حکومت مہدی پر طائرانہ نظر

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر0%

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 284

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجة الاسلام والمسلمین آقای نجم الدین طبسی
زمرہ جات: صفحے: 284
مشاہدے: 110831
ڈاؤنلوڈ: 2649

تبصرے:

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 284 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110831 / ڈاؤنلوڈ: 2649
سائز سائز سائز
حکومت مہدی پر طائرانہ نظر

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۲

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر

حجة الاسلام والمسلمین آقای نجم الدین طبسی

۳

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفی غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمہ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے۲ ۳ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۴

اگرچہ رسول اسلام کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمہ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے،

۵

ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتو رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مولفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، فاضل علّام جناب نجم الدین طبسیکی گرانقدر کتاب” حکومت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) پر ایک طائرانہ نظر“ کو فاضل جلیل مولانا سید اخلاق حسین پکھنارو#ی اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۶

بیان حقیقت

خدا وند عالم ، مالک ملک و ملکوت کی لا تعداد عنایتوں ،اس کے ،ہر نفس لطف و مہربانی ،اہل بیت (علیہم السلام )کی بے شمار نوازشوں اور توجہات سے مجھ ناچیزاور بے بضاعت انسان کو توفیق نصیب ہوئی کہ حجة الاسلام والمسلمین آقای نجم الدین طبسی کی گرانقدر اورپرُ معنی کتاب (چشم اندازی بہ حکومت مہدی )کا ترجمہ کروں

الحمدللہ وہ پایہ تکمیل کو پہونچا، مورد نظر کتاب چند خصوصیات کی حامل ہے جنھیں خود مولف موصوف نے اپنی پیش گفتار میں بیان بھی کیا ہے، مختصر یہ کہ مولف نے ظہور سے قبل اور ظہور کے بعد حکومت حضرت مہدی پر لسبط و تفصیل سے روایتی انداز میں بحث کی ہے،

اور ظہور سے قبل و بعد کے اخلاقی،سیاسی ،اقتصادی حالات پر گفتگو اس انداز میں کی ہے کہ طرز تحریر آسان،اسلوب بیان سادہ ورواں ،نتیجہ خیز و قناعت بخش اور عام فہم ہے، قاری حضرات کو پڑھنے کے بعد اس کا بخوبی اندازہ ہوجائے گا ،نیز ذوق روایت رکھنے والے اہل درایت و بصیرت افراد موصوف کی کاوشوں سے محظوظ بھی ہوں گے، چونکہ عالم امکان میں ایک عالمگیر طاقت کے ظہور سے متعلق تشویش وا ضطراب ،جستجو و تلاش پائی جاتی ہے اس عالمی حاکم کا نام جوبھی دینا رکھ لے لیکن اس کی حقیقت کا کوئی بھی منکر نہیں ہے، اور پوری دنیا خصوصا عالم غرب اسی موضوع پر اپنی تمام تر صلاحیتوں کو صرف کر رہی ہے اور آیندہ کے لئے حفاظتی اسباب بھی فراہم کر رہی ہے۔ لہٰذا اہل اسلام خصوصاً شیعہ حضرات کے لئے یہ کتاب مختصر سرمایہ حیات اور زندگی بخش نوید ہے۔

۷

چونکہ مولف نے روایت کے قالب میں بہت سارے سوالات کا جواب بھی دیا ہے دیگر یہ کہ کتاب ھذا عربی و فارسی میں بھی شائع ہو چکی ہے امید ہے کہ قاری حضرات کے لئے پسندیدہ خاطر اور مفید ہو اور ان سے خواہش ہے کہ اپنے نیک ،ہمت افزا،اورخالص مشوروں سے راہنمائی کر کے مجھے شکریہ کا موقع دیں اور خداوند سبحان و رحمان سے دعا ہے کہ مولف موصوف نیز مجھ ناچیز اور تمام اہل ایمان و خداَّم امام زمانہ(عج) کوظہور کے وقت سچے اور باوفا ناصروں میں قرار دے اور ہماری لغزشوں، گناہوں اور غفلتوں کو اپنے فضل و کرم و احسان سے عفو و درگذر کرے اور راہ حق ،جادہ مستقیم کا مالک بناتے ہوئے طول عمر کی بیش بہا دولت نیز روز افزوں توفیقات سے نوازے۔

