انتظار کا صحیح مفہوم

انتظار کا صحیح مفہوم0%

انتظار کا صحیح مفہوم مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 84

انتظار کا صحیح مفہوم

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیة اللہ محمد مہدی آصفی
زمرہ جات: صفحے: 84
مشاہدے: 30316
ڈاؤنلوڈ: 2593

تبصرے:

انتظار کا صحیح مفہوم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 84 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30316 / ڈاؤنلوڈ: 2593
سائز سائز سائز
انتظار کا صحیح مفہوم

انتظار کا صحیح مفہوم

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

دوسرا نظریہ

اگر ظہور میں تاخیر کی وجہ ایسے انصار کی قلت ہے جو روئے زمین پرامام کے ظہور کے لئے حالات سازگار کریں اور آپ کے ظہور کے شایان شان سماج تشکیل دیں جو آپ کے ظہور کے بعد آپ کی حکومت اور انقلاب میں آپ کا ہاتھ بٹائیں تو صورتحال بالکل تبدیل ہو جائے گی اور پھر روئے زمین پر حق کی حکومت قائم کرنے کے لئے جد وجہد،ذہنی وفکری آمادگی،افرادسازی امر بالمعروف ونہی عن المنکرکی ضرورت ہوگی تاکہ امام (عجل)ظہور فرماسکیں۔اس صورت میں ظہور کا مطلب خاموش تماشائی بنے رہنانہ ہوگابلکہ اس سے ”تحریک او رعمل“نیز روئے زمین پر حق کی حکومت قائم کرنے کے لئے”جہاد “ مراد ہوگا اور اس کے بعد ہی امام کے عالمی ظہورکے لئے حالات فراہم ہو سکتے ہیں۔

انتظار ظہور امام کے معنی اگر ”تعطل“اور بے کاری کے لئے جائیں تو یہ منفی معنی ہیں اور اگر انتظار ”حرکت“اور جد وجہد ہو تو یہ مثبت اور معقول معنی ہیں اور دونوں معنی میں بہت زیادہ فرق ہے ۔اب ہم اس مسئلہ کا صحیح جواب تلاش کرنے کے لئے اس کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں۔

پہلے نظریہ کا تجزیہ

اس نظریہ کے بارے میں چند اعتراضات قابل توجہ ہیں:

۱ ۔ دنیا کے ظلم وجورسے بھر جانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ روئے زمین پر توحید اور عدل وانصاف کا نام ونشان نہ رہ جائے اور کوئی علاقہ ایسا نہ رہ جائے جس پر خدا کی عبادت نہ ہوتی ہو۔کیونکہ یہ بات محال اور سنت الٰہی کے بر خلاف ہے۔

بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ حق وباطل کے درمیان جو دائمی کشمکش جاری ہے اس میں حق پر باطل کا غلبہ ہو جائے گا۔

۲۱

۲ ۔ حق کے اوپر باطل کا موجودہ دور سے زیادہ غلبہ بھی ناممکن ہے کیونکہ اس وقت ظلم روئے زمین پراپنی بد ترین شکل اور مقدار میں موجود ہے جیسے سربیائی درندوں کے ہاتھوں بوسنیا کے مسلمان جس ظلم وتشدد کا شکار ہوئے ہیں اس کی نظیر تاریخ ظلم وتشدد میں کم ہی نظر آتی ہے ۔اس ظلم وتشدداور قتل عام کے دوران تو بسا اوقات نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ سربیائی ظالموں نے حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کر کے ان کی کوکھ میں پروان چڑھنے والے بچوں کو شکم سے باہر نکال کر پھینک دیا، چھوٹے چھوٹے بچوں کے سر قلم کرکے ما ں باپ اور گھر والوں کے سامنے ان سے فٹبال کھیلا گیا۔

چیچنیا میںروسیوں نے مسلمان بچوں کو زندہ ذبح کر کے ان کا گوشت سوروں کو کھلایا،اسی طرح مشرق وسطی کے مسلمانوں پر کمیونسٹوں نے اپنی کمیونسٹ حکومت کے دوران جو ظلم ڈھائے ہیں ان کو سن کر ہی انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

یا اسرائیل کی جیلوں میں مسلمانوں کو جس وحشیانہ انداز سے تکلیفیں دی جاتی ہیں انہیں الفاظ کے ذریعہ بیان کرنا ممکن نہیں ہے ۔اور ان تمام مظالم سے کہیں زیادہ عراق میں صدامی جلادوں کے ذریعہ جو مظالم ہوئے یا ہو رہے ہیں، جس طرح مومنین کی نسل کشی کی گئی ان کا صفایاکیا گیا اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے گئے ،یہ دل کو دہلانے والے ایسے حقائق ہیں جن کی توصیف سے الفاظ بھی بے بس ہیں ۔

۲۲

میراخیال ہے کہ اس وقت دنیا کے تقریباً ہر گوشے میں مسلمانوں کے خلاف ظلم وتشدد کا جو سلسلہ جاری ہے یہ ایک ایسی ڈراونی اور خوفناک صورت حال ہے جو ظلم وجور سے بھی تجاوز کر چکی ہے بلکہ ”زمین کے ظلم وجور سے بھر جانے“سے مزید کی نشاندہی کرتی ہے ۔ بلکہ یہ تو دنیا کی موجودہ قوموں اور مادیت میں گرفتار انسانیت کے مردہ ضمیر ہونے اورانسانیت کے سوتے خشک ہو جانے کی علامت ہے۔اور ضمیروں کا مردہ ہونا یا انسانیت کے سوتے خشک ہو جانا خطرے کی ایک ایسی گھنٹی ہے جو تہذیب وتمدن اور تاریخ انسانیت کو مسلسل پستی وبربادی کی طرف لے جاتی ہے اور اس منزل تک پہنچا تی ہے جسے قرآن مجید نے ”امتوں کی ہلاکت وتباہی“ کا نام دیا ہے۔

