نويد امن وامان

نويد امن وامان15%

نويد امن وامان مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

نويد امن وامان
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 218 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 18968 / ڈاؤنلوڈ: 4172
سائز سائز سائز
نويد امن وامان

نويد امن وامان

مؤلف:
اردو

ان کا سب سے بڑا کارنامہ ایک طبقہ کے مفاد میں دوسرے طبقہ کا استحصال، طاقتور معاشرہ کے ذریعہ کمزور سماج کو نگل جانا اور اپنی قوم کے منافع کا حصول ہے۔ یہ لوگ افریقہ کے غریب و بے نوا اور الجزائر کے حریت پسند افراد کو شدید قتل وغارتگری اور سخت ترین آزار وشکنجہ کے ذریعہ اپنا غلام بناکر رکھنا چاہتے ہیں ان کے منھ کا لقمہ بھی چھین لینا چاہتے ہیں، دوسرے ممالک کے قدرتی ذخیروں پر قبضہ کرتے ہیں تاکہ اپنے ملک کے عیاش دولت مند ان سے ناراض نہ ہونے پائیں، دوسری جانب کچھ سربراہ کمزوروں اور ضعیفوں کی حمایت اور سامراجیت کے خلاف جنگ کے پر فریب نعرہ کے بہانے ”فردکی آزادی“ کو نیست نابود کرکے انسان کو اس کے بنیادی حقوق سے محروم کردینا چاہتے ہیں، شخص کے بجائے معاشرہ اور سماج کے اختیارات کے قائل ہیں اور سماج کو بالکل ایک ایسی زندہ مشین میں تبدیل کردینا چاہتے ہیں جس میں ارادہ کا کوئی دخل نہ ہو اور جس کا کنٹرول خودا س کے بجائے چند بے ضمیرافراد کے ہاتھوں میں ہو۔

تیسری طرف اقلیتوں کی تقویت کے نام پر قوموں کے درمیان پھوٹ ڈال کر انھیں تقسیم کررہے ہیں ، اس طرح کمزور ممالک پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں،دنیاوی رہبروں اور لیڈروں کا یہی طریقہ کار ہے، کل بھی یہی صورت حال تھی اورآئندہ بھی یہی رہے گی، یہ لوگ کتنے ہی ناوابستہ کیوں نہ ہوں ان کا مقصد اپنے ملک وملت کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے انھیں دوسرے ممالک یا اقوام کی آزادی سے کیا واسطہ؟ اور جب یہ لوگ ایک پارٹی یا سماج کے لئے منتخب ہوتے ہیں تو ان سے اس سے زیادہ کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی،آج کل سربراہان مملکت کی لیاقت وصلاحیت کا کل معیار اپنے سماج ومعاشرہ کے مفادات ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو نگلتی رہتی ہے، طاقتور، کمزور کو دباتا ہے اور کمزور قوموں کو وہ حقوق نہیں دئیے جاتے جو طاقتور قوموں کو حاصل ہیں،ا وروہ اپنے منافع حاصل کرنے کے لئے خطرناک جنگوں سے بھی پرہیز نہیں کرتے۔

اس کے برخلاف خدا ئی منصب دار اور الٰہی رہبر چونکہ کسی خاص گروہ یا قوم سے تعلق نہیںر کھتا اور اپنے کو اس خدا کا نمائندہ سمجھتا ہے جو سب کا خالق ورازق ہے لہٰذا اس کا مقصد سب کے لئے راحت وآسائش اور سبھی کی آزادی ہوتا ہے وہ ایک ایسے عالمی ادارہ اور معاشرے کی تعمیر کرتا ہے جس کے زیر سایہ پورا عالم انسانیت گھر کے افراد کی طرح زندگی بسر کرسکے، گورے، کالے کا کوئی فرق نہ ہو سب ایک دوسرے کو بھائی سمجھتے ہوں البتہ اس مقصدتک رسائی کے لئے انسانوں کی ذہنی آمادگی، علمی سطح کی بلندی اور فکری رشد درکا رہے۔

احادیث وروایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری زمانہ میں علوم وفنون کی ترقی، وسائل ارتباط کی وسعت، اقوام عالم کی قربت ہلاکت خیزجنگ کے نتیجہ میں دوتہائی یا اکثر آبادی کی نابودی، ظلم وجور، فسق وفجور، فحشاء وفساد کے رواج اور حکام وقت کے ہاتھوں ان امور کی اصلاح سے عاجزی کے بعد عالم انسانیت دھیرے دھیرے دینی ومذہبی رہبر کی معصوم قیادت (یعنی حضرت مہدی موعود) کے تحت عدل وانصاف پر مبنی حک ومت الٰہی کی ضرورت کو محسوس کرے گا۔(۱)

____________________

(۱) آخری زمانہ کے فتنوں اور حوادث کے بارے میں شیعہ وسنی دونوں فرقوں کے نامور محدثین نے اپنی کتب (جن میں بعض کتب ایک ہزار سال سے زائد عرصہ قبل لکھی گئی ہیں) میں بے شمار روایات واحادیث نقل فرمائی ہیں،درحقیقت ان روایات کو بھی معجزات اورغیبی اخبار میں شمار کرنا چاہئے۔ تفصیل کے خواہاں افراد کو ان کتابوں کی طرف مراجعہ کرنا چاہئے۔آخری زمانہ سے متعلق روایات میں عورتوں کی بے پردگی، عریانیت، مردوں پر غلبہ، مشوروں میں شرکت، مردوں کے امور میں مداخلت، حکومتی مشاغل میں حصہ داری، شراب خوری اور مے فروشی، سود، زنا، جوے کا رواج، نماز کو سبک سمجھنا، سربفلک عمارتوں اور محلوں کی تعمیر، نااھلوں کی تقرری، کھلم کھلا گناہ، باطل اور لایعنی امور میں رقوم صرف کرنا (جیسا کہ آج نائٹ کلب اور کیبرہ ڈانس، سال نو کی خوشی یا دیگر راتوں میںعیاشی وفحاشی کا رواج ہے) بے حیا اور بدکردار عورتوں کی تعریف وتوصیف، گلوکاری، موسیقی اور عورتوں کو فحشا وفساد کی جانب راغب کرنے والے افراد کی خوشامد وچاپلوسی، حدود واحکام الٰہی کا معطل ہوجانا، حکم خدا کے خلاف فیصلہ کرنا، طلاق کی کثرت، امربالمعروف سے روکنا، مردوں کا سونے کے ذریعہ آرائش کرنا مثلا سونے کی انگوٹھی پہننا، نیززنازادوں کی بھرمار کا تذکرہ ملتا ہے۔ انہیں علامات میں شہر مقدس قم کی علمی مرکزیت اور اس کی حجیت اور اس شہر سے دوسرے شہروں تک علم دین کی تبلیغ وترویج بھی شامل ہے۔

جس طریقہ سے جزیرہ نمائے عرب اور عالمی سطح پر نظام کی خرابیوں اور انتظامی برائیوں اور کمزور طبقوں کے شدید اضطراب وبے چینی کی بدولت دنیا خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی کے ظہور کا استقبال کرنے کے لئے آمادہ ہوچکی تھی اسی طرح آخری زمانہ میں بھی دنیا عظیم مصلح اورآپ کی ذریت واہلبیت کے جانشین کے ظہورکے لئے آمادہ ہوگی، اگرچہ عہد پیغمبر میں طویل مسافت، وسائل ارتباط کی قلت اور فکری سطح کے انحطاط کے باعث اقوام عالم کو اس ارفع واعلیٰ مقصد تک پہنچانا ممکن نہ ہوسکا لیکن اتنا ضرور ہے کہ اسلام کے آفاقی پیغام کے ظہور کے باعث دنیا اس مقصد سے قریب ضرور ہوئی ہے اور اس کی جھلک صدر اسلام کی حق وانصاف پر مبنی پیغمبر اکرم کی حکومت اور امیرالمومنین کے دور حکومت کے ان صوبوں میں دیکھی جاسکتی ہے جہاں سلمان فارسی، حذیفہ یمانی، عمار یاسر، مقداد جیسے خاص اصحاب گورنر تھے۔

چودہ صدی قبل اگر قرآن مجید کایہ حریت بخش پیغام( تعالَوا الیٰ کلمة سواء بیننا وبینکم ) (۱) تمام اقوام عالم تک پہنچانے کے لئے طویل مدت درکار تھی تو آج زمان ومکان کے فاصلہ ختم ہوچکے ہیں آج عالمی نجات دہندہ کی آواز پوری دنیا کے کانوں تک پہنچ سکتی ہے اور بلا شبہ مستقبل میں ایسے وسائل مزید ترقی یافتہ اور فراواں ہوں گے۔

پیغمبراسلام نے قرآنی وعدہ کی تکمیل کے لئے شریعت ونبوت کے قوانین اوراپنی متعلقہ ذمہ داریوں کی حد تک مقدمات فراہم کردئے ہیں اور دوسرے مقدمات اور حالات کو آنے والے زمانہ کے حوالہ کردیا ہے، اور اسلام کی پیشین گوئی کے مطابق دھیرے دھیرے وقت کے ساتھ ساتھ دنیا میں تعجب خیز تبدیلیاں رونما ہوں گی، قرآنی آیات اور متواتر روایات میں بہت صراحت کے ساتھ یہ بشارت موجو دہے کہ آخر ی زمانہ میں ایک عظیم مصلح ولی عصر حضرت حجة بن الحسن العسکری ارواح العالمین لہ الفدا کا ظہور ہوگا اور شرق وغرب عالم میں دین اسلام کا پرچم لہرائے گا اور ایک شخص

____________________

(۱)سورہ آل عمران آیت۶۴۔

بھی ایسا نہ ہوگا کہ جو کلمہ طیبہ ”توحید“ کا قائل نہ ہو۔

حضرت کے ظہور، علائم وخصوصیات اور ان سے متعلق جزئیات کے بارے میں شیعہ وسنی دونوں فرقوں کے اکابر علماء اور بڑے بڑے محدثین نے اپنی کتابوں میں متواتر، قطعی اور کثرت سے مشہور ومعروف روایات جمع کی ہیں کہ عقائد واحکام میں سے چندمسائل کے علاوہ کسی بھی مسئلہ میں اتنی روایات نظر نہیں آئیں۔ بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ پیغمبر اکرم کی رسالت اور آنحضرت کے ذریعہ بیان کی گئی غیبی باتوں پر ایمان کا لازمہ یہ ہے کہ حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے ظہور اورآپ کے ہاتھوں اسلام کے آفاقی مذہب ہونے پر بھی ایمان لایا جائے۔

