معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ

معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ0%

معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ

مؤلف: مولانا ذيشان حيدر جوادی
زمرہ جات:

مشاہدے: 7625
ڈاؤنلوڈ: 2492

تبصرے:

معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 15 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 7625 / ڈاؤنلوڈ: 2492
سائز سائز سائز
معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ

معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ

مؤلف:
اردو

زمانہ غیبت ِ کبریٰ کے روابط

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام عصرں کی غیبت کی دو قسمیں ہیں۔ غیبت ِ صغریٰ جس کا سلسلہ ۲۶۰ ئھ سے شروع ہوکر ۳۲۹ ئھ ختم ہوگیا اور جس کے دوران مختلف نواب امام کی طرف سے قوم کے لیے رابطہ کا کام کرتے رہے۔ انہیں کے ذریعہ پیغامات اور سوالات جاتے تھے اور انہیں کے ذریعہ جوابات آیا کرتے تھے۔

جناب عثمان بن سعید، جناب محمد بن عثمان، جناب حسین بن روح اور جناب علی بن محمد سمری وہ معتمد اور مقدس افراد تھے جنہیں امام زمانہ عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف نے اپنی نیابت اور سفارت کا شرف عطا فرمایا تھا اور انہیں کے ذریعہ ہدایت اور رہبری کے امور انجام پا رہے تھے۔

اس کے بعد جب غیبت ِ کبریٰ کا دور شروع ہوا اور نیابت ِ خاص کا سلسلہ ختم ہوگیا تو نیابت ِ عام کا سلسلہ شروع ہوا اور اعلان عام ہوگیا کہ اس دور غیبت کبریٰ میں مخصوص صفات کے افراد مرجع مسلمین ہوں گے اور انہیں کے ذریعہ ہدایت امت کا کام انجام دیا جائے گا۔ امت اور اسلام کی حفاظت ان کے ذمہ ہوگی اور ان کی ہدایت و حفاظت ہماری ذمہ داری ہوگی۔

چنانچہ ظاہری نیابت و سفارت کا سلسلہ منقطع ہوگیا لیکن حفاظت و ہدایت کا سلسلہ جاری رہا اور بے شمار مواقع پیش آئے جب امام نے اپنے نائبین عام کی ہدایت و حفاظت کا فرض انجام دیا اور جہاں ان سے کوئی غلطی ہوگئی یا ان کا وجود خطرہ میں پڑ گیا اور اس کے ذریعہ اسلام کو خطرہ لاحق ہوگیا تو ان کی حفاظت کا فرض بھی انجام دیا۔۔۔۔۔ یہ اور بات ہے کہ موت برحق ہے اور کسی کو ہمیشہ نہیں رہنا ہے۔ اور بعض اوقات بعض افراد کا راہ حق میں قربان ہو جانا ہی اسلام کے لیے زیادہ مفید تھا تو اس وقت حفاظت و رعایت کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا تھا۔۔۔۔۔ لیکن اس کے علاوہ عمومی حالات میں انہوں نے ہمیشہ نگرانی فرمائی ہے اور حفاظت و صیانت کا کام انجام دیتے رہے ہیں۔

غیبت ِ صغریٰ اور غیبت ِ کبریٰ کی نیابت کا بنیادی فرق یہی ہے کہ غیبت ِ صغریٰ میں نائبین کی شخصیت طے ہوئی تھی اور غیبت ِ کبریٰ میں ان کے صفات و کمالات کا تعیّن کیا گیا ہے اور شاید اس طریقہ کار میں بھی یہ مصلحت شامل تھی کہ روز اول ہی صفات کا تعیّن کر دیا جاتا تو ہر شخص اپنے آپ کو ان صفات کا حامل قرار دے لیتا اور دوچار اپنے مخلصین جمع کرکے نیابت کا دعویدار بن جاتا اس لیے آپ نے صفات کے بجائے شخصیات کا تعین فرمایا تاکہ لوگ ان افراد کو دیکھ کر ان کے حالات کا جائزہ لیں اور یہ اندازہ کر لیں کہ یہ کن صفات و کمالات کے حامل ہیں اور اس کے بعد یہ طے کریں کہ نیابت امام کے لیے کیسے افراد کی ضرورت ہوتی ہے اور کس قسم کے صاحبانِ علم و فضل اور ارباب ِ عزم و ہمت درکار ہوتے ہیں جنہیں امام اپنی نیابت کا کام سپرد کرتا ہے کہ اس کے بعد جب صفات کا تذکرہ کیا جائے گا تو ہر کس و ناکس کو ان صفات کا حامل تصور نہ کیا جائے گا بلکہ اس کے کردار کو ان نائبین کے کردار سے ملا کر دیکھا جائے گا اور پھر اندازہ لگایا جائے گا کہ یہ شخص نیابت ِ امام کا حق دار ہے یا نہیں۔

امام کے صیانت و حفاظت کے شواہد میں وہ خطوط بھی شامل ہیں جو دور غیبت کبریٰ میں امام کی طرف سے وارد ہوتے رہے ہیں، جن میں آپ نے قوم کی حفاظت اور ذمہ داران قوم کی ہدایت کا تذکرہ فرما کر امت اسلامیہ کو مطمئن کر دیا ہے کہ ہم پردہ غیب میں ہیں، دنیا سے رخصت نہیں ہوگئے ہیں۔ ہماری غیبت کا مفہوم تمہاری طرف سے غیبت ہے ہماری طرف سے غیبت نہیں ہے۔ ہم تمہاری نگاہوں سے غائب ہیں اور تم ہماری زیارت نہیں کر سکتے ہو لیکن تم ہماری نگاہ سے غائب نہیں ہو۔ ہم تمہیں برابر دیکھ رہے ہیں اور تمہارے حالات و کیفیات کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ہم تمہارے حالات سے غافل ہو جائیں تو تمہارا وجود ہی خطرہ میں پڑ جائے اور امامت بھی خطرہ میں پڑ جائے کہ امام قوم کے حالات سے غافل نہیں ہو سکتا۔ دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی قوم کے حالات پر نگاہ رکھتا ہے اور روز ِ قیامت بھی ان کے اعمال کا شاہد و شہید ہوگا، ہم زندہ موجود ہیں، ہمارے اور تمہارے درمیان صرف نگاہوں کا پردہ ہے ورنہ ہم نہ کسی دوسرے ملک میں رہتے ہیں اور نہ کسی دوسرے عالم میں۔ تمہارے ہی درمیان ہیں، تمہارے آلام و مصائب میں شریک ہیں، تمہارے درد و رنج کو دیکھتے رہتے ہیں، موسم حج میں تمہارے ساتھ شریک مناسک رہتے ہیں، تمہارے آباء و اجداد کی زیارت میں تمہارے شانہ بشانہ پڑھتے ہیں بلکہ کبھی کبھی انہیں ہمارے وجود اور ہماری زیارت کا اندازہ نہیں ہوتا ہے اور جب ہم امام زمانہ کی زیارت کے موقع پر جواب سلام دیتے ہیں تو ان کے ذہن کو ایک جھٹکا سا محسوس ہوتا ہے لیکن اس کا واقعی احساس ہمارے چلے جانے کے بعد ہی ہوتا ہے۔

ہماری حفاظت و ہدایت میں کسی طرح کا نقص نہیں ہے اور ہم ہر آن تمہاری نگرانی کرتے رہتے ہیں جس کا بہترین ثبوت وہ خطوط ہیں جو ہم نے غیبت کبریٰ کے باوجود اپنے مخلص خادمین دین کو لکھے ہیں اور ان میں ان تمام حقائق کا تذکرہ بھی کر دیا ہے۔

ذیل میں ان دو خطوط کا ترجمہ درج کیا جاتا ہے جو امام زمانہ عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف نے علامہ شیخ مفید علیہ الرحمہ کے نام لکھے ہیں اور جن کے الفاظ سے شیخ کی عظمت اور امام کی محبت و حفاظت و رعایت و صیانت کا مکمل اندازہ ہوتا ہے۔

ایک خط میں ارشاد فرماتے ہیں:

”برادر سعید اور محبوب رشید شیخ مفید ابی عبد الله محمد بن محمد بن النعمان (خدا ان کے اعزاز کو باقی رکھے) کے لیے مرکز عہد الٰہی امام کی جانب سے۔

بسم الله الرحمن الرحیم۔ اے میرے مخلص دوست اور اپنے یقین کی بنا پر مجھ سے خصوصیت رکھنے والے محب تم پر میرا سلام۔ ہم خدائے وحدہ لا شریک کی حمد کرتے ہیں اور رسول اکرم اور ن کی آل طاہرین پر صلوٰة و سلام کی التماس کرتے ہیں۔

خدا نصرت حق کے لیے آپ کی توفیقات کو برقرار رکھے اور ہماری طرف سے صداقت بیانی کے لیے آپ کو بہترین اجر عطا فرمائے۔ یاد رکھیے کہ ہمیں قدرت کی طرف سے اجازت ملی ہے کہ ہم آپ کو مراسلت کا شرف عطا کریں اور اپنے دوستوں کے نام پیغام آپ کے ذریعہ پہنچائیں۔ خدا ان سب کو اپنی اطاعت کی عزت عطا کرے، اور اپنی حفاظت و حراست میں رکھے۔ خدا بے دینوں کے مقابلہ میں آپ کی تائید کرے۔ آپ میرے بیان پر قائم رہے اور جس جس پر آپ کو اعتبار و اعتماد ہو اس تک یہ پیغام پہنچا دیں۔ ہم اس وقت ظالمین کے علاقہ سے دور ہیں اور الله کی مصلحت ہمارے اور ہمارے شیعوں کے حق میں یہی ہے کہ ایسے ہی دور دراز علاقہ میں رہیں جب تک دنیا کی حکومت فاسقین کے ہاتھ میں رہے۔ لیکن اس کے باوجود ہمیں تمہاری مکمل اطلاع رہتی ہے اور کوئی خبر پوشیدہ نہیں رہتی ہے۔ ہم اس ذلت سے بھی باخبر ہیں جس میں تم لوگ اس لیے مبتلا ہوگئے ہو کہ تم میں سے بہت سے لوگوں نے صالح بزرگوں کا طریقہ ترک کر دیا ہے اور عظمت ِ الٰہی کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے جیسے وہ اس عہد سے باخبر ہی نہ ہوں۔

