معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ

معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ33%

معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 15 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 9030 / ڈاؤنلوڈ: 4177
سائز سائز سائز
معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ

معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین ( علیہ ما السلام ) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ

مصنف: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ

ماہ شعبان المعظم میں ادارہ اسلام شناسی کی پہلی پیشکش

از قلم: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ

ناشر: ادارہ اسلام شناسی زینبیہ امام بارگاہ، ۱۳۲ ، حسینیہ مارگ، ممبئی نمبر ۳

نام کتاب : معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف

مصنف : علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ

کمپوزر : غلام حیدر (میکسیما کمپوزنگ سینٹر اسلام آباد)

ناشر : ادارہ اسلام شناسی

زینبیہ امام بارگاہ، حسینیہ مارگ ممبئی نمبر ۳

سن اشاعت : شعبان المعظم، ۱۴۲۴ ہجری بمطابق ستمبر ۲۰۰۳ ءء

مقدمہ

اہل ممبئی کی خوش قسمتی ہے کہ عالم اسلام کی بلند پایہ شخصیت سرکار علامہ جوادی مدظلہ نے اپنی مصروف ترین زندگی میں سے کچھ وقت اس شہر کے لیے مخصوص کر دیا ہے اور ہمارے شہر کو اپنے مذہبی خدمات کے لیے مرکز کی حیثیت دے دی ہے۔ اس سلسلے میں ہم ان مراجع عظام کے بھی شکر گزار ہیں کہ جنہوں نے ہمارے حال زار پر رحم کھا کر سرکار موصوف کو اپنا وکیل خاص بنا کر ہماری نگرانی اور سرپرستی کے لیے ہندوستان میں قیام پر مجبور کر دیا ہے اور اس طرح مذہبی خدمات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جس کا بہترین نمونہ ”ادارہ اسلام شناسی“ ہے۔ جسے سرکار موصوف کی سرپرستی کا شرف حاصل ہے اور یہ ادارہ صحیح مذہبی معلومات اور قرآن و اہل بیت علیہم السلام کی واقعی تعلیمات کو عملی شکل دینے کے لیے مسلسل کوشش کر رہا ہے۔ ادارہ نے ایک ماہانہ نشریہ کا بھی انتظام کیا ہے جس کا نقش اول ”معرفت ِ امام عصر “ ہے جو دور حاضر میں ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ مومنین کرام سے گزارش ہے کہ ان نشریات سے مکمل طور پر فائدہ اٹھائیں اور اصحاب خیر سے التماس ہے کہ اس کار خیر کی اشاعت میں ہر طرح سے تعاون کریں۔

رب کریم سرکار موصوف کے سایہ کو برقرار رکھے اور ہمیں ان کی تعلیمات سے استفادہ کرنے کی توفیق کرامت فرمائے۔

ادارہ اسلام شناسی

زینبیہ امام بارگاہ، ۱۳۲ حسینیہ مارگ، ممبئی ۳

نقش زندگانی حضرت صاحب الامر عجل الله فرجہ الشریف

ماہِ شعبان ۲۵۵ ئھ کی پندرہویں تاریخ صبح جمعہ کی مسعود ترین ساعت تھی جب پیغمبر اسلام کے آخری وارث اور سلسلہ امامت کے بارہویں اور آخری امام کی ولادت باسعادت ہوئی۔ بعض علماء نے سال ولادت ۲۵۶ ئھ سنہ نور لکھا ہے لیکن معروف ترین روایت ۲۵۵ ء ھ ہی کی ہے۔

والد ماجد امام حسن عسکریں تھے جن کی عمر مبارک آپ کی ولادت کے وقت تقریباً ۲۳ سال تھی اور والدہ گرامی جناب نرجس خاتون تھیں جنہیں ملیکہ بھی کہا جاتا ہے۔

جناب نرجس خاتون دادھیال کے اعتبار سے قیصر روم کی پوتی تھیں اور نانیہال کے اعتبار سے جناب شمعون وصی حضرت عیسیٰں کی نواسی ہوتی تھیں۔ اس اعتبار سے امام زمانہں نانیہال اور دادھیال دونوں اعتبار سے بلند ترین عظمت کے مالک ہیں اور آپ کا خاندان ہر اعتبار سے عظیم ترین بلندیوں کا مالک ہے۔

جناب نرجس کے روم سے سامرہ پہنچنے کی تاریخ دو حصوں میں بیان کی جاتی ہے۔ ایک حصہ سامرہ سے متعلق ہے اور ایک حصہ روم سے متعلق ہے۔ پہلے حصہ کے راوی جناب بشر بن سلیمان انصاری ہیں جو جناب ابو ایوب انصاری کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور دوسرے حصہ کی راوی خود جناب نرجس ہیں جنہوں نے اپنی داستانِ زندگی خود بیان فرمائی ہے۔

پہلے حصہ کا خلاصہ یہ ہے کہ امام علی نقی ں کے خادم کافور نے بشر بن سلیمان تک یہ پیغام پہنچایا کہ تمہیں امام علی نقی ں نے یاد فرمایا ہے۔ بشر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ تم بردہ فروشی کا کام جانتے ہو۔ یہ ایک تھیلی ہے جس میں دو سو بیس اشرفی ہیں اسے لے کر میرے خط کے ساتھ جسر بغداد تک چلے جاؤ، وہاں ایک قافلہ بردہ فروشوں کا نظر آئے گا۔ اس قافلہ میں ایک خاتون بہ شکل کنیز ہوگی جس کی خریداری کی تمام لوگ کوشش کر رہے ہوں گے لیکن وہ کسی کی خریداری سے راضی نہ ہوگی اور نہ اپنے چہرہ سے نقاب اٹھائے گی۔ تم یہ منظر دیکھتے رہنا جب تمام لوگ قیمت بڑھا کر عاجز ہو جائیں اور مالک پریشان ہو اور کنیز یہ کہے کہ میرا خریدار عنقریب آنے والا ہے تو تم مالک کو یہ تھیلی دے دینا اور کنیز کو یہ خط دے دینا جو اسی کی زبان میں لکھا گیا ہے۔ معاملہ خود بخود طے ہو جائے گا۔ جناب بشر بن سلیمان نے ایسا ہی کیا اور حرف بحرف امام کی نصیحت پر عمل کیا۔ یہاں تک کہ معاملہ طے ہوگی اوار دو سو بیس اشرفی میں اس خاتون کو حاصل کر لیا اور امام کی خدمت میں لا کر پیش کر دیا۔

اس کے بعد جناب نرجس نے اپنی تاریخ زندگی یوں بیان کی ہے کہ میں ملیکہ قیصر روم کی پوتی ہوں۔ میری شادی میرے ایک رشتہ کے بھائی سے طے ہوئی تھی اور پورے اعزاز و احترام کے ساتھ محفل عقد منعقد ہوئی تھی۔ ہزاروں اعیانِ مملکت شریک بزم تھے لیکن جب پادریوں نے عقد پڑھنے کا ارادہ کیا تو تخت کا پایہ ٹوٹ گیا اور تخت الٹ گیا، بہت سے لوگ زخمی ہوگئے اور اسے رشتہ کی نحوست پر محمول کیا گیا۔ تھوڑے عرصہ کے بعد اس کے دوسرے بھائی سے رشتہ طے ہوا اور بعینہ یہی واقعہ پیش آیا جس کے بعد لوگ سخت حیران تھے کہ اس کے پس منظر میں کوئی بات ضرور ہے جو ہم لوگوں کی عقل میں نہیں آرہی ہے کہ رات کے وقت میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک مقام پر حضرت رسول خدا اور حضرت مسیحں جمع ہیں اور ایسا ہی دربار آراستہ ہے جیساکہ میرے عقد کے موقع پر اس سے پہلے ہوا تھا۔ حضرت مسیحں نے حضرت محمد مصطفی اور حضرت علی مرتضیٰں کا بے حد احترام کیا اور ان دونوں بزرگوں نے فرمایا کہ ہم آپ سے آپ کے وصی کی صاحبزادی ملیکہ کا رشتہ اپنے فرزند حسن عسکریں کے لیے طلب کر رہے ہیں۔ حضرت مسیحں نے بصد مسرت رشتہ کو منظور کر لیا اور میرا عقد ہوگیا۔ اس کے بعد میں نے اکثر خواب میں حضرت حسن عسکریں کو دیکھا اور ان سے مطالبہ کیا کہ آپ کی خدمت میں حاضری کا راستہ کیا ہوگا تو ایک دن انہوں نے فرمایا کہ تمہارے یہاں سے ایک فوج جنگ پر جا رہی ہے، تم اس میں شامل ہو جاؤ۔ عنقریب اس فوج کو شکست ہوگی اور اس کی عورتوں کو قیدی بنا لیا جائے گا۔ تم ان قیدیوں میں شامل ہو جانا اور ان کے ساتھ بغداد تک آجانا، اس کے بعد میں تمہاری خریداری کا انتظام کر لوں گا۔ چنانچہ واقعہ ایسا ہی ہوا، اور امام علی نقی ں نے خریداری کا انتظام کر دیا اور جناب نرجس اس گھر تک پہنچ گئیں۔ جس کے بعد انہوں نے اس واقعہ کی ایک کڑی کا اور ذکر کیا کہ میں اپنے عالم انوار کے عقد کے بعد مسلسل اس خواب کی تعبیر کے لیے پریشان تھی اور نوبت شدید بیماری تک پہنچ گئی تھی تو ایک دن خواب میں جناب مریم اور جناب فاطمہ زہرا سلام الله علیہا کو دیکھا اور ان سے فریاد کی کہ آخر آپ کے فرزند تک پہنچنے کا راستہ کیا ہوگا جن کی خدمت کا شرف آپ کے پدر بزرگوار نے عنایت فرمایا ہے۔ تو آپ نے فرمایا کہ پہلے کلمہ اسلام زبان پر جاری کرو۔ اس کے بعد اس کا انتظام ہو جائے گا (اس لیے کہ مسیحی مذہب خاتون سے عقد تو ہو سکتا ہے لیکن رب العالمین نے جس مقصد کے لیے اس رشتہ کا انتخاب فرمایا ہے اس کی تکمیل دین اسلام کے بغیر ممکن نہیں ہے اس لیے کہ نورِ الٰہی کسی غیر موحد رحم میں نہیں رہ سکتا ہے) چنانچہ میں نے ان کی ہدایت کے مطابق کلمہ شہادتین زبان پر جاری کیا اور آج آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ امام علی نقی ں نے فرمایا کہ جس نوجوان نے تم سے سامرہ پہنچنے کا وعہد کیا تھا اسے پہچان سکتی ہو؟ عرض کی: بے شک! آپ نے امام حسن عسکریں کو پیش کیا۔ جناب نرجس خاتون نے فوراً پہچان لیا اور آپ نے ان کو عقد کرکے اپنے فرزند کے حوالے کر دیا۔

