نويد امن وامان

نويد امن وامان0%

نويد امن وامان مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

نويد امن وامان

مؤلف: آیة اللہ صافی گلپایگانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 16722
ڈاؤنلوڈ: 2203

تبصرے:

نويد امن وامان
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 218 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 16722 / ڈاؤنلوڈ: 2203
سائز سائز سائز
نويد امن وامان

نويد امن وامان

مؤلف:
اردو

اور انہیں ظالم کے سامنے جھکنے اور اسکا احترام کرنے سے بالکل متنفر بنا دیا۔(۱)

اب تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے صاف واضح ہے کہ پیغمبر اکرم کو اپنی جانشینی اور امت کی رہبری کا خاص خیال تھا اور یہ ہر گز ممکن نہیں ہے کہ جو پیغمبر، مستحبات و مکروہات جیسے عام اور چھوٹے چھوٹے مسائل کو بیان کرنے میں سستی سے کام نہ لے اسے خلافت جیسے اہم اور حساس مسئلے کے بارے میں کوئی فکر نہ رہی ہوگی اور اس نے اس سلسلہ میں کوئی اقدام ہی نہ کیا ہوگا؟

ان تمہیدات کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے؟

سوال :

پیغمبر اکرم نے کن افراد کو اپنا جانشین قرار دیااور جس طرح اسلام کے تمام احکام کا قرآن وسنت سے استنباط واستخراج ہوتا ہے کیا ہم قرآن مجید اور احادیث شریفہ کی طرف رجوع کرکے پیغمبر کے بعد امت کے واقعی رہبروں کو نہیں پہچان سکتے؟ کیا اس سلسلہ میں اسلامی منابع ومآخذ(کتب) میں معتبر احادیث اورنصوص پائی جاتی ہیں؟

جواب:

یہ موضوع قرآن وحدیث دونوں جگہ مذکور ہے اگرچہ حکام وقت کی سیا ست کی بنا پر ایسی روایات کے نقل و بیان پر سختی کے ساتھ پابندی عائد کردی گئی تھی لیکن اس کے باوجود اس موضوع سے متعلق اتنی کثرت سے روایات،معتبر اسلامی کتب میں موجود ہیں کہ کسی اور اسلامی مسئلہ میں اتنی روایات

____________________

(۱)مولف کی کتاب ”پرتوی از عظمت حسین “(یعنی امام حسین کی عظمت کی ایک جھلک) صفحہ ۳۴۹ سے۳۵۸ تک ملاحظہ فرمائیے۔

ملنا مشکل ہے۔

ہم یہاں پر حدیث غدیر جیسی معتبر حدیث کا تذکرہ نہیں کریں گے جس کے صرف اسناد کے بارے میں ایک عالم نے ۲۸ جلدیں تحریر کی ہیں،عبقات الانواراورالغدیر کی متعدد جلدیں اسی سے متعلق ہیں ان کے علاوہ” ابن عقدہ“ جیسے حفاظ نے بھی حدیث غدیر سے متعلق ایک مکمل کتاب تحریر کی ہے۔ علاوہ بریں تمام مفسرین، متکلمین، محدثین اور ماہرین لغت نے اسے نقل کیا ہے۔

حدیث ثقلین جو متواتر ہے اور اہل سنت کی معتبر ترین کتب میں صحیح اور قابل اعتماداسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہے حدیثِ امان، حدیث سفینہ اور ان کے علاوہ سینکڑوں احادیث ہیں جن میں صراحت کے ساتھ امیرالمومنین اور دیگر ائمہ کی جانشینی کا تذکرہ ہے ،ہم یہاں ان احادیث کو بیان نہیں کریں گے کیوں کہ ان میں سے اکثر احادیث سے کم و بیش سبھی واقف ہیں۔

حادیث ائمہ اثنا عشر

اس مقام پر ہم کتب اہل سنت سے صرف انھیں روایات کا تذکرہ کریں گے جن میں ائمہ کی تعداد اور ان کے نام ذکر کئے گئے ہیں اور احادیث کو نقل کرنے والے علماء ومفسرین کے مطابق انہیں احادیث میں حضرت مہدی کی بشارت بھی موجود ہے۔

ایسی احادیث مکتب شیعہ اثنا عشری کے علاوہ مسلمانوں کے کسی دوسرے فرقہ اورمذہب کے مطابق نہ کل تھیں اور نہ آج ہیں۔

ائمہ اثنا عشر کی روایت نقل کرنے والے صحابہ

پیغمبر اکرم کے بعض اصحاب نے ایسی روایات نقل کی ہیں جن کی رُوسے بارہ اماموں کی امامت کا اثبات ہوتا ہے ان میں کچھ نام یہ ہیں:

۱ ۔جابر بن سمرہ، ۲ ۔عبداللہ بن مسعود، ۳ ۔ابوجحیفہ، ۴ ۔ابوسعید خدری، ۵ ۔سلمان فارسی، ۶ ۔انس بن مالک، ۷ ۔ابوہریرہ، ۸ ۔واثلہ بن اسقع، ۹ ۔عمر بن الخطاب، ۱۰ ۔ابوقتادہ، ۱۱ ۔ابوالطفیل، ۱۲ ۔ امام علی ، ۱۳ ۔امام حسن ، ۱۴ ۔امام حسین ، ۱۵ ۔شفیاصبحی، ۱۶ ۔عبداللہ بن عمر، ۱۷ ۔عبداللہ بن اوفیٰ، ۱۸ ۔عمار بن یاسر، ۱۹ ۔ابوذر، ۲۰ ۔حذیفہ بن الیمان، ۲۱ ۔جابر بن عبداللہ الانصاری، ۲۲ ۔عبداللہ بن عباس، ۲۳ ۔حذیفہ بن اسید، ۲۴ ۔زید بن ارقم، ۲۵ ۔سعد بن مالک، ۲۶ ۔اسعد بن زرارہ، ۲۷ ۔عمران بن حصین، ۲۸ ۔زید بن ثابت، ۲۹ ۔عائشہ، ۳۰ ۔ام سلمہ، ۳۱ ۔ابوایوب انصاری، ۳۲ ۔حضرت فاطمہ زہرا، ۳۳ ۔ابوامامہ، ۳۴ ۔عثمان بن عفان۔