ہم بہت سے ایسے مذہبی امور اور اعتقادی مسائل پر عقیدہ رکھتے ہیں (اور عقیدہ ہونا بھی چاہئے)جن کے بارے میں صرف چند صحیح روایات ہی پائی جاتی ہیں توآخرکیا وجہ ہے کہ جس بات کی تائیدو تصدیق عقل وشریعت کرتی ہے، عہد پیغمبر سے لے کر آج تک جو علما ئے اسلام اور محدثین کرام کی توجہ کا مرکز رہی ہے جس کے بارے میں شیعہ علماء کے علاوہ اہل سنت کے متعدد علماء نے کتابیں لکھی ہیں ایک ہزار سے زائد روایات جس مسئلہ پر دلالت کرتی ہیں جس کے بارے میں قرآن مجید کی بہت سی آیات کی تفسیر کی گئی ہو آخر اس پر عقیدہ کیوں نہ ہو؟ اس کا ایمان وعقیدہ تو اور مستحکم ہونا چاہئے۔

بے شک! ہمارا عقیدہ ہے اور ہمیں یقین کامل ہے کہ ایک دن نظام کائنات کی مہار بشریت کی صالح ترین فرد کے دست حق پرست میںہوگی اور انسانیت ظلم وستم، فقروفاقہ اور ہر طرح کی بدامنی سے نجات حاصل کرلے گی، ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا ایک تابناک مستقبل، روحانی وعقلی ترقی وتکامل اور مستحکم دینی والٰہی نظام اور صلح وآشتی، پختگی اور خیرسگالی کی جانب گامزن ہے۔

ہم بے کراں شوق ونشاط اور زندہ دلی کے ساتھ اس نورانی دور کی تمنا میں ثبات قدم کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لئے مشغول ہیں اور شب نیمہ شعبان یعنی روز ولادت مصلح اعظم ومنجی بشریت کوعظیم عید سمجھتے ہیں اور ہر سال اس موقع پر چراغاں، جشن مسرت، محفل فضائل اور مدح وثنا کے گل نچھاور کرکے اس آستانہ کی غلامی کا اظہار کرتے ہیں جس کی پاسبانی ملائکہ کرتے ہیں اس طرح اپنے ایمان کے لئے نشاط تازہ کا سامان فراہم کرتے ہیں۔

ہم بارگاہ خداوندی میں دست بدعا ہیں کہ تمام شیعیان اہلبیت اور عشاق قائم آل محمد عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کو مذہبی شعائرکی تعظیم اور دینی وظائف پر عمل کرنے کی توفیق کرامت فرمائے۔

خداوند عالم ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ہمیں ان کے مددگاروں میں قرار دے آمین۔

ایک مصلح، دنیا جس کی منتظر ہے(۱)

جب دنیا سخت ترین اضطراب و بے چینی میں مبتلا ہوگی ہر طرف ظلم وتشدد کے شعلے بھڑک رہے ہوں گے انسانیت کے درمیان سے امن اوربرادری ناپید ہوچکی ہوگی اور سربراہان حکومت اصلاح اور بڑھتے ہوئے فساد کو روکنے سے عاجز ہوں گے، جنگ وجدال، قتل وغارتگری اور اختلافات کے باعث نسل انسانی خطرہ میں پڑ جائے گی، خطرناک ایجادات اور اجتماعی قتل کے اسلحے ترقی کی منزل پر ہوں گے انسانی اقدار دم توڑ چکی ہوں گی اورا ن کی جگہ اخلاقی برائیوں کا دور دورہ ہوگا، کمزور اور چھوٹے ممالک اوراقوام کی حمایت وحفاظت کے نام پر وجود میں آنے والے اداروںسے بھی ضعیف اور مظلوم اقوام مایوس ہوچکی ہوں گی۔

خلاصہ یہ کہ جب ہر طرح کی خباثت، فحشا وفساد اور منکرات کا رواج ہوگا اس وقت کے لئے ایک عظیم مصلح الٰہی کے ظہور کی بشارت مکمل کوائف وخصوصیات کے ساتھ معتبر کتب ومآخذ اور متواتر

روایات میں دی گئی ہے، جس وقت یہ عظیم مصلح الٰہی قیام کرے گا تو نظام کائنات کی اصلاح کرے گا

اوراس کے وجود سے کائنات کو ہر طرح کی بدبختی سے نجات حاصل ہوگی، یہ عظیم مصلح پیغمبر اسلام صلی اللہ

____________________

(۱)یہ مقالہ رسالہ مکتب اسلام کے شمارہ نمبر ۳ میں ص۶/۱۰پر شائع ہوا ہے ۔

علیہ و آلہ وسلم کی ذریت اور علی وفاطمہ زہراسلام اللہ علیہماکی اولاد سے ہوگا۔

بے شمار راویوں سے منقول مشہور ومعروف حدیث:

یملاٴ الارض قسطا وعدلا کما ملئت ظلما وجوراً “ کے مطابق وہ عظیم الشان مصلح، رو ئے زمین پر حق وعدالت کی حکومت کا پرچم لہرائے گا اور چھوٹے بڑے قصبوں، شہروں سے لے کر دیہاتوں تک دنیا کے چپہ چپہ پر نور اسلام جلوہ فگن ہوگا ہر جگہ قرآنی احکام نافذ ہوں گے،ذاتی اغراض ومنافع کی آلائش سے پاک الٰہی قوانین کی حکمرانی ہوگی ہر ادارہ خلق خدا کے آرام وآسائش اور فلاح وبہبود کے لئے کوشاں ہوگا،بہترین نظام کے تحت عملی واخلاقی کمالات کا سلسلہ شروع ہوگا اور اس طرح عمومی خوشحالی اور سطح زندگی کے معیار پر بہتری کے باعث روئے زمین پر کوئی فقیر نظر نہ آئے گا۔

یہ محض لفاظی یا خوش بیانی نہیں ہے بلکہ ان تمام جزئیات کے بارے میں فریقین نے مسلّم الثبوت روایات کا تذکرہ کیا ہے، جسکی تفصیلات ہم نے اپنی کتاب ”منتخب الاثر“ میں بیان کی ہیں۔

روایات کے مطالعہ سے ایسی پیشین گوئیاں بہت عجیب وغریب بلکہ بحد اعجاز نظرآتی ہیں کہ معصومین نے کئی صدی قبل ایسے حالات سے مطلع فرمایا ہے اس سے زیادہ باعث حیرت بات یہ ہے کہ صنعتی ترقی ہو یا اخلاقی انحطاط ہر میدان میں جو کچھ بھی رونما ہورہا ہے ”علائم ظہور“ کے عنوان سے ان تمام امور کا تذکرہ روایات میں موجود ہے۔

قرآن مجید کی متعدد آیات مثلا سورہ توبہ، سورہ صف یا سورہ انبیاء آیت ۱۰۵ ، سورہ نورآیت ۵۵ میں خدا کا یہ وعدہ ہے کہ دین اسلام عالمی دین ہوگا اور حضرت کے ظہور سے اس وعدہ کی تکمیل ہوگی،مصلح منتظر کے ظہور کی بشارت فریقین کی مسلم الثبوت اور قطعی روایات میں منقول ہے کہ پیغمبر اکرمنے فرمایا :

”کائنات کا خاتمہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک ”مہدی موعود“ کا ظہور نہ ہوجائے اگر اس کائنات کی عمر کا صرف ایک دن باقی ہوگا تو خداوندعالم اسی دن کو اتنا طولانی کردے گا کہ یہ عظیم مصلح اپنے ظہور کے ذریعہ ظلم وجور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دے“ ۔

حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے اوصاف وکمالات اور سیرت طیبہ، انداز ہدایت اور طرز حکومت، سے متعلق بھی بے شمار روایات وارد ہوئی ہیں۔ا سی طرح ابتدائے ولادت سے لیکر آپ کے امتیازات وخصوصیات، لوگوں کے ساتھ آپ کے برتاؤ، طول عمر، غیبت کے اسباب اور دور غیبت میں لوگوں کی ذمہ داریوں تک کے بارے میں روایات وارد ہوئی ہیں

اور ہزار سال سے زائد عرصہ سے بے شمار علماء ومحققین کی کتابوں کا محور ومرکز اور موضوع بحث قرار پائی ہیں، یہ مباحث اتنے وسیع ہوچکے ہیں کہ ان سب کا احاطہ اب کسی بھی محقق کے لئے ممکن نہیں ہے۔

راقم الحروف نے اپنی کتاب ”منتخب الاثر“ کی تالیف کے دوران مذکورہ بالا عناوین سے متعلق روایات تلاش کی ہیں ہم تمام روایات تک رسائی کے مدعی تو نہیں ہیں پھر بھی مذکورہ عناوین وموضوعات میں سے اکثر موضوعات سے متعلق روایات کا تواتر ثابت کرنے کی توفیق وسعادت حاصل ہوئی جسے قارئین کرام مذکورہ کتاب میں ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔

مقصود یہ ہے کہ جو شخص بھی شیعہ وسنی محدثین کی کتب یا جوامع حدیث کی ورق گردانی کرے یہ بات بہ آسانی اس کے علم میں آجائے گی کہ جس مقدار میں حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہسے متعلق احادیث موجود ہیں اس مقدار میں شائد ہی کسی موضوع سے متعلق روایات پائی جاتی ہوں

قطعی طور پر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کا اقرار کرنے کے بعد حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے ظہور کا انکار کرنا اور اس پر ایمان وعقیدہ نہ رکھنا ممکن نہیں ہے، فریقین کے محدثین کرام نے حضرت علیہ السلام کی ولادت سے قبل بھی اپنی کتب میں آپ سے متعلق روایات نقل کی ہیں جس کے بعد کسی بھی مسلمان کے لئے شک وشبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ۔

اس بشارت کے پورا ہونے کے لئے عالمی تغیرات، معاشرت کے موجودہ حالات اور مادی ترقی ان افراد کے لئے بھی امیدافزا ہے جو مسائل کو صرف ظاہری اسباب وعلل اور سطحی نگاہ سے دیکھنے کے قائل ہیں اوراس سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ آخرکار ایک دن انسانیت حکومت الٰہی کے زیر سایہ پناہ حاصل کرے گی۔

انسان نے اگرچہ قدر تی قوتوں کو مسخر کرلیا ہے اور اس بات کا مدعی ہے کہ ایک گھنٹہ سے بھی کم مدت میں روئے زمین کے تمام جانداروں کو موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے لیکن اخلاق ومعنویات سے روگرداں اور گریزاں ہے اور اپنی خواہش کی تکمیل اور اپنے اقتدار پسند عزائم کو پورا کرنے کی کسی بھی کوشش سے باز نہیں آتا اور ہاتھ پیر مارتا رہتا ہے ایسے میں کیا یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ انسان آرام سے بیٹھا رہے گا اور جنگ سے پرہیز کرے گا۔

کیا یہی چیزیں اس بات کا سبب نہیں ہوں گی کہ انسانیت کو عالمی انقلاب اور مختلف کوششوں کے باوجود اخلاق وتمدن کی نابودی کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہ ہو، خدا اور قیامت کے ایمان کی بنیاد پر انسانیت دونوں ہاتھ پھیلا کر عادل پیشوا کی حکومت کا استقبال کرے۔

