نويد امن وامان

نويد امن وامان15%

نويد امن وامان مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

نويد امن وامان
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 218 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 18999 / ڈاؤنلوڈ: 4183
سائز سائز سائز
نويد امن وامان

نويد امن وامان

مؤلف:
اردو

مسعودی کی روایت میں ہے کہ احمد بن اسحاق نے امام حسن عسکری سے عرض کیا: ”جب آقا کی ولادت سے متعلق آپ کا بشارت نامہ موصول ہوا تومردوزن اور منزل شعورمیں قدم رکھنے والا کوئی جوان ایسا نہیں تھا جو حق کا قائل نہ ہو گیا ہو۔

حضرت نے فرمایا کیا تمہیں نہیں معلوم کہ زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی۔(۱)

ایک اور روایت، ثقہ جلیل فضل بن شاذان نے جن کی وفات ولادت حضرت ولی عصرکے بعد اور امام حسن عسکری کی شہادت سے قبل ( ۲۵۵ سے ۲۶۰ ہجری کے درمیان) ہوئی اپنی کتاب ”غیبت“ میں محمد بن علی بن حمز ہ بن حسین بن عبداللہ بن عباس بن امیرا لمومنین کے واسطہ سے امام حسن عسکری سے نقل کی ہے کہ امام حسن عسکری نے فرمایا: شب نیمہ شعبان ۲۵۵ ء طلوع فجر کے وقت میرے جانشین اور میرے بعد بندگان خدا پر حجت خدا اور ولی خدا کی اس عالم میں ولادت ہوئی کہ اسے ختنہ کی ضرورت نہ تھی سب سے پہلے جس نے مولود کو نہلایا وہ رضوان خازن جنت تھا جس نے چند دیگر ملائکہ مقربین کے ساتھ مل کر اسے کوثر وسلسبیل کے پانی سے غسل دیا۔(۲)

دوسری روایات میں ملتا ہے کہ جب امام عصر کی ولادت ہوئی تو امام حسن عسکری نے حکم دیا کہ دس ہزار رطل روٹی اور دس ہزار رطل گوشت فقراء بنی ہاشم میں تقسیم کیا جائے اور تین سو گوسفند بطور عقیقہ ذبح فرمائے۔(۳)

اسی طرح ایک اور روایت ہے کہ ولادت کے تیسرے دن حضرت کے پدر بزرگوار نے آپ کو مومنین کے سامنے پیش کرکے فرمایا:یہی میرا جانشین اور میرے بعد تمہارا امام ہے۔ یہی وہ قائم ہے جس کا انتظار کیا جائے گا اور جب دنیا ظلم وجور سے بھر جائے گی اس وقت ظاہر ہوکر دنیا کو عدل

____________________

(۱)منتخب الاثر،ص ۲۴۵-۲۴۶

(۲)منتخب الاثر، ص۳۲۰، اثبات الھداة،ج۷ص۱۳۹، ج۶۸۳ اربعین خاتون آبادی، ص۲۴ ودیگر کتب۔

(۳)منتخب الاثر، ص۳۴۱-۳۴۳

وانصاف سے بھردے گا۔(۱)

رجال اہل سنت کی ایک معتبر فرد نصر بن علی جہضمی نے اپنی کتاب ”موالید الائمہ“ میں امام حسن عسکری سے نقل کیا ہے کہ آپ نے اپنے فرزند ”م ح م د“ کی ولادت کے وقت فرمایا: ظالم یہ سمجھتے تھے کہ مجھے قتل کرکے میری نسل کا سلسلہ منقطع کردیں گے انہوں نے قدرت خدا کو کیسا پایا اور مولود کا نام آپ نے ”مومَّل“ (جس سے امید لگائی جائے) رکھا(۲)

احمد بن اسحاق اشعری نے امام حسن عسکری سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

الحمد لله الّذی لم یخرجنی من الدنیا حتیٰ ارانی الخلف من بعدی اشبه الناس برسول الله خلقا وخلقا یحفظه الله فی غیبته ثم یظهر فیملاٴ الارض قسطا وعدلا کما ملئت ظلما وجوراً ۔“(۳)

”تمام تعریفیں اس خدا کے لئے جس نے میرے دنیا سے رخصت ہونے سے قبل مجھے میرے جانشین کی زیارت کرادی میرا یہ جانشین لوگوں کے درمیان خَلق وخُلق میں رسول اللہ سے سب سے زیادہ مشابہ ہے ، اللہ غیبت میں اس کی حفاظت فرمائے گا پھر اسے ظاہر کرے گا اور وہ دنیا کو عدل وانصاف سے اسی طرح بھر دے گا جیسے وہ ظلم وجور سے بھری ہوئی تھی۔“

تفصیلی معلومات کے لئے حدیث کی کتب مثلا غیبت نعمانی و غیب شیخ،کمال الدین،بحار الانوار، اثبات الھداة، اربعین خاتون آبادی اور ناچیز کی کتاب منتخب الاثر کی طرف رجوع فرمائیں۔

____________________

(۱)ینابیع المودة، ص۴۶۰، منتخب الاثر،ص۳۴۲

(۲)اثبات الھداة،ج۶ص۳۴۲ باب۳۱فصل۱۰ج۱۱۶

(۳)اثبات الھداة، ج۷ص۱۳۸، ج۶۸۲،باب۳۲فصل ۴۴کفایة الاثر، کمال الدین، منتخب الاثر۔

امام مہدی کی ولادت وامامت علماء ومورخین اہل سنت کی نظر میں

شیعہ اثنا عشری محدثین، مورخین اور علم رجال کے مصنفین نے تو امام زمانہ کی ولادت سے متعلق روایات کو صحیح اور معتبر منابع ومدارک کی بنیاد پر اپنی کتب میں تحریر فرمایا ہی ہے، آپ کے پدر بزرگوار کی حیات طیبہ اور غیبت صغریٰ وکبریٰ کے دوران سینکڑوں قابل اعتماد اور ثقہ افراد کو آپ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ہے،بےشمار معجزات آپ کی ذات سے ظاہر ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ اہل سنت کے بہت سے مشہور علماء نے بھی اپنی کتب میں آپ کی ولادت باسعادت سے متعلق تفصیلات تحریر فرمائی ہیں، بعض حضرات تو آپ کی امامت ومہدویت کے معتقد تھے، بعض حضرات نے اظہار عقیدت اور مدح سرائی کے لئے عربی یا فارسی میں اشعار کہے یہاں تک کہ بعض حضرات تو آپ کی خدمت اقدس میں شرفیاب ہونے اور بہ نفس نفیس آپ سے حدیث سننے کے مدعی ہیں، ہم نے ان میں سے بعض حضرات کے اقتباسات اپنی کتاب منتخب الاثر میں ذکر کئے ہیں لیکن یہاں اختصار کے پیش نظرصرف ان کے اسماء پر اکتفا کررہے ہیں:

۱ ۔ ابن حجر ہیثمی مکی شافعی، (متوفیٰ سال ۹۷۴) ۔

۲ ۔ مولف روضة الاحباب سید جمال الدین، (متوفی ۱۰۰۰ ء )۔

۳ ۔ ابن الصباغ علی بن محمد مالکی مکی، (متوفیٰ ۸۵۵ ء)۔

۴ ۔ شمس الدین ابو المظفر یوسف، مولف التاریخ الکبیر وتذکرة الخواص، (متوفیٰ ۶۵۴ ء)۔

۵ ۔ نور الدین عبدالرحمن جامی معروف، صاحب کتاب شواہد النبوہ۔

۶ ۔ شیخ حافظ ابو عبداللہ محمد بن یوسف گنجی، صاحب کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان و دیگر کتب(متوفیٰ ۶۵۸ ء)۔

۷ ۔ ابوبکر احمد بن حسین بیہقی، (متوفی ۴۵۸ ء)۔

۸ ۔ کمال الدین محمدبن طلحہ شافعی، (متوفی ٰ ۶۵۲ ء)۔

۹ ۔ حافظ بلاذری ابو محمد احمد بن ابراہیم طوسی، (متوفیٰ ۳۳۹ ء)۔

۱۰ ۔ قاضی فضل بن روز بہان، شارح کتاب الشمائل ترمذی۔

۱۱ ۔ ابن الخشاب ابو محمد عبداللہ بن احمد، (متوفیٰ ۵۶۷ ء)۔

۱۲ ۔ شیخ وعارف شہیر محی الدین، صاحب کتاب الفتوحات، (متوفیٰ ۶۳۸ ء)۔

۱۳ ۔ شیخ سعد الدین حموی۔

۱۴ ۔ شیخ عبدالوہاب شعرانی مولف الیواقیت والجواہر، (متوفیٰ ۹۷۳ ء)۔

۱۵ ۔ شیخ حسن عراقی۔

۱۶ ۔ شیخ علی الخواص۔

۱۷ ۔ ابن اثیر، مولف تاریخ کامل۔

۱۸ ۔ حسین بن معین الدین میبدی، صاحب شرح دیوان۔

۱۹ ۔ خواجہ پارسا محمد بن محمد بن محمود بخاری، ( ۸۲۲ ء)۔

۲۰ ۔ حافظ ابوالفتح محمد بن ابی الفوارس، صاحب کتاب الاربعین۔

۲۱ ۔ ابوالمجد عبدالحق دہلوی ،(ستر کتابوں کے مولف ۱۰۵۲ ء)۔

۲۲ ۔ شیخ احمد جامی نامقی۔

۲۳ ۔ شیخ فریدالدین عطار نیشاپوری معروف۔

۲۴ ۔ جلال الدین محمد رومی، صاحب مثنوی، (متوفی ٰ ۶۷۲ ء)۔

۲۵ ۔ شیخ صلاح الدین صفدی، (متوفیٰ ۷۶۴ ء)۔

۲۶ ۔ مولوی علی اکبر بن اسد اللہ ہندی صاحب کتاب مکاشفات۔

۲۷ ۔ شیخ عبدالرحمن صاحب کتاب مراة الاسرار۔

۲۸ ۔ شعرانی کے بعض مشایخ ۔

۲۹ ۔ مصرکے ایک عالم ، بہ نقل شیخ ابراہیم حلبی۔

۳۰ ۔ قاضی شہاب الدین دولت آبادی، صاحب تفسیر البحر المواج و کتاب ہدایة السعداء۔

۳۱ ۔ شیخ سلیمان قندوزی بلخی، (متوفی ۱۲۹۴ ھء)۔

۳۲ ۔ شیخ عامر بن عامر البصری صاحب قصیدہ تائیة ”ذات الانوار“۔

۳۳ ۔ قاضی جواد سابطی۔

۳۴ ۔ صدر الدین قونوی صاحب تفسیر الفاتحہ ومفتاح الغیب۔

۳۵ ۔ عبداللہ بن محمد مطیری مدنی، مولف کتاب الریاض الزاھرہ۔

۳۶ ۔ شیخ محمد سراج الدین رفاعی، مولف صحاح الاخبار۔

۳۷ ۔ میر خواند محمد بن خاوند شاہ، مولف تاریخ روضة الصفا، (متوفیٰ ۹۰۳ ء)۔

۳۸ ۔ نضر بن علی جہضمی عالم و محدث معروف۔

۳۹ ۔ قاضی بہلول بہجت افندی، مولف کتاب محاکمہ در تاریخ آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

