آفتاب عدالت

آفتاب عدالت13%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 185345 / ڈاؤنلوڈ: 5868
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

جسطرح خلقت کی ابتدا خداوند کریم سے ہے اسی طرح ان کے وجود کا باقی رہنا، پر وان چڑھنا اور نشو و نما بھی خدا کی ذات سے وابستہ ہے_

خدا کے علاوہ کون ہے جو بادام کے بیج کی مانند ایک مخصوص راہ کو طے کر رہے ہیں اور اس راہ میں صرف خدا کی ہدایت ان کے شامل حال ہے اور اس تکمیل کی راہ میں ان کا ہدایت کرنے والا پروردگار عالم ہے_

خداہی کی ذات ہے کہ جس نے ہر ایک کی سرشت اور فطرت میں حرکت راہ کو تلاش کرنا اور رشد و کمال تک پہنچنا و دیعیت کیا ہے اور یہ ایک عمومی ہدایت ہے اس عمومی ہدایت میں انسان کی حالت و کیفیت کیسی ہوتی ہے _ انسان دوسرے تمام موجودات سے ایک واضح فرق رکھتا ہے _ اور یہ فرق ، فکر ، ارادے و اختیار کی قدرت اور طاقت ،، کا ہوتا ہے _ دوسرے موجودات فکر و اختیار اور انتخاب جیسی قدرت سے بہرہ مند نہیں ہیں _ خداوند کریم نے یہ عظیم اور قیمتی نعمت انسان کو عطا کی ہے یہ بات واضح اور روشن ہے کہ انسان کو بھی دوسرے موجودات کی طرح عمومی ہدایت سے سرفراز ہونا چاہیئے لیکن یہ ہدایت بادام کے بیج کی طرح جبری نہیں ہے کہ اسکو رشد و ارتقاء کے مراحل طے کرنے میں کوئی اختیار حاصل نہیں انسان کو خدا نے فکر و انتخاب کی قوتوں کے ساتھ خلق کیا ہے لہذا ضروری ہے کہ اسے خیر و شر کے راستے بتائیں جائیں اور اگلا جہان جو کہ اس کے سامنے آنے والا ہے اس کی آنکھوں کے سامنے واضح کردیا جائے تا کہ وہ

۱۰۱

غور و فکر کے ساتھ اپنی راہ کا انتخاب کرسکے

انسان کو خیر و شر کا راستہ بتانے اور دکھانے والے اور آئندہ کے حالات سے آگاہ کرنے والے پیغمبر ہیں اللہ تعالی نے پیغمبروں کو انسان کی ہدایت لئے بھیجا ہے خداوند عالم نے سعادت بخش فرامین کو جو ایک حقیقی سر چشمہ سے جاری ہوتے ہیں وحی کے ذریعہ پیغمبروں کے اختیار میں قراردیا ہے پیغمبروں کی ماموریت ایک ایسی ماموریت ہے کہ جس میں تمام کے تمام پیغمبرو متحد اور ایک جیسا ہدف رکھتے ہیں یعنی کبھی بشارت و خوشخبری دے کراور کبھی دڑ اودھمکاکر معارف و احکام خدا کو لوگوں کیلئے بیان کریں اور انہیں خدا کے فرامین کی اطاعت کی دعوت دیں _

تین بنیادی اصول

تاریخ بشریت میں ہزاروں پیغمبر خداوند عالم کی جانب سے مبعوث کئے گئے ان میں سے کچھ دین اور شریعت لے کر آئے حضرت نوح (ع) ، حضرت ابراہیم (ع) ، حضرت موسی (ع) ، حضرت عیسی (ع) اور حضرت محمد(ص) کی مانند کہ ان تمام پاک و پاکیزہ ہستیوں پر ہمارا سلام ہو ان تمام پیغمبروں کو ''اولوالعزم'' پیغمبر کہاجاتا ہے_

باقی پیغمبران الہی کسی خاص دین و شریعت کے نہیں تھے بلکہ انکا کام اولوالعزم انبیاء کے دین و شریعت کی ترویج کرنا تھا لیکن یہ جان لینا چاہیئے کہ تمام پیغمبروں کے دین کی حقیقت و اصول ایک ہی میں اور وہ سب کے سب ایک ہدف کی طرف انسانوں کو دعوت دیتے ہیں_ سب ایک ہی پروگرام پر

۱۰۲

عمل کرتے رہے ہیں_

تمام آسمانی آدیان ان تین بنیادی اصولوں پر استوار ہیں_

اوّل: __ خدائے واحد و خالق کی شناخت اور اس پر ایمان_ _''توحید''

دوم: __معاد و آخرت اور انسان کے جاودانہ مستقبل پر ایمان__ ''معاد''

سوم: __ پیغمبروں اور ان کے ایک راہ و ہدف پر ایمان__ ''نبوت''

پیغمبر ان گرامی ان تین بنیادی اصولوں کی طرف انسانوں کو دعوت دیتے تھے اور ان سے خدا کی ہدایت پر کان دھرنے کی آرزو کیا کرتے تھے_

وہ چاہتے تھے کہ لوگ ان کی باتیں سنین اور ان پر غور و فکر کریں اور خدائے علیم و قدیر کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کردیں اور زندگی گزرانے کا سلیقہ صرف اور صرف خدا کی رضا کے مطابق اپنائیں_

تمام پیغمبروں نے اول سے آخر تک، آدم(ع) سے خاتم (ص) تک انسانوں کو اسی حقیقت کی طرف دعوت دی ہے پیغمبروں نے اس راہ و روش کو جسے خداوند متعال نے انسانوں کی زندگی کیلئے پسند کیا ہے ''دین خدا'' کا نام دیا ہے اور یقین وہانی کرائی ہے کہ دین خدا ایک سے زیادہ نہیں_

تمام پیغمبر ایک دوسرے کی تائید کرتے تھے

تمام پیغمبروں کی دعوت کے اصول و کلیات میں معمولی سا بھی اختلاف نہیں پایا جاتا ہرآنے والا پیغمبر اپنے سے پہلے پیغمبروں کو عزت و احترام سے یاد کیا کرتا تھا ان کی دعوت اور طریقہ کار کی تائید کرتا اور بعد میں آنے والے پیغمبر کی

۱۰۳

خوشخبری اور بشارت دیتا تھا اپنی امت کو تاکید کے ساتھ حکم دیتا تھا کہ بعد میں آنے والے پیغمبر پر ایمان لائیں، اس کی دعوت کو قبول کریں اور اس کی تائید کریں_

خداوند عالم قرآن کریم میں بطور یاد دہانی فرماتا ہے_

جب ہم پیغمبروں کو کتاب و حکمت دیتے تھے تو تاکید کرتے تھے کہ جب ہمارا رسول تمہارے بعد آئے تو تم پر لازم ہے کہ اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد و نصرت کرنا قرآن کریم پیغمبروں پر اور ان کے ایک ہدف و راستے پر ایمان کے متعلق اس طرح فرما رہا ہے_

کہدو ہم خدا پر ایمان لائے اور ہر اس چیز پر جو ہماری طرف نازل کی گئی ان تمام احکام پر ایمان لائے جو ہمارے لئے نازل کئے گئے وہ جو ابراہیم علیہ السلام و اسماعیل (ع) و اسحاق (ع) و یعقوب (ع) اور ان کے نواسوں پر بھیجا ہے اور وہ جو موسی (ع) و عیسی (ع) اور دوسروں پیغمبروں پر نازل فرمایا ہے تمام پر ایمان رکھتے ہیں اور ان میں کسی فرق و تفاوت کے قائل نہیں اور ہم سب خدا کے سامنے تسلیم ہیں اور جو کوئی دین اسلام کے علاوہ کسی اور دین کو اختیار کرے گا اسے قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان والوں میں ہوگا

''سورہ آل عمران آیت ۸۴''

اسلام یعنی خدا کے دین اور احکام کے سامنے جھک جانا تسلیم ہوجانا تمام پیغمبروں کی سیرت اللہ کے سامنے جھک جانا ہی تھی تمام پیغمبر اس معنی کے

۱۰۴

اعتبار سے مسلم تھے ہر چند کہ اسلام ایک مخصوص معنی کے لحاظ سے اس دین کو کہا جاتا ہے جو جناب رسول خدا(ص) ، خداوند عالم کی طرف سے لائے ہیں_

حضرت ابراہیم (ع) دعا و مناجات کے وقت اس طرح خدا سے تقاضہ کر رہے ہیں_

ائے پروردگار مجھے اور میرے فرزند اسماعیل کو مسلم قرار دے اور میری نسل سے ایک امت کو وجود میں لا جو تیرے سامنے سرا پا تسلیم ہو ہماری عبادت ہمیں دکھا دے اور ہماری توبہ کو قبول فرما کہ توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے_ اے پروردگار میری ذرّیت اور اولاد میں سے ایک رسول مبعوث فرما کہ جو تیری آیات کو ان کے لئے پڑھے اور کتاب او رحکمت کی انہیں تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے اور رشد دے کہ تو عزیز و حکیم ہے_

کون ہے جو حضرت ابراہیم (ع) کے دین سے روگردانی کرے؟ مگر وہ جو کہ کم عقل ہو ہم نے اسے دنیا میں منتخب کیا ہے اور یقینا آخرت میں وہ صالحین میں شامل ہوگا_ یاد کرو کہ اس کے رب نے اس سے فرمایا اسلام لے آ_ وہ بولا میں پروردگار عالم کے سامنے اسلام لایا اور اس نکتہ کی ابراہیم (ع) نے اپنے فرزند اور یعقوب (ع) سے سفارش کی اور فرمایا

