معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ

معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ66%

معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 15 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8828 / ڈاؤنلوڈ: 3928
سائز سائز سائز
معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ

معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ

مؤلف:
اردو

فرائض دور ِ غیبت

علامہ شیخ عباس قمی علیہ الرحمہ نے دور ِ غیبت ِامام میں آٹھ طرح کے فرائض کا تذکرہ کیا ہے جو احساس غیبت امام اور امام کی حقیقت کے واضح کرنے کے بہترین وسائل ہیں اور جن کے بغیر نہ ایمان بالغیب مکمل ہو سکتا ہے اور نہ انسان کو منتظرین امام زمانہ میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ ان آٹھ فرائض کی مختصر تفصیل یہ ہے:

۱ ۔ محزون و رنجیدہ رہنا: ۔

حقیقت امر یہ ہے کہ انسان کو غیبت ِ امام کی حقیقت اور اس سے پیدا ہونے والے نقصانات کا اندازہ ہو جائے تو اس کی زندگی سے مسرت و ابتہاج ناپید ہو جائے۔

زمانہ کے بدترین حالات، اہل زمانہ کے بے پناہ ظلم و ستم، نظام اسلامی کی بربادی، تعلیمات الٰہیہ کا استہزاء اور اس طرح کے بے شمار معاملات ہیں جن سے غیبت ِ امام کے نقصانات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اور ان کا احساس ہی انسان کے آنسو بہانے کے لیے کافی ہے۔ پھر اگر یہ بات صحیح ہے کہ امام انسان کی زندگی کی محبوب ترین شخصیت کا نام ہے، تو کیسے ممکن ہے کہ محبوب نگاہوں سے اوجھل رہے اور عاشق کے دل میں اضطراب اور بے قراری نہ پیدا ہو اور وہ اپنے محبوب کی طرف سے اس طرح غافل ہو جائے کہ مخصوص تاریخوں اور مواقع کے علاوہ اس کے وجود اور اس کی غیبت کا احساس بھی نہ پیدا کرے۔

دعائے ندبہ میں انہیں تمام حالات کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے اور اسی لیے اس دعا کو دعائے ندبہ کہا جاتا ہے کہ انسان اس کے مضامین کی طرف متوجہ ہو جائے اور غیبت ِ امام کی مصیبت کا صحیح اندازہ کر لے تو گریہ اور ندبہ کے بغیر نہیں رہ سکتا ہے اور شاید اسی لیے اس دعا کی تاکید ایام عید میں کی گئی ہے یعنی روز عید فطر، روز عید قربان، روز عید غدیر اور روز جمعہ جسے اسلامی احکام کے اعتبار سے عید سے تعبیر کیا گیا ہے کہ عید کا دن انسان کے لیے انتہائی مسرت کا دن ہوتا ہے اور اس دن ایک محب اور عاشق کا فرض ہے کہ اپنے محبوب حقیقی کے فراق کا احساس پیدا کرے اور اس کی فرقت پر آنسو بہائے تاکہ اسے فراق کی صحیح کیفیت کا اندازہ ہو سکے جیساکہ امام محمد باقرں نے فرمایا ہے کہ :

”جب کوئی عید کا دن آتا ہے تو ہم آل محمد کا غم تازہ ہو جاتا ہے کہ ہم اپنا حق اغیار کے ہاتھوں پامال ہوتے دیکھتے ہیں اور مصلحت ِ الٰہیہ کی بنیاد پر کوئی آواز بھی بلند نہیں کر سکتے۔“

ائمہ معصومین میں مولائے کائنات کے دور سے امام عسکریں تک ہر امام نے غیبت کے نقصانات اور مصائب کا تذکرہ کرکے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس کائنات میں خیر صرف اس وقت نمایاں ہوگا جب ہمارا قائم قیام کرے گا اور اس سے پہلے اس دنیا سے کسی واقعی خیر کی امید نہیں کی جا سکتی ہے تاکہ انسان مومن بدترین حالات سے بھی مایوس نہ ہو جائے اور پھر انہیں حالات سے راضی اور مطمئن بھی نہ ہو جائے کہ یہ اس کے نقص ایمان کا سب سے بڑا ذریعہ ہوگا۔

اس مقام پر سدیر صیرفی کی اس روایت کا نقل کرنا نامناسب نہ ہوگا کہ میں (سدیر) اور مفضل بن عمر اور ابو بصیر اور ابان بن تغلب امام صادقں کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ خاک پر بیٹھے ہوئے بے تحاشہ گریہ فرما رہے ہیں اور فرماتے جاتے ہیں کہ میرے سردار! تیری غیبت نے میری مصیبت کو عظیم کر دیا ہے، میری نیند کو ختم کر دیا ہے اور میری آنکھوں سے سیلاب ِ اشک جاری کر دیا ہے۔ میں نے حیرت زدہ ہوکر عرض کی کہ ”فرزند رسول! خدا آپ کو ہر بلا سے محفوظ رکھے، یہ گریہ کا کون سا انداز ہے اور خدا نخواستہ کون سی تازہ مصیبت آپ پر نازل ہوگئی ہے؟“ تو فرمایا کہ:

”میں نے کتاب ِ جفر کا مطالعہ کیا ہے جس میں قیامت تک کے حالات کا ذکر موجود ہے تو اس میں آخری وارث پیغمبر کی غیبت اور طول غیبت کے ساتھ اس دور میں پیدا ہونے والے بدترین شکوک و شبہات اور ایمان و عقیدہ کے تزلزل کے حالات اور پھر شیعوں کے مبتلائے شک و ریب ہونے اور تغافل اعمال کا مطالعہ کیا ہے اور اس امر نے مجھے اس طرح بے قرار ہوکر رونے پر مجبور کر دیا ہے کہ اس غیبت میں صاحبانِ ایمان کا کیا حشر ہوگا اور ان کا ایمان کس طرح محفوظ رہ سکے گا۔“

عزیزانِ گرامی! اگر ہمارے حالات اور ہماری بد اعمالیاں سیکڑوں سال پہلے امام صادقں کو بے قرار ہوکر رونے پر مجبور کر سکتی ہیں تو کیا ہمارا یہ فرض نہیں ہے کہ ہم اس دور ِ غیبت میں ان حالات اور آفات کا اندازہ کرکے کم از کم روز ِ جمعہ خلوص دل کے ساتھ دعائے ندبہ کی تلاوت کرکے اپنے حالات پر خود آنسو بہائیں کہ شاید اسی طرح ہمارے دل میں عشق امام زمانہ کا جذبہ پیدا ہو جائے وار ہم کسی آن ان کی یاد سے غافل نہ ہونے پائیں جس طرح کہ انہوں نے خود اپنے بارے میں فرمایا ہے کہ ہم کسی وقت بھی اپنے چاہنے والوں کی یاد سے غافل نہیں ہوتے ہیں اور نہ ان کی نگرانی کو نظر انداز کرتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ان کا اعتماد ہمارے اوپر رہے اور ان کی حفاظت و رعایت کی ذمہ داری بھی ہمارے ہی حوالے کی گئی ہے۔

۲ ۔ انتظار ِ حکومت و سکونِ آل محمد :۔

اس انتظار کو دور ِ غیبت میں افضل اعمال قرار دیا گیا ہے اور اس میں اس امر کا واضح اشارہ پایا جاتا ہے کہ اس دنیا میں ایک دن آل محمد کا اقتدار ضرور قائم ہونے والا ہے اور مومنین کرام کی ذمہ داری ہے کہ اس دن کا انتظار کریں اور اس کے لیے زمین ہموار کرنے اور فضا کو سازگار بنانے کی کوشش کرتے رہیں۔

اب یہ دور کب آئے گا اور اس کا وقت کیا ہے؟ یہ ایک راز ِ الٰہی ہے جس کو تمام مخلوقات سے مخفی رکھا گیا ہے بلکہ روایات میں یہاں تک وارد ہوا ہے کہ امیر المومنینں کے زخمی ہونے کے بعد آپ کے صحابی عمرو بن الحمق نے آپ کی عیادت کرتے ہوئے عرض کی کہ مولا! ان مصائب کی انتہاء کیا ہے؟ تو فرمایا کہ ۷۰ ء ھ تک۔ عرض کی کہ کیا اس کے بعد راحت و آرام ہے؟ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا اور غش کھا گئے۔

اس کے بعد جب غش سے افاقہ ہوا تو دوبارہ سوال کیا۔ فرمایا: بے شک ہر بلا کے بعد سہولت اور آسانی ہے لیکن اس کا اختیار پروردگار کے ہاتھ میں ہے۔

اس کے بعد ابو حمزہ ثمالی نے امام باقرں سے اس روایت کے بارے میں دریافت کیا کہ ۷۰ ء ھ تو گزر چکا ہے لیکن بلاؤں کا سلسلہ جاری ہے؟ تو فرمایا کہ شہادت ِ امام حسینں کے بعد جب غضب پروردگار شدید ہو تو اس نے سہولت و سکون کے دور کو آگے بڑھا دیا۔

پھر اس کے بعد ابو حمزہ نے یہی سوال امام صادقں سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ بے شک غضب ِ الٰہی نے اس مدت کو دوگنا کر دیا تھا، اس کے بعد جب لوگوں نے اس راز کو فاش کر دیا تو پروردگار نے اس دور کو مطلق راز بنا دیا اور اب کسی کو اس امر کا علم نہیں ہو سکتا ہے، اور ہر شخص کا فرض ہے کہ اس دور کا انتظار کرے کہ انتظار ظہور کرنے والا مر بھی جائے گا تو وہ قائم آل محمد کے اصحاب میں شمار کیا جائے گا۔

۳ ۔ امام کے وجود ِ مبارک کی حفاظت کے لیے بارگاہِ احدیت میں دست بدعا رہنا:۔

ظاہر ہے کہ دعا ہر اس مسئلہ کا علاج ہے جو انسان کے امکان سے باہر ہو اور جب دور ِ غیبت میں امام کی حفاظت کسی اعتبار سے بھی ہمارے اختیار میں نہیں ہے اور ہم خود انہیں کے رحم و کرم سے زندہ ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے وجود ِ مبارک کی حفاظت کے لیے بارگاہِ احدیت میں مسلسل دعائیں کرتے رہیں اور کسی وقت بھی اس فرض سے غافل نہ ہوں: ﴿اَللّٰھُمَّ کُنْ لِّوَلِیِّکَ الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ﴾ جسے عام طور سے اثنائے نماز قنوت یا بعد نماز وظیفہ کے طور پر پڑھا جاتا ہے۔ امامں کے وجود کی حفاظت، ان کے ظہور کی سہولت اور ان کی عادلانہ حکومت کے بارے میں جامع ترین دعا ہے، جس سے صاحبانِ ایمان کو کسی وقت غافل نہیں ہونا چاہیے۔

۴ ۔ امام کی سلامتی کے لیے صدقہ نکالنا :۔

صدقہ درحقیقت خواہش سلامتی کا عملی اظہار ہے کہ انسان جس کی سلامتی کی واقعاً تمنا رکھتا ہے اس کے حق میں صرف لفظی طور پر دعا نہیں کرتا ہے بلکہ عملی طور پر بھی دفع بلا کا انتظام کرتا ہے اور یہ انتظام صدقہ سے بہتر کوئی شے نہیں ہے۔ دعا ان لوگوں کے لیے بہترین شے ہے جو صدقہ دینے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے ہیں لیکن جن کے پاس یہ استطاعت پائی جاتی ہے وہ اگر صرف دعا پر اکتفا کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف لفظی کاروبار کرنا چاہتے ہیں اور امام کی سلامتی کے لیے چند پیسے بھی خرچ نہیں کرنا چاہتے ہیں جب کہ جو کچھ مالک کائنات سے لیا ہے وہ سب انہیں کے صدقہ میں لیا ہے اور جو کچھ آئندہ لینا ہے وہ بھی انہیں کے طفیل میں اور انہیں کے وسیلہ سے حاصل کرنا ہے۔

۵ ۔ امام عصر کی طرف سے حج کرنا یا دوسروں کو حج نیابت کے لیے بھیجنا :۔

جو دور قدیم سے شیعوں کے درمیان مرسوم ہے کہ لوگ اپنے امام زمانہں کی طرف سے نیابةً اعمال انجام دیا کرتے تھے اور امام عصرں ان کے ان اعمال کی قدر دانی بھی فرمایا کرتے تھے جیساکہ ابو محمد دعلجی کے حالات میں نقل کیا گیا ہے کہ انہیں کسی شخص نے امام عصرں کی طرف سے نیابةً حج کے لیے پیسہ دیے تو انہوں نے اپنے فاسق و فاجر اور شرابی فرزند کو حج نیابت ِ امام کے لیے اپنے ساتھ لے لیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میدانِ عرفات میں ایک انتہائی نوجوان شخص کو دیکھا جو یہ فرما رہے ہیں کہ تمہیں اس بات سے حیا نہیں آتی ہے کہ لوگ تمہیں حج نیابت کے لیے رقم دیتے ہیں تو تم فاسق و فاجر افراد کو یہ رقم دے دیتے ہو۔ قریب ہے کہ تمہاری آنکھ ضائع ہو جائے کہ تم نے انتہائی اندھے پن کا ثبوت دیا ہے۔ چنانچہ راوی کہتا ہے کہ حج سے واپسی کے چالیس روز کے بعد ان کی وہ آنکھ ضائع ہوگئی جس کی طرف اس مرد نوجوان نے اشارہ کیا تھا۔

۶ ۔ امام عصر کا اسم گرامی آنے پر قیام کرنا :۔

بالخصوص اگر آپ کا ذکر لفظ قائم سے کیا جائے کہ اس میں حضرت کے قیام کا اشارہ پایا جاتا ہے اور آپ کے قیام کے تصور کے ساتھ کھڑا ہو جانا محبت ،عقیدت اور غلامی کا بہترین مقتضی ہے جس سے کسی وقت بھی غفلت نہیں کی جا سکتی ہے۔

۷ ۔ دور غیبت میں حفاظت دین و ایمان کے لیے دعا کرتے رہنا :۔

امام صادقں نے زرارہ سے فرمایا تھا کہ ہمارے قائم کی غیبت میں اس قدر شبہات پیدا کیے جائیں گے کہ اچھے خاصے لوگ مشکوک ہو جائیں گے لہٰذا اس دور میں ہر شخص کا فرض ہے کہ سلامتی ایمان کی دعا کرتا رہے اور یاد امام میں مصروف رہے اور عبد الله بن سنان کی امام صادقں سے روایت کی بنا پر کم سے کم ﴿یٰا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبیْ عَلٰی دِیْنِکَ﴾ کا ورد کرتا رہے کہ سلامتی دین و ایمان کے لیے یہ بہترین اور مختصر ترین دعا ہے۔

۸ ۔ امام زمانہ سے مصائب و بلیات کے موقع پر استغاثہ کرنا :۔

کہ یہ بھی اعتقاد کے استحکام اور روابط و تعلقات کے دوام کے لیے بہترین طریقہ ہے اور پروردگار عالم نے ائمہ طاہرین کو یہ طاقت اور صلاحیت دی ہے کہ وہ فریاد کرنے والوں کی فریاد رسی کر سکتے ہیں جیساکہ ابو طاہر بن بلال نے امام صادقں سے نقل کیا ہے کہ پروردگار جب اہل زمین تک کوئی برکت نازل کرنا چاہتا ہے تو پیغمبر اکرم سے امام آخر تک سب کو وسیلہ قرار دیتا ہے اور ان کی بارگاہوں سے گزرنے کے بعد برکت بندوں تک پہنچتی ہے اور جب کسی عمل کو منزل قبولیت تک پہنچانا چاہتا ہے تو امام زمانہں سے رسول اکرم تک ہر ایک کے وسیلہ سے گزار کر اپنی بارگاہِ جلالت پناہ تک پہنچاتا ہے اور پھر قبولیت کا شرف عنایت کرتا ہے بلکہ خود امام عصرں نے بھی شیخ مفید کے خط میں تحریر فرمایا تھا کہ تمہارے حالات ہماری نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ہیں اور ہم تمہارے مصائب کی مکمل اطلاع رکھتے ہیں اور برابر تمہارے حالات کی نگرانی کرتے رہتے ہیں۔

علامہ مجلسی نے تحفة الزائر میں نقل کیا ہے کہ صاحبانِ حاجت کو چاہیے کہ اپنی حاجت کو کسی کاغذ پر لکھ کر ائمہ طاہرین کی قبور مبارکہ پر پیش کر دیں یا کسی خاک میں رکھ کر دریا یا نہر وغیرہ کے حوالہ کر دیں کہ امام زمانہں اس حاجت کو پورا فرما دیں گے۔ اس عریضہ کی ترسیل میں آپ کے چاروں نواب خاص میں سے کسی کو بھی مخاطب بنایا جا سکتا ہے۔ انشاء الله وہ اسی طرح امام کی بارگاہ میں پیش کریں گے جس طرح اپنی زندگی میں اس فرض کو انجام دیا کرتے تھے اور امامں اسی طرح مقصد کو پورا کریں گے جس طرح اس دور میں کیا کرتے تھے۔

مَنْ اَنْکَرَ خُرُوْجَ الْمَھْدِیْ

اسلامی روایات کے مطالعہ سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ سرکار دو عالم نے اپنی زندگی میں قیامت تک پیش آنے والے بیشتر واقعات کی وضاحت کر دی تھی اور پروردگار کی طرف سے ترتیب پانے والے نظامِ ہدایت کی صراحت فرما دی تھی۔

آیت اولی الامر کی وضاہت کرتے ہوئے ان تمام افراد کے ناموں کا بھی تذکرہ کر دیا تھا جنہیں پروردگار کی طرف سے منصب ِ ہدایت تفویض ہوا تھا اور جن کے ذمہ صبح قیامت تک ہدایت عالم کی ذمہ داری تھی۔

اس سلسلہ میں ایک عنوان ”مہدی“ بھی نمایاں طور پر نظر آتا ہے جس کی بار بار تکرار کی گئی ہے اور جس کے ذریعہ امت کو سمجھایا گیا ہے کہ کائنات کے لیے ایک مہدی کا وجود لازمی ہے، اور دنیا اس وقت فنا نہیں ہو سکتی ہے جب تک کہ مہدی منظر عام پر آکر ہدایت ِ عالم اور اصلاحِ امت کا فرض انجام نہ دے دے۔

لفظ ”مہدی“ کی تعبیر میں یہ نکتہ بھی پوشیدہ تھا کہ وہ ایسا ہادی ہوگا جو اپنی رہنمائی میں کسی کی ہدایت کا محتاج نہ ہوگا بلکہ اسے پروردگار ِ عالم کی طرف سے ہدایت حاصل ہوگی اور وہ دنیا کی ہدایت کا فرض انجام دے گا۔

یہ بات امت ِ اسلامیہ میں اس قدر واضح تھی کہ ہر دور کے مسلمان کو ایک مہدی کی تلاش تھی اور بسا اوقات تو ایسا بھی ہوا ہے کہ لوگ خود ہی مہدی بن گئے یا سلاطین زمانہ نے اپنی اولاد کے نام مہدی رکھ دیے تاکہ امت کے درمیان جانے پہچانے لق سے فائدہ اٹھایا جا سکے، اور انہیں یہ سمجھایا جا سکے کہ جس کی آمد کی خبر سرکار دو عالم نے دی تھی وہ مہدی میرے گھر میں پیدا ہو چکا ہے۔

بالکل ”مہدی“ ہی کی طرح کا ایک عنوان ”قائم“ بھی تھا جس کا تذکرہ بار بار روایات میں وارد ہوا ہے اور اس کثرت سے وارد ہوا ہے کہ سلسلہ امامت کے درمیانی دور ہی سے امت کو ایک ”قائم“ کی تلاش شروع ہوگئی تھی اور جب بھی وہ حالات پیدا ہوگئے یا مظالم اس منزل پر آگئے جس منزل پر امت کے خیال میں ”قائم“ کا قیام ضروری تھا ایک ”قائم“ کی تلاش میں شدت پیدا ہوگئی اور لوگ بے چینی سے اس مصلحِ امت کا انتظار کرنے لگے جس کے قیام سے عالمِ انسانیت کی اصلاح ہو جائے گی اور دنیا کے حالات یکسر تبدیل ہو جائیں گے۔

بلکہ اکثر و بیشتر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ لوگ ائمہ معصومین کی بارگاہ میں حاضر ہوکر برجستہ یہ سوال کرتے تھے کہ کیا سرکار ہی ”قائم آل محمد“ ہیں؟ یا اپنے جس فرزند کی امامت کا اعلان کر رہے ہیں اور اس کی طرف قوم کو متوجہ کر رہے ہیں۔ یہی ”قائم آل محمد“ ہے۔ یعنی امت کے ذہن میں ”قائم“ کا تصور اور ”قائم“ کے ساتھ بساطِ ظلم و جور کے فنا ہو جانے اور عدل و انصاف کے قائم ہونے کا تصور اس قدر راسخ تھا کہ جہاں حالات سے پریشانی پیدا ہوئی اور عدل و انصاف کی ضرورت محسوس ہوئی وہیں ایک ”قائم“ کی جستجو کا خیال صفحہ ذہن پر ابھر آیا اور چونکہ مرسل اعظم نے مصلح امت کا تصور اپنی ہی نسل اور اپنے ہی خاندان کے بارے میں دیا تھا اس لیے لوگ اسی خاندان میں تلاش کرنے لگتے اور اس کی ہر فرد سے اصلاح کی آخری امید وابستہ کرکے اسے ”قائم“ کے لقب سے یاد کرنے لگتے۔

ائمہ معصومین نے بھی یہ اہتمام برقرار رکھا کہ ایک طرف یہ وضاحت کرتے رہے کہ ہم ”قائم“ نہیں ہیں یا ابھی آل محمد کے قیام کا وقت نہیں آیا ہے۔ ”قائم“ اس کے بعد آنے والا ہے اور دوسری طرف جہاں بھی لفظ ”قائم“ زبان پر آیا وہیں سر و قد کھڑے ہوگئے اور گویا کہ ایک طرح کا فرض تعظیم بجا لائے جس کا ظاہری تصور یہی تھا کہ ”قائم“ ایسی باعظمت شخصیت کا نام ہے جس کے تذکرہ پر اس کے آباء و اجداد بھی کھڑے ہو جاتے ہیں اور تعظیم و تکریم کا انداز اختیار کر لیتے ہیں جس طرح کہ عظمت ِ زہرا سلام الله علیہا کے اظہار کے لیے مرسل اعظم قیام فرماتے تھے لیکن حقیقی اعتبار سے اس کا ایک دقیق تر نکتہ یہ بھی تھا کہ ائمہ معصومین اس طرزِ عمل کے ذریعہ قوم کے ذہن میں یہ تصور راسخ کرنا چاہتے تھے کہ ”قائم“ کا کام تنہا قیام کرنا نہیں ہے کہ وہ اپنے قیام و جہاد کے ذریعہ سارے عالم کی اصلاح کر دے اور امت خاموش تماشائی بنی رہے جس طرح کہ قوم موسیٰ نے جناب موسیٰں سے کہا تھا کہ آپ اور ہارون جا کر اصلاح کا فرض انجام دیں، ہم یہاں بیٹھ کر آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ ائمہ معصومین کو بنی اسرائیل کا یہ قعود اور ان کی بے حسی اس قدر ناگوار تھی کہ آپ اپنی قوم کو اس کے بالکل برعکس انداز میں تربیت دے رہے تھے کہ وہاں نبی خدا قیام کے لیے آمادہ تھا اور قوم بیٹھی ہوئی تھی اور یہاں قیام کی شان یہ ہے کہ ابھی صرف اس کے نام ”قائم“ کا ذکر آیا ہے اور ہم اٹھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں تاکہ تمہارے ذہن میں یہ تصور راسخ رہے کہ جب وہ ظاہر بظاہر تمہارے سامنے آجائے اور قیام کے لیے آمادہ ہو جائے تو خبردار تم خاموش نہ بیٹھے رہ جانا اور تمہاری حیثیت ایک تماشائی کی نہ ہو جائے۔ بلکہ تمہارے فرض ہے کہ جیسے ہی وہ قیام کا ارادہ کرے تم بھی اس کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور اصلاح عالم کی مہم میں اس کے ساتھ شریک ہو جاؤ ورنہ صرف کسی کے نام آجانے پر اس کے بزرگوں کا کھڑا ہو جانا کوئی دقیق توجیہہ نہیں رکھتا ہے۔ صدیقہ طاہرہ سلام الله علیہا کے لیے پیغمبر اسلام کا قیام ان کی تشریف آوری پر ہوتا تھا ان کے نام پر نہیں۔ اور ائمہ معصومین کا یہ قیام بھی باقی القاب و خطابات سے وابستہ نہیں تھا بلکہ صرف لفظ ”قائم“ سے وابستہ تھا جس کا کھلا ہوا مطلب یہ تھا کہ ان کے نام پر قیام مطلوب ہے اور اس شخصیت کے ساتھ شریک قیام و جہاد ہونا اسلامی فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہے۔