ہم ہی نہیں ہر مسلمان اس دن کا انتظار کررہا ہے، ہمیں انسانیت کا مستقبل روشن وتابناک نظرآتا ہے اس لئے نشاط وامید سے لبریز جذبہ کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں کوشاں رہتے ہیںہم بشریت کے آخری نجات دہندہ کی ولادت باسعادت کے پرمسرت موقع پر عالم انسانیت خصوصاً ان حضرات کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتے ہیں جو مادیت کی تاریکی، ظالموں کے ظلم وستم اور تباہی وفساد سے جاں بلب ہیں۔

اللهم عجّل فرجه وسهل مخرجه واجعلنا من انصاره واعوانه

خدایا !امام زمانہ (عج)کے ظہور میں تعجیل فرما اور ہم کو ان کے ناصراور مدد گاروںمیں قرار دے(آمین)

عالمی اسلامی معاشرہ(۱)

تمام مسلمانوں کایہ عقیدہ ہے کہ قرآن مجید کی آیتوں اورپیغمبر اکرم کی حدیثوں میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ کا پیغام اور آپ کی رسالت کوئی خصوصی دین اور علاقائی یاملکی سطح کی نبوت و رسالت نہیں تھی کہ جس سے صرف ایک سماج اور معاشرہ یا کسی خاص قوم و ملت یا علاقہ کی ہدایت و رہبری مقصود ہو اور اسلامی قوانین اور قرآنی احکام کسی ایک سماج یا معین ملک علاقہ یا کسی قوم و قبیلہ سے مخصوص نہیں ہیں ۔

عمومی تبلیغ

بلکہ اسلام کا پیغام پوری دنیا کے لئے ہے اور اسکے قوانین سب لوگوں کے واسطے ہیں اور وہ تمام مردوں،عورتوں ،مالدار ،فقیر ،کالے ،گورے،شہری یا دیہاتی بلکہ ہر طبقہ اور ہر صنف کے لئے ہدایت ہے(۲)

پیغمبر اسلام پوری کائنات کے لئے رحمت اور تمام عالمین کے لئے نبی بنا کر بھیجے گئے

____________________

(۱)یہ مقالہ مسجد اعظم کے کتب خانہ کے رسالہ میں شائع ہوا تھا ملاحظہ فرمائیے جلد ۲ شمارہ ۱۱۔

(۲)قرآن کریم کی وہ متعدد آیتیں ملاحظہ فرمائیں جن میں پیغمبر اکرم کی رسالت کے عام ہونے کی صراحت موجود ہے جیسے:وما اٴرسلنٰک الا رحمة للعالمین ان هو الا ذکر للعالمین قل یا ایهاالناس اني رسول الله الیکم جمیعا ً مَن یبتغ غیر الاسلام دیناً فلن یقبل منه ۔

تھے ان کی رسالت تمام لوگوں کو بری عادتوں اور استعمار وطاغوت کی غلامی سے نجات دلانے ، توحید پر ایمان اور اخلاقی اقدارنیز انسانی حقوق کو ادا کرنے کی دعوت دینے کے لئے تھی ۔

ایک خدا کی عباد ت کی طرف دعوت دینا اور اس حسِین انداز سے تمام لوگوں کی ہدایت کرنا جس سے انکے اندر اتحاد کی فضا قائم ہو جائے ۔ ہر قسم کے فاصلے مٹ جائیں اور دوسروں پر ناحق کسی کو ترجیح دینے کا خاتمہ ہو سکے اور ایک عالمی سماج ، برادری اور ہر لحاظ سے نمونہ عمل شہر یا بستی کے قیام کے لئے کوشش کرنا یہ صرف اسلام کا ہی امتیاز ہے ۔

تمام اختلافات کی بنیاد در اصل خدائے وحدہ لاشریک سے منھ موڑنا اور غیر خدا کی عبادت کرنا ہے ۔

مختلف بنیادوں پر حکومتوں کا قیام اور انکے متضاد اور متصادم نظام اور ایک دوسرے کے مخالف قوانین یہ سب توحید کے معنی سے نا واقفیت ،خاص ماحول میں پرورش اور محدود ذہنیت کی بنیاد پر ہیں، اسلام کی عالمی رسالت کے فلسفہ پر توجہ اور عقیدہ توحید سے یہ بصیرت اور طہارت نظر پیدا ہوتی ہے کہ وہ سرحدوں اورزبانوں اور ہر طرح کے ضخیم پردوں کے پیچھے سے دنیا کے تمام علاقوں اور تمام لوگوں کو ایک انداز سے دیکھ لے اور اسلام کی اعلیٰ تعلیمات کے سائے میں ایک عالمی حکومت قائم ہو جائے ۔

حقیقی توحید

اسلامی تبلیغ اور پیغام کا ایک اہم ستون، جس پر فلسفہ نبوت کا بھی دارو مدار ہے، وہ یہ ہے کہ ہر شریعت کا سرچشمہ اور تمام قوانین اور ہر طرح کے نظام کو بنانے والا، صرف خدا وند متعال ہی ہے، شریعتوں کے قوانین اور احکام سب اسی کی لازوال اور عالم و حکیم ذات سے تعلق رکھتے ہیں اور لوگوں کو صر ف احکام خدا کے سامنے سرتسلیم خم کر نا چاہے

اورخدا کے علاوہ کسی دوسرے کے احکام کے آگے یا غیر اسلامی قوانین کے سامنے سر جھکانے کا مطلب اسلام کے راستہ سے انحراف ،شرک کی طرف توجہ اور حقیقی توحیدتک نہ پہنچنا ہے(۱)

احکام خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرنا در حقیقت خدا کے سامنے سر جھکانا اور اس کی عبادت کرنا ہے اور جن حکومتوں اور قوانین کا خدا سے کوئی تعلق نہیں ہے ان کی پابندی کر نا غیر خدا کی عبادت اور ان کی غلامی کو قبول کرنا ہے ۔

جو شخص قانون اور احکام بنانے کو اپنا حق بھی سمجھتا ہو وہ خدا کے مخصوص افعال میں اپنے کو شریک قرار دیتا ہے اور جو شخص کسی دوسرے کے لئے ایسے حق کا اعتراف کرے تو اس نے اسکے خدا ہونے کا اقرارکیا ہے اور اس کی بندگی کو قبول کیا ہے ۔

الٰہی حکومت

اسلام یہ چاہتا ہے کہ لوگوں کے اوپر صرف خدا اور احکام خدا کی حکومت رہے، اسی لئے اس نے اس دور میںشرک کی ان تمام قسموں کا مقابلہ کیا جو اُس وقت ایران،روم یا دوسرے علاقوں میں بادشاہوں کے احترام کے نام یا کسی اور دوسری شکل میں رائج تھیں ۔

رہبران اسلام جیسے حضرت علی نے ہر ایک کے لئے یہ واضح کر دیا کہ دور جاہلیت میں روم اور ایران کے اندر جس شاہی ٹھاٹ باٹ کا چلن تھا وہ سب خدا پرستی کی روح کے سراسر مخالف اور مقام انسانیت کی توہین ہے ، حضرت علی علیہ السلام جیساخلیفہ مسلمین جنکی ذات اور شخصیت کا ہر پہلو انسانیت کی

____________________

(۱)موجودہ دور کے ایک بڑے دانشمند نے اپنی کتاب میں قرآن مجید کی چند آیتیں ذکر کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالاہے کہ دین ،قوانین، حدود ،شریعت اور فکری و عملی نظام کا نام ہے۔لہٰذا اگر کسی شخص کے پاس قوانین و حدود کی پابندی کے وقت کوئی خدا ئی دلیل ہو تو وہ دین خدا کے دائرہ میں ہے لیکن اگر اسکے سامنے کسی شخص یا حاکم کا حکم معیار ہو تو اسے اسی کا پیرو کہا جائے گا اسی طرح اگر وہ کسی قبیلے کے سردار یا عوام الناس کی رائے کے ماتحت چلے تو اسے انہیں کے دین کا پابند قرار دیا جائے گا۔

عظمت کی علامت ہے وہ بنفس نفیس بہت سارے کام خود کیا کرتے تھے غریبوں کے لئے آٹا، روٹی یا کھجور لے جاتے تھے اور اگر لوگ زمانہ جاہلیت کی رسموں کے مطابق آپ کے احترام یا آپ کے اعزاز میں کوئی خاص اہتمام کرنا چاہتے تھے تو آپ ان کو سختی سے منع کر دیتے تھے پرانے اور پیوند لگے ہوئے کپڑوں میں ہر جگہ آتے جاتے تھے خود ہی بازار جاتے تھے اور وہاں سے گھر کا لازمی سامان خرید کر خود ہی اپنے گھر پہنچاتے تھے ۔

اولیائے خدا کا یہ اہتمام صرف اس لئے تھا تاکہ کوئی بھی اپنے کو کسی قوم کا حاکم اور لوگوں کی زندگی کا مالک و مختار نہ سمجھے بلکہ سب خدائی حکومت اور اسکے احکام کے دائرہ کے اندر رہیں اور تمام لوگوں کا حاکم اور ہا دی صرف خدا ہی ہو ۔

آزادی بشر کا اعلان

یہ آیہ کریمہ:( قل یا اٴهل الکتاب تعالوا الی کلمة سواء بیننا و بینکم ان لا نعبد الا اللّٰه ولا نشرک به شیئاً ولا یتخذ بعضنا بعضا ً اٴرباباً من دون اللّٰه ) (۱)

”اے پیغمبر آپ کہہ دیں کہ اہل کتاب آو ایک منصفانہ کلمہ پر اتفاق کرلیں کہ خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں کسی کو اسکا شریک نہ بنائیں اور خدا کے علاوہ آپس میں ایک دوسرے کو خدائی کا درجہ نہ دیں “

یہ ہر طرح کی آزادی اور حریت کا اعلان ہے کہ خدا کے علاوہ کسی کا کوئی مالک اور صاحب اختیار نہیں ہے، کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ پوری قوم کو اپنی ملکیت سمجھ بیٹھے لہٰذا سب کو خدا کی حکومت کے دائرے میں داخل ہونا چاہئے کیونکہ وہی ہر ایک کا مالک و مختار ہے ۔ اس طرح پوری دنیا میں عدل و انصاف احسان ومساوات اور بھائی چارگی کا رواج پیدا ہو جائے اور ہر قسم کی اونچ نیچ

