نويد امن وامان

نويد امن وامان15%

نويد امن وامان مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

نويد امن وامان
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 218 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 18987 / ڈاؤنلوڈ: 4179
سائز سائز سائز
نويد امن وامان

نويد امن وامان

مؤلف:
اردو

اتحا دکی زمین ہموار ہو رہی ہے

گذشتہ دور میں ایک عالمی سماج اور معاشرے کے قیام کا نظریہ اس لئے بہت کم سامنے آتا تھا اور اس سے متعلق اسلامی تعلیمات پر توجہ نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ پہلے زمانے میں ارسال و ترسیل اور ایک دوسرے سے رابطہ پیدا کرنے کے وسائل موجود نہ ہونے کی وجہ سے لوگ ایسی عالمی حکومت قائم ہونے کو دشوارہی نہیں بلکہ نا ممکن سمجھتے تھے لیکن آج ٹیلیفون،ٹیلیویژن، ریڈیو،کمپیوٹر،انٹرنیٹ، جہاز اور دوسرے ترقی یافتہ وسائل نے جس طرح تمام دنیا والوں کو ایک گھرمیں رہنے والوں کی طرح ایک دوسرے سے قریب کر دیا ہے اسی طرح اس سے اسلامی تعلیمات کے سائے میں ایک عالمی حکومت کے قیام کا راستہ صاف ہو گیا ہے چنانچہ صنعت اور ٹیکنالوجی جتنی بھی ترقی کرے گی اسلام کے بیش قیمت اور بلند و بالا احکامات کے لئے حالات اتنے ہی سازگار ہوتے چلے جائیں گے اور اولیائے الٰہی کی بشارتیں اپنی منزل سے اتنی ہی قریب ہو تی چلی جائیں گی آہستہ آہستہ انفرادی اورعلاقائی قدریں کمزور پڑتی نظر آئیں گی اور دنیا کی تمام قومیں اپنے مقدر کے فیصلہ میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر خود حصہ لے سکیں گی جسکے بعدتمام علاقائی نظاموں کا خاتمہ ہو جائے گا اور وہ تنہا نظام جو ان نظاموں کی جگہ پر آنے کے بعد پوری دنیا کے نظم و نسق کو عدل و انصاف کے ساتھ چلا سکے گا وہ اسلامی نظام ہی ہوگا۔

مختصر یہ کہ دنیا خود بخود اسلامی مقاصد کی طرف آگے بڑھتی جا رہی ہے اور ایک دن وہ ان تمام خود ساختہ قوانین، نظاموں اور سیاسی یا سماجی امتیازات اور اونچ نیچ کو پیچھے چھوڑ دیگی ،اسلامی مفاہمت کا ایک عام ماحول پیدا ہو جائے گا اور ظلم و ستم اور افراط وتفریط کا خاتمہ ہو گا(۱)

____________________

(۱)امریکی فلاسفر ”ویلم لوکا ریسون“ کا کہنا ہے :” بشریت کے لئے ہمیں ایک ملک ،ایک قانون ،ایک قاضی اور ایک حاکم کا اعتراف ہے دنیا کے تمام شہر ہمارے شہر اور دنیا کی ہر قوم والے ہمارے شہری اور ہمارے ہیں ہمیں اپنے شہروں کی سر زمین سے اتنی ہی محبت ہے جتنی کہ دوسرے شہروں سے محبت ہے“ البتہ امریکی اپنے اس نظریہ میں کس حد تک سچے یا جھوٹے ہیں اسکا فیصلہ دنیا والے خود کرینگے۔

مشہور اطالوی ادیب”دانٹہ“ نے کہا : پوری زمین اور اس پر جتنے لوگ زندگی بسر کر رہے ہیں سب کو ایک حاکم کے ما تحت رہنا واجب ہے اور اسے ہر چیز کا اختیار ہو،تا کہ جنگ کی آگ نہ بھڑک سکے اور امن و آشتی قائم رہے ۔

فرانسوی ”نولیتر“نے یہ کہا ہے: کسی بھی شخص نے اس وقت تک اپنے شہروں کی سر بلندی کی آرزو نہیں کی جب تک اس نے دوسروں کی بدبختی اور انکے فنا ہونے کی آرزو نہیں کر لی ۔دوسرے مفکرین جیسے صموئیل وغیرہ کے بھی ایسے ہی نظریات ہیں جن سے ”ایک عالمی حکومت کے قیام “کے نظریہ کا پتہ چلتا ہے۔

اسلام نے شروع ہی سے اس روشن مستقبل کے بارے میں پیشین گوئی کی تھی اورآیات و روایات میں اسکا صاف صاف وعدہ کیا گیاہے اور بشر کو ایسے دن کا منتظر رہنے کے لئے کہاگیاہے کہ جس دن سب لوگ اسلامی پرچم کے نیچے جمع ہوجائیں گے اور سب کا دین و مذہب قومیت اور حکومت ایک ہی ہوگی اور ان میں ایسے عالی مرتبہ ہادی عالم کے ظہور کی بشارت دی گئی ہے جو پوری دنیا کا نظام چلا سکے اور اس کو عدل و انصاف سے بھر دے اس کے ساتھ ساتھ اسلام نے سب کو اس کی شناخت بھی کرا دی ہے۔

قرآن مجید کی آیتیں

سورہ توبہ آیت ۳۳ ،سورہ فتح آیت ۲۸ اور سورہ صف کی ۹ ویں آیت میں خداوند عالم نے یہ ارشاد فرمایا ہے:

( هوالذی اٴرسل رسوله بالهدیٰ و دین الحق لیُظهره علی الدین کله )

وہ خدا وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تا کہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بنا ئے ۔

تمام مذاہب پر اسلام کے غلبہ کے وعدہ سے متعلق ان آیتوں کی دلالت بالکل واضح ہے ۔

سورہ انبیاء کی ۱۰۵ ویں آیت میں خدا وند عالم کا ارشاد ہے :

( ولقد کتبنا فيا لزبور من بعد الذکر ان الاٴرض یرثها عبادي ا لصالحون )

اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میں لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہونگے۔

اس آیت میں بھی واضح اعلان ہے کہ زمین پر خدا کا اختیار ہے اور اسکے صالح بندے ہی اسکے مالک بنیں گے ۔

سورہ نور کی ۵۵ ویں آیت میں ارشاد فرمایا ہے:

( وعد الذین آمنوا منکم و عملوا الصالحات لیستخلفنّهم فی الاٴرض )

اللہ نے تم میں سے صاحبان ایمان و عمل صالح سے یہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں روئے زمین میں اسی طرح خلیفہ بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایا ہے۔

ان دونوں آیتوں میں واضح تاکیدوں کے بعد یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ اسلام طاقتور ہو جائے گا اور انکا خوف و ہراس امن میں بدل جائے گا۔

سورہ قصص کی پانچویں آیت میں ارشاد ہے:

( و نرید ان نمن علی الذین استُضعفوافي الارض و نجعلهم ائمة و نجعلهم الوارثین )

اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنا دیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کا وارث قرار دیں ۔

احادیث اور تفسیروں کے مطابق یہ آیت بھی انہیں آیتوں میں سے ہے جن میں حضرت ولی عصرکے ظہور اور ان کی عالمی حکومت کی بشارت دی گئی ہے ۔

نہج البلاغہ اور دیگر بہت سی معتبر کتابوں میں امیر المومنین کا یہ ارشاد نقل ہواہے:

لتعطفنّ الدنیا علینا بعد شماسها عطف الضروس علی ولدها وتلیٰ عقیب ذلک و نرید ان نمن علی الذین استُضعفوافي الارض و نجعلهم ائمة و نجعلهم الوارثین (۱)

یہ دنیا منھ زوری دکھلانے کے بعد ایک دن ہماری طرف بہر حال جھکے گی جس طرح کاٹنے والی اونٹنی کو اپنے بچہ پر رحم آجاتا ہے اسکے بعد آپ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی ”اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ ان بندوں پر احسان کریں جنھیںروئے زمین میں کمزور بنا دیا گیا ہے اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کا وارث قرار دیں “

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت۲۰۹

احادیث

شیعہ اور سنی دونوں کے یہاں متواتر حدیثوں سے یہ بات ثابت ہے کہ اسلام پوری کائنات میں پھیل جائے گا اور کوئی گھر ایسا باقی نہیں رہے گا کہ جو اسلامی تعلیمات کے زیر اثر نہ آ جائے کوئی شہر اور دیہات ایسا نہ ہوگاجس میں ہر صبح و شام اذان اور توحید ورسالت کی گواہی کی آواز بلند نہ ہو جب ہر قوم انقلابی تحریکوں، فتنہ وفساد ،لوٹ مار، گھروں کو جلا کر راکھ کر دینے والی جنگوں ،قحط،مہنگائی اور بیماریوں سے تنگ آچکی ہوگی توخدا وند عالم دنیا کے حقیقی مصلح یعنی قائم آل محمد عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کو بھیجے گا تاکہ وہ ظلم و جور سے دنیا کے بھر جانے کے بعد اسے عدل و انصاف سے بھر دیں، آپ کے ظہور کی برکت سے ہرظلم اور بے چینی کا خاتمہ ہو جائے گا ،ہرجگہ امن وآشتی کا دور دورہ ہوگا۔ پوری دنیا میں ایک حکومت قائم ہو گی اور خدا وند عالم مشرق ومغرب کو آپ کے حوالے کر دے گا اور انہیں آپ کے ہاتھوں فتح کر دے گا۔

یہ روایات ان کلیدی اور معتبر کتابو ںمیںموجود ہیں جن پر اہلسنت اور شیعوں کا اعتماد ہے جن میں وہ کتابیں بھی شامل ہیں جو امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور سے بہت پہلے یعنی پہلی صدی ہجری میں لکھی گئی ہیں اور اہل نظر بخوبی واقف ہیں کہ رسول اکرم اور ائمہ معصومین اور صحابہ و تابعین کی احادیث و روایات میں جس کثرت کے ساتھ اس مسئلہ کا تذکرہ ہوا ہے اس کے مقابلے میں دوسرے مسائل کا تذکرہ بہت ہی کم ہے ،کیونکہ اس مصلح عالم اور کائنات کے نجات دینے والے کے ظہور کا ایمان در حقیقت پیغمبر اکرم کی صداقت اور آپ کی نبوت کی تصدیق کا اٹوٹ حصہ ہے اور یہ ایک الٰہی وعدہ ہے جو ہر گز غلط نہیں ہو سکتا:

( ان اللّٰه لا یخلف المیعاد ) (۱)

اور اللہ کا وعدہ غلط نہیں ہوتا۔

یہ وعدہ ظہور،الٰہی سنتوں اوربشریت نیز عالم ہستی کے ارتقائی سفر کے عین مطابق ہے اور خدا کے اسمائے حسنیٰ جیسے ’الحاکم‘ ’العادل‘ ’الظاہر ‘ ’الغالب‘ کی تائید ہے۔

