معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ

معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ50%

معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 15 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 9054 / ڈاؤنلوڈ: 4195
سائز سائز سائز
معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ

معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ

مؤلف:
اردو

نواب ِاربعہ

یہ وہ حضرات ہیں جنہیں غیبت ِ صغریٰ کے زمانہ میں نیابت کا کام سپرد کیا گیا ہے اور یہ درحقیقت سفارت کا کام انجام دیتے تھے، یعنی ان کا فریضہ مصادر شریعت کتاب و سنت سے احکام کا استنباط و استخراج کرکے قوم کے حوالے کرنا نہیں تھا بلکہ ان کا کام صرف یہ تھا کہ قوم کے مسائل کو امام زمانہ عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف تک پہنچائیں اور جو جواب حاصل ہو، اسے قوم کے حوالے کر دیں۔ یہ کام اگرچہ غیر معمولی علم و دانش اور قوت ِ استنباط و استخراج کا متقاضی نہیں ہے اور ایک عام صلاحیت کا انسان بھی اس کام کو انجام دے سکتا تھا لیکن اس کے باوجود امام عصرں نے غیبت ِ کبریٰ کی صورت حال کے پیش نظر اس کام کے لیے بھی اس دور کے انتہائی ذی علم اور صاحبانِ کردار کا انتخاب کیا تھا تاکہ قوم غیبت ِصغریٰ ہی سے اس نکتہ کی طرف متوجہ ہو جائے کہ نیابت امام کا کام کوئی عام انسان انجام نہیں دے سکتا ہے اور اس نکتہ کے سمجھنے میں آسانی ہو جائے کہ جب اپنی قوت علم و دانش کو استعمال نہیں کرنا ہے اور نعوذ بالله خیانت کریں تو اصلاح کرنے والا امام موجود ہے اور اس کا رابطہ قوم سے قائم ہے تو اس قسم کے بلند مرتبہ افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ تو جب قوت اجتہاد و استنباط کے استعمال کا مرحلہ آئے گا اور اصلاح کرنے والے امام کے بظاہر جملہ روابط سفارت منقطع ہو جائیں گے تو اس دور کے نواب اور وکلاء کے علمی اور عملی مراتب کا کس قدر بلند ہونا ضروری ہوگا اور اس نکتہ کی طرف ائمہ طاہرین نے مختلف ادوار میں اپنے دور کے مروجین احکام کے صفات کے بیان کرنے میں واضح طور پر اشارہ کیا تھا۔

امام عصرں کے چار سفراء جن کو یکے بعد دیگرے سفارت کا منصب حاصل ہوا تھا۔ ان کی مختصر داستان زندگی یہ ہے:

۱ ۔ عثمان بن سعید عمروی

یہ امام علی نقی ں اور امام حسن عسکری ں کے اصحاب میں تھے اور ان کے وکیل خاص تھے۔ حالات کے تحت روغن فروشی کی دکان رکھ لی تھی تاکہ خریداروں کے بھیس میں آنے والوں سے حقوق امام حاصل کر سکیں اور ان کے سوالات کے جوابات امام سے حاصل کرکے ان کے حوالے کر سکیں اور اسی بنا پر انہیں سمّان بھی کہا جاتا ہے۔

احمد بن اسحاق قمی جو خود بھی ایک جلیل القدر عالم تھے ان کا بیان ہے کہ میں نے امام علی نقی ں سے عرض کیا کہ بعض اوقات آپ تک پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے تو آپ کے احکام حاصل کرنے کا ذریعہ کیا ہوگا؟۔۔۔۔۔ تو آپ نے فرمایا کہ عثمان بن سعید کی طرف رجوع کرنا یہ جو کچھ کہیں وہ میرا قول ہے اور جو پیغام پہنچائیں وہ میرا پیغام ہے۔ اور آپ کے انتقال کے بعد میں نے یہی سوال امام حسن عسکریں سے کیا تو آپ نے بھی بعینہ یہی جواب دیا۔ بلکہ یمن سے آنے والی ایک جماعت کے بارے میں فرمایا کہ جاؤ ان سے جملہ رقم حاصل کر لو کہ تم میرے معتمد ہو اور جب لوگوں نے سوال کیا کہ آپ نے ان کے مرتبہ کو بہت بلند کر دیا ہے تو فرمایا کہ عثمان بن سعید میرے وکیل ہیں اور ان کا فرزند میرے فرزند کا وکیل ہوگا۔

امام حسن عسکری ں کی شہادت کے بعد امام عصرں نے بھی وکالت کا کام عثمان بن سعید ہی کے پاس رہنے دیا اور ائمہ طاہرین کی نیابت و وکالت کے طفیل میں ان سے اس قدر کرامات کا ظہور ہوتا تھا کہ لوگ دنگ رہ جاتے تھے۔ صاحبانِ مال سے ان کے مال کی مقدار اور اس میں حلال و حرام کا فرق بغیر دیکھے بیان کر دیتے تھے اور اکثر سوال سنے بغیر جواب بتا دیا کرتے تھے۔

واضح رہے کہ امام علی نقی ں اور امام حسن عسکریں کی طرف سے اس طرح کی سند کہ ”ان کا قول میرا قول ہے اور ان کا پیغام میرا پیغام ہے“ ایک ایسے مرتبہ کی نشان دہی کرتی ہے کہ جس کی بنا پر انہیں معصوم کا صحیح پیرو اور محفوظ عن الخطاء بھی شمار کیا جا سکتا ہے۔ کاش دنیا میں کسی بھی مدعی ایمان کو اس طرح کی سند زبان معصوم سے حاصل ہو جاتی ہے۔ جناب عثمان بن سعید کا دور سفارت پانچ سال تک جاری رہا۔

۲ ۔ محمد بن عثمان بن سعید عمروی

انہیں بھی امام عسکری ں ہی نے اپنے فرزند کا وکیل نامزد کر دیا تھا لیکن جب جناب عثمان بن سعید کا انتقال ہوا تو ان کے پاس امام زمانہ عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کا تعزیت نامہ آیا جس کا مضمون یہ تھا: ”انا للّٰہ و انا الیہ راجعون! ہم امر الٰہی کے سامنے سراپا تسلیم ہیں اور اس کے فیصلہ پر راضی ہیں۔ تمہارے باپ نے نہایت ہی سعیدانہ زندگی گزاری ہے اور ایک قابل تعریف موت پائی ہے۔ خدا ان پر رحمت نازل کرے اور انہیں ان کے اولیاء اور آقاؤں سے ملحق کر دے۔ وہ امور ائمہ میں برابر قرب ِ الٰہید کے لیے کوشاں رہا کرتے تھے۔ خدا ان کے چہرہ کو شاداب کرے اور ان کی لغزشوں کو معاف کرے اور تمہارے ثواب میں اضافہ کرے اور تمہیں صبر جمیل عطا فرمائے۔ یہ مصیبت تمہارے لیے بھی مصیبت ہے اور میرے لیے بھی۔ اس فراق نے تمہیں بھی مضطرب بنا دیا ہے اور مجھے بھی۔ الله انہیں آخرت میں خوش رکھے۔ ان کی سعادت و نیک بختی کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ الله نے انہیں تمہارا جیسا فرزند عطا کیا ہے جو ان کا جانشین اور قائم مقام ہے اور ان کے حق میں دعائے رحمت کرتا ہے۔ میں اس امر پر حمد ِخدا کرتا ہوں۔ پاکیزہ نفوس تم سے اور جو شرف خدا نے تمہیں دیا ہے اس سے خوش ہیں خدا تمہاری مدد کرے، تمہیں قوت عطا کرے اور توفیقات کرامت فرمائے۔ وہی تمہارا سرپرست، محافظ اور نگراں رہے گا۔“

علامہ مجلسی نے کتاب غیبت طوسی کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ جناب عثمان بن سعید کے انتقال کے بعد امام عصرں نے ان کے فرزند کے بارے میں یہ پیغام بھیجا کہ یہ فرزند اپنے باپ کے زمانہ ہی سے ہمارا معتمد تھا (خدا اس سے خوش رہے اور اسے خوش رکھے اور اس کے چہرہ کو روشن رکھے) اب ہمارے لیے یہ اپنے باپ کا نائب اور جانشین ہے۔ یہ ہمارے ہی حکم سے حکم دیتا ہے اور ہمارے ہی احکام پر عمل کرتا ہے، خدا اسے جملہ آفات سے محفوظ رکھے۔!

جناب محمدبن عثمان بن سعید کی دختر نیک اختر ام کلثوم کا بیان ہے کہ میرے پدر بزرگوار نے کئی جلد کتاب تالیف کی تھی جس میں امام حسن عسکریں اور اپنے پدر بزرگوار سے حاصل کیے ہوئے علوم اور احکام کو جمع کیا تھا اور اپنے انتقال کے وقت سارا سامان جناب حسین بن روح کے حوالے کر دیا تھا۔

جناب محمدبن عثمان بن سعید ہی کی یہ روایت ہے کہ امام زمانہں ہر سال حج میں تشریف لاتے ہیں اور لوگوں سے ملاقات بھی کرتے ہیں لیکن لوگ انہیں پہچان نہیں سکتے ہیں۔ بلکہ میری آخری ملاقات بھی حج ہی میں ہوئی ہے جب وہ خانہ خدا کے قریب اس دعا میں مصروف تھے کہ ”خدایا! میرے وعدہ کو پورا فرما۔“ اور پھر مستجار کے قریب پہنچ کر یہ دعا کرنے لگے: ”خدایا! مجھے دشمنوں سے انتقام لینے کا موقع عنایت فرما۔“

انہوں نے چالیس سال سفارت کے فرائض انجام دیے ہیں۔

۳ ۔ جناب حسین بن روح

یہ محمد بن عثمان کے مخصوص اصحاب میں تھے لیکن بظاہر ان کا مرتبہ جعفر بن احمد سے کمتر تھا اور لوگوں کا خیال یہ تھا کہ چوتھے نائب جعفر بن احمد ہی ہوں گے۔ چنانچہ جب محمد بن عثمان کا آخری وقت آیا تو جعفر بن احمد سرہانے بیٹھے اور حسین بن روح پائینتی۔ لیکن جیسے ہی محمد بن عثمان نے یہ پیغام امام سنایا کہ حضرت نے نیابت کے لیے حسین بن روح کے بارے میں نصیحت فرمائی ہے تو فوراً ہی جعفر بن احمد نے انہیں سرہانے بٹھا دیا اور خود پائینتی بیٹھ گئے کہ امام سے بہتر حالات اور مصالح کا جاننے والا کوئی نہیں ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ان کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم رکھیں۔

بعض روایات میں اس کا ایک راز یہ بیان کیا گیا ہے کہ ان میں اسرارِ امامت کے چھپانے کی صلاحیت زیادہ تھی اور ان کا برتاؤ بغداد میں تمام مذاہب کے افراد کے ساتھ ایسا تھا کہ ہر شخص انہیں اپنا ہم خیال سمجھتا تھا اور اس بات پر فخر کرتا تھا کہ حسین بن روح ہماری جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اس دور کی سفارت و نیابت کے لیے کمال علم و دانش سے زیادہ اہمیت رازداری اور قوت ِ برداشٹ کی تھی کہ ہزاروں مصائب کے بعد بھی امامت کا راز فاش نہ ہونے پائے اور انسان کسی بھی قیمت پر ان اسرار کا تحفظ کرے۔

حسین بن روح کے بارے میں امام عصرں کے الفاظ یہ تھے:

”ہم انہیں پہچانتے ہیں۔ الله انہیں تمام خیرات اور مرضات کی معرفت عطا کرے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق کرامت فرمائے۔ ہمیں ان کی کتاب ملی ہے اور ہمیں ان پر مکمل اعتماد ہے۔ وہ ہمارے نزدیک ایسا مقام اور ایسی منزلت رکھتے ہیں جو باعث ِ مسرت و اطمینان ہے۔ خدا ان کے بارے میں اپنے احسانات میں اضافہ کرے کہ وہ تمام نعمتوں کا مالک اور ہر چیز پر قادر ہے۔ ساری تعریف اس الله کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں ہے اور صلوات و رحمت اس کے رسول حضرت محمد پر اور ان کی آل طاہرین پر اور اس کا سلام ان تمام حضرات کے لیے۔“

ان کی سفارت کا سلسلہ اکیس سال تک جاری رہا۔

۴ ۔ ابو الحسن علی بن محمد سمری

انہیں جناب حسین بن روح نے حکم امام سے نامزد کیا تھا اور برابر وکالت و سفارت کے فرائض انجام دے رہے تھے اور لوگو کے اموال امام تک پہنچا رہے تھے یہاں تک کہ ان کا وقت ِ وفات قریب آیا تو لوگوں نے عرض کی کہ اب آپ کا نائب کون ہوگا؟ تو انہوں نے فرمایا کہ یہ میرے اختیار کا کام نہیں ہے، خدا اپنے مصالح کو بہتر جانتا ہے اور امام کی طرف سے اب یہ پیغام موصول ہواہے:

”بسم الله الرحمن الرحیم۔ علی بن محمد بن سمری! خدا تمہارے برادران ایمانی کو تمہارے بارے میں عظیم اجر عطا فرمائے کہ اب تمہارا وقت وفات قریب آگیا ہے۔ تمہاری زندگی میں صرف چھ دن باقی رہ گئے ہیں۔ اپنے جملہ امور کو جمع کر لو اور خبردار اپنی جگہ پر کسی کو وصی مت بنانا اس لیے کہ اب مکمل غیبت کا آغاز ہو رہا ہے۔ اب ظہور اذنِ خدا کے بعد ہی ہوگا اور یہ ایک طویل مدت اور قساوت ِ قلوب اور زمین کے ظلم و جور سے بھر جانے کے بعد ہوگا۔ عنقریب میرے شیعوں میں ایسے لوگ بھی پیدا ہوں گے جو میرے مشاہدہ کا دعویٰ کریں گے تو آگاہ ہو جاؤ کہ جو بھی ایسے مشاہدہ کا دعویٰ کرے سفیانی کے خروج اور ندائے آسمانی سے پہلے وہ جھوٹا اور افترا پرداز ہے۔ تمام طاقت اور قوت خدائے علی و عظیم کی توفیق سے وابستہ ہے۔“

جانشینی اور وصایت کی ممانعت کے ساتھ دعائے مشاہدہ کا ذکر اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مشاہدہ سے مراد ملاقات نہیں ہے۔ بلکہ مشاہدہ سے مراد وہ سفارت ہے جس میں برابر ملاقات ہوتی رہتی ہے اور ادھر کے پیغامات اُدھر جاتے رہتے ہیں۔ امام نے اس قسم کے مشاہدہ کی تردید کر دی ہے اور ایسی نیابت کے دعوے دار کو کذاب اور مفتری قرار دے دیا ہے۔ کہ اگر یک طرفہ ملاقات کی بات ہو اور کوئی شخص اپنی ملاقات کا تذکرہ کرے یا امامں سے کسی موقع پر کوئی بات دریافت کرے یا کسی مسئلہ میں مدد حاصل کرے اور اس کی رہنمائی ہو جائے تو یہ تمام باتیں حدود مشاہدہ سے خارج ہیں۔ مشاہدہ کا دعوے دار درحقیقت اس امر کا ادعا کرتا ہے کہ آپ حضرات مسائل اور اموال میرے حوالے کریں۔ میں آئندہ ملاقات میں امام کے حوالے کر دوں گا اور ان سے جوابات حاصل کرلوں گا اور یہ دعویٰ درحقیقت نیابت خاص کا دعویٰ ہے جس کا تعلق غیبت ِ صغریٰ سے تھا اور غیبت ِ کبریٰ میں نیابت خاصہ کا کوئی سلسلہ نہیں ہے۔

اس تشریح کے بعد ملاقات ِ امام عصر کا مسئلہ بالکل واضح ہو جاتا ہے لیکن دو باتیں بہرحال قابل توجہ ہیں:

۱ ۔ انسان کو یہ یقین ہو کہ یہ امام عصر ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ شیطان امام کے نام پر دھوکہ دے دے اور انسان اسی دھوکہ میں دنیا سے گزر جائے۔

۲ ۔ ملاقات کو اپنی ذات تک محدود رکھے اور لوگوں سے بیان نہ کرے اس لیے کہ اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہوتا ہے اور سا طرح ہر شخص کو تردید کرنے کا حق ہو جاتا ہے اور یہ بعض اوقات تردید ملاقات یا تو توہین امام کا باعث بھی ہو سکتا ہے جس کی ذمہ داری ملاقات کے دعوے دار پر عائد ہوگی۔ تردید کرنے والے کو بہرحال حق رہے گا۔

ان کی سفارت صرف تین سال رہی اور اس کے بعد غیبت ِ کبریٰ کا آغاز ہوگیا۔

قرآن کی روسے امت مسلمہ ایک امت وسط ہے۔

یہ بات ظاہر ہے کہ یہ امت ایسی تعلیمات کی پروردہ ہے جو توسط و تعادل کی حامل ہے۔قرآن کی یہ آیت ختمی امت اور ختمی تعلمیات کا ذکر صرف ایک کلمہ کے ذریعہ کردیتی ہے اور وہ وسطیت و تعادل ہے۔

ہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا تمام انبیاء کی تعلیمات میں وسطیت اور تعادل موجود نہیں رہا ہے۔اس سوال کے جواب میں کچھ کہنا ضروری ہے۔

اس روئے زمین پر انسان ہی ایک جاندار مخلوق نہیں ہے اور صرف وہی اجتماعی انداز میں زندگی بسر کرنے کا عادی نہیں ہے، دوسری جاندار مخلوقاتبھی ہیں جو مقررہ معمولات، ایک خاصنظم اور ڈھانچے کے مطابق زندگی بسر کرتی ہیں انسان کے بر عکس ان کی زندگی جنگل کے زمانے پتھر کے زمانے لو ہے کے زمانے ایٹم کے زمانے سے آشنا نہیں ہے۔روز اول سے جب سے کہ وہ وجود میں آئی ہیں ان کی زندگی کا ایک ہی منظم ڈھانچہ ہے یہ انسان ہی ہے جو اس آیت قرآنی کے مطابق"