آمین

شکر گزار

اخلاق حسین پکھناروی

اہل رہتاس بہار ھند

۸

پیش گفتار

شوش دانیال کا علاقہ ابھی تازہ تازہ بعثی کافروں کے چنگل سے آزاد ہو اتھا،اور لوگ آہستہ آہستہ اپنے شہر اور وطن کو لوٹ رہے تھے، ان دنوں میں انھیں جانباز عزیزوں کے درمیان اپنے وجود کو فخر و برکت سمجھتے ہوئے اس شہر کی تاریخی مسجد میں امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ )سے متعلق علامہ مجلسی کی کتاب بحارالانوار سے درس کہنے لگا تو اس بات کی طرف متوجہ ہو اکہ اگر چہ امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) سے متعلق گوناگوں مباحث ،جیسے طول عمر کا راز،فلسفہ غیبت،عوامل ظہور وبیان ہوچکے ہیں لیکن قیام کی کیفیت ،حکومتی پروگرام و طریقہ کار، سربراہی کے طرز وغیرہ پر شایان شان تحقیق نہیں ہوئی ہے ۔اس وجہ سے میں نے عز م کر لیا کہ اس میدان میں بھی تحقیق لازم ہے، شاید اب تک لا جواب سوالوں کا جواب دے سکوں تمام پریشان کن سوالات میں ایک سوال یہ بھی ہے کہ امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ )کس طرح مختلف قوت و خیالات کے حامل سیاسی نظاموں کو ایک سیاسی نظام بنادیں گے۔

حضرت کا حکومتی پروگرام کس طرح ہے جس میں ظلم و جور دنیا سے مٹ جائے گا اور فساد کا خاتمہ اور بھوکوں کا وجود نہیں رہ جائے گا ۔

یہی فکر مجھے چار سال سے مذکورہ موضوع پر تحقیق کر نے کی جبری دعوت دے رہی تھی چنانچہ اسی تحقیق کا نتیجہ آپ کے سامنے موجود ہ کتاب ہے ۔

اس کتاب کے پہلے حصہ میں امام علیہ السلام کے ظہورسے قبل کشت وکشتار ،قتل و غارتگری، ویرانی و بربادی،قحط سالی،موت ،بیماری،ظلم و جور ، اضطراب،بے چینی ،گھٹن،حقوق پامالی اور تجاو ز سے لبریز دور کی تحقیق ہے۔

اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ لوگ اس وقت اپنے مقاصد میں کامیابی ،مکاتیب فکر،مختلف حکومتیں ،حقوق بشر کی دعویدار ،انسانی نیک بختی کا نعرہ لگانے والے زمانے کے اضطراب و ناگفتہ بہ حالا ت سے مایوس ہوچکے ہوں گے اور مصلح جہانی کے ظہور کے منتظر نجات کے امیدوار ہوں گے ۔

۹

دوسرا حصہ ،حضرت مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) کے انقلاب اور تحریک و قیام کی کیفیت پر مشتمل ہے اس انقلاب کی شان یہ ہے کہ اس کا آغاز خانہ کعبہ سے حضرت کے اعلان پر ہوگا اور آپ کے خالص اور حقیقی ناصر و مدد گار دنیا کے گوشہ گوشہ سے آکر آپ سے ملحق ہو جائیں گے توفوجی چھاونی ،کوتوالی بنائی جائے گی اور منظم سپاہی اورکمانڈر کا انتخاب عمل میں آئے گا اور وسیع پیمانہ پر جنگ کی تیاری ہوگی ۔

حضرت مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) ظہور کریں گے تو دنیا سے ظلم و جور مٹا دیں گے یاد رہے کہ یہ دنیا یا سماج و معاشرہ حجاز یا خلیج فارس و ایشیا میں محدود نہیں بلکہ اس کی لا محدود وسعت تمام کرہ زمین کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

ظلم و جور سے پرُ معاشرہ کی اصلاح ایک مشکل اور دشوار کام ہے اور اس کا مدعی در حقیقت ایک بہت بڑے معجزہ کا مدعی ہے جو اسی کے ہاتھوں انجام پذیر ہوگا ۔