خدائے تعالی نے یہ دین تمہارے لئے منتخب کیا ہے

۱۰۵

موت تک اس دین کو ترک نہ کرنا ایسا نہ ہو کہ مرجاؤ اور مسلمان نہ ہو_

کیا تم اس وقت حاضر تھے جب یعقوب (ع) موت کے وقت اپنے بیٹے کو وصیت کر رہے تھے؟ اس وقت جب انہوں نے اپنے فرزند سے پوچھا: میرے بعد کس کی پرستش کروگے انہوں نے جواب دیا_

آپ کے خدا اور آپ کے باپ دادا ابراہیم (ع) و اسماعیل (ع) کے خدا کی جو وحدہ لا شریک ہے اور ہم تمام اس کے ماننے والے اور اس کے سامنے تسلیم ہوجانے والے ہیں_

آپ نے ملاحظہ کیا کہ خدا پیغمبروں کو ایک اور صرف ایک ہدف کی جو صرف اللہ کے سامنے جھکنا ہے، تعلیم فرما رہے ہے اور جو بھی اس راستہ سے روگردانی کرے اسے بے عقل اور نادان شمار کرتا ہے اس سلسلہ میں ان آیات کی طرف توجہ فرمائیں جو ایک دوسرے پیغمبر کے لئے نازل کی گئیں_

خدا نے اسے کتاب و حکمت اور تورات و انجیل کی تعلیم دی اور اس کو بعنوان پیغمبر بنی اسرائیل کی طرف بھیجا حضرت عیسی (ع) نے ان سے کہا: میں واضح اور روشن نشانیوں کے ساتھ اپنے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس آیا ہوں میں مٹی سے تمہارے سامنے پرندے کا مجسمہ بناتا ہوں اور اس میں پھونکتا ہوں اور وہ بے جان مجسمہ خدا کے اذن سے پرندہ ہوجاتا ہے_ میں جذامی اور مبروص

۱۰۶

کو شفا دیتا ہوں میں مردوں کو خدا کے اذن سے زندہ کرتا ہوں اور جو کچھ تم کھاتے ہو اور گھر میں ذخیرہ کرتے ہو خبر دیتا ہوں ان تمام باتوں میں واضح نشانی ہے اگر تم پاک دل اور مومن ہو_

میں تورات پر ایمان رکھتا ہوں جو مجھے سے پہلے نازل ہوئی اور اس کی تصدیق کرتا ہوں بعض چیزیں جو تم پر حرام تھیں ان کے حلال ہونے کا اعلان کرتا ہوں میں پروردگار کی طرف سے تمہارے سامنے واضح علامت اور نشانی لایا ہوں تقوی اختیار کرو اور میری اطاعت کرو او جان لو کہ میرا اور تمہارا پروردگار خدا ہے اس کی اطاعت کرو کہ یہی راستہ سیدھا راستہ ہے_

لیکن جب عیسی (ع) نے محسوس کیا کہ لوگ ان کی بات کو تسلیم نہیں کر رہے ہیں اور ان پر ایمان نہیں لا رہے ہیں تو فرمایا

خدا کی راہ میں میرے دوست اور مددگار کون ہیں؟ حواریوں نے کہا ہم خدا کے دوست ہیں ہم خدا پر ایمان لائے ہیں او رگواہ رہنا کہ ہم سب مسلمان ہیں پروردگار ہم اس پر جو تو نے نازل کیا ہے ایمان لائے ہیں اور اس رسول کی پیروی کرتے ہیں_ ہمارا شمار گواہوں میں کرنا_

انبیاء خدا ایک مدرسہ کے معلم کی طرح ہیں جو ایک دوسرے کے بعد

۱۰۷

مبعوث ہوئے اور بالعموم انسانوں کو خدا کے سامنے تسلیم ہوجانے کی دعوت دیتے ہرے اور اپنے اسی رہنما اصول اور ایک راستہ کو رشد و ارتق دیتے رہے اور دین خدا کی تعلیم دیتے رہے_

خدا کا دین ایک سے زیادہ نہیں اور یہی صراط مستقیم ہے اور انبیاء کا ہدف بھی ایک سے زیادہ نہیں_ آسمانی ادیان اور پیغمبروں کے درمیان کسی قسم کا اختلاف نہیں_

ممکن ہے کہ مختلف ادیان کے فرعی احکام ہیں اختلاف پایا جاتا ہو اور یہ اختلاف زمانے اور لوگوں کی صلاحتیوں اور حالات زمانہ کے اختلاف کی بنا پر ضروری ہے کیونکہ تمام زمانوں میں لوگوں کے فہم و ادراک کی صلاحیت ایک جیسی نہیں ہوتی لہذا تمام پیغمبر اپنے زمانے کے لوگوں کے فہم و ادراک کے مطابق ان سے گفتگو کرتے تھے اور بتدریج معارف دین میں ان کے فہم و ادراک میں اضافہ کرتے رہے یہاں تک کہ آخری آسمانی پیغمبر(ص) محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک نوبت آپہنچی آپ(ص) ایسے گہرے اور وسیع معارف اور احکام لے کر لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے کہ جن کی مثال پہلے ادیان میں نہیں ملتی_

یہ دین اپنی وسعت، عظیم معارف اور تمام احکام کے سبب انسانوں کے تفکر و تحقیق کی راہوں کو کھولتا چلاگیا اس لئے اس کا خداوند متعال کی طرف سے آخری اور بہترین دین کے عنوان سے اعلان کردیا گیا_

خداوند کریم دین اسلام کے حدود و ابعاد اور اپنے سے پہلے ادیان کے ساتھ اس کے ارتباط کو اس طرح بیان فرما رہے ہے_

۱۰۸

آیت قرآن

''( شرع لکم مّن الدّین ما وصّی به نوحا وّ الّذی اوحینا الیک و ما وصّینا به ابرهیم و موسی و عیسی ان اقیموا الدّین و لا تتفرّقوا فیه ) ''

''سورہ شوری آیت ۱۳''

اس نے دین کا وہی طریقہ قرار دیا جس کی نوح(ع) کو وصیت کی تھی اور اے رسول اسی کی تیری طرف وحی کی اور اسی کا حکم ہم نے ابراہیم (ع) اور موسی (ع) اور عیسی (ع) کو دیا تھا کہ دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو''

سوچئے اور جواب دیجئے

۱)___ عمومی ہدایت سے کیا مراد ہے؟ موجودات کے لئے عمومی ہدایت کس طرح ہوتی ہے_

۲)___ انسان کس اعتبار سے دوسری موجودات سے مختلف ہے؟

۳) ___ بادام کے بیج سے عمدہ درخت کی صورت اختیار کرتے تک کی ہدایت کیسی ہدایت ہے؟ آیا یہ جبری ہدایت ہے؟ یا انتخاب و

۱۰۹

اختیار کے ساتھ؟ وضاحت کیجئے

۴)___ اگر انسان میں فکر و انتخاب کی صلاحیت نہ ہوتی تو اس کی ہدایت کیسی ہوتی؟ ابھی جو انسان فکر و انتخاب کی صلاحیت رکھتا ہے اس کی ہدایت کا طریقہ کا کیا ہے؟

۵)___ انسان کو اچھائی، برائی بتانے والے اور آئندہ آنے والے خطرات سے آگاہ کرنے والے افراد کون ہیں؟

۶)___ خداوند عالم نے پیغمبروں کو کس لئے مامور کیا ہے؟

۷) ___ اولوالعزم پیغمبر کون ہیں اور ان کی خصوصیت کیا ہے؟

۸)___ وہ کون سے تین بنیادی اصول ہیں کہ تمام پیغمبر جن پر ایمان لانے کے لئے تمام انسانوں کو دعوت دیتے تھے؟

۹)___ دین خدا سے کیا مراد ہے؟

۱۰)___ قرآن کریم نے تمام پیغمبروں کے ایک راہ و ہدف کے متعلق کیا کہا ہے؟

۱۱) ___ خداوند عالم کن افراد کو ''غیر عاقل اور سفیہ'' کے نام سے متعارف کراتا ہے ؟

۱۱۰

پیغمبروں کا الہی تصور کائنات

دنیا کے متعلق ان کا نظریہ کیا ہے__؟

انسان کس طرح کا موجود ہے__؟

ان سوالوں کے جواب میں دو نظریے واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں_ ایک خدائی اور الہی نظریہ اور دوسرا مادی اور دہری نظریہ_ پہلے کو الہی تصور کائنات دوسرے کو مادی تصوّر کائنات کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے_

مادی تصوّر کائنات

اس نظریہ کے مطابق کائنات ایک مستقبل وجود ہے_ ایسا موجود

۱۱۱

ہے جس کے وجود میں آنے میں شعور و ارادہ کارفرما نہیں_

اس نظریہ کے مطابق جہان ایسا مجموعہ ہے کہ جو کوئی خاص مقصد یا ہدف نہیں رکھتا یہ جہان عناصر مادی سے تشکیل ہوا ہے کہ جن کی کوئی غرض و ہدف نہیں_ کائنات کے تمام کے تمام اجزاء و عناصر بے ہدف اور بے فائدہ ہیں_ کائنات کے اس عظیم مجموعہ کا ایک حصہ انسان ہے جو ایک بے مقصد موجود ہے جو نابودی کی طرف جارہا ہے_ اس کے کام بے مقصد ہیں اور اس کی انتہا ناامیدی، یاس و حسرت ، تاریکی اور نیستی و عدم ہے_

