ہذیان بک رہا ہے ہمارے لیے صرف کتاب خدا کافی ہے!

اس باب میں وہابیت جو کچھ چاہتی ہے زور و زبردستی لوگوں کے اذہان میں داخل کرتی ہے اس لیے کہ اس کا کہنا ہے کہ محمد(ص) کا کردار ختم ہوا اور ان سے سوائے تاریخ کے کچھ نہیں بچا ہے اور جو بھی ان سے توسل اختیار کرے گویا اس نے ان کی پرستش کی ہے اور خدا کی خدائی میں انہیں شریک بنایا ہے۔

اور یہ کوئی تازہ فکر نہیں ہے بلکہ یہ تاریخی حیثیت رکھتی ہے جیسا کہ خود حضرت ابوبکر نے اعتراف کرتے ہوئے صراحت کے ساتھ اعلان کیا۔ اور چیلنج کر کے کہا:

اے لوگو! جو بھی محمد(ص) کی پرستش کرتا تھا وہ جان لے محمد(ص) مرچکے ہیں اور جو بھی خدا کی پرستش کرتا تھا وہ جان لے کہ خدا زندہ ہے اور ہرگز نہ مرے گا۔

اس بیان کی وجہ اور علت کیا تھی؟ جب کہ وہ جانتے تھے کہ مسلمانوں میں کوئی بھی آںحضرت(ص) کی پرستش نہیں کرتا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ حضرت ابوبکر یہ سمجھتے تھے کہ واقعا بعض مسلمان آںحضرت(ص) کی پرستش کرتے ہیں۔ اگر ایسا تھا پھر آںحضرت(ص) کیوں خاموش رہے اور ان کو منع نہیں کیا؟ بلکہ ان کو کیوں قتل نہ کر ڈالا؟

۲۰۴

بہر حال میں ذاتی طور پر یہی عقیدہ رکھتا ہوں کہ ہو بھی وہی عقیدہ رکھتے تھے جو آج وہابیت کے یہاں وجود میں آیا ہے۔ یعنی وہ آںحضرت(ص) کا احترام و اکرام ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ اور بلاشبہ اس پر جل بھن جاتے تھے۔ اور جس وقت دیکھتے لوگ پیغمبر(ص) کے وضو سے بچے ہوئے پانی کو اپنے اوپر ملنے میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرتے ہیں۔ اور اس سے متبرک ہوتے ہیں اور آںحضرت(ص) واہل بیت(ص) کی محبت مودت کے ذریعہ خدا سے تقرب حاصل کرتے ہیں اور خدا سے نزدیک ہوتے ہیں تو لوگوں کے اس عمل سے قریش میں برعکس اثر ہوتا۔ لہذا وہ آںحضرت(ص) کی ذات سے دشمنی رکھتے تھے۔ گرچہ وہ کسی اشتباہ کے مرتکب نہ ہوتے تھے۔

آخر کار قریش کے لیڈر، معاویہ بن ابو سفیان  نے اپنے اس باطنی کینہ سے پردہ اٹھا دیا اور جس وقت مغیرہ نے اس سےکہا:

اے امیرالمؤمنین کتنا اچھا ہوتا کہ تم ہاشم میں اپنے عزیزوں پر لطف و کرم کرتے۔ خدا کی قسم ان کے پاس کوئی چیز نہیں بچی ہے جس سے آپ ڈریں آپ کا یہ عمل آپ کے حق میں نفع بخش ہوگا۔

معاویہ نے کہا:

برادر بنی تمیم(ابوبکر) نے حکومت کی لیکن جیسے ہی اس دنیا سے گئے نام ختم ہوگیا۔ البتہ کوئی کبھی یاد کرلیتا ہے۔ برادر عدی(عمر) نے حکومت کی اور دس سال خود خواہی اور قدرت کی بنیاد پر لوگوں پر سلط رہے۔ لیکن جس وقت دنیا سے گئے ان کا نام بھی ان کےساتھ ختم ہوگیا، مگر یہ کوئٰ کہے حضرت عمر! اور حضرت عثمان نے بھی حکومت کی اور جو کچھ چاہا کیا لیکن جیسے ہی دنیا سے سدھارے ان کا نام بھی دینا سے رخصت ہوگیا۔ کسی کا نام بھی نہیں بچا سوائے ابن ابی بکر کشبہ(مراد رسول خدا(ص) ہیں) کے ، کسی اور کا نام نہیں بچا ہے اور ہر روز دن پانچ مرتبہ یاد کیا جاتا

۲۰۵

ہے۔ اور لوگ کہتے ہیں۔(اشہد ان محمد رسول اللہ) یہ کون سی یاد ہے جو باقی رہ جانا چاہتی ہے۔ تیری ماں تیرے سوگ میں بیٹھے، خدا کی قسم اس کے نام کو دفن کردوں گا اور مٹی میں ملا دوں گا۔

یہ وہی وہابیت ہے جس کا کل بہترین شکلی اور فصیح ترین عبارتوں میں نقشہ تیار کیا گیا اور آج کل اس کو عملی شکل دے رہے ہیں۔

(وہ چاہتے ہیں اپنے منہ سے نور خدا کو خاموش کردیں لیکن خدا اسے پورا کر کے رہے گا چاہے کافروں کو اچھا نہ لگے۔(صف / ۸)

۲۰۶

وہابیت اور زیارت قبور کی تحریم

اس وقت کی رائج بدعتوں میں ایک بدعت عورتوں پر قبر کی زیارت کو حرام قرار دینا ہے۔ مسلمان عورت جب خانہ خدا کی زیارت اور حج کے لیے جاتی ہے تو اسے بقیع اور شہداء احد اور دیگر قبور کی زیارت کی اجازت نہیں ملتی۔

وہابیت نے اس کو حرام قرار دیا ہے اور اس کے پاس اس کو حرام قرار دینے میں سوائے تعصب کے کوئی اور دلیل نہیں ہے۔

مسلم اپنی صحیح میں باب جنائز کے اندر نقل کرتے ہیں کہ:

حضرت عائشہ نے رسول خدا(ص) سے  پوچھا۔ عورت اگر قبروں کی زیارت کے لیے نکلے تو کیا کہے۔

حضرت نے ان سے فرمایا:

کہے: اے قوم جو آرام سے اپنے گھروں میں سوئی ہے تم پر سلام ہو تم ہم سے پہلے چلے گئے اور ہم بھی جب خدا نے چاہا تم سے ملحق ہو جائیں گے۔ خداواند عالم گذرے ہوئے اور جو بعد میں؟؟؟ ہیں ان کی مغفرت فرمائے۔

اسی طرح بخاری نے اپنی صحیح میں انس بن مالک سے نقل کیا ہے کہ: آںحضرت(ص) ایک عورت کے قریب سے گذرے جو ایک قبر کے پاس بیٹھی ہوئی رو رہی تھی آپ(ص) نے فرمایا: تقواے الہی اختیار کر اور صابر رہ۔ اس عورت نے کہا: مجھ سے دور ہوجاؤ۔ تم میری مصیبت میں نہ گرفتار ہو اور نہ ہی اسے جانتے ہو۔ اس عورت سے کہا گیا کہ یہ رسول(ص)

۲۰۷

تھے۔ وہ عورت رسول(ص) کے گھر آئی اور عرض کیا: میں نے آپ کو نہ پہچانا مجھے معاف فرمائیے۔ آںحضرت(ص) نے فرمایا: اولین صدمہ اور مصیبت کے لیے صبر ہے۔

اس سلسلے میں حدیثیں بکثرت موجود ہیں اہل سنت کی کتب صحاح اور شیعوں کی کتابیں اس سے مالامال ہیں لیکن وہابیت اس کا انکار کرتی ہے اور اس کے لیے کس قدر قیمت ی قائل نہیں اور جس وقت ان میں سے بعض لوگوں پر میں نے اعتراض کیا اور احادیث کے ذریعہ استدلال کیا تو وہ کہنے لگے یہ روایتیں منسوخ ہوچکی ہیں۔

میں نے کہا بلکہ اس کے برعکس ! تحریم منسوخ ہےاس لیے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا:

میں پہلے تم کو قبروں کو زیارت سے روکتا تھا لیکن اس وقت کہتا ہوں کہ زیارت کرو کیوںکہ یہ تمہیں موت کی یاد دلاتی ہے۔

جواب ملا: یہ حدیث مردوں کے لیے مخصوص ہے عورتیں اس سے خارج ہیں،

میں نے کہا : تاریخ میں ثابت ہوا ہے اور محققین اہلسنت نے بھی اسے بیان کیا ہے کہ حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا ہر روز اپنے بابا کی قبر کی زیارت کو جایا کرتی تھیں، اور فرماتی تھی:

میرے بابا! مجھ پر وہ مصیبتیں نازل ہوئیں جو اگر دنوں پر پڑتیں تو شب تاریک میں بدل جاتے۔