( فلن تجد لسنة الله تبدیلا ولن تجد لسنة الله تحویلا ) (۲)

اور خدا کا طریقہ کار ہرگز بدلنے والا نہیں ہے اور نہ اس میں کسی طرح کا تغیر ہوسکتا ہے ۔

____________________

(۱)سورہ آل عمران آیت۹

(۲)سورہ فاطر آیت۴۳

دوسر ا حصه فلسفہ واسرار غیبت

غیبت کا راز

حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی غیبت کے فائدو ں اور اس کی مصلحت کے بارے میں گفتگو کرنے سے پہلے ہمیں یہ دھیان رکھنا چاہئے کہ انسان نے عام طریقوں سے اب تک جو بھی معلومات حاصل کی ہیں ان کے با وجودوہ موجودات دنیا کے تمام رازوں کو نہیں سمجھ پایا اور اگر علم ہزاروں نہیں بلکہ کروڑوں سال اور ترقی کر لے تب بھی انسان کی معلومات کی تعداد اسکے مجہولات کے مقابلہ میں بہت ہی مختصر اور نا چیز ہوگی اور ایک بڑے دانشورکے بقول”یہ ایک نا متناہی چیز کے مقابلہ میں بالکل نہ ہونے کے مثل ہے“ اور یہ بھی اُس صورت میں ہے کہ جب ہم تمام انسانوں کے علم کا حساب کریں لیکن اگر صرف ایک عالم اور دانشور کے علم پر نظر رکھیں تو پھر ابھی تک کشف اور واضح ہونے والے رازوں سے اسکا موازنہ کرنا کسی مضحکہ سے کم نہیں ہے اور اسے جہالت و نادانی کے علاوہ کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔

جب حضرت علی کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہیں:

سبحانک ما اعظم ما نری من خلقک وما اصغر عظیمَها في جنب ماغاب عنا من قدرتک

پاک و پاکیزہ ہے تو ،تیری وہ مخلوق کتنی عظیم ہے جو ہماری نگاہوں کے سامنے ہے اور اس کی عظمت کتنی چھوٹی ہے تیری اس قدرت کے مقابلہ میں جو ہماری نظروں سے پوشیدہ ہے۔

تو پھر دوسروں کا حال تو خودبخود معلوم ہے !

لہٰذا کسی کے اندر یہ مجال نہیں ہے کہ وہ اس عظیم کائنات کی کسی بھی خلقت کا راز معلوم نہ ہونے کی وجہ سے اسکے وجود کے بارے میں اعتراض شروع کردے یا اس کائنات کے بعض نظاموں اور اسکے قوانین کو فضول سمجھنے لگے ۔

کوئی شخص بھی یقینی طور پر یہ دعویٰ نہیں کر سکتا ہے کہ دنیا کی چھوٹی سے چھوٹی چیزمیں کوئی راز یا نکتہ پوشیدہ نہیں ہے جس طرح کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اسے دنیا کے تمام اسرار معلوم ہیں قدیم اور جدید علماء وفلاسفہ اوردانشوروں نے صرف اسی ادراک کو اپنے لئے باعث فخر قرار دیا ہے کہ :

ہر گز دلم نز علم محروم نشد

کم ماند ز اسرار کہ مفہوم نشد

میرا دل علم سے ہر گز محروم نہیں رہا

وہ راز کم ہیں جو میرے لئے واضح نہ ہو گئے ہوں

ہفتاد و دو سال جہد کردم شب وروز

معلومم شدکہ ھیچ معلوم نشد

۷۲ سال تک میں نے دن رات محنت کی ہے

اور صرف اتنا معلوم ہو سکا کہ کچھ معلوم نہیں ہے

بہ جائی رسیدہ دانش من

کہ بدانم ھنوز نادانم

میرایہ علم صرف وہاں تک پہونچ سکا

کہ یہ جان سکوں کہ ابھی نادان ہوں

عرب کا ایک دانش مند اور حکیم شاعر کہتا ہے :

ما للتراب و للعلوم و ا نمّا

یسعیٰ لیعلم انه لا یعلم

مٹی اور علوم کے درمیان کیا رابطہ بلکہ وہ تویہ

کوشش کرتا ہے کہ یہ جا ن لے کہ و ہ جانتانہیں ہے

مشہور ہے کہ ایک عورت نے مشہور حکیم” بزرگ مہر“ سے کوئی سوال پوچھا حکیم نے اسے جواب دیا کہ مجھے معلوم نہیں ہے ۔

عورت نے کہا اے حکیم صاحب: بادشاہ سلامت تمہیںہر مہینے صرف اس لئے تنخواہ دیتے ہیں تاکہ تم اپنے علم و حکمت کے ذریعہ لوگوں کی مشکلات کو حل کر سکو !کیا تمہیں شرم نہیں آتی کہ میرے سوال کے جواب میں تم اپنی جہالت اور نادانی کا اقرار کر رہے ہو ؟

حکیم نے کہا : بادشاہ مجھے جو کچھ دیتا ہے وہ میری معلومات کے اعتبار سے دیتا ہے لیکن اگر وہ میرے مجہولات (جو چیزیں مجھے معلوم نہیں ہےں ان)کے اعتبارسے مجھے دینا چاہے تو وہ اپنا پورا خزانہ بھی خالی کر دے گا تب بھی میرے لئے کم رہے گا ۔

لہٰذا ہمیں مجہولات کو کشف کرنے اور اسرار کائنات کو جاننے کے لئے ہر دم کوشش کرتے رہنا چاہئے اور اگر کسی جگہ پر ہماری تحقیق اور جستجوکا کوئی نتیجہ برا ٓمد نہ ہو سکا تو اسے اسکے موجود نہ ہونے کی دلیل قرار نہ دینا چاہئے ۔

مثلاً جب انسان کی آنکھیں طاقتورٹیلسکوپ اور میکروسکوپ سے مسلح نہیں تھیں تو اسے یہ حق نہیں تھا کہ وہ ذرہ کے برابر موجودات ،یا ان لاکھوں کرات کا انکار کر دے جو اس سے پہلے کشف نہیں ہوئے تھے ۔

جس طرح وہ حیوانات جو ہر رنگ نہیں دیکھ پاتے یا انہیں صرف ایک رنگ دکھائی دیتا ہے وہ ان رنگوں کا انکار نہیں کر سکتے جو انسان کو مختلف انداز سے دکھائی دیتے ہیں ،جس طرح کوئی سنی جانے والی اور نہ سنی جانے والی آوازوں اور ان کی امواج کا انکار نہیں کر سکتا ہے ۔

یہ قاعدہ تکوینی دنیا اور شرعی دنیا دونوں ہی جگہ جاری ہے دنیائے شریعت میں بھی بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن کے فلسفہ و حکمت تک ہماری عقل نہیں پہونچ پاتی ہے اور ایسے احکام شریعت کا حال بھی بالکل بقیہ کائنات (عالم تکوین)کی طرح ہے لہٰذا جس طرح ہمیں کائنات کے بارے میں اس قسم کے اعتراض کا حق نہیں ہے اسی طرح شرعی مسائل میں بھی اعتراض کا حق نہیں ہے ۔

اگر ان دونوں مقامات (شریعت اور تکوین (کائنات))پر ہمیں کوئی ایسا مسئلہ دکھائی دے کہ صحیح عقل اور برہان اسکے خیرنہ ہونے یا شر (مضر)ہونے کا فیصلہ کر دیں تو ہمیں ناراض ہونے کا حق ہے ،لیکن آج تک شریعت اور کائنات میں ہمیں ایسی کوئی چیز نظر نہیں آئی اور نہ کبھی آئندہ نظرآئے گی۔

اس مقدمہ کے بعد ہم کہتے ہیں : کہ امام زمانہ کی غیبت پر ایمان رکھنے کے لئے اسکا فلسفہ جاننا ہر گز ضروری نہیں ہے اور اگر بالفرض ہمیں اسکا کوئی راز معلوم نہ ہو سکا تب بھی ہمیں اسکا پختہ یقین رہے گا ، ہمیں اجمالا ًیہ معلوم ہے کہ اس غیبت میں بہت اہم فائدہ اور مصلحت پوشیدہ ہے ،لیکن ہمارے جاننے یا نہ جاننے سے اسکے ہونے یا نہ ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے جیسا کہ اگر ہم اصل مسئلہ غیبت کو ہی نہ جانتے ہوں تب بھی اس کا کوئی ضرر نہ ہوگا ۔

حضرت کی غیبت ایک انجام یافتہ امر الٰہی ہے جسکی اطلاع معتبر احادیث سے ہم تک پہونچی ہے اور اس مدت میں بہت سے بزرگوں نے آپ کی زیارت کا شرف حاصل کیا ہے۔

لہٰذااگر غیبت کے نہ جاننے اور اس کے واقع ہونے کے درمیان کسی قسم کا کوئی ربط نہیں ہے توہم یہ کہتے ہیں کہ ہمیں غیبت کا راز معلوم نہیں ہے اس کے باوجود ہمیں امام زمانہ کے وجود پر مکمل ایمان ہے بالکل اسی طرح جس طرح ہم بہت ساری چیزوں کا فائدہ نہیں جانتے ہیں مگر ان کے موجود ہونے کا ہمیں علم ہے۔

غیبت کے فوائد

واضح رہے کہ غیبت کے اسرار کے بارے میں سوالات کا آغاز ہمارے ہی زمانہ سے نہیں ہوا ہے اور اسکا تعلق صرف اِسی دور سے نہیں ہے بلکہ جب آپ کی غیبت شروع نہیںہوئی تھی حتی کہ آپ کی ولادت سے بہت پہلے جب پیغمبر اکرم اور ائمہ معصومین نے حضرت مہدی کے ظہور کی خبر دی تھی اسی وقت یہ سوالات سامنے آگئے تھے۔

آپ غیبت کیوں اختیار کرینگے ؟ اس غیبت کا فائدہ کیا ہے ؟

آپ کی غیبت کے دور میں آپ کے وجودسے کس طرح فائدہ اٹھایا جائے گا؟

معصومین نے حضرت مہدی کے ظہور کی بشارت دینے کے ساتھ ہمیں ان سوالات کے جوابات سے بھی آگاہ کر دیا ہے جن میں سے بعض جوابات کو مختصر طور سے اس مقام پر ذکر کیا جا رہا ہے ۔

۱ ۔آپ کے ظہور کاسب سے اہم راز اور سب سے بڑی وجہ آپ کے ظہور کے بعد ہی معلوم ہو سکے گی جیسا کہ جب جناب موسیٰ (علی نبینا و آلہ و علیہ السلام) جناب خضر کے ساتھ گئے تھے تو ان کے کاموں کی حکمت اور راز اس وقت تک معلوم نہ ہو سکے جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہو گئے ۔

