آفتاب عدالت

آفتاب عدالت13%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 185347 / ڈاؤنلوڈ: 5868
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

ابوسعید کہتے ہیں : میں نے ابن عباس سے کہا : مجھے مہدی کے بارے میں کچھ بتایئے انہوں نے فرمایا: امید ہے کہ عنقریب خدا ہمارے خاندان میں ایک جوان کو مبعوث کرے گا جو فتنوں کو دفن کرے گا _ (۱)

ابن عباس کہا کرتے تھے: مہدی قریش اور فاطمہ (ع) کی نسل سے ہوگا _(۲)

عمار یاسر کہتے ہیں : جب نفس زکیہ شہید ہوجائیں گے اس وقت آسمان سے ایک منادی مذاکرے گا کہ تمہارا قائد فلان شخص ہے _ اس کے بعد مہدی ظاہر ہوں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے پر کریں گے _(۳)

ابن عباس نے مہدی کا نام لیا تو ایک شخص نے کہا: کیا معاویہ بن ابی سفیان مہدی نہیں ہے ؟ عبد اللہ نے کہا : نہیں : بلکہ مہدی وہ ہے جس کی عیسی بن مریم اقتدا کریں گے_(۴)

عمربن قیس کہتے ہیں :میں نے مجاہد سے عرض کی : کیا آپ مہدی کے بارے میں کچھ جانتے ہیں ؟ کیونکہ میں شیعوں کی بات نہیں مانتا ، انہوں نے کہا : رسول (ص) کے ایک صحابی نے مجھے خبر دی ہے کہ مہدی نفس زکیہ کی شہادت کے بعد ظاہر ہوں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں گے _(۵)

____________________

۱_ الملاحم و الفتن مولفہ ابن طاؤس ص ۱۶۹_

۲_ الملاحم و الفتن مولفہ ابن طاؤس ص۱۵۵_

۳_ الملاحم و الفتن مولفہ ابن طاؤس ص۴۴_

۴_ الملاحم و الفتن مولفہ ابن طاؤس ص۱۵۹_

۵_الملاحم و الفتن مولفہ ابن طاؤس ص۱۷۱_

۴۱

نفیل کی بیٹی عمیرہ کہتی ہے : میں نے حسین بن علی (ع) کی دختر کو کہتے ہوئے سنا ہے : تم جس چیز کے انتظارمیں ہو وہ واقع نہ ہوگی مگر اس وقت کہ جب تمہارے درمیان اختلاف پیدا ہوجائے گا اورتم آپس میں ایک دوسرے پرلعنت کروگے _ (۱)

قتادہ کہتے ہیں : میں نے مسیب کے بیٹے سے پوچھا: کیا وجود مہدی برحق ہے ؟ انہوں نے کہا: یقینا مہدی فاطمہ (ع) کی نسل سے ہوں گے _(۲)

طاؤس کہتے ہیں : خدا مجھے زندہ رکھے تا کہ مہدی (ع) کو دیکھ لوں _(۳)

زہری کہتے ہیں : مہدی فاطمہ (ع) کی اولاد سے ہوں گے _(۴)

ابوالفرج لکھتے ہیں : ولید بن محمد نے نقل کیا ہے کہ میں زہری کے ساتھ تھا کہ ایک شور مچاتو انہوں نے مجھ سے کہا: ذرادیکھو کیا قصہ ہے ؟ میں نے تحقیق کے بعد بتایا: زید بن علی قتل کردیئےئے ہیں اور ان کا سرلایا گیا ہے _ زہری نے افسوس کے ساتھ کہا : اس خاندان کے افراد اتنی عجلت کیوں کررہے ہیں؟ عجلت کی وجہ سے ان کے بہت سے افراد ہلاک ہوجاتے ہیں _ میں نے پوچھا کیا انھیں حکومت نصیب ہوگی ؟ انہوں نے کہا ہاں ، کیونکہ علی بن الحسین (ع) نے اپنے پدربزرگوار سے اور انہوں نے حضرت زہرا سے میرے لئے روایت کی ہے کہ رسول (ص) نے فاطمہ سے فرمایا: مہدی موعو د

____________________

۱_ الملاحم و الفتن ص ۱۷۱_

۲_ مقاتل الطالبین مولفہ ابوالفرج طبع نجف ص ۱۶۰_

۳_ الملاحم والفتن ص ۱۷۰_

۴_ الملاحم و الفتن ص ۵۴_

۴۲

تمہاری اولاد سے ہوگا _ (۱)

ابوالفرج نے مسلم بن قتیبہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: ایک روز میں منصور کے پاس گیا _ اس نے مجھ سے کہا: محمد بن عبداللہ نے خروج کیا ہے اور خو د کو مہدی سمجھتا ہے ، قسم خدا کی وہ مہدی نہیں ہے لیکن میں تمہیں ایک بات بتادوں جو کہ ابھی تک کسی کو نہیں بتائی ہے اور نہ آئندہ بتاؤں گا اور وہ یہ کہ میرا بیٹا بھی روایتوں میں ذکر ہونے والا مہدی نہیں ہے ، لیکن فال کے طور پر میں نے اس کا نام مہدی رکھدیا ہے _(۲)

ابن سیرین کہتے ہیں : مہدی موعود اسی امت سے ہوگا جو کہ عیسی بن مریم کی امامت کرے گا _(۳)

عبداللہ ابن حارث کہتے ہیں : مہدی چالیس سال کی عمر میں قیام کریں گے وہ بنی اسرائیل کی شبیہ ہوں گے _(۴)

ارطاة کہتے ہیں : مہدی بیس سال کی عمر میں قیام کریں گے _(۵)

کعب کہتے ہیں : مہدی کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ مخفی امور کی طرف انکی ہدایت ہوتی ہے _(۶)

____________________

۱_ مقاتیل ص ۹۷_

۲_ مقاتل الطالبین ص ۱۶۷_

۳_ مقاتل الطالبین ص ۱۳۵_

۴_ کتاب الحاوی للفتاوی جلد ۲ ص ۱۴۷_

۵_ کتاب الحاوی للفتاوی جلد ۲ ص ۱۴۸_

۶_ کتاب الحاوی للفتاوی جلد ۲ ص ۱۵۰_

۴۳

عبداللہ بن شریک کہتے ہیں : رسول (ص) خدا کا علم مہدی کے پاس ہے _ (۱)

طاؤس کہتے ہیں کہ مہدی کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے کارندوں کی سخت نگرانی کریں گے اور مال کی بخشش میں سخی ہوں گے اور درماندہ لوگوں پر مہربان ہوں گے _(۲)

زہری کہتے ہیں : '' مہدی اولاد فاطمہ سے ہوگا''(۳)

حکم بن عینیہ کہتے ہیں : میں نے محمد بن علی سے عرض کی : میں نے سنا ہے کہ آپ اہل بیت میں سے ایک شخص خروج کرے گا اور عدل و انصاف قائم کریگا کیا یہ بات صحیح ہے ؟ اگر ایسا ہے تو ہم بھی ان کے انتظار میں زندگی گزاریں _(۴)

سلمہ بن زفر کہتے ہیں کہ ایک روز حذیفہ سے کہا گیا _ مہدی نے ظہور کیا ہے _ حذیفہ نے کہا : اگر مہدی تمہارے زمانہ میں ، جو کہ رسول (ص) کے عہد سے قریب ہے ، قیام کرتے ہیں تو واقعا یہ تمہاری خوش قسمتی ہے ، لیکن ایسا نہیں ہے _ مہدی اس وقت ظہور کریں گے جب لوگ فتنہ وفساد سے تنگ آجائیں گے اور ان کی نگاہوں میں گم شدہ مہدی سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہ ہوگی _(۵)

جریر نے عبدالعزیز کے پاس ایک شعر پڑھا کہ جس کا مفہوم یہ ہے کہ تمہارا وجود

____________________

۱_ کتاب الحاوی للفتاوی ج ۲ ص ۱۵۰_

۲_ کتاب الحاوی للفتاوی ج ۲ ص۱۵۰_

۳_کتاب الحاوی للفتاوی ج ۲ ص۱۵۵_

۴_کتاب الحاوی للفتاوی ج ۲ ص۱۵۹_

۵_کتاب الحاوی للفتاوی ج ۲ ص۱۵۹_

۴۴

بابرکت ہے اور تمہاری سیرت و رفتار مہدی کی سیرت و رفتار جیسی ہے _ تم خواہشات نفس کی مخالفت کرتے ہو اور راتوں کو تلاوت قرآن میں گزارتے ہو _ (۱)

ام کلثوم بنت وہب کہتی ہیں : روایات میں وارد ہوا ہے کہ دنیا پر ایک شخص کی حکومت ہوگی جس کا نام وہی ہوگا جو رسول کا ہے _(۲)

محمد جعفر کہتے ہیں : میں نے اپنی مشکلیں مالک بن انس کے سامنے بیان کیں تو انہوں نے کہا: صبر کرو یہاں تک کہ آیتو نرید ان نمنّ علی الذین استضعفوا فی الارض و نجعلهم الائمة و نجعلهم الوارثین کی تاویل آشکار ہوجائے(۲) _

فضیل بن زبیر کہتے ہیں : میں نے زید بن علی سے سنا کہ انہوں نے فرمایا: لوگ جس شخص کے انتظار میں ہیں وہ اولاد حسین (ع) سے ہوگا _(۴)

محمد بن عبدالرّحمن بن ابی لیلی کہتے ہیں : خدا کی قسم مہدی اولاد حسین ہی سے ہوگا _(۵)