ہم تمہاری نگرانی کے ترک کرنے والے اور تمہاری یاد کے بھلا دینے والے نہیں ہیں۔ ہم تمہیں یاد رکھتے تو تم پر بلائیں نازل ہو جاتیں اور دشمن تمہیں جلا کر خاکستر بنا دیتے۔ خدا سے ڈرو اور فتنوں سے بچانے میں ہماری مدد کرو۔ فتنے قریب آگئے ہیں اور ان میں ہلاکت کا شدید اندیشہ ہے۔ یہ فتنہ ہماری قربت کی علامت ہے۔ خدا اپنے نور کو بہرحال مکمل کرنے والا ہے چاہے مشرکین کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔

تقیہ کو حفاظت کا ذریعہ قرار دو اور اموی گروہ کی جاہلیت کی آگ سے محفوظ رہو۔ جو اس جاہلیت سے الگ رہے گا ہم اس کی نجات کے ذمہ دار ہیں۔ اس سال جمادی الاولیٰ کا مہینہ آجائے تو حوادث سے عبرت حاصل کرو اورخواب سے بیدار ہو جاؤ اور بعد میں آنے والے واقعات کے لیے ہوشیار ہو جاؤ۔

عنقریب آسمان اور زمین میں نمایاں نشانیاں ظاہر ہوں گی۔ سرزمین مشرق پر قلق و اضطراب ظاہر ہوگا۔ عراق پر ایسے گروہوں کا قبضہ ہوگا جو دین سے خارج ہوں گے اور ان کی بد اعمالیوں سے روزی تنگ ہو جائے گی۔ اس کے بعد طاغوت کی ہلاکت سے مصیبت دفع ہوگی اور صاحبانِ تقویٰ اور نیک کردار افراد خوش ہوں گے۔

حج کا ارادہ کرنے والوں کی مرادیں پوری ہوں گی اور ہم ایک مرتب اور منظم طریقہ سے ان کی آسانی کا سامان فراہم کریں گے۔ اب ہر شخص کا فرض ہے کہ ایسے اعمال انجام دے جو ہماری محبت سے قریب تر بنا دیں اور ایسے امور سے اجتناب کرے جو ہمیں ناپسند ہیں اور ہماری ناراضگی کا باعث ہیں۔ ہمارا ظہور اچانک ہوگا اس وقت توبہ کا کوئی امکان نہ رہے گا اور نہ ندامت سے کوئی فائدہ ہوگا۔ خدا تمہیں ہدایت کا الہام کرے اور اپنی توفیق خاص عنایت فرمائے۔“

یہ خط علامہ شیخ مفید علیہ الرحمہ کی وفات سے تین سال قبل صفر ۴۱۰ ئھ میں واصل ہوا تھا، اور دوسرا خط بھی تقریباً اسی طرح کے مضمون کا حامل ہے لیکن ان خطوط کے مضامین سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی تازگی ہمہ وقت برقرار ہے اور اس کا ایک ایک جملہ ابدی حیثیت رکھتا ہے۔

صاحبانِ ایمان کو ان خطوط کے حسب ذیل نکات پر خصوصی توجہ دینا چاہیے اور ہر وقت توفیق خیر کی دعا کرتے رہنا چاہیے:

۱ ۔ راہِ حق میں جہاد کرنے والے اور دین اسلام کی خدمت کرنے والوں کو امام عصرں اپنے ”برادر رشید“ کا مرتبہ عنایت فرماتے ہیں۔

۲ ۔ امام اپنی قوم سے ہر وقت رابطہ رکھتے ہیں لیکن کوئی کام مرضی پروردگار کے بغیر انجام نہیں دیتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ خط بھی اسی وقت لکھتے ہیں جب حکم خدا ہوتا ہے۔

۳ ۔ امام ظالموں کے علاقہ سے دور بھی رہتے ہیں اور صاحبانِ ایمان سے قریب بھی رہتے ہیں کہ اس طرح دونوں کی حفاظت بھی ہو رہی ہے اور کارِ دین بھی انجام پا رہا ہے۔

۴ ۔ قوم کی ساری پریشانیاں ان بے عمل اور بے دین افراد کی وجہ سے ہیں جنہوں نے سلف صالح کا طریقہ ترک کر دیا ہے اور عہد الٰہی کو نظر انداز کر دیا ہے۔

۵ ۔ امام کسی وقت بھی قوم کی نگرانی سے غافل نہیں ہیں اور اس کا زندہ ثبوت خود قوم کا وجود ہے ورنہ اب تک ظالموں نے سب کو فنا کر دیا ہوتا۔

۶ ۔ تقیہ ایک بہترین عمل ہے۔ اس کا نظر انداز کر دینا ہلاکت کو دعوت دینا ہے لیکن اسی کے ساتھ خدمت ِ اسلام کا عمل بھی جاری رہنا چاہیے۔

۷ ۔ عراق کے حکام کی بے دینی عوام کی روزی کی تنگی کا باعث ہوگی جس کا منظر آج بھی نگاہوں کے سامنے ہے کہ ظالموں کی وجہ سے عوام فاقوں کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

۸ ۔ عراقی طاغوت کا خاتمہ ہوگا اور صاحبانِ ایمان و تقویٰ کی مسرت کا سامان فراہم ہوگا، انشاء الله۔

۹ ۔ حج کے مشکلات ختم ہوں گے اور سہولتوں کا دور آئے گا اور امام کی نگرانی میں نظامِ حج مرتب ہوگا، انشاء الله۔

۱۰ ۔ صاحبان ایمان کا فرض ہے کہ امام سے قریب تر بنانے والے اعمال اختیار کریں اور امام کی ناراضگی سے بچتے رہیں۔ بے عملی، بے دینی، توہین احکام اسلام، غلط بیانی، افترا پردازی، تفرقہ بازی، ضمیر فروشی، محسن کشی، فرائض کا استخفاف، محرمات کی دعوت جیسے اعمال وہ ہیں جن سے امام زمانہ عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف ناراض ہوتے ہیں اور جن کا محاسبہ ظہور کے بعد بہت سخت ہوگا۔ خدا ہم سب کو امامں سے قریب تر ہونے اور انہیں ارضی رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

زائرین قائم آل محمد

امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کے زائرین کی دو قسمیں ہیں:

۱ ۔ بعض افراد وہ ہیں جنہوں نے زمانہ غیبت ِصغریٰ میں آپ کی زیارت کی ہے۔

۲ ۔ بعض افراد وہ ہیں جنہوں نے غیبت ِ کبریٰ میں یہ شرف حاصل کیا ہے۔

غیبت ِ کبریٰ کے زائرین کا سلسلہ بحمد الله قائم ہے، لہٰذا ان کے اعداد و شمار کا مقرر کرنا ناممکن ہے اور جب تک ملاقاتوں اور زیارتوں کا یہ سلسلہ قائم رہے گا ان کے اعداد و شمار میں اضفاہ ہی ہوتا رہے گا جیساکہ محدث نوری علیہ الرحمہ نے اس قسم کے سو واقعات کا ذکر کیا ہے اور شیخ قمی علیہ الرحمہ نے ان میں سے تقریباً صرف ایک چوتھائی کا ذکر کیا ہے اور باقی علماء و مولفین نے اور دوسرے واقعات کا ذکر کیا ہے اور یہ سلسلہ برابر جاری ہے لہٰذا ان میں سے صرف ان واقعات کی طرف اشارہ کیا جائے گا جن میں ملاقات کے علاوہ عمومی افادیت کا پہلو بھی پایا جاتا ہے۔ غیبت ِ صغریٰ کے چند زائرین کی اجمالی فہرست یہ ہے:

۱ ۔ نائب اول عثمان بن سعید عمروی

۲ ۔ نائب دوم محمد بن عثمان بن سعید عمروی

۳ ۔ نائب سوم حسین بن روح نوبختی

۴ ۔ نائب چہارم علی بن محمد سمری

۵ ۔ سفیر عام حاجز، بلال اور عطار بغدادی (غایة المقصود)

۶ ۔ عاصمی کوفی

۷ ۔ محمد بن ابراہیم بن فہریار اہوازی

۸ ۔ محمد بن صالح ہمدانی

۹ ۔ بسامی و اسدی رازی

۱۰ ۔ قم بن علاء آذربائجانی

۱۱ ۔ محمد بن شاذان نیشاپوری

۱۲ ۔ احمد بن اسحاق قمی

۱۳ ۔ ابو الادیان (قبل آغازِ غیبت)