جن کتب حدیث میں یہ احادیث موجود ہیں

ان تمام کتب،جوامع اور اصول کو تلاش کرکے ایک جگہ جمع کرناانتہائی مشکل ہے جن میں یہ احادیث موجود ہیں سردست ہم شیعہ وسنی کتب میں سے صرف چند کتب کا تذکرہ کررہے ہیں۔

شیعہ کتب

۱ ۔الصراط المستقیم الی مستحق القدیم ۳ جلدیں۔

۲ ۔اثبات الہداة شیخ حرعاملی، جو کچھ عرصہ پہلے ۷ جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔

۳ ۔کفایة الاثر۔

۴ ۔مقتضب الاثر۔

۵ ۔مناقب شہر آشوب(۱)

____________________

(۱) ابن شہر آشوب نے اپنی کتاب ”متشابہ القرآن و مختلفہ“ج۲ ص۵۵پراس حدیث کے راویوںمیں دیگر اصحاب کا نام بھی ذکرکیاہے۔

۶ ۔بحارالانوار۔

۷ ۔عوالم ۔

۸ ۔منتخب الاثر۔

کتب اہل سنت

۱ ۔صحیح بخاری، ۲ ۔صحیح مسلم، ۳ ۔سنن ترمذی، ۴ ۔سنن ابی داؤد، ۵ ۔مسند احمد، ۶ ۔مسند ابی داؤد طیالسی، ۷ ۔تاریخ بغداد، ۸ ۔تاریخ ابن عساکر، ۹ ۔مستدرک حاکم، ۱۰ ۔تیسیرالوصول، ۱۱ ۔منتخب کنزالعمال، ۱۲ ۔کنزالعمال، ۱۳ ۔الجامع الصغیر، ۱۴ ۔تاریخ الخلفاء، ۱۵ ۔مصابیح السنہ، ۱۶ ۔الصواعق المحرقہ، ۱۷ ۔الجمع بین الصحیحین، ۱۸ ۔معجم طبرانی، ۱۹ ۔التاج الجامع للاصول۔

مضمون احادیث

ہم یہاں ان ر وایات میں سے صرف چند کا تذکرہ کررہے ہیں تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ مذہب شیعہ اثنا عشری کی بنیاد تمام اسلامی فرقوں کے نزدیک قابل قبول اورمعتبر مدارک ومنابع پر ہے، اور ”اثنا عشری“ کا نام زبان وحی ورسالت یعنیحضرت خاتم الانبیاء کے معجزنما کلام سے ماخوذ ہے۔

۱ ۔ امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں عالی اسناد کے ساتھ ۳۵ روایات پیغمبر اکرم سے نقل کی ہیں جن کا مضمون یہ ہے کہ آنحضرت کے بعد آپ کے جانشین اور امت کے رہبروں کی تعدادبارہ ہوگی

مسند احمد بن حنبل اہل سنت کی مسانید وجوامع اور کتب حدیث کی معتبر ترین کتاب شمار کی جاتی ہے، احمد بن حنبل نے ایک روایت اپنے اسناد کے ساتھ پیغمبر کے مشہور صحابی جابر بن سمرہ سے نقل کی ہے، جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ ”میں نے پیغمبر کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

یکون لهٰذه الامة اثنا عشر خلیفة(۱)

”اس امت میں بارہ افراد (میرے) خلیفہ ہوں گے۔“

اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ صرف مذہب شیعہ اثنا عشری کا ہی یہ نظریہ ہے۔

۲ ۔ ابن عدی نے کامل میں اور ابن عساکر نے ابن مسعود سے یہ روایت نقل کی ہے کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا:

انّ عدّة الخلفاء بعديعِدّةُ نقباء موسی(ع)“ (۲) ” میرے جانشینوں کی تعداد نقباء موسیٰ کی تعداد کے برابر ہے،، جنکی تعداد متفقہ طور پر بارہ تھی

۳ ۔ طبرانی نے ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ پیغمبراکرم نے فرمایا:

یکون من بعدي اثنیٰ عشر خلیفة کلّهم من قریش (۳)

”میرے بعد بارہ خلیفہ ہوں گے جو سب کے سب قریش سے ہوں گے۔“

۴ ۔ابن نجار نے انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ پیغمبراکرم نے فرمایا:

لن یزال هٰذا الدینُ قائماً الی اثنی عشر من قریش فاذا هلکوا ماجت الارض باٴهلها(۴)

”یہ دین اس وقت تک قائم رہے گاجب تک قریش کے بارہ خلیفہ نہ ہوجائیں جب ان کی رحلت ہوجائے گی توزمین اپنے اہل کے ساتھ مضطرب ہوجائے گی۔“

۵ ۔دیلمی نے فردوس الاخبار میں ابوسعید خدری سے روایت کی ہے کہ پیغمبراکرم ہم لوگوں کے ساتھ پہلی نماز اداکرنے کے بعد ہم لوگوں کی طرف مخاطب ہوئے اور فرمایا: اے گروہ اصحاب!