انسام کے لئے کوئی پناہ گاہ اور کوئی اس کا ملجا و ملولی نہیں وہ ایک بے انتہا تاریک وحشت ناک اور بے امید دنیا میں زندگی گذار رہا ہے_

مادّی تصوّر کائنات کے مطابق انسان کی زندگی بے قیمت اور بے معنی ہے کوئی ایسی ذا نہیں جس کے سامنے انسان جوابدہ ہو_ کوئی ایسا عالم اور برتر وجود نہیں جو انسان کے اچھے برے سلوک و عمل کو سمجھتا اور جانتا ہوتا کہ اسے سزا یا جزاء دے سکے_ انسان کے اعمال کی قدر و قیمت اور انسان کے اچھے اور برے کردار کا کوئی معیار موجود نہیں ہے_

الہی تصوّر کائنات

اس نظریے کے مطابق کائنات ایک مستقبل وجود نہیں رکھتی بلکہ اسے ایک مخلوق او رکسی سے وابستہ جانا جاتا ہے_

اس نظریہ کے مطابق کائنات ایک ایسی مخلوق ہے کہ جسے بہت

۱۱۲

گہرے حساب_ خاص نظم و ضبط اور خاص ہم آہنگی کے ساتھ کسی خاص_ مقصد اور ہدف کے لئے خلق کیا گیا ہے_

یہ کائنات ایک قدرت مند خالق کی قدرت کے باعث قائم ہے اور اس کا ارادہ اور اس کا علم اور قدرت ہمیشہ اس کائنات کے مددگار محافظ اور نگہبان ہیں_

اسی الہی نظریے کے مطابق اس کائنات کی کوئی بھی چیز بے فائدہ اور بے غرض و مقصد نہیں ہے_ اس کائنات کے موجودات میں انسان ایک خاص فضیلت و اہمیت رکھتا ہے_ اس کا ہدف سب سے بالا ہے جس کی طرف وہ تمام عمر بڑھتا رہتا ہے_

انسان کا انجام نا امیدی و یاس نہیں ہے_ بلکہ امید شوق اور موجود رہنا ہے انسان ایسا وجود ہے جسے فنا نہیں، بلکہ وہ اس فانی اور راہ گزر جہان سے ایک دوسرے جہان کی طرف سفر کر جائے گا جو باقی اور ہمیشہ رہنے والا ہے_

اس الہی نظریے کے مطابق انسان اپنے پروردگار مطلق اور اپنے خالق رحمن و رحیم کے سامنے جوابدہ ہے_ انسان اپنے خدا کے سامنے مکمل جوابدہی کا ذمہ دار ہے کیونکہ خداوند عالم نے اسے خلق فرمایا اور اسے اختیار عنایت فرمایا ہے اور اسے مکلف اور ذمہ دار بنایا ہے_

الہی نظریے کے مطابق انسان کا ایک خالق ہے جو خبیر و بصیر ہے اور اس کے اعمال کا حاضر و ناظر ہے_ جو اچھے برے کا تعین کرتا ہے اور صالح افراد کو جزا اور برے اور شریر کو سزا دیتا ہے_

۱۱۳

پیغمبروں کا الہی تصوّر کائنات

پیغمبروں کا نظریہ کائنات و انسان کے بارے میں وہی ہے جو خدا کا نظریہ ہے_

کائنات کے بارے میں

تمام پیغمبر اس کائنات کو اس کی تمام موجودات کو محتاج اور مربوط جانتے ہیں_ ان تمام موجودات کو خداوند عالم کی عظمت کی نشانیاں اور علامتیں شمار کرتے ہیں_ تمام پیغمبر اور ان کے پیروکار اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ خدائے رحمن و رحیم اس کائنا کا خالق ہے اور تما خوبیاں اسی کی طرف سے ہیں_ کائنات کو چلانا اور باقی رکھنا اس کے ہاتھ میں ہے_ کائنات لغو اور بیکار کھیل نہیں کہ جو کسی خاص ہدف اور غرض کے لئے پیدا نہ کی گئی ہو_

انسان اور سعادت انسان کے بارے میں

تمام پیغمبر انسان کے بارے ہیں ایک خاص فکر و نظر رکھتے ہیں، اسے ایک ایسا محترم، بلند و بالا اور ممتاز موجود جانتے ہیں کہ جو دو پہلو رکھتا ہے_ اس کا جسم خاک سے بنایا گیا ہے اور روح و جان اللہ تعالی کے خاص حکم اور عالم ربوبیت سے خلق کی گئی ہے_ اسی وجہ سے یہ ایک برتر اور ہمیشہ

۱۱۴

رہنے والا موجود ہے کہ جو اللہ تعالی کی امانت قبول کرنے والا اور اس کی جانب سے مکلّف اور اس کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے_

اس نظریہ کے مطابق انسان کی سعادت واقعی اور ارتقا اللہ کی معرفت اور اس کے ارادے کی معرفت اور اس کے ارادے کے تحت چلنا اور اس کی رضا کے مطابق عمل کرنے میں ہے_ کیونکہ تمام قدرت اور خوبی اسی ذات کی جانب سے ہے_ اسی کی طرف توجہ کرنا انسان کی تمام خوبیوں اور کمالات انسانی کی طرف متوجہ رہنا ہے_

تمام پیغمبروں کی پہلی دعوت اللہ تعالی کی عبادت، اس کی وحدانیت کا اقرار اور اس سے ہر قسم کے شرک کی نفی کرنا تھی_ اللہ کے پیغمبر، انسان کی شرافت و اہمیت کی بنیاد خدا کی عبادت اور اس کی وحدانیت کے اقرار کو قرار دیتے ہیں اور تمام بدبختیوں کی جڑ، خدا کو بھولنے اور اس کی یاد سے روگرانی کو قرار دیتے ہیں_ غیر خدا سے لگاؤ کو تمام تباہیوں، برائیوں اور بدبختیوں کی جڑ اور بنیاد شمار کرتے ہیں_

انسان کے مستقبل (معاد) کے بارے میں

پیغمبروں کی نگاہ میں انسان کا مستقبل ایک کامل، روشن اور امیدبخش و خوبصورت مستقبل ہے_ پیغمبروں کا یہ عقیدہ ہے کہ صالح اور مومن انسان کا مستقبل درخشاں اور روشن ہے_ وہ اس کائنات سے ایک دوسرے وسیع اور برتر جہان کی طرف جائے گا اور وہاں اپنے تمام اعمال کا نتیجہ دیکھے گا_

۱۱۵

تمام پیغمبر انسان، کائنات اور سعادت انسان اور اس کے مستقبل کے لئے ایک واضح اور برحق نظریہ رکھتے تھے اور خود بھی اس بلند و برحق نظریہ پر کامل ایمان رکھتے تھے_

پیغمبروں کی دعوت کی بنیاد

پیغمبروں کی دعوت کی اساس و بنیاد اسی مخصوص تصوّر کائنات پر مبنی تھی_ وہ خود بھی اپنے دین و شریعت کو اسی اساس پر استوار کرتے تھے_

حضرت نوح کی اپنی قوم سے پہلی گفتگو یہ تھی کہ

خدا کے سوا کسی کی پرستش نہ کرنا کہ مجھے ایک پر درد عذاب کے دن کا تم پر خوف ہے''

جناب ہود(ع) کا اپنی قوم سے پہلا کلام یہ تھا

اے میری قوم خدا کی پرستش کرو کہ تمہارا اس کے سوا کوئی اور معبود نہیں ہے_

حضرت صالح پیغمبر کی بھی اپنی قوم سے اسی قسم کی گفتگو تھی_ آپ نے فرمایا:

اے میری قوم خدا کی عبادت کرو کہ تمہارا اس کے سواکوئی اور معبود نہیں ہے وہ ذات ہے کہ جس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور تمہیں حکم دیا کہ زمین کو آباد کرو اس سے درخواست کرو کہ تمہیں بخش دے اور اسی کی طرف رجوع کرو اس سے توبہ کرو_ ہاں میرا رب

۱۱۶

بہت قریب اور اجابت (جواب دینے والا) کرنے والا ہے_ حضرت شعیب(ع) نے اپنی رسالت کے آغاز پر لوگوں سے اس طرح خطاب کیا_

اے میری قوم خدا کی پرستش کرو کہ تمہارا سوائے اس کے اور کوئی خدا نہیں او رکبھی وزن و پیمائشے میں کمی نہ کرو کہ میں تمہاری بھلائی کا خواہاں ہوں اور تم پر قیامت کے عذاب سے ڈرتا ہوں_

اے میری قوم وزن و پیمائشے کو پورے عدل سے بناؤ او رلوگوں کی چیزوں کو معمولی شمار نہ کرو اور زمین میں ہرگز فساد برپا نہ کرو_''