یہ بھی مشہور ہےکہ حضرت علی(ع) نے ان کے لیے ایک گھر بنایا تھا جس کا نام بیت الحزن تھا اور وہ اپنا زیادہ تر وقت بقیع میں گزارتی تھی۔

اس نے کہا: اگر فرض کر لیں کہ یہ حدیث درست ہے تو یہ فاطمہ(س) سے مخصوص ہے۔

۲۰۸

اسے کہتے ہیں ( اندھا تعصب!) ورنہ مسلمان کیوں کر قصور کر سکتا ہے کہ خدا اور اس کا رسول(ص) عورت کو اس بات سے روکیں کہ وہ اپنے والدین، بھائی، اولاد اور شوہر کی قبروں پر جائے اور ان کے لیے طلب رحمت و مغفرت کرے اور ان کی قبروں پر اشک رحمت چھڑکے اور خود بھی موت کو یاد کرے جس طرح مرد یاد کرتا ہے۔

عورت کی نسبت اس کھلے ہوئے ظلم پر خدا اور اس کا رسول(ص) راضی نہ ہوں گے اور کوئی بھی عقل مند اسے قبول نہ کرے گا

۲۰۹

۲۱۰

۲۱۱

بڑی غلطی پر ان کا سختی سے محاسبہ کرتے ہیں۔

اور کبھی ایک بھول یا معمولی غلطی پر پٹائی کرتے ہیں اور ان پر درجہ سختی کرتے ہیں کہ وہ تھک جاتے اور دین سے متنفر ہوجاتے ہیں جبکہ وہ ابھی سن بلوغ تک بھی نہیں پہنچے ہوتے، یہ وہ چیز ہے جسے ہم نے خود دیکھا ہے۔ شایدخود آپ نے بھی اپنے عزیزوں میں ایسے بچوں کو دیکھا ہو جو سختی کی بنیاد پر نماز پڑھتے ہیں۔

اور جس وقت ماں باپ کی پکڑ کمزور پڑتی ہے تو اس زنجیر کو توڑ کر نکل جاتے ہیں اور نماز کو بالکل ترک کر دیتے ہیں۔

میں نے کئی مرتبہ کوشش کی کہ اپنے عزیزوں میں کچھ والدین کو اس بات پر راضی کروں کہ نماز نہ  پڑھنے پر بچوں کی پٹائی نہ کیا کریں اور ان کو زبردستی نماز پڑھنے پر مجبور نہ کیا کریں بلکہ محبت و مہربانی اور نرمی کے ساتھ پیش آئیں تاکہ نماز ان کی نظر میں محبوب بنے نہ کہ ڈراؤنا خواب۔

لیکن  میں جب اس بات کو کہتا تو وہ کہتے کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا:

سات یا دس سال (روایت میں اختلاف ہے) کے بعد نماز کے لیے بچوں کی پٹائی کرو۔ اس طرح خواہ جوانوں نے عیسائی مبلغوں کی پیروی نہ کی ہو لیکن نماز کو ضائع کردیا اور اپنے دین کو چھوڑ دیا۔ جب کہ انھیں کھیلوں اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں کو چھوڑنا چاہیے تھا جو ذکر خدا سے روک دیتے ہیں۔

۲۱۲

مکتب اہل بیت(ع) میں مشکل کا حل

جو ابھی اسلامی تربیت کے لیے مکتب اہل بیت(ع) کی پیروی کرتا ہے اسے ایسی راہ حل ملتی ہے جس کو خداوند عالم نے اپنے بندوں کے لیے قرار دیا ہے جو  ان کے لیے دین کو آسان کردے اور احکام کو ہر چھوٹے بڑے تک پہنچا سکے۔

خداوند عالم فرماتا ہے:

خدا نے تمہارے لیے دین میں مشقت قرار نہیں دی ہے۔(حج/ ۷۸)

خدا تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے نہ کہ زحمت ومشکل۔ ( بقرہ / ۱۸۵)

خدا ہر شخص پر اس کی قوت کے مطابق فرائض معین کرتا ہے۔(بقرہ / ۲۸ 6 )

رفع حرج

رفع حرج یعنی سختی اور دباؤ کو ختم کرنا اور یہ اسلام کا ایک قاعدہ کلیہ ہے کہ ہرج و مرج کو ختم کردیا گیا اور ہر زحمت ممنوع ہے لیکن اگر واقعیت یہی ہے تو پھر یہ ساری سختیاں جو فقہی کتابوں میں موجود ہیں وہ کس لیے ہیں؟

اگر مسلمان (اہل سنت حضرات) کے بعض ابواب وضو اور غسل کر پڑھے تو اسے احساس ہوگا کہ آسانی کس حد تک مشکل میں تبدیل ہوچکی  ہے اور انسان پر اسکی طاقت سے زیادہ فرائض عائد کئے گئے ہیں مثلا تحریر ہے کہ اگر غسل کے بعد غسل کرنے والے ہاتھ اس کے عضو تناسل سے لگ جائے تو اسکا غسل باطل ہے اور اسے بھر سے غسل کرنا پڑیگا۔

مکتب اہل بیت(ع) میں، اہل بیت(ع)  نے اپنے جد حضرت رسول خدا(ص) سے روایت نقل کی ہے کہ وضو و غسل (یعنی دوبارہ دھونا) اور دو مسح ہے( یعنی چہرہ اور ہاتھ کو دھونا اور سرو پا کا مسح ہے۔)

۲۱۳

یہ ہے وضو

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ خداوند عالم نے مسلمانوں پر واجب کیا ہے کہ وہ نماز سے پہلے وضو کریں خداوند عالم فرماتا ہے:

اے رسول(ص) ! اگر نماز کے لیے اٹھو تو چہرہ کے بعد ہاتھوں کو کہنی تک دھوؤ۔ اور اپنے سرو پیرکا ابھرے ہوئے حصہ تک مسح کرو۔(مائدہ/6 )

لہذا وضو چہرہ اور ہاتھوں کے دھونے اور سر وپا کا مسح کرنے کا نام ہےجیسا کہ ہم دیکھتے ہیں یہ بہت ہی آسان ہے اس میں کوئی زحمت بھی نہیں ہے۔ مسلمان مقیم ہو یا مسافر ائرپورٹ پر ہو یا ٹرین میں یا پھر گھر میں اس وضو سے اس کے لیے کوئی مشکل نہ ہوگی۔ پائپ کھولے چہرہ اور اپنے دونوں ہاتھوں کو دھولے اور تل کو بند کردے۔ اورپھر سرو پا کا ہاتھ کی بچی ہوئی رطوبت سے مسح کرے۔ حتی اگر وہ چاہے تو نماز ادا کرنے کی جگہ تک جوتے کو نہ اتارے(اگر نماز ادا کرنے کی جگہ نزدیک ہو) تو وہاں جوتا اتارے اور پھر پاؤں پر مسح کرے۔

لیکن اہل سنت فقہ کے مطابق وضو بہت ہی سخت ہے کلائیوں تک دونوں ہاتھوں کو تین مرتبہ دھونا۔ تین مرتبہ کلی، تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالنا، تین مرتبہ چہرہ دھونا، تین مرتبہ داہنے ہاتھ کو دھونا ، تین مرتبہ بائیں ہاتھ کو دھونا، پورے سر، اور کان کا مسح، تین مرتبہ داہنے پیر کا دھونا اور تین مرتبہ بائیں پیر کا دھونا۔

ایسا وضو اور خصوصا جوانوں کے لیے سفر کی حالت میں اور خاص کر ٹھنڈک میں جب کہ پیروں کو دھونا ہو اور پھر موزہ پہننے کےلیے پیروں کو خشک کرنا اس میں ان کےلیے کس درجہ زحمت  ہے۔

۲۱۴

لیکن مکتب اہل بیت(ع) میں نص کے مقابل اجتہاد اور ذاتی رائے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور قرآن و سنت رسول(ص) کے مطابق عمل ہوتا ہے۔ جو وضو اس مکتب میں ہے اسی کو قرآن نے بھی مسلمانوں پر واجب کیا ہے۔ اور رسول خدا(ص) و ائمہ اطہار(ع) اسی طرح وضو کرتے تھے۔

خدا رحمت کرے عبداللہ بن عباس پر آپ ہمیشہ تکرار کرتے  رہتے کہ :

کتاب خدا میں سوائے دو دھونے  اور دو مسح کے ہمیں اور کچھ نہیں ملتا لیکن تم لوگ تو صرف سنت حجاج کی پیروی کرنا چاہتے ہو۔ ( مصنف عبدالرزاق،ج ۱، ص۳۸)

لہذا آج مسلمانوں پر اور خاص کر سمجھدار جوانوں پر واجب ہے کہ آسانی اور سہولت کی طرف پلٹ آئیں اور لوگوں کو دین کی طرف رغبت اور شوق دلائیں، جناب رسول خدا(ص) نے مسلمانوں کے درمیان کس قدر تاکید فرمائی ہےکہ اس قاعدہ پر عمل کریں۔

