نويد امن وامان

نويد امن وامان0%

نويد امن وامان مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

نويد امن وامان

مؤلف: آیة اللہ صافی گلپایگانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 16727
ڈاؤنلوڈ: 2208

تبصرے:

نويد امن وامان
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 218 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 16727 / ڈاؤنلوڈ: 2208
سائز سائز سائز
نويد امن وامان

نويد امن وامان

مؤلف:
اردو

کیا اس آیہ شریفہ میں یہ صاف اور واضح اعلان نہیں ہے کہ حضرت نوح اپنی قوم کے درمیان نو سو پچاس سال تک رہے؟

آخر اس عقیدہ کی بنا پر آپ شیعوں کی ملامت کیوں کرتے ہیں؟ ان کی طرف جہالت کی نسبت کیوں دیتے ہیں؟ یاد رکھیئے شیعوں پر آپ کے ان الزامات کے کچھ نتائج ولوازم بھی ہیں کہ وہ اپنے عقائد کی بناء پر ان نتائج ولوازم کو تسلیم نہیں کرسکتے۔

کیا آپ نے قرآن میں یہ نہیں پڑھا ہے کہ خدا نے ابلیس کو ”وقت معلوم“ تک کی مہلت دی ہے؟

کیاآپ کی ”صحیح مسلم“ کے حصہ دوم جز ء دوم“ میں ابن صیاد کے باب میں، ”سنن ترمذی“ کے جزء دوم، سنن ابی داؤد کے ابن صائد سے متعلق روایات کے باب اور کتاب ملاحم میں ابن صیاد اور ابن صائد سے متعلق پیغمبر اکرم سے منقول وہ روایات نہیں ہیں جن میں پیغمبر نے یہ احتمال دیا ہے کہ ابن صیاد یا صائد وہی دجال ہے جو آخر زمانہ میں ظاہر ہوگا؟

صحیح مسلم کے باب خروج دجال میں ”تمیم داری“ کی حدیث، ابن ماجہ جزء دوم کے ابواب فتن اور ابوداؤد کے جزء دوم میں موجود روایات آپ کی نظروں سے نہیں گزریں؟ جن میں یہ صراحت موجود ہے کہ دجال عہد پیغمبر میں تھا اورآخرزمانہ میں پھر ظاہر ہوگا، آخر کیا وجہ ہے کہ دشمنان خدا کی طویل عمر کو تو آپ تسلیم کرلیتے ہیں لیکن ولی خدا اور فرزند پیغمبر کی طویل عمر کے موضوع پر شوروغل شروع ہوجاتا ہے جب کہ ان روایات کے راوی آپ ہی کے بزرگان حدیث و رجال ہیں، دجال سے متعلق ان کی روایات کو آپ آنکھ بند کرکے تسلیم کرلیتے ہیں مگر فرزند پیغمبر سے متعلق روایات کی تکذیب کردیتے ہیں۔

آخر کیا وجہ ہے کہ حضرت خضر،حضرت ادریس اورحضرت عیسیٰ کی طویل عمر کو تو ممکن جانتے ہیں لیکن اتنے ادلہ وشواہد اورزمانہ غیبت میں بے شمار معجزات وکرامات کے اظہار کے باوجود حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کی طولانی عمر آپ کو محال نظرآتی ہے؟ آخر آپ حضرت عیسیٰ کی بقائے حیات کے ایمان پر خود اپنا اور دوسرے مسلمانوں کا مذاق کیوں نہیں اُڑاتے؟

اگر تمسخرواستہزا کی ہی بات ہے تو آپ کے اصول دین میں ایسے بہت سے مسائل ہیں جو عقل سلیم اور اسلام کے عقیدہ توحید کے سراسر منافی ہیں۔

جن حضرات کو آپ اپنی اصطلاح میں اقطاب واولیاء سمجھتے ہیں ان کی جانب ایسی ایسی باتوں کی نسبت دیتے ہیں کہ انھیں سن کر ہر ایک کو ہنسی آجائے۔

ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ”مقابلہ بہ مثل“ اور”جیسے کو تیسا“ والا نظریہ صحیح نہیں ہے،ہم کوئی ایسی بات لکھنا یا کہنا نہیں چاہتے ہیں جس سے آپ اغیار کی نگاہوں میں خفیف ہوں، ہم صرف اتنا عرض کرنا چاہتے ہیں کہ سامراجی طاقتوں کی طرف سے عالم اسلام پر جو شکنجہ کسا جارہا ہے اور مسلمانوں کے خلاف جس طرح کی شازشیں ہورہی ہیں ان کے پیش نظر ہم دونوں کو ایسے اختلافات کے بارے میں ایک دوسرے کی عیب جوئی سے پرہیز کرنا چاہئے، جب دشمنان اسلام، اسلام و قرآن اور احکام قرآن سے بنیادی دشمنی پرآمادہ ہیں اور اسلام کے احکام واصول اور فریقین کے درمیان متفق علیہ دینی شعائرپر عیسائیوں، یہودیوں اور دیگر کفار کی جانب سے سخت ترین حملہ ہورہے ہیں اوراسلامی احکام کی نابودی کے لئے روز بروز نئی تدبیروں کو نام نہاد سنیوں اور شیعوں کے ذریعہ جامہ عمل پہنایاجارہا ہے تو ایسے میں کیا ہم آپس میں ایسے ہی دست وگریباں رہ سکتے ہیں؟

اپنے افکار ونظریات کے بارے میں تھوڑا غوروفکر کیجئے اسی طرح شیعوں کے پاک ومقدس عقائد اور ان کے معتبر مدارک کا تعصب کی عینک اتار کر انصاف کے ساتھ مطالعہ کیجئے،شیعہ عقائد کی بنیاد قرآن وسنت اور عقل محکم ہے،بلاوجہ شبہات،الزامات اور افترا کے ذریعہ شیعوں کے جذبات مجروح نہ کیجئے اور اپنے سنی بھائیوں کو بھی غلط فہمی، بدگمانی اور اسلامی عقائد ونظریات سے متعلق بے خبری سے نجات دیجئے۔