خداوند عالم نے حضرت موسی (ع) کی رسالت کے بارے میں یوں فرمایا ہم نے موسی کو واضح اور محکم دلائل اور آیات دے کر فرعون اور اس کے گروہ کی طرف بھیجا_ فرعون کے پیروکار اس کے امر کو تسلیم کئے ہوئے تھے لیکن فرعون کا امر ہدایت کرنے اور رشد دینے والا نہ تھا_ فرعون قیامت کے دن آگے آگے اپنی قوم کو جہنّم میں وارد کرے گا جو براٹھکانا اور مکان ہے اس دنیا میں اپنے اوپر لعنت او رنفرین لیں گے اور آخرت میں بھی یہ کتنا برا ذخیرہ ہے ان آیات کے ساتھ ہی قرآن میں اس طرح سے آیات ہے ایک دن آنے والا ہے کہ کوئی شخص اس دن اپنے

۱۱۷

پروردگار کی اجازت کے بغیر بات نہ کرسکے گا_ اس دن ایک گروہ بدبخت اور شقی ہوگا اور ایک گروہ خوش بخت اور سعادت مند، وہ جو بدبخت اور شقی ہوں گے انہوں نے خدا کے سوا دوسروں سے اپنا دل لگا رکھا تھا اور خدا کی یاد اپنے دل سے نکال چکے تھے غیر خدا کی عبادت کرتے تھے وہ آگ میں گریں گے جو بہت شعلہ ور، بلند قد اور رعب دار ہوگی یہ لوگ اس آگ میں ہمیشہ رہیں گے جب تک کہ زمین و آسمان قائم ہیں مگر سوائے اس کے کہ تیرا پروردگار کچھ اور چاہے اور جو کچھ تیرا خدا چاہتا ہے اسے یقینا آخر تک پہنچا کر رہتا ہے لیکن وہ لوگ جو خدائے واحد پر ایمان لانے اور عمل صالح انجام دینے کی وجہ سے سعادت مند ہوئے ہیں بہشت میں داخل ہوں گے اور اس میں جب تک زمین و آسمان قائم ہیں زندگی گزاریں گے مگر یہ کہ خدا اس کے علاوہ کچھ اور چاہے البتہ خدا کی یہ عنایت اختتام پذیر نہیں_

اگر تمام پیغمبروں کی دعوت پر غور کریں تو نظر آتا ہے کہ تمام پیغمبروں کی دعوت میں اپنی نبوت کے اثبات اور بیان کے علاوہ دو رکن، دو اصل اور دو اساس موجود ہیں_

پہلا: خدائے واحد کی پرستش و عبادت: توحید_

دوسرا: انسان کا مستقبل سعادت یا شقاوت: معاد

۱۱۸

ان دو بنیادی اصولوں پر ایمان لانا، انبیاء علیہم السلام کی دعوت کی بنیاد و اساس ہے_ پیغمبر دلیل و برہان اور معجزات و بینات کے ذریعہ پہلے انسانوں کو ان دو اصولوں پر ایمان لانے کی دعوت دیتے تھے_

کائنات کے اسرار و عجائب میں غور و فکر کی ترغیب دلا کر انسانوں کو ان دو اصولوں پر عقیدہ رکھنے کی دعوت دیتے تھے_ انسان میں جو خداپرستی اور خداپرستی کی فطرت موجود ہے انبیاء اسے بیدار کرتے تھے تا کہ وہ خدا کی وحدانیت کو مان لیں اور اس کی پرستش کریں اور اپنے الہی نظر یے کے ذریعے سے اس کی قدرت کے آثار اور اس کی عظمت کا کائنات کے ہرگوشہ میں مشاہدہ کریں انسان کی خلقت کی غرض و غایت کو سمجھ سکیں اور موت کے بعد کی دنیا سے واقف ہوجائیں اور اپنی آئندہ کی زندگی میں بدبختی اور خوش بختی سے متعلق ہوچیں_

ابتداء میں تمام پیغمبر لوگوں کے عقائد کی اصلاح کرتے تھے کیونکہ اسی پر لوگوں کے اعمال، رفتار و کردار کا دار و مدار ہے_ ابتدا میں لوگوں کو ان دو اصولوں (توحید اور معاد) کی طرف دعوت دیتے تھے_

اس کے بعد احکام، قوانین و دساتیر آسمانی کو ان کے سامنے پیش کرتے تھے_ کیونکہ ہر انسان کا ایمان، عقیدہ اور جہان بینی اس کے اعمال اخلاق او رافکار کا سرچشمہ ہوا کرتے ہیں_

ہر انسان اس طرح عمل کرتا ہے جس طرح وہ عقیدہ رکھتا ہے ہر آدمی کا کردار و رفتار ویسا ہی ہوتا ہے جیسا اس کا ایمان و عقیدہ ہوتا ہے ہر انسان کے اعمال و اخلاق اس کے ایمان و اعتقاد کے نشان دہندہ ہوتے ہیں

۱۱۹

صحیح اور برحق ایمان و عقیدہ عمل صالح لاتا ہے اور نیکوکاری کا شگوفہ بنتا ہے اور برا عقیدہ نادرستی، تباہی اور ستمگری کا نتیجہ دیتا ہے_ اس بنا پر ضروری ہے کہ لوگوں کی اصلاح کے لئے پہلے ان کے عقائد اور تصور کائنات کے راستے سے داخل ہوا جائے_

پیغمبروں کا یہی طریقہ تھا_

اللہ تعالی پر ایمان اور قیامت کے دن کے عقیدے کو لوگوں کے دل میں قوی کرتے تھے تا کہ لوگ سوائے خدا کے کسی اور کی پرستش نہ کریں اور اس کی اطاعت کے سوا کسی اور کی اطاعت نہ کریں_

پیغمبروں کا ہدف

تمام پیغمبروں اور انبیاء کا ہدف خدائے واحد پر ایمان لانا، اس کا تقرب حاصل کرنا، دلوں کو اس کی یاد سے زندہ کرنا اور اپنی روح کو خدا کے عشق و محبت سے خوش و شاد رکھنا ہوتا ہے اور تمام احکام دین، اجتماعی و سیاسی قوانین یہاں تک کہ عدل و انصاف کا معاشرے میں برقرار رکھنا اپنی تمام ترضرورت و اہمیت کے باوجود دوسرے درجے پر آتے ہیں_

پیغمبر، انسان کی سعادت کو اللہ تعالی پر ایمان لانے میں جانتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ لوگوں کے اعمال و حرکات اللہ کی رضا اور اس کے تقرّب کے حاصل کرنے کے لئے ہوں_ کائنات کے آباد کرنے میں کوشش کریں_ خدا کے لئے مخلوق خدا کی خدمت کریں اور انہیں فائدہ پہنچائیں _

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

بشیر کہتے ہیں : میں نے امام محمد باقر (ع) کی خدمت میں عرض کی : لوگ کہتے ہیں کہ جب مہدی قیام کریں گے تو اس وقت ان کے امور طبیعی طور پر روبرو و ہوجائیں گے اور فصد کھلوانے کے برابر بھی خونریزی نہیں ہوگی ؟ آپ (ع) نے فرمایا :

'' خدا کی قسم حقیقت یہ نہیں ہے _ اگر یہ چیز ممکن ہوتی تو رسول خدا کیلئے ہوتی _

میدان جنگ میں آپ کے دانت شہید ہوئے اور پیشانی اقدس زخمی ہوئی _ خدا کی قسم صاحب الامر کا انقلاب اس وقت تک برباد نہ ہوگا _ جب تک میدان جنگ میں خونریزی نہیں ہوگی _ اس کے بعد آپ نے پیشانی مبارک پر ہاتھ ملا _ ''(۱)

ایسی احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مہدی موعود کو صرف الہی تائید اور غیبی مدد کے ذریہ کامیابی نہیں ہوگی اور یہ طے نہیں ہے کہ ظاہری طاقت سے مدد لئے بغیرہ معجزہ کے طور پر اپنے اصلاحی منصوبوں کو عملی جامہ پہنائیں ، بلکہ تائید الہی کے علاوہ آپ(ص) جنگی اسلحہ اور فوج کو استعمال کریں گے _ علوم و صنعت اور

خوفناک جنگی اسلحہ کی اختراع کو بھی مد نظر رکھیں گے _

مذکورہ دونوں مقدموں کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ دیکھنا چاہئے کہ مہدی موعود کے ظہور کے شرائط کیا ہیں؟ آپ(ع) کے انقلاب و تحریک کے سلسلہ میں مسلمانوں کاکیا فریضہ ہے اور کس صورت میں کہا جا سکتاہے کہ مسلمان آپ(ع) کے عالمی اور دشوار قیام کے لئے تیار ہیں اور خدا کی قوی حکومت کی تشکیل اور ظہور کے انتظار میں دن گن رہے ہیں؟

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۵۸_

۳۲۱

اہل بیت کی احادیث سے میری سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ غیبت کے زمانہ میں مسلمانوں کا اہم ترین فریضہ یہ ہے کہ پہلے وہ سنجیدگی اور کوشش سے اپنے نفسوں کی اصلاح کریں ، اسلام کے نیک اخلاق آراستہ ہوں ، اپنے فردی فرائض کو انجام دیں قرآن کے احکام پر عمل کریں ، دوسرے اسلام کے اجتماعی پروگرام کا استخراج کریں اورمکمل طور سے اپنے درمیان نافذ کریں اور اسلام کے اقتصادی پروگرام سے اپنی اقتصادی مشکلوں کو حل کریں ، فقر و ناداری اور ناجائز طریقوں سے مال جمع کرنے والوں سے جنگ کریں اوراسلام کے نورانی قوانین پر عمل پیرا ہو کر ظلم و ستم کا سد باب کریں _ مختصر یہ کہ سیاسی اجتماعی ، اقتصادی ، قانونی اور اسلام کے عبادی پروگراموں کو مکمل طور پر اپنے درمیان جاری کریں اوردنیا والوں کے سامنے اس کے عملی نتائج پیش کریں _