لوگوں سہولت سے کام لو، مشکل پیدا نہ کرو اور لوگوں کو متنفر نہ کرو۔

خود اپنے آپ پر سختی نہ کرو تا کہ خدا بھی تم سے سختی سے کام نہ کے جیسا کہ اس نے بنی اسرائیل کے ساتھ کیا۔

یہ تجربہ معمولا کامیابی سے ہمکنار ہورہا ہے۔ کتنے ایسے جوان تھے جو وضو کی وجہ سے نماز سے گریز کرتے تھے۔ یا نماز کو تیمم سے پڑھتے تھے ۔ اس ڈر سے کہ کہیں پانی ان کے پاؤں کے لیے مضر نہ ہو۔

لیکن اہل بیت(ع) کی روش کے مطابق وضو انھیں سکون حاصل ہوا اور وہ مطمئن ہوگئے۔

۲۱۵

یہ ہے نماز

مکتب اہل بیت(ع) میں نماز پانچ وقت پڑھنے کے بجائے تین وقت پڑھتے ہیں۔ یعنی نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب عشاء یکے بعد دیگری  پڑھتے ہیں۔ اور ایک وقت نماز صبح کے لیے نماز و عصر کےلیے اور ایک وقت نماز مغرب و عشاء کے لیے معین کر رکھا ہے۔

ہم نے اپنی کتاب ( سچوں کے ساتھ ہوجاؤ) میں ایک باب قرآن کریم اور سنت پاک کی روشنی میں ان تین وقتوں کی شرعی حیثیت سے مخصوص کیا ہے۔ہم طالب کو طول دینا نہیں چاہتے اور جس بات کا تذکرہ پہلے کیا ہے اس کی تکرار نہیں کرنا چاہتے ہمارے محقق احباب اس کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔

لیکن اس جگہ ان تین وقتوں میں نمازوں کو قرار دینے کی الہی حکمت سے متعلق توضیح دینا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی تذکرہ کیا ہے۔ سماج کا ین چوتھائی حصہ نوکری پیشہ ہے۔ یہ یا تو نماز نہیں پڑھتا ہے یا اگر پڑھتا ہے تو کسالت اور سستی کے ساتھ پڑھتا ہے اور پھر پڑھنے میں مشقت اور سختی محسوس کرتا ہے۔

اس لیے کہ انھیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ شرعا کام میں کمی نہیں کرسکتے۔ اور جس وقت میں کام کی تنخواہ لیتے ہیں اس میں نماز نہیں پڑھ سکتے۔ البتہ ہم ان لوگوں سے کوئی بحث نہیں کرنا چاہتے جو مسجد میں پکار پکار کر کہتے ہیں نماز کے وقت کام چھوڑ دو چاہے اس کی وجہ سے تمہیں کام سے نکال دیا جائے اس لے کہ روزی کا دینے والا خدا ہے نہ کہ کارخانہ کا مالک اور منیجر!!!

۲۱۶

تعجب تو اس وقت ہوتا ہے جب یہی نظریہ رکھنے والے افراد خود اسی موضوع میں متضاد نظر آتے ہیں۔ ہم نے انھیں میں سے ایک شخص کو دیکھا وہ حضرت عمر بن خطاب کی تعریف کرتے ہوئے کہہ رہا تھا حضرت عمر مسجد میں وارد ہوئے ایک شخص کو دیکھا جو لوگوں کے آنے سے پہلے نماز پڑھ رہا تھا۔ دوسری مرتبہ آئے دیکھا وہی شخص نماز پڑھ رہا ہے۔ اور جب تیسری مرتبہ دیکھا تو کہا کون تمہاری روزانہ کی زندگی کا خرچ دیتا ہے۔ اس نےکہا میرا بھائی مجھے کھانا کھلا تا ہے اور لباس پہناتا ہے جناب عمر نے اس سے کہا مسجد سے باہر نکل جاؤ اس لیے تیرا بھائی تجھ سے بہتر ہے۔ آسمان سے تو سیم و زر نہیں برستا۔

میں اس کو کنارے لے گیا اور اس سےکہا کہ کیا تم نے ایک ماہ پہلے یہ نہ کہا تھا کہ خدا اپنے بندوں کو روزی دیتا ہے۔ تمہارے اوپر ضروری ہے کہ نماز کے وقت کام چھوڑ دو۔ اس نے بزرگانہ مسکراہٹ کے ساتھ میری طرف دیکھا اور کہنے لگا ( ہر سخن جائی دارد) میری پہلی بات قرآن سے تھی اور دوسری بات حضرت عمر فاروق کے حوالہ سے تھی اور یہ دونوں باتیں حق ہیں میں نے اس سے کہا خدا تجھے جزائے خیر دے میں نے بڑا استفادہ کیا۔

ہم پھر دو نمازوں کو ایک وقت میں انجام دینے میں الہی حکمت کی طرف پلٹتے ہیں۔ کہ خداوند عالم زمین و زمان کا خالق ہے اور ماضی ، حال اور مستقبل سے آگاہ ہے۔ اس کا علم ہر چیز کا احاطہ کئے ہے۔

خدا کو علم تھا کہ ایک زمانہ میں لوگوں کی ذمہ داریاں زیادہ ہوں گی اور ان کی آزادی کم اور وقت محدود ہوگا۔ اور چونکہ حضرت محمد (ص)خاتم الانبیاء ہیں اور آپ کی شریعت قیامت تک باقی ہے اور حکمت الہی اس بات کا تقاضا کرتی ہے۔ کہ بندوں کےلیے آسانی پیدا کی جائے اور عسر وحرج کو ختم کیا جائے لہذا اپنے

۲۱۷

رسول(ص) سے فرمایا: نماز ظہر و عصر، مغرب و وعشاء کو ایک ساتھ ادا کریں اور یہی روش امت کو تعلیم فرمائیں۔ تاکہ ان پر سے حرج اور سختی ختم ہوجائے۔

پیغمبر(ص) نے اس حکم پر عمل کیا اور کئی مرتبہ مدینہ منورہ میں اسی روش پر نماز ادا کی اور جس وقت آپ سے سوال کیا گیا تو آپ(ص) نے فرمایا:

میں اپنی امت پر سختی نہیں چاہتا۔

صحیح بخاری میں آیا ہے کہ ابن عباس نے کہا:

رسول خدا (ص) نے مدینہ میں سات رکعتی اور آٹھ رکعتی نماز پڑھی، یعنی ظہر و عصر اور اسی طرح مغرب و عشاء۔

یہ ہے حکمت الہی اور یہ ہے رسول خدا (ص) کی نماز، جسے آںحضرت(ص) نے پروردگار کے حکم کی بنیاد پر انجام دیا۔ تاکہ امت کے لیے فشار و سختی کا باعث نہ ہوں۔

ہم کیوں اس روش کو چھوڑ دیتے ہیں جبکہ یہ سہل اور آسان ہے اور ملازم، کاریگر، طالب علم اور فوجی سبھی کے لیے سازگار اور ممکن ہے اور کوئی کام ایسا نہیں جو ان وقتوں سے بڑھ کر ہو۔ اس طرح اب کسی مسلمان کےلیے کوئی بہانہ نہیں۔

یہ بات دنیا میں معروف ہے کہ ڈیوٹی کا وقت  آٹھ گھنٹے ہوتا ہے ۔ اور دو حصوں میں کام ہوتا ہے صبح ۸ بجے سے لے کر ۱۲ بجے تک اور بیچ میں دو گھنٹہ استراحت پھر ۲ بجے سے لےکر شام کے 6بجے تک۔ اس صورت میں مسلمان نماز ظہر و عصر کو آرام کے وقت میں کام پر دوبارہ جانے سے پہلے انجام دے سکتا ہے۔ اس طرح اس نے نماز ظہر و عصر کو اس کے صحیح وقت پر انجام دیا ہے چنانچہ نہایت آرام سے کام پر آسکتا ہے۔

لیکن اگر کام سارے دن کا ہو جیسے معدنیات یا اس سے مشابہ جگہوں پر کام تو (قانون کار) ۷ گھنٹے مسلسل کام کو تجویز کرتا ہے۔ اور آدھا گھنٹہ آرام کے

۲۱۸

لیے دیتا ہے اس قسم کی کمپنیاں کام کو تین شفٹوں میں معین کرتی ہیں۔

۱ـایک گروہ صبح ۷ بجے سے ۲ بجے تک کام کرتا ہے۔

۲ـدوسرا گروہ ۲ بجے (بعد از ظہر) سے رات کے ۹ بجے تک کام کرتا ہے۔

۳ـ اور تیسرا گروہ ۹بجے رات سے ۴بجے صبح تک کام کرتا ہے۔

نماز کے لیے اس حکمت الہی کے تحت یہ سارے گروہ بغیر کسی زحمت کے اپنے وقت پر نماز ادا کرسکتے ہیں۔