(اس واقعہ میں عقد کی لفظ دلیل ہے کہ جناب نرجس کنیز نہیں تھیں، ورنہ اسلام میں کنیز کی حلیت کے لیے عقد کی ضرورت نہیں ہوتی ہے تنہا کنیزی ہی اس کے حلال ہونے کے لیے کافی ہوتی ہے جیساکہ ان متعدد آیات ِ قرآنی سے بھی ظاہر ہوتا ہے جن میں کنیزی کا تذکرہ ازواج کے مقابلہ میں کیا گیا ہے اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ کنیزی الگ ایک شے ہے اور زوجیت الگ ایک شے ہے، اور ایک مورد پر دونوں کا اجتماع ممکن نہیں ہے علاوہ اس کے کہ کنیز ایک شخص کی کنیز ہو اور دوسرے کی زوجہ ہو ورنہ ایک ہی جہت سے دونوں کا اجتماع ناممکن ہے)۔

اس کے بعد جناب حکیمہ بنت امام محمد تقی ں بیان کرتی ہیں کہ ایک دن امام حسن عسکری ں نے فرمایا کہ آج شب کو آپ میرے یہاں قیام کریں کہ پروردگار مجھے ایک فرزند عطا کرنے والا ہے۔ میں نے عرض کی کہ نرجس خاتون کے یہاں تو حمل کی کوئی علامت نہیں ہے۔۔۔۔۔ فرمایا کہ پروردگار اپنی حجت کو اسی طرح دنیا میں بھیجتا ہے، جناب مادر ِ حضرت موسیٰں کے یہاں بھی آثارِ حمل نہیں تھے اور بالآخر جناب موسیٰں دنیا میں آگئے اور فرعونیوں کو خبر بھی نہ ہو سکی۔ چنانچہ میں نے امام کی خواہش کے مطابق گھر میں قیام کیا اور تمام رات حالات کی نگرانی کرتی رہی۔ یہاں تک کہ میری نماز شب بھی تمام ہوگئی اور آثارِ حمل نمودار نہیں ہوئے۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ نرجس نے خواب سے بیدار ہوکر وضو کیا اور نمازِ شب ادا کی اور اس کے بعد دردِ زہ کا احساس کیا، میں نے دعائیں پڑھنا شروع کیں۔ امام عسکری ں نے آواز دی کہ سورہ انا انزلناہ پڑھئے۔ میں نے سورہ قدر کی تلاوت کی اور یہ محسوس کیا کہ جیسے رحم مادر میں فرزند بھی میرے ساتھ تلاوت کر رہا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے محسوس کیا کہ میرے اور نرجس کے درمیان ایک پردہ حائل ہوگیا اور میں سخت پریشان ہوگئی کہ اچانک امام عسکری ں نے آواز دی کہ آپ بالکل پریشان نہ ہوں۔ اب جو پردہ اٹھا تو میں نے دیکھا کہ ایک چاند سا بچہ رو بقبلہ سجدہ ریز ہے اور پھر آسمان کی طرف اشارہ کرکے کلمہ شہادت زبان پر جاری کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ تمام ائمہ کی امامت کی شہادت دینے کے بعد یہ فقرات زبان پر جاری کیے : ”خدایا! میرے وعدہ کو پورا فرما، میرے امر کی تکمیل فرما، میرے انتقام کو ثابت فرما اور زمین کو میرے ذریعہ عدل و انصاف سے معمور کر ے۔“

دوسری روایت کی بنا پر ولادت کے موقع پر بہت سے پرندے بھی جمع ہوگئے اور سب آپ کے گرد پرواز کرنے لگے کہ گویا آپ پر قربان ہو رہے تھے۔ آپ کے داہنے شانہ پر ﴿جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلَُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَهُوْقًا ﴾ کا نقش تھا اور زبانِ مبارک پر یہ آیت ِ کریمہ تھی: ﴿وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَهُمْ اَئِمَّةً وَّ نَجْعَلَهُمُ الْوٰرِثِیْنَ ﴾۔

اس کے بعد امام عسکری ں کی ہدایت کے مطابق ایک پرندہ فرزند کو اٹھا کر جانب ِ آسمان لے گیا اور روزانہ ایک مرتبہ باپ کی خدمت میں پیش کرتا تھا اور عالم قدس میں آپ کی تربیت کا مکمل انتظام تھا۔ یہاں تک کہ چند روز کے بعد جناب حکیمہ نے دیکھا تو پہچان نہ سکیں۔ آپ نے فرمایا کہ پھوپھی جان! ہم اہل بیت کی نشو و نما عام انسانوں سے مختلف ہوتی ہے۔ صاحبانِ منصب ِ الٰہی کی نشو و نما ایک ماہ میں ایک سال کے برابر ہوتی ہے۔ چنانچہ جناب حکیمہ نے اس فرزند حسن عسکری ں سے تمام صحف سماویہ اور قرآن مجید کی تلاوت بھی سنی ہے۔

(واضح رہے کہ وقت ِ ولادت سورہ انا انزلناہ کی تلاوت کا شاید ایک راز یہ بھی تھا کہ اس سورہ میں ہر شب قدر میں ملائکہ آسمان کے امر الٰہی کے ساتھ نازل ہونے کا ذکر ہے اور یہ علامت ہے کہ ہر دور میں ایک صاحب الامرکا رہنا ضروری ہے اور آج دنیا میں آنے والا اپنے دور کا صاحب الامر ہے)۔

محمد بن عثمان عمروی راوی ہیں کہ صاحب الامر کی ولادت کے بعد امام عسکریں نے بطور عقیقہ متعدد جانور ذبح کرنے کا حکم دیا اور دس ہزار رطل روٹی اور اسی مقدار میں گوشت تقسیم کرنے کا حکم دیا اور میں نے اسی کے مطابق عمل کیا۔

(واضح رہے کہ عقیقہ میں ایک جانور کی قربانی بھی کافی ہوتی ہے اور صرف عقیقہ کے گوشت کی تقسیم بھی کافی ہوتی ہے لیکن امام عسکری ں نے متعدد جانور ذبح کرنے کا حکم دیا اور کافی مقدار میں گوشت اور روٹی کی تقسیم کا بھی حکم دیا، جس سے حضرت صاحب الامرں کی خصوصیت اور ان کے امتیاز کے علاوہ اس نکتہ کی بھی وضاحت ہوتی ہے کہ اس طرح آبادی کے ایک بڑے حصہ کو حضرت صاحب العصرں کی ولادت کی خبر ہو جائے گی اور اس کے بعد اگر لوگ ان کی زیارت نہ بھی کر سکیں تو ان کے وجود کا انکار نہ کر سکیں گے اور چند سال کے بعد جب میرا انتقال ہو جائے گا تو کوئی یہ نہ کہنے پائے گا کہ حسن عسکری لا ولد دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ صاحب الامرں کی ولادت کی خبر کا عام ہونا ضروری تھا کہ اس سے پوری کائنات کا مستقبل وابستہ تھا اور اسی کے سہارے سارے صاحبانِ ایمان کو زندہ و سلامت رہنا تھا۔ ایسا نہ ہو کہ کل حکام جور اس کے وجود کا انکار کرکے مطمئن ہو جائیں اور صاحبانِ ایمان شک اور شبہ میں مبتلا ہو جائیں۔

یہ کام اگرچہ امام حسن عسکریں کے لیے انتہائی مشکل تھا کہ حکومت ِ وقت کی طرف سے آپ کے گھر کی سخت ترین نگرانی کی جا رہی تھی اور تمام تر کوشش یہی تھی کہ آخری حجت پروردگار دنیا مین نہ آنے پائے اور قدرت نے اس کے مقابلہ میں غیبت کا مکمل اہتمام بھی کر دیا تھا اور آپ نے بھی ولادت سے پہلے انتہائی راز داری سے کام لیا تھا لیکن اس کے باوجود جب صاحب الامر کو پرندہ (روح القدس) نے اپنی تحویل میں لے لیا اور ظالموں کے شر سے محفوظ ہوگئے تو آپ نے دوسرے فریضہ وک انتہائی اہم قرار دیا کہ قوم میں ان کی ولادت کا اعلان ہو جائے اور دنیا کو آخری وارث ِ پیغمبر کے نزول اجلال کا علم ہو جائے چاہے اس کے نتیجہ میں حکومت ِ وقت کی طرف سے کسی قدر بھی مشکلات اور مصائب کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے اور اس راہ میں کسی قدر آفات و شدائد کیوں نہ برداشت کرنا پڑیں۔

