آفتاب عدالت

آفتاب عدالت13%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 185053 / ڈاؤنلوڈ: 5864
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

کیونکہ اس کی نفسانی خواہشیں اور درونی جذبات عقل عملی سے حقیقت کی تشخیص صلاحیت اور انسانیت کے سیدھے راستہ کو چھپادیتے ہیں اور اسے بدبختی کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں _

کونسا قانون انسان کی کامیابی کا ضامن ہے ؟

چونکہ انسان اجتماعی زندگی گزار نے کیلئے مجبور ہے اور منافع میں اپنے بھائیوں سے مزاحمت بھی اجتماعی زندگی کالازمہ ہے لہذا انسانوں کے درمیان قانوں کی حکومت ہونا چاہئے تا کہ اختلاف و پراکندگی کا سد باب ہوجائے _ قانوں بھی معاشرہ کو اسی صورت میں چلا سکتا ہے کہ جب درج ذیل شرائط کا حامل ہوگا _

۱_ قوانین جامع و کامل ہوں تا کہ تمام اجتماعی و انفرادی امور میں ان کا نفوذ اور دخل ہو _ ان میں تمام حالات اور ضرورتوں کی رعایت کی گئی ہو ، کسی موضوع سے غفلت نہ کی گئی ہو ایسے قوانین کو معاشرہ کے افراد کی حقیقی اور طبیعی ضرورتوں کے مطابق ہونا چاہئے _

۲_ قوانین حقیقی کامیابی و کمالات کی طرف انسان کی راہنمائی کرتے ہوں ، خیالی کامیابی و کمالات کی طرف نہیں _

۳_ ان قوانین میں عالم بشریت کی سعادت و کامیابی کو ملحوظ رکھا گیا ہو اور مخصوص افراد کے مفاد کو پور ا نہ کرتے ہوں _

۴_ وہ معاشرے کو انسانی کمالات و فضائل کے پایوں پر استوار کرتے ہوں اور اس کے اعلی مقصد کی طرف راہنمائی کرتے ہوں یعنی اس معاشرے کے افراد دنیوی زندگی کو انسانی فضائل و کمالات کا ذریعہ سمجھتے ہوں اور اسے ( دنیوی زندگی کو) مستقل ٹھکانا خیال نہ کرتے ہوں_

۸۱

۵_ وہ قوانین ظلم و تعدی اور ہرج و مرج کو رد کرکے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور تمام افراد کے حقوق کو پورا کرتے ہوں _

۶_ ان قوانین کی ترتیب و تدوین میں روح اور معنوی زندگی کے پہلوؤں کی بھی مکمل طور پر رعایت کی گئی ہو یعنی ان میں سے کوئی قانون بھی نفس اور روح کیلئے ضرر رساں نہ ہو اور انسان کو سیدھے راستہ سے منحرف نہ کرتا ہو _

۷_ معاشرے کو انسانیت کے سیدھے راستہ سے منحرف کرنے اور ہلاکت کے غار میں ڈھکیل دینے والے عوامل سے پاک و صاف کرتا ہو _

۸_ ان قوانین کا بنانے والا تزاہم ( ٹکراؤ) مصلحت اور مفاسد کو بھی اچھی طرح جانتا ہو _ زمان و مکان کے اقتضا سے واقف ہو _

انسان یقینا ایسے قوانین کا محتاج ہے اور یہ اس کی زندگی کے ضروریات میں شمار ہوتے ہیں اور قانون کے بغیر انسانیت تباہ ہے _ لیکن یہ بات موضوع بحث ہے کہ کیا بشر کے بنائے ہوئے قوانین اس عظیم ذمہ داری کو پورا کرسکتے ہیں اور معاشرہ کو چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں ؟

ہمار ا عقیدہ ہے کوتاہ فکر اور کوتاہ اندیش افراد گا بنایا ہوا قانون ناقص اور معاشرہ کے نظم و نسق کو برقرار رکھنے کی صلاحیت سے عاری ہے _ دلیل کے طور پر چند موضوعات پیش کئے جا سکتے ہیں _

۱_ انسان کے علم و اطلاع کا دائرہ محدود ہے _ عام آدمی مختلف انسانوں کی ضروریات خلقت کے رموز و اسرار خیر و شر کے پہلوؤں ، زمان و مکان کے اقتضاء کے اعتبار سے فعل و انفعالات ، تاثیر وتاثر اور قوانین کے تزاحم سے مکمل طور پر واقف

۸۲

نہیں ہے _

۲_ اگر بفرض محال قانون بنانے والے انسان ایسے جامع قانون بنانے میں کامیاب بھی ہوجائیں تو بھی وہ دنیوی زندگی اور معنوی حیات کے عمیق ارتباط اور ظاہر حرکات کے نفس پر ہونے والے اثرات سے بے خبر ہیں اور کچھ آگہی رکھتے ہیں تو وہ ناقص ہے اصولی طور پر معنوی زندگی ، ان کے پروگرام سے ہی خارج ہے _ وہ بشریت کی خوش بختی اور سعادت مندی کو مادی امور میں محدود سمجھتے ہیں جبکہ ان دونوں زندگیوں میں گہرا ربط ہے اور جدائی ممکن نہیں ہے _

۲_ چونکہ انسان خودخواہ ہے لہذا دوسرے انسانوں کا استحصال طبیعی ہے چنانچہ نوع انسان کا ہر فرد اپنے مفاد کو دوسروں کے مفاد پر ترجیح دیتا ہے _ پس اختلاف اور استحصال کا سد باب کرنا اس کی صلاحیت سے باہر ہے ، کیونکہ قانون بنانے والے انسان کو اس کی خواہش ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ اپنے اور اپنے عزیزوں کے منافع و مفاد سے چشم پوشی کرکے لوگوں کی مصلحت کو مد نظر رکھے _

۴_ قانون بنانے والا انسان ہمیشہ اپنی کوتاہ نظری کے اعتبار سے قانون بناتا ہے اور انھیں اپنے کوتاہ افکار ، تعصبات اور عادتوں کے غالب میں ڈھالتاہے ، لہذا چند افراد کے منافع اور مفاد کے لئے قانون بتاتا ہے اور قانون بناتے وقت دوسروں کے نفع و ضرر کو ملحوظ نہیں رکھتا _ ایسے قوانین میں عام انسانوں کی سعادت کو مد نظر نہیں رکھا جاتا _ صرف خدا کے قوانین ایسے ہیں جو کہ انسان کی حقیقی ضرورتوں کے مطابق اور خلقت کے رموز کے مطابق نبے ہیں ، ان میں ذاتی اغراض و مفاد او رکجی نہیں ہے اور ان میں عالم بشریت کی سعادت کو مد نظر نظر رکھا گیا ہے _ واضح ہے کہ انسان قانون الہی کا محتاج ہے

۸۳

اور خدا کے الطاف کا اقتضا یہ ہے کہ وہ مکمل پروگرام بنا کر اپنے پیغمبروں کے ذریعہ بندوں تک پہنچائے _

سعادت اخروی

جس وقت انسان دن رات اپنی دنیوی زندگی میں سرگرم ہوتا ہے اسی وقت اس کے باطن میں بھی ایک سربستہ زندگی موجود ہوتی ہے _ ممکن ہے وہ اس کی طرف بالکل متوجہ نہ ہو اور مکمل طور پر اسے فراموش کرچکا ہو _ اس مجہول زندگی کی بھی سعادت و شقاوت ہوتی ہے _ بر حق عقائد و افکار ، پسندیدہ اخلاق اور شائستہ اعمال روحانی ترقی او رکمال کا باعث ہوتے ہیں اور اسے سعادت و کمال کی منزل تک پہنچاتے ہیں جیسا کہ باطل عقائد ، برے اخلاق اور ناروا حرکتیں بھی نفس کی شقاوت و بدبختی کا سبب قرار پاتی ہیں _ اگر انسان ارتقاء کے سیدھے راستہ پر گامزن ہوتا ہے تو وہ اپنی ذات کے جوہر اور حقیقت کی پرورش کرتا اور اسے ترقی دیتا ، اپنے اصلی مرکز عالم نورانیت کی طرف پرواز کرتا ہے اور اگر روحانی کمالات اور پسندیدہ اخلاق کو اپنی حیوانی قوت و عادت اور خواہش نفس پر قربان کردیتا ہے اور ایک درندہ و ہوس راں دیوبن جاتاہے تو وہ ارتقاء کے سیدھے راستہ سے منحرف ہوجائے گا اور تباہی و بدبختی کے بیابان میں بھٹکتا پھرے گا _ پس معنوی حیات کے لئے بھی انسان ایک مکمل پروگرام اور معصوم راہنما کامحتاج ہے _ کسی کی مدد کے بغیر اس خطرناک راستہ کو طے نہیں کرسکتا کیونکہ اس کی نفسانی خواہشیں اس کی عقل کواکثر صحیح فیصلہ کرنے اور حقیقت بینی سے باز رکھتی ہیں اور اسے ہلاکت کی طرف لے جاتی ہیں ، وہ اچھے کہ برا اور برے کو اچھا کرکے دکھاتی ہیں _

۸۴

صرف خالق کائنیات انسان کے حقیقی کمالات ، واقعی نیک بختی اور اس کے اچھے برے سے واقف ہے اور وہی اس کی نفس کی سعادت و کامیابی اور بدبختی و ناکامی کے عوامل سے بچانے کامکمل دستور العمل انسان کے اختیا رمیں دے سکتا ہے _ پس اخروی سعادت تک پہنچنے کے لئے بھی انسان خالق کائنات کا محتاج ہے _

اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ خدائے حکیم نے انسان کو ، جو کہ سعادت و بدبختی دونوں کی صلاحیت رکھتا ہے ، ہرگز خواہشات نفس اور حیوانی طاقت کا مطیع نہیں بنایا ہے اور جہالت و نادانی کے بیابان میں سرگرداں نہیںچھوڑا ہے _ بلکہ اس کے بے شمار الطاف کا اقتضا تھا کہ وہ اپنے برگزیدہ پیغمبروں کے ذریعہ ایسے احکام ، قوانین اور مکمل دستور العمل جو کہ دنیوی و اخروی سعادت و کامیابی کا ضامن ہو ، انسانوں تک پہنچائے اور سعادت و کامیابی اور بدبختی و ناکامی سے انھیں آگاہ کرے تا کہ ان پر حجّت تمام ہوجائے اور مقصد تک پہنچنے کا راستہ ہموار ہوجائے _