یا بالکل اسی طرح جیسے ہر موجود کی خلقت کا فائدہ چاہے وہ جمادات ہوں یا نباتات اور یا انسان اور حیوان ہوں ان کا فائدہ کئی مہینے یا کئی سال گذرنے کے بعد ظاہر ہو پاتا ہے ۔

۲ ۔اس غیبت کے کچھ اسرار معلوم ہیں جیسے یہ بندوں کا امتحان ہے کیونکہ غیبت کی وجہ سے خاص طور سے جبکہ اسکا راز معلوم نہ ہو تو لوگوں کے ایمان کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ تقدیر الٰہی کے بارے میں انکا ایمان کتنا قوی ہے ان کی زبان میں کتنی سچائی پائی جاتی ہے اس طرح غیبت کے زمانہ میں رونما ہونے والے حادثات میں تمام لوگ شدید ترین امتحانات میں مبتلا ہوتے ہیں جن کی تفصیل بیان کرنے کافی الحال امکان نہیں ہے ۔

انہیں اسرار میں سے ایک رازیہ ہے کہ غیبت کے زمانہ میں دنیا کی تمام قومیں آہستہ آستہ علمی اخلاقی اور عملی طور پر اس مصلح حقیقی اور بشریت کے حالات کو سدھارنے والے کے ظہور کےلئے تیار ہو جائیں کیونکہ حضرت کا ظہور دوسرے تمام انبیاء کی طرح نہیں ہے جسکا دار و مدار ظاہری اور عام اسباب کے اوپر ہو بلکہ دنیا کی قیادت میں آپ کا طریقہ کار حقیقتوں پر مبنی ہوگا اور اصل حق کے مطابق حکم کریں گے اسکے علاوہ تقیہ سے پرہیز، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں سختی، تمام کارندوں اورذمہ داروں سے سخت مواخذہ (بازپرس)اور انکے کاموں کی کڑی نگرانی کرنا بھی آپ کی حکومت کا اہم حصہ ہے اور ان کاموں کی انجام دہی کے لئے علوم و معارف کے ارتقاء اور بشریت کی فکری اور اخلاقی ترقی بے حد ضروری ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کے دنیا میں چھا جانے اور قرآنی احکامات کی عالمی حکومت کے لئے و سائل فراہم رہےں۔

آخر میں لازم ہے کہ اپنے قارئین محترم کی مزید واقفیت کے لئے مسئلہ غیبت سے متعلق کچھ اہم کتابوں کی طرف اشارہ کر دیا جائے جیسے ”غیبت نعمانی“ غیبت شیخ طوسی اور ”کمال الدین وتمام النعمہ“ کیونکہ غیبت کے بعض اسرار کو سمجھنے کے لئے انکا مطالعہ نہایت مفید ہے۔

امید ہے کہ خدا وند عالم اپنے فضل و کرم سے حضرت ولی عصرعجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور کو نزدیک فرمائے اور ہماری آنکھوں کو انکے بے مثال جمال کے نور سے روشن کرے ، پوری دنیا میں ایک اسلامی حکومت قائم ہو اور دنیا کوجاہ طلب لوگوں کے ظلم و ستم اور متصادم سیاستوں کے نقصانات سے نجات عطا فرمائے ۔

بحق محمد و آله الطاهرین علیهم السلام

غیبت کی حکمت اور اس کا فلسفہ

( وقل رب زدنی علما ) (۱)

اور آپ کہتے رہیں کہ پروردگار میرے علم میں اضافہ فرما۔

اکثر لوگوں کا خیال یہ ہے کہ انہیں چیزوں کی حقیقت اور واقعیت معلوم ہے اور انھوں نے جو کچھ دیکھا یا سنا یا پہنا اور چکھا ہے یا اسے چھوا ہے اسکے ذریعہ انہیں اس کی حقیقت معلوم ہو گئی ہے اور شاید اپنی نادانی کی طرف ان کی تھوڑی توجہ بھی نہ ہو ۔

جو کسان یا مالی (باغبان)کھیت اور باغ کے اندر کھیتی یا باغبانی میں مصروف ہے اسکا خیال یہ ہے کہ جن جن چیزوں سے اسکا سرو کار (رابطہ)ہے جیسے زمین مٹی، گھاس پھوس، پانی، بیج، جڑیں، تنا، ڈالی، پتے، کلی، پھل، دانہ، پتھر اور درختوں کی بیماریوں سے وہ نا واقف نہیں ہے اور یہ سب اسکے لئے مجہول نہیں ہیں، ایک معدن کا مزدور بھیڑ ،بکریوں اور گائے بھینس کا چرواہا سب کا یہی خیال ہے کہ انہوں نے کم ازکم اپنے ماتحت چیزوں کو پہچان لیا ہے ۔

جن لوگوں نے تھوڑی بہت تعلیم حاصل کی ہے وہ بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں اسی لئے وہ اپنے کو عالم حقائق سمجھتے ہیں ۔

بجلی،معدنیات اورکھیتی باڑی کا ماہر، کھال ،اعصاب ،خون،ہڈی،دماغ وغیرہ کے اسپشلسٹ

____________________

(۱)سورہ طہ آیت۱۱۴۔

ڈاکٹر، ریاضیات، نجوم، نفسیات، ہستی شناس، علم کیمیا یا دوسرے علوم کے تمام ماہر ین ، اپنے علم و فن سے متعلق تمام چیزوں کوچاہے اچھی طرح پہچان لیں لیکن وہ ان کی حقیقت کو پہچاننے سے عاجز ہیں اور چاہے وہ جتنی مہارت حاصل کر لیں ان چیزوں کے بعض ظاہری آثار اورخاصیتوں کو پہچاننے کے علاوہ اس کی کوئی حقیقت بیان نہیں کر سکتے، نیز آئندہ بھی وہ جتنے زیادہ ماہر ہوتے چلے جائیں گے وہ اپنی بتائی ہوئی تعریفوں (اصطلاحوں) کے نقائص اور مشکلات سے اتنا ہی واقف ہوں گے۔

کیونکہ دنیا کے اندر پیچیدہ مسائل کا ایک اتنا طویل سلسلہ ہے کہ اس کی ابتداء و انتہا بشر سے بالکل پوشیدہ ہے اور اس سلسلہ کی ہر منزل اور ہر مرحلے پر اتنے راز اور معمے (گتھیاں)موجود ہیں جن کا صرف تصور ہی انسان کو حیرت میں ڈالنے کے لئے کافی ہے۔

”لیڈی اسٹور“ کا بیان ہے کہ اگر کوئی شخص صرف اس مقدار میں بولے جسکی حقیقت کو اس نے پہچان لیا ہے تو پوری کائنات کے اوپر ایک گہری خاموشی کی حکومت قائم ہو جائے گی(۱)

ادارہ رو کفلر کے نائب صدر ”وارین ویفر“نے کہا : کیا علم، جہل و نادانی سے جنگ جیت سکتا ہے ؟ جبکہ علم جس سوال کا جواب بھی پیش کر تا ہے اسکے سامنے کئی نئے سوالات پیدا ہو جاتے ہیں اور مجہولات کوکشف کرنے کے راستے میں وہ جتنا آگے بڑھتا ہے اسے جہل کی تاریکیاں اتنی ہی زیادہ دکھائی دیتی ہیں ،علم بشر کی مقدار میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن یہ احساس کہ اسمیں کوئی ترقی نہیں ہو رہی ہے اب بھی اپنی جگہ پر باقی ہے کیونکہ جن چیزوں کے بارے میں ہمیں معلومات حاصل ہوئی ہیں (انکی دریافت کرتے ہیں )اور ان کو نہیں سمجھ پاتے یا انکونہیں پہچانتے ہیں ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔(۲)

____________________

(۱) رسالہ:المختار من ریدرزدایجست صفحہ ۳۷/ نومبر۱۹۵۹

(۲)رسالہ ”المختار من ریدر دائجست صفحہ ۱۱۳ /اکتوبر۱۹۵۹

جی ہاں جس بشر نے اپنے تجربی اور حسی علوم کے ذریعہ بجلی، بھاپ، لوہا، پانی، مٹی ہوااور ایٹم کو مسخر کر لیا ہے اورآسمانی کرات بھی اس کی رسائی کے دائرے میں ہیں اور اس نے عناصر کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا ہے نئی نئی ایجادات جیسے فون، ریڈیو اور ٹیلیویژن یا کمپیوٹر، بڑے بڑے صنعتی کارخانے اس نے بنائے ہیں اسکے باوجود آج بھی وہ ان چیزوں کی حقیقت جاننے سے قاصر ہے جن سے اسے دن رات سروکار رہتا ہے ۔

اس نے بجلی کی حقیقت ،پانی کی حقیقت ،عناصر کی حقیقت ،درختوں اور معدنوں ،جراثیم اور خلیوں، ایٹم ،الکٹرونوغیرہ کی حقیقتوں کو نہیں پہچانا ہے اور انکے بعض خصوصیات یا چند ظاہری چیزوں کے علاوہ اسے کچھ معلوم نہیںہو پایا اور یہ تمام چیزیں اسکے لئے آج بھی ایک پہیلی (معمہ) اورنہ سمجھ میں آنے والی گتھی بنی ہوئی ہیں ۔

ایک مفکر دانشور کے بقول جو لوگ انسان کی تعریف میں حیوان ناطق اور گھوڑے کی تعریف میں حیوان صاہل(ہنہنانے والا)کہتے ہیں یہ لوگ ان الفاظ سے اس کی اسی طرح شناخت کراتے ہیں اور علمی غرور نے انکے ذہن کے غبار ے میں اتنی ہوا بھر دی ہے کہ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ انہوںنے انسانوں اور گھوڑوں کی حقیقت کو پہچان لیا ہے۔

لیکن اگر انکے اس غبارے کی ہوا نکل جائے تو ان کی سمجھ میں آجائے گا کہ اس تعریف کے ذریعہ نہ انہوں نے کسی انسان کوگھوڑے کی حقیقت سے واقف کیا ہے اور نہ خود ہی ان کی حقیقت کو سمجھ پائے ہیں لہٰذا بہتر یہی ہے کہ اشیاء کی حقیقت پہچنوانے کے لئے ان تعریفوں کو بیان نہ کیا جائے ۔

یہ انسان اپنے سے قریب ترین اشیاء کی حقیقت کو جاننے سے قاصر ہے کیونکہ اس کی روح سے زیادہ اور کوئی چیز اسکے نزدیک نہیں ہے تو کیا اس نے اپنی زندگی کو پہچان لیا ہے ؟اور کیا وہ روح اور حیات کی حقیقت کی وضاحت کر سکتا ہے ؟

کیا اسے اپنے بہت سارے فطری امور کی معرفت ہے ؟کیا وہ عشق و محبت لذت وصل، ذوق اور شجاعت یا دوسری فطری چیزوں کو سمجھتا ہے ؟