علماءِ اعلام کی تعلیم اور ان کا طریقہ کار آج بھی یہی ہے کہ جب وارث ِپیغمبر کا ذکر اس لقب کے ساتھ ہوتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں اور حضرت کی خدمت میں زبان حال سے عرض کرتے ہیں کہ ہم حضور کے ساتھ قیام کے لیے تیار ہیں۔ بس آپ کے ظہور و قیام کی دیر ہے اس کے بعد ہم آپ کی خدمت میں رہیں گے اور اصلاح عالم کی مہم میں آپ کی ہر امکانی مدد کریں گے۔

”مہدی“ اور ”قائم“ یہ دونوں الفاظ دو مختلف لیکن باہم مربوط حقائق کی نشان دہی کرتے ہیں۔ لفظ ”مہدی“ اس حقیقت کی وضاحت کرتا ہے کہ دنیا کی اصلاح کسی خود ساختہ یا زمانہ ساز ہادی کے ذریعہ نہیں ہو سکتی ہے، اس کے لیے وہ شخص درکار ہے جس کی ہدایت کا انتظام قدرت کی طرف سے کیا گیا ہو، اور اسے پروردگار نے مہدی بنا کر ہدایت کا ذمہ دار بنایا ہو، اور ”قائم“ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اصلاح عام کا کام گھر بیٹھے انجام نہیں پا سکتا ہے اس کے لیے قیام کرنا ہوگا، زحمتیں برداشت کرنا ہوں گی، مصائب اور طوفانوں کا مقابلہ کرنا ہوگا اور ظلم و جور کے عالم گیر ہنگامہ سے ٹکرانا ہوگا۔

قابل غور نکتہ یہ ہے کہ ائمہ معصومین نے ہر دور میں طوفانوں کا مقابلہ کیا ہے، ہر دور میں مصائب برداشت کیے ہیں اور بنی امیہ و بنی عباس کے فراعنہ و جبابرہ سے ٹکر لی ہے لیکن اس کے باوجود انہیں قائم کے لقب سے یاد نہیں کیا گیا۔

حضرت امام حسینں کا قیام کربلا میں، امام سجادں کا قیام یزید اور یزیدیت کے مقابلہ میں، امام باقرں و امام صادقں کا قیام بنی امیہ و بنی عباس کے مظالم کے سامنے، امام کاظمں و امام رضاں کا قیام ہارون و مامون کے ظلم و جور کے سامنے، امام جوادں و امام نقی ں اور امام عسکریں کا قیام سلاطین وقت کے مقابلہ میں کوئی مخفی بات نہیں ہے۔ ان میں سے اکثر قیام مسلح نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود نہ یہ تصور ہو سکتا ہے کہ ائمہ کرام نے اپنے کو حکومتوں کے سپرد کر دیا تھا اور نہ یہ سوچا جا سکتا ہے کہ وہ حالات سے بالکل الگ تھلگ رہے اور امت کی بربادی کا منظر دیکھتے رہے۔ انہوں نے اپنے اپنے ظاہری امکان بھر ہر موقع پر قیام کیا ہے اور حکومت کو اس کے ظلم و جور پر متنبہ کیا ہے بلکہ عوام کو بھی حکومتوں کے مظالم سے آگاہ کیا ہے۔ صفوان جمال سے یہاں تک فرما دیا تھا کہ ان حکام کو جانور کرایہ پر دینا بھی ان کی زندگی کی تمنا کے برابر ہے اور ظالم کی زندگی کی تمنا اس کے ظلم میں شرکت کے مرادف ہے جو کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔ لیکن ان تمام مجاہدات کے باوجود ان معصومین کو لفظ قائم سے نہیں یاد کیا گیا اور یہ حضرات خود فرماتے رہے کہ ”قائم“ اس کے بعد آنے والا ہے۔ اس کا مطلب یہہے کہ آخری ”قائم“ کے ذمہ جو کام رکھا گیا ہے وہ ان سب سے زیادہ اہم اور سنگین ہے اور اس کا انقلاب آخری اور دائمی ہوگا۔ اس کا فریضہ ظالم سے مقابلہ کرنا اور اسے فنا کرن دینا نہیں ہے بلکہ اس کا فریضہ ظلم و جور کا استیصال کرنا ہے۔ اس کے دور میں صرف کسی ایک ظالم حکومت کا سامنا نہیں کرنا ہوگا بلکہ اسلام و کفر کی تمام انحرافی قوتوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ وہ منحرف مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں، عیسائیوں، کافروں، مشرکوں اور بے دینوں سے بیک وقت مقابلہ کرے گا اور ظاہر ہے کہ اتنے بڑے مقابلے کے لیے اسی طرح کی توانائی کی ضرورت ہوگی اور اتنے بڑے جہاد کے لیے ایسا ہی حوصلہ درکار ہوگا۔

مثالی انداز سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح اسلام کی غربت کے دور میں امام حسینں نے تن تنہا اپنے مختصر ساتھیوں کے ساتھ پوری قوت ِ ظلم و جور کے مقابلہ میں قیام کیا تھا اسی طرح یہ وارث ِ حسین ساری دنیا کے ظلم و جور کے مقابلہ میں اپنے چند مخصوص اصحاب کے ساتھ قیام کرے گا اور اس قیام کی عظمت وہی افراد پہنچائیں گے جو قیامِ کربلا کی اہمیت سے آشنا ہیں، اور اس قائم کی ہمت و جرأت کی قدر وہی افراد کریں گے جو اصلاح و انقلاب و جہاد و قیام کے مفہوم سے آشنائی رکھتے ہیں۔ قدرت نے اس آخری حجت کو ایک عظیم کربلا کا ذمہ دار بنایا ہے تو مناسبت برقرار رکھنے کے لیے اور جہاد کی عظمت کا اعلان کرنے کے لیے اس کے آخری فرائض کی ذمہ داری حضرت امام حسینں ہی کے سپرد فرمائی ہے۔ جیساکہ روایات میں وارد ہوا ہے کہ آغازِ رجعت میں سب سے پہلے امام حسینں ہی کا ظہور ہوگا اور آپ ہی امام عصر کی تجہیز و تکفین کا فرض انجام دیں گے تاکہ معصوم کے امور تجہیز و تکفین معصوم ہی انجام دے اور دنیا پر واضح ہو جائے کہ یہ آخری کربلا ہے جس کا فاتح آخری وارث ِ حسین بن علی ہے۔

اسی لیے آپ یہ بھی دیکھیں گے کہ امام عصرں کا تعارف و روایات میں فرزند حسین ہی کے نام سے کرایا گیا ہے اور امام حسینں کے بعد ائمہ معصومین کو فرزندان حسین سے تعبیر کیا گیا ہے جس میں اس کے آخری فرزند حسین کو امام زمانہ کہا گیا ہے۔

بہرحال ایک ”مہدی“ اور ایک ”قائم“ کا وجود اصلاح دنیا کی ضرورت، اعتبار پیغمبر کی صداقت اور قدرت کے نظامِ ہدایت کی تکمیل کے لیے بے حد ضروری ہے۔ اب اگر مہدی کا انکار کر دیا جائے گا تو گویا سارا نظامِ ہدایت ناقص اور سارا کلام پیغمبر غیر صادق ہو جائے گا اور یہ بات مزاجِ اسلام کے خلاف ہے۔ اس لیے روایت میں یہ صراحت کی گئی ہے کہ جس نے خروج مہدی کا انکار کر دیا گویا اس نے پیغمبر پر نازل ہونے والے تمام قانون کا انکار کر دیا جس طرح کہ پہلی منزل پر یہی اعلانِ غدیر خم میں ہوا تھا اور اب آخری منزل پر ظہورِ امام عصر کے بارے میں ہو رہا ہے۔ اول بآخر نسبتے دارد۔ تاریخ آل محمد برابر مربوط اور مسلسل ہے، یہاں اولنا محمد و آخرنا محمد وکلنا محمد، ایک حقیقت ہے۔

دوسری بحث

امامت اور تبلیغ دین:

گزشتہ بحث میں امامت کے مختلف پہلوؤں کی تشریح و توضیح کرتے ہوئے عرض کیا تھا کہ ان مختلف پہلوؤں کو کامل طور پر مشخص ہونا چاہءے ۔ جب تک امامت کے تمام پہلو مشخص و معین نہ ہونگے ، ہم اس مسئلہ پر بخوبی بحث نہیں کرسکتے ۔ہم عرض کرچکے ہیں کہ امامت میں ایک مسئلہ حکومت بھی ہے ۔ یعنی پیغمبر اسلام کے بعد حکومت کیسی ہونا چاہئے ؟ کیا حکومت کی تعیین خود مسلمانوں کے ذنمہ ہے اور عوام کا فریضہ ہے کہ اپنے درمیا ن کسی کو اپنا حاکم معین کریں یا پیغمبر نے اپنے بعد کے لئے اپنا نائب اور حاکم معین کردیا ہے ؟ ان دونوں اس مسئلہ کو کچھ اس ڈھنگ سے پیش کیا جانے لگا ہے کہ قہری طور سے ذہن پہلے اہل سنت کے نظریہ کی جانب متوجہ ہوتا ہے اور انسان سوچنے لگتا کہ ان کا نظریہ فطرت سے زیادہ فریب ہے ۔

غلط روش

یہ مطلب کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اصل میں ہمیں ایک حکومت کا مسئلہ در پیش ہے ، اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اسلامی نقطہ مظر سے حکومت کیسی ہونا چاہئے ؟ کیا حکومت موروثی اور تعیینی ہے کہ ہر حاکم اپنے بعد کے لئے ایک حاکم معین کردے اور عوام کو حکومت کے معاملات میں کسی طرح کی دخل اندازی کا حق حاصل نہ ہو ؟ پیغمبر نے ایک شخص کو معین فرمایا پھر اس شخص نے اپنے بعد کے لئے کسی تیسرے کو معین کیا ۔ اور صبح قیامت تک اور حکومت کی یہی صورت رہی کہ ہمیشہ نص وتعین کا سلسلہ چلتا رہا ۔ اب قہری طور پر یہ عمر صرف ائمہ تک مخصوص و محدود نہیں رہ سکتا ۔ کیونکہ ائمہ معصومین (ع) صرف بارہ ہیں اور شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ تعداد نہ کم ہوسکتی ہے نہ زیادہ ۔ اس فکر کے مطابق حکومت کے سلسلہ میں اسلامی نقطۂ مظر سے قانون کلی یہ ہوگا کہ پیغمبر جو خود حاکم ہے اپنے بعد اپنا نائب معین کرے اور وہ اپنے بعد کسی دوسرے کو حاکم معین کرسے اور یوں ہی یہ سلسلہ صبح قیامت تک چلتارہا ۔ چنانچہ اگر اسلام پوری دنیا پر حاکم ہوجائے ( جیسا کہ آج تقریبا ً آدھی دنیا اس کے زیر نگی ہے تو تقریباًایک عرب مسلمان پرچم ۔ اسلام کے سائے میں زندگی گزاررہے ہیں ) اور ی ہطے پائے کہ دنیا کے کونے کونے میں اسلامی قوانین نافذ کئے جائیں ، چاہے ایک عالمی حکومت کی شکل میں یا چند چھوٹی بڑی حکومتوں کی صورت میں قانون یہی نصی و تعیینی ہے ، پس یہ جو ہم کہتے ہیں کہ پیغمبر نے علی کو معین فرمایا تو تعیین بھی اسی کلی قانون کے تحت تھی کہ حکومت تعیینی و تنصیصی ہونی چا ہئے ۔"اور اس فلسفہ کے تحت اس کی ضرورت بھی نہیں رہ جاتی کہ پیغمبر نے علی کو خدا کی جانب سے معین فرمایا ہو۔ کیونکہ پیغمبر تو وحی کے ذریعہ، احکام خدا بیان کرسکتے تھے اور ائمہ معصومین پر بھی ایک تو ایسا الہام ہوتا ہے دوسرے انھوں نے خود پیغمبر سے علوم اخذ کئے ہیں ، لیکن ان کے بعد تو ایسا نہیں ہے ! بس اگر حکومت کے سلسلہ میں اسلامی نقطۂ نظر سے بنیادی قانون ( کہ حکومت تنصیصی تعیینی ہونی چاہئے) تو اس کی ضرورت نہیں کہ پیغمبر نے علی کو وحی کے ذریعہ معین فرمایا ہو بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت نے خود اپنی صوا بدید پر معین فرمایا ہے ۔ اسی طرح ائمہ نے اپنے مصالح کے مطابق اپنے جانشین معین فرمائے ہیں ۔ بنابر ایں پیغمبر کی نظر میں خلافت کے لئے علی کی تعیین ویسی ہی ہے جیسے آپ نے کسی کو مکہ کا حاکم یا حاجیوں کے لئے امیر الحاج معین فرمایا ہو، جس طرح وہاں یہ کوئی نہیں کہتا کہ اگر پیغمبر نے فلاں شخص کو مکہ کا حاکم بنایا ۔ یا معاذ بن جبل کو تبلیغ کے لئے یمن بھیجا ، تویہ سب وحی کے حکم سے تھا ، بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ چونکہ پیغمبر خدا وند عالم کی جانب سے لوگوں پر حاکم و سر پرست ہیں لہٰذا جن مسا ئل میں ان پر وحی نہیں نازل ہوتی ،ان میں ذاتی تدبر و فرات سے اقدام فرماتے ہیں ( یوں ہی یہاں بھی کہا جائے گا کہ پیغمبر نے خود اپنی ذاتی تشخیص و تدبر سے علی کو خلافت و نیا بت کے لئے معین فرمایا )

اگر ہم مسئلہ امامت کو اتنی ہی سادگی سے ہیش کریں کہ یہ دنیا وی حکومت کا مسئلہ بن جائے تواسکے علاوہ ہم اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ یہ مسئلہ اس امامت سے الگ ہے جس پر بحث کی جاری ہے کیونکہ اگر مسئلہ اسی شکل میں ہوتا تو میں عرض کرچکا ہوں کہ اس میں وحی کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی 'زیادہ سے زیادہ اس میں وحی کو اسی قدر دخل ہوتا کہ اے پیغمبر !تمہارا فرض ہے کہ اپنی مصلحت کے مطابق جسے چاہواپنا جانشین معین کردو اور وہ جسے بہتر سمجھے اپنا جانشین بنآئے تا صبح قیامت اگر ہم امامت کو اتنے ہی سادہ طور سے حکومت کی سطح پر پیش کریں اور کہیں کہ امامت کا مطلب حکومت ہے تو ایسی صورت میں ہم دیکھتے ہیں کہ شیعی نقطۂ نظر کے مقابل میں اہل سنت کا نظریہ زیادہ پر کشش نظر آتا ہے ۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ایک حاکم کو اپنے بعد حاکم معین کرنے کا کوئی حق نہیں ہے بلکہ یہ حق امت اور ارباب مل و عقد کو حاصل ہے ۔ عوام اس کے حقدار ہیں ، حاکم کا انتخاب ڈیمو کریسی کے اصول پر ہونا چاہئے ۔ یہ حق عوام کا ہے لہٰذا عوام ہی حاکم منتخب کریں گے ۔ لیکن حقیقتاًمسئلہ اتنا سادہ اور ہلکا پھلکا نہیں ۃے ۔ مجموعی طور سے شیعوں کے یہاں علی اور تمام ائمہ معصومین کی خلافت کا مسئلہ تنصیصی تعیینی ہے ۔ اس کا مدارا ایک دوسرے مسئلہ پر ہےاور وہ مسئلہ اس سے بھی زیادہ بنیادی حیثیت کا حامل ہے ۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ائمہ علیہم السلام کی تعداد فقط بارہ افراد پر مشتمل ہے ، پھر ان ائمہ کے بعد حکومت کی صورت کیا ہوگی ؟ ہم فرض کرلیں کہ جس طرح پیغمبر اسلام نے علی کو معین فرمایا ، آپ کے بعد امام حسن (ع) پھر امام حسین (ع) حاکم ہوئےاور یہ سلسلہ حضرت حجت تک جاری رہتا ہے ۔ ایسی صورت میں قہری طور پر اس نقظۂ نظر کے مطابق جو ہم شیعہ اس سلسلہ میں رکھتے ہیں ۔ امام زمانہ کی غیبت کی کوئی ضرورت نہیں رہتی ۔ حضرت بھی اپنے آبائے کرام کی طرح ایک مختصر سی زندگی گزار کر اس دنیا سے رخست ہوجاتے ۔ اس کے بعد کیا ہوتا؟ کیا ائمہ کی تعداد بارہ سے بڑھ جاتی ؟ نہیں لہٰذا کوئی دوسری صوعرت عوام کے سامنے ہونی چاہئے ، ایک عادی صورت بالکل ویسی ہی جیسے آج بھی موجود ہے ۔ حضرت حجت غیبت کے زمانہ میں تو مسلمانوں کے حاکم ہو نہیں سکتے ۔ لہٰذا دنیاوی حکومت کا مسئلہ اپنی جگہ پھر باقوی رہ جاتا ہے !

حکومت ، امامت کی ایک فرع:

ہمیں ہر گز اس اشتباہ اور معالطہ میں نہیں پڑنا چاہئے کہ جہاں کہیں شیعوووں کے نزدیک امامت کا مسئلہ در پیش ہو، اسے حکومت کا مسئلہ قراردیں ۔نتیجہ میں یہ مسئلہ بہت ہی معمولی صورت اختیار کر لے اور صرف ایک فرعی حیثیت رہ جئے اور یہ کہا جائے کہ اب جبکہ حکو مت اور حاکم کا مسئلہ در پیش ہے تو کیا حاکم کو سب سے افضل ہء ہونا چاہئے ؟ ممکن ہے جو شخص حاکم ہو وہ نسبی طور سے تو افضل ہو واقعی افضل نہ ہو؟ یعنی سیاست اور نظم و تتدبر میں تو دوسروں سے بہتر ہو لیکن دوسرے اعتبارات سے بہت ہی پست ہو ۔ ایک اچھا سیاست داں اور منتظم ہو خائن بھی نہ ہو لیکن کیا ضروری ہے کہ وہ معصوم بھی ہو؟ کیا ضروری ہے کہ نماز شب پڑھتا ہے یا نہیں ؟فقہی مسائل جاتا ہے یا نہیں ؟ کیا ضروری ہے کہ جانے ؟ ان مسائل میں وہ دوسروں سے معلومات حاصل کر لیتا ہے ، فقط ایک نسبی و اعتباری افضلیت ا س کے لئے کافی ہے ۔ یہ تمام باتیں اس کانتیجہ ہیں کہ ہم نے مسئلہ امامت کو فقط حکومت کی سطح پر دیکھا اور معمولی قرار دے دیا یہ بہت بڑا مغالطہ ہے اور ایسا مغالطہ ہے جس میں بعض قدیم ( علماء علم کلام ) بھی مبتلا ہوچکے ہیں ۔ آج اسی مغالطہ کو بار بار دہرایا جاتا ہے اور ہوادی جاتی ہے ۔ یہاں تک کہ جب بھی امامت کا ذکر آتا ہے اس سے حکوعمت مرادلی جاتی ہے ۔ جبکہ حکومت مسئلہ امامت کی ایک چجوٹی سء شاخ اور معمولی فرع کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ان دونوں کو آپس میں مخلوط نہیں کرنا چاہئے ۔ پھر امامت کیا ہے ؟

امامت دین بیان کرنے میں پیغمبر کا جانشین:

امامت کے سلسلہ میں جس چیز کو سب سے زیادہ اہمیت ہے وہ یہ ہے کہ امام دین کی تشریح اور اسے باین کرنے میں پیغمبر کا جانشین ہے ، فرق صرف یہ ہے کہ امام پر وحی نہیں نازل ہوتی ۔ بلا شبہ وحی صرف پیغمبر کارم پر نازل ہوتی تھی اور ان کی رحلت کے بعد و رسالت کا سلسلہ قطعی طور ہر بند ہوگیا ۔ امت کا مسئلہ یہ ہے کہ کیا پیغمبر اسلام کے بعد وہ تمام آسمانی تعلیمات جس میں نہ اجتہاد کو دخل ہے نہ شخصی رائے کو ، ان کا بیان یا تشریح و تبلیغ کسی ایک ہی فرد تک محدود ہے ؟ اور اس طرح جسے پیغمبر کی شان تھی کہ جب لوگ ان سے دینی مسائل دریافت کرتے تھے وہ یہ جانتے تھے کہ ان کا قول حق در حقیقت پر مبنی ہے ۔ اس میں شخص فکر یا رائے کو دخل نہیں ہے جس میں اشتبا ہ یا غلطی کا امکان ہواور دوسرے روز وہ اپنی بات کی تصحیح فرمائیں ۔ ہم پیغمبر کے بارے میں ہر گز یہ بات نہیں کہتے اور نہ یہ کہ سکتے ہیں ہماری نطر میں ان کا فلاں جواب درست نہیں ہے اور یہاں پر آپ جان بوجھ کو خواہشات نفسانی سے متا ثر ہوگئے ہیں کیو نکہ یہ باتیں عقیدہ ٔنبوت کے خلاف ہیں ۔ اگر قطعی دلائل سے ثابت ہوجائے کہ یہ جملہ پیغمبراسلام کا ارشاد ہے ، تو ہر گز یہ نہیں کہہ سکتے کہ پیغمبر نے فرمایا تو ہے لیکن اس میں ان سے اشتباہ ہوگیا ہے ۔ ایک مرجع تقلید

کے لئے تو یہ کہنا ممکن ہے اس نے فلاں سوال کے جواب میں اشتباہ اور غفلت کی یا جیسا کہ اور سب کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ حالات سے متاثر ہوگئے ۔ لیکن پیغمبر کے بارے میں ایسی باتیں نہین کہی جاسکتیں ۔ یوں سمجھئے کہ جس طرح ہم قرآن کی آیت کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہاں وحی نے اشتباہ کیا ہے یا نفسانی خواہشات اور بے انصافی سے کام لیا ہے ، وحی کے اشتباہ کا مطلب یہ ہوا کہ یہ آیت وحی نہیں ہے ( اسی طرح پیغمبر کے اقوال کے لئے بھی یہ سب نہیں کہہ سکتے ) اب یہ سوال یہ ہے کہ کیا پیغمبر کے بعد بھی کو ئی ایسا شخص موجود تھا جو احکام دین کی تشریح و تفسیر کے لئے پیغمبر کے مونند مرکزی حیثیت کا ھامل ہو ؟ ایک انسان کامل ان خصوصیات کا حامل موجود تھا یا نہیں ؟ ہم کہتے ہیں کہ ایسا شخص موجود تھا ( اور وہ علی اور ان کے بعد ائمہ معصومین تھے ) بس فرق یہ ہے کہ پیغمبر براہ راست وحی کے ذریعہ دینی احکام بیان فرماتے ہیں اور ائمہ جو کچھ فرماتے ہیں پیغمبر سے اخذ کرکے فرماتے ہیں پیغمبر اسلام نے میرے لئے علم کا ایک باب کھولا ۔ اس باب کے ذریعہ مجھ پر علم کے ہزار باب کھل گئے ۔ ہم اس کی وضاحت نہیں کر سکتے کہ ایسا کیسے ہو ا ۔ جس طرح وحی کے لئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ پیغمبر اسلام خدا کی طرف سے کیسے علم حاصل کرتے تھے ۔ یوں ہی ہم اس کی وضاحت بھی نہیں کر سکتے کہ پیغمبر اکرم اور حضرت علی کے درمیان کس نوعیت کا معنوی و روحانی رابطہ تھا کہ پیغمبر اسلام نے تمام حقائق و معارف کما ھو حقہ و بتمامہ ، جو اس کا حق تھا کامل طور پر حضرت علی کو تقسیم فرمادئے اور آپ کے علاوہ کسی سے بیان نہ فرمائے ۔ حضرت علی خود نہج البلاغہ میں ( اس طرح کی عبارتیں دوسری جگہوں پر بھی بہت ہیں ) فرماتے ہیں کہ : میں پیغمبر اکرم کے ہمراہ غار حرا میں تھا ، ( اس وقت آپ کمسن تھے ) کہ میں نے ایک درد ناک گریہ کی آواز سنی ، عرض کیا یا رسول اللہ ، جب آپ پر وحی نازل ہورہی تھی میں نے شیطان کے رونے کی آواز سنی ہے ۔ آپ نے فرمایا :یا علی ! انک تسمع ما اسمع و تریٰ ما اریٰ وٰ لکنّک لست بنبیّ ( ۱) نہج البلاغہ ، خطبہ نمبر ۱۹۲ ،، اے علی ! جو کچھ میں سنتا ہوں تم بھی سنتے ہو اور جو کچھ میں دیکھتا ہوں تم بھی دیکھتے ہوں ، بس فرق یہ ہے کہ تم نبی نہیں ہو) اگر وہیں حضرت علی کے پاس کوئی دوسرا شخص بھی موجود ہوتا تو وہ آواز نہیں سن سکتا تھا ۔ کیونکہ یہ سماعت فضا میں گردش کرنے والی عام آواز کے سننے والی سماعت نہیں تھی جسے ہر صاحب گوش سن سکتے بلکہ ، یہ سماعت ، بصارت اور احساس کچھ اور ہی ہے ۔