( و خلق الانسان ضعیفاً ) (۵)

ترجمہ:"انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔"

اپنی زندگی کا آغاز صفر سے کرتا ہے اور ترقی کے لامتناہی راستے پر آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔انسان فطرت کا ایک ہونہار اور بالغ فرزند ہے اسی لئے اسے آزادی و خود مختاری حاصل ہے اسے کسی مستقل ناظم و سرپرست اور ایسی جبری ہدایت کی ضرورت نہیں جس پر عمل کرنے کے لئے کوئی پوشیدہ اندرونی قوت اسے مجبور کرے۔دوسرے جاندار جو کچھ جبلت کے سامنے سر جھکا کر انجام دیتے ہیں وہ انسان آزادانہ ماحول میں عقل و قانین کے مطابق انجام دیتا ہے:

( انا هدینٰه السبیل اما شاکراًو اما کفوراً ) (۶)

ترجمہ:"ہم نے اسے راستہ دکھا دیا خواہ شکر کرنے والا ہے یا کفر کرنے والا۔"

انسان میں انحراف و سقوط اور جمود و انحطاط پایا جاتا ہے جبکہ دوسرے جاندار ایک حالت پر قائ رہتے ہیں۔وہ اس بات پر قدرت نہیں رکھتے کہ سوچ سمجھ کر کہ خود آگے بڑھیں یا پیچھے ہٹیں، سیدھی جانب کا رخ کریں یا بائیں سمت کا تیز چلیں یا آہستہ اس کے بر عکس انسان اپنی عقل و شعور سے کام لے کر آگے بھی قدم بڑھا سکتا ہے پیچھے بھی ہٹ سکتا ہے وہ دائیں یا بائیں کسی بھی سمت مڑسکتا ہے وہ تیز بھی چل سکتا ہے اور آہستہ بھی وہ ایک بندہ شاکر بھی بن سکتےا ہے اور سرکس کافر بھی۔اس طرح وہ افراط و تفریط کے درمیان کحڑا نظر آتا ہے۔

انسانی معاشرہ کبھی اس طرح عادات کا اسیر اور جامد و ساکن ہوجاتا ہے کہ کوئی موثر طاقت ہی اس کی زنجیروں کو کاٹ کر اسے حرکت میں لاسکتی ہے۔کبھی انسانی معاشرہ پر حرص و طمع اور نئی راہوں پر چلنے کی خوہش اس طرح مشلط ہوجاتی ہے کہ وہ فطرت کے اصول و قوانین تک کو بھلا بیٹھتا ہے اور کبھی وہ غرور و خود پرستی اور تکبر میں غرق ہوجاتا ہے، اسے خود بینی کی راہ سے ہٹا کر زہد و پرہیزگاری کی راہ پر ڈالنے کے لئے کسی اثر انداز ہونے والی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنے حقوق کے ساتھ دوسروں کے حقوق کا بھی خیال رکھ سکے جب یہی انسانی معاشرہ آرام طلبی مادر پدر آزادی اور ظلم و ستم کی راہ پر چل پڑتا ہے تو اس کے ضمیر کو جھنجھوڑ نے اور اس میں حقوق کا شعور احساس کے پیدا کرنے کے سوا اور چارہ نہیں ہوتا۔

یہ بات واضح ہے کہ تیزی کے ساتھ پیش قدمی ہو یا سست روی بائیں جانب میلان ہو یا دائیں جانب ان میں سے ہر ایک کے لئے ایک خاص لائحہ عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر معاشرہ کا انحراف دائیں جانب ہو تو اصلاح کرنے والی طاقت کو اسے بائیں جانب موڑنے کی کوشش کرنی ہوگی دورسری صورت میں اسے اس کے بر عکس عمل کرنا ہوگا۔

ہی وجہ ہے کہ کسی ایک زمانے اور کسی ایک قوم کی اصلاح کے لئے کوئی تدبیر دوا کی حیثیت رکھتی ہے تو وہی تدبیر دوسرے دور اور دوسری قوم کے لئے ایک مرض مہلک میں مبتلا کرنے کا سبب بن سکتی ہے چنانچہ بظاہر مختلف انبیاء کے درمیان ایک اختلاف نظر آتا ہے کسی پیامبر (ص) کو جنگ کی راہ اختیار کرنی پڑتی ہے تو کسی کو صلح کی کوئی نبی نرمی سے کام لیتا ہے تو کوئی سختی سے کسی پیغمبر کو انقلابی انداز میں کام کرنا پڑتا ہے تو کسی کو اعتدال و سلامتی کی راہ اپنانی پڑتی ہے۔ایک پیغمبر کا سارا دور ابتلاؤ آزمایش سے بھرا ہوتا ہے تو دوسرے پیغمبر کے حصے میں فتح و نصرت بھی آتی ہے۔انبیاء کے درمیان اختلافات کا تعلق ان کے اس روئے سے ہے جو وہ اپنے زمانے کے حالات کے پیش نظر اختیار کرتے ہیں ورنہ ہدف کے اعتبار سے ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے ہدف تمام انبیاء کا یک ہی ہے اور راستہ وہی صراط مستقیم ہے۔

قرآن کریم نے قصص انبیاء کے ضمن میں پوری طرح اس بات کی نشان وہی کی ہے کہ پیغمبروں میں سے ہر ایک مبداء و معاد سے متعلق اپنی مشترک تعلیمات کے تحت کسی ایک خاص نکتہ پر زور دیتا ہے وہ ایک مخصوص لائحہ عمل کے اجراء پر مامور ہوتا ہے یہ بات قصص قرآنی کے مطالعہ سے بخوبی روشن ہوجاتی ہے۔

مصلحین جب کسی تیزی سے آگے قدم بڑھانے والے یا پسماندہ معاشرہ میں دائیں یا دائیں جانب مائل معاشرہ میں ظہور کرتے ہیں اور اصلاح کا کام شروع کرتے ہیں تو وہ بھول جاتے ہیں کہ ایک متعین لائحہ عمل صرف ایک محدود مدت کے لئے قابل اجراء ہوتا ہے اور معاشرہ کسی بھی نوعیت کا ہوا سے راہ عدل پر لانے کے لئے اس سے زیادہ جدوجہد کرنی پڑتی ہے جتنی کہ دوسری جانب سے اسے انحطاط و انحراف کی زاہ پر ڈالنے کے لئے کی جاتی ہے۔

ان توضیہحات کے بعد ہم زیر نظر آیت کے مفہوم کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔

پیغمبر اسلام کی رسالت تمام دوسرے انبیاء کی رسالتوں سے ان معنوں میں فرق و امتیاز رکھتی ہے کہ اس کی حیثیت قانون کی ہے کسی وقتی لائحہ عمل کی نہیں انسانیت کے لئے آپ کا لایا ہوا اساسی قانون کسی ترقی پسند یا رجعت پسندیدہ دائیں بازو یا بائیں بازو کی جانب مائل معاشرہ کے لئے مخصوص نہیں ہے۔

اسلام ایک جامع اور ہمہ گیر نظام حیات ہے جو ہر موقع و محل کے لئے کار آمد اور زندگی کے تمام جزئی طریقوں پر حاوی ہے۔انبیاء کسی ایک معاشرہ کے لئے مبعوث کئے جاتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس معاشرہ کے لئے ایک مخصوص لائحہ عمل لے کر آتے تھے۔اسلام کی آمد کے بعد علماء اور امت مسلمہ کے دینی رہنماؤں کو بھی اسی طرح کام کرنا چاہیے جس طرح انبیاء نے انجام دیا تھا لیکن علماء و مصلحین اور انبیاء کے کام کے درمیان فرق یہ ہے کہ علماء وحی اسلام کے ابدی سرچشمے سے ہدایت حاصل کرکے ایک خاص لائحہ عمل وضع کرتے ہیں اور اس کے نفاذ کی کوشش کرتے ہیں۔

قرآن دوسری آسمانی کتابوں کی وقتی اور محدود تعلیمات کی روح اپنے اند لئے ہوئے ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن خود آسمانی کتابوں کا محافظ و نگہبان قرار دیتا ہے:

( و انزلنا الیک الکتٰاب بالحق مصدقا لما بین یدیه من الکتٰب و مهیمناً علیه ) (۷)

ترجمہ:"پھر اے نبی (ص) ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب بھجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے اس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محفظ و نگہبان ہے۔"

اسلامی مخصوص سے یہ بات ثابت ہے کہ تمام انبیاء جو ایک کلی و خاتمی نبوت اور ایک اساسی قانون کے پیشرو کی حیثیت رکھتے ہیں اس بات کی پابند رہے ہیں کہ وہ اپنی اپنی امتوں کو ختم نبوت کے آخری دور میں دین کے اتمام و تکمیل کی خوشخبری دیں، اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں تمام پیغمبروں سے عہد و پیمان لیا ہے۔

نہج البلاغہ کے پہلے خطبے میں اس کا ذکر بڑی عمدگی کے ساتھ کیا گیا ہے:

ولم یخل سبحانه خلقه من نبی مرسل اور کتاب منزل اور حجه لازمه اور محجه قائمه رسل لاتقصیر بهم قله عددهم و لاکثره المکذبین لهم و سلفت الاباء خلفت الابناء الی ان بعث الله محمدا رسول الله (ص) من سابق سعی که من بعده اوغا بر بر عرفه من قبله علی ذلک نسلت القرون و مضت الدهور لانجاز عدته و تمام نبوته ماخوذا علی النبین، میثاقه، مشهور سماته کریما میلاده ۔

ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو کبھ کسی پیغمبریا کسی کتاب آسمانی یا کافی دلیل یا کسی روش طریقے سے خالی نہیں رکھا ہے، پیغمبروں کو ان کی قلت تعداد اور ان کے مخالفین کی کثرت تعداد نے کبھی ادائے فض سے نہیں روکا، ہر پیغمبر اپنے سے پہلے گزرنے والے پیغمبر سے پوری طرح متعارف رہا ہے اور خود اس کی آمد کی بشارت سابق پیغمبر کی زبانی لوگوں کو ملتی رہی ہے اسی طرح ایک نسل کے بعد دوسری نسل آتی رہی اور زمانہ گزر تا چلا گیا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق محمد (ص) کو سلسلہ نبوت کی تکمیل کے لئے بھیجا، اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے آپ کے بارہ میں پہلے ہی عہد و پیمان لے رکھا تھا۔آپ کی نشانیاں مشہور و معروف ہوچکی تھیں اور آپ کی ولادت ایک ولادت عظیم تھی۔

اس بارے میں رسول اکرم (ص) کے دو بڑے عمدہ کلمے ہم یہاں نقل کرتے ہیں:

"نحن الاخرون السابقون یوم القیامة"

"ہم تمام پیغمبروں اور امتوں کے بعد دینا میں آئے ہیں لیکن آخرت میں ہم سب سے آگے ہوں گے اور سب ہمارے پیچھے آئیں گے۔"

آپ کا ایک دوسرا ارشاد یہ ہے:

"آدم و من دونه تحت للوئ ی یوم القیامة"

"قیامت کے دن تمام پیغمبر میرے پرچم تلے ہوں گے۔"

قیامت کے دن اس پیشروی اور پس روی اور رسول اکرم (ص) کے پرچم تلے تمام انبیاء کے ہونے کا اصل سبب یہ ہے کہ تمام انبیاء رسول اکرم (ص) کی بعثت کے لئے مقدمہ ہیں تو آپ نتیجہ سابق انبیاء پر جو وحی نازل ہوئی وہ ایک وقتی لائحہ عمل کے دائرہ تک محدود تھی اور رسول اکرم (ص) پر نازل ہونے والی وحی ایک کلی و ابدی قانون اساسی کے لئے تھی۔مسلمان بزرگوں نے رسول اکر (ص) کے ان دو عمدہ کلمات اور معارف اسلامی کے اس اصولسےہدایت حاصل کرتے ہوئے کہ جو کچھ اس دنیا میں ظاہر ہوتا ہے اس دنیا کے واقعات کا ملکوتی ظہور ہے بڑی عمدہ اور دلپذیر باتیں کہی ہیں:

و انی وان کنت ابن آدم صورۃ

فلی فیہ معنی شاہد بابوتی

و کلہم عن سبق معنای دائیر

بدائیرئی او وارد من شریعتی

و ما منہم الا و قد کان داعیا

بہ قومہ للحق عن تبعیتی

و قبل فعالی دون تکلیف ظاہری

ختمت بشرعی المضحی کل شرعۃ

مولوی نے بھی یہی مضمون باندھا ہے:

ظاہراً آن شاخ اصل میوہ است

باطناً بھر ثمر شد شاخ

گر نبودی میل و امید ثمر

کی نشاندہی باغبان بیخ شجر

پس بمعنی آن شجر از میوہ زاد

گر بصورت از شجر بودش بار

مصطفیٰ زین گفت کارم و انبیاء

خلف من باشند در زیر لوا

بھر این فرمودہ است آن زد فنون

رمز نحن آلاخرون و السابقون

گر بصورت من ز آدم زادہ ام

من بعمنی جد جد افتادہ ام

پس ز من زائید در معنی پدر

پس ز میوہ زاد در معنی شجر

اول فکر آخر آمد در عمل

خاصہ فکری کو بود وصف ازل

شبستری کہتا ہے:

کی خط است از اول تابہ آخر

بر او خلق خدا جمل مسافر

در این رہ انبیاء چون سار بانند

دلیل و رہنمای کاروانند

و زیشان سید ماگشتہ سالار

ہم او اول ہم او آخر در این کا

احد درمیم احمد گشت ظاہر

دراین دور اور آمد عین آخر

ز احمد تا احد یک میم فرق است

جھانی اندرین یک میم غرق است

بر او ختم آمد پایان این راہ

بدو منزل شدہ ادعوا الی اللہ

مقام دلکشایش جمع جمع است

جمال جانفرایش شمع جمع است

شدہ اور پیش و دلہا جملہ در پی

گرفتہ دست جادہا دامن وی

قرآن کریم نے بعد میں آنے والے انبیاء (اور بدرجہ اولی خاتم انبیاء) پر سابق انبیاء کی جانب سے ایمان لانے ان کی نبوت کو تسلیم کرنے بلکہ ان کی آمد کو خوشخبری دینے کا اور ذمہ داری کا کہ وہ اپنی امت کو بھی ایسا کرنے کی ہدایت کریں اور انہیں بعد میں آنے والے انبیاء کی تعلیمات کو قبول کرنے کے لئے تیار کریں اور اسی طرح بعد میں آنے والے پیغمبروں کی جانب سے پیشرو پیغمبروں کی تائید و تصدیق کا اور اللہ تعالیٰ کا اپنے پیغمبروں سے اس خوشخبری اس تسلیم تائید تصدیق پر پختہ عہد لینے کا اس طرح ذکر کیا ہے:

( و اذ اخذ الله میثاق النبین لما اتییکم من کتاب و حکمة ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتومنن به و لتنصرنه قال اقررتم و اخذتم علی ذلکم اصی قالوآ اقررنا قال فاشهدوا وانا معکم من الشهدین ) (۸)

ترجمہ:"یاد کرو اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ"آج میں نے تمہیں کتاب اور حکمت و دانش سے نوازا ہے۔کل اگر کوئی دوسرا رسول تمہارے پاس اس تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے جو پہلے سے تمہارے پاس موجود ہے تو تم کو اس پر ایمان لانا ہوگا اس کی مدد کرنی ہوگی"یہ ارشاد فرما کہ اللہ نے پوچھا"کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو۔"انہوں نے کہا"ہاں ہم اقرار کرتے ہیں"اللہ نے فرمایا "اچھا تو گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گاوہ ہوں۔"

ن یوتوں کا ا یک رشتہ میں بندھا ہونا اور ایک نبوت کا دوسری سے مربوط ہوتے چلے جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ نبوت تکمیل کی جانب ایک تدریجی سفر ہے جس کا آخر حلقہ اس کی سب سے اونچی چوٹی ہے۔عارفین اسلام کہتے ہیں:

"الخاتم من ختم المراتب باسره ا"

عنی پیغمبر خاتم وہ ہے جس نے تمام مراحل طے کرلیے ہیںاور وحی کی رو سے کوئی ایسی راہ باقی نہیں رہ گئی ہے جسے اس نے طے نہ کیا ہو اور کوئی ایسا نکتہ باقی نہیں رہ گیا ہے جس کی اس نے وضاحت نہ کی ہو۔اگر ہم یہ فرضکر لیں کہ کسی علم سے متعلق تمام مسائل حل ہوچکے ہیں تو پھر اس شعبہ میں کسی نئی تحقیق یا کسی نئے انکشاف کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔وحی سے متعلق مسائل کا معاملہ بالکل ایسا ہی ہے۔خدا کے آخری دستور کے آجانے کے بعد کسی نئے انکشاف اور کسی نے پیغمبر کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذریعہ جو کچھ انسنا پر منکشف ہوا ہے، اسے ایک ایسے کامل ترین مکاشفہ کی حیثیت حاصل ہے جو کسی انسنا کے دائرہ امکان میں ہو سکتا ہے یہ بات واضح ہے کہ ایک ایسے مکمل مکاشفہ کے بعد دوسرا جو بھی مکاشفہ ہو گا، وہ دار اصل پہلے سے طے کردہ راہ کی ہی ایک چیز ہو گی اس کے ساتھ کوئی نئی بات نہیں ہوغی، آخری بات تو وہی ہے جو اس کامل ترین مکاشفہ میں آچکی ہے:

( و تمت کلمت ربک صدقاً و عدلاً لامبدل لکلمٰته و هو السمیع العلیم ) (۹)

ترجمہ:"تمہارے رک کی بات سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے کوئی اس کے فرامین کو تبدیل کرنے والا نہیں ہے اور وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔"

مرحوم فیض نے اپنی کتنا علم الیقین کے(۱۰) پر کسی بزرگ کا قول نقل کیا ہے:

"انسانی فطرت کا ہدف و مقصود و قرب الٰہی کے مقام تک پہنچنا ہے اور پیغمبروں کی رہنمائی کے بغیر ممکن نہیںہے۔اس اعتبار سے نبوت نظام زندگی کا ایک حصہ قرار پاتی ہے لیکن اس کا مقصود اور ہدف سب سے اونچا مرتبہ اور نبوت کا آخری درجہ ہے نہ کہ نبوت کا اولین درجہ، سنت الٰہی کے مطابق نبوت بتدریج درجہ کمال تک پہنچتی ہے جیسے کہ ایک عمارت بتدریج مکمل ہوتی ہے۔عمارت کی تعمیر کا ہدف اس کے پایے اور دیواریں نہیں ایک مکمل مکان ہوتا ہے، نبوت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے نبوت کا ہدف اس کی تکامل صورت ہے یہی وجہ ہے کہ نبوت کا سلسلہ ایک جگہ پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے اور مکلم ہو جاتا ہے۔

وہ مزید کسی اضافے کو قبول نہیں کرتا کیونکہ تکمیل کے بعد کوئی اضافہ و کمال کے منافی ہو تا ہے اور اس کی حیثیت ایک زائد انگلی کی سی ہو جاتی ہے، پیغمبر اکرم (ص) کی معروف حدیث میں اس جانب اشارہ کیا گیا ہے، آپ نے فرمیا نبوت ایک مکان کی مانند ہے جو تیار ہو چکا ہے لیکن اس کے مکمل ہو ے میں سرف ایک اینٹ کی جگہ باقی رہ گئی ہے اس جگہ کو میں ہی بھرنے والا ہوں یا میں ہی اس آخری اینٹ کی جگہ باقی رہ گئی ہے اس جگہ کو میں ہی بھرنے والا ہوں یا میں ہی اس آخری اینٹ کا نصب کرنے والا ہوں!