____________________

(۱)بحوالہ منتخب الاثر، ص۱۲

(۲)الجامع الصغیر،ج۱ص۹۱طبع چہارم

(۳)کنز العمال، ج۱ص۳۳۸،ج۶ص۲۰۱۔

(۴)کنز العمال،ج۶ص۲۰۱ ح ۳۴۸۳۔

بے شک تمہارے درمیان میرے اہل بیت کی مثال کشتی نوح اور باب حطہ بنی اسرائیل کی ہے پس میرے بعد میرے اہل بیت سے متمسک رہنا جو راشدو رہبر میری ذریت سے ہیں (اگرتم نے ایسا کیا) تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔“

فقیل: یا رسول الله کم الائمةُ بعدک؟ قال اثنا عشر من اهل بیتي(اوقال) من عترتي

سوال کیا گیا: اے رسول خدا آپ کے بعد کتنے ائمہ ہوں گے؟ آپ نے فرمایا:بارہ افراد میرے اہل بیت میں سے“ یا فرمایا ”میری عترت میں سے“(۱)

۶ ۔غایة الاحکام کے شارح نے اپنی اسناد کے ساتھ ابوقتادہ سے حدیث نقل کی ہے کہ ابوقتادہ نے کہا :”میں نے پیغمبر اکرم کو کہتے ہوئے سنا“

الائمة بعدي اثنا عَشَرَعد داً نقباءِ بني اسرائیل وحوا ري عیسیٰ(۲)

اس قسم کی روایات کتب اہلسنت میں بہت ہیں بطور نمونہ یہی روایات کافی ہیں۔

۷ ۔فاضل قندوزی نے ابوالفضیل عامر بن واثلہ سے، انہوں نے حضرت علی سے اورآپ نے پیغمبراکرم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : ”اے علی تم میرے وصی ہو، تمہاری جنگ میری جنگ اور تمہاری صلح میری صلح ہے،تم امام اور والد امام ہو، گیارہ اماموں کے والدہو، جو سب کے سب پاک اور معصوم ہیں انھیںمیں سے مہدی بھی ہیں جو زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے“(۳)

۸ ۔فاضل قندوزی نے ہی یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا ”میرے بعد بارہ امام ہوں گے اے علی جن میں سے پہلے امام تم ہو اور آخری امام( قائم) ہے جس کے ہاتھوں

____________________

(۱)عبقات الانوار، ج۲ص۲۴۶۔

(۲)کشف الاستار،ص۷۴۔

(۳) ینابیع المودة،ص۵۔

پر خدا مشرق ومغرب کی فتح عطا کرے گا“(۱)

۹ ۔حموئی نے ”فرائد السمطین“ اور سید علی ہمدانی نے ”مودة القربیٰ“ میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا:

انا سید النبیین وعلي بن ابیِ طالب سید الوصیین وانّ اوصیائیِ اثنا عشر اولهم علي بن ابیِ طالب وآخرهم القائم(۲)

”میں سید الانبیاء ہوں اور علی سید الاوصیاء ہیں اور میرے بارہ جانشین ہیں جن میں پہلے علی اور آخری قائم( عجل اللہ تعالیٰ فرجہ)ہیں۔

۱۰ ۔روضة الاحباب اور فرائد السمطین میں ابن عباس سے روایت ہے کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا: میرے اوصیاء اور جانشین اور میرے بعد مخلوق پر حجت خدا بارہ افراد ہیں جن میں پہلا میرا بھائی اور آخری میرا فرزند ہے۔

سوال کیا گیا: یا رسول اللہ آپ کا بھائی کون ہے؟

آپ نے فرمایا: علی بن ابی طالب

سوال کیا گیا: آپ کا فرزند کون ہے؟

آپ نے فرمایا: مہدی ،جو زمین کو اسی طرح عدل وانصاف سے بھر دے گا جیسے وہ ظلم وجور سے بھری ہوگی۔ قسم اس ذات کی جس نے مجھے بشیر(بشارت دینے والا) بناکر مبعوث کیا اگر دنیا کی زندگی کا صرف ایک دن باقی رہ جائے گا توبھی خدااس دن کو اتنا طویل بنادے گا کہ میرا فرزند مہدی ظاہر ہو ،اور عیسیٰ بن مریم آسمان سے نازل ہوکر ان کی اقتدا میں نماز ادا کریں، مہدی کے نور سے زمین منورہوجائے اور مشرق ومغرب تک اس کی حکومت پھیل جائے(۳)

____________________

(۱)ینابیع المودة،ص۴۹۳۔

(۲)ینابیع المودة، ص۲۵۸/۴۴۵، کشف الاستار،ص۷۴۔

(۳)ینابیع المودة،ص۴۴۷، عبقات،ج۲ص۲۳۷ج۱۲

۱۱ ۔غایة الاحکام کے شارح نے امام حسین سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: ”ہم میں بارہ مہدی ہیں جن میں پہلے علی بن ابی طالب اور آخری قائم ہیں“(۱)

۱۲ ۔حموئی او رہمدانی نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا:

انا وعلی والحسن والحسین وتسعة من ولد الحسین مطهرون معصومون(۲)

”میں اور علی اور حسن وحسین اورحسین کی نسل سے نو فرزند معصوم ومطہر ہیں“۔

۱۳ ۔خوارزمی نے ”مقتل الحسین “اور ”مناقب“ میں نیز ہمدانی نے ”مودة القربیٰ“ میں جناب سلمان سے روایت نقل کی ہے کہ میں ایک روز پیغمبر اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے دیکھا کہ حسین آپ کے زانو پر ہیں اور آپ کبھی حسین کی آنکھوں کا بوسہ لے رہے تھے کبھی ہونٹ چوم رہے تھے اور فرمایا تم مولیٰ، فرزند مولیٰ ہو، تم امام فرزند امام برادر امام او رپدر امام ہو تم حجت خدا بھی ہو اور حجت خدا کے فرزند بھی اور تمہاری نسل میں نو حجت خدا ہیں ان میں سے نواں”قائم “ ہے۔(۳)