اور کوئی بھی عذر نہیں کرسکتا کہ اس کے پاس نماز ادا کرنےکا وقت نہیں ہےیا یہ کہ نماز وقت جارہا ہے اور وہ نماز ادا نہیں کرسکتا۔

اس طرح ہم نماز ادا کرنے میں قرآن و سنت کی پیروی کریں گے۔

اس لیے کہ حکم یہی ہےکہ مومنین نماز کو اس کے وقت پر انجام دیں۔ اسی کے ساتھ ہم اپنی اور دوسروں کی سختی و مشقت کو بھی دور کرسکتے ہیں۔

شاید بہت سے جوان جنہوں نے اپنی نماز کو ترک کردیا ہے پھر سے نماز کی آغوش میں پلٹ آئیں۔ اگر انھیں یہ پتہ چل جائے کہ خدا نے اسی امر کی تشریح کی  ہے اور رسول خدا(ص) اور آپ کے اہل بیت(ع) نے ایسے ہی انجام دیا ہے

۲۱۹

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

سائنسداں میوہ جات کے کیٹروں کی عمرکو اس نوع کے دیگر کیٹروں کی طبیعی عمر سے نو سو گنا بنا نے میں کا میاب ہوگئے ہیں _ یہ کا میابی انھیں اس لئے میسر آئی ہے کے انہوں نے اس جاندار کو ز ہر اور دشمنوں سے محفوظ رکھا اور اس کے لئے مناسب ما حول فراہم کیا تھا(۱)

انجینئر : میں نے بھی اپنے مطالعات کے در میان چند علمی اور دلچسپ مقا لے دیکھے ہیں کہ جن میں سائنسد انوں نے طول عمر کے راز ، ضعیفی و موت کے علل اور ان سے مبارزہ کے متعلق بحث کی ہے _ لیکن وقت ختم ہوگیا ہے اس لئے بہتر ہے کہ ان کا تجزیہ آیندہ جلسہ پر موقوف کیا جائے _

ہفتہ کی شب میں جناب فہیمی صاحب کے گھر جلسہ منعقد ہوا ، ہوشیار صاحب نے انجینئر صاحب سے خواہش کی کہ اپنے مطالب بیان کریں _

انجینئر : بہتر ہے کہ ان مقالات کامتن ہی آپ حضرات کے سامنے پیش کروں شاید مشکل حل ہو سکے _

طول عمر کے بارے میں

موت کے کارشناس و ماہر پروفسیر متالینکف لکتھے ہیں : انسان کا بدن تیس ٹر یلین مختلف خلیوں سے تشکیل پایا ہے وہ سب یکبار گی نہیں مر سکتے_ اس بنا پر موت موت اس وقت مسلّم ہوگی جب انسان کے مغز میں ایسے کیمیائی تغیرات واقع

____________________

۱ _ منتخب الاثر ص ۲۷۸ منقول از مجلہ الھلال _

۲۴۱

ہوجائیں کہ جن کی مرمت ممکن نہ ہو ۳۰ اگست ۱۹۵۹ء کو ڈاکٹر ہانس سیلی نے کنیڈا کے شہر مونٹرال میں اخباری نمائندوں کو ایک خلیئےی ساخت و بافت دکھائی اور بتا یا کہ یہ زندہ خلیہ حرکت میں ہے اور ہر گز نہیں مرے گا _ موصوف نے مزید دعوی کیا کہ یہ خلیہ ازلی ہے اور کہا : اگر انسان کے بافت خلیہ بھی اسی شکل میں لے آئیں تو انسان ایک ہزار سال تک زندہ رہے گا _

پر وفیسر سیلی کا خیال ہے کہ موت تھیوری کے نقطہ نگاہ سے ایک تدریجی بیماری ہے _موصوف ہی کا نظریہ ہے کہ کوئی شخص بڑھا پے کی وجہ سے نہیں مرتا ہے کیونکہ اگر کوئی شخص ضعیفی کی وجہ سے مرے تو اس کے بدن کے خلیوں کو فرسودہ اور بیکار ہوجانا چاہئے جبکہ ایسا نہیں ہے بلکہ بہت سے بوڑھوں کے مختلف اعضاء اور ان کے بدن کے خلئے سالم رہتے ہیں ان میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا _ بعض لوگوں کا انتقال اس لئے اچانک ہوجاتا ہے کہ یک بیک ان کے بدن کا کوئی عضو بیکار ہوجاتا ہے اور چونکہ بدن کے تمام اعضاء ایک مشین کے پرزوں کی طرح مربوط و متصل ہیں اس لئے ایک کے بے کار ہوجانے سے سارے بیکار ہوجاتے ہیں _ پروفیسر سیلی نے اعلان کیا علم طب و میڈیکل سائنس ایک دن اتنی ترقی کرے گا کہ فرسودہ خلئے کی جگہ انجکشن کے ذریعہ نیا خلیہ انسان کے بدن میں رکھدیا جائے گا اور اس طرح انسان جب تک چاہے گا زندہ رہے گا _(۱)

ای ای مچنیکف کے نقطہ نظر سے فیزیولوجی بڑھاپے جو کہ طبیعی پیش رفت کا

____________________

۱_ مجلہ دانشمند شمارہ ۷

۲۴۲

نتیجہ ہے اور اس ضعیفی کو جو کہ ارگانزم کی اساس پر مختلف تاثیرات _ زہر ، امراض اور دوسرے مخصوص عوامل _ کا نتیجہ ہے ، کو معین کر سکتا ہے _ اس کے نظریات کی بنیاد یہ ہے کہ انسان کا بڑھا پا ایک بیماری ہے لہذا تمام بیماریوں کی طرح اس کا بھی علاج ہونا چاہئے اس کا نظریہ تھا کہ انسان کی زندگی موجودہ زندگی سے زیادہ ہوسکتی ہے اور مزید آگے بڑھ سکتی ہے _ انسان کی زندگی درمیان را ہ گم ہوتی ہے ، اپنی اصل منزل تک نہیں پہنچتی ، لیکن میرے لحاظ سے تمام کوشش کرنا چاہئے تا کہ بشر بڑھاپے ، انحطاط کے بغیر اپنی فیزیولوجی کی عادی ضعیفی تک پہنچ جائے _(۱)

طول عمر

پروفیسر سلیہ اور اس کا عملہ ایک طویل تجربہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ کیلشم( calcium ) کا نقل و انتقال ضعیفی اور اس کی تغیرات کا عامل ہے _ کیا بڑھا پے کے عوارض کے علاج کے لئے کوئی چیز ایجاد ہوتی ہے یا نہیں؟ سلیہ نے مکرر تجربوں کے بعد ، ایرون ڈکٹر ان کے مادہ کا انکشاف کیا ہے جو کیلیشیم کو اجزاء ترکیبی سے روکتا ہے _ اس بناپر کہاجاتا ہے کہ ضعیفی کی علامتیں اور عوارض حیوانات پر کئے جانے والے تجربوں کے ذریعہ انسان کی دست رس میں آچکے ہیں اور اس سے تحفظ کا وسیلہ مل گیا ہے _ پروفیسر سلیہ کا نظریہ ہے کہ اس بات کا تو احتمال بھی نہیں دیا جا سکتا کہ نوے سالہ انسان کو ساٹھ سالہ انسان کی زندگی کی حالت کی طرف پلٹا یا جا سکتا ہے لیکن ساٹھ

____________________

۱_ مجلہ دانشمند شمارہ ۵ ۱۳۴۲ ھ ش _

۲۴۳

سالہ انسان کی زندگی کو عوارض سے بچا کر نوے سالہ عمر میں بھی ساٹھ سالہ عمر کی حالت میں رکھا جا سکتا ہے _(۱)

پروفیسر اتینگر نے اپنی ایک تقریر کے دوران کہا:'' جوان نسل ایک دن انسان کی جاویدانی اور ابدی حیات کو اسی طرح قبول کرے گی جیسا کہ آج لوگوں نے فضائل سفر کو تسلیم کر لیا ہے _ میرا نظریہ ہے کہ ٹیکنالوجی کی ترقی اور اس تحقیق سے جس کا ہم نے آغاز کیا ہے کم از کم آئندہ صدی کا انسان ہزاروں سال کی زندگی بسر کرے گا _(۲)

ایک روسی کتاب کا خلاصہ

روس کا مشہور سائنسدان مچنیکوف طویل العمری کو انسان کی قدیم ترین امیدوں میں سے اسک کہتا ہے _ لیکن ابھی تک عمر میں اضافہ کے لئے کوئی عملی طریقہ کشف نہیں ہوسکا ہے _ واضح ہے کہ طبیعی زندگی کے خاتمہ کا نام موت ہے اور کسی جاندار کو اس سے مضر نہیں ہے _