لیکن ان تمام دشواریوں اور جہالتوں کے باوجود کیا انسان صرف اس لئے ان حقیقتوں کا انکار کر سکتا ہے کہ اس کی عقل ان کو سمجھنے سے قاصر ہے یا اسکے اندر اتنی طاقت ہے کہ وہ ان کروڑوں، اربوں بلکہ ان سے بھی زیادہ مخلوقات اور عجیب وغریب اشیاء کا انکار کر دے جو اس کی نظروں سے پوشیدہ ہیں اور اسے معلوم نہیں ہیں؟ کیا وہ اس عالم ہستی کی ضخیم کتا ب کے کلمات کے معانی ،اسرارو خصوصیات اور اسکے فائدوں کا انکار کر سکتا ہے ؟

کیاہم کہہ سکتے ہیں کہ کیونکہ ہم نے فلاں چیز نہیں دیکھی لہٰذا اسکا کوئی وجود نہیں پایا جاتا یا کسی چیز کا راز اوراسکا فائدہ میری سمجھ میں نہیں آیا لہٰذا وہ بے فائدہ ہے اور اسمیں کوئی راز پوشیدہ نہیں ہے؟

ہر گز ہر گز ایسا نہیں ہو سکتا ! اور چاہے انسان کا علم و فن کتنی ہی ترقی کرلے وہ کبھی بھی یہ دعویٰ نہیں کرے گا بلکہ علم جتنا آگے بڑھے گا وہ اس قسم کے دعووں سے اتنا ہی دور رہے گا ۔

وہ آسمانی بجلی جس سے انسان ہزاروں سال تک ڈرتا رہا کیا اُس زمانہ میں کہ جب تک اسکے خصوصیات اور فائدوں تک سائنس کی رسائی نہیں ہوئی تھی اور خدا کی اس عظیم طاقت میں اس کی قدرت کا جو اعجازاور نشانیاںموجود ہیں اور نباتات یا حیوانات کے اوپر اسکا کیا اثر ہوتا ہے وہ ان سے آگاہ نہیں ہواتھا تو کیا اسکے اندر یہ منافع موجود نہیں تھے ؟اور کیا اس وقت وہ خدا وند عالم کی ایک عظیم نعمت نہیں تھی؟اور وہ لوگ جو اسے صرف نعمت یا عذاب کا ایک مظہر سمجھتے ہیں کیاوہ نا سمجھی کا شکار نہیں تھے ؟(۱)

ہر عالم اور دانشور دنیا کی عمارت کو منطق اور صحیح نظر کی بنیاد پر استوار سمجھتا ہے اور ان ظاہری

____________________

(۱)بجلی کے عجیب و غریب اہم فوائدکی تفصیلات کے لئے”الصواعق نعمة“ کے عنوان کا مقالہ ملاحظہ فرمائیے جو ماہنامہ رسالہ”بو بیلدرسائینس“ ”المختار من ریدرز دائجست“ شمارہ اکتوبر۱۹۵۹ ءء ص ۱۰۶ پر موجود ہے۔

چیزوں کو حقائق کا خزانہ قرار دیتا ہے اور اسے یہ کائنات ایک ایسا مدرسہ دکھائی دیتی ہے جس میںوہ علم و حکمت حاصل کرے وہ اس کے خصوصیات لوازم اور اجزاء کے بارے میں گفتگو کرنے سے لطف اندوز ہوتا ہے اور اسکے یہی معمے اور اسرار اس کے لئے پر لطف چیز یں ہیں نیز پوری زندگی تعلیم اور تحقیق (انکشافات) کے میدان میں بسر کرنے کے بعد اسکے اندر حیرت اور استعجاب کی جو کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ اس کی علمی زندگی کی سب سے (با لذت)لذیذ اور پر کیف چیز ہے جس لذت سے کسی چیز کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ،وہ دنیا کو ریاضی اور علم ہندسہ کے اس پیجیدہ سوال کی طرح سمجھتا ہے جسکا حل کرنا بظاہر آسان ہے لیکن جب اسے حل کرنا چاہیں تو اسمیں جتنا آگے بڑھتے جائیں اس کی پیچیدگی اور گہرائی میں اتنا ہی اضافہ ہو تاجاتا ہے ۔

ایک مفکر اور فلسفی کے لئے یہ لمحات بڑے حسین اور پر کیف ہوتے ہیں اور وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کی حیرت میں اور اضافہ ہوتا رہے اور وہ اس منزل تک پہونچ جائے کہ اسکویہ دکھائی دینے لگے کہ اس کی آنکھ ان تمام مجہولات (پوشیدہ چیزوں کو)دیکھنے والے آلات سے مسلح نہیں ہے اور پھر معرفت و بصیرت کے ساتھ قرآن مجید کی اس آیت کی تلاوت کرے:

ولو انّ ما فيالا رض من شجرة اقلام و البحر یمدّہ من بعدہ سبعة ابحر ما نفدت کلمات اللہ۔(۱)

”اور اگر روئے زمین کے تمام درخت قلم بن جائیں اور سمندر کا سہارا دینے کے لئے سات سمندر اور آجائیں تو بھی کلمات الٰہی تمام ہونے والے نہیں ہیں “۔

اور وہ یہ کہتا ہو ا دکھائی دے:

مجلس تمام گشت و بہ آخر رسید عمر

ما ہم چنان در اول وصف تو ماندہ ایم

مجلس ختم ہو گئی اور عمر تمام ہو گئی مگر ہم تیری توصیف کی شروعات میں ہی رکے رہ گئے ہیں۔

____________________

(۱)سورہ لقمان آیت۲۷

اسکے با وجود انسان ہر علمی میدان میں اپنی تمام تحقیقات نیز محنتوں اور مشقتوں سے اس دنیا کے پیدا کرنے والے کی حکمت ،منطق ،مقصد،ارادہ،قدرت اور اسکے علم سے واقف ہوتا ہے اور اسے بخوبی یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ اس دنیا میں کوئی بے نظمی نہیں ہے اور دنیا کی کسی مخلوق کو فضول یا بے فائدہ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔

یہ انسانی عاجزی (ناتوانی)اور اس کی فہم و شناخت کے مختلف طریقوں کی ایک مختصر سی جھلک تھی ، اور یہی اس کی عقل و خرد کی عجیب و غریب قدرت و طاقت کی دلیل بھی ہے ۔

ان خصوصیات کے بعد اگر وہ عالم تشریع یا عالم تکوین میں (کشف)ظاہر ہونے والی کسی بھی چیز کا فلسفہ نہ سمجھ پائے اور اس کی تاویل یا تشریح نہ کر سکے یا اس کی تعریف و توصیف کرتے وقت اسے الفاظ کا دامن (دائرہ)تنگ دکھائی دے تو وہ اسکے فائدہ کا انکار نہیں کر سکتا ۔

دنیائے حقیقت و معانی اور بشری علوم اور معلومات کی مثال ایسی ہے جیسے الفاظ اور معانی کے درمیان رابطہ ہوتا ہے، الفاظ کی دنیا چاہے جتنی وسیع اور کشادہ کیوں نہ ہو جائے پھر بھی وہ اپنے اندر تمام معانی کو نہیں سمیٹ سکتی ،کیونکہ زبانیں اور انکے الفاظ یا کلمات کی تعداد محدود ہے جبکہ معانی اور اشیاء (چیزیں)نا محدود ہیں اور یہ طے ہے کہ محدود چیز، نا محدود چیز کا احاطہ نہیں کر سکتی جیسا کہ ایک عربی شاعر نے کہا ہے:

وان قمیصا ً خیط من نسج تسعة

و عشرین حرفا عن معالیہ قاصر

ایک قمیص اگرچہ ۹ دھاگوں سے بنائی گئی ہے مگر بیس حروف بھی اس کے فضائل بیان کرنے سے قاصر ہیں ۔

اس حقیقت کو سب سے بہترین اور اچھے طریقہ سے قرآن مجید نے اس آیت میں بیان کیا ہے :

( قل لو کان البحر مداداً لکلمات ربي لنفد البحر قبل ان تنفد کلمات ربيولو جئنا بمثله مدد ا ) (۱)

”آپ کہہ دیجئے کہ اگر میرے پروردگار کے کلمات کے لئے سمندر بھی روشنائی بن جائیں تو کلمات رب کے ختم ہونے سے پہلے ہی سارے سمندر ختم ہو جائیں گے چاہے ان کی مدد کے لئے ہم ویسے ہی سمندر اور بھی لے آئیں “

قرآن مجید نے آج سے چودہ صدی پہلے اس آیت میں کائنات کی مخلوقات کی عظمت اور ان کی بے شمار تعداد کو نہایت حسین انداز میں بیان کر دیا ہے جس کا علمی استحکام اور اعجاز سامنے آتا رہتا ہے اسکے علاوہ معصومین کی احادیث میں بھی اس حقیقت کو آشکار کیا گیا ہے مثلا ً اس وقت جبکہ انسان صرف تھوڑے سے ستاروں کو ہی پہچانتا تھا تو اس وقت کسی چیز کی کثرت میں مبالغہ کرنے کے لئے بارش کے قطروں ،ریت کے ذروں اور آسمان کے ستاروں کی مثال دیا کرتا تھا ۔

انسانی فہم و شعور اس دنیا کی حقیقتوں کو درک کرنے سے کتنا قاصر ہے اس سلسلہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے یہ فرمایا ہے:

یا بن آدم لو اکل قلبک طائر لم یشبعہ و بصرک لو وضع علیہ خرت ابرة لغطاہ ترید ان تعرف بھا ملکوت السموات والارض۔(۲)

اے فرزند آدم ! اگر تیرا دل ایک پرندہ کھالے تو اس سے اسکا پیٹ نہیںبھر سکتا اور اگر تیری آنکھ کے اوپر ایک سوئی کی نوک رکھ دی جائے تو وہ اسے ڈھک لے گی اور پھر تو یہ چاہتا ہے کہ اسکے ذریعہ ملکوت آسمان و زمین کو پہچان لے ۔

اس تمہید کے بعد جو لوگ امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کی غیبت کے راز اور آپ کے پوشیدہ رہنے کا فلسفہ معلوم کرنا چاہتے ہیں ہم ان سے یہ کہیں گے :

آپ دریافت کیجئے اور غور و فکر سے کام لیجئے تحقیق اور جستجو فرمائیے ہمیں آپ کے تحقیق کرنے

یا آپ کے دریافت کرنے پر کوئی اعتراض نہ ہو گا،پوچھئیے اور تلاش میں لگے رہئے کیونکہ اگر آپ اس

____________________

(۱)سورہ لقمان آیت۲۷۔

(۲)حق الیقین ج ۱ص ۴۶۔

اگر چہ اس مضمون میں ان باتوں کی تفصیل بیان کرنا ممکن نہیں ہے لہٰذا اپنے محترم قارئین کی مزید توجہ کے لئے ان چار عنوانات: ۱ ۔آیات قرآن، ۲ ۔اجماع واتفاق مسلمین، ۳ ۔روایات اہل سنت، ۴ ۔روایات شیعہ، کے ذیل میں ہم ان کی مختصر وضاحت پیش کریں گے۔