ضمیر انسان کی انتہائی اہم اور بنیادی ضرورتوںمیں شامل ہے اور جس طرح انسان ”امن وسکون “ ، ”دواوعلاج“کھانے پانی ،”سیاسی نظام“ اور علم کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح ضمیر کے بغیر بھی اس کا زندہ رہنا ممکن نہیں ہے ۔لہٰذا جب بھی ضمیر کا حیات بخش چشمہ خشک ہو جائے تو پھر تہذیب وتمدن کا خاتمہ ایک فطری بات ہے اور جب اس کا خاتمہ ہو جائے گا تو پھر تبدیلی ،جانشینی اور وراثت کا قانون اپنا کام کرے گا۔اور یہی وہ وقت ہوگا جب امام زمانہ (عجل)کی ہمہ گیر اور عالمی حکومت قائم ہوگی۔

۳ ۔ امام زمانہ (عجل)کی غیبت کی بنیادی وجہ شر وفساد اور ظلم وجور کی کثرت ہے اور اگر یہ سب نہ ہوتا تو آپ ہماری نظروں سے غائب نہ ہوتے آخر یہی ظلم وجور امام زمانہ (عجل)کے ظہور کاسبب کیسے بن سکتا ہے؟

۲۳

۴ ۔ لوگوں کی توقع کے برخلاف ظالم ،سیاسی ،فوجی اور اقتصادی ادارے آہستہ آہستہ تباہ وبرباد ہو رہے ہیں جس کا مشاہدہ دنیا میں ہر جگہ کیا جا سکتا ہے ۔جیسا کہ ہم نے خود اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا ہے کہ چند مہینوں کے اندر ہی سوویت یونین کا شیرازہ منتشر ہوگیا یہ نظام کھوکھلی عمارت کی طرح ہو گیا تھا اور اسے باقی رکھنا یا انہدام سے بچانا کسی کے بس میں نہیںتھا ۔

اور اب تبدیلی کی اسی ہوا کا رخ امریکہ کے خلاف ہے اسی وجہ سے اس کے اقتصادیات ،امن وامان اور اخلاقی اقدار اور شان وشوکت کو زبر دست جھٹکے لگ رہے ہیں جب کہ اسے سپر پاور کہا جاتا ہے۔

بے شک اس موجودہ جاہلی نظام کی الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے اوریہی اس کی تباہی وبربادی کی گھنٹی بھی ہے ۔ایسے میں یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ اس نظام خونخواری، درندگی وبے رحمی میں اور اضافہ ہوگا۔

۵ ۔ غیبت سے متعلق روایات میں :”یملاٴ الاٴرض عدلاً کما ملئت ظلماً و جوراً “ (زمین کوعدل وانصاف سے اسی طرح بھر دے گا جیسے وہ ظلم وجور سے بھری ہو گی ) آیا ہے نہ کہ”بعد ان ملئت ظلما وجوراً“(ظلم وجور سے بھر جانے کے بعد ۔)

لہٰذا اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ امام زمانہ(عجل)اس بات کے منتظر ہیں کہ دنیا میں اس وقت جو ظلم وجور پھیلا ہوا ہے اس میں مزید اضافہ ہو جائے بلکہ ان روایات کے معنی یہ ہیں کہ جب امام ظہور فرمائیں گے تو وہ زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے اور ظلم وفساد کا خاتمہ کر یں گے اور ظلم وفسادکا دنیا سے اس طرح صفایا ہو جائے گا جےسے وہ اس سے قبل ظلم وجور سے چھلک رہی تھی۔

۲۴

اعمش نے ابی وائل سے یہ روایت نقل کی ہے کہ امیر المومنین نے امام مہدی کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا ہے:

یخرج علی حین غفلة من الناس واقامة من الحق واظهار من الجور،یفرح لخروجه اهل السماء وسکانها ویملاٴ الارض عدلاً کما ملئت ظلماً وجوراً ۔“(۱)

” وہ اس وقت ظاہر ہوگاجب لوگ اقامہ حق کے سلسلہ میں خواب غفلت میں پڑے ہوں گے ظلم و جور عام ہوگااس کے ظہور سے اہل آسمان اور اس کے ساکنین میںخوشی کی لہر دوڑ جائے گی اور وہ زمین کو اسی طرح عدل وانصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم وجور سے بھری ہوگی۔“

دوسری روایت میں ہے:”یملاٴ الاٴرض عدلاً وقسطا،کما ملئت ظلماً وجوراً(۲) زمین کو عدل وانصاف سے اسی طرح بھر دے گا جس طرح وہ ظلم وجور سے بھری ہوگی۔“

میرے خیال میں ”یملا الارض ظلماً وجورا“کے معنی یہ ہیں کہ ظلم وجور اتنا زیادہ بڑھ جائے گا کہ ہر طرف سے لوگوں کی چیخ وپکاراورفریاد شروع ہو جائے گی ۔ظلم کے چہرے سے نقاب ہٹ جائے گاجس کے باعث وہ لوگوں کی نگاہوں میں خوبصورت جلوہ گرہوتا ہے بہ الفا ظ دیگر ظلم کی حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی اور ان تمام نظاموں کا شیرازہ بکھر جائے گا جنہیں لوگ بظاہر اچھا سمجھتے ہیں۔اور اس وسیع وعریض تباہی وبربادی کے بعد لوگوں کو ایسے الٰہی نظام کی تلاش وجستجو ہوگی جو انہیں تباہی وبربادی سے نجات دے سکے۔ اور انہیں ایسے الٰہی قائدو رہنما کی تلاش رہے گی جو ان کے ہاتھ تھام کر انہیں ان کے خدا تک پہنچا دے۔اس طرح کی تباہیاں دنیا میں یکے بعد دیگرے شروع ہوچکی ہیں ان تباہیوں میںسودیت یونین کی تباہی سر فہرست ہے اور آخری چند برسو ں میں امریکہ کو جو جھٹکے لگ رہے ہیں ان تمام باتوں سے خود بخود الٰہی نظام اور خدائی نجات دہندہ کی