۱_ ضعیفی کی علّت انسان کا بدن تقریباً ساٹھ تریلین خلیوں سے تشکیل پایا ہے _ یہ خلئے ایک منزل پر پہنچ کربوڑھے ہوجاتے ہیں اور اس صورت میں اپنی زندگی کی ضرورت کو بڑی مشکل سے پورا کرتے ہیں _ ان کی تولید مثل میں اختلاف پیدا ہوجاتا ہے اور اس کے بعد انسان مرجاتا

____________________

۱_ دانشمند شمارہ۵ ۳۴۲۱ ہ ش

۲_ دانشمند شمارہ ۶ سال ششم

۲۴۴

ہے _ عصبی خلئے اور مرجانے والے عضلات کی تعداد رفتہ رفتہ بڑھ جاتی ہے اور ایک کپڑے کی شکل میں سخت ہوجاتے ہیں _ اس سخت ہونے سے ماہیچے اور اعصاب ، مرجانے اور بڑھنے والے خلیوں ، جن کو اسکلروز soclerose کہتے ہیں جیسے قلب کے اسکلروز ، رگوں کے اسکلروز ، اعصاب کے اسکلروز و غیرہ _

روس کے مشہور ڈاکٹر اور فیزیولوجسٹ ایلیا مچنیکوف کا خیال تھا کہ یہ وقوعہ ٹرکشین کے زہر کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے _ حیوان کے بدن میں جراثیم جاگزین ہوجاتے ہیں اور اس زہر کو انسان اندرونی اعضا میں پیدا کرتے ہیں اور رفتہ رفتہ زندہ خلیوں کے تعمیر کو مسموم کردیتے ہیں _ پالوف کا نظریہ تھا کہ اعصاب کا سلسلہ خصوصاً مغز کا خارجی دباؤ ضعیفی میں بنیادی اثر رکھتا ہے ، نفسیاتی تاثرات ، غصہ ، دل تنگی ، یاس اور وحشت سے بدن کے امراض پیدا ہوتے ہیں کہ جس سے بڑھا پا اور اس کے بعد موت آجاتی ہے _ دائمی زندگی کا خواب ایک سے زیادہ حیثیت کا حامل نہیں ہے _ لیکن انسان کی عمر بڑھانا اور ضعیفی پر غلبہ پاناممکن عمل ہے _

۲_ ضعیفی شناسی اور موت شناسی

تقریباً تین سو سال قبل علم الحیات کی ایک نئی شاخ ضعیفی شناسی ( cetmotologei ) وجود میں آئی _ اس علم کا مقصد بڑھا پے پر غلبہ پانے کیلئے عملی قوانین کی معرفت و شناخت ہے _ اس اور موت شناسی کے علم کے درمیان لطیف رابطہ ہے ، موت سے مربوط قوانین کا مطالعہ اور ممکن حد تک اسے پیچھے ہٹانا اس علم کے مسائل ہیں جو کہ اسی لم کے قلم روکا جز ہیں ، سائنسدانوں کے نقطہ نظر کے مطابق موت ہمیشہ اختلال کی وجہ سے آتی ہے جبکہ زندگی کے خاتمہ پر آنے والی موت کو فیزیالوجی کہتے ہیں_

۲۴۵

اب سائنسدان عمر بڑھانے کیلئے کوئی منطقی اور طبیعی راہ کی تلاش میں منہمک ہیں زندگی کی حد کے سلسلے میں دانشوروں کے درمیان اختلاف ہے _ پاؤلوف انسان کی طبیعی حیات کی حد سو سال قرار دیتا تھا _مچنیکوف نے یک سو چالیس سے ایک سو پچاس تک تحریر کی ہے _ جرمنی کے مشہور سائنسدان گو فلانڈ کا خیال تھا کہ انسان کی عام عمر ۲۰۰ سال ہے _ انیسویں صدی کے مشہور فیزیولوجسٹ فلوگرنے ۶۰۰ سال اور برطانوی ورد جربیکن نے ۱۰۰۰ سال تحریر کی ہے _ لیکن کوئی سائنسدان بھی اپنے مدعا پر اطمینان بخش دلیل پیش نہیں کرسکا _

۳_فرانسوی بوفوںکا فریضہ

فرانس کے مشہور طبیعی داں بوفون کا نظریہ تھا کہ ہر جاندار کی مدت عمر اس کے رشد کے زمانہ کے پانچ گناہوتی ہے _مثلاً شتر مرغ کے نمو کی عمر آٹھ سال ہے تو اس کی عمر کا اوسط چالیس سال ہے _ گھوڑے کے رشد کا زمانہ ۳ سال ہے تو اس کی عمر ۱۵_ ۲۰ سال ہوتی ہے _ بوفون نے اس طرخ نتیجہ نکالا ہے کہ انسان کے نمو کی مدت ۲۰ سال ہے لہذا اس کی عمر کا اوسط ۱۰۰ سال ہے _ لیکن بوفون کے فارمولہ میں بے پناہ استثنائی موارد ہیں اسی لئے اسے اہمیت نہیں دی گئی ہے کیونکہ گوسفند کے رشد کی عمر پانچ سال ہے اور اس کی کل عمر ۱۰_ ۱۵ سال ہوتی ہے _ طوطے کی رشد کا زمانہ ۱۲ سال ہے لیکن سو سال تک زندہ رہتا ہے _ با وجودیکہ شتر مرغ کے رشد کی عمر تین سال میں ختم ہوجاتی ہے لیکن ۳۰_۴۰ سال تک زندہ رہتا ہے _ سائنسدان ابھی انسان کی طبیعی زندگی کی یقینی سر حد معین نہیںکر سکے ہیں _ لیکن ان میں سے اکثر کا نظریہ ہے کہ عمر گھٹا نے والے اختلال اور بیماریوں کو رفع کرکے انسان کی عمر کو ۲۰۰ سال تک بڑھایا

۲۴۶

جا سکتا ہے _ یہ نظریہ بھی ابھی تک تھیوری ہی کی صورت میں موجود ہے مگر اسے موہوم اور غیر حقیقی نہیںقرار دیا جا سکتا _

۴_ انسان کی متوسط عمر

قدیم یونان میں انسان کی متوسط عمر ۲۹ سال اور قدیم روم میں اسے کچھ زیادہ تھی سولھویں صدی میں یورپ میں انسان کی عمر ۲۱ سال ، ستر ہویں صدی میں ۲۶ سال اور انیسویں صدی میں متوسط عمر ۳۴ سال تھی _ لیکن بیسویں صدی کی ابتداء میں یہ شرح یکبارگی ۴۵_۵۰ تک پہنچ گئی _ مذکورہ شرح یورپ سے متعلق ہے _ آج کے دنیا میں طویل العمری اور موت کے کم ہونے کی بہترین دلیل بچے ہیں _ لیکن پسماندہ اور ترقی یافتہ ممالک میں اس سلسلے میں بہت زیادہ اختلاف ہے _ مثلاً روس میں متوسط عمر ۷۱ سال اور ہندوستان میں ۳۰ سا ل ہے _

حیوانات کے درمیان انسان کی عمر اوسط کوئی زیادہ نہیں ہے انسان کی عمر کے نسبی اوسط (۶۰_۸۰) کا ذیل میں موازنہ ملاحظہ فرمائیں:

بطخ ۳۰۰سال گول مچھلی ۱۵۰سال

کچھوا ۱۷۰سال مینڈک ۱۶سال

چھپکلی ۳۶سال طوطا ۹۰ سال

کوّا ۷۰سال جنگلی مرغی ۸۰ سال

شتر مرغ ۴۰ - ۳۵ سال جالاقان ۱۱۸سال

عقاب ۱۰۴ سال شاہین ۱۶۲ سال

گھوڑا گائے ۲۵ - ۳۰ سال گوسفند ۱۴_۱۲ سال

۲۴۷

بکری ۲۷_۱۸ سال کتّا ۲۲_۱۶ سال بلّی ۱۲_ ۱۰ سال

۵_ روسی سائنسدان مچنیکوف کا نظریہ

اگر ایلیا مچنیکوف کے نظریہ میں غور کیا جائے تو انسان کے نسبی سن کا چند جانوروں سے اختلاف واضح ہوجائے گا _ مچنیکوف مرگ مفاجات اور بڑھاپے کی علت خلیوں کی مسمومیت اور بیکیڑیا کے جسم کے اندر زہر پھیلانے کو قرار دیتا ہے _ یا درہے بدن کے دیگر حصّوں سے زیادہ : Rotrotic ، بیکٹیریا کا محبوب حصّہ ہے _