۱ ۔قرآن مجید کی آیتیں

خدا وند عالم نے قرآن مجید کی متعدد آیتوں میں ان باتوں کا وعدہ فرمایا ہے کہ پوری دنیا میں ایک اسلامی حکومت قائم ہوگی، دین اسلام ہر طرف پھیل جائے گا اور تما م مذاہب پر اس کا غلبہ ہوگا، (صالح اور لائق حضرات حکومت کریں گے) ان میں سے بعض آیتیں یہ ہیں:

( و قاتلوهم حتیٰ لا تکون فتنة و یکون الدین کله للّٰه ) (۱)

اور تم لوگ ان کفار سے جہاد کرو یہاں تک کہ فتنہ کا وجود نہ رہ جائے اور سارا دین صرف اللہ کے لئے رہ جائے۔

( هو الذی ارسل رسوله بالهدیٰ و دین الحق لیظهره علی الدین کله ) (۲)

وہ خدا جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب کردے۔

( یریدون ان یطفئوا نور اللّٰه باٴفواههم و یاٴبیٰ اللّٰه الا ان یُتمّ نوره ) (۳)

یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنے منھ سے پھونک مار کر بجھا دیں حالانکہ خدا اسکے علاوہ کچھ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ وہ اپنے نور کو تمام(اور کامل) کر دے۔

____________________

(۱)سورہ انفال آیت۳۹۔

(۲)سورہ توبہ آیت۳۳ وسورہ فتح آیت ۲۸۔

(۳)سورہ توبہ آیت۳۲۔

( یریدون لیطفئوا نور اللّٰه باٴفواههم واللّٰه مُتمّ نوره ) (۱)

یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے۔

( و یرید الله ان یُحق الحق بکلماته و یقطع دابر الکافرین ) (۲)

اور اللہ اپنے کلمات کے ذریعہ حق کو ثابت کرنا چاہتا ہے اور کفار کے سلسلہ کو قطع کردینا چاہتا ہے۔

( و قل جاء الحق و زهق الباطل ان الباطل کان زهوقا ) (۳)

اور کہہ دیجئے کہ حق آگیا اور باطل فنا ہو گیا کہ باطل بہر حال فنا ہونے والاہے۔

( ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثها عباديالصالحون ) (۴)

اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میںبھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہونگے۔

( و عد اللّٰه الذین آمنوا منکم و عملوا الصالحات لیستخلفنّهم فی الارض ) (۵)

اللہ نے تم میں سے صاحبان ایمان اور عمل صالح بجالانے والوںسے وعدہ کیا ہے کہ انہیں زمین میں اس طرح اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایاہے۔

( ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین انهم لهم المنصورون و ان جندنا لهم الغالبون ) (۶)

اور ہمارے پیغامبربندوں سے ہماری بات پہلے ہی طے ہو چکی ہے کہ انکی مدد بہرحال کی جائیگی اور ہمارا لشکر بہر حال غالب آنے والا ہے۔

( انّا لننصر رسلنا والذین آمنوا فی الحیاة الدنیا ) (۷)

بیشک ہم اپنے رسول اور ایمان لانے والوں کی زندگانی دنیامیں بھی مدد کرتے ہیں۔

____________________

(۱)سورہ صف آیت۸۔

(۲)سورہ انفال آیت۷۔

(۳)سورہ اسراء آیت۸۱۔

(۴)سورہ انبیاء آیت۱۰۵۔

(۵)سورہ نور آیت۵۵۔ (۶)سورہ صافات آیت۱۷۱۔۱۷۳۔

(۷)سورہ غافر آیت۵۱۔

( کتب الله لا غلبن اناورسلی ان الله قويّ عزیز ) (۱)

اللہ نے یہ لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب آنے والے ہیں بے شک اللہ صاحب قوت اور صاحب عزت ہے

انکے علاوہ دوسری آیتیں بھی ہیں جنکی تاویل حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے ظہور کے وقت سامنے آئے گی وہ سب بھی اس بات کی دلیل ہیں کہ اسلام تمام مذاہب پر غالب آجائے گا اور اہل حق، باطل پرستوں پر غلبہ حاصل کر لیں گے یاانبیائے الٰہی کا تسلط اور نور خدا کا تمام و کامل ہونا حتمی ہے ،ان سب آیتوں کے معنی ابھی مکمل طریقے سے ظاہر نہیں ہوئے ہیں اور یہ آیتیں آخری زمانے میں انکے عملی ہونے کی بشارت دے رہی ہیں ۔

خدا وند عالم نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنے پیغمبروں کی ضرور مدد کرے گا اور ان کو غلبہ عطا کرے گا اور یہ طے ہے کہ اس غلبہ اور مدد کا تعلق صرف آخرت ہی سے نہیں ہے کیونکہ اس نے خود ارشاد فرمایا ہے:

( فی الحیاة الدنیا )

دنیاوی زندگی میں۔

دوسرے یہ کہ اس سے یہ مراد بھی نہیں ہے کہ انبیاء کرام اپنی اقوام کے اوپر اپنے زمانہ میں غلبہ حاصل کر لیں گے اور انکے مشن کو ترقی ہوگی کیونکہ بہت سارے انبیاء کی تبلیغ کا ان کی قوم پر کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ بہت سے انبیاء کو قتل بھی کر دیا گیا ۔

اس مدد اور غلبہ سے انکے مقصد اور پیغام کی مدد اور اسکا غلبہ مراد ہے اور ان آیتوں سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نصرت کسی خاص رتبہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس سے ہر طرح کی(مطلق) نصرت مراد ہے ۔

یہی نور کو تمام کرنے کے معنی بھی ہیں کہ جو لوگ خدا کے نور کو بجھانا چاہیں گے اور اسلام کی

____________________

(۱)سورہ مجادلہ آیت۲۱۔

پیشرفت میں رکاوٹ پیدا کریں گے انکے مقابلہ میں خدا وند عالم اپنے نور کو کامل کر دے گا اسکے معنی بھی یہی ہیں کہ خدا وند عالم دین کو ترقی عطا کرے گا اسلام کی سرحدیں بڑھتی چلی جائیں گی اور یہ نور اس وقت مکمل ہوگا جب اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے گا ۔

زمین پر مومنین کی جا نشینی اور اس پر ان کے وارث ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ پوری زمین کے مالک و مختار بن جائیں گے بلکہ یہ موقع صرف امام زمانہ اور ان کے ساتھیوں کو ملے گا۔

باطل کے اوپر ہر لحاظ سے حق کے غلبہ کے بھی یہی معنی ہیں کہ ہر اعتبار سے حق، باطل پر کامیاب و کامران ہو جائے گا اور اگر یہ کہا جائے کہ حجت و برہان کے ذریعہ غالب ہوگا اور ظاہر میں غالب نہ ہوگا تو اسے ہر لحاظ سے غلبہ نہیں کہا جائے گا جبکہ ان آیتوں سے ہر طرح کا تسلط سمجھ میں آتا ہے۔

لیکن یہ آیت:

( لیظهره علی الدین کله )

تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بنا دے۔

اسلام کے غالب ہو جانے کے بارے میں واضح دلیل ہے۔

ان آیتوں کی تائید اُن روایتوں سے بھی ہوتی ہے جو رسول اکرم سے اس سلسلہ میں نقل ہوئی ہیں جیسے آپ نے فرمایا:

( لیدخلن هذا الدین علی مَن دخل علیه اللیل )

جہاں کہیں بھی رات داخل ہوتی ہے یہ دین وہاں ضرورپہنچے گا۔

اس حدیث میں آپ نے”علی ما دخل علیہ اللیل “فرمایا ہے اور ”علی ما دخل علیہ الیوم او الشمس“نہیں فرمایا اسکا راز شائد یہ ہو کہ اسمیں دین کو سورج سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ جہاں رات ہوتی ہے وہاں سورج ضرور پہنچتا ہے اسی طرح اسلام کے روشن و منور سورج کی کرنیں پوری دنیا میں پھیل جائےں گی اور کفر و ضلالت کی تاریکی کا اسی طرح خاتمہ ہو جائے گا جس طرح سورج ،رات کا خاتمہ کر دیتا ہے۔

۲ ۔اجماع مسلمین

اگر اس اجماع اور اتفاق سے شیعوں کا اجماع مرادہو تو یہ بالکل واضح ہے اور اسے سب ہی جانتے ہیں کہ امام حسن عسکری کے فرزند دلبند حضرت قائم آل محمدکا ظہور شیعہ اثنا عشری مذہب کا اہم حصہ ہے اور اگر اس سے تمام مسلمانوں کا اتفاق مراد ہو تو اسکے ثابت کرنے کے لئے اہل سنت کے ایک صاحب نظر اور نکتہ سنج عالم، معتزلیوں کے علامہ ابن الحدید کا یہی ایک جملہ کافی ہے جو انہوں نے شرح نہج البلاغہ (مطبوعہ مصر ج ۲ ص ۵۳۵) میں تحریرکیا ہے :

قد وقع اتفاق الفریقین من المسلمین اجمعین علی ان الدنیا والتکلیف لا ینقضی الا علیه

”دونوں فرقوںسنّی اور شیعہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دنیا اور تکلیف شرعی کاخاتمہ نہ ہوگا مگر حضرت پر “یعنی آپ کے ظہور کے بعد۔

اہل سنت کے اور چار معروف علماء کے اقوال کیونکہ آئندہ مضمون میں نقل کئے گئے ہیں لہٰذا انہیں اس مقام پر ذکر نہیں کیا جا رہا ہے انھیں وہیں ملاحظہ فرمائیے۔

جو لوگ تاریخ پر نظر رکھتے ہیں انہیں بخوبی معلوم ہے کہ مصلح منتظر مہدی آل محمد علیہ الصلاة والسلام کے ظہور کے بارے میں تمام مسلمانوں کے درمیان اس حد تک اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ پہلی صدی ہجری سے اب تک جس نے بھی مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے یا جس کی طرف اس دعوے کی نسبت دی گئی ہے سب نے اس کی کھل کر مخالفت کی ہے لیکن خود مسئلہ ظہور کی مخالفت کسی نے نہیں کی کیونکہ یہ بات مسلمانوں کے اجماع اور پیغمبر اکرم کی صریحی روایات کے خلاف تھی بلکہ وہ ان کی مخالفت اور ابطال کے لئے یہ طریقہ اپناتے تھے کہ روایات میں حضرت مہدی کے ظہور سے متعلق جن علامتوں اور نشانیوں کا تذکرہ ہے چونکہ ان مدعیوں کے یہاں ان میں سے کوئی علامت نہیں پائی جاتی ہے لہٰذا یہ لوگ جھوٹے ہیں۔

