آفتاب عدالت

آفتاب عدالت13%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 185044 / ڈاؤنلوڈ: 5864
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

حضرت علی (ع) کے گھر کا اثاثہ

حضرت علی علیہ السلام نے مندرجہ ذیل اسباب حجلہ عروسی کے لئے مہیا کر رکھے تھے_

۱_ ایک لکڑی کی جس پر کپڑے اور پانی کی مشک ٹانگی جاسکے_

۲_ گوسفند کی کھال_

۳_ ایک عدد تکیہ_

۴_ ایک عدد مشک_

۵_ ایک عدد آٹے کی چھلنی_(۱)

عروسی کے متعلق گفتگو

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایک مہینہ تقریباً گزر گیا اور میں حیا کرتا تھا کہ پیغمبر (ص) سے جناب فاطمہ (ع) کے بارے میں تذکرہ کروں لیکن جب بھی تنہائی ہوتی تو جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ، یا علی کتنی نیک اور زیبا تم کو رفیقہ حیات نصیب ہوئی ہے، جو دنیا کی عورتوں سے افضل ہے ایک دن میرے بھائی عقیل میرے پاس آئے اور کہا:

بھائی جان ہم آپ کی شادی سے بہت خوش حال ہیں، کیوں رسول خدا(ص) سے خواہش کرتے کہ فاطمہ (ع) کو آپ کے گھر روانہ کریں؟ تا کہ آپ کی شادی کی خوشی سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں، میں نے جواب دیا میں بہت چاہتا ہوں کہ رخصتی کرلاؤں لیکن پیغمبر اسلام(ص)

____________________

۱) بحار الانوار_ ج ۴۳_ ص ۱۱۴_

۶۱

سے شر م کرتا ہوں عقیل نے کہا تمہیں خدا کی قسم ابھی میرے ساتھ آؤ تا کہ پیغمبر اسلام(ص) کی خدمت میںچلیں

_

حضرت علی (ع) جناب عقیل کے ساتھ رسول خدا(ص) کے گھر کی طرف روانہ ہوئے استے میں جناب ام ایمن سے ملاقات ہوگئی ان سے واقعہ کو بیان کیا تو جناب ام ایمن نے کہا کہ آپ مجھے اجازت دیجئے میں رسول خدا(ص) سے اس بارے میں گفتگو کروں گی، کیونکہ اس قسم کے معاملے میں عورتوں کی گفتگو زیادہ موثر ہوا کرتی ہے، جب ام ایمن اور دوسری عورتیں اصل معاملہ سے مطلع ہوئیں تو تمام کی تمام پیغمبر (ص) کی خدمت میں مشرف ہوئیں اور عرض کی یا رسول اللہ(ص) ہمارے ماں باپ آپ پر قربان جائیں_ ہم ایک ایسے موضوع کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی ہیں کہ اگر جناب خدیجہ زندہ ہوتیں تو بہت زیادہ خوشحال ہوتیں_ جناب پیغمبر خدا(ص) نے جب خدیجہ کا نام سنا تو آپ کے آنسو نکل آئے اور فرمایا کہ خدیجہ کہاں اور خدیجہ جیسا کون، جب لوگ مجھے جھٹلانے تھے تو خدیجہ میری تصدیق کرتی تھیں_ دین خدا کی ترویج کی خاطر اپنا تمام مال میرے اختیار دے رکھا تھا_ خدیجہ وہ عورت تھی کہ جن کے متعلق اللہ تعالی نے مجھ پر وحی نازل کی کہ خدیجہ کو بشارت دوں کہ خدا اس کو بہشت میں زمرد کا بنا ہوا گھر عطا فرمائے گا_

ام سلمہ نے عرض کی کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ جتنا بھی خدیجہ کے متعلق فرمائیں وہ درست ہے خدا ہم کو ان کے ساتھ محشور فرمائے، یا رسول اللہ(ص) آپ کے بھائی اور چچازاد بھائی چاہتے ہیں کہ اپنی بیوی اپنے گھر نے جائیں_ آپ(ص) نے فرمایا وہ خود اس بارے میں مجھ سے کیوں بات نہیں کرتے؟ عرض کہ وہ حیا کرتے ہیں، جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ام ایمن سے فرمایا کہ ابھی علی (ع) کو میرے پاس حاضر کرو_

۶۲

جب حضرت علی (ع) آپ کی خدمت میں مشرف ہوئے تو فرمایا اے علی چاہتے ہو کہ اپنی بیوی اپنے گھر لے جاؤ؟ آپ نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ(ص) آپ نے فرمایا کہ خدا مبارکے کرے، آج رات یا کل رات رخصتی کے اسباب فراہم کردوں گا_

اس کے بعد آپ نے عورتوں سے فرمایا کہ فاطمہ (ع) کو زینت کرو اور خوشبوں لگاؤ اور ایک کمرہ میں فرش بچھا دو تا کہ اس کی رخصتی کے آداب بجالاؤں _(۱)

رخصتی کا جشن

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی (ع) سے فرمایا کہ عروسی میں ولیمہ دیا جائے اور میں دوست رکھتا ہوں کہ میری امت شادیوں میں ولیمہ دیا کرے_ سعد اس مجلس میں موجود تھے، انہوں نے عرض کی کہ ایک گوسفند میں آپ کو اس جشن کے لئے دیتا ہوں، دوسرے اصحاب نے بھی حسب استطاعت اس میں مدد کی جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بلال سے فرمایا ایک گوسفند لے آو اور حضرت علی (ع) سے فرمایا کہ اس حیوان کو ذبح کرو، آپ نے دس درہم بھی انہیں دیئے اور فرمایا اس سے کچھ گھی، خرما، کشک لے آو اور روٹی بھی مہیا کرو اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا کہ جسے چاہتے ہو کھانا کھانے کی دعوت دے دو_ حضرت علی علیہ السلام نے اصحاب کے ایک بہت بڑے گروہ کو دعوت دی_ گوشت پکایا گیا اور گھی اور خرما اور کشک کے ذریعے غذا حاضر کی گئی_

چونکہ مہمانوں کی تعداد زیادہ تھی اور پذیرائی کے اسباب تھوڑے تھے تو جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا کہ مہمان دس، دس ہو کر اندر آئیں اور کھانا

____________________

۱) بحار الانوار_ ج ۴۳_ ص ۱۳۰ و ۱۳۲_

۶۳

کھائیں_ اس جشن میں جناب عباس اور حضرت حمزہ اور حضرت علی (ع) اور جناب عقیل مہمانوں کی پذیرائی کر رہے تھے، دسترخوان بچھایا گیا اور اصحاب دس، دس ہو کر اندر آتے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے دست مبارک سے غذا نکالتے اور مہمانوں کے سامنے رکھتے، جب سیر ہو جاتے تو باہر چلے جاتے اور دوسرے دس آدمی اندر آجاتے اس طرح سے بہت زیادہ لوگوں نے کھانا کھایا اور جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دست مبارک کی برکت سے تمام لوگ سیرہوگئے اس کے بعد آپ نے حکم دیا کہ جو غذا بچ رہی ہے وہ فقرا اور مساکین کے گھروں کو ''جو ولیمہ میں حاضر نہ ہوسکتے تھے'' پہنچائی جائے اور حکم دیا کہ ایک برتن میں حضرت زہرا(ع) اور حضرت علی علیہ السلام کے لئے غذا رکھی جائے _(۱)

حجلہ کی طر ف

پیغمبر خدا(ص) کی عورتوں نے جناب فاطمہ (ع) کو آراستہ کیا آپ کو عطر اور خوشبو لگائی، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی (ع) کو بلایا اور اپنے دائیں جانب بٹھایا اور جناب فاطمہ (ع) کو اپنے بائیں جانب بٹھایا، اس کے بعد دونوں کو اپنے سینے سے لگایا اور دونوں کی پیشانی کو بوسہ دیا دلہن کا ہاتھ پکڑا اور داماد کے ہاتھ میں دیا اور حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا کہ فاطمہ (ع) اچھی رفیقہ حیات ہے اور جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا کہ علی (ع) بہترین شوہر ہیں_

اس کے بعد عورتوں کو حکم دیا کہ دولھا، دلھن کو خوشی اور جوش و خروش سے حجلہ کی طر ف لے جائیں لیکن اس قسم کا کوئی کلام نہ کریں کہ جس سے اللہ ناراض ہوتا ہو

____________________

۱) بحارالانوار_ ج ۴۳ ص ۱۳۲ و ۱۳۷ و ۱۱۴و ۱۰۶_

۶۴

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عورتوں نے جوش و خروش سے اللہ اکبر کہتے ہوئے فاطمہ (ع) اور علی (ع) کو حجلہ تک پہنچایا رسول خدا(ص) بھی اس کے پیچھے آپہنچے اور حجلہ میں وارد ہوگئے اور حکم دیا کہ پانی کا برتن حاضر کیا جائے تھوڑا سا پانی لے کر آپ نے جناب فاطمہ (ع) کے جسم پر چھڑ کا اور حکم دیا کہ باقی پانی سے وضو کریں اور منھ دھوئیں اس کے بعد ایک اور پانی کا برتن منگوایا اور اسے کچھ پانی حضرت علی علیہ السلام کے جسم پر چھڑکا اورحکم دیا کہ باقی پانی سے وضو کریں اور منھ دھوئیں اس کے بعد آپ نے دلھن اور داماد کا بوسہ لیا اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا_ اے خدا_ اس شادی کو مبارک فرما اور ان سے پاک و پاکیزہ نسل وجود میں آئے_

جب آپ نے چاہا کہ حجلہ سے باہر جائیں تو جناب فاطمہ (ع) نے آپ کا دامن پکڑلیا اور رونا شروع کردیا، آپ نے فرمایا میری پیاری بیٹی، میں نے بردبار تریں اور دانشمندترین انسان سے تیری شادی کی ہے_