حدیث ثقلین اور عصمت ائمہ علیہم السلام:

مسئلہ امامت کی بنیاد اس کا وہی معنوی پہلو ہے ۔ ائمہ یعنی پیغمبر کے بعد ایسے معنوی انسان ، جو انہیں معنوی طریقوں سے اسلام کی معرفت رکھتے ہیں اور اسے پہچانتے ہیں اور پیغمبر ہی کے مانند خطاؤں ، لغزچوں اور گناہوں سے محفوظ و معصوم ہیں ۔ امام ایک ایسے قطعی و یقینی مرجع و مرکزی کی حیثیت رکھتا ہے کہ اگر اس سے کوئی بات سنی جا ئے تو اس میں نہ کسی خطا یا لغزش کا احتمال دیا جاسکتا ہے ۔ نہ ہی اس سے جان بوجھ کر انحراف ہوسکتا ہے ۔ اور اس کو دوسرے الفاظ میں عصمت کہتے ہیں ۔ یہی وہ منزل ہے جہاں شیعہ کہتے ہیں کہ پیغمبر گرامی کا ارشاد : "الی تارک فیکم الثقلین کتاب الله و عترتی "(۷) میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک قرآن ہے اور دوسرے میری عترت ) مسئلہ عصمت میں نص کی حیثیت رکھتی ہے ۔

اور جہاں تک یہ سوال ہے کیا آیا پیغمبر نے یہ بات کہی یا نہی ؟ کوئی شخص پیغمبر کی اس حدیث سے انکار نہیں کر سکتا ہے ۔ یہ ایسی حدیث نہیں ہے جسے صرف شیعوں نے نقل کیا ۔ بلکہ شیعوں سے زیادہ اہل سنت نے اپنے مقالہ میں اس حدیث کو یوں نقل کیا تھا انی تارک فیکم ثقلین کتاب اللہ وسنتی ۔ مرحوم آیۃ اللہ بروجردی جو واقعاً تمام معنی میں عالم روحانی تھے اور ان مسائل میں عاقلانہ فکر اور گہری بصیرت رکھتے تھے ۔ آ پ نے ایک فاضل طالب علم آقای شیخ قوام الدین وشنو ہ ای کی رہنمائی اس امر کی طرح فرمائی کہ مذکورہ حدیث کو اہل سنت کی کتابوں سے نقل کریں ۔ یہ بزرگ بھی کتابوں پر گہری نظر رکھتے تھے انھوں نے اہل سنت کی تقریباً دو سو سے زیادہ معتبر اور قابل اعتماد کتابوں سے اس حدیث کو انہیں لفظوں میں نقل فرمایا ۔انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله وعترتی "یہ حدیث متعدد مقامات پر نقل ہوئی ہے ۔ کیونکہ پیغمبر نے اسے مختلف موقعوں اور متعدد جگہوں پر انہیں الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے ۔ البتہ کہنے کامطلب یہ نہیں ہے کہ پیغمبر نے ایک مرتبہ بھی یہ نہ فرمایا ہوگا کہ میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں "کتاب و سنت " کیونکہ قرآن وعترت " اور" کتاب و سنت " میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے ۔ اس لئے کہ عترت ہی سنت کو بیان کرنے والی اور اس کی وضاحت کرنے والی ہے ۔ بات یہ نہیں ہے کہ ہم سنت و عترت میں سے کسی کی طرف رجوع کریں ۔ ایک طرف پیغمبر کی ایک سنت ( حدیث ) ہو اور ایک طرف عترت کی ایک فرد موجود ہو تو اس صورت میں کسے انتخاب کرے !بلکہ بات یہ ہے کہ عترت کی سنت پیغمبر کی صحیح اور واقعی وضاحت کرنے والی ہے اور پیغمبر کی تمام سنتیں انہیں کے پاس محفوظ ہیں ۔" کتاب اللہ وعترتی " کا مطلب یہ ہے کہ ہماری سنت کو ہماری عترت سے حاصل کرو اس کے علاوہ خود یہحدیث " انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ وعترتی " سنت ہے یعنی حدیث پیغمبر ہے۔ لہٰذا ان دونوں میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے پھر بھی اگر کسی ایک جگہ وہ غیر قطعی طور پر ۔ پیغمبر نے " کتا ب اللہ وسنتی " فرمایا ہوتو بہت سی جگہوں پر قطعی طور سے " کتاب اللہ و عترتی " فرمایا ہے ۔ اگر کسی ایک کتاب میں حدیث اس شکل میں ذکر ہوئی ہے ، تو کم ازکم دو سوکتابوں میں یہ حدیث کتاب اللہ وعترتی " کے ساتھ ذکر ہوئی ہے

بھر حال شیخ قوام الدین وشنوہای نے وہ تمام حوالے ایک رسالے کی شکل میں تحریر فرمایا اور اسے " دارلتقریب مصر " بھیجا ہے ۔ ادارہ دارالتقریب نے بھی اسے کم و کاست چھاپ دیا کیونکہ اسیے کسی طرح رد نہیں کیا جاسکتا تھا اب اسے مرھوم آیۃ اللی بروجردی بھی دوسروں کی طرح صرف شروغوغا اور فریاد بلند کرتے اور فرماتے یہ غلط اور بکواس کرتے ہیں ۔ حق اہل بیت سے کھیلنا چاہتے ہیں ، ہمیشہ بد نیتی سے کام لیتے ہیں ؟ اب دیکھیں کہ امامت کی اصل روح کیا ہے ، اسلام جو ایک جامع ، وسیع و ہمہ گیر اور کلی دین ہے ، کیا اسی قدر ہے جتنا قرآن میں اصول و کلیات کے طور پر بیان ہوا ہے یا پیغمبر اکرم کے کلمات میں جنہیں خود اہل سنت نے بھی نقل کیا ہے ، اس کی توضیح و تفسیر بیان ہوئی ہے ؟ کیا جو کچھ تھ ایہی اسلام تھا ؟ یقیناً اسلام کا نزول پیغمبر پر تمام ہوچکا لیکن جو کچھ بیان ہوا کیا یہی کامل اسلام تھا ؟ ( یعنی تمام نازل شدہ اسلام بیان بھی ہوچکا ؟) یا آنحضرت کے بعد بھی پیغمبر پرنازل شدہ اسلام کی بہت سی باتیں ابھی اس لئے بیان سے باقی رہ گئی تھیں کہ ابھی ان کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی اور زمانہ کےساتھ رفتہ رفتہ جب حالات و مسائل پیش آتے تو بیان نپہ شدہ مسائل بیام کئے جاتے ۔ چنانچہ یہ ساری دینی امنتیں حضرت علی کے پاس محفوظ تھیں اور ان کے اوپر انہیں عوام کے سامنے بیان کرنے کی ذمہ داری تھی ۔ یہی مامت کی روح اور اصل حقیقت ہے ۔ ایسی صورت میں یہی حدیث "کتاب اللہ وعترتی " ائمہ کی عصمت کو بھی بیان کرتی ہے ۔ کیونکہ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں : " دین ان ہی دونوں سے حاصل کرو ۔ جس طرح قرآن معصوم ہے اور اس میں کسی خطا کا امکان نہیں ہے یوں ہی عترت بھی معصوم ہے ۔ اور یہ محال ہے کہ پیغمبر پوری قاطعیت اور یقین کے ساتھ فرمائیں کہ دین فلاں شخص سے حاصل کرو ، جبکہ وہ شخص جس کے لئے آنحضرت فرمائیں ، بعض مواقع پر اشتباہ و غلطیاں بھی کرتا ہو!

یہی وہ نقطہ ہے جہاں دین کے اخز اور بیان کرنے میں شیعہ اور سنی نظریات میں بنیادی فرق نظر آتا ہے ۔ اہل سنت یہ کہتے ہیں کہ : جہاں پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہوا وہیں دین کے واقعی اور حقیقی بیان کا وہ عصمتی سلسلہ بھی جس مین کسی قسم کی خطا یا اشتباہ کا امکان نہ تھا ، تام ہوگیا ۔ اب جو کچھ ہم تک قرآن و احادیث پیغمبر اسلام کی شکل میں پہنچا اور ہم نے اس سے استنباط کیا ۔ وہی سب کچھ ہے اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔

حدیثیں نہ لکھی جائیں

ان لوگوں نے خود ایسے حالات پیدا کردئے جنھوں نے ان کے نظریہ کو کمزور بنادیا ۔ اور وہ یہ ہے کہ عمر نے پیغمبر کی حدیثیں لکھنے پر روک لگادی اور حکم دیا کہ حدیثیں نہ لکھی جائیں ۔ اور یہ یاک تاریخی وا قعیت ہے ۔ اگر ہم بد بینی کے الزام سے بچنے کی غرض سے ایک شیعہ کی حیثیت سے بات نہ کریں اور اپنی جگہ ایک یورپی مشترق کا خیال کریں ۔ تو وہ بھی اگر بہت زیادہ خوش بینی سے کام لے گا تو یہی کہے گا کہ عمر نے یہ حکم اس لئے دیا تھا کہ وہ صرف قرآن کو دینی احکام کا واحد منبع و مرجع بنانے پر بے انتہا زور دیتے تھے اور اگر لوگ حدیثوں کی طرف زیادہ مائل ہوجاتے تو قرآن سے ان کا رابطہ کم ہوجاتا ۔ اسی لئے انہوں نے حدیثیں لکھنے سے منع کردیا ۔ یہ واقعہ تاریخ کے قطعیات میں سے ہے ، صرف شیعوں کی کہی ہوئی بات نہیں ۔ عمر کے زمانہ میں لوگ نہ حدیث پیغمبر لکھنے کی جرأت کرتے تھے اور نہ یہ کہتے تھے کہ یہ پیغمبر کی حدیث ہے ۔ حتیٰ یہ کہ پیغمبر سے حدیث کی روایت بھی نہیں کرسکتے تھے ( البتہ حدیث باین کرنا منع نہ تھا ) یہاں تک کہ عمرابن عبد العزیز ( ۹۹ ہجری تا ۱۰۱ ئیسوی)نے یہ جمود توڑا اور حکم دیا کہ حدیثیں لکھی جائیں ۔ اب جبکہ عمرابن عبد العزیز نے عمر ابن خطاب کی سیرت پر خچ نسخ کھینچ دیا اور کہا کہ پیغمبر کی حدیثیں ضرور لکھی جائیں تو وہ افراد جنھوں نے سینہ بہ سینہ احادیث پیغمبر سےکچھ محفوظ کر رکھا تھا ، آئے ،روایت لہ اور انھیں نو شتوں کی شکل میں محفوظ کر لیا گیا ۔ بہر حال احادیث رقم کرنے سے لوگوں کو مدت تک روک دیئے جانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا ایک بڑا حصہ تلف ہوگیا ۔

سب جانتے ہیں کہ قرآن میں جو احکام بیان ہوئے ہیں بہت ہی مجمل ، مختصر اور جزئی ہیں ۔

قرآن سراسر کلی احکام کا مجموعہ ہے ۔ مثلاً قرآن جو نماز پر اس قدر زور دیتا ہے ، اس میں اس عبادت کے لئے " اقیموا الصلا ۃ " اور " اسجدو ا وارکعوا " یعنی نماز قائم کرو یا سجدہ کرو اور رکوع کرو ، سے زیادہ کچھ اور نہیں آتا ہے ۔ حتیٰ اس کی بھی وضاحت نہیں کی گئی کہ نماز کس انداز میں پڑھی جائے گی ۔ اسی طرح حج جس کے بارے میں اتنے سارے احکام بیان کئے ہیں ۔ اور پیغمبر خود بھی ان احکام کے پابند تھے لیکن قرآن میں ان سے متعلق کوئی چیز بیان نہیں کی گئے ہے ۔ دوسری طرف سنت پیغمبر یعنی حدیثوں کا جو ہول ہوا ہم اسے باین کر چکے ہیں ۔ اور فرض کریں اگر یہ صورت حال پیدا نہ بھی ہو ئی تھی ، پھر بھی پیغمبر کو اتنا موقع کہا ں ملا کہ تمام حلال و حرام کو باین فرمادیتے ۔ مکہ کی وہ تیرہ سالہ زندگی ۔ جس میں لوگ شدید دباؤ اور سختیوں کے باوجود مسلامن ہوئے تھے شاید ان کی تعداد چار سو افراد تک بھی نہیں پہونچی ۔ ایسے سخت حالات میں آنحضرت سے ملاقات بھی ڈھکے چھپے ہوا کرتی تھی ۔ ان میں سے بھی ستر خانوادوں پر مشتمل مسلمانوں کا ایک گروہ جو مسلمانوں کی نصف جمعیت یا اس سے بھی زیادہ تھے ، حبشہ ہجرت کرگیا ۔ ہاں مدینہ اس حیثیت سے امن کی جگہ تھی لیکن وہاں بھی پیغمبر کی مصروفیت بہت زیادہ تھیں اگر رسول اکرم اس پورے تیئیس سال کے عرصہ میں ایک معلم کی حیثیت سے لوگوں کو مدرسہ کی صورت میں جمع کرکے سرف احکام بیان کرنے کے لئے وقت کافی نہ ہوتا ۔ چہ جائیکہ ان حالات میں خصوصاً جبکہ اسلام انسانی زندگی کے ہر موڑ اور ہر پہلو پر ایک حکم رکھتا ہے ۔

قیاس کی پناہ میں:

نتیجہ یہ ھواکہ اہل سنت اپنے مفروضہ کے مطابق عملی طور پر احکام اسلام کی تنگ دستی کا احساس کرنے لگے۔ جب مسئلہ پیش آتا، اور دیکھتے تھے کہ قرآن میں اس سے متعلق کوئی حکم بیان نہیں ہوا ہے ، تو (باقی ماندہ محفوظ)حدیثوں میں حل تلاش کرتے تھے، جب وہاں بھی مایوسی ہوتی تھی تو ظاہر ہے مسئلہ بغیر کسی حکم کے چھوڑ ا نہیں جا سکتا ، لہٰذا کسی نہ کسی طرح مسئلہ کا حکم تلاش کرنے کے لئےقیاس کا سہار ا لیتے تھے، قیاس ، یعنی جن مسائل کا حکم قرآن یا حدیث میں یہ حکم بیان ہوا ہے اور چونکہ یہ مسئلہ بھی اس سے ملتا جلتا ہےلہذاس کا حکم بھی وہی ہوگا۔خلاصہ یہ کی احکام دین کی بنیاد،،شاید،،پرکھڑی کی گیء۔ایسےمقاماتایک دونہیی تھےجہاںحدیث ناکافی ثابت ہوئی ۔ دنیائے اسلام میں خاص طور سے عباسیوں کے زمانہ میں زیادہ وسعت پیدا ہوائی مختلف ممالک فتح ہوئے اور صرورتیں نت نئے مسائل کی شکل میں سر اٹھانے لگیں اور جب لوگ قرآن و احادیث میں ان کا حل نہین پاتے تو دھڑ ادھڑ قیاس آرائیوں سے کام لیتے تھے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دو گروہ بن گئے ایک فرقہ قیاس کا منکر ہوگیا جس میں احمد بن حنبل اور مالک بن انس شامل تھے ( مالک بن انس کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے پوری زندگی میں صرف دو مسئلہ مین قیاس کیا ) دوسرا گروہ تھا جس نے قیاس کے رہوار کو بے لگام چھو ڑدیا اور وہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا ۔ اس کے علم بردار ابوحنیفہ تھے ۔ ابو حنیفہ کہتے تھے کہ یہ تمام حدیثیں جو پیغمبر سے ہم تک پہنچی ہیں بالکل قابل اعتماد نہیں ہیں کیونکہ نہیں معلوم کہ واقعی پیغمبر نے یہ باتیں ارشاد فرمائی ہیں ؟ لوگ کہتے ہیں کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا ہے : میرے نزدیک تو آنحضرت کی صرف پندرہ حدیثیں ثابت ہیں جن کے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ انہیں پیغمبر نے فرمایا ہے اور بس ۔ بقیہ مسائل میں ابو حنیفہ قیاس کرتے تھے ۔ شافعی نے میانہ روی اختیار کر رکھی تھی یعنی بعض مسائل میں احادیث پر اعتقاد کرتے تھے اور بعض مواقع پر قیاس سے کام لیتے تھے ۔ نتیجہ فقہ ایک عجیب و غریب کھچڑی کی شکل می ناختیار کر گئی ۔ کہتے ہیں کہ ابوحنیفہ چونکہ نسلی طور پر ایرانی تھے اور ایرانیوں کی توجہ عقلی مسائل کی طرف زیادہ ہوا کرتی ہے مزید یہ کہ وہ مرکز حدیث یعنی مدینہ سے دور عراق میں زندگی بسر کرتے تھے لہٰذا بہت زیادہ قیاس واقع ہوئے تھے ۔ بیٹھے قیاس کے تانے بانے بناکر تے تھے ۔ خود اہل سنت نے لکھا ہے کہ ایک روز آپ حجام کے یہاں گئے ، آپ کی داڑھی کے بال کھچڑی تھے ، ابھی سفید بال زیادہ نہیں تھے ، حجام سے کہا ، سارے سفید بال اکھا ڑدو ۔ خیال یہ تھا کہ اگر تمام سفید بال جڑ سے اکھڑ جائیں گے تو انکا وجود ہی ختم ہوجا ئے گا ۔ حجام نے کہا ، اتفاق سے سفید بالوں کی خاصیت یہ ہے کہ اکر اکھا ڑدئے گئے تو اور زیادہ نکل آئیں گے ۔ آپ نے فوراً قیاس کرکے فرمایا ، تو سیاہ بالوں کو اکھاڑڈالو ، یہ قیاس ہے ۔ آپ نے قیاس یہ کیا کہ واگر سفید بال اکھاڑنے سے زیادہ اگتے ہیں تو جب سیاہ بال اکھاڑے جائیں گے وہ بھی زیادہ اگیں گے ۔ !جبکہ اگر یہ قاعدہ ہو بھی تو صرف سفید بالوں کے لئے جاری کیا جائے گا ۔ کالے بالوں کے لئے نہیں ۔ چنانچہ آپ فقہ میں بھی طریقہ عمل میں لاتے تھے ۔

قیاس اور شیعوں کا نظریہ:

جب ہم شیعوں کی روایات کو دیکھتے ہیں تو نظرآتا ہے کہ قیاس کو سرے سے قبول ہی نہیں کرتے بلکہ بنیادی طور سے اس فکر ہی کو غلط اور اشتباہ سمجھتے ہیں کہ کتاب خدا اور احادیث پیغمبر کافی و وافی نہیں ہیں ۔ قیاس کا سوال تو واہاں پیدا ہوتا ہے جب یہ کہا جائے کہ کتاب و سنت تمام احکام دین بیان کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور چونکہ وہ ناکافی ہیں اس لئے قیاس سے کام لیا جا ۴ ے ۔ جبکہ یہ سراسر غلط ہے کیونکہ خود پیغمبر اسلام سے براہ راست بالواسطہ طور پر ان کے اوصیاء کرام کے ذریعہ احادیث کا اتنا بڑا ذخیرہ ہم تک پہنچا ہے کہ ان حدیثوں کے کلیات کی طرف رجوع کرنے کے بعد قیاس کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی ۔ دینی نقطۂ نظر سے امامت کی روح یہی ہے کہ اس کے ذریعہ احادیث اکیہ ذخیرہ ہم تک پہنچا ۔ اسلام صرف ایک مسلک نہیں ہے ، جس کا بانی اپنے افکار و نظریات کا اجراء کرنے کے لئے حکومت کا محتاج ہوتا ہے ۔ حکومت کا اس میں کیا دخل اسلام ایک دین ہے ایک دین کی وضع اور وہ بھی اسلام جیسے دین کی اہمیت و ہمہ گیری کو پیش نظر رکھنا چاہئے ۔

معصوم کی موجودگی میں انتخاب کی گنجائش ہی نہیں

امت کی قیادت رہبری کی رو سے امامت کا مسئلہ یہ ہے کہ اب جبکہ پیغمبر کے بعد ان ہی کے زمانہ کی طرح ایک معصوم موجود ہےا ور پیغمبر نے خود ایسے شخص کو اپنا نائب و وصی معین فرمادیا ہے جو عام افراد کی سطح کا نہیں ہے بلکہ اس مٰں پیغمبر جیسی ہی استثنائی صلاحیتیں موجود ہیں ۔ چنانچہ ایسے شخص کی موجودگی میں کسی بھی انتخاب یا شوریٰ وغیرہ کی ضرورت باقی نہیں رہتی ، جس طرح پیغمبر کے زمانہ میں یہ سوال نہیں اٹھتا تھا کہ پیغمبر تو صرف پیغام لانے والے ہیں اور ان پر وحی نازل ہوتی ہےاب حکومت کا مسئلہ طے کرنا شوریٰ یا عوام کی ذمہ داری ہے ، عوام آئیں اور رائے دیں کہ خود پیغمبر کو حاکم قرار دیا جائے یا کسی دوسرے کو حاکم بنایا جائے بلکہ سب کا یہی خیال تھا کہ پیغمبر اسلام کےایسے بارہ جانشین موجود ہیں ، جو دو تین صدیوں کے عرصہ میں اسلام کی بنیادوں کو پورے طور سے مستحکم کردیں اور اسلام صاف و شفاف سر چشمہ اور معصوم افراد کے ہوتے ہو ئے کسی انتخاب یا شوری کی گنجائش بہر حال نہیں ہر جاتی ۔ کیا یہ بات عقل میں آنے والی ہے کہ ہما رے درمیان ایک ایسا شخص موجود ہو جو معصوم ہونے کے ساتھ ایسا عالم بھی ہو جس سے کسی خطا یا اشتباہ کا امکان بھی نہ پایا جاتا ہو اس کے باوجود اس کی جگہ پر ہم کسی دوسرے کا انتخاب کریں ؟!

اس کے علاوہ جب علی پیغمبر کی جانب سے ایک ایسی امامت و جانشین پر فائز ہوئے تو قہری طور پر دنیاوی حا کمیت و رہبری بھی ان ہی کے شایان شان ہوگی ۔ پیغمبر نے بھی علی کے لئے اس منصب کی صراحت کردی ہے ۔ لیکن آنحضرت نے منصب امامت کی سراحت و وضاحت اس لئے فرمائی ہے کہ وہ اس دوسرے منصب کے حقدار بھی ہیں ۔ بنا بر این غیبت امام زمانۂ کے دوران جبکہ ویسے ہی وسیع اختیار کا حامل کوئی معصوم امام موجود نہیں ہے یو اگر فرض کرلیں کہ اگر صدر اسلام میں ہو حالات پیش نہ آتے اور حضرت علی ہی خلیفہ و جانشین ہوتے ، ان کے بعد امام حسن (ع) ، پھرامام حسین اور یہ سلسلہ حضرت ولی عصر تک قائم رہتا اور وہ صورت رونما ہوتی جو امام کی غیبت کا سبب بنی اور ان کے بعد جب کوئی امام معصوم ہمارے درمیان موجود نہ ہوتا تب حکومت کا مسئلہ دوسرا ہوجاتا۔ اور اس وقت یہ سوال اٹھتے کہ یہ حکومت کس کا حق ہے ؟ کیا حاکم ، فقیہ جامع الشرائط ہی ہوسکتا ہے ؟ یایہ چیز حکومت کے لئے لازم نہیں ہے ۔ کیا عوام کو حاکم کے انتخاب کا حق ہے ؟ یا ؟!