کتاب کا تیسرا حصہ آخری امام علیہ السلام کی حکومت کی طرف اشار ہ ہے کہ آپ بگڑے ہوئے ،سر کش طاغی سماج کا ادارہ کرنے،اسلامی حکومت کی تشکیل دینے کے لئے ایک قادر اور کار آمد حکومت اپنے قوی اورشجاع انصار ،جیسے حضرت عیسیٰ، سلمان فارسی ،مالک اشتر ،صالح ،سلف صالح وکے ذریعہ تشکیل دیں گے، اگر چہ ان لوگوں کی کار کر دگی حکومت جور میں بھی لائق اہمیت و قابل قدر ہے ،لیکن انکا اصلی کردار اور بنیادی کام حضرت مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) کے دور حکومت میں اصلاح اور تعمیر ہے ۔

جو کچھ پیش گفتار میں بیان کیا گیا ہے دسیوں شیعہ اور سنی کتابوں سے ماخوذ نیز سیکڑوں روایت کی مبسوط طور پر چھان بین ،برہان و استدلال کے ساتھ اس کتاب میں ذکر کیا گیا ہے۔

۱۰

توقع ہے کہ یہ کتاب ادھورے اور نارسا انداز میں سہی ظہور کے بعد اسلامی دنیا میں آل محمد (علیہم السلام )کی عمومی عدالت اور ا س کی و سعت کو بیان کرے اور امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) کی خدمت میں مقبول قرار پائے اور ایرانی مسلمان نیز تمام حقیقی و سچے منتظرین کے لئے قابل استفادہ واقع ہو اور انھیں حضرت کے ظہور کی مقدمہ سازی میں توفیق و تائید کرے۔

خدا وند عالم سے دعا ہے کہ مرجع عالی قدر حضرت امام خمینی جنھوں نے ایران میں حکومت مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) کی ایک جھلک دیکھائی ہے ،انہیں انبیاء و معصومین (علیہم السلام )کے ساتھ محشور کرے، نیز اہل بیت اور ان کی حکومت کے خادموں کو توفیق دے اور اسلامی ام القریٰ (ایران)کو اپنی حفاظت میں رکھتے ہوئے تائید فرمائے، یہاں پر چند نکتے کی جانب توجہ دلانا ضروری ہے :

۱ ۔ہم ہر گز اس بات کے مدعی نہیں ہیں کہ کتاب ھٰذا میں مذکورہ باتیں نئی اور جدید ہیں ؛ اس لئے کہ انھیں ساری روایات کو گذشتہ علماء نے جمع کیا ہے، اور بعض مقامات پر نتیجہ بھی اخذکیا ہے؛ پھر بھی اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کوشش کی گئی ہے کہ حتی الامکان خاص اصطلاحوں اور اختلافی باتوں سے گریز کیا جائے ،اور جدید لب و لہجہ نیز سادہ و آسان قالب میں ڈھال کر بیان کیا جائے تاکہ عوام بھی استفادہ کر سکیں۔

۱۱

۲ ۔جو ماخوذات روایت سے حاصل ہیں اور انھیں کسی طرف استناد بھی نہیں دیا گیا ہے،وہ مولف کی ذاتی رائے ہے۔ اس لحاظ سے دقت نظر اور چھان بین نیز ایک روایت کا دوسری روایت سے مقایسہ کر نے پر ،دیگر نئے مطالب کا حصول ممکن ہے۔

۳ ۔اسی طرح یہ بھی ادعاء نہیں ہے کہ اس کتاب کی تمام موردا ستناد روایات صحیح اور بے خدشہ ہیں ؛بلکہ کوشش اس بات کی کی گئی ہے کہ جو کچھ معتبر محدثین اور قابل وثوق مولفین نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے، اس میں ذکر ہو جائے ۔

اسی طرح کچھ مقامات کے علاوہ، روایات کی سند سے بحث نہیں کی گئی ہے، چونکہ مقام نفی واثبات میں نہیں تھے۔ اس کے علاوہ بہت سارے مقامات پر تو اتر اجمالی کے ساتھ روایات کے صدور کا یقین ہوگیا؛ خصوصا وہ روایات جو اہل بیت سے مروی ہیں ۔

