آفتاب عدالت

آفتاب عدالت17%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 185054 / ڈاؤنلوڈ: 5864
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

ابوسعید کہتے ہیں : میں نے ابن عباس سے کہا : مجھے مہدی کے بارے میں کچھ بتایئے انہوں نے فرمایا: امید ہے کہ عنقریب خدا ہمارے خاندان میں ایک جوان کو مبعوث کرے گا جو فتنوں کو دفن کرے گا _ (۱)

ابن عباس کہا کرتے تھے: مہدی قریش اور فاطمہ (ع) کی نسل سے ہوگا _(۲)

عمار یاسر کہتے ہیں : جب نفس زکیہ شہید ہوجائیں گے اس وقت آسمان سے ایک منادی مذاکرے گا کہ تمہارا قائد فلان شخص ہے _ اس کے بعد مہدی ظاہر ہوں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے پر کریں گے _(۳)

ابن عباس نے مہدی کا نام لیا تو ایک شخص نے کہا: کیا معاویہ بن ابی سفیان مہدی نہیں ہے ؟ عبد اللہ نے کہا : نہیں : بلکہ مہدی وہ ہے جس کی عیسی بن مریم اقتدا کریں گے_(۴)

عمربن قیس کہتے ہیں :میں نے مجاہد سے عرض کی : کیا آپ مہدی کے بارے میں کچھ جانتے ہیں ؟ کیونکہ میں شیعوں کی بات نہیں مانتا ، انہوں نے کہا : رسول (ص) کے ایک صحابی نے مجھے خبر دی ہے کہ مہدی نفس زکیہ کی شہادت کے بعد ظاہر ہوں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں گے _(۵)

____________________

۱_ الملاحم و الفتن مولفہ ابن طاؤس ص ۱۶۹_

۲_ الملاحم و الفتن مولفہ ابن طاؤس ص۱۵۵_

۳_ الملاحم و الفتن مولفہ ابن طاؤس ص۴۴_

۴_ الملاحم و الفتن مولفہ ابن طاؤس ص۱۵۹_

۵_الملاحم و الفتن مولفہ ابن طاؤس ص۱۷۱_

۴۱

نفیل کی بیٹی عمیرہ کہتی ہے : میں نے حسین بن علی (ع) کی دختر کو کہتے ہوئے سنا ہے : تم جس چیز کے انتظارمیں ہو وہ واقع نہ ہوگی مگر اس وقت کہ جب تمہارے درمیان اختلاف پیدا ہوجائے گا اورتم آپس میں ایک دوسرے پرلعنت کروگے _ (۱)

قتادہ کہتے ہیں : میں نے مسیب کے بیٹے سے پوچھا: کیا وجود مہدی برحق ہے ؟ انہوں نے کہا: یقینا مہدی فاطمہ (ع) کی نسل سے ہوں گے _(۲)

طاؤس کہتے ہیں : خدا مجھے زندہ رکھے تا کہ مہدی (ع) کو دیکھ لوں _(۳)

زہری کہتے ہیں : مہدی فاطمہ (ع) کی اولاد سے ہوں گے _(۴)

ابوالفرج لکھتے ہیں : ولید بن محمد نے نقل کیا ہے کہ میں زہری کے ساتھ تھا کہ ایک شور مچاتو انہوں نے مجھ سے کہا: ذرادیکھو کیا قصہ ہے ؟ میں نے تحقیق کے بعد بتایا: زید بن علی قتل کردیئےئے ہیں اور ان کا سرلایا گیا ہے _ زہری نے افسوس کے ساتھ کہا : اس خاندان کے افراد اتنی عجلت کیوں کررہے ہیں؟ عجلت کی وجہ سے ان کے بہت سے افراد ہلاک ہوجاتے ہیں _ میں نے پوچھا کیا انھیں حکومت نصیب ہوگی ؟ انہوں نے کہا ہاں ، کیونکہ علی بن الحسین (ع) نے اپنے پدربزرگوار سے اور انہوں نے حضرت زہرا سے میرے لئے روایت کی ہے کہ رسول (ص) نے فاطمہ سے فرمایا: مہدی موعو د

____________________

۱_ الملاحم و الفتن ص ۱۷۱_

۲_ مقاتل الطالبین مولفہ ابوالفرج طبع نجف ص ۱۶۰_

۳_ الملاحم والفتن ص ۱۷۰_

۴_ الملاحم و الفتن ص ۵۴_

۴۲

تمہاری اولاد سے ہوگا _ (۱)

ابوالفرج نے مسلم بن قتیبہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: ایک روز میں منصور کے پاس گیا _ اس نے مجھ سے کہا: محمد بن عبداللہ نے خروج کیا ہے اور خو د کو مہدی سمجھتا ہے ، قسم خدا کی وہ مہدی نہیں ہے لیکن میں تمہیں ایک بات بتادوں جو کہ ابھی تک کسی کو نہیں بتائی ہے اور نہ آئندہ بتاؤں گا اور وہ یہ کہ میرا بیٹا بھی روایتوں میں ذکر ہونے والا مہدی نہیں ہے ، لیکن فال کے طور پر میں نے اس کا نام مہدی رکھدیا ہے _(۲)

ابن سیرین کہتے ہیں : مہدی موعود اسی امت سے ہوگا جو کہ عیسی بن مریم کی امامت کرے گا _(۳)

عبداللہ ابن حارث کہتے ہیں : مہدی چالیس سال کی عمر میں قیام کریں گے وہ بنی اسرائیل کی شبیہ ہوں گے _(۴)

ارطاة کہتے ہیں : مہدی بیس سال کی عمر میں قیام کریں گے _(۵)

کعب کہتے ہیں : مہدی کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ مخفی امور کی طرف انکی ہدایت ہوتی ہے _(۶)

____________________

۱_ مقاتیل ص ۹۷_

۲_ مقاتل الطالبین ص ۱۶۷_

۳_ مقاتل الطالبین ص ۱۳۵_

۴_ کتاب الحاوی للفتاوی جلد ۲ ص ۱۴۷_

۵_ کتاب الحاوی للفتاوی جلد ۲ ص ۱۴۸_

۶_ کتاب الحاوی للفتاوی جلد ۲ ص ۱۵۰_

۴۳

عبداللہ بن شریک کہتے ہیں : رسول (ص) خدا کا علم مہدی کے پاس ہے _ (۱)

طاؤس کہتے ہیں کہ مہدی کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے کارندوں کی سخت نگرانی کریں گے اور مال کی بخشش میں سخی ہوں گے اور درماندہ لوگوں پر مہربان ہوں گے _(۲)

زہری کہتے ہیں : '' مہدی اولاد فاطمہ سے ہوگا''(۳)

حکم بن عینیہ کہتے ہیں : میں نے محمد بن علی سے عرض کی : میں نے سنا ہے کہ آپ اہل بیت میں سے ایک شخص خروج کرے گا اور عدل و انصاف قائم کریگا کیا یہ بات صحیح ہے ؟ اگر ایسا ہے تو ہم بھی ان کے انتظار میں زندگی گزاریں _(۴)

سلمہ بن زفر کہتے ہیں کہ ایک روز حذیفہ سے کہا گیا _ مہدی نے ظہور کیا ہے _ حذیفہ نے کہا : اگر مہدی تمہارے زمانہ میں ، جو کہ رسول (ص) کے عہد سے قریب ہے ، قیام کرتے ہیں تو واقعا یہ تمہاری خوش قسمتی ہے ، لیکن ایسا نہیں ہے _ مہدی اس وقت ظہور کریں گے جب لوگ فتنہ وفساد سے تنگ آجائیں گے اور ان کی نگاہوں میں گم شدہ مہدی سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہ ہوگی _(۵)

جریر نے عبدالعزیز کے پاس ایک شعر پڑھا کہ جس کا مفہوم یہ ہے کہ تمہارا وجود

____________________

۱_ کتاب الحاوی للفتاوی ج ۲ ص ۱۵۰_

۲_ کتاب الحاوی للفتاوی ج ۲ ص۱۵۰_

۳_کتاب الحاوی للفتاوی ج ۲ ص۱۵۵_

۴_کتاب الحاوی للفتاوی ج ۲ ص۱۵۹_

۵_کتاب الحاوی للفتاوی ج ۲ ص۱۵۹_

۴۴

بابرکت ہے اور تمہاری سیرت و رفتار مہدی کی سیرت و رفتار جیسی ہے _ تم خواہشات نفس کی مخالفت کرتے ہو اور راتوں کو تلاوت قرآن میں گزارتے ہو _ (۱)

ام کلثوم بنت وہب کہتی ہیں : روایات میں وارد ہوا ہے کہ دنیا پر ایک شخص کی حکومت ہوگی جس کا نام وہی ہوگا جو رسول کا ہے _(۲)

محمد جعفر کہتے ہیں : میں نے اپنی مشکلیں مالک بن انس کے سامنے بیان کیں تو انہوں نے کہا: صبر کرو یہاں تک کہ آیتو نرید ان نمنّ علی الذین استضعفوا فی الارض و نجعلهم الائمة و نجعلهم الوارثین کی تاویل آشکار ہوجائے(۲) _

فضیل بن زبیر کہتے ہیں : میں نے زید بن علی سے سنا کہ انہوں نے فرمایا: لوگ جس شخص کے انتظار میں ہیں وہ اولاد حسین (ع) سے ہوگا _(۴)

محمد بن عبدالرّحمن بن ابی لیلی کہتے ہیں : خدا کی قسم مہدی اولاد حسین ہی سے ہوگا _(۵)

