نويد امن وامان

نويد امن وامان15%

نويد امن وامان مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

نويد امن وامان
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 218 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 18986 / ڈاؤنلوڈ: 4179
سائز سائز سائز
نويد امن وامان

نويد امن وامان

مؤلف:
اردو

”اگر یہ لوگ الگ ہو جاتے تو ہم کفار کو درد ناک عذاب میں مبتلا کر دیتے“ کی تفسیر ہے جو متعدد روایات میں ذکر ہوئی ہے جس کو تفسیر برہان، صافی وغیرہ یا احادیث کی کتابوں میں دیکھا جا سکتا ہے ان روایا ت کا مضمون یہ ہے :

”قائم اس وقت تک ہر گز ظہور نہ کرینگے جب تک خدا کی امانتیں ظاہر نہ ہو جائیں اور جب وہ سب امانتیں سامنے آجائیں گی تو تمام دشمنان خدا کا پتہ چل جائے گا اور آپ ان کو قتل کرڈالیں گے“

محقق طوسی کا قول

فیلسوف مشرق، اسلامی حکماء اور فلاسفہ کے لئے باعث افتخار خواجہ نصیر الدین طوسی نے امامت کے بارے میں ایک فلسفیانہ اور محققانہ رسالہ لکھا ہے جس میں انہوں نے امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کی غیبت اور اس کی طولانی مدت اور مسئلہ غیبت کے امکان کے بارے میں ایک پوری فصل تحریر کی ہے جسکے آخر میں آپ نے یہ لکھا ہے:

و اما سبب غیبته فلا یجو ز ان یکون من الله سبحانه ولا منه کما عرفت فیکون من المکلفّین وهو الخوف الغالب و عدم التمکین والظهور یجب عند زوال السبب (۱)

”لیکن یہ جائز نہیں ہے کہ امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کی غیبت خدا کی طرف سے، یاخود آپ کی طرف سے ہو جیسا کہ آپ جان چکے ہیںپس اس کی وجہ خود عوام (لوگ) ہیں کیوں کہ ان کے اوپر

____________________

(۱)یہ رسالہ ۱۳۳۵ہء شمسی میں تہران میں طبع ہوا تھا جسمیں یہ جملہ تیسری فصل کے اندر صفحہ ۲۵ پر نقل ہوا ہے۔

خوف کا غلبہ ہے اور ان کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرناہی اس کا سبب ہے اور جب بھی یہ رکاوٹیں ختم ہوجائیں گی تو ظہور واجب ہوجائے گا “۔

اگر غور و فکر اور دقت نظر سے کام لیا جائے تو اس عظیم عالم نے عقل و حکمت کی روشنی میں اس موضوع کی جو وضاحت اور تحلیل کی ہے یہ سب باتیں ان بعض اسباب کی تائید کرتی ہیں جن پر ہم نے اس مقالہ میں روشنی ڈالی ہے یعنی ”جان کا خطرہ اور عوام کا آپ کی اطاعت نہ کرنا“ اگر یہ اسباب بر طرف ہو جائیں تو آپ کا ظہور یقینی ہے ۔

لہٰذا یہ ہر گز مناسب نہیں ہے کہ لوگ خود غیبت کا سبب بننے کے باوجود اس بارے میں اعتراض کریں اور بالفرض اگر لوگ ان رکاوٹوں کو ختم نہ کریں گے تو آپ خدا وند عالم کی مصلحت اور اس کے ارادہ کے تحت مناسب وقت پر ہر ایک کے اوپر غلبہ حاصل کریں گے اور قرآن مجید کی اس آیہ کریمہ :

( وعداللّٰه الذین آمنوا منکم و عملواالصالحات لیستخلفنّهم في الارض کما استخلف الذین من قبلهم و لیمکنن لهم دینهم الذي ارتضیٰ لهم ولیبدّلنهم من بعد خوفهم امناً ) (۱)

”اللہ نے تم میں سے صاحبان ایمان وعمل صالح سے وعدہ کیا ہے کہ انھیں روئے زمین پر اسی طرح اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایا ہے اور ان کے لئے اس دین کو غالب بنائے گا جسے ان کے لئے پسندیدہ قرار دیا ہے اور ان کے خوف کو امن سے تبدیل کردے گا“

میں مومنین سے جو وعدہ کیا گیا ہے اسے پورا کردے اور آپ ظاہر ہوجائیں اور اگر دنیا کی عمر میں ایک دن سے زیادہ مدت باقی نہ رہ جائے تب بھی اسے اتنا طولانی کردے کہ مہدی کا ظہور ہوجائے اور وہ زمین کو اسی طرح عدل وانصاف سے بھردےں جس طرح و ہ ظلم و جور سے بھری ہوگی۔

____________________

(۱)سورہ نورآیت۵۷۔

ظہور سے صدیوں قبل ولادت کا سبب اور امام غائب کا فائدہ

سوال: ظہور سے صدیوں قبل امام علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہوچکی ہے اورآپ طویل عمر کے بعد ظہور فرمائیں گے آخر اس کی مصلحت کیا ہے؟

کیا خداوندعالم میں اتنی قدرت نہیں ہے کہ وہ ظہور سے چالیس سال قبل ایسے باصلاحیت اور ایسی اہم ذمہ داری کے لئے شائستہ فرد کو خلق فرمادے؟

آخر ظہور اور قیام سے سینکڑوں سال قبل آپ کی پیدائش کا کیا فائدہ ہے اور ان تمام باتوں سے قطع نظر، غائب اور مخفی امام سے کیا حاصل ہے؟ کیا ایسے امام کا وجود وعدم مساوی نہیں ہے؟

جواب: یہ سوال درحقیقت ”فلسفہ غیبت“کے بارے میںہی ہے اس سے الگ کوئی جدید سوال نہیں ہے ہرچند گزشتہ مقالات میں اس سوال کا تفصیلی جواب دیا جاچکا ہے پھر بھی یہاں اس سوال کے مختلف جوابات پیش کئے جارہے ہیں۔

پہلاجواب: وجود امام کے فائدہ کو صرف ظہور، آخرزمانہ میں قیام اور ظاہر بہ ظاہر امور تک محدود نہیں کیا جاسکتا بلکہ وجود امام کا ایک فائدہ مخلوق کی تباہی سے حفاظت، دین وشریعت کی فضا اور خدا کی حجت کا اہتمام بھی ہے،جیسا کہ اس سلسلہ میں معتبر روایات پائی جاتی ہیں یہ روایات ہماری کتب میں بھی مذکور ہیں اور برادران اہل سنت نے بھی انھیں نقل کیا ہے مثلا بارہ اماموںسے متعلق روایات سے بھی اس بات کا استفادہ ہوتا ہے، متعدد روایات کے مطابق زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں ہوسکتی چنانچہ روایات کے مطابق امیرالمومنین حضرت علی نے فرمایا:

اللهم بلیٰ لا تخلو الارض من قائمٍ للّٰه بحجة اما ظاهراً مشهوراً اوخائفا مغمورالئلا تبطل حجج اللّٰه وبیناته(۱)

”خدا یا! بے شک زمین حجت الٰہی اور قیام کرنے والے سے خالی نہیں ہوسکتی چاہے وہ ظاہر وآشکار ہو یا خائف ومخفی تاکہ خدا کی حجتیں اور براہین تمام نہ ہونے پائیں۔“

اس عالم ہستی میں امام کی وہی حیثیت ہے جو کہ بدن انسانی میں قلب یاروح کی ہوتی ہے کہ حکم الٰہی سے یہی روح تمام اعضاء وجوارح کے باہمی رابطہ کی ذمہ دار ہے اور اسی کے تعلق وتصرف سے جسم کی بقا وابستہ ہے۔ ”انسان کامل“ اور ”ولی“ یعنی امام بھی باذن الٰہی تمام مخلوقات کے لئے اسی مقام و منزلت کا حامل ہوتا ہے،اسی طرح وجود امام کاایک فائدہ یہ بھی ہے کہ روایات کے بموجب لوگوں کے درمیان مومن کا وجود خیروبرکت اور نزول رحمت کا سبب ہوتا ہے اور اس کے باعث پروردگار کی خصوصی عنایات عطا ہوتی ہیں اور بے شمار بلائیں دفع ہوتی ہیں اگر ایک عام مومن کے وجود کے اتنے برکات وفوائد ہیں تو ”امام“ اور ”ولی اللہ الاعظم “ کے وجود اقدس کے فوائد وبرکات کتنے زیادہ ہوں گے!

باالفاظ دیگر امام اور حجت خدا واسطہ فیض الٰہی ہے،خدا اور بندگان خدا کے درمیان واسطہ ہے، جن برکات وفیوض الٰہیہ کو براہ راست حاصل کرنے کی صلاحیت لوگوں میں نہیں پائی جاتی ہے امام ان فیوض وبرکات کو خدا سے لے کر بندوں تک پہنچانے کا ذریعہ و وسیلہ ہے، لہٰذا حضرت کی طولانی عمراور ظہور سے صدیوں قبل آپ کی ولادت کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس طویل مدت میں بھی بندگان خدا الطاف الٰہیہ سے محروم نہ رہیں اور وجود امام کے جو برکات ہیں وہ مسلسل لوگوں تک پہنچتے رہیں۔

____________________

(۱)نہج البلاغہ صبحی صالح، ص۴۹۷ کلام ۱۴۷۔

دوسرا جواب: امور میں ظاہر بہ ظاہر مداخلت اور تصرف نہ کرنے کے ذمہ دار امام علیہ السلام نہیں بلکہ خود عوام ہیں جوآپ کی رہبری قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں اور مخالفت پر کمربستہ ہیں جیسا کہ آپ کے آباء واجداد طاہرین کی اطاعت کے بجائے مخالفت کی گئی اگر لوگ اطاعت پر آمادہ ہوتے تو حضرت ظاہر ہی رہتے، محقق طوسی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب ”تحرید الاعتقاد“ میں یہی جواب تحریر فرمایاہے:

وجوده لطف وتصرفه لطف آخر وعدمه مِنّا(۱)

”امام کا وجود بھی لطف (اطاعت ومصالح سے نزدیک اور معاصی ومفاسد سے دور کرنے والا) ہے اور امام کاتصرف ایک الگ لطف ہے اور ان کا ظاہر نہ ہونا ہماری وجہ سے ہے۔“

خلاصہ کلام یہ کہ امام کا وجود لطف اور بندگان خدا پر اتمام حجت کا سبب ہے اور اگر اس طویل مدت میں ولایت وہدایت کا سلسلہ منقطع ہوجائے تو لوگوں کو خدا کے خلاف دلیل حاصل ہوجائے گی، اپنے دیگر صفات کمالیہ مثلا رحمانیت، رحیمیت، ربوبیت کے مانند امام کی خلقت اور ہدایت کے لئے آپ کی تعیین کے ذریعہ خداوندعالم نے تربیت وہدایت کی نعمت کو بھی منزل کمال تک پہنچا دیا ہے کہ ارشاد خداوندی ہے:

( الیوم اکملت لکم دینکم ) (۲)