بنابر ایں ہمیں مسئلہ امامت کو ابتدائ سے ہی حکومت جیسا سادہ اور دنیاوی مسئلہ نہیں بنا دینا چاہئے ، تاکہ پھر اس کی روشنی میں یہ سوال اٹھایا جا ئے کہ اسلام کی نظر میں حکومت زبر دستی کی تنصیص و تعیینی ہے یا انتخابی ؟اور پھر یہ سوال پیدا ہوکہ آخر شیعہ اس طرح کی حکومت پر کیوں اصرار کرتے ہیں ؟ اصل میں مسئلہ یوں نہیں ہے بلکہ شیعوں کے یہاں تو امامت کا مسئلہ ہے اور امام کی ایک شان حکومت بھی ہے ۔ اور یہ طے ہے کہ امام معصوم کے ہوتے ہوئے کسی اور کوحکومت کا حق نہیں ہے ۔ اور پیغمبر اکرم نے علی کو منصب امامت پر معین فرمایا ہے ، جس کالازمہ حکومت بھی ہے اس کے علاوہ بعض مواقع پر لفظ حکومت سے بھی علی کی حکامیت کی صراحت فرمائی ہے لیکن اس کی بنیاد بھی امامت ہی کو قرار دیا ہے ۔

روحانی و معنوی ولایت:

میں اس موضوع پرگزشتہ ث کے دوران ایک بات کرچکا ہوں ۔ البتہ میں خود ذاتی طور پر اس کا اعتقاد رکھتا ہوں اور اس کو ایک بنیادی مسئلہ سمجھتا ہوں لیکن وہ بات شاید شیعیت کے ارکان میں شمار نہیں ہوتی ۔ اور وہ یہ کہ کیا پیغمبر اکرم کی حیثیت اتنی تھی کہ آپ پر خدا کی طرف سے الٰہی احکام اوراسلام کے اصول و فروع وحی ہوتے تھے ۔ اور وہ صرف اسلام ظاہری وواقعی سے ہی متعلق معلومات رکھتے تھے ، کیا آپ کی شان یہ نہیں تھی کہ خداکی جانب سے اس کے علاوہ اور بھی کچھ جانتے اور کیا منزل عمل و تقوائے پر وردگار میں بھی وہ (صرف ) خطاؤں سے محفوظ و معصوم تھے اوربس ؟ یوں ہی کیا ائمہ معصومین علیہم السلام کا مرتبہ بھی فقط اتنا ہی ہے کہ اگر چہ ان پر وحی نازل نہیں ہوتی تھی ۔ انہوں نے اسلام کے اصول و فروع اور کلیات و جزئیات ، پیغمبر سے حاصل کئے ہیں او ر جس طرح پیغمبر سے علم و عمل میں کوئی غلطی یا اشتباہ نہیں ہوتا یوں ہی وہ بھی خطاؤں سے محفوظ و معصوم ہیں اور بس ؟یا پیغمبر اسلام اور ائمہ علیہم السلام کے مراتب اس سے بڑھ کر بھی کچھ اور ہیں ؟ یہ حضرات دین و معارف سے مظبوط اسلامی مسائل کے علاوہ اور کن علوم سے آگاہ تھے ؟ کیا یہ سچ ہے کہ انسانوں کے اعمال پیغمبر کی مبعث میں پیث کئے جاتے ہیں ؟ حتیٰ ہر امام کے زمانہ میں اس عہد کے لوگوں کے اعمال کی خدمت میں بھی پیش ہوتے ہیں ؟ مثال کے طور پر آج امام زمانہ نہ صرف شیعوں بلکہ تمام انسانوں پر حاضر و ناظر ہیں ان کے اعمال سے واقف ہیں اور کسی سے بھی غافل نہیں ہیں ؟ حد یہ ہے کہ امام کے لئے حیات اور موت میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ یعنی جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں ، جب آپ امام رضا (ع) کی زیارت کو جاتے ہیں اور کہتے ہیں " السلام علیک " تو اس کامطلب یہ ہے کہ آپ اس دنیا میں ایک زندہ انسانوں کے روبرو کھڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں :"السلام علیک " اور وہ بھی یوں ہی آپ کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں ۔ یہی ولایت معنوی ہے ۔

یہ بھی عرض کرچکا ہوں کہ اس نقطہ پر عرفان اور تشیع میں مشابہت اور یک رنگی پائی جاتی ہے ، یعنی دونوں کے افکار ایک دوسرے سے کافی نزدیک ہیں ۔ اہل عرفان کا اعتقاد ہے کہ ہر دور میں ایک نہ ایک قطب اور انسان کامل ضرور ہونا چاہئے ۔ اور شیعہ کہتے ہیں کہ ہر دور میں روئے زمین پر ایک امام و حجت ضرور رہتا ہے اور وہی انسان کامل ہے اورہم فی الحال اس بحث کو چھیڑنا نہیں چاہتے کیونکہ اس مسئلہ میں ہم میں اور اہل سنت میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ شیعہ اور اہل سنت میں اختلاف ان دو مسئلوں میں ہے جن کا ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں ۔ ایک یہ کہ امامت ، احکام دین بیان کرنے کی ذمہ دار ہے اور دوسرے امامت یعنی مسلمانوں کی قیادت و رہبری ۔

حدیث ثقلین کی اہمیت:

امامت کے مسئلہ میں " حدیث ثقلین " کو فراموش نہیں کرنا چاہئے ۔ ار آپ کسی عام اہل سنت یا ایک عام سنی سے ہی ملاقات کریں تو اس سے پوچھیں کہ آیا کوئی جملہ پیغمبر اسلام نے فرمایا ہے کہ نہیں ؟ اگر وہ انکار کرے تو اس کے جواب میں ان ہی کی متعدد کتابیں ان کے سامنے پیش کی جاسکتی ہیں ۔ آپ دیکھیں گے کہ علماء اہل سنت کسی طرح بھی اس حدیث کے وجود یا اس کی صحت سے انکار نہی ںکرسکتے اور حقیقتاً انکار کرتے بھی نہیں ۔(۸)

اس کے بعد آپ ان سے پوچھیں کہ یہ جو پیغمبر نے قرآن اور عترت و اہل بیت کو دین کے حصوں کے لئے الگ الگ مرجع قراردیا ہے ، آخر یہ اہل بیت (ع)کون سے افراد ہیں ؟ اصل میں یہ حضرات پیغمبر(ص) کی عترت اور غیر عترت میں کسی فرق و امتیاز کے قائل نہیں ہیں ۔ بلکہ وہ صحابہ سے روایتیں بھی نقل کرتے ہیں تو علی سے کہیں زیادہ دوسروں سے نقل کرتے ہیں اور علی سے اگر کبھی کوئی روایت نقل کی بھی ہے تو صرف ایک راوی کے عنوان سے ، نہ کہ ایک مرجع ومصدر کی حیثیت سے۔

حدیث غدیر:

ہم عرض کرچکے ہیں کہ جو دین کے منبع و مرجع کی حیثیت رکھتا ہے ، وہی دین کا رہبر بھی ہوگا ۔ پیغمبر نے علی (ع) کی رہبری کے سلسلہ میں بھی صراحت سے ذکر کیا ہے ۔ اس کا ایک نمونہ حدیث غدیر ہے ، جسے پیغمبر اکرم(ص) نے حجۃ الوداع کے دوران غدیر خم کے مقام پر ارشاد فرمایا تھا ۔ حجۃ الوداع پیغمبراسلام (ص) کا آخری حج ہے ۔ شاید آپ (ص) نے فتح مکہ کے بعد ایک سے زیادہ حج نہیں فرمایا ۔ البتہ حجۃ الوداع سے پہلے حج عمرہ ادا کیا تھا ۔ چنانچہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے عام اعلان فرمایا اور لوگوں کو خصوصیت سے اس حج میں شرکت کی دعوت دی۔ گویا مسلمانوں کے کثیر مجمع کو اپنے ہمراہ لیا اور مختلف مقامات یعنی مسجد الحرام میں، عرفات میں، منیٰ میں اور منیٰ سے باہر نیز غدیر خم وغیرہ میں تمام مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے متعدد خطبے ارشاد فرمائے ۔ منجملہ غدیرخم میں جبکہ آپ جگہ سیگہ پر مغز مطالب بیان فرماچکے تھے، ایک مسئلہ کو آخری مطلب کے طور پر بڑے شدو مدکے ساتھ بیان فرمایا( یاایهالرسول بلغ ماانزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالته ) (۹) (اے رسول ! آپ وہ امر لوگوں تک پہنچا دیجئے جو آپ کے پروردگار کی جانب سے آپ پر نازل ہوا ہے ۔ اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا رسالت ہی انجام نہ دی ۔"اگر پیغمبر اکرم (ص) نے اس سے قبل عرفات، منیٰ اور مسجدالحرام میں اپنے خطبوں کے درمیان اصول و فروع کے تمام اسلامی کلیات بیان کردیئے تھے ۔ اور وہ بیانات آپ کے اہم ترین خطبات میں ہیں۔ پھر اچانک غدیر خم میں فرماتے ہیں کہ اب میں وہ بات بیان کررہاہوں کہ اگر اسے ذکر نہ کیا تو گویا رسالت ہی انجام نہ دی "( فمابلغت رسالته ) " یعنی مجھ سے فرمایا گیا ہے کہ اگر اسے نہ بیان کیا تو کچھ بھی بیان نہ کیا یعنی پوری رسالت کی محنت بے کار ہوکر رہ جائے گی ۔ اس کے بعد آپ فرماتے ہیں : الست اولیٰ بکم من انفسکم ؟( کیا میں تمہارے نفسوں ( یا تم سے زیادہ حاکم نہیں ہوں ) یہ قرآن کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے۔ "( النبی اولیٰ بالمومنین من انفسهم ) (۱۰) ( نبی مومنین کے نفسوں پر ان سے زیادہ حاکم و ولی ہے ) چنانچہ جب آپ نے فرمایا : کیا تم پر میرا حق تسلط اور ولایت خود تم سے زیادہ نہیں ہے ؟ سب نے ایک ساتھ کہا : بلیٰ (ہاں ) یا رسول اللہ تو حضرت (ص) نے فرمایا :"من کنت مولاه فهٰذا علی مولاه " یہ حدیث بھی حدیث ثقلین کی طرح بہت سے اسناد رکھتی ہے

حدیث غدیر جو متواتر ہے اگر ہم اس کے مدارک واسناد کی تحقیق کے میدان میں قدم رکھیں یایوں ہی حدیث ثقلین جس کے اسناد و مدارک میر حامد حسین طاب ثراہ نے "عبقات الانوار " میں جمع کئے ہیں جو بڑی سائز کے چار سو صفحات میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ اگر ان حدیثوں کی تحقیق کی جائے تو بحث بہت طویل ہوجائے گی ۔ ممکن ہے اس سلسلہ میں مزید تحقیق کی ضرورت ہو پھر بھی میں چاہتا ہوں کہ مسئلہ امامت کے تحت بحث کا ایک خلاصہ آپ کی خدمت میں پیش کردوں ۔ ساتھ ہی ان ثبوت و مدارک کابھی ایک اجمالی جائزہ پیش کردوں جنھیں شیعہ امامت کے سلسلہ میں سند کے طور پر بیان کرتے ہیں

____________________

(۷) صحیح مسلم جزء ہفتم صفحہ ۲۲

(۸) بعض اہل منبر اور مجلسیں پڑھنے والے افراد نےاس حدیث کی عظمت و اہمیت کو کم کرڈالا ہے ، اور اسے یوں پیش کرنے لگے کہ مفہوم حدیث بدل کر رہ گیا ہے ۔ چونکہ یہ لوگ اکثر و بیشتر اس حدیث کو مصائب بیان کرنے کے لئے گریز کے طور پر پڑھنے لگے لہٰذا انسان یہ سوچتے لگا کہ اس حدیث سے پیغمبر کا مقصد صرف یہ تھا کہ میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھو رے جا رہاہوں یعنی قرآن و عترت ۔ ان دونوں کا احترام تم پر لازم و واجب ہے ۔ دیکھو ان کی توہین واہانت نہ کران ۔ جبکہ حدیث کا اصل مقصد یہ ہے کہ ایک قرآن ہے جس سے تمسک اختیار کرو اور اسکے احکام پر عمل کرو اور دوسرے اہل سنت ہیں جن کی طرف رجوع کرو اور ان کی تعلیمات و ہدایات پر عمل کروکیونکہ آنحضرت اسی حدیث میں آگے فرماتے ہیں :"لن تضلوا ما ان تمسکتم بهما ابداً " جب تک ان دونوں سے متمسک رہوگے ہر گز گمراہ نہیں ہوگے ۔ معلوم ہوا یہاں دونوں کی طرف رجوع کرنے اور تمسک اختیار کرنے کی بات کہی جارہی ہے ۔ پیغمبر نے تمسک و رجوع کی منزل میں عترت کو قرآن کا ہم پلہ قرار دیا ہے کہ ان سے قرآ ن ہی کے مانند تمسک اختیار کیا جائے ۔ خود پیغمبر نے فرمایا ہے کہ قرآن ثقل اکبر ہے اور عترت ثقل اصغر ہے ۔

(۹) مائدہ ۶۷

(۱۰) سورہ احزاب ۶

دوسری بحث

امامت اور تبلیغ دین:

گزشتہ بحث میں امامت کے مختلف پہلوؤں کی تشریح و توضیح کرتے ہوئے عرض کیا تھا کہ ان مختلف پہلوؤں کو کامل طور پر مشخص ہونا چاہءے ۔ جب تک امامت کے تمام پہلو مشخص و معین نہ ہونگے ، ہم اس مسئلہ پر بخوبی بحث نہیں کرسکتے ۔ہم عرض کرچکے ہیں کہ امامت میں ایک مسئلہ حکومت بھی ہے ۔ یعنی پیغمبر اسلام کے بعد حکومت کیسی ہونا چاہئے ؟ کیا حکومت کی تعیین خود مسلمانوں کے ذنمہ ہے اور عوام کا فریضہ ہے کہ اپنے درمیا ن کسی کو اپنا حاکم معین کریں یا پیغمبر نے اپنے بعد کے لئے اپنا نائب اور حاکم معین کردیا ہے ؟ ان دونوں اس مسئلہ کو کچھ اس ڈھنگ سے پیش کیا جانے لگا ہے کہ قہری طور سے ذہن پہلے اہل سنت کے نظریہ کی جانب متوجہ ہوتا ہے اور انسان سوچنے لگتا کہ ان کا نظریہ فطرت سے زیادہ فریب ہے ۔

غلط روش

یہ مطلب کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اصل میں ہمیں ایک حکومت کا مسئلہ در پیش ہے ، اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اسلامی نقطہ مظر سے حکومت کیسی ہونا چاہئے ؟ کیا حکومت موروثی اور تعیینی ہے کہ ہر حاکم اپنے بعد کے لئے ایک حاکم معین کردے اور عوام کو حکومت کے معاملات میں کسی طرح کی دخل اندازی کا حق حاصل نہ ہو ؟ پیغمبر نے ایک شخص کو معین فرمایا پھر اس شخص نے اپنے بعد کے لئے کسی تیسرے کو معین کیا ۔ اور صبح قیامت تک اور حکومت کی یہی صورت رہی کہ ہمیشہ نص وتعین کا سلسلہ چلتا رہا ۔ اب قہری طور پر یہ عمر صرف ائمہ تک مخصوص و محدود نہیں رہ سکتا ۔ کیونکہ ائمہ معصومین (ع) صرف بارہ ہیں اور شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ تعداد نہ کم ہوسکتی ہے نہ زیادہ ۔ اس فکر کے مطابق حکومت کے سلسلہ میں اسلامی نقطۂ مظر سے قانون کلی یہ ہوگا کہ پیغمبر جو خود حاکم ہے اپنے بعد اپنا نائب معین کرے اور وہ اپنے بعد کسی دوسرے کو حاکم معین کرسے اور یوں ہی یہ سلسلہ صبح قیامت تک چلتارہا ۔ چنانچہ اگر اسلام پوری دنیا پر حاکم ہوجائے ( جیسا کہ آج تقریبا ً آدھی دنیا اس کے زیر نگی ہے تو تقریباًایک عرب مسلمان پرچم ۔ اسلام کے سائے میں زندگی گزاررہے ہیں ) اور ی ہطے پائے کہ دنیا کے کونے کونے میں اسلامی قوانین نافذ کئے جائیں ، چاہے ایک عالمی حکومت کی شکل میں یا چند چھوٹی بڑی حکومتوں کی صورت میں قانون یہی نصی و تعیینی ہے ، پس یہ جو ہم کہتے ہیں کہ پیغمبر نے علی کو معین فرمایا تو تعیین بھی اسی کلی قانون کے تحت تھی کہ حکومت تعیینی و تنصیصی ہونی چا ہئے ۔"اور اس فلسفہ کے تحت اس کی ضرورت بھی نہیں رہ جاتی کہ پیغمبر نے علی کو خدا کی جانب سے معین فرمایا ہو۔ کیونکہ پیغمبر تو وحی کے ذریعہ، احکام خدا بیان کرسکتے تھے اور ائمہ معصومین پر بھی ایک تو ایسا الہام ہوتا ہے دوسرے انھوں نے خود پیغمبر سے علوم اخذ کئے ہیں ، لیکن ان کے بعد تو ایسا نہیں ہے ! بس اگر حکومت کے سلسلہ میں اسلامی نقطۂ نظر سے بنیادی قانون ( کہ حکومت تنصیصی تعیینی ہونی چاہئے) تو اس کی ضرورت نہیں کہ پیغمبر نے علی کو وحی کے ذریعہ معین فرمایا ہو بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت نے خود اپنی صوا بدید پر معین فرمایا ہے ۔ اسی طرح ائمہ نے اپنے مصالح کے مطابق اپنے جانشین معین فرمائے ہیں ۔ بنابر ایں پیغمبر کی نظر میں خلافت کے لئے علی کی تعیین ویسی ہی ہے جیسے آپ نے کسی کو مکہ کا حاکم یا حاجیوں کے لئے امیر الحاج معین فرمایا ہو، جس طرح وہاں یہ کوئی نہیں کہتا کہ اگر پیغمبر نے فلاں شخص کو مکہ کا حاکم بنایا ۔ یا معاذ بن جبل کو تبلیغ کے لئے یمن بھیجا ، تویہ سب وحی کے حکم سے تھا ، بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ چونکہ پیغمبر خدا وند عالم کی جانب سے لوگوں پر حاکم و سر پرست ہیں لہٰذا جن مسا ئل میں ان پر وحی نہیں نازل ہوتی ،ان میں ذاتی تدبر و فرات سے اقدام فرماتے ہیں ( یوں ہی یہاں بھی کہا جائے گا کہ پیغمبر نے خود اپنی ذاتی تشخیص و تدبر سے علی کو خلافت و نیا بت کے لئے معین فرمایا )

اگر ہم مسئلہ امامت کو اتنی ہی سادگی سے ہیش کریں کہ یہ دنیا وی حکومت کا مسئلہ بن جائے تواسکے علاوہ ہم اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ یہ مسئلہ اس امامت سے الگ ہے جس پر بحث کی جاری ہے کیونکہ اگر مسئلہ اسی شکل میں ہوتا تو میں عرض کرچکا ہوں کہ اس میں وحی کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی 'زیادہ سے زیادہ اس میں وحی کو اسی قدر دخل ہوتا کہ اے پیغمبر !تمہارا فرض ہے کہ اپنی مصلحت کے مطابق جسے چاہواپنا جانشین معین کردو اور وہ جسے بہتر سمجھے اپنا جانشین بنآئے تا صبح قیامت اگر ہم امامت کو اتنے ہی سادہ طور سے حکومت کی سطح پر پیش کریں اور کہیں کہ امامت کا مطلب حکومت ہے تو ایسی صورت میں ہم دیکھتے ہیں کہ شیعی نقطۂ نظر کے مقابل میں اہل سنت کا نظریہ زیادہ پر کشش نظر آتا ہے ۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ایک حاکم کو اپنے بعد حاکم معین کرنے کا کوئی حق نہیں ہے بلکہ یہ حق امت اور ارباب مل و عقد کو حاصل ہے ۔ عوام اس کے حقدار ہیں ، حاکم کا انتخاب ڈیمو کریسی کے اصول پر ہونا چاہئے ۔ یہ حق عوام کا ہے لہٰذا عوام ہی حاکم منتخب کریں گے ۔ لیکن حقیقتاًمسئلہ اتنا سادہ اور ہلکا پھلکا نہیں ۃے ۔ مجموعی طور سے شیعوں کے یہاں علی اور تمام ائمہ معصومین کی خلافت کا مسئلہ تنصیصی تعیینی ہے ۔ اس کا مدارا ایک دوسرے مسئلہ پر ہےاور وہ مسئلہ اس سے بھی زیادہ بنیادی حیثیت کا حامل ہے ۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ائمہ علیہم السلام کی تعداد فقط بارہ افراد پر مشتمل ہے ، پھر ان ائمہ کے بعد حکومت کی صورت کیا ہوگی ؟ ہم فرض کرلیں کہ جس طرح پیغمبر اسلام نے علی کو معین فرمایا ، آپ کے بعد امام حسن (ع) پھر امام حسین (ع) حاکم ہوئےاور یہ سلسلہ حضرت حجت تک جاری رہتا ہے ۔ ایسی صورت میں قہری طور پر اس نقظۂ نظر کے مطابق جو ہم شیعہ اس سلسلہ میں رکھتے ہیں ۔ امام زمانہ کی غیبت کی کوئی ضرورت نہیں رہتی ۔ حضرت بھی اپنے آبائے کرام کی طرح ایک مختصر سی زندگی گزار کر اس دنیا سے رخست ہوجاتے ۔ اس کے بعد کیا ہوتا؟ کیا ائمہ کی تعداد بارہ سے بڑھ جاتی ؟ نہیں لہٰذا کوئی دوسری صوعرت عوام کے سامنے ہونی چاہئے ، ایک عادی صورت بالکل ویسی ہی جیسے آج بھی موجود ہے ۔ حضرت حجت غیبت کے زمانہ میں تو مسلمانوں کے حاکم ہو نہیں سکتے ۔ لہٰذا دنیاوی حکومت کا مسئلہ اپنی جگہ پھر باقوی رہ جاتا ہے !

