حکومت مہدی پر طائرانہ نظر

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر0%

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 284

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجة الاسلام والمسلمین آقای نجم الدین طبسی
زمرہ جات: صفحے: 284
مشاہدے: 110812
ڈاؤنلوڈ: 2647

تبصرے:

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 284 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110812 / ڈاؤنلوڈ: 2647
سائز سائز سائز
حکومت مہدی پر طائرانہ نظر

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ظہور کریں گے، توکوئی مسلمان غلام نہیں ہوگا مگر یہ کہ حضرت اسے خرید کر آزاد کر دیں گے نیز کوئی قرضدار باقی نہیں بچے گاکیونکہ حضرت اس کے قرض کو ادا کردیں گے “(۱)

امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں :جب مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے، تو سب سے پہلے مدینہ جائیں گے اور وہاں ہاشمی قیدیوں کو آزاد کریں گے ،(۲) پھر ابن ارطاة کہتا ہے :-وہ کوفہ جائیں گے اور وہاں جاکر بنی ہاشم کے قیدیوں کو آزاد کریں گے ۔

طاووس یمانی کہتے ہیں : حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی خصوصیت یہ ہے کہ اپنے حکام و کار گذار وں کی بہ نسبت سخت اور بخشش اموال میں ہاتھ کھلے ،اور بے چارہ ،بے نوا و مسکین افراد کی بنسبت مہربان و کریم ہیں(۳)

ابو روبہ کہتا ہے :حضرت بینواوں کو اپنے ہاتھوں سے عطا کریں گے۔(۴)

احتمال ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ حضرت محرومین و بے چارہ افراد پر بخشش کرنے میں خصوصی توجہ رکھیں اور انھیں زیادہ سے زیادہ مال عطا کریں گے ،جو بیت المال میں ہر مسلمان کا حق ہے اس کے علاوہ بھی صلاح کے مطابق عطا کریں گے ۔

ب)آبادی

حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانے کی آبادی کی اہمیت و عظمت سمجھنے کے لئے

____________________

(۱)عیاشی، تفسیر ،ج۱،ص۶۴؛بحار الانوار،ج۵۲،ص۲۲۴

(۲)ابن حماد، فتن، ص۸۳؛الحاوی للفتاوی، ج۲،ص۶۷؛متقی ہندی، برہان، ص۱۱۸

(۳)عقد الدرر، ص۱۶۷

(۴)ابن طاو س، ملاحم، ص۶۸؛عقدالدرر، ص۲۲۷

۲۴۱

ضروری ہے کہ ظہور سے قبل ویرانی و تباہی نظر میں ہو یقینا جب دنیا تباہ کن جنگوں ، متعدد افراد کی ہواو ہوس کا لقمہ بنی ہو اور مدتوں آتش جنگ میں جلی اور کشتوں پہ کشتے د یا ہو تو اسے آبادی کی زیاد ہ ضرورت ہے حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)اسے آباد کرنے کے لئے آئیں گے اور پوری دنیا میں آبادی کو قابل دید بنا دیں گے ۔

حضرت علی(علیہ السلام) فرماتے ہیں : ”اپنے دوستوں کو مختلف سر زمینوں کی جانب روانہ کریں گے جو حضرت کی بیعت کر چکے ہوں گے انھیں شہروں کی طرف بھیج کر عدل و احسان کا حکم دیں گے ان میں سے ہر ایک کسی نہ کسی سر زمین کا حاکم ہوگا پھر اس کے بعد دنیا کے تمام شہر عدل و احسان کے ساتھ آباد ہو جائیں گے“(۱)

امام محمدباقر(علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں :”حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے دوران حکومت میں غیرآباد و ویران جگہیں نہیں ہوں گی “(۲)

نیز آنحضرت فرماتے ہیں :” حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کو فہ میں وارد ہونے کے بعد ایک گروہ کو حکم دیں گے کہ امام حسین(علیہ السلام) کے روضہ مبارک کی پشت سے(شہر کربلا کے باہر)غریین کی طرف نہر کھودیں تاکہ شہر نجف تک پانی پہنچے اور اس نہر پر پُل بنائیں گے“(۳)

امام صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں:کہ جب ہمارے قائم(علیہ السلام) قیام

____________________

(۱)الشیعہ والرجعہ ،ج۱،ص۱۶۸

(۲)کما ل الدین ،ج۱،ص۳۳۱؛الفصول المھمہ، ص۲۸۴؛اسعاف الراغبین، ص۱۵۲؛وافی، ج۲،ص۱۱۲؛ نورالثقلین ، ج۲،ص۱۲۱؛احقا ق الحق ،ج۱۳،ص۳۴۲

(۳)مفید ،ارشاد، ص۳۶۲؛طوسی، غیبة، ص۲۸۰؛روضة الواعظین، ج۲،ص۲۶۳؛الصراط المستقیم ،ج۲،ص۲۶۲؛ اعلام الوری، ص۴۳۰؛المستجاد، ص۵۰۹؛کشف الغمہ، ج۳،ص۲۵۳؛بحار الانوار،ج۵۲،ص۳۳۱؛وج۹۷،ص۳۸۵

۲۴۲

کریں گے، تو کوفہ کے مکانات کربلا اور حیرہ کی نہر سے متصل ہو جائیں گے“(۱)

یہ روایت شہر کوفہ کی آبادی میں وسعت کی خبر دیتی ہے ایک طرف حیرہ ،جو فی الحال کوفہ سے ۶۰/ کیلو میٹر دور ہے اور دوسری سمت سے کربلا سے متصل ہوگا جس کا فاصلہ اتنا ہی ہے۔

حبہ عرنی کہتے ہیں : ”حضرت امیر المو منین (علیہ السلام) حیرہ شہر کی جانب روانہ ہوئے تو وہاں پر شہر کوفہ کی طرف اپنے ہاتھوں سے اشارہ کر کے کہا: قطعی طور پر شہر کوفہ حیرہ شہر سے متصل ہو جائے گا اور اتنا قیمتی و گراں شہر ہوگا کہ یہا ں کی ایک میٹر(۲) زمین، مہنگی و گران قیمت پر خرید و فروش ہو گی“(۳)