اب اگر لوگ اس عظیم نعمت سے بہرہ مندنہ ہوں اورآفتاب ہدایت کی شعاعوں کی راہ میں رکاوٹ بن جائیں تو اس سے امام کے وجود پر اعتراض نہیں ہوسکتا جیسا کہ اگر لوگ دوسری نعمتوں سے استفادہ نہ کریں اور ان نعمتوں کے فوائد ہی ظاہر نہ ہونے دیں یا مزید برآں ان کا غلط استعمال کریں تو اس رویہ کے باعث ان نعمتوں کی خلقت پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ انھیں خلق کیوں کیا گیا؟ کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ جب لوگ ان نعمتوں سے استفادہ نہیں کررہے ہیں تو ان کا فائدہ کیا ہے؟ ان کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ بلکہ ایسے موقع پر تو یہ کہا جانا چاہئے کہ جب فیاض خدا نے اپنے بے پایاں فیض کے باعث ان

____________________

(۱)تجرید الاعتقاد، بحث امامت۔

(۲)”آج میں نے آپ کے لیے آپ کے دین کو کا مل کر دیا“۔سورہ مائدہ آیت ۳۔

نعمتوں کو خلق فرماکر لوگوں کے حوالہ کردیا تو لوگ کیوں ان نعمتوں سے استفادہ نہیں کرتے اور کیوں کفران نعمت کررہے ہیں؟

تیسرا جواب: ہم یہ بات قطعی طور سے نہیں کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مکمل طریقہ سے اپنے تمام دوستوں اور برگزیدہ اشخاص سے بھی پوشیدہ ہیں اور جہاں مصلحت ہوتی ہے وہاں انھیں برگزیدہ افراد کے واسطہ سے تائید وحمایت کے ذریعہ امور میں مدد نہیں فرماتے۔

چوتھاجواب: یہ طے شدہ ہے کہ زمانہ غیبت میں حضرت لوگوں کی نگاہوں سے پنہاں ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ لوگ بھی آپ کی نگاہوں سے اوجھل ہیں بلکہ روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ حج کے لئے تشریف لے جاتے ہیں اور لوگوں کے ساتھ حج بجالاتے ہیں اپنے اجداد کی زیارت کرتے ہیں زائرین وحجاج کے درمیان تشریف فرما ہوتے ہیں، مظلوموں کی فریاد رسی کرتے ہیں بیماروں کی عیادت فرماتے ہیں اور بسا اوقات بہ نفس نفیس لوگوں کی مشکلات برطرف فرماتے ہیں۔

پانچواں جواب: امام کے لئے یہ لازم وضروری نہیں ہے کہ براہ راست اور بلاواسطہ امور میں دخیل ہو بلکہ وہ دوسروں کو بطور خاص یا عام طور پر اپنا نائب مقرر کرسکتا ہے جیسا کہ امیرالمومنین اور دیگر ائمہ دوسرے شہروں کے لئے اپنے نمائندہ معین فرماتے تھے اسی طرح غیبت صغریٰ کے زمانہ میں امام علیہ السلام نے نائب خاص معین فرمائے تھے اور غیبت کبریٰ کے لئے بھی آپ نے معاملات اور اختلافات کے حل ، اجرائے سیاست اور مصالح اسلامی کے تحفظ ونظارت کے لئے احکام کی باریکیوں سے واقف، عادل علماء وفقہاء کو بطور عام منصوب ومعین فرمایا ہے جو آپ کے بعد زمانہ غیبت میں ظاہری طور پر حفاظت شریعت کے ذمہ دار اور لوگوں کے لئے مرجع ہیں اور فقہ کی کتب میں مذکور تفصیلات کے مطابق فقہا کو آپ کی نیابت میں ولایت بھی حاصل ہے۔

چھٹا جواب: امام کا محض موجود ہونا ہی بندگان خدا اور سالکان راہ ہدایت کی تقویت قلب وروح کا باعث ہے بہ الفاظ دیگر سالکان راہ خدا کے لئے ایک مرکز اور تکیہ گاہ ہے، یہ صحیح ہے کہ سب کے لئے مرکز اعتماد خدا کی ذات ہے اور ہر ایک اسی کی ذات پر اعتماد کرتا ہے لیکن جنگوں میں پیغمبراسلام کی موجودگی مجاہدوں کی تقویت قلب کا ذریعہ تھی اور آپ کی موجودگی کے تصور سے ہی سپاہیوں کے حوصلے بلند رہتے تھے اورآپکی عدم موجودگی سے بہت فرق پڑتا تھا اس چیز کو امیرالمومنین جیسی شخصیت کے قول کی روشنی میں بہتر طریقہ سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔ امیرالمومنین کا ارشاد ہے:

کنا اذا احمرّ الباٴس اِتقینا برسول الله فلم یکن احدٌ منا اقرب الی العدو منه(۱)

”جب شدید جنگ ہوتی تھی تو ہم لوگ رسول خدا کی پناہ میں چلے جاتے تھے کہ آپ سب سے آگے ہوتے تھے اور ہم میں سے کوئی بھی پیغمبر سے زیادہ دشمن سے نزدیک نہیں ہوتا تھا۔“

ہم زندہ امام کے ماننے والے ہیں، امام ہی ہمارا ملجا وماویٰ اور محافظ شریعت ہے یہی تصور قوت قلب اور استحکام روح کا باعث ہے اور سالکین ومجاہدین راہ خدا پر کسی طرح کی مایوسی یا ناامیدی طاری نہیں ہونے پاتی، بلکہ قدم، قدم پرآپکی ذات بابرکت سے استمداد کرتے رہتے ہیں اورہمت وحوصلہ کی درخواست کرتے ہیں، یہ چیز نفسیاتی لحاظ سے بہت اہمیت رکھتی ہے۔

مثل مشہور ہے (مثل برائے مثل ہوتی ہے اس پر اعتراض نہیں کیا جاتا) کہ نادر شاہ افشار نے مورچہ خوار کی جنگ میں ایک فوجی کوپوری شجاعت کے ساتھ جنگ کرتے دیکھا کہ تنہا فوجی دشمنوں کی فوج کو تہہ وبالا کررہا ہے اسے بہت تعجب ہوا، نادرشاہ نے فوجی سے پوچھا: افغانیوں کے حملہ کے وقت تم کہاں تھے؟ (کہ اس وقت ایسی جنگ نہ کی) بہادر فوجی نے جواب دیا میں تو وہیں تھا

(جنگ میں مصروف تھا) مگر آپ نہیں تھے۔

لہٰذا نفسیاتی لحاظ سے بھی تقویت قلب وروح کی خاطرمومنین کے لئے وجود امام جیسی معتبر پناہ گاہ ضروری ہے یہ بھی ایک اہم فائدہ ہے اور ایسے فائدہ کے لئے بھی امام کی تعیین عقلاً وشرعاًحتمی وقطعی طور پر لازم ہے۔

____________________

(۱)نہج البلاغہ،ص۲۱۴،حیرت انگیز کلمات ۹۔

غیبت صغریٰ کا سلسلہ کیوں باقی نہ رہا؟

بعض اذہان میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ آخر غیبت صغریٰ کا خاتمہ کیوں ہوگیا؟ اگر غیبت صغریٰ کا سلسلہ چلتا رہتا اور امام پوری غیبت کے دوران امور کی نگرانی اور عوام الناس کی ہدایت کے لئے نائب خاص مقرر فرماتے رہتے تو کیا حرج تھا؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ امام کی غیبت سے متعلق طریقہ کار کا تعین خداوندعالم نے فرمایا ہے اور امام کی ذمہ داری اسی معینہ طریقہ کار کو اختیار کرنا ہے۔،جب دلائل کے ذریعہ امامت کا اثبات ہوچکا ہے تو اس کے بعد نظام اور طریقہ کار کے بارے میں کسی اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی، امام بھی حکم الٰہی اور روش خدواندی کا مطیع ہوتا ہے، کسی شئے کی علت یا سبب دریافت کرنا درحقیقت تسلیم وبندگی اور عبودیت کے منافی ہے، گذشتہ مقالات سے یہ بات بخوبی واضح ہوچکی ہے کہ غیبت سے متعلق تمام سوالات واعتراضات ایک ہی طرح کے ہیں اور ان میں کوئی سوال ایسا نہیں ہے کہ اگر اس کا جواب معلوم نہ ہوسکے تو کوئی بہت بڑی خرابی لازم آئے گی۔

بہرحال اگر مزید معرفت اور حصول بصیرت کے لئے ایسا سوال کیا جاتا ہے تو اس کے جواب کے لئے ہمیں اس سوال کو دو سوالوں میں تقسیم کرنا ہوگا:

۱ ۔کیوں امام کےلئے دو غیبتیں رکھی گئیں اور ابتدا ہی سے غیبت کبریٰ کا سلسلہ کیوں شروع نہ ہوا؟

۲ ۔غیبت صغریٰ کے آغاز اور نواب خاص کی تعیین کے بعد یہ سلسلہ کیوں ختم ہوگیا؟ اگر غیبت صغریٰ کا سلسلہ ہی جاری رہتا تو کیاقباحت تھی؟

پہلے سوال کا جواب

۱ ۔غیبت صغریٰ، غیبت کبریٰ کا مقدمہ تھی اور غیبت صغریٰ کے ذریعہ ہی غیبت کبریٰ کے مقدمات فراہم کئے گئے ابتداء میں لوگوں کے لئے غیبت نامانوس چیز تھی ان کے ذہن غیبت کے تصور سے ناواقف تھے، اگرچہ امام علی نقی وامام حسن عسکری کے دور میں کبھی کبھی ایسے نمونے نظرآتے ہیں کہ یہ دونوں بزرگوار ذہنوں کو غیبت سے مانوس کرنے کے لئے کچھ وقت کے لئے نظروں سے اوجھل ہوجاتے تھے لیکن مکمل غیبت کبھی سامنے نہ آسکی ایسے میں اگر اچانک پہلی ہی منزل میں غیبت کبریٰ اختیار کرلی جاتی تو لوگوں کی حیرت واستعجاب بلکہ وحشت وانکار کا باعث اور انحراف و گمراہی کے اسباب کی موجب ہوتی، امام سے اچانک مکمل رابطہ قطع ہوجانا (جیسا کہ غیبت کبریٰ میں ہوا ہے) اکثر افراد کے لئے سخت دشوار اور تکلیف دہ ہوتا۔

اسی لئے تقریبا ۷۰/ سال تک نواب خاص کے ذریعہ لوگوں کا رابطہ امام کے ساتھ قائم رہا اور مومنین نوابین خاص کے ذریعہ اپنے مسائل ومشکلات امام زمانہ کی خدمت میں پیش کرکے ان کاجواب حاصل کرتے تھے، امام کی جانب سے توقیعات لوگوں تک پہنچتی تھیں،بہت سے خوش نصیب افراد کو آپ کی خدمت میں شرفیابی کا موقع ملا اور اس طرح دھیرے دھیرے لوگ غیبت سے مانوس ہوتے رہے۔