ہم نے گذشتہ صفحات میں جو کچھ لکھا ہے، وہ عقیدہ ختم نبوت کے پس منظراور اس کی بنیادون کی جانب رہنمائی کے لیے کافی ہے۔

یہ بات واضح ہوگئی کہ انسانی فطرت میں دین کی طلب وہ بنیاد ہے جس پر عقیدہختم نبوت استوار ہوتا ہے تمام انسانوں کی فطرت ایک ہے، تکمیل انسانیت کا سفر ایک با مقصد سفر ہے جو ایک متعین اور سیدھے راستہ جاری ہے ۔اس اعتبار سے دین حق، جو فطرت کے تقاضوں کی وضاحت کرتا ہے اور انسان کی راہ راست کی جانب رہنمائی کرتا ہے، صرف ایک ہی ہوسکتا ہے ۔ایک طریق زندگی جو انسانی فطرت کے مطابق ہو، جامع اور کلی ہو اور ہر طرح کی تبدیلی و تحریف سے محفوظ ہو اور جو مسائل کی اچھی طرح تشخیص کر سکے اور جسے اچھی طرح منطبق کیا جاسکے اور عمل و نفاذ کے مرحلے میں ہمیشہ رہنمائی کرسکے اور حالات کے مطابق مختلف طریقوں لائحہ عمل اور بے شمار جزئی قوانین کے لئے سرچشمہ ثابت ہوسکے انسانی فطرت کا ایک اہم تقاضا اور انسان کی ایک بنیادی ضرورت ہے آئدہ مضامین اس پہلو کو بہتر طریقے پر واضح کریں گے ۔

اب ہم ان سوالات کا جواب تلاش کرتے ہیں جن کی طرف ابتدا میں اشارہ کیا گیا تھا۔

آسمانی دروازے

پہلا سوال جس کے سبب ختم نبوت کا عقیدہ وجود میں آیا وہ عالم غیب اور انسان کے درمیان رابطے سے تعلق رکھتا ہے وہ سوال یہ ہے کہ سب سے پہلے دور کے انسان نے اپنی جہالت اور بے علمی کے باوجود وحی و الہٰام کے راستے سے عالم غیب کے ساتھ کس طرح رابطہ پیدا کرلیا اور اس پر آسمان کے دروازے کیسے کھل گئے؟ جبکہ ترقی یافتہ بعد کا انسان اس رحمت سے محروم رہا اور اس پر آسمان کے دروازے بند ہوگئے۔

کیا فی الواقع انسان کی روحانی اور باطنی صلاحیتیں کم ہوگئی ہیں اور وہ اس اعتبار سے تنزل میں چلا گیا ہے۔

یہ شبہ اس خیال سے پیدا ہوا ہے کہ عالم غیب کے ساتھ معنوی ربط و تعلق انبیاء کے ساتھ مخصوص ہے اس لئے سلسلہ نبوت کے منقطع ہونے کا لازمی نتیجہ عالم غیب اور عالم انسانی کے درمیان روحانی اور معنوی رابطے کے انقطاع کی صورت میں ظاہر ہوگا۔

لیکن یہ خیال اپنی کوئی بنیاد نہیں رکھتا۔قرآن کریم بھی غیب اور ملکوت کے ساتھ اتصال کے درمیان اور مقام نبوت کے درمیان لازم و ملزوم کے تعلق کا قائل نہیں ہے جیسا کہ خرق عادت کو وہ پیغمبری کی واحد دلیل تسلیم نہیں کرتا، قرآن کریم ایسے اشخاص کا بھی ذکر کرتا ہے کہ ان کی معنوی زندگی ایسی طاقت سے بہرہ مند رہی ہے کہ انہوں نے فرشتوں کے ساتھ ہمکلامی کی ہے اور ان سے خارق العادت (غیر معمولی) امور انجام پائے ہیں حالانکہ وہ اشخاص نبی نہیں تھے۔اس کی بہترین مثال عمران کی بیٹی، عیسی مسیح (ع) کی ماں مریم ہے۔قرآن نے ان کے بارے میں حیرت انگیز واقعات کا ذکر کیا ہے۔قرآن موسیٰ (ع) کی والدہ کے بارے میں بھی کہتا ہے ہم نے اس کی طرف وحی بھیجی کہ موسیٰ (ع) کو دودہ پلائے اور جب اسے موسیٰ (ع) کے بارے میں کسی خوف کا احساس ہوا تو اسے دریا میں بہادے ہم اسے محفوظ رکھ کر تیری طرف واپس لوٹا دیں گے ہمیں معلوم ہے کہ عیسیٰ (ع) کی ماں پیغمبر تھیں اور نہ موسیٰ (ع) کی والدہ۔

حقیقت یہ ہے کہ ملکوتی حقائق کے غیب و شہود کے ساتھ اتصال، آواز غیبی کا سننا اور بالاخر غیب سے خبر کا پانا نبوت نہیں ہے، نبوت پیغام کا لانا ہے ہر دو شخص جسے غیب کی خبر مل جائے پیغام کا لانے والا نہیں ہوتا۔

قرآن اشراق اور الہٰام کا درازہ ان تمام لوگوں پر کھلتا ہے جو اپنے باطن کو پاک کرلیتے ہیں:

( ان تتقوا الله یجعل لکم فرقاناً ) (۱۱)

ترجمہ:"اگر تم خدا ترسی اختیار کرو گے تو اللہ تمہارے لئے کسوئی بہم پہنچادے گا۔"

( والذین جاهد و افینا لنهدینهم سبلنا ) (۱۲)

ترجمہ:جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے رستے دکھائیں گے۔

اسی فلسفہ کے نقطہ نظر سے معنوی اور عرفانی زندگی زندگی کا ایک نمونہ پیش کرنے کے لئے نہج البلاغہ کے ایک خطبہ کچھ حصہ یہاں نقل کرنا کافی ہوگا۔

نہج البلاغہ کے خطبہ ۲۲۰ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔

"ان الله تعال یٰ جعل الذکر جلاء للقوب تسمع به بعد الوقر ة و تبصربه بعد العشو ة و تنقادبه بعد المعاند ة و ما برح لله عزت آلائ ه ف ی البرهة بعد البرهة و فی ازمان الفترات عبادنا جاه م ف ی فکر ه م و کلم ه م ف ی ذات عقوله م"

ترجمہ:"اللہ تعالیٰ نے اپنی یاد کو دلوں کا صیقل قرار دیا ہے۔دل بہرے ہوجانے کے بعد بھی اس ذکر کے ذریعہ سننے والے اور اندھے ہوجانے کے بعد دیکھنے والے اور سرکشی و عناد کی راہ پر چل پڑنے کے بعد بھی مطیع و فرمانبردار ہو جاتے ہیں۔ہمیشہ ایسا ہوتا رہا ہے اور آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ زمانے کے ہر ایک حصے میں اور ان زمانوں میں جبکہ لوگوں کے درمیان کوئی پیغمبر موجود نہ ہو اللہ تعالیٰ کے ایسے بنے موجود رہے ہیں آج بھیء موجود ہیں جن کے دلوں میں وہ کوئی راز کی بات ڈالتا رہا ہے اور ان کی عقلوں کی راہ سے ان کے ساتھ بات کرتا ہے۔"

رسول اکرم (ص) سے روایت ہے:

( ان لله عباداً لیسوا بانبیاء یغبط هم النبوة )

"اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے بھی موجود ہیں کہ وہ پیغمبر نہیں ہیں لیکن نبوت ان پر رشک کرتی ہے۔"

شیعہ ائمہ اطہار (ع) کی باطنی ولایت و امامت کے قائل ہیں جبکہ وہ انہیں نبی نہیں سمجھتے۔اس سے بات بالکل واضح ہوجاتی ہے۔

عارفین اسلام نے عرفانی اصطلاحات میں معنی سیرو سلوک کے مراتب کو چار مرحلوں میں تقسیم کیا ہے ہم طول کلام سے بچنے کے لئے اس کے صرف دو مرحلوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

الف) سفر از خلق بہ حق (مخلوق کی طرف سے خالق کی جانب سفر)

ب) سفر حقبہ خلق (خالق کی طرف سے مخلوق کی جانب سفر)

مخلوق کی جانب سے خلاق کی طرف سفر پیغمبروں کے لئے مخصوص نہیں ہے۔پیغمبر تو معبوث ہی اسی لئے ہوئے ہیں کہ اس سفر میں انسان کی مدد کریں، جو کچھ پیغمبروں کے لئے مخصوص ہے، وہ خالق کی جانب سے مخلوق کی جانب سفر ہے یعنی وہ مخلوق کی دستگیری اور ارشاد ہدایت پرمامور ہیں اس سے مراد پیغمبر کی کثرت کی جانب واپسی ہے تا کہ اسے وحدت کی راہ دکھا سکے۔

صدر المتالھین(۱۳) پر لکھتے ہیں:

"وحی یعنی پیغمبری اور منصب نبوت کے لئے قلب و سماعت پر فرشتے کا نزول منقطع ہو چکا ہے اور اب کسی شخص پر کوئی فرشتہ نازل مہیں ہوگا اور اسے کسی فرمان الٰہی کے جاری کرنے پر مامور نہیں کیا جائے گا، کیونکہ "اکلمت لکم دینکم" کے حکم کے تحت جو کچھ وحی کے راستے انسان تک پہنچتا تھا وہ پہنچ چکا ہے لیکن الہام و اشراق کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوا ہے اور نہ آئند ہوگا اس راہ کا مسدوء ہونا ممکن نہیں۔"

اس سلسلے میں پہلے بہت کچھ کہا جا چکا ہے اس کا نقل مرنا موجب ظوالت ہوگا۔ہمارے زمانے کے دانشمندوں میں سے عالمہ اقبال نے ایک بڑی لطیف بات کہی ہے۔اقبال نے نبی اور عارف کے درمیان (ان کے قول کے مطابق مرد باطنی) فرق کو اس طرح واضح کیا ہے۔

ایک مرد عارف تجرنہ اتحادی (وصول بہ حق) سے حاصل کرنے والے اطمینان و سکون کے بعد حیات دنیوی کی جانب واپسی کو پسند نہیں کرتا۔اگر وہ ضرورت کی بنا پر واپس بھی آتا ہے تو انسانیت کے لئے اس کی واپسی چنداں سودمند نہیں ہوتی لیکن خلق کی طرف پیغمبر کی واپسی ثمر بخش اور تخلیقی پہلو کی حامل ہوتی ہے۔پیغمبر واپس آتا ہے اور وقت کے دھارے میں اتر جاتا ہے تاکہ تاریخ کے دھارے کو قابو میں لائے اور اس طرح کمال مقاصد سے ایک جہاں تازہ پیدا کرے۔ایک مرد عارف کے لیے تجربہ اتحادی (وصول بہ حق) سے حاصل ہونے والا سکون ایک انتہائی مرحلہ ہے اور پیغمبر کے لئے اس کی روحانی قوت کا بیدار ہونا ہے جو ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔یہ قوت ایک ایسے اندازے کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے کہ عالم انسانی میں ایک مکمل انقلاب برپا کردیتی ہے پیغمبری کو ایک ایسی باطنی خود آگاہی رکھنے والی نوع سے تعبیر کیا جاسکتا ہے کی اس میں تجربہ اتحادی (وصول بہ حق) اپنی حدود سے باہر نکلنے کے قریب پہنچ جاتا ہے اور ایسے مواقع کی تلاش میں ہوتا ہے کہ اجتماعی زندگی کی طاقتوں کو از سر نو توجیہ کرے یا انہیں ایک تازہ شکل دے!

پس انقطاع نبوت سے مراد ارشاد و ہدایتر کے لیے خدا کی طرف سے ماموریت کا منقطع ہونا ہے۔خدا کی طرف سفر کرنے والوں اور سالکوں کے لیے معنوی فیض کا منقطع ہونا نہیں۔

اگر ہم نے یہ گمان کیا کہ اسلام نے نبوت کے اعلان کے ساتھ معنوی زندگی کی بھی نفی کردی ہے تو ہم سخت غلطی کریں گے۔

نبوت تبلیغی

دوسرا سوال یہ ہے کہ پیغمبران کرام بحثییت مجموعی دو بڑی ذمہ داریوں کو پورا کرتے رہے ہیں۔وہ خدا کی طرف سے انسان کے لیے قانون اور دستور العمل لاتے رہے ہیں وہ دوسرے یہ کہ وہ لوگوں کو خدا کی طرف بلانے کے ساتھ انہیں اس دور اور زمانے کے الٰہی دستور العمل پر کاربند ہونے کی دعوت دیتے رہے ہیں۔پیغمبروں کی اکثریت اسی دوسرے فریضے کے انجام دینے پر مامور رہی ہے۔ایسے پیغمبروں کی تعداد بہت کم ہے جن کو قرآن اولوالعزم قرار دیتا ہے اور جن کے ذریعے قانون اور دستور العمل بھیجا گیا ہے۔اس اعتبار سے نبوتیں دو قسم کی رہی ہیں ایک نبوت تشریعی اور دوسری نبوت تبلیغی تشر یعی پیغبر جن کی تعداد بہت تھوڑی ہے وہ صاحب شریعت و قانون انبیاء کہلاتے ہیں جبکہ تبلیغی پیغمبروں کا کام صاحب شریعت پیغمبروں کی تعلیمات کو عام کرنا اور ان ہی کے مطابق تعلیم و ارشاد کا کام انجام دینا رہا ہے۔اسلام نے ختم نبوت کا اعلان کرکے نہ صرف تشریعی نبوت بلکہ تبلیغی نبوت کے سلسلے کوبھی ختم کردیا ہے۔آخر ایسا کیوں کیا گیا؟ امت محمد (ص) اور ملت اسلامیہکو پیغمبروں کے ہدایت و ارشاد کے اس سلسلے سے کیوں محروم کیا گیا؟

بلفرض ہم نے یہ بات تسلیم کرلی کہ تکمیل اتمام اور جامعیت و کلیت کی بنا پر تسریعی نبوت کا سلسلہ منقطع کردیا گیا لیکن تبلیغی نبوت کے سلسلے کو کس حکمت و فلسفے کی بنا پر ختم کیا گیا؟

حقیقت یہ ہے کہ نبوت اور ہدایت وحی کی اصل ذمہ داری یعنی وہی پہلی ذمہ داری (تشریعی) ہے جبکہ تبلیغ تعلیم اور دعوت کی ذمہ داری (تبلیغی) نصف بشری ہے تو نصف الٰہی۔

وحی اور نبوت یعنی عالم وجود کی بنیادوں سے ایک پوشیدہ اتصال اور رابطہ اور مخلوق کی ہدایت کے لیے اس کی ماموریت در اصل مظاہر ہدایت کا ایک مظہر ہے جو سارے عالم وجود پر حکم فرما ہے۔

( الذی خلق فسویٰ والذی قدر فهدیٰ ) (۱۴)

ترجمہ:"جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دکھائی۔"

موجودات زندگی کی سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے اس درجہ کمال کی مناسبت سے جس پر وہ پہنچ جاتے ہیں ہدایت خاص سے پہرہ مند ہوتے ہیں یعنی ہدایت کی شکل اور خصوصیت زندگی کے مختلف مراحل کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے۔تمام دانشور اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ حیوانات اپنی ساخت کے وسائل طبیعی کے اعتبار سے ضعیف تر اور ناتوان تر ہیں لیکن وہ پوشیدہ جبلی رہنمائی کے اعتبار سے قوی تر ہوتے ہیں انہیں فطرت کی ایک مستقل سر پرستی اور حمایت حاصل رہتی ہے۔وہ جس قدر طبعی وسائل اور عقلی وہمی خیالی اور حسی طاقتوں سے لیس ہوتے چلے جاتے ہیں وجود کی سیڑھی پر ان کے قدم بلندی کی جانب اٹھتے چلے جاتے ہیں۔ان کی جبلی ہدایت میں کمی آنے لگتی ہے۔ٹھیک اس بچہ کی طرح جو کمسنی کے ابتدائی مراحل میں ماں باپ اور دوسرے اشخاص کی مستقل سر پرستی اور نگرانی سے بہرہور رہتا ہے اور جس قدر وہ رشد و بلوغ حاصل کرتا جاتا ہے والدین کی مستقل نگرانی و سرپرستی کے دائرے سے باہر نکتا چلا جاتا ہے۔