شاید کوفہ کی وسعت اور اس کی زمینوں کی گرانی اس وجہ سے ہوگی کہ وہاں اسلامی حکومت کا مرکز(پایہ تخت ) بنے گا روایات کے مطابق مومنین وہاں چلے جائیں گے ۔

اسی طرح حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے دوران حکومت راستے کشادہ ہو جائیں گے اور خاص قوانین اس سلسلے میں وضع کئے جائیں گے ،امام محمد باقر(علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں :

”جب حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ)قیام کریں گے، تو شہر کوفہ جائیں گے اس وقت کوئی مسجد مینار،اورگنگرہ والی نہیں ہوگی سب کو حضرت ویران و خراب کر ڈالیں گے اور اسے اس طرح بنائیں گے کہ بلندی نہ ہو نیز راستے کشادہ کر دیں گے“(۴)

____________________

(۱)طوسی، غیبة، ص۲۹۵؛بحار الانوار،ج۵۲،ص۳۳۰،۳۳۷وج۹۷،ص۳۸۵ارشاد، مفید، میں اسی طرح آیا ہے ”اتصلت بیوت الکوفه بنهری کربلا “ملاحظہ ہو:روضةا لواعظین، ج۲، ص۲۶۴؛ اعلام الوری ،ص۴۳۴؛خرائج ، ج۳،ص۱۱۷۶؛صراط المستقیم ،ج۲،ص۲۵۱؛المحجہ، ص۱۸۴

(۲)ہر ذراع۵۰/اور ۷۰/ سینٹی میٹر کے درمیان ہے

(۳)التہذیب ،ج۳،ص۲۵۳؛ملاذالاخیار ،ج۵،ص۴۷۸؛بحار الانوار،ج۵۲،ص۳۷۴

(۴)مفید ،ارشاد، ص۳۴۵؛بحار الانوار،ج۵۲،ص۳۳۹

۲۴۳

امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے قیام کے وقت آگاہ افراد سواری لے کر پہنچیں گے تاکہ راستے اور جادوں کے درمیان راستہ چلیں جس طرح لوگوں کو حکم دیں گے کہ سڑکوں کی دونوں طرف پیادہ چلیں اس کے سڑ ک کے کنارہ چلنے سے اگر کسی کو کوئی نقصان ہوگا تو اسے دیہ اور خون بہا دینے پر مجبور کریں گے اسی طرح کوئی سڑکوں کے درمیان پیادہ چل رہا ہو اور اسے کوئی نقصان ہو جائے تو دیة لینے کا حق نہیں ہوگا“(۱)

ہم اس روایت سے یہی سمجھتے ہیں کہ شہروں میں کشادگی اور عبور و مرور کے وسائل میں فراوانی ہوگی صرف نقل و انتقال کے ذرائع کے لئے قانون گذاری نہیں ہوگی بلکہ پیدل چلنے والوں کے لئے بھی قانون وضع ہوں گے یقینا جو حکومت علم و دانش اور صنعت و ٹکنالوجی سے اسفتادہ کرے گی اورراستوں کو کشادہ ،اور سڑکوں کو چوڑا کرے گی قطعا وہ ڈرائیوری اور جانوں کی ضمانت کا بھی قانون بنائے گی۔

ج)زراعت

امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے دوران حکومت جو چیز شایان ذکر و قابل توجہ ہے وہ کھیتی اور جانوروں کی تجارت ہے اس کے بعد جن لوگوں نے بارش کی کمی، پے در پے قحط و خشکسالی، اشیاء خورد ونوش کی قلت کھیتوں کی بربادی ،سے کبھی ایک لقمہ روٹی کے لئے گراں قیمت چیزوں کو فدیہ بنایا ہو یعنی ناموس و آبرو ،وہی افراد حیرت انگیز ، خیرہ کن کسانی اورجانوروں کی تجارت میں تبدیلی محسوس کریں گے معاشرہ میں اشیاء خورد ونوش کی فراوانی ہو جائے گی ۔

اگر امام کے ظہور سے پہلے کبھی بارش ہوئی، بھی تو زمین نے اسے قبول نہیں کیا اور کبھی

____________________

(۱)التہذیب ،ج۱۰،ص۳۱۴؛وسائل الشیعہ، ج۱۹،ص۱۸۱؛ملاذ الاخیار، ج۱۶،ص۶۸۵؛اثبا ت الہداة، ج۳، ص۴۵۵

۲۴۴

قبول کیا تو بارش نہیں ہوئی کسانی کی محصولات (نتیجہ) بر باد ہوئیں تو کبھی نا وقت بارش نے کھیتیوں اور حاصل کو بر باد کر ڈالا حضرت کے دورمیں بارش کی حالت بدل جائے گی پہلی ہی جیسی بارش ہوگی اور اس درجہ کہ لوگوں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی ہوگی اس کے بعد رحمت الٰہی کاانسان پر نزول ہوگا نتیجہ کے طور پر انسانوں پر رحمت الٰہی کی فراوانی ہوگی اس طرح سے کہ دسیوں سال کا حاصل ایک سال میں جمع کر لیں گے اور روایات میں آیا ہے کہ ایک من (تین کیلوگرام ) گیہوں سے سو من نتیجہ حاصل ہوجائے گا۔

روایات چو بیس بارش کی خبر دیتی ہیں کہ ظہور کے بعد آسمان سے نازل ہوں گی اسی کے پیچھے بہت ساری بر کتیں لوگوں کے شامل حال ہوں گی ، پہاڑ ،جنگل، بیابان سر سبز ہو جائیں گے بے آب و گیاہ ،خشک و بنجر بیابان ہرے بھرے ہو جائیں گے اور نعمت الٰہی اسقدر فراوان ہوجائے گی کہ لوگ اپنے مردوں کے دوبارہ زندہ ہونے کی تمنا کریں گے ۔