لوگ مہدی (عج) کے منتظر تھے

وجود مہدی کا عقیدہ لوگوں میں اتناراسخ ہوگیا تھا کہ وہ صدر اسلام ہی سے

____________________

۱_ کتاب الامامة و السیاسة تالیف ابن قطیبہ ط سوم ج ۲ ص ۱۱۷_

۲_ مقاتل الطالبین طبع دوم ص ۱۶۲_

۳_ مقاتل الطالبین طبع دوم ص ۳۵۹_

۴_ غیبت شیخ طبع دوم ص ۱۱۵_

۵_ غیبت شیخ طبع دوم ص ۱۱۵_

۴۵

ان کے انتظار میں تھے اور دن گنا کرتے تھے_ اور حق کی کامیابی وحکومت کو یقینی سمجھتے تھے یہ انتظار ہرج و مرج اور وحشت ناک حوادث و بحرانوں میں اور زیادہ شدید ہوجاتا تھا اور ہر لمحہ انتظار کے مصداق کی تلاش میں رہتے تھے اور کبھی غلطی سے بعض افراد کو مہدی سمجھ بیٹھے تھے :

محمد بن حنفیہ

مثلاً محمد بن حنفیہ بھی رسول (ص) کے ہم نام و ہم کنیت تھے اس لئے مسلمانوں کے ایک گروہ نے انھیں مہدی سمجھ لیا تھا _

طبری لکھتے ہیں کہ جس وقت مختار نے خروج اور قاتلان حسین (ع) سے انتقام لینے کا قصد کیا تو اس وقت انہوں نے محمد حنفیہ کو مہدی اور خود کو ان کے وزیر کے عنوان سے پہچنوایا اور اس سلسلے میں لوگوں کے سامنے کچھ خط بھی پیش کئے _(۱)

محمد بن سعد نے ابوحمزہ سے روایت کی ہے کہ لوگ محمد بن حنفیہ کو '' السلام علیک یا مہدی '' کہکر سلام کرتے تھے _ چنانچہ وہ خود بھی کہتے تھے'' ہاں میں ہی مہدی ہوں میں فلاح و بہبود کی طرف تمہاری راہنمائی کرتاہوں _ میرا وہی نام ہے جو رسول کا تھا اور میری کنیت بھی آنحضرت (ص) ہی کی کنیت ہے _ لہذا تم مجھے سلام علیک یا محمد یا سلام علیک یا اباالقاسم کہکر سلام کیاکرو ''_(۲)

____________________

۱_ تاریخ طبری ج ۴ ص ۴۴۹_ و ص ۴۹۴، تاریخ کامل طبع اول ج ۳ ص ۳۳۹ و ص ۳۵۸_

۲_ طبقات الکبیر طبع لندن ج ۵ ص ۶۶_

۴۶

اس اور ایسی ہی دوسری مثالوں سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ رسول خدا کے نام اور کنیت کا جمع ہونا مہدی موعود کی خصوصیات و علامتوں میں سے ہے _ اسی لئے محمد بن حنفیہ نے اپنی کنیت اور نام کی طرف اشارہ کیا ہے _ لیکن تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد بن حنفیہ نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میں مہدی ہوں _ بلکہ دوسرے لوگ انھیں مہدی کے عنوان سے پیش کرتے تھے چنانچہ وہ کبھی اس سلسلے میں خاموش اختیار کرتے تھے اور کبھی تائید کرتے تھے _ شاید ان کی خاموشی کی وجہ یہ ہو کہ اس طرح وہ قاتلان امام حسین (ع) سے انتقام اور حکومت کو اس کے اہل تک پہنچانا چاہتے تھے_

محمد بن سعد کہتے ہیں : محمد بن حنفیہ لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ ، حکومت اہل حق کی ہے جب خدا چاہے گا تشکیل پائے گی _ جو شخص اس حکومت کو دیکھے گا ، اسے عظیم کامیابی نصیب ہوگی اور جو اس سے قبل ہی مرجائے گا اسے خدا کی بے شمار نعمتیں میسر ہوں گی _(۱)

چنانچہ محمد بن حنفیہ نے اپنے اس خطبہ میںفرمایا جو کے اپنے سات ہزار اصحاب کے درمیان دیا تھا _ اس کام میں تم نے عجلت سے کام لیا ہے _ خدا کی قسم تمہارے اصلاب میں ایسے اشخاص موجود ہیں جو کہ آل محمد کی مدد کیلئے جنگ کریں گے _ آل محمد کی حکومت کسی پر مخفی نہیں ہے لیکن اس کے قائم ہونے میں تاخیر ہوگی _ قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد کی جان ہے ، حکومت نبوت کے گھر میں لوٹ آئے گی _(۱)

محمد بن عبداللہ بن حسن

مسلمانوں کا ایک گروہ محمد بن عبداللہ بن حسن کو مہدی سمجھتا تھا _ ابوالفرج لکھتے

____________________

۱_ طبقات الکبری ج ۷ ص ۷۱_

۲_ طبقات الکبری ج ۷ ص ۸۰_

۴۷

ہیں کہ حمید بن سعید نے روایت کی ہے کہ محمد بن عبداللہ کی ولادت پر آل محمد نے بہت خوشیاں منائیں اور کہا مہدی کا نام محمد ہے _ وہ محمد کو مہدی موعود سمجتھے تھے _ اس لئے ان کا بہت احترام کرتے تھے اور مجلسوں کا موضوع قراردیتے تھے ، شیعہ ایک دوسرے کو بشارت دیتے تھے _ (۱)

ابوالفرج لکھتے ہیں : جب محمد بن عبداللہ پیدا ہوئے تو ان کے خاندان والو ں نے ان کا نام مہدی رکھا اور انھیں روایات کا مہدی موعود تصور کرنے لگے _ لیکن ابوطالب کی اولاد کے علما انھیں نفس زکیہ کہتے تھے کہ جس کا احجار زیب میں شہید ہونا مقدر تھا _(۲)

ابوالفرج ہی لکھتے ہیں کہ :ابوجعفر منصور کا غلام کہتا ہے کہ منصور نے کہا : تم محمد بن عبداللہ کی تقریر میں شرکت کرو دیکھو کیا کہتے ہیں _ میں نے حکم کے مطابق ان کی تقریر میں شرکت کی وہ فرما رہے تھے : تمہیں یہ تو یقین ہے کہ میں مہدی ہوں اور حقیقت بھی یہی ہے '' _ غلام کہتا ہے کہ میں لوٹ آیا اور ان کی بات منصور سے نقل کی _ منصور نے کہا : محمد جھوٹ کہتے ہیں بلکہ مہدی موعود میرا بیٹا ہے _(۳)

سلمہ بن اسلم نے محمدبن عبداللہ کی شان میں کچھ اشعار کہے کہ جن کا ترجمہ یہ ہے :

جو کچھ احادیث میں وارد ہوا ہے وہ اس وقت ظاہر ہوگا جب محمد بن عبداللہ ظاہر ہوں گے اور زمام حکومت سنبھالیں گے _ محمد کو خدا نے ایسی انگوٹھی

____________________

۱_ مقاتل الطالبین ص ۱۶۵_

۲_ مقاتل الطالبین ص ۱۶۲_

۳_ مقاتل الطالبین ص ۱۶۲_

۴۸

عطا کی ہے جو کسی دوسرے کو نہیں دی اور اس میں ہدایت و نیکیوں کی علامتیں ہیں _

ہمیں امید ہے کہ محمد ہی وہ امام ہیں کہ جن کے ذریعہ قرآن زندہ ہوگا اور ان کے توسط سے اسلام کو فروغ ملیگا ، اصلاح ہوگی اور یتیم ، عیال دار اور ضرورت مند لوگ خوشحال زندگی گزاریں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں گے جب کہ وہ ضلالت و گمراہی سے بھرچکی ہوگی اور اسی وقت ہمارا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا _(۱)

احادیث مہدی اور فقہائے مدینہ

ابوالفرج لکھتے ہیں : محمد بن عبداللہ نے خروج کیا تو مدینہ کے مشہور فقیہ و عالم محمد بن عجلان نے بھی ان کے ساتھ خروج کیا _ جب محمد بن عبداللہ قتل ہوگئے تو حاکم مدینہ نے محمد بن عجلان کو بلایا اور کہا: تم نے اس جھوٹے انسان کے ساتھ کیوں خروج کیا تھا؟ اس کے بعد ان کے ہاتھ قلم کرنے کا حکم دیا تو مدینہ کے علماء اور سر آوردہ افراد نے کہا : اے امیر

____________________

۱_ ان الذی یروی الرواة لبین اذا ماابن عبدالله فیهم تجردا

له خاتم لم یعطه الله غیره

وفیه علامات من البر و الهدی

انا لنزجوان یکون محمد

اماماً به یحیی الکتاب المنزل

به یصلح الاسلام بعد فساده

و یحیی یتیم باس و معمول

و یملا و عدلا ارضنا بعد ملئها

ضلالا و یأتینا الذی کنت آمل

(مقاتل الطالبین ص ۱۶۴)

۴۹

محمد بن عجلان مدینہ کے فقیہ و عابدہیں انھیں معاف کیا جائے کیونکہ وہ محمد بن عبداللہ کو روایات ہی کا مہدی موعود سمجھتے تھے _(۱)

دوسری جگہ لکھتے ہیں : محمد بن عبداللہ نے خروج کیا تو ان کے ساتھ مدینہ کے دوسرے نمایاں فقیہ و عالم عبداللہ بن جعفر بھی خروج کیا اور محمد بن عبداللہ کے قتل کے بعد فرار کرگئے اور امان ملنے تک مخفی رہے _ ایک روز حاکم مدینہ جعفر بن سلیمان کے پاس گئے تو اس نے کہا : اس علم و فقاہت کے باوجود آپ نے ان کے ساتھ کیوں خروج کیا تھا؟ جواب میں کہا: میں نے اس لئے محمد بن عبداللہ کا تعاون کیا تھا کہ میں یقین کے ساتھ انہیں مہدی موعود سمجھتا تھا کہ جن کا روایات میں تذکرہ ہے _ ان کے مہدی ہونے میں کوئی شک نہیں تھا _ قتل کے بعد معلوم ہوا کہ وہ مہدی نہیں ہیں _ اس کے بعد میں کسی کے فریب میں نہیں آوں گا _(۲)