تاریخ کے معمر حضرات

اگرچہ گزشتہ صفحات میں ہم نے طویل عمر کے امکان کے بارے میں کافی وضاحت پیش کردی ہے لیکن اس مسئلے کی تاریخی حیثیت نمایاں کرنے کے لئے قارئین کرام کو تاریخ، سیرت اور سوانح حیات سے متعلق معتبر کتب کے مطالعہ کی دعوت دیتے ہیں تاکہ انھیں اندازہ ہوجائے کہ طول عمر کا مسئلہ تاریخی لحاظ سے ہمیشہ قابل قبول رہا ہے سوانح حیات کی کتب میں تو بہت سے افراد کے طولانی سن وسال کا تذکرہ مل ہی جائے گا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت زیادہ عمر بسر کرنے والے افراد کے حالات زندگی سے متعلق خصوصی کتب بھی تحریر کی گئی ہیں۔

ابی حاتم سجستانی (متوفیٰ ۲۴۸) نے ”المعمّرون“ نامی کتاب لکھی ہے جو ۱۸۹۹ ءء میں انگریزی ترجمہ کے ضمیمہ کے ساتھ لندن سے شائع ہوئی اور کچھ عرصہ قبل اس کا جدید ایڈیشن شائع ہوا ہے۔ اس کے علاوہ شیخ صدوق کی کتاب ”کمال الدین“ اورشیخ طوسی کی کتاب”غیبت“ اور سید مرتضیٰ کی ”امالی“ میں ایک مخصوص باب یا فصل اسی موضوع سے متعلق موجودہے۔

ان کتب کے مطالعہ سے بخوبی محسوس کیاجاسکتا ہے کہ بلا وجہ اتنی طویل گفتگو نہیں کی گئی ہے اور اس سے یہ یقین حاصل ہوجائے گا کہ تاریخ سے جن حضرات کا حوالہ دیا گیا ہے وہ مستند حوالہ کے ساتھ ہے نیز یہ کہ انسانی عمر کی کوئی حد معین نہیں ہے۔ دنیا کی تاریخ بےشمار طویل عمر کے مالک افراد کے عجیب واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اسی زمین پر بہت سے ایسے افراد گزرے ہیں جنھوں نے امام عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ سے زیادہ عمر بسر کی ہے۔

طبیعی طور پر معمر حضرات کی تاریخ کے بارے میں ہماری معلومات اور اس سلسلہ کی کتب کے مندرجات یقینا ایک عظیم دنیا کا معمولی سا حصہ ہیں۔ اگر دوسرے اقوام کی تاریخ ہمارے اختیار میں ہوتی اور اگر شروع سے ہی معمر حضرات کے حالات کو بھی بادشاہوں کے حالات کے برابر اہمیت دی گئی ہوتی تو اس وقت معمر حضرات کی تاریخ بہت تفصیلی ہوتی۔

ان تمام باتوں کے باوجود ہم موجود منابع ومآخذ سے معمر حضرات کے اسماء کی مختصر فہرست پیش کررہے ہیں اگرچہ تاریخ کے تمام معمر حضرات بلکہ موجودمنابع ومآخذ سے ہی تمام تر اعداد وشمار اور حالات فراہم کرنے کے لئے بہت زیادہ وقت درکار ہے اس لئے ہم صرف بطور نمونہ کچھ افراد کے اسماء پر اکتفا کررہے ہیں کہ مثل مشہور ہے ”حکم الامثال فیما یجوز وفیما لایجوز سواء“ اگر ان حضرات کے لئے طویل عمر ممکن ہے تو دوسروں کے لئے کیوں ممکن نہ ہوگی۔

بعض معمر حضرات کے نام

۱ ۔آدم، ۹۳۰ سال

۲ ۔شیث ، ۹۱۲ سال

۳ ۔انوش، ۹۰۵ سال

۴ ۔قینان، ۹۱۰ سال

۵ ۔مہلئیل ، ۸۹۵ سال

۶ ۔یارد، ۹۶۲ سال

۷ ۔اخنوخ، ۳۶۵ سال

۸ ۔متوشالح، ۹۶۹ سال

۹ ۔لامک، ۷۷۷ سال

۱۰ ۔نوح، ۹۵۰ سال(کتب تاریخ وحدیث کے مطابق آپ کی کل عمربعثت سے قبل اور طوفان کے بعد ۲۵۰۰ سال تھی)

۱۱ ۔سام، ۶۰۰ سال

۱۲ ۔ارفکشاد، ۴۳۸ سال

۱۳ ۔شالح، ۴۳۳ سال

۱۴ ۔عابر، ۴ ۴۶ سال

۱۵ ۔ابراہیم، ۱۷۵ سال

۱۶ ۔اسمٰعیل، ۱۳۷ سال۔

ان افراد کی عمریں توریت کے مطابق لکھی گئی ہیں، توریت میں ان کے علاوہ فالح، رعو، سروح اور ناحور وغیرہ کے اسماء بھی ہیں۔ توریت کاعربی ترجمہ مطبوعہ بیروت ۱۸۷۰ ءء اور مصنف کی کتاب منتخب الاثر ص ۲۷۶ ۔ ۲۷۷ ملاحظہ فرمائیں۔

غالباً اخنوخ سے مراد وہی ایلیا ہیں جن کے بارے میں یہود ونصاریٰ کا عقیدہ ہے کہ ولادت مسیح سے ۳۳۸۲ سال قبل آسمان پر اُٹھالئے گئے اورانھیں موت نہیں آئی۔ (اظہار الحق، ج ۲ ص ۱۲۴)

۱۷ ۔ربیعة بن ضبیع فزاری، ۳۸۰ سال، (کمال الدین، ج ۲ ص ۲۳۳ تا ۲۳۵)

۱۸ ۔اوس بن حارثہ، ۲۲۰ سال، (المعمّرین، ص ۳۶)

۱۹ ۔عبید بن شرید جرھمی، ۳۵۰ سال، (کمال الدین، ج ۲ ص ۲۳۲)