لوگ مہدی (عج) کے منتظر تھے

وجود مہدی کا عقیدہ لوگوں میں اتناراسخ ہوگیا تھا کہ وہ صدر اسلام ہی سے

____________________

۱_ کتاب الامامة و السیاسة تالیف ابن قطیبہ ط سوم ج ۲ ص ۱۱۷_

۲_ مقاتل الطالبین طبع دوم ص ۱۶۲_

۳_ مقاتل الطالبین طبع دوم ص ۳۵۹_

۴_ غیبت شیخ طبع دوم ص ۱۱۵_

۵_ غیبت شیخ طبع دوم ص ۱۱۵_

۴۵

ان کے انتظار میں تھے اور دن گنا کرتے تھے_ اور حق کی کامیابی وحکومت کو یقینی سمجھتے تھے یہ انتظار ہرج و مرج اور وحشت ناک حوادث و بحرانوں میں اور زیادہ شدید ہوجاتا تھا اور ہر لمحہ انتظار کے مصداق کی تلاش میں رہتے تھے اور کبھی غلطی سے بعض افراد کو مہدی سمجھ بیٹھے تھے :

محمد بن حنفیہ

مثلاً محمد بن حنفیہ بھی رسول (ص) کے ہم نام و ہم کنیت تھے اس لئے مسلمانوں کے ایک گروہ نے انھیں مہدی سمجھ لیا تھا _

طبری لکھتے ہیں کہ جس وقت مختار نے خروج اور قاتلان حسین (ع) سے انتقام لینے کا قصد کیا تو اس وقت انہوں نے محمد حنفیہ کو مہدی اور خود کو ان کے وزیر کے عنوان سے پہچنوایا اور اس سلسلے میں لوگوں کے سامنے کچھ خط بھی پیش کئے _(۱)

محمد بن سعد نے ابوحمزہ سے روایت کی ہے کہ لوگ محمد بن حنفیہ کو '' السلام علیک یا مہدی '' کہکر سلام کرتے تھے _ چنانچہ وہ خود بھی کہتے تھے'' ہاں میں ہی مہدی ہوں میں فلاح و بہبود کی طرف تمہاری راہنمائی کرتاہوں _ میرا وہی نام ہے جو رسول کا تھا اور میری کنیت بھی آنحضرت (ص) ہی کی کنیت ہے _ لہذا تم مجھے سلام علیک یا محمد یا سلام علیک یا اباالقاسم کہکر سلام کیاکرو ''_(۲)

____________________

۱_ تاریخ طبری ج ۴ ص ۴۴۹_ و ص ۴۹۴، تاریخ کامل طبع اول ج ۳ ص ۳۳۹ و ص ۳۵۸_

۲_ طبقات الکبیر طبع لندن ج ۵ ص ۶۶_

۴۶

اس اور ایسی ہی دوسری مثالوں سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ رسول خدا کے نام اور کنیت کا جمع ہونا مہدی موعود کی خصوصیات و علامتوں میں سے ہے _ اسی لئے محمد بن حنفیہ نے اپنی کنیت اور نام کی طرف اشارہ کیا ہے _ لیکن تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد بن حنفیہ نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میں مہدی ہوں _ بلکہ دوسرے لوگ انھیں مہدی کے عنوان سے پیش کرتے تھے چنانچہ وہ کبھی اس سلسلے میں خاموش اختیار کرتے تھے اور کبھی تائید کرتے تھے _ شاید ان کی خاموشی کی وجہ یہ ہو کہ اس طرح وہ قاتلان امام حسین (ع) سے انتقام اور حکومت کو اس کے اہل تک پہنچانا چاہتے تھے_

محمد بن سعد کہتے ہیں : محمد بن حنفیہ لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ ، حکومت اہل حق کی ہے جب خدا چاہے گا تشکیل پائے گی _ جو شخص اس حکومت کو دیکھے گا ، اسے عظیم کامیابی نصیب ہوگی اور جو اس سے قبل ہی مرجائے گا اسے خدا کی بے شمار نعمتیں میسر ہوں گی _(۱)

چنانچہ محمد بن حنفیہ نے اپنے اس خطبہ میںفرمایا جو کے اپنے سات ہزار اصحاب کے درمیان دیا تھا _ اس کام میں تم نے عجلت سے کام لیا ہے _ خدا کی قسم تمہارے اصلاب میں ایسے اشخاص موجود ہیں جو کہ آل محمد کی مدد کیلئے جنگ کریں گے _ آل محمد کی حکومت کسی پر مخفی نہیں ہے لیکن اس کے قائم ہونے میں تاخیر ہوگی _ قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد کی جان ہے ، حکومت نبوت کے گھر میں لوٹ آئے گی _(۱)

محمد بن عبداللہ بن حسن

مسلمانوں کا ایک گروہ محمد بن عبداللہ بن حسن کو مہدی سمجھتا تھا _ ابوالفرج لکھتے

____________________

۱_ طبقات الکبری ج ۷ ص ۷۱_

۲_ طبقات الکبری ج ۷ ص ۸۰_

۴۷

ہیں کہ حمید بن سعید نے روایت کی ہے کہ محمد بن عبداللہ کی ولادت پر آل محمد نے بہت خوشیاں منائیں اور کہا مہدی کا نام محمد ہے _ وہ محمد کو مہدی موعود سمجتھے تھے _ اس لئے ان کا بہت احترام کرتے تھے اور مجلسوں کا موضوع قراردیتے تھے ، شیعہ ایک دوسرے کو بشارت دیتے تھے _ (۱)

ابوالفرج لکھتے ہیں : جب محمد بن عبداللہ پیدا ہوئے تو ان کے خاندان والو ں نے ان کا نام مہدی رکھا اور انھیں روایات کا مہدی موعود تصور کرنے لگے _ لیکن ابوطالب کی اولاد کے علما انھیں نفس زکیہ کہتے تھے کہ جس کا احجار زیب میں شہید ہونا مقدر تھا _(۲)

ابوالفرج ہی لکھتے ہیں کہ :ابوجعفر منصور کا غلام کہتا ہے کہ منصور نے کہا : تم محمد بن عبداللہ کی تقریر میں شرکت کرو دیکھو کیا کہتے ہیں _ میں نے حکم کے مطابق ان کی تقریر میں شرکت کی وہ فرما رہے تھے : تمہیں یہ تو یقین ہے کہ میں مہدی ہوں اور حقیقت بھی یہی ہے '' _ غلام کہتا ہے کہ میں لوٹ آیا اور ان کی بات منصور سے نقل کی _ منصور نے کہا : محمد جھوٹ کہتے ہیں بلکہ مہدی موعود میرا بیٹا ہے _(۳)

سلمہ بن اسلم نے محمدبن عبداللہ کی شان میں کچھ اشعار کہے کہ جن کا ترجمہ یہ ہے :

جو کچھ احادیث میں وارد ہوا ہے وہ اس وقت ظاہر ہوگا جب محمد بن عبداللہ ظاہر ہوں گے اور زمام حکومت سنبھالیں گے _ محمد کو خدا نے ایسی انگوٹھی

____________________

۱_ مقاتل الطالبین ص ۱۶۵_

۲_ مقاتل الطالبین ص ۱۶۲_

۳_ مقاتل الطالبین ص ۱۶۲_

۴۸

عطا کی ہے جو کسی دوسرے کو نہیں دی اور اس میں ہدایت و نیکیوں کی علامتیں ہیں _

ہمیں امید ہے کہ محمد ہی وہ امام ہیں کہ جن کے ذریعہ قرآن زندہ ہوگا اور ان کے توسط سے اسلام کو فروغ ملیگا ، اصلاح ہوگی اور یتیم ، عیال دار اور ضرورت مند لوگ خوشحال زندگی گزاریں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں گے جب کہ وہ ضلالت و گمراہی سے بھرچکی ہوگی اور اسی وقت ہمارا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا _(۱)

احادیث مہدی اور فقہائے مدینہ

ابوالفرج لکھتے ہیں : محمد بن عبداللہ نے خروج کیا تو مدینہ کے مشہور فقیہ و عالم محمد بن عجلان نے بھی ان کے ساتھ خروج کیا _ جب محمد بن عبداللہ قتل ہوگئے تو حاکم مدینہ نے محمد بن عجلان کو بلایا اور کہا: تم نے اس جھوٹے انسان کے ساتھ کیوں خروج کیا تھا؟ اس کے بعد ان کے ہاتھ قلم کرنے کا حکم دیا تو مدینہ کے علماء اور سر آوردہ افراد نے کہا : اے امیر

____________________

۱_ ان الذی یروی الرواة لبین اذا ماابن عبدالله فیهم تجردا

له خاتم لم یعطه الله غیره

وفیه علامات من البر و الهدی

انا لنزجوان یکون محمد

اماماً به یحیی الکتاب المنزل

به یصلح الاسلام بعد فساده

و یحیی یتیم باس و معمول

و یملا و عدلا ارضنا بعد ملئها

ضلالا و یأتینا الذی کنت آمل

(مقاتل الطالبین ص ۱۶۴)

۴۹

محمد بن عجلان مدینہ کے فقیہ و عابدہیں انھیں معاف کیا جائے کیونکہ وہ محمد بن عبداللہ کو روایات ہی کا مہدی موعود سمجھتے تھے _(۱)