۲ ۔ابتدا میں نواب خاص کے ذریعہ رابطہ اور بہت سے افراد کا آپ کی زیارت سے شرفیاب ہونا آپ کی ولادت اور حیات طیبہ کے اثبات کے لئے مفید بلکہ لازم اور ضروری تھا، اگر آپ کے معاملات مکمل طور پر پوشیدہ رکھے جاتے کہ کسی کو بھی آپ کی ولادت تک کا علم نہ ہوتا تو اس سے فائدہ پہنچنے کے بجائے نقصان پہنچتا لوگ آپ کے وجود اقدس کے بارے میں شکوک وشبہات میں مبتلا ہوجاتے اسی لئے امام حسن عسکری کی حیات طیبہ میں اور غیبت صغریٰ کے دوران بھی بہت سے مخصوص افراد کو آپ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا اورحضرت کے دست مبارک سے معجزات ظاہر ہونے کے باعث ایسے خوش نصیب افراد کا ایمان اور مستحکم ہو گیا۔

دوسرے سوال کا جواب

۱ ۔غیبت صغریٰ کا سلسلہ منقطع ہونے کی وجہ یہی ہے کہ اصل طریقہ کار غیبت کبریٰ ہی تھا اور غیبت صغریٰ تو صرف مقدمہ کے طور پر اختیار کی گئی تھی تاکہ ذہن مانوس ہوجائیں اور غیبت کبریٰ کے مقدمات فراہم ہوجائیں۔

۲ ۔اگر یہ مسلم ہو کہ نائب خاص کا حکم نافذ نہ ہوگا اسے قدرت ظاہری حاصل نہ ہوگی اور وہ مکمل طریقہ سے امور میں مداخلت نہ کرسکے گا بلکہ دیگر طاقتیں اور حکام وقت اپنی تمام تر توجہات اسی کی طرف مرکوز کرکے اس کے کام میں رکاو ٹ ڈالتے رہیں گے اس کے ساتھ ٹکراؤ جاری رہے گا تو ایسی صورت میں اقتدار کی ہوس رکھنے والے موقع پرست افراد بھی نیابت خاصہ کا دعویٰ کرکے گمراہی کے اسباب فراہم کردیں گے جیسا کہ غیبت صغریٰ کی مختصر مدت میں ہی دیکھنے میں آیا کہ نہ معلوم کتنے افراد نیابت خاصہ کے دعوے دار ہوگئے، یہ چیز بذات خود ایک مفسدہ ہے جس کا دور کرنا ضروری ہے کہ اس مفسدہ کو دور کرنے کی مصلحت، نائب خاص کی تعیین سے اگر زیادہ نہ بھی ہو تو کم بھی نہیں ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ غیبت کے ابتدائی دور کے مصالح سے قطع نظر،نیابت خاصہ کا تسلسل اور ایسے نائبین خاص جن کے اختیارات محدود ہوں ،اورنفاذ حکم کی کوئی صورت نہ ہو اور حکام وقت کے زیر اثر تقیہ کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوں تو ایسے نائبین خاص کی تعیین میں عقلی طور پر کوئی لازمی مصلحت نہیں ہے بلکہ اس میں مفسدہ کے امکانات زیادہ ہیں۔

( واللّٰه اعلم بمصالح الاٴمور وَلا یُسئَلُ عَمّا یَفعلُ وَهُم یُسئَلونَ وَلا یَفعلُ وَلاةُ اَمره الاّ بِمَا اَمَرهُمُ اللّه تعالیٰ بِه فَانَّهُم عِبادُهُ الْمُکرمُونَ لَا یَسبِقُونَه بِالْقَول وَهم بِاَمْرهِ یَعمَلونَ )

اور اللہ تمام امور کی مصلحتوں کو بہتر جانتا ہے ا ور اس سے باز پرس کرنے والا کوئی نہیں ہے اور وہ ہر ایک کا حساب لینے والا ہے اور اس کے والیان امرصرف وہی کرتے ہیں جو اللہ نے انہیںحکم دیا ہے بیشک وہ اس کے محترم بندے ہیں جو کسی بات میں اس پر سبقت نہیں کرتے ہیں اور اس کے احکام پر برابر عمل کرتے رہتے ہیں۔

سامرہ کا مقدس سرداب

مغرض دشمنان اہل بیت اور مخالفین شیعہ کی جانب سے شیعوں پر لگائے جانے والی ناروا تہمتوں میں یہ افتراء بھی شامل ہے کہ شیعہ اس بات کے معتقد ہیں کہ امام علیہ السلام نے سامرہ کے سرداب (تہہ خانہ) سے غیبت اختیار کی ہے آپ اسی سرداب میں ہیں اور اسی سرداب میں ظاہر ہوں گے!! ہر رات شیعہ اس تہہ خانہ کے دروازہ پر جمع ہوتے ہیں اور جب ستارے خوب چمکنے لگتے ہیں تو اپنے اپنے گھر چلے جاتے ہیں اور پھر اگلے روز جمع ہوجاتے ہیں!!!

ایسے بے بنیاد اور جھوٹے اتہامات کی تکذیب کے لئے کسی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے، جو چیز عیاں ہے اسے بیان کرنے سے کیا حاصل ، ہر شخص واقف ہے کہ ایسی تہمتیں ابن خلدون اور ابن حجر جیسے افراد کے ذہن کی ایجاد ہیں جنھوں نے شیعہ دشمنی، اہل بیت سے انحراف، بنی امیہ اوردشمنان خاندان رسالت سے قلبی رجحان کے باعث ایسی خرافات جعل کی ہیں ایسے مصنفین بلکہ ان کے بعد آج تک پیدا ہونے والے افراد شیعہ کتب ومنابع سے شیعہ عقائد ونظریات حاصل کرنے کے بجائے اپنی طرف سے جھوٹی باتیں گڑھ لیتے ہیں یا سابقین کے افترا اور جعلی باتوں کو نقل کرتے ہیں اور انھیں جھوٹی و فرضی باتوں کوشیعہ عقائد کے بارے میں تحقیقی کارنامہ سمجھ کر بخیال خود، شیعی عقائد کے بارے میں معرفت حاصل کرلیتے ہیں اس طرح خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے رہتے ہیں۔

کتنی تعجب خیز بات ہے کہ جس قوم کے ہزاروں عظیم الشان مصنفین نے اپنے عقائد ونظریات مکمل صراحت ووضاحت کے ساتھ اپنی تالیفات میں تحریر کئے ہوں اس قوم کی طرف ایسی چیز کی نسبت دی جائے جس کا احتمال بھی کسی مصنف نے نہ دیا ہو۔

امامت اور دیگر عقائد کے بارے میں علم کلام واعتقادات کی کتب میں شیعی نظریات محفوظ وموجود ہیں اور غیبت کے سلسلہ میں ائمہ ہدیٰ کے دور سے آج تک جتنی کتب بھی تحریر کی گئی ہیں ان میں غیبت سے متعلق تمام جزئیات مرقوم ہیں اور کسی معمولی سے معمولی کتاب میںبھی اس ناروا تہمت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

”امام سامرہ کے سرداب میں مخفی ہیں“ اس کا کوئی قائل نہیں ہے بلکہ شیعہ کتب میں موجود روایات اور غیبت صغریٰ وکبریٰ کے دور میں حضرت سے منسوب معجزات وکرامات اور شرف زیارت حاصل کرنے والے افراد کے واقعات اس جھوٹے الزام کی تردید وتکذیب کرتے ہیں۔

بے شک سامرہ میں ایک سرداب ہے شیعہ حضرات وہاںزیارت کے لئے جاتے ہیں، خداکی عبادت کرتے ہیں دعائیںمانگتے ہیں لیکن اس بنا پر نہیں کہ وہاں امام پوشیدہ ہیں یا آپ اسی مقام پر قیام فرماہیں، بلکہ اس عبادت اورزیارت واحترام کی وجہ یہ ہے کہ یہ سرداب مقدس بلکہ اس کے اطراف کے مقامات، اورا س کے قرب وجوار کی جگہ دراصل ائمہ معصومین کے بیت الشرف اور امام علیہ السلام کی جائے ولادت ہے اس سرزمین پر بے شمار معجزات رونما ہوئے ہیں۔

انسان جب اس مقدس سرزمین پر قدم رکھتا ہے تو اس عہد کی یاد تازہ ہوجاتی ہے اور مومن تصورات کی دنیا میں ان مقامات سے امام زمانہ(عج) آپ کے پدربزرگوار اور جد امجد کے ارتباط میں کھوجاتا ہے کہ یہی وہ مقامات ہیں جہاں ان ذوات مقدسہ کی رفت وآمد رہتی تھی اور یہ حضرات وہاں خدا کی عبادت میں مشغول رہتے تھے انھیں مقامات میں وہ سرداب بھی شامل ہے، یہ مقامات دور ائمہ میں بھی محبان اہلبیت کا مرکز تھے اور آج بھی۔ شیعیان اہلبیت کی نگاہ میں ایسے مقامات اور گھرانے محترم ہیں اور اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے کیونکہ مقدس گھروں کے لئے خداوندعالم قرآن مجید میں فرماتا ہے:

( فی بیوت اٴذن ا للّٰه ان تُرفع ویُذکر فیهااسمه یسبح له فیها بالغد و والآصال )

ان گھروں میں ،جن کے بارے میں خدا کا حکم ہے کہ ان کی بلندی کا اعتراف کیا جائے اور ان میں اسکے نام کا ذکر کیا

جائے کہ ان گھروں میں صبح وشام اس کی تسبیح کرنے والے ہیں۔(۱)

صرف سرداب ہی نہیں بلکہ وہ دیگر مقامات کہ جن پرحضرت کے مبارک قدم پہنچے تھے وہ بھی محبان اہلبیت کی نگاہ میں لائق احترام ہیں۔ (جیسے مسجد جمکران)(۲)

____________________

(۱) سورہ نورآیت۳۶

(۲) ہم نے اپنی کتاب ”منتخب الاثر“ ص۳۷۱ تا ص۳۷۳ میں اس موضوع کو تحریر کیا ہے اسی طرح محدث نوری علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب ”کشف الاستار“ میں اوردیگر مولفین نے بھی اس کا تذکرہ کیا ہے۔

تیسرا حصه حضرت ولی عصر (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ) کی طویل عمر

طولانی عمر

انسانیت ہمیشہ سے جن چیزوں کی متلاشی ہے ان میں سے ایک مسئلہ طویل عمر کا بھی ہے،صحت وتندرستی کے ساتھ طویل عمر ایسی بیش بہا نعمت ہے جس کی کوئی قیمت معین نہیں کی جاسکتی۔

انسانی وجود میں حب ذات، حبّ بقا ودوام اور فطری خواہشات ہمیشہ سے انسان کو طویل عمر کا عاشق وشیدا بنائے ہوئے ہیں اور یہی چیزیں انسان کو اس راہ میں سعی پیہم اور جہد مسلسل پر آمادہ کرتی ہیں کہ بہت کم مدت کے لئے ہی سہی مگر سلسلہ عمر کچھ اور دراز ہوجائے۔

اس موضوع سے متعلق مطالعہ وجستجو سے یہ بات تو صاف طور پر عیاں ہوتی ہے کہ ”بہت طویل عمر کا امکان“ تو ہمیشہ سے مسلم رہا ہے اورآج تک کسی نے بھی طول عمر کے ممکن نہ ہونے یا محال ہونے کاد عویٰ نہیں کیا ہے۔