حکومت ، امامت کی ایک فرع:

ہمیں ہر گز اس اشتباہ اور معالطہ میں نہیں پڑنا چاہئے کہ جہاں کہیں شیعوووں کے نزدیک امامت کا مسئلہ در پیش ہو، اسے حکومت کا مسئلہ قراردیں ۔نتیجہ میں یہ مسئلہ بہت ہی معمولی صورت اختیار کر لے اور صرف ایک فرعی حیثیت رہ جئے اور یہ کہا جائے کہ اب جبکہ حکو مت اور حاکم کا مسئلہ در پیش ہے تو کیا حاکم کو سب سے افضل ہء ہونا چاہئے ؟ ممکن ہے جو شخص حاکم ہو وہ نسبی طور سے تو افضل ہو واقعی افضل نہ ہو؟ یعنی سیاست اور نظم و تتدبر میں تو دوسروں سے بہتر ہو لیکن دوسرے اعتبارات سے بہت ہی پست ہو ۔ ایک اچھا سیاست داں اور منتظم ہو خائن بھی نہ ہو لیکن کیا ضروری ہے کہ وہ معصوم بھی ہو؟ کیا ضروری ہے کہ نماز شب پڑھتا ہے یا نہیں ؟فقہی مسائل جاتا ہے یا نہیں ؟ کیا ضروری ہے کہ جانے ؟ ان مسائل میں وہ دوسروں سے معلومات حاصل کر لیتا ہے ، فقط ایک نسبی و اعتباری افضلیت ا س کے لئے کافی ہے ۔ یہ تمام باتیں اس کانتیجہ ہیں کہ ہم نے مسئلہ امامت کو فقط حکومت کی سطح پر دیکھا اور معمولی قرار دے دیا یہ بہت بڑا مغالطہ ہے اور ایسا مغالطہ ہے جس میں بعض قدیم ( علماء علم کلام ) بھی مبتلا ہوچکے ہیں ۔ آج اسی مغالطہ کو بار بار دہرایا جاتا ہے اور ہوادی جاتی ہے ۔ یہاں تک کہ جب بھی امامت کا ذکر آتا ہے اس سے حکوعمت مرادلی جاتی ہے ۔ جبکہ حکومت مسئلہ امامت کی ایک چجوٹی سء شاخ اور معمولی فرع کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ان دونوں کو آپس میں مخلوط نہیں کرنا چاہئے ۔ پھر امامت کیا ہے ؟

امامت دین بیان کرنے میں پیغمبر کا جانشین:

امامت کے سلسلہ میں جس چیز کو سب سے زیادہ اہمیت ہے وہ یہ ہے کہ امام دین کی تشریح اور اسے باین کرنے میں پیغمبر کا جانشین ہے ، فرق صرف یہ ہے کہ امام پر وحی نہیں نازل ہوتی ۔ بلا شبہ وحی صرف پیغمبر کارم پر نازل ہوتی تھی اور ان کی رحلت کے بعد و رسالت کا سلسلہ قطعی طور ہر بند ہوگیا ۔ امت کا مسئلہ یہ ہے کہ کیا پیغمبر اسلام کے بعد وہ تمام آسمانی تعلیمات جس میں نہ اجتہاد کو دخل ہے نہ شخصی رائے کو ، ان کا بیان یا تشریح و تبلیغ کسی ایک ہی فرد تک محدود ہے ؟ اور اس طرح جسے پیغمبر کی شان تھی کہ جب لوگ ان سے دینی مسائل دریافت کرتے تھے وہ یہ جانتے تھے کہ ان کا قول حق در حقیقت پر مبنی ہے ۔ اس میں شخص فکر یا رائے کو دخل نہیں ہے جس میں اشتبا ہ یا غلطی کا امکان ہواور دوسرے روز وہ اپنی بات کی تصحیح فرمائیں ۔ ہم پیغمبر کے بارے میں ہر گز یہ بات نہیں کہتے اور نہ یہ کہ سکتے ہیں ہماری نطر میں ان کا فلاں جواب درست نہیں ہے اور یہاں پر آپ جان بوجھ کو خواہشات نفسانی سے متا ثر ہوگئے ہیں کیو نکہ یہ باتیں عقیدہ ٔنبوت کے خلاف ہیں ۔ اگر قطعی دلائل سے ثابت ہوجائے کہ یہ جملہ پیغمبراسلام کا ارشاد ہے ، تو ہر گز یہ نہیں کہہ سکتے کہ پیغمبر نے فرمایا تو ہے لیکن اس میں ان سے اشتباہ ہوگیا ہے ۔ ایک مرجع تقلید

کے لئے تو یہ کہنا ممکن ہے اس نے فلاں سوال کے جواب میں اشتباہ اور غفلت کی یا جیسا کہ اور سب کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ حالات سے متاثر ہوگئے ۔ لیکن پیغمبر کے بارے میں ایسی باتیں نہین کہی جاسکتیں ۔ یوں سمجھئے کہ جس طرح ہم قرآن کی آیت کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہاں وحی نے اشتباہ کیا ہے یا نفسانی خواہشات اور بے انصافی سے کام لیا ہے ، وحی کے اشتباہ کا مطلب یہ ہوا کہ یہ آیت وحی نہیں ہے ( اسی طرح پیغمبر کے اقوال کے لئے بھی یہ سب نہیں کہہ سکتے ) اب یہ سوال یہ ہے کہ کیا پیغمبر کے بعد بھی کو ئی ایسا شخص موجود تھا جو احکام دین کی تشریح و تفسیر کے لئے پیغمبر کے مونند مرکزی حیثیت کا ھامل ہو ؟ ایک انسان کامل ان خصوصیات کا حامل موجود تھا یا نہیں ؟ ہم کہتے ہیں کہ ایسا شخص موجود تھا ( اور وہ علی اور ان کے بعد ائمہ معصومین تھے ) بس فرق یہ ہے کہ پیغمبر براہ راست وحی کے ذریعہ دینی احکام بیان فرماتے ہیں اور ائمہ جو کچھ فرماتے ہیں پیغمبر سے اخذ کرکے فرماتے ہیں پیغمبر اسلام نے میرے لئے علم کا ایک باب کھولا ۔ اس باب کے ذریعہ مجھ پر علم کے ہزار باب کھل گئے ۔ ہم اس کی وضاحت نہیں کر سکتے کہ ایسا کیسے ہو ا ۔ جس طرح وحی کے لئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ پیغمبر اسلام خدا کی طرف سے کیسے علم حاصل کرتے تھے ۔ یوں ہی ہم اس کی وضاحت بھی نہیں کر سکتے کہ پیغمبر اکرم اور حضرت علی کے درمیان کس نوعیت کا معنوی و روحانی رابطہ تھا کہ پیغمبر اسلام نے تمام حقائق و معارف کما ھو حقہ و بتمامہ ، جو اس کا حق تھا کامل طور پر حضرت علی کو تقسیم فرمادئے اور آپ کے علاوہ کسی سے بیان نہ فرمائے ۔ حضرت علی خود نہج البلاغہ میں ( اس طرح کی عبارتیں دوسری جگہوں پر بھی بہت ہیں ) فرماتے ہیں کہ : میں پیغمبر اکرم کے ہمراہ غار حرا میں تھا ، ( اس وقت آپ کمسن تھے ) کہ میں نے ایک درد ناک گریہ کی آواز سنی ، عرض کیا یا رسول اللہ ، جب آپ پر وحی نازل ہورہی تھی میں نے شیطان کے رونے کی آواز سنی ہے ۔ آپ نے فرمایا :یا علی ! انک تسمع ما اسمع و تریٰ ما اریٰ وٰ لکنّک لست بنبیّ ( ۱) نہج البلاغہ ، خطبہ نمبر ۱۹۲ ،، اے علی ! جو کچھ میں سنتا ہوں تم بھی سنتے ہو اور جو کچھ میں دیکھتا ہوں تم بھی دیکھتے ہوں ، بس فرق یہ ہے کہ تم نبی نہیں ہو) اگر وہیں حضرت علی کے پاس کوئی دوسرا شخص بھی موجود ہوتا تو وہ آواز نہیں سن سکتا تھا ۔ کیونکہ یہ سماعت فضا میں گردش کرنے والی عام آواز کے سننے والی سماعت نہیں تھی جسے ہر صاحب گوش سن سکتے بلکہ ، یہ سماعت ، بصارت اور احساس کچھ اور ہی ہے ۔

حدیث ثقلین اور عصمت ائمہ علیہم السلام:

مسئلہ امامت کی بنیاد اس کا وہی معنوی پہلو ہے ۔ ائمہ یعنی پیغمبر کے بعد ایسے معنوی انسان ، جو انہیں معنوی طریقوں سے اسلام کی معرفت رکھتے ہیں اور اسے پہچانتے ہیں اور پیغمبر ہی کے مانند خطاؤں ، لغزچوں اور گناہوں سے محفوظ و معصوم ہیں ۔ امام ایک ایسے قطعی و یقینی مرجع و مرکزی کی حیثیت رکھتا ہے کہ اگر اس سے کوئی بات سنی جا ئے تو اس میں نہ کسی خطا یا لغزش کا احتمال دیا جاسکتا ہے ۔ نہ ہی اس سے جان بوجھ کر انحراف ہوسکتا ہے ۔ اور اس کو دوسرے الفاظ میں عصمت کہتے ہیں ۔ یہی وہ منزل ہے جہاں شیعہ کہتے ہیں کہ پیغمبر گرامی کا ارشاد : "الی تارک فیکم الثقلین کتاب الله و عترتی "(۷) میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک قرآن ہے اور دوسرے میری عترت ) مسئلہ عصمت میں نص کی حیثیت رکھتی ہے ۔

اور جہاں تک یہ سوال ہے کیا آیا پیغمبر نے یہ بات کہی یا نہی ؟ کوئی شخص پیغمبر کی اس حدیث سے انکار نہیں کر سکتا ہے ۔ یہ ایسی حدیث نہیں ہے جسے صرف شیعوں نے نقل کیا ۔ بلکہ شیعوں سے زیادہ اہل سنت نے اپنے مقالہ میں اس حدیث کو یوں نقل کیا تھا انی تارک فیکم ثقلین کتاب اللہ وسنتی ۔ مرحوم آیۃ اللہ بروجردی جو واقعاً تمام معنی میں عالم روحانی تھے اور ان مسائل میں عاقلانہ فکر اور گہری بصیرت رکھتے تھے ۔ آ پ نے ایک فاضل طالب علم آقای شیخ قوام الدین وشنو ہ ای کی رہنمائی اس امر کی طرح فرمائی کہ مذکورہ حدیث کو اہل سنت کی کتابوں سے نقل کریں ۔ یہ بزرگ بھی کتابوں پر گہری نظر رکھتے تھے انھوں نے اہل سنت کی تقریباً دو سو سے زیادہ معتبر اور قابل اعتماد کتابوں سے اس حدیث کو انہیں لفظوں میں نقل فرمایا ۔انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله وعترتی "یہ حدیث متعدد مقامات پر نقل ہوئی ہے ۔ کیونکہ پیغمبر نے اسے مختلف موقعوں اور متعدد جگہوں پر انہیں الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے ۔ البتہ کہنے کامطلب یہ نہیں ہے کہ پیغمبر نے ایک مرتبہ بھی یہ نہ فرمایا ہوگا کہ میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں "کتاب و سنت " کیونکہ قرآن وعترت " اور" کتاب و سنت " میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے ۔ اس لئے کہ عترت ہی سنت کو بیان کرنے والی اور اس کی وضاحت کرنے والی ہے ۔ بات یہ نہیں ہے کہ ہم سنت و عترت میں سے کسی کی طرف رجوع کریں ۔ ایک طرف پیغمبر کی ایک سنت ( حدیث ) ہو اور ایک طرف عترت کی ایک فرد موجود ہو تو اس صورت میں کسے انتخاب کرے !بلکہ بات یہ ہے کہ عترت کی سنت پیغمبر کی صحیح اور واقعی وضاحت کرنے والی ہے اور پیغمبر کی تمام سنتیں انہیں کے پاس محفوظ ہیں ۔" کتاب اللہ وعترتی " کا مطلب یہ ہے کہ ہماری سنت کو ہماری عترت سے حاصل کرو اس کے علاوہ خود یہحدیث " انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ وعترتی " سنت ہے یعنی حدیث پیغمبر ہے۔ لہٰذا ان دونوں میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے پھر بھی اگر کسی ایک جگہ وہ غیر قطعی طور پر ۔ پیغمبر نے " کتا ب اللہ وسنتی " فرمایا ہوتو بہت سی جگہوں پر قطعی طور سے " کتاب اللہ و عترتی " فرمایا ہے ۔ اگر کسی ایک کتاب میں حدیث اس شکل میں ذکر ہوئی ہے ، تو کم ازکم دو سوکتابوں میں یہ حدیث کتاب اللہ وعترتی " کے ساتھ ذکر ہوئی ہے

بھر حال شیخ قوام الدین وشنوہای نے وہ تمام حوالے ایک رسالے کی شکل میں تحریر فرمایا اور اسے " دارلتقریب مصر " بھیجا ہے ۔ ادارہ دارالتقریب نے بھی اسے کم و کاست چھاپ دیا کیونکہ اسیے کسی طرح رد نہیں کیا جاسکتا تھا اب اسے مرھوم آیۃ اللی بروجردی بھی دوسروں کی طرح صرف شروغوغا اور فریاد بلند کرتے اور فرماتے یہ غلط اور بکواس کرتے ہیں ۔ حق اہل بیت سے کھیلنا چاہتے ہیں ، ہمیشہ بد نیتی سے کام لیتے ہیں ؟ اب دیکھیں کہ امامت کی اصل روح کیا ہے ، اسلام جو ایک جامع ، وسیع و ہمہ گیر اور کلی دین ہے ، کیا اسی قدر ہے جتنا قرآن میں اصول و کلیات کے طور پر بیان ہوا ہے یا پیغمبر اکرم کے کلمات میں جنہیں خود اہل سنت نے بھی نقل کیا ہے ، اس کی توضیح و تفسیر بیان ہوئی ہے ؟ کیا جو کچھ تھ ایہی اسلام تھا ؟ یقیناً اسلام کا نزول پیغمبر پر تمام ہوچکا لیکن جو کچھ بیان ہوا کیا یہی کامل اسلام تھا ؟ ( یعنی تمام نازل شدہ اسلام بیان بھی ہوچکا ؟) یا آنحضرت کے بعد بھی پیغمبر پرنازل شدہ اسلام کی بہت سی باتیں ابھی اس لئے بیان سے باقی رہ گئی تھیں کہ ابھی ان کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی اور زمانہ کےساتھ رفتہ رفتہ جب حالات و مسائل پیش آتے تو بیان نپہ شدہ مسائل بیام کئے جاتے ۔ چنانچہ یہ ساری دینی امنتیں حضرت علی کے پاس محفوظ تھیں اور ان کے اوپر انہیں عوام کے سامنے بیان کرنے کی ذمہ داری تھی ۔ یہی مامت کی روح اور اصل حقیقت ہے ۔ ایسی صورت میں یہی حدیث "کتاب اللہ وعترتی " ائمہ کی عصمت کو بھی بیان کرتی ہے ۔ کیونکہ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں : " دین ان ہی دونوں سے حاصل کرو ۔ جس طرح قرآن معصوم ہے اور اس میں کسی خطا کا امکان نہیں ہے یوں ہی عترت بھی معصوم ہے ۔ اور یہ محال ہے کہ پیغمبر پوری قاطعیت اور یقین کے ساتھ فرمائیں کہ دین فلاں شخص سے حاصل کرو ، جبکہ وہ شخص جس کے لئے آنحضرت فرمائیں ، بعض مواقع پر اشتباہ و غلطیاں بھی کرتا ہو!

یہی وہ نقطہ ہے جہاں دین کے اخز اور بیان کرنے میں شیعہ اور سنی نظریات میں بنیادی فرق نظر آتا ہے ۔ اہل سنت یہ کہتے ہیں کہ : جہاں پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہوا وہیں دین کے واقعی اور حقیقی بیان کا وہ عصمتی سلسلہ بھی جس مین کسی قسم کی خطا یا اشتباہ کا امکان نہ تھا ، تام ہوگیا ۔ اب جو کچھ ہم تک قرآن و احادیث پیغمبر اسلام کی شکل میں پہنچا اور ہم نے اس سے استنباط کیا ۔ وہی سب کچھ ہے اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔

حدیثیں نہ لکھی جائیں

ان لوگوں نے خود ایسے حالات پیدا کردئے جنھوں نے ان کے نظریہ کو کمزور بنادیا ۔ اور وہ یہ ہے کہ عمر نے پیغمبر کی حدیثیں لکھنے پر روک لگادی اور حکم دیا کہ حدیثیں نہ لکھی جائیں ۔ اور یہ یاک تاریخی وا قعیت ہے ۔ اگر ہم بد بینی کے الزام سے بچنے کی غرض سے ایک شیعہ کی حیثیت سے بات نہ کریں اور اپنی جگہ ایک یورپی مشترق کا خیال کریں ۔ تو وہ بھی اگر بہت زیادہ خوش بینی سے کام لے گا تو یہی کہے گا کہ عمر نے یہ حکم اس لئے دیا تھا کہ وہ صرف قرآن کو دینی احکام کا واحد منبع و مرجع بنانے پر بے انتہا زور دیتے تھے اور اگر لوگ حدیثوں کی طرف زیادہ مائل ہوجاتے تو قرآن سے ان کا رابطہ کم ہوجاتا ۔ اسی لئے انہوں نے حدیثیں لکھنے سے منع کردیا ۔ یہ واقعہ تاریخ کے قطعیات میں سے ہے ، صرف شیعوں کی کہی ہوئی بات نہیں ۔ عمر کے زمانہ میں لوگ نہ حدیث پیغمبر لکھنے کی جرأت کرتے تھے اور نہ یہ کہتے تھے کہ یہ پیغمبر کی حدیث ہے ۔ حتیٰ یہ کہ پیغمبر سے حدیث کی روایت بھی نہیں کرسکتے تھے ( البتہ حدیث باین کرنا منع نہ تھا ) یہاں تک کہ عمرابن عبد العزیز ( ۹۹ ہجری تا ۱۰۱ ئیسوی)نے یہ جمود توڑا اور حکم دیا کہ حدیثیں لکھی جائیں ۔ اب جبکہ عمرابن عبد العزیز نے عمر ابن خطاب کی سیرت پر خچ نسخ کھینچ دیا اور کہا کہ پیغمبر کی حدیثیں ضرور لکھی جائیں تو وہ افراد جنھوں نے سینہ بہ سینہ احادیث پیغمبر سےکچھ محفوظ کر رکھا تھا ، آئے ،روایت لہ اور انھیں نو شتوں کی شکل میں محفوظ کر لیا گیا ۔ بہر حال احادیث رقم کرنے سے لوگوں کو مدت تک روک دیئے جانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا ایک بڑا حصہ تلف ہوگیا ۔

سب جانتے ہیں کہ قرآن میں جو احکام بیان ہوئے ہیں بہت ہی مجمل ، مختصر اور جزئی ہیں ۔

قرآن سراسر کلی احکام کا مجموعہ ہے ۔ مثلاً قرآن جو نماز پر اس قدر زور دیتا ہے ، اس میں اس عبادت کے لئے " اقیموا الصلا ۃ " اور " اسجدو ا وارکعوا " یعنی نماز قائم کرو یا سجدہ کرو اور رکوع کرو ، سے زیادہ کچھ اور نہیں آتا ہے ۔ حتیٰ اس کی بھی وضاحت نہیں کی گئی کہ نماز کس انداز میں پڑھی جائے گی ۔ اسی طرح حج جس کے بارے میں اتنے سارے احکام بیان کئے ہیں ۔ اور پیغمبر خود بھی ان احکام کے پابند تھے لیکن قرآن میں ان سے متعلق کوئی چیز بیان نہیں کی گئے ہے ۔ دوسری طرف سنت پیغمبر یعنی حدیثوں کا جو ہول ہوا ہم اسے باین کر چکے ہیں ۔ اور فرض کریں اگر یہ صورت حال پیدا نہ بھی ہو ئی تھی ، پھر بھی پیغمبر کو اتنا موقع کہا ں ملا کہ تمام حلال و حرام کو باین فرمادیتے ۔ مکہ کی وہ تیرہ سالہ زندگی ۔ جس میں لوگ شدید دباؤ اور سختیوں کے باوجود مسلامن ہوئے تھے شاید ان کی تعداد چار سو افراد تک بھی نہیں پہونچی ۔ ایسے سخت حالات میں آنحضرت سے ملاقات بھی ڈھکے چھپے ہوا کرتی تھی ۔ ان میں سے بھی ستر خانوادوں پر مشتمل مسلمانوں کا ایک گروہ جو مسلمانوں کی نصف جمعیت یا اس سے بھی زیادہ تھے ، حبشہ ہجرت کرگیا ۔ ہاں مدینہ اس حیثیت سے امن کی جگہ تھی لیکن وہاں بھی پیغمبر کی مصروفیت بہت زیادہ تھیں اگر رسول اکرم اس پورے تیئیس سال کے عرصہ میں ایک معلم کی حیثیت سے لوگوں کو مدرسہ کی صورت میں جمع کرکے سرف احکام بیان کرنے کے لئے وقت کافی نہ ہوتا ۔ چہ جائیکہ ان حالات میں خصوصاً جبکہ اسلام انسانی زندگی کے ہر موڑ اور ہر پہلو پر ایک حکم رکھتا ہے ۔

قیاس کی پناہ میں:

نتیجہ یہ ھواکہ اہل سنت اپنے مفروضہ کے مطابق عملی طور پر احکام اسلام کی تنگ دستی کا احساس کرنے لگے۔ جب مسئلہ پیش آتا، اور دیکھتے تھے کہ قرآن میں اس سے متعلق کوئی حکم بیان نہیں ہوا ہے ، تو (باقی ماندہ محفوظ)حدیثوں میں حل تلاش کرتے تھے، جب وہاں بھی مایوسی ہوتی تھی تو ظاہر ہے مسئلہ بغیر کسی حکم کے چھوڑ ا نہیں جا سکتا ، لہٰذا کسی نہ کسی طرح مسئلہ کا حکم تلاش کرنے کے لئےقیاس کا سہار ا لیتے تھے، قیاس ، یعنی جن مسائل کا حکم قرآن یا حدیث میں یہ حکم بیان ہوا ہے اور چونکہ یہ مسئلہ بھی اس سے ملتا جلتا ہےلہذاس کا حکم بھی وہی ہوگا۔خلاصہ یہ کی احکام دین کی بنیاد،،شاید،،پرکھڑی کی گیء۔ایسےمقاماتایک دونہیی تھےجہاںحدیث ناکافی ثابت ہوئی ۔ دنیائے اسلام میں خاص طور سے عباسیوں کے زمانہ میں زیادہ وسعت پیدا ہوائی مختلف ممالک فتح ہوئے اور صرورتیں نت نئے مسائل کی شکل میں سر اٹھانے لگیں اور جب لوگ قرآن و احادیث میں ان کا حل نہین پاتے تو دھڑ ادھڑ قیاس آرائیوں سے کام لیتے تھے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دو گروہ بن گئے ایک فرقہ قیاس کا منکر ہوگیا جس میں احمد بن حنبل اور مالک بن انس شامل تھے ( مالک بن انس کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے پوری زندگی میں صرف دو مسئلہ مین قیاس کیا ) دوسرا گروہ تھا جس نے قیاس کے رہوار کو بے لگام چھو ڑدیا اور وہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا ۔ اس کے علم بردار ابوحنیفہ تھے ۔ ابو حنیفہ کہتے تھے کہ یہ تمام حدیثیں جو پیغمبر سے ہم تک پہنچی ہیں بالکل قابل اعتماد نہیں ہیں کیونکہ نہیں معلوم کہ واقعی پیغمبر نے یہ باتیں ارشاد فرمائی ہیں ؟ لوگ کہتے ہیں کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا ہے : میرے نزدیک تو آنحضرت کی صرف پندرہ حدیثیں ثابت ہیں جن کے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ انہیں پیغمبر نے فرمایا ہے اور بس ۔ بقیہ مسائل میں ابو حنیفہ قیاس کرتے تھے ۔ شافعی نے میانہ روی اختیار کر رکھی تھی یعنی بعض مسائل میں احادیث پر اعتقاد کرتے تھے اور بعض مواقع پر قیاس سے کام لیتے تھے ۔ نتیجہ فقہ ایک عجیب و غریب کھچڑی کی شکل می ناختیار کر گئی ۔ کہتے ہیں کہ ابوحنیفہ چونکہ نسلی طور پر ایرانی تھے اور ایرانیوں کی توجہ عقلی مسائل کی طرف زیادہ ہوا کرتی ہے مزید یہ کہ وہ مرکز حدیث یعنی مدینہ سے دور عراق میں زندگی بسر کرتے تھے لہٰذا بہت زیادہ قیاس واقع ہوئے تھے ۔ بیٹھے قیاس کے تانے بانے بناکر تے تھے ۔ خود اہل سنت نے لکھا ہے کہ ایک روز آپ حجام کے یہاں گئے ، آپ کی داڑھی کے بال کھچڑی تھے ، ابھی سفید بال زیادہ نہیں تھے ، حجام سے کہا ، سارے سفید بال اکھا ڑدو ۔ خیال یہ تھا کہ اگر تمام سفید بال جڑ سے اکھڑ جائیں گے تو انکا وجود ہی ختم ہوجا ئے گا ۔ حجام نے کہا ، اتفاق سے سفید بالوں کی خاصیت یہ ہے کہ اکر اکھا ڑدئے گئے تو اور زیادہ نکل آئیں گے ۔ آپ نے فوراً قیاس کرکے فرمایا ، تو سیاہ بالوں کو اکھاڑڈالو ، یہ قیاس ہے ۔ آپ نے قیاس یہ کیا کہ واگر سفید بال اکھاڑنے سے زیادہ اگتے ہیں تو جب سیاہ بال اکھاڑے جائیں گے وہ بھی زیادہ اگیں گے ۔ !جبکہ اگر یہ قاعدہ ہو بھی تو صرف سفید بالوں کے لئے جاری کیا جائے گا ۔ کالے بالوں کے لئے نہیں ۔ چنانچہ آپ فقہ میں بھی طریقہ عمل میں لاتے تھے ۔