تخمینہ کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہاں روزانہ ۱۳۰ ٹریلین جراثیم پیدا ہوتے ہیں Rotrotic کے بہت سے جراثیم بدن کو نقصان نہیں پہنچاتے لیکن ان میں سے بعض زہریلے ہوتے ہیں _ یہ بدن کو اندر سے اپنے زہر کے وسیلہ سے قتل کی طرح مسموم کرتے ہیں _ احتمال ہے کہ بدن کے خلئے اور اس کا نظام ( بافتہا) اس زہر کی وجہ سے جلد بوڑھا ہوجاتا ہے _ مذکورہ جدول سے علوم ہوتا ہے کہ پیٹ کے بل چلنے والی مچھلیاں اور پرندے پستان دار جانوروں سے زیادہ زندہ رہتے ہیں _ کیونکہ ان جانوروں کے اندر فراخ Rotrotic نہیں ہوتا ہے اور اگر ہوتا ہے تو ایسی میں رشد بہت کم ہوتا ہے _ پرندوں میں صرف شتر مرغ فراخ Rotrotic ہوتا ہے ، اور جیسا کہ جدول سے سمجھ میں آتا ہے اس کی عمر بھی ۳۰_ ۴۰ سے زیادہ نہیں ہوتی ہے _ ان حیوانات میں کچھ جگالی کرنے والے ہیں کہ انکی زندگی سب سے کم ہوتی ہے _ اس کی وجہ شاید ان کے اندر فراخ کی نمو ہے _ جمگادڑ کے اندر بھی ایک چھوٹا Rotrotic ہوتا ہے چنانچہ حشرہ خوار جانوروں میں چمگاڈر کے ہم بدن سے زیادہ اس کی عمر ہوتی ہے _ خیال کیا جاتا ہے کہ انسان کی زندگی میں rotrotic کے فراخ و طویل ہونا بھی دخیل ہے _ لیکن اسے زیادہ اہمیت نہیں ہے کہ جس کا مچنیک نے اظہار کیا ہے _ بعض افراد نے آپریشن کے ذریعہ فراخ Rotrotic کو انکلوادیا تو

۲۴۸

مدتوں زندہ رہے _ یہ بات مسلّم ہے کہ بدن کیلئے اس عضو کا وجود ضروری نہیں ہے لیکن ایسے افراد بھی موجود ہیں جنہوں نے فراخ Rotrotic کے باوجود طویل عمر بسر کی ہے _ ضعیفی شناسی کے دانشوروں نے ایسے افراد کی تحقیقی کی ہے _

۶_ مستقبل کا انسان طویل عمر پائے گا

جن لوگوں نے دنیا میں ایک سو پچاس سال سے زیادہ زندگی گزاری ہے وہ انگشت شمار ہیں ، ان میں سے جن کے نام کتابوں میں مرقوم ہیں وہ درج ذیل ہیں:

سنہ ۱۷۲۴ ء میں ایک دہقان مجار ۱۸۵ سال کی عمر میں مرا ، جو کہ اپنی آخری عمر تک جوانوں کی طرح کام کرتا تھا _

ایک اور شخص جان راول کیعمر مرتے دم ۱۷۰ سال تھی اور اس کی زوجہ کی ۱۶۴ سال تھی _ ۱۳۰ سال انہوں نے ازدواجی زندگی بسر کی _

ایک آلبانوی باشندہ ، خودہ ۱۷۰ سال تک زندہ رہا _ مرتے دم اس کے پوتے ، پوتیوں نواسے نواسیوں اور ان کی اولاد کی تعداد ۲۰۰ تھی _

چند سال قبل اخباروں میں شائع ہوا تھا کہ جنوبی امریکہ میں ایک شخص مرا ہے جس کی عمر ۲۰۷ سال تھی _

روس میں ایسے تیس ہزار افراد ہیں جو کہ اپنی زندگی کی دوسری صدی گزار رہے ہیں _ اب روس کے سائنسدان بڑھاپے کی علت اور طول عمر کے راز کے انکشاف کرنے میں مشغول ہیں _ یقینا مستقبل میں علم انسان ضعیفی پر قابو پالے گا اور نتیجہ میں انسان اپنے آبا و اجداد سے زیادہ عمر پائے گا _(۱)

____________________

۱_ مجلہ دانشمند شمارہ ۱ ، سال ششم

۲۴۹

موت کی علّت کے سلسلہ میں غیر معروف فرضیہ

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بدن سے روح کے جدا ہونے کا نام موت ہے ، لیکن یہ بات موضوع بحث ہے کہ کیا روح کی مفارقت کی علت بدن اور اس کے عوارض ہیں؟کیا جسم ہی موت کے اسباب فراہم کرتا ہے؟

اکثر علماء اور اطبّاء نے پہلے نظریہ کو تسلیم کیا ہے وہ کہتے ہیں: جب بدن کی غریزی حرارت ختم ہوجاتی ہے تو بدن کا عام نظام درہم و برہم ہوجاتا ہے اور اس کے آلات و قوا بیکار ہوجاتے ہیں ، بدن کے اعضاء رئیسہ فرسودہ ہوجاتے ہیں ، بقا کی صلاحیت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور چونکہ روح اس فرسودہ جسم کی حیات کو جاری رکھنے اور اسے چلانے سے عاجز ہوجاتی ہے اس لئے اس سے جدا ہوجاتی ہے اور موت واقع ہوتی ہے _

لیکن اس گروہ کے مقابل میں بڑے اسلامی فلاسفر مرحوم ملاّ صدرا دوسرے نظریہ کو تسلیم کرتے ہیں ،وہ اپنی کتاب ''اسفار'' میں لکھتی ہیں :'' جسم کی حفاظت اور اسے چلانے کی ذمہ داری روح پر ہے _ جب تک اسے بدن کی زیادہ ضرورت رہتی ہے اس وقت تک وہ بدن کی حفاظت و نگہبانی میں کوشاں رہتی ہے ، ہر طرح سے اس کا تحفظ کرتی ہے _ لیکن جب وہ مستقل اور بدن سے مستغنی ہوجاتی ہے تو پھر بدن کی طرف توجہ نہیں دیتی جس کے نتیجہ میں ضعف ، سستی اور اختلال پیدا ہونے لگتا ہے اور فرسودگی و ضعیفی آجاتی ہے یہاں تک کہ روح بدن کے امور کو بالکل نظر انداز کردیتی ہے اور طبیعی موت واقع ہوجاتی ہے ''_

احباب جانتے ہیں کہ اگر دوسرا نظریہ ثابت ہوجائے اور موت کا اختیار روح کے ہاتھ میں ہوتو صاحب الامر کی طول عمر کے موضوع کی راہ ہموار ہوجائے گی _ یہ کہا

۲۵۰

جا سکتا ہے کہ : چونکہ آپ (ع) کی روح کو دنیائے انسانیت اور عالم کی اصلاح کے لئے آپ کے وجود کی ضرورت ہے _ اس لئے بدن کی حفاظت و نگہبانی میں مستقل کوشش کرتے ہے اور اپنی جوانی و شادابی کو محفوظ رکھتی ہے _

آخر میں اس بات کی وضاحت کردینا بھی ضروری ہے کہ میں اس وقت اس مدعا کی صحت کو ثابت نہیں کرنا چاہتا ہوں اور نہ اس سے دفاع کی خواہش ہے _ سردست میں نے دوستوں کے سامنے غیر معروف فرضیہ کے عنوان سے پیش کیا ہے _ مجھے اس با ت کا اعتراف ہے کہ یہ غیر مانوس اور نئی بات ہے لیکن بغیر غور و فکر کے اسے باطل نہیں سمجھنا چاہئے _ قطعی فیصلہ اس وقت کیا جا سکتا ہے جب حقیقت نفس ، بدن پر اسکی تاثیر کی مقدار اور اس کی ارتباط کی کیفیت و تاثیر بخوبی پہچان لی جائے اور یہ بہت دشوار ہے کہ اس میں فلسفی و نفسیاتی اور بیالوجی کے ایک طویل سلسلہ کے تجربہ کی ضرورت ہے _ ابھی انسان کا علم اس حد تک نہیں پہنچاہے کہ حقیقت نفس اور اس کے بدن سے ارتباط کے بارے میں فیصلہ کرلے بلکہ ابھی وہ اپنے نفس و نفسیات کے ابتدائی مراحل طے کررہا ہے _ اگر علم آدمی کی روح و تن کی طرف متوجہ ہوگیا ہوتا تو یقینا ہماری دنیا کی حالت کچھ اور ہی ہوتی _

ڈاکٹر اکلسیس کارل اپنی کتاب '' انسان موجود ناشناختہ ، میں لکھتا ہے ، ہمیں بھی اپنی وجودی تعمیر کے بارے میں کافی علم حاصل نہیں ہوا ہے ،اگر نیوٹن ، گالیلہ اور لاوازیہ اپنی فکری صلاحیت انسان کے بدن و نفسیات کے مطالعہ پر صرف کرتے تو ہماری دنیا کی حالت ہی بدل گئی ہوتی _

۲۵۱

نتیجہ

ہوشیار: مذکورہ مطالب سے چند چیز یں سمجھ میں آتی ہیں:

۱_ انسا ن کی عمر کوئی حد معین نہیں ہے کہ جس سے تجاوزنا ممکن ہو _ کسی بھی سائنسدان نے ابھی تک یہ نہیں کہا ہے کہ انسان کی عمر کا فلاں سال اس کے کاردان حیات کی آخری منزل ہے اس پر قدم رکھتے ہی موت آجائے گی _ بلکہ مشرق و مغرب کے جدی و قدیم سائنسدانوں کے ایک گروہ نے تصریح کی ہے کہ انسا ن کی عمر کی کوئی حد نہیں ہے _ ممکن ہے انسان آئندہ موت پر قابو پالے یا اسے کافی حد تک پیچھے ہٹادے کہ جس سے طولانے عمر پائے _ اس علمی امید کی کامیابی نے سائنسدانوں کو شب و روز کی کوشش اور تحقیق و تجربہ پر مجبور کیا ہے چنانچہ ابھی تک اس سلسلہ میں جو تجربات ہوئے ہیں وہ کامیاب رہے ہیں _

ان تجربات نے یہ ثابت کردیا کے موت بھی تمام بیماریوں کی طرح کچھ طبیعی علل و عوامل کا نتیجہ ہے اگر ان عوامل کو پہنچان لیا جائے اور ان کے اثرات کو روک دیا جائے تو موت کو پیچھے ہٹا یا جا سکتا ہے اور انسان کو اس خوفناک ہیولے سے نجات دلائی جا سکتی ہے _ جس طرح علم نے آج تک بہت سی بیماریوں کے علل و عوامل کو کشف کرلیا ہے اوراس کی تاثیر کا سد باب کردیا ہے _ اسی طرح مستقبل قریب میں موت کے اسباب و علل کو پہچاننے اور اس کے اثرات کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوجائے گا _

۲_ نباتات ، حیوانات اور انسانوں کے درمیان ایسے افراد موجود ہیں کو جو اپنی نوع کے دیگر افراد سے ممتاز ہیں اور ان سے زیادہ طویل عمر پائی ہے _ ایسے استثنائی افراد کا وجود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس نوع کے افراد کی عمر کی ایسی کوئی حد نہیں ہے کہ جس سے آگے بڑھنا محال ہو _ یہ صحیح ہے کہ اکثر انسان سو سال

۲۵۲

کی عمر سے پہلے ہی مرجاتے ہیں لیکن عمر کی اس مقدار سے مانوس ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ سوسال سے زیادہ عمر کا امکان ہی نہیں ہے _ کیونکہ ایسے بہت سے افراد گزرے ہیں جنہوں نے سو سال سے زیادہ عمر بسر کی ہے _ ایک سو پچاس سالہ ، ایک سو اسی سالہ اور دو سو پچاس سالہ انسان کاوجود اس بات کی واضح دلیل ہے کہ عمر انسان کی کوئی حد معین نہیں ہے _ دو سو پچاس سال اور دو ہزار سال زندگی گزارنے میں کوئی فرق نہیں ہے دونوں غیر مانوس ہیں _

۳_ ضعیفی کوئی ایسا عارضہ نہیں ہے کہ جس کا کوئی علاج نہ ہو بلکہ یہ قابل علاج بیماری ہے جیسا کہ علم طب نے آج تک بہت سی بیماریوں کے علل و اسباب کشف کرلئے ہیں اور انسان کو ان کے علاج کا طریقہ بتادیا ہے اسی طرح مستقبل میں ضعیفی و بڑھاپے کے عوامل کشف کرنے میں بھی کامیاب ہوجائے گا اور ان کا علاج انسان کے اختیار میں دیدے گا _ سائنسدانوں کا ایک گروہ اکسیر جوانی کی تلاش میں ہے اور انتھک کوشش و تحقیق اور تجربات میں مشغول ہے ، ان کے تجربات کامیاب رہے ہیں کہ جن کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں انسان ضعیفی اور فرسودگی کے عوامل پر قابو پالیگا اور ان عام بیماریوں کے علاج کا طریقہ تلاش کرے گا _ اس صورت میں انسان عرصہ دراز تک اپنی جوانی و شادابی کو ملحوظ رکھے گا _

مذکورہ مطالب اور سائنسدانوں کی تصدیق کی مدنظر رکھتے ہوئے آپ ہی فیصلہ کیجئے کہ اگر کوئی انسان جسمانی ساخت و ترکیب کے لحاظ سے نہایت ہی معتدل ہو ، اس کے اعضاء رئیسہ ، قلب ، اعصاب ، پھیپھڑے ، جگر ، مغز اور معدہ سب قوی اور سالم ہوں _ وہ حفظان صحت کے تمام اصولوں سے واقف ہو اور ان پر

۲۵۳

کاربند ہو _ مشروبات و ماکولات کے خواص و فوائد جانتا ہو ، ان میں سے مفید کو استعمال اور مضر سے پرہیز کرتا ہو ، جراثیم اور ان کی پیدا دار کے عوامل کو پہچانتا ہو ، امراض اور خصوصاً ضعیفی کے علاج سے آگاہ ہو _ زہر و مہلکات سے باخبر ہو ، ان سے اجتناب کرتا ہو ، بدن کی ضروری احتیاج کو غذا اور وٹامن و غیرہ سے پورا کرتا ہو ، والدین اور اجداد سے کوئی بیماری میراث میں نہ پائی ہو ، برے اخلاق ، پریشان خیالی ، جو کہ اعصاب و مغز کی فرسودگی اور دیگر بیماریوں کا باعث ہوتی ہے ، سے محفوظ ہو ، اس میں ایسے تمام نیک اخلاق موجود ہوں جو روح و جسم کے سکون کا باعث ہیں اور ان تمام چیزوں کے علاوہ اس کے جسم کا حاکم و مدیر انسانی کمال کے اعلی درجہ پر ہو تو ایسے انسان میں ہزاروں سال زندگی گزارنے کی صلاحیت ہوگی _ ایسی طویل عمر کو عمل و دانش نہ صرف یہ محال قرار نہیں دیتے بلکہ اس کے امکان کا اثبات کرتے ہیں _

اس بناپر امام زمانہ کی طویل عمر کو محال اور لا ینحل مشکل نہیں قراردینا چاہئے _ کہ علم بہت طویل عمر کو جوانی و شادابی کی طاقت کی حفاظت کے ساتھ ممکن قراردیتا ہے _ اگر کسی شخص کا وجود عالم کیلئے ضروری ہو اور طویل عمر در کار ہو تو قادر مطلق خدا دنیا کے علل و معلولات اور خلقت کی مشینری کو اس طرح منظم کرے گا کہ جو ایسا کامل انسان پیدا کرے گی جو ضروری علم و اطلاعات کاحامل ہوگا _

ڈاکٹر:مذکورہ مطالب صرف ایسے ممتاز انسان کے وجود کو ثابت کرتے ہیں لیکن یہ بات کہاں سے ثابت ہوئی کہ ایسا انسان موجود بھی ہے؟

ہوشیار: عقلی و نقلی دلیلوں سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ نوع کی بقا کیلئے

۲۵۴

امام کا وجود ضروری ہے اور بہت سی احادیث کا اقتضا ہے کہ امام صرف بارہ ہوں گے اور یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ بارہویں امام ،امام حسن عسکری کے بلا فصل فرزند مہدی موعود ہیں جو کہ پیدا ہوچکے ہیں اور اب پردہ غیب میں ہیں _ اس سلسلہ میں سیکڑوں حدیثیں نقل ہوئی ہیں _ مذکورہ مطالب اور دانشوروں کی تائید کے بعد ہم نے ایسے غیرمتعارف عمر کے امکان کو ثابت کیا ہے _

تاریخ کے درازعمر

انجینئر : یہ کیسے ممکن ہے کہ خلقت کی مشنری نے صرف امام زمانہ ہی کو اتنی طویل عمر عطا کی ہے جسکی مثال نہیں ملتی ؟

ہوشیار: دنیا میں ایسے افراد کمیاب تھے اور ہیں _ منجملہ ان کے حضرت نوح (ع) ہیں _ بعض مورخین نے آپ(ع) کی عمر ۲۵۰۰ سال تحریر کی ہے _ توریت میں ۹۵۰ سال مرقوم ہے _

قرآن مجید صریح طور پر کہتا ہے کہ حضرت نوح (ع) نے ۹۵۰ سال تک اپنی قوم کو تبلیغ کی چنانچہ سورہ عنکبوت میں ارشاد ہے کہ :

اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا اور وہ ان کے درمیان نو سو پچاس سال رہے پھر قوم کو طوفان نے اپنی گرفت میں لے لیا کہ وہ ظالم لوگ تھے _(۱)

____________________

۱_ عنکبوت/۱۴_

۲۵۵

اگر ہم مورخین کے قول کی تکذیب بھی کردیں تو قرآن مجید میں کسی قسم کے شک گنجائشے ہی نہیں ہے کہ جس نے حضرت نوح کی تبلیغ کا زمانہ ۹۵۰ سال بتا یا ہے جبکہ یہی عمر غیر معمولی ہے _