ہم پہلے عصری علوم جیسے علم طب، زولوجی اور دیگر مخلوقات کے بارے میں موجودہ معلومات کی روشنی میں انسان کی صورت حال کا موازنہ کریں گے اس کے بعد آسمانی مذاہب میں تلاش کریں گے کہ آسمانی مذاہب کی روسے طو ل عمر کا نظریہ ممکن اور قابل قبول ہے یانہیں؟

طول عمر سائنٹفک نقطہ نظر سے

آج سائنسی نقطہ نظر طول عمر کی مکمل تائید کرتا ہے اور سائنس کے اعتبار سے طول عمر کے لئے کی جانے والی انسانی کوششیں نتیجہ خیز ہیں اوراس میں کامیابی کے امکانات بہت زیادہ ہیں ان کوششوں کو جاری رہنا چاہئے اورسائنس کے لحاظ سے طول عمر کی کوئی حد معین نہیں کی جاسکتی۔

سائنس کے مطابق آج شرح اموات میں کمی اورعمر کو طولانی کرنے کی بات تھیوری کے مرحلہ سے نکل کر عملی منزل میں داخل ہوچکی ہے اور بہت تیزی کے ساتھ ترقی کے مراحل طے کررہی ہے اور ایک صدی سے کچھ زیادہ عرصہ میںعمرکا اوسط ۴۷ سے بڑھ کر ۷۴ ہوچکا ہے۔

ڈاکٹر الکسیس کارل نے ۱۹۱۲ ءء میں ایک مرغ کو تیس سال تک زندہ رکھا جب کہ مرغ کی زندگی دس سال سے زیادہ نہیں ہوتی ہے(۱)

آٹھ سو سال زندگی

ڈاکٹر ہنری حیس کہتا ہے کہ عمومی شرح اموات کو دس سال سے کم عمر کے بچوں کی شرح اموات کے برابر پہنچانا چاہئے اور جس دن ایسا کرنا عملاً میسر ہوجائے گا مستقبل کا انسان آٹھ سو سال زندگی بسر کرے گا(۲)

دنیاکے دانشور حضرات انسان کی طبیعی عمر کے لئے آج تک کوئی حتمی سرحد معین نہیں کرسکے ہیں اور ان دانشوروں نے اپنے اپنے لحاظ سے الگ الگ حد معین کی ہے ”پاولوف“کا خیال ہے کہ انسان کی طبیعی عمر ۱۰۰ سال ہے جبکہ ”مچنیکوف“ کے خیال میں اوسط عمر ۱۵۰ سے ۱۶۰ سال کے درمیان ہونا چاہئے۔

جرمنی کے مشہور ومعروف ڈاکٹر ”گوفلاند“ کا نظریہ ہے کہ عموما ًانسان کی اوسط عمر ۲۰۰ سال ہے۔

انیسویں صدی کے معروف فزیشین ”فلوگر“ کے مطابق طبیعی عمر ۶۰۰ سال اور انگلینڈ کے

”روجر بیکن“ نے ۱۰۰۰ سال بیان کی ہے(۳)

____________________

(۱/۲)روزنامہ اطلاعات شمارہ ۱۱۸۰۵۔

(۳) مجلہ دانشمند شمارہ ۶۱۔

لیکن ان میں سے کسی نے بھی ایسی کوئی دلیل پیش نہیں کی ہے جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ اس کی بیان کردہ عمر حرف آخر ہے اوراس سے زیادہ عمر کا امکان ہی نہیں ہے۔

روس کے معروف ماہر طب اور فزیالوجسٹ ”ایلیا مچنیکوف“ کا نظریہ ہے کہ ”انسان کے بدن کے خلیوں ( Cells ) کی تعداد تقریباً ۶۰ کھرب (ٹرملین) ہے جو آنتوں خصوصاً بڑی آنت کے بیکٹریا سے مترشح ہونے والے مادہ کی وجہ سے مسموم ہوتے رہتے ہیں، آنتوں سے روزانہ تقریباً ۱۳۰ کھرب بیکٹریا پیدا ہوتے ہیں، بہت سے بیکٹریا بدن کے لئے نقصان دہ نہیں ہوتے لیکن بعض بیکٹیریا زہریلے اور نقصان دہ ہوتے ہیں، ایسے بیکٹیریا بدن کو اندر سے اپنے زہر کے ذریعہ مسموم کرتے رہتے ہیں جس کے نتیجہ میں انسانی بدن کو صحیح وسالم رکھنے والے اجزاء اور خلیے قبل از وقت ضعیفی میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور ضعیف ہونے کے بعد حیات کی ضرورتوں کو پورا کرنا ان کے لئے مشکل ہوجاتا ہے اور یہ خلیے مردہ ہوجاتے ہیں(۱) کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر ”اسمیس“ کا کہنا ہے کہ ”سن اور عمر کی حد بھی صوتی دیوار کی طرح ہے اور جس طرح آج صوتی دیوار ٹوٹی ہے اسی طرح ایک نہ ایک دن عمر کو محدود کرنے والی دیوار بھی ٹوٹ جائے گی۔“(۲)

سترہزار سال عمر

پانی کے بعض چھوٹے جانوروں پر کی گئی تحقیقات کے نتیجہ میں سائنس داں کافی حد تک پر امید ہیں، دوران زندگی میں تبدیلی کا امکان بہر حال ہے، اسی طرح محققین نے پھلوں پر پائی جانے والی مکھیوں پر جو تجربات کئے ہیں اس کے نتیجہ میں ان کی طبیعی عمر میں ۹۰۰ گنا کا اضافہ ہوگیا ہے،(۳) اسی طرح اگر ایسا تجربہ انسان پر بھی کیا جائے اور وہ تجربہ کامیاب رہے اور انسان کی طبیعی عمر ۸۰ سال

____________________

(۱) مجلہ دانشمند شمارہ ۶۱۔ (۲)اطلاعات ۱۱۸۰۵۔ جیٹ اور سپر سونیک طیاروں سے پہلے یہ تصور عام تھا کہ آواز کی رفتار سے تیز سفر کرنا ممکن نہیں ہے گویا آواز کی رفتار سرعت کی راہ میں حائل ہے لیکن سوپر سونیک طیاروں کے وجود میں آنے سے یہ حائل ختم ہوگیا۔ (مترجم)

(۳) الہلال، شمارہ ۵ ص۶۰۷، منتخب الاثر، ص۲۷۸۔

فرض کی جائے تواس بات کا امکان ہے کہ انسان کی عمر ۷۲ ہزار سال ہوجائے۔

اسی طرح حیوانات پر دوسرے تجربات بھی کئے جارہے ہیں جس کے نتائج انسان کے لئے امید افزا ہیں اور توقع کی جاتی ہے کہ مستقبل میں طول عمر اور جوانی کی واپسی ،ہر ایک کے اختیار میں ہوگی۔

بہت سے محققین کے نزدیک اصل مسالہ، جوانی کے برقرار رہنے یااس کی واپسی کا ہے نہ کہ طول عمر کاان کے خیال میں طول عمر اور مخصوص حالات وشرائط میں زندگی کی بقا تومسلّم ہے گویا یہ معمہ تو حل شدہ ہے بس ضعیفی کے لئے کوئی راہ حل تلاش کرنا چاہئے۔

کوئی ایسا انجکشن تلاش کرنا چاہئے جو ضعیفی کو روک دے اس لئے کہ اگر عمر طولانی ہوجائے مگر اس کے ساتھ بڑھاپے کی زحمتیں ہوں توایسی عمر لذت بخش نہ ہوگی۔

میڈیکل سائنس کے بعض ماہرین نے اس سے بڑھ کر مبالغہ سے کام لیا ہے اور کہتے ہیں کہ ”موت دنیا کے حتمی اصولوں میں سے نہیں ہے“(۱) ان کے خیال میں موت نہ طول عمر کا نتیجہ ہے اور نہ بڑھاپے کا بلکہ بیماری اور حفظان صحت اور مزاج کی سلامتی کے اصولوں کی رعایت نہ کرنے کا نتیجہ ہے اگر انسان ان عوامل پر غلبہ حاصل کرلے جو مزاج کو متاثر کرتے ہیں تو موت کا اختیار انسان کے ہاتھ میں ہوگا۔

ان عوامل سے مراد ماں، باپ، دادا، دادی، نانا، نانی کے مزاج کی صحت، انھیں تولید مثل اور حفظان صحت کے طبی اصولوں کا علم، آداب نکاح، دوران حمل ماں کے مزاج کا اعتدال، حمل اور رضاعت کے دوران حفظان صحت کے اصولوں کی رعایت، حسن تربیت، مناسب آب و ہوا، آرام دہ مشاغل، معاشرت اور لباس وغیرہ میں اعتدال، نیک باایمان، پاک باز، پاک طینت، خرافات اور باطل عقائد سے منزہ افراد کی صحبت، صحیح اور مناسب غذا، نشہ آور چیزوں سے پرہیزوغیرہ ہیں اور چوں کہ

____________________

(۱)البتہ قرآن مجید کی صریحی آیات کے مطابق ہر جاندار کے لئے موت ایک حتمی مرحلہ ہے اوران سائنس دانوں کا یہ نظریہ مبالغہ آمیز ہے۔

ان میں سے اکثر انسان کے اختیار میں نہیں ہیں اس لئے انسان مغلوب ہوکر موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے، بیمہ کمپنیوں کی جانب سے اموات کے بارے میں اعداد وشمار شائع ہوتے ہیں ان کے مطابق مختلف مشغلوں،ماحول اورسکونت سے تعلق رکھنے والے افراد کی موت کی شرح مختلف ہوتی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اوسط عمر کا تعلق بیرونی عوامل سے ہے اور جس حد تک یہ عوامل کم ہوتے جائیں گے عمر طولانی ہوتی جائے گی، بارہا ایسے افراد دیکھنے کو ملتے ہیں جن کی عمر ۱۵۰ ، ۱۶۰ ، ۱۷۰ ، یا دو سو سال سے بھی زیادہ ہے ، ہمارے دور میں بھی ایسے افراد موجود ہیں جن کی عمر ۱۵۰ سال سے زیادہ ہے اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ موت کے عوامل ان کے قریب نہ آسکے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ طویل عمر کا امکان علم وسائنس کے نقطہ نظر سے سوفیصدی قابل قبول اور ناقابل تردید ہے۔