آپ کا اسم گرامی محمد اور کنیت ابو القاسم ہے اور یہ آپ کے امتیازات میں سے ہے کہ رسول اکرم نے آپ کو اپنے نام اور کنیت دونوں کا وارث قرار دیا ہے ورنہ دونوں کا اجتماع عام طور سے ممنوع ہے جس طرح کہ اکثر علماء نے دور ِ غیبت کبریٰ کو آپ کو اس نام گرامی ”محمد“ کے ساتھ یاد کرنے کی سخت ممانعت کی ہے اور بعض روایات میں اس نام سے یاد کرنے کو حرام تک قرار دیا گیا ہے۔

آپ کے معروف القاب و خطابات یہ ہیں جن کے ذریعہ یاد کرنے کی تاکید کی گئی ہے:

۱ ۔ بقیة اللّٰہ :۔ روایات میں وارد ہوا ہے کہ جب وقت ظہور آپ دیوار کعبہ سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوں گے تو آلله کے گرد ۳۱۳ اصحاب کا جمع ہوگا، تو سب سے پہلے اس آیت کی تلاوت کریں گے ﴿بَقِیَّتُ اللّٰهِ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ﴾ اگر تم لوگ صاحبانِ ایمان ہو تو تمہارے لیے خیر اور بھلائی بقیة الله میں ہے جسے پرورگار نے اس دن کے لیے بچا کر رکھا ہے۔

۲ ۔ حُجّت :۔ یہ لقب اگرچہ دیگر ائمہ معصومین کے ساتھ بھی استعمال ہوتا ہے اور انہیں بھی حجة الله کہا جاتا ہے لیکن عام طور سے حضرت حجت سے آپ ہی کی ذات گرامی مقصود ہوتی ہے اور شاید اس کا ایک راز یہ بھی ہو کہ آپ کے ذریعہ پروردگار مادی اور معنوی دونوں اعتبار سے اپنی حجت تمام کر دے گا اور شاید اسی لیے آپ کی انگشتری مبارک کا نقش بھیاَنَا حُجَّةَ اللّٰهِ ہے۔

۳ ۔ خلف یا خلف صالح :۔ یہ لقب بھی آپ کے بارے میں اکثر ائمہ طاہرین کی حدیثوں میں وارد ہوا ہے اور حقیقت امر یہ ہے کہ آپ تمام انبیاء و مرسلین کے جانشین اور ان کے کمالات کے وارث ہیں جیساکہ حدیث مفضل میں وارد ہوا ہے کہ وقت ِظہور دیوار کعبہ سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوں گے اور فرمائیں گے کہ جو شخص بھی آدم، شیث، نوح، سام، ابراہیم، اسماعیل، موسیٰ، یوشع، شمعون، رسول اکرم اور ائمہ طاہرین کی زیارت کرنا چاہے وہ مجھے دیکھ لے کہ میں سب کے کمالات کا وارث اور سارے انبیاء و اولیاء کا خلف صالح ہوں۔

۴ ۔ شرید (دور افتادہ) :۔ اس لقب کا راز غالباً یہ ہے کہ زمانہ نے بے معرفتی کی بنیاد پر آپ کو سماج سے دور کر دیا ہے اور آپ نے مصلحت ِ الٰہی کی بنا پر اپنے کو معاشرہ سے دور رکھا ہے جیساکہ خود آپ نے فرمایا تھا کہ میرے والد بزرگوار نے وصیت فرمائی ہے کہ اپنے کو سماج سے دور رکھنا کہ ہر ولی خدا کے دشمن ہوتے ہیں اور رب العالمین تمہیں باقی رکھنا چاہتا ہے۔

۵ ۔ غریم (قرض دار یا قرض خواہ) :۔ اس لقب کا راز یہ بتایا جاتا ہے کہ آپ کا امت ِ اسلامیہ کے ذمہ قرض ہے اور آپ پر احکام اسلامیہ کا قرض ہے جسے ادا کرنے کے لیے آپ کو باقی رکھا گیا ہے اور جس کے لیے آپ اسی طرح بے چین رہتے ہیں جس طرح ایک قرض دار اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے بے چین رہا کرتا ہے۔

روایات میں اس لقب کی ایک مصلحت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ اس طرح مومنین اپنے حقوق کو مختلف افراد کے ذریعہ امام تک پہنچا دیا کرتے تھے اور کسی بھی شخص کو مال دیتے ہوئے اس لقب کا استعمال کیا کرتے تھے اور کہتے تھے: ہمارے قرض خواہ تک پہنچا دینا اور یہ بات سو فیصد صحیح بھی تھی کہ امت کے ذمہ امامت کے بے شمار حقوق ہیں جن کی ادائیگی کی ذمہ داری امت کے لیے ضروری ہے۔

۶ ۔ قائم :۔ اس لقب کا راز یہ ہے کہ اصلاح عالم کی خاطر آخری قیام اور انقلاب آپ ہی کے ذمہ رکھا گیا ہے جیساکہ ابو حمزہ نے امام باقرں کی روایت بھی نقل کیا ہے کہ میں نے حضرت سے دریافت کیا کہ جب آپ سب ہی حق کے ساتھ قیام کرنے والے ہیں تو صرف آخری حجت کو قائم کیوں کہا جاتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ شہادت امام حسینں کے بعد ملائکہ نے بارگاہِ احدیت میں عرض کی کہ تیرے پیارے نبی کا پیارا فرزند شہید ہوگیا اور ہم اس کی کمک بھی نہ کر سکے تو ارشاد احدیت ہوا کہ تمہیں آخری وارث ِ حسین کی کمک کے لیے باقی رکھا گیا ہے اور اس کے بعد جملہ انوار ائمہ کو ظاہر کیا گیا تو آخری نور مشغول نماز تھا۔ ارشاد قدرت ہوا کہ یہی قائم ایک دن قیام کرنے والا ہے اور اس کے ذریعہ دنیا کو عدل و انصاف سے معمور کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ امام کے القاب میں اس لقب کے بارے میں خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے کہ جب آپ کے اس لقب کا تذکرہ کیا جائے تو انسان کو کھڑا ہو جانا چاہیے جیساکہ علامہ عبد الرضا بن محمد نے اپنی کتاب ”تاجیج نیران الاحزان فی وفاة سلطان خراسان“ میں نقل کیا ہے کہ جب دعبل خزاعی نے اپنے قصیدہ میں امام کا ذکر کیا تو امام رضاں سروپا کھڑے ہوگئے اور آپ نے اپنا ہاتھ اپنے سر مبارک پر رکھ لیا اور ظہور امام میں عجلت کی دعا فرمائی اور اس کے بعد یہ طریقہ شیعوں میں رائج ہوگیا۔

ظاہر ہے کہ اس کا مقصد صرف عظمت ِ امام کا اظہار نہیں ہے ورنہ یہ طریقہ کار ہر امام کے ذکر کے ساتھ ہونا چاہیے تھا بلکہ بزرگوں کے ذکر کے ساتھ بطریق اولیٰ ہونا چاہیے تھا لیکن صرف امام عصرں کے ذکر کے ساتھ یہ طریقہ کار علامت ہے کہ اس طرح امت اسلامیہ کو تربیت دی جا رہی تھی کہ جب امام کے قیام کا ذکر آئے تو فوراً کھڑے ہو جائیں تاکہ اس کے بعد جب واقعاً قیام کی منزل سامنے آجائے اور یہ خبر نشر ہو کہ انہوں نے مکہ سے قیام فرما لیا ہے تو فوراً نصرت کے لیے کھڑے ہو جائیں اور سر پر ہاتھ رکھ کر سر تسلیم خم کر دیں کہ اب اس سر کو بھی آپ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے حاضر ہیں۔ (منتہی الآمال)

۷ ۔ مہدی :۔ اس لقب کا ذکر روایات ِ مرسل اعظم میں بھی بکثرت پایا جاتا ہے اور اسی لیے تمام عالم اسلام میں آپ کو عام طور سے اسی لقب کے ذریعہ پہچانا جاتا ہے اور اس کے بارے میں روایت میں وارد ہوا ہے کہ جو مہدی کے قیام اور خروج کا انکار کر دے اس نے پیغمبر اسلام پر نازل ہونے والے تمام احکام کا انکار کر دیا ہے۔ پیغمبر کے تمام احکام اور تعلیمات کا دار و مدار قیام مہدی پر ہے اور اس سے انحراف کے معنی سارے احکام و تعلیمات سے انحراف کے ہیں۔

۸ ۔ منتظر :۔ یہ آپ کی واضح ترین صفت ہے کہ تمام صاحبان ایمان کو مسلسل آپ کا انتظار ہے اور روایات معصومین میں برابر اس انتظار کی تاکید کی گئی ہے اور اسے افضل اعمال قرار دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ انتظار کے افضل اعمال ہونے کے معنی ہی یہ ہیں کہ انتظار ایک عمل ہے، بے عملی اور کاہلی نہیں ہے اور زمانہ کو اس کے حالات پر چھوڑ کر بغیر کسی اصلاحی عمل اور حرکت کے صرف ظہور امام کی آس لگا کر بیٹھنا ایک طرح کی کاہلی اور سستی ہے انتظار نہیں ہے۔ انتظار کے لیے مقدمات کا فراہم کرنا اور حالات کا سازگار بنانا ایک بنیادی شرط ہے۔ کسی مجلس میں ذاکر کا انتظار کرنے والا فرش عزا بچھا دیتا ہے اور کسی مسجد میں امام جماعت کا انتظار کرنے والا صفیں درست کر لیتا ہے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان امام حقیقی کے قیام کا انتظار کرے اور نہ صفیں منظم کرے نہ دیدہ و دل فراش راہ کرے۔ دنیا میں ہر اصلاحی عمل اور تحریک انتظار امام کی اعلیٰ ترین فرد ہے جس سے بہتر انتظار کا کوئی طریقہ نہیں ہو سکتا ہے۔