۱ ۔بارش کی زیادتی

رسول خدا فرماتے ہیں :” ان پر آسمان سے مو سلادھار بارش ہوگی “(۱)

دوسری روایت میں فرماتے ہیں : خدا وند عالم ان کے لئے (مہدی) آسمان سے بر کت نازل کرے گا “(۲) نیز فرماتے ہیں:” زمین عدل وانصاف سے پُر ہو گی اور آسمان بر سے گا نتیجہ کے طور پر زمین اپنا حاصل ظاہر کردے گی اور میری امت حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانہ میں اس درجہ نعمتوں سے بہرہ مند ہوگی کہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی ہوگی “(۳)

____________________

(۱)مجمع الزوائد ،ج۷،ص۳۱۷؛حقاق الحق ،ج۱۳،ص۱۳۹

(۲)عقدالدرر، ص۱۶۹؛ابن طاوس، ملاحم، ص۷۱و۱۴۱

(۳)المطالب العالیہ ،ج۴،ص۲۴۲؛ابن طاوس، ملاحم، ص۱۳۹؛اثبات الہداة،ج۳،ص۵۲۴؛احقا ق الحق، ج۱۹، ص۶۵۵؛ملاحظہ ہو:احمد، مسند، ج۲،ص۲۶۲؛بحا رالانوار، ج۵۲، ص۳۴۵؛احقاق الحق ،ج۱۹،ص۱۶۹،۶۶۳

۲۴۵

حضرت امیر المو منین (علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں : کہ خداوند عظیم واکبر،نے ہمارے وجود سے خلقت کی ابتداء کی اور ہم ہی پر ختم کرے گا جو چاہے گا میرے ذریعہ نیست و نابود کرے گا اور جو چاہے گا میرے ذریعہ ثابت و باقی رکھے گا میرے وجود سے بُرے دن ختم ہوں گے اور بارش نازل کرے گا لہٰذ ا تمہیں دھوکہ دینے والا راہ خدا سے دھوکہ دے کر نہ ہٹا سکے گا جس دن سے خدا وند عالم نے آسمان کے دروازے بند کئے ہیں اس دن سے ایک قطرہ نہیں برسا اور جب ہمارے قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ)قیام کریں گے تو آسمان سے رحمت الٰہی کی بارش ہوگی ۔(۱)

امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں : کہ جب قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ)کے ظہور کا زمانہ آئے گا تو جمادی الثانیہ اور رجب میں دس روز ایسی بارش ہوگی کہ لوگوں نے کبھی ایسی بارش نہیں دیکھی ہوگی“(۲)

سعید بن جبیر کہتے ہیں :جس سال حضرت قیام کریں گے ۳۲۴ دن بارش ہوگی جس کے آثار و بر کتیں آشکار ہوں گی۔(۳)

حضرت قائم( (عجل اللہ تعالی فرجہ)کے زمانہ میں بارش کی کثرت کے بارے میں رسول گرامی فرماتے ہیں : ”ان(مہدی) کی حکومت میں پانی کی زیادتی ہوگی نہریں چھلک اٹھیں گی“(۴)

دوسری روایت میں فرماتے ہیں ”نہریں پانی سے بھری ہوئی ہوں گی چشمے جوش کھائیں گے اور زمین کئی گنا حاصل دے گی ۔(۵)

____________________

(۱)منن الرحمن ،ج۲،ص۴۲

(۲)بحار الانوار،ج۵۲،ص۳۳۷؛وافی، ج۲،ص۱۱۳

(۳)احقا ق الحق ،ج۱۳،ص۱۶۹

(۴)عقدالدرر ،ص۸۴

(۵)مفید، اختصاص ،ص۲۰۸؛بحار الانوار،ج۵۲،ص۳۰۴

۲۴۶

۲ ۔کا شتکاری کے نتیجوں میں برکت

رسول خدا فرماتے ہیں : ”وہ زندگی مبارک ہو جس کے بعد حضرت مسیح (علیہ السلام) دجال کو قتل کریں گے ؛اس لئے کہ آسمان کو بارش اور زمین کو اگانے کی جازت دی جائے گی اگر کوئی دانہ صاف چٹیل پہاڑ پر ڈال دیا جائے گا تو یقینا اُگے گا اس زمانے میں کینے ،حسد ختم ہو جائیں گے اس طرح سے کہ اگر کوئی شخص شیر کے پاس سے گذرے گا تو وہ اسے گزند نہیں پہنچائے گا اور اگر سانپ پر پیر پڑجائے گا تو اسے نہیں ڈسے گا“(۱)

نیز فرماتے ہیں : ”میری امت حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے دوران حکومت ایسی نعمتوں سے بہرہ مند ہوگی کہ ویسی کبھی نہیں ہوئی ہوگی آج تک کوئی مومن یا کافر ایسی نعمت سے بہرہ مند نہیں ہوا ہے آسمان سے مسلسل بارش اور زمین سے اپج ہوگی “(۲)

رسول خدا عصر مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) میں زمین کی آمادگی کے بارے میں فرماتے ہیں:”زمین چاندی کے مانند جو جوش کھانے کے بعد درست ہوئی ہے کھیتی کے لئے آمادہ ہوگی پودے اگائے گی جس طرح حضرت آدم (علیہ السلام) کے زمانہ میں تھا ۔(۳)

نیز آنحضرت پیداوار کی برکت اور بہتر حاصل کے بارے میں فرماتے ہیں:

ایک دانہ انار کئی لوگوں کو سیر کرے گا(۴) نیز ایک انگور کا خوشہ کئی افراد کھائیں گے اور سیر بھی ہو جائیں گے“(۵)