ان واقعات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مہدی کا عقیدہ و موضوع صدر اسلام اور پیغمبر (ص) کے عہد سے نزدیک والے زمانہ میں اتنا ہی مسلم تھا کہ لوگ آپ (ع) کے منتظر رہتے تھے اور صاحبان علم و ستم رسیدہ افراد کہ جو مہدی کی علامتوں کو بخوبی نہیں جانتے تھے وہ محمد بن حنفیہ کو اور کبھی محمد بن عبداللہ اور دوسرے اشخاص کو مہدی موعود سمجھ لیتے تھے لیکن علمائے اہل بیت اور صاحبان علم یہاں تک کہ محمد کے والد عبداللہ بھی جانتے تھے کہ وہ مہدی نہیں ہے _

ابوالفرج لکھتے ہیں: ایک شخص نے عبداللہ بن حسن سے عرض کی : محمد کب خروج

____________________

۱_ مقاتل الطالبین ص ۱۹۳_

۲_ مقاتل الطالبین ص ۱۹۵_

۵۰

کریں گے ؟ انہوں نے جواب دیا : جب تک میں قتل نہیں کیا جاؤنگا اس وقت تک وہ خروج نہیں کریں گے _ لیکن خروج کے بعد قتل کردیئےائیں گے _ اس شخص نے کہا : انّا للہ و انّا الیہ راجعون'' اگر وہ قتل کردیئےائیں گے تو امت ہلاک ہوجائے گی ، عبداللہ نے کہا: ایسا نہیں ہے _ اس شخص نے دوبارہ عرض کی ، ابراہیم کب خروج کریں کے ؟ کہا جب تک میں زندہ ہوں اس وقت تک خروج نہیں کریں گے _ لیکن وہ بھی قتل کردیئےائیں گے اس شخص نے کہا ، انا للہ و انا الیہ راجعوں، امت ہلاک ہوا چاہتی ہے _ عبداللہ نے جواب دیا : ایسا نہیں ہے بلکہ ان کام امام مہدی موعود ایک پچیس سال کی عمر کا جوان ہے جو دشمنوں کو تہہ تیغ کرے گا _ (۱)

ابوالفرج ہی تحریر فرماتے ہیں : ابوالعباس نے نقل کیا ہے کہ میں نے مروان سے کہا: محمد خود کو مہدی کہتے ہیں _ اس نے کہا :نہ وہ مہدی موعود ہیں نہ ان کے باپ کی نسل سے ہوگا بلکہ وہ ایک کنیز کا بیٹا ہے _(۲)

پھر لکھتے ہیں : جعفر بن محمد جب بھی محمد بن عبداللہ کو دیکھتے گریہ کرتے اور فرماتے تھے: ان (مہدی) پر میری جان فدا ہو لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ شخص مہدی موعود ہے جبکہ یہ قتل کردیا جائے گا اور کتاب علی میں اس امت کے خلفاء کی فہرست میں اس کا نام نہیں ہے _(۳)

____________________

۱_ مقاتل الطالبین ص ۱۶۷_

۲_ مقاتل الطالبین ص ۱۶۶_

۳_ مقاتل الطالبین ص ۱۴۲_

۵۱

محمد بن عبداللہ بن حسن کے پاس ایک جماعت بیٹھی تھی کہ جعفر بن محمد تشریف لائے سب نے ان کا احترام کیا _ آپ نے دریافت کیا ، کیا بات ہے ؟ حاضرین نے جواب دیا ہم محمد بن عبداللہ جو کہ مہدی موعودہیں کی بیعت کرنا چاہتے ہیں _ آپ نے فرمایا : اس ارادہ سے دست کش ہوجاؤ کیونکہ ابھی ظہور کا وقت نہیں آیا ہے اور محمد بن عبداللہ بھی مہدی نہیں ہے _ (۱)

مہدی اور دعبل کے اشعار

دعبل نے جب امام رضا (ع) کو اپنا مشہور قصیدہ سنا یا تو اس کے خاتمہ پر درج ذیل شعر پڑھا:

خروج امام لامحالة واقع

یقوم علی اسم الله والبرکات

یعنی ایک امام کا انقلاب لانا ضروری ہے وہ خدا کے نام اور برکت سے انقلاب لائے گا _

امام رضا(ع) نے یہ شعر سن کر بہت گریہ کیا اور فرمایا: روح القدس نے تمہاری زبان سے یہ بات کہلوائی ہے _ کیا تم اس امام کو پہچانتے ہو ؟ عرض کی نہیں : لیکن سنا ہے ، آپ (ع) میں سے ایک اما م قیا م کرے گا اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کریگا امام (ع) نے فرمایا : میرے بعد میرا بیٹا محمد (ع) امام ہے اور ان کے بعد ان کے فرزند علی (ع) امام ہوں گے اور ان کے بعد ان کے بیٹے حسن (ع) امام ہوں گے اور ان کے بعد ان کہ لخت جگر حجت قائم امام ہوں گے _ ان کی غیبت کے زمانہ میں انتظار کرنا اور ظہور کے بعد ان کی اطاعت

____________________

۱_ مقاتل الطالبین ص ۱۴۱_

۵۲

کرنی چاہئے وہی زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں گے _ لیکن ان کے ظہور کا وقت معین نہیں ہوا ہے بلکہ وہ اچانک و ناگہان ظہور کریں گے _ (۱)

ان اور ایسے ہی دیگر واقعات سے تاریخ بھر پڑی ہے اگر اشتیاق ہے تو تاریخ کا مطالعہ فرمائیں _

چونکہ کافی وقت گزر چکا تھا لہذا یہیں پر جلسہ کو ختم کردیا گیا اور آنے والے ہفتہ کی شب پر موقوف کردیا گیا _

____________________

۱_ ینابیع المودة جلد ۲ ص ۱۹۷_

۵۳

جعلی مہدی

مقررہ شب میں جناب ڈاکٹر صاحب کے گھر میں احباب جمع ہوئے اور رسمی مدارات کے بعد ہوشیار صاحب نے اپنی گفتگو سے جلسہ کا آغاز کیا _ :

صدر اسلام میں مہدویت کے مسلّم اور رائج العقیدہ ہونے پر جھوٹے و جعلی مہدی افراد کی داستان بھی شاہد ہے جو کہ ماضی میں پیدا ہوئی ہیں اور تاریخ میں ان کی داستان ثبت ہے _ برادران کی آگہی کے لئے میں ان کے ناموں کی فہرست بیان کرتا ہوں _

مسلمانوں کی ایک جماعت محمد بن حنفیہ کو امام مہدی تصور کرتی تھی اور کہتی تھی وہ مرے نہیں ہیں بلکہ رضوی نامی پہاڑ میں چلے گئے ہیں بعد میں ظاہر ہوں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھریں گے _(۱)

فرقہ جارودیہ کے بعض افراد عبداللہ بن حسن کو مہدی غائب خیال کرتے تھے اور ان کے ظہور کے انتظار میں زندگی بسر کرتے تھے _(۲)

____________________

۱_ ملل و نحل مولفہ شہرستانی طبع اول ج ۱ ص۲۴۲ ، فرق الشیعہ مولفہ نور بخشی طبع نجف سال ۱۳۵۵ ھ ص ۲۷_

۲_ ملل و نحل ج۱ ص ۲۵۶ فرق الشیعہ ص ۶۲

۵۴

فرقہ ناؤسیہ امام صادق (ع) کو مہدی اور زندہ غائب سمجھتا تھا _(۱)

واقفی لوگ حضرت موسی کاظم کو زندہ و غائب اما م خیال کرتے تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ امام بعد میں ظہور کریں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھریں گے _(۲)

فرقہ اسماعیلیہ کا عقیدہ ہے کہ اسماعیل نہیں مرے ہیں بلکہ تقیہ کے طور پر کہا جاتا ہے کہ مرگئے ہیں _(۳)

فرقہ باقریہ امام باقر (ع) کو زندہ اور مہدی موعود سمجھتا ہے _

فرقہ محمدیہ کا عقیدہ ہے کہ امام علی نقی (ع) کے بعد ان کے بیٹے محمد بن علی امام ہیں اور ان ہی کو زندہ اور مہدی موعود تصور کرتے ہیں جبکہ وہ اپنے والد کی حین حیات ہی انتقال کرگئے تھے_

جوازیہ کہتے ہیں : حجت بن الحسن (ع) کے ایک فرزند تھے اور وہی مہدی موعود ہیں _(۴)

فرقہ ہاشمیہ میں سے بعض افراد عبداللہ بن حرب کندی کو زندہ و غائب امام تصور کرتے تھے اور ان کے انتظار میں زندگی بسر کرتے تھے _(۵)

مبارکیہ کی ایک جماعت کا خیال تھا کہ محمد بن اسماعیل زندہ و غائب امام ہیں(۶)

____________________

۱_ ملل و نحل ج ۱ ص ۲۷۳ فرق الشیعہ ص ۶۷_

۲_ ملل و نحل ج ۱ ص ۲۷۸ فرق الشیعہ ص ۸۰ و ص ۸۳_

۳_ ملل و نحل ج ۱ ص ۲۷۹ فرق الشیعہ ص ۶۷_

۴_ تنبیہات الجلیہ فی کشف الاسرار الباطنیہ ص ۴۰ و ص ۴۲_

۵_ ملل و نحل ج ۱ ص ۲۴۵

۶_ ملل و نحل ج ۱ ص ۲۷۹_

۵۵

یزیدیوں کا عقیدہ تھا کہ یزید آسمان پر چلاگیا ہے _ دوبارہ زمین پر لوٹے گا اور زمین کو عدل و انصاف سے بھرے گا _ (۱)

اسماعیلیہ کہتے تھے روایات میں جس مہدی کا ذکر ہے وہ محمد بن عبداللہ الملقب بہ مہدی ہیں کہ جن کی مصر و مغرب پر حکومت ہوگی ، روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا: ۳۰۰ ھ میں سورج مغرب سے طلوع کرے گا _(۲)