ترقی کا راستہ

انسان کی ترقی اور خدا تک پہنچنے کا سیدھا راستہ ، برحق عقائد ، اعمال صالح اور نیک اخلاق ہیں کہ جنھیں خدا نے انبیاء کے پاکیزہ قلوب پرنانزل کیا ہے تاکہ وہ انھیں لوگوں تک پہنچادیں لیکن یادرہے یہ راستہ کوئی وقتی اور تشریفاتی نہیں ہے کہ جس کا مقصد سے کوئی ربط نہ ہو بلکہ یہ حقیقی اور واقعی راستہ ہے کہ جس کا سرچشمہ عالم ربوبیت ہے جو بھی اس پر گامزن ہوتا ہے _ وہی اپنے باطن میں سیر ارتقاء کرتا ہے اور بہشت رضوان کی طرف پرواز کرتا ہے _

۸۵

بعبارت دیگر : دین حق ایک سیدھا راستہ ہے ، جو بھی اسے اختیار کرتا ہے اسکی انسانیت کامل ہوتی ہے اور وہ انسانیت کے سیدھے راستہ سے سرچشمہ کمالات کی طرف چلا جاتا ہے جو دیانت کے سیدھے راستے سے منحرف ہوجاتا ہے وہ مجبوراً انسانیت کے فضائل کی راہ کو گم کرکے حیوانیت کے کج راستہ پر لگ جاتا ہے _ حیوانیت و درندگی کے صفات کی تقویت کرتا اور راہ انسانیت کو طے کرنے سے عاجز ہوجاتا ہے ایسے شخص کی زندگی دشوار ہوجاتی اور جہنم اس کی تقدیر بن جاتاہے _

عصمت انبیائ

خداوند عالم کے لطف کا اقتضا یہ ہے کہ لوگوں تک احکام اور ضروری قوانین پہچانے کے لئے انبیاء کو مبعوث کرے تا کہ وہ مقصد تخلیق کی طرف ان کی راہنمائی کریں _ خدا کا یہ مقصد اس صورت میں پورا ہوسکتا ہے کہ جب اس کے احکام بغیر کسی تحریف _ بغیر کمی بیشی_ کے لوگوں تک پہنچ جائیں اور ان کا عذر بھی ختم ہوجائے _ اس لئے پیغمبر خطا و نسیان سے معصوم و محفوظ ہوتے ہیں یعنی خدا سے احکام لینے ، ان کا یادرکھنے اور لوگوں تک پہنچانے میں خطا و نسیان سے محفوظ ہوتے ہیں _ اس کے علاوہ ان احکام پر انبیاء کو خود بھی عمل کرنا چاہئے تا کہ ان کے قول و عمل میں تضاد نہ ہو اور قول و عمل کے ذریعہ لوگوں کو حقیقی کمالات کی طرف دعوت دیں کہ ان کے پاس کو ئی عذر و بہانہ باقی نہ رہے اور راہ حق کی تشخیص میں ادھر ادھر نہ بھٹکین اور پھر پیغمبر ہی احکام خدا کا اتباع نہیں کریں گے تو ان کی تبلیغ کا بھی کوئی اثر نہ ہوگا ، لوگان پر اعتماد نہیں کریں گے ، کیونکہ وہ اپنی بات کے خلاف عمل کرتے ہیں اور اپنے عمل سے لوگوں کو احکام کے خلاف عمل کرنے کی دعوت دیتے ہیں

۸۶

اور یہ بات تو واضح ہے کہ عملی تبلیغ اگر قولی تبلیغ کے برابر نہیں تو کم بھی نہیں ہے _

ہمارے علوم و مدرکات خطا سے محفوظ نہیں ہیں کیونکہ وہ حواس اور قوائے مدرکہ کے ذریعہ حاصل حاصل ہوتے ہیں اور حواس سے سرزد ہونے والی غلطی و خطا سب پر عیاں ہے _ لیکن لوگوں کی ہدایت کیلئے جو علوم و احکام خدا کی طرف سے وحی کے ذریعہ انبیاء پر نازل ہوتے ہیں _ ان کی یہ کیفیت نہیں ہے ، انھیں انبیاء نے حواس اور قوہ مدرکہ کے ذریعہ حاصل نہیں کیا ہے ورنہ ان کی معلومات میں خطاکار واقع ہونا ضروری ہوتا اور اس طرح لوگوں تک حقیقی احکام نہیں پہنچ سکتے تھے _ بلکہ ان کے علوم کا طریقہ یہ ہے کہ وہ عالم غیب سے ان کے قلب پر نازل ہوتے ہیں ، ان حقائق کو وہ علم حضوری کی صورت میں مشاہدہ کرتے ہیں اور جن چیزوں کا وہ دل کی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں وہ ان پر عالم بالا سے نازل ہوتے ہیں اور وہ انھیں لوگوں کے اختیار میں دیتے ہیں ، چونکہ انبیاء ان حقائق کا ادراک کرتے ہیں اسلئے ان کے سمجھنے اور یادر کھنے میں کوئی خطا واقع نہیں ہوتی _

اسی لئے وہ ان احکا م کی مخالفت اور عصیان سے بھی معصوم و محفوظ ہوتے ہیں ، اپنے علم پر عمل کرتے ہیں کیونکہ جو شخص عین حقائق اور اپنے کمالات و سعادت کا مشاہدہ کرتا ہے وہ یقین کے ساتھ اپنے مشاہدات پر عمل کرتا ہے اور ایسا انسان اپنے کمال کو نہیں گنواتا ہے _

امامت پر عقلی دلیل

نبوّت عامہ کی دلیل کی وضاحت کے بعد آپ اس بات کی ضرور تصدیق کریں گے کہ اسی برہان کا اقتضا یہ ہے کہ جب لوگوں کے درمیان کوئی پیغمبر نہ ہو تو اس وقت کسی انسان کو نبی کا جانشین اور احکام خدا کا خزینہ دار ہونا چاہئے کہ جو احکام کی حفاظت اور ان کی تبلیغ

۸۷

میں کوشاں رہے _ کیونکہ انبیاء کی بعثت اور لوگوں تک احکام بھیجنے میں جو خدا کا مقصد ہے وہ اسی وقت پورا ہوگا اور اس کے الطاف کمال کوپہنچیں گے اور اس کے بندوں پرحجت تمام ہوگی جب اس کے تمام قوانین و احکام لوگوں میں بغیر کسی تحریف کے محفوظ رہیں گے _ پس پیغمبر کی عدم موجودگی میں لطف خدا کا اقتضاء یہ ہے کہ انسانوں میں کسی کو ان احکام کی حفاظت و نگہداری کا ذمہ داربنائے _

اس منتخب شخص کو بھی احکام لینے ، یادرکھنے اور لوگوں تک پہنچانے میں خطا و نسیان سے معصوم ہونا چاہئے تا کہ خدا کا مقصد پورا ہوجائے اور اس کے بندوں پر اسکی حجت تمام ہوجائے _ احکام دین کو اس میں جلوہ گر ہونا چاہئے ، خود ان پر عمل پیرا ہونا چاہئے تا کہ دوسرے اپنے اعمال و اخلاق اور اقوال کی اس کے اعمال سے مطابقت کریں _ اس کا اتباع کریں ، اور راہ حقیقت کو تلاش کرنے میں کسی شک و تردد میں مبتلا نہ ہوں اور ہرطریقہ سے حجت تمام ہوجائے _ چونکہ وہ اس اہم ذمہ داری کے قبول کرنے میں خطا و اشتباہ سے معصوم ہے _ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ اس نے حواس اور قوہ مدرکہ کے ذریعہ علوم کسب نہیں کئے ہیں اورلوگوں کے علوم سے بہت زیادہ مختلف ہیں ،بلکہ پیغمبر کی ہدایت سے اس کی چشم بصیرت چمک اٹھتی ہیں وہ دل کی آنکھوں سے انسانیت کے حقائق و کمالات کو مشاہدہ کرتا ہے اس لئے وہ بھی خطا سے محفوظ و معصوم ہے اور یہی حقائق و کمالات کا مشاہدہ ان کی عصمت کی علت ہے اور اپنے علوم و مشاہدات کے مطابق عمل کرنے کا باعث ہے اور علم و عمل کے ذریعہ لوگوں کا امام بنتا ہے _

بہ عبارت دیگر : نوع انسان کے درمیان ہمیشہ ایسے انسان کامل کا وجود ضروری ہے کہ جو خدا کے برحق عقائد کا معتقد اورانسانیت کے نیک اخلاق و صفات پر عمل پیراہو

۸۸

اور احکام دین پر عمل کرتاہو اور سب کو اچھی طرح جانتا ہو ، ان مراحل میں خطا و عصیان سے معصوم ہو ، علم و عمل کے ذریعہ تمام انسانی کمالات اس میں وجود پذیر ہوگئے ہوں اور وہ لوگوں کا امام ہو ں جس زمانہ میں ایسا شخص موجود نہ ہوگا اس زمانہ میں خدا کے وہ احکام ، جو کہ لوگوں کی ہدایت کے لئے نازل ہوئے ہیں ، ختم ہوجائیں گے اور حق تعالی کے فیوض و غیبی امداد کا سلسلہ منقطع ہوجائے گا اور عالم ربوبیت و عالم انسانی میں کوئی رابطہ برقرار نہ رہے گا ں

بہ عبارت دیگر: نوع انسان کے درمیان ہمیشہ ایسے شخص کو موجود ہونا چاہئے جو کہ مستقل ، خدا کی تائید و ہدایت اور فیضان کا مرکز ہو اور وہ معنوی فیوض ، باطنی مدد کے ذریعہ ہر انسان کو اس کی استعداد کے مطابق مطلوبہ کمال تک پہنچائے اور احکام الہی کا خزینہ دار ہوتا کہ ضرورت کے وقت مانع نہ ہونے کی صورت میں لوگ اس کے علوم سے مستفید ہوں _ امام حجّت حق ، نمونہ دین اور انسان کامل ہے جو بشر کی توانائی کی حد تک خدائی معرفت رکھتا اور اس کی عبادت کرتا ہے _ اگر اس کا وجود نہ ہوگا تو خدا کی کامل معرفت اور عبادت نہ ہوگی _ امام کا قلب خدا کے علوم کا خزینہ دار اور اسرار الہی کا مخزن ہے ایک آئینہ کی مانند ہے کہ جس میں عالم ہستی کے حقائق جلوہ گر ہوتے ہیں تا کہ دوسرے ان حقائق کے انعکاس سے مستفید ہوں _

جلالی: دین کے احکام و قوانین کا طریقہ اسی میں منحصر نہیں ہے کہ ایک شخص ان سب کو جانتا ہو اور ان پر عمل کرتا ہو ، بلکہ اگر دین کے تمام احکام و قوانین کو مختلف لوگوں میں تقسیم کردیا جائے اور ان میں سے ایک جماعت بعض احکام کا علم حاصل کرکے ان پر عمل پیرا ہو تو اس صورت میں بھی ، علم و عمل کے اعتبار سے دین کے تمام احکام لوگوں کے درمیان محفوظ رہیں گے _