یہ بھی واضح رہے کہ انتظار میں دو خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ ایک یہ ہے کہ انتظار اعتبار کی دلیل ہے کہ انسان کو جس کا اعتبار ہوتا ہے اسی کا انتظار بھی کرتا ہے اور جب اعتبار ختم ہو جاتا ہے تو انتظار بھی ختم کر دیتا ہے۔ انتظار امام کی تاکید بقائے اعتبار ظہور امام کا بہترین ذریعہ ہے۔ اور دوسری بات یہ بھی ہے کہ انتظار کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ انسان موجودہ حالات سے راضی نہیں ہے اور ایک بہترین مستقبل کا انتظار کر رہا ہے گویا اس تعلیم کے ذریعہ اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ انسنا کو مال، دولت، خزانہ اور اقتدار کچھ بھی بھی کیوں نہ حاصل ہو جائے، اسے اپنے دور کے نظام کو آخری سمجھ کر مطمئن نہ ہو جانا چاہیے بلکہ دین و مذہب اور احکام و تعلیمات ِ الٰہیہ کے لیے سکون و اطمینان کا دور ہوگا۔ انسان کا اپنا سکون و اطمینان کوئی قیمت نہیں رکھتا ہے اگر دین الٰہی کو سکون و اطمینان حاصل نہ ہو سکے۔

۹ ۔ ماء معین (چشمہ جاری) :۔ اس لقب میں قرآن مجید کی اس آیت ِ کریمہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ”اگر پروردگار پانی کو زمین میں جذب کر دے تو چشمہ جاری کو کون منظر عامپر لا سکتا ہے؟“‘ یعنی دنیا مین جس قدر آب جاری نظر آرہا ہے سب رحمت ِا لٰہی کا کرشمہ ہے۔ اسی طرح جب رحمت ِ الٰہی کا تقاضا ہوگا تو چشمہ جاری علوم و کمالات ِ آل محمد بھی منظر عام پر آجائے گا اور تمام دنیا اس کے فیوض و برکات سے استفادہ کرے گی اور یہ زمین دل کو اسی طرح زندہ کر دے گا جس طرح آب رحمت عام مردہ زمینوں کو زندہ بنا دیا کرتا ہے۔

۱۰ ۔ غائب :۔ یہ امام کی واضح ترین صفت ہے اور اس کی طرف ائمہ طاہرین نے لفظی اشارات کے علاوہ عملی اشارات بھی فرمائے ہیں۔ مثال کے طور پر آخری دور کے ائمہ معصومین اکثر حالات میں قوم سے ملاقات نہیں فرمایا کرتے تھے تاکہ لوگ غیبت کے عادی ہو جائیں اور غیبت کی بنیاد پر وجود امام کا انکار نہ کرنے پائیں۔ خود امام عصر کی زندگی کا ابتدائی دور بھی اسی عالم میں گزرا ہے کہ جناب حکیمہ جنہوں نے ولادت کے موقع پر سارے فرائض انجام دیے ہیں انہیں بھی ہفتہ عشرہ یا بعض اوقات چالیس دن کے بعد ہی زیارت نصیب ہوتی تھی اور یہی حال دیگر اصحاب اور اہل خاندان کا تھا کہ اکثر افراد نے ولادت کے بعد صرف اس وقت دیکھا جب آپ پدر بزرگوار کی نماز جنازہ کے لیے تشریف لائے اور جعفر کو ہٹا کر نماز جنازہ ادا فرمائی۔ اس کے بعد پھر آپ نے اپنی غیبت کے دو حصے رکھے:

غیبت ِ صغریٰ جس کا سلسلہ تقریباً ۷۰ سال تک جاری رہا اور اس میں مختلف سفراء کے ذریعہ خط و کتابت اور سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہا تاکہ لوگ غیبت پر ایمان کے عادی ہو جائیں اور یہ اعتقاد راسخ ہو جائے کہ غیبت کے ذریعہ فیوض و برکات کا سلسلہ موقوف نہیں ہوتا بلکہ ہدایت و ارشاد کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

۷۰ سال کی اس تربیت کے بعد غیبت ِ کبریٰ کا سلسلہ شروع ہوگیا اور ایک اعلان عام ہوگیا کہ اس کے بعد سوالات کے جوابات براہِ راست نہیں ملیں گے بلکہ ہمارے محفوظ تعلیمات کے ذریعہ حاصل کرنا ہوں گے اور ان تعلیمات سے استنباط و استخراج کا کام وہ علماءِ اعلام انجام دیں گے جو اپنے نفس کو ہوا و ہوس سے بچانے والے، اپنے دین کو خطرات سے محفوظ رکھنے والے، اپنے مولا کے احکام کی اطاعت کرنے والے اور اپنے خواہشات کی مخالفت کرنے والے ہوں گے۔ یہی حجت امام ہوں گے اور انہیں کے ذریعہ امت کی ہدایت کا کام انجام دیا جائے گا۔ یہ احکام کو کتاب و سنت سے بھی حاصل کریں گے اور ملاقات امام کے ذریعہ بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن چونکہ وقت ظہور تک ملاقات کرنے والوں کی فہرست نہیں بتائی جا سکتی ہے اور فہرست میں بھی ہر شخص کے اپنے ہی اوپر منطبق کر لینے کا خطرہ ہے لہٰذا یہ اعلان عام کر دیا گیا کہ اگر کوئی شخص غیبت ِ کبریٰ میں مشاہدہ اور ملاقات کا دعویٰ کرے اور امام کی طرف سے کوئی ایسی خبر لے کر آئے جو عام تعلیمات کتاب و سنت سے ہم آہنگ نہ ہو تو خبردار اس کی تصدیق نہ کرنا اور اسے افترا پرداز سمجھ کر اس کی بات رد کر دینا ورنہ نئی شریعت سازی کا سلسلہ شروع ہو جائے گا اور اصلی دین تباہ و برباد ہو کر رہ جائے گا۔

یہ روک تھام اور پابندی بھی دور غیبت میں فرض ہدایت کے انجام دینے کا ایک راستہ ہے کہ اس طرح گمراہی کو اس کے پیدا ہونے سے پہلے ختم کر دیا جائے اور مذہب میں کوئی نیا کاروبار نہ قائم ہو سکے۔

واضح رہے کہ غیبت امام کے بارے میں دو طرح کے تصورات پائے جاتے ہیں:

( ۱) غیبت شخص۔

( ۲) غیبت ِ شخصیت۔

غیبت شخص کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ خود انسان نگاہوں سے غائب رہے اور ایسے مقام پر محفوظ اور مستور ہو جائے کہ کوئی نگاہ اسے دیکھ نہ سکے جو عام طور سے غیبت کا مفہوم سمجھا جاتا ہے اور اسی اعتبار سے کسی انسان کو غائب کہا جاتا ہے۔

اور غیبت ِ شخصیت کے معنی یہ ہیں کہ انسان نگاہوں کے سامنے موجود رہے لیکن اس کی شخصیت نگاہوں سے غائب رہے جس طرح کہ جناب موسیٰں اور فرعون کے قصہ میں واضح طور پر یہ بات نظر آتی ہے کہ جناب موسیٰ فرعون کے قصر میں اور اس کی آغوش میں رہے لیکن وہ آخر دم تک ان کی شخصیت کا اندازہ نہ کر سکا اور برابر یہی کہتا رہا کہ کہیں یہ وہی بچہ تو نہیں ہے جس کے بارے میں منجمین نے خبر دی ہے کہ وہ میری سلطنت کے لیے ایک عظیم خطرہ بن کر ابھرنے والا ہے۔

روایات اور واقعات پر دقت ِ نظر سے کام لیا جائے تو امام زمانہ کی غیبت کا یہی مفہوم منظر عام پر آتا ہے اور اسی غیبت کی بنیاد پر ان سارے واقعات کی توجیہہ کی جا سکتی ہے جن میں ملاقات ِ امام کا ذکر پایا جاتا ہے لیکن آپ کی شخصیت کا اندازہ نگاہوں سے غائب ہو جانے کے بعد ہوا اور بر وقت یہ احساس بھی نہ پیدا ہو سکا اور اسی مفہوم کی بنیاد پر ان روایات کی توجیہہ بھی کی جا سکتی ہے جن میں یہ مضمون پایا جاتا ہے کہ آپ کے ظہور کے وقت بہت سے افراد اس بات کے دعویدار ہوں گے کہ ہم نے آپ کو مختلف مقامات پر دیکھا ہے اور مناسک ِ حج کے موقع پر آپ کی زیارت کا باقاعدہ شرف حاصل کیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس وقت اس امر کا اندازہ نہیں تھا کہ آپ امام زمانہ ہیں اور آج باقاعدہ ظہور کے بعد اس حقیقت کا اعلان ہوگیا ہے۔