مذکورہ روایت سے زیادہ مفصل وہ احادیث ہیں جن میں حضرت علی سے لے کر حضرت مہدی تک تمام بارہ ائمہ کے نام بیان کئے گئے ہیں اور ان تفصیلی روایات سے ان روایات کا مقصود واضح ہوجاتا ہے جن میں صرف بارہ کی عدد بیان ہوئی ہے۔

شیعہ ذرائع کے لحاظ سے تو یہ روایتیں بہت زیادہ بلکہ متوا ترہیں،اہل سنت نے اپنے ذریعوں سے بھی انھیں نقل کیا ہے،اور اہل سنت کی روش کے مطابق بھی بارہ کی تعداد والی ،اُن روایات سے اِن روایتوں کی تائید وتصدیق ہوتی ہے جو ان کی صحیح کتب میں موجود ہیں۔

____________________

(۱)کشف الاستار،ص۷۴، عبقات،ج۲ج۱۲ص۲۴۰

(۲)ینابیع المودة،ص۲۵۸، ۴۵۵

(۳)مقتل الحسین،ج۱ص۹۴، ینابیع ا لمودة،ص۲۵۸،۴۹۲۔

۱۴ ۔جناب جابر کی روایت جو روضة الاحباب اور مناقب میں نقل ہوئی ہے(۱)

۱۵ ۔ابوسلمیٰ (پیغمبر کے اونٹ کے رکھوالے)کی روایت جسے خوارزمی اورقندوزی نے نقل کیا ہے(۲)

۱۶ ۔امیرالمومنین حضرت علی کی روایت جسے خوارزمی نے نقل کیا ہے(۳)

۱۷ ۔وہ روایت جسے حافظ ابوالفتح محمدبن احمد بن ابی الفوارس (متوفی ۴۱۲) نے اپنی اسناد کے ساتھ اپنی کتاب اربعین میں پیغمبر سے نقل کیا ہے، اربعین کی اس حدیث میں پیغمبر نے امیرالمومنین سے لے کر امام علی نقی تک تمام ائمہ کا نام ذکر کرنے کے بعد فرمایا:

ومَن اٴحبّ ان یلقی الله عزّوجلّ وهو من الفائزین فلیتولّ ابنه الحسن العسکري ومَن احبّ ان یلقی الله عزوجل”ومَن اٴحبّ ان یلقی الله عزّوجلّ وهو من الفائزین فلیتولّ ابنه الحسن العسکري ومَن احبّ ان یلقی الله عزوجل وقدکمل ایمانه وحَسُنَ اسلامه فلیتول ابنه المنتظر محمداً صاحب الزمان المهدي فهولاء مصابیح الدجیٰ وائمة ٰالهدی واعلام التقیٰ فمن احبّهم وتولّاهم کنت ضامناً له علیٰ الجنة(۴)

”جو شخص خدائے عزوجل سے اس عالم میں ملاقات کرنا چاہتا ہے کہ وہ فائزین میں سے ہو تو ان کے فرزند حسن عسکری کی محبت اس کے دل میں ہونا چاہئے اور جو اس انداز میں خدائے عزوجل سے ملاقات کا خواہاں ہے کہ اس کا ایمان کامل اور اسلام بہترین ہو تو اسے ان کے فرزند منتظر ، محمد ، صاحب الزمان مہدی کی ولایت سے سرشار ہونا چاہئے، یہی حضرات ہدایت کے روشن چراغ، ائمہ ہدیٰ اور تقویٰ کی علامت ہیں، جو ان سے محبت کرے ان کی ولایت کا اقرار کرے،میں اس کی جنت کا ضامن ہوں۔“

____________________

(۱)عبقات،ص۲۳۸ج۲ج۱۲، ینابیع المودة،ص۴۹۴۔

(۲)مقتل الحسین،ج۱ص۹۵، ینابیع المودة،ص۴۸۶، فرائد السمطین،ج۲۔

(۳)مقتل الحسین،ج۱ص۹۴فصل۶۔

(۴)عبقات ج ۲ ج ۱۲ ص ۲۵۳و ۲۵۴،کشف الاستارص۲۷و۲۹،اربعین کاخطی نسخہ حدیث۴

جن روایات کا تذکرہ ہم نے کیا ہے اگر ان میں ائمہ کے اسمائے مبارکہ نہ بھی ہوتے اور صرف بارہ ائمہ کے عددپر ہی اکتفا کی گئی ہوتی تب بھی کافی تھا کیوں کہ ان ائمہ ھدیٰ علیہم السلام اور مذہب شیعہ اثنا عشری کے علاوہ کسی اور مذہب ومسلک سے یہ روایات مطابقت نہیں رکھتیں، یہ روایات اتنی قوی، معتبر اور متواتر ہیں کہ اہل سنت کی جانب سے بے جا توجیہ وتفسیر کی کوشش تو کی گئی مگر کسی نے بھی ان کی صحت کے بارے میں شک وشبہ کا اظہار نہیں کیا، ہم نے اپنی کتاب منتخب الاثر کے حاشیہ پر بھی یہ ثابت کیا ہے کہ بیحد کوششوں کے باوجود ان کی جانب سے اس کی کوئی قابل قبول توجیہ پیش نہیں کی جاسکی ہے،چنانچہ یہ احادیث براہ راست مذہب شیعہ کی صداقت وحقانیت کا اعلان کرتی ہیں۔