۸۹

ہوشیار: آپ کا فریضہ دو اعتبار سے غلط ہے:

اول: گزشتہ بحثوں میں یہ بات کہی جا چکی ہے کہ نوع انسان کے درمیان ایک ممتاز انسان کو موجود ہونا چاہئے کہ جس میں انسانیت کے تمام ممکنہ کمالات جمع ہوں اور وہ دین کے سیدھے راستہ پرقائم ہو اور تعلیم و تربیت میں خدا کے علاوہ کسی کا محتاج نہ ہو _ اگرایسا کامل انسان لوگوں کے درمیان نہ رہے تو انسانیت کی کوئی غایت نہ ہوگی اور غایت کے بغیر نوع کا بتاہ ہونا یقینی ہے جبکہ آپ کے فرضیہ میں ایسا کامل انسان نہیں ہے کیونکہ ان اشخاص میں اگر چہ ایک بہت سے احکام کو جانتا اورا ن پر عمل کرتا ہے لیکن دین کے سیدھے راستہ پر ان میں سے کوئی بھی واقع نہیں ہوا ہے بلکہ سب جادہ حقیقت سے منحرف ہیں کیونکہ صراط مستقیم اور دین کے احکام کے درمیان ایک مضبوط و عمیق رابطہ برقرار ہے کہ جس کو منقطع کرنا ممکن نہیں ہے _

دوسرے : جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ جو قوانین خدا کی طرف سے انسان کی ہدایت کیلئے نازل ہوئے ہیں انھیں ہمیشہ ان کے درمیان محفوظ رہنا چاہئے یعنی ان میں :سی قسم کی تحریف ممکن نہ ہو اور تغیر و تبدل کے ہر خطرہ سے محفوظ ہوں تا کہ لوگ ان کے صحیح ہونے کو پورے اعتماد سے تسلیم کرلیں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ان کا محافظ و خزینہ دار معصوم اور خطا و نسیان اور معصیت سے محفوظ ہو _ جبکہ آپ کے دونوں مفروضوں میں یہ چیز نہیں ہے کیونکہ خطا و نسیان اور معصیت ہر فرد سے سرزد ہوسکتی ہے _ نتیجہ میں خداوند عالم کے احکام تغیر و تبدل سے محفوظ نہیں ہیں اور خدا کی حجت تمام نہیں ہے اور بندوں کا عذر اپنی جگہ باقی ہے _

امامت حدیث کی نظر میں

ہوشیار: امامت سے متعلق جو چیزیں بیان ہوئی ہیں وہ سب اہل بیت کی

۹۰

روایات میں موجود ہیں ، اگر تحقیق کرنا چاہتے ہیں تو احادیث کی کتابوں کا مطالعہ فرمائیں _ ان میں سے چند یہ ہیں:

ابوحمزہ کہتے ہیں : میں نے حضرت امام صادق (ع) کی خدمت میں عرض کی کیا امام کے وجود کے بغیر زمین باقی رہ سکتی ہے ؟ فرمایا: اگر زمین پر امام کا وجود نہ ہوگا تو دھنس جائے گی _(۱)

و شاء کہتے ہیں : میں نے امام رضا (ع) کی خدمت میں عرض کی : اما م کے بغیر زمین باقی رہ سکتی ہے ؟ فرمایا: نہیں _ عرض کی : ہم تک روایت پہنچی ہے کہ زمین حجت خدا ، امام کے وجود سے اس وقت خالی ہوتی ہے جب خدا اپنے بندوں پر غضبناک ہوتا ہے _ امام رضا (ع) نے فرمایا کہ : زمین وجود امام سے خالی نہ ہوگی ورنہ دھنس جائے گی _(۲)

ابن طیا رکہتے ہیں : میں نے امام جعفر صادق سے سنا کہ آپ نے فرمایا : اگر زمین پر صرف دو انسان ہوں گے تو بھی ان میں سے ایک امام ہوگا _(۳)

حضرت ابوجعفر (ع) فرماتے ہیں : خدا کی قسم حضرت آدم (ع) کے انتقال کے وقت سے اس وقت تک خدا نے زمین کو اس امام کے وجود سے خالی نہ رکھا ہے جس سے لوگ ہدایت پاتے ہیں اور وہی لوگوں پر خدا کی حجت ہے _ زمین کبھی امام کے وجود سے خالی نہیں رہتی کیونکہ وہ بندوں پرخدا کی حجت ہے _(۴)

____________________

۱_ اصول کافی ج ۱ ص ۳۲۴_

۲_ اصول کافی ج ۱ ص ۳۳۴_

۳_ اصول کافی ج ۱ ص ۳۳۵_

۴_ اصول کافی ج ۱ ص ۳۳۳_

۹۱

حضرت امام جعفر صادق (ع) کا ارشاد ہے : خدا نے ہمیں بہترین طریقہ سے خلق فرمایا ہے اور زمین و آسمان میں اپنے علم کاخزینہ دار قراردیا ہے ، درخت ہم سے ہم کلام ہوتے ہیں اور ہماری عبادت سے خدا کی عبادت ہوتی ہے اگر ہم نہ ہوتے تو خدا کی عبادت نہ ہوتی _(۱)

آپ (ع) ہی کا ارشاد ہے : اوصیاء خدا علوم کے دروازے ہیں _ ان ہی کے ذریعہ دین میں داخل ہونا چاہئے اگر وہ نہ ہوتے تو خدا نہ پہچانا جاتا اور خدا ان کے وجود سے اپنے بندوں پر حجت قائم کرتا ہے _(۲)

ابوخالد کہتے ہیں : میں نے امام جعفر صادق (ع) سے آیت فآمنوا باللہ و رسولہ و النّور الذی انزلنا _ کی تفسیر دریافت کی تو آپ نے فرمایا : اے ابوخالد خداکی قسم نور سے مراد ائمہ ہیں، اے ابوخالد نور امام سے مومنوں کے دل سورج سے زیادہ روشن ہوتے ہیں _ وہی مومنوں کے دلوں کو نورانی بنانتے ہیں _ خدا جس سے چاہتا ہے ان کے نور کو پوشیدہ رکھتا ہے اور اس کا قلب تاریک ہوجاتا ہے _(۳)

حضرت امام رضا (ع) فرماتے ہیں : جب خد اکسی کو اپنے بندوں کے امور کے لئے منتخب کرتا ہے تو اسے سعہ صدر عطا کرتا ہے ، اس کے قلب کو علم و حکمت کا اور حقائق کاسرچشمہ قرار دیتا ہے اور ہمیشہ اپنے علوم کا الہام کرتا ہے اس کے بعد وہ کسی جواب سے عاجز نہیں ہوتا ہے اور صحیح راہنمائی اور حقائق کو بیان کرنے میں گمراہ نہیں ہوتا ، خطا سے معصوم ہے

____________________

۱_ اصول کافی جلد۱ ص ۳۶۸_

۲_ اصول کافی جلد ۱ص ۳۶۹_

۳_ اصول کافی جلد ۱ ص ۳۷۲_

۹۲

خدا کی توفیقات و تائیدات ہمیشہ اس کے شامل حال رہتی ہیں ، خطا و لغزش سے محفوظ رہتا ہے _ اس لئے خدا نہ اسے متخب کیا ہے تا کہ اس کے بندوں پر حجت و گواہ ہوجاے _ یہ خدا کی بخشش ہے ،جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے _ بے شک خدا بہت بڑا فضل کرنے والا ہے _(۱)

پیغمبر فرماتے ہیں: ستارے آسمان والوں کے لئے باعث امان ہیں _ ان کے تباہ ہونے سے آسمان والے بھی تباہ ہوجائیں گے اور میرے اہل بیت زمین والوں کے لئے باعث امان ہیں اگر میرے اہل بیت نہ رہیں گے تو زمین والے ہلاک ہوجائیں گے _(۲)

حضرت علی بن ابی طالب کا ارشاد ہے : زمین خدا کیلئے قیام کرنے والے قائم اور حجت خدا سے خالی نہیں رہتی ، وہ کبھی ظاہر و آشکار ہوتا ہے _ کبھی پوشیدہ رہتا ہے تا کہ خدا کی حجت باطل نہ ہوجائے وہ کتنے اور کہاں ہیں؟؟ خدا کی قسم وہ تعداد میں بعت کم ہیں لیکن خدا کے نزدیک قدر کے اعتبار سے عظیم ہیں ان کے ذریعہ اپنی حجت و برہان کی حفاظت کرتا ہے تا کہ اس امانت کو اپنے ہی رتبہ کے افراد کے سپردکریں اوراپنے جیسے لوگو ں کے قلوب میں اس کا بیچ بوئیں _

علم نے انھیں بصیرت و حقیقت تک پہنچادیا ہے ، وہ یقین کی منزلوں میں وارد ہوچکے ہیں اور جس چیز کو مال دار و دولت مند دشوار سمجھتے ہیں وہ ان کیلئے سہل و آسان ہے جس چیز سے جاہل دڑتے ہیں یہ اس سے مانوس ہیں _ یہ دنیا میں ان جسموں کے ساتھ رہتے ہیں کہ جن کی ارواح ملائے اعلی سے معلق رہتی ہیں _ یہ زمین پر خدا کے خلیفہ اور

____________________

۱_ اصول کافی جلد ۱ ص۳۹۰_

۲_ تذکرة الخواص الامة ص ۱۸۲_

۹۳

دین کے دعوت دینے والے ہیں _(۱)

آپ (ص) ہی کا ارشاد ہے : اہل بیت (ع) کے وجود میں قرآن کے گراں بہا گوہر ودیعت کئے گئے ہیں _ وہ خدا کے خزانے ہیں اگر وہ بولتے ہیں تو سچ اور خاموش رہتے ہیں تو کوئی ان پر سبقت نہیں کرتا _(۲)

دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں _ اہل بیت کی برکت سے حق اپنی جگہ مستقر ہوا ہے او ر باطل کی بنیاد اکھڑگئی ہے اور اس کی بنیاد تو اکھڑ نے والی ہی تھی _ انہوں نے دین کو سمجھ لیا ہے _ چنانچہ اس کو حفظ کرتے اور اس پر عمل پیرا رہتے ہیں _ یہ تعقل ، سننے اور نقل کرنے میں محدود نہیں ہے _ یقینا علم کے بیان کرنے والے بہت ہیں لیکن اس پر عمل کرنے والے بہت ہی کم ہیں _(۲)