۲۰ ۔برد، ۹۶۲ سال، (کنزالفوائد، ص ۲۴۵) ۔

۲۱ ۔ ایوب بن حداد عبدی، ۲۰۰ سال، (کمال الدین، ج ۲ ص ۱۴۲) ۔

۲۲ ۔ ثعلبة بن کعب، ۳۰۰ سال، (المعمّرین، ص ۶۴) ۔

۲۳ ۔ تیم اللہ بن ثعلبہ، ۵۰۰ سال، (تذکرة الخواص، ص ۲۰۵ والمعمّرین، ص ۳۱) ۔

۲۴ ۔ ثوب بن تلدہ اسدی، ۲۲۰ سال، (المعمّرین، ص ۵۹) ۔

۲۵ ۔ جعفر بن قرط عامری، ۳۰۰ سال، (المعمّرین، ص ۴۳) ۔

۲۶ ۔ جلھمہ بن اددبن زید، ۵۰۰ سال، (غیبت شیخ، ص ۸۴) ۔

۲۷ ۔ یحابر بن مالک بن ادد، ۵۰۰ سال، (غیبت شیخ، ص ۸۴) ۔

۲۸ ۔ زہیر بن عتاب کلبی، ۳۰۰ سال، (کمال الدین، ص ۲۴۶) ۔

۲۹ ۔ جلیلة بن کعب، ۱۹۰ سال (المعمّرین، ص ۶۵) ۔

۳۰ ۔ حادثة بن صحر، ۱۸۰ سال، (المعمّرین، ص ۴۹) ۔

۳۱ ۔ حادثة بن عبید کلبی، ۵۰۰ سال، (المعمّرین، ص ۶۷) ۔

۳۲ ۔ حامل بن حادثة، ۲۳۰ سال، (المعمّرین، ص ۶۹) ۔

۳۳ ۔ حبابہ والبیہ، خلافت امیرالمومنین حضرت علی سے امام رضا کے زمانہ تک حیات پائی، (حدیث کی معتبر کتب)۔

۳۴ ۔ حارث بن مضاض جرہمی، ۴۰۰ سال، (غیبت شیخ، ص ۸۱ المعمّرین، ص ۴۲) ۔

۳۵ ۔ ذوالاصبع العدوانی، ۳۰۰ سال، (المعمّرین، ص ۸۲) ۔

۳۶ ۔ حنظلة بن شرقی، ۲۰۰ سال (المعمّرین، ص ۴۹) ۔

۳۷ ۔ درید بن زید، ۴۵۰ سال، (المعمّرین، ص ۲۰) ۔

۳۸ ۔ ذوجدن حمیری، ۳۰۰ سال، (المعمّرین، ص ۳۳) ۔

۳۹ ۔ درید بن صمت، ۲۰۰ سال، (المعمّرین، ص ۲۲) ۔

۴۰ ۔ ذوالقرنین، ۳۰۰۰ سال، (تذکرة الخواص، ص ۳۷۷ ، نقل از تورات)۔

۴۱ ۔ ربیعہ بجلی، ۱۹۰ سال، (المعمّرین، ص ۶۸) ۔

۴۲ ۔ رداد بن کعب نخعی، ۳۰۰ سال، (کمال الدین، ج ۲ ص ۲۴۲) ۔

۴۳ ۔ زہیر بن خباب، ۴۲۰ سال، (المعمّرین، ص ۲۵) ۔

۴۴ ۔ سطیح کاہن، ۳۰ قرن، (المعمّرین، ص ۵) ۔

۴۵ ۔ سیف بن وہب، ۳۰۰ سال، (المعمّرین، ص ۴۱) ۔

۴۶ ۔ شریة بن عبداللہ جعفی، ۳۰۰ سال، (المعمّرین، ص ۳۹) ۔

۴۷ ۔ شق کاہن، ۳۰۰ سال، (کمال الدین ، ج ۲ ص ۲۳۵) ۔

۴۸ ۔ صیفی بن ریاح، ۲۷۰ سال، (غیبت شیخ، ص ۸۰) ۔

۴۹ ۔ ضبیرة بن سعید، ۲۲۰ سال، (المعمّرین، ص ۲۰) ۔

۵۰ ۔ عباد بن سعید، ۳۰۰ سال، (المعمّرین، ص ۷۰) ۔

۵۱ ۔ عوف بن کنانہ کلبی، ۳۰۰ سال، (کمال الدین، ج ۲ ص ۲۵۵) ۔

۵۲ ۔ عبدالمسیح بن عمرو غسانی، ۳۵۰ سال، (المعمّرین، ص ۳۸) ۔

۵۳ ۔ اوس بن ربیعة اسلمی، ۲۱۴ سال، (المعمّرین، ص ۶۶) ۔

۵۴ ۔ عبید بن شرید جرہمی، ۳۵۰ سال، (کمال الدین، ج ۲ ص ۲۳۲) ۔

۵۵ ۔ عمرو بن حمة الدوسی، ۴۰۰ سال، (غیبت شیخ، ص ۸۱) ۔

۵۶ ۔ عمرو بن لحی، ۳۴۵ سال، (غیبت شیخ، ص ۸۶) ۔

۵۷ ۔ قس بن ساعدہ، ۶۰۰ سال، (کنزالفوائد، ص ۲۵۴) ۔

۵۸ ۔ کعب بن حمة الدوسی، ۳۹۰ سال، (تذکرة الخواص، ص ۲۰۵ ، المعمّرین، ص ۲۲) ۔

۵۹ ۔ کعب بن رادة نخعی، ۳۰۰ سال، (المعمّرین، ص ۶۶) ۔

۶۰ ۔ محصن بن عتبان زبیدی، ۲۵۶ سال، (کمال الدین، ج ۲ ص ۲۵۵) ، المعمّرین، ص ۲۱)

۶۱ ۔ مرداس بن صبیح، ۲۳۰ سال، (المعمّرین، ص ۳۵) ۔

۶۲ ۔مستوغر بن ربیعة بن کعب، ۳۳۰ سال، (المعمّرین، ص ۹ وسیرة ابن ہشام، ج ۱ ص ۹۳) ۔

۶۳ ۔ ھبل بن عبداللہ کلبی جد زہیر بن خباب، ۷۰۰ سال، (المعمّرین، ص ۲۹) ۔

۶۴ ۔ نفیل بن عبداللہ، ۷۰۰ سال، (تذکرة الخواص، ص ۲۰۵) ۔

اگر ہم المعمرین، غیبت شیخ، کمال الدین، کنزالفوائد اور تاریخ کی قدیم کتب سے ہی معمر حضرات کے اسما ء پیش کرتے رہیں تو مقالہ بہت طویل ہوجائے گا لہٰذا ان کتب سے صرف انھیں اسماء پر اکتفا کرتے ہوئے آخری دور میں لکھی گئی کتب سے چند اسماء تحریر کررہے ہیں اور اسی طرح موجودہ دور کے ان معمر حضرات کے اسماء بھی شامل کررہے ہیں جن کے حالات اخبارات میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ اخبارات سے تلاش کرنے کے لئے ہم نے کوئی باقاعدہ تحقیقی کام نہیں کیا ہے بلکہ اتفاقی طور پر جو اسماء مل گئے انھیں شامل کرلیاگیا۔