تحصیل علم و صنعت میں سنجیدگی سے کوشش کریں اور اپنی گزشتہ غفلت و سستی اور پسماندگی کی تلافی کریں _ بشری تمدن کے کاروان تک یہنچنا کافی نہیں ہے بلکہ ہر طریقہ سے دنیا والوں سے باز جیت لینا ضروری ہے _ دنیا والوں کو عملی طریقے سے یہ بتائیں کہ اسلام کے نورانی احکام و قوانین ہی ان کی مشکلوں کو حل کر سکتے ہیں اور انکی دو جہان کی کامیابی کی ضمانت لے سکتے ہیں _ اسلام کے واضح اور روشن قوانین پر عمل کرکے ایک قوی اور مقتدر حکومت کی تشکیل کریں اور روئے زمین پر ایک طاقت ور و متمدن اور مستقل اسلامی ملت کے عنوان سے ابھر یں _

مشرق و مغرب کی سینہ زور یوں کوروکیں اور دنیا والوں کی قیادت کی زمام خو سنبھالیں _ جہاں تک ہو سکے دفاعی طاقت کو مضبوط اور نظامی طاقت کو محکم بنائیں اور جنگی اسلحہ کی فراہمی کے لئے کوشش کریں _ تیسرے :اسلام کے اجتماعی ، اقتصادی

۳۲۲

اور سیاسی منصوبوں کا استخراج کریں اور دنیا والوں کے گوش گزار کردیں _ خدائی منصوبوں کی قدر و قیمت سے لوگوں کو آگاہ کریں _ قوانین الہی کو قبول کرنے کیلئے دنیا والوں کے افکار کو آمادہ کریں _ اسلام کی عالمی حکومت اور ظلم و بیدادگری سے جنگ کے مقدمات و اسباب فراہم کریں _

جو لوگ اس راہ میں کوشش کرتے ہیں اور امام زمانہ کے مقصد کی تکمیل او رآپ کے انقلاب کیلئے اسباب فراہم کرتے ہیں ، انہی کو فرج کا منتظر کہا جا سکتا ہے اور ان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ خود کو امام زمانہ کے قیام کیلئے تیارکررہے ہیں _ ایسے فداکار اور کوشاں افراد کے سلسلہ میں کہا جا سکتا ہے کہ انکی مثال ان لوگوں کی سی ہے جو میدان جنگ میں اپنے خون میں غلطان ہوتے ہیں _

لیکن جو لوگ اپنی مشکلوں کو انسان کے وضع کردہ قوانین سے حل کرنا چاہتے ہیں اور اسلام کے اجتماعی و سیاسی قوانین کواہمیت نہیں دیتے ، احکام اسلام کو صرف مسجدوں اور عبادت گاہوں میں محدود سمجھتے ہیں ، جن کے بازار اور معاشروں میں اسلام کا نشان نہیں ہے ، جو فساد و بیدادگری کا مشاہدہ کرتے ہیں اور صر ف یہ کہہ کر خاموش ہوجاتے ہیں کہ اے اللہ فرج امام زمانہ میں تعجیل فرما _ علوم و فنون میں دوسرے آگے ہیں ، ہمارے درمیان اختلافات و پراکندگی کی حکمرانی ہے _ غیروں سے روابط ہیں ، اپنوں سے دشمنی ہے ایسی قوم کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ فرج آل محمد اور انقلاب مہدی کی منتظر ہے _ ایسے افراد اسلام کی عالمی حکومت کے لئے تیار نہیں ہیں اگر چہ وہ دن میں سیکڑوں بار اللہم عجل فرجہ الشریف کہتے ہوں _

اہل بیت (ع) کی احادیث سے میں اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہوں _ اس کے علاوہ دوسری

۳۲۳

روایات میں بھی اس موضوع کی طراف اشارہ ہوا ہے مثلاً: امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا: '' ہمارے قائم ک ے ظہور اور انقلاب کیلئے تم خود کو آمادہ کرو اگر چہ ایک تیر ہی ذخیرہ کرو''(۱) عبد الحمید واسطی کہتے ہیں : میں نے امام محمد باقر (ع) کی خدمت میں عرض کی : ہم نے اس امر کے انتظار میں خرید و فروخت بھی چھوڑدی ہے فرمایا:

'' اے عبد الحمید کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ جس نے اپنے جان راہ خدا میں وقف کردی ہے _ خدا اس کی فراخی کیلئے کوئی انتظام نہیں کرے گا ؟ خدا کی قسم اس کے لئے راستے کھل جائیں گے اور امور آسان ہوجائیں گے خدا رحم کرے اس شخص پر جو ہمارے امر کو اہمیت دیتا ہے '' _ عبدالحمید نے کہا: اگر انقلاب قائم سے پہلے مجھے موت آگئی تو کیا ہوگا؟ فرمایا: '' تم میں سے جو شخص بھی یہ کہتا ہے کہ اگر قائم آل محمد کا میری حیات میں ظہور ہوگا تو میں آپ کی مدد کروں گا _ اس کی مثال اس شخص کی ہے جسن نے امام زمانہ کی رکاب میں تلوار سے جہاد کیا ہے بلکہ آپ (ع) کی مدد کرتے ہوئے شہادت پائی ہو ''(۲) _

ابوبصیر کہتے ہیں : ایک روز امام صادق (ع) نے اپنے اصحاب سے فرمایا:

'' کیا میں تمہیں وہ چیز بتاؤں کہ جس کے بغیر خدا بندوں کے اعمال قبول نہیں کرتا ہے ؟'' ابوبصیر نے عرض کی : (مولا) ضرور بتایئے فرمایا:'' وہ ایک خدا اور محمد (ص) کی نبوت کی گواہی دینا ، خدا کے دستوارت کااعتراف کرنا ، ہماری محبت اور ہمارے دشمنوں سے بیزاری اختیار کرنا ، ائمہ کے سامنے

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۶۶_

۲_ کمال الدین ج ۲ ص ۳۵۷_

۳۲۴

سراپا تسلیم ہونا ، پرہیزگاری ، جد و جہد اور قائم کا منتظر رہنا ہے _

اس کے بعد فرمایا: ہماری حکومت مسلّم ہے جب خدا چاہے گا تشکیل پائے گی جو شخص ہمارے قائم کے اصحا ب و انصار میں شامل ہونا چاہتا ہے _ اسے چاہئے کہ انتظار فرج میں زندگی بسر کرے _ پرہیزگاری کو اپنا شعار بنائے ، اخلاق حسنہ سے آراستہ ہو اور اسی طرح ہمارے قائم کے انتظار میں زندگی بسر کرتا رہے اگر وہ اسی حال میں رہا اور ظہور قائم آل محمد سے پہلے موت آگئی ، تو اسے اتنا ہی اجر و ثواب ملے گا کہ جتنا امام زمانہ کے ساتھ رہنے والے کو ملیگا _

شیعہ کوشش کرو اور امام مہدی کے منتظر رہو _ اے خدا کی رحمت و لطف کے مستحقو کامیابی مبارک ہو _(۱)

____________________

۱_ غیبت نعمانی ص ۱۰۶_

۳۲۵

قیام کے خلاف احادیث کی تحقیق

انجینئر: ہوشیار صاحب آپ کی گزشتہ باتوں '' انتظار فرج'' کی بحث سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امام زمانہ (ع) کی غیبت میں شیعوں کا فریضہ ہے کہ وہ اسلامی حکومت کی تاسیس اور اسلام کے سیاسی و اجتماعی قوانین کے اجراء کیلئے کوشش کریں اور اس طرح امام زمانہ کے عالمی انقلاب اور ظہور کے اسباب فراہم کریں میرے خیال میں آپ کی باتیں بعض احادیث کے منافی ہیں _ جیسا کہ آپ کو بھی معلوم ہے کہ بعض ایسی احادیث بھی موجود ہیں جو کہ قیام و ظہور مہدی سے قبل کسی بھی تحریک و انقلاب کی ممانعت کرتی ہیں _ اگر آپ تجزیہ کریں تو مفید ہوگا _

ہوشیار: آپ کی یاد ، دہاتی کا شکریہ _ ایسی احادیث ، دو طریقوں سے تجزیہ و تحقیق کی جا سکتی ہے _ پہلے تو سند کے اعتبار سے تحقیق ہونی چاہئے کہ وہ صحیح و معتبر ہیں یا نہیں _ دوسرے دلالت کے لحاظ سے دیکھنا چاہئے کہ کیا وہ کسی بھی انقلاب و تحریک ممانعت کیلئے دلیل بن سکتی ہیں یا نہیں لیکن احادیث کی تحقیق و تحلیل سے قبل مقدمہ کے طور پر میں ایک اور بات عرض کردینا مناسب سمجھتا ہوں _ اس طرح ہم مذکورہ مسئلہ سے دو حصوں میں بحث کریں گے _

۱_ اسلام میں حکومت

۳۲۶

۲_ احادیث کی تحقیق

اسلام میں حکومت

اسلام کے احکام و قوانین کے مطالعہ یہ بات بخوبی سمجھ میں آتی ہے کہ دین اسلام صرف ایک عقیدتی اور عبادی دین نہیں ہے بلکہ عقیدہ ، عبادت ، اخلاق ، سیاست اور معاشرہ کا ایک مکمل نظام ہے _ کلی طور پر اسلام کے احکام و قوانین کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے :

۱_ فردی احکام جیسے نماز ، روزہ ، طہارت ، نجاست ، حج ، کھانا ، پینا و غیرہ ان چیزوں پر عمل کرنے کے سلسلے میں انسان کو حکومت اور اجتماعی تعاون کی ضرورت نہیں ہوتی ہے بلکہ وہ تن تنہا اپنا فریضہ پورا کرسکتا ہے _

۲_ اجتماعی احکام ، جیسے جہاد، دفاع ، امر بالمعروف ، نہی عن المنکر ، فیصلے ، اختلافات کا حل ، قصاص ، حدود ، دیات ، تعزیرات ، شہری حقوق ، مسلمانوں کے آپس اور کفار سے روابط اور خمس و زکوة ، یہ چیزیں انسان کی اجتماعی و سیاسی زندگی سے مربوط ہیں _ انسان چونکہ اجتماعی زندگی گزارنے کیلئے مجبور ہے ، اور اجتماعی زندگی میں تزاحمات پیش آئیں گے لہذا اسے اسے قوانین کی ضرورت ہے ، جو ظلم و تجاوز کا سد باب کریں اور افراد کے حقوق کا لحاظ رکھیں _ اسلام کے بانی نے اس اہم اور حیات بخش امر سے چشم پوش نہیں کی ہے بکلہ اس کیلئے حقوقی جزائی اور شہری قوانین مرتب کئے ہیں اور اختلافات کے حل اور قوانین کے مکمل اجراء کیلئے عدالتی احکام پیش کئے ہیں _ ان قوانین کی تدوین اور وضع سے یہ بات بخوبی سمجھ

۳۲۷

میں آجاتی ہے کہ عدلیہ کا تعلق دین اسلام کے متن سے ہے اور شارع اسلام نے اس کی تشکیلات پر خاص توجہ دی ہے _ اسی طرح اسلام کے احکام و قوانین کا معتد بہ حصہ راہ خدا میں جہاد اور اسلام و مسلمین سے دفاع سے متعلق ہے _ اس سلسلہ میں دسیوں آیتیں اور سیکڑوں حدیثیں وارد ہوئی ہیں _ مثلاً : خداوند عالم مومنوں کو مخاطب کرکے فرماتا ہے :

جاهدوا فی سبیل الله حق جهاد (۱) (حج/ ۷۸)

راہ خدا میں جہاد کا حق ادا کرو _

و قاتلوهم حتی لا تکون فتنة و یکون الدین لله (۲) (بقرہ /۱۲)

ان سے جنگ کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ و فساد کا خاتمہ ہوجائے اور صرف دین خدا باقی رہے

فقاتلوا ائمة الکفر انهم لا ایمان لهم لعلهم ینتهون (توبہ/ ۱۲)

پس تم کفر کے سرغنہ لوگوں سے جنگ کرتے رہو کہ ان کے عہد کا کوئی اعتبار نہیں ہے تا کہ یہ اپنی شرارتوں سے باز آجائیں _

ایسی آیتوں سے کہ جن کے بہت سے نمونے موجود ہیں ، یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اسلام کی نشر و اشاعات ، کفر و استکبار اور ظلم و ستم سے جنگ مسلمانوں کا فریضہ ہے _ بلکہ بعض آیتوں میں تو یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ مسلمان اپنی دفاعی طاقت کو مضبوط بنانے کی کوشش کریں اور دشمن کے مقابلہ کے لئے مسلح رہیں _ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

واعدوا لهم ماستطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون به عدو الله و عدوکم و آخرین من دونهم لا تعلمونهم الله یعلمهم _ (انفال / ۶۰)

اور جہاں تک ہوسکے جنگی توانائی اور بندھے ہوئے گھوڑے فراہم کرو اور اس سے

۳۲۸

دشمنان خدا اور اپنے دشمنوں اور دوسرے لوگوں پر دھاک بٹھا ور تم انھیں نہیں جانتے نگر خدا انھیں جانتا ہے _

مذکورہ آیتوں سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اسلحہ کی فراہمی اور فوجی توانائی اسلام کا جز ہے _ مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ ہمیشہ دفاعی طاقت کے استحکام اور دشمنوں کے حملوں کو روکنے کیلئے مختلف قسم کا اسلحہ بنائیں کہ جس سے دشمنان اسلام ہمیشہ مرعوب ووحشت زدہ رہیں اور تعدی و تجاوز کی فکر ان کے ذہن میں خطور نہ کرے _

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی اسلام کے اہم ترین احکام میں سے ہے اور یہ سب پرواجب ہے _ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ ظلم و فساد ، استکبار ، تعدی و تجاوز اور معصیت کاری سے مبارزہ کریں ، اسی طرح توحید ، خداپرستی کی اشاعت اور لوگوں کو خیر و صلاح کی طرف بلانے کی کوشش کرنا بھی واجب ہے اس اہم اور حساس فریضہ کی تاکید کے سلسلہ میں دسیوں آیتیں او رسیکڑوں احادیث وارد ہوتی ہیں _ مثلاً:

ولتکن منکم امة یدعون الی الخیر یامرون بالمعروف و ینهون عن المنکر (آل عمران /۱۰۴)

''تم میں سے کچھ لوگوں کو ایسا ہونا چاہئے کہ جو لوگوں کو نیکیوں کی طرف دعوت دیں اور امر بالمعروف نہی عن المنکر کریں'' _

دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے :

کنتم خیر امة اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنهون

۳۲۹

عن المنکر و تومنون بالله ( آل عمران/ ۱۱۰)

تم بہترین امت ہو کر لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے اور برائیوں سے روکتے ہو اور خدا پر ایمان رکھتے ہو _

مختصر یہ کہ اسلام کا سیاسی و اجتماعی پروگرام اوراحکام و قوانین جیسے جہاد، دفاع قضاوت ، حقوقی ، شہری و جزائی ، قوانین ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر ، فساد و بیدادگری سے مبارز ہ ، اجتماعی عدالت کا نفاذ ان سب کیلئے نظم و ضبط اور اداری تشکیلات کی ضرورت ہے اور ایک اسلامی حکومت کی تاسیس کے بغیر ان احکام کانفاذ ممکن نہیں ہے _

اس بحث سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اسلامی حکومت کی تاسیس ، جو کہ اسلام کے قوانین کے نفاذ اور اس کے سیاسی ، اجتماعی ، اقتصادی فوجی اور انتظامی و حقوقی پروگرام کے اجراء کی ضامن ہے ، اسلام کا اصل نصب العین ہے _ اگر شارع نے ایسے قوانین و پروگرام وضع کئے ہیں تو ان کے نفاذ کیلئے حاکم اسلام کی ضرورت کو بھی ملحوظ رکھا ہے _ کیا جنگ و دفاع فوجی نظم و نسق کے بغیر ممکن ہے؟ کیا ظلم و بیدادگری ، دوسروں کے حقوق کو غصب کرنے ، اجتماعی عدالت کا نفاذ ، احقاق حق اور ہرج و مرج کا سد باب عدلیہ اور انتظامی نظلم و نسق کے بغیر ممکن ہے؟

چونکہ اسلام نے قوانین و پروگرام کئے ہیں اس لئے ان کے اجراء و نفاذ کا بھی منصوبہ بنایا ہے _ اور یہی اسلامی حکومت کے معنی ہیں کہ حاکم اسلام یعنی ایک شخص ایک وسیع اداری امور کی زمام اپنے ہاتھوں میں لیتا ہے اور قوانین الہی کو نافذ کرکے لوگوں میں امن وامام برقرار کرتا ہے _ اس بناپر حکومت متن اسلام میں واقع ہوتی ہے اس سے جدا نہیں کیاجا سکتا _

۳۳۰

رسول (ص) خدا مسلمانوں کے زمامدار

رسول خدا (ص) اپنی حیات طیبہ میں عملی طور پر حکومت اسلامی کے زمامدار تھے مسلمانوں کے امور کے نگراں تھے _ اور اس اہم ذمہ داری کی انجام وہی کی خاطر خدا کی طرف سے آپ کو بہت سے اختیارات دیئےئے تھے _ قرآن فرماتا ہے :

النّبی اولی بالمومنین من انفسهم ( احزاب /۶۰)

نبی کو مومنین کے امور میں خود ان سے زیادہ تصرف کا حق حاصل ہے _ دوسری جگہ ارشاد ہے :

فاحکم بینهم بما انزل الله ولا تتبع اهوائهم ( مائدہ / ۴۸)

جو احکام و قوانین ہم نے آپ (ص) پر نائل کئے ہیں ان کے ذریعہ مسلمانوں کے درمیان حکومت کیجئے اور ان کی خواہش کا اتباع نہ کیجئے _

اس بنا پر رسول (ص) دو منصبوں کے حامل تھے ایک طرف وحی کے ذریعہ خدا سے رابط تھا اور ادھر سے شریعت کے احکام و قوانین لیتے تھے اور لوگوں تک پہنچاتے تھے اور دوسری طرف امت اسلامیہ کے زمام دار و حکمران بھی تھے اور مسلمانوں کے سیاسی و اجتماعی پروگرام کا اجراء آپ ہی فرماتے تھے _