____________________

(۱)فردوس الاخبار، ج۳،ص۲۴

(۲)ابن طاوس، ملاحم، ص۱۴۱؛ملاحظہ ہو:طوسی، غیبة، ص۱۱۵؛اثبات الہداة، ج۳، ص۵۰۴

(۳)ابن طاوس ،ملاحم، ص۱۵۲؛ابن ماجہ، سنن، ج۲،ص۳۵۹؛ابن حماد، فتن، ص۱۶۲؛عبد الرزاق، مصنف ،ج۱۱، ص۳۹۹،فرق کے ساتھ

(۴)ابن طاوس ،ملاحم ،ص۱۵۲؛الدرالمنثور، ج۴،ص۲۵۵؛فرق کے ساتھ ؛عبد الرزاق، مصنف، ج۱۱،ص۴۰۱

(۵)ابن طاوس، ملاحم ،ص۱۵۲؛الدرالمنثور، ج۴،ص۲۵۵؛فرق کے ساتھ ؛عبد الرزاق، مصنف ،ج۱۱،ص۴۰۱

۲۴۷

حضرت علی(علیہ السلام) فرماتے ہیں : ”حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) مشرق ومغرب کو اپنے زیر اثر قرار دیں گے برائیوں اور اذیتوں کو بر طرف کردیں گے خیر اور نیکی اس کی جاگزیں ہو جائےگی ؛اس طرح سے کہ ایک کسان ایک من ( ۳ کیلو گرام ) گیہوں سے سو ۱۰۰/ من حاصل کرے گا جیسا کہ خدا وند عالم نے فرمایا ہے :(۱) ہر خوشہ میں سو دانے نکلیں گے نیز خدا وند عالم نیک ارادہ رکھنے والوں کے لئے اضافہ کر دے گا “(۲)

نیز فرماتے ہیں :” حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) اپنے کار گزاروں کو شہروں میں لوگوں کے درمیان عادلانہ رفتار و رویہ کا حکم دیں گے اس زمانہ میں کسان ایک مد(۳) ( یعنی تین سیر) لگائے تو سات مد در آمد کرے گا جیسا کہ خدا وند عالم فرماتا ہے :اسی طرح خدا وند عالم اس مقدار سے زیادہ کردے گا“(۴)

درختوں کے ثمر دینے کے بارے میں فرماتے ہیں :” حضرت مہدی کے زمانے میں درخت بارآور و پھلدار ہو جائیں گے نیز برکت فراوان ہو جائے گی“(۵)

امیر المو منین(علیہ السلام) فرماتے ہیں : ”جب ہمارے قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے تو آسمان برسے گا اور زمین گھاس اُگائے گی اس درجہ کہ ایک عورت شام سے عراق پیدل جائے گی تو پورے راستہ میں سبزہ ہی سبزہ نظر آئے گا اور اسی پر چلے گی “(۶)

____________________

(۱)سورہ بقرہ آیت۲۶۱

(۲) الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص۱۶۷

(۳)مد ایک پیمانہ ہے جو عراق میں۱۸ /لیٹر کے برابر ہے فرہنگ فارسی عمید، ص۹۵۳

(۴)عقد الدرر، ص۱۵۹؛ابن طاوس ،ملاحم ،ص۱۹۷؛القول المختصر ،ص۲۰

(۵)ابن طاوس، ملاحم، ص۱۲۵؛الحاوی للفتاوی، ج۲،ص۶۱؛متقی ہندی، برہان، ص۱۱۷

(۶)تحف العقول، ص۱۱۵؛بحار الانوار ،ج۵۲،ص۳۴۵

۲۴۸

شاید حضرت اس علاقہ کو مثال کے طور پر بیان کر رہے ہوں غور کرنا چاہئے کہ اس کی جغرافیائی حالت اس طرح ہے کہ اس راستے میں جنگلی کانٹوں کے سوا کچھ بھی نہیں ملے گا ،شاید اس علاقہ کا عصر حضرت مہدی میں اس لئے نام لیا گیا ہے کہ تمام بنجر زمین کاشتکاری میں بدل جائے گی ۔

اسی سلسلے میں حضرت رسول خدا فرماتے ہیں : جب حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) ہمارے امت کے درمیان ظاہر ہوں گے ؛زمین حاصل ، میوہ ، پھل اُگائے گی او ر آسمان بر سے گا“(۱)

امام جعفر صادق (علیہ السلام) آیہ شریفہ <مدھامتان >دو سبز پتے کی تفسیر فرماتے ہیں: ”مکہ و مدینہ خرمے کے درختوں سے متصل ہو جائےگا“(۲)

نیز آنحضرت فرماتے ہیں : ”خدا کی قسم دجال کے خروج کے بعد کا شتکاری ہوگی اور درخت لگائے جائیں گے“(۳)

کتاب تہذیب میں شیخ طوسی کی نقل کے مطابق ((ہم کھیتی کریں گے اور درخت اُگائیں گے ‘ ‘(۴)

۳ ۔حیوانوں کے پالنے کا رواج

رسول خدا فرماتے ہیں :” میری امت کی زندگی کے آخری دور میں ، حضرت

____________________

(۱)المناقب والمثالب، ص۴۴؛احقا ق الحق ،ج۱۹،ص۶۷۷؛ملاحظہ ہو:ابن ماجہ، سنن ،ج۲،ص۱۳۵۶؛حاکم، مستدرک، ج۴،ص۴۹۲؛ الدرالمنثور، ج۲،ص۲۴۴

(۲)تفسیر ،قمی ،ج۲،ص۳۴۶؛بحار الانوار،ج۵۱،ص۴۹؛سورہ رحمن کی آیت ۶۴ ہے

(۳)کافی ،ج۵،ص۲۶۰؛من لایحضرہ الفقیہ، ج۳،ص۱۵۸؛وسائل الشیعہ، ج۱۳،ص۱۹۳؛التہذیب ،ج۶، ص۳۸۴

(۴)التہذیب ،ج۶،ص۳۸۴

۲۴۹

(عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے اورجانوروں کی کثرت ہوجائے گی ۔(۱)