۴ ۔اس کتاب کی روایات معجم احادیث(۱) الامام المہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) سے قبل جمع و تالیف ہوئی ہیں۔ اس بناء پر اس وادی میں تحقیق کرنے والے شائقین حضرات کو اس کتاب کی جانب جو اس کے بعد بحمد اللہ جمع و تالیف ہوئی ہے رجوع کرنے کا مشورہ دیتا ہوں ۔

۵ ۔بہت سارے مقامات پرروایات میں کلمہ (الساعة،القیامة)کی حضرت مہدی کے ظہور سے تفسیر کی گئی ہے ۔اس لحاظ سے جو روایات شرائط یا علائم الساعة والقیامة کے عنوان سے ذکر کی گئی ہیں ،اس کتاب میں علائم ظہور کے عنوان سے بیان کی گئی ہیں ۔

____________________

(۱)ناچیز نے حوزہ علمیہ قم کے چند افاضل کی مدد سے کتاب ھٰذا کو۵ جلد وںمیں تالیف کیا ہے اور بنیاد اسلامی قم نے۱۴۱۱قمری میں شائع کیا ہے انشاء اللہ ۔ آئندہ نظر ثانی بھی کروں گا

۱۲

۶ ۔ اس کتاب کے بعض مطالب مزید تحقیق اور تلاش طلب ہیں؛ اگر چہ کوشش کی گئی ہے کہ اس سلسلے میں توضیح دی جائے امید ہے کہ خدا وندعالم کی عنایتوں سے دوسری طباعت مزید دقت نظر و تحقیق کے ساتھ منظر عام پر آئے ۔

آخر کلام میں من لم یشکر المخلوق لم یشکر الخالق کے عنوان سے ضروری ہے کہ اپنے دوستوں اور بھائیوں خصوصا حجة الاسلام محمد جواد ،حجة الاسلام محمد جعفر طبسی کی راہنمائی اور حجة الاسلام رفیعی وسید محمد حسینی شاہرودی کے دوبارہ لکھنے کی وجہ سے اور کتاب کے مطالب کی تنظیم پر شکر گذار و قدر داں ہوں۔

نجم الدین طبسی

قم۱ ۳۷۳ ھ ش

۱۳

پہلا حصَّہ

دنیا ظہور سے قبل

جب تک ہم روشنی اور خو شحالی میں ہوتے ہیں ،اس کی قدر و قیمت کا کم اندازہ ہوتا ہے ہمیں اس وقت اس کی حقیقی قدرو قیمت معلوم ہو گی جب ہم ظلمت و تاریکی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں گھر جائیں گے ۔

جب سورج افق آسمان پر درخشاں ہوتا ہے ہم اس کی طرف کم توجہ دیتے ہیں ، لیکن جب بادل میں چھپ جاتاہے اور ایک مدت تک اپنی نورانیت و حرارت سے محروم کر دیتا ہے تو اس کی ارزش کا اندازہ ہونے لگتا ہے ۔

ظہورآفتاب ولایت کے لازمی ہونے کا ہمیں اس وقت احساس ہو گاجب ظہور سے پہلے بے سرو سا مانی اور نا امنی کے ماحول سے با خبر ہوں ،اور اس وقت کے نا گفتہ بہ حالات کو درک کرلیں۔

اس زمانے کی کلی طور پر نقشہ کشی ،جو روایات سے ماخوذہے ،درج ذیل ہے ۔

امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) کے ظہور سے قبل فتنہ و فساد ،ہرج ومرج ،بے سرو سامانی، ناامنی، ظلم و استبداد ،عدم مساوات،غارتگری ،قتل و کشتار ،اورتجاوز تمام عالم کو محیط ہوگا اور زمین ظلم و ستم اور ناانصافی سے لبریز ہوگی ۔

خونین جنگ کا آغاز ملتوں اور ممالک کے درمیان ہو چکا ہوگا ،زمین کشتوں سے بھری ہوگی، قتل ناحق اس قدر زیادہ ہوگا کہ کوئی گھر یا خاندان ایسا نہیں ہوگا جسکے ایک یا چند عزیز قتل نہ ہوئے ہوں گے۔ مرد و جوان جنگوں کے اثر سے ختم ہو چکے ہوں گے یہاں تک کہ ہر ۳/ آدمی میں۲ / آدمی قتل ہو چکا ہو گا ۔