غیبت کا پہلا مفہوم بھی بعض اعتبارات سے صحیح ہے اور عام طور سے لوگ آپ کے جمال مبارک کی زیارت سے محروم ہیں لیکن مکمل طور پر غیبت کے باوجود ملاقاتوں کا سلسلہ دوسرے ہی مفہوم کی تائید کرتا ہے۔ بہرحال غیبت، امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کے ان خصوصیات میں ہے جن کے اعتبار سے آپ کو مظہر اوصاف ِ الٰہیہ کہا جا سکتا ہے کہ گویا آپ کو پروردگار نے دیگر صفات جمال و کمال کی طرح اپنی غیبت کا مظہربھی قرار دیا ہے یہ اور بات ہے کہ غیبت الٰہیہ میں کسی طرح کے مشاہدہ کا امکان نہیں ہے اور غیبت امام میں بہرحال مشاہدہ کا امکان بلکہ یقین پایا جاتا ہے اور اس اعتبار سے غیبت ِ امام کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ غیبت ِ اسلام کے تمام غیب کے درمیان سب سے آسان ترین غیبت ہے جس پر انسان بآسانی ایمان پیدا کر سکتا ہے۔

جب مرد مسلمان اس غیبت ِ الٰہیہ پر ایمان لا چکا ہے جس میں نہ ماضی میں مشاہدہ تھا اور نہ مستقبل میں مشاہدہ کا امکان ہے اور اس غیبت رسول پر ایمان لا چکا ہے جس میں ماضی میں مشاہدہ تھا لیکن مستقبل میں اس دنیا میں عام اسلامی عقائد کی بنیاد پر مشاہدہ کا امکان نہیں ہے اور اس آخرت پر ایمان رکھتا ہے جس کا ماضی میں کوئی مشاہدہ نہیں تھا اور صرف مستقبل میں مشاہدہ کا یقین ہے اور وہی اس دنیا کی آخری انتہا ہے، تو اس غیبت ِ امام پر ایمان لانے میں کیا تکلف ہے جس میں ماضی اور مستقبل دونوں طرف مشاہدہ پایا جاتا ہے اور صرف دور حاضر غیبت کا دور کہا جاتا ہے اور اس کے علاوہ مستقل غیب کا کوئی سوال نہیں ہے۔

امام کی غیبت ہی سے ظہور کا اندازہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ آپ کے ظہور کا مفہوم بھی کسی گمنام مقام یا جزیرہ سے منتقل ہوکر کسی خاص مقام پر نمایاں ہو جانا نہیں ہے بلکہ نگاہوں سے اس پردہ کا اٹھ جانا ہے جو آج امت اور امام کے درمیان حائل ہے، یا شخصیت کے اس ابہام کا ختم ہو جانا ہے جو مصلحت ِ الٰہی کی بنیاد پر قائم ہے اور جس کی بنا پر شخصیت کا باقاعدہ تعارف نہیں ہو رہا ہے اگرچہ امکان ہے کہ وہ ہمارے مشاہدہ میں برابر یا کبھی کبھی آرہا ہو اور شاید اسی نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مالک کائنات نے حدیث قدسی میں ارشاد فرمایا ہے کہ:

”ہمارے کسی بندہ کو حقیر نہ سمجھ لینا کہیں وہ ہمارا کوئی ولی نہ ہو۔“

ہم اپنے ماحول کی کمزوریوں کی بنا پر شخصیت کو لباس اور ظاہری آرائش و زیبائش سے پہچانتے ہیں اور اولیاء خدا کا انداز اس سے بالکل مختلف ہوا کرتا ہے لہٰذا اس کا امکان بہرحال رہتا ہے کہ ہم کسی انسان کو معمولی سمجھ کر اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھیں اور بعد میں وہ ولی خدا ثابت ہو، اور ہم کو ولی خدا کی توہین کا جواب دہ ہونا پڑے جس کے بارے میں روایت میں وارد ہوا ہے کہ جس نے میرے ولی کی توہین کی اس نے مجھے دعوت جنگ دے دی اور میرے مقابلہ پر کھڑا ہوگیا۔ میں اپنے ولی کی عزت کو اپنی عزت اور اس کی توہین کو اپنی توہین تصور کرتا ہوں، صاحبان ایمان کی عزت، عزت ِ الٰہیہ سے وابستہ ہے اور ان کی توہین بھی توہین پروردگار کے مترادف ہے۔

واضح رہے کہ امام عصرں کے بارے میں تین طرح کے موضوعات زیر بحث آتے ہیں:

( ۱) غیبت۔

( ۲) ظہور۔

( ۳) انتظار۔

دو کا تعلق ان کی ذات ِ مبارک سے ہے اور ایک کا تعلق ہمارے فرائض سے ہے۔ غیبت، ظہور اور انتظار کے مفاہیم کا تذکرہ کرنے کے بعد اب ان سے متعلق تین موضوعات باقی رہ جاتے ہیں جن کی وضاحت بہرحال ضروری ہے۔

غیبت کے سلسلہ میں فرائض دور غیبت، انتظار کے سلسلہ میں علامات ظہور، اور ظہور کے بارے میں خصوصیات طرز حکومت اور اس امر کی وضاحت کہ امام زمانہ ظہور کے بعد کیا امور انجام دیں گے اور کس طرح ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔

فرائض دور ِ غیبت

علامہ شیخ عباس قمی علیہ الرحمہ نے دور ِ غیبت ِامام میں آٹھ طرح کے فرائض کا تذکرہ کیا ہے جو احساس غیبت امام اور امام کی حقیقت کے واضح کرنے کے بہترین وسائل ہیں اور جن کے بغیر نہ ایمان بالغیب مکمل ہو سکتا ہے اور نہ انسان کو منتظرین امام زمانہ میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ ان آٹھ فرائض کی مختصر تفصیل یہ ہے:

۱ ۔ محزون و رنجیدہ رہنا: ۔

حقیقت امر یہ ہے کہ انسان کو غیبت ِ امام کی حقیقت اور اس سے پیدا ہونے والے نقصانات کا اندازہ ہو جائے تو اس کی زندگی سے مسرت و ابتہاج ناپید ہو جائے۔

زمانہ کے بدترین حالات، اہل زمانہ کے بے پناہ ظلم و ستم، نظام اسلامی کی بربادی، تعلیمات الٰہیہ کا استہزاء اور اس طرح کے بے شمار معاملات ہیں جن سے غیبت ِ امام کے نقصانات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اور ان کا احساس ہی انسان کے آنسو بہانے کے لیے کافی ہے۔ پھر اگر یہ بات صحیح ہے کہ امام انسان کی زندگی کی محبوب ترین شخصیت کا نام ہے، تو کیسے ممکن ہے کہ محبوب نگاہوں سے اوجھل رہے اور عاشق کے دل میں اضطراب اور بے قراری نہ پیدا ہو اور وہ اپنے محبوب کی طرف سے اس طرح غافل ہو جائے کہ مخصوص تاریخوں اور مواقع کے علاوہ اس کے وجود اور اس کی غیبت کا احساس بھی نہ پیدا کرے۔

دعائے ندبہ میں انہیں تمام حالات کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے اور اسی لیے اس دعا کو دعائے ندبہ کہا جاتا ہے کہ انسان اس کے مضامین کی طرف متوجہ ہو جائے اور غیبت ِ امام کی مصیبت کا صحیح اندازہ کر لے تو گریہ اور ندبہ کے بغیر نہیں رہ سکتا ہے اور شاید اسی لیے اس دعا کی تاکید ایام عید میں کی گئی ہے یعنی روز عید فطر، روز عید قربان، روز عید غدیر اور روز جمعہ جسے اسلامی احکام کے اعتبار سے عید سے تعبیر کیا گیا ہے کہ عید کا دن انسان کے لیے انتہائی مسرت کا دن ہوتا ہے اور اس دن ایک محب اور عاشق کا فرض ہے کہ اپنے محبوب حقیقی کے فراق کا احساس پیدا کرے اور اس کی فرقت پر آنسو بہائے تاکہ اسے فراق کی صحیح کیفیت کا اندازہ ہو سکے جیساکہ امام محمد باقرں نے فرمایا ہے کہ :

”جب کوئی عید کا دن آتا ہے تو ہم آل محمد کا غم تازہ ہو جاتا ہے کہ ہم اپنا حق اغیار کے ہاتھوں پامال ہوتے دیکھتے ہیں اور مصلحت ِ الٰہیہ کی بنیاد پر کوئی آواز بھی بلند نہیں کر سکتے۔“

ائمہ معصومین میں مولائے کائنات کے دور سے امام عسکریں تک ہر امام نے غیبت کے نقصانات اور مصائب کا تذکرہ کرکے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس کائنات میں خیر صرف اس وقت نمایاں ہوگا جب ہمارا قائم قیام کرے گا اور اس سے پہلے اس دنیا سے کسی واقعی خیر کی امید نہیں کی جا سکتی ہے تاکہ انسان مومن بدترین حالات سے بھی مایوس نہ ہو جائے اور پھر انہیں حالات سے راضی اور مطمئن بھی نہ ہو جائے کہ یہ اس کے نقص ایمان کا سب سے بڑا ذریعہ ہوگا۔

اس مقام پر سدیر صیرفی کی اس روایت کا نقل کرنا نامناسب نہ ہوگا کہ میں (سدیر) اور مفضل بن عمر اور ابو بصیر اور ابان بن تغلب امام صادقں کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ خاک پر بیٹھے ہوئے بے تحاشہ گریہ فرما رہے ہیں اور فرماتے جاتے ہیں کہ میرے سردار! تیری غیبت نے میری مصیبت کو عظیم کر دیا ہے، میری نیند کو ختم کر دیا ہے اور میری آنکھوں سے سیلاب ِ اشک جاری کر دیا ہے۔ میں نے حیرت زدہ ہوکر عرض کی کہ ”فرزند رسول! خدا آپ کو ہر بلا سے محفوظ رکھے، یہ گریہ کا کون سا انداز ہے اور خدا نخواستہ کون سی تازہ مصیبت آپ پر نازل ہوگئی ہے؟“ تو فرمایا کہ:

”میں نے کتاب ِ جفر کا مطالعہ کیا ہے جس میں قیامت تک کے حالات کا ذکر موجود ہے تو اس میں آخری وارث پیغمبر کی غیبت اور طول غیبت کے ساتھ اس دور میں پیدا ہونے والے بدترین شکوک و شبہات اور ایمان و عقیدہ کے تزلزل کے حالات اور پھر شیعوں کے مبتلائے شک و ریب ہونے اور تغافل اعمال کا مطالعہ کیا ہے اور اس امر نے مجھے اس طرح بے قرار ہوکر رونے پر مجبور کر دیا ہے کہ اس غیبت میں صاحبانِ ایمان کا کیا حشر ہوگا اور ان کا ایمان کس طرح محفوظ رہ سکے گا۔“

عزیزانِ گرامی! اگر ہمارے حالات اور ہماری بد اعمالیاں سیکڑوں سال پہلے امام صادقں کو بے قرار ہوکر رونے پر مجبور کر سکتی ہیں تو کیا ہمارا یہ فرض نہیں ہے کہ ہم اس دور ِ غیبت میں ان حالات اور آفات کا اندازہ کرکے کم از کم روز ِ جمعہ خلوص دل کے ساتھ دعائے ندبہ کی تلاوت کرکے اپنے حالات پر خود آنسو بہائیں کہ شاید اسی طرح ہمارے دل میں عشق امام زمانہ کا جذبہ پیدا ہو جائے وار ہم کسی آن ان کی یاد سے غافل نہ ہونے پائیں جس طرح کہ انہوں نے خود اپنے بارے میں فرمایا ہے کہ ہم کسی وقت بھی اپنے چاہنے والوں کی یاد سے غافل نہیں ہوتے ہیں اور نہ ان کی نگرانی کو نظر انداز کرتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ان کا اعتماد ہمارے اوپر رہے اور ان کی حفاظت و رعایت کی ذمہ داری بھی ہمارے ہی حوالے کی گئی ہے۔

۲ ۔ انتظار ِ حکومت و سکونِ آل محمد :۔

اس انتظار کو دور ِ غیبت میں افضل اعمال قرار دیا گیا ہے اور اس میں اس امر کا واضح اشارہ پایا جاتا ہے کہ اس دنیا میں ایک دن آل محمد کا اقتدار ضرور قائم ہونے والا ہے اور مومنین کرام کی ذمہ داری ہے کہ اس دن کا انتظار کریں اور اس کے لیے زمین ہموار کرنے اور فضا کو سازگار بنانے کی کوشش کرتے رہیں۔

اب یہ دور کب آئے گا اور اس کا وقت کیا ہے؟ یہ ایک راز ِ الٰہی ہے جس کو تمام مخلوقات سے مخفی رکھا گیا ہے بلکہ روایات میں یہاں تک وارد ہوا ہے کہ امیر المومنینں کے زخمی ہونے کے بعد آپ کے صحابی عمرو بن الحمق نے آپ کی عیادت کرتے ہوئے عرض کی کہ مولا! ان مصائب کی انتہاء کیا ہے؟ تو فرمایا کہ ۷۰ ء ھ تک۔ عرض کی کہ کیا اس کے بعد راحت و آرام ہے؟ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا اور غش کھا گئے۔

اس کے بعد جب غش سے افاقہ ہوا تو دوبارہ سوال کیا۔ فرمایا: بے شک ہر بلا کے بعد سہولت اور آسانی ہے لیکن اس کا اختیار پروردگار کے ہاتھ میں ہے۔

اس کے بعد ابو حمزہ ثمالی نے امام باقرں سے اس روایت کے بارے میں دریافت کیا کہ ۷۰ ء ھ تو گزر چکا ہے لیکن بلاؤں کا سلسلہ جاری ہے؟ تو فرمایا کہ شہادت ِ امام حسینں کے بعد جب غضب پروردگار شدید ہو تو اس نے سہولت و سکون کے دور کو آگے بڑھا دیا۔

پھر اس کے بعد ابو حمزہ نے یہی سوال امام صادقں سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ بے شک غضب ِ الٰہی نے اس مدت کو دوگنا کر دیا تھا، اس کے بعد جب لوگوں نے اس راز کو فاش کر دیا تو پروردگار نے اس دور کو مطلق راز بنا دیا اور اب کسی کو اس امر کا علم نہیں ہو سکتا ہے، اور ہر شخص کا فرض ہے کہ اس دور کا انتظار کرے کہ انتظار ظہور کرنے والا مر بھی جائے گا تو وہ قائم آل محمد کے اصحاب میں شمار کیا جائے گا۔

۳ ۔ امام کے وجود ِ مبارک کی حفاظت کے لیے بارگاہِ احدیت میں دست بدعا رہنا:۔

ظاہر ہے کہ دعا ہر اس مسئلہ کا علاج ہے جو انسان کے امکان سے باہر ہو اور جب دور ِ غیبت میں امام کی حفاظت کسی اعتبار سے بھی ہمارے اختیار میں نہیں ہے اور ہم خود انہیں کے رحم و کرم سے زندہ ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے وجود ِ مبارک کی حفاظت کے لیے بارگاہِ احدیت میں مسلسل دعائیں کرتے رہیں اور کسی وقت بھی اس فرض سے غافل نہ ہوں: ﴿اَللّٰھُمَّ کُنْ لِّوَلِیِّکَ الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ﴾ جسے عام طور سے اثنائے نماز قنوت یا بعد نماز وظیفہ کے طور پر پڑھا جاتا ہے۔ امامں کے وجود کی حفاظت، ان کے ظہور کی سہولت اور ان کی عادلانہ حکومت کے بارے میں جامع ترین دعا ہے، جس سے صاحبانِ ایمان کو کسی وقت غافل نہیں ہونا چاہیے۔

۴ ۔ امام کی سلامتی کے لیے صدقہ نکالنا :۔

صدقہ درحقیقت خواہش سلامتی کا عملی اظہار ہے کہ انسان جس کی سلامتی کی واقعاً تمنا رکھتا ہے اس کے حق میں صرف لفظی طور پر دعا نہیں کرتا ہے بلکہ عملی طور پر بھی دفع بلا کا انتظام کرتا ہے اور یہ انتظام صدقہ سے بہتر کوئی شے نہیں ہے۔ دعا ان لوگوں کے لیے بہترین شے ہے جو صدقہ دینے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے ہیں لیکن جن کے پاس یہ استطاعت پائی جاتی ہے وہ اگر صرف دعا پر اکتفا کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف لفظی کاروبار کرنا چاہتے ہیں اور امام کی سلامتی کے لیے چند پیسے بھی خرچ نہیں کرنا چاہتے ہیں جب کہ جو کچھ مالک کائنات سے لیا ہے وہ سب انہیں کے صدقہ میں لیا ہے اور جو کچھ آئندہ لینا ہے وہ بھی انہیں کے طفیل میں اور انہیں کے وسیلہ سے حاصل کرنا ہے۔

۵ ۔ امام عصر کی طرف سے حج کرنا یا دوسروں کو حج نیابت کے لیے بھیجنا :۔

جو دور قدیم سے شیعوں کے درمیان مرسوم ہے کہ لوگ اپنے امام زمانہں کی طرف سے نیابةً اعمال انجام دیا کرتے تھے اور امام عصرں ان کے ان اعمال کی قدر دانی بھی فرمایا کرتے تھے جیساکہ ابو محمد دعلجی کے حالات میں نقل کیا گیا ہے کہ انہیں کسی شخص نے امام عصرں کی طرف سے نیابةً حج کے لیے پیسہ دیے تو انہوں نے اپنے فاسق و فاجر اور شرابی فرزند کو حج نیابت ِ امام کے لیے اپنے ساتھ لے لیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میدانِ عرفات میں ایک انتہائی نوجوان شخص کو دیکھا جو یہ فرما رہے ہیں کہ تمہیں اس بات سے حیا نہیں آتی ہے کہ لوگ تمہیں حج نیابت کے لیے رقم دیتے ہیں تو تم فاسق و فاجر افراد کو یہ رقم دے دیتے ہو۔ قریب ہے کہ تمہاری آنکھ ضائع ہو جائے کہ تم نے انتہائی اندھے پن کا ثبوت دیا ہے۔ چنانچہ راوی کہتا ہے کہ حج سے واپسی کے چالیس روز کے بعد ان کی وہ آنکھ ضائع ہوگئی جس کی طرف اس مرد نوجوان نے اشارہ کیا تھا۔

۶ ۔ امام عصر کا اسم گرامی آنے پر قیام کرنا :۔

بالخصوص اگر آپ کا ذکر لفظ قائم سے کیا جائے کہ اس میں حضرت کے قیام کا اشارہ پایا جاتا ہے اور آپ کے قیام کے تصور کے ساتھ کھڑا ہو جانا محبت ،عقیدت اور غلامی کا بہترین مقتضی ہے جس سے کسی وقت بھی غفلت نہیں کی جا سکتی ہے۔