۶۵ ۔ ہنری جنکس، ۱۶۹ سال، (اس شخص نے ۱۱۲ سال کی عمر میں فلورفید کی جنگ میں شرکت کی)

۶۶ ۔ جون بافن بولندی، ۱۷۵ سال، (اس کے تین بیٹے سو سال سے زیادہ عمر کے تھے)۔

۶۷ ۔ یوحنا سور تنغتون نروژی، (متوفیٰ ۱۷۹۷) ، ۱۶۰ سال۔

۶۸ ۔ طوز مابار، ۱۵۲ سال۔

۶۹ ۔ کورتوال، ۱۴۴ سال۔

۷۰ ۔ ایک فرد زنگباری، ۲۰۰ سال۔

ان افراد کے نام تفسیر الجواہر جلد ۱۷ ص ۲۲۶ پر مذکور ہیں۔

۷۱ ۔ ماتوسالم، ۹۶۹ سال۔

۷۲ ۔ ملک جزیرہ ”لوکمبانز“ ۸۰۲ سال۔

۷۳ ۔ چندپنجابی، ۲۰۰ سال۔

۷۴ ۔ مارکوس ابونیوس، ۱۵۰ سال سے زیادہ۔

۷۵ ۔ اھالی جبل آتوس ہریک، ۱۳۰ سال۔

۷۶ ۔ دو دون، ۵۰۰ سال۔

۷۷ ۔ سنجرین، قبرس کا بادشاہ، ۱۶۰ سال۔

۷۸ ۔قدیس سیمون، ۱۰۷ سال۔

۷۹ ۔ قدیس تاکریس، ۱۶۵ سال۔

۸۰ ۔ قدیس انطوان، ۱۰۵ سال۔

۸۱ ۔ البوما مطران حبشہ، ۱۵۰ سال۔

۸۲ ۔ توماس بار، ۱۵۲ سال۔

۸۳ ۔ ایک معمر شخص موت کے وقت جس کے بیٹے کی عمر ۱۴۰ سال تھی۔

۸۴ ۔ برنوکرتریم، ۱۵۰ سال۔

۸۵ ۔ سربیا کا ایک معمر شخص، ۱۳۵ سال۔

۸۶ ۔ سربیا کا ایک اور معمر شخص، ۱۲۵ سال۔

۸۷ ۔ سربیا کا ایک اور معمر شخص، ۲۹۰ سال۔

۸۸ ۔ لیفونیا کا ایک معمر شخص، ۱۶۸ سال۔

۸۹ ۔ لوسرون کا ایک معمر شخص جس کا انتقال ۱۸۶ سال کی عمر میں ہوا۔

۹۰ ۔ ایقاسی کا ایک کاشتکار، ۱۸۵ سال۔

۹۱ ۔ مصر کا معمر، ۱۵۴ سال۔

۹۲ ۔ زار ومعمّر ترکی، ۱۵۶ سال۔

ان افراد کے نام روزنامہ الاہرام، شمارہ ۳ دسمبر ۱۹۳۰ کے مقالہ بعنوان ”الخلود وطول العمر حوادث مدھشة عن طول الاعمار“ سے لئے گئے ہیں (تفسیر الجواہر، ج ۲۴ ، ص ۸۶ تا ۸۸) ۔

۹۳ ۔ شیخ محمد سمحان، ۱۷۰ سال، (مجلہ صبا، شمارہ ۲۹ ، سال ۳ ، از مجلہ الاثنین قاہرہ)۔

۹۴ ۔ سید میرزا کاشانی، ۱۵۴ سال، (پرچم اسلام شمارہ ۳ سال ۲) ۔

۹۵ ۔ جمعہ، ۱۴۰ ، (کیہان شمارہ ۷۲۵۳) ۔

۹۶ ۔ محمود باقر عیوض اف۔ اپنی ایک سو پچاسویں سالگرہ منائی اور ان کے اعزاز میں روس کی پوسٹ اینڈ ٹیلیگراف وزارت نے یادگاری ٹکٹ جاری کیا جس پر عیوض اف کا فوٹو شائع ہوا تھا، (اطلاعات، شمارہ، ۹۶۰۳)

۹۷ ۔صربستان یوگوسلاویہ کا ایک دیہاتی بنام”اوچکوویچ۔ ۱۷۹۸ عیسوی میں پیدا ہوا اور ۱۹۵۵ عیسوی تک زندہ تھا، (اطلاعات شمارہ ۹۲۱۵)

۹۸ ۔ شیر علی مسلم اف ۱۶۴ سالہ، ۱۳۴۶ ء شمسی میں موصوف نے ۱۶۲ ویں سالگرہ منائی، اس عمر میں بھی ہشاش بشاش تھے اور زندگی میں کبھی شراب کو منھ نہ لگایا۔ عالمی جرائد نے بارہا ان کی طول عمر اور حالات زندگی کو اپنے صفحات میں جگہ دی ہے۔(کیہان ۷۱۵۱ ، ۷۷۴۶ ، اطلاعات ۱۱۷۴۴ ، ۱۱۷۵۰ ، ۱۲۸۹۳)

۹۹ ۔ حاجی محمد بدوئی ابوالشامات، ۱۲۵ سال (اطلاعات، شمارہ ۹۰۷۲) ۔

۱۰۰ ۔ شیخ علی بن عبداللہ، قطر کے سابق حکمراں، ۱۵۰ سال (اطلاعات، شمارہ ۹۳۰۳) ۔

۱۰۱ ۔ سید محمد الفجال، ۱۳۶ سال نہر سوئنر کے پروجکٹ میں شامل تھے (اطلاعات، شمارہ ۹۰۹۳)