____________________

(۱)سورہ آل عمران آیت۶۴

اور دوریاں ختم ہو جائیں ۔

تیز رفتار ترقی

انہیں اصولوں کی وجہ سے اسلام نے ایک صدی سے کم مدت کے اندر برق رفتاری کے ساتھ ترقی کی، دل روشن و منور ہو گئے اور رومی و ایرانی قوموں نے اپنے حاکموں کے ظلم و بربریت کا جو تلخ مزہ چکھ رکھا تھا اوروہ ان کی کھو کھلی اور بے بنیاد عزت و احترام سے تنگ آچکے تھے، انسان پرستی کی وبا نے ان کو شقاوت و بد بختی کیبد ترین وادیوں میں ڈال رکھا تھا، وہ سب ان تعلیمات کے صدقہ میں جب بیدار ہو گئے(۱) تو انہیں ہوش آیا اور انہوں نے اپنے کو پہچانا ،چنانچہ جب وہ لوگ عوام اور رعایا کے ساتھ یا فوجیوں کے ساتھ اسلامی حاکموں کا اچھا برتاو دیکھتے تھے توانھیںبڑی خوشی ہوتی تھی، وہ اطمینان کی سانس لیتے تھے، انھوں نے آزادی کا ایسا مزہ چکھا کہ ایک دم اسلام کے دلدادہ اور عاشق ہو گئے،اگر خلافت اپنے راستے سے نہ بھٹکی ہوتی، خاص طور سے معاویہ جیسے لوگوں کی حکومت نے اگرقیصر وکسریٰ کے ٹھاٹ باٹ کو دوبارہ زندہ نہ کیا ہوتا، تو دنیا میں انسان پرستی کا کہیں نام و نشان بھی نہ ملتا ۔

مختصر یہ کہ اسلام اپنی ان تعلیمات کے ساتھ ایک نہ ایک دن پوری دنیا میں ایک عادلانہ

____________________

(۱)ہماری نظر میں انسان پرستی کا نقصان بت پرستی سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ انسان دوسروں کے ذریعہ احترام اورانکی تواضع و انکساری اور چاپلوسی کی وجہ سے مغرور ہو جاتا ہے اور اسکے اندر اس حد تک تکبر اور خود سری پیدا ہو جاتی ہے کہ دوسروں کی تنقیدوں یا مشوروں سے اس کی پیشانی پر بل پڑ جاتے ہیں اور وہ فرعونیت کا اظہار کرنے لگتا ہے اور اگر لوگ اس کی پوجا کریں یا اسکے سامنے سر تسلیم خم کئے رہیں تووہ اس سے لطف اندوز ہوتا ہے لیکن بت پرستی میں یہ نقصانات موجود نہیں ہےں یہ واقعاً بڑے ہی افسوس کا مقام ہے کہ موجودہ دور کی موڈرن کہی جانے والی دنیا میں بھی یہ انسان پرستی نئی یا پرانی شکلوں میں آج بھی باقی ہے۔

حکومت قائم کرے گا کیونکہ اسکاپیغام دنیا کے ہر انسان کے لئے ہے اور اس کی نظر میں ہر کالا گورا خدا کے احکام کے سامنے برابر ہے ۔

اسلامی پرچم

دین حق تمام انسانوں کو صرف ایک پرچم تلے جمع کرتا ہے جسکا تعلق صرف خدا سے ہے اور کسی ملک ،حکومت ،قوم، قبیلے یا کسی شخص سے اس کی کوئی نسبت نہیں ہے اور اس طرح وہ پورے انسانی سماج کو ایک جسم کی طرح ایسا بنا دیتا ہے کہ:

اذا اشتکیٰ منہ عضو تداعیٰ لہ سائرُہ بالحُمّیٰ والسھر

یعنی جب کسی عضو میں کوئی درد پید ا ہوتا ہے تو دودسرے تمام اعضاء بھی بخار یا بیداری کے ذریعہ اسکے درد میں شریک ہو جاتے ہیں ۔

اسلام کے اس پر چم اورجھنڈے کی یہ خاصیت ہے کہ اسکے نیچے دنیا کے ہرملک اور ہر طرح کے لوگ ایک ساتھ جمع ہو سکتے ہیں اور کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اسے اپنی یا اپنی قوم ا ور قبیلے کی طرف نسبت دے سکے کہ جس کے نتیجے میں ایک دوسرے سے تعصب پیدا ہو جائے ۔

اسلامی پرچم ایک ایسا پرچم ہے جس سے ہر پرانے اور نئے مسلمان کا رابطہ ہے، چاہے وہ کہیں رہتا ہواور اسکا تعلق کسی بھی سرزمین سے ہو، مختصر یہ کہ اسکے سائے میں ہر قسم کے قومی اور نسلی تعصب کا خاتمہ ہوتا ہے، لیکن دوسرے تمام پرچم چاہے وہ کسی نام سے ہوں ، اختلاف ،جدائی اور ذاتیات کی پہچان ہیں ۔

اسلام کا ہر قانون سب کے لئے یکساں ہے، اگر اس کی ان تعلیمات پر عمل کیا جائے تو وہ خود بخود تمام قوموں کو ایک عالمی برادری کی طرف لے جائے گا اور تمام قوموں کو ایک اسلامی قوم کے اندر ضم کرکے انہیں دونوں جہان میں سعادت مند بنا دے گا ۔

عالمی متحدہ حکومت

مختصر یہ کہ اسلام دنیا کے تمام انسانوں اور ہر معاشرے کا قانون ہے لیکن اس معنی میں وہ عالمی حکومت نہیں کہ جو”لاینس پالینک“ یا دوسرے مفکرین کا نظریہ ہے کہ وہ عالمی متحدہ حکومت کا نعرہ لگاتے ہیں اور عالمی متحدہ حکومت کا طرفداررسالہ انکے افکار کو نشر کرتا رہتا ہے کیونکہ اگر بالفرض دنیا میں ایک دن ایسی حکومت قائم بھی ہو گئی تو وہ بھی ایسی ہی ہوگی جیسے پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ ( U.N.O )کے نام پر عالمی حکومت بنائی گئی اور جیسا کہ اس نظرئے کے مخالفین مثلاً ”اسٹراوس“ کا کہنا ہے کہ اس سے درد سری پیدا ہو گی اور لوگوں کی آزادی چھن جائے گی طاقتور کمزوروں پر مسلط ہو جائیں گے یا متحدہ عالمی حکومت کے مخالفین کے بقول اس دنیا میں موڈرن قسم کے مظالم کا راستہ کھل جائے گا کیونکہ انہوں نے جس متحدہ حکومت کا نظریہ پیش کیا ہے اسکا خدا اور توحید پر ایمان یا ایسے عقیدے سے کوئی تعلق نہیں ہے جو سب کے لئے یکساں طور پر قابل قبول ہو اور اسکا دارو مدار ایک دوسرے کے حقوق یا تمام لوگوں کی آزادی کے اوپر نہیں ہے ۔

یہ لوگ جس حکومت کا نظریہ پیش کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر پوری دنیا میں ایک متحدہ حکومت نہ ہو تو ایٹم بم جیسے مہلک اسلحوں کی دوڑ ایک نہ ایک دن پوری انسانیت کو نیست و نابود کر کے رکھ دے گی لہٰذا اس سے بچاو کے لئے ابھی سے دنیا کی تمام قوموں کو قانونی طور پر ایک عالمی سماج اور معاشرے کی بنیاد ڈالنا چاہئے ۔

ایسی کوئی حکومت وجود میں نہیں آسکتی اور بالفرض وجود میں آبھی جائے تو اسکے نفاذ کی کوئی ضمانت نہیں لی جا سکتی اور نہ ہی وہ لوگوں کی خواہشات اور جذبات پر قابو پاکر ان کی رہنمائی کر سکتی ہے اور نہ ہی اس سے دنیا میں ایک ایمانی اور انسانی برادری قائم ہو سکتی ہے۔

ایمانی برادری

لیکن اسلام جو کچھ بھی کہتا ہے اس کے مطابق اسکے نفاذ کی یقینی ضمانت موجود ہے اور ایمان و عقیدے سے اس کی پشت پناہی ہوتی ہے اور وہ لوگوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیتا ہے نیزان کی خواہشات اور جذبات کوصحیح رخ پر لگاتا ہے ۔

جیسا کہ صدر اسلام میں اسکا عملی نمونہ سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور آج بھی اسلامی ملکوں کی حد بندیوں کے باوجود کروڑوں مسلمان اپنے کو ایک ہی اسلامی معاشرے کا حصہ سمجھتے ہیں ، انکے اندر ایک دوسرے کے بارے میں یکساں طور پر بھائی چارگی کا احساس پایا جاتا ہے اور وہ لوگ ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں شریک رہنا چاہتے ہیں ۔

دنیا کے موجودہ یا اسلام سے پہلے کے ہر چھوٹے بڑے سماج اور معاشرہ کے مقابلہ میں اسلامی سماج اور معاشرہ کا امتیاز یہی ہے کہ اس معاشرے میں ہر چیز کی بنیاد اور اس کا مرکز خدا کی ذات اور اسکے احکام وتعلیمات ہی ہیں اور اسلام کے تعلیمات اس عالمی معاشرے کا نظم و نسق چلانے کے لئے ہر لحاظ اور ہراعتبار سے کافی ہیں ۔

ایمان کا کردار

اس عقیدہ کا مرکزی نقطہ اور بنیادی قلعہ عقیدہ توحید اور وحدہ لاشریک خدا پر ایمان رکھنا ہے، جو سب کا خالق اور رازق ہے اور جوشخص جتنا بڑا متقی ہوگا وہ اس سے اتنا ہی قریب ہوتا جائے گا، اس اسلامی معاشرے کا ایک حقیقی اور واقعی محور ہے جو کسی ایک شخص سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس سے ہر ایک کا رابطہ ہے جبکہ ”لاینس پالینک“ اور اس کے ساتھیوں کے عالمی معاشرے کی کوئی بنیاد اور مرکز نہیں ہے بلکہ انکے یہاں اس کی اصل وجہ سب کو جلا کر رکھ دینے والی عالمی جنگ کا خوف اور اس کی دہشت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔

اسلام عقیدہ توحید کے ذریعہ لوگوں کے انداز فکر کو تبدیل کرکے انکی فکروں کی سطح کو بلند کرتا ہے اور لوگوں کی سوجھ بوجھ اور وسعت نظر میں اضافہ کر دیتا ہے تاکہ وہ لوگ کسی جنگ یا مہلک اسلحوں کی وحشت اور خوف کے بغیر ایک دوسرے سے نزدیک ہو سکیں اور کسی بھی مسئلے کے بارے میں انکے درمیان بآسانی مفاہمت پیدا ہو سکے ۔

ہمیں اس بات کا مکمل یقین ہے کہ اسلام کی یہ عالمی حکومت ایک دن پوری دنیا کے نظم و نسق کو بخوبی چلائے گی اور تمام مذاہب ،تمام حکومتوں اورقوانین کی وحدت عملی شکل اختیار کرکے رہے گی اور جب تک دنیا میں یہ وحدت پیدا نہ ہوگی اسلام کے پیغام کا حق بخوبی ادا نہیں ہو سکتا ہے ۔

یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ دنیا میں اس اتحاد کے طرفدارو ں کی تعداد میں ہر دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ ایک عالمی حکومت کے قیام کی فکر سامنے آنے کی وجہ سے ہی عالمی اداروں کی بنیاد پڑی اگر چہ ایسے ادارے لوگوں کو دھوکہ میں رکھکر ان سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے ہی بنائے گئے ہیں لیکن اسکے با وجود یہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایک بین الاقوامی دینی ،سیاسی اور سماجی اتحاد، انسانی فطرت اور اس کی روح کی آواز ہے اور یہی مجازی تحریکیں در حقیقت بشریت کی جانب سے اسلام کی عالمی حکومت کی تیاریوں کی علامت ہے۔