دوسری جگہ لکھتے ہیں : محمد بن عبداللہ نے خروج کیا تو ان کے ساتھ مدینہ کے دوسرے نمایاں فقیہ و عالم عبداللہ بن جعفر بھی خروج کیا اور محمد بن عبداللہ کے قتل کے بعد فرار کرگئے اور امان ملنے تک مخفی رہے _ ایک روز حاکم مدینہ جعفر بن سلیمان کے پاس گئے تو اس نے کہا : اس علم و فقاہت کے باوجود آپ نے ان کے ساتھ کیوں خروج کیا تھا؟ جواب میں کہا: میں نے اس لئے محمد بن عبداللہ کا تعاون کیا تھا کہ میں یقین کے ساتھ انہیں مہدی موعود سمجھتا تھا کہ جن کا روایات میں تذکرہ ہے _ ان کے مہدی ہونے میں کوئی شک نہیں تھا _ قتل کے بعد معلوم ہوا کہ وہ مہدی نہیں ہیں _ اس کے بعد میں کسی کے فریب میں نہیں آوں گا _(۲)

ان واقعات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مہدی کا عقیدہ و موضوع صدر اسلام اور پیغمبر (ص) کے عہد سے نزدیک والے زمانہ میں اتنا ہی مسلم تھا کہ لوگ آپ (ع) کے منتظر رہتے تھے اور صاحبان علم و ستم رسیدہ افراد کہ جو مہدی کی علامتوں کو بخوبی نہیں جانتے تھے وہ محمد بن حنفیہ کو اور کبھی محمد بن عبداللہ اور دوسرے اشخاص کو مہدی موعود سمجھ لیتے تھے لیکن علمائے اہل بیت اور صاحبان علم یہاں تک کہ محمد کے والد عبداللہ بھی جانتے تھے کہ وہ مہدی نہیں ہے _

ابوالفرج لکھتے ہیں: ایک شخص نے عبداللہ بن حسن سے عرض کی : محمد کب خروج

____________________

۱_ مقاتل الطالبین ص ۱۹۳_

۲_ مقاتل الطالبین ص ۱۹۵_

۵۰

کریں گے ؟ انہوں نے جواب دیا : جب تک میں قتل نہیں کیا جاؤنگا اس وقت تک وہ خروج نہیں کریں گے _ لیکن خروج کے بعد قتل کردیئےائیں گے _ اس شخص نے کہا : انّا للہ و انّا الیہ راجعون'' اگر وہ قتل کردیئےائیں گے تو امت ہلاک ہوجائے گی ، عبداللہ نے کہا: ایسا نہیں ہے _ اس شخص نے دوبارہ عرض کی ، ابراہیم کب خروج کریں کے ؟ کہا جب تک میں زندہ ہوں اس وقت تک خروج نہیں کریں گے _ لیکن وہ بھی قتل کردیئےائیں گے اس شخص نے کہا ، انا للہ و انا الیہ راجعوں، امت ہلاک ہوا چاہتی ہے _ عبداللہ نے جواب دیا : ایسا نہیں ہے بلکہ ان کام امام مہدی موعود ایک پچیس سال کی عمر کا جوان ہے جو دشمنوں کو تہہ تیغ کرے گا _ (۱)

ابوالفرج ہی تحریر فرماتے ہیں : ابوالعباس نے نقل کیا ہے کہ میں نے مروان سے کہا: محمد خود کو مہدی کہتے ہیں _ اس نے کہا :نہ وہ مہدی موعود ہیں نہ ان کے باپ کی نسل سے ہوگا بلکہ وہ ایک کنیز کا بیٹا ہے _(۲)

پھر لکھتے ہیں : جعفر بن محمد جب بھی محمد بن عبداللہ کو دیکھتے گریہ کرتے اور فرماتے تھے: ان (مہدی) پر میری جان فدا ہو لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ شخص مہدی موعود ہے جبکہ یہ قتل کردیا جائے گا اور کتاب علی میں اس امت کے خلفاء کی فہرست میں اس کا نام نہیں ہے _(۳)

____________________

۱_ مقاتل الطالبین ص ۱۶۷_

۲_ مقاتل الطالبین ص ۱۶۶_

۳_ مقاتل الطالبین ص ۱۴۲_

۵۱

محمد بن عبداللہ بن حسن کے پاس ایک جماعت بیٹھی تھی کہ جعفر بن محمد تشریف لائے سب نے ان کا احترام کیا _ آپ نے دریافت کیا ، کیا بات ہے ؟ حاضرین نے جواب دیا ہم محمد بن عبداللہ جو کہ مہدی موعودہیں کی بیعت کرنا چاہتے ہیں _ آپ نے فرمایا : اس ارادہ سے دست کش ہوجاؤ کیونکہ ابھی ظہور کا وقت نہیں آیا ہے اور محمد بن عبداللہ بھی مہدی نہیں ہے _ (۱)

مہدی اور دعبل کے اشعار

دعبل نے جب امام رضا (ع) کو اپنا مشہور قصیدہ سنا یا تو اس کے خاتمہ پر درج ذیل شعر پڑھا:

خروج امام لامحالة واقع

یقوم علی اسم الله والبرکات

یعنی ایک امام کا انقلاب لانا ضروری ہے وہ خدا کے نام اور برکت سے انقلاب لائے گا _

امام رضا(ع) نے یہ شعر سن کر بہت گریہ کیا اور فرمایا: روح القدس نے تمہاری زبان سے یہ بات کہلوائی ہے _ کیا تم اس امام کو پہچانتے ہو ؟ عرض کی نہیں : لیکن سنا ہے ، آپ (ع) میں سے ایک اما م قیا م کرے گا اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کریگا امام (ع) نے فرمایا : میرے بعد میرا بیٹا محمد (ع) امام ہے اور ان کے بعد ان کے فرزند علی (ع) امام ہوں گے اور ان کے بعد ان کے بیٹے حسن (ع) امام ہوں گے اور ان کے بعد ان کہ لخت جگر حجت قائم امام ہوں گے _ ان کی غیبت کے زمانہ میں انتظار کرنا اور ظہور کے بعد ان کی اطاعت

____________________

۱_ مقاتل الطالبین ص ۱۴۱_

۵۲

کرنی چاہئے وہی زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں گے _ لیکن ان کے ظہور کا وقت معین نہیں ہوا ہے بلکہ وہ اچانک و ناگہان ظہور کریں گے _ (۱)

ان اور ایسے ہی دیگر واقعات سے تاریخ بھر پڑی ہے اگر اشتیاق ہے تو تاریخ کا مطالعہ فرمائیں _

چونکہ کافی وقت گزر چکا تھا لہذا یہیں پر جلسہ کو ختم کردیا گیا اور آنے والے ہفتہ کی شب پر موقوف کردیا گیا _

____________________

۱_ ینابیع المودة جلد ۲ ص ۱۹۷_

۵۳

جعلی مہدی

مقررہ شب میں جناب ڈاکٹر صاحب کے گھر میں احباب جمع ہوئے اور رسمی مدارات کے بعد ہوشیار صاحب نے اپنی گفتگو سے جلسہ کا آغاز کیا _ :

صدر اسلام میں مہدویت کے مسلّم اور رائج العقیدہ ہونے پر جھوٹے و جعلی مہدی افراد کی داستان بھی شاہد ہے جو کہ ماضی میں پیدا ہوئی ہیں اور تاریخ میں ان کی داستان ثبت ہے _ برادران کی آگہی کے لئے میں ان کے ناموں کی فہرست بیان کرتا ہوں _

مسلمانوں کی ایک جماعت محمد بن حنفیہ کو امام مہدی تصور کرتی تھی اور کہتی تھی وہ مرے نہیں ہیں بلکہ رضوی نامی پہاڑ میں چلے گئے ہیں بعد میں ظاہر ہوں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھریں گے _(۱)

فرقہ جارودیہ کے بعض افراد عبداللہ بن حسن کو مہدی غائب خیال کرتے تھے اور ان کے ظہور کے انتظار میں زندگی بسر کرتے تھے _(۲)

____________________

۱_ ملل و نحل مولفہ شہرستانی طبع اول ج ۱ ص۲۴۲ ، فرق الشیعہ مولفہ نور بخشی طبع نجف سال ۱۳۵۵ ھ ص ۲۷_

۲_ ملل و نحل ج۱ ص ۲۵۶ فرق الشیعہ ص ۶۲

۵۴

فرقہ ناؤسیہ امام صادق (ع) کو مہدی اور زندہ غائب سمجھتا تھا _(۱)

واقفی لوگ حضرت موسی کاظم کو زندہ و غائب اما م خیال کرتے تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ امام بعد میں ظہور کریں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھریں گے _(۲)

فرقہ اسماعیلیہ کا عقیدہ ہے کہ اسماعیل نہیں مرے ہیں بلکہ تقیہ کے طور پر کہا جاتا ہے کہ مرگئے ہیں _(۳)

فرقہ باقریہ امام باقر (ع) کو زندہ اور مہدی موعود سمجھتا ہے _

فرقہ محمدیہ کا عقیدہ ہے کہ امام علی نقی (ع) کے بعد ان کے بیٹے محمد بن علی امام ہیں اور ان ہی کو زندہ اور مہدی موعود تصور کرتے ہیں جبکہ وہ اپنے والد کی حین حیات ہی انتقال کرگئے تھے_

جوازیہ کہتے ہیں : حجت بن الحسن (ع) کے ایک فرزند تھے اور وہی مہدی موعود ہیں _(۴)

فرقہ ہاشمیہ میں سے بعض افراد عبداللہ بن حرب کندی کو زندہ و غائب امام تصور کرتے تھے اور ان کے انتظار میں زندگی بسر کرتے تھے _(۵)