۱۰۲ ۔ نوذر باباتا مصطفی یف آذربائیجان (قدیم روس )کا باشندہ، جس نے کچھ عرصہ قبل اپنی ایک سو چالیسویں سالگرہ کا جشن منایا، (اطلاعات، شمارہ، ۱۱۶۲۲) ۔

۱۰۳ ۔ محمد انباتوف، ۱۶۹ سال، آذربائیجان(قدیم روس )کے الیکشن میں سب سے معمر امیدوار موصوف کے سو سے زیادہ اولاد، نواسے اور پوتے تھے، (اطلاعات، شمارہ ۹۴۳۱) ۔

۱۰۴ ۔ کدخدا قنبر علی رستم آبادی، ۱۵۶ سال، (اطلاعات، شمارہ ۹۷۶۳ و ۹۸۷۳) ۔

۱۰۵ ۔ ترکیہ کی ہاجر نامی خاتون ۱۶۹ سال جس کا ایک بھائی ۱۱۳ سال کا تھا (اطلاعات شمارہ ۱۱۳۴۷)

۱۰۶ ۔ حسین پیرسلامی فارسی، ۱۴۶ سال، (اطلاعات، شمارہ ۹۷۴۶ و ۹۷۴۸) ۔

۱۰۷ ۔ہادی محمد، نیپولین کے زمانہ میں ولادت ہوئی اور ۱۳۴۲ ء شمسی میں ۱۶۳ سال عمر، ایک بیٹے کی عمر ۱۱۰ سال تھی جب کہ اس کے ۱۵۰ پوتے اور نواسے تھے، اس وقت بھی کاسابلانکا میں زندگی بسر کررہا ہے۔ (کیہان ۵۹۹۱)

۱۰۸ ۔سید حسین قرائی۔ ۱۵۳ سال۔ (اطلاعات، ۸۷۳۱)

۱۰۹ ۔ارجنٹائناکی خاتون بنام ”ناوارز“ ۱۴۸ سال۔(اطلاعات، ۸۷۳۱)

۱۱۰ ۔آسٹریا کے ”فرانتر وائز“ ۱۴۰ وین سالگرہ منائی اور فرماتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں کہ کبھی بیمار ہوا ہوں۔ اس عمر میں بھی اپنی زراعت کی نگرانی خود کرتے تھے۔

۱۱۱ ۔محمد ولی مسلم مراغای، ۱۴۰ سال۔ (اطلاعات ۱۰۰۰۰)

۱۱۲ ۔گرجستبان کاباشندہ ”اشناکر“ ۱۴۷ سال، (اطلاعات ۱۱۱۸۷)

۱۱۳ ۔صاح اسماعیل تونسی کی دختر بنام ”عائشہ“ ۱۳۰ سال۔ (اطلاعات ۸۶۴۶)

۱۱۴ ۔گالون قفقاز کی خاتون ”گوموکا“ ۱۴۷ ویں سالگرہ منائی، ہشاش بشاش ہیں سماعت وبصارت میں کوئی نقص نہیں ہے۔ (اطلاعات ۸۹۷۲)

۱۱۵ ۔امریکا کے ”ڈیوڈ فربانذ“ ۱۳۳ سال (اطلاعات ۸۹۷۲)

۱۱۶ ۔ ۱۸۵ سال ضعیف۔ فاخر الدین شاہ کی ولادت کے وقت ان کی عمر ۵۰ سال اور محمد خان قاچار کے زمانہ میں ۱۲ سال کے تھے۔ (کیہان، ۶۰۶۲)

۱۱۷ ۔کردیف قفقازی، ۱۴۷ سال۔ (اطلاعات ۹۰۲۳)

۱۱۸ ۔چینی باشندہ ، ۱۵۵ سال۔ (اطلاعات شمارہ، ۱۱ ۱۳۳۳)

۱۱۹ ۔البانیہ کا باشندہ ”خودہ“، ۱۷۰ سال۔ (مجلہ دانش مند شمارہ ۶۱)

۱۲۰ ۔ترکی کی دادی خدیجہ، ۱۶۸ سال۔(اطلاعات ۱۱۱۰۵)

۱۲۱ ۔سیارام، پنجاب ہندوستان، ۱۴۰ سال۔(اطلاعات ۸۹۲۸)

۱۲۲ ۔ترکی کی ”کومروبمیرنین“ ، ۱۷۳ سال۔(اطلاعات ۸۷۴۵)

۱۲۳ ۔سید حبیب علی معاطی مراکشی، ۱۴۷ سال، اس عمر میں بھی اپنے تمام امور خود انجام دیتے ہیں بیٹے بھی کافی پہلے سو سال کے ہوچکے ہیں۔ (الامالی المنتخبہ منطوی، ج ۱ ص ۷۹)

۱۲۴ ۔چینی باشندہ ”دلی چنگ، ۲۵۳ سال۔ (الامالی المنتخبہ منطوی، ج ۱ ص ۷۹)

۱۲۵ ۔احمدآداموف۔ ۱۶۱ سال، شادی کی ۱۰۰ ویں سالگرہ منائی۔ (اطلاعات ۸۹۶۳)

۱۲۶ ۔محمود باقر اوغلو، ۱۴۸ ویں سالگرہ منائی۔ (اطلاعات ۸۹۶۳)

۱۲۷ ۔پی ریرارا یا جاوید پریراپر، ۱۶۷ سال۔ جنوبی امریکا کا سرخ پوست جس کے حالات زندگی تفصیل کے ساتھ اطلاعات کے شمارہ ۹۲۳۶ میں شائع ہوئے۔

۱۲۸ ۔سید ابوطالب موسول المعروف بہ ”ذی القرنین“، ۱۹۱ سال۔ ایک چھوٹی سی آبادی کے پردھان تھے جس میں سب کے سب ان کے بیٹے، پوتے نواسے ہی تھے، آخری زوجہ کی عمر ۱۰۵ سال ہے۔ فرماتے ہیں کہ ناصر الدین شاہ سے پہلے شادی کی اور دو مرتبہ ان کے دانت نکلے۔ (اطلاعات ۱۱۱۷۹)