امامیہ کی ایک جماعت کا خیال تھا کہ امام حسن عسکری زندہ ہیں وہی قائم ہیں اور غیبت کی زندگی گزاررہے ہیں ، بعد میں وہی ظاہر ہوں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے بھریں گے_ ایک دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ امام حسن عسکری کا انتقال ہوگیا ہے لیکن وہ دوبارہ زندہ ہوں گے اور قیام کریں گے کیونکہ قائم کے معنی مرنے کے بعد زندہ ہونے کے ہیں _(۲)

قرامطہ محمد بن اسمعیل کو مہدی موعود جانتے تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ وہ زندہ ہیں اور روم کے کسی شہر میں رہتے ہیں _(۲)

فرقہ ابی مسلمیہ ابومسلم خراسانی کو زندہ و غائب امام سمجھتا ہے _(۵)

ایک گروہ امام حسن عسکری (ع) کو مہدی خیال کرتا اور کہتا تھا: وہ مرنے کے بعد

____________________

۱_ کتاب الیزیدیہ مولفہ صدوق الدملوجی موصل ص ۱۶۴_

۲_ روضة الصّفا ج ۴ ص ۱۸۱_

۳_ ملل و نحل ج ۱ ص ۲۸۴_ فرق الشیعہ ص ۹۶و ص ۹۷_

۴_ الہدیہ فی الاسلام ص ۱۷۰ فرق الشیعہ ص ۷۲_

۵_ فرق الشیعہ ص ۴۷_

۵۶

زندہ ہوگئے ہیں اور اب غیبت کی زندگی بسرکررہے ہیں (۱) بعد میں ظاہر ہوں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھریں گے _ (۲)

غلط فائدہ

یہ تھے ان افراد کے نام جنھیں جاہل لوگ صدر اسلام اور عہد پیغمبر (ص) سے نزدیک زمانہ میں مہدی سمجھتے تھے مگر ان میں سے اکثر جماعتیں مٹ گئی ہیں اور اب تاریخ کے صفحات کے علاوہ کہیں ان کا نام و نشان نہیں ملتا ہے _ اس وقت سے آج تک مختلف ملکوں میں بنی ہاشم او رغیر بنی ہاشم میں ایسے افراد پیدا ہوتے رہے ہیں جنہوں نے اپنے مہدی ہونے کا دعوی کیا ہے _ تاریخ میں اس عنوان سے کتنی ہی جنگیں اور خونریزیاں ہوئی ہیں اور کتنے ہی انقلاب آئے اور ناخوشگوار حوادث رونما ہوئے ہیں _(۳)

ان واقعات و حوادث سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ داستان مہدویت اور مصلح غیبی کا ظہور مسلمانوں کے در میان ایک مسلّم عقیدہ تھا اور مسلمان ان کے انتظار میں دن گناکرتے تھے اور ان کی نصرت و غلبہ کو ضروری سمجھتے تھے چنانچہ یہ چیز اس بات کا سبب بنی کہ بعض ذہین اور موقع کے متلاشی افراد لوگوں کے اس پاک و صاف عقیدہ سے کہ جس کا سرچشمہ مصدر وحی تھا ، غلط فائدہ اٹھانے کے لئے تیار ہوگئے اور خود کو مہدی

____________________

۱_ فرق الشیعہ ص ۹۷_

۲_ تفصیل کیلئے مہدی از صدر اسلام تا قرن سیزدہم ، مولف خاور شناسی ملاحظہ فرمائیں نیز المہدیة فی الاسلام کا مطالعہ فرمائیں _

۳_ فصول المہمہ ص ۲۷۴ مقاتل الطالبین ص ۱۶۴ ، ذخائر العقبی ص ۲۰۶، صواعق المحرقہ ص ۲۳۵_

۵۷

موعود کے عنوان سے پیش کریں _ ممکن ہے ان میں سے بعض اس سے غلط فائدہ نہ اٹھانا چاہتے ہو بلکہ ظالم و ستمگاروں سے انتقام لینا اور قوم و ملّت کی اصلاح کرنا چاہتے تھے_ اگر چہ ان میں سے بعض نے اپنے مہدی ہونے کادعوی نہیں کیا تھا لیکن نادانی ، مصائب کی شدتوں اور عجلت پسند گروہ انھیں اسلام کا مہدی موعود سمجھتا تھا _

جعلی حدیثیں

افسوس کہ ان حوادث کی وجہ سے لوگوں میں حضرت مہدی کی تعریف و توصیف اور ظہو رکی علامتوں کے سلسلے میں جعلی حدیثوں کو شہرت دی گئی اور وہ بغیر تحقیق کے کتب احادیث میں درج کی گئیں _

۵۸

اہل بیت رسول (ص) اور گیارہ ائمہ (ع) نہ مہدی (عج) کی خبر دی ہے

ڈاکٹر : مہدی کے بارے میں اہل بیت رسول (ص) اور ائمہ اطہار کا کیا عقیدہ تھا؟

ہوشیار: رسول(ص) اکرم کی وفات کے بعد بھی مہدویت کا عقیدہ اصحاب اور ائمہ اطہار (ع) کے درمیان مشہور اور موضوع بحث تھا _ پیغمبر کی احادیث و اخبار کو سب سے بہتر سمجھنے والے اہل بیت (ع) رسول اور علوم و اسرار نبوت کے حامل مہدی کے بارے میں گفتگو کرتے تھے اور لوگوں کے سوالات کے جوابات دیتے تھے از باب مثال :

حضرت علی (ع) نے مہدی (ع) کی خبر دی

حضرت علی بن ابیطالب (ع) نے فرمایا : مہدی موعود ہم میں سے ہوگا اور آخری زمانہ میں ظہور کرے گا اس کے علاوہ کسی قوم میں مہدی منتظر نہیں ہے _(۱) اس سلسلے میں حضرت علی (ع) سے اور پچاس حدیثیں ہیں _(۲)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۱۴۸_

۲_ یہ تعداد منتخب الاثر میں تحقیق کے بعد درج ہوئی ہے ، ظاہر ہے اگراس سے زیادہ کوئی تفصیل کتاب لکھی جاتی اور تحقیق کو مزید وسعت دی جاتی تو اس سے کہیں زیادہ حدیثیں فراہم ہوجاتیں _

۵۹

حضرت فاطمہ زہرا (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

حضرت فاطمہ زہرا (ع) نے امام حسین (ع) سے فرمایا: تمہاری ولادت کے بعد رسول (ص) خدا میرے پاس تشریف لائے _ تمہیں گودمیں لیا _ اور فرمایا : اپنے حسین کولے لو اور جان لو کہ یہ نو ائمہ کے باپ ہیں اور ان کی نسل سے صالح امام پیدا ہوں گے اور ان میں کانواں مہدی ہے تین حدیثیں او رہیں _(۱)

حضرت حسن (ع) بن علی (ع) نے مہدی(عج) کی خبر دی

حضرت امام حسن بن علی نے فرمایا: رسول کے بعد امام بارہ ہیں _ ان میں سے نو(۹) میرے بھائی حسین کی نسل سے ہوں گے اور اس امت کا مہدی ان ہی کی نسل سے ہے چار حدیثیں اور ہیں _(۲)

امام حسین (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

حضرت امام حسین (ع) نے فرمایا: بارہ اما م ہم میں سے ہیں _ ان میں سے پہلے علی بن ابی طالب ہیں اور نویں میرے بیٹے قائم برحق ہیں _ خداان کے وجود کی برکت سے مردہ زمین کو زندہ اور غیرآباد کو آباد کرے گا اور دین حق کوتمام ادیان پر کامیابی عطا کرے گا خواہ مشرکین کو یہ

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۲ ص ۵۵۲_

۲_ اثبات الہداة ج ۲ ص ۵۵۵_

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

اختلاف اور نزاع کا موضوع

جو لوگ اس بحث میں وارد ہوئے ہیں اکثر نے صرف فدک کے اطراف میں بحث کی ہے کہ گویا نزاع اور اختلاف کا موضوع صرف فدک میں منحصر ہے اسی وجہ سے یہاں پر کافی اشکالات اور ابہام پیدا ہوگئے ہیں لیکن جب اصلی مدارک کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اختلاف کا موضوع صرف فدک میں منحصر نہیں ہے بلکہ بعض دوسرے امور میں بھی اختلاف اور نزاع موجود ہے _ مثلاً:

جناب عائشےہ نے نقل کیا ہے کہ فاطمہ (ع) نے کسی کو ابوبکر کے پاس بھیجا اور اپنے باپ کی میراث کا مطالبہ کیا، جناب فاطمہ (ع) نے اس وقت کئی چیزوں کا مطالبہ کیا تھا_ اول: پیغمبر (ص) کے وہ اموال جو مدینہ میں موجود تھے_ دوم: فدک_ سوم: خیبر کا باقیماندہ خمس_ جناب ابوبکر نے جناب فاطمہ (ع) کو جواب بھجوایا کہ پیغمبر (ص) نے فرمایا ہے کہ ہم میراث نہیں چھوڑتے جو کچھ ہم سے باقی رہ جائے وہ صدقہ ہوگا اور آل محمد بھی اس سے ارتزاق کرسکیں گے_

خدا کی قسم میں رسول خدا(ص) کے صدقات کو تغییر نہیں دوں گا اور اس کے مطابق_ عمل کروں گا_ جناب ابوبکر تیار نہ ہوئے کہ کوئی چیز جناب فاطمہ کو دیں اسی لئے جناب فاطمہ (ع) ان پر غضبناک ہوئیں اور آپ نے کنارہ کشی اختیار کرلی اور وفات تک ان سے گفتگو اور کلام نہ کیا(۱) _

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۷_

۲۴۱

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) نے جناب ابوبکر کو پیغام دیا کہ کیا تم رسول خدا (ص) کے وارث یا ان کے رشتہ دار اور اہل ہو؟ جناب ابوبکر نے جواب دیا کہ وارث ان کے اہل اور رشتہ دار ہیں جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ پس رسول خدا (ص) کا حصہ غنیمت سے کہاں گیا؟ جناب ابوبکر نے کہا کہ میں نے آپ کے والد سے سنا ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا ہے کہ خدا نے پیغمبر (ص) کے لئے طعمہ (خوارک) قرار دیا ہے اور جب اللہ ان کی روح قبض کرلیتا ہے تو وہ مال ان کے خلیفہ کے لئے قرار دے دیتا ہے میں آپ کے والد کا خلیفہ ہوں مجھے چاہیئے کہ اس مال کو مسلمانوں کی طرف لوٹا دوں(۱) _