____________________

(۱)بحار الانوار،ج/۵۱،ص/۱۲۰

(۲)منتخب الاثر ،ص/۱۶۲

۲۵

طرف توجہ مبذول ہو جاتی ہے۔

ظہور میں تاخیر کی وجہ کے بارے میں پہلے نظریہ کے بارے میں یہ مختصر سا تنقید ی جائزہ تھا اور اب دوسری رائے کے بارے میں گفتگو کا آغاز کر تے ہیں۔

دوسرے نظریہ کا کل دار ومدار امام زمانہ کے ظہورمیں تاخیر کا باعث بننے والے اسباب کی شناخت پر ہے۔ان اسباب میں سر فہرست بقدر کافی انصار کا نہ ہونا ہے اور دوسرے یہ کہ امام کے انصار بننے والوں کے اندر لازمی لیاقت وصلاحیت (کیفیت) موجود نہیں ہے کیونکہ امام زمانہ کی حکومت ہمہ گیروآفاقی حکومت ہے جس میں قیادت اورکمزور، محروم و مستضعف لوگوں کے ہاتھ میں ہوگی :

( وَنُرِیدُ اٴَنْ نَمُنَّ عَلَی الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا فِی الْاٴَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ اٴَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمْ الْوَارِثِینَ ) (۱)

مستضعف اور محروم مومنین اس سلطنت اور مال ودولت کے وارث قرار پائیں گے جس پر اس سے پہلے کافروں اور ظالموں کا قبضہ ہوگا۔( ونجعلهم ائمّةً و نجعلهم الوارثین ) اور روئے زمین پر ان کی حکومت قائم ہو جائے گی( وَنُمَکِّنَ لَهُمْ فِی الْاٴَرْضِ ) (۲) اس مرحلہ میں امام زمانہ -زمین کو شرک اور ظلم کی گندگی سے پاک وصاف کردیں گے ۔”یملاٴ الاٴرض عدلاً کما ملئت ظلماً وجورا “اور ان کا نام ونشان باقی نہ رہ جائے گا جیساکہ متعدد روایات میں ہے زمین کے مشرق ومغرب میں کوئی ایسی جگہ باقی نہیں رہ جائے گی جہاںصدائے ”لا الٰه الا اللّٰه “نہ پہنچے۔

____________________

(۱)قصص/۵

(۲)قصص/۶

۲۶

اس ہمہ گیر انقلاب وحکومت کامحور ”توحید“اور ”عدل“ہوگا لہٰذا ایسے انقلاب کے لئے وسیع تیاری کی ضرورت ہے اور کیفیت وکمیت دونوں اعتبار سے اعلیٰ سے اعلیٰ تیاری درکارہے ورنہ اس قسم کی تیاری اور راہ ہموار کئے بغیر ایسا ہمہ گیر انقلاب ممکن نہیں ہے اور سنت الٰہیہ کی تاریخ یہی ہے۔

آفاقی انقلاب میں سنت الٰہی اور غیبی امداد کاکردار

ظالموں ،کافروں اور لوگوں کی گردنوں پر مسلط جاہلی حکومتوں اور نظاموں کے مقابلہ میں ایسا انقلاب غیبی امدا داور خدا وندعالم کی تائید کے بغیر کسی طرح بھی کامیاب نہیں ہو سکتاچنانچہ روایات میں اس الٰہی امداداور اس کے انداز کا واضح تذکرہ موجود ہے۔

البتہ الٰہی امدا دتصویر کا صرف ایک رخ ہے جب کہ اس کا دوسرا رخ تاریخ میں ایسے ہمہ گیر انقلاب کے آغاز، نشوونما اور اس کے تکمیل تک پہنچنے میں الٰہی سنتوں کیا کردار ہے؟اور الٰہی سنتوں میں کوئی تغیر وتبدیلی واقع نہیں ہوتی۔

( سُنَّةَ اللهِ فِی الَّذِینَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبْدِیلًا ) (۱)

سنت الٰہی اورامدادکے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے ۔اس انقلاب کی حیثیت اور اہمیت وہی ہے جو رسول اللہ کی دعوت توحید کی حیثیت اور اہمیت تھی ،کیونکہ آنحضرت نے جو تحریک شروع کی تھی اس کا مقصد لوگوں کو توحید کے راستہ پر لگانا تھا یہی وجہ تھی کہ اس تحریک کو ہر مرحلہ پر غیبی تائید اورا مداد الٰہی حاصل رہی۔حتی کہ خداوندعالم نے بہادری کا

____________________

(۱)احزاب/۶۲

۲۷

نشان لئے ہوئے صف بستہ ملائکہ ،ہوااور نہ دکھائی دینے والے لشکر نیزدشمن کے دل میں رعب ودبدبہ کے ذریعہ آپ کی نصرت کی ہے لیکن اس کے باوجود خداوندعالم نے اپنے رسول کو یہ حکم دیا ہے کہ اس دائمی معرکہ آرائی کے لئے آپ خود بھی قوت وطاقت اور افراد فراہم کریں :( وَاٴَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ ) (۱)