۴۰ ۔ شیخ محمد ابراہیم جوینی، (متوفی ٰ ۱۱۷۴ ء)۔

۴۱ ۔ شیخ شمس الدین محمد بن یوسف زرندی، مولف معراج الوصول۔

۴۲ ۔ شمس الدین تبریزی، شیخ جلال الدین رومی۔

۴۳ ۔ ابن خلکان نے وفیات الاعیان میں آپ کی تاریخ ولادت معین کی ہے۔

۴۴ ۔ ابن ارزق در تاریخ میافارقین۔

۴۵ ۔ مولی علی قاری صاحب کتاب مرقاة درشرح مشکاة۔

۴۶ ۔ قطب مدار۔

۴۷ ۔ ابن وردی مورخ۔

۴۸ ۔شبلنجی، مولف نورالابصار۔

۴۹ ۔ سویدی، سبائک الذہب۔

۵۰ ۔ شیخ الاسلام ابراہیم بن سعد الدین۔

۵۱ ۔ صدر الائمہ موفق بن احمد مالکی خوارزمی۔

۵۲ ۔مولی حسین بن علی کاشفی، مولف جواہر التفسیر، (متوفیٰ ۹۰۴ ء)۔

۵۳ ۔ سید علی بن شہاب ہمدانی، مولف ”المودة فی القربیٰ“

۵۴ ۔ شیخ محمد صبان مصری، (متوفی ۱۲۰۵ ء)۔

۵۵ ۔ الناصر لدین اللہ خلیفہ عباسی۔

۵۶ ۔ عبدالحی بن عمار حنبلی، مولف شذرات الذھب، (متوفی ٰ ۱۰۸۹ ء)۔

۵۷ ۔ شیخ عبدالرحمن بسطامی، در کتاب درة المعارف۔

۵۸ ۔ شیخ عبدالکریم یمانی۔

۵۹ ۔ سید نسیمی۔

۶۰ ۔ عماد الدین حنفی۔

۶۱ ۔ جلال الدین سیوطی۔

۶۲ ۔ رشید الدین دھلوی ہندی۔

۶۳ ۔ شاہ ولی اللہ دہلوی۔

۶۴ ۔ شیخ احمد فاروقی نقشبندی۔

۶۵ ۔ ابوالولید محمد بن شحنہ حنفی، در تاریخ روضة المناظر۔

۶۶ ۔ شمس الدین محمد بن طولون مورخ شہیر، درکتاب الشذرات الذہبیہ، (متوفیٰ ۹۵۳ ء)۔

۶۷ ۔ شبراوی شافعی،سابق رئیس جامعہ ازہر و مولف کتاب الاتحاف۔

۶۸ ۔ یافعی، مولف تاریخ مراة الجنان،

۶۹ ۔ محمد فرید وجدی در دائرة المعارف۔

۷۰ ۔ عالم محقق شیخ رحمة اللہ ہندی، مولف اظہار الحق۔

۷۱ ۔ علاء الدین احمد بن محمد السمانی۔

۷۲ ۔ خیر الدین زرکلی در کتاب الاعلام، ج ۶ ص ۳۱۰ ۔

۷۳ ۔ عبدالملک عصامی مکی۔

۷۴ ۔ محمود بن وہیب القراغولی بغدادی حنفی۔

۷۵ ۔ یاقوت حموی در معجم البلدان، ج ۶ ص ۱۷۵ ۔

۷۶ ۔ مولف تاریخ گزیدہ، ص ۲۰۷،۲۰۸ ، طبع لندن، ۱۹۱۰ ءء۔

۷۷ ۔ ابوالعباس قرمانی احمد بن یوسف دمشقی در اخبار الدول وآثار الدول۔

ظہورمہدی کا عقیدہ اسلامی عقیدہ ہے

جو لوگ شیعوں کی اندھی دشمنی میں مبتلا ہوکر شیعہ حقائق کا مطالعہ کرتے ہیں یا دشمنان اسلام کے سیاسی اغراض پر مبنی مسموم افکار کی ترویج کرتے ہیں وہ جادہ تحقیق سے منحرف ہوکر اپنے مقالات یا بیانات میں یہ اظہار کرتے ہیں کہ ظہور مہدی کا عقیدہ ،شیعہ عقیدہ ہے اوراسے تمام اسلامی فرقوں کا عقیدہ تسلیم کرتے ہوئے انھیں زحمت ہوتی ہے۔

کچھ لوگ تعصب ونفاق کے علاوہ تاریخ وحدیث اورتفسیر ورجال سے ناواقفیت،اسلامی مسائل سے بے خبری اور عصر حاضر کے مادی علوم سے معمولی آگاہی کے باعث تمام دینی مسائل کو مادی اسباب وعلل کی نگاہ سے دیکھتے اور پرکھتے ہیں اور اگر کہیں کوئی راز یا فلسفہ سمجھ میں نہ آئے توفوراً تاویل وتوجیہ شروع کردیتے ہیں یا سرے سے انکار کربیٹھتے ہیں۔

اس طرح اپنے کمرہ کے ایک کونے میں بیٹھ کر قلم اٹھاتے ہیں اور اسلامی مسائل سے متعلق گستاخانہ انداز میں اظہار نظر کرتے رہتے ہیں جب کہ یہ مسائل ان کے دائرہ کا رومعلومات سے باہر ہیں، اس طرح یہ حضرات قرآن وحدیث سے ماخوذ مسلمانوں کے نزدیک متفق علیہ مسائل کا بہ آسانی انکار کردیتے ہیں۔ انھیں قرآن کے علمی معجزات، اسلامی قوانین اور اعلیٰ نظام سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے لیکن انبیاء کے معجزات اور خارق العادہ تصرفات کے بارے میں گفتگو سے گریز کرتے ہیں تاکہ کسی نووارد طالب علم کے منہ کا مزہ خراب نہ ہوجائے یا کوئی بے خبر اسے بعیداز عقل نہ سمجھ بیٹھے۔

ان کے خیال میں کسی بات کے صحیح ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسے ہر آدمی سمجھ سکے یا ہر ایک دانشوراس کی تائید کرسکے یا ٹیلی اسکوپ، مائیکرو اسکوپ یا لیبوریٹری میں فنی وسائل کے ذریعہ اس کا اثبات ہوسکے۔

ایسے حضرات کہتے ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو انبیاء کو ایک عام آدمی کی حیثیت سے پیش کرنا چاہئے اور حتی الامکان ان کی جانب معجزات کی نسبت نہیں دینا چاہئے بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ دنیا کے حوادث کی نسبت خداوندعالم کی جانب بھی نہ دی جائے یہ لوگ خدا کی قدرت، حکمت، علم، قضاوقدر کا صریحی تذکرہ بھی نہیں کرتے جو کچھ کہنا ہوتا ہے مادہ سے متعلق کہتے ہیں۔

خدا کی حمد وستائش کے بجائے مادہ اور طبیعت ( Nature )کے گن گاتے ہیں تاکہ ان لوگوں کی لے میں لے ملا سکیں، جنہوں نے تھوڑے مادی علوم حاصل کئے ہیں یا فزکس، کمیسٹری، ریاضی سے متعلق چند اصطلاحات، فارمولے وغیرہ سیکھ لئے ہیں اوراگر انگریزی یا فرانسیسی زبان بھی آگئی تو کیا کہنا۔

یہ صورت حال کم وبیش سبھی جگہ سرایت کررہی ہے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کے آثار نمایاں نظر آتے ہیں، عموماً اس صورت حال کا شکار کچے ذہن کے وہ افراد ہوتے ہیں جو علوم قدیم وجدید کے محقق تو نہیں ہیں لیکن مغرب کے کسی بھی نظریہ یا کسی شخص کی رائے کو سو فیصدی درست مان لیتے ہیں چاہے اس کا مقصد سیاسی اور استعماری ہی رہا ہو، ہمارے بعض اخبارات، رسائل، مجلات و مطبوعات بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر انہیں عوامل سے متاثر ہو کر سامراجی مقاصد کی خدمت میں مصروف ہیں(۱)

انہیں یہ احساس نہیں ہے کہ یورپ اور امریکہ کے اکثر لوگ اور ان کے حکام کی علمی، عقلی، فلسفی اور دینی معلومات بالکل سطحی ہوتی ہےں، وہ اکثر بے خبر اور مغرض ہوتے ہیں (بلکہ ایک رپورٹ کے مطابق ۸۱/ فیصدافراد ضعف عقل و اعصاب ا ور دماغ میں مبتلا ہیں)اور اپنے پست اور انسانیت سے دور

____________________

(۱) ایک مصری دانشور کہتا ہے کہ جب میں فرانس زیرِ تعلیم تھا تو ماہ رمضان میں ایک پروگرام میں شرکت کی، کالج کے پرنسپل نے میرے سامنے سگریٹ پیش کی تو میں نے معذرت کر لی،اس نے وجہ دریافت کی تو میں نے کہا کہ رمضان کا مہینہ ہے اور میں روزہ سے ہوں،اس نے کہا میں نہیں سمجھتا تھا کہ تم بھی ان خرافات کے پابند ہوگے،پروگرام کے بعد ایک ہندوستانی پروفیسر نے جو اس پروگرام میں شریک تھے مجھ سے کہا کہ کل فلاں مقام پر مجھ سے ملاقات کرلینا، اگلے روز میں پروفیسر سے ملاقات کے لئے گیا وہ مجھے چرچ لے گئے اور دوسرے ایک شخص کو دکھا کر پوچھا، پہچانتے ہو کہ یہ کون ہے؟ میں نے کہا ہمارے پرنسپل ہیں، پروفیسر نے پوچھا یہ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا عبادت میں مشغول ہیں،پروفیسر نے کہا یہ لوگ ہمیں تو دینی آداب و رسوم ترک کرنے کا مشورہ دیتے ہیں اور خود پابندی کے ساتھ مذہبی امور بجا لاتے ہیں۔یہ خطرناک بیماری جو اغیار اور سامراجی طاقتوں کے پروپیگنڈہ کے

ذریعہ ہمارے اندر پھیلتی جا رہی ہے اوران کی صنعتی ترقی سے مرعوب ہو کر ہم اپنی کمزوری کا احساس کرنے لگے ہیں اور یہ احساس دیمک کی طرح ہماری حیثیت، شخصیت اور ترقی پذیر اقوام کی آزادی فکر کو نابود کر رہا ہے کتنی پست اور حقیر ہے وہ مسلمان قوم جو قرآن پر تو فخر کرتی ہے نماز میں روزانہ بیس مرتبہ ”بسم اللہ الرحمٰن الرحیم“ کہتی ہے مگر اس کی کتابوں کے سر ورق سے یہ نورانی جملہ غائب ہے، کتنے ذلیل و خوار ہیں وہ لوگ جو اغیار کی روش اختیار کرتے ہیں کتنی حقیر ہے وہ قوم جو اپنی مذہبی اور قومی روش اورلباس کو چھوڑ کر اپنے پروگراموں میں دوسروں کا لباس اور طور طریقہ اختیار کرتی ہے اور جس کے مرد و زن اپنی شخصیت اور اعتماد نفس سے محروم ہیں۔

بعض حضرات تو مغربی تہذیب کے دھارے میں اس طرح بہہ گئے ہیں کہ خود ان سے آگے بڑھکر دیگ سے زیادہ چمچہ گرم کے مصداق نظر آتے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس بیماری سے وسیع پیمانہ پر مقابلہ کی ضرورت ہے ،ایسا مقابلہ جس کی بنیاد عقل ومنطق اور اسلامی آداب و احکام کے احترام پر استوار ہو۔