اب میں اپنے بیان کو سٹمیتا ہوں ، اور اس سلسلے میں مذکورہ عقلی دلیلوں اور احادیث سے استفادہ کرتا ہوں : جب تک روئے زمین پر نوع انسان کا وجود ہے اس وقت تک ان کے درمیان ایک ایسے کامل و معصوم انسان کا وجود بھی ضروری ہے کہ جس میں اس نوع کے تمام کمالات جلوہ گر ہوں ، علم و عمل سے لوگوں کی ہدایت کرتا ہو اور لوگوں کا امام ہو وہ انسانی کمالات کی راہوں کو طے کرتا اور دوسرے لوگوں کو ان کمالات و مقامات کی طرف بلاتا ہو _ اس کے واسطہ سے عالم انسانیت کا عالم غیب سے ارتباط و اتصال

____________________

۱_ نہج البلاغہ ج ۳ خطبہ ۱۴۷_

۲_ نہج البلاغہ ج ۲ خطبہ ۱۵۰_

۳_ نہج البلاغہ ج ۲ خطبہ ۲۳۴_

۹۴

برقرار رہتا ہے _ عالم غیب کے فیوض و برکات پہلے اس کے مقدس وجود پر اور پھر دوسروں پر نازل ہوتے ہیں _ اگر لوگوں کے درمیان ایسا کامل اور ممتاز انسان موجود نہ ہو تو نوع انسان کی کوئی غرض و غایت نہ رہے گی اور غرض و غایت سے انقطاع کے بعد نوع کا تباہ ہوجانا یقینی ہے _ پس دوسری دلیلوں سے قطع نظر یہ دلیل بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ : کوئی زمانہ یہاں تک کہ ہمارا زمانہ بھی ، وجود امام سے خالی نہیں ہے اور چونکہ ہمارے زمانہ میں امام ظاہر نہیں ہیں اس لئے کہنا چاہئے کہ پردہ غیب میں ہیں _

نگارندہ: بحث طویل ہوگئی تھی _ لہذا بقیہ بحث کو دوسرے جلسہ پر موقوف کردیا گیا _

۹۵

عالم ہورقلیا اور امام زمانہ

جلالی صاحب کے گھر پر جلسہ منعقد ہوا اور موصوف نے ہی گفتگو کا آغاز کیا _

جلالی : مسلمانوں کی ایک جماعت کہتی ہے کہ امام زمانہ اما م حسن عسکری کے فرزند ہیں جو کہ ۲۵۶ ھ میں پیدا ہوئے اور اس دنیا سے عالم ہورقلیا منتقل ہوگئے اور جب انسانیت درجہ کمال پر پہنچ جائے گی اور دنیا کی کدورتوں سے پاک ہوجائے گی اور امام زمانہ کے دیدار کی صلاحیت پیدا کرے گی تو اس وقت آپ کا دیدار کرے گی _

اسی جماعت کے ایک بزرگ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں : یہ عالم زمین کہ تہہ میں تھا آدم کے زمانہ میں اسے کہا گیا : اوپر آؤجبکہ وہ اوپر کی طرف ہی محو سفر تھا وہ گردو غبار اور کثافتوں سے نکل کر صاف فضا میں نہیں پہنچا ہے _ پس یہ ایک تاریک جگہ ہے جہاں وہ دین کو تلاش کرتا ہے ، عمل کرتا ہے اعتقاد پیدا کرتا ہے اور جب غبار سے گزرکر صاف ہوا میں داخل ہوگا تو مہدی کے روئے منور کو دیکھے گا اور ان کے نور کو مشاہدہ صاف ہوا میں داخل ہوگا تو مہدی کے روئے منور کو دیکھے گا او ران کے نور کو مشاہدہ کرے گا اور کھلم کھلا ان سے استفادہ کرے گا _ احکام بدل جائیں گے دنیا کی کچھ اور ہی حالت ہوگی ، دین کی کیفیت بھی بدل جائے گی _

پس ہمیں وہاں جانا چاہئے جہاں ولی ظاہر و آشکار ہیں نہ کہ ولی ہمارے پاس آئے اگر ولی ہمارے پاس آجائے اور ہم میں صلاحیت ولیقات نہ ہو تو ان سے مستفید نہ

۹۶

ہو سکیں گے ، اگر وہ آجائے اور اسی حالت پر باقی رہیں گے تو انھیں دیکھ سکیں گے اور نہ مستفیض ہوسکیں گے اور اگر ہماری قابلیت میں اضافہ ہوجائے اور اچھے بن جائیں تو واضح ہے کہ ہم نے ترقی کی کچھ منزلیں طے کرلی ہیں لہذا ہمیں ترقی کرکے اوپر جانا چاہئے تا کہ اس مقام تک پہنچ جائیں جس کو فلسفہ کی اصطلاح میں ، ہورقلیا کہتے ہیں _ جب دنیا ترقی کرکے ہورقلیا تک پہنچ جائے گی تو وہاں اپنے امام کی حکومت و حق کو مشاہدہ کریگی اور ظلم ختم ہوجائے گا _(۱)

ہوشیار: مؤلف کا مقصد واضح نہیں ہے _ اگر وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ امام زمانہ نے اپنے مادی جسم کو چھوڑ کر جسم مثالی اختیار کرلیا ہے اور اب زمین کے موجودات میں ان کا شمار نہیں ہوتا اور مادّہ کے آثار سے بری ہیں ، تو یہ بات نامعقول اور امامت کی عقلی و نقلی دلیلوں کے منافی ہے کیونکہ اندلیلوں کامقتضییہ ہے کہ ہمیشہ لوگوں کے درمیان ایک ایسے کامل نسان کا وجود ضروری ہے کہ جس میں انسانیت کے سارے کمالات جمع ہوں ، صراط مستقیم پر گامز ن ہو اورلوگوں کے امور کی زمام اپنے ہاتھ رکھتا ہوتا کہ نوع انسان حیران و سرگردان نہ رہے اور خدا کے احکام ان کے درمیان محفوظ رہیں اور خدا کے بندوں پر حجت تمام ہوجائے _ بہ عبارت دیگ: جہاں انسان کمال اور مقصد انسانیت کی طرف رواں دواں ہیں وہیں رہبر کا وجود بھی ناگزیرہے _

اگر مؤلف کی مراد عالم ہورقلیا سے اسی دنیا کا کوئی نقطہ مراد ہے تو یہ بات ہمارے عقیدے کے منافی نہیں ہے لیکن ان کلام سے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی لہذا نامعقول ہے _

____________________

۱_ ارشاد العوام مولفہ محمد کریم خان ج ۳ ص ۴۰۱_

۹۷

کیا مہدی آخری زمانہ میں پیدا ہونگے ؟

ہم آپ کی بت کو اس حدتک تو تسلیم کرتے ہی کہ مہدی کا وجود اسلام کے مسلم موضوعات ہیں سے ہے کہ پیغمبر اکرم(ع) نے بھی ان کے ظہور کی خبردی ہے _ لیکن اس بات میں کیا حرج ہے کہ مہدی ابھی پیدا نہیں ہوئے ہیں جب دنیا کے حالات سازندگار ہوجا ئیں گے اس وقت خداوند عالم پیغمبر اکرم (ع) کی اولامیں سے ایک شخص کو بھیجے گا جو کہ عدل وانصاف کے پھیلانے ،ظلم کے مٹا نے اور خدا پرستی کے فروغ کے لئے قیام کرے گا اور کامیاب ہوگا؟

ہوشیار: اول تو ہم نے عقلی و نقلی دلیلوں سے یہ بات ثابت کردی ہے کہ امام کے وجود سے کوئی زمانہ خالی نہیں ہے چنانچہ امام نہ ہوں گے تو یہ دنیا بھی نہ ہوگی، اس بناپر ہمارے زمانہ میں بھی امام موجود ہیں _

دوسرے ہم نے پیغمبر اور ان کے اہل بیت کی احادیث سے امام مہدی کے وجود کو ثابت کیا ہے _ پس ان کے اوصاف و تعارف کو بھی احادیث ہی سے ثابت کرنا چاہئے خوش قسمتی سے امام مہدی کی تمام علامتیں اور صفات احادیث میں موجود ہیں اور اس میں کسی قسم کا ابہام نہیں ہے لیکن چونکہ ان حادیث کے بیا ن کیلئے کئی جلسے درکار ہیں اس لئے آپ کے سامنے انکی فہرست پیش کرتا ہوں اگر تفصیل چاہتے ہیں تو احادیث کی کتب کا مطالعہ فرمائیں _

مہدی کی تعریف

امام بارہ ہیں ان میں پہلے علی بن ابیطالب اور آخری مہدی ہیں

۹۱ حدیث

۹۸

امام بارہ ہیں اور آخری مہد ی ہیں

۹۴ حدیث امام بارہ ہیں ان میں سے نو امام حسین (ع) کی نسل سے ہوں گے اور نواں قائم ہے

۱۰۷ حدیث

مہدی (عج) عترت رسول (ص) سے ہیں

۳۸۹ حدیث

مہدی (عج) اولاد علی (ع) سے ہیں

۲۱۴ حدیث

مہدی (عج)اولاد فاطمہ (ع) سے ہیں

۱۹۲ حدیث

مہدی (عج)اولاد حسین (ع) سے ہیں

۱۸۵حدیث

مہدی (عج)حسین (ع) کی نویں پشت میں ہیں

۱۴۸ حدیث

مہدی (عج)امام زین العابدین (ع) کی اولاد سے ہیں

۱۸۵ حدیث

مہدی (عج)امام محمد باقر (ع) کی اولاد سے ہیں

۱۰۳ حدیث

مہدی (عج)امام جعفر صادق (ع) کی اولاد سے ہیں

۱۰۳ حدیث

مہدی (عج)امام جعفر صادق (ع) کی چھٹی پشت میں ہیں

۹۹

۹۹ حدیث

مہدی (عج)امام موسی کاظم (ع) کی اولاد میں ہیں

۱۰۱ حدیث

مہدی (عج)امام موسی کاظم (ع) کی پانچویں پشت میں ہیں

۹۸ حدیث

مہدی (عج)امام رضا (ع) کی اولاد سے ہیں

۹۵ حدیث

مہدی (عج)امام محمد تقی (ع) کی تیسری پشت میں ہیں

۹۰ حدیث

مہدی (عج)امام علی نقی (ع) کی اولاد سے ہیں

۹۰ حدیث

مہدی (عج)امام حسن عسکری (ع) کے فرزند ہیں

۱۴۵ حدیث

مہدی (عج)کے والد کا نام حسن ہے

۱۴۸ حدیث

مہدی (عج)رسول (ص) کے ہم نام و ہم کنیت ہیں

۴۷ حدیث(۱)