قیاس اور شیعوں کا نظریہ:

جب ہم شیعوں کی روایات کو دیکھتے ہیں تو نظرآتا ہے کہ قیاس کو سرے سے قبول ہی نہیں کرتے بلکہ بنیادی طور سے اس فکر ہی کو غلط اور اشتباہ سمجھتے ہیں کہ کتاب خدا اور احادیث پیغمبر کافی و وافی نہیں ہیں ۔ قیاس کا سوال تو واہاں پیدا ہوتا ہے جب یہ کہا جائے کہ کتاب و سنت تمام احکام دین بیان کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور چونکہ وہ ناکافی ہیں اس لئے قیاس سے کام لیا جا ۴ ے ۔ جبکہ یہ سراسر غلط ہے کیونکہ خود پیغمبر اسلام سے براہ راست بالواسطہ طور پر ان کے اوصیاء کرام کے ذریعہ احادیث کا اتنا بڑا ذخیرہ ہم تک پہنچا ہے کہ ان حدیثوں کے کلیات کی طرف رجوع کرنے کے بعد قیاس کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی ۔ دینی نقطۂ نظر سے امامت کی روح یہی ہے کہ اس کے ذریعہ احادیث اکیہ ذخیرہ ہم تک پہنچا ۔ اسلام صرف ایک مسلک نہیں ہے ، جس کا بانی اپنے افکار و نظریات کا اجراء کرنے کے لئے حکومت کا محتاج ہوتا ہے ۔ حکومت کا اس میں کیا دخل اسلام ایک دین ہے ایک دین کی وضع اور وہ بھی اسلام جیسے دین کی اہمیت و ہمہ گیری کو پیش نظر رکھنا چاہئے ۔

معصوم کی موجودگی میں انتخاب کی گنجائش ہی نہیں

امت کی قیادت رہبری کی رو سے امامت کا مسئلہ یہ ہے کہ اب جبکہ پیغمبر کے بعد ان ہی کے زمانہ کی طرح ایک معصوم موجود ہےا ور پیغمبر نے خود ایسے شخص کو اپنا نائب و وصی معین فرمادیا ہے جو عام افراد کی سطح کا نہیں ہے بلکہ اس مٰں پیغمبر جیسی ہی استثنائی صلاحیتیں موجود ہیں ۔ چنانچہ ایسے شخص کی موجودگی میں کسی بھی انتخاب یا شوریٰ وغیرہ کی ضرورت باقی نہیں رہتی ، جس طرح پیغمبر کے زمانہ میں یہ سوال نہیں اٹھتا تھا کہ پیغمبر تو صرف پیغام لانے والے ہیں اور ان پر وحی نازل ہوتی ہےاب حکومت کا مسئلہ طے کرنا شوریٰ یا عوام کی ذمہ داری ہے ، عوام آئیں اور رائے دیں کہ خود پیغمبر کو حاکم قرار دیا جائے یا کسی دوسرے کو حاکم بنایا جائے بلکہ سب کا یہی خیال تھا کہ پیغمبر اسلام کےایسے بارہ جانشین موجود ہیں ، جو دو تین صدیوں کے عرصہ میں اسلام کی بنیادوں کو پورے طور سے مستحکم کردیں اور اسلام صاف و شفاف سر چشمہ اور معصوم افراد کے ہوتے ہو ئے کسی انتخاب یا شوری کی گنجائش بہر حال نہیں ہر جاتی ۔ کیا یہ بات عقل میں آنے والی ہے کہ ہما رے درمیان ایک ایسا شخص موجود ہو جو معصوم ہونے کے ساتھ ایسا عالم بھی ہو جس سے کسی خطا یا اشتباہ کا امکان بھی نہ پایا جاتا ہو اس کے باوجود اس کی جگہ پر ہم کسی دوسرے کا انتخاب کریں ؟!

اس کے علاوہ جب علی پیغمبر کی جانب سے ایک ایسی امامت و جانشین پر فائز ہوئے تو قہری طور پر دنیاوی حا کمیت و رہبری بھی ان ہی کے شایان شان ہوگی ۔ پیغمبر نے بھی علی کے لئے اس منصب کی صراحت کردی ہے ۔ لیکن آنحضرت نے منصب امامت کی سراحت و وضاحت اس لئے فرمائی ہے کہ وہ اس دوسرے منصب کے حقدار بھی ہیں ۔ بنا بر این غیبت امام زمانۂ کے دوران جبکہ ویسے ہی وسیع اختیار کا حامل کوئی معصوم امام موجود نہیں ہے یو اگر فرض کرلیں کہ اگر صدر اسلام میں ہو حالات پیش نہ آتے اور حضرت علی ہی خلیفہ و جانشین ہوتے ، ان کے بعد امام حسن (ع) ، پھرامام حسین اور یہ سلسلہ حضرت ولی عصر تک قائم رہتا اور وہ صورت رونما ہوتی جو امام کی غیبت کا سبب بنی اور ان کے بعد جب کوئی امام معصوم ہمارے درمیان موجود نہ ہوتا تب حکومت کا مسئلہ دوسرا ہوجاتا۔ اور اس وقت یہ سوال اٹھتے کہ یہ حکومت کس کا حق ہے ؟ کیا حاکم ، فقیہ جامع الشرائط ہی ہوسکتا ہے ؟ یایہ چیز حکومت کے لئے لازم نہیں ہے ۔ کیا عوام کو حاکم کے انتخاب کا حق ہے ؟ یا ؟!

بنابر ایں ہمیں مسئلہ امامت کو ابتدائ سے ہی حکومت جیسا سادہ اور دنیاوی مسئلہ نہیں بنا دینا چاہئے ، تاکہ پھر اس کی روشنی میں یہ سوال اٹھایا جا ئے کہ اسلام کی نظر میں حکومت زبر دستی کی تنصیص و تعیینی ہے یا انتخابی ؟اور پھر یہ سوال پیدا ہوکہ آخر شیعہ اس طرح کی حکومت پر کیوں اصرار کرتے ہیں ؟ اصل میں مسئلہ یوں نہیں ہے بلکہ شیعوں کے یہاں تو امامت کا مسئلہ ہے اور امام کی ایک شان حکومت بھی ہے ۔ اور یہ طے ہے کہ امام معصوم کے ہوتے ہوئے کسی اور کوحکومت کا حق نہیں ہے ۔ اور پیغمبر اکرم نے علی کو منصب امامت پر معین فرمایا ہے ، جس کالازمہ حکومت بھی ہے اس کے علاوہ بعض مواقع پر لفظ حکومت سے بھی علی کی حکامیت کی صراحت فرمائی ہے لیکن اس کی بنیاد بھی امامت ہی کو قرار دیا ہے ۔

روحانی و معنوی ولایت:

میں اس موضوع پرگزشتہ ث کے دوران ایک بات کرچکا ہوں ۔ البتہ میں خود ذاتی طور پر اس کا اعتقاد رکھتا ہوں اور اس کو ایک بنیادی مسئلہ سمجھتا ہوں لیکن وہ بات شاید شیعیت کے ارکان میں شمار نہیں ہوتی ۔ اور وہ یہ کہ کیا پیغمبر اکرم کی حیثیت اتنی تھی کہ آپ پر خدا کی طرف سے الٰہی احکام اوراسلام کے اصول و فروع وحی ہوتے تھے ۔ اور وہ صرف اسلام ظاہری وواقعی سے ہی متعلق معلومات رکھتے تھے ، کیا آپ کی شان یہ نہیں تھی کہ خداکی جانب سے اس کے علاوہ اور بھی کچھ جانتے اور کیا منزل عمل و تقوائے پر وردگار میں بھی وہ (صرف ) خطاؤں سے محفوظ و معصوم تھے اوربس ؟ یوں ہی کیا ائمہ معصومین علیہم السلام کا مرتبہ بھی فقط اتنا ہی ہے کہ اگر چہ ان پر وحی نازل نہیں ہوتی تھی ۔ انہوں نے اسلام کے اصول و فروع اور کلیات و جزئیات ، پیغمبر سے حاصل کئے ہیں او ر جس طرح پیغمبر سے علم و عمل میں کوئی غلطی یا اشتباہ نہیں ہوتا یوں ہی وہ بھی خطاؤں سے محفوظ و معصوم ہیں اور بس ؟یا پیغمبر اسلام اور ائمہ علیہم السلام کے مراتب اس سے بڑھ کر بھی کچھ اور ہیں ؟ یہ حضرات دین و معارف سے مظبوط اسلامی مسائل کے علاوہ اور کن علوم سے آگاہ تھے ؟ کیا یہ سچ ہے کہ انسانوں کے اعمال پیغمبر کی مبعث میں پیث کئے جاتے ہیں ؟ حتیٰ ہر امام کے زمانہ میں اس عہد کے لوگوں کے اعمال کی خدمت میں بھی پیش ہوتے ہیں ؟ مثال کے طور پر آج امام زمانہ نہ صرف شیعوں بلکہ تمام انسانوں پر حاضر و ناظر ہیں ان کے اعمال سے واقف ہیں اور کسی سے بھی غافل نہیں ہیں ؟ حد یہ ہے کہ امام کے لئے حیات اور موت میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ یعنی جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں ، جب آپ امام رضا (ع) کی زیارت کو جاتے ہیں اور کہتے ہیں " السلام علیک " تو اس کامطلب یہ ہے کہ آپ اس دنیا میں ایک زندہ انسانوں کے روبرو کھڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں :"السلام علیک " اور وہ بھی یوں ہی آپ کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں ۔ یہی ولایت معنوی ہے ۔

یہ بھی عرض کرچکا ہوں کہ اس نقطہ پر عرفان اور تشیع میں مشابہت اور یک رنگی پائی جاتی ہے ، یعنی دونوں کے افکار ایک دوسرے سے کافی نزدیک ہیں ۔ اہل عرفان کا اعتقاد ہے کہ ہر دور میں ایک نہ ایک قطب اور انسان کامل ضرور ہونا چاہئے ۔ اور شیعہ کہتے ہیں کہ ہر دور میں روئے زمین پر ایک امام و حجت ضرور رہتا ہے اور وہی انسان کامل ہے اورہم فی الحال اس بحث کو چھیڑنا نہیں چاہتے کیونکہ اس مسئلہ میں ہم میں اور اہل سنت میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ شیعہ اور اہل سنت میں اختلاف ان دو مسئلوں میں ہے جن کا ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں ۔ ایک یہ کہ امامت ، احکام دین بیان کرنے کی ذمہ دار ہے اور دوسرے امامت یعنی مسلمانوں کی قیادت و رہبری ۔

حدیث ثقلین کی اہمیت:

امامت کے مسئلہ میں " حدیث ثقلین " کو فراموش نہیں کرنا چاہئے ۔ ار آپ کسی عام اہل سنت یا ایک عام سنی سے ہی ملاقات کریں تو اس سے پوچھیں کہ آیا کوئی جملہ پیغمبر اسلام نے فرمایا ہے کہ نہیں ؟ اگر وہ انکار کرے تو اس کے جواب میں ان ہی کی متعدد کتابیں ان کے سامنے پیش کی جاسکتی ہیں ۔ آپ دیکھیں گے کہ علماء اہل سنت کسی طرح بھی اس حدیث کے وجود یا اس کی صحت سے انکار نہی ںکرسکتے اور حقیقتاً انکار کرتے بھی نہیں ۔(۸)

اس کے بعد آپ ان سے پوچھیں کہ یہ جو پیغمبر نے قرآن اور عترت و اہل بیت کو دین کے حصوں کے لئے الگ الگ مرجع قراردیا ہے ، آخر یہ اہل بیت (ع)کون سے افراد ہیں ؟ اصل میں یہ حضرات پیغمبر(ص) کی عترت اور غیر عترت میں کسی فرق و امتیاز کے قائل نہیں ہیں ۔ بلکہ وہ صحابہ سے روایتیں بھی نقل کرتے ہیں تو علی سے کہیں زیادہ دوسروں سے نقل کرتے ہیں اور علی سے اگر کبھی کوئی روایت نقل کی بھی ہے تو صرف ایک راوی کے عنوان سے ، نہ کہ ایک مرجع ومصدر کی حیثیت سے۔

حدیث غدیر:

ہم عرض کرچکے ہیں کہ جو دین کے منبع و مرجع کی حیثیت رکھتا ہے ، وہی دین کا رہبر بھی ہوگا ۔ پیغمبر نے علی (ع) کی رہبری کے سلسلہ میں بھی صراحت سے ذکر کیا ہے ۔ اس کا ایک نمونہ حدیث غدیر ہے ، جسے پیغمبر اکرم(ص) نے حجۃ الوداع کے دوران غدیر خم کے مقام پر ارشاد فرمایا تھا ۔ حجۃ الوداع پیغمبراسلام (ص) کا آخری حج ہے ۔ شاید آپ (ص) نے فتح مکہ کے بعد ایک سے زیادہ حج نہیں فرمایا ۔ البتہ حجۃ الوداع سے پہلے حج عمرہ ادا کیا تھا ۔ چنانچہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے عام اعلان فرمایا اور لوگوں کو خصوصیت سے اس حج میں شرکت کی دعوت دی۔ گویا مسلمانوں کے کثیر مجمع کو اپنے ہمراہ لیا اور مختلف مقامات یعنی مسجد الحرام میں، عرفات میں، منیٰ میں اور منیٰ سے باہر نیز غدیر خم وغیرہ میں تمام مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے متعدد خطبے ارشاد فرمائے ۔ منجملہ غدیرخم میں جبکہ آپ جگہ سیگہ پر مغز مطالب بیان فرماچکے تھے، ایک مسئلہ کو آخری مطلب کے طور پر بڑے شدو مدکے ساتھ بیان فرمایا( یاایهالرسول بلغ ماانزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالته ) (۹) (اے رسول ! آپ وہ امر لوگوں تک پہنچا دیجئے جو آپ کے پروردگار کی جانب سے آپ پر نازل ہوا ہے ۔ اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا رسالت ہی انجام نہ دی ۔"اگر پیغمبر اکرم (ص) نے اس سے قبل عرفات، منیٰ اور مسجدالحرام میں اپنے خطبوں کے درمیان اصول و فروع کے تمام اسلامی کلیات بیان کردیئے تھے ۔ اور وہ بیانات آپ کے اہم ترین خطبات میں ہیں۔ پھر اچانک غدیر خم میں فرماتے ہیں کہ اب میں وہ بات بیان کررہاہوں کہ اگر اسے ذکر نہ کیا تو گویا رسالت ہی انجام نہ دی "( فمابلغت رسالته ) " یعنی مجھ سے فرمایا گیا ہے کہ اگر اسے نہ بیان کیا تو کچھ بھی بیان نہ کیا یعنی پوری رسالت کی محنت بے کار ہوکر رہ جائے گی ۔ اس کے بعد آپ فرماتے ہیں : الست اولیٰ بکم من انفسکم ؟( کیا میں تمہارے نفسوں ( یا تم سے زیادہ حاکم نہیں ہوں ) یہ قرآن کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے۔ "( النبی اولیٰ بالمومنین من انفسهم ) (۱۰) ( نبی مومنین کے نفسوں پر ان سے زیادہ حاکم و ولی ہے ) چنانچہ جب آپ نے فرمایا : کیا تم پر میرا حق تسلط اور ولایت خود تم سے زیادہ نہیں ہے ؟ سب نے ایک ساتھ کہا : بلیٰ (ہاں ) یا رسول اللہ تو حضرت (ص) نے فرمایا :"من کنت مولاه فهٰذا علی مولاه " یہ حدیث بھی حدیث ثقلین کی طرح بہت سے اسناد رکھتی ہے

حدیث غدیر جو متواتر ہے اگر ہم اس کے مدارک واسناد کی تحقیق کے میدان میں قدم رکھیں یایوں ہی حدیث ثقلین جس کے اسناد و مدارک میر حامد حسین طاب ثراہ نے "عبقات الانوار " میں جمع کئے ہیں جو بڑی سائز کے چار سو صفحات میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ اگر ان حدیثوں کی تحقیق کی جائے تو بحث بہت طویل ہوجائے گی ۔ ممکن ہے اس سلسلہ میں مزید تحقیق کی ضرورت ہو پھر بھی میں چاہتا ہوں کہ مسئلہ امامت کے تحت بحث کا ایک خلاصہ آپ کی خدمت میں پیش کردوں ۔ ساتھ ہی ان ثبوت و مدارک کابھی ایک اجمالی جائزہ پیش کردوں جنھیں شیعہ امامت کے سلسلہ میں سند کے طور پر بیان کرتے ہیں

____________________

(۷) صحیح مسلم جزء ہفتم صفحہ ۲۲

(۸) بعض اہل منبر اور مجلسیں پڑھنے والے افراد نےاس حدیث کی عظمت و اہمیت کو کم کرڈالا ہے ، اور اسے یوں پیش کرنے لگے کہ مفہوم حدیث بدل کر رہ گیا ہے ۔ چونکہ یہ لوگ اکثر و بیشتر اس حدیث کو مصائب بیان کرنے کے لئے گریز کے طور پر پڑھنے لگے لہٰذا انسان یہ سوچتے لگا کہ اس حدیث سے پیغمبر کا مقصد صرف یہ تھا کہ میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھو رے جا رہاہوں یعنی قرآن و عترت ۔ ان دونوں کا احترام تم پر لازم و واجب ہے ۔ دیکھو ان کی توہین واہانت نہ کران ۔ جبکہ حدیث کا اصل مقصد یہ ہے کہ ایک قرآن ہے جس سے تمسک اختیار کرو اور اسکے احکام پر عمل کرو اور دوسرے اہل سنت ہیں جن کی طرف رجوع کرو اور ان کی تعلیمات و ہدایات پر عمل کروکیونکہ آنحضرت اسی حدیث میں آگے فرماتے ہیں :"لن تضلوا ما ان تمسکتم بهما ابداً " جب تک ان دونوں سے متمسک رہوگے ہر گز گمراہ نہیں ہوگے ۔ معلوم ہوا یہاں دونوں کی طرف رجوع کرنے اور تمسک اختیار کرنے کی بات کہی جارہی ہے ۔ پیغمبر نے تمسک و رجوع کی منزل میں عترت کو قرآن کا ہم پلہ قرار دیا ہے کہ ان سے قرآ ن ہی کے مانند تمسک اختیار کیا جائے ۔ خود پیغمبر نے فرمایا ہے کہ قرآن ثقل اکبر ہے اور عترت ثقل اصغر ہے ۔

(۹) مائدہ ۶۷

(۱۰) سورہ احزاب ۶

دوسری بحث

امامت اور تبلیغ دین:

گزشتہ بحث میں امامت کے مختلف پہلوؤں کی تشریح و توضیح کرتے ہوئے عرض کیا تھا کہ ان مختلف پہلوؤں کو کامل طور پر مشخص ہونا چاہءے ۔ جب تک امامت کے تمام پہلو مشخص و معین نہ ہونگے ، ہم اس مسئلہ پر بخوبی بحث نہیں کرسکتے ۔ہم عرض کرچکے ہیں کہ امامت میں ایک مسئلہ حکومت بھی ہے ۔ یعنی پیغمبر اسلام کے بعد حکومت کیسی ہونا چاہئے ؟ کیا حکومت کی تعیین خود مسلمانوں کے ذنمہ ہے اور عوام کا فریضہ ہے کہ اپنے درمیا ن کسی کو اپنا حاکم معین کریں یا پیغمبر نے اپنے بعد کے لئے اپنا نائب اور حاکم معین کردیا ہے ؟ ان دونوں اس مسئلہ کو کچھ اس ڈھنگ سے پیش کیا جانے لگا ہے کہ قہری طور سے ذہن پہلے اہل سنت کے نظریہ کی جانب متوجہ ہوتا ہے اور انسان سوچنے لگتا کہ ان کا نظریہ فطرت سے زیادہ فریب ہے ۔

غلط روش

یہ مطلب کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اصل میں ہمیں ایک حکومت کا مسئلہ در پیش ہے ، اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اسلامی نقطہ مظر سے حکومت کیسی ہونا چاہئے ؟ کیا حکومت موروثی اور تعیینی ہے کہ ہر حاکم اپنے بعد کے لئے ایک حاکم معین کردے اور عوام کو حکومت کے معاملات میں کسی طرح کی دخل اندازی کا حق حاصل نہ ہو ؟ پیغمبر نے ایک شخص کو معین فرمایا پھر اس شخص نے اپنے بعد کے لئے کسی تیسرے کو معین کیا ۔ اور صبح قیامت تک اور حکومت کی یہی صورت رہی کہ ہمیشہ نص وتعین کا سلسلہ چلتا رہا ۔ اب قہری طور پر یہ عمر صرف ائمہ تک مخصوص و محدود نہیں رہ سکتا ۔ کیونکہ ائمہ معصومین (ع) صرف بارہ ہیں اور شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ تعداد نہ کم ہوسکتی ہے نہ زیادہ ۔ اس فکر کے مطابق حکومت کے سلسلہ میں اسلامی نقطۂ مظر سے قانون کلی یہ ہوگا کہ پیغمبر جو خود حاکم ہے اپنے بعد اپنا نائب معین کرے اور وہ اپنے بعد کسی دوسرے کو حاکم معین کرسے اور یوں ہی یہ سلسلہ صبح قیامت تک چلتارہا ۔ چنانچہ اگر اسلام پوری دنیا پر حاکم ہوجائے ( جیسا کہ آج تقریبا ً آدھی دنیا اس کے زیر نگی ہے تو تقریباًایک عرب مسلمان پرچم ۔ اسلام کے سائے میں زندگی گزاررہے ہیں ) اور ی ہطے پائے کہ دنیا کے کونے کونے میں اسلامی قوانین نافذ کئے جائیں ، چاہے ایک عالمی حکومت کی شکل میں یا چند چھوٹی بڑی حکومتوں کی صورت میں قانون یہی نصی و تعیینی ہے ، پس یہ جو ہم کہتے ہیں کہ پیغمبر نے علی کو معین فرمایا تو تعیین بھی اسی کلی قانون کے تحت تھی کہ حکومت تعیینی و تنصیصی ہونی چا ہئے ۔"اور اس فلسفہ کے تحت اس کی ضرورت بھی نہیں رہ جاتی کہ پیغمبر نے علی کو خدا کی جانب سے معین فرمایا ہو۔ کیونکہ پیغمبر تو وحی کے ذریعہ، احکام خدا بیان کرسکتے تھے اور ائمہ معصومین پر بھی ایک تو ایسا الہام ہوتا ہے دوسرے انھوں نے خود پیغمبر سے علوم اخذ کئے ہیں ، لیکن ان کے بعد تو ایسا نہیں ہے ! بس اگر حکومت کے سلسلہ میں اسلامی نقطۂ نظر سے بنیادی قانون ( کہ حکومت تنصیصی تعیینی ہونی چاہئے) تو اس کی ضرورت نہیں کہ پیغمبر نے علی کو وحی کے ذریعہ معین فرمایا ہو بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت نے خود اپنی صوا بدید پر معین فرمایا ہے ۔ اسی طرح ائمہ نے اپنے مصالح کے مطابق اپنے جانشین معین فرمائے ہیں ۔ بنابر ایں پیغمبر کی نظر میں خلافت کے لئے علی کی تعیین ویسی ہی ہے جیسے آپ نے کسی کو مکہ کا حاکم یا حاجیوں کے لئے امیر الحاج معین فرمایا ہو، جس طرح وہاں یہ کوئی نہیں کہتا کہ اگر پیغمبر نے فلاں شخص کو مکہ کا حاکم بنایا ۔ یا معاذ بن جبل کو تبلیغ کے لئے یمن بھیجا ، تویہ سب وحی کے حکم سے تھا ، بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ چونکہ پیغمبر خدا وند عالم کی جانب سے لوگوں پر حاکم و سر پرست ہیں لہٰذا جن مسا ئل میں ان پر وحی نہیں نازل ہوتی ،ان میں ذاتی تدبر و فرات سے اقدام فرماتے ہیں ( یوں ہی یہاں بھی کہا جائے گا کہ پیغمبر نے خود اپنی ذاتی تشخیص و تدبر سے علی کو خلافت و نیا بت کے لئے معین فرمایا )