قوم و ملت کے درمیان جان ومال بے وقعت، راستے غیر محفو ظ ہوں گے ، خوف، وحشت ہر انسان کے دل میں بیٹھی ہوگی ،ناگہانی اورحادثاتی موتوں کی کثرت ہو گی، معصوم بچے بد ترین شکنجوں کے ذریعہ ظالم وجابر حکام کے ہاتھوں قتل کئے جائیں گے، سڑکوں اور چوراہوں پر حاملہ عورتوں کے ساتھ تجاوز ہوگا، جان لیوا بیماریاں لاشوں کی بد بو یا انواع و اقسام ہتھیار کے استعمال سے عام ہو جائیں گی ،

۱۴

کھانے پینے کی اشیاء میں کمی ہو گی ، مہنگائی و قحط سے لوگوں کی زندگی مفلوج ہو جائے گی،زمین بیج قبول کرنے نیزاُسے اگانے سے انکار کردے گی، بارش نہیں ہوگی ،یا اگر ہوگی بھی تو بے وقت اور ضرر رساں ہوگی قحط ایسا پڑے گا کہ لوگوں کی زندگی اتنی دشوار و مشکل ہو جائے گی کہ بعض لوگ قوت لایموت فراہم نہ کرنے کی وجہ سے، اپنی عورتوں اور بچیوں کو معمولی غذا کے مقابل دوسرے کے حوالے کر دیں گے ۔

ایسے مشکل و نا ساز گار ماحول میں انسان نا امیدی و قنو طیت کا شکار ہو جائے گا اور اس وقت موت اللہ کا بہترین ہدیہ سمجھی جائے گی،اور صرف و صرف لوگو ں کی آرزو موت بن جائے گی نیز ایسے ماحول میں جب کوئی شخص لاشوں کے درمیان یا قبر ستان سے گذر رہا ہوگا تو اس کی آرزو بس یہی ہوگی کہ کاش میں بھی انھیں میں سے ایک ہوتا تاکہ ذلت کی زندگی سے آسودہ خاطر ہوتا۔

اس وقت کوئی طاقت ،پارٹی ،انجمن نہ ہوگی جو اس بے سرو سامانی،تجاوز ، غارتگری کا سد باب کرے اور ستمگروں و طاقتوروں کو ان کی بد کر داری کی سزا دے۔ لوگوں کے کانوں سے کوئی نجات کی آواز نہیں ٹکرائے گی،سارے جھوٹے دعویدار انسان کی نجات کا جھوٹا نعرہ لگانے والے خائن اور جھوٹے ہوں گے اور انسان صرف ایک مصلح الٰہی ،خدائی معجزہ کا انتظار کرے گا اور بس، اس وقت جب کہ یاس و ناامیدی تمام عالم کو محیط ہوگی، خداوند عالم اپنے لطف و رحمت سے مہدی موعود (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ )، کو مدتوں غیبت و انتظار کے بعد بشریت کی نجات کے لئے ظاہر کرے گا اور ہاتف غیبی کی آسمان سے ایسی نداآئے گی جو ہرایک انسان کے کان سے ٹکرائے گی،”کہ اے دنیا والو! ستمگروں کی حاکمیت کا زمانہ ختم ہو گیا ہے، اور اب عدل الٰہی سے پرُ حکومت کا دور ہے، اور مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) ظہور کر چکے ہیں۔ یہ آسمانی آواز، انسان کے بے جان قالب میں امید کی روح پھونک دے گی اور محرومین ومظلومین کو نجات کا مژدہ سنائے گی۔

یقینا مذکورہ بالا ماحول کا ادراک کرنے کے بعد مصلح الٰہی کے ظہور کی ضرورت کا احساس کر سکتے ہیں نیز حضرت مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) کی عادلانہ حکومت کی وسعت کا اندا زہ لگا سکتے ہیں۔

یہاں پر امام علیہ السلام کے ظہور سے قبل نا سازگار حالات کو روایات کی نظر میں پانچ فصلوں میں ذکر کریں گے۔