عروہ نے نقل کیا ہے کہ حضرت فاطمہ (ع) کا اختلاف اور نزاع جناب ابوبکر سے فدک اور ذوی القربی کے حصّے کے مطالبے کے سلسلے میں تھا لیکن جناب ابوبکر نے انہیں کچھ بھی نہ دیا اور ان کو خدا کے اموال کا جز و قرار دے دیا(۲) _

جناب حسن بن علی بن ابی طالب فرماتے ہیں کہ جناب ابوبکر نے جناب فاطمہ (ع) اور بنی ہاشم کو ذوی القربی کے سہم اور حصے سے محروم کردیا اور اسے سبیل اللہ کا حصہ قرار دے کر ان سے جہاد کے لئے اسلحہ اور اونٹ اور خچر خریدتے تھے(۳) _

ان مطالب سے معلوم ہوجائے گا کہ حضرت فاطمہ (ع) فدک کے علاوہ بعض دوسرے موضوعات میں جیسے رسول خدا کے ان اموال میں جو مدینے

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۹_

۲) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۳۱_

۳) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۳۱_

۲۴۲

میں تھے اور خبیر کے خمس سے جو باقی رہ گیا تھا اور غنائم سے رسول خدا(ص) کے سہم اور ذوی القربی کے سہم میں بھی جناب ابوبکر کے ساتھ نزاع رکھتی تھیں لیکن بعد میں یہ مختلف موضوع خلط ملط کردیئے گئے کہ جن کی وجہ سے جناب فاطمہ (ع) کے اختلاف اور نزاع میں ابہامات اور اشکالات رونما ہوگئے حقیقت اور اصل مذہب کے واضح اور روشن ہوجانے کے لئے ضروری ہے کہ تمام موارد نزاع کو ایک دوسرے سے علیحدہ اور جدا کیا جائے اور ہر ایک میں علیحدہ بحث اور تحقیق کی جائے_

پیغمبر (ص) کے شخصی اموال

پیغمبر (ص) کی کچھ چیزیں اور مال ایسے تھے جو آپ کی ذات کے ساتھ مخصوص تھے اور آپ ہی اس کے مالک تھے جیسے مکان اور اس کا وہ کمرے کہ جس میں آپ (ص) اور آپ(ص) کی ازواج رہتی تھیں آپ کی شخصی لباس اور گھر کے اسباب جیسے فرش اور برتن و غیرہ، تلوار، زرہ، نیزہ، سواری کے حیوانات جیسے گھوڑا، اونٹ، خچر اور وہ حیوان جو دودھ دیتے تھے جیسے گوسفند اور گائے و غیرہ_ ان تمام چیزوں کے پیغمبر اسلام مالک تھے اور یہ چیزیں احادیث اور تاریخ کی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ درج ہیں(۱) _

بظاہر اس میں کوئی شک نہ ہوگا کہ یہ تمام چیزیں آپ کی ملک تھیں اور آپ کی وفا کے بعد یہ اموال آپ کے ورثا کی طرف منتقل ہوگئے_

____________________

۱) مناقب شہر ابن آشوب، ج ۱ ص ۱۶۸ _ کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۲۲_

۲۴۳

حسن بن علی و شاء کہتے ہیں کہ میں نے امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ کیا رسول خدا(ص) نے فدک کے علاوہ بھی کوئی مال چھوڑ تھا؟ تو آپ نے فرمایا، ہاں، مدینہ میں چند باغ تھے جو وقف تھے اور چھ گھوڑے تین عدد ناقہ کہ جن کے نام عضباء اور صہبا، اور دیباج تھے، دو عدد خچر جن کا نام شہبا، اور دلدل تھا، ایک عدد گدھا بنام یعفور، دو عدد دودھ دینے والی گوسفند، چالیس اونٹیاں دودھ دینے والی، ایک تلوار ذوالفقار نامی، ایک زرہ بنا م ذات الفصول عمامہ بنام سحاب، دو عدد عبا، کئی چمڑے کے تکئے_ پیغمبر(ص) یہ چیزیں رکھتے تھے آپ کے بعد یہ تمام چیزیں جناب فاطمہ (ع) کی طرف سوائے زرہ، شمشیر، عمامہ اور انگوٹھی کے منتقل ہوگئیں تلوار، زرہ، عمامہ اور انگوٹھی حضرت علی (ع) کو دیئے گئے(۱) _

پیغمبر(ص) کے وارث آپ کی ازواج او رجناب فاطمہ زہراء (ع) تھیں_ تاریخ میں اس کا ذکر نہیں آیا کہ پیغمبر (ص) کے ان اموال کو ان کے ورثا میں تقسیم کیا گیا تھا لیکن بظاہر اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے امکانات آپ کی ازواج ہی کو دے دیئے گئے تھے کہ جن میں وہ آپ کے بعد رہتی رہیں، بعض نے یہ کہا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی زندگی میں یہ مکانات اپنی ازواج کو بخش دیئے تھے اور اس مطلب کو ثابت کرنے کے لئے اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے_

''و قرن فی بیوتکن وَلا تبرّجن تبرّج

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۲۲_

۲۴۴

الجاهلیة الاولی '' (۱)

گہا گیا ہے کہ خداوند عالم نے اس آیت میں حکم دیا ہے کہ اپنے گھروں میں رہتی رہو اور جاہلیت کے دور کی طرح باہر نہ نکلو_ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گھر ان کے تھے تب تو اس میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے ورنہ حکم اس طرح دیا جاتا کہ تم پیغمبر(ص) کے گھروں میں رہتی ہو، لیکن اہل تحقیق پر یہ امر پوشیدہ نہیں کہ یہ آیت اس مطلب کے ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ہے کیوں کہ اس طرح کی نسبت دے دینا عرفی گفتگو میں زیادہ ہوا کرتی ہے اور صرف کسی چیز کا کسی طرف منسوب کردینا اس کے مالک ہونے کی دلیل نہیں ہوا کرتا_ مرد کی ملک کو اس کی بیوی اور اولاد کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے تمہارا گھر، تمہارا باغ، تمہارا فرش، تمہارے برتن حالانکہ ان تمام کا اصلی مالک ان کا باپ یا شوہر مرد ہوا کرتا ہے_ کسی چیز کو منسوب کرنے کے لئے معمولی سی مناسبت بھی کافی ہوا کرتی ہے جیسے کرائے پر مکان لے لینا یا اس میں رہ لینے سے بھی کہاجاتا ہے تمہارا گھر، چونکہ پیغمبر(ص) نے ہر ایک بیوی کے لئے ایک ایک کمرہ مخصوص کر رکھا تھا اس لئے کہا جاتا تھا جناب عائشےہ کا گھر یا جناب ام سلمہ کا گھر یا جناب زینب کا گھر یا جناب ام حبیبہ کا گھر لہذا اس آیت سے یہ مستفاد نہیں ہوگا کہ پیغمبر اکرم(ص) نے یہ مکانات ان کو بخش دیئے تھے_ اس کے علاوہ اور کوئی بھی دلیل موجود نہیں جو یہ بتلائے کہ یہ مکان ان کی ملک میں تھا، لہذا کہنا پڑے گا کہ ازدواج نے یا تو مکانات اپنے ارث کے حصے کے طور پر لے رکھے تھے یا اصحاب نے پیغمبر(ص) کے احترام

____________________

۱) سورہ احزاب آیت ۳۳_

۲۴۵

میں انہیں وہیں رہنے دیا جہاں وہ پیغمبر(ص) کی زندگی میں رہ رہیں تھی_ جناب فاطمہ (ع) ان مکانوں کے ورثاء میں سے ایک تھیں آپ نے بھی اسی لحاظ سے اپنے حق کا ان سے مطالبہ نہیں کیا اور انہی کو اپنا حصہ تا حیات دیئےکھا_ خلاصہ اس میں کسی کو شک نہیں کرنا چاہیئے کہ رسول خدا(ص) نے اس قسم کے اموال بھی چھوڑے ہیں جو ور ثاء کی طرف منتقل ہوئے اور ان کو قانون وراثت اور آیات وراثت شامل ہوئیں_

فدک

مدینہ کے اطراف میں ایک علاقہ ہے کہ جس کا نام فدک ہے مدینہ سے وہاں تک دودن کا راستہ ہے_ یہ علاقہ زمانہ قدیم میں بہت آباد اور سرسبز اور درختوں سے پر تھا_ معجم البلدان والے لکھتے ہیں کہ اس علاقہ میں خرمے کے بہت درخت تھے اور اس میں پانی کے چشمے تھے کہ جس سے پانی ابلتا تھا ہم نے پہلے بھی ثابت کیا ہے کہ فدک کوئی معمولی اور بے ارزش علاقہ نہ تھا بلکہ آباد اور قابل توجہ تھا_

یہ علاقہ یہودیوں کے ہاتھ میں تھا جب ۷ سنہ ہجری کو خیبر کا علاقہ فتح ہوگیا تو فدک کے یہودیوں نے اس سے مرعوب ہوکر کسی آدمی کو پیغمبر(ص) کے پاس روانہ کیا اور آپ سے صلح کرنے کی خواہش کی_

ایک اور روایت میں نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے محیصہ بن مسعود کو ان یہودیوں کے پاس بھیجا اور انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی لیکن انہوں نے اسلام قبول نہ کیا البتہ صلح کرنے کی خواہش کا اظہار کیا_ جناب رسول خدا(ص) نے ان کی خواہش کو قبول فرمایا اور ان سے ایک صلح نامہ