اس کے بعد آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور حجلہ کے درواز پر آکر دروازے کے عتبے کو پکڑ کر فرمایا کہ خدا تمہیں اور تمہاری نسل کو پاک و پاکیزہ قرار دے، میں تمہارے دوستوں کا دوست ہوں اور تمہارے دشمنوں کا دشمن، اب رخصت ہوتا ہوں اور تمہیں خداوند عالم کے سپرد کرتا ہوں_ حجلے کے دروازے کو بند کیا اور عورتوں سے فرمایا کہ سب اپنے گھروں کو چلی جائیں اور یہاں کوئی بھی نہ رہے_ تمام عورتیں چلی گئیں_

جب پیغمبر اسلام(ص) نے باہر جانا چاہا تو دیکھا کہ ایک عورت وہاں باقی ہے پوچھا تم کون ہو مگر میں نے نہیں کہا کہ سب چلی جاؤ_

اس نے عرض کی میں اسماء ہوں، آپ نے توفرمایا کہ سب چلی جاؤ لیکن میں جانے سے معذور ہوں کیونکہ جب جناب خدیجہ اس جہان سے کوچ فرما رہی تھیں تو میں نے دیکھا

۶۵

کہ وہ رور رہی ہیں، میں نے عرض کیا آپ بھی روتی ہیں؟ حالانکہ تم دنیا کہ عورتوں سے بہترین عورت ہو، اور رسول خدا(ص) کی بیوی ہو، اللہ تعالی نے تجھے بہشت کا وعدہ دیا ہے_ آپ نے کہا میں اس لئے رو رہی ہوں کہ جانتا ہوں لڑکی کی خواہش ہوتی ہے کہ شب زفاف اس کے پاس کوئی ایسی عورت ہو جو اس کی محرم راز ہو اور اس کی ضروریات کو پورا کرے، میں دنیا سے جارہی ہوں لیکن مجھے ڈر ہے کہ فاطمہ (ع) شب زفاف کوئی محرم نہ رکھتی ہوگی اور اس کا کوئی مدد گار نہ ہوگا اس وقت میںنے خدیجہ سے عرض کیا گہ اگر کیا کہ اگر میں فاطمہ (ع) کے شب زفاف تک زندہ رہی تو تم سے وعدہ کرتی ہوں کہ میں اس کے پاس رہوں گی اور اس سے مادری سلوک آپ کے آنسو جاری ہوگئے اور فرمایا تجھے خدا کی قسم تم اسی غرض سے یہاں رہ گئی ہو؟ عرض کیا ہاں_ پیغمبر(ص) نے فرمایا تم اپنے ودعدہ پر عمل کرو_(۱)

____________________

۱) بعض روایات کی بنا پر جب چو تھے دن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جناب فاطمہ (ع) کے گھر گئے تو آپ(ص) (ص) نے اسماء سے ملاقات کی، بہرحال یہ داستان اسماء بہت سے تاریخ نویسوں نے لکھی ہے اور اس میں نسبت بھی اسماء بنت عمیس کی طرف اس واقعہ کی دی ہے، لیکن اگر یہ واقعہ صحیح ہو تو وہ عورت اسماء بنت عمیس نہیں ہوسکتیں کیونکہ اس وقت اسماء جناب جعفر طیار کی زوجہ تھیں اور آپ کے ساتھ حبشہ میں موجود تھیں جناب فاطمہ (ع) کی شادی کے وقت مدینہ میں موجود نہ تھیں مدینہ میں آپ خیبر کے فتح ہونے کے بعد آئیں، لہذا وہ عورت جو جناب فاطمہ (ع) کے پاس شب زفاف میں رہیں وہ یا اسماء بنت یزید بن سکن انصاری یا سلمی جو اسماء بنت عمیس کی بہن تھیں ہوگی_ بہرحال صاحب کشف الغمہ لکھتے ہیں اس عورت کے نام میں مورخین کو اشتباہ ہوا ہے_

۶۶

فاطمہ کا دیدار

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم زفاف کی رات کی صبح کو دودھ برتن میں لئے ہوئے جناب فاطمہ (ع) کے حجلہ میں گئے اور وہ برتن جناب فاطمہ (ع) کے ہاتھ میں دیا اور فرمایا تمہارا باپ تم پر قربان ہو اس کو پیئو، اس کے بعد حضرت علی (ع) سے فرمایا تمہارے چچا کہ بیٹا تم پر قربان ہو تم بھی پیئو_(۱)

حضرت علی علیہ السلام سے پوچھا بیوی کیس تھی؟ عرض کیا اللہ کی بندگی میں بہترین مددگار_ جناب فاطمہ (ع) سے پوچھا کہ شوہر کیسے تھے؟ عرض کیا بہترین شوہر_(۲)

پیغمبر(ص) اس کے بعد چار دن تک جناب فاطمہ (ع) کے گھر تشریف نہیں لے گئے اور جب چو تھے دن جناب فاطمہ (ع) کے حجلہ میں تشریف لے گئے تو آپ سے خلوت میں پوچھا، تیرا شوہر کیسا ہے؟ عرض کی ا بّا جان مردوں میں سے بہترین شوہر اللہ نے مجھے عطا کیا، لیکن قریش کی عورتیں میرے دیدار کے لئے آئیں تو بجائے مبارک باد دینے کے میرے دل پر غم کی گرہ چھوڑ گئیں اور کہنے لگیں تمہارے باپ نے تمہارا نکاح ایک فقیر و تہی دست انسان سے کیا ہے، حالانکہ مال دار اور ثروت مندمرد تمہارے خواستگار تھے_ جناب رسول خدا(ص) نے اپنی بیٹی کی تسلی دی اور فرمایا اے نور چشم تمہارے باپ اور شوہر فقیر نہیں ہیں خدا کی قسم زمین کے خزانے کی چاہیاں میرے سامنے پیش کی گئیں لیکن میں نے اخروی نعمات کو دنیا کے مال اور ثروت پر ترجیح دی، عزیزم میں نے تیرے لئے ایک ایسا شوہر منتخب کیا ہے جس نے

____________________

۱) کشف الغمہ_ ج ۷ ص ۹۹_

۲) بحارالانوار_ ج ۴۳ ص ۱۱۷_

۶۷

تمام لوگوں سے پہلے اسلام کا اظہار کیا اور جو علم و حلم اور عقل کے لحاظ سے تمام لوگوں پر برتری رکھتا ہے_ خداوند عالم نے تمام لوگوں سے مجھے اور تیرے شوہر کو چنا ہے_ بہت بہترین شوہر والی ہو اس کی قدر کو سمجھو اور اس کے حکم کی مخالفت نہ کرو_ اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کو بلایا اور فرمایا کہ اپنی بیوی کے ساتھ نرمی اور مہربانی سے پیش آنا، تمہیں معلوم ہونا چاہیئےہ فاطمہ (ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے جو شخص اسے اذیت دے گا وہ مجھے اذیت دے گا اور جو اسے خوشنود کرلے گا، وہ مجھے خوشنود کرے گا، میں تم سے رخصت ہوتا ہوں اور میں تمہیں خدا کے سپرد کرتا ہوں_(۱)

علامہ مجلسی علیہ الرحمة نے لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ (ع) کا عقد ماہ مبارک میں ہوا، پہلی یا چھ ذی الحجہ کو آپ کی رخصتی ہوئی _(۲)

حضرت علی علیہ السلام اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا نے تھوڑی مدت اپنے گھر میں جو جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھر سے تھوڑے فاصلے پر تھا زندگی بسر کی، لیکن یہ فاصلہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر دشوار تھا ایک دن آپ جناب فاطمہ (ع) کے گھر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ میرا ارادہ ہے کہ تمہیں اپنے

____________________

۱) جو مطالب حضرت علی علیہ السلام اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شادی میں ذکر ہوئے ہیں انہیں ان کتابوں میں دیکھا جاسکتا ہے_ کشف الغمہ ج ۱_ مناقب شہر ابن آشوب ج۳_ تذکرة الخواص_ ذخائر العقبی _ دلائل الامامة_ سیرة ابن ہشام_ مناقب خوارزمی ینابیع المودة_ بحارالانوار، ج ۴۳_ ناسخ التواریخ جلد حضرت فاطمہ زہرا(ع) _ اعلام الوری مجمع الزوائر، ج ۹_

۲) بحارالانوار، ج ۴۳ ص ۱۳۶_

۶۸

نزدیک بلالوں، آپ نے عرض کی حادثہ بن نعمان سے بات کیجئے کہ وہ اپنا مکان ہمیں دے دے، آپ نے فرمایا حادثہ بن نعمان اپنی منازل ہماے لئے خالی کر کے خود بہت دور چلاگیا ہے، اب مجھے اس سے شرم آتی ہے_ جناب حارث کو جب اس کی خبر ہوئی تو وہ جناب رسول خدا کی خدمت میں مشرف ہوا اور عرض کی یا رسو ل اللہ(ص) میں اور میرا مال آپ کے اختیار میں ہے میں چاہتا ہوں کہ آپ فاطمہ (ع) کو میرے گھر منتقل کردیں_ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو حارثہ کے مکان میں منتقل کردیا_(۱)

____________________

۱) طبقات ابن سعد، ج ۸ بخش ۱ ص ۱۴_

۶۹

حصّہ سوم

فاطمہ (ع) علی (ع) کے گھر میں

۷۰

جناب فاطمہ (ع) باپ کے گھر سے شوہر کے گھر منتقل ہوگئیں لیکن خیال نہ کیجئے کہ کسی اجنبی کے گھر گئی ہیں گرچہ آپ مرکز نبوت سے باہر چلی گئی ہیں لیکن مرکز ولایت میں پہنچ گئیں_ اسلام کے سپہ سالار فوج کے کمانڈر جنگ کے وزیر اور خصوصی مشیر اسلام کی پہلی شخصیت کے گھر وارد ہوئی ہیں اس مرکز میں آنے سے بہت سخت وظائف آپ کے کندھے پر آن پڑے ہیں، اب رسمی ذمہ داریاں بھی آپ پر عائد ہوگئیں_ یہاں رہ کر آپ کو اسلام کی خواتین کے لئے ازدواجی زندگی، امور خانہ داری، بچوں کی تربیت کا عملی طور پر درس دینا ہے، خواتین اسلام کو فداکاری، صداقت، محبت لازمی طور پر درس دینا ہوگا آپ کو اس طرح زندگی گزارنا ہے جو مسلمان عورتوں کے لئے ایک نمونہ بن جائے کہ عالم کی خواتین آپ کے وجود کے آئینے میں اسلام کی نورانیت اور حقیقت کو دیکھ سکیں_