اگر ہم مسئلہ امامت کو اتنی ہی سادگی سے ہیش کریں کہ یہ دنیا وی حکومت کا مسئلہ بن جائے تواسکے علاوہ ہم اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ یہ مسئلہ اس امامت سے الگ ہے جس پر بحث کی جاری ہے کیونکہ اگر مسئلہ اسی شکل میں ہوتا تو میں عرض کرچکا ہوں کہ اس میں وحی کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی 'زیادہ سے زیادہ اس میں وحی کو اسی قدر دخل ہوتا کہ اے پیغمبر !تمہارا فرض ہے کہ اپنی مصلحت کے مطابق جسے چاہواپنا جانشین معین کردو اور وہ جسے بہتر سمجھے اپنا جانشین بنآئے تا صبح قیامت اگر ہم امامت کو اتنے ہی سادہ طور سے حکومت کی سطح پر پیش کریں اور کہیں کہ امامت کا مطلب حکومت ہے تو ایسی صورت میں ہم دیکھتے ہیں کہ شیعی نقطۂ نظر کے مقابل میں اہل سنت کا نظریہ زیادہ پر کشش نظر آتا ہے ۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ایک حاکم کو اپنے بعد حاکم معین کرنے کا کوئی حق نہیں ہے بلکہ یہ حق امت اور ارباب مل و عقد کو حاصل ہے ۔ عوام اس کے حقدار ہیں ، حاکم کا انتخاب ڈیمو کریسی کے اصول پر ہونا چاہئے ۔ یہ حق عوام کا ہے لہٰذا عوام ہی حاکم منتخب کریں گے ۔ لیکن حقیقتاًمسئلہ اتنا سادہ اور ہلکا پھلکا نہیں ۃے ۔ مجموعی طور سے شیعوں کے یہاں علی اور تمام ائمہ معصومین کی خلافت کا مسئلہ تنصیصی تعیینی ہے ۔ اس کا مدارا ایک دوسرے مسئلہ پر ہےاور وہ مسئلہ اس سے بھی زیادہ بنیادی حیثیت کا حامل ہے ۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ائمہ علیہم السلام کی تعداد فقط بارہ افراد پر مشتمل ہے ، پھر ان ائمہ کے بعد حکومت کی صورت کیا ہوگی ؟ ہم فرض کرلیں کہ جس طرح پیغمبر اسلام نے علی کو معین فرمایا ، آپ کے بعد امام حسن (ع) پھر امام حسین (ع) حاکم ہوئےاور یہ سلسلہ حضرت حجت تک جاری رہتا ہے ۔ ایسی صورت میں قہری طور پر اس نقظۂ نظر کے مطابق جو ہم شیعہ اس سلسلہ میں رکھتے ہیں ۔ امام زمانہ کی غیبت کی کوئی ضرورت نہیں رہتی ۔ حضرت بھی اپنے آبائے کرام کی طرح ایک مختصر سی زندگی گزار کر اس دنیا سے رخست ہوجاتے ۔ اس کے بعد کیا ہوتا؟ کیا ائمہ کی تعداد بارہ سے بڑھ جاتی ؟ نہیں لہٰذا کوئی دوسری صوعرت عوام کے سامنے ہونی چاہئے ، ایک عادی صورت بالکل ویسی ہی جیسے آج بھی موجود ہے ۔ حضرت حجت غیبت کے زمانہ میں تو مسلمانوں کے حاکم ہو نہیں سکتے ۔ لہٰذا دنیاوی حکومت کا مسئلہ اپنی جگہ پھر باقوی رہ جاتا ہے !

حکومت ، امامت کی ایک فرع:

ہمیں ہر گز اس اشتباہ اور معالطہ میں نہیں پڑنا چاہئے کہ جہاں کہیں شیعوووں کے نزدیک امامت کا مسئلہ در پیش ہو، اسے حکومت کا مسئلہ قراردیں ۔نتیجہ میں یہ مسئلہ بہت ہی معمولی صورت اختیار کر لے اور صرف ایک فرعی حیثیت رہ جئے اور یہ کہا جائے کہ اب جبکہ حکو مت اور حاکم کا مسئلہ در پیش ہے تو کیا حاکم کو سب سے افضل ہء ہونا چاہئے ؟ ممکن ہے جو شخص حاکم ہو وہ نسبی طور سے تو افضل ہو واقعی افضل نہ ہو؟ یعنی سیاست اور نظم و تتدبر میں تو دوسروں سے بہتر ہو لیکن دوسرے اعتبارات سے بہت ہی پست ہو ۔ ایک اچھا سیاست داں اور منتظم ہو خائن بھی نہ ہو لیکن کیا ضروری ہے کہ وہ معصوم بھی ہو؟ کیا ضروری ہے کہ نماز شب پڑھتا ہے یا نہیں ؟فقہی مسائل جاتا ہے یا نہیں ؟ کیا ضروری ہے کہ جانے ؟ ان مسائل میں وہ دوسروں سے معلومات حاصل کر لیتا ہے ، فقط ایک نسبی و اعتباری افضلیت ا س کے لئے کافی ہے ۔ یہ تمام باتیں اس کانتیجہ ہیں کہ ہم نے مسئلہ امامت کو فقط حکومت کی سطح پر دیکھا اور معمولی قرار دے دیا یہ بہت بڑا مغالطہ ہے اور ایسا مغالطہ ہے جس میں بعض قدیم ( علماء علم کلام ) بھی مبتلا ہوچکے ہیں ۔ آج اسی مغالطہ کو بار بار دہرایا جاتا ہے اور ہوادی جاتی ہے ۔ یہاں تک کہ جب بھی امامت کا ذکر آتا ہے اس سے حکوعمت مرادلی جاتی ہے ۔ جبکہ حکومت مسئلہ امامت کی ایک چجوٹی سء شاخ اور معمولی فرع کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ان دونوں کو آپس میں مخلوط نہیں کرنا چاہئے ۔ پھر امامت کیا ہے ؟

امامت دین بیان کرنے میں پیغمبر کا جانشین:

امامت کے سلسلہ میں جس چیز کو سب سے زیادہ اہمیت ہے وہ یہ ہے کہ امام دین کی تشریح اور اسے باین کرنے میں پیغمبر کا جانشین ہے ، فرق صرف یہ ہے کہ امام پر وحی نہیں نازل ہوتی ۔ بلا شبہ وحی صرف پیغمبر کارم پر نازل ہوتی تھی اور ان کی رحلت کے بعد و رسالت کا سلسلہ قطعی طور ہر بند ہوگیا ۔ امت کا مسئلہ یہ ہے کہ کیا پیغمبر اسلام کے بعد وہ تمام آسمانی تعلیمات جس میں نہ اجتہاد کو دخل ہے نہ شخصی رائے کو ، ان کا بیان یا تشریح و تبلیغ کسی ایک ہی فرد تک محدود ہے ؟ اور اس طرح جسے پیغمبر کی شان تھی کہ جب لوگ ان سے دینی مسائل دریافت کرتے تھے وہ یہ جانتے تھے کہ ان کا قول حق در حقیقت پر مبنی ہے ۔ اس میں شخص فکر یا رائے کو دخل نہیں ہے جس میں اشتبا ہ یا غلطی کا امکان ہواور دوسرے روز وہ اپنی بات کی تصحیح فرمائیں ۔ ہم پیغمبر کے بارے میں ہر گز یہ بات نہیں کہتے اور نہ یہ کہ سکتے ہیں ہماری نطر میں ان کا فلاں جواب درست نہیں ہے اور یہاں پر آپ جان بوجھ کو خواہشات نفسانی سے متا ثر ہوگئے ہیں کیو نکہ یہ باتیں عقیدہ ٔنبوت کے خلاف ہیں ۔ اگر قطعی دلائل سے ثابت ہوجائے کہ یہ جملہ پیغمبراسلام کا ارشاد ہے ، تو ہر گز یہ نہیں کہہ سکتے کہ پیغمبر نے فرمایا تو ہے لیکن اس میں ان سے اشتباہ ہوگیا ہے ۔ ایک مرجع تقلید

کے لئے تو یہ کہنا ممکن ہے اس نے فلاں سوال کے جواب میں اشتباہ اور غفلت کی یا جیسا کہ اور سب کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ حالات سے متاثر ہوگئے ۔ لیکن پیغمبر کے بارے میں ایسی باتیں نہین کہی جاسکتیں ۔ یوں سمجھئے کہ جس طرح ہم قرآن کی آیت کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہاں وحی نے اشتباہ کیا ہے یا نفسانی خواہشات اور بے انصافی سے کام لیا ہے ، وحی کے اشتباہ کا مطلب یہ ہوا کہ یہ آیت وحی نہیں ہے ( اسی طرح پیغمبر کے اقوال کے لئے بھی یہ سب نہیں کہہ سکتے ) اب یہ سوال یہ ہے کہ کیا پیغمبر کے بعد بھی کو ئی ایسا شخص موجود تھا جو احکام دین کی تشریح و تفسیر کے لئے پیغمبر کے مونند مرکزی حیثیت کا ھامل ہو ؟ ایک انسان کامل ان خصوصیات کا حامل موجود تھا یا نہیں ؟ ہم کہتے ہیں کہ ایسا شخص موجود تھا ( اور وہ علی اور ان کے بعد ائمہ معصومین تھے ) بس فرق یہ ہے کہ پیغمبر براہ راست وحی کے ذریعہ دینی احکام بیان فرماتے ہیں اور ائمہ جو کچھ فرماتے ہیں پیغمبر سے اخذ کرکے فرماتے ہیں پیغمبر اسلام نے میرے لئے علم کا ایک باب کھولا ۔ اس باب کے ذریعہ مجھ پر علم کے ہزار باب کھل گئے ۔ ہم اس کی وضاحت نہیں کر سکتے کہ ایسا کیسے ہو ا ۔ جس طرح وحی کے لئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ پیغمبر اسلام خدا کی طرف سے کیسے علم حاصل کرتے تھے ۔ یوں ہی ہم اس کی وضاحت بھی نہیں کر سکتے کہ پیغمبر اکرم اور حضرت علی کے درمیان کس نوعیت کا معنوی و روحانی رابطہ تھا کہ پیغمبر اسلام نے تمام حقائق و معارف کما ھو حقہ و بتمامہ ، جو اس کا حق تھا کامل طور پر حضرت علی کو تقسیم فرمادئے اور آپ کے علاوہ کسی سے بیان نہ فرمائے ۔ حضرت علی خود نہج البلاغہ میں ( اس طرح کی عبارتیں دوسری جگہوں پر بھی بہت ہیں ) فرماتے ہیں کہ : میں پیغمبر اکرم کے ہمراہ غار حرا میں تھا ، ( اس وقت آپ کمسن تھے ) کہ میں نے ایک درد ناک گریہ کی آواز سنی ، عرض کیا یا رسول اللہ ، جب آپ پر وحی نازل ہورہی تھی میں نے شیطان کے رونے کی آواز سنی ہے ۔ آپ نے فرمایا :یا علی ! انک تسمع ما اسمع و تریٰ ما اریٰ وٰ لکنّک لست بنبیّ ( ۱) نہج البلاغہ ، خطبہ نمبر ۱۹۲ ،، اے علی ! جو کچھ میں سنتا ہوں تم بھی سنتے ہو اور جو کچھ میں دیکھتا ہوں تم بھی دیکھتے ہوں ، بس فرق یہ ہے کہ تم نبی نہیں ہو) اگر وہیں حضرت علی کے پاس کوئی دوسرا شخص بھی موجود ہوتا تو وہ آواز نہیں سن سکتا تھا ۔ کیونکہ یہ سماعت فضا میں گردش کرنے والی عام آواز کے سننے والی سماعت نہیں تھی جسے ہر صاحب گوش سن سکتے بلکہ ، یہ سماعت ، بصارت اور احساس کچھ اور ہی ہے ۔

حدیث ثقلین اور عصمت ائمہ علیہم السلام:

مسئلہ امامت کی بنیاد اس کا وہی معنوی پہلو ہے ۔ ائمہ یعنی پیغمبر کے بعد ایسے معنوی انسان ، جو انہیں معنوی طریقوں سے اسلام کی معرفت رکھتے ہیں اور اسے پہچانتے ہیں اور پیغمبر ہی کے مانند خطاؤں ، لغزچوں اور گناہوں سے محفوظ و معصوم ہیں ۔ امام ایک ایسے قطعی و یقینی مرجع و مرکزی کی حیثیت رکھتا ہے کہ اگر اس سے کوئی بات سنی جا ئے تو اس میں نہ کسی خطا یا لغزش کا احتمال دیا جاسکتا ہے ۔ نہ ہی اس سے جان بوجھ کر انحراف ہوسکتا ہے ۔ اور اس کو دوسرے الفاظ میں عصمت کہتے ہیں ۔ یہی وہ منزل ہے جہاں شیعہ کہتے ہیں کہ پیغمبر گرامی کا ارشاد : "الی تارک فیکم الثقلین کتاب الله و عترتی "(۷) میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک قرآن ہے اور دوسرے میری عترت ) مسئلہ عصمت میں نص کی حیثیت رکھتی ہے ۔

اور جہاں تک یہ سوال ہے کیا آیا پیغمبر نے یہ بات کہی یا نہی ؟ کوئی شخص پیغمبر کی اس حدیث سے انکار نہیں کر سکتا ہے ۔ یہ ایسی حدیث نہیں ہے جسے صرف شیعوں نے نقل کیا ۔ بلکہ شیعوں سے زیادہ اہل سنت نے اپنے مقالہ میں اس حدیث کو یوں نقل کیا تھا انی تارک فیکم ثقلین کتاب اللہ وسنتی ۔ مرحوم آیۃ اللہ بروجردی جو واقعاً تمام معنی میں عالم روحانی تھے اور ان مسائل میں عاقلانہ فکر اور گہری بصیرت رکھتے تھے ۔ آ پ نے ایک فاضل طالب علم آقای شیخ قوام الدین وشنو ہ ای کی رہنمائی اس امر کی طرح فرمائی کہ مذکورہ حدیث کو اہل سنت کی کتابوں سے نقل کریں ۔ یہ بزرگ بھی کتابوں پر گہری نظر رکھتے تھے انھوں نے اہل سنت کی تقریباً دو سو سے زیادہ معتبر اور قابل اعتماد کتابوں سے اس حدیث کو انہیں لفظوں میں نقل فرمایا ۔انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله وعترتی "یہ حدیث متعدد مقامات پر نقل ہوئی ہے ۔ کیونکہ پیغمبر نے اسے مختلف موقعوں اور متعدد جگہوں پر انہیں الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے ۔ البتہ کہنے کامطلب یہ نہیں ہے کہ پیغمبر نے ایک مرتبہ بھی یہ نہ فرمایا ہوگا کہ میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں "کتاب و سنت " کیونکہ قرآن وعترت " اور" کتاب و سنت " میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے ۔ اس لئے کہ عترت ہی سنت کو بیان کرنے والی اور اس کی وضاحت کرنے والی ہے ۔ بات یہ نہیں ہے کہ ہم سنت و عترت میں سے کسی کی طرف رجوع کریں ۔ ایک طرف پیغمبر کی ایک سنت ( حدیث ) ہو اور ایک طرف عترت کی ایک فرد موجود ہو تو اس صورت میں کسے انتخاب کرے !بلکہ بات یہ ہے کہ عترت کی سنت پیغمبر کی صحیح اور واقعی وضاحت کرنے والی ہے اور پیغمبر کی تمام سنتیں انہیں کے پاس محفوظ ہیں ۔" کتاب اللہ وعترتی " کا مطلب یہ ہے کہ ہماری سنت کو ہماری عترت سے حاصل کرو اس کے علاوہ خود یہحدیث " انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ وعترتی " سنت ہے یعنی حدیث پیغمبر ہے۔ لہٰذا ان دونوں میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے پھر بھی اگر کسی ایک جگہ وہ غیر قطعی طور پر ۔ پیغمبر نے " کتا ب اللہ وسنتی " فرمایا ہوتو بہت سی جگہوں پر قطعی طور سے " کتاب اللہ و عترتی " فرمایا ہے ۔ اگر کسی ایک کتاب میں حدیث اس شکل میں ذکر ہوئی ہے ، تو کم ازکم دو سوکتابوں میں یہ حدیث کتاب اللہ وعترتی " کے ساتھ ذکر ہوئی ہے

بھر حال شیخ قوام الدین وشنوہای نے وہ تمام حوالے ایک رسالے کی شکل میں تحریر فرمایا اور اسے " دارلتقریب مصر " بھیجا ہے ۔ ادارہ دارالتقریب نے بھی اسے کم و کاست چھاپ دیا کیونکہ اسیے کسی طرح رد نہیں کیا جاسکتا تھا اب اسے مرھوم آیۃ اللی بروجردی بھی دوسروں کی طرح صرف شروغوغا اور فریاد بلند کرتے اور فرماتے یہ غلط اور بکواس کرتے ہیں ۔ حق اہل بیت سے کھیلنا چاہتے ہیں ، ہمیشہ بد نیتی سے کام لیتے ہیں ؟ اب دیکھیں کہ امامت کی اصل روح کیا ہے ، اسلام جو ایک جامع ، وسیع و ہمہ گیر اور کلی دین ہے ، کیا اسی قدر ہے جتنا قرآن میں اصول و کلیات کے طور پر بیان ہوا ہے یا پیغمبر اکرم کے کلمات میں جنہیں خود اہل سنت نے بھی نقل کیا ہے ، اس کی توضیح و تفسیر بیان ہوئی ہے ؟ کیا جو کچھ تھ ایہی اسلام تھا ؟ یقیناً اسلام کا نزول پیغمبر پر تمام ہوچکا لیکن جو کچھ بیان ہوا کیا یہی کامل اسلام تھا ؟ ( یعنی تمام نازل شدہ اسلام بیان بھی ہوچکا ؟) یا آنحضرت کے بعد بھی پیغمبر پرنازل شدہ اسلام کی بہت سی باتیں ابھی اس لئے بیان سے باقی رہ گئی تھیں کہ ابھی ان کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی اور زمانہ کےساتھ رفتہ رفتہ جب حالات و مسائل پیش آتے تو بیان نپہ شدہ مسائل بیام کئے جاتے ۔ چنانچہ یہ ساری دینی امنتیں حضرت علی کے پاس محفوظ تھیں اور ان کے اوپر انہیں عوام کے سامنے بیان کرنے کی ذمہ داری تھی ۔ یہی مامت کی روح اور اصل حقیقت ہے ۔ ایسی صورت میں یہی حدیث "کتاب اللہ وعترتی " ائمہ کی عصمت کو بھی بیان کرتی ہے ۔ کیونکہ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں : " دین ان ہی دونوں سے حاصل کرو ۔ جس طرح قرآن معصوم ہے اور اس میں کسی خطا کا امکان نہیں ہے یوں ہی عترت بھی معصوم ہے ۔ اور یہ محال ہے کہ پیغمبر پوری قاطعیت اور یقین کے ساتھ فرمائیں کہ دین فلاں شخص سے حاصل کرو ، جبکہ وہ شخص جس کے لئے آنحضرت فرمائیں ، بعض مواقع پر اشتباہ و غلطیاں بھی کرتا ہو!

یہی وہ نقطہ ہے جہاں دین کے اخز اور بیان کرنے میں شیعہ اور سنی نظریات میں بنیادی فرق نظر آتا ہے ۔ اہل سنت یہ کہتے ہیں کہ : جہاں پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہوا وہیں دین کے واقعی اور حقیقی بیان کا وہ عصمتی سلسلہ بھی جس مین کسی قسم کی خطا یا اشتباہ کا امکان نہ تھا ، تام ہوگیا ۔ اب جو کچھ ہم تک قرآن و احادیث پیغمبر اسلام کی شکل میں پہنچا اور ہم نے اس سے استنباط کیا ۔ وہی سب کچھ ہے اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔

حدیثیں نہ لکھی جائیں

ان لوگوں نے خود ایسے حالات پیدا کردئے جنھوں نے ان کے نظریہ کو کمزور بنادیا ۔ اور وہ یہ ہے کہ عمر نے پیغمبر کی حدیثیں لکھنے پر روک لگادی اور حکم دیا کہ حدیثیں نہ لکھی جائیں ۔ اور یہ یاک تاریخی وا قعیت ہے ۔ اگر ہم بد بینی کے الزام سے بچنے کی غرض سے ایک شیعہ کی حیثیت سے بات نہ کریں اور اپنی جگہ ایک یورپی مشترق کا خیال کریں ۔ تو وہ بھی اگر بہت زیادہ خوش بینی سے کام لے گا تو یہی کہے گا کہ عمر نے یہ حکم اس لئے دیا تھا کہ وہ صرف قرآن کو دینی احکام کا واحد منبع و مرجع بنانے پر بے انتہا زور دیتے تھے اور اگر لوگ حدیثوں کی طرف زیادہ مائل ہوجاتے تو قرآن سے ان کا رابطہ کم ہوجاتا ۔ اسی لئے انہوں نے حدیثیں لکھنے سے منع کردیا ۔ یہ واقعہ تاریخ کے قطعیات میں سے ہے ، صرف شیعوں کی کہی ہوئی بات نہیں ۔ عمر کے زمانہ میں لوگ نہ حدیث پیغمبر لکھنے کی جرأت کرتے تھے اور نہ یہ کہتے تھے کہ یہ پیغمبر کی حدیث ہے ۔ حتیٰ یہ کہ پیغمبر سے حدیث کی روایت بھی نہیں کرسکتے تھے ( البتہ حدیث باین کرنا منع نہ تھا ) یہاں تک کہ عمرابن عبد العزیز ( ۹۹ ہجری تا ۱۰۱ ئیسوی)نے یہ جمود توڑا اور حکم دیا کہ حدیثیں لکھی جائیں ۔ اب جبکہ عمرابن عبد العزیز نے عمر ابن خطاب کی سیرت پر خچ نسخ کھینچ دیا اور کہا کہ پیغمبر کی حدیثیں ضرور لکھی جائیں تو وہ افراد جنھوں نے سینہ بہ سینہ احادیث پیغمبر سےکچھ محفوظ کر رکھا تھا ، آئے ،روایت لہ اور انھیں نو شتوں کی شکل میں محفوظ کر لیا گیا ۔ بہر حال احادیث رقم کرنے سے لوگوں کو مدت تک روک دیئے جانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا ایک بڑا حصہ تلف ہوگیا ۔

سب جانتے ہیں کہ قرآن میں جو احکام بیان ہوئے ہیں بہت ہی مجمل ، مختصر اور جزئی ہیں ۔

قرآن سراسر کلی احکام کا مجموعہ ہے ۔ مثلاً قرآن جو نماز پر اس قدر زور دیتا ہے ، اس میں اس عبادت کے لئے " اقیموا الصلا ۃ " اور " اسجدو ا وارکعوا " یعنی نماز قائم کرو یا سجدہ کرو اور رکوع کرو ، سے زیادہ کچھ اور نہیں آتا ہے ۔ حتیٰ اس کی بھی وضاحت نہیں کی گئی کہ نماز کس انداز میں پڑھی جائے گی ۔ اسی طرح حج جس کے بارے میں اتنے سارے احکام بیان کئے ہیں ۔ اور پیغمبر خود بھی ان احکام کے پابند تھے لیکن قرآن میں ان سے متعلق کوئی چیز بیان نہیں کی گئے ہے ۔ دوسری طرف سنت پیغمبر یعنی حدیثوں کا جو ہول ہوا ہم اسے باین کر چکے ہیں ۔ اور فرض کریں اگر یہ صورت حال پیدا نہ بھی ہو ئی تھی ، پھر بھی پیغمبر کو اتنا موقع کہا ں ملا کہ تمام حلال و حرام کو باین فرمادیتے ۔ مکہ کی وہ تیرہ سالہ زندگی ۔ جس میں لوگ شدید دباؤ اور سختیوں کے باوجود مسلامن ہوئے تھے شاید ان کی تعداد چار سو افراد تک بھی نہیں پہونچی ۔ ایسے سخت حالات میں آنحضرت سے ملاقات بھی ڈھکے چھپے ہوا کرتی تھی ۔ ان میں سے بھی ستر خانوادوں پر مشتمل مسلمانوں کا ایک گروہ جو مسلمانوں کی نصف جمعیت یا اس سے بھی زیادہ تھے ، حبشہ ہجرت کرگیا ۔ ہاں مدینہ اس حیثیت سے امن کی جگہ تھی لیکن وہاں بھی پیغمبر کی مصروفیت بہت زیادہ تھیں اگر رسول اکرم اس پورے تیئیس سال کے عرصہ میں ایک معلم کی حیثیت سے لوگوں کو مدرسہ کی صورت میں جمع کرکے سرف احکام بیان کرنے کے لئے وقت کافی نہ ہوتا ۔ چہ جائیکہ ان حالات میں خصوصاً جبکہ اسلام انسانی زندگی کے ہر موڑ اور ہر پہلو پر ایک حکم رکھتا ہے ۔