۱۲۹ ۔شیر سوار۔ فومن کا ۱۴۰ سالہ باشندہ۔ (اطلاعات ۹۷۴۱ ، ۹۷۴۲)

۱۳۰ ۔کربلائی آقا باطنی کرمانشاہی، ۱۴۰ سال۔ (اطلاعات ۹۷۸۰)

۱۳۱ ۔سید علی فریدنی، ۱۸۵ سال۔ دو بیٹوں کی عمر بھی سوسال سے زیادہ تھی۔ ۳۵ سال قبل یعنی ۱۵۰ سال کی عمر میں دوبارہ دانت نکلے، حکومت کی جانب سے وزارت صحت کے ڈاکٹروں کی ٹیم نے معاینہ کیا اور ان کے حالات سے متعلق وزارت صحت کا خط روزمانہ اطلاعات میں شائع ہوا۔ (اطلاعات ۹۷۴۱ ، ۹۷۴۴ ، ۹۷۶۵)

۱۳۲ ۔ایکور کرویف، ۱۵۷ سال۔ روسی جنرل الکسی میر مولف کے خلاف نیپولین اول کی جنگ میں جنرل الکسی کا باورچی تھا۔ ایکور کرویف شراب اور سگریٹ نوشی کا شدت سے مخالف تھا۔ (اطلاعات ۹۳۳۷)

۱۳۳ ۔کینیا کا ایک باشندہ جس کا ۱۵۸ سال کی عمر میں اپنڈکس کا نیروبی میں آپریشن ہوا، موصوف جو ان ترین جوانوں سے بھی زیادہ جوان تھے، ۱۲۰ سے ۱۳۰ سال کی عمر کے دوران جوان بیوی سے ۵ ا ولادیں ہوئیں، سب سے بڑے صاحبزادے ۱۲۵ سال کے ضعیف اور کمر خمیدہ ہیں لیکن ۱۵۸ سالہ باپ اب بھی ”ہاتھی پچھاڑ“ اور افسانوی پہلوان کی طرح طاقتور ہے۔ دوسرے بیٹے ایک قبیلہ کے سردار ہیں اپنی زندگی میں ۳۹ شادیاں کیں اور ۱۷۳ ،اولادیں ہوئیں۔ طول عمر اور کثرت اولاد میں یہ گھرانہ ضرب ا لمثل بنا ہوا ہے۔ (عالمی جرائد، اطلاعات ۱۲۶۷۲)

۱۳۴ ۔سرکاری سروے کے مطابق گرجستان میں اکیس سو افراد کی عمر سو سال سے زیادہ ہے۔ (اطلاعات ۱۱۱۷۸)

۱۳۵ ۔ایک سروے کے اعداد وشمار کے مطابق روس میں ۱۱۰ سے ۱۵۰ سال تک کے دو سو افراد پائے جاتے ہیں، تحقیقات سے معلوم ہوا کہ ان میں سے اکثر شہد کی مکھیاں پالتے ہیں اورا ن کی غذا شہد ہے جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ طول عمر میں شہد کا کردار بہت اہم ہے۔ (اطلاعات ۸۹۰۴)

۱۳۶ ۔امریکا میں سو سال سے زیادہ عمر والے افراد کی تعداد کا اندازہ تین ہزار پانچ سو بتایا جاتا ہے۔ (اطلاعات ۹۴۳۷)

۱۳۷ ۔چین میں ۳۳۸۴ افراد کی عمر سو سال سے زیادہ ہے ان کے درمیان ایسے افراد بھی ہیں جو ۱۵۰ سال سے زیادہ کے ہیں۔(اطلاعات ۱۱)

۱۳۸ ۔سویت یونین میں زندگی کی دوسری صدی میں قدم رکھنے والے افراد کی تعداد تقریبا تیس ہزار ہے۔(مجلہ دانش مند ۶۱)

۱۳۹ ۔مجارستان کے ایک دیہاتی باشندہ کا ۱۷۲۴ ءء میں ۱۸۵ سال کی عمر میں انتقال ہوا، موصوف آخر عمر تک جوانوں کی طرح کام کیا کرتے تھے۔ (دانشمند ۶۱)

۱۴۰ ۔مجارستان کے ایک اور شخص ”جان راول“ کی عمر انتقال کے وقت ۱۷۰ سال تھی جب کہ موصوف کی زوجہ کی عمر ۱۶۴ سال تھی اس جوڑے نے زندگی کے ۱۳۵ سال ایک ساتھ گزارے۔ (مجلہ دانش مند ۶۱)

۱۴۱ ۔”آشرااوماروا“ نامی خاتون ۱۵۹ سال۔ (اطلاعات ۱۲۸۸۲)

۱۴۲ ۔چند برس پہلے اخبارات نے اطلاع دی کہ جنوبی امریکہ میں ۲۰۷ سال کی عمر میں ایک شخص کا انتقال ہوا۔ (دانش مند ۶۱)

مقالہ کے اختتام پر بار دیگر یہ یاد دہانی کرادیں کہ اگر کسی کے پاس اقوام کی تاریخ اور پوری دنیا سے منتشر ہونے والے اخبارات، رسائل، مجلات ہوں تو اس کے پاس عجیب وغریب معلومات اور اعداد وشمار جمع ہوجائیں گے۔

اس مقالہ سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ تاریخ معاصرین اور زمانہ قدیم کے معمر حضرات کے حالات کے مطالعہ سے یہ بات ثابت ہے کہ انسانی عمر کی کوئی حد مقرر نہیں ہے، اور جیسا کہ سید بن طاؤوس نے اپنی کتاب کشف المحجہ فصل ۷۹ میں معروف مثل کے ذریعہ وضاحت پیش کی ہے لہذا کسی بھی قسم کا تعجب نہیں ہونا چاہئے کیونکہ جب کثرت کے ساتھ بار بار تاریخ کے دامن میں معمر حضرات کا وجود پایا جاتا ہے تو حیرت کس بات پر ہے؟