____________________

۱_ یہ احادیث منتخب الاثر ، مولف آیت اللہ صافی ، سے نقل کی گئی ہیں _

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

اختلاف اور نزاع کا موضوع

جو لوگ اس بحث میں وارد ہوئے ہیں اکثر نے صرف فدک کے اطراف میں بحث کی ہے کہ گویا نزاع اور اختلاف کا موضوع صرف فدک میں منحصر ہے اسی وجہ سے یہاں پر کافی اشکالات اور ابہام پیدا ہوگئے ہیں لیکن جب اصلی مدارک کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اختلاف کا موضوع صرف فدک میں منحصر نہیں ہے بلکہ بعض دوسرے امور میں بھی اختلاف اور نزاع موجود ہے _ مثلاً:

جناب عائشےہ نے نقل کیا ہے کہ فاطمہ (ع) نے کسی کو ابوبکر کے پاس بھیجا اور اپنے باپ کی میراث کا مطالبہ کیا، جناب فاطمہ (ع) نے اس وقت کئی چیزوں کا مطالبہ کیا تھا_ اول: پیغمبر (ص) کے وہ اموال جو مدینہ میں موجود تھے_ دوم: فدک_ سوم: خیبر کا باقیماندہ خمس_ جناب ابوبکر نے جناب فاطمہ (ع) کو جواب بھجوایا کہ پیغمبر (ص) نے فرمایا ہے کہ ہم میراث نہیں چھوڑتے جو کچھ ہم سے باقی رہ جائے وہ صدقہ ہوگا اور آل محمد بھی اس سے ارتزاق کرسکیں گے_

خدا کی قسم میں رسول خدا(ص) کے صدقات کو تغییر نہیں دوں گا اور اس کے مطابق_ عمل کروں گا_ جناب ابوبکر تیار نہ ہوئے کہ کوئی چیز جناب فاطمہ کو دیں اسی لئے جناب فاطمہ (ع) ان پر غضبناک ہوئیں اور آپ نے کنارہ کشی اختیار کرلی اور وفات تک ان سے گفتگو اور کلام نہ کیا(۱) _

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۷_

۲۴۱

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) نے جناب ابوبکر کو پیغام دیا کہ کیا تم رسول خدا (ص) کے وارث یا ان کے رشتہ دار اور اہل ہو؟ جناب ابوبکر نے جواب دیا کہ وارث ان کے اہل اور رشتہ دار ہیں جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ پس رسول خدا (ص) کا حصہ غنیمت سے کہاں گیا؟ جناب ابوبکر نے کہا کہ میں نے آپ کے والد سے سنا ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا ہے کہ خدا نے پیغمبر (ص) کے لئے طعمہ (خوارک) قرار دیا ہے اور جب اللہ ان کی روح قبض کرلیتا ہے تو وہ مال ان کے خلیفہ کے لئے قرار دے دیتا ہے میں آپ کے والد کا خلیفہ ہوں مجھے چاہیئے کہ اس مال کو مسلمانوں کی طرف لوٹا دوں(۱) _

عروہ نے نقل کیا ہے کہ حضرت فاطمہ (ع) کا اختلاف اور نزاع جناب ابوبکر سے فدک اور ذوی القربی کے حصّے کے مطالبے کے سلسلے میں تھا لیکن جناب ابوبکر نے انہیں کچھ بھی نہ دیا اور ان کو خدا کے اموال کا جز و قرار دے دیا(۲) _

جناب حسن بن علی بن ابی طالب فرماتے ہیں کہ جناب ابوبکر نے جناب فاطمہ (ع) اور بنی ہاشم کو ذوی القربی کے سہم اور حصے سے محروم کردیا اور اسے سبیل اللہ کا حصہ قرار دے کر ان سے جہاد کے لئے اسلحہ اور اونٹ اور خچر خریدتے تھے(۳) _

ان مطالب سے معلوم ہوجائے گا کہ حضرت فاطمہ (ع) فدک کے علاوہ بعض دوسرے موضوعات میں جیسے رسول خدا کے ان اموال میں جو مدینے

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۹_

۲) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۳۱_

۳) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۳۱_

۲۴۲

میں تھے اور خبیر کے خمس سے جو باقی رہ گیا تھا اور غنائم سے رسول خدا(ص) کے سہم اور ذوی القربی کے سہم میں بھی جناب ابوبکر کے ساتھ نزاع رکھتی تھیں لیکن بعد میں یہ مختلف موضوع خلط ملط کردیئے گئے کہ جن کی وجہ سے جناب فاطمہ (ع) کے اختلاف اور نزاع میں ابہامات اور اشکالات رونما ہوگئے حقیقت اور اصل مذہب کے واضح اور روشن ہوجانے کے لئے ضروری ہے کہ تمام موارد نزاع کو ایک دوسرے سے علیحدہ اور جدا کیا جائے اور ہر ایک میں علیحدہ بحث اور تحقیق کی جائے_

پیغمبر (ص) کے شخصی اموال

پیغمبر (ص) کی کچھ چیزیں اور مال ایسے تھے جو آپ کی ذات کے ساتھ مخصوص تھے اور آپ ہی اس کے مالک تھے جیسے مکان اور اس کا وہ کمرے کہ جس میں آپ (ص) اور آپ(ص) کی ازواج رہتی تھیں آپ کی شخصی لباس اور گھر کے اسباب جیسے فرش اور برتن و غیرہ، تلوار، زرہ، نیزہ، سواری کے حیوانات جیسے گھوڑا، اونٹ، خچر اور وہ حیوان جو دودھ دیتے تھے جیسے گوسفند اور گائے و غیرہ_ ان تمام چیزوں کے پیغمبر اسلام مالک تھے اور یہ چیزیں احادیث اور تاریخ کی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ درج ہیں(۱) _

بظاہر اس میں کوئی شک نہ ہوگا کہ یہ تمام چیزیں آپ کی ملک تھیں اور آپ کی وفا کے بعد یہ اموال آپ کے ورثا کی طرف منتقل ہوگئے_

____________________

۱) مناقب شہر ابن آشوب، ج ۱ ص ۱۶۸ _ کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۲۲_

۲۴۳

حسن بن علی و شاء کہتے ہیں کہ میں نے امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ کیا رسول خدا(ص) نے فدک کے علاوہ بھی کوئی مال چھوڑ تھا؟ تو آپ نے فرمایا، ہاں، مدینہ میں چند باغ تھے جو وقف تھے اور چھ گھوڑے تین عدد ناقہ کہ جن کے نام عضباء اور صہبا، اور دیباج تھے، دو عدد خچر جن کا نام شہبا، اور دلدل تھا، ایک عدد گدھا بنام یعفور، دو عدد دودھ دینے والی گوسفند، چالیس اونٹیاں دودھ دینے والی، ایک تلوار ذوالفقار نامی، ایک زرہ بنا م ذات الفصول عمامہ بنام سحاب، دو عدد عبا، کئی چمڑے کے تکئے_ پیغمبر(ص) یہ چیزیں رکھتے تھے آپ کے بعد یہ تمام چیزیں جناب فاطمہ (ع) کی طرف سوائے زرہ، شمشیر، عمامہ اور انگوٹھی کے منتقل ہوگئیں تلوار، زرہ، عمامہ اور انگوٹھی حضرت علی (ع) کو دیئے گئے(۱) _

پیغمبر(ص) کے وارث آپ کی ازواج او رجناب فاطمہ زہراء (ع) تھیں_ تاریخ میں اس کا ذکر نہیں آیا کہ پیغمبر (ص) کے ان اموال کو ان کے ورثا میں تقسیم کیا گیا تھا لیکن بظاہر اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے امکانات آپ کی ازواج ہی کو دے دیئے گئے تھے کہ جن میں وہ آپ کے بعد رہتی رہیں، بعض نے یہ کہا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی زندگی میں یہ مکانات اپنی ازواج کو بخش دیئے تھے اور اس مطلب کو ثابت کرنے کے لئے اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے_

''و قرن فی بیوتکن وَلا تبرّجن تبرّج

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۲۲_

۲۴۴

الجاهلیة الاولی '' (۱)

گہا گیا ہے کہ خداوند عالم نے اس آیت میں حکم دیا ہے کہ اپنے گھروں میں رہتی رہو اور جاہلیت کے دور کی طرح باہر نہ نکلو_ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گھر ان کے تھے تب تو اس میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے ورنہ حکم اس طرح دیا جاتا کہ تم پیغمبر(ص) کے گھروں میں رہتی ہو، لیکن اہل تحقیق پر یہ امر پوشیدہ نہیں کہ یہ آیت اس مطلب کے ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ہے کیوں کہ اس طرح کی نسبت دے دینا عرفی گفتگو میں زیادہ ہوا کرتی ہے اور صرف کسی چیز کا کسی طرف منسوب کردینا اس کے مالک ہونے کی دلیل نہیں ہوا کرتا_ مرد کی ملک کو اس کی بیوی اور اولاد کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے تمہارا گھر، تمہارا باغ، تمہارا فرش، تمہارے برتن حالانکہ ان تمام کا اصلی مالک ان کا باپ یا شوہر مرد ہوا کرتا ہے_ کسی چیز کو منسوب کرنے کے لئے معمولی سی مناسبت بھی کافی ہوا کرتی ہے جیسے کرائے پر مکان لے لینا یا اس میں رہ لینے سے بھی کہاجاتا ہے تمہارا گھر، چونکہ پیغمبر(ص) نے ہر ایک بیوی کے لئے ایک ایک کمرہ مخصوص کر رکھا تھا اس لئے کہا جاتا تھا جناب عائشےہ کا گھر یا جناب ام سلمہ کا گھر یا جناب زینب کا گھر یا جناب ام حبیبہ کا گھر لہذا اس آیت سے یہ مستفاد نہیں ہوگا کہ پیغمبر اکرم(ص) نے یہ مکانات ان کو بخش دیئے تھے_ اس کے علاوہ اور کوئی بھی دلیل موجود نہیں جو یہ بتلائے کہ یہ مکان ان کی ملک میں تھا، لہذا کہنا پڑے گا کہ ازدواج نے یا تو مکانات اپنے ارث کے حصے کے طور پر لے رکھے تھے یا اصحاب نے پیغمبر(ص) کے احترام