جاندار مخلوقات کا زندگی کی سیڑھیوں پر چڑھ کر بلند ہونا اور ان کا عقلی وہمی خیالی حسی اور عضوی وسائل سے لیس ہونا ان کے استحکام و استقلال کو بڑھانا ہے اور اس اعتبار سے ان کی جبلی ہدایت کم ہوجاتی ہے۔

کہا جاتا ہے کیڑے دوسرے تمام حیوانات کی بہ نسبت جبلی ہدایت سے زیادہ لیس ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تکمیلی مراحل کے اعتبار سے سب سے نچلے درجہ میں ہیں اور انسان جو تکمیل کی سیڑھی کے سب سے اونچے پلہ پر پہنچا ہوا ہے تمام مخلوقات کی بہ نسبت جبلی ہدایت میں کمزور تر ہے۔

وحی ہدایت کے عالی ترین اور بلند ترین مراتب و مظہر میں سے ایک ہے۔وہ اپنے اندر ایک ایسی رہنمائی رکھتی ہے جو حس خیال عقل علم اور فلسفہ کی دسترس سے باہر ہے ان میں سے کوئی چیز وحی کی جگہ نہیں لے سکتی لیکن وحی تشریعی ہی اس خصوصیت کی حامل ہے وحی تبلیغی نہیں وحی تبلیغی کا معاملہ دوسرا ہے۔

انسان اس وقت تک تبلیغی وحی کا محتاج رہتا ہے جب تک اس کی عقل علم اور تمدن کا فرجہ اس مقام تک بلند نہیں ہو جاتا کہ وہ خود اپنے دین کے بارے میں دعوت تعلیم تبلیغ تفسیر اور اجتہاد کا فرض انجام دے سکے علم اور عقل کا ظہور دوسرے الفاظ میں انسانیت کا رشد و بلوغ خود وحی تبلیغی کو ختم کر دیتا ہے اور علماء ان انبیاء کے جانشین قرار پاتے ہیں۔

جیسا کہ ہمیں معلوم ہے قرآن نے اپنی نازل ہونے والی پہلی آیت میں پڑھنے لکھنے کی اور قلم وعلم کی بات کی ہے۔

( اقرا باسم ربک الذی خلق؛ خلق الانسان من علق؛ اقراء و ربک الاکرم؛ الذی علم بالقلم؛ علم الانسان مالم یعلم ) (۱۵)

ترجمہ: "پڑھو (اپنے نبی) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا جمے ہوئے خون کے ایک لو تھڑے سے انسان کی تخلیق کی پڑھو اور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا۔انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔"

یہ آیت اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ قرآن کا عہد پڑھنے لکھنے سکھانے کا اور علم و عقل کا عہد ہے۔یہ آیت ہمیں اشار تا بتاتی ہے کہ قرآن کے اس دور میں تعلیم تبلیغ اور آسمانی آیات کی حفاظت کی ذمہ داری علماء کی طرف منتقل کردی گئی ہے اور علماء اس اعتبار سے انبیاء کے جانشین قرار پاتے ہیں۔اس آیت نے اس عہد میں بشریت کے استقلال اور بلوغ کا اعلان کیا ہے۔ قرآن نے اپنی تمام آیات میں تدبر عقلی استدلال فطرت کے تجرباتی و عینی مشاہدہ تاریخ کے مطالعہ اور گہرے غور و فکر کی دعوت دیتا ہے یہ سب ختم نبوت کی اور وحی تبلیغی کی جگہ علم و عقل کے جانشین ہونے کی نشانیاں ہیں۔

قرآن کے لیے جس قدر کام ہوچکا ہے کیا کسی دوسری آسمانی کتاب کے لیے اس قدر کام انجام دیا گیا ہے؟ نزول قرآن کے ساتھ ہی قرآن کے ہزاروں حافظ پیدا ہوگئے۔نزول قرآن کو ابھی نصف صدی بھی نہیں گزری تھی کہ علوم قرآنی کی خاطر نحو وصرف قواعد زبان اور عربی زبان کی لغات کی تیاری کا کام شروع ہوچکا تھا۔معانی بیان اور بدایع کا علم ایجاد ہوا ہزاروں تفسیریں اور ان کے مفسرین تفسیر قرآن کی درسگاہیں وجود میں آگئیں۔قرآن کے لفظ لفظ کے بارے میں تحقیق کا کام ہونے لگا اس کام زیادہ حصہ ان لوگوں کے ہاتھوں انجام پاتا رہا جن کی مادری زبان عربی نہیں ہے۔ صرف یہ قرآن سے متعلق خاطر ہی رہی ہے جس نے اس قدر جوش و جذبہ پیدا کردیا۔یہ ساری سرگرمیاں آخر توریت انجیل اور اوستا کے لیے کیوں ظاہر نہیں ہوئیں کیا خود یہ بات بشریت کے رشد و بلوغ اور کتاب آسمانی کی تبلیغ و حفاظت اس کی صلاحیت پر دلالت نہیں کرتی؟ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیںہے کہ عقل و دانش نبوت تبلیغی کی جانشین بن گئی ہے۔

انسان اپنے ابتدائی دور میں مکتب کے اس کمسن بچے کی طرح تھا جو چند روز بعد ہی اپنی کتاب کو پھاڑ کرپھینک دیتا ہے اس کے بر عکس عہد اسلامی کا انسان ایک بزرگ عالم کی طرح ہے کہ وہ جس قدر اپنی کتابوں کا بار بار مطالعہ کرتا ہے اسی قدر ان کے مضمین اسے یاد ہوتے چلے جاتے ہیں اور وہ ان کی گہرائی میں اتر تا چلا جاتا ہے۔

انسانی زندگی کو بالعموم عہد تاریخ اور تاریخ سے پہلے کے عہد کے دو ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔تاریخ کا عہد اس دور کو کہا جاتا ہے جس میں انسان اپنی یادداشتوں کو کتبوں اور کتابوں کی صورت میں محفوظ کرنے کے قابل ہوگیا تھا اس دور کی زندگی کے بارے میں ان ہی یادداشتوں کو فیصلہ کن قرار دیا جاتا ہے لیکن ما قبل تاریخ کے عہد کے ایسے کوئی آثار موجود نہیں ہیں جو اس زمانے کی زندگی کے بارے میں فیصلے کی بنیاد بن سکیں۔

لیکن ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ عہد تاریخ کے آثار بھی زیادہ تر پراگندہ اور منتشر ہیں، البتہ اس عہد کا وہ آخری حصہ ظہور اسلام کے دور سے پوری طرح متصل ہے جس میں انسان نے پانی تاریخ اور آثار کو منظم طریقے پر نسل بہ نسل منتقل کرنا شروع کردیا تھا خود اسلام کو اس رشد عقلی کا ایک بڑا عامل سمجھا جاتا ہے۔عہد اسلامی میں مسلمانوں نے خود اپنے آثار کی حفاظت و نگہداشت کا کام شروع کردیا تھا۔اس کے ساتھ مسلمانوں نے پچھلی قوموں کے آثار کی بھی کم و بیش حفاظت کی اور انہیں بعد کی نسلوں کی طرف منتقل کرتے رہے۔یہ ختم نبوت کا قریبی زمانہ ہی ہے کہ جس میں انسان نے اپنے علمی اور دینی ورثوں کی کی حفاظت کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔امر واقع یہ ہے کہ حقیقی عہد تاریخ ظہور اسلام کے عہد سے بالکل متصل ہے، گذشتہ ادوار میں ایک طرف نفیس علمی، فلسفی، اور دینی آثار ہوا اور دوسری طرف یہ آثار آب و آتش کے نذر بھی ہوتے رہے، تاریخ میں اس کی دردناک تفصیلات پوری طرح محفوظ ہیں۔

اسکندریہ کا عظیم مشرق روم کی شہنشاہیت پر مسیحیت کے اثر و رسوخ کے بعد تباہ ہو گیا اور اس مرکز تاریخی کتب خانہ متعصب عیسائیوں کے ہاتھوں نزر آتش ہو گیا!

علم کے ظہور اور ترقی کے ایک ایسے درجے تک انسان کی رسائی نے کہ وہ دین آسمانی کا محافظ، داعی اور مبلغ بن سکے، نبوت تبلیغی کی ضرورت باقی رہنے نہ دی اور اس کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اس امت کے علماء کو انبیاء بنی اسرائیل کی مانند کہا ہے۔

علامہ اقبال نے ایک بڑی عمدہ بات کہی ہے۔

"پیغمبر اسلام دنیائے قدیم جدید کے درمیان کھڑے ہیں۔الہام کے سرچشمے سے جب آپ کا رشتہ جوڑا جاتا ہے تو دنیائے قدیم سے آپ کا تعلق پیدا ہو جاتا ہے اور جب روح الہام کو بروئے کار لایا جاتا ہے تو دنیائے جدید سے آپ کا ربط ہو جاتا ہے۔زندگی نے آپ کی ذات میں معرفت کے وہ دوسرے سرچشمے دریافت کر لئے ہیں جو اس (زندگی) کے نئے سفر کے لیے موزون ہیں۔اسلام کا ظہور در اصل استدلالی اور استقرائی عقل کا وجود میں آنا ہے۔ظہور اسلام کے ساتھ رسالت، خود نبوت کے اختتام پذیر ہونے کی ضرورت کے نتیجے میں، حد کمال کو پہنچ جاتی ہے جس سے لازما یہ دانش مندانہ نتیجہ نکلتا ہے کہ زندگی ہمیشہ، کمسنی کے مرحلے میں اور باہر سے رہنمائی کی محتاج نہیں رہ سکتی۔اسلام میں کاہنی (فالگیر) اور موروثی سلطنت کی نفی اور قرآن میں عقل اور تجربہ پر دائمی توجہ اور اس کتاب مبین کا فطرت اور تاریخ کو معرفت بشری کے سرچشموں کی حیچیت دنیا در اصل ختم نبوت کے واحد عقیدے کے مختلف خدوخال ہیں۔عقیدہ ختم نبوت کے یہ معنے نہیں لینے چاہیں کہ زندگی کی انتہائی سرنوشت یہ ہے کہ عقل کامل جزبات و احساسات کی جگہ حاصل کرلے، یہ بات نہ ممکن ہے اور نہ مطلوب"

اسلام نے اعلان ختم نبوت کے ضمن میں اپنی ابدیت کا اعلان کیا ہے:"حلال محمّدٍ حلال الی یوم القیامه و حرام محمد حرام الی یوم القیامة"

ترجمہ: "محمد کا حلال کیا ہوا قیامت تک حلال ہے اور محمد (ص) کا حرام کیا ہوا قیامت تک حرام ہے"

سوالات اور اعتراضات کی ساری بوچھاڑ اسی موضوع سے ہے کہا جاتا ہے کیا کسی چیز کے لیے ہمیشگی ممکن ہے؟

دنیا میں ہر چیز فانی ہے، اس دنیا کی اصل بنیاد تغیر ہے، دنیا میں سرف ایک ہی چیز جاودانی ہے اور وہ یہ کہ کسی چیز کو ہمیشگی حاصل نہیں۔

ہمیشگی اور ابدیت کے منکر کبھی اپنی باتوں کو فلسفہ کا رنگ دے دیتے ہیں اور دلیل میں تغیر و تبدل کے اس قانون کو پیش کرتے ہیں جو فطرت کا ایک مجموعی قانون ہے۔

اگر ہم مسئلے پر اس نقطہ نظر سے غور کریں تو اعتراض کا واضح جواب مل جاتا ہے کہ وہ چیز جو ہمیشہ تغٰر و تبدل سے دوچار رہتی ہے وہ مادہ اور دنیا کی مادی ترکیبات ہیں لیکن قوانین اور نظامات خواہ وہ طبیعی نظامات ہوں یا وہ اجتماعی نظامات جو طبیعی اصولوں سے ہم آہنگ ہوں اس قانون تغیر و تبدل کے تحت نہیں آتے، ستارے اور شمسی نظامات ظاہر ہوتے ہیں اور چند دنوں بعد فرسودہ اور فانی ہو جاتے ہیں لیکن قانون کشش اپنی جگہ رہنا ہے، نباتات اور حیوانات وجود میں آتے ہیں اور فنا ہو جاتے ہیں لیکن قوانین حیات باقی رہتے ہیں۔

ہی حال انسانوں اور ان کی زندگی کے قابون کا ہے، انسان جن میں پیغمبر بھی شامل ہے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں لیکن پیغمبر کا لایا ہوا آسمانی قانونزندہ اور تابندہ رہتا ہے ۔

مصطفیٰ را وعدہ داد الطاف حق

گر بمیری تو نمیرد این سبق

مظاہر فطرت تغیر پذیر ہیں قوانین فطرت کو تغیر نہیں، اسلام قانون ہے نہ کہ مطاہر کائنات سے ایک مظہراسلام اسی صورت مین مردہ ہو سکتا ہے کہ وہ قوانین فطرت سے ہم آہنگ نہ ہو لیکن جب اسلام کا اپنا دعویٰ ہے کہ وہ فطرت اور انسانی سرشت سے اور اس کے معاشرے سے تازگی اور قوت حاصل کرتا ہے اور قوانین فطرت سے ہم آہنگ ہے تو آخر وہ کس طرح ہو سکتا ہے؟

کبھی اجتماعیت کے پہلو سے اعتراض کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اجتماعی ضوابط اجتماعی تقاضوں کی بنیاد پر وضع کئے جاتے ہیں، جب معاشرہ کی ضروریات قوانین اجتماعی کی بنیاد ہیں تو ان کا عوامیل تمدن کی توسیع و تکمیل کے ساتھ ساتھ متغییر ہونا بھی ضروری ہے ہر زمانے کی ضروریات دوسرے زمانے کی ضروریات سے مختلف ہوتی ہیں، میزائیل طیاروں بجلی اور ٹیلی ویژن کے اس جدید دور کی ضروریات گھوڑوں، خچرون اور اونٹون کی پرانے کی ضروریات سے قطعی مختلف ہون گی، یہ کس طرح ممکن ہے کہ اس جدید دور کے لیے بھی وہی ضوابط نافذ ہوں جو پرانے زمانے میں رائج تھے، دوسرے الفاظ میں عوامل تمدن کے اندر ترقی و توسیع لازمانئے تقاضے پیدا کرے گی، اس لیے جبر تاریخ کا راستہ روکنا اور زمانہ کے ایک ہی حال پر رکھنا ممکن نہیں ہے اور زمانے کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگی اختیار کرنا بھی ممکن نہیں ہے، جامد اور یکساں ضوابط کا پابند رہنا مقتضیات زمانہ کے ساتھ مطابقت اور لچک پیدا کرنے اور تمدن کے قافل کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

بے شک اہم ترین مسئلہ ہے، ہماری نئی نسل بجز تغیر و تبدل اور وجدت طلبی اور زمانے کے نئے نئے تقاضوں کے کچھ نہیں سوچتی، نئی نسل کا سامنا کرتے بھی جو بات سب سے پہلے کانون تک پہنچتی ہے وہ یہی ہے، اس نسل کی انتہا پسندوں کے نقطہ نظر سے مذہب اور نو طلبی دو متضاد وجود ہیں، نو طلبی کی خاصیت حرکت اور ماضٰ سے منہ موڑنا ہے جبکہ مذہب کی خاصیت جمود سکون، ماضی سے وابستگی اور موجودہ وضع کی حفاظت کرنا ہے۔

اسلام کو دسرے ہر مذہب سے زیادہ اس طرز فکر کے حامل گروہ سے مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے، اسلام کا ابدیت و ہمیشگی کا دعوی اس گروہ کے لیے بڑا نا قابل برادشت ہے، اسلام زندگی کے تمام شعبون میں عمل دخل رکھتا ہے، خدا اور بندے کے درمیان تعلق سے لے کر افراد کے اجتماعی روابط، خاندانی روابط، فرد اور اجتماع کے روابط انسنا اور اس دنیا کے با ہمی روابط سب ہی سے وہ بحث کرتا ہے، اگر اسلام دوسرے مذاہب کی طرح چند رسلم عبادات اور خشک اخلاقی ضوابط تک محدود ہوتا تو پھر اس کے لیے کوئی دشواری نہ تھی لیکن وہ اس قدر مدنی، فوجداری، دیوانی، سیاسی، اجتماعی اور خاندانی قوانین و ضوابط رکھتے ہوئے کیا کر سکتا ہے؟

ہم نے اوپر جو اعتراض نقل کیا ہے اس میں جبر تاریخ ضروریات میں تغیر مقضیات زمانہ کی رعایت جیسے نکات کو اٹھا یا گیا ہے اس لیے اعتراض کے ان تین اصل نکات پر مختصراً، بحث کرنا ضروری ہے، اس کے بعد اسلام کے نقطہ نظر سے ہم اس اعتراض کو رفع کرنے کی کوشش کریں گے، ان محدود صفحات مین بحث کے تمام پہلووں کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے، ایک ایسا مسئلہ جو فلسفہ، فقہ، تاریخ اور اجتماعیات سب ہی سے متعلق ہے ایک ضخیم کتاب کی وسعت چاہتا ہے جسے برسون کے مطالعہ کا حاسل قرار دیا جا سکے تا ہم توقع ہے کہ یہ مختسر مقالہ اس اشکال کے رفع کرنے میں مدد دے گا۔