ہم نے طول عمر کے سلسلے میں جو مختلف اعتبار سے تشریحی گفتگو کی ہے اس کا مقصد صرف یہ سمجھانا تھا کہ طویل عمر کے انکار کی وجہ تاریخ کے بارے میں ناقص معلومات، معمر حضرات کے حالات اور علوم طبیعہ سے ناواقفیت، ضعف ایمان، عناد اورحق کوقبول کرنے سے ٹال مٹول کے سوا کچھ نہیں ہے۔

اگر یہ دلائل نہ ہوتے، طویل عمر کی کوئی اور مثال نہ ہوتی، سائنس تائید نہ کرتی تو بھی ان تمام باتوں کے باوجود حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کی عمر کا مسئلہ مطابق عقل اور قبول کرنے کے لائق تھا اس لئے کہ پیغمبر اکرم اور ائمہ طاہرین علیہم السلام سے اتنی احادیث اور بشارتیں نقل ہوئی ہیں ،آپ کے پدر بزرگوار امام حسن عسکری کی حیات طیبہ اور غیبت صغریٰ وکبریٰ کے زمانہ میں آپ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کی ذات گرامی سے نہ معلوم کتنے معجزات ظاہر ہوئے،بہت سے افراد جن کی صداقت اور زہد وتقویٰ شک وشبہ سے بالاتر ہے حضرت ولی عصرعجل اللہ تعالیٰ فرجہ کی خدمت میں شرفیاب ہوئے، بے شمار افراد کو زیارت کا شرف حاصل ہوا ہے یہ تمام چیزیں اس آفاقی رہبر کی حیات مبارکہ کی بہترین دلیل ہیں جیساکہ انبیاء کے معجزات بھی خارق العادہ ہونے کے باوجود تواتر کے ساتھ اطلاع دینے والوں اور قدرت الٰہی پر ایمان کی وجہ سے قطعی طور پر مسلّم ہیں۔

اللّهُمَ اِنَّا نَرْغَبُ اِلَیْکَ فِیْ دَوْلَةٍ کَرِیْمَةٍ تُعِزّ بِهَا الاِسْلام واٴَهْلَه وَتُذِلُّ بِهَا النِّفَاقَ وَاَهْلَه وَتَجْعَلُنَا فِیْهَا مِنَ الدُّعَاةِ اِلٰی طَاعَتِکَ وَالْقَادَةِ اِلٰی سَبِیْلِکَ وَتَرْزُقُنَا بِهَا کَرَامَةَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ “۔

”خدایا ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں اس با عظمت حکو مت کا جس سے اسلام اور اہل اسلام کو عزت ملے ا ور نفاق اور اہل نفاق کو ذلت نصیب ہوہمیں اس حکو مت میں اپنی اطاعت کا طرفدار اور اپنے راستے کا قائد بنا دے ا ور اس کے ذریعہ ہمیں دنیا اور آخرت کی کرا مت عنایت فرما“۔

چوتها حصه حضرت ولی عصرکی ولادت باسعادت کا انداز

حضرت ولی عصر علیہ السلام کی ولادت باسعادت اور آپ کے وجود مبارک سے متعلق روایات بھی بے شمار ہیں، ہم نے اپنی کتاب منتخب الاثر کی فصل سوم کے باب اول میں اس موضوع سے متعلق دو سو سے زیادہ روایات نقل کی ہیں،علامہ سید میر محمد صادق خاتون آبادی اپنی کتاب اربعین میں فرماتے ہیں کہ ”شیعوں کی معتبر کتب میں حضرت مہدی کی ولادت، غیبت، آپ کے بارہویں امام اور فرزند حسن عسکری ہونے پر ایک ہزار سے زائد روایات موجود ہیں۔“

امام علیہ السلام کی ولادت باسعادت کوبیان کرنے والی تفصیلی روایات معتبر کتب حدیث میں موجود ہیں، انھیں روایات میں سے ایک تفصیلی روایت ینابیع المودة کے مولف اور اہل سنت کے معروف عالم فاضل قندوزی نے اپنی کتاب کے ص ۴۴۹ اور ۴۵۱ پر نقل کی ہے ان کے علاوہ شیخ طوسی نے اپنی کتاب ”غیبت“ میں اور شیخ صدوق نے ”کمال الدین“ میں صحیح اور معتبر سند کے ساتھ جناب موسیٰ بن محمد بن قاسم بن حمزة بن موسیٰ بن جعفر علیہما السلام سے اور انہوںنے امام محمد تقی علیہ السلام کی دختر جناب حکیمہ خاتون سے نقل کیا ہے کہ جناب حکیمہ نے فرمایا:

امام حسن عسکری نے ایک شخص کے ذریعہ میرے پاس کہلایا کہ پھوپھی آج شب نیمہ شعبان آپ میرے یہاں افطار فرمائیں خداوندعالم آج کی رات اپنی حجت کو ظاہر کرے گا اور وہی روئے زمین پر حجت خدا ہوگا۔

میں نے امام حسن عسکری کی خدمت میں عرض کیا: حجت کی ماں کون ہے؟

امام نے فرمایا: نرجس۔

میں نے عرض کیا: میں آپ پر قربان،بخدا نرجس کے یہاں تو ایسے کوئی آثار نہیں ہیں۔امام نے فرمایا: جو میں نے کہا وہی حقیقت ہے۔

جناب حکیمہ خاتون فرماتی ہیں کہ میں حسب وعدہ پہنچی اور سلام کیانرجس نے میرے آرام کے لئے بستر وغیرہ آمادہ کیا اور ”میری اور میرے خاندان کی سیدوسردار خاتون“کہہ کر مجھ سے حال دریافت کیا۔

جناب حکیمہ نے فرمایا: میں نہیں تم میری اور میرے خاندان کی سید وسردار ہو۔

جناب نرجس نے فرمایا: پھوپھی یہ آپ کیا فرما رہی ہیں؟

جناب حکیمہ نے فرمایا: میری بیٹی!آج کی رات خدا تجھے وہ فرزند عطا کرے گا جو دنیا وآخرت کا آقا ہے،جناب نرجس کے چہرہ پر شرم وحیا کے آثار نمودار ہوگئے، میں نے نماز عشاء سے فارغ ہوکر روزہ افطار کیا اور بستر پر لیٹ گئی، جب نصف شب گزر گئی تو نماز شب کے لئے بیدار ہوئی نماز شب پڑھنے کے بعد میں نے دیکھا کہ جناب نرجس اسی طرح آرام سے سو رہی ہیں تعقیبات کے بعد میری آنکھ لگ گئی، گھبراکر اُٹھی نرجس اسی طرح سو رہی تھیں،پھر جناب نرجس اٹھیں، نماز شب بجالائیں اور پھر سوگئیں۔