اہل سنت کے چاروں مذاہب کے چار بزرگ علماء یعنی ابن حجرشافعی، ابو السرور احمد بن ضیاء حنفی،محمد بن احمد مالکی،یحییٰ بن محمد حنبلی سے جب اس سلسلہ میں سوال کیا گیا تو انہوں نے اسکا اسی اندازمیں جواب دیا جسکی تفصیل کتاب ”البرہان فی علامات مہدی آخر الزمان “ باب ۱۳ پر انکے فتووں کے ساتھ نقل ہوئی ہے انھوں نے مسئلہ ظہور مہدی کوثابت کرنے کے ساتھ آپ کی بعض خصوصیات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے یعنی وہ دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دینگے یا حضرت عیسیٰ آپ کی اقتدا کریں گے یا آپ کے دوسرے اوصاف بیان کئے ہیں مختصر یہ کہ یہ ان کا مدلّل، دوٹوک اور قانونی فتویٰ ہے حتیٰ کہ جناب زید کی طرف مہدویت کی جو غلط نسبت دی گئی تھی اس سلسلہ میں بنی امیہ کے شاعر حکیم بن عیاش کلبی نے یوں کہا ہے:

ولم ا ر مهد یا علی ا لجذع یصلب (۱)

مجھے کوئی ایسا مہدی نہیں دکھائی دیا جسے سولی دی گئی ہو۔

اس سے اس کی مراد یہ ہے کہ مہدی جب ظہور کرینگے تو تمام ممالک کو فتح کرینگے اور پوری دنیا میں صرف انہیں کی حکومت ہوگی ، ہر جگہ عدل و انصاف کا رواج ہوگا تو پھر جناب زید جنہیں سولی پر لٹکایا گیا وہ کس طرح مہدی ہو سکتے ہیں؟

۳ ۔احادیث اہل سنت

اہل سنت کے بڑے بڑے محدثین جنکے نام اور ان کی کتابوں کی تفصیل اس مقالہ میں اختصار کی بنا پر ذکر کرنا ممکن نہیں ہے انہوں نے حضرت مہدی کے بارے میں صحابہ کے علاوہ بہت

____________________

(۱)ابن حجر عسقلانی شافعی نے اپنی کتاب ”الاصابہ ج۱ ،ص۳۹۵ پر” فوائد کواکبی“ سے جو روایت نقل کی ہے اسکے مطابق، یہ حکیم بن عیاش ،امام جعفر صادق کی بد دعا کی وجہ سے بہت ہی عبرتناک حالت میں ہلاک ہوا تھا۔

سے تابعین سے بھی کثرت کے ساتھ روایتیں نقل کی ہیں اور بعض حضرات نے تو اس سلسلہ میں مستقل کتاب بھی تالیف کی ہے جبکہ بہت سے لوگوں نے ان روایتوں کے متواتر(۱) ہونے کی تصریح کی ہے اور ان حضرات کی تحریروں میں اس بات کی تاکید موجود ہے ۔

اس مقالہ کے بعض حصے جیسے صحابہ کے نام یا جن علمائے اہل سنت نے اس سلسلہ میں کتابیں لکھی ہیں یا جن لوگوں نے روایتوں کے متواتر ہونے کی صراحت کی ہے ان سب کے نام چونکہ اسی کتاب میں آئندہ ذکر کئے جائیں گے لہٰذا انہیں یہاں حذف کیا جا رہا ہے ۔

خلاصہ یہ کہ : پیغمبر اکرم کی متواتر روایات سے صرف مسئلہ ظہور مہدی ہی حتمی اور قطعی نہیں ہے بلکہ تواتر کے ساتھ یہ بھی ثابت ہے کہ آپ پوری دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دینگے اور حضرت عیسیٰ آسمان سے نازل ہو کر آپ کی اقتدا کرینگے اور آپ پوری دنیا کو فتح کر کے اسمیں قرآنی احکام کوعام کردینگے۔

اسکے علاوہ اہل سنت کے بہت سے علماء و محققین نے اپنے اشعار، قصائد یا اپنی کتابوں میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام امام حسن عسکری کے اکلوتے بیٹے ہیں جیسا کہ ہم نے اپنی کتاب ”منتخب الاثر “ کی تیسری فصل کے پہلے باب میں آنحضرت کی ولادت ،غیبت اور امامت سے متعلق اہل سنت کے ساٹھ علماء کے واضح اعترافات نقل کئے ہیںچنانچہ جو منصف مزاج انسان بھی ان اعترافات کو ملاحظہ کر ے اسکے لئے کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہیں رہ سکتا ہے۔

۴ ۔احادیث شیعہ

مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ شیعوں نے جو روایتیں نقل کی ہیں وہ سب سے زیادہ معتبر ہیں کیونکہ پیغمبر اکرم کے دور سے لیکر آج تک انکے درمیان حدیث نویسی کا سلسلہ کبھی بھی منقطع نہیں ہوا اورجو کتابیں پہلی صدی ہجری سے ۵۰ ہجری تک یا ۵۰ ہجری سے ۱۰۰ ہجری تک لکھی گئیں

____________________

(۱)حدیث متواتر : اس حدیث کو کہا جاتا ہے جسکے نقل کرنے والے راوی اتنے افراد ہوں جنکے جھوٹ بولنے اور ساز باز کرنے کا امکان نہ ہو

تھیں انمیں سے بعض آج بھی موجود ہیں جن سے لوگ با قاعدہ استفادہ کرتے ہیں بلکہ ان کی سب سے پہلی کتاب وہی کتاب ہے جسے رسول اکرم نے املاء فرمایا تھا اور حضرت علی نے اسے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا جیساکہ متعدد روایات میں ذکر ہے کہ ائمہ طاہرین علیہم السلام احادیث کو نقل کرتے وقت اس کتاب کو سند کے طور پر پیش کرتے تھے۔

دوسرے فرقوں کی روایتوں کے مقابلہ میں شیعوں کی روایتوں کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ ان کی روایتیں ائمہ معصومین کے ذریعہ نقل ہوئی ہیں اور یہ حضرات زہدوتقویٰ کا نمونہ ہیں اور ان کی عظمت و فضیلت فریقین کے نزدیک ہر لحاظ سے مسلّم ہے اور ”اہل البیت ادریٰ بما فی البیت “ (یعنی گھر والوں کو اپنے گھر کے حالات بہتر معلوم ہوتے ہیں)کے مطابق ان سے منقول روایتیںفطری طور پر زیادہ محکم اور غلطیوں سے پاک ہیں۔

تیسری اہم وجہ : جسکی بنا پر شیعوں کی روایات سب سے زیادہ معتبر قرار پائی ہیں اور درحقیقت یہی سبب ان کی روایتوں کا بہترین پشت پناہ اور سند بھی ہے وہ حدیث ثقلین ہے جو متواتر بھی ہے یا حدیث سفینہ اورحدیث امان یا ان کے علاوہ اور دوسری روایات ہیں جن میں امت کو اہل بیت کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ کہ اہل بیت قرآن مجید کے ہم پلہ ہیں اور ان کا قول حجت ہے اور ان کے دامن سے وابستگی گمراہی سے نجات ہے نیز یہ کہ کوئی زمانہ، معصوم امام کے وجود سے خالی نہیں رہ سکتا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ ائمہ طاہرین سے جو روایتیں نقل ہوئیں ہیں ان میں اعلیٰ درجہ کی صداقت اور اعتبار پایا جاتا ہے کیونکہ ایک طرف تو تمام عقلاء کی سیرت یہی ہے کہ وہ ایک معتبر شخص کی بات کو بخوشی قبول کر لیتے ہیں دوسرے یہ کہ اہل بیت کو پیغمبراکرم سے جس درجہ قربت حاصل تھی اور آنحضرت کے نزدیک ان لوگوں کا جو مرتبہ و مقام تھا وہ صحابہ اور تابعین میں کسی کو بھی حاصل نہیں تھا حتیٰ کہ حدیث ثقلین کے مطابق ان حضرات کا قول اور فعل شرعی حجت اور دلیل ہے اور کیونکہ یہ لوگ معصوم ہیں اور قرآن سے کبھی جدا نہیں ہونگے لہٰذا امت کے لئے ان کی بات ماننا اور ان کی طرف رجوع کرنا واجب ہے ۔

اس مختصر تمہید کے بعد( جسے ہم نے اپنی اُس کتاب میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے جس میں اہل بیت کی پیروی کے واجب ہونے اور ان سے علم حاصل کرنے کے بارے میں گفتگو کی ہے) باآسانی یہ کہہ سکتے ہیں کہ شیعوں کے یہاں قائم آل محمد حضرت ولی عصرعجل اللہ تعالی فرجہ کے ظہور سے متعلق ان کے عظیم علماء ومحدثین کی کتابوں میں معتبر ترین روایات موجود ہیں جو آغاز ہجرت سے اب تک لکھی گئی ہیں جیسے ان اصل کتابوں کی روایتیں جو حضرت قائم آل محمد کی ولادت سے پہلے تالیف ہوئی ہیں مثلاً حسن بن محبوب (متوفیٰ ۲۲۴ ھ) کی کتاب ”مشیخہ“ یا ”سلیم بن قیس “ (متوفیٰ ۷۰ یا ۹۰ ہجری )کی کتاب ۔

یہ ایسی روایات ہیں کہ ان میں سے صرف ایک روایت ہی امام زمانہ کی امامت کو یقینی طور پر ثابت کرنے کے لئے کافی ہے اور یہ کہ آپ امام حسن عسکری کے اکلوتے بیٹے ہیں ،وہ روایات جن میں ایسی پیشین گوئیاں بھی ہیں جو اب تک سچ ثابت ہو چکی ہیں اور وہ اولیائے خدا کا معجزہ سمجھی جاتی ہیں اور انہیں ان کی غیب سے متعلق خبر شمار کیا جاتا ہے ۔وہ روایتیں جن میں اس ظہور کے خصوصیات ،شرائط اور اس کی علامتیں واضح طور پر بیان کی گئی ہیں ان روایتوں کی تعداد تواتر سے کہیں زیادہ ہے اور ان کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرنا صرف اسی کے لئے ممکن ہے جسکا مطالعہ بہت وسیع ہو اور وہ اس فن میں واقعاً صاحب نظر ہو ۔

قارئین محترم یہ مشکل صرف زبانی دعویٰ نہیں بلکہ بالکل سچ اور حقیقت پر مبنی ہے جسکی بہترین دلیل حدیث کے اہم مجموعوں کے علاوہ بڑے بڑے شیعہ محدثین کی وہ سینکڑوں کتابیں بھی ہیں جو اس موضوع پر لکھی گئی ہیں ۔