اور یہ معرکہ تاریخ او ر سماج میں قائم الٰہی سنتوں کے مطابق پورا ہوا جس کی وجہ سے کبھی رسول اللہکو اپنے دشمنوں پر فتح حاصل ہوئی اور کبھی کبھی اس کے برعکس آپ کے لشکر کو ہزیمت کاسامنا کرنا پڑا ۔آپ اس معرکہ آرائی میں فوج ،مال اور اسلحوں کا باقاعدہ استعمال کرتے تھے اورباقاعدہ جنگی حکمت عملی تیارکرتے تھے اور جنگ کے نئے نئے طریقوں کا اچانک استعمال کر کے دشمن کو حیرت زدہ کردیتے تھے اسی طرح وقت اور جگہ کے اعتبار سے بھی دشمن کو غیر متوقع ہنگامی صورت حال سے دوچار ہونا پڑتا تھا۔بلا شبہہ خدا نے اپنے رسول کی مدد کی لیکن ان تمام چیز وں اور خدا کی طرف سے اپنے رسول کی غیبی نصرت وامداد کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے اور یہ ایک ہی تصویر کے دورخ ہیں۔

آپ کے فرزند کا عالمی انقلاب آپ کی دعوت توحید اورانقلاب سے جدا نہیں ہے جس کی قیادت آپ نے خداوندعالم کے حکم سے کی تھی۔

وہ الٰہی سنیتیں جن کاوجوداس عالمی انقلاب کے لئے ضروری ہے ان میں سے ایک، ظہور امام سے پہلے اس ظہورکی تیاری اور اس کے لئے زمین ہموار کرنا ہے اور جب آپ کا ظہور ہوتو اس وقت ناصروں و مددگاروں کا وجوداور آپ کی نصرت اس میں شامل ہے۔کیونکہ جب تک ایسی تیاری نہ ہوگی اور اس کے لئے زمین ہموارنہیں ہوگی تب تک

____________________

(۱)انفال/۶۰

۲۸

تاریخ انسانیت کا اتنا عظیم انقلاب کامیاب نہیں ہو سکتا ہے۔

لہٰذا اب ہم ان دونوں قسموں کی روایتوں کا تذکرہ کرتے ہیں جن میں سے پہلی قسم ”ظہور کی تیاری اور اس کی راہ ہموار“کرنے کے بارے میں اور دوسرے قسم کی روایات ”انصار اور نصرت“کے بارے میں ہیں اور اس کے بعد ان کے بارے میں غوروفکر کریں گے ،انشاء اللہ ۔

پہلی قسم کی روایتیں ظہور امام کی راہ ہموار کرنے والوں کے بارے میں ہیں اور یہ وہ جماعت ہے کہ جو ظہور امام کے لئے اقوام عالم اور کائنات کو آپ کی عالمی حکومت کے لئے تیار کرے گی۔لہٰذا یہ جماعت فطری طور پر امام کے ظہور سے پہلے ہوگی۔

جب کہ دوسری قسم کی روایات ”انصار “ کے بارے میں ہیں او ریہ وہ جماعت ہے جن کو ساتھ لے کر امام قیام فرمائیں گے اور ان کے ہمراہ ظالموں کے خلاف انقلاب برپا کریں گے اس طرح ہمارے سامنے دو قسم کی جماعتیں ہیں:

(۱) ظہور کی”راہ ہموار کرنے والوں کی جماعت“جو ظہور امام کے لئے حالات استوار کریں گے۔

(۲) ” انصار کی جماعت“جن لوگوں کے ساتھ امام قیام فرمائیں گے اور ان ہی کے تعاون سے ظالموں کے خلاف انقلاب برپا کریں گے ۔اب ہم ان دونوں قسم کی روایات کا جائزہ لیتے ہیں ۔

روایات میں ظہور کی راہ ہموارکرنے والی جماعت کا تذکرہ

شیعہ و سنی دونوں مکاتب فکر کے یہاں ایسی روایات بکثرت موجود ہیں جن میں امام کے ظہور کی راہ ہموار کرنے والی جماعتوں کا تذکرہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان روایتوں میں صراحت کے ساتھ ان جماعتوں کے علاقوں کا تذکرہ بھی موجود ہے جن میں سے کچھ اہم علاقے یہ ہیں:مشرق وخراسان(بظاہر مشرق سے مراد خراسان ہی ہے) قم ، رے،یمن،اب ان جماعتوں اور ان کے علاقوں کی نشاندہی کرنے والی روایات ملاحظہ فرمائیں:

۲۹

۱ ۔مشرق میں ظہور کی راہ ہموار کرنے والی جماعت

حاکم نے مستدرک میں عبداللہ بن مسعو د سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ان کا بیان ہے:رسول خدا ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ کا چہرہ خوشی سے کھلا ہوا تھا اور لبوں پر تبسم موجود تھا۔اس وقت ہم نے آپ سے جس چیز کے بارے میں سوال کیا آپ نے ہمیں اس کا جواب دیا اوراگر ہم خاموش نہیں ہوتے تو آپ خود گفتگو شروع کر دیتے تھے یہاں تک کہ بنی ہاشم کے کچھ بچے ہمارے سامنے سے گذرے جن کے درمیان حسن اور حسین بھی تھے جب آنحضرت کی نگاہ ان دونوں پڑی تو آپ کی آنکھوں میں آنسو چھلکنے لگے اور ہم نے کہا:یا رسول اللہ کیا بات ہے ہم آپ کے چہرہ سے ناگواری کا مشاہدہ کر رہے ہیں؟

تو آپ نے فرمایا:”انّا اٴهل بیت اختار اللّٰه لنا الآخرةعلیٰ الدنیا، وانّه سیلقیٰ اٴهل بیتی من بعدی تطریداًوتشریداًفی البلاد حتیٰ ترتفع رایات سودفی المشرق،فیساٴلون الحقّ لایعطونه،ثمّ یساٴلونه فلایعطونه،ثمّ یساٴلونه فلایعطونه فیقاتلون فینصرون،فمن اٴدرکه منکم ومن اٴعقابکم فلیاٴت امام اٴهل بیتی ولوحبواًعلیٰ الثلج ،فانّها رایات هدیٰ، یدفعونها الیٰ رجل من اٴهل بیتی(۱)