۱۴ ۔ ابو القاسم بن رئیس

۱۵ ۔ ابو عبد الله بن فروخ

۱۶ ۔ مسرور طباخ

۱۷ ۔ احمد و محمد بن الحسن

۱۸ ۔ اسحاق کاتب نوبختی

۱۹ ۔ صاحب الغرا

۲۰ ۔ صاحب الصرة المختومہ

۲۱ ۔ ابو القاسم بن ابی جلیس

۲۲ ۔ ابو عبد الله الکندی

۲۳ ۔ ابو عبد الله الجنیدی

۲۴ ۔ محمد بن کشمر و جعفر بن حمدان دینوری

۲۵ ۔ حسن بن ہراون و احمد بن ہراون اصفہانی

۲۶ ۔ زیدان قمی

۲۷ ۔ حسن بن نصر، محمد بن محمد، علی بن محمد بن اسحاق، حسن بن یعقوب ازدی

۲۸ ۔ قسم بن موسیٰ، ابن قسم بن موسیٰ، ابن محمد بن ہارون، علی بن محمد (کلینی)

۲۹ ۔ ابو جعفر الرقاء (قزوین)

۳۰ ۔ علی بن احمد (فارس)

۳۱ ۔ ابن الجمال (قدس)

۳۲ ۔ مجروح (مرو)

۳۳ ۔ صاحب الالف دینار (نیشاپور)

۳۴ ۔ محمد بن شعیب بن صالح (یمن)

۳۵ ۔ فضل بن زید، حسن بن فضل، جعفری، ابن الاعجمی (مصر)

۳۶ ۔ صاحب المولودین، صاحب المآل (نصیبین)

۳۷ ۔ ابو محمد بن الموجنا (اہواز)

۳۸ ۔ الحصینی

ان کے علاوہ نہ جانے کتنے خوش قسمت تھے جن کا تذکرہ کتابوں میں نہیں ہو سکا ہے، کسی دوسرے ذیل میں ہوگیا ہے جیسے کہ جناب حکیمہ کو جو امام زمانہ عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کی سب سے پہلی زائرہ تھیں لیکن ان کا ذکر زائرین کے ذیل میں نہیں کیا گیا ہے بلکہ خدمات ولادت کے ذیل میں کیا گیا ہے، یا دیگر افراد کہ جن کے سامنے خود امام حسن عسکریں نے اپنے فرزند کو پیش کیا ہے اور انہوں نے حضرت کے جمال مبارک کی زیارت غیبت ِ صغریٰ کے آغاز سے پہلے کی ہے۔

میں نے ان کے اسماءِ گرامی کی طرف اس لیے اشارہ کر دیا ہے کہ اصل مقصد غیبت کے زائرین کی فہرست تیار کرنا نہیں ہے بلکہ ان افراد کی نشان دہی کرنا ہے جنہوں نے حضرت قائمں کی زیارت کی ہے اور جن کی شہادت کے بعد حضرت کے ووجد اور ان ولادت کا انکار کرنا ایک سفطہ اور مکابرہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

غیبت کبریٰ کے جن زائرین کی نشان دہی علامہ شیخ عباس قمی نے کی ہے

ان میں سے بعض کے اسماء گرامی یہ ہیں:

۱ ۔ اسماعیل ہرقلی: جن کا مرض لاعلاج ہوگیا تھا اور انہوں نے سید ابن طاؤس کے پاس حاضری اور اس کے بعد امام عصرں سے توسل کیا اور انہوں نے دست مبارک پھیر کر مرض کو بالکل ختم کر دیا جس کا نشان بھی باقی نہیں رہ گیا تھا اور پیروں میں ناسور کی جگہ پر باقاعدہ طبیعی جلد نظر آنے لگی تھی۔

۲ ۔ سید محمد جبل عالمی : جنہیں حکومت نے جبری فوج میں بھرتی کرنا چاہا تو لبنان سے بھاگ کھڑے ہوئے اور پانچ سال کی دربدری کے بعد نجف اشرف وارد ہوئے۔ حالات سے پریشان ہوکر بہت دعائیں کیں لیکن وسعت ِ رزق کا کوئی راستہ نہ نکلا تو بالآخر عریضہ ڈالنے کا پروگرام بنایا اور نجف سے باہر جا کر روزانہ صبح کو دریا میں عریضہ ڈالتے رہے۔ ۳۹ دن کے بعد راستہ میں ایک شخص سے ملاقات ہوئی جس کا لباس عراقی تھا اور لہجہ لبنانی۔ اس نے دریافت ِ حال کیا کہ ۳۹ دن سے کیوں عریضہ ڈال رہے ہو کیا امام تمہارے حال سے باخبر نہیں ہے؟ میں نے حیرت زدہ ہوکر مصافحہ کا ارادہ کیا۔ مصافحہ کرنے پر ہاتھ کی لطافت سے محسوس کیا کہ یہ امام عصر ہیں اس لیے کہ ان کے دست مبارک کے بارے میں ایسی ہی روایت سنی ہے۔ اب جو دست بوسی کا ارادہ کیا تو وہ غائب ہو چکے تھے (واضح رہے کہ اس واقعہ کا مقصد یہ نہیں ہے کہ عریضہ بیکار ثابت ہوا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ عریضہ ہی کے زیر اثر ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے۔

۳ ۔ سید عطوہ حسنی : صاحب کشف الغمہ نے ان کے فرزندوں سے روایت کی ہے کہ میرے باپ زیدی مذہب تھے اور ہم لوگوں سے امامیہ مذہب کی بنیاد پر بیزار رہا کرتے تھے۔ ایک دن انہوں نے شدت مرض کے عالم میں کہا کہ جب تک تمہارے صاحب مجھے شٰا نہ دیں گے میں ایمان نہ لاؤن گا۔ تھوڑی رات کے بعد بلند آواز سے پکار کر کہا کہ دوڑو اپنے صاحب سے ملاقات کرو۔ ہم لوگ دوڑ پڑے لیکن کوئی نظر نہ آیا۔ صرف باپ کا یہ بیان سنا کہ ایک بزرگ آکر دست ِ شفا پھیر کر درد کو زائل کر گئے ہیں اور پھر ان کا یہ اطمینان دیکھا کہ انہیں کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں تھی۔

۴ ۔ علامہ حلی نے منہاج الصلاح میں ابن طاؤس سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ سید رضی الدین محمد بن محمد بن محمد آوی کو حکومت نے گرفتار کر لیا تھا۔ انہوں نے عاجز آکر امام زمانہ عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف سے استغاثہ کیا تو حضرت نے دعائے عبرت پڑھنے کا حکم دیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اس دعا کا علم نہیں ہے۔ فرمایا: کتاب مصباح میں ہے۔ انہوں نے عرض کی کہ میں نے نہیں دیکھی ہے۔ فرمایا کہ ہے۔ اب جو بیدار ہو کر دیکھا تو کتاب میں ایک رقعہ رکھا ہوا تھا۔ اس دعا کی تلاوت کی تو حاکم کی زوجہ نے خواب میں دیکھا کہ امیر المومنین فرما رہے ہیں کہ اگر میرے فرزند کو رہا نہ کیا تو تیرے شوہر کو فنا کر دیا جائے گا۔ اس نے بیدار ہوکر شوہر سے بیان کیا تو اس نے فوراً رہا کر دیا۔

۵ ۔ میر اسحاق استر آبادی : علامہ مجلسی نے ان کا بیان یوں نقل کیا ہے کہ میں راہِ مکہ میں قافلہ سے الگ ہوکر سخت پریشان تھا تو امام عصرں سے استغاثہ کیا۔ حضرت تشریف لائے اور حرز یمانی پڑھنے کا حکم دیا۔ میں پیاسا تھا مجھے پانی پلایا اور پھر میری تلاوت کی اصلاح کی اور اپنے ساتھ سواری پر سوار کرکے قافلہ سے ۹ روز پہلے مکہ پہنچا دیا اور اہل خانہ نے مشہور کر دیا کہ میں صاحب کرامات ہوں اور طی الارض کے ذریعہ مکہ آیا ہوں۔

۶ ۔ سید ابن طاؤس نے ”فرج الہموم“ میں ابو جعفر محمد بن ہارون بن موسیٰ تلعکبری کے حوالے سے ابو الحسین بن ابو البغل کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ میرا ایک معاملہ ابو منصور بن ابو صامحان سے تھا اس میں کچھ اختلاف پیدا ہوگیا اور میں اس کے خوف سے روپوش ہوگیا۔ ایک دن امام موسیٰ کاظمں کے روضہ پر گیا اور ابو جعفر سے گزارش کی کہ آج حرم کے دروازے بند کر دینا میں حضرت سے تنہائی میں فریاد کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے دروازے بند کر دیے اور میں نے نماز، دعا، زیارت اور مناجات شروع کی کہ اچانک ایک جوان کو دیکھا جس نے زیارت میں امام زمانہ کے علاوہ سب کو سلام کیا۔ میں حیرت زدہ ہوگیا کہ یہ کون سا مذہب ہے۔ کچھ پوچھنا ہی چاہتے تھے کہ فرمایا: دعائے فرج پڑھو، اور پھر دعائے فرج کی تعلیم دی۔ ”یا من اظھر الجمیل اور آخر میں یا محمد یا علی اکفیانی فانکما کافیان و انصرانی فانکما ناصران“۔ میں اس عمل میں مشغول ہوگیا اور عمل تمام کرنے کے بعد اس جوان کو تلاش کیا تو کوئی نظر نہ آیا۔ ابو جعفر سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ دروازے بند ہیں۔ یہ تمہارے امام زمانہں تھے جو تمہاری مشکل کشائی کے لیے آئے تھے۔

واضح رہے کہ دعائے فرج کے نام سے مختلف دعائیں کتابوں میں پائی جاتی ہیں جن میں سے ایک دعا یہ بھی ہے ورنہ ﴿یا عماد من لا عماد لہ﴾ کو بھی دعائے فرج ہی کہا جاتا ہے۔