اکثر وبیشتر ہم زیادہ طولانی عمر پر اظہار تعجب کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مختصر عمر سے مانوس اور اسی کے عادی ہیں اس سلسلہ میں انگلینڈ کے ایک ڈاکٹر کی رائے پر غور فرمائیں، یہ ڈاکٹر کہتا ہے کہ اگر پنامانہر کے علاقہ کو جہاں بہت بیماریاں پائی جاتی ہیں دنیا کے دوسرے حصوں سے جدا کردیا جائے اور ہم پنامانہرکے علاقہ میں زندگی بسر کریں اور ہمیں دنیا کے دوسرے حصوں کی شرح موت وحیات کے بارے میں کوئی اطلاع نہ ہو تو اس علاقہ میں اموات کی کثرت اور عمر کی قلت کو دیکھ کر ہم یہی فیصلہ کریں گے کہ طبیعی طور پر ہر انسان کی عمر اتنی ہی ہے اوراس میں کوئی تبدیلی علم وسائنس کے دائرہ اختیار سے باہر ہے جس سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ چوں کہ بعض بیماریا ں ابھی لاعلاج ہیں لہٰذا شرح اموات میں کمی اورعمر کو طولانی بنانا مشکل نظر آتا ہے اگر کوئی مجھ سے اس بارے میں بحث کرے اور کہے کہ شرح اموات یہی ہے اور عمر کا اوسط بہرحال معین ہے تو اس سے سوال کروں گا کہ کون سی اوسط عمر معین ہے؟ ہندوستان کی اوسط عمر یا نیوزی لینڈ یا امریکہ یا پناما نہر کی؟

اگر چہ اس مضمون میں ان باتوں کی تفصیل بیان کرنا ممکن نہیں ہے لہٰذا اپنے محترم قارئین کی مزید توجہ کے لئے ان چار عنوانات: ۱ ۔آیات قرآن، ۲ ۔اجماع واتفاق مسلمین، ۳ ۔روایات اہل سنت، ۴ ۔روایات شیعہ، کے ذیل میں ہم ان کی مختصر وضاحت پیش کریں گے۔

۱ ۔قرآن مجید کی آیتیں

خدا وند عالم نے قرآن مجید کی متعدد آیتوں میں ان باتوں کا وعدہ فرمایا ہے کہ پوری دنیا میں ایک اسلامی حکومت قائم ہوگی، دین اسلام ہر طرف پھیل جائے گا اور تما م مذاہب پر اس کا غلبہ ہوگا، (صالح اور لائق حضرات حکومت کریں گے) ان میں سے بعض آیتیں یہ ہیں:

( و قاتلوهم حتیٰ لا تکون فتنة و یکون الدین کله للّٰه ) (۱)

اور تم لوگ ان کفار سے جہاد کرو یہاں تک کہ فتنہ کا وجود نہ رہ جائے اور سارا دین صرف اللہ کے لئے رہ جائے۔

( هو الذی ارسل رسوله بالهدیٰ و دین الحق لیظهره علی الدین کله ) (۲)

وہ خدا جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب کردے۔

( یریدون ان یطفئوا نور اللّٰه باٴفواههم و یاٴبیٰ اللّٰه الا ان یُتمّ نوره ) (۳)

یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنے منھ سے پھونک مار کر بجھا دیں حالانکہ خدا اسکے علاوہ کچھ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ وہ اپنے نور کو تمام(اور کامل) کر دے۔

____________________

(۱)سورہ انفال آیت۳۹۔

(۲)سورہ توبہ آیت۳۳ وسورہ فتح آیت ۲۸۔

(۳)سورہ توبہ آیت۳۲۔

( یریدون لیطفئوا نور اللّٰه باٴفواههم واللّٰه مُتمّ نوره ) (۱)

یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے۔

( و یرید الله ان یُحق الحق بکلماته و یقطع دابر الکافرین ) (۲)

اور اللہ اپنے کلمات کے ذریعہ حق کو ثابت کرنا چاہتا ہے اور کفار کے سلسلہ کو قطع کردینا چاہتا ہے۔

( و قل جاء الحق و زهق الباطل ان الباطل کان زهوقا ) (۳)

اور کہہ دیجئے کہ حق آگیا اور باطل فنا ہو گیا کہ باطل بہر حال فنا ہونے والاہے۔

( ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثها عباديالصالحون ) (۴)

اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میںبھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہونگے۔

( و عد اللّٰه الذین آمنوا منکم و عملوا الصالحات لیستخلفنّهم فی الارض ) (۵)

اللہ نے تم میں سے صاحبان ایمان اور عمل صالح بجالانے والوںسے وعدہ کیا ہے کہ انہیں زمین میں اس طرح اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایاہے۔

( ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین انهم لهم المنصورون و ان جندنا لهم الغالبون ) (۶)

اور ہمارے پیغامبربندوں سے ہماری بات پہلے ہی طے ہو چکی ہے کہ انکی مدد بہرحال کی جائیگی اور ہمارا لشکر بہر حال غالب آنے والا ہے۔

( انّا لننصر رسلنا والذین آمنوا فی الحیاة الدنیا ) (۷)

بیشک ہم اپنے رسول اور ایمان لانے والوں کی زندگانی دنیامیں بھی مدد کرتے ہیں۔

____________________

(۱)سورہ صف آیت۸۔

(۲)سورہ انفال آیت۷۔

(۳)سورہ اسراء آیت۸۱۔

(۴)سورہ انبیاء آیت۱۰۵۔

(۵)سورہ نور آیت۵۵۔ (۶)سورہ صافات آیت۱۷۱۔۱۷۳۔

(۷)سورہ غافر آیت۵۱۔

( کتب الله لا غلبن اناورسلی ان الله قويّ عزیز ) (۱)

اللہ نے یہ لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب آنے والے ہیں بے شک اللہ صاحب قوت اور صاحب عزت ہے

انکے علاوہ دوسری آیتیں بھی ہیں جنکی تاویل حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے ظہور کے وقت سامنے آئے گی وہ سب بھی اس بات کی دلیل ہیں کہ اسلام تمام مذاہب پر غالب آجائے گا اور اہل حق، باطل پرستوں پر غلبہ حاصل کر لیں گے یاانبیائے الٰہی کا تسلط اور نور خدا کا تمام و کامل ہونا حتمی ہے ،ان سب آیتوں کے معنی ابھی مکمل طریقے سے ظاہر نہیں ہوئے ہیں اور یہ آیتیں آخری زمانے میں انکے عملی ہونے کی بشارت دے رہی ہیں ۔

خدا وند عالم نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنے پیغمبروں کی ضرور مدد کرے گا اور ان کو غلبہ عطا کرے گا اور یہ طے ہے کہ اس غلبہ اور مدد کا تعلق صرف آخرت ہی سے نہیں ہے کیونکہ اس نے خود ارشاد فرمایا ہے:

( فی الحیاة الدنیا )

دنیاوی زندگی میں۔

دوسرے یہ کہ اس سے یہ مراد بھی نہیں ہے کہ انبیاء کرام اپنی اقوام کے اوپر اپنے زمانہ میں غلبہ حاصل کر لیں گے اور انکے مشن کو ترقی ہوگی کیونکہ بہت سارے انبیاء کی تبلیغ کا ان کی قوم پر کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ بہت سے انبیاء کو قتل بھی کر دیا گیا ۔

اس مدد اور غلبہ سے انکے مقصد اور پیغام کی مدد اور اسکا غلبہ مراد ہے اور ان آیتوں سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نصرت کسی خاص رتبہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس سے ہر طرح کی(مطلق) نصرت مراد ہے ۔

یہی نور کو تمام کرنے کے معنی بھی ہیں کہ جو لوگ خدا کے نور کو بجھانا چاہیں گے اور اسلام کی

____________________

(۱)سورہ مجادلہ آیت۲۱۔

پیشرفت میں رکاوٹ پیدا کریں گے انکے مقابلہ میں خدا وند عالم اپنے نور کو کامل کر دے گا اسکے معنی بھی یہی ہیں کہ خدا وند عالم دین کو ترقی عطا کرے گا اسلام کی سرحدیں بڑھتی چلی جائیں گی اور یہ نور اس وقت مکمل ہوگا جب اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے گا ۔

زمین پر مومنین کی جا نشینی اور اس پر ان کے وارث ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ پوری زمین کے مالک و مختار بن جائیں گے بلکہ یہ موقع صرف امام زمانہ اور ان کے ساتھیوں کو ملے گا۔

باطل کے اوپر ہر لحاظ سے حق کے غلبہ کے بھی یہی معنی ہیں کہ ہر اعتبار سے حق، باطل پر کامیاب و کامران ہو جائے گا اور اگر یہ کہا جائے کہ حجت و برہان کے ذریعہ غالب ہوگا اور ظاہر میں غالب نہ ہوگا تو اسے ہر لحاظ سے غلبہ نہیں کہا جائے گا جبکہ ان آیتوں سے ہر طرح کا تسلط سمجھ میں آتا ہے۔

لیکن یہ آیت:

( لیظهره علی الدین کله )

تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بنا دے۔

اسلام کے غالب ہو جانے کے بارے میں واضح دلیل ہے۔

ان آیتوں کی تائید اُن روایتوں سے بھی ہوتی ہے جو رسول اکرم سے اس سلسلہ میں نقل ہوئی ہیں جیسے آپ نے فرمایا:

( لیدخلن هذا الدین علی مَن دخل علیه اللیل )

جہاں کہیں بھی رات داخل ہوتی ہے یہ دین وہاں ضرورپہنچے گا۔

اس حدیث میں آپ نے”علی ما دخل علیہ اللیل “فرمایا ہے اور ”علی ما دخل علیہ الیوم او الشمس“نہیں فرمایا اسکا راز شائد یہ ہو کہ اسمیں دین کو سورج سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ جہاں رات ہوتی ہے وہاں سورج ضرور پہنچتا ہے اسی طرح اسلام کے روشن و منور سورج کی کرنیں پوری دنیا میں پھیل جائےں گی اور کفر و ضلالت کی تاریکی کا اسی طرح خاتمہ ہو جائے گا جس طرح سورج ،رات کا خاتمہ کر دیتا ہے۔

۲ ۔اجماع مسلمین

اگر اس اجماع اور اتفاق سے شیعوں کا اجماع مرادہو تو یہ بالکل واضح ہے اور اسے سب ہی جانتے ہیں کہ امام حسن عسکری کے فرزند دلبند حضرت قائم آل محمدکا ظہور شیعہ اثنا عشری مذہب کا اہم حصہ ہے اور اگر اس سے تمام مسلمانوں کا اتفاق مراد ہو تو اسکے ثابت کرنے کے لئے اہل سنت کے ایک صاحب نظر اور نکتہ سنج عالم، معتزلیوں کے علامہ ابن الحدید کا یہی ایک جملہ کافی ہے جو انہوں نے شرح نہج البلاغہ (مطبوعہ مصر ج ۲ ص ۵۳۵) میں تحریرکیا ہے :

قد وقع اتفاق الفریقین من المسلمین اجمعین علی ان الدنیا والتکلیف لا ینقضی الا علیه

”دونوں فرقوںسنّی اور شیعہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دنیا اور تکلیف شرعی کاخاتمہ نہ ہوگا مگر حضرت پر “یعنی آپ کے ظہور کے بعد۔

اہل سنت کے اور چار معروف علماء کے اقوال کیونکہ آئندہ مضمون میں نقل کئے گئے ہیں لہٰذا انہیں اس مقام پر ذکر نہیں کیا جا رہا ہے انھیں وہیں ملاحظہ فرمائیے۔