۱۵

پہلی فصل

حکومت

ادیان و مکاتب کے قوانین، معاشرے میں اس وقت اجرا ہو سکتے ہیں جب حکومت اس کی پشت پناہی کرے ۔اس لئے کہ ہر گروہ حکومت کا طالب ہے تاکہ اپنے مقاصد کا اجرا کر سکے، اسلام بھی جب کہ تمام آسمانی آئین میں بالا تر ہے ،اسلامی حکومت کا خواہاں رہا ہے حکومت حق کا وجود اورا س کی حفاظت اپناسب سے بڑا فریضہ جانتا ہے ۔پیغمبر اسلام نے اپنی تمام کوشش اسلامی حکومت کی تشکیل میں صرف کر دی اور شہر مدینہ میں اس کی بنیاد ڈالی ،لیکن آنحضرت کی وفات کے بعد،اگر چہ معصومین و علماء، حکومت اسلامی کی آرزو رکھتے تھے معدودہ چندکے علاوہ ، حکومت الٰہی نہیں تھی اور حضرت مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) کے ظہور تک اکثر باطل حکومتیں ہوں گی۔

جو روایات پیغمبر و ائمہ (علیہم السلام )سے ہم تک پہنچی ہیں ان میں حکومتوں کا عام نقشہ حضرت مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) کے قیام سے قبل بیان کیا گیا ہے ، ہم ان چند موارد کی طرف اشار ہ کریں گے:

الف)حکومتوں کا ظلم

ظہور سے پہلے من جملہ مسائل میں ایک مسئلہ جو انسان کی اذیت کا باعث ہوگا ،وہ حکومتوں کی طرف سے لوگوں پر ہونے والا ظلم و ستم ہے ، رسول خدا اس سلسلے میں فرماتے ہیں:” زمین ظلم و ستم سے بھر چکی ہوگی حدیہ ہے کہ ہر گھر میں خوف ودہشت کی حکمرانی ہوگی “(۱)

____________________

(۱)ابن ابی شیبہ،المصنف ،ج۱۵،ص۸۹ ؛کنزل العمال، ج۱۴،ص۵۸۴

۱۶

حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” زمین ظلم و استبداد سے پر ہوگی؛ یہاں تک کہ خوف و اندوہ ہر گھر میں داخل ہوچکاہوگا “(۱) امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” حضرت قائم (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) خوف و دہشت کے دور میں ظہور کریں گے “(۲) یہ خوف و ہراس وہی ہے جو اکثر ستمگرو خود سر حاکموں سے وجود میں آتا ہے ؛ اس لئے کہ آنحضرت کے ظہور سے پہلے ،ظالم دنیا کے حاکم ہو ں گے۔

امام محمد باقر (علیہ السلام)فرماتے ہیں :” مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) اس وقت قیام کریں گے جب معاشرے کی رہبری ستمگروں کے ہاتھ میں ہو گی “(۳)

ابن عمر کہتے ہیں :غیر تمند، ذی حیثیت اور صاحب ثروت انسان آخر زمانہ میں اس شکنجے اور اندوہ سے جو حاکموں سے پہنچیں گے مرنے کی آرزوکرےگا۔(۴)

قابل توجہ بات یہ ہے کہ رسول خدا کے ماننے والے صرف اجنبی حکومتوں سے رنجورنہیں ہوں گے، بلکہ اپنی خود مختار ظالم حکومت سے بھی انھیں تکلیف ہوگی ؛اس درجہ کہ زمین اپنی تمام وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہو جائے گی ، اور آزادی کے احساس کے بجائے، خود کو قید خانہ میں محسوس کریں گے۔ جیسا کہ فی الحال ایران کے علاوہ دیگر اسلامی ممالک مسلمانوں کے ساتھ اچھا بر تاو نہیں کر رہے ہیں بلکہ اجنبی بنے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں روایات میں اس طرح آیا ہے :

____________________

(۱)کنزل العمال، ج۱۴،ص۵۸۴؛احقاق الحق، ج۱۳،ص۳۱۷

(۲)شجری ،امالی، ج۲،ص۱۵۶

ملاحظہ ہو:نعمانی ،غیبة، ص۲۵۳؛طوسی، غیبة، ص۲۷۴،اعلام الوری، ص۴۲۸؛مختصر بصائر الدرجات، ص۲۱۲اثبات الہداة،ج۳، ص۵۴۰؛حلیةالابرار،ج۳،ص۶۲۶؛بحارالانوار، ج۵۲، ص۲۳؛بشارة الاسلام ،ص۸۲؛عقد الدرر، ص۶۴؛القول المختصر ،ص۲۶ ؛متقی ہندی، برہان ص۷۴؛سفارینی لوائح، ج۳ ،ص۸