نیز فرماتے ہیں :” اس زمانے میں جانوروں کے گلے موجود ہوں گے اور اپنی زندگی کو جاری رکھیں گے“(۲) رسول خدا کے قول میں نکتہ ہے۔ وہ یہ کہ گویا ظہور سے پہلے پانی اور چارہ کی کمی اور بیماریوں کے عام رواج سے جانور زندہ نہیں رہ سکیں گے ۔

نیز آنحضرت فرماتے ہیں :” دجال کے قتل کے بعد گلوں میں اس درجہ برکت ہوگی کہ ایک اونٹ کابچہ ( جو حاملہ ہونے کے قابل ہوگا) لوگوں کے ایک گروہ کو سیر کر دے گا اور ایک گوسالہ ( گائے کابچہ)ایک قبیلہ کی غذا فراہم کرے گا نیز ایک بکری کا بچہ ایک گروہ کو سیر کرنے کے لئے کافی ہوگا “(۳)

۴ ۔تجارت

ملک و سماج میں تجارت میں اضافہ و زیادتی ہوگی جو اقتصاد کے بہتر ہونے اور سماج کے ثروتمند ہونے کی علامت ہوگی جس طرح بازاروں کی بندی اور بازار کا مندا ہونا سماج کے فقیر و نادار ہونے کی علامت ہے حضرت امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے عصر میں لوگوں کی اقتصادی حالت بہتر سے بہتر ہو جائے گی اور تجارت میں رونق اور بازاریں بروی کار آجائیں گی ۔

رسول خدا اس سلسلے میں فرماتے ہیں : ”قیامت کی علامت (حضرت مہدی (عج ) کے ظہور کی ) یہ ہے کہ مال و دولت لوگوں کے درمیان باڑھ کی طرح رواں ہوں گے علم و دانش

____________________

(۱)حاکم، مستدرک، ج۴،ص۵۵۸؛عقد الدرر ،ص۱۴۴؛متقی ہندی، برہان، ص۱۸۴؛کشف الغمہ، ج۳، ص۶۰ ۲؛ احقاق الحق، ج۱۳،ص۲۱۵؛بحار الانوار،ج۵۱،ص۸۱؛الشیعہ والرجعہ، ج۱، ص۲۱۴

(۲)جامع احادیث الشیعہ، ج۸،ص۷۷؛احقا ق الحق، ج۱۳،ص۲۱۵وج۱۹،ص۶۸۱

(۳)ابن حماد، فتن، ص۱۴۸

۲۵۰

ظاہر ہوں گے تجارت کو عام رواج ملے گا اور بازار کی رونق بڑھ جائے گی “(۱)

عبد اللہ بن سلام کہتے ہیں:کہ لوگ دجّال کے خروج کرنے کے بعد چالیس سال زندگی گذاریں گے ،کھجوریں با ر آور ہوں گی اور بازار قائم ہو گا۔(۲)

____________________

(۱)ابن قتیبہ، عیون الاخبار، ج۱،ص۱۲

(۲)ابن ابی شیبہ ،مصنف ،ج۱۵،ص۱۲۴؛الدرالمنثور، ج۵،ص۳۵۴؛متقی ہندی، برہان، ص۱۹۳

۲۵۱

پانچویں فصل

صحت اور علاج

امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور سے قبل معاشرہ کی ایک مشکل تندرستی و علاج کا فقدان ہے جس کے نتیجے میں بیماریوں کا عام رواج اور مرگ ناگہانی (اچانک) کی پوری دنیا میں زیادتی و کثرت ہو گی عام بیماریاں جیسے:

جذام (کوڑھ) طاعون، لقوہ ،اندھا پن ، سکتہ(ہارٹ اٹیک)اس کے علاوہ سیکڑوں خطرناک بیماریاں اس درجہ لوگوں کی حیات کو چیلنج کریں گی کہ گویا ہر شخص اپنی موت کا انتظار کر رہا ہو اور ہرگز حیات کا امید وار نہیں ہے رات کو بستر پر جانے کے بعد صبح بیدار ہونے تک حیات کی امید باقی نہیں رہ جائے گی نیزگھر سے باہر جانے کے بعد صحیح و سالم واپس آنے کی امید نہیں رہ جائے گی ۔

یہ دلخراش اور خطرناک حالت فضائے زندگی کی آلودگی کی وجہ سے ہوگی اور ایسا ایٹمی و کیمیائی (زہریلے)اسلحے کے استعمال سے ہوگا یا مقتولین کی کثرت اور لاش کے بے دفن پڑے رہ جانے سے بدبو کی وجہ سے ہوئی ہوگی ان بیماریوں کا سبب ہو سکتا ہے یا ذ ہنی اور روحی بیماریوں کی وجہ سے جو ناامنی و عدم سلامتی و عزیزوں کی موت سے پیدا ہوگی شاید یہ ان تمام چیزوں کی معلول ہے جس کو ہم اور آپ نہیں جانتے ۔

حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی حکومت میں ان حالات میں ستم رسیدہ انسانوں کے دل میں امید کی کرن پھو ٹے گی اور ناگفتہ بہ حالت کے خاتمہ اور انسانی سماج کو تندرستی کی نوید ہوگی ٹھیک یہ وہی چیز ہے جس کو امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی حکومت انجام دے گی ۔

۲۵۲

یہاں پر تندرستی و علاج سے متعلق ظہور سے قبل چند روایت ذکر کرتے ہیں پھر ان روایات کو بیان کریں گے جو حضرت حجت (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی تندرستی و علاج کے بارے میں کوشش و تلاش کی خبر دیتی ہیں۔

الف)بیماریوں کا عام رواج اور ناگہانی موتوں کی کثرت

رسول خدا فرماتے ہیں :” قیامت نزدیک ہونے کی علامت یہ ہے کہ ایک مرد بغیر کسی درد و بیماری کے مر جائے گا“(۱)