____________________

(۱)مستدرک صحیحین،ج/۴،ص/۴۶۴

۳۰

”ہم اہل بیت کے لئے خدا وندعالم نے دنیا کے بجائے آخرت کومنتخب کیا ہے میرے بعد میرے اہل بیت کو جلا وطن اور شہر بدر کیاجائے گا یہاں تک کہ مشرق میں سیاہ پر چم بلند ہوجائیں گے اور وہ حق کا مطالبہ کریں گے لیکن ان کا مطالبہ پورا نہ ہوگا وہ پھر مطالبہ کریں گے مگر پھر نامراد رہیں گے پھر مطالبہ کریں گے مگر ان کا حق ادا نہیں کیا جائے گا۔تب وہ جنگ کریں گے۔ تو ان کی نصرت کی جائے گی۔لہٰذا تم لوگوں یا تمہاری نسل میں جو کوئی اس وقت موجودرہے وہ میرے اہل بیت٪ میں آنے والے امام کا ساتھ دے چاہے برف پر گھسٹتے ہوئے آنا پڑے کیونکہ یہ ہدایت کے پر چم ہوں گے اور وہ انہیں میرے اہل بیت میں موجود شخص کے حوالے کر دیں گے۔“

امام جعفر صادق -سے روایت :”کاٴنی بقوم قدخرجوابالمشرق یطلبون الحقّ فلایعطونه ثمّ یطلبونه فاذاراٴ واذلک وضعواسیوفهم علیٰ عواتقهم فیعطون ماشاو وافلایقبلونه حتیّٰ یقوموا ولایدفعونهاالّا الیٰ صاحبکم (ای الامام المهدی)قتلاهم شهداء(۱)

”گویا کہ میں ایسی قوم کو دیکھ رہا ہوں جومشرق کی جانب سے خروج کرے گی وہ حق کا مطالبہ کر یں گے اور انہیں حق نہیں ملے گا وہ پھر مطالبہ کریں گے مگر نہ ملے گا۔جب وہ یہ صورتحال دیکھیں گے تو اپنی تلواروں کو اپنے کاندھوں پر رکھ لیں گے تب تو وہ جس چیز کا مطالبہ کریں گے وہ انہیں دےد یا جائے گالیکن وہ اسے قبول نہیں کریں گے بلکہ اٹھ کھڑے ہوں گے،اور وہ اسے تمہارے آقا(امام مہدی ) کے علاوہ کسی اور کے حوالے نہیں کریں گے ان کے متقولین شہیدواقع ہوں گے“

____________________

(۱)بحارالانوار،ج/۵۲،ص/۲۴۳،اس حدیث میں تلواروں سے اسلحہ مراد ہے۔

۳۱

۲ ۔خراسان میں راہ ہموار کرنے والے

جناب محمد حنفیہ سے روایت ہے لیکن بظاہر یہ روایت مولائے کائنات سے منقول ہے:”ثمّ تخرج رایة من خراسان یهزمون اٴصحاب السفیانی حتیّ تنزل بیت المقدس توطیء للمهدی سلطانه(۱)

”پھر خراسان سے ایک پر چم ظاہر ہو گا، یہ لوگ سفیان کے ساتھیوں کو شکست دے دیں گے۔یہاں تک کہ یہ لوگ بیت المقدس تک پہنچ جائیں گے اور مہدی کی حکومت کے لئے زمین ہموارکریں گے۔“

۳ ۔”قم “اور ”رے“ میں زمین ہموار کرنے والے

علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں روایت نقل کی ہے:”رجل من قم ید عوالناس الیٰ الحق یجتمع معه قوم قلوبهم کزبرالحدید،لاتزلّهم الریاح العواصف ، لایملّون من الحرب ولایجبنون و علیٰ اللّٰه یتوکّلون والعاقبة للمتقین ‘ ‘(۲)

”قم والوں میں سے ایک شخص لوگوں کو حق کی طرف دعوت دے گا۔اس کے گرد ایک قوم جمع ہوجائے گی۔ان کے دل آہنی چٹانوں کی طرح مضبوط ہوں گے انہیں بڑی سے بڑی آندھی نہیں ہلاپائے گی وہ جنگ سے ملول خاطر نہ ہوں گے ان کے اندربزدلی کا نام ونشان بھی نہ ہوگا،اور ان کا اعتماد خدا پر ہوگا،اور انجام (عاقبت) متقین کے لئے ہے۔“

____________________

(۱)عصر الظہوار/۲۰۶

(۲)بحارالانوار،ج/۶۰،ص/۲۱۶

۳۲

۴ ۔یمن میں زمین ہموار کرنے والے

امام کے ظہور سے پہلے یمن کی قیادت کے بارے میں امام محمد باقر -نے یہ ارشاد فرمایا:ان پر چموں کے درمیان یمانی کے پرچم سے زیادہ برحق کوئی پرچم نہ ہوگا،وہ ہدایت کا پر چم ہے کیونکہ وہ تمہارے آقاکی طرف دعوت دے گا۔(۱)

راہ ہموارکرنے والوں کے خصوصیات

۱ ۔سیسہ پلائی ہوئی جماعت

سب سے پہلے ان جماعتوں کی جس خصوصیت پرنظر پڑتی ہے وہ ان کی قوت وصلابت ،صلاحیت واستحکام ہے۔اس مضبوط جماعت کے افراد،نہایت تجربہ کار اور مشاق ہوں گے اور زمین کو امام کے ظہور کے لئے آمادہ کریں گے اور تن تنہا زمین پر قابض طاغوتوں کا مقابلہ کریں گے جیسا کہ جناب شیخ کلینی کی روایت کے مطابق امام جعفر صادق - نے آیہ:( فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ اٴُولَاهُمَا بَعَثْنَا عَلَیْکُمْ عِبَادًا لَنَا اٴُولِی بَاٴْسٍ شَدِید ) (۲) کی تفسیر اسی جماعت سے کی ہے۔جب کہ روایت نے ان کی یہی عجیب وغریب صفت بیان کی ہے”قلوبھم کزبر الحدید لاتزلھم الریاح العواصف“ان کے دل آ ہنی چٹانوں کی مانند ہوں گے جنہیں تیزو تند ہوائیں نہ ہلاسکیں گی۔