۲۴۶

تحریر کیا اس صلح کی وجہ سے فدک کے یہودی اسلام کی حفاظت اور حمایت میں آگئے_

صاحب فتوح البلدان لکھتے ہیں کہ یہودیوں نے اس صلح میں فدک کی آدھی زمین پیغمبر(ص) کے حوالے کردی، معجم البلدان میں لکھتے ہیں کہ فدک کے تمام باغات اور اموال اور زمین کا نصف پیغمبر(ص) کو دے دیا_

تاریخ گواہ ہے کہ اس صلح کی قرارداد کی رو سے جو فدک کے یہودیوں اور پیغمبر(ص) کے درمیان قرار پائی تھی تمام آراضی اور باغات اور اموال کا آدھا یہودیوں نے پیغمبر(ص) کو دے دیا، یعنی یہ مال خالص پیغمبر(ص) کی ذات کا ہوگیا کیونکہ جیسا کہ آپ ملاحظہ کرچکے ہیں یہ علاقہ بغیر جنگ کئے پیغمبر(ص) کے ہاتھ آیا ہے اسلام کے قانون کی رو سے جو علاقہ بھی بغیر جنگ کئے فتح ہوجائے وہ رسول(ص) کا خالص مال ہوا کرتا ہے_

یہ قانون اسلام کے مسلمہ قانون میں سے ایک ہے اور قرآن مجید بھی یہی حکم دیتا ہے_ جیسے خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے:

وما افاء الله علی رسوله منهم فما اوجفتم علیه من ذل: و لارکاب و لکن الله یسلط رسله علی من یشاء و الله علی کل شیء قدیر، ما افاء الله علی رسوله من اهل القوی فلله و للرسول '' (۱) _

یعنی وہ مال کہ جو خدا نے اپنے پیغمبر(ص) کے لئے عائد کردیا ہے اور تم نے اس پر گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے لیکن اللہ اپنے پیغمبروں کو

____________________

۱) سورہ حشر آیت ۶_

۲۴۷

جس پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے او رخدا تمام چیزوں پر قادر ہے_ یہ اموال اللہ اور اس کے پیغمبر کے لئے مخصوص ہیں_

لہذا اس میں کسی کو شک نہیں ہونا کہ فدک پیغمبر(ص) کے خالص اموال سے ایک تھا یہ بغیر لڑائی کے پیغمبر(ص) کو ملا تھا اور پیغمبر(ص) اس کے خرچ کرنے میں تمام اختیارات رکھتے تھے آپ حق رکھتے تھے کہ جس جگہ بھی مصلحت دیکھیں فدک کے مال کو خرچ کریں آپ اس مال سے حکومت کا ارادہ کرنے میں بھی خرچ کرتے تھے اور اگر کبھی اسلام کے اعلی مصالح اور حکومت اسلامی کے مصالح اقتضا کرتے تو آپ کو حق تھا کہ فدک میں سے کچھ حصہ کسی کو بخش دیں تا کہ وہ اس کے منافع اور آمدنی سے فائدہ اٹھاتا رہے، آپ کو حق تھا کہ فدک کے آباد کرنے کے عوض کسی کو بلاعوض یا معاوضہ پر بھی دے دیں اور آپ یہ بھی کرسکتے تھے کہ کسی کی اسلامی خدمات کے عوض اس سے کچھ مال اسے بخش دیں، اور یہ بھی کرسکتے تھے کہ فدک کی آمدنی سے کچھ حکومت اسلامی اور عمومی ضروریات پر خرچ کردیں اور یہ بھی حق رکھتے تھے کہ اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات کے لئے فدک کا کچھ حصہ مخصوص قرار دے دیں_ بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے فدک کو اپنے اور اپنے خاندان کے معاش اور ضروریات زندگی کے لئے مخصوص کر رکھا تھا آپ نے فدک کی بعض غیر آباد زمین کو اپنے دست مبارک سے آباد کیا اور اس میں خرمے کے درخت لگائے_

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ جب متوکل عباسی نے فدک عبداللہ بن عمر بازیار کو بخش دیا تو اس میں اس وقت تک گیارہ خرمے کے وہ درخت موجود تھے جو جناب رسول خدا(ص) نے اپنے دست مبارک سے اس میں لگائے تھے_

۲۴۸

جب کبھی فدک جناب فاطمہ (ع) کی اولاد کے ہاتھ میں آجاتا تھا تو وہ ان درختوں کے خرمے حاجیوں کو ہدیہ دیا کرتے تھے اور حاجی حضرات تبرّک کے طور پر لے کر ان پر کافی احسان کیا کرتے تھے_ جب یہی عبداللہ فدک پر مسلط ہوا تو اس نے بشر ان بن امیہ کو حکم دیا کہ وہ تمام درخت کاٹ دے جب وہ درخت کاٹے گئے اور کاٹنے والا بصرہ لوٹ آیا تو اسے فالج ہوگیا تھا_(۱)

پیغمبر(ص) کی عادت یہ تھی کہ فدک کی آمدنی سے اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات کے مطابق لے لیتے تھے اور جو باقی بچ جاتا تھا وہ بنی ہا شم کے فقراء اور ابن سبیل کو دے دیا کرتے تھے اور بنی ہاشم کے فقراء کی شادی کرانے کے اسباب بھی اسی سے مہیا کرتے تھے_

فدک جناب فاطمہ (ع) کے پاس

سب سے زیادہ مہم نزاع اور اختلاف جو جناب فاطمہ (ع) او رجناب ابوبکر کے درمیان پیا ہوا وہ فدک کا معاملہ تھا، حضرت فاطمہ (ع) مدعی تھیں کہ رسول خدا(ص) نے اپنی زندگی میں فدک انہیں بخش دیا تھا لیکن جناب ابوبکر اس کا انکار کرتے تھے، ابتداء میں تو جھگڑا ایک عادی امر شمار ہوتا تھا لیکن بعد میں اس نے تاریخ کے ایک اہم واقعہ اور حساس حادثہ کی صورت اختیار کرلی کہ جس کے آثار اور تنائج جامعہ اسلامی کے سالوں تک دامن گیر ہوگئے اور اب بھی ہیں

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۷_

۲۴۹

اس نزاع میں جو بھی حق ہے وہ اچھی طرح واضح اور روشن ہوجائے لہذا چند مطالب کی تحقیق ضروری ہے_

پہلا مطلب: کیا پیغمبر(ص) :کو دولت او رحکومت کے اموال اپنی بیٹی کو بخش دینے کا حق تھا یا نہیں_ (واضح رہے کہ بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ انفال اور فی اور خمس و غیرہ قسم کے اموال حکومت اسلامی کے مال شمار ہوتے ہیں اور حاکم اسلامی صرف اس پر کنٹرول کرتا ہے یہ اس کا ذاتی مال نہیں ہوتا، اسی نظریئے کے صاحب کتاب بھی معلوم ہوتے ہیں گرچہ یہ نظریہ شیعہ علماء کی اکثریت کے نزدیک غلط ہے اور خود آئمہ طاہرین کے اقدام سے بھی یہ نظریہ غلط ثابت ہوتا ہے اور قرآن مجید کے ظواہر سے بھی اسی نظریئے کی تردید ہوتی ہے کیونکہ ان تمام سے ان اموال کا پیغمبر(ص) اور امام کا شخصی اور ذاتی مال ہونا معلوم ہوتا ہے نہ منصب اور حکومت کا لیکن صاحب کتاب اپنے نظریئے کے مطابق فدک کے قبضئے کو حل کر رہے ہیں ''مترجم''')

ممکن ہے کہ کوئی یہ کہے کہ غنائم اور دوسرے حکومت کے خزانے تمام مسلمانوں کے ہوتے ہیں اور حکومت کی زمین کو حکومت کی ملکیت میں ہی رہنا چاہیئے، لیکن ان کی آمدنی کو عام ملت کے منافع اور مصالح پر خرچ کرنا چاہیئے لہذا پیغمبر(ص) کے لئے جوہر خطا اور لغزش سے معصوم تھے ممکن ہی نہ تھا کہ وہ فدک کو جو خالص آپ کا ملک تھا اپنی بیٹی زہراء کو بخش دیتے_

لیکن اس اعتراض کا جواب اس طر ح دیا جاسکتا ہے کہ انفال اور اموال حکومت کی بحث ایک بہت وسیع و عریض بحث ہے کہ جو ان اوراق میں تفصیل کے ساتھ تو بیان نہیں کی جاسکتی، لیکن اسے مختصر اور نتیجہ اخذ کرنے کے

۲۵۰

لئے یہاں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ اگر ہم یہ تسلیم بھی کرلیں کہ فدک بھی غنائم اور عمومی اموال میں ایک تھا اور اس کا تعلق نبوت اور امامت کے منصب سے تھا یعنی اسلامی حاکم شرع سے تعلق رکھتا تھا لیکن پہلے بیان ہوچکا ہے کہ ان اموال میں سے تھا جو بغیر جنگ کے مسلمانوں کے ہاتھ آیا تھا اور نصوص اسلامی کے مطابق اور پیغمبر(ص) کی سیرت کے لحاظ سے اس قسم کے اموال جو بغیر جنگ کے ہاتھ آئیں یہ پیغمبر(ص) کے خالص مال شمار ہوتے ہیں البتہ خالص اموال کو بھی یہ کہا جائے کہ آپ کا شخص مال نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کا تعلق بھی حاکم اسلامی اور حکومت سے ہوتا ہے تب بھی اس قسم کے مال کا ان عمومی اموال سے جو دولت اور حکومت سے متعلق ہوتے ہیں بہت فرق ہوا کرتا ہے، کیونکہ اس قسم کے مال کا اختیار پیغمبر(ص) کے ہاتھ میں ہے اور آپ اس قسم کے اموال میں تصرف کرنے میں محدود نہیں ہوا کرتے بلکہ آپ کو اس قم کے اموال میں بہت وسیع اختیارات حاصل ہوا کرتے ہیں اور اس کے خرچ کرنے میں آپ اپنی مصلحت اندیی اور صواب دید کے پابند اور مختار ہوتے ہیں یہاں تک کہ اگر عمومی مصلحت اس کا تقاضا کرے تو آپ اس کا کچھ حصہ ایک شخص کو یا کئی افراد کو دے بھی سکتے ہیں تا کہ وہ اس منافع سے بہرہ مند ہوں_ اس قسم کے تصرفات کرنا اسلام میں کوئی اجنبی اور پہلا تصرف نہیں ہوگا بلکہ رسول خدا (ص) نے اپنی آراضی خالص سے کئی اشخاص کو چند زمین کے قطعات دیئے تھے کہ جس اصطلاح میں اقطاع کہا جاتا ہے_