امور خانہ داری

پہلا گھر کہ جس کے دونوں رکن میاں اور بیوی گناہوں سے پاک اور معصوم انسانیت کے فضائل اور کمالات سے مزین ہیں وہ حضرت علی (ع) اور جناب فاطمہ (ع) کا گھر تھا_ حضرت علی (ع) ایک اسلامی مرد کا مل نمونہ تھے اور حضرت زہرا (ع)

۷۱

ایک مسلمان عورت کا کامل نمونہ تھیں_

علی ابن ابی طالب نے بچپن سے جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دامن میں اور آپ کی زیر نگرانی تربیت پائی تھی_ کمالات اور فضائل اور بہترین اور اعلی ترین اسلامی اخلاق کے مالک تھے، جناب زہرا(ع) نے بھی اپنے باپ کے دامن میں تربیت پائی تھی اور آپ اسلامی اخلاق سے پوری طرح آگاہ تھیں_ آپ لوگوں کے کان بچپن سے قرآن سے مانوس تھے_ رات دن ا ور کبھی کبھار قرآن کی آواز خودپیغمبر (ص) کے دہن مبارک سے سنا کرتے تھے_ غیبی اخبار اور روحی سے آگاہ تھے اسلام کے حقائق اور معارف کو اس کے اصلی منبع اور سرچشمہ سے دریافت کرتے تھے اسلام کا عملی نمونہ پیغمبر اسلام(ص) کے وجودی آئینہ میں دیکھا کرتے تھے اسی بناء پر گھر یلو زندگی کا اعلی ترین نمونہ اس گھر سے دریافت کیا جاسکتا ہے_

علی (ع) اور فاطمہ (ع) کا گھر واقعاً محبت اور صمیمیت کا با صفا محور تھا_ میاں بیوی کمال صداقت سے ایک دوسرے کی مداد اور معاونت کر رہے تھے گھر یلوکاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے_ بیاہ کے ابتدائی دنوں میں پیغمبر (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ آپ گھر کے کام کاج ہم میں تقسیم کردیں_ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا گھر کے اندرونی کام فاطمہ انجام دیں گی اور بیرونی کام علی (ع) کے ذمہ ہوں گے فاطمہ (ع) فرماتی ہیں کہ میں اس تقسیم سے بہت خوش ہوئی کہ گھر کے بیرونی کام میرے ذمہ نہیں گئے _(۱)

جی ہاں فاطمہ (ع) وحی کی تربیت یافتہ تھیں اور جانتی تھیں کہ گھر ایک اسلام کا بہت بڑا مورچہ ہے ، اگر عورت کے ہاتھ سے یہ مورچہ نکل گیا اور خرید و فروخت کے

____________________

۱) بحارالانوار، ج ۴۳ ص ۸۱_

۷۲

لئے گھر سے باہر نکل پڑی تو پھر وہ امور خانہ داری کے وظائف اور اولاد کی تربیت اچھی طرح انجام نہیں دے سکے گی یہی وجہ تھی کہ آپ اس تقسیم سے خوش ہوگئیں کہ گھر کے مشکل اور سخت کام علی (ع) کے سپرد کئے گئے ہیں_

اسلام کی بے مثال پہلی شخصیت کی بیٹی کام کرنے کو عارنہ سمجھتی تھی اور گھر کے مشکل کاموں کی بجا آوری سے نہیں کتراتی تھیں، آپ نے اس حد تک گھر کے کاموں میں زحمت اٹھائی کہ خود حضرت علی علیہ السلام آپ کے بارے میں یاد کرتے تھے اور آپ کی خدمات کو سراہا کرتے تھے آپ نے اپنے ایک دوست سے فرمایا تھا کہ چاہتے ہو کہ میں اپنے او رفاطمہ (ع) کے متعلق تمہیں بتلاؤں_

اتنا میرے گھر پانی بھی کر لائی ہیں کہ آپ کے کندھے پر مشک کا نشان پڑ گیا تھا اور اتنی آپ نے چکی پیسی کہ آپ کے ہاتھ پر چھالے پڑ گئے تھے، اتنا آپ نے گھر کی صفائی اور پاکیزگی اور روٹی پکانے میں زحمت اٹھائی ہے کہ آپ کا بساس میلا ہوجانا تھا_ آپ پر کام کرنا بہت سخت ہوچکا تھا میں نے آپ سے کہا تھا کتنا بہتر ہوگا کہ اگر آپ پیغمبر(ص) کی خدمت میں حاضر ہو کر حالات کاآپ(ص) سے تذکرہ کریں شادی کوئی کنیز آپ کے لئے مہیا کردیں_ تا کہ وہ آپ کی امور خانہ داری میں مدد کرسکے_

جناب فاطمہ (ع) پیغمبر(ص) کی خدمت میں گئیں لیکن اصحاب کی ایک جماعت کو محو گفتگو دیکھ کر واپس لوٹ آئیں اور شرم کے مارے آپ سے کوئی بات نہ کی_ پیغمبر(ص) نے محسوس کرلیا تھا کہ فاطمہ (ع) کسی کام کی غرض سے آئی تھیں، لہذا آپ(ص) دوسرے دن ہمارے گھر خود تشریف لے آئے اور اسلام کیا ہم نے جواب سلام دیا آپ ہمارے پاس بیٹھ گئے اور فرمایا بیٹی فاطمہ (ع) کس لئے میرے پاس آئی تھیں؟ جناب فاطمہ (ع) نے اپنی حاجت کے بیان کرنے میں شرم محسوس کی حضرت علی (ع) نے عرض کی یا رسول اللہ(ص) ، فاطمہ (ع) اس قدر پانی بھر کر لائیں ہیں کہ مشک کے بند کے داغ آپ کے سینے پر پڑچکے ہیں اتنی آپ نے

۷۳

چکی چلائی ہے کہ آپ کے ہاتھ پر چھالے پڑ گئے ہیں اتنا آپ نے اپنے گھر کی صفائی کے لئے جھاڑو دیئے ہیں کہ آپ کا لباس غبار آلود اور میلا ہوچکا ہے اور اتنا آپ ن خوراک اور غذا پکائی ہے کہ آپ کا لباس کثیف ہوگیا ہے_ میں نے ان سے کہا تھا کہ آپ کی خدمت میں جائیں شاید کوئی کنیز اور مددگار آپ انہیں عطا فرما دیں_

پیغمبر(ص) نے فرمایا بیٹی فاطمہ (ع) کیا تمہیں ایسا عمل نہ بتلاؤں جو کنیز سے بہتر؟ جب سونا چاہو تو تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، تینتیس مرتبہ الحمد اللہ، چونتیس مرتبہ اللہ اکبر پڑھا کرو_ یہ ذکر ایک سو سے زیادہ نہیں_ لیکن اس نے نامہ عمل میں ایک ہزار حسنہ لکھا جاتا ہے_ فاطمہ (ع) ، اگر اس ذکر کو ہر روز صبح پڑھو تو خداوند تیرے دنیاا ور آخرت کے کاموں کی اصلاح کردے گا_ فاطمہ (ع) نے جواب میں کہا ابا جان میں خدا اور اس کے رسول سے راضی ہوگئی _(۱)

ایک دوسری حدیث میں اس طرح آیا ہے کہ فاطمہ (ع) نے اپنے حالات اپنے با با سے بیان کئے اور آپ(ص) سے ایک لونڈی کا تقاضا کیا_ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گریہ کرتے ہوئے فرمایا_ فاطمہ (ع) خدا کی قسم چار سو آدمی فقیر اس وقت مسجد میں رہ رہے ہیں کہ جن کے پاس نہ خوراک ہے اور نہ ہی لباس مجھے خوف ہے کہ اگر تمہارے پاس لونڈی ہوئی تو گھر میں خدمت کرنے کا جو اجر و ثواب ہے وہ تمہارے ہاتھ سے نکل جائے گا_ مجھے خوف ہے کہ علی ابن ابی طالب قیامت کے دن تم سے اپنے حق کا مطالبہ کریں اس کے بعد آپ نے تسبیح زہرا(ع) آپ کو بتلائی_ امیرالمومنین نے فرمایا کہ دنیا کی طلب کے لئے پیغمبر(ص) کے پاس گئی تھیں لیکن آخرت کا ثواب ہمیں نصیب ہوگیا_(۲)

____________________

۱) بحارالانوار، ج ۴۳ ص ۸۲_ ۱۳۴_

۲) بحارالانوار، ج ۴۳ ص ۸۵_

۷۴

ایک دن پیغمبر(ص) جناب فاطمہ (ع) کے گھر تشریف لے گئے دیکھا کہ علی (ع) اور فاطمہ (ع) چکی چلانے میں مشغول ہیں آپ نے پوچھا تم میں سے کون تھک چکا ہے؟ حضرت علی علیہ السلام نے عرض کی کہ فاطمہ (ع) ، چنانچہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جناب فاطمہ (ع) کی جگہ بیٹھ گئے اور حضرت علی کی چکی چلانے میں مدد کی_(۱)

جناب جابر کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام(ص) نے دیکھا کہ جناب فاطمہ (ع) معمولی قیمت کا لباس پہنے ہوئے ہیں اور اپنے ہاتھ سے چکی چلاتی ہیں اور بچوں کو گود میں لئے ہوئے دودھ پلاتی ہیں یہ منظر دیکھ کر آپ کے آنسو جاری ہوگئے اور فرمایا میری پیاری بیٹی دنیا کی سختی اور تلخی کو برداشت کرو تا کہ آخرت کی نعمتوں سے سرشار ہوسکو آپ نے عرض کیا، یا رسول اللہ(ص) میں اللہ تعالی کی ان نعمتوں پر شکر گزار ہوں اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی کہ خدا قیامت کے دن اتنا تجھے عطا کرے گا کہ تو راضی ہوجائے _(۲)