حقیقت یہی ہے کہ بعض مشرقی افراد جب اپنی کمزوری کا احساس کرتے ہیں تو مغربی تمدن کے سامنے سپرانداختہ ہو جاتے ہیں اور اپنی قومی و مذہبی عادات، اخلاق، لباس وغیرہ سب کچھ تج کر مغربی تہذیب کو فخر کے ساتھ اپنا لیتے ہیں اور اپنے ماحول میں بھی انہیں کا طرز معاشرت اختیار کر لیتے ہیں لیکن مغربی افراد کا چونکہ ڈنکہ بجتا ہے لہذا وہ اپنے مال و ثروت، علم و صنعت اور مادی ترقی پر اکڑتے ہیں اور اپنے عادات و اطوار کتنے ہی پست، حیوانی اور خرافاتی کیوں نہ ہوں اہل مشرق کے سامنے فخر کے ساتھ انہیں بجا لاتے ہیں۔

بہت سے مشرقی افراد مغرب سے علم و ٹکنالوجی سیکھنے کے بجائے مغرب کی اندھی تقلید کو ہی اپنا شیوہ بنا لیتے ہیں، کیا ہی اچھا ہوتا کہ اقوام مشرق ،مغرب پرست ہونے کے بجائے علم و صنعت و ٹکنالوجی حاصل کر کے اپنی زمین، معدنیات، سمندر، ہوا کے خود ہی مالک ہوتے یہ لوگ اتنے مغرب زدہ اور مغرب پرست ہوتے ہیں کہ ان میں اتنی بھی ہمت نہیں ہوتی کہ ٹائی وغیرہ کے بجائے اپنا قومی لباس پہن کر ان کے پروگرام میں شرکت کریں،معدودے چند افراد ہی اپنا لباس ترک نہیں کرتے جیسے ہندوستان کے سابق صدرڈاکٹر ذاکر حسین یا حجاز ،مراکش اور بعض دیگر ممالک کے سربراہ بھی بین الاقوامی کانفرنسوں میں اپنا قومی لباس پہن کر شریک ہوتے رہے، جب کہ اکثریت ایسے سربراہانِ مملکت کی ہے جو اہل مغرب کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں، انہیں احساس ہی نہیں ہے کہ احساس کمتری کتنی بڑی لعنت ہے اور عزت نفس کتنا بڑا سرمایہ

کتنا محترم ہے وہ مسلم سربراہ جسکے اعزاز میں اگر مغربی سربراہانِ مملکت دعوت کرتے ہیں تو دسترخوان پر شراب نہیں ہوتی، کتنا قابل فخر ہے وہ سربراہ جو ماسکو میں کمیونسٹ حکومت کا مہمان ہونے کے باوجود نماز ادا کرنے کے لئے مسجد کا رخ کرتا ہے، کتنا باعظمت و شرافت ہے وہ سربراہ جو امریکا میں بھی چرچ میں داخل نہیں ہوتا اور سودی قرض سے پرہیز کرتا ہے، کتنا عظیم مردآہن ہے وہ مسلمان کہ جو اقوام متحدہ کی کانفرنس میں اپنی تقریر کا آغاز ”بسم اللہ الرحمٰن الرحیم“ سے کرتا ہے۔

سیاسی مقاصد کے لئے دنیا کے مختلف مقامات پر اپنے سیاسی مفادات کے مطابق گفتگو کرتے ہیں، البتہ جو لوگ ذی علم و استعداد، محقق و دانشور ہیں ان کا معاملہ فحشاء و فساد میں ڈوبی اکثریت سے الگ ہے۔

ان کے معاشرہ میں ہزاروں برائیاں اور خرافات پائے جاتے ہیں پھر بھی وہ عقلی، سماجی، اخلاقی اور مذہبی بنیاد پر مبنی مشرقی عادات و رسوم کا مذاق اڑاتے ہیں۔

مشرق میں جو صورتحال پیدا ہو گئی ہے اسے ”مغرب زدہ ہونا“ یا مغرب زدگی کہا جاتا ہے جس کی مختلف شکلیں ہیں اور آج اس سے ہمارا وجود خطرے میں ہے، انہوں نے بعض اسلامی ممالک کی سماجی زندگی سے حیاو عفت اور اخلاقی اقدار کو اس طرح ختم کر دیا ہے کہ اب ان کا حشر بھی وہی ہونے والا ہے جو اندلس (اسپین) کے اسلامی معاشرہ کا ہوا تھا۔(۱)

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے زمانہ میں ایسے افراد جن کی معلومات اخبارات و رسائل سے زیادہ نہیں ہے اور انہوں نے مغربی ممالک کا صرف ایک دو مرتبہ ہی سفر کیا ہے،مغرب زدگی، مغرب کے عادات و اخلاق کے سامنے سپرانداختہ ہوکر موڈرن بننے کی جھوٹی اور مصنوعی خواہش، جو دراصل رجعت پسندی ہی ہے کو روشن فکری کی علامت قرار دیتے ہیں،اور اغیار بھی اپنے ذرائع کے ذریعہ مثلاً اپنے سیاسی مقاصد کے لئے انہیں مشتشرق، خاورشناس کا ٹائٹل دے کر ان جیسے

____________________

(۱) اندلس کی نام نہاد اسلامی حکومت نے کفار اور اغیار سے اسلامی اصولوں کے برخلاف ایسے معاہدے کئے کہ اس کے نتیجہ میں عیسائیت کے لئے دروازے کھل گئے۔ فحشاء و فساد اور شراب نوشی سے پابندی ختم ہو گئی عیسائیوں کی طرح سے مرد و عورت آپس میں مخلوط ہو گئے راتوں کو عیش و عشرت، مردوں اور عورتوں کے مشترکہ پروگرام، رقص و سرور، ساز و موسیقی نے اسلامی غیرت و حمیت کا خاتمہ کر دیا۔ غیر ملکی مشیران اسلامی حکومت کے معاملات میں دخل اندازی کرنے لگے اور آخر کاراسلامی اندلس ایک عیسائی مملکت میں تبدیل ہو گیا اور اسلامی علم و تمدن کا آفتاب اس سرزمین پر اس طرح غروب ہوا کہ آج اسلامی حکومت کے زرین دور کی مساجد، محلّات اور دیگر عالیشان عمارتوں جیسی یادگار وں کے علاوہ کچھ بھی باقی نہ رہا۔ البتہ یہ تاریخی اور یادگار تعمیرات آج بھی اپنی مثال آپ اور اس مملکت کے عہد زریں کے علم و صنعت کا شاہکار ہیں۔ خدا کی لعنت ہو فحشاء و فساد، ہوس اقتدار اور نفاق پرور ایسے ضمیر فروش اور اغیار پرست حکام پر

افراد کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں۔

ظہور حضرت مہدی کے بارے میں بھی ادھر ہمارے سنّی بھائیوں میں سے کچھ مغرب زدہ احمد امین، عبدالحسیب طٰہٰ حمیدہ جیسے افراد نے امام مہدی کے متعلق روایات نقل کرنے کے باوجود تشیع پر حملے کئے ہیں گویا ان کے خیال میں یہ صرف شیعوں کا عقیدہ ہے یا کتاب و سنت، اقوال صحابہ و تابعین وغیرہ میں اس کا کوئی مدرک و ماخذ نہیں ہے، بے سر پیر کے اعتراضات کر کے یہ حضرات اپنے کو روشن فکر، مفکر اور جدید نظریات کا حامل سمجھتے ہیں،غالباً سب سے پہلے جس مغرب زدہ شخص نے ظہور مہدی سے متعلق روایات کو ضعیف قرار دینے کی ناکام و نامراد کوشش کی وہ ابن خلدون ہے، جس نے اسلامی مسائل کے بارے میں ہمیشہ بغض اہلبیت اور اموی افکار کے زیر اثر بحث و گفتگو کی ہے۔

”عقاد “ کے بقول اندلس کی اموی حکومت نے مشرقی اسلام کی وہ تاریخ ایجاد کی ہے جو مشرقی مورخین نے ہرگز نہیں لکھی تھی اور اگر مشرقی مورخین لکھنا بھی چاہتے تو ایسی تاریخ بہر حال نہ لکھتے جیسی ابن خلدون نے لکھی ہے۔

اندلس کی فضا میں ایسے مورخین کی تربیت ہوتی تھی جو اموی افکار کی تنقید و تردید کی صلاحیت سے بے بہرہ تھے، ابن خلدون بھی انہیں افراد میں سے ہے جو مخصوص سیاسی فضا میں تربیت پانے کے باعث ایسے مسائل میں حقیقت بین نگاہ سے محروم ہو گئے تھے، فضائل اہلبیت سے انکار یا کسی نہ کسی انداز میں توہین یا تضعیف اور بنی امیہ کا دفاع اور ان کے مظالم کی تردیدسے ان کا قلبی میلان ظاہر ہے۔ ابن خلدون معاویہ کو بھی ”خلفائے راشدین“ میں شمار کرتے ہیں۔

انہوں نے مہدی اہل بیت کے ظہور کے مسئلہ کو بھی اہل بیت سے بغض و عناد کی عینک

سے دیکھا ہے کیونکہ مہدی بہرحال اولاد فاطمہ میں سے ہیں خانوادہ رسالت کا سب سے بڑا سرمایہ افتخارہیں لہٰذا اموی نمک خوار کے حلق سے فرزند فاطمہ کی فضیلت کیسے اتر سکتی تھی چنانچہ روایات نقل کرنے کے باوجود ان کی تنقید و تضعیف کی سعی لاحاصل کی اور جب کامیابی نہ مل سکی تو اسے ”بعید“ قرار دے دیا۔

اہل سنت کے بعض محققین اور دانشوروں نے ابن خلدون اور اس کے ہم مشرب افراد کا دندان شکن جواب دیا ہے اور ایسے نام نہاد روشن فکر افراد کی غلطیاں نمایاں کی ہیں۔

معروف معاصر عالم استاد احمد محمد شاکر مصری ”مقالید الکنوز“ میں تحریر فرماتے ہیں ”ابن خلدون نے علم کے بجائے ظن و گمان کی پیروی کر کے خود کو ہلاکت میں ڈالا ہے۔ ابن خلدون پر سیاسی مشاغل، حکومتی امور اور بادشاہوں، امیروں کی خدمت و چاپلوسی کا غلبہ اس قدر ہو گیا تھا کہ انہوں نے ظہور مہدی سے متعلق عقیدہ کو ”شیعی عقیدہ“ قرار دے دیا۔ انہوں نے اپنے مقدمہ میں طویل فصل لکھی ہے جس میں عجیب تضاد بیان پایا جاتا ہے ابن خلدون بہت ہی فاش غلطیوں کے مرتکب ہوئے ہیں، پھر استاد شاکر نے ابن خلدون کی بعض غلطیاں نقل کرنے کے بعد تحریر فرمایا: اس(ابن خلدون) نے مہدی سے متعلق روایات کو اس لئے ضعیف قرار دیا ہے کہ اس پر مخصوص سیاسی فکر غالب تھی، پھر استاد شاکر مزید تحریر کرتے ہیں کہ: ابن خلدون کی یہ فصل اسماء رجال، علل حدیث کی بے شمار غلطیوں سے بھری ہوئی ہے کبھی کوئی بھی اس فصل پر اعتماد نہیں کرسکتا۔“