جو لوگ تاریخ پر نظر رکھتے ہیں انہیں بخوبی معلوم ہے کہ مصلح منتظر مہدی آل محمد علیہ الصلاة والسلام کے ظہور کے بارے میں تمام مسلمانوں کے درمیان اس حد تک اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ پہلی صدی ہجری سے اب تک جس نے بھی مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے یا جس کی طرف اس دعوے کی نسبت دی گئی ہے سب نے اس کی کھل کر مخالفت کی ہے لیکن خود مسئلہ ظہور کی مخالفت کسی نے نہیں کی کیونکہ یہ بات مسلمانوں کے اجماع اور پیغمبر اکرم کی صریحی روایات کے خلاف تھی بلکہ وہ ان کی مخالفت اور ابطال کے لئے یہ طریقہ اپناتے تھے کہ روایات میں حضرت مہدی کے ظہور سے متعلق جن علامتوں اور نشانیوں کا تذکرہ ہے چونکہ ان مدعیوں کے یہاں ان میں سے کوئی علامت نہیں پائی جاتی ہے لہٰذا یہ لوگ جھوٹے ہیں۔

اہل سنت کے چاروں مذاہب کے چار بزرگ علماء یعنی ابن حجرشافعی، ابو السرور احمد بن ضیاء حنفی،محمد بن احمد مالکی،یحییٰ بن محمد حنبلی سے جب اس سلسلہ میں سوال کیا گیا تو انہوں نے اسکا اسی اندازمیں جواب دیا جسکی تفصیل کتاب ”البرہان فی علامات مہدی آخر الزمان “ باب ۱۳ پر انکے فتووں کے ساتھ نقل ہوئی ہے انھوں نے مسئلہ ظہور مہدی کوثابت کرنے کے ساتھ آپ کی بعض خصوصیات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے یعنی وہ دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دینگے یا حضرت عیسیٰ آپ کی اقتدا کریں گے یا آپ کے دوسرے اوصاف بیان کئے ہیں مختصر یہ کہ یہ ان کا مدلّل، دوٹوک اور قانونی فتویٰ ہے حتیٰ کہ جناب زید کی طرف مہدویت کی جو غلط نسبت دی گئی تھی اس سلسلہ میں بنی امیہ کے شاعر حکیم بن عیاش کلبی نے یوں کہا ہے:

ولم ا ر مهد یا علی ا لجذع یصلب (۱)

مجھے کوئی ایسا مہدی نہیں دکھائی دیا جسے سولی دی گئی ہو۔

اس سے اس کی مراد یہ ہے کہ مہدی جب ظہور کرینگے تو تمام ممالک کو فتح کرینگے اور پوری دنیا میں صرف انہیں کی حکومت ہوگی ، ہر جگہ عدل و انصاف کا رواج ہوگا تو پھر جناب زید جنہیں سولی پر لٹکایا گیا وہ کس طرح مہدی ہو سکتے ہیں؟

۳ ۔احادیث اہل سنت

اہل سنت کے بڑے بڑے محدثین جنکے نام اور ان کی کتابوں کی تفصیل اس مقالہ میں اختصار کی بنا پر ذکر کرنا ممکن نہیں ہے انہوں نے حضرت مہدی کے بارے میں صحابہ کے علاوہ بہت

____________________

(۱)ابن حجر عسقلانی شافعی نے اپنی کتاب ”الاصابہ ج۱ ،ص۳۹۵ پر” فوائد کواکبی“ سے جو روایت نقل کی ہے اسکے مطابق، یہ حکیم بن عیاش ،امام جعفر صادق کی بد دعا کی وجہ سے بہت ہی عبرتناک حالت میں ہلاک ہوا تھا۔

سے تابعین سے بھی کثرت کے ساتھ روایتیں نقل کی ہیں اور بعض حضرات نے تو اس سلسلہ میں مستقل کتاب بھی تالیف کی ہے جبکہ بہت سے لوگوں نے ان روایتوں کے متواتر(۱) ہونے کی تصریح کی ہے اور ان حضرات کی تحریروں میں اس بات کی تاکید موجود ہے ۔

اس مقالہ کے بعض حصے جیسے صحابہ کے نام یا جن علمائے اہل سنت نے اس سلسلہ میں کتابیں لکھی ہیں یا جن لوگوں نے روایتوں کے متواتر ہونے کی صراحت کی ہے ان سب کے نام چونکہ اسی کتاب میں آئندہ ذکر کئے جائیں گے لہٰذا انہیں یہاں حذف کیا جا رہا ہے ۔

خلاصہ یہ کہ : پیغمبر اکرم کی متواتر روایات سے صرف مسئلہ ظہور مہدی ہی حتمی اور قطعی نہیں ہے بلکہ تواتر کے ساتھ یہ بھی ثابت ہے کہ آپ پوری دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دینگے اور حضرت عیسیٰ آسمان سے نازل ہو کر آپ کی اقتدا کرینگے اور آپ پوری دنیا کو فتح کر کے اسمیں قرآنی احکام کوعام کردینگے۔

اسکے علاوہ اہل سنت کے بہت سے علماء و محققین نے اپنے اشعار، قصائد یا اپنی کتابوں میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام امام حسن عسکری کے اکلوتے بیٹے ہیں جیسا کہ ہم نے اپنی کتاب ”منتخب الاثر “ کی تیسری فصل کے پہلے باب میں آنحضرت کی ولادت ،غیبت اور امامت سے متعلق اہل سنت کے ساٹھ علماء کے واضح اعترافات نقل کئے ہیںچنانچہ جو منصف مزاج انسان بھی ان اعترافات کو ملاحظہ کر ے اسکے لئے کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہیں رہ سکتا ہے۔

۴ ۔احادیث شیعہ

مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ شیعوں نے جو روایتیں نقل کی ہیں وہ سب سے زیادہ معتبر ہیں کیونکہ پیغمبر اکرم کے دور سے لیکر آج تک انکے درمیان حدیث نویسی کا سلسلہ کبھی بھی منقطع نہیں ہوا اورجو کتابیں پہلی صدی ہجری سے ۵۰ ہجری تک یا ۵۰ ہجری سے ۱۰۰ ہجری تک لکھی گئیں

____________________

(۱)حدیث متواتر : اس حدیث کو کہا جاتا ہے جسکے نقل کرنے والے راوی اتنے افراد ہوں جنکے جھوٹ بولنے اور ساز باز کرنے کا امکان نہ ہو

تھیں انمیں سے بعض آج بھی موجود ہیں جن سے لوگ با قاعدہ استفادہ کرتے ہیں بلکہ ان کی سب سے پہلی کتاب وہی کتاب ہے جسے رسول اکرم نے املاء فرمایا تھا اور حضرت علی نے اسے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا جیساکہ متعدد روایات میں ذکر ہے کہ ائمہ طاہرین علیہم السلام احادیث کو نقل کرتے وقت اس کتاب کو سند کے طور پر پیش کرتے تھے۔

دوسرے فرقوں کی روایتوں کے مقابلہ میں شیعوں کی روایتوں کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ ان کی روایتیں ائمہ معصومین کے ذریعہ نقل ہوئی ہیں اور یہ حضرات زہدوتقویٰ کا نمونہ ہیں اور ان کی عظمت و فضیلت فریقین کے نزدیک ہر لحاظ سے مسلّم ہے اور ”اہل البیت ادریٰ بما فی البیت “ (یعنی گھر والوں کو اپنے گھر کے حالات بہتر معلوم ہوتے ہیں)کے مطابق ان سے منقول روایتیںفطری طور پر زیادہ محکم اور غلطیوں سے پاک ہیں۔

تیسری اہم وجہ : جسکی بنا پر شیعوں کی روایات سب سے زیادہ معتبر قرار پائی ہیں اور درحقیقت یہی سبب ان کی روایتوں کا بہترین پشت پناہ اور سند بھی ہے وہ حدیث ثقلین ہے جو متواتر بھی ہے یا حدیث سفینہ اورحدیث امان یا ان کے علاوہ اور دوسری روایات ہیں جن میں امت کو اہل بیت کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ کہ اہل بیت قرآن مجید کے ہم پلہ ہیں اور ان کا قول حجت ہے اور ان کے دامن سے وابستگی گمراہی سے نجات ہے نیز یہ کہ کوئی زمانہ، معصوم امام کے وجود سے خالی نہیں رہ سکتا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ ائمہ طاہرین سے جو روایتیں نقل ہوئیں ہیں ان میں اعلیٰ درجہ کی صداقت اور اعتبار پایا جاتا ہے کیونکہ ایک طرف تو تمام عقلاء کی سیرت یہی ہے کہ وہ ایک معتبر شخص کی بات کو بخوشی قبول کر لیتے ہیں دوسرے یہ کہ اہل بیت کو پیغمبراکرم سے جس درجہ قربت حاصل تھی اور آنحضرت کے نزدیک ان لوگوں کا جو مرتبہ و مقام تھا وہ صحابہ اور تابعین میں کسی کو بھی حاصل نہیں تھا حتیٰ کہ حدیث ثقلین کے مطابق ان حضرات کا قول اور فعل شرعی حجت اور دلیل ہے اور کیونکہ یہ لوگ معصوم ہیں اور قرآن سے کبھی جدا نہیں ہونگے لہٰذا امت کے لئے ان کی بات ماننا اور ان کی طرف رجوع کرنا واجب ہے ۔

اس مختصر تمہید کے بعد( جسے ہم نے اپنی اُس کتاب میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے جس میں اہل بیت کی پیروی کے واجب ہونے اور ان سے علم حاصل کرنے کے بارے میں گفتگو کی ہے) باآسانی یہ کہہ سکتے ہیں کہ شیعوں کے یہاں قائم آل محمد حضرت ولی عصرعجل اللہ تعالی فرجہ کے ظہور سے متعلق ان کے عظیم علماء ومحدثین کی کتابوں میں معتبر ترین روایات موجود ہیں جو آغاز ہجرت سے اب تک لکھی گئی ہیں جیسے ان اصل کتابوں کی روایتیں جو حضرت قائم آل محمد کی ولادت سے پہلے تالیف ہوئی ہیں مثلاً حسن بن محبوب (متوفیٰ ۲۲۴ ھ) کی کتاب ”مشیخہ“ یا ”سلیم بن قیس “ (متوفیٰ ۷۰ یا ۹۰ ہجری )کی کتاب ۔

یہ ایسی روایات ہیں کہ ان میں سے صرف ایک روایت ہی امام زمانہ کی امامت کو یقینی طور پر ثابت کرنے کے لئے کافی ہے اور یہ کہ آپ امام حسن عسکری کے اکلوتے بیٹے ہیں ،وہ روایات جن میں ایسی پیشین گوئیاں بھی ہیں جو اب تک سچ ثابت ہو چکی ہیں اور وہ اولیائے خدا کا معجزہ سمجھی جاتی ہیں اور انہیں ان کی غیب سے متعلق خبر شمار کیا جاتا ہے ۔وہ روایتیں جن میں اس ظہور کے خصوصیات ،شرائط اور اس کی علامتیں واضح طور پر بیان کی گئی ہیں ان روایتوں کی تعداد تواتر سے کہیں زیادہ ہے اور ان کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرنا صرف اسی کے لئے ممکن ہے جسکا مطالعہ بہت وسیع ہو اور وہ اس فن میں واقعاً صاحب نظر ہو ۔