جیسے تیسری صدی ہجری کے بزرگ عالم عیسیٰ بن مہران مستعطف کی تالیف ”المھدی “، فضل بن شاذان کی کتاب ”قائم و غیبت “، تیسری صدی ہجری کے جلیل القدر عالم عبد اللہ بن جعفر حمیری کی تالیف ”غیبت“،یا کتاب ”غیب وذکرالقائم “ مولفہ ابن اخی طاہر(متوفیٰ ۳۵۸ ھ)، محمد بن قاسم بغداد ی معاصر ابن ہمام (متوفیٰ ۳۳۳ ھ) کی کتاب ”غیبت“، شیخ کلینی کے ماموں علان رازی کلینی کی تالیف ”اخبار القائم “یا ”اخبار المھدی“مولفہ جلودی (متوفیٰ ۳۳۲ ھ)، چوتھی صدی ہجری کے ایک بڑے عالم نعمانی کی ”کتاب غیبت“، حسن بن حمزہ مرعشی (متوفیٰ ۳۵۸ ھ)کی تالیف ”غیبت“یا” دلائل خروج القائم“ مولفہ ابن علی حسن بن محمد بصری، (تیسری صدی ہجری کے عالم)احمد بن رمیح المروزی یا کتاب ”ذکر القائم من آل محمد“ قدیم محدث ابی علی احمد بن محمد جرجانی کی تالیف” اخبار القائم “ یا”الشفاء والجلاء“ مولفہ احمد بن علی رازی” ترتیب الدولہ“مولفہ احمد بن حسین مہرانی، ”کمال الدین “ ، ”کتاب غیبت کبیر“تالیف شیخ صدوق(متوفیٰ ۳۸۱ ھ)، ابن جنید کی کتاب”غیبت“ (متوفیٰ ۳۸۱ ھ)، ”کتاب غیبت“مولفہ شیخ مفید(متوفیٰ ۴۱۳ ھ)، سید مرتضیٰ (متوفیٰ ۴۳۶) کی کتاب غیبت، شیخ طوسی(متوفیٰ ۴۶۰) کی کتاب ”غیبت“۔ سید مرتضیٰ کے ہم عصر اسعد آبادی کی تالیف” تاج الشرفی ،کتا ب ما نزل من القرآن فی صاحب الزمان“ مولفہ عبداللہ عیاش (متوفیٰ ۴۰۱) ” فرج کبیر“،مولفہ محمد بن ھبت اللہ طرابلسی (شاگرد شیخ طوسی ) اسی طرح” برکات القائم“ ،تکمیل الدین، بغیة الطالب ،تبصرة الاولیاء ،کفایة المہدی ،اخبار القائم ،اخبار ظہور المہدی الحجة البالغ ،تثبیت الاقران ،حجة الخصام ،الدر المقصود ،اثبات الحجة ،اتمام الحجة ،اثبات وجود القائم ،مولد القائم،الحجة فی ما نزل فی الحجہ ،الذخیر ة فی المحشر ،السلطان المفرج عن الایمان،سرود اہل الایمان، جنی الجنتین ،بحار الانوار کی تیرھویں جلد ،غیبتِ عوالم کے علاوہ ایسی اور بھی سینکڑو ں کتابیں ہیں جن کی فہرست اور مولفین کے نام تحریر کرنے سے یہ گفتگو کافی طویل ہو جائے گی۔

ان متواتر روایات کی روشنی میں اس مقام پر ہم حضرت مہدی کے بعض اوصاف اور ان کی بعض علامتیں ایک فہرست کی شکل میں پیش کر رہے ہیں جن کی وضاحت کسی دوسرے موقع پر پیش کی جائے گی۔(۱)

آخر میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ امام عصر کے موجود ہونے کے بارے میں اور بھی عقلی و نقلی دلیلیں موجود ہیں جن کوہم اس مقام پر بیان نہیں کر رہے ہیں۔

البتہ مختصر یہ کہ وہ تمام عقلی و نقلی دلیلیں جو امامت عامہ پر دلالت کرتی ہیں یا یہ ثابت کرتی ہیں کہ ہر زمانہ میں ایک امام معصوم کا موجود ہونا ضروری ہے، ہر امام کی معرفت واجب ہے اور کبھی بھی زمین حجت سے خالی نہیں رہ سکتی کیونکہ ”لو بقیت الارض بغیر حجة لساخت باھلھا “ اگر زمین حجت خدا سے خالی ہو جائے تو وہ تمام اہل زمین کو اپنے اندر دھنسا لے گی ،یہی سب دلیلیں حضرت صاحب الزمان کے وجود اور آپ کی امامت کی مستحکم دلیلیں ہےں اور امام عصر ارواحنافداہ کے وجود کے اثبات اور پردہ غیبت میں آپ کے زندہ رہنے پر استدلال و بر ہان قائم کرنے کے لئے یہی دلیلیں بہترین سند ہیں۔

____________________

(۱)چونکہ یہ تمام اوصاف ”امام مہدی کے اوصاف اور امتیازات “نامی فصل میں بیان کئے جائےں گے لہٰذا انہیں اس جگہ سے حذف کر دیا گیا ہے ،قارئین کرام ص۸۰کا مطالعہ فرمائیں۔

بارہ امام

ہمیں معلوم ہے کہ شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم کے بعداسلامی امت کی دینی اور سیاسی رہبری و قیادت ایک خدائی منصب ہے اور پیغمبراکرم نے اس کے لئے حکم خدا سے ایک لا ئق اور اہل شخص کو معین کیا اور جس طرح پیغمبر اکرم امت کی دینی ،سیاسی روحانی اور انتظامی قیادت کے ذمہ دار تھے، امام بھی جو کہ پیغمبر اکرم کا جانشین اور خلیفہ ہے، امت کا قائد و رہبر ہے ۔

البتہ ان دونوں کے درمیان صرف اتنا سا فرق ہے کہ پیغمبر پر وحی نازل ہوتی ہے اور وہ کسی انسان کے وسیلہ کے بغیر دین و شریعت کو عالم غیب سے حاصل کرکے اسے اپنی قوم تک پہونچاتا ہے لیکن امام شریعت و کتاب لیکر نہیں آتا ہے ، اسکے پاس عہدہ نبوت نہیں ہوتا بلکہ وہ پیغمبر اکرم کی کتاب و سنت کے ذریعہ امت کی ہدایت کرتا ہے۔

یہ طے ہے کہ یہ طریقہ کار عدل و انصا ف ،عقل ومنطق اور حق کے عین مطابق ہے اور اسکے علاوہ امت کی رہبری و قیادت کے جتنے طریقے اور راستے ہیں ان میں یہی سب سے زیادہ قابل اعتماد اور بھروسہ کے لائق ہے کیونکہ جس شخص کو بھی پیغمبر اکرم خدا وند عالم کے حکم سے امت کا رہبر و ہادی بنائیں گے اسمیں رہبری کی تمام صلاحیتیں موجود ہوں گی اور وہی امامت و ہدایت کے لئے بہترہوگا جیسا کہ مشرقی اور مغربی فلاسفہ کے لئے قابل فخر اور عظیم فلسفی شیخ الرئیس ابو علی سینا نے کہا ہے: ”والاستخلاف بالنص اصوب فان ذالک لا یودیٰ الی التشعب والتشاغب والاختلاف “یعنی نص کے ذریعہ خلیفہ کا انتخاب ہی سب سے زیادہ درست بات ہے کیونکہ اس میں کسی بھی قسم کی پارٹی بازی ، فتنہ و فساد اور اختلاف کا امکان نہیں ہے ۔

مسلمانوں کی ایسی دینی اورسیاسی رہبری وقیادت کہ ان کے رہبر کا ہر قول وفعل ہر ایک کے لئے حجت اور لوگوں کے تمام دینی اور دنیاوی امور پر حاکم ہو یہ ایک بہت نازک اور بلند مقام و مرتبہ ہے اور اس سے بڑا عہدہ کوئی اور نہیں ہو سکتا لہٰذا اگر اس کے انتخاب میں ذرہ برابر کوتاہی ہو جائے تو اسکے خطرناک نتائج سامنے آئیں گے اور پھر انبیاء کی بعثت کا کوئی فائدہ باقی نہیں رہ جائے گا۔

صالح ہادی کاانتخاب

جو شخص اتنی اہم صلاحیتوں کا مالک ہو اس کی شناخت کرنا عام لوگوں کی عقل و شعور سے بالاتر ہے اس عہدہ کاحقدار وہی ہو سکتا ہے جسکے اندر انسانی فنون اور فضائل و کمالات جیسے علم ،حلم ،بخشش،چشم پوشی ،رحم دلی ،عدل ،تواضع، انسانی حقوق کی آزادی کا احترام ، انسان دوستی ،عقل ،تدبیر،دینی اور روحانی معاملات کے بارے میں دقت نظر کے علاوہ دوسرے اہم اور ضروری صفات اور شرائط پائے جاتے ہوں جن کو خداوند عالم کی ہدایت کے بغیر پہچاننا ہر گز ممکن نہیں ہے ۔

اس بنا پر یا اور دوسری عقلی ونقلی دلیلوں کی بنیاد پر شیعوں کا یہ عقیدہ ہے کہ پیغمبر جیسے صفات رکھنے والے امام کو منصوب اور معین کرنے کا حق صرف خداوند عالم کے اختیار میں ہے اور امام کی تعیین جیسا کہ آیہ شریفہ میںصاف طور پر ذکر ہے دین کی تکمیل اور نعمت کا اتمام ہے اور بعثت انبیاء کی غرض اور اسکے مقصد کے عین مطابق ہے اور اسکو چھوڑ دینااسلامی سماج اور معاشرہ کے بارے میں بے توجہی کے مثل ہے اور یہ انبیاء کی زحمتوں کو ضائع کرنا ہے ۔

بشر کا انتخاب ہمیشہ حق نہیں ہو سکتا

شیعوں کا کہنا ہے کہ جس شخص کا قول و فعل حتی اس کی تائید یا خاموشی بھی ہرایک کے لئے نمونہ عمل ہے اور وہ شریعت کی ناموس کا محافظ اور اسکے احکام کی تشریح کرنے والا ہے ایسے بشر کا صحیح انتخاب انسانوں کے ذریعہ ہر گز ممکن نہیں ہے بلکہ ایسے ولی امر کا انتخاب کہ جسکی اطاعت اس آیت :( اطیعوا الله و اطیعوا الرسول و اُولی الامر منکم ) کے حکم کی بنا پر واجب ہے یہ صرف خدا کی طرف سے ہی صحیح اور حق بجانب ہے کہ خدا وند عالم لوگوں کی ظاہری ،باطنی ،روحانی اور فکری تمام صلاحیتوں سے بخوبی واقف ہے نہ اسے غافل بنایا جا سکتا ہے اور نہ اسکے یہاں غفلت کاامکان ہے اور نہ وہ کسی کی ریا کاری ،مکاری اور ظاہری اور کھوکھلی اداوں نیز عوام فریبی سے دھوکہ کھاتا ہے اور نہ ہی جذبات و احساسات ،خوف و دہشت یا کسی کی دھمکی سے اسکے اوپر کوئی اثر پڑتا ہے نہ ہی ذاتی اغراض و مقاصد اور اپنی قوم یا قبیلہ اور خاندان یا شہر والوں کے منافع کے خیال سے اسکا دامن داغدار ہے ۔