اگر چہ اس مضمون میں ان باتوں کی تفصیل بیان کرنا ممکن نہیں ہے لہٰذا اپنے محترم قارئین کی مزید توجہ کے لئے ان چار عنوانات: ۱ ۔آیات قرآن، ۲ ۔اجماع واتفاق مسلمین، ۳ ۔روایات اہل سنت، ۴ ۔روایات شیعہ، کے ذیل میں ہم ان کی مختصر وضاحت پیش کریں گے۔

۱ ۔قرآن مجید کی آیتیں

خدا وند عالم نے قرآن مجید کی متعدد آیتوں میں ان باتوں کا وعدہ فرمایا ہے کہ پوری دنیا میں ایک اسلامی حکومت قائم ہوگی، دین اسلام ہر طرف پھیل جائے گا اور تما م مذاہب پر اس کا غلبہ ہوگا، (صالح اور لائق حضرات حکومت کریں گے) ان میں سے بعض آیتیں یہ ہیں:

( و قاتلوهم حتیٰ لا تکون فتنة و یکون الدین کله للّٰه ) (۱)

اور تم لوگ ان کفار سے جہاد کرو یہاں تک کہ فتنہ کا وجود نہ رہ جائے اور سارا دین صرف اللہ کے لئے رہ جائے۔

( هو الذی ارسل رسوله بالهدیٰ و دین الحق لیظهره علی الدین کله ) (۲)

وہ خدا جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب کردے۔

( یریدون ان یطفئوا نور اللّٰه باٴفواههم و یاٴبیٰ اللّٰه الا ان یُتمّ نوره ) (۳)

یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنے منھ سے پھونک مار کر بجھا دیں حالانکہ خدا اسکے علاوہ کچھ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ وہ اپنے نور کو تمام(اور کامل) کر دے۔

____________________

(۱)سورہ انفال آیت۳۹۔

(۲)سورہ توبہ آیت۳۳ وسورہ فتح آیت ۲۸۔

(۳)سورہ توبہ آیت۳۲۔

( یریدون لیطفئوا نور اللّٰه باٴفواههم واللّٰه مُتمّ نوره ) (۱)

یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے۔

( و یرید الله ان یُحق الحق بکلماته و یقطع دابر الکافرین ) (۲)

اور اللہ اپنے کلمات کے ذریعہ حق کو ثابت کرنا چاہتا ہے اور کفار کے سلسلہ کو قطع کردینا چاہتا ہے۔

( و قل جاء الحق و زهق الباطل ان الباطل کان زهوقا ) (۳)

اور کہہ دیجئے کہ حق آگیا اور باطل فنا ہو گیا کہ باطل بہر حال فنا ہونے والاہے۔

( ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثها عباديالصالحون ) (۴)

اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میںبھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہونگے۔

( و عد اللّٰه الذین آمنوا منکم و عملوا الصالحات لیستخلفنّهم فی الارض ) (۵)

اللہ نے تم میں سے صاحبان ایمان اور عمل صالح بجالانے والوںسے وعدہ کیا ہے کہ انہیں زمین میں اس طرح اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایاہے۔

( ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین انهم لهم المنصورون و ان جندنا لهم الغالبون ) (۶)

اور ہمارے پیغامبربندوں سے ہماری بات پہلے ہی طے ہو چکی ہے کہ انکی مدد بہرحال کی جائیگی اور ہمارا لشکر بہر حال غالب آنے والا ہے۔

( انّا لننصر رسلنا والذین آمنوا فی الحیاة الدنیا ) (۷)

بیشک ہم اپنے رسول اور ایمان لانے والوں کی زندگانی دنیامیں بھی مدد کرتے ہیں۔

____________________

(۱)سورہ صف آیت۸۔

(۲)سورہ انفال آیت۷۔

(۳)سورہ اسراء آیت۸۱۔

(۴)سورہ انبیاء آیت۱۰۵۔

(۵)سورہ نور آیت۵۵۔ (۶)سورہ صافات آیت۱۷۱۔۱۷۳۔

(۷)سورہ غافر آیت۵۱۔

( کتب الله لا غلبن اناورسلی ان الله قويّ عزیز ) (۱)

اللہ نے یہ لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب آنے والے ہیں بے شک اللہ صاحب قوت اور صاحب عزت ہے

انکے علاوہ دوسری آیتیں بھی ہیں جنکی تاویل حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے ظہور کے وقت سامنے آئے گی وہ سب بھی اس بات کی دلیل ہیں کہ اسلام تمام مذاہب پر غالب آجائے گا اور اہل حق، باطل پرستوں پر غلبہ حاصل کر لیں گے یاانبیائے الٰہی کا تسلط اور نور خدا کا تمام و کامل ہونا حتمی ہے ،ان سب آیتوں کے معنی ابھی مکمل طریقے سے ظاہر نہیں ہوئے ہیں اور یہ آیتیں آخری زمانے میں انکے عملی ہونے کی بشارت دے رہی ہیں ۔

خدا وند عالم نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنے پیغمبروں کی ضرور مدد کرے گا اور ان کو غلبہ عطا کرے گا اور یہ طے ہے کہ اس غلبہ اور مدد کا تعلق صرف آخرت ہی سے نہیں ہے کیونکہ اس نے خود ارشاد فرمایا ہے:

( فی الحیاة الدنیا )

دنیاوی زندگی میں۔

دوسرے یہ کہ اس سے یہ مراد بھی نہیں ہے کہ انبیاء کرام اپنی اقوام کے اوپر اپنے زمانہ میں غلبہ حاصل کر لیں گے اور انکے مشن کو ترقی ہوگی کیونکہ بہت سارے انبیاء کی تبلیغ کا ان کی قوم پر کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ بہت سے انبیاء کو قتل بھی کر دیا گیا ۔

اس مدد اور غلبہ سے انکے مقصد اور پیغام کی مدد اور اسکا غلبہ مراد ہے اور ان آیتوں سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نصرت کسی خاص رتبہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس سے ہر طرح کی(مطلق) نصرت مراد ہے ۔

یہی نور کو تمام کرنے کے معنی بھی ہیں کہ جو لوگ خدا کے نور کو بجھانا چاہیں گے اور اسلام کی

____________________

(۱)سورہ مجادلہ آیت۲۱۔

پیشرفت میں رکاوٹ پیدا کریں گے انکے مقابلہ میں خدا وند عالم اپنے نور کو کامل کر دے گا اسکے معنی بھی یہی ہیں کہ خدا وند عالم دین کو ترقی عطا کرے گا اسلام کی سرحدیں بڑھتی چلی جائیں گی اور یہ نور اس وقت مکمل ہوگا جب اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے گا ۔

زمین پر مومنین کی جا نشینی اور اس پر ان کے وارث ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ پوری زمین کے مالک و مختار بن جائیں گے بلکہ یہ موقع صرف امام زمانہ اور ان کے ساتھیوں کو ملے گا۔

باطل کے اوپر ہر لحاظ سے حق کے غلبہ کے بھی یہی معنی ہیں کہ ہر اعتبار سے حق، باطل پر کامیاب و کامران ہو جائے گا اور اگر یہ کہا جائے کہ حجت و برہان کے ذریعہ غالب ہوگا اور ظاہر میں غالب نہ ہوگا تو اسے ہر لحاظ سے غلبہ نہیں کہا جائے گا جبکہ ان آیتوں سے ہر طرح کا تسلط سمجھ میں آتا ہے۔

لیکن یہ آیت:

( لیظهره علی الدین کله )

تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بنا دے۔

اسلام کے غالب ہو جانے کے بارے میں واضح دلیل ہے۔

ان آیتوں کی تائید اُن روایتوں سے بھی ہوتی ہے جو رسول اکرم سے اس سلسلہ میں نقل ہوئی ہیں جیسے آپ نے فرمایا:

( لیدخلن هذا الدین علی مَن دخل علیه اللیل )

جہاں کہیں بھی رات داخل ہوتی ہے یہ دین وہاں ضرورپہنچے گا۔

اس حدیث میں آپ نے”علی ما دخل علیہ اللیل “فرمایا ہے اور ”علی ما دخل علیہ الیوم او الشمس“نہیں فرمایا اسکا راز شائد یہ ہو کہ اسمیں دین کو سورج سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ جہاں رات ہوتی ہے وہاں سورج ضرور پہنچتا ہے اسی طرح اسلام کے روشن و منور سورج کی کرنیں پوری دنیا میں پھیل جائےں گی اور کفر و ضلالت کی تاریکی کا اسی طرح خاتمہ ہو جائے گا جس طرح سورج ،رات کا خاتمہ کر دیتا ہے۔

۲ ۔اجماع مسلمین

اگر اس اجماع اور اتفاق سے شیعوں کا اجماع مرادہو تو یہ بالکل واضح ہے اور اسے سب ہی جانتے ہیں کہ امام حسن عسکری کے فرزند دلبند حضرت قائم آل محمدکا ظہور شیعہ اثنا عشری مذہب کا اہم حصہ ہے اور اگر اس سے تمام مسلمانوں کا اتفاق مراد ہو تو اسکے ثابت کرنے کے لئے اہل سنت کے ایک صاحب نظر اور نکتہ سنج عالم، معتزلیوں کے علامہ ابن الحدید کا یہی ایک جملہ کافی ہے جو انہوں نے شرح نہج البلاغہ (مطبوعہ مصر ج ۲ ص ۵۳۵) میں تحریرکیا ہے :

قد وقع اتفاق الفریقین من المسلمین اجمعین علی ان الدنیا والتکلیف لا ینقضی الا علیه

”دونوں فرقوںسنّی اور شیعہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دنیا اور تکلیف شرعی کاخاتمہ نہ ہوگا مگر حضرت پر “یعنی آپ کے ظہور کے بعد۔

اہل سنت کے اور چار معروف علماء کے اقوال کیونکہ آئندہ مضمون میں نقل کئے گئے ہیں لہٰذا انہیں اس مقام پر ذکر نہیں کیا جا رہا ہے انھیں وہیں ملاحظہ فرمائیے۔

جو لوگ تاریخ پر نظر رکھتے ہیں انہیں بخوبی معلوم ہے کہ مصلح منتظر مہدی آل محمد علیہ الصلاة والسلام کے ظہور کے بارے میں تمام مسلمانوں کے درمیان اس حد تک اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ پہلی صدی ہجری سے اب تک جس نے بھی مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے یا جس کی طرف اس دعوے کی نسبت دی گئی ہے سب نے اس کی کھل کر مخالفت کی ہے لیکن خود مسئلہ ظہور کی مخالفت کسی نے نہیں کی کیونکہ یہ بات مسلمانوں کے اجماع اور پیغمبر اکرم کی صریحی روایات کے خلاف تھی بلکہ وہ ان کی مخالفت اور ابطال کے لئے یہ طریقہ اپناتے تھے کہ روایات میں حضرت مہدی کے ظہور سے متعلق جن علامتوں اور نشانیوں کا تذکرہ ہے چونکہ ان مدعیوں کے یہاں ان میں سے کوئی علامت نہیں پائی جاتی ہے لہٰذا یہ لوگ جھوٹے ہیں۔