استاد احمد بن محمد صدیق نے تو ابن خلدون کی رد میں ایک مکمل کتاب تحریر کی ہے جس کا نام ”ابراز الوہم المکنون عن کلام ابن خلدون“ ہے۔ اس کتاب میں استاد صدیق نے مہدویت سے متعلق ابن خلدون کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کا مکمل جواب دیا ہے اور ابن خلدون کو بدعتی قرار دیا ہے۔

ہر چند علمائے اہل سنت نے اس بے بنیاد بات کا مدلل جواب دیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ ظہور مہدی کا عقیدہ خالص اسلامی عقیدہ ہے اور امت مسلمہ کے نزدیک متفق علیہ اور اجتماعی ہے مگرہم چند باتیں بطور وضاحت پیش کر رہے ہیں :۔

۱ ۔ شیعوں کا جو بھی عقیدہ یا نظریہ ہے وہ اسلامی عقیدہ و نظریہ ہے، شیعوں کے یہاں اسلامی عقائد و نظریات سے الگ کوئی عقیدہ نہیں پایا جاتا، شیعی عقائد کی بنیاد کتاب خدا اور سنت پیغمبر ہے اس لئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی عقیدہ شیعی عقیدہ ہو مگر اسلامی عقیدہ نہ ہو۔

۲ ۔ ظہور مہدی کا عقیدہ شیعوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ علمائے اہلسنت بھی اس پر متفق ہیں اور یہ خالص اسلامی عقیدہ ہے۔

۳ ۔ آپ کے نزدیک ”اسلامی عقیدہ“ کا معیار کیا ہے؟ اگر قرآن مجید کی آیات کی تفسیر اسی سے ہوتی ہو تو کیا وہ عقیدہ اسلامی عقیدہ نہ ہوگا؟ اگر صحیح، معتبر بلکہ متواتر روایات (جو اہل سنت کی کتب میں بھی موجود ہیں) سے کوئی عقیدہ ثابت ہو جائے تب بھی کیا وہ عقیدہ اسلامی عقیدہ نہ ہوگا؟

اگر صحا بہ و تابعین اور تابعینِ تابعین کسی عقیدہ کے معتقد ہوں تو بھی وہ عقیدہ اسلامی نہیں ہے؟ اگر شواہد اور تاریخی واقعات سے کسی عقیدہ کی تائید ہو جائے اور یہ ثابت ہو جائے کہ یہ عقیدہ ہر دور میں پوری امت مسلمہ کے لئے مسلّم رہا ہے پھر بھی کیا آپ اسے اسلامی عقیدہ تسلیم نہ کریں گے؟

اگر کسی موضوع سے متعلق ابی داؤد صاحب سنن جیسا محدث پوری ایک کتاب بنام ”المہدی“، شوکانی جیسا عالم ایک کتاب ”التوضیح“ اسی طرح دیگر علماء کتابیں تحریر کریں، بلکہ پہلی صدی ہجری کی کتب میں بھی یہ عقیدہ پایا جاتا ہوتب بھی یہ عقیدہ اسلامی نہ ہوگا؟

پھر آپ ہی فرمائیں اسلامی عقیدہ کا معیار کیا ہے؟ تاکہ ہم آپ کے معیار و میزان کے مطابق جواب دے سکیں، لیکن آپ بخوبی جانتے ہیں کہ آپ ہی نہیںبلکہ تمام مسلمان جانتے ہیں کہ مذکورہ باتوں کے علاوہ اسلامی عقیدہ کا کوئی اور معیار نہیں ہو سکتا اور ان تمام باتوں سے ظہور مہدی کے عقیدہ کا اسلامی ہونا مسلّم الثبوت ہے چاہے آپ تسلیم کریں یا نہ کریں۔

عقیدہ ظہور مہدی اور مدعیان مہدویت کا قیام

احمد امین مصری اور طنطاوی جیسے بعض دیگر افراد نے مہدویت کے جھوٹے دعویداروں کی جانب سے کی جانے والی بغاوتوں یا انقلابات کو جنگ وجدال اور مسلمانوں کی کمزوری کا عذر پیش کرتے ہوئے ظہور مہدی کے عقیدہ کو اس کی علت قرار دیا ہے اور اس طرح ان حوادث و واقعات کے سہارے شیعوں کے خلاف زہر افشانی کر کے معاشرہ کے ثبات و استحکام اور آئندہ کے اطمینان کا سبب بننے والے عقیدہ سے لوگوں کے اذہان کو منحرف کرنے کی کوشش کی ہے، حالانکہ جن لوگوں نے مہدویت کا جھوٹا دعویٰ کیا ہے یا کر سکتے ہیں ان کے دعویٰ کا ظہور مہدی کے عقیدہ کی صحت یا عدم صحت سے کوئی تعلق نہیں ہے ایک دانشور کی جانب سے ایسے واقعات کو کسی دینی و مذہبی واقعات کے انکار کا بہانہ قرار دیا جانا انتہائی تعجب خیز ہے۔

جناب احمد امین صاحب ! ذرا فرمائیں تو سہی۔ وہ کون سے اعلیٰ مفاہیم اور خدائی نعمتیں ہیں کہ جن کا مغرض افراد نے غلط استعمال نہیں کیا؟ کیا ریاست طلب اور اقتدار کے بھوکے اپنے مقاصد کے لئے ایسے ہتھکنڈے نہیں اپناتے ہیں؟

حق، صلح، عدالت، امانت و صداقت، تہذیب و تمدن، تعلیم و تربیت، ترقی و تکامل، دین و مذہب، آزادی، ڈیموکریسی، نظم و ضبط اور قانون کی بالادستی جیسے ان گنت مفاہیم کے ساتھ مفاد پرست افراد اور موقع پرست سیاستداں کل بھی کھلواڑ کرتے رہے تھے اور آج بھی کر رہے ہیں کل بھی ان چیزوں کا غلط استعمال ( Miss Use ) کیا گیا اور آج بھی کیا جا رہا ہے، واقعیت یہ ہے کہ اب توان میں سے اکثر الفاظ اپنے مخالف معنی میں استعمال ہو رہے ہیں۔

جنگجو اور وسعت پسند صلح و ڈیموکریسی کا، ظالم عدل وانصاف کا، فساد برپا کرنے والے اصلاح کا، رجعت پسند ترقی کا، خیانت کار امانت کا اور آزادی کے دشمن آزادی کا دم بھرتے ہیں لیکن درحقیقت ان الفاظ کے سہارے اپنے مقاصد کے در پے رہتے ہیں اور خوشنما الفاظ کے ذریعہ اپنی خیانتوں اور خباثتوں کی پردہ پوشی کر کے مظلوم اقوام پر اپنی مرضی تحمیل کرتے رہتے ہیں۔

تعلیم و تربیت کی توسیع کے ذریعہ لوگوں کو صحیح اخلاقی راستہ سے ہٹاکر علمی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ایجاد کی جا تی ہے، آزادی، مظلوموں کی نجات اور کمزور اقوام کے حقوق کے دفاع کے نام پر جو جنگیں لڑی گئیں ان کا مقصد کمزور ممالک کے حقوق کو پامال کر کے ان کی ثروت پر قبضہ کرنا اور انہیں اپنے نوآبادیاتی حصہ میں شامل کرناتھا۔

معنوی رہبری اور رسالت آسمانی کے نام پر زیادہ بغاوتیں ہوتی ہیں یا مہدویت کے نام پر،با لفاظ دیگر نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے یا مہدویت کا؟

مختلف ممالک میں جومسلسل فوجی بغاوتیں یا انقلاب رونما ہوتے ہیں وہ اصلاح، نجات ملت، آزادی، قانون کی بالادستی کے نام پر ہوتے ہیں یا کسی اور نام پر؟ کیا ایسے انقلابات کے خودساختہ رہبر واقعاً آزادی یا اصلاح کے لئے قیام کرتے ہیں یا ان کے درپردہ مقاصد کچھ اور ہوتے ہیں؟

قرآن مجید جب نااہل مغرض اور سیاسی افراد کے ہاتھ لگتا ہے تو اس کی بھی خلاف واقع اور غلط تفسیر کی جاتی ہے غلط افراد کو آیات قرآنی کا مصداق قرار دیا جاتاہے اور یہاں تک کہہ دیا جاتا ہے کہ معاویہ و یزید بھی علی و حسین کی طرح قرآن کے کاتب اور قاری تھے!

چونکہ قرآن مجید کی بعض آیتوں کی لوگوں نے اپنے مفادات کی خاطر، دل خواہ طریقہ سے تاویل و تفسیر کر لی ہے اور اس طرح کچھ لوگوں کی ضلالت و گمراہی کا سبب بن گئے ہیں تو کیاقرآن کے بارے میں بھی آپ یہ تجویز پیش کریں گے کہ (العیاذباللہ) قرآن سے ایسی آیات حذف کر دینا چاہئےں تاکہ لوگ اپنی مرضی سے تفسیر نہ کر سکیں؟

ان سب سے بڑھکر کچھ لوگوں نے تو خدائی کا دعویٰ بھی کیا ہے، صرف زبانی ہی نہیں عملی طور پر لوگوں کو اپنی عبدیت میں رکھا ہے کروڑوں افراد گائے کی پوجا کرتے ہیں، بت پرست، آتش پرست اور ستارہ پرست ہیں بے شمار افراد فرعون، نمرود اور تاریخ کے دیگر ڈکٹیٹروں کے سامنے ذلت و رسوائی کا شکار رہے اور خود کو ان کا بندہ بے دام اور غلام کہتے رہے اپنے جیسے بلکہ اپنے سے بھی جاہل، نالائق انسانوں کی پرستش کرتے رہے اور خدائے واحد کے بجائے سلاطین کا نام لیتے رہے اور خدائے رحمٰن و رحیم کے بجائے ظالموں کے پست و حقیر ناموں سے کام کا آغاز کرتے رہے اگر اسلام کا سورج طلوع نہ ہوا ہوتا اور عقیدہ توحید کی روشنی نے لوگوں کے دلوں تک پہنچ کر انہیں غلط افکار سے آزادی نہ دلائی ہوتی اور انسان نے اپنے آپ کو نہ پہچانا ہوتا ، قوم نے حکام سے رابطہ کی حقیقت کا ادراک نہ کیا ہوتا، ”بسم اللہ“ اور ”اللہ اکبر“ آزاد منش افراد کا نعرہ نہ بنا ہوتا تو انسان پرستی کا بدنما طوق کبھی بھی بشریت کی گردن سے نہ اترتا۔

چونکہ تاریخ شریعت میں علم و صنعت، خدا پرستی، نبوت، صلح، عدل و انصاف اقتدار پرست سیاستدانوں کا کھلونا بنتے رہے ہیں اس لئے کیاآپ ان چیزوں کی مذمت کر سکتے ہیں؟

چونکہ کچھ لوگ آزادی اور عدل و انصاف یا قانون کی بالادستی کے نام پر ظلم و تشدد اور قانون شکنی کرتے ہیں ڈکٹیٹر بن جاتے ہیں تو کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ عدل و انصاف، حریت و آزادی، قانون، مساوات و فضیلت کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے ، بلکہ یہ چیزیں تو انسانیت کے لئے دردِ سر ہیں لہٰذا انہیں انسانیت کی لغت سے حذف کر دینا چاہئے؟