بیشک وہ دل ایسے ہیں جب کہ دلوں کی خاصیت یہ ہے کہ وہ نرم ہوتے ہیں لیکن ان کے دل طاغوتوں اور ظالموں کے مقابلہ میں آ ہنی چٹان کی طرح مضبوط ہوجائیں گے جو نہ

____________________

(۱)گذشتہ حوالہ،ج/۵۲،ص/۲۳۲

(۲)الاسراء/۵

۳۳

نرم پڑیں گے اور نہ ہی پگھل سکیں گے لہٰذا استحکام اور مضبوطی ان جماعتوں کی خصوصیات میں شامل ہے جن کو خدا وندعالم عالمی انقلاب اور دنیاکو تبدیل کرنے کی ذمہ داری عطا کرے گاا سی طرح جس جماعت کو خدا وندعالم عظیم تاریخ کا رخ موڑنے اور لوگوں کو ایک مرحلہ سے دوسرے مرحلہ کی طرف منتقل کرنے کے لئے منتخب کرتاہے ان کی تمام خصوصیات اس جماعت میںموجود ہوں گی۔

۲ ۔چیلنج بننے والی جماعت

اس جماعت کامشن”عالمی نظام کو چیلنج کرنااور اس کے خلاف بغاوت اورسرکشی ہے۔اور کسی کو کیا معلوم کے یہ عالمی نظام کیسا ہوگااور یہ اتنی عظیم خدمت کے لئے کیسے آمادہ ہوگااور اسے صحیح رخ پر کون لگائے گا اور اس کے لئے دنیا کے مختلف علاقوں میں طاقتوں اور حکمت عملی تیارکرنے والے اہم مراکز کی حفاظت کون کرے گا ؟یہ بیحد نازک اور نہایت سخت ذمہ داری ہے جسے وہ پوری دنیا کے نظام کو چلانے کے لئے اپنے کاندھوں پراٹھائیں گے اور اس کا تعلق کسی خاص علاقہ یا ملک سے نہیں ہوگا۔

یہ نظام مختلف قسم کے سیاسی ،اقتصادی ،عسکری اور اطلاعاتی تعادل وتواز ن برقراررکھنے والے مختلف اداروں اور حکومت چلانے والے نظاموں سے جڑے ہوئے نظاموں اور ان نظاموں کے درمیان مختلف قسم کے سرخ ہرے اور پیلے خطوط (حدود) ہوں گے میرا خیال یہ ہے:ایک دوسرے سے مربوط جڑے ہوئے ان اداروں اور نظاموں میں عالمی سطح پر غلبہ حاصل کرنے کی عظیم طاقت اور صلاحیت موجود ہوگی بالکل اسی طرح جیسے ایک چھوٹی گاڑی(لوہے کا ایک بٹن یاہتھوڑا بڑی بڑی عمارتوں کو منہدم کرنے میں استعمال ہوتا ہے )یعنی انسان معمولی اشاروں سے بڑے بڑے کام انجام دے گا یہی وجہ ہے کہ عالمی نظام سوویت یو نین کے نظام کا شیرازہ بکھرنے سے پہلے اور اس کے بعد بھی ہر ایک کے لئے قابل احترام ہے

۳۴

کیونکہ ان میں سے ہر ایک اپنی ظرفیت کے مطابق اس سے استفادہ کر رہا ہے۔جب کہ ظہور کی راہ ہموار کرنے والے ان جوانوں کی جماعت اس نظام کی بساط لپیٹ دے گی۔یہ لوگ ان حکومتی اور غیر حکومتی اداروں کے نظم وضبط تعادل اور شان و شوکت کا جنازہ نکال دیں گے اور ان جوانوں کے اوپر ان لوگوں کا کچھ بس نہیں چلے گا نہ وہ انہیں برداشت کر سکیں گے اور نہ ہی انہیں دور کر سکیں گے کیونکہ ان تمام حکومتوں اور ان سے متعلق اداروں اور مشینریوں کا کل زور اور شان وشوکت اپنے جیسے اداروں اور مشینریوں کے مقابلہ میں دکھائی دیتی ہے اور ان کے پاس سب سے بڑا اسلحہ قتل کرنا اور جیل میں ڈال دینا یا طرح طرح کے شکنجے دینایا جلاوطن کر دینا ہے۔

جبکہ ان جوانوں کو ان چیزوں کا ذرہ برابر خوف نہیں ہے۔جیسا کہ روایت میں ان کی یہ صفت سے بیان کی گئی ہے:”لاتزلّهم الریاح العواصف،لایملّون من الحرب ولایجبنون وعلی اللّٰه یتوکّلون والعاقبة للمتقین ‘”انہیں تندوتیز ہوائیں ان کی جگہ سے نہیں ہلاسکتیں یہ جنگ سے کبیدہ خاطر نہ ہوں گے اور نہ بزدل ہیں ،اللہ پر توکل رکھنے والے اور عاقبت تو متقین کے لئے ہے۔“

یہ طے ہے کہ جو بزدل نہ ہو اور جنگ سے کبیدہ خاطر نہ ہوتا ہو اور اسے تیز وتند ہوا ئیں اس کی جگہ سے نہیں ہلاسکتیں،یہی ان کی اصل طاقت اور ان کا امتیاز ہے کہ ان کے یہاں بزدلی کا نام ونشان نہ ہوگا اور اسی صفت سے سپر پاورکہے جانے والے ممالک کے سامنے بڑی مشکل کھڑی ہوجائے گی۔