اما م جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ حضرت علی (ع) لکڑیاں اور گھ کا پانی مہیا کرتے تھے اور گھر کی صفائی کرتے تھے اور جناب فاطمہ (ع) چکی پیستی تھیں اور آٹا گوندھتی اور روٹی پکاتی تھیں_(۳)

ایک دن جناب بلال خلاف معمول مسجد میں صبح کی نماز میں دیر سے پہنچے تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی آپ نے عرض کیا_ جب میں مسجد آرہا تھا تو جناب فاطمہ (ع) کے گھر سے گزرا میں نے دیکھا کہ آپ چکی پیس رہی ہیں اور

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۵۰_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۸۶_

۳) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۵۱_

۷۵

بچے رو رہے ہیں، میں نے عرض کی اے پیغمبر کی بیٹی ان دو کاموں میں سے ایک میرے سپرد کردیں تا کہ میں آپ کی مدد کروں، آپ نے فرمایا بچوں کو بہلانا مجھے اچھا آتا ہے اگر تم چاہتے ہو تو چکی چلا کر میری مدد کر و میں نے چکی کا چلانا اپنے ذمہ لے لیا اسی لئے مسجد میں دیر سے آیا ہوں_ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو نے فاطمہ (ع) پر رحم کیا ہے خدا تم پر رحم کرے_(۱)

شوہر کے ہمراہ

جناب فاطمہ (ع) کسی عام آدمی کے گھر زندگی نہیں گزار رہی تھیں بلکہ وہ اسلام کی دوسری شخصیت، جو اسلام کے سپہ سالار اور بہادر اور قوی اور پیغمبر(ص) کے خصوصی وزیر اور مشیر تھے ، کے گھر میں زندگی گزار رہی تھیں اسلام اور اپنے شوہر کے حساس مقام کو اچھی طرح سمجھتی تھیں اور جانتی تھیں کہ اگر علی کی تلوار نہ ہو تو اسلام کی کوئی پیشرفت نہیں ہوسکتی ، جناب فاطمہ (ع) اسلام کے بحرانی اور بہت حساس مواقع کے لحاظ سے حضرت علی علیہ السلام کے گھر زندگی گزار رہی تھیں اسلام کا لشکر ہر وقت تیار رہتا تھا، ہر سال میں کئی لڑائیاں ہو جاتی تھیں_ حضرت علی (ع) ان تمام یا اکثر جنگوں میں شریک ہوا کرتے تھے_

جناب زہرا(ع) اپنی سخت اور حساس ذمہ داری سے باخبر تھیں اور اس سے بھی بطور کامل مطلع تھی کہ عورت کا مرد کے مزاج پر کیا اثر ہوتا ہے، جانتی تھیں کہ عورت اس قسم کا نفوذ اور قدرت رکھتی کے کہ جس طرف چاہے مرد کو پھیر سکتی ہے اور یہ بھی جانتی تھیں کہ مرد کی ترقی یا تنزلی اور سعادت اور بدبختی کتنی عورت کی رفتار اور مزاج

____________________

۱) ذخائر العقبی ، ص ۵۱_

۷۶

سے وابستہ ہے اور یہ بھی جانتی تھیں کہ گھر مرد کے لئے مورچہ اور آسائشے کا مرکز ہے مرد مبارز کے میدان اور حوادث زندگی اور ان کے مشکلات سے روبرو ہو کر تھکا ماندا گھر ہی آکر پناہ لیتا ہے تاکہ تازہ طاقت حاص کرے اور اپنے وظائف کی انجام دہی کے لئے اپنے آپ کو دوبارہ آمادہ کرسکے_ اس مہم آسائشےگاہ کی ذمہ دایاں عورت کو سونپی گئی ہیں_ اسی لئے اسلام نے ازدواجی زندگی کو جہاد کے برابر قرار دیا ہے_ امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ عورت کا جہاد یہ ہے کہ وہ اچھی طرح شوہر کی خدمت کرے _(۱)

جناب فاطمہ (ع) جانتی تھیں اسلام کا بہادر اور طاقتور سپہ سالار جنگ کے میدان میں اس وقت فاتح ہوسکتا ہے جب وہ گھر کے داخلی امور سے بے فکر اور اپنی رفیقہ حیات کی مہربانیوں اور تشویقات سے مطمئن ہو، اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ اسلام کا فداکار سپہ سالار علی (ع) جب جنگ سے تھکا ماندا میدان سے گھر آتا تھا تو اپنی ہمسر کی مہربانیوں اور نوازشات اور پیار بھری باتوں سے کاملاً نوازا جاتا تھا_ آپ ان کے جسم کے زخموں پر مرہم پٹی کرتی تھیں ان کے خون آلود لباس کو دھوتی تھیں اور جنگ کے حالات ان سے سنانے کو کہتی تھیں_

جناب زہرا معظمہ ان تمام کاموں کو خود انجام دیتی تھیں یہاں تک کہ کبھی اپنے باپ کے خون آلود کپڑے بھی خود ہی دھویا کرتی تھیں، ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم احد کی جنگ سے واپس آئے تو آپ نے اپنی تلوار جناب زہرا کو دی اور فرمایا کہ اس کا خون بھی دھودو_(۲)

____________________

۱) وافی کتاب نکاح ص ۱۱۴_

۲) سیرہ ابن ہشام، جلد ۳ ص ۱۰۶_

۷۷

جناب زہرا(ع) اپنے شوہر کو آفرین اور شاباش دے کر شوق دلایا کرتی تھیں آپ اور کی فداکاری و بہادری کی داد دیا کرتی تھی اس طرح آپ حضرت علی (ع) کی حوصلہ افزائی اور اپ کو اگلی جنگ کے لئے تیار کرتی تھیں_ اپنی بے ریا محبت سے تھکے ماندے علی (ع) کو سکون مہیا کرتی تھیں خود حضرت علی علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ جب میں گھر واپس آتا تھا اور جناب زہرا (ع) کو دیکھتا تھا تو میرے تمام غم و اندوہ ختم ہوجایا کرتے تھے _(۱)

جناب فاطمہ (ع) کبھی بھی حضرت علی (ع) کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر قدم نہیں رکھتی تھیں اور کبھی بھی حضرت علی علیہ السلام کو غضبناک نہیں کرتی تھیں کیونکہ جانتی تھیں کہ اسلام کہتا ہے کہ جو عورت شوہر کو غضب ناک کرے خداوند اس کی نماز اور روزے کو قبول نہیں کرتا جب تک اپنے شوہر کو راضی نہ کرے_(۲)

جناب فاطمہ (ع) نے حضرت علی (ع) کے گھر بھی جھوٹ نہیں بولا اور خیانت نہیں کی اور کبھی آپ کے حکم کی مخالفت نہیں کی حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی ایسا کام نہیں کیا کہ جس سے فاطمہ (ع) غضبناک ہوئی ہوں، اور فاطمہ (ع) نے بھی کبھی مجھے غضبناک نہیں کیا _(۳)

حضرت علی علیہ السلام نے جناب زہرا(ع) کے آخری وداع میں اس کا اعتراف کیا ہے، کیونکہ جناب زہرا(ع) نے اپنے آخری وقت میں علی (ع) سے کہا تھا اے ا بن عم آپ نے مجھے کبھی دروغ گو اور خائن نہیں پایا جب سے آپ نے میرے سامنے زندگی شروع کی ہے میں نے آپ کے احکام کی مخالفت نہیں کی، علی (ع) نے فرمایا اے رسول خدا(ص) کی دختر

____________________

۱) مناقب خوارزمی، ص ۲۵۶_

۲) وافی کتاب نکاح، ص ۱۱۴_

۳) مناقب خوارزمی، ص ۲۵۶_

۷۸

معاذاللہ تم نے گھر میں مجھ سے برا سلوک کیا ہو کیونکہ تیری اللہ کی معرفت اور پرہیز گاری اور نیکوکاری اور خدا ترسی اس حد تک تھی کہ اس پر ایراد اور اعتراض نہیں کیا جاسکتا تھا، میری محترم رفیقہ حیات مجھ پر تیری جدائی اور مفارقت بہت سخت ہے لیکن موت سے کسی کو مفر نہیں_(۱)

چونکہ حضرت علی (ع) کی فکر داخلی امو ر سے کاملا آزاد تھی اور اپنی بیوی کی تشویق سے بھی بہرہ مند تھے اسی لئے آپ کے لئے وہ تمام کامیا بیان ممکن ہوسکیں_

لیکن یہ خیال کبھی یہ کیجئے کہ حضرت علی (ع) ابن ابی طالب ان خود پسند اور خود خواہ مردون میں سے تھے کہ ہزاروں توقع اپنی سے تو رکھتے ہوں لیکن اپنے لئے کسی مسئولیت یا ذمہ داری کے قائل نہ ہوں اور اپنے آپ کو عورت کا حاکم مطلق سمجھتے ہوں اور عورت کو زر خرید غلام بلکہ اس سے بھی پست تر خیال کرتے ہوں ایسا بالکل نہ تھا حضرت علی (ع) اسی حالت میں جب میدان جنگ میں تلوار چلا ہے ہوتے تھے تو جانتے تھے کہ ان کی بیوی بھی اسلام کے داخلی مورچہ ''گھر'' میں جہاد میں مشغول ہے ان کی غیر حاضری میں تمام داخلی امور اور خارجی امور کی ذمہ داری جناب فاطمہ (ع) پر ہے کھانا پکاتی تھیں لباس دھوتی تھیں، بچوں کی نگاہ داری کرتی تھیں اور اولاد کی ترتیت میں سخت محنت کرتی تھیں_ جنگ کے زمانے میں سختی او رقحط کے دور میں غذا اور دیگر زندگی کے اسباب مہیا کرنے میں کوشش کرتی تھیں، جنگ او رحوادث کی ناراحت کنندہ خبر سن کر ناراحت ہوتیں اور انتظار کی سختی برداشت کرتی تھیں_