۷ ۔ ابو راجح حمامی : علامہ مجلسی نے ان کا واقعہ اس طرح نقل کیا ہے کہ حلہ میں حمام کا کاروبار کرتے تھے۔ وہاں ایک حاکم مرجان صغیر تھا جو انتہائی درجہ کا ناصبی اور دشمن اہل بیت تھا۔ لوگوں نے اس کے پاس ابو راجح کی شکایت کر دی کہ صحابہ کو گالیاں دیتے ہیں۔ اس نے طلب کرکے ان کی مرمت کا حکم دے دیا۔ سرکاری کارندوں نے اس قدر مارا کہ سارا چہرہ لہولہان ہوگیا۔ سارے دانت ٹوٹ گئے اور ناک میں نکیل ڈال کر کھینچتے ہوئے حاکم کے سامنے حاضر کیا۔ اس نے قتل کا حکم دے دیا تو لوگوں نے کہا کہ یہ بوڑھا اپنی جان سے جا رہا ہے اب قتل کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس نے دربار سے باہر پھینکوا دیا۔ رات کو ابو راجح نے امام عصرں سے فریاد کی۔ اس وقت جب تمام گھر والے زندگی کے لمحات شمار کر رہے تھے ایک مرتبہ دیکھا کہ گھر نور سے معمور ہوگیا ہے اور ایک بزرگ نے آکر پورے جسم پر ہاتھ پھیر کر مکمل صحت عطا فرما دی ہے یہاں تک کہ سارے دانت بھی واپس آگئے ہیں اور بیس سالہ جوان معلوم ہونے لگیں۔ صبح کو لوگوں میں یہ خبر مشہور ہوئی تو ابو راجح کو پھر حاکم کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس ظالم نے اپنی آنکھوں سے اس کرامت کا مشاہدہ کر لیا لیکن راہِ راست پر نہ آیا۔

۸ ۔ علامہ مجلسی نے بحار میں اس واقعہ کو بھی نقل کیا ہے کہ انگریزوں نے بحرین میں اپنا ایک نمائندہ معیّن کر دیا تھا جو انتہائی درجہ کا دشمن اہل بیت تھا اور ہمیشہ محبانِ اہل بیت کو اذیت پہنچانے کی فکر میں رہا کرتا تھا۔ ایک دن اس کے وزیر نے دربار میں ایک انار پیش کیا جس پر خلفاء کے نام ثبت تھے اور حاکم سے کہا کہ یہ ہمارے مذہب کی حقانیت کی دلیل ہے لہٰذا اگر شیعہ اسے نہ تسلیم کریں تو انہیں قتل کر دیا جائے۔ ان کی عورتوں کو کنیز بنا لیا جائے اور ان کا مال بہ طور غنیمت لے لیا جائے۔ حاکم نے علماءِ شیعہ کو طلب کرکے انار دکھلایا۔ سب پریشان ہوگئے اور جواب کے لیے تین دن کی مہلت طلب کی۔ آپس میں اجتماع کرکے دس مقدسین کا انتخاب کیا اور پھر ان میں سے تین کا انتخاب کیا کہ امام عصرں سے استغاثہ کریں۔ پہلے دن استغاثہ کیا، کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ دوسرے دن دوسرے مقدس نے استغاثہ کیا، کوئی فائدہ نہ ہوا۔ تیسرے دن محمد بن عیسیٰ کی باری آئی۔ وہ مصروف استغاثہ تھے کہ ایک شخص کو دیکھا انہوں نے فرمایا کہ اپنی پریشانی بیان کرو، میں مشکل کو حل کر دوں گا۔ عرض کی کہ اگر آپ امام عصر ہیں تو بیان کے محتاج نہیں ہیں۔ آپ نے پریشانی کا ذکر کیا اور فرمایا کہ حاکم سے کہہ دو کہ وزیر نے اپنے گھر میں ایک سانچہ تیار کر رکھا ہے اور اس پر یہ نام کندہ کر دیے ہیں۔ کچے انار پر سانچہ چڑھا دیا تھا۔ جب انار بڑے ہوئے تو یہ نام ثبت ہوگئے اور وہ سانچہ وزیر کے گھر کے فلاں حجرہ میں رکھا ہے۔ آپ اسے طلب کریں اور وزیر کو نہ جانے دیں۔ حاکم نے ابن عیسیٰ کے بیان پر سانچہ کو طلب کیا اور جب حقیقت واضح ہوگئی تو پوچھا کہ تمہیں کیسے معلوم ہوگیا۔ فرمایا کہ میرے مولا نے بتایا ہے جو سلسلہ امامت کے بارہویں امام ہیں اور یہ بھی فرمایا ہے کہ انار کو توڑا جائے ان ناموں کی برکت سے اندر سے راکھ کے علاوہ کچھ نہ نکلے گا۔ چنانچہ حاکم نے اس کا بھی تجربہ کیا اور جب حق بالکل واضح ہوگیا تو اس نے مذہب ِ شیعہ کو قبول کرنے کا اعلان کر دیا اور محمد بن عیسیٰ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔

۹ ۔ آقائی میرزا عبد الله اصفہانی نے کتاب ”ریاض العلماء“ میں نقل کیا ہے کہ ابو القاسم محمد بن ابو القاسم حاسمی جو ایک باخبر شیعہ تھے اور رفیع الدین ہسین جو ایک متعصب سنی تھے دونوں میں باقاعدہ دوستی تھی اور آپس میں نوک جھونک چلا کرتی تھی۔ ابو القاسم رفیع الدین کو ناصبی کہتے تھے اور وہ انہیں رافضی۔ ایک دن ہمدان کی مسجد عتیق میں بیٹھے یہ بحث کر رہے تھے کہ علی اور ابو بکر میں کون افضل ہے؟ تو ابو القاسم نے آیات و احادیث سے استدلال کیا۔ رفیع الدین نے قصہ غار اور شرف خسریت پیغمبر کا تذکرہ کیا۔ ابو القاسم نے استدلال کو طویل تر بنا دیا اور کہا کہ علی سے کسی کا کیا مقابلہ ہے۔ علی حامل لواءِ پیغمبر، دختر مرسل اعظم کے شوہر، ہجرت کی رات بستر رسول کی زینت، کعبہ میں بتوں کے توڑنے والے اور بیشتر انبیاء کے کمالات کے مظہر تھے۔ ان کے مقابلہ میں کسی کو کوئی شرف حاصل نہیں تھا۔ رفیع الدین نے عاجز آکر کہا کہ اب جو شخص بھی مسجد میں داخل ہوگا اس سے فیصلہ کرائیں گے اور اسی کی بات کو حرف آخر قرار دیں گے۔ ابو القاسم نے اسے منظور کر لیا۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک جوان داخل ہوئے۔ رفیع الدین نے پورے شد و مد کے ساتھ اپنا مقدمہ پیش کیا۔ اس جوان نے دو شعر پڑھ دیے جس کا مضمون یہ تھا کہ ”لوگ مجھ سے علی کی افضلیت کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور میرا خیال یہ ہے کہ افضلیت کا بیان خود علی کی توہین ہے۔ کیا تلوار کے لیے یہ بات باعث ِ توہین نہیں ہے کہ اسے ڈنڈے سے زیادہ تیز کہا جائے۔ رفیع الدین یہ اشعار سن کر حیرت زدہ ہوگیا اور اپنے اقرار کے مطابق مذہب آل محمد قبول کرنے پر مجبور ہوگیا۔

۱۰ ۔ آقائے سید محمد رضوی ہندی نے نجف اشرف کے دوسرے مجاور حرم شیخ باقر بن شیخ ہادی کی زبانی اس واقعہ کو نقل کیا ہے کہ نجف اشرف میں ایک شخص حمام میں کام کرتا تھا اور نہایت درجہ مومن اور متقی تھا، اپنے ضعیف باپ کی بے پناہ خدمت کرتا تھا، یہاں تک کہ اٹھانا بٹھانا کھلنا پلانا سب اس کے ذمہ تھا، صرف شب چہار شنبہ مسجد سہلہ زیارت امام زمانہ کے اشتیاق میں چلا جایا کرتا تھا۔ ایک شب چہار شنبہ اتفاق سے تاخیر ہوگئی اور تنہا جا رہا تھا کہ اچانک راستہ میں ایک عرب کو دیکھا اور یہ خیال پیدا ہوا کہ عنقریب میرے کپڑے تک اتروا لے گا۔ اس نے پوچھا کہ کہاں جا رہے ہو؟ میں نے کہا کہ مسجد سہلہ! اس نے کہا کہ تمہارے جیب میں کچھ ہے؟ میں نے کہا کہ کچھ نہیں ہے۔ کہا جو بھی ہے فوراً نکالو۔ میں نے پھر انکار کیا تو ڈانٹ کر کہا کہ فوراً نکالو۔ اب جو میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو یاد آیا کہ بچوں کے لیے کشمش خریدی تھی اور وہ رکھی رہ گئی ہے۔ میں نے کشمش پیش کر دی تو کہا کہ واپس جاؤ اور اپنے باپ کی خدمت کرو۔ مسجد سہلہ کی زیارت باپ کی خدمت سے زیادہ اہم نہیں ہے۔