جبر تاریخ

یہ کلمہ و اجزاء سے مرکب ہے ۔جبر اور تاریخ جبر کا مطلب کسی چیز کا حتمی اور یقینی ہونا ہے فلاسفہ کی اصطلاح میں اسے ضرورت اور وجوب کہا جاتا ہے مثلا :جب ہم ۵ *۵ کہتے ہیں تو یہ ضرب کھانے والے دونوں اعداد ضرورتا اور جبرا ۲۵ کے مساوی ہوں گے یعنی حتما ایسا ہی ہے اس کے خلاف ہونا ممکن نہیں ہے ۔یہ بات ظاہر ہے کہ جبر کا لفظ اصطلاحا ایک فلسفیانہ مفہوم رکھتا ہے ۔اس سے ہٹ کر جبر کا مفہوم حقوقی فقہی اور عرفی ہے یعنی یہ لفظ اکراہ اور جبریہ ارمال کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۵ *۵ اپنی ذاتی ساخت کی بناء پر ۲۵ کے مساوی ہے یہ کسی جبری قوت اور جبریہ عمل کی وجہ سے نہیں ہے لیکن تاریخ، تاریخ یعنی حادثات کا مجموعہ جو انسان کی سرگذشت کو تشکیل دیتا ہے ۔انسانی سرگذشت ایک راستہ طے کرتی ہے کچھہ ایسی طاقتیں کار فرما ہیں جو اسے حرکت میں لاتی ہیں اور اسے قابو میں رکھتی ہیں جیسے ایک دستی پہیہ یا ایک کارخانہ جسے ہاتھہ یا بھاپ کی طاقت سے چلایا جاتاہے ۔تاریخ کو بھی کچھہ عوامل اور طاقتیں حرکت میں رکھتی ہیں ۔اسے گردش میں لاتی ہیں اور آگے بڑھاتی ہیں ۔اس اعتبار سے جبر تاریخ، کا مطلب سرگذشت بشر کا حتمی اور پایبند ہونا ہے، جب ہم یہ کہتے ہیں کہ تاریخ کی حرکت کی حرکت جبری ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان کی اجتماعی زندگی میں کچھہ ایسے طاقتور عوامل ہیں جو اپنے قطعی اچرات رکھتے ہیں ۔ان سے بچنا ممکن نہیں ان عوامل کی تاثیر یقینی اور حتمی ہوتی ہے ۔

جبر تاریخ، کے کلمے نے ہمارے اس دور میں بڑی قدر و قیمت حاصل کر لی ہے یہ کلمہ موجودہ زمانے میں وہی کردار ادا کررہا ہے جو اس نے ماضی میں قضا و قدر کے پردہ میں ادا کیا تھا۔حوادث زمانہ کے آگے سپرڈال دینا اور اپنے غلطیوں کے عذر تراشنا اس کا مدعا ہے ۔

یہ ایک شیر خونخوار ہے کہ اس کے مقابل تسلیم و رضا کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ماضی میں اس کا نام قضا و قدر تھا اور موجودہ دور میں اسے جبر تاریخ کہا جاتا ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ نقضا و قدر اور جبر تاریخ دونوں کلمہ صحیح فلسفیانہ مفہوم کے ھامل ہیں ۔ان کے حقیقی مفہوم کو نہ سمجھنا ہی غلط تعبیر کا سبب بنا ہے ہم نے اپنی کتاب "انسان و سرنوشت :میں قضاء و قدر کے بارے میں بحث کی ہے لیکن جبر تاریخ، یہ کہ انسانی سرگذشت دینا کے تمام حوادث کی طرح نہ تبدیل ہونے والا قانون رکھتی ہے اور تاریخی عوامل دوسرے تمام عوامل کی طرح قطعی اور لازمی تاثیرات رکھتے ہیں، یہ کوی ایسی بات نہیں ہے ۔قرآن کریم نے خود سنۃاللہ کہہ کر اس کی تائید کی ہے لیکن ان عوامل کی تاثیر کی نوعیت اصل مسئلہ ہے ۔کیا تاریخ کے جبری عوامل کا اثر اس صورت میں ظاہر ہوتا ہے کہ ہر چیز وقتی محدود اور زوال پذیر ہو کر رہ جاتی ہے یا اس کی کوئی دوسری صورت بھی ہے؟

ظاہر ہے اس مسئلہ کا تعلق عوامل کی نوعیت سے ہے ۔اگر تاریخ کو گردش میں لانے والے عوامل مضبوط اور پائیدار ہوں گے تو ان کی جبری تاثیر کا نتیجہ اس شکل میں ظاہر ہوگا کہ وہ گردش و تسلسل کو برقرار رکھیں گے ۔اگر اس کے بر عکس یہ عوامل ناپا ۴ دار عامل کا تعلق خاندان کی تشکیل رفیق زندگی کے انتخاب اور بچوں کی تولید میں موثر رہا ہے ۔تاریخ کے طویل دور میں خاندانی زندگی کے خلاف تحریکیں اٹھتی رہیں لیکن وہ سب ناکام ہوگئیں ۔ایسا کوں ہوا؟ یہ تحریکیں جبر تاریک کے خلاف تھیں، جبر تاریخ کا تقاضا یہ تھا کہ خاندانی زندگی باقی رہے ۔

ایک دوسرا تاریخی عامل مذہب ہے ۔پرستش انسان کی سرشت میں شامل ہے یہ کسی نہ کسی صورت میں موجود رہی ہے ۔یہ عامل تاریخ کے تمام ادوار میں موثر رہا ہے اور اس نے مذہب پر سے توجہ کو ہٹنے نہیں دیا ۔

غرض یہ کہ جبر تاریخ کو کسی محدود اور وقتی چیز کے مساوی قرار دے کر ہر قانون اور قائدہ کی ناپائیداری پر دلیل لانا ایک بڑی غلطی ہے ۔جبر تاریخ، اس جگہ ناپائیداری کو نتیجہ کی صورت میں سامنے لاتی ہے جہاں زیر نظر عامل، جیسے اقتصادی پیداوار کا عامل ہو اور کوئی دوسرا عامل اس کی جگہ لے اس لئے انسان اور اس کی ضرورت تاریخ کو گوشزد میں لانے والے عوامل اور ان میں سے ہر عامل کی معاشرہ پر اثر انداز ہونے والی تاثیری قوت کا سراغ لگانا چاہئے تا کہ یہ معلوم ہو کہ اس کا اثر کہاں تک پہنچتا ہے اور ان میں سے کونسا عامل مضبوط و پائدار ہے اور کونسا کمزور و ناپائیدار ۔

حقیقت یہ ہے کہ انسانی زندگی کی جملہ حالتوں کی ناپائیداری کو جبر تاریخ کے مساوی قرار دینے کا مفروضہ ہی انسان کے "یک جہتی" ہونے کے مفروضے کو آگے لانے کا سبب بنا ہے اس مفروضے کے مطابق "یک جہت" انسان زیادہ قدر و قیمت نہیں رکھتا اور تاریخ کا تعغیر ایک "یک شاخہ" تعغیر ہے ۔اس مفروضے کے حامیوں کے نقطہ نظر سے ہر دور میں تاریخ کا اصلی اور بنیادی عامل معشیت ہے دولت کی پیداوار اور تقسیم کا طریقہ، افراد کے اقتصادی روابط جیسے کارخانہ اور مزدور کے روابط، کسان اور زمیندار کے روابط جو کمزور اور تعغیر پذیر روابط ہیں، زندگی کے دوسرے گوشوں مثلا دین علم، فلسفہ، قانون، اخلاق اور ہنر کا تعین کرتے ہیں ۔ابتدا "دنیا میں اس مفروضے کا بڑا چرچا ہوا لیکن اب یہ اپنی قدر و قیمت کھو چکا ہے ۔آج دنیا اور تاریخ کے بہت سے مادہ پرست مفسرین اس مفروضے کو مسترد کرچکے ہیں ۔

ہر چند کہ ابھی علمی اعتبار سے قطعی طور ہر یہ نہیں کہاجاسکتا کہ انسان "یہ ناشنوا ساوجود "کثیر الجہت ہے اور انسانی تاریخ کی توجیہ کثیرالجہت، کے مفروضے سے ہی کی جاسکتی ہے البتہ یہ تسلیم شدہ قدر ہے انسان "یک جہت" نہیں ہے ۔اس کے یک جہت ہونے کا نظریہ اور انسانی تاریخ کے سفر کا یک خطی ہونے کا مفروضہ سب سے زیادہ بے بنیاد بے بنیادمفروضہ ہے ۔

قرآن کی روسے امت مسلمہ ایک امت وسط ہے۔

یہ بات ظاہر ہے کہ یہ امت ایسی تعلیمات کی پروردہ ہے جو توسط و تعادل کی حامل ہے۔قرآن کی یہ آیت ختمی امت اور ختمی تعلمیات کا ذکر صرف ایک کلمہ کے ذریعہ کردیتی ہے اور وہ وسطیت و تعادل ہے۔

ہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا تمام انبیاء کی تعلیمات میں وسطیت اور تعادل موجود نہیں رہا ہے۔اس سوال کے جواب میں کچھ کہنا ضروری ہے۔

اس روئے زمین پر انسان ہی ایک جاندار مخلوق نہیں ہے اور صرف وہی اجتماعی انداز میں زندگی بسر کرنے کا عادی نہیں ہے، دوسری جاندار مخلوقاتبھی ہیں جو مقررہ معمولات، ایک خاصنظم اور ڈھانچے کے مطابق زندگی بسر کرتی ہیں انسان کے بر عکس ان کی زندگی جنگل کے زمانے پتھر کے زمانے لو ہے کے زمانے ایٹم کے زمانے سے آشنا نہیں ہے۔روز اول سے جب سے کہ وہ وجود میں آئی ہیں ان کی زندگی کا ایک ہی منظم ڈھانچہ ہے یہ انسان ہی ہے جو اس آیت قرآنی کے مطابق"

( و خلق الانسان ضعیفاً ) (۵)

ترجمہ:"انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔"

اپنی زندگی کا آغاز صفر سے کرتا ہے اور ترقی کے لامتناہی راستے پر آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔انسان فطرت کا ایک ہونہار اور بالغ فرزند ہے اسی لئے اسے آزادی و خود مختاری حاصل ہے اسے کسی مستقل ناظم و سرپرست اور ایسی جبری ہدایت کی ضرورت نہیں جس پر عمل کرنے کے لئے کوئی پوشیدہ اندرونی قوت اسے مجبور کرے۔دوسرے جاندار جو کچھ جبلت کے سامنے سر جھکا کر انجام دیتے ہیں وہ انسان آزادانہ ماحول میں عقل و قانین کے مطابق انجام دیتا ہے:

( انا هدینٰه السبیل اما شاکراًو اما کفوراً ) (۶)

ترجمہ:"ہم نے اسے راستہ دکھا دیا خواہ شکر کرنے والا ہے یا کفر کرنے والا۔"

انسان میں انحراف و سقوط اور جمود و انحطاط پایا جاتا ہے جبکہ دوسرے جاندار ایک حالت پر قائ رہتے ہیں۔وہ اس بات پر قدرت نہیں رکھتے کہ سوچ سمجھ کر کہ خود آگے بڑھیں یا پیچھے ہٹیں، سیدھی جانب کا رخ کریں یا بائیں سمت کا تیز چلیں یا آہستہ اس کے بر عکس انسان اپنی عقل و شعور سے کام لے کر آگے بھی قدم بڑھا سکتا ہے پیچھے بھی ہٹ سکتا ہے وہ دائیں یا بائیں کسی بھی سمت مڑسکتا ہے وہ تیز بھی چل سکتا ہے اور آہستہ بھی وہ ایک بندہ شاکر بھی بن سکتےا ہے اور سرکس کافر بھی۔اس طرح وہ افراط و تفریط کے درمیان کحڑا نظر آتا ہے۔

انسانی معاشرہ کبھی اس طرح عادات کا اسیر اور جامد و ساکن ہوجاتا ہے کہ کوئی موثر طاقت ہی اس کی زنجیروں کو کاٹ کر اسے حرکت میں لاسکتی ہے۔کبھی انسانی معاشرہ پر حرص و طمع اور نئی راہوں پر چلنے کی خوہش اس طرح مشلط ہوجاتی ہے کہ وہ فطرت کے اصول و قوانین تک کو بھلا بیٹھتا ہے اور کبھی وہ غرور و خود پرستی اور تکبر میں غرق ہوجاتا ہے، اسے خود بینی کی راہ سے ہٹا کر زہد و پرہیزگاری کی راہ پر ڈالنے کے لئے کسی اثر انداز ہونے والی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنے حقوق کے ساتھ دوسروں کے حقوق کا بھی خیال رکھ سکے جب یہی انسانی معاشرہ آرام طلبی مادر پدر آزادی اور ظلم و ستم کی راہ پر چل پڑتا ہے تو اس کے ضمیر کو جھنجھوڑ نے اور اس میں حقوق کا شعور احساس کے پیدا کرنے کے سوا اور چارہ نہیں ہوتا۔

یہ بات واضح ہے کہ تیزی کے ساتھ پیش قدمی ہو یا سست روی بائیں جانب میلان ہو یا دائیں جانب ان میں سے ہر ایک کے لئے ایک خاص لائحہ عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر معاشرہ کا انحراف دائیں جانب ہو تو اصلاح کرنے والی طاقت کو اسے بائیں جانب موڑنے کی کوشش کرنی ہوگی دورسری صورت میں اسے اس کے بر عکس عمل کرنا ہوگا۔

ہی وجہ ہے کہ کسی ایک زمانے اور کسی ایک قوم کی اصلاح کے لئے کوئی تدبیر دوا کی حیثیت رکھتی ہے تو وہی تدبیر دوسرے دور اور دوسری قوم کے لئے ایک مرض مہلک میں مبتلا کرنے کا سبب بن سکتی ہے چنانچہ بظاہر مختلف انبیاء کے درمیان ایک اختلاف نظر آتا ہے کسی پیامبر (ص) کو جنگ کی راہ اختیار کرنی پڑتی ہے تو کسی کو صلح کی کوئی نبی نرمی سے کام لیتا ہے تو کوئی سختی سے کسی پیغمبر کو انقلابی انداز میں کام کرنا پڑتا ہے تو کسی کو اعتدال و سلامتی کی راہ اپنانی پڑتی ہے۔ایک پیغمبر کا سارا دور ابتلاؤ آزمایش سے بھرا ہوتا ہے تو دوسرے پیغمبر کے حصے میں فتح و نصرت بھی آتی ہے۔انبیاء کے درمیان اختلافات کا تعلق ان کے اس روئے سے ہے جو وہ اپنے زمانے کے حالات کے پیش نظر اختیار کرتے ہیں ورنہ ہدف کے اعتبار سے ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے ہدف تمام انبیاء کا یک ہی ہے اور راستہ وہی صراط مستقیم ہے۔

قرآن کریم نے قصص انبیاء کے ضمن میں پوری طرح اس بات کی نشان وہی کی ہے کہ پیغمبروں میں سے ہر ایک مبداء و معاد سے متعلق اپنی مشترک تعلیمات کے تحت کسی ایک خاص نکتہ پر زور دیتا ہے وہ ایک مخصوص لائحہ عمل کے اجراء پر مامور ہوتا ہے یہ بات قصص قرآنی کے مطالعہ سے بخوبی روشن ہوجاتی ہے۔

مصلحین جب کسی تیزی سے آگے قدم بڑھانے والے یا پسماندہ معاشرہ میں دائیں یا دائیں جانب مائل معاشرہ میں ظہور کرتے ہیں اور اصلاح کا کام شروع کرتے ہیں تو وہ بھول جاتے ہیں کہ ایک متعین لائحہ عمل صرف ایک محدود مدت کے لئے قابل اجراء ہوتا ہے اور معاشرہ کسی بھی نوعیت کا ہوا سے راہ عدل پر لانے کے لئے اس سے زیادہ جدوجہد کرنی پڑتی ہے جتنی کہ دوسری جانب سے اسے انحطاط و انحراف کی زاہ پر ڈالنے کے لئے کی جاتی ہے۔

ان توضیہحات کے بعد ہم زیر نظر آیت کے مفہوم کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔

پیغمبر اسلام کی رسالت تمام دوسرے انبیاء کی رسالتوں سے ان معنوں میں فرق و امتیاز رکھتی ہے کہ اس کی حیثیت قانون کی ہے کسی وقتی لائحہ عمل کی نہیں انسانیت کے لئے آپ کا لایا ہوا اساسی قانون کسی ترقی پسند یا رجعت پسندیدہ دائیں بازو یا بائیں بازو کی جانب مائل معاشرہ کے لئے مخصوص نہیں ہے۔

اسلام ایک جامع اور ہمہ گیر نظام حیات ہے جو ہر موقع و محل کے لئے کار آمد اور زندگی کے تمام جزئی طریقوں پر حاوی ہے۔انبیاء کسی ایک معاشرہ کے لئے مبعوث کئے جاتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس معاشرہ کے لئے ایک مخصوص لائحہ عمل لے کر آتے تھے۔اسلام کی آمد کے بعد علماء اور امت مسلمہ کے دینی رہنماؤں کو بھی اسی طرح کام کرنا چاہیے جس طرح انبیاء نے انجام دیا تھا لیکن علماء و مصلحین اور انبیاء کے کام کے درمیان فرق یہ ہے کہ علماء وحی اسلام کے ابدی سرچشمے سے ہدایت حاصل کرکے ایک خاص لائحہ عمل وضع کرتے ہیں اور اس کے نفاذ کی کوشش کرتے ہیں۔

قرآن دوسری آسمانی کتابوں کی وقتی اور محدود تعلیمات کی روح اپنے اند لئے ہوئے ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن خود آسمانی کتابوں کا محافظ و نگہبان قرار دیتا ہے:

( و انزلنا الیک الکتٰاب بالحق مصدقا لما بین یدیه من الکتٰب و مهیمناً علیه ) (۷)