۳۵

امریکہ میں جب کبھی صدارت کا انتخاب ہوتا ہے تو عوام کے جوش وجذبہ کو بڑھا نے کے لئے صدارت کے امیدوار ٹی وی مکالمہ میں شرکت کرتے ہیں ایسا ہی ایک مباحثہ ومکالمہ امریکہ کے سابق صدر کا ر ٹر اور ان کے مدمقابل امیدوار کے درمیان ہوا تھا ۔ جس میں مخالف امیدوار نے کارٹرسے یہ سوال کیا تھاکہ بیروت میں امریکی بحریہ کے ہیڈ کواٹر پر حملہ اور دھماکہ کے باعث امریکہ کی ساکھ کوزبردست نقصان پہنچا ہے اور امریکہ کے صدر ہونے کی بنا پر آپ براہ راست اس نقصان کے ذمہ دارہیں۔تو اس وقت کے امریکی صدر کار ٹر نے اس کاجواب یہ دیا:تم ہی بتاو میں اس شخص کے مقابلہ میں کیا کر سکتا ہوں جو موت کے منہ میں کودنے کے لئے تیار ہو؟ہمارے بس میں زیادہ سے زیادہ اتنا ہے کہ ہم لوگوں کو خوفزدہ کرکے ایسے واقعات سے دور رکھیں ۔لیکن جو شخص ایسا دھماکہ کرنے کے لئے خود موت کے منہ میں کودنے کے لئے تیار ہو تو ہم اسے کیسے روک سکتے ہیں؟آپ ہی بتائیے کہ اگر اس وقت میری جگہ آپ ہوتے توکیا کرتے ؟

مختصر یہ کہ عراق،ایران،افغانستان ،لبنان ،فلسطین ،الجزائز ،مصر ،سوڈان اور اب بوسنیا میں سپر پاور اور بڑی طاقتوں کو چیلنج کرنے والی جماعتوں کے نمونے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

ان جماعتوں کی عجیب بات یہ ہے کہ ان کے بہادر، ظالموں اور جلادوں نیز سپر پاور کو برا بھلا کہتے ہیں جب کہ وہ ان کے قبضہ میں ہیں یا ان کی حکومت میں ان ہی کے زیر نظر رہتے ہیں اور ان کو طرح طرح کی سزائیں اور شکنجے دئے جاتے ہیں مگر اس کے باوجود اس کام سے باز نہیں آتے اور نہ ہی ان کے سامنے جھکتے ہیں نہ کراہتے ہیں اور نہ کسی قسم کی آہ وفریاد کرتے ہیں بلکہ ان کا ایک بہادرجسے خدا جانے وہ کس کس طرح سے تکلیفیں پہنچا رہے تھے اور اس کی زبان پر یہ الفاظ تھے:تمہارے دل میں یہ حسرت باقی چھوڑ جاو ں گا کہ تم صرف ایک بار ہی سہی میرے کراہنے ،رونے یا آہ وفریاد کی آواز سن لو!

۳۶

۳ ۔عالمی رد عمل

جیسا کہ روایتوں میں بھی اشارہ موجود ہے کہ عالمی پیمانے پر اس جماعت کی مخالفت میں غصہ اور ناراضگی کا رد عمل سامنے آئے گا کیونکہ یہ جماعت ان کے کاروبار اور نظام حیات میں واقعاً اتھل پتھل کرکے کھلبلی مچا دے گا۔جس سے ان کا ناراض ہونا لازمی ہے۔

جناب ابان بن تغلب نے امام جعفر صادق -سے یہ روایت نقل کی ہے : ”اذا ظهرت رایة الحق لعنها اهل الشرق واهل الغرب،اٴتدری لم ذٰلک؟قلت: لا،قال:للذی یلقی الناس من اٴهل بیته قبل ظهوره(۱)

”جب حق کا پرچم ظاہر ہوگا تواس پر مشرق اور مغرب والے لعنت کریں گے (برا بھلا کہیں گے) کیا تمہیں معلوم ہے کہ ایسا کیوں ہوگا ؟میں نے عرض کی نہیں ۔

توآپ نے فرمایا : ظہور سے قبل اہل بیت کی طرف سے لوگوں کوجن (حالات)کا سامنا کرنا پڑے گا۔“

اور یہ طے شدہ ہے کہ ظہور سے پہلے ان کے اہل بیت سے مراد وہی افراد ہوں گے جو ظہور کی راہ ہموار کریں گے اور عالمی حکومتوں کی ناک میں دم کرکے ان کا جینا دوبھر کر دیں گے۔

شیخ کلینی نے اپنی کتاب (روضہ )الکافی میں خداوندعالم کے اس قول :

( بَعَثْنَا عَلَیْکُمْ عِبَادًا لَنَا اٴُولِی بَاٴْسٍ شَدِید ) (۲) کی تفسیر کے سلسلہ میں امام جعفر صادق -کا یہ قول نقل کیا گیا ہے:

قال:قوم یبعثهم اللّٰه قبل خروج القائم فلایدعون لآل محمد مبغضاً الاَّقتلوه

____________________

(۱)بحار الانوار،/۵۲،ص/۶۳

(۲)اسراء/۵

۳۷

امام جعفر صادق -نے فرمایا :”اس سے مراد وہ قوم ہے جسے خداوندعالم قائم کے ظہو ر سے پہلے بھیجے گا ،اور وہ آل محمد سے کشیدگی اختیار کرنے اور دور رہنے والے کو نہیں بلائیں گے مگر یہ کہ اسے قتل کر دیں گے۔“