خلاصہ گھر کے نظم و ضبط کو برقرار رکھتیں جو کہ ایک مملک چلانے سے آسان نہیں ہوا کرتا، حضرت علی (ع) کو احساس تھا کہ داخلی سپاہی کو بھی دلجوئی اور محبت اور تشویق کی

____________________

۱) بحارالانوار ، ج ۴۳ص ۱۹۱_

۷۹

ضرورت ہوتی ہے اسی لئے جب بھی آپ گھر میں تشریف لاتے تو آپ گھر کے حالات او رجناب زہرا(ع) کی محنت او رمشقت کی احوال پرسی کرتے تھے اور اس تھکی ماندی شخصیت کو سرا ہتے اور اس کے پمردہ دل کو اپنی مہربانیوں اور دل نواز باتوں کے ذریعہ سکون مہیا کرتے، زندگی سختی اور فقر اور تہی دستی کے لئے ڈھارس بندھاتے اور زندگی کے کاموں کو بجالانے اور زندگی کے کاموں میں آپ کی ہمت افزائی کرتے تھے_ علی (ع) جانتے تھے کہ جتنا مرد عورت کے اظہار محبت اور خلوص اور قدردانی کا محتاج ہے اتنا عورت بھی اس کی محتاج ہے یہ دونوںاسلام کا نمونہ تھے اور اپنے وظائف پر عمل کرتے اور عالم اسلام کے لئے اپنے اخلاق کا نمونہ بنے رہے_

کیا جناب رسول خدا(ص) نے زفاف کی رات علی (ع) سے نہیں فرمایا تھا کہ تمہاری بیوی جہاں کی عورتوں سے بہتر ہے، اور جناب زہرا(ع) ، سے فرمایا تھا کہ تمہارا شوہر علی (ع) جہان کے مردوں سے بہتر ہے _(۱)

کیا پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہیں فرمایا تھا کہ اگر علی (ع) نہ ہوتے تو فاطمہ (ع) کا کوئی کفو اور لائق شوہر موجود نہیں تھا_(۲)

جناب فاطمہ (ع) نے اپنے والد بزگوار سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ تم میں سے بہترین مرد وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے محسن او رمہربان ہوں_(۳)

کیا خود حضرت علی علیہ السلام نے زفاف کی صبح پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی

____________________

۱) بحارالانوار، ج ۴۳ص ۱۳۲_

۲) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۹۸_

۲) دلائل الامامہ، ص ۷_

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

مستکبرین کے خلاف لوگوں کو بیدار کرتے تھے _ شرک و بت پرستی اور فساد سے مبارزہ کرتے تھے_ لوگوں کو وحدانیت ، خداپرستی اور وحدت کی دعوت دیتے تے ، ظلم و ستم اور استکبار کی مخالفت کرتے تھے _ قرآن مجید میں خداوند عالم کا ارشاد ہے :

یقینا ہم نے ہر قوم میں رسول بھیجا کہ وہ خدا کی عبادت کریں اور طاغوت سے اجتناب کریں ''(۱)

فرماتا ہے '' جو بھی طاغوت سے اجتناب کرتا ہے اور خدا پر ایمان لاتا ہے وہ خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیتا ہے ''(۲)

قرآن مجید مستضعفین کی نجات کے لئے راہ خدا میں جہاد کرنے کو مسلمانوں کا فریضہ قرار دیتا ہے _ چنانچہ ارشاد ہے :

'' مستضعفین کی نجات کے لئے راہ خدا میں جہاد کیوں نہیں کرتے ؟ مرد عورتیں اور بچے فریاد کررہے ہیں _ ہمارے خدا ہمیں اس ظالموں کے قریہ سے نکال لے اور اپنی طرف سے ہمارا سرپرست مقررکردے اور ہمارا مددگار معین فرما _ مومنین راہ خدا میں اور کفار راہ طاغوت میں جنگ کرتے ہیں _ لہذا شیطان کے طرف داروں سے جنگ کرو کہ شیطان کا مکر چلنے والا نہیں ہے ''(۳)

____________________

۱_ سورہ نحل / آیت ۳۶_

۲_ سورہ بقرہ / آیت ۲۵۶_

۳_ سورہ نساء / آیت ۷۶_

۳۰۱

مذکورہ بحث سے چند چیزوں کا اثبات ہوتا ہے:

۱_ جو مستکبرین لوگوں پر حکومت کرتے ہیں وہ اقلیت میں ہیں ، ان کی اپنی کوئی طاقت نہیں ہے بلکہ وہ مستضعفین کی طاقت و قدرت سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور انھیں قید و بند میں ڈال کر کمزور بناتے ہیں _

۲_ مستضعفین اکثریت میں ہیں حقیقی قدرت و توانائی ان ہی کی ہے ، وہ کمزور و ناتوان نہیں ہیں بلکہ مستکبرین کے پروپیگنڈوں سے خود کمزور سمجھتے ہیں _

۳_ مستضعفین کی ناکامی اور بدبختی کا اہم ترین عامل ان کا احساس کمتری و کمزوری ہے ، چونکہ وہ خود کو ناتوان اور مستکبرین کو قوی و طاقتور سمجھتے ہیں لہذا ان کے ہاتھوں کی کٹھپلتی بن جاتے ہیں اور ان کے اشاروں پر کام کرتے ہیں اور ہر قسم کی ذلت و محرومیت کو قبول کرلیتے ہیں _ ان میں مخالفت کی جرات نہیں ہے _ محروم و مستضعف لوگوں کی لا علاج بیماری یہ ہے کہ انہوں نے اپنی عظیم طاقت کو فراموش کردیا ہے اور مستکبرین کی جھوٹی طاقت کے رعب میں آگئے ہیں اور طاغوتیوں کیلئے ظلم و تعدی کا راستہ اپنے ہاتھوں سے کھول دیا ہے _

۴_ پسماندہ اور مستضعف طبقہ کی نجات کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ اپنی عظیم وقوی گم شدہ شخصیت کو حاصل کریں ایک عالمی انقلاب و حملہ سے ساری بندشین توڑڈالیں ، اور مستکبریں و طاغوتیوں کی حکومت کو ہمیشہ کیلئے نابود کردیں اور خود دنیا کی حکومت اور اس کے نظم و نسق کی زمام سنبھالیں کہ یہ کام بہت مشکل نہیں ہے _ کیونکہ اصلی قدرت و توانائی عوامل کے ہاتھ میں ہے ، ان ہی کی اکثریت ہے ، اگر دانشور ، موجد ، ملازمین ، ٹھیکیدار ، پولیس ، کسان اور صنعت گر سب ہی ہوش میں

۳۰۲

آجائیں اور اپنی عظیم توانائی کو مستکبرین کے اختیار میں نہ دیں تو ان کی جھوٹی حکومت لمحوں میں ڈھیر ہوجائے گی _ اگر ساری توانائیاں ، دفاع ، پولیس اور اسلحہ کو مستضعفین کی حمایت میں استعمال کیا جائے اور اس سلسلہ میں سب متحد ہوجائیں تو پھر مستکبرین کی کوئی طاقت باقی رہے گی؟

یہ کام اگر چہ بہت دشوار ہے لیکن ممکن ہے اور قرآن ایسے تابناک زمانہ کی خوش خبری دے رہا ہے _ ارشاد ہے :

''ہم چاہتے ہیں کہ مستضعفین پر احسان کریں ، انھیں امام بنائیں اور انھیں زمین کا وارث بنائیں اور روئے زمین پر انھیں قوی بنائیں''(۱)

یہ عالمی انقلاب ، حضرت مہدی اور آپ کے اصحاب و انصار کے ذریعہ کامیاب ہوگا _ امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے :

''جب ہمارا قائم قیام کرے گا اس وقت خداوند عالم ان کا ہاتھ بندوں کے سرپررکھے گا اور اس طرح ان کے حواس جمع اور عقل کامل کرے گا ''(۲)

قرآن و احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ عالمی اور عظیم انقلاب دین اور قوانین الہی کے عنوان کے تحت آئے گا _ امام مہدی اس کی قیادت کریں گے اور شائستہ و فداکار مومنین آپ کی رکاب میں جہاد کریں گے _

خدا نے ایمان لانے والوں اور عمل صالح انجام دینے والوں سے وعدہ کیا

____________________

۱_ قصص/۵_

۲_ بحار الانوار ج ۵۲ص ۳۳۶_

۳۰۳

ہے کہ انھیں زمین پر خلیفہ بنائے گا جیسا کہ پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا اور یہ خوش خبری دی ہے کہ جس دین کو ان کے لئے منتخب کیا ہے اس پر انھیں ضروری قدرت عطا کرے گا اور ان کے خوف کو امن و امان سے بدل دے گا کہ وہ خدا ہی کی عبادت کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں گے _(۱)

احادیث میں آیا ہے کہ اس آیت سے حضرت مہدی اور ان کے انصار و اصحاب مراد ہیں اور ان ہی کے ذریعہ پوری دنیا میں اسلام پھیلے گا اور تمام ادیان پر غالب ہوگا _

قرآن مجید و احادیث ایسے دن کی خوش خبری دے رہی ہیں کہ جس میں دنیا کے مستضعفین خواب غفلت سے بیدار ہوں گے اور اپنی عظیم توانائی اور مستکبرین و طاغوتیوں کی ناتوانی کو سمجھیں گے اور مہدی کی قیادت میں توحید کے پرچم کے نیچے جمع ہونگے ایمان کی طاقت پر اعتماد کرکے ایک صف میں مستکبرین کے مقابلہ کھڑے ہوں گے اور ایک اتفاقی حملہ سے استکبار کے نظام کو درہم و برہم کردیں گے _ اسی تابناک زمانہ کفر و شرک اور مادہ پرستی کا قلع و قمع ہوگا ، لوگوں کے درمیان سے اختلاف و تفرقہ بازی ختم ہوجائے گی _ موہوم و اختلاف انگیز سرحدوں کا اعتبار نہیں ہرے گا اور ساری دنیا کے انسان صلح و صفائی اور آسائشے و آرام کے ساتھ زندگی بسر کریں گے _