ترجمہ:"پھر اے نبی (ص) ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب بھجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے اس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محفظ و نگہبان ہے۔"

اسلامی مخصوص سے یہ بات ثابت ہے کہ تمام انبیاء جو ایک کلی و خاتمی نبوت اور ایک اساسی قانون کے پیشرو کی حیثیت رکھتے ہیں اس بات کی پابند رہے ہیں کہ وہ اپنی اپنی امتوں کو ختم نبوت کے آخری دور میں دین کے اتمام و تکمیل کی خوشخبری دیں، اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں تمام پیغمبروں سے عہد و پیمان لیا ہے۔

نہج البلاغہ کے پہلے خطبے میں اس کا ذکر بڑی عمدگی کے ساتھ کیا گیا ہے:

ولم یخل سبحانه خلقه من نبی مرسل اور کتاب منزل اور حجه لازمه اور محجه قائمه رسل لاتقصیر بهم قله عددهم و لاکثره المکذبین لهم و سلفت الاباء خلفت الابناء الی ان بعث الله محمدا رسول الله (ص) من سابق سعی که من بعده اوغا بر بر عرفه من قبله علی ذلک نسلت القرون و مضت الدهور لانجاز عدته و تمام نبوته ماخوذا علی النبین، میثاقه، مشهور سماته کریما میلاده ۔

ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو کبھ کسی پیغمبریا کسی کتاب آسمانی یا کافی دلیل یا کسی روش طریقے سے خالی نہیں رکھا ہے، پیغمبروں کو ان کی قلت تعداد اور ان کے مخالفین کی کثرت تعداد نے کبھی ادائے فض سے نہیں روکا، ہر پیغمبر اپنے سے پہلے گزرنے والے پیغمبر سے پوری طرح متعارف رہا ہے اور خود اس کی آمد کی بشارت سابق پیغمبر کی زبانی لوگوں کو ملتی رہی ہے اسی طرح ایک نسل کے بعد دوسری نسل آتی رہی اور زمانہ گزر تا چلا گیا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق محمد (ص) کو سلسلہ نبوت کی تکمیل کے لئے بھیجا، اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے آپ کے بارہ میں پہلے ہی عہد و پیمان لے رکھا تھا۔آپ کی نشانیاں مشہور و معروف ہوچکی تھیں اور آپ کی ولادت ایک ولادت عظیم تھی۔

اس بارے میں رسول اکرم (ص) کے دو بڑے عمدہ کلمے ہم یہاں نقل کرتے ہیں:

"نحن الاخرون السابقون یوم القیامة"

"ہم تمام پیغمبروں اور امتوں کے بعد دینا میں آئے ہیں لیکن آخرت میں ہم سب سے آگے ہوں گے اور سب ہمارے پیچھے آئیں گے۔"

آپ کا ایک دوسرا ارشاد یہ ہے:

"آدم و من دونه تحت للوئ ی یوم القیامة"

"قیامت کے دن تمام پیغمبر میرے پرچم تلے ہوں گے۔"

قیامت کے دن اس پیشروی اور پس روی اور رسول اکرم (ص) کے پرچم تلے تمام انبیاء کے ہونے کا اصل سبب یہ ہے کہ تمام انبیاء رسول اکرم (ص) کی بعثت کے لئے مقدمہ ہیں تو آپ نتیجہ سابق انبیاء پر جو وحی نازل ہوئی وہ ایک وقتی لائحہ عمل کے دائرہ تک محدود تھی اور رسول اکرم (ص) پر نازل ہونے والی وحی ایک کلی و ابدی قانون اساسی کے لئے تھی۔مسلمان بزرگوں نے رسول اکر (ص) کے ان دو عمدہ کلمات اور معارف اسلامی کے اس اصولسےہدایت حاصل کرتے ہوئے کہ جو کچھ اس دنیا میں ظاہر ہوتا ہے اس دنیا کے واقعات کا ملکوتی ظہور ہے بڑی عمدہ اور دلپذیر باتیں کہی ہیں:

و انی وان کنت ابن آدم صورۃ

فلی فیہ معنی شاہد بابوتی

و کلہم عن سبق معنای دائیر

بدائیرئی او وارد من شریعتی

و ما منہم الا و قد کان داعیا

بہ قومہ للحق عن تبعیتی

و قبل فعالی دون تکلیف ظاہری

ختمت بشرعی المضحی کل شرعۃ

مولوی نے بھی یہی مضمون باندھا ہے:

ظاہراً آن شاخ اصل میوہ است

باطناً بھر ثمر شد شاخ

گر نبودی میل و امید ثمر

کی نشاندہی باغبان بیخ شجر

پس بمعنی آن شجر از میوہ زاد

گر بصورت از شجر بودش بار

مصطفیٰ زین گفت کارم و انبیاء

خلف من باشند در زیر لوا

بھر این فرمودہ است آن زد فنون

رمز نحن آلاخرون و السابقون

گر بصورت من ز آدم زادہ ام

من بعمنی جد جد افتادہ ام

پس ز من زائید در معنی پدر

پس ز میوہ زاد در معنی شجر

اول فکر آخر آمد در عمل

خاصہ فکری کو بود وصف ازل

شبستری کہتا ہے:

کی خط است از اول تابہ آخر

بر او خلق خدا جمل مسافر

در این رہ انبیاء چون سار بانند

دلیل و رہنمای کاروانند

و زیشان سید ماگشتہ سالار

ہم او اول ہم او آخر در این کا

احد درمیم احمد گشت ظاہر

دراین دور اور آمد عین آخر

ز احمد تا احد یک میم فرق است

جھانی اندرین یک میم غرق است

بر او ختم آمد پایان این راہ

بدو منزل شدہ ادعوا الی اللہ

مقام دلکشایش جمع جمع است

جمال جانفرایش شمع جمع است

شدہ اور پیش و دلہا جملہ در پی

گرفتہ دست جادہا دامن وی

قرآن کریم نے بعد میں آنے والے انبیاء (اور بدرجہ اولی خاتم انبیاء) پر سابق انبیاء کی جانب سے ایمان لانے ان کی نبوت کو تسلیم کرنے بلکہ ان کی آمد کو خوشخبری دینے کا اور ذمہ داری کا کہ وہ اپنی امت کو بھی ایسا کرنے کی ہدایت کریں اور انہیں بعد میں آنے والے انبیاء کی تعلیمات کو قبول کرنے کے لئے تیار کریں اور اسی طرح بعد میں آنے والے پیغمبروں کی جانب سے پیشرو پیغمبروں کی تائید و تصدیق کا اور اللہ تعالیٰ کا اپنے پیغمبروں سے اس خوشخبری اس تسلیم تائید تصدیق پر پختہ عہد لینے کا اس طرح ذکر کیا ہے:

( و اذ اخذ الله میثاق النبین لما اتییکم من کتاب و حکمة ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتومنن به و لتنصرنه قال اقررتم و اخذتم علی ذلکم اصی قالوآ اقررنا قال فاشهدوا وانا معکم من الشهدین ) (۸)

ترجمہ:"یاد کرو اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ"آج میں نے تمہیں کتاب اور حکمت و دانش سے نوازا ہے۔کل اگر کوئی دوسرا رسول تمہارے پاس اس تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے جو پہلے سے تمہارے پاس موجود ہے تو تم کو اس پر ایمان لانا ہوگا اس کی مدد کرنی ہوگی"یہ ارشاد فرما کہ اللہ نے پوچھا"کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو۔"انہوں نے کہا"ہاں ہم اقرار کرتے ہیں"اللہ نے فرمایا "اچھا تو گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گاوہ ہوں۔"

ن یوتوں کا ا یک رشتہ میں بندھا ہونا اور ایک نبوت کا دوسری سے مربوط ہوتے چلے جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ نبوت تکمیل کی جانب ایک تدریجی سفر ہے جس کا آخر حلقہ اس کی سب سے اونچی چوٹی ہے۔عارفین اسلام کہتے ہیں:

"الخاتم من ختم المراتب باسره ا"

عنی پیغمبر خاتم وہ ہے جس نے تمام مراحل طے کرلیے ہیںاور وحی کی رو سے کوئی ایسی راہ باقی نہیں رہ گئی ہے جسے اس نے طے نہ کیا ہو اور کوئی ایسا نکتہ باقی نہیں رہ گیا ہے جس کی اس نے وضاحت نہ کی ہو۔اگر ہم یہ فرضکر لیں کہ کسی علم سے متعلق تمام مسائل حل ہوچکے ہیں تو پھر اس شعبہ میں کسی نئی تحقیق یا کسی نئے انکشاف کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔وحی سے متعلق مسائل کا معاملہ بالکل ایسا ہی ہے۔خدا کے آخری دستور کے آجانے کے بعد کسی نئے انکشاف اور کسی نے پیغمبر کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذریعہ جو کچھ انسنا پر منکشف ہوا ہے، اسے ایک ایسے کامل ترین مکاشفہ کی حیثیت حاصل ہے جو کسی انسنا کے دائرہ امکان میں ہو سکتا ہے یہ بات واضح ہے کہ ایک ایسے مکمل مکاشفہ کے بعد دوسرا جو بھی مکاشفہ ہو گا، وہ دار اصل پہلے سے طے کردہ راہ کی ہی ایک چیز ہو گی اس کے ساتھ کوئی نئی بات نہیں ہوغی، آخری بات تو وہی ہے جو اس کامل ترین مکاشفہ میں آچکی ہے:

( و تمت کلمت ربک صدقاً و عدلاً لامبدل لکلمٰته و هو السمیع العلیم ) (۹)

ترجمہ:"تمہارے رک کی بات سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے کوئی اس کے فرامین کو تبدیل کرنے والا نہیں ہے اور وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔"

مرحوم فیض نے اپنی کتنا علم الیقین کے(۱۰) پر کسی بزرگ کا قول نقل کیا ہے:

"انسانی فطرت کا ہدف و مقصود و قرب الٰہی کے مقام تک پہنچنا ہے اور پیغمبروں کی رہنمائی کے بغیر ممکن نہیںہے۔اس اعتبار سے نبوت نظام زندگی کا ایک حصہ قرار پاتی ہے لیکن اس کا مقصود اور ہدف سب سے اونچا مرتبہ اور نبوت کا آخری درجہ ہے نہ کہ نبوت کا اولین درجہ، سنت الٰہی کے مطابق نبوت بتدریج درجہ کمال تک پہنچتی ہے جیسے کہ ایک عمارت بتدریج مکمل ہوتی ہے۔عمارت کی تعمیر کا ہدف اس کے پایے اور دیواریں نہیں ایک مکمل مکان ہوتا ہے، نبوت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے نبوت کا ہدف اس کی تکامل صورت ہے یہی وجہ ہے کہ نبوت کا سلسلہ ایک جگہ پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے اور مکلم ہو جاتا ہے۔

وہ مزید کسی اضافے کو قبول نہیں کرتا کیونکہ تکمیل کے بعد کوئی اضافہ و کمال کے منافی ہو تا ہے اور اس کی حیثیت ایک زائد انگلی کی سی ہو جاتی ہے، پیغمبر اکرم (ص) کی معروف حدیث میں اس جانب اشارہ کیا گیا ہے، آپ نے فرمیا نبوت ایک مکان کی مانند ہے جو تیار ہو چکا ہے لیکن اس کے مکمل ہو ے میں سرف ایک اینٹ کی جگہ باقی رہ گئی ہے اس جگہ کو میں ہی بھرنے والا ہوں یا میں ہی اس آخری اینٹ کی جگہ باقی رہ گئی ہے اس جگہ کو میں ہی بھرنے والا ہوں یا میں ہی اس آخری اینٹ کا نصب کرنے والا ہوں!

ہم نے گذشتہ صفحات میں جو کچھ لکھا ہے، وہ عقیدہ ختم نبوت کے پس منظراور اس کی بنیادون کی جانب رہنمائی کے لیے کافی ہے۔

یہ بات واضح ہوگئی کہ انسانی فطرت میں دین کی طلب وہ بنیاد ہے جس پر عقیدہختم نبوت استوار ہوتا ہے تمام انسانوں کی فطرت ایک ہے، تکمیل انسانیت کا سفر ایک با مقصد سفر ہے جو ایک متعین اور سیدھے راستہ جاری ہے ۔اس اعتبار سے دین حق، جو فطرت کے تقاضوں کی وضاحت کرتا ہے اور انسان کی راہ راست کی جانب رہنمائی کرتا ہے، صرف ایک ہی ہوسکتا ہے ۔ایک طریق زندگی جو انسانی فطرت کے مطابق ہو، جامع اور کلی ہو اور ہر طرح کی تبدیلی و تحریف سے محفوظ ہو اور جو مسائل کی اچھی طرح تشخیص کر سکے اور جسے اچھی طرح منطبق کیا جاسکے اور عمل و نفاذ کے مرحلے میں ہمیشہ رہنمائی کرسکے اور حالات کے مطابق مختلف طریقوں لائحہ عمل اور بے شمار جزئی قوانین کے لئے سرچشمہ ثابت ہوسکے انسانی فطرت کا ایک اہم تقاضا اور انسان کی ایک بنیادی ضرورت ہے آئدہ مضامین اس پہلو کو بہتر طریقے پر واضح کریں گے ۔

اب ہم ان سوالات کا جواب تلاش کرتے ہیں جن کی طرف ابتدا میں اشارہ کیا گیا تھا۔

آسمانی دروازے

پہلا سوال جس کے سبب ختم نبوت کا عقیدہ وجود میں آیا وہ عالم غیب اور انسان کے درمیان رابطے سے تعلق رکھتا ہے وہ سوال یہ ہے کہ سب سے پہلے دور کے انسان نے اپنی جہالت اور بے علمی کے باوجود وحی و الہٰام کے راستے سے عالم غیب کے ساتھ کس طرح رابطہ پیدا کرلیا اور اس پر آسمان کے دروازے کیسے کھل گئے؟ جبکہ ترقی یافتہ بعد کا انسان اس رحمت سے محروم رہا اور اس پر آسمان کے دروازے بند ہوگئے۔

کیا فی الواقع انسان کی روحانی اور باطنی صلاحیتیں کم ہوگئی ہیں اور وہ اس اعتبار سے تنزل میں چلا گیا ہے۔

یہ شبہ اس خیال سے پیدا ہوا ہے کہ عالم غیب کے ساتھ معنوی ربط و تعلق انبیاء کے ساتھ مخصوص ہے اس لئے سلسلہ نبوت کے منقطع ہونے کا لازمی نتیجہ عالم غیب اور عالم انسانی کے درمیان روحانی اور معنوی رابطے کے انقطاع کی صورت میں ظاہر ہوگا۔

لیکن یہ خیال اپنی کوئی بنیاد نہیں رکھتا۔قرآن کریم بھی غیب اور ملکوت کے ساتھ اتصال کے درمیان اور مقام نبوت کے درمیان لازم و ملزوم کے تعلق کا قائل نہیں ہے جیسا کہ خرق عادت کو وہ پیغمبری کی واحد دلیل تسلیم نہیں کرتا، قرآن کریم ایسے اشخاص کا بھی ذکر کرتا ہے کہ ان کی معنوی زندگی ایسی طاقت سے بہرہ مند رہی ہے کہ انہوں نے فرشتوں کے ساتھ ہمکلامی کی ہے اور ان سے خارق العادت (غیر معمولی) امور انجام پائے ہیں حالانکہ وہ اشخاص نبی نہیں تھے۔اس کی بہترین مثال عمران کی بیٹی، عیسی مسیح (ع) کی ماں مریم ہے۔قرآن نے ان کے بارے میں حیرت انگیز واقعات کا ذکر کیا ہے۔قرآن موسیٰ (ع) کی والدہ کے بارے میں بھی کہتا ہے ہم نے اس کی طرف وحی بھیجی کہ موسیٰ (ع) کو دودہ پلائے اور جب اسے موسیٰ (ع) کے بارے میں کسی خوف کا احساس ہوا تو اسے دریا میں بہادے ہم اسے محفوظ رکھ کر تیری طرف واپس لوٹا دیں گے ہمیں معلوم ہے کہ عیسیٰ (ع) کی ماں پیغمبر تھیں اور نہ موسیٰ (ع) کی والدہ۔

حقیقت یہ ہے کہ ملکوتی حقائق کے غیب و شہود کے ساتھ اتصال، آواز غیبی کا سننا اور بالاخر غیب سے خبر کا پانا نبوت نہیں ہے، نبوت پیغام کا لانا ہے ہر دو شخص جسے غیب کی خبر مل جائے پیغام کا لانے والا نہیں ہوتا۔

قرآن اشراق اور الہٰام کا درازہ ان تمام لوگوں پر کھلتا ہے جو اپنے باطن کو پاک کرلیتے ہیں:

( ان تتقوا الله یجعل لکم فرقاناً ) (۱۱)

ترجمہ:"اگر تم خدا ترسی اختیار کرو گے تو اللہ تمہارے لئے کسوئی بہم پہنچادے گا۔"

( والذین جاهد و افینا لنهدینهم سبلنا ) (۱۲)

ترجمہ:جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے رستے دکھائیں گے۔

اسی فلسفہ کے نقطہ نظر سے معنوی اور عرفانی زندگی زندگی کا ایک نمونہ پیش کرنے کے لئے نہج البلاغہ کے ایک خطبہ کچھ حصہ یہاں نقل کرنا کافی ہوگا۔

نہج البلاغہ کے خطبہ ۲۲۰ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔

"ان الله تعال یٰ جعل الذکر جلاء للقوب تسمع به بعد الوقر ة و تبصربه بعد العشو ة و تنقادبه بعد المعاند ة و ما برح لله عزت آلائ ه ف ی البرهة بعد البرهة و فی ازمان الفترات عبادنا جاه م ف ی فکر ه م و کلم ه م ف ی ذات عقوله م"