____________________

۱) سورہ احزاب آیت ۳۳_

۲۴۵

میں انہیں وہیں رہنے دیا جہاں وہ پیغمبر(ص) کی زندگی میں رہ رہیں تھی_ جناب فاطمہ (ع) ان مکانوں کے ورثاء میں سے ایک تھیں آپ نے بھی اسی لحاظ سے اپنے حق کا ان سے مطالبہ نہیں کیا اور انہی کو اپنا حصہ تا حیات دیئےکھا_ خلاصہ اس میں کسی کو شک نہیں کرنا چاہیئے کہ رسول خدا(ص) نے اس قسم کے اموال بھی چھوڑے ہیں جو ور ثاء کی طرف منتقل ہوئے اور ان کو قانون وراثت اور آیات وراثت شامل ہوئیں_

فدک

مدینہ کے اطراف میں ایک علاقہ ہے کہ جس کا نام فدک ہے مدینہ سے وہاں تک دودن کا راستہ ہے_ یہ علاقہ زمانہ قدیم میں بہت آباد اور سرسبز اور درختوں سے پر تھا_ معجم البلدان والے لکھتے ہیں کہ اس علاقہ میں خرمے کے بہت درخت تھے اور اس میں پانی کے چشمے تھے کہ جس سے پانی ابلتا تھا ہم نے پہلے بھی ثابت کیا ہے کہ فدک کوئی معمولی اور بے ارزش علاقہ نہ تھا بلکہ آباد اور قابل توجہ تھا_

یہ علاقہ یہودیوں کے ہاتھ میں تھا جب ۷ سنہ ہجری کو خیبر کا علاقہ فتح ہوگیا تو فدک کے یہودیوں نے اس سے مرعوب ہوکر کسی آدمی کو پیغمبر(ص) کے پاس روانہ کیا اور آپ سے صلح کرنے کی خواہش کی_

ایک اور روایت میں نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے محیصہ بن مسعود کو ان یہودیوں کے پاس بھیجا اور انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی لیکن انہوں نے اسلام قبول نہ کیا البتہ صلح کرنے کی خواہش کا اظہار کیا_ جناب رسول خدا(ص) نے ان کی خواہش کو قبول فرمایا اور ان سے ایک صلح نامہ

۲۴۶

تحریر کیا اس صلح کی وجہ سے فدک کے یہودی اسلام کی حفاظت اور حمایت میں آگئے_

صاحب فتوح البلدان لکھتے ہیں کہ یہودیوں نے اس صلح میں فدک کی آدھی زمین پیغمبر(ص) کے حوالے کردی، معجم البلدان میں لکھتے ہیں کہ فدک کے تمام باغات اور اموال اور زمین کا نصف پیغمبر(ص) کو دے دیا_

تاریخ گواہ ہے کہ اس صلح کی قرارداد کی رو سے جو فدک کے یہودیوں اور پیغمبر(ص) کے درمیان قرار پائی تھی تمام آراضی اور باغات اور اموال کا آدھا یہودیوں نے پیغمبر(ص) کو دے دیا، یعنی یہ مال خالص پیغمبر(ص) کی ذات کا ہوگیا کیونکہ جیسا کہ آپ ملاحظہ کرچکے ہیں یہ علاقہ بغیر جنگ کئے پیغمبر(ص) کے ہاتھ آیا ہے اسلام کے قانون کی رو سے جو علاقہ بھی بغیر جنگ کئے فتح ہوجائے وہ رسول(ص) کا خالص مال ہوا کرتا ہے_

یہ قانون اسلام کے مسلمہ قانون میں سے ایک ہے اور قرآن مجید بھی یہی حکم دیتا ہے_ جیسے خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے:

وما افاء الله علی رسوله منهم فما اوجفتم علیه من ذل: و لارکاب و لکن الله یسلط رسله علی من یشاء و الله علی کل شیء قدیر، ما افاء الله علی رسوله من اهل القوی فلله و للرسول '' (۱) _

یعنی وہ مال کہ جو خدا نے اپنے پیغمبر(ص) کے لئے عائد کردیا ہے اور تم نے اس پر گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے لیکن اللہ اپنے پیغمبروں کو

____________________

۱) سورہ حشر آیت ۶_

۲۴۷

جس پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے او رخدا تمام چیزوں پر قادر ہے_ یہ اموال اللہ اور اس کے پیغمبر کے لئے مخصوص ہیں_

لہذا اس میں کسی کو شک نہیں ہونا کہ فدک پیغمبر(ص) کے خالص اموال سے ایک تھا یہ بغیر لڑائی کے پیغمبر(ص) کو ملا تھا اور پیغمبر(ص) اس کے خرچ کرنے میں تمام اختیارات رکھتے تھے آپ حق رکھتے تھے کہ جس جگہ بھی مصلحت دیکھیں فدک کے مال کو خرچ کریں آپ اس مال سے حکومت کا ارادہ کرنے میں بھی خرچ کرتے تھے اور اگر کبھی اسلام کے اعلی مصالح اور حکومت اسلامی کے مصالح اقتضا کرتے تو آپ کو حق تھا کہ فدک میں سے کچھ حصہ کسی کو بخش دیں تا کہ وہ اس کے منافع اور آمدنی سے فائدہ اٹھاتا رہے، آپ کو حق تھا کہ فدک کے آباد کرنے کے عوض کسی کو بلاعوض یا معاوضہ پر بھی دے دیں اور آپ یہ بھی کرسکتے تھے کہ کسی کی اسلامی خدمات کے عوض اس سے کچھ مال اسے بخش دیں، اور یہ بھی کرسکتے تھے کہ فدک کی آمدنی سے کچھ حکومت اسلامی اور عمومی ضروریات پر خرچ کردیں اور یہ بھی حق رکھتے تھے کہ اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات کے لئے فدک کا کچھ حصہ مخصوص قرار دے دیں_ بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے فدک کو اپنے اور اپنے خاندان کے معاش اور ضروریات زندگی کے لئے مخصوص کر رکھا تھا آپ نے فدک کی بعض غیر آباد زمین کو اپنے دست مبارک سے آباد کیا اور اس میں خرمے کے درخت لگائے_

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ جب متوکل عباسی نے فدک عبداللہ بن عمر بازیار کو بخش دیا تو اس میں اس وقت تک گیارہ خرمے کے وہ درخت موجود تھے جو جناب رسول خدا(ص) نے اپنے دست مبارک سے اس میں لگائے تھے_

۲۴۸

جب کبھی فدک جناب فاطمہ (ع) کی اولاد کے ہاتھ میں آجاتا تھا تو وہ ان درختوں کے خرمے حاجیوں کو ہدیہ دیا کرتے تھے اور حاجی حضرات تبرّک کے طور پر لے کر ان پر کافی احسان کیا کرتے تھے_ جب یہی عبداللہ فدک پر مسلط ہوا تو اس نے بشر ان بن امیہ کو حکم دیا کہ وہ تمام درخت کاٹ دے جب وہ درخت کاٹے گئے اور کاٹنے والا بصرہ لوٹ آیا تو اسے فالج ہوگیا تھا_(۱)

پیغمبر(ص) کی عادت یہ تھی کہ فدک کی آمدنی سے اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات کے مطابق لے لیتے تھے اور جو باقی بچ جاتا تھا وہ بنی ہا شم کے فقراء اور ابن سبیل کو دے دیا کرتے تھے اور بنی ہاشم کے فقراء کی شادی کرانے کے اسباب بھی اسی سے مہیا کرتے تھے_

فدک جناب فاطمہ (ع) کے پاس

سب سے زیادہ مہم نزاع اور اختلاف جو جناب فاطمہ (ع) او رجناب ابوبکر کے درمیان پیا ہوا وہ فدک کا معاملہ تھا، حضرت فاطمہ (ع) مدعی تھیں کہ رسول خدا(ص) نے اپنی زندگی میں فدک انہیں بخش دیا تھا لیکن جناب ابوبکر اس کا انکار کرتے تھے، ابتداء میں تو جھگڑا ایک عادی امر شمار ہوتا تھا لیکن بعد میں اس نے تاریخ کے ایک اہم واقعہ اور حساس حادثہ کی صورت اختیار کرلی کہ جس کے آثار اور تنائج جامعہ اسلامی کے سالوں تک دامن گیر ہوگئے اور اب بھی ہیں

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۷_

۲۴۹

اس نزاع میں جو بھی حق ہے وہ اچھی طرح واضح اور روشن ہوجائے لہذا چند مطالب کی تحقیق ضروری ہے_

پہلا مطلب: کیا پیغمبر(ص) :کو دولت او رحکومت کے اموال اپنی بیٹی کو بخش دینے کا حق تھا یا نہیں_ (واضح رہے کہ بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ انفال اور فی اور خمس و غیرہ قسم کے اموال حکومت اسلامی کے مال شمار ہوتے ہیں اور حاکم اسلامی صرف اس پر کنٹرول کرتا ہے یہ اس کا ذاتی مال نہیں ہوتا، اسی نظریئے کے صاحب کتاب بھی معلوم ہوتے ہیں گرچہ یہ نظریہ شیعہ علماء کی اکثریت کے نزدیک غلط ہے اور خود آئمہ طاہرین کے اقدام سے بھی یہ نظریہ غلط ثابت ہوتا ہے اور قرآن مجید کے ظواہر سے بھی اسی نظریئے کی تردید ہوتی ہے کیونکہ ان تمام سے ان اموال کا پیغمبر(ص) اور امام کا شخصی اور ذاتی مال ہونا معلوم ہوتا ہے نہ منصب اور حکومت کا لیکن صاحب کتاب اپنے نظریئے کے مطابق فدک کے قبضئے کو حل کر رہے ہیں ''مترجم''')

ممکن ہے کہ کوئی یہ کہے کہ غنائم اور دوسرے حکومت کے خزانے تمام مسلمانوں کے ہوتے ہیں اور حکومت کی زمین کو حکومت کی ملکیت میں ہی رہنا چاہیئے، لیکن ان کی آمدنی کو عام ملت کے منافع اور مصالح پر خرچ کرنا چاہیئے لہذا پیغمبر(ص) کے لئے جوہر خطا اور لغزش سے معصوم تھے ممکن ہی نہ تھا کہ وہ فدک کو جو خالص آپ کا ملک تھا اپنی بیٹی زہراء کو بخش دیتے_

لیکن اس اعتراض کا جواب اس طر ح دیا جاسکتا ہے کہ انفال اور اموال حکومت کی بحث ایک بہت وسیع و عریض بحث ہے کہ جو ان اوراق میں تفصیل کے ساتھ تو بیان نہیں کی جاسکتی، لیکن اسے مختصر اور نتیجہ اخذ کرنے کے