اسی لئے اہل سنت کے بہت سے علماء مثلا علامہ کبیر شیخ ،نفیس کتاب ”اظہارالحق“ اور دیگر کتب کے مولف، ینابیع المودة کے مولف فاضل قندوزی، دراسات اللبیب اور مواہب سید البشر فی حدیث الائمة الاثنی عشر“ کے مولف علامہ محمد معین بن محمد امین سندی، ”روضة الاحباب“ کے مولف سید جمال الدین ”الفصول المہمة“ کے مولف ابن الصباغ مالکی، ”تذکرة الخواص“ کے مولف سبط ابن جوزی، ”شواہد النبوہ“ کے مولف نورالدین عبدالرحمن جامی، ”کفایة الطالب“ اور ”البیان“ کے مولف حافظ ابی عبداللہ گنجی شافعی، ”مطالب السئول“ کے مولف کمال الدین محمد بن طلحہ شافعی، ”ابطال نہج الباطل“ کے مولف اور ”الشمائل“ کے شارح قاضی روزبہان، ابن خشاب مولفِ موا لید الائمہ، شیخ سعد الدین حموئی، خواجہ محمد پارسا، حافظ ابو الفتح، محمد بن ابی الفوارس، عبدالحق دہلوی، صلاح الدین صفدی، جلال الدین رومی، شیخ عبدالرحمن صاحب ”مرآة الاسرار“ قاضی شہاب الدین دولت آبادی صاحب تفسیر ”البحرالمواج“ و”ہدایة السعداء“ عبداللہ بن محمد المطیری مدنی صاحب ”الریاض الزاہرة“ محمدبن ابراہیم حموینی شافعی صاحب ”فرائد السمطین“ قاضی بہلول بہجت آفندی، شمس الدین زرندی، جامعہ ازہر کے وائس چانسلر اور ”الاتحاف“ کے مولف شبراوی، لوامع العقول کے مولف شیخ ضیاء الدین احمد کشمخانوی جیسے بہت سے علماء نے صراحت کے ساتھ بارہ اماموں کی امامت کا اعتراف کیا ہے

اور ان کے فضائل ومناقب اپنی کتب میں تحریر فرمائے ہیں۔(۱)

بارہ اماموںسے متعلق مذکورہ روایات واحادیث سے مذہب شیعہ کی حقانیت روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے۔ ان روایات سے حضرت مہدی کی امامت کا ثبوت اتنا واضح اور مسلم ہے کہ امام ابوداؤد نے بارہ اماموں سے متعلق روایات کو کتاب ”المہدی“ میں نقل کیا ہے ،واضح رہے کہ امام ابوداؤد کا شمار اہل سنت کے معتبر ترین اور معروف ترین افراد میں ہوتا ہے اور ان کی کتاب(سنن) ”صحاح ستہ“ میں شامل ہے۔

مزید وضاحت کے لئے ہم اپنی کتاب منتخب الاثر سے چند اعداد وشمار پیش کررہے ہیں ہر چند ہمیں اعتراف ہے کہ ابھی بھی ہم تمام کتب کا احاطہ نہیں کرسکے ہیں۔

خ ۲۷۱ ،احادیث بارہ ائمہ کی امامت پر دلالت کرتی ہیں۔

خ ۹۴ ،احادیث میں مذکور ہے کہ حضرت مہدی ان ائمہ کی آخری فردہیں۔

خ ۹۱ ، احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت علی ان میں سب سے پہلے اور مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ بارہویں فرد ہیں۔

خ ۱۰۷ ، روایات میں مذکور ہے کہ امام بارہ ہوں گے جن میں سے نو ائمہ امام حسین کی نسل

____________________

(۱)حسن اتفاق سے شیعوں اور سنیوں کے درمیان قربت پیدا کرنے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ مدینہ منورہ میں مسجد النبی کے دروازوں پر بارہ اماموں کے نام آج بھی لکھے ہوئے ہیں، جب کہ ملک سعود بن عبدالعزیز اور ملک فیصل کے زمانہ میں مسجد کی دوبارہ تعمیر وتوسیع کی گئی، معتبر تاریخ کے مطابق ائمہ کے نام مسجد کی تعمیر نو سے پہلے بھی مسجد میں لکھے ہوئے تھے، بس فرق یہ ہے کہ تعمیر نو اور تجدید وتوسیع سے پہلے ائمہ معصومین کے اسماء ترتیب وار لکھے ہوئے تھے ۔

لیکن اب ائمہ معصومین کے اسماء کے درمیان اصحاب اور ائمہ اربعہ کے نام بھی داخل کردئے گئے ہیں، ان میں حضرت مہدی کا نام اس عبارت کے ساتھ تحریر ہے ”محمد المہدی رضی اللہ عنہ“باب مجیدی سے اگر کوئی مسجدکے پہلے صحن میں داخل ہوتو اسے آپ کا نام نامی بالکل درمیان میں نظر آئے گا۔

سے ہوں گے اور ان میں نویں حضرت قائم عج ہیں۔

خ ۵۰ ، احادیث میں بارہ ائمہ کے نام صراحت کے ساتھ موجود ہیں۔

اس مقام پر جو اعداد وشمار پیش کئے گئے ہیں وہ ”منتخب الاثر“ کی بنیا د پر ہیں جب کہ ان موضوعات سے متعلق روایات ان سے کئی گنا زیادہ ہیں، انشہ المستعان اپنی آئندہ کتاب میں ہم اس سے زیادہ جامع اور تفصیلی اعداد وشمارشیعہ معاشرہ اور حق جو محققین کی خدمت میں پیش کریں گے۔

وماتوفیقي الابالله علیه توکّلت والیه اٴُنیب ۔

حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے اوصاف وخصوصیات

انواع واقسام کے مخلوقات حتی کہ انسان بھی ”مابہ الاشتراک“ اور ”مابہ الامتیاز“سے مرکب ہوتے ہیں بہ الفاظ دیگر افراد بعض ذاتی یاعرضی یااعتباری صفات میں دوسروں کے ساتھ شریک ہونے کے علاوہ کچھ خصوصی اور امتیازی صفات کے مالک ہوتے ہیں جن کی بنا پر وہ دوسروں سے الگ اور ممتاز ہوتے ہیں،یہی امتیازات عالم خلقت کی اہم ترین حکمت اور نظام کائنات کی بقاء کے ضامن ہیں۔