دوسری روایت میں فرماتے ہیں : ”قیامت نزدیک ہونے(ظہور مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی علامت صاعقہ(آسمانی بجلی) رعد(بجلی کی کڑک) جو جلنے کا باعث ہوگا)پے در پے آئے گی اس طرح سے کہ جب کوئی شخص اپنے رشتہ دار یا کسی گروہ کے پاس جا کر سوال کرے گا کہ کل کس کس پر بجلی گری اور جل کر خاکستر ہوا؟ تو اسے جواب ملے گا کہ فلاں فلاں “(۲)

صاعقہ ۔خوفناک آواز سے بے ہوش اور اس کے اثر سے عقل زائل ہونے کے معنی میں ہے نیز آگ لگنے اور جلنے کے معنی میں بھی ہے اس لحاظ سے جو لوگ صاعقہ کا شکا ر ہوں یا ان کی عقل زائل ہو جائے یا صاعقہ کی وجہ سے جل کر خاکستر ہو جائیں۔(۳)

لیکن یہ ممکن ہے کہ صاعقہ ترقی یافتہ اسلحوں کے منفجر ہوجانے سے ہو کہ دردناک آواز، جلادینے والی آگ ؛اس طرح سے کہ جو بھی اس سے نزدیک ہوگا خاکستر ہو جائے گا اور جو آثار

____________________

(۱)فردوس الاخبار، ج۴،ص۲۹۸

(۲)احمد ،مسند ،ج۳،ص۶۴؛فردوس الاخبار ،ج۵،ص۴۳۴

(۳)فرہنگ عمید، ج۲،ص۶۸۸

۲۵۳

انسانوں پر مرتب ہوتے ہیں وہ بیماریاں ہیں اور بس یہ تینوں بیماریاں تباہ کن اسلحوں کی وجہ سے ہیں۔

حضرت رسول خدا ایک دوسری روایت میں فرماتے ہیں :”قیامت نزدیک ہونے کی علامت موت کی زیادتی اور ان سالوں میں پئے در پئے زلزلہ کا آنا ہے “(۱)

حضرت امیر المو منین علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں :” حضر ت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور سے پہلے دو طرح کی موت کثرت سے ہوگی سرخ موت (قتل) سفید موت یعنی طاعون“(۲)

امام جعفر صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں: ”قیامت و روز جزا ء کی علامت لقوہ کی بیماری اور ناگہانی موت کا عام رواج ہوناہے“(۳)

امام موسیٰ کاظم(علیہ السلام) رسول خدا سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”ناگہانی موتیں ،جذام و بواسیر ،قیامت کے نزدیک ہونے کی علامتیں ہیں“(۴)

بیان الائمہ کتاب میں مذکورہے : کہ حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور کے نزدیک ہونے کی علامت پوری دنیا میں بیماری کا رواج اور وبا ،و طاعون کا پھیلناہے ،خصوصا بغداد اور اس سے متعلق شہروں میں نتیجہ کے طور پر بہت سارے لوگ نیست و نابود ہوجائیں گے۔(۵)

____________________

(۱)المعجم الکبیر ،ج۷،ص۵۹

(۲)مفید، ارشاد، ص۳۵۹؛نعمانی، غیبة، ص۲۷۷؛طوسی ،غیبة، ص۲۶۷؛اعلام الوری، ص۴۲۷؛خرائج،ج۳، ص۱۵۲؛الصراط المستقیم ،ص۲۴۹؛بحارا لانوار،ج۵۲،ص۲۱۱؛الزام الناصب، ج۲،ص۱۴۷

(۳)بحار الانوار،ج۵۲،ص۳۱۳؛ابن اثیر، نہایہ، ج۱،ص۱۸۷

(۴)بحار الانوار،ج۵۲،ص۲۶۹،نقل از:الامامہ والتبصرہ ؛الزام الناصب ،ج۲،ص۱۲۵

(۵)بیان الائمہ ،ج۱،ص۱۰۲

۲۵۴

ب)صحت و تندرستی

علم کے حیرت انگیز شگوفے خصوصاً حفظ صحت و علاج حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی حکومت میں اور اُ سے سماج میں رواج دینے ،شعلہ جنگ کے خاموش ہونے ،نفسانی و ذ ہنی سکون، روحی علاج انسانوں کی اصلاح کے سبب نیز کسانی و جانوروں کی پرورش میں اضافہ اور ضرورت کی حد تک غذاوں کی فراہمی منجملہ ان عوامل میں ہیں جو امام عصر (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانے میں اعلیٰ حد تک پہنچ جائے گی لیکن ایسا ہوسکتا ہے کہ لوگوں کی جسمی حالت دگر گوں ہو جائے اور عمر طولانی کبھی ایسا بھی ہوگا کہ ایک شخص ہزار فرزند اور نسل دیکھے پھر اس کے بعد دنیا سے انتقال کر ے ۔

رسول خدا فرماتے ہیں :” جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام)آسمان سے نازل ہوں گے اور دجال کو قتل کریں گے اور رات کو اس کی صبح کے ہنگام آفتاب مغرب سے نکلے گا (نہ مشرق کی طرف سے)تو انسان اس طرح چالیس سال تک آسودہ خاطر ، عیش و عشرت سے بھر ی زندگی گذارے گا کہ اس مدت میں نہ توکوئی مرے گا اور نہ ہی بیمار ہوگا“(۱)

شاید اس بات سے مراد یہ ہے کہ جو موتیں اور بیماریاں ظہور سے قبل عام ہوں گی دوران ظہور اتنی کم و نادر سننے میں آئیں گی کہ عدم بیماری و موت کا حکم لگایا جا سکتا ہے ممکن ہے کہ ظاہر ی معنی مراد ہوں یعنی اس مدت میں موت وبیماری کا وجود نہیں ہوگا وہ بھی حضرت بقیتہ اللہ آعظم کے ظہور کی برکت سے ایسا ہوگا۔

حضرت امیر المو منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں : ”حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی حکومت میں عمریں طولانی ہوں گی “(۲)