انجینئر : میں نے سنا ہے کہ یہ آیت متشابہات میں سے ہے؟

ہوشیار : متشابہات میں سے سے کیسے ہوسکتی ہے _ کیا مفہوم و معنی کے لحاظ سے مجمل و مبہم ہے ؟ عربی زبان سے جو شخص معمولی شد و بد بھی رکھتا ہے وہ اس آیت کے معنی کو بخوبی سمجھ سکتا ہے _ اگر یہ آیت متشابہات میں سے ہے تو قرآن میں کوئی محکم آیت نہیں ملے گی میں ایسے افراد کی بات کے بے معنی سمجھتا ہوں یا انھیں قرآن کا منکر کہا جائے کہ جن کے اظہار کی جرات نہیں رکھتے تھے _

مسعودی نے اپنی کتاب میں کچھ طویل العمر لوگوں کے نام مع ان کی عمروں کے درج کئے ہیں ، منجملہ ان کے یہ ہیں :

حضرت آدم کی عمر : ۹۳۰ سال ، حضرت شیث : ۹۱۲ سال ، انوشّ : ۹۶۰ سال قینان : ۹۲۰ سال _ مہلائل : ۷۰۰ سال ، لوط : ۷۳۲ سال ، ادریس : ۳۰۰ سال

متو شلخ : ۹۶۰ سال ، لمک : ۷۹۰ سال ، نوح : ۹۵۰ سال ، ابراہیم : ۱۹۵ سال کیو مرث : ۱۰۰۰ سال ، جمشید : ۶۰۰ یا ۹۰۰ سال ، عمربن عامر : ۸۰۰ سال عاد : ۱۲۰۰ سال _ ۱

اگر آپ تاریخ وحدیث اور توریت کا مطالعہ فرمائیں گے تو ایسے بہت سے

____________________

۱_ مروج الذہب ج ۱ و ۲

۲۵۶

لوگ میلں گے _ لیکن واضح رہے کہ ان عمروں کا مدارک توریت یا اس کی تواریخ ہیں اور اہل تحقیق پر ان کی حالت پوشیدہ نہیں ہے یا خبر واحد مدرک ہے جس سے یقین حاصل نہیں ہوتا یا غیر معتبر تواریخ مدرک ہیں _ بہر حال مبالغہ سے خالی نہیں ہیں اور چونکہ ان کی صحت مجھ پر واضح نہیں ہے اس لئے ان سے استدلال و بحث سے چشم پوشی کرتا ہوں اور صرف حضرت نوح کی طویل العمری ہی کو ثبوت میں پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہمں اگر تفصیل چاہتے ہیں تو المعمروں و الوصایا مولفہ ابی حاتم سجتانی اور ابوریحان بیرونی کی الآ ثار الباقیہ اور تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ فرمائیں _

۲۵۷

امام زمانہ عج کا مسکن

فھیمی : زمانہء غیب میں امام زمانہ کا مسکن کہاں ہے ؟

ہوشیار : آپ (ع) کے مسکن کی تعین نہیں ہوئی ہے _ شاید کوئی مخصوص نہ ہو بلکہ اجنبی کی طرح لوگوں کے در میان زندگی بسر کرتے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے دور افتادہ علاقوں کورہا ئشے کیلئے منتخب کیا ہو _ احادیث میں دارد ہوا ہے کہ حج کے زمانہ میں آپ تشریف لاتے اور اعمال و مناسک حج میں شریک ہوتے ہیں لوگوں کوپہچانتے ہیں لیکن لوگ انھیں نہیں پہنچان پاتے _(۱)

فہیمی: میں نے سنا ہے کہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امام زمانہ اسی سرداب میں ،جو کہ آپ سے منسوب ہے اور زیارت گاہ بنا ہوا ہے ، غائب ہوئے ہیں _ اس میں زندگی گزارتے ہیں اور وہیں سے ظہور فرمائیں گے _ اگر اس سرداب میں موجود ہیں تو دکھائی کیوں نہیں دیتے ؟ ان کیلئے کھانا پانی کون لے جاتاہے ؟ وہاں سے نکلتے کیوں نہیں؟ عرب کے شاعر نے اس مضمون پر مشتمل کچھ اشعار کہے ہیں جن کا مفہوم یہ ہے : کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ جس میں سرداب اس شخص کو

____________________

۱_ بحارالانوارج۲ص۱۵۲

۲۵۸

باہرنکالے جسم تم انسان کہتے ہو؟ تمہاری عقلوں پر پتھر پڑگئے ہیں کہ عنقا اور خیالی چڑیا کے علاوہ ایک تیسرا موجود بھی ایجاد کرلیا _

ہوشیار: یہ محض جھوٹ ہے اور عناد کی بناپر اس کی نسبت ہماری طرف دی گئی ہے _ شیعوں کا یہ عقیدہ نہیں ہے _ کسی روایت میں بیان نہیں ہوا کہ بارہویں امام سرداب میں زندگی گزاتے ہیں اور وہیں سے ظاہر ہوں گے _ کسی شیعہ دانشور نے بھی ایسی بات نہیں کی ہے _ بلکہ احادیت میں تو یہ ہے کہ امام زمانہ (ع) لوگوں کے درمیان ہی زندگی گزارتے ہیں اور ان کے درمیان آمد ورفت رکھتے ہیں _

سدیر صیرفی نے امام جعفر صادق سے روایت کی ہے آپ(ع) نے فرمایا:

''صاحب الامر اس لحاظ سے حضرت یوسف سے مشابہہ ہیں کہ برادران یوسف بھی آپ (ع) کو نہیں پہچان سکے تھے جبکہ عاقل بھی تھے اور یوسف کے ساتھ زندگی بھی گزارچکے تھے _ لیکن جب یوسف (ع) کے پاس پہنچے تو جب تک یوسف (ع) نے خود اپنا تعارف نہیں کرایا اس وقت تک آپ کو نہیں پہچان سکے اور باوجودیکہ یوسف حضرت یعقوب سے اٹھارہ روز کے فاصلہ پر تھے لیکن یعقوب کو آپ کی کوئی اطلاع نہیں تھی _ خدا حضرت حجّت کیلئے بھی ایسا ہی کرے گا _ لوگوں کو اس کا انکار نہیں کرنا چاہئے _ آپ (عج) لوگوں کے درمیان آتے جاتے ہیں ان کے بازار میں تشریف لے جاتے ہیں ، ان کے فرش پر قدم رنجا ہوتے ہیں لیکن انھیں نہیں پہچان پاتا _ اسی طرح زندگی گزارتے رہیں گے _ یہاں تک خدا ظہور کاحکم فرمائے گا _(۱)

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۵۴_

۲۵۹

اما م کی اولاد کے ممالک

جلالی : میں نے سنا ہے کہ امام زمانہ کی بہت سے فرزندہیں جو کہ وسیع و عریض ممالک ظاہرہ ، رائقہ ، صافیہ ، ظلوم اور عناطیس میں زندگی گزارتے ہیں اور آپ کی اولاد میں سے لائق و شائستہ پانچ افراد ، طاہر ، قاسم ، ابراہیم ، عبدالرحمن اور ہاشم ان ممالک پر حکومت کرتے ہیں _ ان ملکو ں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہاں کی آب و ہوا اور نعمتیں بہشت برین کا نمونہ ہیں _ وہاں مکمل امن و امان ہے ، بھیڑیا اور بکری ایک جگہ رہتے ہیں _

درندے انسانوں کو کچھ نہیں کہتے _ ان ممالک کے باشندے مکتب امام کے تربیت یافتہ شیعہ اور صالح افراد ہیں ، فتنہ و فساد کا وہاں گزر نہیں ہے _ کبھی کبھی امام زمانہ بھی ان نمونہ ممالک کے معائنہ کے لئے تشریف لاتے ہیں ، ایسی ہی اور سیکڑوں دلچسپ باتیں ہیں

ہوشیار : ان مجہول ممالک کی داستان کی حیثیت افسانہ سے زیادہ نہیں ہے _ ان کا مدرک وہ حکایت ہے جو حدیقة الشیعہ ، انور نعمانیہ اور جنة الماوی میں نقل ہوئی ہے مدعا کی وضاحت کی لئے ہم اس کے سند بیان کرتے ہیں :

داستان اس طرح نقل ہوئی ہے : علی بن فتح اللہ کاشانی کہتے ہیں : محمد بن حسین علوی نے اپنی کتاب میں سیعد بن احمد سے نقل کیاہے کہ انہوں نے کہا : حمزہ بن مسیب نے شعبان کی ۸ تاریخ سنہ ۵۴۴ ھ میں مجھ سے بیان کیا کہ عثمان بن عبدالباقی نے جمادی الثانی کی ۷ تاریخ سنہ ۵۴۳ ھ میں مجھ سے حکایت کی کہ احمد بن محمد بن یحیی انباری نے دس رمضان سنہ ۵۴۳ ھ میں بتایا کہ : میں اور دوسرے چند اشخاص عون الدین یحیی بن ہبیرہ وزیر

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455