مبارکیہ کی ایک جماعت کا خیال تھا کہ محمد بن اسماعیل زندہ و غائب امام ہیں(۶)

____________________

۱_ ملل و نحل ج ۱ ص ۲۷۳ فرق الشیعہ ص ۶۷_

۲_ ملل و نحل ج ۱ ص ۲۷۸ فرق الشیعہ ص ۸۰ و ص ۸۳_

۳_ ملل و نحل ج ۱ ص ۲۷۹ فرق الشیعہ ص ۶۷_

۴_ تنبیہات الجلیہ فی کشف الاسرار الباطنیہ ص ۴۰ و ص ۴۲_

۵_ ملل و نحل ج ۱ ص ۲۴۵

۶_ ملل و نحل ج ۱ ص ۲۷۹_

۵۵

یزیدیوں کا عقیدہ تھا کہ یزید آسمان پر چلاگیا ہے _ دوبارہ زمین پر لوٹے گا اور زمین کو عدل و انصاف سے بھرے گا _ (۱)

اسماعیلیہ کہتے تھے روایات میں جس مہدی کا ذکر ہے وہ محمد بن عبداللہ الملقب بہ مہدی ہیں کہ جن کی مصر و مغرب پر حکومت ہوگی ، روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا: ۳۰۰ ھ میں سورج مغرب سے طلوع کرے گا _(۲)

امامیہ کی ایک جماعت کا خیال تھا کہ امام حسن عسکری زندہ ہیں وہی قائم ہیں اور غیبت کی زندگی گزاررہے ہیں ، بعد میں وہی ظاہر ہوں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے بھریں گے_ ایک دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ امام حسن عسکری کا انتقال ہوگیا ہے لیکن وہ دوبارہ زندہ ہوں گے اور قیام کریں گے کیونکہ قائم کے معنی مرنے کے بعد زندہ ہونے کے ہیں _(۲)

قرامطہ محمد بن اسمعیل کو مہدی موعود جانتے تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ وہ زندہ ہیں اور روم کے کسی شہر میں رہتے ہیں _(۲)

فرقہ ابی مسلمیہ ابومسلم خراسانی کو زندہ و غائب امام سمجھتا ہے _(۵)

ایک گروہ امام حسن عسکری (ع) کو مہدی خیال کرتا اور کہتا تھا: وہ مرنے کے بعد

____________________

۱_ کتاب الیزیدیہ مولفہ صدوق الدملوجی موصل ص ۱۶۴_

۲_ روضة الصّفا ج ۴ ص ۱۸۱_

۳_ ملل و نحل ج ۱ ص ۲۸۴_ فرق الشیعہ ص ۹۶و ص ۹۷_

۴_ الہدیہ فی الاسلام ص ۱۷۰ فرق الشیعہ ص ۷۲_

۵_ فرق الشیعہ ص ۴۷_

۵۶

زندہ ہوگئے ہیں اور اب غیبت کی زندگی بسرکررہے ہیں (۱) بعد میں ظاہر ہوں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھریں گے _ (۲)

غلط فائدہ

یہ تھے ان افراد کے نام جنھیں جاہل لوگ صدر اسلام اور عہد پیغمبر (ص) سے نزدیک زمانہ میں مہدی سمجھتے تھے مگر ان میں سے اکثر جماعتیں مٹ گئی ہیں اور اب تاریخ کے صفحات کے علاوہ کہیں ان کا نام و نشان نہیں ملتا ہے _ اس وقت سے آج تک مختلف ملکوں میں بنی ہاشم او رغیر بنی ہاشم میں ایسے افراد پیدا ہوتے رہے ہیں جنہوں نے اپنے مہدی ہونے کا دعوی کیا ہے _ تاریخ میں اس عنوان سے کتنی ہی جنگیں اور خونریزیاں ہوئی ہیں اور کتنے ہی انقلاب آئے اور ناخوشگوار حوادث رونما ہوئے ہیں _(۳)

ان واقعات و حوادث سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ داستان مہدویت اور مصلح غیبی کا ظہور مسلمانوں کے در میان ایک مسلّم عقیدہ تھا اور مسلمان ان کے انتظار میں دن گناکرتے تھے اور ان کی نصرت و غلبہ کو ضروری سمجھتے تھے چنانچہ یہ چیز اس بات کا سبب بنی کہ بعض ذہین اور موقع کے متلاشی افراد لوگوں کے اس پاک و صاف عقیدہ سے کہ جس کا سرچشمہ مصدر وحی تھا ، غلط فائدہ اٹھانے کے لئے تیار ہوگئے اور خود کو مہدی

____________________

۱_ فرق الشیعہ ص ۹۷_

۲_ تفصیل کیلئے مہدی از صدر اسلام تا قرن سیزدہم ، مولف خاور شناسی ملاحظہ فرمائیں نیز المہدیة فی الاسلام کا مطالعہ فرمائیں _

۳_ فصول المہمہ ص ۲۷۴ مقاتل الطالبین ص ۱۶۴ ، ذخائر العقبی ص ۲۰۶، صواعق المحرقہ ص ۲۳۵_

۵۷

موعود کے عنوان سے پیش کریں _ ممکن ہے ان میں سے بعض اس سے غلط فائدہ نہ اٹھانا چاہتے ہو بلکہ ظالم و ستمگاروں سے انتقام لینا اور قوم و ملّت کی اصلاح کرنا چاہتے تھے_ اگر چہ ان میں سے بعض نے اپنے مہدی ہونے کادعوی نہیں کیا تھا لیکن نادانی ، مصائب کی شدتوں اور عجلت پسند گروہ انھیں اسلام کا مہدی موعود سمجھتا تھا _

جعلی حدیثیں

افسوس کہ ان حوادث کی وجہ سے لوگوں میں حضرت مہدی کی تعریف و توصیف اور ظہو رکی علامتوں کے سلسلے میں جعلی حدیثوں کو شہرت دی گئی اور وہ بغیر تحقیق کے کتب احادیث میں درج کی گئیں _

۵۸

اہل بیت رسول (ص) اور گیارہ ائمہ (ع) نہ مہدی (عج) کی خبر دی ہے

ڈاکٹر : مہدی کے بارے میں اہل بیت رسول (ص) اور ائمہ اطہار کا کیا عقیدہ تھا؟

ہوشیار: رسول(ص) اکرم کی وفات کے بعد بھی مہدویت کا عقیدہ اصحاب اور ائمہ اطہار (ع) کے درمیان مشہور اور موضوع بحث تھا _ پیغمبر کی احادیث و اخبار کو سب سے بہتر سمجھنے والے اہل بیت (ع) رسول اور علوم و اسرار نبوت کے حامل مہدی کے بارے میں گفتگو کرتے تھے اور لوگوں کے سوالات کے جوابات دیتے تھے از باب مثال :

حضرت علی (ع) نے مہدی (ع) کی خبر دی

حضرت علی بن ابیطالب (ع) نے فرمایا : مہدی موعود ہم میں سے ہوگا اور آخری زمانہ میں ظہور کرے گا اس کے علاوہ کسی قوم میں مہدی منتظر نہیں ہے _(۱) اس سلسلے میں حضرت علی (ع) سے اور پچاس حدیثیں ہیں _(۲)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۱۴۸_

۲_ یہ تعداد منتخب الاثر میں تحقیق کے بعد درج ہوئی ہے ، ظاہر ہے اگراس سے زیادہ کوئی تفصیل کتاب لکھی جاتی اور تحقیق کو مزید وسعت دی جاتی تو اس سے کہیں زیادہ حدیثیں فراہم ہوجاتیں _

۵۹

حضرت فاطمہ زہرا (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

حضرت فاطمہ زہرا (ع) نے امام حسین (ع) سے فرمایا: تمہاری ولادت کے بعد رسول (ص) خدا میرے پاس تشریف لائے _ تمہیں گودمیں لیا _ اور فرمایا : اپنے حسین کولے لو اور جان لو کہ یہ نو ائمہ کے باپ ہیں اور ان کی نسل سے صالح امام پیدا ہوں گے اور ان میں کانواں مہدی ہے تین حدیثیں او رہیں _(۱)

حضرت حسن (ع) بن علی (ع) نے مہدی(عج) کی خبر دی

حضرت امام حسن بن علی نے فرمایا: رسول کے بعد امام بارہ ہیں _ ان میں سے نو(۹) میرے بھائی حسین کی نسل سے ہوں گے اور اس امت کا مہدی ان ہی کی نسل سے ہے چار حدیثیں اور ہیں _(۲)

امام حسین (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

حضرت امام حسین (ع) نے فرمایا: بارہ اما م ہم میں سے ہیں _ ان میں سے پہلے علی بن ابی طالب ہیں اور نویں میرے بیٹے قائم برحق ہیں _ خداان کے وجود کی برکت سے مردہ زمین کو زندہ اور غیرآباد کو آباد کرے گا اور دین حق کوتمام ادیان پر کامیابی عطا کرے گا خواہ مشرکین کو یہ

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۲ ص ۵۵۲_

۲_ اثبات الہداة ج ۲ ص ۵۵۵_

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

ہوشیار: سفیانی کی احادیث کو عامہ و خاصہ دونوں نے نقل کیا ہے بعید نہیں ہے کہ متواتر ہوں _ صرف احتمال اور ایک مدعی کے وجود سے باطل نہیں قرار دیا جا سکتا ہے اور جعلی نہیں کہا جا سکتا ہے _ بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ لوگوں کے درمیان حدیث سفیانی شہرت یافتہ تھی اور لوگ اس کے منتظر تھے بعض لوگوں نے اس سے غلط فائدہ اٹھایا اور خروج کرکے کہنے لگے : ہم ہی سفیانی منتظر ہیں اور اس طرح ایک گروہ کو فریفتہ کرلیا _