____________________

۱_ نور/ ۵۵_

۳۰۴

مہدی ظہور کیوں نہیں کرتے ؟

جلالی : دنیا ظلم و جور اور کفرو الحاد سے بھر چکی ہے تو دنیا کی آشفتہ حالی کو ختم کرنے کے لئے مہدی ظہور کیوں نہیں کرتے؟

ہوشیار: کوئی بھی تحریک و انقلاب اسی وقت کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے جب اس کیلئے ہر طرح کے حالات سازگار اور زمین ہموار ہوتی ہے _ کامیابی کی اہم ترین راہ یہ ے کہ سارے انسان اس انقلاب کے خواہاں ہوں اور سب اس کی تائید و پشت پاہی کیلئے تیارہوں _ اس صورت کے علاوہ انقلاب ناکام رہے گا _ اس قاعدہ کلی سے انقلاب مہدی موعود بھی مستثنی نہیں ہے _ یہ انقلاب بھی اس وقت کامیاب ہوگا جب ہر طرح کے حالات سازگار اور زمین ہموار ہوگی _ آپ کا انقلاب معمولی نہیں ہے بلکہ ہمہ گیر اور عالمی ہے _ اس کا بہت عمیق و مشکل پروگرام ہے _ آپ تمام نسلی ، ملکی ، لسانی ، مقصدی اور دینی اختلافات کو ختم کرنا چاہتے ہیں تا کہ روئے زمین پر صرف ایک قوی نظام کی حکمرانی ہو کہ جس سے صلح و صفائی کے ساتھ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کریں _ آپ جانتے ہیں کہ منبع ہی سے پانی کی اصلاح کی جا سکتی ہے لہذا آپ اختلافی عوامل کو جڑے ختم کردینا چاہتے ہیں تا کہ درندہ خصلت انسانوں سے درندگی کی عادت ختم ہوجائے اور شیر و شکر کی طرح ایک ساتھ زندگی گزاریں _ امام مہدی دنیا سے

۳۰۵

کفر و الحا دکو نابود کرکے لوگوں کو خدائی قوانین کی طرف متوجہ کرکے دین اسلام کو عالمی آئین بنانا چاہتے ہیں _

افکار و خیالات کے اختلاف کو ختم کرکے ایک مرکز پر جمع کرنا چاہتے ہیں اور جھوٹے خداؤں ، جیسے سرحدی ، لسانی ، ملکی ، گروہی ، علاقائی اور جھوٹی شخصیتوں کو ذہن انسان سے نکال کر پھینک دینا چاہتے ہیں _ مختصر یہ کہ نوع انسان اور معاشرہ انسانی کو حقیقی کمال و سعادت سے ہمکنار کرنا چاہتے ہیں اور انسانی اخلاق و فضائل کے پایوں پر ایک معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں _

اگر چہ ایسی باتوں کا لکھنا مشکل نہیں لیکن محققین و دانشور جانتے ہیں کہ ایک ایسے عالمی و عمیق انقلاب کا آنا آسان نہیں ہے _ ایسا انقلاب مقدمات ، اسباب ، عام ذہنوں کی آمادگی اور زمین ہموار ہونے کے بغیر نہیں آسکتا _ ایسے عمیقانقلاب کا سرچشمہ دلوں کی گہرائی کو ہونا چاہئے _ خصوصاً مسلمانوں کو اس کا علم بردار ہونا چاہئے ، قرآن مجید بھی صلاحیت و شائستگی کو اس کی شرط قرار دیتا ہے _ چنانچہ ارشاد ہے :

'' ہم نے زبور میں لکھ دیا ہے کہ ہم اپنے شائستہ بندوں کو زمین کا وارث بنائیں گے''(۱) _

اس بناپر جب تک نوع انسان رشد و کمال کی منزل تک نہیں پہنچے گی اور امام مہدی کی حکومت حق کو قبول کرنے کیلئے تیار نہ ہوگی ، مہدی ظہور نہ فرمائیں گے _ واضح

____________________

۱_ انبیائ/۱۰۵_

۳۰۶

ہے کہ افکار کی آمادگی لمحوں میں نہیں ہوتی ہے بلکہ حوادث کے پیش آنے کے ساتھ طویل زمانہ میں ہوتی ہے اور تب لوگ کمال کی طرف مائل ہوتے ہیں لوگوں کو اس اور اس ملک کے بارے میںاس قدر بحث و مباحثہ کرنا پڑے گا اور موہوم سرحدوں کے اوپر اتنی جنگ و خونریزی کرنا پڑے گی کہ لوگ ایسی باتوں سے عاجز آجائیں گے اور سمجھ لیں گے کہ یہ سرحدیں تنگ نظر لوگوں کی ایجاد ہے _ اس صور ت میں وہ اعتباری اور اختلاف انگیز حدود سے ڈریں گے اور ساری دنیا کو ایک ملک اور سارے انسانوں کو ہم وطن اور نفع و ضرر اور سعادت و بدبختی میں شریک سمجھیں گے _ اس زمانہ میں کالے گورے ، سرخ و پیلے ، ایشائی ، افریقی ، امریکی ، یورپی ، شہری ، دیہاتی اور عرب و عجم کو ایک نظرسے دیکھیں گے _

انسان کی اصلاح ، سعادت اور آسائشے کے لئے دانشور ایسے قوانین مرتب کرتے رہیں اور پھر ان پر تبصرہ کریں اور ایک زمانہ کے بعد انھیں لغو قراردیں اور ان کی بجائے دوسرے قوانین لائیں یہاں تک اس سے لوگ اکتا جائیں اور دنیا والے بشر کے قوانین کے نقصان اور قانون بنانے والی کی کم عقلی و کوتاہ فکری کا اندازہ لگالیں اور ان قوانین کے سایہ میں ہونے والی اصلاح سے مایوس ہوجائیں اور اس بات کا اعتراف کرلیں کہ انسان کی اصلاح صرف پیغمبروں کی اطاعت اور قوانین الہی کے نفوذ سے ہوسکتی ہے _

بشر ابھی خدائی پروگرام کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے اس کا خیال ہے کہ علوم و اختراعات کے ذریعہ انسان کی سعادت کے اسباب فراہم کئے جا سکتے ہیں _ لہذا وہ الہی اور معنوی پروگرام کو چھوڑ کر مادیات کی طرف دوڑتا

۳۰۷

ہے اور اسے اتنا دوڑنا چاہئے کہ وہ عاجز آجائے اور سخت دھچکا لگے تو اس وقت اس بات کااعتراف کرے گا کہ علوم و اختراعات اگر چہ انسان کو فضا کے دوش پر سوار کرسکتے ہیں ، اس کے لئے آسمان کروں کو مسخر کرسکتے ہیں ، اور مہلک ہتھیار اس کے اختیار میں دے سکتے ہیں لیکن عالمی مشکلوں کو حل نہیں کر سکتے اور استعمار و بیدادگری کا قلع و قمع کرکے انسانوں کو روحانی سکون فراہم نہیں کر سکتے _

جس وقت سے انسان نے حاکم و فرمانروا کو تلاش کیا ہے اور اس کی حکومت کو قبول کیا ہے اس وقت سے آج تک ان سے اس بات کو توقع رہی ہے اور ہے کہ وہ طاقتور اور ذہین افراد ظلم و تعدی کا سد باب کریں اور سب کی آسائشے و آرام کا ساماں کریں _ لیکن ان کی یہ توقع پوری نہیں ہوتی ہے اور ان کے حسب منشا

حکومت نہیں بنی ہے _ لیکن جب بارہا اس کا مشاہدہ ہوچکاکہ حالات میں کوئی فرق نہیں آیا ہے _ دنیا میں بھانت بھانت کی حکومتوں کی تاسیس ہو فریب کار اور رنگ رنگ پارٹیاں تشکیل پائیں اور ان کی نااہلی ثابت ہوتا کہ انسان ان کی اصلاحات سے مایوس ہوجاتے اور اسے خدائی اصلاحات کی ضرورت محسوس ہو اور وہ توحید کی حکومت تسلیم کرنے کیلئے تیار ہوجائے _ ہشام بن سالم نے امام صادق سے روایت کی ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا:

''جب تکہر قسم کے لوگوں کے ہاتھ میں حکومت نہیں آئے گی اس وقت تک صاحب الامر کا ظہور نہیں ہوگا _ تا کہ جب وہ اپنی حکومت کی تشکیل دیں تو کوئی یہ نہ کہے کہ اگر ہمیں حکومت ملی ہوئی تو ہم بھی اسی طرح عدل قائم کرتے ''(۲) _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۲۴۴_

۳۰۸

امام محمد باقر(ع) کا ارشاد ہے :

''ہماری حکومت آخری ہے _ جس خاندان میں بھی حکومت کی صلاحیت ہوگی وہ ہم سے حکومت کرلے گا _ تاکہ جب ہماری حکومت تشکیل پائے تو اس وقت کوئی یہ نہ کہے کہ اگر ہمیں حکومت ملتی تو م بھی آل محمد (ص) کی طرح عمل کرتے اور آیہ ''والعاقبة للمتقین'' کے یہی معنی ہیں ''(۱)