”مابہ الاشتراک“ قدر مشترک یا وجہ مشترک وہ چیز ہوتی ہے جس میں ایک یامتعدد افراد شریک ہوتے ہیں اور جس کی بنا پر کوئی بھی کلی یا عام لفظ کثیرافراد ومصادیق کے مطابق ہوتا ہے جیسے انسان کا ناطق وضاحک ہونا۔

”مابہ الافتراق والامتیاز“ یا وجہ امتیاز وہ حقیقی، عرضی یا اعتباری صفات وکیفیات ہیں جن سے کوئی شخص دوسروں سے ممتاز نظرآتا ہے اور جن کی بنا پر اس کی اپنی الگ شناخت ہوتی ہے۔

طبیعی طور پر کسی بھی فرد کے مشخصات کیفیات بہت زیادہ ہوتے ہیں بلکہ کبھی کبھی بے شمار بھی ہوسکتے ہیں لیکن اگر کسی کا تعارف کرانا مقصود ہو تو پھر ایسے خصوصیات اور کیفیات بیان کرنا چاہئےں جواس شخص کے علاوہ کسی اور شخص میںنہ پائے جاتے ہوں تاکہ وہ شخص دوسروں کے ساتھ مشتبہ نہ ہونے پائے ورنہ تعارف کا کوئی فائدہ نہ ہوگا،مثلا اگر کسی مقام کا پتہ بتانا ہو تو ملک، صوبہ، ضلع، شہر، محلہ، گلی اور مکان نمبر بتانا چاہئے اسی طرح اگرکسی کا جسمانی خصوصیات کے ذریعہ تعارف کرایا جارہا ہے تو شکل وشمائل، حلیہ، رنگ، بالوں کا انداز، قدوقامت کا ذکر ہونا چاہئے،نسبی اور خاندانی خصوصیات میں ماں، باپ، دادا، دادی، نانا، نانی، دادیہال ونانیہال کے کارنامے بیان ہونا چاہئیں،شخصی کارناموں میں اصلاحی اقدامات، جنگ، صلح، معاہدات، مشغلہ، پیشہ، عہدہ و منصب، تاریخی حیثیت، طرززندگی، انداز معاشرت اور علمی کارموں میں انداز فکر، بلند خیالی، ایمان، عقیدہ، سماجی وسیاسی نظریات، اخلاقیات میں، اسکے عادات واطوار، شجاعت، سخاوت، عفو ودرگزر، تواضع وانکساری، شہامت، عدل وانصاف اور دیگر اخلاقی خوبیوں یا برائیوں کا تذکرہ ہونا چاہئے۔

شناخت وکوائف جتنے بہتر اور واضح انداز میں بیان کئے جائیں گے اس شخص کی معرفت اتنی ہی آسان اور بہتر ہوگی۔

حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے اوصاف کی معرفت دو لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے، پہلے تو یہ کہ امام وقت کی معرفت ہمارا فریضہ ہے کیوں کہ معرفت امام ہم پر شرعاً وعقلا واجب ولازم ہے مشہور ومعروف حدیث ہے۔

من مات ولم یعرف امام زمانه مات میتة الجاهلیة

”جو شخص اپنے زمانہ کے امام کو پہچانے بغیر مرگیا اس کی موت جاہلیت کی موت ہے“

امام زمانہ کے اوصاف کی معرفت ہمارے لئے اس لئے بھی ضروری ہے کہ ہم اسی معرفت کے ذریعہ مہدویت کا دعویٰ کرنے والے جھوٹے افراد کے دعوے کو غلط اور باطل قرار دے سکتے ہیں، اور انھیں اوصاف سے ایسے افراد کا جھوٹ اور فریب واضح ہوسکتا ہے۔

حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے لئے روایات واحادیث میں جن اوصاف وعلائم کا تذکرہ پایا جاتا ہے ان کے پیش نظر، یہ اوصاف آپ کے علاوہ کسی اورمیں نہیں پائے جاتے اور ان کی روشنی میں کسی دوسرے شخص پر آپ کا دھوکا نہیں ہوسکتا۔

اگر کوئی شخص دعوائے مہدویت کرنے والوں کے مکروفریب میں پھنس گیا تو اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ وہ ان اوصاف وخصوصیات سے غافل یا بے خبر تھا، یا پھر اس نے بعض ایسے اوصاف کو جو آپ کا خصوصی وصف نہیں بلکہ وصف عام تھا اور اس میں دوسرے افراد کی شرکت ممکن تھی، آپ کی خصوصی صفت سمجھ لیا اور دھوکہ میں مبتلا ہوگیا البتہ ایسے افراد بھی ہیں جو دیدہ ودانستہ حقیقت کو جانتے ہوئے بھی مادی یا سیاسی مقاصد، یا عہدہ ومنصب کی لالچ میں ایسے دعووں کو بظاہر تسلیم کرلیتے ہیں اور اس کی ترویج بھی کرتے ہیں، ورنہ آپ کے لئے جو اوصاف وخصوصیات مذکور ہیں وہ ایسے ہیں کہ آپ کی ذات گرامی کے علاوہ ،دعوائے مہدویت کرنے والے کسی بھی شخص پر ان کا منطبق ہونا ممکن ہی نہیں ہے اوران اوصاف وعلائم وخصوصیات کی عدم موجودگی میں ایسے افراد کے دعویٰ کا باطل ہونا آفتاب عالمتاب کی طرح واضح ہے۔

علم حدیث کے نامور اور معتبر علماء ومحققین نے اپنی معتبر اور مستند کتب میں مفصل طریقہ سے ان اوصاف وخصوصیات کا تذکرہ فرمایا ہے۔ اس مختصر مقالہ میں چوں کہ ان تمام احادیث کا ذکر ممکن نہیں ہے لہٰذا ہم نا مکمل اطلاعات اور تحقیق کی بنیاد پر اپنی کتاب ”منتخب الاثر“ سے آپ کے بعض اوصاف وخصوصیات سے متعلق احادیث کے بجائے صرف احادیث کی تعداد قارئین کرام کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔

۱ ۔مہدیعجل اللہ تعالیٰ فرجہ پیغمبر کے خاندان اور آپ کی ذریت سے ہیں، ۳۸۹ ، احادیث سے یہ بات ثابت ہے۔

۲ ۔ ۴۸/ احادیث کے مطابق حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ پیغمبر کے ہم نام ہیں اور پیغمبر کی کنیت آپ کی کنیت ہے اور آپ پیغمبر سے سب سے زیادہ مشابہ ہیں۔

۳ ۔ ۲۱/ احادیث میں آپ کے شمائل اور جسمانی خصوصیات کا تذکرہ ملتا ہے۔

۴ ۔ ۲۱۴/ احادیث میں مذکور ہے کہ آپ امیرالمومنین کی اولاد میں سے ہیں۔

۵ ۔ ۱۹۲/ احادیث کے مطابق آپ حضرت فاطمہ زہرا کی اولاد میں سے ہیں۔

۶ ۔ ۱۰۷/ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آ پ ”امام حسن وامام حسین “ کی اولاد سے ہیں(۱)

۷ ۔ ۱۸۵/ احادیث میں مذکور ہے کہ آپ کا تعلق اولاد امام حسین سے ہے۔

۸ ۔ ۱۴۸/ احادیث بیان کرتی ہیں کہ آپ نسل امام حسین کے نویں فرزند ہیں۔

۹ ۔ ۱۸۵/ احادیث کے مطابق امام زین العابدین کے فرزندوں میں ہیں۔

۱۰ ۔ ۱۰۳/ احادیث کے مطابق حضرت امام محمد باقر کے ساتویں فرزند ہیں۔

۱۱ ۔ ۹۹/ احادیث میں صراحت ہے کہ آپ حضرت امام جعفر صادق کے چھٹے فرزند ہیں۔

۱۲ ۔ ۹۸/ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام موسیٰ کاظم کے پانچویں فرزند ہیں۔

۱۳ ۔ ۹۵/ روایات کے مطابق آپ امام رضا کے چوتھے فرزند ہیں۔

۱۴ ۔ ۶۰/ روایات کے مطابق امام محمد تقی کے تیسرے فرزند ہیں۔

۱۵ ۔ ۱۴۶/ روایات کے مطابق امام علی نقی کے جانشین کے جانشین اورامام حسن عسکری کے فرزند ہیں۔

۱۶ ۔ ۱۴۷/ روایات میں آپ کے پدر بزرگوار کا اسم گرامی ”حسن “ بتایا گیا ہے۔

۱۷ ۔ ۹/ احادیث کے مطابق آپ کی والدہ سیدہ کنیزان اور ان میں سب سے برتر ہیں۔

۱۸ ۔ ۱۳۶/ احادیث میں آپ کو بارہواں امام اور خاتم الائمہ کہا گیا ہے۔

۱۹ ۔ ۱۰/ احادیث کے مطابق آپ دو غیبت (صغریٰ، کبریٰ) اختیار فرمائیں گے۔

۲۰ ۔ ۹۱/ احادیث کے مطابق آپ کی غیبت اتنی طولانی ہوگی کہ لوگوں کے ایمان کمزور پڑجائیں گے اور کم معرفت والے شک وشبہ میں مبتلا ہوجائیں گے۔

۲۱ ۔ ۳۱۸/ احادیث کے مطابق آپ کی عمر شریف بہت طولانی ہوگی۔

____________________

(۱)آپ کو امام حسن وامام حسین ، کی اولاد سے اس لئے قرار دیا گیا ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام کی مادر گرامی امام حسن کی دختر نیک اختر تھیں اس طرح امام محمدباقر اور آپ کے بعد امام زمانہ تک تمام ائمہ،نسل امام حسن سے بھی ہیں اور نسل امام حسین سے بھی۔

۲۲ ۔ ۱۲۳/ احادیث کے مطابق آپ ظلم وجور سے بھری ہوئی زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے۔

۲۳ ۔ ۸/ احادیث کے مطابق بڑھتی ہوئی عمر اور حالات زمانہ کا آپ پر اثر نہ ہوگا اور آپ جوان نظر آئیں گے۔

۲۴ ۔ ۱۴/ احادیث کے مطابق آپ کی ولادت کی خبر مخفی رہے گی۔

۲۵ ۔ ۱۴/ احادیث کے مطابق آپ دشمنان خدا کو قتل کریں گے اور روئے زمین سے شرک، ظلم وستم اور حکام جور کا خاتمہ کریں گے اور ”تاویل“ پر جہاد کریں گے۔

۲۶ ۔ ۴۷/ احادیث کے مطابق آپ دین خدا کو ظاہر فرماکر پوری زمین کے اوپر پھیلائیں گے اور پوری دنیا کے حاکم ہوں گے خدا آپ کے ذریعہ زمینوں کو زندہ کردے گا۔

۲۷ ۔ ۱۵/ احادیث میں ہے آپ لوگوں کی ہدایت فرماکرقرآن وسنت کی طرف پلٹائیں گے۔

۲۸ ۔ ۲۳/ احادیث کے مطابق آپ انبیاء کی سنتوں کے وارث ہیں ان میں سے ایک غیبت بھی ہے۔

۲۹ ۔بہت سی روایات کے مطابق آپ تلوار کے ذریعہ جہاد فرمائیں گے۔

۳۰ ۔ ۳۰/ روایات کے مطابق آپ کی سیرت بالکل پیغمبر کی سیرت کی طرح ہوگی۔

۳۱ ۔ ۲۴/ احادیث کے مطابق لوگوں کے سخت آزمائش وامتحان کی منزل سے گزرنے کے بعد ہی آپ ظہور فرمائیں گے۔