لیکن اگر اس انتخاب میں لوگوں کو شریک کر لیا جائے تو پہلے تو یہ کہ اگر وہ صالح فردکا انتخاب کرنا بھی چاہیں تو وہ اسے پہچانتے نہیں ہیں،دوسرے یہ کہ اثر ورسوخ کا استعمال، بھول چوک ایک دوسرے کی مخالفت یا لالچ وغیرہ ان کی آزادی خیال اور اظہار رائے کی راہ میں مانع ہو جاتے ہیں۔

تیسرے یہ کہ انہیں ذاتی مفادات کی فکر رہتی ہے جسکا مشاہدہ دنیا کے ہرالیکشن میں ہوتا رہتاہے ۔چاہے الیکشن جتنے آزاد اور صحیح کیوں نہ ہوں اسکے با وجود ان کے او پر ان اغراض و مقاصد کا ضرور اثر ہوتاہے اور تمام لوگ عام طور سے ذاتی مفادات کو اجتماعی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج تک ملکوں کے سر براہوں کا کوئی الیکشن ہر لحاظ سے صحیح اور کامل ثابت نہیں ہو سکا اور جن لوگوں کے اندر زیادہ لیاقت اور صلاحیت تھی انہیں نہیں چنا گیا اور اگر اتفاقاً کبھی کسی حد تک کوئی لائق آدمی چن بھی لیا گیا تو اس کی وجہ لوگوں کی صحیح تشخیص یا ان کی حق بینی اور باریک بینی یا دقت نظر نہیں تھی بلکہ اتفاقی طور پر یاملکی حالات اورسیاسی مجبوریوں کی بنا پر ایساہوگیا ہے ورنہ اگر لوگوں کی یہ تشخیص بالکل صحیح اور ہر قسم کے نقص سے دور اورحقیقت اور صحیح شناخت پر مبنی ہوتی تو پھر انکے چنے ہوئے ہر شخص کے اندر اس عہدے کی لیاقت اور صلاحیت ہونی چاہئے تھی جبکہ ہم عام طور سے دیکھتے رہتے ہیں کہ انسانوں کا انتخاب اکثر غلط ہی ہوتا ہے اور اسکا نتیجہ بہت کم صحیح ہو پاتا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ لوگ واقعاً صالح اور لائق افراد کو پہچاننے سے عاجز ہیں۔

جیسا کہ حضرت ولی عصرعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف نے سعد بن عبد اللہ اشعری قمی کے جواب میں فرمایا تھا ، جب انھوں نے آپ سے سوال کیا کہ لوگوں کو امام کے انتخاب کا حق کیوں نہیں ہے؟ امام نے فرمایا : نیک یا برا امام ؟

انہوں نے کہا : نیک

آپ نے فرمایا کیونکہ ان میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کے باطن اور نیت سے واقف نہیں ہے تو کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ کسی نااہل کو چن لیں۔

عرض کی : جی ہاں ممکن ہے

آپ نے فرمایا : ”فهی العلة(۱)

” یہی وجہ ہے “کہ لوگ اپنے امام کو نہیں چن سکتے ہیں۔

اس سے بخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ جو امام، پیغمبر کا جانشین اور خلیفہ ہوتا ہے اسےخدا کی طرف سے پیغمبر اکرم ہی معین کر سکتے ہیں اور یہ کام لوگوں کے بس سے باہر ہے اور ایک صالح سماج اور معاشرے یا نظام کے متعلق انبیاء اور دین کا جو مقصد تھا وہ پورا نہیں ہو سکتا ہے اسی لئے سب نے اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ لیا کہ پیغمبر اکرم کے بعد جب اس قاعدہ اور قانون کی خلاف ورزی کی

____________________

(۱)منتخب الاثر صفحہ ۱۵۱۔

گئی تو پہلے تو کچھ لوگوں نے کہا کہ خلافت کو بھی وزیر اعظم کے الیکشن کی طرح لوگوں کے چناو اور اجماع سے طے ہونا چاہئے اورجب حضرت ابو بکر نے خودحضرت عمر کو اپنا جانشین مقرر کر دیا اوران ہی کے بقول ”امت کو خلیفہ کے انتخاب کا حق حاصل ہے “خود ہی یہ حق امت سے چھین لیا اور اپنی من مانی سے حضرت عمر کو خلیفہ بنا دیاتو پھر یہ کہنا شروع کر دیا کہ خلیفہ اپنا جانشین معین کر سکتا ہے۔

ایک منزل اور آگے بڑھ کر تو خلیفہ کے انتخاب کے لئے چھ آدمیوں پر مشتمل باقاعدہ کمیٹی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو دنیا کے کسی قانون حکومت کے مطابق نہیں تھی پھر کہنے لگے کہ اس طرح بھی خلیفہ منتخب ہو سکتا ہے جب کچھ اور آگے بڑھےتو بنی امیہ کے شرابی کبابی اور زانی بادشاہوں تک نوبت پہونچ گئی چنانچہ جب یہ صورتحال دیکھی کہ اگر ولی امر کے لئے ایک چھوٹی سی شرط بھی رکھ دی گئی تو پھر ان تمام گذشتہ حکومتوں کے غیر شرعی ہونے کا اعلان کرنا پڑے گا اور کھلے عام شیعہ عقیدہ کی ترویج کرناہوگی لہٰذا وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ اسلامی حاکمیت بھی زمانہ جاہلیت کی حکومتوں کی طرح ہے اور اسکے لئے کوئی شرط ضروری نہیں ہے اس بنا پر جو شخص بھی اپنی طاقت کے بل بوتے پر باپ کی میراث میں یا کسی بھی طریقہ سے حکومت حاصل کر لے اس کی اطاعت تمام مسلمانوں پر واجب ہے اور ان کی جان و مال اور عزت و آبرو پر صرف اسی کا حکم نافذ ہے ۔

اس عقیدہ اور انداز فکر نے اخلاقی پستی کو جنم دینے کے علاوہ ظالموں اور جابروں کے لئے حکومت حاصل کرنے کے لئے زور آزمائی کا کھلا میدان فراہم کر دیا اور اس سے روز بروز ان کی لالچ میں اضافہ ہی ہو تا رہا اور تاریخ اسلام کی ابتداء سے آج تک حکومت پر بنی امیہ، بنی عباس جیسے تمام ظالم و جابر بادشاہوں اور سلاطین کے تسلط اور قبضہ کی یہی اہم وجہ ہے ،چنانچہ ان نااہل حکومتوں کی وجہ سے جو ظلم وتشدد ہوا اور اسلام کو ان کی طرف سے جو نقصان اٹھانا پڑا اسے اس مقالہ میں قلمبند کرنا ممکن نہیںہے اور بڑی خوشی کی بات ہے کہ ہمارے دور کے ایسے مشہور اہل سنت مفکرین جو اس نظریہ اور اس عقیدے کے خطرناک نتائج کی وجہ سے اسکے مخالف ہیں انہوں نے بھی اس عقیدہ پر سخت تنقید کی ہے ۔

امام کی تعیین کے بارے میں شیعوں کا عقیدہ بہت ہی مستحکم عقلی اورمنقولہ دلیلوں پر استوار ہے اور شروع سے لیکر آج تک ہر دور میں یہ عقیدہ حریت پسند،انصاف طلب اورظلم و ستم کے خلاف جہاد اور حق کے لئے قیام کرنے والے افراد کا اصل مرکز رہا ہے اسی لئے شیعوں کے صرف ایک عالم یعنی علامہ حلینے اپنی کتاب الفَین میں اس بارے میں ایک ہزار دلیلیں پیش کی ہیں کہ امام ،خدا کی طرف سے ہی معین اور منصوب ہونا چاہئے ،شیعوں کی نظر میں علمی اور عملی صلاحیتوں کے بغیر کسی کو کوئی چھوٹے سے چھوٹا سماجی یا حکومتی اور دینی منصب دینا جائز نہیں ہے اورحاکم کو اسلامی عدالت کا پیکر ہونا چاہئے اور یہ کہ وہ اسلامی احکام کو نافذکرے اور اس کے مقاصد کے لئے پوری سعی وکوشش کرے۔

بنی امیہ اور بنی عباس کے دور حکومت میں جو لوگ حکومت پر قابض ہوئے شیعوں کی نظر میں ان میں سے بہت سے لوگ تو کسی گاوں کی پردھانی بلکہ ایک گلی ، گوچہ کی پہرہ داری کے لائق بھی نہیں تھے ۔

جو شخص بھی اسلامی تعلیمات یا پیغمبر اکرم ،امیر المومنین اور ائمہ طاہرین کی سیرت اور لوگوں کے ساتھ ان کے طرز معاشرت کو ملاحظہ کرے اور اس کے بعد ان سرپھرے بادشاہوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھے جنہوں نے اسلامی ممالک پر حکومت کی ہے اور یہ دیکھے کہ انہوں نے طاقت کے زور پر اسلامی حکومت کے اوپر کیسے قبضہ کیا اور رعایا کے سروں پر سوار رہے اور وہ اپنی عیاشی، فحاشی، محلوں کی تعمیر و تزئین اور اپنے رشتہ داروں اور درباریوں کے منھ بھرنے کے لئے بیت المال کو کس بے دردی سے لٹاتے تھے ؟اور لوگوں کے اوپر اپنی قدرت و طاقت کا رعب جمانے کے لئے اپنے حوالیوں موالیوں کے ساتھ مخصوص حفاظتی فورس کے پہرے میں بیش قیمت سواریوں پر سوار ہو کر کس طنطنے کے ساتھ عوام کے درمیان سے گذرتے تھے؟ ان حالات کو دیکھنے کے بعد انسان یہ تصدیق کرنے پر مجبور ہے کہ ان کا طرز حکومت اسلام کے آزادی بخش نظام یا عدل وانصاف کو رواج دینے والی تعلیمات سے کسی طرح ہم آہنگ نہیں تھا جیسا کہ بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ ان کے رسم و رواج عام طور سے اسلامی حکومت کے اصول اور قوانین کے خلاف ہی نہیں تھے بلکہ وہ ظلم و استبداد اور کٹیٹرشپ کے بد ترین نمونے تھے جنکا تعلق سو فیصدی دور جاہلیت سے ہے اگر ہم اس موضوع کو چھیڑیں گے تو اس مقالہ کی منزل مقصود سے دور ہو جائیں گے، مختصر یہ کہ خداپرست عادل اور منصف مزاج ارباب حکومت کے عقیدے نے شیعوں کو ظلم وستم سے دور کر دیا


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13