کیا آپ اسی نارسا فکر اور غلط منطق کے بل بوتے پرایسے موضوع کے بارے میں جس کے سلسلہ میں سینکڑوں حدیثیں پائی جاتی ہیں اور کروڑوں مسلمان ہر دور میں جس عقیدہ کے حامل رہے ہوں؟ اظہار خیال کرنا چاہتے ہیں؟

نہیں جناب احمد امین صاحبہرگز آپ ایسی بے عقلی کا مظاہرہ نہیں کر سکتے۔

آپ بخوبی واقف ہیں کہ دنیا میں اکثر اختلافات جزئیات اور مصادیق کے ہی ہوتے ہیں۔ اور اگر سہواً یا عمداً کسی چیز کو کسی کلی یا جزئی کامصداق قرار دے دیا گیا یا باطل کو حق کا لباس پہنا دیا گیا تو اس سے حق کی صداقت پر حرف نہیں آتا۔

جس طرح کچھ جاہل جھوٹی ڈگریاں لے کر خود کو عالم بتایا کرتے ہیں اسی طرح کچھ لوگ مصلح، عادل، مہدی موعود، امام، نبی اور پیغمبر ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں۔ بلکہ مہدویت کے جھوٹے دعویداروں میں سے ایک (علی محمد شیرازی) نے جب یہ دیکھا کہ معاملہ میں جان نہیں آئی اور ہلدی پھٹکری کے باوجود رنگ نہیں جما اور اپنے معتقدین کو بہت زیادہ نادان اور احمق محسوس کیا تو مہدویت کے علاوہ اور بھی دعوے کرنے

اگر چہ اس مضمون میں ان باتوں کی تفصیل بیان کرنا ممکن نہیں ہے لہٰذا اپنے محترم قارئین کی مزید توجہ کے لئے ان چار عنوانات: ۱ ۔آیات قرآن، ۲ ۔اجماع واتفاق مسلمین، ۳ ۔روایات اہل سنت، ۴ ۔روایات شیعہ، کے ذیل میں ہم ان کی مختصر وضاحت پیش کریں گے۔

۱ ۔قرآن مجید کی آیتیں

خدا وند عالم نے قرآن مجید کی متعدد آیتوں میں ان باتوں کا وعدہ فرمایا ہے کہ پوری دنیا میں ایک اسلامی حکومت قائم ہوگی، دین اسلام ہر طرف پھیل جائے گا اور تما م مذاہب پر اس کا غلبہ ہوگا، (صالح اور لائق حضرات حکومت کریں گے) ان میں سے بعض آیتیں یہ ہیں:

( و قاتلوهم حتیٰ لا تکون فتنة و یکون الدین کله للّٰه ) (۱)

اور تم لوگ ان کفار سے جہاد کرو یہاں تک کہ فتنہ کا وجود نہ رہ جائے اور سارا دین صرف اللہ کے لئے رہ جائے۔

( هو الذی ارسل رسوله بالهدیٰ و دین الحق لیظهره علی الدین کله ) (۲)

وہ خدا جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب کردے۔

( یریدون ان یطفئوا نور اللّٰه باٴفواههم و یاٴبیٰ اللّٰه الا ان یُتمّ نوره ) (۳)

یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنے منھ سے پھونک مار کر بجھا دیں حالانکہ خدا اسکے علاوہ کچھ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ وہ اپنے نور کو تمام(اور کامل) کر دے۔

____________________

(۱)سورہ انفال آیت۳۹۔

(۲)سورہ توبہ آیت۳۳ وسورہ فتح آیت ۲۸۔

(۳)سورہ توبہ آیت۳۲۔

( یریدون لیطفئوا نور اللّٰه باٴفواههم واللّٰه مُتمّ نوره ) (۱)

یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے۔

( و یرید الله ان یُحق الحق بکلماته و یقطع دابر الکافرین ) (۲)

اور اللہ اپنے کلمات کے ذریعہ حق کو ثابت کرنا چاہتا ہے اور کفار کے سلسلہ کو قطع کردینا چاہتا ہے۔

( و قل جاء الحق و زهق الباطل ان الباطل کان زهوقا ) (۳)

اور کہہ دیجئے کہ حق آگیا اور باطل فنا ہو گیا کہ باطل بہر حال فنا ہونے والاہے۔

( ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثها عباديالصالحون ) (۴)

اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میںبھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہونگے۔

( و عد اللّٰه الذین آمنوا منکم و عملوا الصالحات لیستخلفنّهم فی الارض ) (۵)

اللہ نے تم میں سے صاحبان ایمان اور عمل صالح بجالانے والوںسے وعدہ کیا ہے کہ انہیں زمین میں اس طرح اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایاہے۔

( ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین انهم لهم المنصورون و ان جندنا لهم الغالبون ) (۶)

اور ہمارے پیغامبربندوں سے ہماری بات پہلے ہی طے ہو چکی ہے کہ انکی مدد بہرحال کی جائیگی اور ہمارا لشکر بہر حال غالب آنے والا ہے۔

( انّا لننصر رسلنا والذین آمنوا فی الحیاة الدنیا ) (۷)

بیشک ہم اپنے رسول اور ایمان لانے والوں کی زندگانی دنیامیں بھی مدد کرتے ہیں۔

____________________

(۱)سورہ صف آیت۸۔

(۲)سورہ انفال آیت۷۔

(۳)سورہ اسراء آیت۸۱۔

(۴)سورہ انبیاء آیت۱۰۵۔

(۵)سورہ نور آیت۵۵۔ (۶)سورہ صافات آیت۱۷۱۔۱۷۳۔

(۷)سورہ غافر آیت۵۱۔

( کتب الله لا غلبن اناورسلی ان الله قويّ عزیز ) (۱)

اللہ نے یہ لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب آنے والے ہیں بے شک اللہ صاحب قوت اور صاحب عزت ہے

انکے علاوہ دوسری آیتیں بھی ہیں جنکی تاویل حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے ظہور کے وقت سامنے آئے گی وہ سب بھی اس بات کی دلیل ہیں کہ اسلام تمام مذاہب پر غالب آجائے گا اور اہل حق، باطل پرستوں پر غلبہ حاصل کر لیں گے یاانبیائے الٰہی کا تسلط اور نور خدا کا تمام و کامل ہونا حتمی ہے ،ان سب آیتوں کے معنی ابھی مکمل طریقے سے ظاہر نہیں ہوئے ہیں اور یہ آیتیں آخری زمانے میں انکے عملی ہونے کی بشارت دے رہی ہیں ۔

خدا وند عالم نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنے پیغمبروں کی ضرور مدد کرے گا اور ان کو غلبہ عطا کرے گا اور یہ طے ہے کہ اس غلبہ اور مدد کا تعلق صرف آخرت ہی سے نہیں ہے کیونکہ اس نے خود ارشاد فرمایا ہے:

( فی الحیاة الدنیا )

دنیاوی زندگی میں۔

دوسرے یہ کہ اس سے یہ مراد بھی نہیں ہے کہ انبیاء کرام اپنی اقوام کے اوپر اپنے زمانہ میں غلبہ حاصل کر لیں گے اور انکے مشن کو ترقی ہوگی کیونکہ بہت سارے انبیاء کی تبلیغ کا ان کی قوم پر کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ بہت سے انبیاء کو قتل بھی کر دیا گیا ۔

اس مدد اور غلبہ سے انکے مقصد اور پیغام کی مدد اور اسکا غلبہ مراد ہے اور ان آیتوں سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نصرت کسی خاص رتبہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس سے ہر طرح کی(مطلق) نصرت مراد ہے ۔

یہی نور کو تمام کرنے کے معنی بھی ہیں کہ جو لوگ خدا کے نور کو بجھانا چاہیں گے اور اسلام کی

____________________

(۱)سورہ مجادلہ آیت۲۱۔

پیشرفت میں رکاوٹ پیدا کریں گے انکے مقابلہ میں خدا وند عالم اپنے نور کو کامل کر دے گا اسکے معنی بھی یہی ہیں کہ خدا وند عالم دین کو ترقی عطا کرے گا اسلام کی سرحدیں بڑھتی چلی جائیں گی اور یہ نور اس وقت مکمل ہوگا جب اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے گا ۔

زمین پر مومنین کی جا نشینی اور اس پر ان کے وارث ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ پوری زمین کے مالک و مختار بن جائیں گے بلکہ یہ موقع صرف امام زمانہ اور ان کے ساتھیوں کو ملے گا۔

باطل کے اوپر ہر لحاظ سے حق کے غلبہ کے بھی یہی معنی ہیں کہ ہر اعتبار سے حق، باطل پر کامیاب و کامران ہو جائے گا اور اگر یہ کہا جائے کہ حجت و برہان کے ذریعہ غالب ہوگا اور ظاہر میں غالب نہ ہوگا تو اسے ہر لحاظ سے غلبہ نہیں کہا جائے گا جبکہ ان آیتوں سے ہر طرح کا تسلط سمجھ میں آتا ہے۔

لیکن یہ آیت:

( لیظهره علی الدین کله )

تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بنا دے۔

اسلام کے غالب ہو جانے کے بارے میں واضح دلیل ہے۔

ان آیتوں کی تائید اُن روایتوں سے بھی ہوتی ہے جو رسول اکرم سے اس سلسلہ میں نقل ہوئی ہیں جیسے آپ نے فرمایا:

( لیدخلن هذا الدین علی مَن دخل علیه اللیل )

جہاں کہیں بھی رات داخل ہوتی ہے یہ دین وہاں ضرورپہنچے گا۔

اس حدیث میں آپ نے”علی ما دخل علیہ اللیل “فرمایا ہے اور ”علی ما دخل علیہ الیوم او الشمس“نہیں فرمایا اسکا راز شائد یہ ہو کہ اسمیں دین کو سورج سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ جہاں رات ہوتی ہے وہاں سورج ضرور پہنچتا ہے اسی طرح اسلام کے روشن و منور سورج کی کرنیں پوری دنیا میں پھیل جائےں گی اور کفر و ضلالت کی تاریکی کا اسی طرح خاتمہ ہو جائے گا جس طرح سورج ،رات کا خاتمہ کر دیتا ہے۔

۲ ۔اجماع مسلمین

اگر اس اجماع اور اتفاق سے شیعوں کا اجماع مرادہو تو یہ بالکل واضح ہے اور اسے سب ہی جانتے ہیں کہ امام حسن عسکری کے فرزند دلبند حضرت قائم آل محمدکا ظہور شیعہ اثنا عشری مذہب کا اہم حصہ ہے اور اگر اس سے تمام مسلمانوں کا اتفاق مراد ہو تو اسکے ثابت کرنے کے لئے اہل سنت کے ایک صاحب نظر اور نکتہ سنج عالم، معتزلیوں کے علامہ ابن الحدید کا یہی ایک جملہ کافی ہے جو انہوں نے شرح نہج البلاغہ (مطبوعہ مصر ج ۲ ص ۵۳۵) میں تحریرکیا ہے :

قد وقع اتفاق الفریقین من المسلمین اجمعین علی ان الدنیا والتکلیف لا ینقضی الا علیه