رسول (ص) خدا کی سیرت کے مطالعہ سے یہ بات بخوبی روشن ہوجاتی ہے کہ آپ(ص) عملی طور پر مسلمانوں کے امور کی باگ ڈور اپنے دست مبارک میں رکھتے اور ان پر حکومت کرتے تھے_ حاکم و فرمانروا مقرر کرتے ، قاضی معین کرتے ، جہاد و دفاع کا حکم صادر فرماتے مختصر یہ کہ آپ (ص) ان تمام کاموں کو انجام دیتے تھے جو ایک امت کیلئے

۳۳۱

لازم ہوتے تھے _(۱)

اس کام پر آپ خدا کی جانب سے مامور تھے _ آپ (ص) کو یہ ذمہ داری سپردکی گئی تھی کہ اسلام کے سیاسی اور اجتماعی قوانین کو نافذ کریں _ مسلمان جہاد پر مامور تھے لیکن رسول خدا کو یہ حکم تھا کہ وہ انھیں جہاد و دفاع کیلئے ، آمادہ کریں _ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

'' یا ایها النبی حرّض المومنین علی القتال'' ( انعام / ۲۵)

اے نبی (ص) مومنین کو جہاد کی ترغیب دلاہیئے

دوسری جگہ ارشاد ہے :

یا ایها النبی جاهد الکفار و المنافقین و اغلظ علیهم (توبہ /۷۳)

اے نبی (ص) کفار و منافقین سے جہاد کیجئے اور ان پر سختی کیجئے _

رسول (ص) لوگوں کے درمیان حکومت و قضاوت کرنے پر مامور تھے ، قرآن کہتا ہے :

انا انزلنا الیک الکتاب بالحق لتحکم بین الناس بمااراک الله و لا تکن للخائنین خصیما'' _ (نساء/ ۱۰۵)

ہم نے آپ پر بر حق کتاب نازل کی ہے تا کہ اس کے مطابق لوگوں کے درمیان حکم کریں جو خدا نے آپ کو دکھایا ہے اور خیانت کاروں کے حق میں عداوت نہ کیجئے _

ان آیتوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول خدا نبی ہونے ، وحی لینے اور

____________________

۱_ الترتیب الاداریہ اور کتاب الاموال مولفہ حافظ ابو عبید ملا حظہ فرمائیں _

۳۳۲

اسے لوگوں تک پہنچانے کے علاوہ مسلمانوں کی حکومت اور زمامداری پر بھی مامور تھی اور اس بات پر مقرر تھے کہ سیاسی و اجتماعی احکام و پروگرام کو نافذ کرکے مسلمانوں پر حکومت کریں چنانچہ اس سلسلہ میں آنحضرت کو مخصوص اختیارات دیئے گئے تھے اور مسلمانوں پر آنحضرت کی حکومتی احکام کی اطاعت کرنا واجب تھا _

قرآن مجید میں ارشاد ہے :

اطیعوا لله و اطعیواالرسوال و اولی الامر منکم (نساء/ ۵۹)

اللہ کی اطاعت کرو اور سول (ص) کی اطاعت کرو اور اپنے صاحبان امر کی اطاعت کرو _ نیز ارشاد ہے :

و اطیعوا الله و رسوله و لا تنازعو فتفشلوا '' ( انفال / ۴۶)

اور خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرو نزاع و اختلاف سے پرہیز کرو کہ کمزور پڑجاؤ گے _

و ما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن الله (نساء/ ۶۴)

اور ہم نے جس رسول کو بھی بھیجا خدا کے حکم سے اس کی اطاعت ہوتی _

ان آیتوں میں رسول (ص) کی اطاعت خدا کی اطاعت کے ساتھ بیان ہوئی ہے اور مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ خدا کی اطاعت کے ساتھ اس کے رسول (ص) کی

بھی اطاعت خدا کی اطاعت اس طرح ہوگی کہ لوگ اس کے احکام کو قبول کریں جو کہ رسول کے ذریعہ بھیجے گئے ہیں _ اس کے علاوہ مسلمانوں پر یہ واجب کیا گیا تھا کہ وہ رسول کے مخصوص احکام کی بھی اطاعت کریں _ رسول (ص) خدا کے مخصوص فرمان عبارت ہیں : وہ حکم و دستورات جو آپ مسلمانوں کے حاکم ہونے کی حیثیت سے صادر فرماتے تھے_ اس لحاظ سے وہ

۳۳۳

بھی واجب ہیں _ مختصر یہ کہ حکم خدا سے رسول (ص) کی اطاعت واجب ہے _

اس بناپر ابتدائے اسلام ہی سے حکومت دین کا جزو تھی اور عملی طور پر پیغمبر اس کے عہدہ دار تھے _

اسلامی حکومت رسول (ص) کے بعد

رسول کی وفات کے بعد نبوت اور وحی کا سلسلہ ختم ہوگیا _ لیکن دین کے احکام و قوانین اسلام کے سیاسی اور اجتماعی پروگرام مسلمانوں کے درمیان باقی رہے _ یہاں یہ سوال اٹھتاہے کیا رسول اکرم کی رحلت کے بعد آپ(ص) کی حاکمیت کا منصب بھی نبوت کی طرح ختم ہوگیا ؟ اور اپنے بعد رسول خدا نے کسی کو حاکم و زمام دار مقرر نہیں کیا ہے بلکہ اس ذمہ داری کو مسلمانوں پر چھوڑدیا ہے _ یا اس اہم و حساس موضوع سے آپ(ص) غافل نہیں تھے اور اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے کسی شخص کو منتخب فرمایا تھا؟

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اسلام خود مسلمانوں کے حاکم اور اسلام کے قوانین و پروگرام کو نافذ کرنے والے تھے ، آپ اسلامی حکومت کے دوام کی ضرورت کو بخوبی محسوس کرتے تھے _ آنحضرت(ص) اچھی طرح جانتے تھے کہ بغیر حکومت کے مسلمان زندہ نہیں رہ سکتے اور اسلامی حکومت اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ جب اس کو چلانے کیذمہ داری اسلام شناس ، عالم ، پرہیزگار ، امین اور عادل انسان کے دوش پر ڈالی جائے ، تا کہ وہ دین کے احکام و قوانین کو نافذ کرکے اسلامی کومت کو دوام بخشے _ اسی لئے رسول اکرم نے ابتداء تبلیغ رسالت ہی سے خداوند عالم کے حکم کے مطابق مناسب موقعوں پر حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کو مسلمانوں کے امام و خلیفہ کے عنوان سے پہچنوایا ہے اس سلسلہ میں

۳۳۴

احادیث شیعہ و اہل سنت کی کتابوں میں موجود ہیں _منجملہ ان کے یہ ہے کہ حجة الوداع کے سفر میں غدیر خم کے مقام پر قافلہ روک کر ہزاروں صحابہ کے سامنے فرمایا:

الست اولی بالمومنین من انفسهم ؟ قالوا بلی یا رسول الله فقال من کنت مولاه فعلی مولاه ، ثم قال: اللهم وال من والاه و عاد من عاداه _ فلقیه عمر بن الخطاب فقال : هنیئاً لک یا بن ابی طالب _ اصبحت مولای و مولا کل مومن و مومنه _(۱)

رسول (ص) نے لوگوں سے فرمایا: کیا میں مومنین کے نفسوں پر ان سے زیادہ حق نہیں رکھتا ہوں؟ اصحاب نے عرض کی : بے شک ، اللہ کے رسول ، اس وقت آپ (ع) نے فرمایا: جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں _ پھر فرمایا : با ر الہا علی کے دوست کو دوست اور ان کے دشمن کو دشمن _ پس عمر بن خطاب نے حضرت علی سے ملاقت کی اور کہا : فرزند ابوطالب مبارک ہو کہ آپ میرے اور ہر مومن و مومنہ کے مولا بن گئے ''_

ایسی احادیث سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ رسول (ص) نے اپنی حاکمیت کو دائمی بناکر اسے علی بن ابی طالب کے سپرد کردیا ہے _ اس سے پہلے اس منصب کیلئے آپ کو آمادہ کیا اور ضروری علوم و اطلاع آپ کے اختیار میں دیں _ آنحضرت جانتے تھے کہ علی ذاتی علم و عصمت کے حامل ہیں اور منصب امامت کے لائق ہیں _ اسی لئے آپ (ص) نے

____________________

۱_ ینابیع المودة / ۲۹۷_

۳۳۵

خدا کے حکم سے حضرت علی کو اس منصب کیلئے منتخب کیا اور اس حیثیت سے پہچنوایا _ حضرت علی اسلام کے احکام و قوانین کے حافظ بھی تھے اور حاکم اسلام و مجری قوانین بھی تھے رسول نے غدیر میں حضرت علی کے اختیار میں اپنا اولی بالتصرف کا منصب دیا _ اور عمر بن خطاب کے ذہن میں بھی ان ہی معنی نے خطور کیا اورانہوں نے علی سے کہا : اے ابوطالب کے بیٹے مبارک ہو کہ آپ میرے اور ہر مومن و مومنہ کے مولا بن گئے _

مسلمان بھی یہی سمجھتے چنانچہ انہوں نے امیرالمومنین کی بیعت کی وفاداری کااظہار کیا اگر ان معنی میں علی کو مولا نہ بنایا گیا ہوتا تو تو بیعت کی ضرورت نہ ہوتی _

علی (ع) جانشین رسول (ص)