میں صبح کی جستجو میں باہر نکلی فجر اول طلوع ہوچکی تھی،جناب نرجس محو خواب تھیں میرے دل میں شک کا گزر ہوا امام حسن عسکری نے آواز دی: پھوپھی عجلت مت کیجئے گھڑی نزدیک آرہی ہے، جناب حکیمہ فرماتی ہیں کہ میں نے الم سجدہ اور سورہ یٰسین کی تلاوت شروع کردی، ناگاہ میں نے دیکھا کہ جناب نرجس گھبراکر بیدار ہوئیں میں ان کے سرہانے گئی میں نے کہا: ”بسم اللہ علیک “ کیا کچھ محسوس کررہی ہو؟جواب دیا ”جی ہاں اے پھوپھی۔“

میں نے کہا گھبراؤ نہیں یہ وہی بات ہے جس کی اطلاع میں تمہیں دے چکی ہوں۔

جناب حکیمہ فرماتی ہیں کہ مجھ پر ہلکی سی غنودگی طاری ہوگئی،جب مجھے اپنے آقا کے وجود کا احساس ہوا تو آنکھ کھلی،پردہ ہٹایا تو میں نے نرجس کے پاس اپنے آقا کو سجدہ ریز پایا،تما م اعضائے سجدہ زمین پر تھے،میں نے گود میں لیا تو بالکل پاک وصاف پایا، امام حسن عسکری نے آواز دی ”اے پھوپھی میرے لال کو میرے پاس لائیے۔“

میں اس مولود کوامام کی خدمت میں لے گئی امام نے اپنے دست مبارک سے بچہ کو آغوش میں لیا بچہ کے پیر اپنے سینہ پر رکھے اور اپنی زبان نومولود کے دہن میں دی اورسر وصورت پر دست شفقت پھیرا۔

پھر امام نے فرمایا: میرے لال گفتگو کرو۔نومولود نے جواب میں کہا:

اشهد ان لاالٰه الا الله وحده لاشریک له وانّ محمداً رسولُ الله ۔“

وحدانیت ورسالت کی گواہی کے بعد امیرالمومنین سے لے کر اپنے پدر بزرگوار تک تمام ائمہ پردرود بھیجا اور خاموش ہوگئے۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: انہیں ان کی ماں کے پاس لے جایئے تاکہ ماں کو سلام کریں اس کے بعد میرے پاس لایئے،میں بچہ کو ماں کے پاس لے گئی، اس نے ماں کو سلام کیا پھر میں نے اسے امام کی خدمت میں پہنچا دیا،امام نے فرمایا اے پھوپھی ساتویں دن پھر تشریف لائیے گاجناب حکیمہ فرماتی ہیں کہ میں اگلی صبح پہنچی، امام کو سلام کیا اور پردہ ہٹایا تاکہ اپنے آقا کی زیارت کرسکوں مگر بچہ نظر نہ آیا میں نے عرض کیا میری جان آپ پر قربانمیرا آقا کیا ہوا؟

امام نے فرمایا: اے پھوپھی میں نے بھی اپنے لال کو اسی کے حوالہ کردیا جس کے حوالہ مادر موسی نے اپنا بچہ کیا تھا۔

جناب حکیمہ کہتی ہیں کہ میںساتویں دن پھر امام کی خدمت میں پہنچی، سلام کیا اور بیٹھ گئی۔

امام نے فرمایا: میرے فرزند کو میرے پاس لایئے، میں اپنے آقا کو اس عالم میں امام کے پاس لے گئی کہ آپ کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے امام نے پہلے دن کی طرح آغوش میں لیا، دست شفقت پھیرا، دہن میں زبان رکھی گویا بچہ کو دودھ اور شہد دے رہے ہیں پھر فرمایا:

میرے لال! گفتگو کرو۔

بچہ نے کہا: ”اشہد ان لاالہ الا اللہ“، پھرحضرت محمد ،امیرالمومنین اور اپنے پدربزرگوار ودیگر ائمہ پر درود وسلام بھیجا اوراس آیہ کریمہ کی تلاوت فرمائی :

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

( ونرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض ونجعلهم اٴئمة ونجعلهم الوارثین ونمکن لهم فی الارض ونری فرعون وهامان وجنودهما منهم ماکانوا یحذرون )

راوی حدیث موسیٰ بن محمد بن قاسم کہتے ہیں کہ میں نے اس واقعہ کے بارے میں عقید (خادم)سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ”حکیمہ خاتون نے سچ کہا ہے“(۱)

شیخ صدوق نے انتہائی معتبر حدیث میں احمد بن الحسن بن عبداللہ بن مہران امی عروضی ازدی کے واسطہ سے احمد بن حسین قمی سے روایت کی ہے کہ امام حسن عسکری کے یہاں خلف صالح کی ولادت ہوئی تو امام حسن عسکری کی جانب سے میرے دادا احمد بن اسحاق کے نام سات خطوط خود آپ کے دست مبارک سے لکھے ہوئے موصول ہوئے،جیسا کہ اس سے قبل توقیعات بھی اسی تحریر میں موصول ہوتی تھیں،ان خطوط میں یہ تحریرتھا کہ ”ہمارے یہاں ایک فرزند کی ولادت ہوئی ہے جو تمہارے نزدیک مخفی اور لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رہے گا، اس لئے کہ ہم اس کو کسی پر ظاہر نہ کریں گے مگر صرف قریب ترین حضرات کو قربت کے باعث اور چاہنے والوں کو ان کی محبت کی بنا پر، ہم نے چاہا کہ ہم تمہیں بتادیں تاکہ خدا تمہیں اسی طرح مسرورکرے جس طرح اس نے ہمیں مسرور کیا ہے۔(۲)

____________________

(۱)منتخب ا لاثر ص۳۲۱ تا۳۴۱

(۲)منتخب الاثر، ص۲۴۳ تا ص۲۴۴۔