”دونوں فرقوںسنّی اور شیعہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دنیا اور تکلیف شرعی کاخاتمہ نہ ہوگا مگر حضرت پر “یعنی آپ کے ظہور کے بعد۔

اہل سنت کے اور چار معروف علماء کے اقوال کیونکہ آئندہ مضمون میں نقل کئے گئے ہیں لہٰذا انہیں اس مقام پر ذکر نہیں کیا جا رہا ہے انھیں وہیں ملاحظہ فرمائیے۔

جو لوگ تاریخ پر نظر رکھتے ہیں انہیں بخوبی معلوم ہے کہ مصلح منتظر مہدی آل محمد علیہ الصلاة والسلام کے ظہور کے بارے میں تمام مسلمانوں کے درمیان اس حد تک اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ پہلی صدی ہجری سے اب تک جس نے بھی مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے یا جس کی طرف اس دعوے کی نسبت دی گئی ہے سب نے اس کی کھل کر مخالفت کی ہے لیکن خود مسئلہ ظہور کی مخالفت کسی نے نہیں کی کیونکہ یہ بات مسلمانوں کے اجماع اور پیغمبر اکرم کی صریحی روایات کے خلاف تھی بلکہ وہ ان کی مخالفت اور ابطال کے لئے یہ طریقہ اپناتے تھے کہ روایات میں حضرت مہدی کے ظہور سے متعلق جن علامتوں اور نشانیوں کا تذکرہ ہے چونکہ ان مدعیوں کے یہاں ان میں سے کوئی علامت نہیں پائی جاتی ہے لہٰذا یہ لوگ جھوٹے ہیں۔

اہل سنت کے چاروں مذاہب کے چار بزرگ علماء یعنی ابن حجرشافعی، ابو السرور احمد بن ضیاء حنفی،محمد بن احمد مالکی،یحییٰ بن محمد حنبلی سے جب اس سلسلہ میں سوال کیا گیا تو انہوں نے اسکا اسی اندازمیں جواب دیا جسکی تفصیل کتاب ”البرہان فی علامات مہدی آخر الزمان “ باب ۱۳ پر انکے فتووں کے ساتھ نقل ہوئی ہے انھوں نے مسئلہ ظہور مہدی کوثابت کرنے کے ساتھ آپ کی بعض خصوصیات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے یعنی وہ دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دینگے یا حضرت عیسیٰ آپ کی اقتدا کریں گے یا آپ کے دوسرے اوصاف بیان کئے ہیں مختصر یہ کہ یہ ان کا مدلّل، دوٹوک اور قانونی فتویٰ ہے حتیٰ کہ جناب زید کی طرف مہدویت کی جو غلط نسبت دی گئی تھی اس سلسلہ میں بنی امیہ کے شاعر حکیم بن عیاش کلبی نے یوں کہا ہے:

ولم ا ر مهد یا علی ا لجذع یصلب (۱)

مجھے کوئی ایسا مہدی نہیں دکھائی دیا جسے سولی دی گئی ہو۔

اس سے اس کی مراد یہ ہے کہ مہدی جب ظہور کرینگے تو تمام ممالک کو فتح کرینگے اور پوری دنیا میں صرف انہیں کی حکومت ہوگی ، ہر جگہ عدل و انصاف کا رواج ہوگا تو پھر جناب زید جنہیں سولی پر لٹکایا گیا وہ کس طرح مہدی ہو سکتے ہیں؟

۳ ۔احادیث اہل سنت

اہل سنت کے بڑے بڑے محدثین جنکے نام اور ان کی کتابوں کی تفصیل اس مقالہ میں اختصار کی بنا پر ذکر کرنا ممکن نہیں ہے انہوں نے حضرت مہدی کے بارے میں صحابہ کے علاوہ بہت

____________________

(۱)ابن حجر عسقلانی شافعی نے اپنی کتاب ”الاصابہ ج۱ ،ص۳۹۵ پر” فوائد کواکبی“ سے جو روایت نقل کی ہے اسکے مطابق، یہ حکیم بن عیاش ،امام جعفر صادق کی بد دعا کی وجہ سے بہت ہی عبرتناک حالت میں ہلاک ہوا تھا۔

سے تابعین سے بھی کثرت کے ساتھ روایتیں نقل کی ہیں اور بعض حضرات نے تو اس سلسلہ میں مستقل کتاب بھی تالیف کی ہے جبکہ بہت سے لوگوں نے ان روایتوں کے متواتر(۱) ہونے کی تصریح کی ہے اور ان حضرات کی تحریروں میں اس بات کی تاکید موجود ہے ۔

اس مقالہ کے بعض حصے جیسے صحابہ کے نام یا جن علمائے اہل سنت نے اس سلسلہ میں کتابیں لکھی ہیں یا جن لوگوں نے روایتوں کے متواتر ہونے کی صراحت کی ہے ان سب کے نام چونکہ اسی کتاب میں آئندہ ذکر کئے جائیں گے لہٰذا انہیں یہاں حذف کیا جا رہا ہے ۔

خلاصہ یہ کہ : پیغمبر اکرم کی متواتر روایات سے صرف مسئلہ ظہور مہدی ہی حتمی اور قطعی نہیں ہے بلکہ تواتر کے ساتھ یہ بھی ثابت ہے کہ آپ پوری دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دینگے اور حضرت عیسیٰ آسمان سے نازل ہو کر آپ کی اقتدا کرینگے اور آپ پوری دنیا کو فتح کر کے اسمیں قرآنی احکام کوعام کردینگے۔

اسکے علاوہ اہل سنت کے بہت سے علماء و محققین نے اپنے اشعار، قصائد یا اپنی کتابوں میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام امام حسن عسکری کے اکلوتے بیٹے ہیں جیسا کہ ہم نے اپنی کتاب ”منتخب الاثر “ کی تیسری فصل کے پہلے باب میں آنحضرت کی ولادت ،غیبت اور امامت سے متعلق اہل سنت کے ساٹھ علماء کے واضح اعترافات نقل کئے ہیںچنانچہ جو منصف مزاج انسان بھی ان اعترافات کو ملاحظہ کر ے اسکے لئے کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہیں رہ سکتا ہے۔

۴ ۔احادیث شیعہ

مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ شیعوں نے جو روایتیں نقل کی ہیں وہ سب سے زیادہ معتبر ہیں کیونکہ پیغمبر اکرم کے دور سے لیکر آج تک انکے درمیان حدیث نویسی کا سلسلہ کبھی بھی منقطع نہیں ہوا اورجو کتابیں پہلی صدی ہجری سے ۵۰ ہجری تک یا ۵۰ ہجری سے ۱۰۰ ہجری تک لکھی گئیں

____________________

(۱)حدیث متواتر : اس حدیث کو کہا جاتا ہے جسکے نقل کرنے والے راوی اتنے افراد ہوں جنکے جھوٹ بولنے اور ساز باز کرنے کا امکان نہ ہو

تھیں انمیں سے بعض آج بھی موجود ہیں جن سے لوگ با قاعدہ استفادہ کرتے ہیں بلکہ ان کی سب سے پہلی کتاب وہی کتاب ہے جسے رسول اکرم نے املاء فرمایا تھا اور حضرت علی نے اسے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا جیساکہ متعدد روایات میں ذکر ہے کہ ائمہ طاہرین علیہم السلام احادیث کو نقل کرتے وقت اس کتاب کو سند کے طور پر پیش کرتے تھے۔

دوسرے فرقوں کی روایتوں کے مقابلہ میں شیعوں کی روایتوں کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ ان کی روایتیں ائمہ معصومین کے ذریعہ نقل ہوئی ہیں اور یہ حضرات زہدوتقویٰ کا نمونہ ہیں اور ان کی عظمت و فضیلت فریقین کے نزدیک ہر لحاظ سے مسلّم ہے اور ”اہل البیت ادریٰ بما فی البیت “ (یعنی گھر والوں کو اپنے گھر کے حالات بہتر معلوم ہوتے ہیں)کے مطابق ان سے منقول روایتیںفطری طور پر زیادہ محکم اور غلطیوں سے پاک ہیں۔

تیسری اہم وجہ : جسکی بنا پر شیعوں کی روایات سب سے زیادہ معتبر قرار پائی ہیں اور درحقیقت یہی سبب ان کی روایتوں کا بہترین پشت پناہ اور سند بھی ہے وہ حدیث ثقلین ہے جو متواتر بھی ہے یا حدیث سفینہ اورحدیث امان یا ان کے علاوہ اور دوسری روایات ہیں جن میں امت کو اہل بیت کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ کہ اہل بیت قرآن مجید کے ہم پلہ ہیں اور ان کا قول حجت ہے اور ان کے دامن سے وابستگی گمراہی سے نجات ہے نیز یہ کہ کوئی زمانہ، معصوم امام کے وجود سے خالی نہیں رہ سکتا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ ائمہ طاہرین سے جو روایتیں نقل ہوئیں ہیں ان میں اعلیٰ درجہ کی صداقت اور اعتبار پایا جاتا ہے کیونکہ ایک طرف تو تمام عقلاء کی سیرت یہی ہے کہ وہ ایک معتبر شخص کی بات کو بخوشی قبول کر لیتے ہیں دوسرے یہ کہ اہل بیت کو پیغمبراکرم سے جس درجہ قربت حاصل تھی اور آنحضرت کے نزدیک ان لوگوں کا جو مرتبہ و مقام تھا وہ صحابہ اور تابعین میں کسی کو بھی حاصل نہیں تھا حتیٰ کہ حدیث ثقلین کے مطابق ان حضرات کا قول اور فعل شرعی حجت اور دلیل ہے اور کیونکہ یہ لوگ معصوم ہیں اور قرآن سے کبھی جدا نہیں ہونگے لہٰذا امت کے لئے ان کی بات ماننا اور ان کی طرف رجوع کرنا واجب ہے ۔

اس مختصر تمہید کے بعد( جسے ہم نے اپنی اُس کتاب میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے جس میں اہل بیت کی پیروی کے واجب ہونے اور ان سے علم حاصل کرنے کے بارے میں گفتگو کی ہے) باآسانی یہ کہہ سکتے ہیں کہ شیعوں کے یہاں قائم آل محمد حضرت ولی عصرعجل اللہ تعالی فرجہ کے ظہور سے متعلق ان کے عظیم علماء ومحدثین کی کتابوں میں معتبر ترین روایات موجود ہیں جو آغاز ہجرت سے اب تک لکھی گئی ہیں جیسے ان اصل کتابوں کی روایتیں جو حضرت قائم آل محمد کی ولادت سے پہلے تالیف ہوئی ہیں مثلاً حسن بن محبوب (متوفیٰ ۲۲۴ ھ) کی کتاب ”مشیخہ“ یا ”سلیم بن قیس “ (متوفیٰ ۷۰ یا ۹۰ ہجری )کی کتاب ۔

یہ ایسی روایات ہیں کہ ان میں سے صرف ایک روایت ہی امام زمانہ کی امامت کو یقینی طور پر ثابت کرنے کے لئے کافی ہے اور یہ کہ آپ امام حسن عسکری کے اکلوتے بیٹے ہیں ،وہ روایات جن میں ایسی پیشین گوئیاں بھی ہیں جو اب تک سچ ثابت ہو چکی ہیں اور وہ اولیائے خدا کا معجزہ سمجھی جاتی ہیں اور انہیں ان کی غیب سے متعلق خبر شمار کیا جاتا ہے ۔وہ روایتیں جن میں اس ظہور کے خصوصیات ،شرائط اور اس کی علامتیں واضح طور پر بیان کی گئی ہیں ان روایتوں کی تعداد تواتر سے کہیں زیادہ ہے اور ان کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرنا صرف اسی کے لئے ممکن ہے جسکا مطالعہ بہت وسیع ہو اور وہ اس فن میں واقعاً صاحب نظر ہو ۔