۲۵۰

لئے یہاں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ اگر ہم یہ تسلیم بھی کرلیں کہ فدک بھی غنائم اور عمومی اموال میں ایک تھا اور اس کا تعلق نبوت اور امامت کے منصب سے تھا یعنی اسلامی حاکم شرع سے تعلق رکھتا تھا لیکن پہلے بیان ہوچکا ہے کہ ان اموال میں سے تھا جو بغیر جنگ کے مسلمانوں کے ہاتھ آیا تھا اور نصوص اسلامی کے مطابق اور پیغمبر(ص) کی سیرت کے لحاظ سے اس قسم کے اموال جو بغیر جنگ کے ہاتھ آئیں یہ پیغمبر(ص) کے خالص مال شمار ہوتے ہیں البتہ خالص اموال کو بھی یہ کہا جائے کہ آپ کا شخص مال نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کا تعلق بھی حاکم اسلامی اور حکومت سے ہوتا ہے تب بھی اس قسم کے مال کا ان عمومی اموال سے جو دولت اور حکومت سے متعلق ہوتے ہیں بہت فرق ہوا کرتا ہے، کیونکہ اس قسم کے مال کا اختیار پیغمبر(ص) کے ہاتھ میں ہے اور آپ اس قسم کے اموال میں تصرف کرنے میں محدود نہیں ہوا کرتے بلکہ آپ کو اس قم کے اموال میں بہت وسیع اختیارات حاصل ہوا کرتے ہیں اور اس کے خرچ کرنے میں آپ اپنی مصلحت اندیی اور صواب دید کے پابند اور مختار ہوتے ہیں یہاں تک کہ اگر عمومی مصلحت اس کا تقاضا کرے تو آپ اس کا کچھ حصہ ایک شخص کو یا کئی افراد کو دے بھی سکتے ہیں تا کہ وہ اس منافع سے بہرہ مند ہوں_ اس قسم کے تصرفات کرنا اسلام میں کوئی اجنبی اور پہلا تصرف نہیں ہوگا بلکہ رسول خدا (ص) نے اپنی آراضی خالص سے کئی اشخاص کو چند زمین کے قطعات دیئے تھے کہ جس اصطلاح میں اقطاع کہا جاتا ہے_

بلاذری نے لکھا ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زمین کے چند قطعات___ بنی نضیر اور جناب ابوبکر اور جناب عبدالرحمان بن عوف اور جناب ابو دجانہ و غیرہ کو عنایت فرما

۲۵۱

دیئے تھے(۱) _

ایک جگہ اور اسی بلاذری نے لکھا ہے کہ رسول خدا (ص) نے بنی نضیر کی زمینوں میں سے ایک قطعہ زمین کا مع خرمے کے درخت کے زبیر ابن عوام کو دے دیا تھا(۲) _

بلاذری لکھتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے زمین کا ایک قطعہ کہ جس میں پہاڑ اور معدن تھا جناب بلال کو دے دیا(۳) _

بلاذری لکھتے ہیں کے رسول خدا(ص) نے زمین کے چار قطعے علی ابن ابی طالب(ع) کو عنایت فرما دیا دیئے تھے(۴) _

پس اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیئے کہ حاکم شرع اسلامی کو حق پہنچتا ہے کہ زمین خالص سے کچھ مقدار کسی معین آدمی کو بخش دے تا کہ وہ اس کے منافع سے استفادہ کرسکے_ پیغمبر(ص) نے بھی بعض افراد کے حق میں ایسا عمل انجام دیا ہے_ حضرت علی (ع) او رجناب ابوبکر اور جناب عمر اور جناب عثمان اس قسم کی بخشش سے نوازے گئے تھے_

بنابرین قوانین شرع اور اسلام کے لحاظ سے کوئی مانع موجود نہیں کہ رسول خدا(ص) فدک کی آراضی کو جناب زہراء (ع) کو بخش دیں، صرف اتنا مطلب رہ جائے گا کہ آیا جناب رسول خدا(ص) نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو بخشا بھی تھا یا نہیں، تو اس کے اثبات کے لئے وہ اخبار اور روایات جو ہم تک پیغمبر(ص) کی پہنچی ہیں کافی ہیں کہ آپ

____________________

۱) فتوح البلدان، ص ۲۱_

۲) فتوح البلدان، ص ۳۴_

۳، ۴) فتوح البلدان، ص ۲۷

۲۵۲

نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو بخش دیا تھا، نمونے کے طور پر ابوسعید خدری روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت ''وات ذالقربی حقہ'' نازل ہوئی تو رسول خدا(ص) نے جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا کہ فدک تمہارا مال ہے(۱) _

عطیہ نے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت ''وات ذالقربی حقہ'' نازل ہوئی تو جناب رسول خدا(ص) نے جناب فاطمہ (ع) کو اپنے پاس بلایا اور فدک آپ کو دے دیا(۲) _

علی (ع) بن حسین (ع) بن علی (ع) بن ابی طالب (ع) فرماتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو دے دیا تھا(۳) _

جناب امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ جب یہ آیت ''وَ ات ذالقربی حقہ'' نازل ہوئی تو پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ مسکین تو میں جانتا ہوں یہ ''ذالقربی '' کون ہیں؟ جبرئیل نے عرض کی یہ آپ کے اقرباء ہیں پس رسول خدا(ص) نے امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) اور جناب فاطمہ (ع) کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا کہ اللہ تعالی نے دستور اور حکم دیا ہے کہ میں تمہارا حق دوں اسی لئے فدک تم کو دیتا ہوں(۴) _

ابان بن تغلب نے کہا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق (ع) کی خدمت میں عرض کی کہ آیا رسول خدا(ص) نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو دیا تھا؟ آپ (ع) نے فرمایا کہ فدک تو خدا کی طرف سے جناب فاطمہ (ع) کے لئے معین ہوا تھا(۵) _

امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا کہ جناب فاطمہ (ع) حضرت ابوبکر کے پاس آئیں

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۲_ در منثور، ج ۴ ص ۱۷۷_

۲،۳) کشف الغمہ ج ۲ ص ۱۰۲_

۴، ۵) تفسیر عیاشی ج ۲ ص ۲۷۰_

۲۵۳

اور ان سے فدک کا مطالبہ کیا_

جناب ابوبکر نے کہا اپنے مدعا کے لئے گواہ لاؤ، جناب ام ایمن گواہی کے لئے حاضر ہوئیں تو ابوبکر نے ان سے کہا کہ کس چیز گواہی دیتی ہو انہوں نے کہا کہ میں گواہی دیتی ہوں کہ جبرئیل جناب رسول خدا(ص) کے پاس آئے اور عرض کی کہ اللہ تعالیی فرماتا ہے ''وَ ات ذالقربی حقہ'' پیغمبر(ص) نے جبرئیل سے فرمایا کہ خدا سے سوال کرو کہ ذی القربی کون ہیں؟ جبرئیل نے عرض کی کہ فاطمہ (ع) ذوالقربی ہیں پس رسول خا(ص) نے فدک کو دے دیا(۱) _

ابن عباس نے روایت کی ہے کہ جب آیت ''وَ ات ذالقربی حقہ'' نازل ہوئی، جناب رسول خدا(ص) نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو دے دیا(۲) _

اس قسم کی روایات سے جو اس آیت کی شان نزول میں وارد ہوئی ہیں مستفاد ہوتا ہے کہ جناب رسول خدا(ص) اللہ تعالی کی طرف سے مامور تھے کہ فدک کو بعنوان ذوالقربی فاطمہ (ع) زہراء (ع) کے اختیار میں دے دیں تا کہ اس ذریعے سے حضرت علی (ع) کی اقتصادی حالت ''کہ جس نے اسلام کے راستے میں _ جہاد اور فداکاری کی ہے '' مضبوط رہے _

ممکن ہے کہ کوئی یہ اعتراض کرے کہ ذالقربی والی آیت کہ جس کا ذکر ان احادیث میں ہوا ہے سورہ اسراء کی آیت ہے اور سورہ اسراء کو مکی سورہ میں شمار کیا جاتا ہے حالانکہ فدک تو مدینے میں اور خیبر کی فتح کے بعد دیا گیا تھا لیکن اس کے جواب میں دو مطلب میں سے ایک کو اختیار کیا جائے گا اور کہا جائے

____________________

۱) تفسیر عیاشی، ج ۲ ص ۲۸۷_

۲) در منثور، ج ۴ ص ۱۷۷_

۲۵۴

گا گر چہ سورہ اسری مکی ہے مگر پانچ آیتیں اس کی مدینہ میں نازل ہوئی ہیں_

آیت''و لا تقتلوا النفس' ' اور آیت''و لا تقربوا الزنا'' اور آیت ''اولئک الذین یدعون '' اور آیت''اقم الصلوة'' اور آیت''ذی القربی ''(۱) _

دوسرا جواب یہ ہے کہ ذی القربی کا حق تو مکہ میں تشریع ہوچکا تھا لیکن اس پر عمل ہجرت کے بعد کرایا گیا _

فدک کے دینے کا طریقہ

ممکن ہے کہ جناب رسول خدا (ص) نے فدک فاطمہ (ع) کو دو طریقوں میں سے ایک سے دیا ہو_ پہلا فدک کی آراضی کو آپ کا شخصی مال قرار دے دیا ہو_ دوسرا یہ کہ اسے علی (ع) اور فاطمہ (ع) کے___ خانوادے پر جو مسلمانوں کی رہبری اور امامت کا__ _ گھر تھا وقف کردیا ہو کہ یہ بھی ایک دائمی صدقہ اور وقف ہوجو کہ ان کے اختیار میں ___س دے دیا ہو_

اخبار اور احادیث کا ظاہر پہلے طریقے کی تائید کرتا ہے، لیکن دوسرا طریقہ بھی بعید قرار نہیں دیاگیا بلکہ بعض روایات میں اس پر نص بھی موجود ہے جیسے ابان بن تغلب کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو بخش دیا تھا آپ نے فرمایا کہ پیغمبر(ص) نے فدک وقف کیا اور پھر آپ ذی القربی کے مطابق وہ آپ(ع) کے اختیار میں دے دیا میں نے عرض کی کہ رسول خدا(ص) نے

____________________

۱) تفسیر المیزان تالیف استاد بزرگ علامہ طباطبائی ج ۱۳ ص ۲_

۲۵۵

فدک فاطمہ (ع) کو دے دیا آپ نے فرمایا بلکہ خدا نے وہ فاطمہ (ع) کو دیا(۱) _

امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول(ص) نے فاطمہ (ع) کو فدک بطور قطعہ دیا(۲) _