۲۸۱

دجال کا واقعہ

جلالی: دجال کے خروج کو بھی ظہور کی علامتوں میں شمار کیا جاتا تھا اور اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کافر ہے ، ایک چشم ہے ، وہ بھی پیشانی کے بیچ میں سے ، ستارہ کی مانند چمکتی ہے _ اس کی پیشانی پر لکھا ہے ''یہ کافر ہے '' اس طرح کہ پڑھا لکھا اور ان پڑھ سب اسے پڑھ سکیں گے _ کھانے کے ( پہاڑ) ہوٹل اور پانی کی نہر ہمیشہ اس کے ساتھ ہوگی ، سفید خچر پر سوار ہوگا _ ہر ایک قدم میں ایک میل کا راستہ طے کرے گا _ اس کے حکم سے آسمان بارش برسائے گا ، زمین گلہ اگائے گی _ زمین کے خزانے اس کے اختیار میں ہوں گے _ مردوں کو زندہ کرے گا _'' میں تمہارا بڑا خدا ہوں ، میں ہی نے تمہیں پیدا کیا ہے اور میں ہی روزی دیتا ہوں ، میری طرف دوڑو '' یہ جملہ اتنی بلند آوازمیں کہے گا کہ سارا جہان سنے گا _

کہتے ہیں رسول کے زمانہ میں بھی تھا ، اس کا نام عبداللہ یا صائدبن صید ہے ، رسول اکرم (ص) اور آپ(ص) کے اصحاب اسے دیکھنے اس کے گھر گئے تھے _ وہ اپنی خدائی کا دعوی کرتا تھا _ عمر اسے قتل کرنا چاہتے تھے لیکن پیغمبر (ص) نے منع کردیا تھا _ ابھی تک زندہ ہے _ اور آخری زمانہ میں اصفہان کے مضافات میں سے یہودیوں کے گاؤں سے خروج کریگا _(۱)

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۹۳ ، صحیح مسلم ج ۸ ، ص ۴۶ تا ص ۸۷ ، سنن ابی داؤد ج ۲ ص ۲۱۲_

۲۸۲

علما نے تمیم الدا می سے ، جو کہ پہلے نصرانی تھا اورسنہ ۹ ھ میں مسلمان ہوا تھا ، سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا : میں نے مغرب کے ایک جز یرہ میں دجال کو دیکھا ہے کہ زنجیر و در غل میں تھا(۱)

ھوشیار : انگریزی میں دجال کو انٹی کرایسٹ ( antlchrlst ) کہتے ہیں یعنی مسیح کا دشمن یا مخالف _ دجال کسی مخصوص و معین شخص کا نام نہیں ہے بلکہ لغت عرب میںہر دروغ گو اور حیلہ باز کو دجال کہتے ہیں _ انجیل میں بھی لفظ دجال بہت استعمال ہوا ہے _

یو حنا کے پہلے رسالہ میں لکھا ہے : جو عیسی کے مسیح ہوتے کا انکار کرتا ہے ، دروغگو اور دجال ہے کہ با پ بیٹے کا انکار کرتا ہے(۲)

اسی رسالہ میں لکھا ہے : تم تھ سنا ہے کہ دجال آئے گا ، آج بہت سے دجال پیدا ہوگئے ہیں مذکورہ رسالہ میں پھر لکھتے میں ، وہ ہراس روج کا انکار کرتے ہیں جو عیسی میں مجسم ہوئی تھی اور کہتے ہیں وہ روح خدانہیں تھی _ یہ و ہی روح دجال ہے جس کے بارے میں تم نے سنا ہے کہ وہ آئے گا وہ اب بھی دنیا میں موجود ہے(۳)

یوحنا کے دوسرے رسالہ میں لکھا ہے چونکہ گمراہ کرنے والے دنیا میں بہت زیادہ ہوگئے ہیں کہ جسم میں ظاہر ہوتے والے عیسی مسیح کا اقرار نہیں کرتے ہیں

____________________

۱_ صحیح مسلم ج ۱۸ ص ۷۹ ، سنن ابی داؤدج ۳ ص ۳۱۴

۲_ رسالہ یوحنا باب ۲ آیت ۲۲

۳ _ رسالہ اول باب ۲ آیت ۱۸

۲۸۳

یہ ہیں گمراہ کرنے والے دجال_(۱)

انجیل کی آتیوں سے سمجھ میں آتا ہے کہ دجال کے معنی گمراہ کرنے والے اور دروغگو ہیں _ نیز عیاں ہوتا ہے کہ دجال کا خروج ، اس کا زندہ رہنا اس زمانہ میں بھی نصاری کے در میان مشہور تھا اور وہ اس کے خروج کے منتظر تھے _

ظاہرا حضرت عیسی نے بھی لوگوں کو دجال کے خروج کی خبردی تھی اور اس کے فتنہ سے ڈرایا تھا _ اسی لئے نصاری اس کے منتظر تھے اور قوی احتمال ہے کہ حضرت عیسی نے جس دجال کے بارے میں خبردی تھی ، وہ دجال ودروغگو حضرت عیسی کے پانچ سو سال بعد ظاہر ہواتھا اور اپنی پیغمبر ی کا جھوٹا دعوی کیا تھا _ اسی کو دار پرچڑ ھا یا گیا تھانہ عیسی نبی کو _(۲)

دجال کے وجود سے متعلق مسلمانوں کی احادیث کی کتابوں میں احادیث موجود ہیں پیغمبر اسلام (ع) لوگوں کو دجال سے ڈراتے تھے اور اس کے فتنہ کو گوش گزار کرتے تھے اور فرماتے تھے :

حضرت نوح کے بعد مبعوث ہونے والے تمام پیغمبر اپنی قوم کو دجال کے فتنہ سے ڈرا تے تھے(۳)

رسول (ع) کا ارشاد ہے : اسی وقت تک قیامت نہیں آئے گی جب تک

____________________

۱ _صحیح مسلم ج ۱۸ ص ۷۹ ، سنن ابی داؤد ج ۳

۲ _رسالہ دوم یوحنا آیت ۷

۳ _ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۹۷

۲۸۴

تیس دجال ، جو کہ خود کو پیغمبر سمجھتے ہیں ، ظاہر نہیں ہوں گے _(۱)

حضرت علی(ع) کا ارشاد ہے :

اولاد فاطمہ سے پیدا ہونے والے دو دجالوں سے بچتے رہنا ، ایک دجال وہ جو دجلہ بصرہ سے خروج کرے گاوہ مجھ سے نہیں ہے وہ دجال(۲) کا مقدمہ ہے _

رسول(ع) کا ارشاد ہے :

اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی جب تک تیس دروغگو دجال ظاہر نہ ہوں گے اور وہ خدا اور اس کے رسول پر جھوٹ باند ھیں گے(۳)

آپ (ع) ہی کا ارشاد ہے :

دجال کے خروج سے قبل ستر سے زیادہ و دجال ظاہر ہوں گے(۴)

مذکورہ احادیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دجال کسی معین و مخصوص شخص کا نام نہیں ہے بلکہ ہر دروغگو اور گمراہ کرنے والے کو دجال کہا جا تا ہے _

مختصر یہ کہ دجال کے قصہ کو کتاب مقدس اور نصاری کے در میان تلاش کیا جا سکتا ہے اس کے علاوہ اس کی تفصیل اور احادیث اہل سنت کی کتابوں میں ان ہی طریق سے نقل ہوئی ہیں _

____________________

۱ _ سنن ابی داؤد ج ۲

۲ _ ترجمہ الحلاحم والفتن ص ۱۱۳

۳_ سنن ابی داؤد ج ۲

۴_ مجمع الزواید ج ۷ ص ۳۳۳

۲۸۵

بہرحال اجمالی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کا صحیح ہونا بعید نہیں ہے لیکن اس کی جو تعریف و توصیف کی گئی ہے _ ان کا کوئی قابل اعتماد مدرک نہیں ہے(۱)

دجال کا اصلی قضیہ اگر چہ صحیح ہے لیکن یہ بات بلا خوف و تردید کہی جا سکتی ہے افسانوں کی آمیزش سے اس کس حقیقی صورت مسخ ہوگئی ہے _ یہ کہا جاسکتا ہے کہ امام زمانہ کے ظہور کے وقت آخری زمانہ میں ایک شخص پیدا ہوگا جو فریب کار او ر حیلہ سازی میں سب سے آگے ہوگا اور دورغگوئی میں گزشتہ دجالوں سے بازی لے جائے گا ، اپنے جھوٹے اور رکیک دعوؤں سے غافل رہیں گے اور یہ سمجھیں گے کہ زمیں و آسمان اس کے ہا تھ میںہیں ، اتنا جھوٹ بولے گا کہ اچھائی کو برائی اور برائی کو اچھائی و نیکی ثابت کرے گا بہشت کو جہنّم اور جہنم کو جنت بنا کرپیش کرے گا لیکن اس کا کفر تعلیم یافتہ اوران پڑ ھہ لوگوں پرواضح ہے _

اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ صائد بن صید دجال ، رسول (ص) کے زمانہ سے آج تک زندہ ہے _ کیونکہ حدیث کی سند ضعیف ہے اس کے علاوہ پیغمبر اسلام کا قول ہے کہ دجال مکہ اور مدینہ میں داخل نہیں ہوگا جبکہ صائد بن صید ان دونوں میں داخل ہوا اور مدینہ میں مرا چنانچہ ایک جماعت اس کی موت کی گواہ ہے _ بالفرض پیغمبر (ص) اکرم نے صائد بن صید کو اگر دجال کہا تھا تو وہ دروغگو کے معنی میں کہا تھا نہ کہ علائم ظہور والا دجال کہا تھا _ بعبارت دیگر پیغمبر اسلام نے صائد بن صید سے ملاقات کی اور اپنے

____________________

۱_ کیونکہ اس کا مدرک وہ حدیث ہے جو بحار الانوار میں نقل ہوی اور اس کی سند میں محمد بن عمر بن عثمان ہے جو کہ مجہول الحال ہے _

۲۸۶

اصحاب میں سے اسے دجال کا مصداق قرار دیا اور چونکہ بعد والے زمانہ میں دجال کے خروج کی خبر دی تھی اس لئے دونوں موضوعات میں اشتباہ ہوگیا اور لوگ یہ سمجھ بیٹھے کہ پیغمبر (ص) نے صائد کو دجال کہا ہے لہذا یہی آخری زمانہ میں خروج کرے گا اور اسی سے انہوں نے اس کی طول حیات کا نتیجہ بھی اخذ کرلیا ہے _

۲۸۷

دنیا والوں کے افکار

مقررہ وقت پر جلسہ شروع ہو ا ڈاکٹر صاحب نے اس طرح سوال اٹھایا:

ڈاکٹر : انسانوں کے درمیان ان تما م رایوں اور عقائد کے اختلاف اور دیگر اختلافی مسائل کے باوجود یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے پور دنیا کا نظم و نسق ایک حکومت کے اختیار میں ہوگا اور روئے زمین پر صرف مہدی کی حکومت ہوگی ؟

ہوشیار: اگر دنیا کے عمومی حالات اور انسان کی عقل و ادراکات کی یہی حالت رہی تو ایک عالمی حکومت کی تشکیل بہت مشکل ہے _ لیکن جیسا کہ گزشتہ زمانہ میں انسان کا تمدن و تعقل اور سطح معلومات وہ نہیں تھی جو آج ہے بلکہ اس منزل پر وہ مرور زمانہ اور حوادث و انقلاب زمانہ کے بعد پہنچا ہے _ لہذا وہ اس سطح پر بھی نہیں رکے گا _

بلکہ یقین کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ انسان کی معلومات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور مستقبل میں تعلق و تمدن اور اجتماعی مصالح کے درک میں وہ اور زیادہ ترقی کرے گا _ اپنے مدعا کے اثبات کے لئے ہم گزشتہ زمانے کے انسان کے حالات کا تجزیہ کرتے ہیں تا کہ مستقبل کے بارے میں فیصلہ کر سکیں _

یہ بات اپنی جگہ ثابت ہو چکی ہے کہ خودخواہی اور منفعت طلبی طبیعی چیز ہے اور اسی کسب کمال سعادت طلبی اور حصول منفعت کے جذبہ نے انسان کو کوشش

۲۸۸

و جانفشانی پر ابھارا ہے _ منفعت حاصل کرنے کے لئے ہر انسان اپنی طاقت کے طاقت کو شش کرتا ہے اور اس راہ کے موانفع کو برطرف کرتا ہے لیکن دوسروں کے فائد کے بارے میں غور نہیں کرتا _ ہاں جب دوسروں کے منافع سے اپنے مفادات وابستہ دیکھتا ہے تو ان کا بھی لحاظ کرتا ہے اور اپنے کچھ فوائد بھی ان پر قربان کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے _ شاید اولین بار انسان خودخواہی کے زینہ سے اتر کر دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے شادی کے وقت تیار ہوتا ہے کیونکہ مرد و عورت یہ احساس کرتے ہیں کہ دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے اور اسی احتیاج کے احساس نے مرد و عورت کے درمیان ازدواجی رشتہ قائم کیا ہے _ چنانچہ دونوں اس کو مستحکم بنانے کے سلسلہ میں خودخواہی کو اعتدال پر لانے اور دوسرں کے فوائد کو ملحوظ رکھنے کے لئے مجبور ہوتے _ مردو عورت کے یک جا ہونے سے خاندان کی تشکیل ہوئی _ حقیقت ہے کہ خاندان کے ہر فرد کا مقصد اپنی سعادت و کمال کی تحصیل ہے لیکن چونکہ ان میں سے ہر ایک نے اس بات کو محسوس کرلیا ہے کہ اس کی سعادت خاندان کے تمام افراد سے مربوط ہے اس لئے وہ ان کی سعادت کا بھی متمنی ہوتا ہے اور اس کے اندر تعاون کا جذبہ قوی ہوتا ہے _

انسان نے مدتوں خانوادگی اور خانہ بدوشی کی زندگی بسر کی اور رونما ہونے والے حوادث و جنگ سے مختلف خاندانوں کے انکار نے ترقی کی اور انہوں نے اس بات کا احساس کیا کہ سعادت مندی اور دشمنوں سے نمٹنے کے لئے اس سے بڑے معاشرہ کی تشکیل ضروری ہے _ اس فکر کی ترقی اور ضرورت کے احساس سے طائفے اور قبیلے وجود میں آئے اور قبیلے کے افراد تمام افراد کے منافع کو ملحوظ رکھنے کے لئے تیار ہوگئے

۲۸۹

اور اپنے ذاتی و خاندانی بعض منافع کو قربان کرنے کیلئے بھی آمادہ ہوگئے _ اسی فکر ارتقاء اور ضرورت کے احساس نے انسان کو طول تاریخ میں ایک ساتھ زندگی بسر کرنے پر ابھار جس سے انہوں نے اپنی سکونت کیلئے شہر و دیہات آباد کئے تا کہ اپنے شہر والوں کے منافع کا لحاظ رکھیں اور ان کے حقوق سے دفاع کریں _

انسان مدتوں اسی ، نہج سے زندگی گزارتا رہا ، یہاں تک کہ حوادث زمانہ اور خاندانی جھگڑے اور طاقتوروں کے تسلط نے انسان کو چھوٹے سے دیہات کو چھوڑ کر شہر بنانے پر ابھارا کہ وہ اپنے رفاہ اور آسائشے اور اپنے ہمسایہ دیہات و شہروں سے ارتباط رکھنے کے لئے بھی ہے تا کہ خطرے اور طاقتور دشمن کے حملہ کے وقت ایک دوسرے سے مدد حاصل کرسکیں _ اس مقصد کے تحت ایک بڑا معاشرہ وجود میں آیا او راس کے وسیع علاقہ کو ملک و سلطنت کے نام سے یاد کیا جانے لگا _

ملک میں زندگی بسر کرنے والے انسانوں کی فکر نے اتنی ترقی کی کہ وہ اپنے ملک کی محدود سرزمین کو اپنا گھر سمجھتے ہیں اور اس ملک کے باشندوں کو ایک خاندان کے افراد شمار کرتے ہیں اور اس ملک کے اموال و ذخائر کو اس کے باشندوں کا حق سمجھتے ہیں _ اس ملکہ کے ہر گوشہ کی ترقی سے لذت اندوز ہوتے ہیں _ لسانی ، نسلی ، شہری اور دیہاتی اختلافات سے چشم پوشی کرتے ہیں اور ملک کے تمام باشندوں کی سعادت کو اپنی سعادت و کامیابی تصور کرتے ہیں _ واضح ہے کہ اس ملک کے افراد میں جس قدر فکری ہم آہنگی و ارتباط قوی ہوگا اور اختلاف کم ہوگا اسی کے مطابق اس ملک کی ترقیاں زیادہ ہوں گی _ انسان کا موجودہ تمدن و ارتقاء آسانی سے حاصل نہیں ہوا ہے بلکہ وہ صدیوں اور ہزاروں حوادث

۲۹۰

اور گوناگون تجربات کے بعد ترقی کے اس بلند مقام پر پہنچا ہے _

ہزاروں سال کی طویل مدتوں اور حوادث زمانہ کے بعد انسان کی فکر نے ترقی کی اور کسی حد تک خودخواہی و کوتاہ نظری سے نجات حاصل کی لیکن اب بھی خاصی ترقی نہیں کی ہے اس پر اکتفا نہیں کر سکتا _ آج بھی علمی و صنعتی ترقی کے سلسلہ میں دنیا کے ممالک کے درمیان خاص روابط برقرار ہوتے ہیں _ اس سے پہلے جو سفر انہوں نے چند ماہ کے دوران طے کیا ہے اسے آج بھی گھنٹوں اور منٹوں میں طے کررہے ہیں _ دور دراز سے ایک دوسرے کی آواز کو سنتے ہیں ، دیکھتے ہیں _ ملک کے حوادث و اوضا ع ایک دوسرے سے مربوط ہوگئے ہیں ایک دوسرے میں سرایت کرتے ہیں _ آج انسان اس بات کا احساس کررہا ہے کہ وہ اپنے ملک کی سرحدوں کو محکم طریقہ سے بند نہیں کرسکتا اور تمام ممالک سے قطع تعلق کرکے عزلت گزینی کی زندگی نہیں گزارسکتا _ عالمی حوادث اور انقلابات زمانہ سے وہ اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ ایک ملک کے معاشرہ اور اجتماع میں یہ طاقت نہیں ہے کہ لوگوں کی سعادت و ترقی کی راہ فراہم کرسکے اور انھیں حوادث و خطرات سے بچا سکے _ اس لئے ہر ملک اپنے معاشرہ کو مضبوط بنانے کی کوشش کررہا ہے _