قارئین محترم یہ مشکل صرف زبانی دعویٰ نہیں بلکہ بالکل سچ اور حقیقت پر مبنی ہے جسکی بہترین دلیل حدیث کے اہم مجموعوں کے علاوہ بڑے بڑے شیعہ محدثین کی وہ سینکڑوں کتابیں بھی ہیں جو اس موضوع پر لکھی گئی ہیں ۔

جیسے تیسری صدی ہجری کے بزرگ عالم عیسیٰ بن مہران مستعطف کی تالیف ”المھدی “، فضل بن شاذان کی کتاب ”قائم و غیبت “، تیسری صدی ہجری کے جلیل القدر عالم عبد اللہ بن جعفر حمیری کی تالیف ”غیبت“،یا کتاب ”غیب وذکرالقائم “ مولفہ ابن اخی طاہر(متوفیٰ ۳۵۸ ھ)، محمد بن قاسم بغداد ی معاصر ابن ہمام (متوفیٰ ۳۳۳ ھ) کی کتاب ”غیبت“، شیخ کلینی کے ماموں علان رازی کلینی کی تالیف ”اخبار القائم “یا ”اخبار المھدی“مولفہ جلودی (متوفیٰ ۳۳۲ ھ)، چوتھی صدی ہجری کے ایک بڑے عالم نعمانی کی ”کتاب غیبت“، حسن بن حمزہ مرعشی (متوفیٰ ۳۵۸ ھ)کی تالیف ”غیبت“یا” دلائل خروج القائم“ مولفہ ابن علی حسن بن محمد بصری، (تیسری صدی ہجری کے عالم)احمد بن رمیح المروزی یا کتاب ”ذکر القائم من آل محمد“ قدیم محدث ابی علی احمد بن محمد جرجانی کی تالیف” اخبار القائم “ یا”الشفاء والجلاء“ مولفہ احمد بن علی رازی” ترتیب الدولہ“مولفہ احمد بن حسین مہرانی، ”کمال الدین “ ، ”کتاب غیبت کبیر“تالیف شیخ صدوق(متوفیٰ ۳۸۱ ھ)، ابن جنید کی کتاب”غیبت“ (متوفیٰ ۳۸۱ ھ)، ”کتاب غیبت“مولفہ شیخ مفید(متوفیٰ ۴۱۳ ھ)، سید مرتضیٰ (متوفیٰ ۴۳۶) کی کتاب غیبت، شیخ طوسی(متوفیٰ ۴۶۰) کی کتاب ”غیبت“۔ سید مرتضیٰ کے ہم عصر اسعد آبادی کی تالیف” تاج الشرفی ،کتا ب ما نزل من القرآن فی صاحب الزمان“ مولفہ عبداللہ عیاش (متوفیٰ ۴۰۱) ” فرج کبیر“،مولفہ محمد بن ھبت اللہ طرابلسی (شاگرد شیخ طوسی ) اسی طرح” برکات القائم“ ،تکمیل الدین، بغیة الطالب ،تبصرة الاولیاء ،کفایة المہدی ،اخبار القائم ،اخبار ظہور المہدی الحجة البالغ ،تثبیت الاقران ،حجة الخصام ،الدر المقصود ،اثبات الحجة ،اتمام الحجة ،اثبات وجود القائم ،مولد القائم،الحجة فی ما نزل فی الحجہ ،الذخیر ة فی المحشر ،السلطان المفرج عن الایمان،سرود اہل الایمان، جنی الجنتین ،بحار الانوار کی تیرھویں جلد ،غیبتِ عوالم کے علاوہ ایسی اور بھی سینکڑو ں کتابیں ہیں جن کی فہرست اور مولفین کے نام تحریر کرنے سے یہ گفتگو کافی طویل ہو جائے گی۔

ان متواتر روایات کی روشنی میں اس مقام پر ہم حضرت مہدی کے بعض اوصاف اور ان کی بعض علامتیں ایک فہرست کی شکل میں پیش کر رہے ہیں جن کی وضاحت کسی دوسرے موقع پر پیش کی جائے گی۔(۱)

آخر میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ امام عصر کے موجود ہونے کے بارے میں اور بھی عقلی و نقلی دلیلیں موجود ہیں جن کوہم اس مقام پر بیان نہیں کر رہے ہیں۔

البتہ مختصر یہ کہ وہ تمام عقلی و نقلی دلیلیں جو امامت عامہ پر دلالت کرتی ہیں یا یہ ثابت کرتی ہیں کہ ہر زمانہ میں ایک امام معصوم کا موجود ہونا ضروری ہے، ہر امام کی معرفت واجب ہے اور کبھی بھی زمین حجت سے خالی نہیں رہ سکتی کیونکہ ”لو بقیت الارض بغیر حجة لساخت باھلھا “ اگر زمین حجت خدا سے خالی ہو جائے تو وہ تمام اہل زمین کو اپنے اندر دھنسا لے گی ،یہی سب دلیلیں حضرت صاحب الزمان کے وجود اور آپ کی امامت کی مستحکم دلیلیں ہےں اور امام عصر ارواحنافداہ کے وجود کے اثبات اور پردہ غیبت میں آپ کے زندہ رہنے پر استدلال و بر ہان قائم کرنے کے لئے یہی دلیلیں بہترین سند ہیں۔

____________________

(۱)چونکہ یہ تمام اوصاف ”امام مہدی کے اوصاف اور امتیازات “نامی فصل میں بیان کئے جائےں گے لہٰذا انہیں اس جگہ سے حذف کر دیا گیا ہے ،قارئین کرام ص۸۰کا مطالعہ فرمائیں۔

بارہ امام

ہمیں معلوم ہے کہ شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم کے بعداسلامی امت کی دینی اور سیاسی رہبری و قیادت ایک خدائی منصب ہے اور پیغمبراکرم نے اس کے لئے حکم خدا سے ایک لا ئق اور اہل شخص کو معین کیا اور جس طرح پیغمبر اکرم امت کی دینی ،سیاسی روحانی اور انتظامی قیادت کے ذمہ دار تھے، امام بھی جو کہ پیغمبر اکرم کا جانشین اور خلیفہ ہے، امت کا قائد و رہبر ہے ۔

البتہ ان دونوں کے درمیان صرف اتنا سا فرق ہے کہ پیغمبر پر وحی نازل ہوتی ہے اور وہ کسی انسان کے وسیلہ کے بغیر دین و شریعت کو عالم غیب سے حاصل کرکے اسے اپنی قوم تک پہونچاتا ہے لیکن امام شریعت و کتاب لیکر نہیں آتا ہے ، اسکے پاس عہدہ نبوت نہیں ہوتا بلکہ وہ پیغمبر اکرم کی کتاب و سنت کے ذریعہ امت کی ہدایت کرتا ہے۔

یہ طے ہے کہ یہ طریقہ کار عدل و انصا ف ،عقل ومنطق اور حق کے عین مطابق ہے اور اسکے علاوہ امت کی رہبری و قیادت کے جتنے طریقے اور راستے ہیں ان میں یہی سب سے زیادہ قابل اعتماد اور بھروسہ کے لائق ہے کیونکہ جس شخص کو بھی پیغمبر اکرم خدا وند عالم کے حکم سے امت کا رہبر و ہادی بنائیں گے اسمیں رہبری کی تمام صلاحیتیں موجود ہوں گی اور وہی امامت و ہدایت کے لئے بہترہوگا جیسا کہ مشرقی اور مغربی فلاسفہ کے لئے قابل فخر اور عظیم فلسفی شیخ الرئیس ابو علی سینا نے کہا ہے: ”والاستخلاف بالنص اصوب فان ذالک لا یودیٰ الی التشعب والتشاغب والاختلاف “یعنی نص کے ذریعہ خلیفہ کا انتخاب ہی سب سے زیادہ درست بات ہے کیونکہ اس میں کسی بھی قسم کی پارٹی بازی ، فتنہ و فساد اور اختلاف کا امکان نہیں ہے ۔

مسلمانوں کی ایسی دینی اورسیاسی رہبری وقیادت کہ ان کے رہبر کا ہر قول وفعل ہر ایک کے لئے حجت اور لوگوں کے تمام دینی اور دنیاوی امور پر حاکم ہو یہ ایک بہت نازک اور بلند مقام و مرتبہ ہے اور اس سے بڑا عہدہ کوئی اور نہیں ہو سکتا لہٰذا اگر اس کے انتخاب میں ذرہ برابر کوتاہی ہو جائے تو اسکے خطرناک نتائج سامنے آئیں گے اور پھر انبیاء کی بعثت کا کوئی فائدہ باقی نہیں رہ جائے گا۔

صالح ہادی کاانتخاب

جو شخص اتنی اہم صلاحیتوں کا مالک ہو اس کی شناخت کرنا عام لوگوں کی عقل و شعور سے بالاتر ہے اس عہدہ کاحقدار وہی ہو سکتا ہے جسکے اندر انسانی فنون اور فضائل و کمالات جیسے علم ،حلم ،بخشش،چشم پوشی ،رحم دلی ،عدل ،تواضع، انسانی حقوق کی آزادی کا احترام ، انسان دوستی ،عقل ،تدبیر،دینی اور روحانی معاملات کے بارے میں دقت نظر کے علاوہ دوسرے اہم اور ضروری صفات اور شرائط پائے جاتے ہوں جن کو خداوند عالم کی ہدایت کے بغیر پہچاننا ہر گز ممکن نہیں ہے ۔

اس بنا پر یا اور دوسری عقلی ونقلی دلیلوں کی بنیاد پر شیعوں کا یہ عقیدہ ہے کہ پیغمبر جیسے صفات رکھنے والے امام کو منصوب اور معین کرنے کا حق صرف خداوند عالم کے اختیار میں ہے اور امام کی تعیین جیسا کہ آیہ شریفہ میںصاف طور پر ذکر ہے دین کی تکمیل اور نعمت کا اتمام ہے اور بعثت انبیاء کی غرض اور اسکے مقصد کے عین مطابق ہے اور اسکو چھوڑ دینااسلامی سماج اور معاشرہ کے بارے میں بے توجہی کے مثل ہے اور یہ انبیاء کی زحمتوں کو ضائع کرنا ہے ۔