رسول خدا نے خدا کے حکم سے حضرت علی (ع) کو مسلمانوں کا امام و زمام دار منصوب فرمایا اور اس طرح آپ نے مسلمانوں کی امامت کو دائمی بنادیا _ لیکن آپ کی وفات کے بعد بعض صحابہ نے اختلاف کیا ، لوگوں کی کمزوری اور جاہلیت سے غلط فائدہ اٹھایا اور حضرت علی کے شرعی حق کو غصب کرلیا اور اسلامی حکومت کو اس کے حقیقی وارث سے جدا کردیا _ حضرت علی (ع) کے بیعت نہ کرنے ، خطبے دینے ، احتجاج کرنے اور شکوہ کرنے کی وجہ یہی تھی کہ مسلمانوں کی حاکمیت و زمام داری کو غصب کرلیا گیا تھا _ خلفا نے دین کے احکام و معارف کو حضرت علی (ع) سے نہیں لیا تھا _ اگر چہ آپ کے علمی تبحر و مرتبہ کے معترف تھے یہاں تک کہ مشکل مسائل میں آپ(ع) سے رجوع کرتے تھے _

جس وقت خلافت حضرت علی (ع) کے ہاتھ میں آئی اور آپ(ع) نے خلافت کے تمام امور جیسے حاکم و فرمانروا کا تقرر ، قضات کا انتخاب ، زکوة و خمس کی وصولیابی کی

۳۳۶

ذمہ داری کا سپرد کرنا ، جہاد ودفاع کاحکم صادر کرنا اور سپہ سالاروں کے تقرر کو اپنے اختیار میں لے لیا تو طلحہ و زبیر نے آپ (ع) کے مخالفت کی اور جنگ جمل برپاکردی وہ آپ کی حکومت کے مخالف تھے آپ (ع) کے علمی مرتبہ اور احکام و معارف کے بیان کے مخالف نہیں تھے _ احکام کے بیان میں معاویہ کو بھی آپ سے کوئی اختلاف نہیں تھا بلکہ اس نے حکومت او رتخت خلافت کے سلسلہ میں آپ (ع) سے جنگ کی تھی _

اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ رسول اکرم کی وفات سے اسلامی حکومت ختم نہیں ہوئی بکلہ حضرت علی بن ابی طالب کے خلیفہ منصوب ہونے سے اسلامی حکومت کے باقی رکھنے کی تصریح ہوگئی اور اس بات کی وضاحت ہوگئی کہ شارع اسلام نے سیاسی و اجتماعی قوانین کے نافذ کرنے میں کبھی دریغ نہیں کیا ہے _ یعنی اسلامی حکومت کو ہمیشہ باقی رہنا چاہئے _

امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے بعد امام و خلیفہ اور حاکم منتخب کیا اور امام حسن (ع) نے اپنے بعد اپنے بھائی امام حسین اور امام حسین (ع) نے اپنے بیٹے امام زین العابدین کو منصوب کیا اور اس طرح بارہویں امام حضرت حجة بن الحسن تک ہر امام نے اپنے بعد والے امام کا تعارف کرایا _ خداداد علم و عصمت اور طہارت اور اپنے ذاتی کمال و صلاحیت کے علاوہ مسلمانوں کے امام و حاکم بھی منصوب ہوئے _ اس بناپر مسلمانوں کی امامت اور معصوم حکمرانوں کو اسلام سے جدا نہیں کیا جا سکتا اگر چہ حضرت علی بن ابی طالب کے علاوہ بظاہر کوئی امام بھی اپنا شرعی حق حاصل نہیں کرسکا اور اسلامی حکومت کو جاری نہ رکھ سکا _

زمانہ غیبت میں اسلامی حکومت

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں اسلام کے سیاسی اور اجتماعی پروگرام

۳۳۷

کی کیا کیفیت ہے؟ جس زمانہ میں معصوم امام و حاکم تک رسائی نہیں ہے کیا اس میں شارع اسلام نے احکام و منصوبوں سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور اس سلسلہ میں ان کا کوئی فریضہ نہیں ہے ؟ کیا اسلام یہ سارے قوانین صرف رسول کی حیات ہی کے مختصر زمانہ کیلئے تھے؟ اور اس وقت سے ظہور امام مہدی تک ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام نے اس طویل زمانہ میں جہاد، دفاع ، حدود کے اجراء قصاص و تعزیرات ظلم و بیدادگری سے جنگ، مستضعفین اور محروموں سے دفاع، فساد و سرکشی اور معصیت کاری سے مبارزہ سے دست کشی کرلی ہے اور ان کے نفاذ کو حضرت مہدی کے ظہور پر موقوف کردیا ہے ؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس زمانہ میں آیات و احادیث صرف کتابوں میں بحث کرنے کیلئے آئی ہیں ؟ میرے خیال میں کوئی با شعور مسلمان ایسی باتوں کو قبول نہیں کرے گا ؟ مسلمان خصوصاً مفکر ین یہی کہیں گے کہ یہ احکام بھی نفاذ ہی کے لئے آئے ہیں _ اگر حقیقت یہی ہے تو تمام زمانوں کو منجملہ اس زمانہ کو قوانین کے اجراء سے کیوں نظر انداز کردیا ہے؟ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اسلام نے سیاسی و اجتماعی منصوبے بنائے ہیں لیکن انھیں عملی جامہ پہنانے کیلئے حاکم مقرر نہیں کئے ہیں _

زمانہ غیبت میں مسلمانوں کا فریضہ

یہ بات صحیح ہے کہ پیغمبر اور معصوم امام کو خدا کی طرف سے مسلمانوں کا حاکم منصوب کیا گیا ہے اور ان کے امور کی زمام ان ہی کے ہاتھ میں دی گئی ہے _ اور اس سلسلہ میں انھیں کوشش کرنی چاہئے لیکن اصلی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد کی گئی ہے اور وہ یہ کہ وہ اسلامی حکومت کی تاسیس و استحکام اور پیغمبر و امام کو طاقت فراہم کرنے کے سلسلہ

۳۳۸

میں مخلصانہ کوشش کریں اور ان کے تابع رہیں _ اسی طرح جب معصوم امام تک رسائی ممکن نہ ہو تو مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اسلامی حکومت کی تاسیس اور اسلام کے سیاسی و اجتماعی منصوبوں کے اجراء کیلئے کوشش کریں جو فکر اسلام نے کسی زمانہ میں یہاں تک کہ اس زمانہ میں بھی اپنے احکام کو نظر انداز نہیں کیا ہے اور مسلمانوں کو ان پر عمل کرنے کی دعوت دی ہے _ اکثر احکام و قوانین مسلمانوں کو مخاطب کرکے بیان کئے گئے ہیں مثلاً قرآن مجید فرماتا ہے :

و جاهدوا فی الله حق جهاده ( حج/ ۷۸)

راہ خدا میں حق جہاد ادا کرو _

انفروا خفافا و ثقالا و جاهدوا باموالکم و انفسکم فی سبیل الله ( توبہ /۴۱)

مسلمانو تم ہلکے ہو یا بھاری راہ خدا میں اپنے اموال اور نفوس سے جہاد کرو _

تومنون بالله و رسوله و تجاهدون فی سبیل الله (صف/۱۱)

تم خداو رسول پر ایمان رکھتے ہو راہ خدا میں جہاد کرو _

و قاتلوا فی سبیل الله الذین یقاتلونکم و لا تعتدوا ( بقرہ/ ۱۹۰)

راہ خدا میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو تم سے لڑتے ہیں لیکن زیادتی نہ کرو _

فقاتلوا اولیاء الشیطان ان کید الشیطان کان ضعیفا ( نساء /۶۷)

شیطان کے طرف داروں سے جہاد کرو کہ شیطان کامکر کمزور ہے _

و قاتلوا حتی تکون فتنة و یکون الدین کله لله ( انفال / ۳۹)

۳۳۹

ان سے جنگ کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوجائے اور دین خدا باقی رہے _

و مالکم لا تقاتلون فی سبیل الله (انفال /۳۹)

راہ خدا میں تم جہاد کیوں نہیں کرتے؟

فقاتلوا ائمة الکفر انهم لا ایمان لهم (توبہ/۱۲)

کفار کے سر غناؤں سے جنگ کرو کہ ان کی قسم کا کوئی اعتبار نہیں ہے _

و قاتلوا المشرکین کافة کما یقاتلونکم کافة ( توبہ / ۳۶)

اور مشرکین سے سب اسی طرح جنگ کرو جیسا کہ وہ سب تم سے جنگ کرتے ہیں _

واعدوا لهم مااستطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون به عدو الله و عدوکم ( انفال / ۶۰)

اور جہاں تک تم سے ہوسکے دشمنوں کے لئے جنگی توانائی اور گھوڑوں کی صف کا انتظام کرو کہ اس سے خدا کے دشمن اور تمہارے دشمنوں پر رعب طاری ہوگا _والسارق و السارقة فاقطعوا ایدهما جزاء بما کسبا نکالا من الله و الله عزیز حکیم (مائدہ / ۳۸)

اور چورمرد اور چور عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو کہ یہ ان کے لئے ایک بدلہ اور خدا کی طرف سزا ہے اور خدا عزت و حکمت والا ہے _

الزّانیه و الزّانی فاجلدو کل واحد منهما اماة جلدة ولا تاخذ بهما رافة فی دین الله _ ( نور/ ۲)

زناکار عورت اور زناکار مرد دونوں کو سوسو کوڑے لگاؤ اور خبردار

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455