(۳)ابن طاووس، ملاحم، ص۷۷

(۴)عقد الدرر ،ص۳۳۳

۱۷

رسول خدا فرماتے ہیں :” آخر زمانہ میں شدید مصیبت ،کہ اس سے سخت ترین مصیبت سنی نہ ہو گی،اسلامی حُکاّم کی طرف سے میری امت پر آئے گی ؛اس طرح سے کہ زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہو جائے گی ،اور ظلم و ستم سے ایسی لبریز ہو گی ، کہ مومن ظلم سے چھٹکارے کے لئے ،پناہ کا طا لب ہو گا لیکن کوئی جائے پناہ نہ ہوگی “(۱)

بعض روایتوں میں اپنے رہبروں کے توسط مسلمانوں کے ابتلا کی تصریح ہوتی ہے ان ظالم حکام کے پیچھے ایک مصلح کل کے ظہور کی نوید دی گئی ہے ،ان روایات میں تین قسم کی حکومت کا، جو رسول خدا کے بعد قائم ہوتی ہے ذکر آیا ہے ۔جویہ ہیں تین قسم کی حکومتیں ہیں :خلافت ،امارت و ملوکیت ،اس کے بعد جابر حاکم ہوں گے ، رسول خدا فرماتے ہیں :” میرے بعد خلفاء ہوں گے خلفاء کے بعد امراء اور امراء کے بعد بادشاہ ان کے بعد جابر و ستمگر حاکم ہوں گے؛ پھر حضرت مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ) ظہور کریں گے “(۲)

ب)حکومتوں کی تشکیل

لوگ اس وقت عیش و عشرت کی زندگی گذار سکتے ہیں جب حکومت کا کار گذار با شعور و نیک ہو۔ لیکن اگر غیر مناسب افراد لوگوں کے حاکم ہو جائیں گے تو فطری بات ہے کہ انسان رنج و الم میں مبتلاء ہوگا؛ بالکل وہی صورت حال ہو گی جو حضرت مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ )کے ظہور سے قبل کے زمانے میں حکومتیں خائن اور فاسق و فاجر ستمگر کے ہاتھ میں ہوں گی رسول خدا فرماتے ہیں: ”ایک زمانہ آئے گا کہ حکام ستم پرور ،فرمانروا خائن قاضی،فاسق اور وزراء ستمگر ہوں گے“(۳)

ج)حکومتوں میں عورتوں کا نفوذ

آخر زمانہ سے متعلق حکومتوں کے مسائل میں ایک مسئلہ ،عورتوں کا تسلط اور ان کا نفوذ ہے

____________________

(۱)حاکم ،مستدرک ،ج۴،ص۴۶۵؛عقد الدرر، ص۴۳؛احقاق الحق ،ج۱۹، ص ۶۶۴

(۲)المعجم الکبیر ،ج۲۲،ص۳۷۵؛الا ستیعاب ،ج۱،ص۲۲۱؛فردوس الاخبار ،ج۵، ص۴۵۶؛ کشف الغمہ، ج۳، ص۲۶۴؛اثبات الہداة، ج۳ ،ص۵۹۶

(۳)شجری ،امالی ،ج۲،ص۲۲۸

۱۸

یاوہ ڈائریکٹ لوگوں کی حاکم ہوں گی (جیسا کہ بعض ممالک میں عورتیں حاکم ہیں)یا حکام ان کے ماتحت ہوں گے اس مطلب میں ناگوار حالات کی عکاسی ہے ، حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: ” ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ فاسد و زنا کار لوگ ناز و نعمت سے بہرہ مند ہوں گے اور پست و ذلیل افراد پوسٹ و مقام حاصل کریں گے ،اور انصاف پرور افراد ناتواںو کمزور ہوں گے“ پوچھا گیا : یہ دور کب آئے گا؟ تو امام (علیہ السلام)نے فرمایا: ”ایسا اس وقت ہوگا جب عورتیں اور کنیزیں لوگوں کے امور پر مسلط ہوںاور بچے حاکم ہو جائیں “(۱)