اہل سنت کے چاروں مذاہب کے چار بزرگ علماء یعنی ابن حجرشافعی، ابو السرور احمد بن ضیاء حنفی،محمد بن احمد مالکی،یحییٰ بن محمد حنبلی سے جب اس سلسلہ میں سوال کیا گیا تو انہوں نے اسکا اسی اندازمیں جواب دیا جسکی تفصیل کتاب ”البرہان فی علامات مہدی آخر الزمان “ باب ۱۳ پر انکے فتووں کے ساتھ نقل ہوئی ہے انھوں نے مسئلہ ظہور مہدی کوثابت کرنے کے ساتھ آپ کی بعض خصوصیات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے یعنی وہ دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دینگے یا حضرت عیسیٰ آپ کی اقتدا کریں گے یا آپ کے دوسرے اوصاف بیان کئے ہیں مختصر یہ کہ یہ ان کا مدلّل، دوٹوک اور قانونی فتویٰ ہے حتیٰ کہ جناب زید کی طرف مہدویت کی جو غلط نسبت دی گئی تھی اس سلسلہ میں بنی امیہ کے شاعر حکیم بن عیاش کلبی نے یوں کہا ہے:

ولم ا ر مهد یا علی ا لجذع یصلب (۱)

مجھے کوئی ایسا مہدی نہیں دکھائی دیا جسے سولی دی گئی ہو۔

اس سے اس کی مراد یہ ہے کہ مہدی جب ظہور کرینگے تو تمام ممالک کو فتح کرینگے اور پوری دنیا میں صرف انہیں کی حکومت ہوگی ، ہر جگہ عدل و انصاف کا رواج ہوگا تو پھر جناب زید جنہیں سولی پر لٹکایا گیا وہ کس طرح مہدی ہو سکتے ہیں؟

۳ ۔احادیث اہل سنت

اہل سنت کے بڑے بڑے محدثین جنکے نام اور ان کی کتابوں کی تفصیل اس مقالہ میں اختصار کی بنا پر ذکر کرنا ممکن نہیں ہے انہوں نے حضرت مہدی کے بارے میں صحابہ کے علاوہ بہت

____________________

(۱)ابن حجر عسقلانی شافعی نے اپنی کتاب ”الاصابہ ج۱ ،ص۳۹۵ پر” فوائد کواکبی“ سے جو روایت نقل کی ہے اسکے مطابق، یہ حکیم بن عیاش ،امام جعفر صادق کی بد دعا کی وجہ سے بہت ہی عبرتناک حالت میں ہلاک ہوا تھا۔

سے تابعین سے بھی کثرت کے ساتھ روایتیں نقل کی ہیں اور بعض حضرات نے تو اس سلسلہ میں مستقل کتاب بھی تالیف کی ہے جبکہ بہت سے لوگوں نے ان روایتوں کے متواتر(۱) ہونے کی تصریح کی ہے اور ان حضرات کی تحریروں میں اس بات کی تاکید موجود ہے ۔

اس مقالہ کے بعض حصے جیسے صحابہ کے نام یا جن علمائے اہل سنت نے اس سلسلہ میں کتابیں لکھی ہیں یا جن لوگوں نے روایتوں کے متواتر ہونے کی صراحت کی ہے ان سب کے نام چونکہ اسی کتاب میں آئندہ ذکر کئے جائیں گے لہٰذا انہیں یہاں حذف کیا جا رہا ہے ۔

خلاصہ یہ کہ : پیغمبر اکرم کی متواتر روایات سے صرف مسئلہ ظہور مہدی ہی حتمی اور قطعی نہیں ہے بلکہ تواتر کے ساتھ یہ بھی ثابت ہے کہ آپ پوری دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دینگے اور حضرت عیسیٰ آسمان سے نازل ہو کر آپ کی اقتدا کرینگے اور آپ پوری دنیا کو فتح کر کے اسمیں قرآنی احکام کوعام کردینگے۔

اسکے علاوہ اہل سنت کے بہت سے علماء و محققین نے اپنے اشعار، قصائد یا اپنی کتابوں میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام امام حسن عسکری کے اکلوتے بیٹے ہیں جیسا کہ ہم نے اپنی کتاب ”منتخب الاثر “ کی تیسری فصل کے پہلے باب میں آنحضرت کی ولادت ،غیبت اور امامت سے متعلق اہل سنت کے ساٹھ علماء کے واضح اعترافات نقل کئے ہیںچنانچہ جو منصف مزاج انسان بھی ان اعترافات کو ملاحظہ کر ے اسکے لئے کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہیں رہ سکتا ہے۔

۴ ۔احادیث شیعہ

مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ شیعوں نے جو روایتیں نقل کی ہیں وہ سب سے زیادہ معتبر ہیں کیونکہ پیغمبر اکرم کے دور سے لیکر آج تک انکے درمیان حدیث نویسی کا سلسلہ کبھی بھی منقطع نہیں ہوا اورجو کتابیں پہلی صدی ہجری سے ۵۰ ہجری تک یا ۵۰ ہجری سے ۱۰۰ ہجری تک لکھی گئیں

____________________

(۱)حدیث متواتر : اس حدیث کو کہا جاتا ہے جسکے نقل کرنے والے راوی اتنے افراد ہوں جنکے جھوٹ بولنے اور ساز باز کرنے کا امکان نہ ہو

تھیں انمیں سے بعض آج بھی موجود ہیں جن سے لوگ با قاعدہ استفادہ کرتے ہیں بلکہ ان کی سب سے پہلی کتاب وہی کتاب ہے جسے رسول اکرم نے املاء فرمایا تھا اور حضرت علی نے اسے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا جیساکہ متعدد روایات میں ذکر ہے کہ ائمہ طاہرین علیہم السلام احادیث کو نقل کرتے وقت اس کتاب کو سند کے طور پر پیش کرتے تھے۔

دوسرے فرقوں کی روایتوں کے مقابلہ میں شیعوں کی روایتوں کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ ان کی روایتیں ائمہ معصومین کے ذریعہ نقل ہوئی ہیں اور یہ حضرات زہدوتقویٰ کا نمونہ ہیں اور ان کی عظمت و فضیلت فریقین کے نزدیک ہر لحاظ سے مسلّم ہے اور ”اہل البیت ادریٰ بما فی البیت “ (یعنی گھر والوں کو اپنے گھر کے حالات بہتر معلوم ہوتے ہیں)کے مطابق ان سے منقول روایتیںفطری طور پر زیادہ محکم اور غلطیوں سے پاک ہیں۔

تیسری اہم وجہ : جسکی بنا پر شیعوں کی روایات سب سے زیادہ معتبر قرار پائی ہیں اور درحقیقت یہی سبب ان کی روایتوں کا بہترین پشت پناہ اور سند بھی ہے وہ حدیث ثقلین ہے جو متواتر بھی ہے یا حدیث سفینہ اورحدیث امان یا ان کے علاوہ اور دوسری روایات ہیں جن میں امت کو اہل بیت کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ کہ اہل بیت قرآن مجید کے ہم پلہ ہیں اور ان کا قول حجت ہے اور ان کے دامن سے وابستگی گمراہی سے نجات ہے نیز یہ کہ کوئی زمانہ، معصوم امام کے وجود سے خالی نہیں رہ سکتا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ ائمہ طاہرین سے جو روایتیں نقل ہوئیں ہیں ان میں اعلیٰ درجہ کی صداقت اور اعتبار پایا جاتا ہے کیونکہ ایک طرف تو تمام عقلاء کی سیرت یہی ہے کہ وہ ایک معتبر شخص کی بات کو بخوشی قبول کر لیتے ہیں دوسرے یہ کہ اہل بیت کو پیغمبراکرم سے جس درجہ قربت حاصل تھی اور آنحضرت کے نزدیک ان لوگوں کا جو مرتبہ و مقام تھا وہ صحابہ اور تابعین میں کسی کو بھی حاصل نہیں تھا حتیٰ کہ حدیث ثقلین کے مطابق ان حضرات کا قول اور فعل شرعی حجت اور دلیل ہے اور کیونکہ یہ لوگ معصوم ہیں اور قرآن سے کبھی جدا نہیں ہونگے لہٰذا امت کے لئے ان کی بات ماننا اور ان کی طرف رجوع کرنا واجب ہے ۔

اس مختصر تمہید کے بعد( جسے ہم نے اپنی اُس کتاب میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے جس میں اہل بیت کی پیروی کے واجب ہونے اور ان سے علم حاصل کرنے کے بارے میں گفتگو کی ہے) باآسانی یہ کہہ سکتے ہیں کہ شیعوں کے یہاں قائم آل محمد حضرت ولی عصرعجل اللہ تعالی فرجہ کے ظہور سے متعلق ان کے عظیم علماء ومحدثین کی کتابوں میں معتبر ترین روایات موجود ہیں جو آغاز ہجرت سے اب تک لکھی گئی ہیں جیسے ان اصل کتابوں کی روایتیں جو حضرت قائم آل محمد کی ولادت سے پہلے تالیف ہوئی ہیں مثلاً حسن بن محبوب (متوفیٰ ۲۲۴ ھ) کی کتاب ”مشیخہ“ یا ”سلیم بن قیس “ (متوفیٰ ۷۰ یا ۹۰ ہجری )کی کتاب ۔

یہ ایسی روایات ہیں کہ ان میں سے صرف ایک روایت ہی امام زمانہ کی امامت کو یقینی طور پر ثابت کرنے کے لئے کافی ہے اور یہ کہ آپ امام حسن عسکری کے اکلوتے بیٹے ہیں ،وہ روایات جن میں ایسی پیشین گوئیاں بھی ہیں جو اب تک سچ ثابت ہو چکی ہیں اور وہ اولیائے خدا کا معجزہ سمجھی جاتی ہیں اور انہیں ان کی غیب سے متعلق خبر شمار کیا جاتا ہے ۔وہ روایتیں جن میں اس ظہور کے خصوصیات ،شرائط اور اس کی علامتیں واضح طور پر بیان کی گئی ہیں ان روایتوں کی تعداد تواتر سے کہیں زیادہ ہے اور ان کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرنا صرف اسی کے لئے ممکن ہے جسکا مطالعہ بہت وسیع ہو اور وہ اس فن میں واقعاً صاحب نظر ہو ۔

قارئین محترم یہ مشکل صرف زبانی دعویٰ نہیں بلکہ بالکل سچ اور حقیقت پر مبنی ہے جسکی بہترین دلیل حدیث کے اہم مجموعوں کے علاوہ بڑے بڑے شیعہ محدثین کی وہ سینکڑوں کتابیں بھی ہیں جو اس موضوع پر لکھی گئی ہیں ۔