____________________

(۱)ابن طاوس ،ملاحم، ص۹۷ (۲)عقد الدرر، ص۱۵۹؛القول المختصر، ص۲۰

۲۵۵

مفضل بن عمر کہتے ہیں : امام جعفرصادق (علیہ السلام) نے فرمایا:” جب ہمارے قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے تو لوگ آپ کی فرمانروائی کے زیر سایہ طولانی عمریں کریں گے؛ اتنا کہ ہر شخص ہزار فرزندکاباپ ہوگا“(۱)

امام سجاد (علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں :” جب ہمارے قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے، تو خدا وند عزو جل بیماری وبلا کو ہمارے شیعوں سے دور کردے گا اور ان کے قلوب کو فولاد کے مانند محکم بنادے گا اور ان میں ہر ایک چالیس مرد کی قوت کا مالک ہوگا وہی لوگ زمین کے حاکم اور سر براہ ہو ں گے “(۲)

امام محمد باقر(علیہ السلام) امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی حکومت میں محیط صحت سے متعلق فرماتے ہیں:”جب ہمارے قائم ظہو ر کریں گے تو گندے اور استعمال شدہ پانی کے کنویں اور ناودان (پرنالے )جو راستوں میں واقع ہوں گے توڑدیں گے“(۳)

شہروں اور معاشرے کی فضا ڈاکٹری اصول کے مطابق حفاظت کرنا حکومتوں کی ذمہ داری ہے، اس بناء پر وہ چیز جو ماحولیات و فضا اور حفظ صحت کے خلاف ہو اس کی روک تھا م ہونی چاہئے گھروں کے گندے پانیوں کو گلیوں میں پھیکنا ،گھر سے باہر بیسن اور پائخانوں کے کنووں کو گھر سے باہر کھودنا جیسا کہ بعض شہروں، دیہاتوں میں مرسوم ہے حفظ صحت کے اصول کی نابودی کا باعث

____________________

(۱)مفید ،ارشاد، ص۳۶۳؛المستجاد، ص۵۰۹؛بحار الانوار،ج۵۲،ص۳۳۷وافی ،ج۲،ص۱۱۳

(۲)نعمانی ،غیبة ،ص۲۱۷؛صدوق، خصال، ج۲،ص۵۴۱؛روضہ الواعظین، ج۲،ص۲۹۵؛الصراط المستقیم ،ج۲، ص۶۱۲؛ بحار الانوار،ج۵۲،ص۳۱۷

(۳)من لایحضرہ الفقیہ ،ج۱،ص۲۳۴؛مفید ا،رشاد، ص۳۶۵؛طوسی،غیبة،۲۸۳؛روضہ الواعظین، ج۲،ص۲۶۴؛ اعلام الوری ، ص۴۳۲؛الفصول المھمہ، ص۳۰۲؛اثبات الہداة، ج۳، ص۴۵۲؛بحار الانوار،ج۵۲،ص۳۳۳

۲۵۶

ہے؛ اس لحاظ سے، جو ہم مشاہدہ کر رہے ہیں حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کا ایک وظیفہ ڈاکٹری اصولوں کے مطابق حفظ صحت کی خلاف ورزی کی روک تھام ہے۔

ج)علاج

چونکہ حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے دور میں ضرورت کی حد تک علاج فراہم ہے ، لہٰذابیماریاں کم ہو جائیں گی اورایک مختصر تعداد ہوگی جو بیماریوں سے دوچار ہوگی لیکن اس زمانے میں ڈاکٹری علم حد درجہ ترقی پزیر ہوگا اور مختلف امراض میں مبتلا افراد کم سے کم مدت میں شفا یاب ہوں گے اس کے علاوہ حضرت ،خداوند عالم کی تائید سے ناقابل علاج بیماروں کو خود ہی شفا دیں گے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حضرت کے دور حکومت میں بیماری نہیں پائی جائےگی۔

امام حسین (علیہ السلام) حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی حکومت کے بارے میں فرماتے ہیں : ”کوئی نابینا ،لنج اور فالج زدہ ،درد مند روی زمین پر نہیں رہ جائے گا مگریہ کہ خداوندعالم اس کے درد کو بر طرف کردے گا “(۱)

حضرت امیر المو منین(علیہ السلام) فرماتے ہیں :” جس وقت ہمارے قائم پوشیدہ و مخفی ہونے کے بعد ظاہر ہوں گے جبرئیل ان کے آگے آگے اورکتاب خدا چہرے کے سامنے ہوگی اوراس سے حضرت کوڑھی ،سفید داغ کے مریض کو شفا دیں گے “(۲)

اس روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ خود حضرت نا قابل علاج، مرض کا معالجہ کرنے میں بہت بڑا کر دار ادا کریں گے ۔

امام جعفرصادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں : جب ہمارے قائم قیام کریں گے، تو

____________________

(۱)خرائج، ج۲،ص۴۸۹؛بحار الانوار،ج۵۳،ص۶۲(۲)دوحةالانوار،ص۱۳۳؛الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص۱۷۱

۲۵۷

خداوندعالم مومنین سے بیماریوں کو دور اور تندرستی و صحت کو ان کے قریب کردے گا “(۱)

امام محمد باقرعلیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں : ”جو بھی قائم اہل بیت (علیہم السلام) کو درک کرے اور اگر وہ بیماری سے دو چار ہوگا، شفا پائے گا اور اگر ضعیف و ناتوانی کا شکا ر ہوگا ،قوی و توانا ہوجائے گا“(۲)

شیخ صدوق کی کتاب خصائل میں مذکور ہے کہ -”حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانے میں بیماری ختم ہو جائے گی اور وہ لوگ ( مومنین ) فولادی پارے بن جائیں گے “(۳)