حقیقت امر یہ ہے کہ مرد مومن کو یہ شرف باپ کی خدمت ہی سے حاصل ہوا ہے کہ اسے امام زمانہں کی زیارت نصیب ہوگئی اور جس مقصد کے لیے برابر آیا کرتا تھا وہ مقصد حاصل ہوگیا اور اسی لیے حضرت نے فرمایا کہ اب جا کر اب جا کر باپ کی خدمت کرو کہ اب دوسرا کوئی کام نہیں رہ گیا ہے ورنہ اگر مسجد سہلہ کی طرف جانا کوئی نامناسب کام ہوتا تو حضرت روز اول ہی منع فرما دیتے۔

بہرحال والدین کی خدمت انتہائی اہم کام ہے۔ یہاں تک روایت میں وارد ہوا ہے کہ اگر ماں باپ شرکت ِ جہاد سے روک دیں اور انہیں اس امر سے وحشت ہو تو ایک ساعت ان کی خدمت کرنا ایک سال راہِ خدا میں جہاد کرنے سے بہتر ہے۔ اور یہ بات امام صادقں نے رسول اکرم سے نقل کی ہے جس سے واقعی اسلام و ایمان کے صحیح مزاج کا اندازہ ہوتا ہے اور یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ دور غیبت کبریٰ میں بھی ایک جہاد کا امکان باقی ہے اور وہ ہے خدمت ِ والدین۔ رب کریم ہر مومن کو اس جہاد کی توفیق عطا فرمائے۔

خطوط و رسائل

علماءِ اعلام نے جہاں امام عصرں کی زیارت سے مشرف ہونے والے افراد کا تذکرہ کیا ہے وہاں ان خطوط اور رسائل کا بھی تذکرہ کیا ہے جو دور ِ غیبت میں امام عصرں کی طرف سے صادر ہوئے ہیں اور جنہیں توقیعات کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان رسائل میں بہت سے مسائل، احکام، دعاؤں اور زیارتوں کا بھی تذکرہ ہے اور بہت سے خصوصی خطوط بھی ہیں جو مختلف اسباب اور مصالح کے تحت ارسال کیے گئے ہیں۔

شخصی خطوط میں جناب شیخ مفید علیہ الرحمہ کے نام تین خطوط اور پیغامات ہیں۔ ایک میں انہیں ”برادر سدید اور ولی رشید“ کے لقب سے یاد کیا گیا ہے اور دوسرے میں انہیں ”ناصر حق“ اور ”داعی الی کلمة الصدق“ فرمایا گیا ہے۔ پہلا خط صفر ۴۱۰ ئھ کا ہے اور دوسرا ۲۳ ذی الحجہ ۴۱۲ ئھ کا ہے۔ اس کے بعد ان کے انتقال پر حضرت نے کچھ اشعار بھی فرمائے ہیں جو شیخ مفید کی قبر پر کندہ ہیں۔

تیسرے خط کا خلاصہ یہ ہے کہ شیخ مفید سے ایک حاملہ عورت کے بارے میں پوچھا گیا کہ اس کا انتقال ہوگیا ہے تو اب بچہ کے بارے میں کیا کیا جائے؟ فرمایا کہ مع بچہ کے دفن کر دیا جائے۔ لوگ دفن کی تیاری کر رہے تھے کہ ایک سوار نے آکر خبر دی کہ بچہ کو نکال لیا جائے اور عورت کو دفن کر دیا جائے۔ بچہ کو نکال لیا گیا اور بعد میں شیخ کو خبر ہوئی تو انہوں نے طے کر لیا کہ اب کسی مسئلہ میں فتویٰ نہیں دیں گے کہ آج اس سوار نے مسئلہ کی اصلاح نہ کر دی ہوتی تو ایک بچہ کا خون ناحق اپنی گردن پر آجاتا۔ یہ طے کرکے گھر میں بیٹھے ہی تھے کہ حضرت کی طرف سے پیغام آیا کہ تم نے بالکل غلط فیصلہ کیا ہے ﴿علیک الفتاء و علینا التسدید﴾ (فتویٰ دینا تمہارا کام ہے اور اصلاح کرنا ہمارا کام ہے)۔

اس واقعہ سے امام زمانہ عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کی امداد غیبی کے علاوہ اس حقیقت کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ امام کو اپنے چاہنے والوں سے کس قدر محبت ہے اور وہ انہیں کسی قیمت پر لاوارث نہیں چھوڑنا چاہتے ہیں بلکہ حضرت کا منشا بھی یہ ہے کہ ہر دور میں ان کے مسائل کے حل کرنے والے علماء رہیں، اور مسائل کو حل کرتے رہیں۔ اس کے بعد اگر کوئی ایسی غلطی ہوگئی جس کا تعلق حق العباد اور خون ناحق سے ہوگا تو ہم اس کی اصلاح کر دیں گے ورنہ حق الله کے معاملہ کی خطاؤں کا معاف کرنے والا خود پروردگار موجود ہے اور وہ ارحم الراحمین ہے۔ اگر ایک عام گنہگار بندے کی خطا کو معاف کر سکتا ہے تو اپنی راہ میں قربانی دینے والے اور زحمتیں برداشت کرنے والے اہل علم کی خطا کو کیوں معاف نہیں کرے گا۔

مسائل کے سلسلہ میں علامہ طبرسی نے اس خط کا ذکر کیا ہے جو جناب اسحاق بن یعقوب کے نام لکھا گیا تھا اور جس میں مختلف سوالات کے جوابات درج تھے۔ جن کا خلاصہ یہ تھا کہ اگر منکر کے بارے میں سوال کیا گیا ہے تو ہمارا منکر ہم میں سے نہیں ہے اور اگر جعفر جیسے لوگوں کے بارے میں پوچھا گیا ہے تو ان کی مثال پسر نوح اور برادرانِ یوسف جیسی ہے۔

(واضح رہے کہ بعض حضرات نے اس جملہ سے یہ استفادہ کیا ہے کہ پسر نوح اپنے باپ کے احکام کے اعتبار سے نالائق تھا اور ان کے راستہ پر نہیں چلا تھا لیکن برادرانِ یوسف نے جب بھائی سے خیانت کی تو انہوں نے آخر میں انہیں معاف کر دیا اور اس طرح ظالم افراد توّاب قرار پا گئے)۔

فقاع یعنی جَو کی شراب بہرحال شراب ہے اور حرام ہے۔۔۔۔۔ خمس کا فریضہ اس لیے رکھا گیا ہے کہ تمہارا مال حلال ہو جائے اور تمہیں نجات حاصل ہو جائے ورنہ قاعدہ کے اعتبار سے ساری کائنات امام کے لیے ہے اور ان کی مرضی کے بغیر کسی ذرہ کائنات میں بھی تصرف جائز نہیں ہے۔

ظہور کا وقت پروردگار کے علم میں ہے اور ہم اس کے حکم کے منتظر ہیں۔ اپنی طرف سے وقت معیّن کرنے والے جھوٹے ہیں اور ان کی تعیّن کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔

مستقبل میں پیش آنے والے واقعات میں ہماری احادیث کے بافہم راوی جو روایات کو واقعات پر منطبق کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ان کی طرف رجوع کرنا کہ وہ ہماری طرف سے تم پر حجت ہیں اور ہم الله کی طرف سے ان پر حجت ہیں اور ان کا رد کرنے والا درحقیقت ہمارے احکام کی تردید کرنے والا ہے۔

محمد بن عثمان میرے معتمد ہیں اور ان کا قول میرا قول، اور ان سے ملنے والا پیغام میرا پیغام ہے۔

محمد بن علی ہنر یار اہوازی کا دل انشاء الله صاف ہو جائے اور انہیں کوئی شبہ نہیں رہ جائے گا۔

گانے والی عورت کی اجرت حرام ہے (حرام عمل کی اجرت بہرحال حرام ہوتی ہے۔ بدبخت وہ لوگ ہیں جن کی جیب سے اس راہ میں پیسہ نکل جاتا ہے۔ گانے والی تو پیسہ لے کر ہی مجرم بنتی ہے، دینے والا تو دنیا اور آخرت دونوں کے اعتبار سے خسارہ میں ہے)۔

محمد بن شاذان ہمارے شیعوں میں ہیں۔

ابو الخطاب محمد بن اجدب ملعون ہے اور اس کے ماننے والے بھی ملعون ہیں۔ ہم اور ہمارے آباء و اجداد سب اس سے بری اور بیزار ہیں۔

ہمارا مال کھانے والے اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھر رہے ہیں۔ خمس نہ دینے والوں کی طرف سے جو مال ہمارے شیعوں کو ملے اس میں کا حق خمس ہم نے اپنے شیعوں کے لیے حلال کر دیا ہے۔

زمانہ غیبت میں میری مثال زیر ابر آفتاب کی ہے۔ میرا وجود اہل زمین کے لیے ویسے ہی وجہ امان ہے جس طرح آسمان والوں کے لیے ستاروں کا وجود ہوتا ہے۔

غیبت اور ظہور کے بارے میں سوالات بند کر دو اور رب العالمیند سے میرے ظہور کی دعا کرو۔ والسلام علی من اتبع الھدٰی۔

(اعلام الوریٰ، کشف الغمہ)

مسئلہ طول حیات

امام مہدی کے بارے میں جہاں اور بحثیں کی جاتی ہیں، ان میں سے ایک بحث طول عمر اور بقائے حیات کی بھی ہے اور درحقیقت یہ بحث ان شبہات کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے جو مسئلہ مہدی کے گرد عالم اسلام میں اٹھائے گئے ہیں اور ان کا منشاء عالم انسانیت کو ایک ایسے مصلح کی طرف سے غافل بنا دینا ہے جس کا کام بساط ظلم و جور کو الٹ کر نظام عدل و انصاف کا قائم کر دینا ہے اور جو اس عظیم کام کے لیے صبح و شام حکم الٰہی کا انتظار کر رہا ہے۔ ورنہ اس طرح کا سیاسی مقصد کار فرما نہ ہوتا تو ایک مسلمان کے لیے طول عمر اور بقائے حیات جیسی بحث کا اٹھانا خلاف شانِ اسلام و ایمان اور خلاف اعتقاد قرآن و سنت ہے۔