ترجمہ:"اللہ تعالیٰ نے اپنی یاد کو دلوں کا صیقل قرار دیا ہے۔دل بہرے ہوجانے کے بعد بھی اس ذکر کے ذریعہ سننے والے اور اندھے ہوجانے کے بعد دیکھنے والے اور سرکشی و عناد کی راہ پر چل پڑنے کے بعد بھی مطیع و فرمانبردار ہو جاتے ہیں۔ہمیشہ ایسا ہوتا رہا ہے اور آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ زمانے کے ہر ایک حصے میں اور ان زمانوں میں جبکہ لوگوں کے درمیان کوئی پیغمبر موجود نہ ہو اللہ تعالیٰ کے ایسے بنے موجود رہے ہیں آج بھیء موجود ہیں جن کے دلوں میں وہ کوئی راز کی بات ڈالتا رہا ہے اور ان کی عقلوں کی راہ سے ان کے ساتھ بات کرتا ہے۔"

رسول اکرم (ص) سے روایت ہے:

( ان لله عباداً لیسوا بانبیاء یغبط هم النبوة )

"اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے بھی موجود ہیں کہ وہ پیغمبر نہیں ہیں لیکن نبوت ان پر رشک کرتی ہے۔"

شیعہ ائمہ اطہار (ع) کی باطنی ولایت و امامت کے قائل ہیں جبکہ وہ انہیں نبی نہیں سمجھتے۔اس سے بات بالکل واضح ہوجاتی ہے۔

عارفین اسلام نے عرفانی اصطلاحات میں معنی سیرو سلوک کے مراتب کو چار مرحلوں میں تقسیم کیا ہے ہم طول کلام سے بچنے کے لئے اس کے صرف دو مرحلوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

الف) سفر از خلق بہ حق (مخلوق کی طرف سے خالق کی جانب سفر)

ب) سفر حقبہ خلق (خالق کی طرف سے مخلوق کی جانب سفر)

مخلوق کی جانب سے خلاق کی طرف سفر پیغمبروں کے لئے مخصوص نہیں ہے۔پیغمبر تو معبوث ہی اسی لئے ہوئے ہیں کہ اس سفر میں انسان کی مدد کریں، جو کچھ پیغمبروں کے لئے مخصوص ہے، وہ خالق کی جانب سے مخلوق کی جانب سفر ہے یعنی وہ مخلوق کی دستگیری اور ارشاد ہدایت پرمامور ہیں اس سے مراد پیغمبر کی کثرت کی جانب واپسی ہے تا کہ اسے وحدت کی راہ دکھا سکے۔

صدر المتالھین(۱۳) پر لکھتے ہیں:

"وحی یعنی پیغمبری اور منصب نبوت کے لئے قلب و سماعت پر فرشتے کا نزول منقطع ہو چکا ہے اور اب کسی شخص پر کوئی فرشتہ نازل مہیں ہوگا اور اسے کسی فرمان الٰہی کے جاری کرنے پر مامور نہیں کیا جائے گا، کیونکہ "اکلمت لکم دینکم" کے حکم کے تحت جو کچھ وحی کے راستے انسان تک پہنچتا تھا وہ پہنچ چکا ہے لیکن الہام و اشراق کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوا ہے اور نہ آئند ہوگا اس راہ کا مسدوء ہونا ممکن نہیں۔"

اس سلسلے میں پہلے بہت کچھ کہا جا چکا ہے اس کا نقل مرنا موجب ظوالت ہوگا۔ہمارے زمانے کے دانشمندوں میں سے عالمہ اقبال نے ایک بڑی لطیف بات کہی ہے۔اقبال نے نبی اور عارف کے درمیان (ان کے قول کے مطابق مرد باطنی) فرق کو اس طرح واضح کیا ہے۔

ایک مرد عارف تجرنہ اتحادی (وصول بہ حق) سے حاصل کرنے والے اطمینان و سکون کے بعد حیات دنیوی کی جانب واپسی کو پسند نہیں کرتا۔اگر وہ ضرورت کی بنا پر واپس بھی آتا ہے تو انسانیت کے لئے اس کی واپسی چنداں سودمند نہیں ہوتی لیکن خلق کی طرف پیغمبر کی واپسی ثمر بخش اور تخلیقی پہلو کی حامل ہوتی ہے۔پیغمبر واپس آتا ہے اور وقت کے دھارے میں اتر جاتا ہے تاکہ تاریخ کے دھارے کو قابو میں لائے اور اس طرح کمال مقاصد سے ایک جہاں تازہ پیدا کرے۔ایک مرد عارف کے لیے تجربہ اتحادی (وصول بہ حق) سے حاصل ہونے والا سکون ایک انتہائی مرحلہ ہے اور پیغمبر کے لئے اس کی روحانی قوت کا بیدار ہونا ہے جو ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔یہ قوت ایک ایسے اندازے کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے کہ عالم انسانی میں ایک مکمل انقلاب برپا کردیتی ہے پیغمبری کو ایک ایسی باطنی خود آگاہی رکھنے والی نوع سے تعبیر کیا جاسکتا ہے کی اس میں تجربہ اتحادی (وصول بہ حق) اپنی حدود سے باہر نکلنے کے قریب پہنچ جاتا ہے اور ایسے مواقع کی تلاش میں ہوتا ہے کہ اجتماعی زندگی کی طاقتوں کو از سر نو توجیہ کرے یا انہیں ایک تازہ شکل دے!

پس انقطاع نبوت سے مراد ارشاد و ہدایتر کے لیے خدا کی طرف سے ماموریت کا منقطع ہونا ہے۔خدا کی طرف سفر کرنے والوں اور سالکوں کے لیے معنوی فیض کا منقطع ہونا نہیں۔

اگر ہم نے یہ گمان کیا کہ اسلام نے نبوت کے اعلان کے ساتھ معنوی زندگی کی بھی نفی کردی ہے تو ہم سخت غلطی کریں گے۔

نبوت تبلیغی

دوسرا سوال یہ ہے کہ پیغمبران کرام بحثییت مجموعی دو بڑی ذمہ داریوں کو پورا کرتے رہے ہیں۔وہ خدا کی طرف سے انسان کے لیے قانون اور دستور العمل لاتے رہے ہیں وہ دوسرے یہ کہ وہ لوگوں کو خدا کی طرف بلانے کے ساتھ انہیں اس دور اور زمانے کے الٰہی دستور العمل پر کاربند ہونے کی دعوت دیتے رہے ہیں۔پیغمبروں کی اکثریت اسی دوسرے فریضے کے انجام دینے پر مامور رہی ہے۔ایسے پیغمبروں کی تعداد بہت کم ہے جن کو قرآن اولوالعزم قرار دیتا ہے اور جن کے ذریعے قانون اور دستور العمل بھیجا گیا ہے۔اس اعتبار سے نبوتیں دو قسم کی رہی ہیں ایک نبوت تشریعی اور دوسری نبوت تبلیغی تشر یعی پیغبر جن کی تعداد بہت تھوڑی ہے وہ صاحب شریعت و قانون انبیاء کہلاتے ہیں جبکہ تبلیغی پیغمبروں کا کام صاحب شریعت پیغمبروں کی تعلیمات کو عام کرنا اور ان ہی کے مطابق تعلیم و ارشاد کا کام انجام دینا رہا ہے۔اسلام نے ختم نبوت کا اعلان کرکے نہ صرف تشریعی نبوت بلکہ تبلیغی نبوت کے سلسلے کوبھی ختم کردیا ہے۔آخر ایسا کیوں کیا گیا؟ امت محمد (ص) اور ملت اسلامیہکو پیغمبروں کے ہدایت و ارشاد کے اس سلسلے سے کیوں محروم کیا گیا؟

بلفرض ہم نے یہ بات تسلیم کرلی کہ تکمیل اتمام اور جامعیت و کلیت کی بنا پر تسریعی نبوت کا سلسلہ منقطع کردیا گیا لیکن تبلیغی نبوت کے سلسلے کو کس حکمت و فلسفے کی بنا پر ختم کیا گیا؟

حقیقت یہ ہے کہ نبوت اور ہدایت وحی کی اصل ذمہ داری یعنی وہی پہلی ذمہ داری (تشریعی) ہے جبکہ تبلیغ تعلیم اور دعوت کی ذمہ داری (تبلیغی) نصف بشری ہے تو نصف الٰہی۔

وحی اور نبوت یعنی عالم وجود کی بنیادوں سے ایک پوشیدہ اتصال اور رابطہ اور مخلوق کی ہدایت کے لیے اس کی ماموریت در اصل مظاہر ہدایت کا ایک مظہر ہے جو سارے عالم وجود پر حکم فرما ہے۔

( الذی خلق فسویٰ والذی قدر فهدیٰ ) (۱۴)

ترجمہ:"جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دکھائی۔"

موجودات زندگی کی سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے اس درجہ کمال کی مناسبت سے جس پر وہ پہنچ جاتے ہیں ہدایت خاص سے پہرہ مند ہوتے ہیں یعنی ہدایت کی شکل اور خصوصیت زندگی کے مختلف مراحل کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے۔تمام دانشور اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ حیوانات اپنی ساخت کے وسائل طبیعی کے اعتبار سے ضعیف تر اور ناتوان تر ہیں لیکن وہ پوشیدہ جبلی رہنمائی کے اعتبار سے قوی تر ہوتے ہیں انہیں فطرت کی ایک مستقل سر پرستی اور حمایت حاصل رہتی ہے۔وہ جس قدر طبعی وسائل اور عقلی وہمی خیالی اور حسی طاقتوں سے لیس ہوتے چلے جاتے ہیں وجود کی سیڑھی پر ان کے قدم بلندی کی جانب اٹھتے چلے جاتے ہیں۔ان کی جبلی ہدایت میں کمی آنے لگتی ہے۔ٹھیک اس بچہ کی طرح جو کمسنی کے ابتدائی مراحل میں ماں باپ اور دوسرے اشخاص کی مستقل سر پرستی اور نگرانی سے بہرہور رہتا ہے اور جس قدر وہ رشد و بلوغ حاصل کرتا جاتا ہے والدین کی مستقل نگرانی و سرپرستی کے دائرے سے باہر نکتا چلا جاتا ہے۔

جاندار مخلوقات کا زندگی کی سیڑھیوں پر چڑھ کر بلند ہونا اور ان کا عقلی وہمی خیالی حسی اور عضوی وسائل سے لیس ہونا ان کے استحکام و استقلال کو بڑھانا ہے اور اس اعتبار سے ان کی جبلی ہدایت کم ہوجاتی ہے۔

کہا جاتا ہے کیڑے دوسرے تمام حیوانات کی بہ نسبت جبلی ہدایت سے زیادہ لیس ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تکمیلی مراحل کے اعتبار سے سب سے نچلے درجہ میں ہیں اور انسان جو تکمیل کی سیڑھی کے سب سے اونچے پلہ پر پہنچا ہوا ہے تمام مخلوقات کی بہ نسبت جبلی ہدایت میں کمزور تر ہے۔

وحی ہدایت کے عالی ترین اور بلند ترین مراتب و مظہر میں سے ایک ہے۔وہ اپنے اندر ایک ایسی رہنمائی رکھتی ہے جو حس خیال عقل علم اور فلسفہ کی دسترس سے باہر ہے ان میں سے کوئی چیز وحی کی جگہ نہیں لے سکتی لیکن وحی تشریعی ہی اس خصوصیت کی حامل ہے وحی تبلیغی نہیں وحی تبلیغی کا معاملہ دوسرا ہے۔

انسان اس وقت تک تبلیغی وحی کا محتاج رہتا ہے جب تک اس کی عقل علم اور تمدن کا فرجہ اس مقام تک بلند نہیں ہو جاتا کہ وہ خود اپنے دین کے بارے میں دعوت تعلیم تبلیغ تفسیر اور اجتہاد کا فرض انجام دے سکے علم اور عقل کا ظہور دوسرے الفاظ میں انسانیت کا رشد و بلوغ خود وحی تبلیغی کو ختم کر دیتا ہے اور علماء ان انبیاء کے جانشین قرار پاتے ہیں۔

جیسا کہ ہمیں معلوم ہے قرآن نے اپنی نازل ہونے والی پہلی آیت میں پڑھنے لکھنے کی اور قلم وعلم کی بات کی ہے۔

( اقرا باسم ربک الذی خلق؛ خلق الانسان من علق؛ اقراء و ربک الاکرم؛ الذی علم بالقلم؛ علم الانسان مالم یعلم ) (۱۵)

ترجمہ: "پڑھو (اپنے نبی) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا جمے ہوئے خون کے ایک لو تھڑے سے انسان کی تخلیق کی پڑھو اور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا۔انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔"

یہ آیت اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ قرآن کا عہد پڑھنے لکھنے سکھانے کا اور علم و عقل کا عہد ہے۔یہ آیت ہمیں اشار تا بتاتی ہے کہ قرآن کے اس دور میں تعلیم تبلیغ اور آسمانی آیات کی حفاظت کی ذمہ داری علماء کی طرف منتقل کردی گئی ہے اور علماء اس اعتبار سے انبیاء کے جانشین قرار پاتے ہیں۔اس آیت نے اس عہد میں بشریت کے استقلال اور بلوغ کا اعلان کیا ہے۔ قرآن نے اپنی تمام آیات میں تدبر عقلی استدلال فطرت کے تجرباتی و عینی مشاہدہ تاریخ کے مطالعہ اور گہرے غور و فکر کی دعوت دیتا ہے یہ سب ختم نبوت کی اور وحی تبلیغی کی جگہ علم و عقل کے جانشین ہونے کی نشانیاں ہیں۔

قرآن کے لیے جس قدر کام ہوچکا ہے کیا کسی دوسری آسمانی کتاب کے لیے اس قدر کام انجام دیا گیا ہے؟ نزول قرآن کے ساتھ ہی قرآن کے ہزاروں حافظ پیدا ہوگئے۔نزول قرآن کو ابھی نصف صدی بھی نہیں گزری تھی کہ علوم قرآنی کی خاطر نحو وصرف قواعد زبان اور عربی زبان کی لغات کی تیاری کا کام شروع ہوچکا تھا۔معانی بیان اور بدایع کا علم ایجاد ہوا ہزاروں تفسیریں اور ان کے مفسرین تفسیر قرآن کی درسگاہیں وجود میں آگئیں۔قرآن کے لفظ لفظ کے بارے میں تحقیق کا کام ہونے لگا اس کام زیادہ حصہ ان لوگوں کے ہاتھوں انجام پاتا رہا جن کی مادری زبان عربی نہیں ہے۔ صرف یہ قرآن سے متعلق خاطر ہی رہی ہے جس نے اس قدر جوش و جذبہ پیدا کردیا۔یہ ساری سرگرمیاں آخر توریت انجیل اور اوستا کے لیے کیوں ظاہر نہیں ہوئیں کیا خود یہ بات بشریت کے رشد و بلوغ اور کتاب آسمانی کی تبلیغ و حفاظت اس کی صلاحیت پر دلالت نہیں کرتی؟ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیںہے کہ عقل و دانش نبوت تبلیغی کی جانشین بن گئی ہے۔

انسان اپنے ابتدائی دور میں مکتب کے اس کمسن بچے کی طرح تھا جو چند روز بعد ہی اپنی کتاب کو پھاڑ کرپھینک دیتا ہے اس کے بر عکس عہد اسلامی کا انسان ایک بزرگ عالم کی طرح ہے کہ وہ جس قدر اپنی کتابوں کا بار بار مطالعہ کرتا ہے اسی قدر ان کے مضمین اسے یاد ہوتے چلے جاتے ہیں اور وہ ان کی گہرائی میں اتر تا چلا جاتا ہے۔

انسانی زندگی کو بالعموم عہد تاریخ اور تاریخ سے پہلے کے عہد کے دو ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔تاریخ کا عہد اس دور کو کہا جاتا ہے جس میں انسان اپنی یادداشتوں کو کتبوں اور کتابوں کی صورت میں محفوظ کرنے کے قابل ہوگیا تھا اس دور کی زندگی کے بارے میں ان ہی یادداشتوں کو فیصلہ کن قرار دیا جاتا ہے لیکن ما قبل تاریخ کے عہد کے ایسے کوئی آثار موجود نہیں ہیں جو اس زمانے کی زندگی کے بارے میں فیصلے کی بنیاد بن سکیں۔

لیکن ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ عہد تاریخ کے آثار بھی زیادہ تر پراگندہ اور منتشر ہیں، البتہ اس عہد کا وہ آخری حصہ ظہور اسلام کے دور سے پوری طرح متصل ہے جس میں انسان نے پانی تاریخ اور آثار کو منظم طریقے پر نسل بہ نسل منتقل کرنا شروع کردیا تھا خود اسلام کو اس رشد عقلی کا ایک بڑا عامل سمجھا جاتا ہے۔عہد اسلامی میں مسلمانوں نے خود اپنے آثار کی حفاظت و نگہداشت کا کام شروع کردیا تھا۔اس کے ساتھ مسلمانوں نے پچھلی قوموں کے آثار کی بھی کم و بیش حفاظت کی اور انہیں بعد کی نسلوں کی طرف منتقل کرتے رہے۔یہ ختم نبوت کا قریبی زمانہ ہی ہے کہ جس میں انسان نے اپنے علمی اور دینی ورثوں کی کی حفاظت کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔امر واقع یہ ہے کہ حقیقی عہد تاریخ ظہور اسلام کے عہد سے بالکل متصل ہے، گذشتہ ادوار میں ایک طرف نفیس علمی، فلسفی، اور دینی آثار ہوا اور دوسری طرف یہ آثار آب و آتش کے نذر بھی ہوتے رہے، تاریخ میں اس کی دردناک تفصیلات پوری طرح محفوظ ہیں۔

اسکندریہ کا عظیم مشرق روم کی شہنشاہیت پر مسیحیت کے اثر و رسوخ کے بعد تباہ ہو گیا اور اس مرکز تاریخی کتب خانہ متعصب عیسائیوں کے ہاتھوں نزر آتش ہو گیا!