بشر کی یہ درونی خواہش کبھی جمہوریت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے کبھی مشرق و مغرب کے بلاؤں کی صورت میں نمایاں ہوتی ہے کبھی اسلامی ممالک کے اتحادیہ کی شکل میں وجود پذیر ہوتی ہے کبھی سرمایہ داری اور کمیونسٹ نظام کے پیکر میں سامنے آتی ہے _ اس اتحاد کی اور سیکڑوں مثالیں ہیں /و کہ روح انسان کے رشد اور اس وسعت طلبی کی حکایت کرتی ہیں _

آج انسان کی کوشش یہ ہے کہ عمومی معاہدوں اور اتحاد کو وسعت دی جائے

۲۹۱

ممکن ہے اس کے ذریعہ خطرات کا سد باب ہوسکے اور عالمی مشکلات و بحران کو حل کیا جا سکے اور روئے زمین پر بسنے والے انسانوں کیلئے آسائشے و رفاہ کے وسائل فراہم ہو سکیں _

دانشوروں کا خیال ہے کہ انسان کی یہ کوشش و فعالیت اور وسعت طلبی ایک عالمی انقلاب کا مقدمہ ہے ، عنقریب دنیائے انسانیت پر یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ یہ اتحاد بھی محدود ہے لہذا عالمی خطرات و مشکلات کو حل نہیں کرسکتے یہ اتحاد صرف کسی درد کی دوا ہی نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے کے مقابل میں صف آرا ہو کہ مزید مشکلات کھڑی کردیتے ہیں _

انسان ابھی تجربہ کی راہ سے گزرہاہے تا کہ ان اتحادات کے ذریعہ جہاں تک ہوسکے خودخواہی کے احساس کو بھی ختم کرے اور عالمی خطرات و مشکلات کو بھی ختم کرے _ وہ ایک روز اس حقیقت سے ضرور آگاہ ہوگا کہ خودخواہی اور کوتاہ نظری انسان کو سعادت مند نہیں بنا سکتی _ اور لا محالہ اس بات کا اعتراف کرے گا کہ روئے زمیں کا ما حول ایک گھر کے ماحول سے مختلف نہیں ہے _ روئے زمین پر بسنے والے ایک خاندان کے افراد کی مانند ہیں _ جب انسان اس بات کو سمجھ جائے گا کہ غیر خواہی میں خود خواہی ہے تو اس وقت دنیا والوں کے افکار و خیالات سعدی شیرازی کے ہم آواز ہو کر اس بات کا اعتراف کریں گے _

بنی آدم اعضائے ایک دیگرند کہ در آفرینش زیک گوہرند

'' انسان آپس میں ایک دوسرے کے اعضاء ہیں کیونکہ انکی خلقت کا سرچشمہ ایک ہی ہے ''

لوگ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ جو قوانین و احکام اختلافات انگیز محدود نظام کے مطابق بنائے گئے ہیں وہ دنیا کی اصلاح کیلئے کافی نہیں ہیں _ عالمی اور اقوامی اتحاد کی

۲۹۲

انجمنوں کی تشکیل ، حقوق بشر کی تنظیم کی تاسیس کو اس عظیم فکر کا مقدمہ اور انسانیت کی بیداری اور اس کی عقل کے کمال کا پیش خیمہ کہا جا سکتا ہے _ اگر چہ انجمنوں نے بڑی طاقتوں کے دباؤں سے ابھی تک کوئی اہم کام انجام نہیں دیا ہے اور ابھی تک اختلاف انگیز نظاموں پر کامیابی حاصل نہیں کر سکی ہیں لیکن ایسے افکار کے وجود سے انسان کے تابناک مستقبل کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے _

دنیا کی عام حالت و حوادث کے پیش نظر اس بات کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں انسان ایک حساس ترین دورا ہے پر کھڑا ہوگا _ وہ دو راہ عبارت ہے محض مادی گری یا خالص توحید سے _ یعنی انسان یا تو آنکھیں بند کرکے مادیت کو قبول کرلے اور خدا کے احکام کو ٹھکرادے یا خدا کو تخلیق کی مشنری کا حاکم تسلیم کرے اور خدائی احکام کو ٹھکرا دے یا خدا کو تخلیق کی مشنری کا حاکم تسلیم کرے اور خدائی احکام کا قلادہ اپنی گردن میں ڈال لے اور عالمی مشکللات اور بشری کی اصلاح آسمانی قوانین کے ذریعہ کرے اور غیر خد ا قوانین کو ٹھکرادے _ لیکن یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ انسان کا خداپرستی اور دین جوئی کا جذبہ ہر گز ٹھنڈا نہیں پڑتا ہے اور جیسا کہ آسمانی ادیان خصوصاً اسلام نے پیشین گوئی کی ہے کہ آخر کار خدا پرستوں ہی کاگروہ کامیاب ہوگا اور دنیا کی حکومت کی زمام و اقتدا صالح لوگوں کے اختیار میں ہوگا اور انسانوں کا بڑا معاشرہ انسانیت کے فضائل ، نیک اخلاق اور صحیح عقائد پر استوار ہوگا _ تمام تعصبات اور جھوٹے خدا نابود ہوجائیں گے اور سارے انسان ایک خدا اور اس کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کردیں گے _ خداپرستوں کا گروہ اور حزب توحید ایمان کے محکم و وسیع حصار میں جاگزین ہوگا اور رسول اسلام اور قرآن مجید کی دعوت کو قبول کرے گا

۲۹۳

قرآن مجید نے دنیا والوں کے سامنے یہ تجویز پیش کی ہے کہ :

'' آؤ ہم سب ایک مشترک پروگرام کو قبول کرلیں اور یہ طے کرلیں کہ خدائے واحد کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھرائیں گے اور انسانوں میں سے کسی کو واجب الاطاعت نہ سمجھیں گے _''(۱)

قرآن مجید اس عالمی انقلاب کے پروگرام کے بارے میں کہتا ہے کہ اسے نافذ کرنے کی صلاحیت صرف مسلمانوں میں ہے _ رسول اکرم نے خبر دی ہے کہ جو شائستہ اور غیر معمولی افراد انسان کے گوناگون افکار و عقائد اور متفرق رایوں کو یک جا اور ایک مرکز پر جمع کریں گے اور انسانوں کی عقل کو کامل و بیدار کریں گے اور دشمنی کے اسباب و عوامل کا قلع و قمع کریں گے _ صلح و صفائی برقرار کریں گے _ وہ مہدی موعود اور اولاد رسول (ص) ہوگی _ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :

''جب ہمارا قائم ظہور کرے گا تو بندوں کے سرپرہاتھ رکھ کر ان کے پراگندہ عقل و فکر کو ایک جگہ کرے گا اور ایک مقصد کی طرف متوجہ کرے گا اور ان کے

اخلاق کو کمال تک پہنچادے گا '' _(۲)

حضرت علی (ع) بن ابیطالب فرماتے ہیں :'' جب ہمارا قائم قیام کرے گا تو لوگوں کے دلوں سے عداوت و دشمنی کی جڑیں کٹ جائیں گی اور عالمی امن کا دور ہوگا ''(۳)

امام محمد باقر (ع) فرماتے ہیں :'' ہمارے قائم کے ظہور کے بعد عمومی اموال اور زمین کے معاون و ذخائر آپ(ص) اختیار میں آئیں گے _(۴)

____________________

۱_ آل عمران /۹۴_

۲_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۳۶_

۳_ بحارالانوار جلد ۵۲ ص ۳۱۶_

۴_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۵۱_

۲۹۴

مستضعفین کی کامیابی

جلالی : آپ دنیا کی حالت کو جانتے ہیں کہ زمین کے ہر گوشہ میں مستضعفین و کمزورلوگوں پر ظالم و ستمگر و مستکبرین حکومت کررہے ہیں ، ان کی تمام چیزوں پر مسلط ہوگئے ہیں اور انھیں اپنی طاقت سے مرعوب کررکھا ہے _ ان حالات کے پیش نظر حضرت مہدی کیسے انقلاب لائیں گے اور کیونکر کامیاب ہوں گے ؟

ہوشیار: مستکبرین پر امام مہدی (ع) کی کامیابی دنیا کے مستضعفین کی کامیابی ہے _ جو کہ اکثریت میں ہیں اور ساری قدرت انھیں کی ہے _ مستکبرین کی تعدا د بہت ہی کم ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے _ اسی لئے امام مہدی کی کامیابی کا امکان ہے یہاں میں ایک بات کی تشریح کردوں تا کہ مدعا روشن ہوجائے _

قرآن و احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ دنیا بھر کے مستضعفین آخر کار اس عالمی انقلاب میں مستکبرین پر کامیاب ہوں گے کہ جس کے قائد امام مہدی ہونگے اور طاغوتی نظام کو ہمیشہ کیلئے نابود کرکے دنیا کی حکومت کی زمام سنبھالیں گے _ قرآن مجید میں خداوند عالم کا ارشاد ہے :

'' ہم نے ارادہ کرلیا ہے کہ دنیا کے مستضعفین پر احسان کریں اور انہیں امام بنائیں اور زمین کا وارث قراردیں اور زمین کی قدرت و تمکن

۲۹۵

ان کے دست اختیار میں دیدیں ''_(۱)