مسلمان اس حقیقت پر بہرحال ایمان رکھتا ہے کہ موت و حیات کا اختیار پروردگار کے ہاتھوں میں ہے اور وہی انسانوں کی عمروں کو طویل یا مختصر بناتا ہے۔ اس کے نظامِ مصلحت میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو شکم مادر ہی میں موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں اور ایسے افراد بھی ہیں جو بدترین حوادث میں بھی لقمہ اجل نہیں بنتے ہیں اور حیرت انگیز طور پر باقی رہ جاتے ہیں۔ اس نے انسان کو موت دینا چاہی تو سلیمان جیسا صاحب ِ اقتدار بھی اپنے لشکر کے سامنے دنیا سے رخصت ہوگیا اور باقی رکھنا چاہا تو موسیٰ قصر فرعون ہیں۔

ابراہیمں نارِ نمرود میں، یونسں بطن ماہی میں باقی رہ گئے۔ اس نے چاہا تو اصحاب ِ کہف کی نیند طویل ہوگئی اور اس کی مرضی ہوئی تو عزیر کو مردہ بنا کر پھر زندہ کر دیا۔ ایسے نظامِ ربوبیت پر ایمان رکھنے والا انسان اگر ایک حجت پروردگار اور مہدی دوراں ں کے بارے میں شبہات سے کام لے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو وہ قدرت ِپروردگار پر ایمان نہیں رکھتا ہے اور اس کی نظر میں گزشتہ دور کے جملہ واقعات و حوادث صرف اساطیر الاولین کی حیثیت رکھتے ہیں یا اسے وجود مہدی سے کوئی خاص اختلاف ہے جس کی بنا پر اسے کسی نہ کسی شکل میں مشکوک بنا دینا چاہتا ہے۔

تاریخ میں جناب ذوالقرنین، جناب نوحں، جناب سام بن نوح، جناب قینان، جناب مہلائیل، عوج بن عناق، نفیل بن عبد الله، ربیع بن عمر، ارفخشد، درید بن زید، جناب سلمان، کعب بن جمجمہ، نصر بن رحمان، قیس بن ساعدہ، عمر بن ربیعہ، عمر بن دوسی، عمر بن طفیل جیسے افراد کی سیکڑوں بلکہ ہزاروں سال عمر کا تذکرہ موجو دہے اور اس کا کوئی انکار کرنے والا نہیں پیدا ہوا ہے۔

اسلامی نقطہ نگاہ سے جناب ادریس و خضر اور دجال و ابلیس لعین کا وجود بھی مسلمات میں شامل ہے جن کی عمریں ہزاروں سال سے متجاوز ہو چکی ہیں اور جناب عیسیٰں مستقل طور سے آسمان پر زندہ ہیں اور زمین پر اترنے کا انتظار کر رہے ہیں۔

ان حالات میں مسئلہ طول عمر پر بحث کرنا نہ عقائدی اعتبار سے صحیح ہے اور نہ تاریخی اور واقعاتی اعتبار سے صحیح ہے۔

اس کے علاوہ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ تاریخ کے بے شمار شواہد کی بنا پر اور مرسل اعظم کی سیکڑوں روایات کی بنا پر جن میں مہدی اور اس کے خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے کہ مہدیں میرا بارہواں جانشین، اولاد ِ فاطمہ میں، اولاد حسین میں اور میرے فرزند حسین کا نواں وارث ہوگا۔ اس مہدی کا وجود بہرحال ہو چکا ہے اور ان خصوصیات کا انسان عالم وجود میں آچکا ہے، اور رسول اکرم کی ناقابل تردید روایات کی بنا پر اس کا ظہور بھی بہرحال ہونے والا ہے اور عمر دنیا میں ایک دن بھی باقی رہ جائے گا تو رب کریم اور اس دن کو طول دے گا یہاں تک کہ مہدی ظہور کرے اور ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے۔

ان دونوں مسلمات کے درمیان دو ہی احتمالات رہ جاتے ہیں۔ یا تو وہ مہدی انتقال کر جائے اور پھر وقت ِ ظہور مردہ سے زندہ ہوکر عالمی انقلاب برپا کرے یا زندہ اور موجود رہے اور طویل عمر کے ساتھ حالات کا جائزہ لیتا رہے اور اپنے آخری انقلاب کے لیے زمین ہموار کرتا رہے۔

پہلا احتمال مذہبی اعتبار سے بھی غلط ہے اور علمی اعتبار سے بھی۔ مذہبی اعتبار سے یہ بات تسلیم کر لی جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا حجت ِ خدا سے خالی ہوگئی ہے اور رسول اکرم واضح طور پر فرما چکے ہین کہ اگر دنیا حجت ِ خدا سے خالی ہو جائے تو اس کی بقا محال ہے اور زمین اہل زمین سمت دھنس جائے گی اور علمی اعتبار سے کسی شخص کا مر کر دوبارہ زندہ ہونا اور کسی تیاری اور آمادگی کے بغیر اتنا بڑا انقلاب برپا کر دینا ناقابل تصور عمل ہے اور اگر اس میں قدرت ِ خدا کو شامل کر لیا جائے تو موت و حیات کے تصورات کی ضرورت ہی نہیں ہے جو خدا کسی عظیم مقصد کے لیے ایک مردہ کو زندہ بنا کر اس سے یہ کام لے سکتا ہے تو وہ ہزار دو ہزار برس زندہ رکھ کر بھی یہ کام لے سکتا ہے۔ اس کی قدرت کے لیے کوئی شے امکان سے خارج نہیں ہے۔

بنا بریں اسلام کے تینوں تصورات کو جمع کرنے کے بعد کہ مہدی کو ولادت بہرحال ہو چکی ہے اور اس کا ظہور بہرحال ہونے والا ہے اور زمین حجت خدا سے بہرحال خالی نہیں ہو سکتی ہے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ مہدی زندہ رہے اور حالات کا مسلسل جائزہ لے کر اپنے عالمی انقلاب کی منصوبہ بندی میں مصروف رہے۔ وقت ضرورت اپنے نائبین کی امداد بھی کرتا رہے اور اپنے ظہور کی زمین بھی ہموار کرتا رہے اور وقت ِ ظہور کے لیے حکم الٰہی کا انتظار کرتا رہے اور جیسے ہی حکم پروردگار ہو جائے اپنا اصلاحی عمل شروع کر دے اور ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے۔ انشاء الله۔

روایات و اعترافات

رسول اکرم نے فرمایا ہے کہ میری امت میں ایک مہدی بھی ہوگا۔ (ابو سعید الخدری، صحیح ترمذی، ص ۲۷۰)

رسول اکرم نے فرمایا ہے کہ الله میری عترت میں ایک شخص کو پیدا کرے گا جو دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ ]عبد الرحمن بن عوف[ (عقد الدرر)

رسول اکرم نے فرمایا کہ عمر دنیا میں ایک دن بھی باقی رہ جائے گا تو پروردگار اس دن کو طول دے گا یہاں تک کہ میرے اہل بیت میں میرا ایک ہم نام آجائے۔ ]عبد الله بن مسعود[ (ترمذی و سنن ابو داؤد)

اس امت کا مہدی عیسیٰ بن مریم کی امامت کرے گا۔ ]ابو سعید الخدری[(عقد الدرر)

مہدی برحق ہے، وہ بنی کنانہ، بنی ہاشم اور اولاد ِ فاطمہ سے ہوگا۔ ]قتادہ[ (عقد الدرر)

میں تمہیں مہدی کی بشارت دے رہا ہوں جو میری عترت اور قریش سے ہوگا۔ (صواعق محرقہ)

ہم سات اولاد عبد المطلب سردارانِ جنت ہیں۔۔۔۔۔ میں، علی، حمزہ، جعفر، حسن، حسین، مہدی۔ (سنن ابن ماجہ، معجم طبرانی، حافظ ابو نعیم اصفہانی۔ عقدد الدرر)

مہدی میری عترت میں اولاد ِ فاطمہ میں سے ہوگا۔ ]روایت ِ ام سلمہ[ (ابو داؤد)

الله دنیا کے آخری دن کو اس قدر طول دے گا کہ میری عترت اور میرے اہل بیت سے ایک شخص آجائے جو دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے۔ ]روایت ابو ہریرہ[ (ترمذی)

علی میری امت کے امام ہیں اور ان کی اولاد میں قائم منتظر ہوگا جو دنیا کو عدل و انصاف سے معمور کر دے گا۔ ]روایت ابن عباس[ (مناقب خوارزمی)

مہدی اولاد ِحسین سے ہوگا۔ ]روایت حذیفہ بن الیمان[ (حافظ ابو نعیم)

حسین ! تم سید بن سید اور برادر سید ہو۔ تم امام، ابن امام اور برادر امام ہو۔ تم حجت بن حجت، برادر حجت اور نو حجتوں کے باپ ہو جن کا نواں قائم ہوگا۔ ]سلمان[ (ینابیع المودة)

مہدی کا خروج بہرحال ضروری ہے اور یہ اس وقت ہوگا جب دنیا ظلم و جور سے بھر جائے گی۔ (الشیخ محی الدین در فتوحات مکیہ، الشیخ عبد الوہات شعرانی در الیواقیت و الجواہر)