علم کے ظہور اور ترقی کے ایک ایسے درجے تک انسان کی رسائی نے کہ وہ دین آسمانی کا محافظ، داعی اور مبلغ بن سکے، نبوت تبلیغی کی ضرورت باقی رہنے نہ دی اور اس کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اس امت کے علماء کو انبیاء بنی اسرائیل کی مانند کہا ہے۔

علامہ اقبال نے ایک بڑی عمدہ بات کہی ہے۔

"پیغمبر اسلام دنیائے قدیم جدید کے درمیان کھڑے ہیں۔الہام کے سرچشمے سے جب آپ کا رشتہ جوڑا جاتا ہے تو دنیائے قدیم سے آپ کا تعلق پیدا ہو جاتا ہے اور جب روح الہام کو بروئے کار لایا جاتا ہے تو دنیائے جدید سے آپ کا ربط ہو جاتا ہے۔زندگی نے آپ کی ذات میں معرفت کے وہ دوسرے سرچشمے دریافت کر لئے ہیں جو اس (زندگی) کے نئے سفر کے لیے موزون ہیں۔اسلام کا ظہور در اصل استدلالی اور استقرائی عقل کا وجود میں آنا ہے۔ظہور اسلام کے ساتھ رسالت، خود نبوت کے اختتام پذیر ہونے کی ضرورت کے نتیجے میں، حد کمال کو پہنچ جاتی ہے جس سے لازما یہ دانش مندانہ نتیجہ نکلتا ہے کہ زندگی ہمیشہ، کمسنی کے مرحلے میں اور باہر سے رہنمائی کی محتاج نہیں رہ سکتی۔اسلام میں کاہنی (فالگیر) اور موروثی سلطنت کی نفی اور قرآن میں عقل اور تجربہ پر دائمی توجہ اور اس کتاب مبین کا فطرت اور تاریخ کو معرفت بشری کے سرچشموں کی حیچیت دنیا در اصل ختم نبوت کے واحد عقیدے کے مختلف خدوخال ہیں۔عقیدہ ختم نبوت کے یہ معنے نہیں لینے چاہیں کہ زندگی کی انتہائی سرنوشت یہ ہے کہ عقل کامل جزبات و احساسات کی جگہ حاصل کرلے، یہ بات نہ ممکن ہے اور نہ مطلوب"

اسلام نے اعلان ختم نبوت کے ضمن میں اپنی ابدیت کا اعلان کیا ہے:"حلال محمّدٍ حلال الی یوم القیامه و حرام محمد حرام الی یوم القیامة"

ترجمہ: "محمد کا حلال کیا ہوا قیامت تک حلال ہے اور محمد (ص) کا حرام کیا ہوا قیامت تک حرام ہے"

سوالات اور اعتراضات کی ساری بوچھاڑ اسی موضوع سے ہے کہا جاتا ہے کیا کسی چیز کے لیے ہمیشگی ممکن ہے؟

دنیا میں ہر چیز فانی ہے، اس دنیا کی اصل بنیاد تغیر ہے، دنیا میں سرف ایک ہی چیز جاودانی ہے اور وہ یہ کہ کسی چیز کو ہمیشگی حاصل نہیں۔

ہمیشگی اور ابدیت کے منکر کبھی اپنی باتوں کو فلسفہ کا رنگ دے دیتے ہیں اور دلیل میں تغیر و تبدل کے اس قانون کو پیش کرتے ہیں جو فطرت کا ایک مجموعی قانون ہے۔

اگر ہم مسئلے پر اس نقطہ نظر سے غور کریں تو اعتراض کا واضح جواب مل جاتا ہے کہ وہ چیز جو ہمیشہ تغٰر و تبدل سے دوچار رہتی ہے وہ مادہ اور دنیا کی مادی ترکیبات ہیں لیکن قوانین اور نظامات خواہ وہ طبیعی نظامات ہوں یا وہ اجتماعی نظامات جو طبیعی اصولوں سے ہم آہنگ ہوں اس قانون تغیر و تبدل کے تحت نہیں آتے، ستارے اور شمسی نظامات ظاہر ہوتے ہیں اور چند دنوں بعد فرسودہ اور فانی ہو جاتے ہیں لیکن قانون کشش اپنی جگہ رہنا ہے، نباتات اور حیوانات وجود میں آتے ہیں اور فنا ہو جاتے ہیں لیکن قوانین حیات باقی رہتے ہیں۔

ہی حال انسانوں اور ان کی زندگی کے قابون کا ہے، انسان جن میں پیغمبر بھی شامل ہے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں لیکن پیغمبر کا لایا ہوا آسمانی قانونزندہ اور تابندہ رہتا ہے ۔

مصطفیٰ را وعدہ داد الطاف حق

گر بمیری تو نمیرد این سبق

مظاہر فطرت تغیر پذیر ہیں قوانین فطرت کو تغیر نہیں، اسلام قانون ہے نہ کہ مطاہر کائنات سے ایک مظہراسلام اسی صورت مین مردہ ہو سکتا ہے کہ وہ قوانین فطرت سے ہم آہنگ نہ ہو لیکن جب اسلام کا اپنا دعویٰ ہے کہ وہ فطرت اور انسانی سرشت سے اور اس کے معاشرے سے تازگی اور قوت حاصل کرتا ہے اور قوانین فطرت سے ہم آہنگ ہے تو آخر وہ کس طرح ہو سکتا ہے؟

کبھی اجتماعیت کے پہلو سے اعتراض کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اجتماعی ضوابط اجتماعی تقاضوں کی بنیاد پر وضع کئے جاتے ہیں، جب معاشرہ کی ضروریات قوانین اجتماعی کی بنیاد ہیں تو ان کا عوامیل تمدن کی توسیع و تکمیل کے ساتھ ساتھ متغییر ہونا بھی ضروری ہے ہر زمانے کی ضروریات دوسرے زمانے کی ضروریات سے مختلف ہوتی ہیں، میزائیل طیاروں بجلی اور ٹیلی ویژن کے اس جدید دور کی ضروریات گھوڑوں، خچرون اور اونٹون کی پرانے کی ضروریات سے قطعی مختلف ہون گی، یہ کس طرح ممکن ہے کہ اس جدید دور کے لیے بھی وہی ضوابط نافذ ہوں جو پرانے زمانے میں رائج تھے، دوسرے الفاظ میں عوامل تمدن کے اندر ترقی و توسیع لازمانئے تقاضے پیدا کرے گی، اس لیے جبر تاریخ کا راستہ روکنا اور زمانہ کے ایک ہی حال پر رکھنا ممکن نہیں ہے اور زمانے کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگی اختیار کرنا بھی ممکن نہیں ہے، جامد اور یکساں ضوابط کا پابند رہنا مقتضیات زمانہ کے ساتھ مطابقت اور لچک پیدا کرنے اور تمدن کے قافل کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

بے شک اہم ترین مسئلہ ہے، ہماری نئی نسل بجز تغیر و تبدل اور وجدت طلبی اور زمانے کے نئے نئے تقاضوں کے کچھ نہیں سوچتی، نئی نسل کا سامنا کرتے بھی جو بات سب سے پہلے کانون تک پہنچتی ہے وہ یہی ہے، اس نسل کی انتہا پسندوں کے نقطہ نظر سے مذہب اور نو طلبی دو متضاد وجود ہیں، نو طلبی کی خاصیت حرکت اور ماضٰ سے منہ موڑنا ہے جبکہ مذہب کی خاصیت جمود سکون، ماضی سے وابستگی اور موجودہ وضع کی حفاظت کرنا ہے۔

اسلام کو دسرے ہر مذہب سے زیادہ اس طرز فکر کے حامل گروہ سے مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے، اسلام کا ابدیت و ہمیشگی کا دعوی اس گروہ کے لیے بڑا نا قابل برادشت ہے، اسلام زندگی کے تمام شعبون میں عمل دخل رکھتا ہے، خدا اور بندے کے درمیان تعلق سے لے کر افراد کے اجتماعی روابط، خاندانی روابط، فرد اور اجتماع کے روابط انسنا اور اس دنیا کے با ہمی روابط سب ہی سے وہ بحث کرتا ہے، اگر اسلام دوسرے مذاہب کی طرح چند رسلم عبادات اور خشک اخلاقی ضوابط تک محدود ہوتا تو پھر اس کے لیے کوئی دشواری نہ تھی لیکن وہ اس قدر مدنی، فوجداری، دیوانی، سیاسی، اجتماعی اور خاندانی قوانین و ضوابط رکھتے ہوئے کیا کر سکتا ہے؟

ہم نے اوپر جو اعتراض نقل کیا ہے اس میں جبر تاریخ ضروریات میں تغیر مقضیات زمانہ کی رعایت جیسے نکات کو اٹھا یا گیا ہے اس لیے اعتراض کے ان تین اصل نکات پر مختصراً، بحث کرنا ضروری ہے، اس کے بعد اسلام کے نقطہ نظر سے ہم اس اعتراض کو رفع کرنے کی کوشش کریں گے، ان محدود صفحات مین بحث کے تمام پہلووں کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے، ایک ایسا مسئلہ جو فلسفہ، فقہ، تاریخ اور اجتماعیات سب ہی سے متعلق ہے ایک ضخیم کتاب کی وسعت چاہتا ہے جسے برسون کے مطالعہ کا حاسل قرار دیا جا سکے تا ہم توقع ہے کہ یہ مختسر مقالہ اس اشکال کے رفع کرنے میں مدد دے گا۔

جبر تاریخ

یہ کلمہ و اجزاء سے مرکب ہے ۔جبر اور تاریخ جبر کا مطلب کسی چیز کا حتمی اور یقینی ہونا ہے فلاسفہ کی اصطلاح میں اسے ضرورت اور وجوب کہا جاتا ہے مثلا :جب ہم ۵ *۵ کہتے ہیں تو یہ ضرب کھانے والے دونوں اعداد ضرورتا اور جبرا ۲۵ کے مساوی ہوں گے یعنی حتما ایسا ہی ہے اس کے خلاف ہونا ممکن نہیں ہے ۔یہ بات ظاہر ہے کہ جبر کا لفظ اصطلاحا ایک فلسفیانہ مفہوم رکھتا ہے ۔اس سے ہٹ کر جبر کا مفہوم حقوقی فقہی اور عرفی ہے یعنی یہ لفظ اکراہ اور جبریہ ارمال کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۵ *۵ اپنی ذاتی ساخت کی بناء پر ۲۵ کے مساوی ہے یہ کسی جبری قوت اور جبریہ عمل کی وجہ سے نہیں ہے لیکن تاریخ، تاریخ یعنی حادثات کا مجموعہ جو انسان کی سرگذشت کو تشکیل دیتا ہے ۔انسانی سرگذشت ایک راستہ طے کرتی ہے کچھہ ایسی طاقتیں کار فرما ہیں جو اسے حرکت میں لاتی ہیں اور اسے قابو میں رکھتی ہیں جیسے ایک دستی پہیہ یا ایک کارخانہ جسے ہاتھہ یا بھاپ کی طاقت سے چلایا جاتاہے ۔تاریخ کو بھی کچھہ عوامل اور طاقتیں حرکت میں رکھتی ہیں ۔اسے گردش میں لاتی ہیں اور آگے بڑھاتی ہیں ۔اس اعتبار سے جبر تاریخ، کا مطلب سرگذشت بشر کا حتمی اور پایبند ہونا ہے، جب ہم یہ کہتے ہیں کہ تاریخ کی حرکت کی حرکت جبری ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان کی اجتماعی زندگی میں کچھہ ایسے طاقتور عوامل ہیں جو اپنے قطعی اچرات رکھتے ہیں ۔ان سے بچنا ممکن نہیں ان عوامل کی تاثیر یقینی اور حتمی ہوتی ہے ۔

جبر تاریخ، کے کلمے نے ہمارے اس دور میں بڑی قدر و قیمت حاصل کر لی ہے یہ کلمہ موجودہ زمانے میں وہی کردار ادا کررہا ہے جو اس نے ماضی میں قضا و قدر کے پردہ میں ادا کیا تھا۔حوادث زمانہ کے آگے سپرڈال دینا اور اپنے غلطیوں کے عذر تراشنا اس کا مدعا ہے ۔

یہ ایک شیر خونخوار ہے کہ اس کے مقابل تسلیم و رضا کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ماضی میں اس کا نام قضا و قدر تھا اور موجودہ دور میں اسے جبر تاریخ کہا جاتا ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ نقضا و قدر اور جبر تاریخ دونوں کلمہ صحیح فلسفیانہ مفہوم کے ھامل ہیں ۔ان کے حقیقی مفہوم کو نہ سمجھنا ہی غلط تعبیر کا سبب بنا ہے ہم نے اپنی کتاب "انسان و سرنوشت :میں قضاء و قدر کے بارے میں بحث کی ہے لیکن جبر تاریخ، یہ کہ انسانی سرگذشت دینا کے تمام حوادث کی طرح نہ تبدیل ہونے والا قانون رکھتی ہے اور تاریخی عوامل دوسرے تمام عوامل کی طرح قطعی اور لازمی تاثیرات رکھتے ہیں، یہ کوی ایسی بات نہیں ہے ۔قرآن کریم نے خود سنۃاللہ کہہ کر اس کی تائید کی ہے لیکن ان عوامل کی تاثیر کی نوعیت اصل مسئلہ ہے ۔کیا تاریخ کے جبری عوامل کا اثر اس صورت میں ظاہر ہوتا ہے کہ ہر چیز وقتی محدود اور زوال پذیر ہو کر رہ جاتی ہے یا اس کی کوئی دوسری صورت بھی ہے؟

ظاہر ہے اس مسئلہ کا تعلق عوامل کی نوعیت سے ہے ۔اگر تاریخ کو گردش میں لانے والے عوامل مضبوط اور پائیدار ہوں گے تو ان کی جبری تاثیر کا نتیجہ اس شکل میں ظاہر ہوگا کہ وہ گردش و تسلسل کو برقرار رکھیں گے ۔اگر اس کے بر عکس یہ عوامل ناپا ۴ دار عامل کا تعلق خاندان کی تشکیل رفیق زندگی کے انتخاب اور بچوں کی تولید میں موثر رہا ہے ۔تاریخ کے طویل دور میں خاندانی زندگی کے خلاف تحریکیں اٹھتی رہیں لیکن وہ سب ناکام ہوگئیں ۔ایسا کوں ہوا؟ یہ تحریکیں جبر تاریک کے خلاف تھیں، جبر تاریخ کا تقاضا یہ تھا کہ خاندانی زندگی باقی رہے ۔

ایک دوسرا تاریخی عامل مذہب ہے ۔پرستش انسان کی سرشت میں شامل ہے یہ کسی نہ کسی صورت میں موجود رہی ہے ۔یہ عامل تاریخ کے تمام ادوار میں موثر رہا ہے اور اس نے مذہب پر سے توجہ کو ہٹنے نہیں دیا ۔

غرض یہ کہ جبر تاریخ کو کسی محدود اور وقتی چیز کے مساوی قرار دے کر ہر قانون اور قائدہ کی ناپائیداری پر دلیل لانا ایک بڑی غلطی ہے ۔جبر تاریخ، اس جگہ ناپائیداری کو نتیجہ کی صورت میں سامنے لاتی ہے جہاں زیر نظر عامل، جیسے اقتصادی پیداوار کا عامل ہو اور کوئی دوسرا عامل اس کی جگہ لے اس لئے انسان اور اس کی ضرورت تاریخ کو گوشزد میں لانے والے عوامل اور ان میں سے ہر عامل کی معاشرہ پر اثر انداز ہونے والی تاثیری قوت کا سراغ لگانا چاہئے تا کہ یہ معلوم ہو کہ اس کا اثر کہاں تک پہنچتا ہے اور ان میں سے کونسا عامل مضبوط و پائدار ہے اور کونسا کمزور و ناپائیدار ۔

حقیقت یہ ہے کہ انسانی زندگی کی جملہ حالتوں کی ناپائیداری کو جبر تاریخ کے مساوی قرار دینے کا مفروضہ ہی انسان کے "یک جہتی" ہونے کے مفروضے کو آگے لانے کا سبب بنا ہے اس مفروضے کے مطابق "یک جہت" انسان زیادہ قدر و قیمت نہیں رکھتا اور تاریخ کا تعغیر ایک "یک شاخہ" تعغیر ہے ۔اس مفروضے کے حامیوں کے نقطہ نظر سے ہر دور میں تاریخ کا اصلی اور بنیادی عامل معشیت ہے دولت کی پیداوار اور تقسیم کا طریقہ، افراد کے اقتصادی روابط جیسے کارخانہ اور مزدور کے روابط، کسان اور زمیندار کے روابط جو کمزور اور تعغیر پذیر روابط ہیں، زندگی کے دوسرے گوشوں مثلا دین علم، فلسفہ، قانون، اخلاق اور ہنر کا تعین کرتے ہیں ۔ابتدا "دنیا میں اس مفروضے کا بڑا چرچا ہوا لیکن اب یہ اپنی قدر و قیمت کھو چکا ہے ۔آج دنیا اور تاریخ کے بہت سے مادہ پرست مفسرین اس مفروضے کو مسترد کرچکے ہیں ۔

ہر چند کہ ابھی علمی اعتبار سے قطعی طور ہر یہ نہیں کہاجاسکتا کہ انسان "یہ ناشنوا ساوجود "کثیر الجہت ہے اور انسانی تاریخ کی توجیہ کثیرالجہت، کے مفروضے سے ہی کی جاسکتی ہے البتہ یہ تسلیم شدہ قدر ہے انسان "یک جہت" نہیں ہے ۔اس کے یک جہت ہونے کا نظریہ اور انسانی تاریخ کے سفر کا یک خطی ہونے کا مفروضہ سب سے زیادہ بے بنیاد بے بنیادمفروضہ ہے ۔


4

5

6