گزشتہ بیان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انسان کی طبیعت ابھی توحید کی حکومت قبول کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ اس نعمت سے ہمیشہ محروم رہے گا _ بلکہ جو خدا ہر موجود کو مطلوبہ کمال تک پہنچاتا ہے وہ نوع انسان کو بھی مطلوبہ کمال سے محروم نہیں رکھے گا _ انسان نے جس روز سے کرہ زمین پر قدم رکھا ہے اس ی دن سے وہ ایک سعادت مند و کامیاب اجتماعی زندگی کا خواہشمند رہا ہے اور ا س کے حصول کی کوشش کرتا رہا ہے _ وہ ہمیشہ ایک تابناک زمانہ اور ایسے نیک معاشرہ کا متمنی رہا ہے کہ جس میں ظلم و تعدی کا نام و نشان نہ ہو انسان کی یہ دلی خواہش فضول نہیں ہے اور خداوند عالم ایسے مقصد تک پہنچنے سے نوع انسان کو محروم نہیں کرے گا _ ایک دن ایساضرور آئے گا کہ جس میں انسان کا ضمیر و دماغ پورے طریقے سے بیدار ہوگا _ گوناگوں قسم کے احکام و قوانین سے مایوس اورحکام و فرمانروائی سے ناامید ہوجائے گا ، اپنے ہاتھ سے کھڑی کی ہوئی مشکلوں سے عاجز آجائے گا اور پورے طریقہ سے خدائی قوانین کی طرف متوجہ ہوگا _ اور لا ینحل

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۳۲_

۳۰۹

اجتماعی مشکلات کا حل صرف پیغمبروں کی تاسی میں محدود سمجھے گا _ اسے یہ محسوس ہوگا کہ اسے دو گرانقدر چیزوں کی ضرورت ہے _ ۱_ خدا کے قوانین اور اصلاحات کیلئے الہی منصوبہ ۲_ معصوم و غیر معمولی زمام دار کہ جو خدائی احکام و قوانین کے نفاذ و اجراء میں سہو و نسیان سے دوچار نہ ہو اور سارے انسانوں کو ایک نگاہ سے دیکھتا ہو _ خداوند عالم نے مہدی موعود کو ایسے ہی حساس و نازک زمانہ کیلئے محفوظ رکھا ہے اوراسلام کے قوانین و پروگرام آپ کو ودیعت کئے ہیں _

دوسری وجہ

ظہور میں تاخیر کے سلسلہ میں اہل بیت کی روایات میں ایک اور علت بیان ہوئی ہے _ حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

''خداوند عالم نے کافروں اور منافقوں کے اصلاب میں با ایمان افراد کے نطفے ودیعت کئے ہیں اسی لئے حضرت علی (ع) ان کافروں کو قتل نہیں کرتے تھے جن سے کوئی مؤمن بچہ پیدا ہونے والا ہوتا تھا تا کہ وہ پیدا ہوجائے اور اس کی پیدائشے کے بعد جو کافر ہاتھ آجاتا تھا اسے قتل کردیتے تھے _ اسی طرح ہمارے قائم بھی اس وقت ظاہر نہ ہوں گے جب تک کافروں کے اصلاب سے خدائی امانت خارج ہوگی _ اس کے بعد آپ(ع) ظہور فرمائیں گے اور کافروں کو قتل کریں گے '' _(۱)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۱۰۵_

۳۱۰

امام زمانہ خداپرستی اور دین اسلام کو کافروں کے سامنے پیش کریں گے جو ایمان لے آئے گا وہ قتل پائے گا اور جو انکار کرے گا وہ تہ تیغ کیا جائے گا اور اہل مطالعہ سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ طول تاریخ میں کافر منافقوں کی نسل سے مومن و خداپرست بچے پیدا ہوئے ہیں _ کیا صدر اسلام کے مسلمان کافروں کی اولاد نہ تھی؟ اگر فتح مکہ میں رسول خدا کافر مکہ کا قتل عام کردیتے تو ان کی نسل سے اتنے مسلمان وجود میں نہ آتے _ خدا کے لطف و فیض کا یہ تقاضا ہے کہ لوگوں کو ان کے حال پرچھوڑدے تا کہ مرور ایام میں ان کی نسل سے مومن پیدا ہوں اور وہ خدا کے لطف و فیض کا مرکز بن جائیں _ جب تک نوع سے مومن و خداپرست لوگ وجود میں آتے رہیں گے اس وقت تک وہ باقی رہے گی اور اسی صورت میں اپنا سفر طے کرتی رہے گی _ یہاں تک کہ عمومی افکار توحید و خداپرستی کو قبول کرنے کیلئے آمادہ ہوجائیں گے اور اس وقت امام زمانہ ظہور فرمائیں گے _ بہت سے کفار آپ کے ہاتھ پر ایمان لائیں گے اور کچھ لوگ کفر و الحاد ہی میں غرق رہیں گے اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن سے کوئی مومن پیدا نہ ہوگا _

اس کے بعد جلسہ ختم ہوگیا اور طے پایا کہ آئندہ جلسہ ڈاکٹر صاحب کے گھر منعقد ہوگا _

۳۱۱

ظہور کے وقت کو کیسے سمجھیں گے؟

جلسہ کی کاروائی شروع ہوئی اور جناب جلالی صاحب نے یہ سوال اٹھایا :

امام زمانہ کو کیسے معلوم ہوگا کہ ظہور کا وقت آگیا ہے ؟ اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت انھیں خدا کی طرف سے اطلاع دی جائے گی تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ پیغمبروں کی طرح آپ(ص) پر وحی ہوگی اور نتیجہ میں نبی و امام میں کوئی فرق نہیں رہے گا _

ہوشیار: اول تو دلیل اور ان روایات سے جو کہ امامت کے بارے میں وارد ہوئی ہیں یہ بات سمجھ آتی ہے کہ امام کا بھی عالم غیب سے ارتباط رہتا ہے اور ضرورت کے وقت امام بھی حقائق سے آگاہ ہوتا ہے _ بعض روایات میں آیا ہے کہ امام فرشتہ کی آواز سنتا ہے لیکن اسے مشاہدہ نہیں کرتا ہے _(۱)

اس بنا پر ممکن ہے کہ خدا کے ذریعہ امام کو ظہور کے وقت کی اطلاع دے _

حضرت امام صادق آیہ فاذا نقر فی النّاقور کی تفسیر کے ذیل میں فرمایا: ''ہم میں سے ایک امام کامیاب ہوگا جو طویل مدت تک غیبت میں رہے گا اور جب خدا اپنے امر کو ظاہر کرنا چاہئے گا اس وقت ان کے قلب میں

____________________

۱_ کافی ج ۱ ص ۲۷۱_

۳۱۲

ایک نکتہ ایجاد کرے گا اور آپ(ع) ظاہر ہوجائیں گے اور خدا کے حکم سے،قیام کریں گے(۱)

ابو جارود کہتے ہیں : میں نے امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی ہیں آپ کے قربان ، مجھے صاحب الامر کے حالات سے آگاہ کیجئے ، فرما یا :

شب میں آپ نہایت ہی خوف زدہ ہوں گے لیکن صبح ہوتے ہی مطمئن و پر سکون ہو جائیں گے آپ کے پرو گرام شب وروز میں وحی کے ذریعہ آپ کے پاس پہنچتے ہیں _ میں نے دریافت کیا : کیا امام پر بھی و حی ہوتی ہے ؟

فرمایا : وحی ہوتی ہے لیکن نبوت والی وحی نہیں ہوتی بلکہ ایسی وحی ہوتی ہے جیسی وحی کی مریم بنت عمران اور مادر موسی کی طرف نسبت دی گوی ہے _ اے ابو جارود قائم آل محمد خدا کے نزدیک مریم ، مادر موسی اور شہد کی مکھی سے کہیں زیادہ معزز ہیں''(۲)

ایسی احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امام کے اوپر بھی وحی و الہام ہوتا ہے جبکہ امام اور نبی میں فرق بھی رہتا ہے _ کیونکہ نبی پر شریعت کے احکام و قوانین کی وحی ہوتی ہے اس کے برخلاف امام پر احکام و قوانین کی وحی نہیں ہوتی بلکہ وہ اسکی حفاظت کا ضامن ہوتا ہے _

ثانیاً یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ظہور کے وقت رسول (ص) اسلام نے ائمہ کے توسط سے امام مہدی کو خبردی ہو _ اگر چہ کسی خاص حادیث کے رونما ہونے ہی کو ظہور کی

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۳۶۴_

۲_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۱۷۲ و بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۸۹_

۳۱۳

علامت قرارد یا ہو اور امام زمانہ اس علامت کے ظہور کے منتظر ہوں _

پیغمبر اسلام کا ارشاد ہے :

''جب مہدی کے ظہور کا وقت آجائے گا تو اس وقت خدا آپ کی تلوار اور پرچم کو گویائی عطا کرے گا اور وہ کہیں گے : اے محبوب خدا اٹھئے اور دشمنان خدا سے انتقام لیجئے '' _(۱)

مذکورہ احتمال کے شواہد میں سے وہ روایات بھی ہیں کہ جن کی دلالت اس بات پر ہے کہ تمام ائمہ کا دستور العمل خدا کی جانب سے رسول اکرم پر نازل ہوا تھا اور آپ (ص) نے اسے حضرت علی بن ابی طالب کی تحویل میں دیدیا تھا _ حضرت علی (ع) نے اپنے زمانہ خلافت میں اس صحیفہ کو کھولا اور اس کے مطابق عمل کیا اور اس کے بعد امام حسن (ع) کی تحویل میں آپ کا صحیفہ دیدیا _ اسی طرح ہر امام تک اس کا سر بمہر دستور العمل پہنچا اور انہوں نے اس کو کھولا اور اس کے مطابق عمل کیا _ آج

بھی امام زمانہ کے پاس آپ(ص) کا دستور العمل موجود ہے _(۲)

قیام کے اسباب

اس کے علاوہ اہل بیت (ع) کی احادیث سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ظہور امام زمانہ کے وقت دنیا میں کچھ حوادث رونما ہوں گے جو آپ کی کامیابی

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۱۱

۲_ کافی ج ۱ ص ۲۷۹

۳۱۴

اور ترقی کے اسباب فراہم کریں گے چنانچہ ایک ہی رات میں آپ(ع) کے انقلاب کے اسباب فراہم ہوجائیں گے ملاحظہ فرمائیں _

عبدالعظیم حسنی نقل کرتے ہیں کہ حضرت جواد (ع) نے ایک حدیث میں فرمایا:

''قائم ہی مہدی ہے کہ جن کی غیبت کے زمانہ میں ان کا منتظر اور ظہور کے وقت ان کا اطاعت گزاررہنا چاہئے وہ میرے تیسرے بیٹے ہیں_ قسم اس خدا کی کہ جس نے محمد کومبعوث بہ رسالت کیا اور ہمیں امامت سے سرفراز کیا اگر دنیا کی عمر کا ایک ہی دن باقی بچے گا تو بھی خدا اس د ن کو اتنا طولانی کردے گا کہ وہ ظاہر ہوکر زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں گے جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی تھی _ خداوند عالم ایک رات میں آپ کے اسباب فراہم کرے گا جیسا کہ اپنے کلیم حضرت موسی کے امور کی بھی ایک ہی شب میں اصلاح کی تھی _ موسی گئے تھے تا کہ اپنی زوجہ کے لئے آگ لائیں لیکن وہاں تاج نبوت و رسالت سے بھی سرفراز ہوئے ''(۱)

پیغمبر اکرم نے فرمایا:

''مہدی موعود ہم سے ہے خدا ان کے امور کی ایک رات میں اصلاح کرے گا ''(۲)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۲۰_

۲_ کتاب الحاوی الفتاوی ، جلال الدین سیوطی طبع سوم ج ۲ ص ۱۲۴_

۳۱۵

حضرت امام صادق (ع) نے فرمایا:

'' صاحب الامر کی ولادت لوگوں سے مخفی رکھی جائے گی تاکہ ظہور کے وقت آپ(ع) کی گردن پر کسی کی بیعت نہ ہو _ خداوند عالم ایک رات میں آپ کے امور کی اصلاح کرے گا '' _(۱)

امام حسین (ع) نے فرمایا:

'' میرے نویں بیٹے میں کچھ جناب یوسف کی اور کچھ جناب موسی کی سرت و روش ہوگی _ وہی قائم آل محمد ہیں _ خداوند عالم ایک رات میں ان کے امور کی اصلاح کرے گا_''(۲)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۹۶_

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۱۳۳_

۳۱۶

انتظار فرج

جلالی: امام زمانہ کی غیبت کے زمانہ میں مسلمانوں کا فریضہ کیا ہے؟

ہوشیار: دانشوروں نے کچھ فرائض معین کرکے کتابوں میں رقم کئے ہیں _ جیسے امام زمانہ کیلئے دعا کرنا ، آپ(ع) کی طرف سے صدقہ دینا ، آپ(ع) کی طرف سے حج کرنا یا کرانا ، آپ سے استعانت و استغاثہ کرنا _ یہ چیزیں سب نیک کام ہیں اور ان میں بحث کی ضرورت نہیں ہے لیکن روایات میں جو اہم ترین فریضہ بیان ہواہے اور جس کی وضاحت کی ضروت ہے ، وہ انتظار فرج کی فضیلت کے بارے میں ائمہ اطہار کی بہت زیادہ احادیث حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں مثلاً:

حضرت امام جعفر صاق کا ارشاد ہے :

''جو شخص ہم اہل بیت کی محبت پر مرتا ہے جبکہ وہ منتظر فرج بھی ہو تو ایسا ہی ہے جیسے حضرت قائم کے خیمہ میں ہو''_(۱)

حضرت امام رضا (ع) نے اپنے آباء و اجداد کے واسطہ سے رسول خدا سے نقل کیا ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا:

____________________

۱_ کمال الدین ج ۲ ص ۳۵۷_

۳۱۷

''میری امت کا بہترین عمل انتظار فرج ہے ''(۱)

حضرت علی بن ابی طالب کا ارشاد ہے :

''جو شخص ہماری حکومت کا انتظار کرتا ہے اس کی مثال راہ خدا میں اپنے خون میں غلطان ہونے والے کی ہے ''(۲) _

حضرت امام رضا (ع) فرماتے ہیں :

''صبر اور انتظار فرج کتنے بہترین چیز ہے؟ کیا لوگوں نے نہیں سنا ہے کہ خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے : تم انتظار کرو میں بھی منتظر ہوں پس صبر کرو کیونکہ ناامیدی کے بعد فرج نصیب ہوگا _ تم سے پہلے والے زیادہ بردبار تھے''(۳)

ایسی احادیث بہت زیادہ ہیں ، ائمہ اطہار (ع) نے شیعوں کو انتظار فرج کے سلسلہ میں تاکید کی ہے _ فرماتے تھے: انتظار بجائے خود ایک فرج و خوشحالی ہے ، جو شخص فرج کا منتظر رہے گا اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو میدان جنگ میں کفار سے جہاد کرے اور اپنے خون میں غلطان ہوجائے _ اس اعتبار سے زمانہ غیبت میں انتظار فرج بھی مسلمانوں کا عظیم فریضہ ہے _ اب دیکھنا یہ ہے کہ انتظار فرج کے معنی کیا ہیں؟ اور انسان فرج کا منتظر کیسے ہوسکتا ہے کہ جس سے مذکورہ ثواب حاصل ہوسکے ؟ کیا انتظار فرج کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ انسان زبان سے یہ کہدے کہ میں امام زمانہ کے ظہور کامنتظر ہوں ؟ یا کبھی کبھی فریاد و آہ کے ساتھ یہ بھی کہے :

____________________

۱_ کمال الدین ج ۲ ص ۳۵۷_

۲_ کمال الدین ج ۲ ص ۳۸۸_

۳_ کمال الدین ج ۲ ص ۳۵۸_

۳۱۸

اے اللہ امام زمانہ کے فرج میں تعجیل فرمایا یا نماز پنجگانہ کے بعد اور متبرک مقامات پر ظہور تعجیل کی دعا کرے یا ذکر و صلوات کے بعد اللہم عجل فرجہ الشریف کہے : یا جمعہ ، جمعہ با گریہ وز اری دعائے ندبہ پڑھے؟

اگر چہ یہ تمام چیزیں بجائے خود بہت اچھی ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ انسان ایسے امور کی انجام وہی سے حقیقی فج کے منتظر کا مصداق نہیں بن سکے گا کیونکہ ائمہ کی زبانی اسکی اتنی زیادہ فضیلیتیں بیان ہوئی ہیں _ انتظار فرج کرنے والے کو میدان جہاد میں اپنے خون میں غلطان انسان کے برابر قرار دیا ہے _

جو لوگ ہر قسم کی اجتماعی ذمہ داریوں اور امر بالمعروف و نہی عن المنکز کے فریضہ سے پہلو تہی کرتے ہیں ، فساد و بیدادگری پر خاموش بیٹھے رہتے ہیں ،ظلم و ستم و کفر و الحاد اور فساد کو تماش بینوں کی طرح دیکھتے ہیں اور ان حوادث پر صرف اتناہی کہتے ہیں : خدا فرج امام زمانہ میں تعجیل فرماتا کہ ان مفاسد کو ختم کریں _ میرے خیال میں آپ کا ضمیر اتنی سی باتوں سے مطمئن نہیں ہوگا اور انھیں آپ ان لوگوں کی صف میں کھڑا نہیں کریں گے جنہوں نے دین سے دفاع کی خاطر اپنے اہل و عیال اور مال و دولت سے ہاتھ دھولیئےیں اور میدان جہاد میں اپنی جان کو سپر قرار دیکر جام شہادت نوش کیا ہے _

اس بناپر انتظار فرج کے دقیق اور بلند معنی ہونا چاہئیں_ اس مدعا کی مزید وضاحت کیلئے پہلے میں دو موضوعوں کو مقدمہ کے عنوان سے پیش کرتا ہوں _ اس کے بعد اصل مقصد کا اثبات کروں _

مقدمہ اول : احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ امام زمانہ کے امور کا منصوبہ بہت وسیع اور دشوار ہے _ کیونکہ آپ کو پوری دنیا کی اصلاح کرنی ہے _ ظلم و ستم کا

۳۱۹

نام و نشان مٹانا ہے ، کفر و الحاد اور بے دینی کے نشانات کو محو کرنا ہے _ سارے انسانوں کو خداپرست بنانا ہے _ دین اسلام کو دنیا والوں کیلئے سرکاری دین قرار دینا ہے _ روئے زمین پر عدل و انصاف کو نافذ کرنا ہے _ موہومی سرحدوں کو انسان کے ذہن سے نکالنا ہے تا کہ وہ سب صلح و صفائی کے ساتھ پرچم توحید کے سایہ میں زندگی بسر کریں _ نوع انسان کی تمام اقوام و ملل اور نسلوں کو توحید کے علم کے سایہ میں لانا ہے اور اسلام کی عالمی حکومت کی تشکیل کرنا ہے _ محققین و دانشور جانتے ہیں کہ ایسے قوانین کا نفاذ بہت مشکل کام ہے اور اتنا ہی دشوار ہے کہ ایک گروہ اسے ناممکن سمجھتا ہے _ اس بناپر یہ کام اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب بشریت کا مزاج ایسے پروگرام کو قبول کرنے کیلئے تیار ہوجائے اور عام افکار اتنی ترقی کرلیں کہ ایسے خدائی دستور العمل کی خواہش کرنے لگیں اور امام زمانہ آفتاب عدالت کے انقلاب کے اسباب ہر طرح سے فراہم ہوجائیں _

دوسرا مقدمہ :

اہل بیت کی احادیث سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ امام زمانہ اور آپ کے اصحاب وانصار جنگ و جہاد کے ذریعہ کفر و الحاد پر کامیاب ہوں گے اور جنگی توانائی سے دشمن کی فوج اور ظلم و ستم و بے دینی کے طرف داروں کو مغلوب کریں گے _ اس سلسلہ کی احادیث میں سے چند یہ ہیں :

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:

''مہدی اپنے جد محمد (ص) سے اس لحاظ سے مشابہ ہیں کہ شمشیر کے ساتھ قیام کریں گے اور خدا و رسول (ص) کے دشمنوں ، ستمگروں اور گمراہ کرنے والوں کو نہ تیغ کریں گے تلوار کے ذریعہ کامیاب ہوں گے آپ کے لشکر میں سے کسی کو بھی ہزیمت نہیں ہوگی _(۱)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۲۱۸

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455