امام مہدی سامرہ میں پیدا ہوئے ہیں جو بغداد سے ۲۰ فرسخ کے فاصلہ پر ہے۔ (محمد بن طلحہ شافعی در مطالب السئول)

امام حسن عسکری نے بادشاہِ وقت کے خوف سے اپنے فرزند کی ولادت کو مخفی رکھا۔ (علی بن محمد بن صباغ مالکی در الفصول المہمہ)

امام مہدی سامرہ میں پیدا ہوئے اور ان کی ولادت کو مخفی رکھا گیا ہے۔ وہ اپنے والد بزرگوار کی حیات ہی سے غائب ہیں۔ (علامہ جامی در شواہد النبوة)

امام مہدی ۱۵ شعبان ۲۵۵ ئھ میں پیدا ہوئے اور سامرہ میں لوگوں کی نظر سے غائب ہوگئے۔ (علامہ جمال الدین در روضة الاحباب)

امام مہدی ۱۵ شعبان ۲۵۵ ئھ میں پیدا ہوئے اور انہیں امام حسن عسکری نے اس خدا کے حوالہ کر دیا جس کی پناہ میں جناب موسیٰ تھے۔ (شیخ عبد الحق محدث دہلوی در مناقب الائمہ)

امام مہدی بطن نرجس سے ۱۵ شعبان ۲۵۵ ئھ میں پیدا ہوئے ہیں۔ (عبد الرحمن صوفی در مرأة الاسرار)

خلافت رسول حضرت علی کے واسطے سے امام مہدی تک پہنچی ہے اور وہ آخری امام ہیں۔ (علامہ شہاب الدین دولت آبادی در تفسیر بحر مواج)

امام مہدی بارہویں امام ہیں۔ (مُلّا علی قاری در شرح مشکوٰة)

امام مہدی اولاد ِ فاطمہ سے ہیں۔ وہ بقولے ۲۵۵ ئھ میں پیدا ہوکر ایک عرصہ کے بعد غائب ہوگئے۔ (علامہ جواد ساباطی در براہین ساباطیہ)

امام مہدی پیدا ہوکر غائب ہوگئے ہیں اور آخری دور میں ظہور کریں گے۔ (شیخ سعد الدین در مسجد اقصٰی)

آپ پیدا ہو کر قطب ہو گئے ہیں۔ (علی اکبر بن اسد الله در مکاشفات)

محمد بن الحسن کے بارے میں شیعوں کا خیال درست ہے۔ (شاہ ولی الله محدث دہلوی در رسالہ نوادر)

امام مہدی تکمیل صفات کے لیے غائب ہوگئے ہیں۔ (ملا ہسین میبذی در شرح دیوان)

امام مہدی ۲۵۶ ئھ میں پیدا ہو کر غائب ہوگئے ہیں۔ (تاریخ ذہبی)

امام مہدی پیدا ہو کر سرداب میں غائب ہوگئے ہیں۔ (ابن حجر مکی در صواعق محرقہ)

امام مہدی کی عمر امام حسن عسکری کے انتقال کے وقت پانچ برس کی تھی وہ غائب ہوکر پھر واپس نہیں آئے۔ (وفیات الاعیان)

آپ کا لقب القائم، المنتظر، الباقی ہے۔ (تذکرہ خواص الامة سبط بن جوزی)

آپ اسی طرح زندہ اور باقی ہیں جس طرح عیسیٰ، خضر اور الیاس وغیرہ ہیں۔ (ارجح المطالب)

امام مہدی قائم و منتظر ہیں۔ وہ آفتاب کی طرح ظاہر ہوکر دنیا کی تاریکی کفر کو زائل فرمائیں گے۔ (فاضل ابن روزبہان ابطال الباطل)

امام مہدی کے ظہور کے بعد حضرت عیسیٰں نازل ہوں گے۔ (جلال الدین سیوطی در منثور)

خصوصیات حکومت ِ امام عصر

۱ ۔ ابتداءِ ظہور میں آپ کا طریقہ کار وہی ہوگا جو ابتداء ِ بعثت میں رسول اکرم کا طریقہ کار تھا اس لیے کہ آپ کے دور تک اسلام اس قدر مسخ ہو چکا ہوگا کہ گویا از سر نو اسلام کی تبلیغ کرنا ہوگی اور جدید ترین نظام کے بارے میں شدید ترین مواخذہ نہیں ہو سکتا ہے۔ خود رسول اکرم نے فرمایا ہے کہ اسلام ابتداء میں بھی غریب تھا اور آخر میں بھی غریب ہو جائے گا، لہٰذا خوشحال ان افراد کے لیے جو غرباء ہوں۔

۲ ۔ آپ کے فیصلے جناب داؤد کی طرح ذاتی علم کی بنیاد پر ہوں گے اور آپ گواہ اور بتینہ کے محتاج نہ ہوں گے۔ آپ لوگوں کی شکل دیکھ کر ان کے جرائم کے اندازہ کر لیں گے اور اسی اعتبار سے ان کے ساتھ معاملہ کریں گے۔

۳ ۔ آپ کی سواری کے لیے ایک مخصوص ابر ہوگا، جس میں گرج، چمک اور بجلی وغیرہ سب کچھ ہوگی جوبات حضرت ذوالقرنین کو بھی حاصل نہ تھی۔ آپ اس ابر پر سوار ہوکر مختلف اطراف کا دورہ کریں گے اور دین اسلام کی تبلیغ کر کے اس کا نظام قائم کریں گے۔

۴ ۔ آپ کے وجود مبارک کی برکت سے زمین اپنے سارے ذخائر کو اُگل دے گی اور پیداوار میں اس قدر اضافہ ہوگا کہ جو شخص جس قدر مطالبہ کرے گا آواز آئے گی ”لے لوخزانہ قدرت میں کوئی کمی نہیں ہے۔“ پیداوار کا یہ عالم ہو گا کہ اگر کوئی عورت عراق سے شام تک پیدل سفر کرے تو اس کے علاوہ کسی خشک زمین پر نہ پڑیں گے۔

۵ ۔ دنیا میں امن و امان کا وہ دور دورہ ہوگا کہ انسانوں اور جانوروں کے درمیان بھی کوئی وحشت اور نفرت نہ رہ جائے گی۔ بچے سانپ بچھو سے کھیلیں گے اور بھیڑ اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پئیں گے یہاں تک کہ اگر کوئی عورت عراق سے شام تک سر پر سامان رکھ کر چلی جائے تو کوئی درندہ بھی اذیت نہ کرے گا اور نہ اسے کسی طرح کا خوف ہوگا۔

۶ ۔ آپ کے ظہور کی برکت سے مخصوص قسم کے خطرناک امراض کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اور صاحبانِ ایمان صحت و سلامتی کی زندگی گزاریں گے۔

۷ ۔ آپ پر مرور زمانہ اور تغیّرات دہر کا کوئی اثر نہ ہوگا اور سیکڑوں سال کے بعد بھی ۴۰ سال کے جوان کی شکل میں ظہور فرمائیں گے جیساکہ امام رضاں کی روایت میں وارد ہوا ہے کہ کسی شخص نے پوچھا کہ کیا آپ ہی قائم ہیں؟۔۔۔۔۔ تو فرمایا کہ نہیں، تم دیکھتے نہیں ہو کہ میں کس قدر ضعیف و نحیف ہوگیا ہوں اور قائم طویل ترین عمر کے باوجود ۴۰ سالہ جوان کی شکل میں ظہور کرے گا۔ وہ میری اولاد میں میرا چوتھا وارث ہوگا۔

۸ ۔ آپ کے پاس تمام انبیاء و اولیاء کی میراث ہوگی۔ لباس ابراہیم ، عصائے موسیٰ ، انگشتری سلیمان ، زرہ پیغمبر اسلام، عمماہ و نعلین و لباس رسول اکرم اور ذوالفقار حیدر کرار ۔ اور جب سید حسنی آپ سے دلالت ِ امامت کا مطالبہ کریں گے تو آپ ان تمام تبرکات کو پیش کر دیں گے۔

۹ ۔ آپ زیر آفتاب سفر کریں گے تو بھی جسم اقدس کا کوئی سایہ نہ ہوگا جس طرح کہ رسول اکرم کے جسم قدس کا سایہ نہیں تھا۔

۱۰ ۔ آپ کے نورِ مبارک سے زمین اس قدر روشن ہو جائے گی کہ آفتاب و ماہتاب کے بغیر بھی کاروبار ِ حیات چل سکے گا۔

۱۱ ۔ آپ کے سامنے تمام دنیا ہتھیلی پر ایک درہم کے مانند ہوگی اور آپ بغیر کسی حائل و حاجب کے تمام دنیا کے حالات کا مشاہدہ کریں گے۔

۱۲ ۔ آپ کے دور میں صاحبانِ ایمان کمال علم و عقل و ذہانت و ذکاوت کی منزل پر فائز ہوں گے اور آپ جس کے سر پر دست شفقت پھیر دیں گے اس کی عقل بالکل کامل و اکمل ہو جائے گی یہاں تک کہ آپ مختلف ملکوں میں بھیجے جانے والے نمائندوں کو ہدایت کریں گے کہ اگر کوئی مسئلہ سمجھ میں نہ آئے تو اپنی ہتھیلی کو دیکھ لینا تمام علوم اور مسائل نقش نظر آجائیں گے۔