تیاری کی منصوبہ بندی

امام زمانہ کے انقلاب کے لئے زمین کو آمادہ کرنا بے حد وسیع وعریض اور اہم مرحلہ ہے اوراس مرحلہ کوسر کرنے کے لئے مومنین کی یہ جماعت دنیا کے ظالموں ،استکباری اور طاغوتی طاقتوں کے سامنے اٹھ کھڑی ہوگی جب کہ تمام طاغوتی طاقتیں اپنے تمام اختلافات کو بھلا کر ان کے مقابلہ میں ایک وسیع وعریض متحدہ سیاسی پلیٹ فارم تیارکرلیں گی اور اس پلیٹ فارم کے قبضہ میں ہر طرح کے مال ودولت ،حکومتی اور سیاسی ہتھکنڈے ،فوجی طاقت اورذرائع ابلاغ،روابط اور نظم ونسق جیسے طاقت وقوت کے وسائل ہوں گے۔

یہ تمام وسائل اسلامی بیداری کو نیست ونابود اور ناکام بنانے کے لئے استعمال کئے جائیں گے ۔لہٰذا جو جماعتیں دنیا کو امام کے ظہور کے لئے آمادہ کرنے کا منصوبہ لے کر اٹھ کھڑی ہوں گی ان کے پاس بھی اسی قسم کے آلات ووسائل موجود ہونا ضروری ہیں بلکہ اس کے علاوہ ان کے پاس ایمانی جذبہ اور جہادی تربیت اور سیاسی شعور بھی تا حد کافی ہونا ضروری ہے کیونکہ تیاری کے اس منصوبہ کے دو حصہ ہوں گے:

۳۸

پہلا حصہ

ایمانی جذبہ اور جہادی تربیت نیز سیاسی شعور ،یہ چیزیں ان کے مد مقابل کے یہاں مفقود ہوں گی۔

دوسرا حصہ

وہ تمام سیاسی ،فوجی، اقتصادی ،انتظامی اورمیڈیا اور ذرائع ابلاغ کے وسائل کی فراہمی جوایسے معرکہ کے لئے ضروری ہیں۔

اس میں کوئی شک وشبہہ نہیں ہے کہ جو مومن جماعت دنیا کو امام کے ظہور کے لئے تیار کرے گی اس کے لئے ان تمام چیزوں اورقوتوں کی فراہمی ضروری ہے چاہے وہ اس میں اپنے مدمقابل عالمی اتحاد کی برابری نہ کر سکے نیز یہ بھی طے ہے کہ ایک سیاسی نظام اور باقاعدہ کسی حکومت کے بغیر یہ کام ممکن نہیں ہے۔اوروہ حکومت جس کی بشارت احادیث میں کثرت کے ساتھ دی گئی ہے وہ ظہور کی تیاری کرنے والی جماعت کی ہی حکومت ہوگی اس کے بغیر امام کے ظہور کے فطری اسباب فراہم نہ ہوں گے لہٰذا اس کا وجود امام کے ظہور سے پہلے یقینی ہے اور یہ بھی طے ہے اس قسم کی قدرت حاصل کر نے کے لئے واقعاًجد وجہدکی ضرورت ہے اور صرف تماشائی بنے رہنے یا” انتظار“ سے کام چلنے والا نہیں ہے۔

روایات میں انصار کا تذکرہ

ظہور امام کی تیاری کرنے والی جماعت انصار کی جماعت سے پہلے ہوگی اور اس جماعت کے افرادگذشتہ جماعت کے شاگرد ہوں گے اور یہ لوگ ان سے مختلف خصوصیات اورممتاز صفات کے حامل ہوں گے۔

اس مقام پر ہم اس جماعت کے بارے میں وارد ہونے والی روایتوں میں سے صرف ایک روایت کو بطور نمونہ ذکر کر رہے ہیں یہ روایات شیعہ اور سنی دونوں طرق سے مروی ہیں اس روایت میں ”طالقان “کے جوانوں کا تذکرہ ہے:

۳۹

طالقان کے جوان مرد

متقی ہندی نے ”کنزالعمال “میں ،سیوطی نے اپنی کتاب”حاوی“میں امام مہدی کے ان انصار کے بارے میں یہ روایت نقل کی ہے جن کا تعلق ”طالقان “ سے ہوگا :

ویحاً للطالقان فان للّٰه عزّوجلّ بها کنوزاً لیست من ذهب ولافضة، ولکن بها رجال عرفوا اللّه حق معرفته وهم اٴنصار المهدی(۱)

”قابل رشک ہے طالقان کیونکہ بے شک وہاں خداوندعالم کے ایسے خزانے ہیں جو نہ سونا ہے اور نہ چاندی بلکہ وہ ایسے مردہیں جن کے پاس خداوندعالم کی کامل معرفت ہے یہی کامل المعرفت افراد مہدی کے انصار ہیں۔“

ینابیع المودة قندوزی میں ہے:”بخٍ بخٍ للطالقان(۲)

علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں یہ روایت نقل کی ہے:

کنزبالطالقان ما هوبذهب ولا فضة ،رایة تنشر مذ طویت،ورجال قلوبهم زبر الحدید لایشوبها شک فی ذات اللّٰه اشد من الجمر ،لو حملواعلیٰ الجبال لاٴزالوها ،لایقصدون برایاتهم بلدة الاَّخربوها کاٴنّ خیولهم العقبان، یتمسحون بسرج الامام یطلبون بذٰلک البرکة ویحفون به ویقونة باٴ نفسهم فی الحروب،یبیتون قیاماً علیٰ اٴطرافهم ویصبحون علیٰ خیولهم“رهبان باللیل لیوث بالنهار،هم اطوع من الامة لسیدها، کالمصابیح فی قلوبهم القنادیل وهم من خشیته مشفقون ،

____________________

(۱)کنزالعمال،/۷،ص/۲۶

(۲)ینابیع المودة،ص/۴۴۹

۴۰