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مذکورہ آیت اس بات کی حتمی نوید دے رہی ہے کہ دنیا کی طاقت اور جہان کا نظام مستضعفین کے ہاتھوں میں آئے گا _ اس بناپر امام مہدی کی کامیابی مستکبرین پر مستضعفین کی کامیابی ہوگی موضوع کی وضاحت کیلئے درج ذیل نکات پر توجہ فرمائیں :

استضعاف کے کیا معنی ہیں اور مستضعفین کون لوگ ہیں ؟

مستکبرین کی کیا علامتیں ہیں؟

مستضعفین مستکبرین پر کیسے کامیاب ہوں گے ؟

اس عالمی انقلاب کی قیادت کوں کرے گا ؟

قرآن مجید میں مستضعفین کو مستکبرین و طاغوت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اس لئے ان دونوں کی ایک ساتھ تحقیق کرنا چاہئے _ قرآن مجید میں مستکبرین کی کچھ علامتیں اورخصوصیات ذکر ہوئے ہیں ایک جگہ فرعون جیسے مستکبرین کے لئے فرماتا ہے :

'' بے شک فرعون نے زمین میں بہت سر اٹھا یا تھا اور لوگوں میں اختلاف و تفرقہ پیدا کیا تھا ایک گروہ کو کمزور بنادیا تھا ان کے لڑکوں کو قتل کرتا تھا اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا کیونکہ وہ مفسدوں میں سے تھا _(۲)

____________________

۱_ قصص/۵

۲_ قصص /۴

۲۹۶

مذکورہ آیت میں فرعوں کیلئے جو کہ مستکبرین میں سے ہے ، تین علامتیں بیان ہوئی ہیں : اول بڑا بننا اور برتری چاہنا _ دوسرے لوگوں میں اختلاف و تفرقہ پیدا کرنا تیسرے فساد پھیلانا _ دوسری آیت میں فرماتا ہے کہ :

'' فرعون نے زمین میں بہت سر اٹھایا تھا کہ وہ اسراف کرنے والوں میں سے تھا''_(۱)

اس آیت میں اسراف اور سر اٹھانے کو بھی مستکبرین کی صفات قرار دیا گیا ہے دوسری آیت میں ارشاد ہے:

'' فرعون نے موسی کی تحقیر کی اور لوگوں نے اس کی اطاعت کی کیونکہ لوگ فاسق تھے''(۲)

اس آیت میں لوگوں کی تو ہین کرنے کو مستکبرین کی صفات میں شمار کیا گیا ہے اور یہی معنا لوگوں کی اطاعت کے ہیں _

دوسری آیت میں ارشاد ہے :

''موسی نے قارون ، فرعون اور ہامان کے سامنے واضح دلیلیں پیش کیں لیکن انہوں نے روئے زمین پر سر اٹھایا اور تکبّر کیا ''( ۲)

مذکورہ آیت میں حق قبول نہ کرنے کو استکبار و سرکشی کی علامت قرار دیا

____________________

۱_ یونس /۸۳

۲_ زخرف /۵۴

۳_ عنکبوت/۳۹

۲۹۷

گیا ہے _ دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے :

''قوم صالح کے مستکبرین مومن مستضعفین سے کہتے تھے: کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ صالح خدا کے رسول ہیں ؟ مومنین جواب دیتے تھے ہم صالح کی لائی ہوئی چیزوں پر ایمان رکھتے ہیں _ مستکبرین کہتے تھے جس چیز پر تمہارا ایمان ہے ہم اس کے منکر ہیں ''(۱)

دوسری آیت میں کفر و شرک کی ترویج کو مستکبرین کی علامت شمار کیا گیا ہے : ''مستضعفین مستکبرین سے کہتے ہیں تمہاری رات ، دن کی فریب کاریاں تھیں کہ تم ہمیں خدا سے کفر اختیار کرنے اور اس کا شریک ٹھرانے کا حکم دیتے تھے''(۲)

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا مذکورہ آیت میں مستکبرین کی چند علامتیں بیان ہوئی ہیں :

۱_ بڑا بننا اور برتری چاہنا

۲_ تفرقہ و اختلاف پیدا کرنا_

۳_ اسراف

۴_ لوگوں کو کمزور بنانا_

۵_ فساد پھیلانا

۶_ حق قبول کرنے سے منع کرنا _

۷_ کفر و شرک کی ترویج و اشاعت_

مذکورہ تمام آیتوں سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مستکبرین ان لوگوں کا

____________________

۱_ اعراف/۷۶

۲_ سبا/۳۳

۲۹۸

گروہ ہے جو خواہ مخواہ خود کو دوسرں سے برتر بناکر پیش کرتے ہیں _ لوگوں سے کہتے ہیں : ہم سیاست داںں ، عاقل اور ماہرہیں _ ہم تمہارے مصالح کو تم سے بہتر سمجھتے ہیں تمہاری عقل تمہارے مصالح کے ادراک کیلئے کافی نہیں ہے _ تمہیں ہماری اطاعت کرنا چاہئے تا کہ کامیاب ہوجاؤ استکبار کا اہم کام اختلاف و تفرقہ پیدا کرنا ہے _ کالے گئے مذہبی ، نسلی ، لسانی ، قومی ، ملی ، ملکی ، شہری ، صوبائی اور دوسرے سیکڑوں اختلاف انگیز عوامل کے ذریعہ لوگوں میں تفرقہ اندازی کرتے ہیں _ صرف اس لئے تاکہ لوگوں پر حکومت کریں ، کفر و شرک کی ترویج کرتے ہیں اور اس طرح لوگوں کو فریب دیتے ہیں اور ان کے سارے منافع ہڑپ کر لیتے ہیں _ ان کے سارے امور کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں _ عمومی اموال پر قابض ہوجاتے ہیں _ اپنی مرض سے جہاں چاہتے ہیں خرچ کرتے ہیں _ ملک سے دفاع کے نام پر اسلحہ اور ایٹمی توانائی خریدتے ہیں عمومی ضرورتوں کو پورا کرنے او رامن و امان برقرار رکھنے کے نام پر قضاوت اور دیگر دفاتر کی تشکیل سے ذاتی فائدہ اٹھاتے ہیں ، بیت المال کو اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرتے ہیں ، اپنے ہمنواؤں کے دریچے بھرتے ہیں _ ان کا مقصد صرف حکمرانی اور خودہواہی ہے _ مستکبرین بڑے نہیں ہیں ان کی اپنی کوئی طاقت نہیں ہے بلکہ فریب کاری سے لوگوں کی عظیم طاقت'' کو اپنی بتاتے ہیں اور انھیں حقیر سمجھتے ہیں _

یہاں سے مستضعفین کے معنی بھی روشن ہوجاتے ہیں _ مستضعف کے معنی ضعیف و ناتوان نہیں ہیں بلکہ مستضعف وہ لوگ ہیں جنہوں نے مستکبرین کے غلط پروپیگنڈے اور حیلہ بازیوں سے اپنی طاقت کو گنوا دیا ہے اور غلامی و ذلت میں مبتلا ہوگئے ہیں ،حقیقی طاقت عام لوگوں کی ہے _ زمین ، پانی ، قدرتی خزانے ، پبلک

۲۹۹

دالشور اور موجد سب ہی تو عام لوگ ہیں ، مزدور ، موجد ، پولیس و فوج ، انتظامیہ ، عدلیہ اور ادارے سب ہی ملّت کے افراد سے تشکیل پاتے ہیں _ صاحبان علم و اختراع اور صنعت بھی ملت ہی کے افراد ہوتے ہیں _ اس بناپر قدرتی خزانے پوری قوم کے ہوتے ہیں نہ کہ مستکبرین کے _ اگر لو گ مدد و تعاون نہ کریں تو مستکبرین کی کوئی طاقت بن سکتی ہے؟ لیکن مستکبرین نے حیلے و فریب او رغلط پروپیگنڈے سے لوگوں کو اپنے سے بیگانہ اور مستضعف بنادیا ہے وہ خود ہی اپنے کو کچلتے ہیں اور استعماری طاقتوں کی بھینٹ چڑھتے ہیں _ مستکبرین اقلیت میں ہیں جنہوں نے ہمیشہ لوگوں کو اندھیرے میں رکھنے کی کوشش کی ہے اور انھیں کمزور بناکر ان پر حکومت کی ہے _

لیکن خدا کے پیغمبر اس بات پر مامور تھے کہ ان لوگوں کو بیدار کریں جنھیں کمزور و مستضعف بنادیا گیا ہے تا کہ وہ اپنی عظیم طاقت و توانائی سے آگاہ ہوجائیں اور مستکبرین کے چنگل سے نجات حاصل کریں پیغمبروں نے ہمیشہ مستکبرین کے حقیقت کا پردہ چاک کرنے اور ان کی جھوٹی طاقت اور جلال کو پاش پاش کرنے کی کوشش کی ہے اور مستضعفین کو مستکبرین کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور ان کے استعماری پھندوں سے نجات حاصل کرنے کی جرات دلائی ہے _

حضرت ابراہیم (ع) نے نمرود کی طاغوتی حکومت کے خلاف قیام کیا _ حضرت موسی (ع) نے فرعون کی حکومت کے خلاف قیام کیا اور حضرت عیسی (ع) اپنے زمانہ کے ظلم و سمتگروں کے خلاف اٹھے اور محروموں کونجات دلانے کے لئے قیام کیا _ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے ابو جہل ، ابولہب ، ابوسفیان اور قیصر و کسری کے خلاف قیام کیا او ردنیا کے مستضعف و محروم لوگوں کی نجات کے لئے اٹھے _ پیغمبر

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455