ام ہانی نے روایت کی ہے کہ جناب فاطمہ (ع) جناب ابوبکر کے پاس آئیں اور ان سے کہا کہ جب تو مرے گا تو تیرا وارث کون ہوگا؟ جناب ابوبکر نے کہا میری آل و اولاد، جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا پس تم کس طرح رسول اللہ کے ہمارے سوا وارث ہوگئے ہو، جناب ابوبکر نے کہا، اے رسول کی بیٹی خدا کی قسم میں رسول اللہ (ص) کا سونے، چاندی و غیرہ کا وارث نہیں ہوا ہوں_ جناب فاطمہ (ع) نے کہا ہمارا خیبر کا حصہ اور صدقہ فدک کہاں گیا؟ انہوں نے کہا اے بنت رسول (ص) میں نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ یہ تو ایک طمعہ تھا جو اللہ نے مجھے دیا تھا جب میرا انتقال ہوجائے تو یہ مسلمانوں کا ہوگا(۳) _

جیسا کہ آپ ملاحظہ کر رہے ہیں کہ ایک حدیث میں امام جعفر صادق (ع) تصریح فرماتے ہیں کہ فدک وقف تھا، دوسری حدیث میں امام زین العابدین نے اسے قطعہ سے تعبیر کیا ہے کہ جس کے معنی صرف منافع کا اسلامی او رحکومتی زمین سے حاصل کرنا ہوتا ہے، احتجاج میں حضرت زہراء (ع) نے ابوبکر سے بعنوان صدقہ کے تعبیر کیا ہے_

ایک اور حدیث میں جو پہلے گزرچکی ہے امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ رسول خدا (ص) نے حسن (ع) و حسین (ع) اور فاطمہ (ع) کو بلایا اور فدک انہیں دے دیا_

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۹۶ ص ۲۱۳_

۲) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۲_

۳) فتوح البلدان، ص ۴۴_

۲۵۶

اس قسم کی احادیث سے مستفاد ہوتا ہے کہ رسول خدا(ص) نے فدک کو خانوادہ فاطمہ (ع) و علی (ع) پر جو ولایت اور رہبری کا خانوادہ تھا اور اس کے منافع کو انہیں کے ساتھ مخصوص کردیا تھا_

''لیکن جن روایات میں وقف و غیرہ کی تعبیر آئی ہے وہ ان روایات کے مقابل کہ جن میں بخش دینا آیا ہے بہت معمولی بلکہ ضعیف بھی شمار کی جاتی ہیں لہذا صحیح نظریہ یہی ہے کہ فدک جناب فاطمہ (ع) کی شخصی اور ذاتی ملک تھا جو بعد میں ان کی اولاد کا ارث تھا_ صاحب کتاب اس قسم کی کوشش صرف ایک غرض کے ماتحت فرما رہے ہیں اور یہ غرض اہل علم پر کہ جنہوں نے نہج البلاغہ کی موجودہ زمانے میں جو شرح کی گئی ہے کا مطالعہ کیا ہے مخفی نہیں ہے لیکن شارح بھی حق پر نہیں ہے اور ان کی تصحیح کی کوشش بھی درست نہیں ہے '' مترجم

فدک کے واقعہ میں قضاوت

دیکھنا یہ چاہیئے کہ اس واقعہ میں حق جناب زہراء (ع) کے ساتھ ہے یا جناب ابوبکر کے ساتھ؟ مورخین اور محدثین نے لکھا ہے کہ جناب رسول خدا (ص) کی وفات کے دس دن بعد جناب ابوبکر نے اپنے آدمی بھیجے اور فدک پر قبضہ کرلیا(۱) _

جب اس کی اطلاع جناب فاطمہ (ع) کو ہوئی تو آپ جناب ابوبکر کے پاس آئیں اور فرمایا کہ کیوں تیرے آدمیوں نے میرے فدک پر قبضہ کیا ہے؟ حکم دو کہ وہ فدک مجھے واپس کردیں، جناب ابوبکر نے کہا_ اے پیغمبر(ص) کی بیٹی آپ کے

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۶۳_

۲۵۷

والد نے درہم اور دینار میراث میں نہیں چھوڑٹے آپ نے خود فرمایا ہے کہ پیغمبر(ص) ارث نہیں چھوڑا کرتے، جناب فاطمہ (ع) نے کہا کہ میرے بابا نے فدک اپنی زندگی میں مجھے بحش دیا تھا_ جناب ابوبکر نے کہا کہ آپ کو اپنے اس مدعا پر گواہ لانے چاہئیں پس علی (ع) ابن ابی طالب اور جناب امّ ایمن حاضر ہوء اور گواہی دی کہ رسول خدا(ص) نے فدک فاطمہ (ع) کو بخش دیا تھا، لیکن جناب عمر اور عبدالرحمن بن عوف نے کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ رسول خدا (ص) فدک کی آمدنی کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا کرتے تھے پس ابوبکر نے کہا اے رسول(ص) کی بیٹی تم سچ کہتی ہو اور علی (ع) اور امّ ایمن بھی سچ کہتے ہیں اور عمر اور عبدالرحمن بھی سچ کہتے ہیں اس واسطے کہ آپ کا مال آپ کے والد تھا_ رسول خدا (ص) آپ کا آذوقہ فدک کی آمدنی سے دیا کرتے تھے اور باقی کو تقسیم کردیتے تھے اور راہ خدا میں صرف کیا کرتے تھے(۱) _

بلاذری کہتے ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) جناب ابوبکر کے پا س گئیں اور فرمایا کہ فدک میرے والد نے میرے سپرد کیا تھا وہ کیوں نہیں؟ جناب ابوبکر سنے گواہوں کا مضالبہ کیا پس علی ابن ابی طالب اور جناب ام ایمن حاضر ہوئے اور گواہی دی جناب ابوبکر نے کہا تمہارے گواہوں کا نصاب ناقص ہے چاہیئے کہ دو مرد گواہی یا ایک مرد اور دو عورتیں گواہی دیں(۲)

علی ابن ابی طالب (ع) فرماتے ہیں کہ فا طمہ (ع) ابوبکر کے پاس گئیں اور فرمایا کہ میرے والد نے فدک میرے سپرد کیا تھا علی (ع) اور امّ ایمن نے گواہی بھی دی تم کیوں

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۶_

۲) فتوح البلدان، ص ۴۴_

۲۵۸

مجھے میرے حق سے محروم کرتے ہو_

جناب ابوبکر نے فرمایا کہ آپ سوائے حق کے اور کچھ نہیں فرماتیں فدک آپ کو دیتا ہوں پس فدک کو جناب فاطمہ (ع) کے لئے تحریر کردیا اور قبالہ آپ کے ہاتھ میں دے دیا جناب فاطمہ (ع) نے وہ خط لیا اور باہر آگئیں راستے میں جناب عمر نے آپ کو دیکھا اور پوچھا کہ کہاں سے آرہی ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ ابوبکر کے یہاں گئی تھی اور میں نے کہا کہ میرے والد نے فدک مجھے بخشا تھا اور ام ایمن نے گواہی دی تھی لہذا انہوں نے فدک مجھے واپس کردیا ہے اور یہ اس کی تحریر ہے جناب عمر نے وہ تحریر لی اور جناب ابوبکر کے پاس آئے اور کہا کہ تم نے فدک تحریر کرکے فاطمہ (ع) کو واپس کردیا ہے؟ انہوں نے کہا ہان، عمر نے کہا کہ علی (ع) نے اپنے نفع کے لئے گواہی دی ہے اور امّ ایمن ایک عورت ہے اس کے بعد اس تحریر کو پھاڑ ڈالا(۱) _

جناب فاطمہ (ع) نے ابوبکر سے کہا کہ امّ ایمن گواہی دیتی ہے کہ رسول خدا(ص) نے فدک مجھے بخش دیا تھا_ ابوبکر نے کہا اے دختر رسول (ص) ، خدا کی قسم میرے نزدیک رسول خدا(ص) سے زیادہ محبوب کوئی بھی نہیں ہے جب آپ وفات پاگئے تو میرا دل چاہتا تھا کہ آسمان زمین پر گرپڑے، خدا کی قسم عائشےہ فقیر ہو تو بہتر ہے کہ تم محتاج ہو_ کیا آپ خیال کرتی ہیں کہ میں سرخ و سفید کا حق تو ادا کرتا ہوں لیکن آپ کو آپ کے حق سے محروم کرتا ہوں؟ فدک پیغمبر(ص) کا شخصی مال نہ تھا بلکہ مسلمانوں کا عمومی مال تھا آپ کے والد اس کی آمدنی سے فوج تیار کرتے تھے اور خدا کی راہ میں خرچ کرتے تھے، جب آپ(ص) دنیا سے چلے گئے تو اس

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ص ۱۶ ص ۲۷۴_

۲۵۹

کی تولیت اور سرپرستی میرے ہاتھ میں آئی ہے(۱) _

اس قسم کی گفتگو جناب فاطمہ (ع) اور جناب ابوبکر کے درمیان ہوئی لیکن جناب ابوبکر نے جناب فاطمہ (ع) کی بات تسلیم نہیں کی اور جناب زہراء (ع) کو ان کے حق سے محروم کردیا_

اہل علم و دانش اور منصف مزاج لوگوں پر مخفی نہیں کہ جناب ابوبکر کا عمل اور کردار قضاوت اور شہادت کے قوانین کے خلاف تھا اور آپ پر کئی جہات سے اعتراض وارد کئے جاسکتے ہیں_

پہلا اعتراض:

فدک جناب زہراء (ع) کے قبضہ میں تھا تصرف میں تھا اس میں آپ سے گواہوں کا مطالبہ شریعت اسلامی کے قانوں کے خلاف تھا اس قسم کے موضوع میں جس کے قبضے میں مال ہو اس کا قول بغیر کسی گواہ اور بین ہ کے قبول کرنا ہوتا ہے، اصل مطلب ک ی ذی الید کا قول بغیر گواہوں کے قبول ہوتا ہے، یہ فقہی کتب میں مسلم اور قابل تردید نہیں ہے باقی رہا کہ جناب فاطمہ (ع) ذی الید اور فدک پر قابض تھیں یہ کئی طریقے سے ثابت کیا جاسکتا ہے_

اول: جیسا کہ پہلے نقل ہوچکا ہے ابوسعید خدری، عطیہ اور کئی دوسرے افراد نے گواہی دی تھی کہ رسول خدا (ص) نے اس آیت کے مطابق ''وَ ات ذالقربی حقہ'' فدک جناب فاطمہ (ع) کو دے دیا تھا، روایت میں اعطی کا لفظ وارد ہوا ہے بلکہ اس پر نص ہے کہ جناب رسول خدا(ص) نے اپنی زندگی میں فدک حتمی طور پر جناب فاطمہ (ع) کو بخش دیا تھا اور وہ آپ کے قبضہ اور تصرف میں تھا_

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۴_

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455