قارئین محترم یہ مشکل صرف زبانی دعویٰ نہیں بلکہ بالکل سچ اور حقیقت پر مبنی ہے جسکی بہترین دلیل حدیث کے اہم مجموعوں کے علاوہ بڑے بڑے شیعہ محدثین کی وہ سینکڑوں کتابیں بھی ہیں جو اس موضوع پر لکھی گئی ہیں ۔

جیسے تیسری صدی ہجری کے بزرگ عالم عیسیٰ بن مہران مستعطف کی تالیف ”المھدی “، فضل بن شاذان کی کتاب ”قائم و غیبت “، تیسری صدی ہجری کے جلیل القدر عالم عبد اللہ بن جعفر حمیری کی تالیف ”غیبت“،یا کتاب ”غیب وذکرالقائم “ مولفہ ابن اخی طاہر(متوفیٰ ۳۵۸ ھ)، محمد بن قاسم بغداد ی معاصر ابن ہمام (متوفیٰ ۳۳۳ ھ) کی کتاب ”غیبت“، شیخ کلینی کے ماموں علان رازی کلینی کی تالیف ”اخبار القائم “یا ”اخبار المھدی“مولفہ جلودی (متوفیٰ ۳۳۲ ھ)، چوتھی صدی ہجری کے ایک بڑے عالم نعمانی کی ”کتاب غیبت“، حسن بن حمزہ مرعشی (متوفیٰ ۳۵۸ ھ)کی تالیف ”غیبت“یا” دلائل خروج القائم“ مولفہ ابن علی حسن بن محمد بصری، (تیسری صدی ہجری کے عالم)احمد بن رمیح المروزی یا کتاب ”ذکر القائم من آل محمد“ قدیم محدث ابی علی احمد بن محمد جرجانی کی تالیف” اخبار القائم “ یا”الشفاء والجلاء“ مولفہ احمد بن علی رازی” ترتیب الدولہ“مولفہ احمد بن حسین مہرانی، ”کمال الدین “ ، ”کتاب غیبت کبیر“تالیف شیخ صدوق(متوفیٰ ۳۸۱ ھ)، ابن جنید کی کتاب”غیبت“ (متوفیٰ ۳۸۱ ھ)، ”کتاب غیبت“مولفہ شیخ مفید(متوفیٰ ۴۱۳ ھ)، سید مرتضیٰ (متوفیٰ ۴۳۶) کی کتاب غیبت، شیخ طوسی(متوفیٰ ۴۶۰) کی کتاب ”غیبت“۔ سید مرتضیٰ کے ہم عصر اسعد آبادی کی تالیف” تاج الشرفی ،کتا ب ما نزل من القرآن فی صاحب الزمان“ مولفہ عبداللہ عیاش (متوفیٰ ۴۰۱) ” فرج کبیر“،مولفہ محمد بن ھبت اللہ طرابلسی (شاگرد شیخ طوسی ) اسی طرح” برکات القائم“ ،تکمیل الدین، بغیة الطالب ،تبصرة الاولیاء ،کفایة المہدی ،اخبار القائم ،اخبار ظہور المہدی الحجة البالغ ،تثبیت الاقران ،حجة الخصام ،الدر المقصود ،اثبات الحجة ،اتمام الحجة ،اثبات وجود القائم ،مولد القائم،الحجة فی ما نزل فی الحجہ ،الذخیر ة فی المحشر ،السلطان المفرج عن الایمان،سرود اہل الایمان، جنی الجنتین ،بحار الانوار کی تیرھویں جلد ،غیبتِ عوالم کے علاوہ ایسی اور بھی سینکڑو ں کتابیں ہیں جن کی فہرست اور مولفین کے نام تحریر کرنے سے یہ گفتگو کافی طویل ہو جائے گی۔

ان متواتر روایات کی روشنی میں اس مقام پر ہم حضرت مہدی کے بعض اوصاف اور ان کی بعض علامتیں ایک فہرست کی شکل میں پیش کر رہے ہیں جن کی وضاحت کسی دوسرے موقع پر پیش کی جائے گی۔(۱)

آخر میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ امام عصر کے موجود ہونے کے بارے میں اور بھی عقلی و نقلی دلیلیں موجود ہیں جن کوہم اس مقام پر بیان نہیں کر رہے ہیں۔

البتہ مختصر یہ کہ وہ تمام عقلی و نقلی دلیلیں جو امامت عامہ پر دلالت کرتی ہیں یا یہ ثابت کرتی ہیں کہ ہر زمانہ میں ایک امام معصوم کا موجود ہونا ضروری ہے، ہر امام کی معرفت واجب ہے اور کبھی بھی زمین حجت سے خالی نہیں رہ سکتی کیونکہ ”لو بقیت الارض بغیر حجة لساخت باھلھا “ اگر زمین حجت خدا سے خالی ہو جائے تو وہ تمام اہل زمین کو اپنے اندر دھنسا لے گی ،یہی سب دلیلیں حضرت صاحب الزمان کے وجود اور آپ کی امامت کی مستحکم دلیلیں ہےں اور امام عصر ارواحنافداہ کے وجود کے اثبات اور پردہ غیبت میں آپ کے زندہ رہنے پر استدلال و بر ہان قائم کرنے کے لئے یہی دلیلیں بہترین سند ہیں۔

____________________

(۱)چونکہ یہ تمام اوصاف ”امام مہدی کے اوصاف اور امتیازات “نامی فصل میں بیان کئے جائےں گے لہٰذا انہیں اس جگہ سے حذف کر دیا گیا ہے ،قارئین کرام ص۸۰کا مطالعہ فرمائیں۔

بارہ امام

ہمیں معلوم ہے کہ شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم کے بعداسلامی امت کی دینی اور سیاسی رہبری و قیادت ایک خدائی منصب ہے اور پیغمبراکرم نے اس کے لئے حکم خدا سے ایک لا ئق اور اہل شخص کو معین کیا اور جس طرح پیغمبر اکرم امت کی دینی ،سیاسی روحانی اور انتظامی قیادت کے ذمہ دار تھے، امام بھی جو کہ پیغمبر اکرم کا جانشین اور خلیفہ ہے، امت کا قائد و رہبر ہے ۔

البتہ ان دونوں کے درمیان صرف اتنا سا فرق ہے کہ پیغمبر پر وحی نازل ہوتی ہے اور وہ کسی انسان کے وسیلہ کے بغیر دین و شریعت کو عالم غیب سے حاصل کرکے اسے اپنی قوم تک پہونچاتا ہے لیکن امام شریعت و کتاب لیکر نہیں آتا ہے ، اسکے پاس عہدہ نبوت نہیں ہوتا بلکہ وہ پیغمبر اکرم کی کتاب و سنت کے ذریعہ امت کی ہدایت کرتا ہے۔

یہ طے ہے کہ یہ طریقہ کار عدل و انصا ف ،عقل ومنطق اور حق کے عین مطابق ہے اور اسکے علاوہ امت کی رہبری و قیادت کے جتنے طریقے اور راستے ہیں ان میں یہی سب سے زیادہ قابل اعتماد اور بھروسہ کے لائق ہے کیونکہ جس شخص کو بھی پیغمبر اکرم خدا وند عالم کے حکم سے امت کا رہبر و ہادی بنائیں گے اسمیں رہبری کی تمام صلاحیتیں موجود ہوں گی اور وہی امامت و ہدایت کے لئے بہترہوگا جیسا کہ مشرقی اور مغربی فلاسفہ کے لئے قابل فخر اور عظیم فلسفی شیخ الرئیس ابو علی سینا نے کہا ہے: ”والاستخلاف بالنص اصوب فان ذالک لا یودیٰ الی التشعب والتشاغب والاختلاف “یعنی نص کے ذریعہ خلیفہ کا انتخاب ہی سب سے زیادہ درست بات ہے کیونکہ اس میں کسی بھی قسم کی پارٹی بازی ، فتنہ و فساد اور اختلاف کا امکان نہیں ہے ۔

مسلمانوں کی ایسی دینی اورسیاسی رہبری وقیادت کہ ان کے رہبر کا ہر قول وفعل ہر ایک کے لئے حجت اور لوگوں کے تمام دینی اور دنیاوی امور پر حاکم ہو یہ ایک بہت نازک اور بلند مقام و مرتبہ ہے اور اس سے بڑا عہدہ کوئی اور نہیں ہو سکتا لہٰذا اگر اس کے انتخاب میں ذرہ برابر کوتاہی ہو جائے تو اسکے خطرناک نتائج سامنے آئیں گے اور پھر انبیاء کی بعثت کا کوئی فائدہ باقی نہیں رہ جائے گا۔

صالح ہادی کاانتخاب

جو شخص اتنی اہم صلاحیتوں کا مالک ہو اس کی شناخت کرنا عام لوگوں کی عقل و شعور سے بالاتر ہے اس عہدہ کاحقدار وہی ہو سکتا ہے جسکے اندر انسانی فنون اور فضائل و کمالات جیسے علم ،حلم ،بخشش،چشم پوشی ،رحم دلی ،عدل ،تواضع، انسانی حقوق کی آزادی کا احترام ، انسان دوستی ،عقل ،تدبیر،دینی اور روحانی معاملات کے بارے میں دقت نظر کے علاوہ دوسرے اہم اور ضروری صفات اور شرائط پائے جاتے ہوں جن کو خداوند عالم کی ہدایت کے بغیر پہچاننا ہر گز ممکن نہیں ہے ۔

اس بنا پر یا اور دوسری عقلی ونقلی دلیلوں کی بنیاد پر شیعوں کا یہ عقیدہ ہے کہ پیغمبر جیسے صفات رکھنے والے امام کو منصوب اور معین کرنے کا حق صرف خداوند عالم کے اختیار میں ہے اور امام کی تعیین جیسا کہ آیہ شریفہ میںصاف طور پر ذکر ہے دین کی تکمیل اور نعمت کا اتمام ہے اور بعثت انبیاء کی غرض اور اسکے مقصد کے عین مطابق ہے اور اسکو چھوڑ دینااسلامی سماج اور معاشرہ کے بارے میں بے توجہی کے مثل ہے اور یہ انبیاء کی زحمتوں کو ضائع کرنا ہے ۔

بشر کا انتخاب ہمیشہ حق نہیں ہو سکتا

شیعوں کا کہنا ہے کہ جس شخص کا قول و فعل حتی اس کی تائید یا خاموشی بھی ہرایک کے لئے نمونہ عمل ہے اور وہ شریعت کی ناموس کا محافظ اور اسکے احکام کی تشریح کرنے والا ہے ایسے بشر کا صحیح انتخاب انسانوں کے ذریعہ ہر گز ممکن نہیں ہے بلکہ ایسے ولی امر کا انتخاب کہ جسکی اطاعت اس آیت :( اطیعوا الله و اطیعوا الرسول و اُولی الامر منکم ) کے حکم کی بنا پر واجب ہے یہ صرف خدا کی طرف سے ہی صحیح اور حق بجانب ہے کہ خدا وند عالم لوگوں کی ظاہری ،باطنی ،روحانی اور فکری تمام صلاحیتوں سے بخوبی واقف ہے نہ اسے غافل بنایا جا سکتا ہے اور نہ اسکے یہاں غفلت کاامکان ہے اور نہ وہ کسی کی ریا کاری ،مکاری اور ظاہری اور کھوکھلی اداوں نیز عوام فریبی سے دھوکہ کھاتا ہے اور نہ ہی جذبات و احساسات ،خوف و دہشت یا کسی کی دھمکی سے اسکے اوپر کوئی اثر پڑتا ہے نہ ہی ذاتی اغراض و مقاصد اور اپنی قوم یا قبیلہ اور خاندان یا شہر والوں کے منافع کے خیال سے اسکا دامن داغدار ہے ۔