۷ ۔ دور غیبت میں حفاظت دین و ایمان کے لیے دعا کرتے رہنا :۔

امام صادقں نے زرارہ سے فرمایا تھا کہ ہمارے قائم کی غیبت میں اس قدر شبہات پیدا کیے جائیں گے کہ اچھے خاصے لوگ مشکوک ہو جائیں گے لہٰذا اس دور میں ہر شخص کا فرض ہے کہ سلامتی ایمان کی دعا کرتا رہے اور یاد امام میں مصروف رہے اور عبد الله بن سنان کی امام صادقں سے روایت کی بنا پر کم سے کم ﴿یٰا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبیْ عَلٰی دِیْنِکَ﴾ کا ورد کرتا رہے کہ سلامتی دین و ایمان کے لیے یہ بہترین اور مختصر ترین دعا ہے۔

۸ ۔ امام زمانہ سے مصائب و بلیات کے موقع پر استغاثہ کرنا :۔

کہ یہ بھی اعتقاد کے استحکام اور روابط و تعلقات کے دوام کے لیے بہترین طریقہ ہے اور پروردگار عالم نے ائمہ طاہرین کو یہ طاقت اور صلاحیت دی ہے کہ وہ فریاد کرنے والوں کی فریاد رسی کر سکتے ہیں جیساکہ ابو طاہر بن بلال نے امام صادقں سے نقل کیا ہے کہ پروردگار جب اہل زمین تک کوئی برکت نازل کرنا چاہتا ہے تو پیغمبر اکرم سے امام آخر تک سب کو وسیلہ قرار دیتا ہے اور ان کی بارگاہوں سے گزرنے کے بعد برکت بندوں تک پہنچتی ہے اور جب کسی عمل کو منزل قبولیت تک پہنچانا چاہتا ہے تو امام زمانہں سے رسول اکرم تک ہر ایک کے وسیلہ سے گزار کر اپنی بارگاہِ جلالت پناہ تک پہنچاتا ہے اور پھر قبولیت کا شرف عنایت کرتا ہے بلکہ خود امام عصرں نے بھی شیخ مفید کے خط میں تحریر فرمایا تھا کہ تمہارے حالات ہماری نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ہیں اور ہم تمہارے مصائب کی مکمل اطلاع رکھتے ہیں اور برابر تمہارے حالات کی نگرانی کرتے رہتے ہیں۔

علامہ مجلسی نے تحفة الزائر میں نقل کیا ہے کہ صاحبانِ حاجت کو چاہیے کہ اپنی حاجت کو کسی کاغذ پر لکھ کر ائمہ طاہرین کی قبور مبارکہ پر پیش کر دیں یا کسی خاک میں رکھ کر دریا یا نہر وغیرہ کے حوالہ کر دیں کہ امام زمانہں اس حاجت کو پورا فرما دیں گے۔ اس عریضہ کی ترسیل میں آپ کے چاروں نواب خاص میں سے کسی کو بھی مخاطب بنایا جا سکتا ہے۔ انشاء الله وہ اسی طرح امام کی بارگاہ میں پیش کریں گے جس طرح اپنی زندگی میں اس فرض کو انجام دیا کرتے تھے اور امامں اسی طرح مقصد کو پورا کریں گے جس طرح اس دور میں کیا کرتے تھے۔

مَنْ اَنْکَرَ خُرُوْجَ الْمَھْدِیْ

اسلامی روایات کے مطالعہ سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ سرکار دو عالم نے اپنی زندگی میں قیامت تک پیش آنے والے بیشتر واقعات کی وضاحت کر دی تھی اور پروردگار کی طرف سے ترتیب پانے والے نظامِ ہدایت کی صراحت فرما دی تھی۔

آیت اولی الامر کی وضاہت کرتے ہوئے ان تمام افراد کے ناموں کا بھی تذکرہ کر دیا تھا جنہیں پروردگار کی طرف سے منصب ِ ہدایت تفویض ہوا تھا اور جن کے ذمہ صبح قیامت تک ہدایت عالم کی ذمہ داری تھی۔

اس سلسلہ میں ایک عنوان ”مہدی“ بھی نمایاں طور پر نظر آتا ہے جس کی بار بار تکرار کی گئی ہے اور جس کے ذریعہ امت کو سمجھایا گیا ہے کہ کائنات کے لیے ایک مہدی کا وجود لازمی ہے، اور دنیا اس وقت فنا نہیں ہو سکتی ہے جب تک کہ مہدی منظر عام پر آکر ہدایت ِ عالم اور اصلاحِ امت کا فرض انجام نہ دے دے۔

لفظ ”مہدی“ کی تعبیر میں یہ نکتہ بھی پوشیدہ تھا کہ وہ ایسا ہادی ہوگا جو اپنی رہنمائی میں کسی کی ہدایت کا محتاج نہ ہوگا بلکہ اسے پروردگار ِ عالم کی طرف سے ہدایت حاصل ہوگی اور وہ دنیا کی ہدایت کا فرض انجام دے گا۔

یہ بات امت ِ اسلامیہ میں اس قدر واضح تھی کہ ہر دور کے مسلمان کو ایک مہدی کی تلاش تھی اور بسا اوقات تو ایسا بھی ہوا ہے کہ لوگ خود ہی مہدی بن گئے یا سلاطین زمانہ نے اپنی اولاد کے نام مہدی رکھ دیے تاکہ امت کے درمیان جانے پہچانے لق سے فائدہ اٹھایا جا سکے، اور انہیں یہ سمجھایا جا سکے کہ جس کی آمد کی خبر سرکار دو عالم نے دی تھی وہ مہدی میرے گھر میں پیدا ہو چکا ہے۔

بالکل ”مہدی“ ہی کی طرح کا ایک عنوان ”قائم“ بھی تھا جس کا تذکرہ بار بار روایات میں وارد ہوا ہے اور اس کثرت سے وارد ہوا ہے کہ سلسلہ امامت کے درمیانی دور ہی سے امت کو ایک ”قائم“ کی تلاش شروع ہوگئی تھی اور جب بھی وہ حالات پیدا ہوگئے یا مظالم اس منزل پر آگئے جس منزل پر امت کے خیال میں ”قائم“ کا قیام ضروری تھا ایک ”قائم“ کی تلاش میں شدت پیدا ہوگئی اور لوگ بے چینی سے اس مصلحِ امت کا انتظار کرنے لگے جس کے قیام سے عالمِ انسانیت کی اصلاح ہو جائے گی اور دنیا کے حالات یکسر تبدیل ہو جائیں گے۔

بلکہ اکثر و بیشتر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ لوگ ائمہ معصومین کی بارگاہ میں حاضر ہوکر برجستہ یہ سوال کرتے تھے کہ کیا سرکار ہی ”قائم آل محمد“ ہیں؟ یا اپنے جس فرزند کی امامت کا اعلان کر رہے ہیں اور اس کی طرف قوم کو متوجہ کر رہے ہیں۔ یہی ”قائم آل محمد“ ہے۔ یعنی امت کے ذہن میں ”قائم“ کا تصور اور ”قائم“ کے ساتھ بساطِ ظلم و جور کے فنا ہو جانے اور عدل و انصاف کے قائم ہونے کا تصور اس قدر راسخ تھا کہ جہاں حالات سے پریشانی پیدا ہوئی اور عدل و انصاف کی ضرورت محسوس ہوئی وہیں ایک ”قائم“ کی جستجو کا خیال صفحہ ذہن پر ابھر آیا اور چونکہ مرسل اعظم نے مصلح امت کا تصور اپنی ہی نسل اور اپنے ہی خاندان کے بارے میں دیا تھا اس لیے لوگ اسی خاندان میں تلاش کرنے لگتے اور اس کی ہر فرد سے اصلاح کی آخری امید وابستہ کرکے اسے ”قائم“ کے لقب سے یاد کرنے لگتے۔

ائمہ معصومین نے بھی یہ اہتمام برقرار رکھا کہ ایک طرف یہ وضاحت کرتے رہے کہ ہم ”قائم“ نہیں ہیں یا ابھی آل محمد کے قیام کا وقت نہیں آیا ہے۔ ”قائم“ اس کے بعد آنے والا ہے اور دوسری طرف جہاں بھی لفظ ”قائم“ زبان پر آیا وہیں سر و قد کھڑے ہوگئے اور گویا کہ ایک طرح کا فرض تعظیم بجا لائے جس کا ظاہری تصور یہی تھا کہ ”قائم“ ایسی باعظمت شخصیت کا نام ہے جس کے تذکرہ پر اس کے آباء و اجداد بھی کھڑے ہو جاتے ہیں اور تعظیم و تکریم کا انداز اختیار کر لیتے ہیں جس طرح کہ عظمت ِ زہرا سلام الله علیہا کے اظہار کے لیے مرسل اعظم قیام فرماتے تھے لیکن حقیقی اعتبار سے اس کا ایک دقیق تر نکتہ یہ بھی تھا کہ ائمہ معصومین اس طرزِ عمل کے ذریعہ قوم کے ذہن میں یہ تصور راسخ کرنا چاہتے تھے کہ ”قائم“ کا کام تنہا قیام کرنا نہیں ہے کہ وہ اپنے قیام و جہاد کے ذریعہ سارے عالم کی اصلاح کر دے اور امت خاموش تماشائی بنی رہے جس طرح کہ قوم موسیٰ نے جناب موسیٰں سے کہا تھا کہ آپ اور ہارون جا کر اصلاح کا فرض انجام دیں، ہم یہاں بیٹھ کر آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ ائمہ معصومین کو بنی اسرائیل کا یہ قعود اور ان کی بے حسی اس قدر ناگوار تھی کہ آپ اپنی قوم کو اس کے بالکل برعکس انداز میں تربیت دے رہے تھے کہ وہاں نبی خدا قیام کے لیے آمادہ تھا اور قوم بیٹھی ہوئی تھی اور یہاں قیام کی شان یہ ہے کہ ابھی صرف اس کے نام ”قائم“ کا ذکر آیا ہے اور ہم اٹھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں تاکہ تمہارے ذہن میں یہ تصور راسخ رہے کہ جب وہ ظاہر بظاہر تمہارے سامنے آجائے اور قیام کے لیے آمادہ ہو جائے تو خبردار تم خاموش نہ بیٹھے رہ جانا اور تمہاری حیثیت ایک تماشائی کی نہ ہو جائے۔ بلکہ تمہارے فرض ہے کہ جیسے ہی وہ قیام کا ارادہ کرے تم بھی اس کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور اصلاح عالم کی مہم میں اس کے ساتھ شریک ہو جاؤ ورنہ صرف کسی کے نام آجانے پر اس کے بزرگوں کا کھڑا ہو جانا کوئی دقیق توجیہہ نہیں رکھتا ہے۔ صدیقہ طاہرہ سلام الله علیہا کے لیے پیغمبر اسلام کا قیام ان کی تشریف آوری پر ہوتا تھا ان کے نام پر نہیں۔ اور ائمہ معصومین کا یہ قیام بھی باقی القاب و خطابات سے وابستہ نہیں تھا بلکہ صرف لفظ ”قائم“ سے وابستہ تھا جس کا کھلا ہوا مطلب یہ تھا کہ ان کے نام پر قیام مطلوب ہے اور اس شخصیت کے ساتھ شریک قیام و جہاد ہونا اسلامی فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہے۔