بشر کا انتخاب ہمیشہ حق نہیں ہو سکتا

شیعوں کا کہنا ہے کہ جس شخص کا قول و فعل حتی اس کی تائید یا خاموشی بھی ہرایک کے لئے نمونہ عمل ہے اور وہ شریعت کی ناموس کا محافظ اور اسکے احکام کی تشریح کرنے والا ہے ایسے بشر کا صحیح انتخاب انسانوں کے ذریعہ ہر گز ممکن نہیں ہے بلکہ ایسے ولی امر کا انتخاب کہ جسکی اطاعت اس آیت :( اطیعوا الله و اطیعوا الرسول و اُولی الامر منکم ) کے حکم کی بنا پر واجب ہے یہ صرف خدا کی طرف سے ہی صحیح اور حق بجانب ہے کہ خدا وند عالم لوگوں کی ظاہری ،باطنی ،روحانی اور فکری تمام صلاحیتوں سے بخوبی واقف ہے نہ اسے غافل بنایا جا سکتا ہے اور نہ اسکے یہاں غفلت کاامکان ہے اور نہ وہ کسی کی ریا کاری ،مکاری اور ظاہری اور کھوکھلی اداوں نیز عوام فریبی سے دھوکہ کھاتا ہے اور نہ ہی جذبات و احساسات ،خوف و دہشت یا کسی کی دھمکی سے اسکے اوپر کوئی اثر پڑتا ہے نہ ہی ذاتی اغراض و مقاصد اور اپنی قوم یا قبیلہ اور خاندان یا شہر والوں کے منافع کے خیال سے اسکا دامن داغدار ہے ۔

لیکن اگر اس انتخاب میں لوگوں کو شریک کر لیا جائے تو پہلے تو یہ کہ اگر وہ صالح فردکا انتخاب کرنا بھی چاہیں تو وہ اسے پہچانتے نہیں ہیں،دوسرے یہ کہ اثر ورسوخ کا استعمال، بھول چوک ایک دوسرے کی مخالفت یا لالچ وغیرہ ان کی آزادی خیال اور اظہار رائے کی راہ میں مانع ہو جاتے ہیں۔

تیسرے یہ کہ انہیں ذاتی مفادات کی فکر رہتی ہے جسکا مشاہدہ دنیا کے ہرالیکشن میں ہوتا رہتاہے ۔چاہے الیکشن جتنے آزاد اور صحیح کیوں نہ ہوں اسکے با وجود ان کے او پر ان اغراض و مقاصد کا ضرور اثر ہوتاہے اور تمام لوگ عام طور سے ذاتی مفادات کو اجتماعی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج تک ملکوں کے سر براہوں کا کوئی الیکشن ہر لحاظ سے صحیح اور کامل ثابت نہیں ہو سکا اور جن لوگوں کے اندر زیادہ لیاقت اور صلاحیت تھی انہیں نہیں چنا گیا اور اگر اتفاقاً کبھی کسی حد تک کوئی لائق آدمی چن بھی لیا گیا تو اس کی وجہ لوگوں کی صحیح تشخیص یا ان کی حق بینی اور باریک بینی یا دقت نظر نہیں تھی بلکہ اتفاقی طور پر یاملکی حالات اورسیاسی مجبوریوں کی بنا پر ایساہوگیا ہے ورنہ اگر لوگوں کی یہ تشخیص بالکل صحیح اور ہر قسم کے نقص سے دور اورحقیقت اور صحیح شناخت پر مبنی ہوتی تو پھر انکے چنے ہوئے ہر شخص کے اندر اس عہدے کی لیاقت اور صلاحیت ہونی چاہئے تھی جبکہ ہم عام طور سے دیکھتے رہتے ہیں کہ انسانوں کا انتخاب اکثر غلط ہی ہوتا ہے اور اسکا نتیجہ بہت کم صحیح ہو پاتا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ لوگ واقعاً صالح اور لائق افراد کو پہچاننے سے عاجز ہیں۔

جیسا کہ حضرت ولی عصرعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف نے سعد بن عبد اللہ اشعری قمی کے جواب میں فرمایا تھا ، جب انھوں نے آپ سے سوال کیا کہ لوگوں کو امام کے انتخاب کا حق کیوں نہیں ہے؟ امام نے فرمایا : نیک یا برا امام ؟

انہوں نے کہا : نیک

آپ نے فرمایا کیونکہ ان میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کے باطن اور نیت سے واقف نہیں ہے تو کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ کسی نااہل کو چن لیں۔

عرض کی : جی ہاں ممکن ہے

آپ نے فرمایا : ”فهی العلة(۱)

” یہی وجہ ہے “کہ لوگ اپنے امام کو نہیں چن سکتے ہیں۔

اس سے بخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ جو امام، پیغمبر کا جانشین اور خلیفہ ہوتا ہے اسےخدا کی طرف سے پیغمبر اکرم ہی معین کر سکتے ہیں اور یہ کام لوگوں کے بس سے باہر ہے اور ایک صالح سماج اور معاشرے یا نظام کے متعلق انبیاء اور دین کا جو مقصد تھا وہ پورا نہیں ہو سکتا ہے اسی لئے سب نے اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ لیا کہ پیغمبر اکرم کے بعد جب اس قاعدہ اور قانون کی خلاف ورزی کی

____________________

(۱)منتخب الاثر صفحہ ۱۵۱۔

گئی تو پہلے تو کچھ لوگوں نے کہا کہ خلافت کو بھی وزیر اعظم کے الیکشن کی طرح لوگوں کے چناو اور اجماع سے طے ہونا چاہئے اورجب حضرت ابو بکر نے خودحضرت عمر کو اپنا جانشین مقرر کر دیا اوران ہی کے بقول ”امت کو خلیفہ کے انتخاب کا حق حاصل ہے “خود ہی یہ حق امت سے چھین لیا اور اپنی من مانی سے حضرت عمر کو خلیفہ بنا دیاتو پھر یہ کہنا شروع کر دیا کہ خلیفہ اپنا جانشین معین کر سکتا ہے۔

ایک منزل اور آگے بڑھ کر تو خلیفہ کے انتخاب کے لئے چھ آدمیوں پر مشتمل باقاعدہ کمیٹی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو دنیا کے کسی قانون حکومت کے مطابق نہیں تھی پھر کہنے لگے کہ اس طرح بھی خلیفہ منتخب ہو سکتا ہے جب کچھ اور آگے بڑھےتو بنی امیہ کے شرابی کبابی اور زانی بادشاہوں تک نوبت پہونچ گئی چنانچہ جب یہ صورتحال دیکھی کہ اگر ولی امر کے لئے ایک چھوٹی سی شرط بھی رکھ دی گئی تو پھر ان تمام گذشتہ حکومتوں کے غیر شرعی ہونے کا اعلان کرنا پڑے گا اور کھلے عام شیعہ عقیدہ کی ترویج کرناہوگی لہٰذا وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ اسلامی حاکمیت بھی زمانہ جاہلیت کی حکومتوں کی طرح ہے اور اسکے لئے کوئی شرط ضروری نہیں ہے اس بنا پر جو شخص بھی اپنی طاقت کے بل بوتے پر باپ کی میراث میں یا کسی بھی طریقہ سے حکومت حاصل کر لے اس کی اطاعت تمام مسلمانوں پر واجب ہے اور ان کی جان و مال اور عزت و آبرو پر صرف اسی کا حکم نافذ ہے ۔

اس عقیدہ اور انداز فکر نے اخلاقی پستی کو جنم دینے کے علاوہ ظالموں اور جابروں کے لئے حکومت حاصل کرنے کے لئے زور آزمائی کا کھلا میدان فراہم کر دیا اور اس سے روز بروز ان کی لالچ میں اضافہ ہی ہو تا رہا اور تاریخ اسلام کی ابتداء سے آج تک حکومت پر بنی امیہ، بنی عباس جیسے تمام ظالم و جابر بادشاہوں اور سلاطین کے تسلط اور قبضہ کی یہی اہم وجہ ہے ،چنانچہ ان نااہل حکومتوں کی وجہ سے جو ظلم وتشدد ہوا اور اسلام کو ان کی طرف سے جو نقصان اٹھانا پڑا اسے اس مقالہ میں قلمبند کرنا ممکن نہیںہے اور بڑی خوشی کی بات ہے کہ ہمارے دور کے ایسے مشہور اہل سنت مفکرین جو اس نظریہ اور اس عقیدے کے خطرناک نتائج کی وجہ سے اسکے مخالف ہیں انہوں نے بھی اس عقیدہ پر سخت تنقید کی ہے ۔

امام کی تعیین کے بارے میں شیعوں کا عقیدہ بہت ہی مستحکم عقلی اورمنقولہ دلیلوں پر استوار ہے اور شروع سے لیکر آج تک ہر دور میں یہ عقیدہ حریت پسند،انصاف طلب اورظلم و ستم کے خلاف جہاد اور حق کے لئے قیام کرنے والے افراد کا اصل مرکز رہا ہے اسی لئے شیعوں کے صرف ایک عالم یعنی علامہ حلینے اپنی کتاب الفَین میں اس بارے میں ایک ہزار دلیلیں پیش کی ہیں کہ امام ،خدا کی طرف سے ہی معین اور منصوب ہونا چاہئے ،شیعوں کی نظر میں علمی اور عملی صلاحیتوں کے بغیر کسی کو کوئی چھوٹے سے چھوٹا سماجی یا حکومتی اور دینی منصب دینا جائز نہیں ہے اورحاکم کو اسلامی عدالت کا پیکر ہونا چاہئے اور یہ کہ وہ اسلامی احکام کو نافذکرے اور اس کے مقاصد کے لئے پوری سعی وکوشش کرے۔

بنی امیہ اور بنی عباس کے دور حکومت میں جو لوگ حکومت پر قابض ہوئے شیعوں کی نظر میں ان میں سے بہت سے لوگ تو کسی گاوں کی پردھانی بلکہ ایک گلی ، گوچہ کی پہرہ داری کے لائق بھی نہیں تھے ۔

جو شخص بھی اسلامی تعلیمات یا پیغمبر اکرم ،امیر المومنین اور ائمہ طاہرین کی سیرت اور لوگوں کے ساتھ ان کے طرز معاشرت کو ملاحظہ کرے اور اس کے بعد ان سرپھرے بادشاہوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھے جنہوں نے اسلامی ممالک پر حکومت کی ہے اور یہ دیکھے کہ انہوں نے طاقت کے زور پر اسلامی حکومت کے اوپر کیسے قبضہ کیا اور رعایا کے سروں پر سوار رہے اور وہ اپنی عیاشی، فحاشی، محلوں کی تعمیر و تزئین اور اپنے رشتہ داروں اور درباریوں کے منھ بھرنے کے لئے بیت المال کو کس بے دردی سے لٹاتے تھے ؟اور لوگوں کے اوپر اپنی قدرت و طاقت کا رعب جمانے کے لئے اپنے حوالیوں موالیوں کے ساتھ مخصوص حفاظتی فورس کے پہرے میں بیش قیمت سواریوں پر سوار ہو کر کس طنطنے کے ساتھ عوام کے درمیان سے گذرتے تھے؟ ان حالات کو دیکھنے کے بعد انسان یہ تصدیق کرنے پر مجبور ہے کہ ان کا طرز حکومت اسلام کے آزادی بخش نظام یا عدل وانصاف کو رواج دینے والی تعلیمات سے کسی طرح ہم آہنگ نہیں تھا جیسا کہ بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ ان کے رسم و رواج عام طور سے اسلامی حکومت کے اصول اور قوانین کے خلاف ہی نہیں تھے بلکہ وہ ظلم و استبداد اور کٹیٹرشپ کے بد ترین نمونے تھے جنکا تعلق سو فیصدی دور جاہلیت سے ہے اگر ہم اس موضوع کو چھیڑیں گے تو اس مقالہ کی منزل مقصود سے دور ہو جائیں گے، مختصر یہ کہ خداپرست عادل اور منصف مزاج ارباب حکومت کے عقیدے نے شیعوں کو ظلم وستم سے دور کر دیا


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13