د)بچوں کی فرمانروائی

حاکم کو تجربہ کا ر اور مدیر ہونا چاہئے تاکہ لوگ سکون و اطمینان سے زندگی گذار سکیں ۔اگر ان کے بجائے، بچے یا کوتاہ نظر، امور کی ذمہ داری لے لیں، تو رونما ہونے والے فتنہ سے خدا وند عالم سے پناہ مانگنی چاہئے ۔

اس سلسلے میں دو روایت کے ذکر پر اکتفاء کرتے ہیں :رسول خدا نے فرمایا:” ۷۰ ویں سال کے آغاز اور بچوں کی حکومت سے خدا کی پناہ مانگنی چاہئے“(۲)

سعید بن مسیب کہتے ہیں :” ایک ایسا فتنہ رونما ہوگا۔ جس کی ابتداء بچوں کی بازی ہے“(۳)

ھ)حکومت کی نا پایداری

وہ حکومت اپنے ملک کے لوگوں کی خدمت پرقادر ہے جو سیاسی دوا م رکھتی ہو ؛اس لئے کہ اگر تغییر پذیر ہو جائے تو بڑے کاموں کے انجام دینے پر قادر نہ ہوگی ۔

____________________

(۱)کافی، ج۸، ص۶۹؛بحارلانوار، ج۵۲،ص۲۶۵

(۲)احمد ،مسند،ج۲،ص۳۲۶،۳۵۵،۴۴۸

(۳)ابن طاوس،ملاحم، ص۶۰

۱۹

آخر زمانہ میں حکومتیں پایدار نہیں ہوں گی کبھی ایسا بھی ہوگا کہ صبح کو حکومت تشکیل پائے تو غروب کے وقت زوال پذیر ہوجائے اس سلسلے میں امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں : ”تم کیسے ہوگے جب تم لوگ کسی امام ہادی اور علم و دانش کے بغیر زندگی گذار رہے ہو گے اور ایک دوسرے سے نفرت و بیزاری کے طالب ہو گے ؟ اور یہ اس وقت ہوگا جب تم آزمائے جاو اور تمہارے اچھے بُرے لوگو ں کی پہچان ہو جائے اور خوب اُبال آجائے اس وقت جب تلواریں کبھی غلاف میںتو کبھی باہر ہو ں گی ۔جنگ کے شعلے بھڑک رہے ہوں ایک حکومت دن کی ابتداء میں تشکیل پائے گی اور آخر روز میں زوال پذیر ہوجائے گی “(گر جائے گی )(۱)

و)ملک کا ادارہ کرنے سے حکومتیں بے بس و مجبور

امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) کے ظہور سے قبل ظا لم حکومتیں ناتواں ہو جائیں گی اور یہ حضرت مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) کی عالمی حکومت کے قیام کا مقدمہ ہو گا ۔

حضرت امام سجاد (علیہ السلام) آیہ شریفہ( حَتّٰی اِذَارَاواْ مَایُوْعَدُ وْنَ فَسَیَعْلَمُوْنَ مَنْ اَضْعَفُ نَاصِراً وَ اقلّ عَدداً ) (۲) جب اس وقت دیکھیں گے کہ وہ کیا وعدہ ہے جو اس آیت میں کیا گیا ہے بہت جلد ہی وہ جان لیں گے کہ کس کے پا س ناصر کم اور ناتوان ہیں،حضرت قائم (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) اصحاب و یاوراور آپ کے دشمنوں سے متعلق ہے جب حضرت قائم (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ )قیام کریں گے تو آپ کے دشمن سب سے کمزور و ناتواں دشمن ہوں گے نیز سب سے کم فوج و اسلحے رکھتے ہوں گے “(۳)

____________________

(۱)کمال الدین ،ج۲،ص۳۴۸

(۲) سورہ جن آیت۲۴

(۲) کافی،ج۱،ص۴۳۱؛نورالثقلین،ج۵،ص۴۴۱؛احقاق الحق، ج۱۳،ص۳۲۹؛ینابیع المودة، ص۴۲۹؛المحجہّ، ص۱۳۲

۲۰