بلاذری نے لکھا ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زمین کے چند قطعات___ بنی نضیر اور جناب ابوبکر اور جناب عبدالرحمان بن عوف اور جناب ابو دجانہ و غیرہ کو عنایت فرما

۲۵۱

دیئے تھے(۱) _

ایک جگہ اور اسی بلاذری نے لکھا ہے کہ رسول خدا (ص) نے بنی نضیر کی زمینوں میں سے ایک قطعہ زمین کا مع خرمے کے درخت کے زبیر ابن عوام کو دے دیا تھا(۲) _

بلاذری لکھتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے زمین کا ایک قطعہ کہ جس میں پہاڑ اور معدن تھا جناب بلال کو دے دیا(۳) _

بلاذری لکھتے ہیں کے رسول خدا(ص) نے زمین کے چار قطعے علی ابن ابی طالب(ع) کو عنایت فرما دیا دیئے تھے(۴) _

پس اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیئے کہ حاکم شرع اسلامی کو حق پہنچتا ہے کہ زمین خالص سے کچھ مقدار کسی معین آدمی کو بخش دے تا کہ وہ اس کے منافع سے استفادہ کرسکے_ پیغمبر(ص) نے بھی بعض افراد کے حق میں ایسا عمل انجام دیا ہے_ حضرت علی (ع) او رجناب ابوبکر اور جناب عمر اور جناب عثمان اس قسم کی بخشش سے نوازے گئے تھے_

بنابرین قوانین شرع اور اسلام کے لحاظ سے کوئی مانع موجود نہیں کہ رسول خدا(ص) فدک کی آراضی کو جناب زہراء (ع) کو بخش دیں، صرف اتنا مطلب رہ جائے گا کہ آیا جناب رسول خدا(ص) نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو بخشا بھی تھا یا نہیں، تو اس کے اثبات کے لئے وہ اخبار اور روایات جو ہم تک پیغمبر(ص) کی پہنچی ہیں کافی ہیں کہ آپ

____________________

۱) فتوح البلدان، ص ۲۱_

۲) فتوح البلدان، ص ۳۴_

۳، ۴) فتوح البلدان، ص ۲۷

۲۵۲

نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو بخش دیا تھا، نمونے کے طور پر ابوسعید خدری روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت ''وات ذالقربی حقہ'' نازل ہوئی تو رسول خدا(ص) نے جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا کہ فدک تمہارا مال ہے(۱) _

عطیہ نے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت ''وات ذالقربی حقہ'' نازل ہوئی تو جناب رسول خدا(ص) نے جناب فاطمہ (ع) کو اپنے پاس بلایا اور فدک آپ کو دے دیا(۲) _

علی (ع) بن حسین (ع) بن علی (ع) بن ابی طالب (ع) فرماتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو دے دیا تھا(۳) _

جناب امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ جب یہ آیت ''وَ ات ذالقربی حقہ'' نازل ہوئی تو پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ مسکین تو میں جانتا ہوں یہ ''ذالقربی '' کون ہیں؟ جبرئیل نے عرض کی یہ آپ کے اقرباء ہیں پس رسول خدا(ص) نے امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) اور جناب فاطمہ (ع) کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا کہ اللہ تعالی نے دستور اور حکم دیا ہے کہ میں تمہارا حق دوں اسی لئے فدک تم کو دیتا ہوں(۴) _

ابان بن تغلب نے کہا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق (ع) کی خدمت میں عرض کی کہ آیا رسول خدا(ص) نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو دیا تھا؟ آپ (ع) نے فرمایا کہ فدک تو خدا کی طرف سے جناب فاطمہ (ع) کے لئے معین ہوا تھا(۵) _

امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا کہ جناب فاطمہ (ع) حضرت ابوبکر کے پاس آئیں

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۲_ در منثور، ج ۴ ص ۱۷۷_

۲،۳) کشف الغمہ ج ۲ ص ۱۰۲_

۴، ۵) تفسیر عیاشی ج ۲ ص ۲۷۰_

۲۵۳

اور ان سے فدک کا مطالبہ کیا_

جناب ابوبکر نے کہا اپنے مدعا کے لئے گواہ لاؤ، جناب ام ایمن گواہی کے لئے حاضر ہوئیں تو ابوبکر نے ان سے کہا کہ کس چیز گواہی دیتی ہو انہوں نے کہا کہ میں گواہی دیتی ہوں کہ جبرئیل جناب رسول خدا(ص) کے پاس آئے اور عرض کی کہ اللہ تعالیی فرماتا ہے ''وَ ات ذالقربی حقہ'' پیغمبر(ص) نے جبرئیل سے فرمایا کہ خدا سے سوال کرو کہ ذی القربی کون ہیں؟ جبرئیل نے عرض کی کہ فاطمہ (ع) ذوالقربی ہیں پس رسول خا(ص) نے فدک کو دے دیا(۱) _

ابن عباس نے روایت کی ہے کہ جب آیت ''وَ ات ذالقربی حقہ'' نازل ہوئی، جناب رسول خدا(ص) نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو دے دیا(۲) _

اس قسم کی روایات سے جو اس آیت کی شان نزول میں وارد ہوئی ہیں مستفاد ہوتا ہے کہ جناب رسول خدا(ص) اللہ تعالی کی طرف سے مامور تھے کہ فدک کو بعنوان ذوالقربی فاطمہ (ع) زہراء (ع) کے اختیار میں دے دیں تا کہ اس ذریعے سے حضرت علی (ع) کی اقتصادی حالت ''کہ جس نے اسلام کے راستے میں _ جہاد اور فداکاری کی ہے '' مضبوط رہے _

ممکن ہے کہ کوئی یہ اعتراض کرے کہ ذالقربی والی آیت کہ جس کا ذکر ان احادیث میں ہوا ہے سورہ اسراء کی آیت ہے اور سورہ اسراء کو مکی سورہ میں شمار کیا جاتا ہے حالانکہ فدک تو مدینے میں اور خیبر کی فتح کے بعد دیا گیا تھا لیکن اس کے جواب میں دو مطلب میں سے ایک کو اختیار کیا جائے گا اور کہا جائے

____________________

۱) تفسیر عیاشی، ج ۲ ص ۲۸۷_

۲) در منثور، ج ۴ ص ۱۷۷_

۲۵۴

گا گر چہ سورہ اسری مکی ہے مگر پانچ آیتیں اس کی مدینہ میں نازل ہوئی ہیں_

آیت''و لا تقتلوا النفس' ' اور آیت''و لا تقربوا الزنا'' اور آیت ''اولئک الذین یدعون '' اور آیت''اقم الصلوة'' اور آیت''ذی القربی ''(۱) _

دوسرا جواب یہ ہے کہ ذی القربی کا حق تو مکہ میں تشریع ہوچکا تھا لیکن اس پر عمل ہجرت کے بعد کرایا گیا _

فدک کے دینے کا طریقہ

ممکن ہے کہ جناب رسول خدا (ص) نے فدک فاطمہ (ع) کو دو طریقوں میں سے ایک سے دیا ہو_ پہلا فدک کی آراضی کو آپ کا شخصی مال قرار دے دیا ہو_ دوسرا یہ کہ اسے علی (ع) اور فاطمہ (ع) کے___ خانوادے پر جو مسلمانوں کی رہبری اور امامت کا__ _ گھر تھا وقف کردیا ہو کہ یہ بھی ایک دائمی صدقہ اور وقف ہوجو کہ ان کے اختیار میں ___س دے دیا ہو_

اخبار اور احادیث کا ظاہر پہلے طریقے کی تائید کرتا ہے، لیکن دوسرا طریقہ بھی بعید قرار نہیں دیاگیا بلکہ بعض روایات میں اس پر نص بھی موجود ہے جیسے ابان بن تغلب کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو بخش دیا تھا آپ نے فرمایا کہ پیغمبر(ص) نے فدک وقف کیا اور پھر آپ ذی القربی کے مطابق وہ آپ(ع) کے اختیار میں دے دیا میں نے عرض کی کہ رسول خدا(ص) نے

____________________

۱) تفسیر المیزان تالیف استاد بزرگ علامہ طباطبائی ج ۱۳ ص ۲_

۲۵۵

فدک فاطمہ (ع) کو دے دیا آپ نے فرمایا بلکہ خدا نے وہ فاطمہ (ع) کو دیا(۱) _

امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول(ص) نے فاطمہ (ع) کو فدک بطور قطعہ دیا(۲) _

ام ہانی نے روایت کی ہے کہ جناب فاطمہ (ع) جناب ابوبکر کے پاس آئیں اور ان سے کہا کہ جب تو مرے گا تو تیرا وارث کون ہوگا؟ جناب ابوبکر نے کہا میری آل و اولاد، جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا پس تم کس طرح رسول اللہ کے ہمارے سوا وارث ہوگئے ہو، جناب ابوبکر نے کہا، اے رسول کی بیٹی خدا کی قسم میں رسول اللہ (ص) کا سونے، چاندی و غیرہ کا وارث نہیں ہوا ہوں_ جناب فاطمہ (ع) نے کہا ہمارا خیبر کا حصہ اور صدقہ فدک کہاں گیا؟ انہوں نے کہا اے بنت رسول (ص) میں نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ یہ تو ایک طمعہ تھا جو اللہ نے مجھے دیا تھا جب میرا انتقال ہوجائے تو یہ مسلمانوں کا ہوگا(۳) _