۱۳ ۔ مساجد میں جدید قسم کے مینار، حجرات اور نقوش جو دور مرسل اعظم میں نہیں تھے انہیں محو کر دیا جائے گا اور مساجد کو ان کی اصلی اسلامی سادگی کی طرف واپس کر دیا جائے گا۔

۱۴ ۔ مسجد الحرام اور مسجد النبی کی از سر نو اصلاح و ترمیم ہوگی اور جس قدر بھی بے جا تعمیرات ہوئی ہیں ان کی اصلاح کر دی جائے گی اور مقام ابراہیم کو بھی اس کی اصلی منزل تک پلٹا دیا جائے گا۔

۱۵ ۔ آپ کا نور مبارک اس قدر نمایاں اور روشن ہوگا کہ ساری دنیا کے لوگ بآسانی آپ کی زیارت کر سکیں گے اور ہر شخص آپ کو اپنے سے قریب تر اور اپنے ہی علاقہ اور محلہ میں محسوس کرے گا۔

۱۶ ۔ آپ کا پرچم نصرت رسول اکرم کا پرچم ہوگا جس کا عمود عرش الٰہی کا بنا ہوا ہوگا اور وہ جس ظالم پر سایہ فگن ہو جائے گا اسے تباہ و برباد کر دے گا۔ آپ کی فوج کے افراد لوہے کی چادروں کی طرح سخت اور مستحکم ہوں گے اور ہر مومن کے پاس چالیس افراد کی طاقت ہوگی۔

۱۷ ۔ مومنین کی قبروں میں بھی ظہور کی خوشی کا داخلہ ہو جائے گا اور آپس میں ایک دوسرے کو مبارکباد دیں گے اور بعض قبروں سے اٹھ کر نصرت ِ امام کے لیے باہر آجائیں گے جیساکہ دعائے عہد میں وارد ہوا ہے کہ ”پروردگار! اگر مجھے ظہور سے پہلے موت بھی آجائے تو وقت ِ ظہور اس عالم میں قبر سے اٹھانا کہ کفن دوش پر ہو، برہنہ تلوار ہاتھ میں ہو، نیزہ چمک رہا ہو، اور زبان پر لبیک لبیک ہو۔

۱۸ ۔ آپ اپنے تمام چاہنے والوں کے قرضوں کو ادا فرما دیں گے اور انہیں خیرات و برکات سے مالا مال کر دیں گے۔ بشرطیکہ قرضہ کا تعلق حرام مصارف سے نہ ہو ورنہ اس کا مواخذہ بھی کریں گے۔

۱۹ ۔ آپ جملہ بدعتوں کا قلع قمع کر دیں گے اور عالم انسانیت کو شریعت پیغمبر اسلام کی طرف پلٹا کر لے آئیں گے یہاں تک کہ ہزاروں بدعقیدہ لوگ آپ کے واپس جانے کا مطالبہ کر دیں گے اور آپ سب کا خاتمہ کر دیں گے۔

۲۰ ۔ آپ کے جملہ روابط اور تعلقات صرف ان افراد سے ہوں گے جو واقعاً مومن مخلص ہوں گے اور کسی منافق اور ریاکار کا کوئی ٹھکانہ نہ ہوگا۔ دشمنانِ آل محمد بنی امیہ و بنی عباس، قاتلانِ حسین اور نواصب و خوارج سب کا خاتمہ کر دیں گے اور کسی ایسے آدمی کو زندہ نہ چھوڑیں گے جو گزشتہ افراد و اقوام کی بد اعمالیوں اور ان کے مظالم سے راضی ہوگا۔

اللّٰھم عجل فرجہ و سھل مخرجہ و اجعلنا من انصارہ و اعوانہ۔

امام عصر اور سلام، دعا، نماز، زیارت، استغاثہ، طریقہ زیارت و ملاقات

امیر المومنینں کا ارشاد ِ گرامی تھا کہ گویا میں یہ منظر دیکھ رہا ہوں کہ مہدی گھوڑے پر سوار وادی السلام سہلہ کی طرف روانہ ہے اور زبان پر یہ کلمات ہیں:لاَ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ حَقًّا حَقًّا لَا اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ اِیْمَانًا وَ صِدْقًا لَا اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ تَعَبُّدًا وَ رِقًّا اَللّٰهُمَّ مُعِزَّ کُلَّ مُومِنٍ وَّحِیْدٌ وَّ مُذِلٌّ کُلَّ جَبَّارٍ عَنِیْد ۔۔۔۔۔ الخ۔ (بحار)

سلام

جابر نے امام محمد باقرں سے روایت کی ہے کہ جو بھی قائم کے دور تک رہ جائے اس کا فرض ہے کہ انہیں اس طرح سلام کرے:اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَهْلَ الْبَیْتِ النُّبُوَّةِ وَ مَعْدِنَ الْعِلْمِ وَ موضع الرسالة ۔ (غیبت ِ طبرسی)

محمد بن مسلم راوی ہیں کہ امام باقرں نے اس طرح سلام کرنے کا حکم دیا ہے:اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا بَقِیَّةُ اللّٰهِ فِیْ اَرْضِه ۔ (کمال الدین)

عمران بن داہر راوی ہیں کہ امام صادقں سے دریافت کیا گیا کہ قائم کو امیر المومنین کہہ کر سلام کیا جا سکتا ہے؟۔۔۔۔۔ تو فرمایا: ہرگز نہیں۔ یہ لقب صرف حضرت علیں کے لیے ہے۔ قائم کو بقیة الله کہہ کر سلام کرو۔ (بحار)

دعا

امام مہدیں ہی سے وہ مشہور و معروف دعا نقل کی گئی ہے جو مفاتیح الجنان اور دیگر کتب ِ ادعیہ میں مذکور ہے:اَللّٰهُمَّ ارْزُقْنَا تَوْفِیْقَ الطَّاعَةِ وَ بُعْدِ الْمَعْصِیَّةِ ۔ (مصباح کفعمی)

آپ کی ایک دعا یہ ہے :یا مالک الرقاب و هازم الاحزاب یا مفتح الابواب یا مسبب الاسباب سبب لنا سببًا لا نستطیع له طلبًا ۔۔۔۔۔۔ (منہج الدعوات)

آپ ہی کی یہ مشہور دعا بھی ہے:الٰهی بحق من ناجاک و بحق من دعاک ۔۔۔۔۔۔ (الادعیة المستجابات)

آپ ہی سے یہ دعا بھی نقل کی ہے:الٰهی عظم البلاء و برح الخفاء ۔ (جنة الماویٰ)

آپ کے دورِ غیبت کے لیے شیخ عمروی نے ابو علی بن ہمام کو یہ دعا تعلیم دی تھی:اللّٰهم عرفنی نفسک فانک ان لم تعرفنی نفسک لم اعرف نبیک ۔ (اکمال الدین)

نماز

امام عصرں ہی سے یہ نماز حاجت بھی نقل کی گئی ہے کہ شب جمعہ دو رکعت نماز ادا کرے اور ہر رکعت میں سورہ حمد پڑھتے ہوئے ﴿ایاک نعبد و ایاک نستعین ﴾ کو سو مرتبہ دہرائے اور رکوع و سجدہ کے تسبیحات کو سات سات مرتبہ ادا کرے۔ بعد نماز حاجت طلب کرے انشاء الله پوری ہوگی۔ (کنوز النجاح طبرسی)

استغاثہ

امام صادقں نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص راستہ بھول جائے اور پریشان حال ہو جائے تو اس طرح فریاد کرے: ﴿یا مولای یا صاحب الزمان انا مستغیث بک﴾ صاحب الزمان یقینا تمہاری امداد کریں گے اور تمہاری مدد کو آئیں گے۔

اس روایت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امامت کے لیے ساری کائنات کے حالات کا جاننا اور طاقت کے اعتبار سے ہر ایک کے کام آنا اور اس کی مشکل کشائی کرنا ایک بنیادی شرط ہے جس کے بغیر کوئی انسان امام کہے جانے کے قابل ہے۔

امام عصرں نے ایک قیدی کو دعائے عبرات کی تعلیم دی جس کے طفیل میں اسے رہائی مل گئی اور امیر المومنینں نے زوجہ حاکم کے خواب میں آکر حاکم کو تہدید کی کہ اگر اسے رہا نہ کرے گا تو اسے قتل کر دیا جائے گا: ﴿اللّٰھم انی أسئلک یا راحم العبرات و یا کاشف الکربات۔۔۔۔۔ یا رب انی مغلوب فانتصر۔۔۔۔۔﴾۔ (جنة الماویٰ)

نسخہ شفا

شیخ ابراہیم کنعمی نے البلد الامین میں نقل کیا ہے کہ امام مہدیں نے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر اس دعا کو نئے برتن میں خاکِ شفا سے لکھ کر مریض کو پلا دیں تو شفا حاصل ہو جائے گی:بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم بسم اللّٰه دواءٌ و الحمد للّٰه ولا الٰه الا اللّٰه کفاءٌ هو الشافی شفاء وهو الکافی کفاء اذهب الباس برب الناس شفاءٌ لا یغادره سقم و صلی اللّٰه علٰی محمد و اٰله النجباء ۔ (بحار)

زیارت

سید ابن طاوس نے جمال الاسبوع میں نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے روز یک شنبہ امام عصرں کو اس طرح زیارت امیر المومنین پڑھتے ہوئے دیکھا ہے:السلام علی الشجرة النبویة و الدرجة الهاشمیة المضیئة المثمرة ۔۔۔۔۔۔ (مکمل زیارت مفاتیح الجنان میں موجود ہے)۔

والسلام علٰی من اتبع الهدٰی ۔