جیسے تیسری صدی ہجری کے بزرگ عالم عیسیٰ بن مہران مستعطف کی تالیف ”المھدی “، فضل بن شاذان کی کتاب ”قائم و غیبت “، تیسری صدی ہجری کے جلیل القدر عالم عبد اللہ بن جعفر حمیری کی تالیف ”غیبت“،یا کتاب ”غیب وذکرالقائم “ مولفہ ابن اخی طاہر(متوفیٰ ۳۵۸ ھ)، محمد بن قاسم بغداد ی معاصر ابن ہمام (متوفیٰ ۳۳۳ ھ) کی کتاب ”غیبت“، شیخ کلینی کے ماموں علان رازی کلینی کی تالیف ”اخبار القائم “یا ”اخبار المھدی“مولفہ جلودی (متوفیٰ ۳۳۲ ھ)، چوتھی صدی ہجری کے ایک بڑے عالم نعمانی کی ”کتاب غیبت“، حسن بن حمزہ مرعشی (متوفیٰ ۳۵۸ ھ)کی تالیف ”غیبت“یا” دلائل خروج القائم“ مولفہ ابن علی حسن بن محمد بصری، (تیسری صدی ہجری کے عالم)احمد بن رمیح المروزی یا کتاب ”ذکر القائم من آل محمد“ قدیم محدث ابی علی احمد بن محمد جرجانی کی تالیف” اخبار القائم “ یا”الشفاء والجلاء“ مولفہ احمد بن علی رازی” ترتیب الدولہ“مولفہ احمد بن حسین مہرانی، ”کمال الدین “ ، ”کتاب غیبت کبیر“تالیف شیخ صدوق(متوفیٰ ۳۸۱ ھ)، ابن جنید کی کتاب”غیبت“ (متوفیٰ ۳۸۱ ھ)، ”کتاب غیبت“مولفہ شیخ مفید(متوفیٰ ۴۱۳ ھ)، سید مرتضیٰ (متوفیٰ ۴۳۶) کی کتاب غیبت، شیخ طوسی(متوفیٰ ۴۶۰) کی کتاب ”غیبت“۔ سید مرتضیٰ کے ہم عصر اسعد آبادی کی تالیف” تاج الشرفی ،کتا ب ما نزل من القرآن فی صاحب الزمان“ مولفہ عبداللہ عیاش (متوفیٰ ۴۰۱) ” فرج کبیر“،مولفہ محمد بن ھبت اللہ طرابلسی (شاگرد شیخ طوسی ) اسی طرح” برکات القائم“ ،تکمیل الدین، بغیة الطالب ،تبصرة الاولیاء ،کفایة المہدی ،اخبار القائم ،اخبار ظہور المہدی الحجة البالغ ،تثبیت الاقران ،حجة الخصام ،الدر المقصود ،اثبات الحجة ،اتمام الحجة ،اثبات وجود القائم ،مولد القائم،الحجة فی ما نزل فی الحجہ ،الذخیر ة فی المحشر ،السلطان المفرج عن الایمان،سرود اہل الایمان، جنی الجنتین ،بحار الانوار کی تیرھویں جلد ،غیبتِ عوالم کے علاوہ ایسی اور بھی سینکڑو ں کتابیں ہیں جن کی فہرست اور مولفین کے نام تحریر کرنے سے یہ گفتگو کافی طویل ہو جائے گی۔

ان متواتر روایات کی روشنی میں اس مقام پر ہم حضرت مہدی کے بعض اوصاف اور ان کی بعض علامتیں ایک فہرست کی شکل میں پیش کر رہے ہیں جن کی وضاحت کسی دوسرے موقع پر پیش کی جائے گی۔(۱)

آخر میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ امام عصر کے موجود ہونے کے بارے میں اور بھی عقلی و نقلی دلیلیں موجود ہیں جن کوہم اس مقام پر بیان نہیں کر رہے ہیں۔

البتہ مختصر یہ کہ وہ تمام عقلی و نقلی دلیلیں جو امامت عامہ پر دلالت کرتی ہیں یا یہ ثابت کرتی ہیں کہ ہر زمانہ میں ایک امام معصوم کا موجود ہونا ضروری ہے، ہر امام کی معرفت واجب ہے اور کبھی بھی زمین حجت سے خالی نہیں رہ سکتی کیونکہ ”لو بقیت الارض بغیر حجة لساخت باھلھا “ اگر زمین حجت خدا سے خالی ہو جائے تو وہ تمام اہل زمین کو اپنے اندر دھنسا لے گی ،یہی سب دلیلیں حضرت صاحب الزمان کے وجود اور آپ کی امامت کی مستحکم دلیلیں ہےں اور امام عصر ارواحنافداہ کے وجود کے اثبات اور پردہ غیبت میں آپ کے زندہ رہنے پر استدلال و بر ہان قائم کرنے کے لئے یہی دلیلیں بہترین سند ہیں۔

____________________

(۱)چونکہ یہ تمام اوصاف ”امام مہدی کے اوصاف اور امتیازات “نامی فصل میں بیان کئے جائےں گے لہٰذا انہیں اس جگہ سے حذف کر دیا گیا ہے ،قارئین کرام ص۸۰کا مطالعہ فرمائیں۔

بارہ امام

ہمیں معلوم ہے کہ شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم کے بعداسلامی امت کی دینی اور سیاسی رہبری و قیادت ایک خدائی منصب ہے اور پیغمبراکرم نے اس کے لئے حکم خدا سے ایک لا ئق اور اہل شخص کو معین کیا اور جس طرح پیغمبر اکرم امت کی دینی ،سیاسی روحانی اور انتظامی قیادت کے ذمہ دار تھے، امام بھی جو کہ پیغمبر اکرم کا جانشین اور خلیفہ ہے، امت کا قائد و رہبر ہے ۔

البتہ ان دونوں کے درمیان صرف اتنا سا فرق ہے کہ پیغمبر پر وحی نازل ہوتی ہے اور وہ کسی انسان کے وسیلہ کے بغیر دین و شریعت کو عالم غیب سے حاصل کرکے اسے اپنی قوم تک پہونچاتا ہے لیکن امام شریعت و کتاب لیکر نہیں آتا ہے ، اسکے پاس عہدہ نبوت نہیں ہوتا بلکہ وہ پیغمبر اکرم کی کتاب و سنت کے ذریعہ امت کی ہدایت کرتا ہے۔

یہ طے ہے کہ یہ طریقہ کار عدل و انصا ف ،عقل ومنطق اور حق کے عین مطابق ہے اور اسکے علاوہ امت کی رہبری و قیادت کے جتنے طریقے اور راستے ہیں ان میں یہی سب سے زیادہ قابل اعتماد اور بھروسہ کے لائق ہے کیونکہ جس شخص کو بھی پیغمبر اکرم خدا وند عالم کے حکم سے امت کا رہبر و ہادی بنائیں گے اسمیں رہبری کی تمام صلاحیتیں موجود ہوں گی اور وہی امامت و ہدایت کے لئے بہترہوگا جیسا کہ مشرقی اور مغربی فلاسفہ کے لئے قابل فخر اور عظیم فلسفی شیخ الرئیس ابو علی سینا نے کہا ہے: ”والاستخلاف بالنص اصوب فان ذالک لا یودیٰ الی التشعب والتشاغب والاختلاف “یعنی نص کے ذریعہ خلیفہ کا انتخاب ہی سب سے زیادہ درست بات ہے کیونکہ اس میں کسی بھی قسم کی پارٹی بازی ، فتنہ و فساد اور اختلاف کا امکان نہیں ہے ۔

مسلمانوں کی ایسی دینی اورسیاسی رہبری وقیادت کہ ان کے رہبر کا ہر قول وفعل ہر ایک کے لئے حجت اور لوگوں کے تمام دینی اور دنیاوی امور پر حاکم ہو یہ ایک بہت نازک اور بلند مقام و مرتبہ ہے اور اس سے بڑا عہدہ کوئی اور نہیں ہو سکتا لہٰذا اگر اس کے انتخاب میں ذرہ برابر کوتاہی ہو جائے تو اسکے خطرناک نتائج سامنے آئیں گے اور پھر انبیاء کی بعثت کا کوئی فائدہ باقی نہیں رہ جائے گا۔

صالح ہادی کاانتخاب

جو شخص اتنی اہم صلاحیتوں کا مالک ہو اس کی شناخت کرنا عام لوگوں کی عقل و شعور سے بالاتر ہے اس عہدہ کاحقدار وہی ہو سکتا ہے جسکے اندر انسانی فنون اور فضائل و کمالات جیسے علم ،حلم ،بخشش،چشم پوشی ،رحم دلی ،عدل ،تواضع، انسانی حقوق کی آزادی کا احترام ، انسان دوستی ،عقل ،تدبیر،دینی اور روحانی معاملات کے بارے میں دقت نظر کے علاوہ دوسرے اہم اور ضروری صفات اور شرائط پائے جاتے ہوں جن کو خداوند عالم کی ہدایت کے بغیر پہچاننا ہر گز ممکن نہیں ہے ۔

اس بنا پر یا اور دوسری عقلی ونقلی دلیلوں کی بنیاد پر شیعوں کا یہ عقیدہ ہے کہ پیغمبر جیسے صفات رکھنے والے امام کو منصوب اور معین کرنے کا حق صرف خداوند عالم کے اختیار میں ہے اور امام کی تعیین جیسا کہ آیہ شریفہ میںصاف طور پر ذکر ہے دین کی تکمیل اور نعمت کا اتمام ہے اور بعثت انبیاء کی غرض اور اسکے مقصد کے عین مطابق ہے اور اسکو چھوڑ دینااسلامی سماج اور معاشرہ کے بارے میں بے توجہی کے مثل ہے اور یہ انبیاء کی زحمتوں کو ضائع کرنا ہے ۔

بشر کا انتخاب ہمیشہ حق نہیں ہو سکتا

شیعوں کا کہنا ہے کہ جس شخص کا قول و فعل حتی اس کی تائید یا خاموشی بھی ہرایک کے لئے نمونہ عمل ہے اور وہ شریعت کی ناموس کا محافظ اور اسکے احکام کی تشریح کرنے والا ہے ایسے بشر کا صحیح انتخاب انسانوں کے ذریعہ ہر گز ممکن نہیں ہے بلکہ ایسے ولی امر کا انتخاب کہ جسکی اطاعت اس آیت :( اطیعوا الله و اطیعوا الرسول و اُولی الامر منکم ) کے حکم کی بنا پر واجب ہے یہ صرف خدا کی طرف سے ہی صحیح اور حق بجانب ہے کہ خدا وند عالم لوگوں کی ظاہری ،باطنی ،روحانی اور فکری تمام صلاحیتوں سے بخوبی واقف ہے نہ اسے غافل بنایا جا سکتا ہے اور نہ اسکے یہاں غفلت کاامکان ہے اور نہ وہ کسی کی ریا کاری ،مکاری اور ظاہری اور کھوکھلی اداوں نیز عوام فریبی سے دھوکہ کھاتا ہے اور نہ ہی جذبات و احساسات ،خوف و دہشت یا کسی کی دھمکی سے اسکے اوپر کوئی اثر پڑتا ہے نہ ہی ذاتی اغراض و مقاصد اور اپنی قوم یا قبیلہ اور خاندان یا شہر والوں کے منافع کے خیال سے اسکا دامن داغدار ہے ۔