جیسا کہ آپ ملاحظہ کر رہے ہیں کہ ایک حدیث میں امام جعفر صادق (ع) تصریح فرماتے ہیں کہ فدک وقف تھا، دوسری حدیث میں امام زین العابدین نے اسے قطعہ سے تعبیر کیا ہے کہ جس کے معنی صرف منافع کا اسلامی او رحکومتی زمین سے حاصل کرنا ہوتا ہے، احتجاج میں حضرت زہراء (ع) نے ابوبکر سے بعنوان صدقہ کے تعبیر کیا ہے_

ایک اور حدیث میں جو پہلے گزرچکی ہے امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ رسول خدا (ص) نے حسن (ع) و حسین (ع) اور فاطمہ (ع) کو بلایا اور فدک انہیں دے دیا_

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۹۶ ص ۲۱۳_

۲) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۲_

۳) فتوح البلدان، ص ۴۴_

۲۵۶

اس قسم کی احادیث سے مستفاد ہوتا ہے کہ رسول خدا(ص) نے فدک کو خانوادہ فاطمہ (ع) و علی (ع) پر جو ولایت اور رہبری کا خانوادہ تھا اور اس کے منافع کو انہیں کے ساتھ مخصوص کردیا تھا_

''لیکن جن روایات میں وقف و غیرہ کی تعبیر آئی ہے وہ ان روایات کے مقابل کہ جن میں بخش دینا آیا ہے بہت معمولی بلکہ ضعیف بھی شمار کی جاتی ہیں لہذا صحیح نظریہ یہی ہے کہ فدک جناب فاطمہ (ع) کی شخصی اور ذاتی ملک تھا جو بعد میں ان کی اولاد کا ارث تھا_ صاحب کتاب اس قسم کی کوشش صرف ایک غرض کے ماتحت فرما رہے ہیں اور یہ غرض اہل علم پر کہ جنہوں نے نہج البلاغہ کی موجودہ زمانے میں جو شرح کی گئی ہے کا مطالعہ کیا ہے مخفی نہیں ہے لیکن شارح بھی حق پر نہیں ہے اور ان کی تصحیح کی کوشش بھی درست نہیں ہے '' مترجم

فدک کے واقعہ میں قضاوت

دیکھنا یہ چاہیئے کہ اس واقعہ میں حق جناب زہراء (ع) کے ساتھ ہے یا جناب ابوبکر کے ساتھ؟ مورخین اور محدثین نے لکھا ہے کہ جناب رسول خدا (ص) کی وفات کے دس دن بعد جناب ابوبکر نے اپنے آدمی بھیجے اور فدک پر قبضہ کرلیا(۱) _

جب اس کی اطلاع جناب فاطمہ (ع) کو ہوئی تو آپ جناب ابوبکر کے پاس آئیں اور فرمایا کہ کیوں تیرے آدمیوں نے میرے فدک پر قبضہ کیا ہے؟ حکم دو کہ وہ فدک مجھے واپس کردیں، جناب ابوبکر نے کہا_ اے پیغمبر(ص) کی بیٹی آپ کے

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۶۳_

۲۵۷

والد نے درہم اور دینار میراث میں نہیں چھوڑٹے آپ نے خود فرمایا ہے کہ پیغمبر(ص) ارث نہیں چھوڑا کرتے، جناب فاطمہ (ع) نے کہا کہ میرے بابا نے فدک اپنی زندگی میں مجھے بحش دیا تھا_ جناب ابوبکر نے کہا کہ آپ کو اپنے اس مدعا پر گواہ لانے چاہئیں پس علی (ع) ابن ابی طالب اور جناب امّ ایمن حاضر ہوء اور گواہی دی کہ رسول خدا(ص) نے فدک فاطمہ (ع) کو بخش دیا تھا، لیکن جناب عمر اور عبدالرحمن بن عوف نے کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ رسول خدا (ص) فدک کی آمدنی کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا کرتے تھے پس ابوبکر نے کہا اے رسول(ص) کی بیٹی تم سچ کہتی ہو اور علی (ع) اور امّ ایمن بھی سچ کہتے ہیں اور عمر اور عبدالرحمن بھی سچ کہتے ہیں اس واسطے کہ آپ کا مال آپ کے والد تھا_ رسول خدا (ص) آپ کا آذوقہ فدک کی آمدنی سے دیا کرتے تھے اور باقی کو تقسیم کردیتے تھے اور راہ خدا میں صرف کیا کرتے تھے(۱) _

بلاذری کہتے ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) جناب ابوبکر کے پا س گئیں اور فرمایا کہ فدک میرے والد نے میرے سپرد کیا تھا وہ کیوں نہیں؟ جناب ابوبکر سنے گواہوں کا مضالبہ کیا پس علی ابن ابی طالب اور جناب ام ایمن حاضر ہوئے اور گواہی دی جناب ابوبکر نے کہا تمہارے گواہوں کا نصاب ناقص ہے چاہیئے کہ دو مرد گواہی یا ایک مرد اور دو عورتیں گواہی دیں(۲)

علی ابن ابی طالب (ع) فرماتے ہیں کہ فا طمہ (ع) ابوبکر کے پاس گئیں اور فرمایا کہ میرے والد نے فدک میرے سپرد کیا تھا علی (ع) اور امّ ایمن نے گواہی بھی دی تم کیوں

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۶_

۲) فتوح البلدان، ص ۴۴_

۲۵۸

مجھے میرے حق سے محروم کرتے ہو_

جناب ابوبکر نے فرمایا کہ آپ سوائے حق کے اور کچھ نہیں فرماتیں فدک آپ کو دیتا ہوں پس فدک کو جناب فاطمہ (ع) کے لئے تحریر کردیا اور قبالہ آپ کے ہاتھ میں دے دیا جناب فاطمہ (ع) نے وہ خط لیا اور باہر آگئیں راستے میں جناب عمر نے آپ کو دیکھا اور پوچھا کہ کہاں سے آرہی ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ ابوبکر کے یہاں گئی تھی اور میں نے کہا کہ میرے والد نے فدک مجھے بخشا تھا اور ام ایمن نے گواہی دی تھی لہذا انہوں نے فدک مجھے واپس کردیا ہے اور یہ اس کی تحریر ہے جناب عمر نے وہ تحریر لی اور جناب ابوبکر کے پاس آئے اور کہا کہ تم نے فدک تحریر کرکے فاطمہ (ع) کو واپس کردیا ہے؟ انہوں نے کہا ہان، عمر نے کہا کہ علی (ع) نے اپنے نفع کے لئے گواہی دی ہے اور امّ ایمن ایک عورت ہے اس کے بعد اس تحریر کو پھاڑ ڈالا(۱) _

جناب فاطمہ (ع) نے ابوبکر سے کہا کہ امّ ایمن گواہی دیتی ہے کہ رسول خدا(ص) نے فدک مجھے بخش دیا تھا_ ابوبکر نے کہا اے دختر رسول (ص) ، خدا کی قسم میرے نزدیک رسول خدا(ص) سے زیادہ محبوب کوئی بھی نہیں ہے جب آپ وفات پاگئے تو میرا دل چاہتا تھا کہ آسمان زمین پر گرپڑے، خدا کی قسم عائشےہ فقیر ہو تو بہتر ہے کہ تم محتاج ہو_ کیا آپ خیال کرتی ہیں کہ میں سرخ و سفید کا حق تو ادا کرتا ہوں لیکن آپ کو آپ کے حق سے محروم کرتا ہوں؟ فدک پیغمبر(ص) کا شخصی مال نہ تھا بلکہ مسلمانوں کا عمومی مال تھا آپ کے والد اس کی آمدنی سے فوج تیار کرتے تھے اور خدا کی راہ میں خرچ کرتے تھے، جب آپ(ص) دنیا سے چلے گئے تو اس

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ص ۱۶ ص ۲۷۴_

۲۵۹

کی تولیت اور سرپرستی میرے ہاتھ میں آئی ہے(۱) _

اس قسم کی گفتگو جناب فاطمہ (ع) اور جناب ابوبکر کے درمیان ہوئی لیکن جناب ابوبکر نے جناب فاطمہ (ع) کی بات تسلیم نہیں کی اور جناب زہراء (ع) کو ان کے حق سے محروم کردیا_

اہل علم و دانش اور منصف مزاج لوگوں پر مخفی نہیں کہ جناب ابوبکر کا عمل اور کردار قضاوت اور شہادت کے قوانین کے خلاف تھا اور آپ پر کئی جہات سے اعتراض وارد کئے جاسکتے ہیں_

پہلا اعتراض:

فدک جناب زہراء (ع) کے قبضہ میں تھا تصرف میں تھا اس میں آپ سے گواہوں کا مطالبہ شریعت اسلامی کے قانوں کے خلاف تھا اس قسم کے موضوع میں جس کے قبضے میں مال ہو اس کا قول بغیر کسی گواہ اور بین ہ کے قبول کرنا ہوتا ہے، اصل مطلب ک ی ذی الید کا قول بغیر گواہوں کے قبول ہوتا ہے، یہ فقہی کتب میں مسلم اور قابل تردید نہیں ہے باقی رہا کہ جناب فاطمہ (ع) ذی الید اور فدک پر قابض تھیں یہ کئی طریقے سے ثابت کیا جاسکتا ہے_

اول: جیسا کہ پہلے نقل ہوچکا ہے ابوسعید خدری، عطیہ اور کئی دوسرے افراد نے گواہی دی تھی کہ رسول خدا (ص) نے اس آیت کے مطابق ''وَ ات ذالقربی حقہ'' فدک جناب فاطمہ (ع) کو دے دیا تھا، روایت میں اعطی کا لفظ وارد ہوا ہے بلکہ اس پر نص ہے کہ جناب رسول خدا(ص) نے اپنی زندگی میں فدک حتمی طور پر جناب فاطمہ (ع) کو بخش دیا تھا اور وہ آپ کے قبضہ اور تصرف میں تھا_

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۴_

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455