۳۲ ۔ ۲۵/ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ آسمان سے نازل ہوں گے اور آپ کی اقتداء میں نماز ادا کریں گے۔

۳۳ ۔ ۳۷/ روایات کے مطابق آپ کے ظہور سے قبل بدعتوں، ظلم وجور، گناہ، علی الاعلان فسق وفجور، زنا، سود، شراب خوری، جوا، رشوت، امربالمعروف ونہی عن المنکر سے روگردانی کا دور دورہ ہوگا، عورتیں بے حجاب ہوکر مردوں کے امور میں شریک ہوں گی، طلاق کثرت سے ہوگی،لہوولعب، غنا اور موسیقی عام ہوگی۔

۳۴ ۔آپ کے ظہور کے وقت آسمان سے ایک منادی آپ کا اور آپ کے پدربزرگوار کا نام لے کر ندا دے گا اور آپ کے ظہور کا اعلان کرے گا جو سب کو سنائی دے گا۔( ۲۷/ احادیث)

۳۵ ۔آپ کے ظہور سے قبل گرانی بہت زیادہ ہوگی بیماریاں پھیل جائیں گی،قحط ہوگا اور عظیم جنگ برپا ہوگی اور بہت سے لوگ مارے جائیں گے۔( ۲۳/ احا د یث )

۳۶ ۔آپ کے ظہور سے قبل ”نفس زکیہ“ اور ”یمانی“ قتل کئے جائیں گے اور یہ ”بیداء“ (مکہ و مدینہ کے درمیان ایک مقام) میں ہوگا، دجال اور سفیانی خروج کریں گے اور امام زمانہ انھیں قتل کریں گے۔ (فصل ۶ کے باب ۶ و ۷ اور فصل ۸ کے باب ۹ و ۱۰ کی احادیث)

۳۷ ۔آپ کے ظہور کے بعد زمین وآسمان کی برکتیں ظاہر ہوں گی زمین مکمل طور سے آباد ہوگی، خدا کے علاوہ کسی کی پرستش نہ ہوگی، امور آسان اور عقلیں کامل ہوجائیں گی۔ (فصل ۷ کے باب ۲،۳،۴ ، ۱۱ ، ۱۲ کی احادیث)

۳۸: آپ کے تین سو تیرہ اصحاب ایک وقت میں آپ کی خدمت میں پہونچیں گے( ۲۵ روایات)

۳۹ ۔آپ کی ولادت،کی تفصیلات کی تشریح، تاریخ ولادت اور آپ کی والدہ ماجدہ کے مختصر حالات سے متعلق ۲۱۴ ،احادیث۔

۴۰ ۔آپ کے پدر بزرگوار کی حیات طیبہ اور غیبت صغریٰ وکبریٰ کے دوران آپ کے بعض معجزات اور ان خوش نصیب افراد کے نام جو حجت خدا کی زیارت وملاقات سے شرفیاب ہوئے۔ (فصل ۳ باب ۲،۳ ،فصل ۴ باب ۱،۲ فصل ۵ باب ۱،۲)

ان کے علاوہ بھی بے شمار روایات ہیں ، جو شخص حضرت عجل اللہ تعالیٰ فرجہکے اوصاف کے بارے میں تفصیل کا خواہاں ہو وہ راقم کی کتاب ”منتخب الاثر“ یا شیخ صدوق، نعمانی، شیخ طوسی، مجلسی رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسے عظیم المرتبت محدثین کی مفصل کتب حدیث ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔

مہدی جن کا اللہ نے امتوں سے وعدہ کیا ہے

بعض حضرات کا یہ خیال ہو سکتا ہے کہ مہدی منتظر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے ظہور کا عقیدہ شیعوں کا مخصوص عقیدہ ہے اور اس عقیدہ وایمان کی بنیاد اورمآخذ ومدارک صرف حدیث کی وہ کتب ہیں جن کے راوی سب کے سب شیعہ ہیں! ہوسکتا ہے کہ ایسے افراد اہل سنت والجماعت سے نقل ہونے والی بے شمار احادیث اور اس سلسلہ میں اہل سنت کے نامور علماء ومحدثین کی تالیفات سے بے خبر ہوں لہٰذا ہم اس مختصر مقالہ میں قرآن مجیداور روایات میں امام مہدی کی بشارتوں اور اہل سنت کے ان محدثین کرام کے اسماء ذکر کئے ہیں جنھوں نے مہدی منتظر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ سے متعلق حدیثیں نقل کی ہیں ،اسی طرح اہل سنت کی وہ کتب جن میں ایسی روایات موجود ہیں اور سواد اعظم کے علماء نے خاص طور پر اس موضوع سے متعلق جو کتب تحریر کی ہیں نیز اس موضوع کی مناسبت سے چند دیگر مطالب کا تذکرہ بھی اس مقالہ میں مختصراً پیش کیا جارہا ہے راویوں اورعلماء یا کتب کی مکمل فہرست پیش کرنا مقصود نہیں ہے۔(۱)

۱ ۔قرآن کریم اور حضرت مہدی منتظر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ

قرآن کریم کی متعددآیات(۲) کی تفسیر وتاویل حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے ظہور

____________________

(۱)یہ مقالہ ”مسجد اعظم“قم کے شمارہ ۹۰ ،سال دوم میں ص۲۲/۳۱پر شائع ہوا ہے۔

(۲)”الحجة فیما نزل فی القائم الحجه “ کے مولف محقق بصیر سید ھاشم بحرانی نے اپنی مذکورہ کتاب میں ایسی آیات کی تعداد سو سے زیادہ بیان کی ہے جن کی تفسیر حضرت عجل اللہ تعالیٰ فرجہ سے متعلق کی گئی ہے۔