لیکن اگر اس انتخاب میں لوگوں کو شریک کر لیا جائے تو پہلے تو یہ کہ اگر وہ صالح فردکا انتخاب کرنا بھی چاہیں تو وہ اسے پہچانتے نہیں ہیں،دوسرے یہ کہ اثر ورسوخ کا استعمال، بھول چوک ایک دوسرے کی مخالفت یا لالچ وغیرہ ان کی آزادی خیال اور اظہار رائے کی راہ میں مانع ہو جاتے ہیں۔

تیسرے یہ کہ انہیں ذاتی مفادات کی فکر رہتی ہے جسکا مشاہدہ دنیا کے ہرالیکشن میں ہوتا رہتاہے ۔چاہے الیکشن جتنے آزاد اور صحیح کیوں نہ ہوں اسکے با وجود ان کے او پر ان اغراض و مقاصد کا ضرور اثر ہوتاہے اور تمام لوگ عام طور سے ذاتی مفادات کو اجتماعی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج تک ملکوں کے سر براہوں کا کوئی الیکشن ہر لحاظ سے صحیح اور کامل ثابت نہیں ہو سکا اور جن لوگوں کے اندر زیادہ لیاقت اور صلاحیت تھی انہیں نہیں چنا گیا اور اگر اتفاقاً کبھی کسی حد تک کوئی لائق آدمی چن بھی لیا گیا تو اس کی وجہ لوگوں کی صحیح تشخیص یا ان کی حق بینی اور باریک بینی یا دقت نظر نہیں تھی بلکہ اتفاقی طور پر یاملکی حالات اورسیاسی مجبوریوں کی بنا پر ایساہوگیا ہے ورنہ اگر لوگوں کی یہ تشخیص بالکل صحیح اور ہر قسم کے نقص سے دور اورحقیقت اور صحیح شناخت پر مبنی ہوتی تو پھر انکے چنے ہوئے ہر شخص کے اندر اس عہدے کی لیاقت اور صلاحیت ہونی چاہئے تھی جبکہ ہم عام طور سے دیکھتے رہتے ہیں کہ انسانوں کا انتخاب اکثر غلط ہی ہوتا ہے اور اسکا نتیجہ بہت کم صحیح ہو پاتا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ لوگ واقعاً صالح اور لائق افراد کو پہچاننے سے عاجز ہیں۔

جیسا کہ حضرت ولی عصرعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف نے سعد بن عبد اللہ اشعری قمی کے جواب میں فرمایا تھا ، جب انھوں نے آپ سے سوال کیا کہ لوگوں کو امام کے انتخاب کا حق کیوں نہیں ہے؟ امام نے فرمایا : نیک یا برا امام ؟

انہوں نے کہا : نیک

آپ نے فرمایا کیونکہ ان میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کے باطن اور نیت سے واقف نہیں ہے تو کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ کسی نااہل کو چن لیں۔

عرض کی : جی ہاں ممکن ہے

آپ نے فرمایا : ”فهی العلة(۱)

” یہی وجہ ہے “کہ لوگ اپنے امام کو نہیں چن سکتے ہیں۔

اس سے بخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ جو امام، پیغمبر کا جانشین اور خلیفہ ہوتا ہے اسےخدا کی طرف سے پیغمبر اکرم ہی معین کر سکتے ہیں اور یہ کام لوگوں کے بس سے باہر ہے اور ایک صالح سماج اور معاشرے یا نظام کے متعلق انبیاء اور دین کا جو مقصد تھا وہ پورا نہیں ہو سکتا ہے اسی لئے سب نے اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ لیا کہ پیغمبر اکرم کے بعد جب اس قاعدہ اور قانون کی خلاف ورزی کی

____________________

(۱)منتخب الاثر صفحہ ۱۵۱۔

گئی تو پہلے تو کچھ لوگوں نے کہا کہ خلافت کو بھی وزیر اعظم کے الیکشن کی طرح لوگوں کے چناو اور اجماع سے طے ہونا چاہئے اورجب حضرت ابو بکر نے خودحضرت عمر کو اپنا جانشین مقرر کر دیا اوران ہی کے بقول ”امت کو خلیفہ کے انتخاب کا حق حاصل ہے “خود ہی یہ حق امت سے چھین لیا اور اپنی من مانی سے حضرت عمر کو خلیفہ بنا دیاتو پھر یہ کہنا شروع کر دیا کہ خلیفہ اپنا جانشین معین کر سکتا ہے۔

ایک منزل اور آگے بڑھ کر تو خلیفہ کے انتخاب کے لئے چھ آدمیوں پر مشتمل باقاعدہ کمیٹی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو دنیا کے کسی قانون حکومت کے مطابق نہیں تھی پھر کہنے لگے کہ اس طرح بھی خلیفہ منتخب ہو سکتا ہے جب کچھ اور آگے بڑھےتو بنی امیہ کے شرابی کبابی اور زانی بادشاہوں تک نوبت پہونچ گئی چنانچہ جب یہ صورتحال دیکھی کہ اگر ولی امر کے لئے ایک چھوٹی سی شرط بھی رکھ دی گئی تو پھر ان تمام گذشتہ حکومتوں کے غیر شرعی ہونے کا اعلان کرنا پڑے گا اور کھلے عام شیعہ عقیدہ کی ترویج کرناہوگی لہٰذا وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ اسلامی حاکمیت بھی زمانہ جاہلیت کی حکومتوں کی طرح ہے اور اسکے لئے کوئی شرط ضروری نہیں ہے اس بنا پر جو شخص بھی اپنی طاقت کے بل بوتے پر باپ کی میراث میں یا کسی بھی طریقہ سے حکومت حاصل کر لے اس کی اطاعت تمام مسلمانوں پر واجب ہے اور ان کی جان و مال اور عزت و آبرو پر صرف اسی کا حکم نافذ ہے ۔

اس عقیدہ اور انداز فکر نے اخلاقی پستی کو جنم دینے کے علاوہ ظالموں اور جابروں کے لئے حکومت حاصل کرنے کے لئے زور آزمائی کا کھلا میدان فراہم کر دیا اور اس سے روز بروز ان کی لالچ میں اضافہ ہی ہو تا رہا اور تاریخ اسلام کی ابتداء سے آج تک حکومت پر بنی امیہ، بنی عباس جیسے تمام ظالم و جابر بادشاہوں اور سلاطین کے تسلط اور قبضہ کی یہی اہم وجہ ہے ،چنانچہ ان نااہل حکومتوں کی وجہ سے جو ظلم وتشدد ہوا اور اسلام کو ان کی طرف سے جو نقصان اٹھانا پڑا اسے اس مقالہ میں قلمبند کرنا ممکن نہیںہے اور بڑی خوشی کی بات ہے کہ ہمارے دور کے ایسے مشہور اہل سنت مفکرین جو اس نظریہ اور اس عقیدے کے خطرناک نتائج کی وجہ سے اسکے مخالف ہیں انہوں نے بھی اس عقیدہ پر سخت تنقید کی ہے ۔

امام کی تعیین کے بارے میں شیعوں کا عقیدہ بہت ہی مستحکم عقلی اورمنقولہ دلیلوں پر استوار ہے اور شروع سے لیکر آج تک ہر دور میں یہ عقیدہ حریت پسند،انصاف طلب اورظلم و ستم کے خلاف جہاد اور حق کے لئے قیام کرنے والے افراد کا اصل مرکز رہا ہے اسی لئے شیعوں کے صرف ایک عالم یعنی علامہ حلینے اپنی کتاب الفَین میں اس بارے میں ایک ہزار دلیلیں پیش کی ہیں کہ امام ،خدا کی طرف سے ہی معین اور منصوب ہونا چاہئے ،شیعوں کی نظر میں علمی اور عملی صلاحیتوں کے بغیر کسی کو کوئی چھوٹے سے چھوٹا سماجی یا حکومتی اور دینی منصب دینا جائز نہیں ہے اورحاکم کو اسلامی عدالت کا پیکر ہونا چاہئے اور یہ کہ وہ اسلامی احکام کو نافذکرے اور اس کے مقاصد کے لئے پوری سعی وکوشش کرے۔

بنی امیہ اور بنی عباس کے دور حکومت میں جو لوگ حکومت پر قابض ہوئے شیعوں کی نظر میں ان میں سے بہت سے لوگ تو کسی گاوں کی پردھانی بلکہ ایک گلی ، گوچہ کی پہرہ داری کے لائق بھی نہیں تھے ۔

جو شخص بھی اسلامی تعلیمات یا پیغمبر اکرم ،امیر المومنین اور ائمہ طاہرین کی سیرت اور لوگوں کے ساتھ ان کے طرز معاشرت کو ملاحظہ کرے اور اس کے بعد ان سرپھرے بادشاہوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھے جنہوں نے اسلامی ممالک پر حکومت کی ہے اور یہ دیکھے کہ انہوں نے طاقت کے زور پر اسلامی حکومت کے اوپر کیسے قبضہ کیا اور رعایا کے سروں پر سوار رہے اور وہ اپنی عیاشی، فحاشی، محلوں کی تعمیر و تزئین اور اپنے رشتہ داروں اور درباریوں کے منھ بھرنے کے لئے بیت المال کو کس بے دردی سے لٹاتے تھے ؟اور لوگوں کے اوپر اپنی قدرت و طاقت کا رعب جمانے کے لئے اپنے حوالیوں موالیوں کے ساتھ مخصوص حفاظتی فورس کے پہرے میں بیش قیمت سواریوں پر سوار ہو کر کس طنطنے کے ساتھ عوام کے درمیان سے گذرتے تھے؟ ان حالات کو دیکھنے کے بعد انسان یہ تصدیق کرنے پر مجبور ہے کہ ان کا طرز حکومت اسلام کے آزادی بخش نظام یا عدل وانصاف کو رواج دینے والی تعلیمات سے کسی طرح ہم آہنگ نہیں تھا جیسا کہ بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ ان کے رسم و رواج عام طور سے اسلامی حکومت کے اصول اور قوانین کے خلاف ہی نہیں تھے بلکہ وہ ظلم و استبداد اور کٹیٹرشپ کے بد ترین نمونے تھے جنکا تعلق سو فیصدی دور جاہلیت سے ہے اگر ہم اس موضوع کو چھیڑیں گے تو اس مقالہ کی منزل مقصود سے دور ہو جائیں گے، مختصر یہ کہ خداپرست عادل اور منصف مزاج ارباب حکومت کے عقیدے نے شیعوں کو ظلم وستم سے دور کر دیا


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13