لیکن اگر اس انتخاب میں لوگوں کو شریک کر لیا جائے تو پہلے تو یہ کہ اگر وہ صالح فردکا انتخاب کرنا بھی چاہیں تو وہ اسے پہچانتے نہیں ہیں،دوسرے یہ کہ اثر ورسوخ کا استعمال، بھول چوک ایک دوسرے کی مخالفت یا لالچ وغیرہ ان کی آزادی خیال اور اظہار رائے کی راہ میں مانع ہو جاتے ہیں۔

تیسرے یہ کہ انہیں ذاتی مفادات کی فکر رہتی ہے جسکا مشاہدہ دنیا کے ہرالیکشن میں ہوتا رہتاہے ۔چاہے الیکشن جتنے آزاد اور صحیح کیوں نہ ہوں اسکے با وجود ان کے او پر ان اغراض و مقاصد کا ضرور اثر ہوتاہے اور تمام لوگ عام طور سے ذاتی مفادات کو اجتماعی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج تک ملکوں کے سر براہوں کا کوئی الیکشن ہر لحاظ سے صحیح اور کامل ثابت نہیں ہو سکا اور جن لوگوں کے اندر زیادہ لیاقت اور صلاحیت تھی انہیں نہیں چنا گیا اور اگر اتفاقاً کبھی کسی حد تک کوئی لائق آدمی چن بھی لیا گیا تو اس کی وجہ لوگوں کی صحیح تشخیص یا ان کی حق بینی اور باریک بینی یا دقت نظر نہیں تھی بلکہ اتفاقی طور پر یاملکی حالات اورسیاسی مجبوریوں کی بنا پر ایساہوگیا ہے ورنہ اگر لوگوں کی یہ تشخیص بالکل صحیح اور ہر قسم کے نقص سے دور اورحقیقت اور صحیح شناخت پر مبنی ہوتی تو پھر انکے چنے ہوئے ہر شخص کے اندر اس عہدے کی لیاقت اور صلاحیت ہونی چاہئے تھی جبکہ ہم عام طور سے دیکھتے رہتے ہیں کہ انسانوں کا انتخاب اکثر غلط ہی ہوتا ہے اور اسکا نتیجہ بہت کم صحیح ہو پاتا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ لوگ واقعاً صالح اور لائق افراد کو پہچاننے سے عاجز ہیں۔

جیسا کہ حضرت ولی عصرعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف نے سعد بن عبد اللہ اشعری قمی کے جواب میں فرمایا تھا ، جب انھوں نے آپ سے سوال کیا کہ لوگوں کو امام کے انتخاب کا حق کیوں نہیں ہے؟ امام نے فرمایا : نیک یا برا امام ؟

انہوں نے کہا : نیک

آپ نے فرمایا کیونکہ ان میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کے باطن اور نیت سے واقف نہیں ہے تو کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ کسی نااہل کو چن لیں۔

عرض کی : جی ہاں ممکن ہے

آپ نے فرمایا : ”فهی العلة(۱)

” یہی وجہ ہے “کہ لوگ اپنے امام کو نہیں چن سکتے ہیں۔

اس سے بخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ جو امام، پیغمبر کا جانشین اور خلیفہ ہوتا ہے اسےخدا کی طرف سے پیغمبر اکرم ہی معین کر سکتے ہیں اور یہ کام لوگوں کے بس سے باہر ہے اور ایک صالح سماج اور معاشرے یا نظام کے متعلق انبیاء اور دین کا جو مقصد تھا وہ پورا نہیں ہو سکتا ہے اسی لئے سب نے اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ لیا کہ پیغمبر اکرم کے بعد جب اس قاعدہ اور قانون کی خلاف ورزی کی

____________________

(۱)منتخب الاثر صفحہ ۱۵۱۔

گئی تو پہلے تو کچھ لوگوں نے کہا کہ خلافت کو بھی وزیر اعظم کے الیکشن کی طرح لوگوں کے چناو اور اجماع سے طے ہونا چاہئے اورجب حضرت ابو بکر نے خودحضرت عمر کو اپنا جانشین مقرر کر دیا اوران ہی کے بقول ”امت کو خلیفہ کے انتخاب کا حق حاصل ہے “خود ہی یہ حق امت سے چھین لیا اور اپنی من مانی سے حضرت عمر کو خلیفہ بنا دیاتو پھر یہ کہنا شروع کر دیا کہ خلیفہ اپنا جانشین معین کر سکتا ہے۔

ایک منزل اور آگے بڑھ کر تو خلیفہ کے انتخاب کے لئے چھ آدمیوں پر مشتمل باقاعدہ کمیٹی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو دنیا کے کسی قانون حکومت کے مطابق نہیں تھی پھر کہنے لگے کہ اس طرح بھی خلیفہ منتخب ہو سکتا ہے جب کچھ اور آگے بڑھےتو بنی امیہ کے شرابی کبابی اور زانی بادشاہوں تک نوبت پہونچ گئی چنانچہ جب یہ صورتحال دیکھی کہ اگر ولی امر کے لئے ایک چھوٹی سی شرط بھی رکھ دی گئی تو پھر ان تمام گذشتہ حکومتوں کے غیر شرعی ہونے کا اعلان کرنا پڑے گا اور کھلے عام شیعہ عقیدہ کی ترویج کرناہوگی لہٰذا وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ اسلامی حاکمیت بھی زمانہ جاہلیت کی حکومتوں کی طرح ہے اور اسکے لئے کوئی شرط ضروری نہیں ہے اس بنا پر جو شخص بھی اپنی طاقت کے بل بوتے پر باپ کی میراث میں یا کسی بھی طریقہ سے حکومت حاصل کر لے اس کی اطاعت تمام مسلمانوں پر واجب ہے اور ان کی جان و مال اور عزت و آبرو پر صرف اسی کا حکم نافذ ہے ۔

اس عقیدہ اور انداز فکر نے اخلاقی پستی کو جنم دینے کے علاوہ ظالموں اور جابروں کے لئے حکومت حاصل کرنے کے لئے زور آزمائی کا کھلا میدان فراہم کر دیا اور اس سے روز بروز ان کی لالچ میں اضافہ ہی ہو تا رہا اور تاریخ اسلام کی ابتداء سے آج تک حکومت پر بنی امیہ، بنی عباس جیسے تمام ظالم و جابر بادشاہوں اور سلاطین کے تسلط اور قبضہ کی یہی اہم وجہ ہے ،چنانچہ ان نااہل حکومتوں کی وجہ سے جو ظلم وتشدد ہوا اور اسلام کو ان کی طرف سے جو نقصان اٹھانا پڑا اسے اس مقالہ میں قلمبند کرنا ممکن نہیںہے اور بڑی خوشی کی بات ہے کہ ہمارے دور کے ایسے مشہور اہل سنت مفکرین جو اس نظریہ اور اس عقیدے کے خطرناک نتائج کی وجہ سے اسکے مخالف ہیں انہوں نے بھی اس عقیدہ پر سخت تنقید کی ہے ۔

امام کی تعیین کے بارے میں شیعوں کا عقیدہ بہت ہی مستحکم عقلی اورمنقولہ دلیلوں پر استوار ہے اور شروع سے لیکر آج تک ہر دور میں یہ عقیدہ حریت پسند،انصاف طلب اورظلم و ستم کے خلاف جہاد اور حق کے لئے قیام کرنے والے افراد کا اصل مرکز رہا ہے اسی لئے شیعوں کے صرف ایک عالم یعنی علامہ حلینے اپنی کتاب الفَین میں اس بارے میں ایک ہزار دلیلیں پیش کی ہیں کہ امام ،خدا کی طرف سے ہی معین اور منصوب ہونا چاہئے ،شیعوں کی نظر میں علمی اور عملی صلاحیتوں کے بغیر کسی کو کوئی چھوٹے سے چھوٹا سماجی یا حکومتی اور دینی منصب دینا جائز نہیں ہے اورحاکم کو اسلامی عدالت کا پیکر ہونا چاہئے اور یہ کہ وہ اسلامی احکام کو نافذکرے اور اس کے مقاصد کے لئے پوری سعی وکوشش کرے۔

بنی امیہ اور بنی عباس کے دور حکومت میں جو لوگ حکومت پر قابض ہوئے شیعوں کی نظر میں ان میں سے بہت سے لوگ تو کسی گاوں کی پردھانی بلکہ ایک گلی ، گوچہ کی پہرہ داری کے لائق بھی نہیں تھے ۔

جو شخص بھی اسلامی تعلیمات یا پیغمبر اکرم ،امیر المومنین اور ائمہ طاہرین کی سیرت اور لوگوں کے ساتھ ان کے طرز معاشرت کو ملاحظہ کرے اور اس کے بعد ان سرپھرے بادشاہوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھے جنہوں نے اسلامی ممالک پر حکومت کی ہے اور یہ دیکھے کہ انہوں نے طاقت کے زور پر اسلامی حکومت کے اوپر کیسے قبضہ کیا اور رعایا کے سروں پر سوار رہے اور وہ اپنی عیاشی، فحاشی، محلوں کی تعمیر و تزئین اور اپنے رشتہ داروں اور درباریوں کے منھ بھرنے کے لئے بیت المال کو کس بے دردی سے لٹاتے تھے ؟اور لوگوں کے اوپر اپنی قدرت و طاقت کا رعب جمانے کے لئے اپنے حوالیوں موالیوں کے ساتھ مخصوص حفاظتی فورس کے پہرے میں بیش قیمت سواریوں پر سوار ہو کر کس طنطنے کے ساتھ عوام کے درمیان سے گذرتے تھے؟ ان حالات کو دیکھنے کے بعد انسان یہ تصدیق کرنے پر مجبور ہے کہ ان کا طرز حکومت اسلام کے آزادی بخش نظام یا عدل وانصاف کو رواج دینے والی تعلیمات سے کسی طرح ہم آہنگ نہیں تھا جیسا کہ بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ ان کے رسم و رواج عام طور سے اسلامی حکومت کے اصول اور قوانین کے خلاف ہی نہیں تھے بلکہ وہ ظلم و استبداد اور کٹیٹرشپ کے بد ترین نمونے تھے جنکا تعلق سو فیصدی دور جاہلیت سے ہے اگر ہم اس موضوع کو چھیڑیں گے تو اس مقالہ کی منزل مقصود سے دور ہو جائیں گے، مختصر یہ کہ خداپرست عادل اور منصف مزاج ارباب حکومت کے عقیدے نے شیعوں کو ظلم وستم سے دور کر دیا


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13