علماءِ اعلام کی تعلیم اور ان کا طریقہ کار آج بھی یہی ہے کہ جب وارث ِپیغمبر کا ذکر اس لقب کے ساتھ ہوتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں اور حضرت کی خدمت میں زبان حال سے عرض کرتے ہیں کہ ہم حضور کے ساتھ قیام کے لیے تیار ہیں۔ بس آپ کے ظہور و قیام کی دیر ہے اس کے بعد ہم آپ کی خدمت میں رہیں گے اور اصلاح عالم کی مہم میں آپ کی ہر امکانی مدد کریں گے۔

”مہدی“ اور ”قائم“ یہ دونوں الفاظ دو مختلف لیکن باہم مربوط حقائق کی نشان دہی کرتے ہیں۔ لفظ ”مہدی“ اس حقیقت کی وضاحت کرتا ہے کہ دنیا کی اصلاح کسی خود ساختہ یا زمانہ ساز ہادی کے ذریعہ نہیں ہو سکتی ہے، اس کے لیے وہ شخص درکار ہے جس کی ہدایت کا انتظام قدرت کی طرف سے کیا گیا ہو، اور اسے پروردگار نے مہدی بنا کر ہدایت کا ذمہ دار بنایا ہو، اور ”قائم“ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اصلاح عام کا کام گھر بیٹھے انجام نہیں پا سکتا ہے اس کے لیے قیام کرنا ہوگا، زحمتیں برداشت کرنا ہوں گی، مصائب اور طوفانوں کا مقابلہ کرنا ہوگا اور ظلم و جور کے عالم گیر ہنگامہ سے ٹکرانا ہوگا۔

قابل غور نکتہ یہ ہے کہ ائمہ معصومین نے ہر دور میں طوفانوں کا مقابلہ کیا ہے، ہر دور میں مصائب برداشت کیے ہیں اور بنی امیہ و بنی عباس کے فراعنہ و جبابرہ سے ٹکر لی ہے لیکن اس کے باوجود انہیں قائم کے لقب سے یاد نہیں کیا گیا۔

حضرت امام حسینں کا قیام کربلا میں، امام سجادں کا قیام یزید اور یزیدیت کے مقابلہ میں، امام باقرں و امام صادقں کا قیام بنی امیہ و بنی عباس کے مظالم کے سامنے، امام کاظمں و امام رضاں کا قیام ہارون و مامون کے ظلم و جور کے سامنے، امام جوادں و امام نقی ں اور امام عسکریں کا قیام سلاطین وقت کے مقابلہ میں کوئی مخفی بات نہیں ہے۔ ان میں سے اکثر قیام مسلح نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود نہ یہ تصور ہو سکتا ہے کہ ائمہ کرام نے اپنے کو حکومتوں کے سپرد کر دیا تھا اور نہ یہ سوچا جا سکتا ہے کہ وہ حالات سے بالکل الگ تھلگ رہے اور امت کی بربادی کا منظر دیکھتے رہے۔ انہوں نے اپنے اپنے ظاہری امکان بھر ہر موقع پر قیام کیا ہے اور حکومت کو اس کے ظلم و جور پر متنبہ کیا ہے بلکہ عوام کو بھی حکومتوں کے مظالم سے آگاہ کیا ہے۔ صفوان جمال سے یہاں تک فرما دیا تھا کہ ان حکام کو جانور کرایہ پر دینا بھی ان کی زندگی کی تمنا کے برابر ہے اور ظالم کی زندگی کی تمنا اس کے ظلم میں شرکت کے مرادف ہے جو کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔ لیکن ان تمام مجاہدات کے باوجود ان معصومین کو لفظ قائم سے نہیں یاد کیا گیا اور یہ حضرات خود فرماتے رہے کہ ”قائم“ اس کے بعد آنے والا ہے۔ اس کا مطلب یہہے کہ آخری ”قائم“ کے ذمہ جو کام رکھا گیا ہے وہ ان سب سے زیادہ اہم اور سنگین ہے اور اس کا انقلاب آخری اور دائمی ہوگا۔ اس کا فریضہ ظالم سے مقابلہ کرنا اور اسے فنا کرن دینا نہیں ہے بلکہ اس کا فریضہ ظلم و جور کا استیصال کرنا ہے۔ اس کے دور میں صرف کسی ایک ظالم حکومت کا سامنا نہیں کرنا ہوگا بلکہ اسلام و کفر کی تمام انحرافی قوتوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ وہ منحرف مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں، عیسائیوں، کافروں، مشرکوں اور بے دینوں سے بیک وقت مقابلہ کرے گا اور ظاہر ہے کہ اتنے بڑے مقابلے کے لیے اسی طرح کی توانائی کی ضرورت ہوگی اور اتنے بڑے جہاد کے لیے ایسا ہی حوصلہ درکار ہوگا۔

مثالی انداز سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح اسلام کی غربت کے دور میں امام حسینں نے تن تنہا اپنے مختصر ساتھیوں کے ساتھ پوری قوت ِ ظلم و جور کے مقابلہ میں قیام کیا تھا اسی طرح یہ وارث ِ حسین ساری دنیا کے ظلم و جور کے مقابلہ میں اپنے چند مخصوص اصحاب کے ساتھ قیام کرے گا اور اس قیام کی عظمت وہی افراد پہنچائیں گے جو قیامِ کربلا کی اہمیت سے آشنا ہیں، اور اس قائم کی ہمت و جرأت کی قدر وہی افراد کریں گے جو اصلاح و انقلاب و جہاد و قیام کے مفہوم سے آشنائی رکھتے ہیں۔ قدرت نے اس آخری حجت کو ایک عظیم کربلا کا ذمہ دار بنایا ہے تو مناسبت برقرار رکھنے کے لیے اور جہاد کی عظمت کا اعلان کرنے کے لیے اس کے آخری فرائض کی ذمہ داری حضرت امام حسینں ہی کے سپرد فرمائی ہے۔ جیساکہ روایات میں وارد ہوا ہے کہ آغازِ رجعت میں سب سے پہلے امام حسینں ہی کا ظہور ہوگا اور آپ ہی امام عصر کی تجہیز و تکفین کا فرض انجام دیں گے تاکہ معصوم کے امور تجہیز و تکفین معصوم ہی انجام دے اور دنیا پر واضح ہو جائے کہ یہ آخری کربلا ہے جس کا فاتح آخری وارث ِ حسین بن علی ہے۔

اسی لیے آپ یہ بھی دیکھیں گے کہ امام عصرں کا تعارف و روایات میں فرزند حسین ہی کے نام سے کرایا گیا ہے اور امام حسینں کے بعد ائمہ معصومین کو فرزندان حسین سے تعبیر کیا گیا ہے جس میں اس کے آخری فرزند حسین کو امام زمانہ کہا گیا ہے۔

بہرحال ایک ”مہدی“ اور ایک ”قائم“ کا وجود اصلاح دنیا کی ضرورت، اعتبار پیغمبر کی صداقت اور قدرت کے نظامِ ہدایت کی تکمیل کے لیے بے حد ضروری ہے۔ اب اگر مہدی کا انکار کر دیا جائے گا تو گویا سارا نظامِ ہدایت ناقص اور سارا کلام پیغمبر غیر صادق ہو جائے گا اور یہ بات مزاجِ اسلام کے خلاف ہے۔ اس لیے روایت میں یہ صراحت کی گئی ہے کہ جس نے خروج مہدی کا انکار کر دیا گویا اس نے پیغمبر پر نازل ہونے والے تمام قانون کا انکار کر دیا جس طرح کہ پہلی منزل پر یہی اعلانِ غدیر خم میں ہوا تھا اور اب آخری منزل پر ظہورِ امام عصر کے بارے میں ہو رہا ہے۔ اول بآخر نسبتے دارد۔ تاریخ آل محمد برابر مربوط اور مسلسل ہے، یہاں اولنا محمد و آخرنا محمد وکلنا محمد، ایک حقیقت ہے۔


3

4

5

6