امام (علیہ السلام) کی شہادت

حضرت کی شہادت یا رحلت کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں لیکن حضرت امام حسن مجتبیٰ (علیہ السلام) کے بقول کے آپ فرماتے ہیں : ”کہ ہم اماموں میں یا زہر دغا سے شہید ہوگا یا تلوار سے “(۴)

جو روایا ت حضرت کی شہادت پر دلالت کرتی ہیں انھیں میں بعض دیگر روایات پر ترجیح دی جا سکتی ہے ۔

ہم یہاں پر چند روایت کے ذکر کرنے پر اکتفا ء کرتے ہیں :

امام جعفرصادق (علیہ السلام) آیہ شریفہ( ثم رَدَدْنَا لَکُمْ الْکَرَّةَ عَلَیْهِمْ ) (۵)

____________________

(۱)نعمانی، غیبة، ص۳۱۷؛بحار الانوار ،ج۵۲،ص۳۶۴؛اثبات الہداة ،ج۳، ص۴۹۳

(۲)نعمانی ،غیبة، ص۳۱۷؛صدوق، خصال، ج۲،ص۵۴۱؛روضة الواعظین، ج۲،ص۲۹۵؛الصراط المستقیم، ج۲، ص۲۶۱؛ بحار الانوار،ج۵۲،ص۳۳۵؛نقل از خرائج

(۳)صدوق ،خصال ،ص۵۹۷

(۴)کفایة الاثر، ص۲۲۶؛بحار الانوار، ج۲۷،ص۲۱۷

(۵)سورہ اسراء آیت۶

۲۵۸

کے ذیل میں فرماتے ہیں :” اس سے مراد امام حسین (علیہ السلام) اور آپ کے ستر ۷۰/ اصحاب کا عصر امام زمانہ میں دوبارہ زندہ ہونا ہے ؛جب کہ سنہری (خود)(جنگ میں پہنی جانے والی ٹوپی) سر پر ہوگی لوگوں کو امام حسین(علیہ السلام) کی رجعت اور دوبارہ زندہ ہونے کی خبر دیں گے تاکہ مومنین شک و شبہ میں نہ پڑیں۔

ایسا اس وقت ہوگا جب حضرت حجت(عجل اللہ تعالی فرجہ) لوگوں کے درمیان ہوں گے چونکہ حضرت کی معرفت اور ایمان لوگوں کے دلوں میں مستقر و ثابت ہوچکا ہوگااورحضرت حجت (عجل اللہ تعالی فرجہ) کو موت آجائے گی تو امام حسین (علیہ السلام)آپ کو غسل ، کفن،حنوط اوردفن کریں گے چونکہ کبھی وصی کے علاوہ کوئی وصی کو سپرد لحد نہیں کرسکتا “(۱)

زہری کہتا ہے : حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) چودہ سال زندہ رہ کر اپنی طبعی موت سے جان بحق ہوں گے ۔(۲)

ارطاة کہتا ہے کہ مجھے خبر ملی ہے کہ حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) چالیس سال گزار کر اپنی طبعی موت سے مریں گے ۔(۳)

کعب الاحبار کہتا ہے کہ اس امت کے منصور ،مہدی ہیں اور زمین کے رہنے والے اور آسمان کے پرندے اس پر درود بھیجتے ہیں ۔

یہ وہی ہیں جو روم اور جنگ عظیم میں آزمائے جائیں گے یہ آزمائش بیس سال طولانی ہوگی

____________________

(۱)کافی، ج۸،ص۲۰۶؛تاویل الآیات الظاہرہ ،ج۱،ص۲۷۸وج۲،ص۷۶۲؛مختصر البصائر، ص۴۸؛تفسیر برہان ، ج۲، ص۴۰۱؛بحار الانوار،ج۵۳،ص۱۳وج۴۱،ص۵۶

(۲)ابن حماد، فتن، ص۱۰۴؛البداء والتاریخ، ج۲،ص۱۸۴؛متقی ہندی، برہان، ص۱۶۳

(۳)ابن حماد ،فتن ،ص۹۹؛عقد الدرر،ص۱۴۷؛متقی ہندی، برہان، ص۱۵۷

۲۵۹

اورحضرت دو ہزار پرچم دار کمانڈروں کے ہمراہ شہید ہوں گے؛ پھر حضرت رسول خدا کے فقدان کی مصیبت مسلمانوں کے لئے حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی شہادت سے قیمتی و گراں نہیں ہوگی ۔(۱)

اگر چہ زہری ،ارطاة و کعب الاحبار کی باتیں ہمارے نزدیک قابل اعتماد نہیں ہیں؛ لیکن اس میں صداقت کا بھی احتمال ہے ۔

حضرت امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی کیفیت شہادت

الزام الناصب میں حضرت کی شہادت کی کیفیت مذکور ہے :”جب ستر ۷۰/ سال پورے ہوں گے اور حضرت کی موت نزدیک ہو جائے گی ،تو قبیلہ تمیم سے، سعیدہ نامی عورت حضرت کو شہید کرے گی اس عورت کی خصوصیت یہ ہے کہ مردو ں کی طرح داڑھی ہوگی ۔

وہ چھت کے اوپر سے ، جب حضرت وہاں سے گذر رہے ہوں گے ،ایک پتھر آپ کی طرف پھینکے گی اور آنحضرت کو شہید کر ڈالے گی اور جب حضرت شہید ہو جائیں گے تو امام حسین(علیہ السلام) غسل و کفن،کے فرایض انجام دیں گے“(۲) لیکن ہم نے اس کتاب کے علاوہ یہ مطلب ،یعنی کیفیت شہادت کسی اور کتاب میں نہیں دیکھا ۔

اما م جعفر صاد ق (علیہ السلام) فرماتے ہیں :

حسین(علیہ السلام) اپنے ان اصحاب کے ساتھ جو آپ کے ہمرکاب شہید ہوئے ہیں

____________________

(۱)عقد الدرر، ص۱۴۹

(۲)الزام الناصب،ص۱۹۰؛تاریخ ما بعد الظہور ،ص۸۸۱

۲۶۰