قیاس کی پناہ میں:

نتیجہ یہ ھواکہ اہل سنت اپنے مفروضہ کے مطابق عملی طور پر احکام اسلام کی تنگ دستی کا احساس کرنے لگے۔ جب مسئلہ پیش آتا، اور دیکھتے تھے کہ قرآن میں اس سے متعلق کوئی حکم بیان نہیں ہوا ہے ، تو (باقی ماندہ محفوظ)حدیثوں میں حل تلاش کرتے تھے، جب وہاں بھی مایوسی ہوتی تھی تو ظاہر ہے مسئلہ بغیر کسی حکم کے چھوڑ ا نہیں جا سکتا ، لہٰذا کسی نہ کسی طرح مسئلہ کا حکم تلاش کرنے کے لئےقیاس کا سہار ا لیتے تھے، قیاس ، یعنی جن مسائل کا حکم قرآن یا حدیث میں یہ حکم بیان ہوا ہے اور چونکہ یہ مسئلہ بھی اس سے ملتا جلتا ہےلہذاس کا حکم بھی وہی ہوگا۔خلاصہ یہ کی احکام دین کی بنیاد،،شاید،،پرکھڑی کی گیء۔ایسےمقاماتایک دونہیی تھےجہاںحدیث ناکافی ثابت ہوئی ۔ دنیائے اسلام میں خاص طور سے عباسیوں کے زمانہ میں زیادہ وسعت پیدا ہوائی مختلف ممالک فتح ہوئے اور صرورتیں نت نئے مسائل کی شکل میں سر اٹھانے لگیں اور جب لوگ قرآن و احادیث میں ان کا حل نہین پاتے تو دھڑ ادھڑ قیاس آرائیوں سے کام لیتے تھے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دو گروہ بن گئے ایک فرقہ قیاس کا منکر ہوگیا جس میں احمد بن حنبل اور مالک بن انس شامل تھے ( مالک بن انس کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے پوری زندگی میں صرف دو مسئلہ مین قیاس کیا ) دوسرا گروہ تھا جس نے قیاس کے رہوار کو بے لگام چھو ڑدیا اور وہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا ۔ اس کے علم بردار ابوحنیفہ تھے ۔ ابو حنیفہ کہتے تھے کہ یہ تمام حدیثیں جو پیغمبر سے ہم تک پہنچی ہیں بالکل قابل اعتماد نہیں ہیں کیونکہ نہیں معلوم کہ واقعی پیغمبر نے یہ باتیں ارشاد فرمائی ہیں ؟ لوگ کہتے ہیں کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا ہے : میرے نزدیک تو آنحضرت کی صرف پندرہ حدیثیں ثابت ہیں جن کے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ انہیں پیغمبر نے فرمایا ہے اور بس ۔ بقیہ مسائل میں ابو حنیفہ قیاس کرتے تھے ۔ شافعی نے میانہ روی اختیار کر رکھی تھی یعنی بعض مسائل میں احادیث پر اعتقاد کرتے تھے اور بعض مواقع پر قیاس سے کام لیتے تھے ۔ نتیجہ فقہ ایک عجیب و غریب کھچڑی کی شکل می ناختیار کر گئی ۔ کہتے ہیں کہ ابوحنیفہ چونکہ نسلی طور پر ایرانی تھے اور ایرانیوں کی توجہ عقلی مسائل کی طرف زیادہ ہوا کرتی ہے مزید یہ کہ وہ مرکز حدیث یعنی مدینہ سے دور عراق میں زندگی بسر کرتے تھے لہٰذا بہت زیادہ قیاس واقع ہوئے تھے ۔ بیٹھے قیاس کے تانے بانے بناکر تے تھے ۔ خود اہل سنت نے لکھا ہے کہ ایک روز آپ حجام کے یہاں گئے ، آپ کی داڑھی کے بال کھچڑی تھے ، ابھی سفید بال زیادہ نہیں تھے ، حجام سے کہا ، سارے سفید بال اکھا ڑدو ۔ خیال یہ تھا کہ اگر تمام سفید بال جڑ سے اکھڑ جائیں گے تو انکا وجود ہی ختم ہوجا ئے گا ۔ حجام نے کہا ، اتفاق سے سفید بالوں کی خاصیت یہ ہے کہ اکر اکھا ڑدئے گئے تو اور زیادہ نکل آئیں گے ۔ آپ نے فوراً قیاس کرکے فرمایا ، تو سیاہ بالوں کو اکھاڑڈالو ، یہ قیاس ہے ۔ آپ نے قیاس یہ کیا کہ واگر سفید بال اکھاڑنے سے زیادہ اگتے ہیں تو جب سیاہ بال اکھاڑے جائیں گے وہ بھی زیادہ اگیں گے ۔ !جبکہ اگر یہ قاعدہ ہو بھی تو صرف سفید بالوں کے لئے جاری کیا جائے گا ۔ کالے بالوں کے لئے نہیں ۔ چنانچہ آپ فقہ میں بھی طریقہ عمل میں لاتے تھے ۔

قیاس اور شیعوں کا نظریہ:

جب ہم شیعوں کی روایات کو دیکھتے ہیں تو نظرآتا ہے کہ قیاس کو سرے سے قبول ہی نہیں کرتے بلکہ بنیادی طور سے اس فکر ہی کو غلط اور اشتباہ سمجھتے ہیں کہ کتاب خدا اور احادیث پیغمبر کافی و وافی نہیں ہیں ۔ قیاس کا سوال تو واہاں پیدا ہوتا ہے جب یہ کہا جائے کہ کتاب و سنت تمام احکام دین بیان کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور چونکہ وہ ناکافی ہیں اس لئے قیاس سے کام لیا جا ۴ ے ۔ جبکہ یہ سراسر غلط ہے کیونکہ خود پیغمبر اسلام سے براہ راست بالواسطہ طور پر ان کے اوصیاء کرام کے ذریعہ احادیث کا اتنا بڑا ذخیرہ ہم تک پہنچا ہے کہ ان حدیثوں کے کلیات کی طرف رجوع کرنے کے بعد قیاس کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی ۔ دینی نقطۂ نظر سے امامت کی روح یہی ہے کہ اس کے ذریعہ احادیث اکیہ ذخیرہ ہم تک پہنچا ۔ اسلام صرف ایک مسلک نہیں ہے ، جس کا بانی اپنے افکار و نظریات کا اجراء کرنے کے لئے حکومت کا محتاج ہوتا ہے ۔ حکومت کا اس میں کیا دخل اسلام ایک دین ہے ایک دین کی وضع اور وہ بھی اسلام جیسے دین کی اہمیت و ہمہ گیری کو پیش نظر رکھنا چاہئے ۔

معصوم کی موجودگی میں انتخاب کی گنجائش ہی نہیں

امت کی قیادت رہبری کی رو سے امامت کا مسئلہ یہ ہے کہ اب جبکہ پیغمبر کے بعد ان ہی کے زمانہ کی طرح ایک معصوم موجود ہےا ور پیغمبر نے خود ایسے شخص کو اپنا نائب و وصی معین فرمادیا ہے جو عام افراد کی سطح کا نہیں ہے بلکہ اس مٰں پیغمبر جیسی ہی استثنائی صلاحیتیں موجود ہیں ۔ چنانچہ ایسے شخص کی موجودگی میں کسی بھی انتخاب یا شوریٰ وغیرہ کی ضرورت باقی نہیں رہتی ، جس طرح پیغمبر کے زمانہ میں یہ سوال نہیں اٹھتا تھا کہ پیغمبر تو صرف پیغام لانے والے ہیں اور ان پر وحی نازل ہوتی ہےاب حکومت کا مسئلہ طے کرنا شوریٰ یا عوام کی ذمہ داری ہے ، عوام آئیں اور رائے دیں کہ خود پیغمبر کو حاکم قرار دیا جائے یا کسی دوسرے کو حاکم بنایا جائے بلکہ سب کا یہی خیال تھا کہ پیغمبر اسلام کےایسے بارہ جانشین موجود ہیں ، جو دو تین صدیوں کے عرصہ میں اسلام کی بنیادوں کو پورے طور سے مستحکم کردیں اور اسلام صاف و شفاف سر چشمہ اور معصوم افراد کے ہوتے ہو ئے کسی انتخاب یا شوری کی گنجائش بہر حال نہیں ہر جاتی ۔ کیا یہ بات عقل میں آنے والی ہے کہ ہما رے درمیان ایک ایسا شخص موجود ہو جو معصوم ہونے کے ساتھ ایسا عالم بھی ہو جس سے کسی خطا یا اشتباہ کا امکان بھی نہ پایا جاتا ہو اس کے باوجود اس کی جگہ پر ہم کسی دوسرے کا انتخاب کریں ؟!

اس کے علاوہ جب علی پیغمبر کی جانب سے ایک ایسی امامت و جانشین پر فائز ہوئے تو قہری طور پر دنیاوی حا کمیت و رہبری بھی ان ہی کے شایان شان ہوگی ۔ پیغمبر نے بھی علی کے لئے اس منصب کی صراحت کردی ہے ۔ لیکن آنحضرت نے منصب امامت کی سراحت و وضاحت اس لئے فرمائی ہے کہ وہ اس دوسرے منصب کے حقدار بھی ہیں ۔ بنا بر این غیبت امام زمانۂ کے دوران جبکہ ویسے ہی وسیع اختیار کا حامل کوئی معصوم امام موجود نہیں ہے یو اگر فرض کرلیں کہ اگر صدر اسلام میں ہو حالات پیش نہ آتے اور حضرت علی ہی خلیفہ و جانشین ہوتے ، ان کے بعد امام حسن (ع) ، پھرامام حسین اور یہ سلسلہ حضرت ولی عصر تک قائم رہتا اور وہ صورت رونما ہوتی جو امام کی غیبت کا سبب بنی اور ان کے بعد جب کوئی امام معصوم ہمارے درمیان موجود نہ ہوتا تب حکومت کا مسئلہ دوسرا ہوجاتا۔ اور اس وقت یہ سوال اٹھتے کہ یہ حکومت کس کا حق ہے ؟ کیا حاکم ، فقیہ جامع الشرائط ہی ہوسکتا ہے ؟ یایہ چیز حکومت کے لئے لازم نہیں ہے ۔ کیا عوام کو حاکم کے انتخاب کا حق ہے ؟ یا ؟!

بنابر ایں ہمیں مسئلہ امامت کو ابتدائ سے ہی حکومت جیسا سادہ اور دنیاوی مسئلہ نہیں بنا دینا چاہئے ، تاکہ پھر اس کی روشنی میں یہ سوال اٹھایا جا ئے کہ اسلام کی نظر میں حکومت زبر دستی کی تنصیص و تعیینی ہے یا انتخابی ؟اور پھر یہ سوال پیدا ہوکہ آخر شیعہ اس طرح کی حکومت پر کیوں اصرار کرتے ہیں ؟ اصل میں مسئلہ یوں نہیں ہے بلکہ شیعوں کے یہاں تو امامت کا مسئلہ ہے اور امام کی ایک شان حکومت بھی ہے ۔ اور یہ طے ہے کہ امام معصوم کے ہوتے ہوئے کسی اور کوحکومت کا حق نہیں ہے ۔ اور پیغمبر اکرم نے علی کو منصب امامت پر معین فرمایا ہے ، جس کالازمہ حکومت بھی ہے اس کے علاوہ بعض مواقع پر لفظ حکومت سے بھی علی کی حکامیت کی صراحت فرمائی ہے لیکن اس کی بنیاد بھی امامت ہی کو قرار دیا ہے ۔

روحانی و معنوی ولایت:

میں اس موضوع پرگزشتہ ث کے دوران ایک بات کرچکا ہوں ۔ البتہ میں خود ذاتی طور پر اس کا اعتقاد رکھتا ہوں اور اس کو ایک بنیادی مسئلہ سمجھتا ہوں لیکن وہ بات شاید شیعیت کے ارکان میں شمار نہیں ہوتی ۔ اور وہ یہ کہ کیا پیغمبر اکرم کی حیثیت اتنی تھی کہ آپ پر خدا کی طرف سے الٰہی احکام اوراسلام کے اصول و فروع وحی ہوتے تھے ۔ اور وہ صرف اسلام ظاہری وواقعی سے ہی متعلق معلومات رکھتے تھے ، کیا آپ کی شان یہ نہیں تھی کہ خداکی جانب سے اس کے علاوہ اور بھی کچھ جانتے اور کیا منزل عمل و تقوائے پر وردگار میں بھی وہ (صرف ) خطاؤں سے محفوظ و معصوم تھے اوربس ؟ یوں ہی کیا ائمہ معصومین علیہم السلام کا مرتبہ بھی فقط اتنا ہی ہے کہ اگر چہ ان پر وحی نازل نہیں ہوتی تھی ۔ انہوں نے اسلام کے اصول و فروع اور کلیات و جزئیات ، پیغمبر سے حاصل کئے ہیں او ر جس طرح پیغمبر سے علم و عمل میں کوئی غلطی یا اشتباہ نہیں ہوتا یوں ہی وہ بھی خطاؤں سے محفوظ و معصوم ہیں اور بس ؟یا پیغمبر اسلام اور ائمہ علیہم السلام کے مراتب اس سے بڑھ کر بھی کچھ اور ہیں ؟ یہ حضرات دین و معارف سے مظبوط اسلامی مسائل کے علاوہ اور کن علوم سے آگاہ تھے ؟ کیا یہ سچ ہے کہ انسانوں کے اعمال پیغمبر کی مبعث میں پیث کئے جاتے ہیں ؟ حتیٰ ہر امام کے زمانہ میں اس عہد کے لوگوں کے اعمال کی خدمت میں بھی پیش ہوتے ہیں ؟ مثال کے طور پر آج امام زمانہ نہ صرف شیعوں بلکہ تمام انسانوں پر حاضر و ناظر ہیں ان کے اعمال سے واقف ہیں اور کسی سے بھی غافل نہیں ہیں ؟ حد یہ ہے کہ امام کے لئے حیات اور موت میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ یعنی جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں ، جب آپ امام رضا (ع) کی زیارت کو جاتے ہیں اور کہتے ہیں " السلام علیک " تو اس کامطلب یہ ہے کہ آپ اس دنیا میں ایک زندہ انسانوں کے روبرو کھڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں :"السلام علیک " اور وہ بھی یوں ہی آپ کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں ۔ یہی ولایت معنوی ہے ۔

یہ بھی عرض کرچکا ہوں کہ اس نقطہ پر عرفان اور تشیع میں مشابہت اور یک رنگی پائی جاتی ہے ، یعنی دونوں کے افکار ایک دوسرے سے کافی نزدیک ہیں ۔ اہل عرفان کا اعتقاد ہے کہ ہر دور میں ایک نہ ایک قطب اور انسان کامل ضرور ہونا چاہئے ۔ اور شیعہ کہتے ہیں کہ ہر دور میں روئے زمین پر ایک امام و حجت ضرور رہتا ہے اور وہی انسان کامل ہے اورہم فی الحال اس بحث کو چھیڑنا نہیں چاہتے کیونکہ اس مسئلہ میں ہم میں اور اہل سنت میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ شیعہ اور اہل سنت میں اختلاف ان دو مسئلوں میں ہے جن کا ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں ۔ ایک یہ کہ امامت ، احکام دین بیان کرنے کی ذمہ دار ہے اور دوسرے امامت یعنی مسلمانوں کی قیادت و رہبری ۔

حدیث ثقلین کی اہمیت:

امامت کے مسئلہ میں " حدیث ثقلین " کو فراموش نہیں کرنا چاہئے ۔ ار آپ کسی عام اہل سنت یا ایک عام سنی سے ہی ملاقات کریں تو اس سے پوچھیں کہ آیا کوئی جملہ پیغمبر اسلام نے فرمایا ہے کہ نہیں ؟ اگر وہ انکار کرے تو اس کے جواب میں ان ہی کی متعدد کتابیں ان کے سامنے پیش کی جاسکتی ہیں ۔ آپ دیکھیں گے کہ علماء اہل سنت کسی طرح بھی اس حدیث کے وجود یا اس کی صحت سے انکار نہی ںکرسکتے اور حقیقتاً انکار کرتے بھی نہیں ۔(۸)

اس کے بعد آپ ان سے پوچھیں کہ یہ جو پیغمبر نے قرآن اور عترت و اہل بیت کو دین کے حصوں کے لئے الگ الگ مرجع قراردیا ہے ، آخر یہ اہل بیت (ع)کون سے افراد ہیں ؟ اصل میں یہ حضرات پیغمبر(ص) کی عترت اور غیر عترت میں کسی فرق و امتیاز کے قائل نہیں ہیں ۔ بلکہ وہ صحابہ سے روایتیں بھی نقل کرتے ہیں تو علی سے کہیں زیادہ دوسروں سے نقل کرتے ہیں اور علی سے اگر کبھی کوئی روایت نقل کی بھی ہے تو صرف ایک راوی کے عنوان سے ، نہ کہ ایک مرجع ومصدر کی حیثیت سے۔

حدیث غدیر:

ہم عرض کرچکے ہیں کہ جو دین کے منبع و مرجع کی حیثیت رکھتا ہے ، وہی دین کا رہبر بھی ہوگا ۔ پیغمبر نے علی (ع) کی رہبری کے سلسلہ میں بھی صراحت سے ذکر کیا ہے ۔ اس کا ایک نمونہ حدیث غدیر ہے ، جسے پیغمبر اکرم(ص) نے حجۃ الوداع کے دوران غدیر خم کے مقام پر ارشاد فرمایا تھا ۔ حجۃ الوداع پیغمبراسلام (ص) کا آخری حج ہے ۔ شاید آپ (ص) نے فتح مکہ کے بعد ایک سے زیادہ حج نہیں فرمایا ۔ البتہ حجۃ الوداع سے پہلے حج عمرہ ادا کیا تھا ۔ چنانچہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے عام اعلان فرمایا اور لوگوں کو خصوصیت سے اس حج میں شرکت کی دعوت دی۔ گویا مسلمانوں کے کثیر مجمع کو اپنے ہمراہ لیا اور مختلف مقامات یعنی مسجد الحرام میں، عرفات میں، منیٰ میں اور منیٰ سے باہر نیز غدیر خم وغیرہ میں تمام مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے متعدد خطبے ارشاد فرمائے ۔ منجملہ غدیرخم میں جبکہ آپ جگہ سیگہ پر مغز مطالب بیان فرماچکے تھے، ایک مسئلہ کو آخری مطلب کے طور پر بڑے شدو مدکے ساتھ بیان فرمایا( یاایهالرسول بلغ ماانزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالته ) (۹) (اے رسول ! آپ وہ امر لوگوں تک پہنچا دیجئے جو آپ کے پروردگار کی جانب سے آپ پر نازل ہوا ہے ۔ اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا رسالت ہی انجام نہ دی ۔"اگر پیغمبر اکرم (ص) نے اس سے قبل عرفات، منیٰ اور مسجدالحرام میں اپنے خطبوں کے درمیان اصول و فروع کے تمام اسلامی کلیات بیان کردیئے تھے ۔ اور وہ بیانات آپ کے اہم ترین خطبات میں ہیں۔ پھر اچانک غدیر خم میں فرماتے ہیں کہ اب میں وہ بات بیان کررہاہوں کہ اگر اسے ذکر نہ کیا تو گویا رسالت ہی انجام نہ دی "( فمابلغت رسالته ) " یعنی مجھ سے فرمایا گیا ہے کہ اگر اسے نہ بیان کیا تو کچھ بھی بیان نہ کیا یعنی پوری رسالت کی محنت بے کار ہوکر رہ جائے گی ۔ اس کے بعد آپ فرماتے ہیں : الست اولیٰ بکم من انفسکم ؟( کیا میں تمہارے نفسوں ( یا تم سے زیادہ حاکم نہیں ہوں ) یہ قرآن کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے۔ "( النبی اولیٰ بالمومنین من انفسهم ) (۱۰) ( نبی مومنین کے نفسوں پر ان سے زیادہ حاکم و ولی ہے ) چنانچہ جب آپ نے فرمایا : کیا تم پر میرا حق تسلط اور ولایت خود تم سے زیادہ نہیں ہے ؟ سب نے ایک ساتھ کہا : بلیٰ (ہاں ) یا رسول اللہ تو حضرت (ص) نے فرمایا :"من کنت مولاه فهٰذا علی مولاه " یہ حدیث بھی حدیث ثقلین کی طرح بہت سے اسناد رکھتی ہے

حدیث غدیر جو متواتر ہے اگر ہم اس کے مدارک واسناد کی تحقیق کے میدان میں قدم رکھیں یایوں ہی حدیث ثقلین جس کے اسناد و مدارک میر حامد حسین طاب ثراہ نے "عبقات الانوار " میں جمع کئے ہیں جو بڑی سائز کے چار سو صفحات میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ اگر ان حدیثوں کی تحقیق کی جائے تو بحث بہت طویل ہوجائے گی ۔ ممکن ہے اس سلسلہ میں مزید تحقیق کی ضرورت ہو پھر بھی میں چاہتا ہوں کہ مسئلہ امامت کے تحت بحث کا ایک خلاصہ آپ کی خدمت میں پیش کردوں ۔ ساتھ ہی ان ثبوت و مدارک کابھی ایک اجمالی جائزہ پیش کردوں جنھیں شیعہ امامت کے سلسلہ میں سند کے طور پر بیان کرتے ہیں

____________________

(۷) صحیح مسلم جزء ہفتم صفحہ ۲۲

(۸) بعض اہل منبر اور مجلسیں پڑھنے والے افراد نےاس حدیث کی عظمت و اہمیت کو کم کرڈالا ہے ، اور اسے یوں پیش کرنے لگے کہ مفہوم حدیث بدل کر رہ گیا ہے ۔ چونکہ یہ لوگ اکثر و بیشتر اس حدیث کو مصائب بیان کرنے کے لئے گریز کے طور پر پڑھنے لگے لہٰذا انسان یہ سوچتے لگا کہ اس حدیث سے پیغمبر کا مقصد صرف یہ تھا کہ میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھو رے جا رہاہوں یعنی قرآن و عترت ۔ ان دونوں کا احترام تم پر لازم و واجب ہے ۔ دیکھو ان کی توہین واہانت نہ کران ۔ جبکہ حدیث کا اصل مقصد یہ ہے کہ ایک قرآن ہے جس سے تمسک اختیار کرو اور اسکے احکام پر عمل کرو اور دوسرے اہل سنت ہیں جن کی طرف رجوع کرو اور ان کی تعلیمات و ہدایات پر عمل کروکیونکہ آنحضرت اسی حدیث میں آگے فرماتے ہیں :"لن تضلوا ما ان تمسکتم بهما ابداً " جب تک ان دونوں سے متمسک رہوگے ہر گز گمراہ نہیں ہوگے ۔ معلوم ہوا یہاں دونوں کی طرف رجوع کرنے اور تمسک اختیار کرنے کی بات کہی جارہی ہے ۔ پیغمبر نے تمسک و رجوع کی منزل میں عترت کو قرآن کا ہم پلہ قرار دیا ہے کہ ان سے قرآ ن ہی کے مانند تمسک اختیار کیا جائے ۔ خود پیغمبر نے فرمایا ہے کہ قرآن ثقل اکبر ہے اور عترت ثقل اصغر ہے ۔

(۹) مائدہ ۶۷

(۱۰) سورہ احزاب ۶


5

6