نويد امن وامان

نويد امن وامان0%

نويد امن وامان مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

نويد امن وامان

مؤلف: آیة اللہ صافی گلپایگانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 16721
ڈاؤنلوڈ: 2199

تبصرے:

نويد امن وامان
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 218 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 16721 / ڈاؤنلوڈ: 2199
سائز سائز سائز
نويد امن وامان

نويد امن وامان

مؤلف:
اردو

وہ کون سے پیشے یا مشاغل ہیں جن کی اوسط عمر مقرر ہے؟

کیا آپ علم افلاک اور علم نجوم کے پیشہ کی عمر کو مقررہ حد مانتے ہیں جس کی شرح اموات اوسط سے ۱۵ سے ۲۰ فیصدی کم ہے؟

یا وکالت کے پیشہ کو جس کی شرح اموات حد متوسط سے ۵ سے ۱۵ فیصد ی زیادہ ہے؟نالوں وغیرہ کی صفائی کا پیشہ جس کی شرح اموات اوسطاً ۴۰ سے ۶۰ فیصد زیادہ ہے؟ پیشہ ومشغلہ کی لحاظ سے اوسط عمر کے درمیان اختلاف کی یہ چند مثالیں تھیں ان کے علاوہ بھی ہمارے پاس اور بہت سی دلیلیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مصنوعی وسائل کے ذریعہ دوران حیات میں تبدیلی ممکن ہے کیوں کہ اب تک بعض جانوروں پر جو تجربات کئے گئے ہیں وہ سب کامیاب رہے ہیں(۱)

طول عمر اور دین

تمام ادیان میں متفق علیہ طور پر کچھ لوگوں کی بہت طویل عمر کے بارے میں بیان کیا گیا ہے:

تحریف شدہ موجودہ توریت جس پر یہودونصاریٰ ایمان رکھتے ہیں سفر تکوین اصحاح ۵ آیت ۵ ، ۸ ، ۱۱ ، ۱۴ ، ۱۷ ، ۲۰ ، ۲۷ ، ۳۱ ، اصحاح ۹ آیت ۲۹ ، اصحاح، ۱۱ آیت ۱۰ تا ۱۷ ۔ اور دیگر مقامات پر صراحت کے ساتھ متعدد انبیائے کرام اور دیگر افراد کے اسماء کا تذکرہ ہے جن کی عمریں چار سو، چھ سو، سات سو، آٹھ سو یا نو سو سال تھیں۔(۲)

اس کے علاوہ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ ”ایلیا“ کو زندہ ہی آسمان پر اُٹھا لیا گیا ہے تاکہ انھیں موت کی اذیت برداشت نہ کرنا پڑے، ایک یہودی مفسر ”آدم کلارک“کہتا ہے کہ : ”اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ایلیا کو زندہ ہی آسمان پر اُٹھا لیاگیا۔(۳)

____________________

(۱)الہلال، شمارہ ۵ طبع ۱۹۳۰،منتخب الاثر ۲۷۷و۲۷۸۔

(۲) عبرانی، کلدانی اور یونانی زبان سے عربی میں ترجمہ شدہ توریت مطبوعہ بیروت ، ۱۸۷۰ءء کی طرف رجوع فرمائیں۔

(۳) اظہار حق، ج۲ص۱۲۴۔

دین مبین اسلام

دین اسلام کی رو سے طولانی عمر کا مسئلہ قطعی طور پر متفق علیہ ہے، قرآن کریم سورہ عنکبوت آیت ۱۴ میں حضرت نوح کی طولانی عمر کے بارے میں صراحت کے ساتھ اعلان کرتا ہے:

فلبث فیهم اٴلف سنة الا خمسین عاماً

اس آیت کریمہ کے مطابق حضرت نوح علی نبینا وآلہ وعلیہ السلام اپنی قوم کے درمیان طوفان سے قبل نو سو پچاس سال تبلیغ کرتے رہے، تبلیغ سے قبل اورتبلیغکے بعد آپ کتنی مدت تک زندہ رہے اسے خدا ہی جانتا ہے۔

تمام مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ جناب عیسیٰ بلکہ جناب خضر، جناب الیاس اورادریس اب بھی زندہ ہیں، اور حضرت عیسیٰ آخری زمانہ میں زمین پر تشریف لائیں گے اور حضرت مہدی (عج) کی اقتدا میں نماز ادا کریں گے۔

تاریخی لحاظ سے بھی طویل عمر کامسئلہ مسلّم ہے جو تاریخ ہماری دست رس میں ہے اس کے مطابق بے شمار افراد نے طویل عمر پائی ہے۔

طویل عمر بسر کرنے والوں کے بارے میں کتابیں بھی لکھی گئی ہیں جن میں ابوحاتم سجستانی (متوفی ۳۵۰) کی کتاب ”المعمّرون“ بہت مشہور ومعروف ہے،افراد کے حالات زندگی اور علم رجال کے لئے یہ کتاب ماخذ ومنبع کی حیثیت رکھتی ہے کچھ عرصہ قبل جدید فہرست اور نفیس اسلوب کے ساتھ شائع ہوئی ہے اس کتاب میں تاریخی حوالوں کے ساتھ طول عمر کے مسئلہ کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

نتیجہ

گذشتہ باتوں کی روشنی میں جس چیز کو بھی معیار قرار دیا جائے طویل عمر بہرحال ممکن ہے چاہے عہد قدیم کی تاریخ ملاحظہ کی جائے یا علم قدیم اور فلسفہ یونان کو معتبر تسلیم کیا جائے یا جدید علوم پر اعتماد کیا جائے یا انبیاء ومرسلین کی خبروں کو بنیاد بنایا جائے یہ تمام چیزیں طویل عمر کے نہ صرف امکان بلکہ اس کے وقوع کو بھی ثابت کرتی ہیں اور ان تمام منابع کے مطابق طولانی عمر کوئی خارق العادات یا معجزاتی چیز نہیں ہے بلکہ عالم طبیعت کے تمام قوانین میں شامل ہے۔

البتہ اتنا ضرور ہے کہ چونکہ طولانی عمر کے افراد بہت کم ہوتے ہیں لہٰذا ہمارا ذہن اتنی طویل عمر سے ذرا نامانوس ہوتا ہے اور ہمیں عجیب سا محسوس ہوتا ہے جب کہ علم وسائنس کے مطابق مختصر اور کم عمر، خلقت اور عالم طبیعت پر حکمراں قوانین کے خلاف ہے اور اگر سابق الذکررکاوٹیں دورہوجاتیں تو مختصر عمر بھی غیر عادی شمار کی جاتی۔

حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کی طویل عمر

آپ کی عمر مبارک اگر مزید ہزار برس یا اس سے بھی زیادہ طولانی ہو تو اس میں بھی کسی قسم کے شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس لئے کہ طویل عمر کا امکان اور وقوع دونوں مسلم الثبوت ہیں، چاہے ہم طبیعی طو رپر طولانی عمر کو ممکن تسلیم کریں (جیسا کہ یہی صحیح نظریہ ہے) اور چاہے اس امکان کو تسلیم نہ کرتے ہوئے طویل عمر کو خلاف عادت اور معجزہ تسلیم کریں، بہر صورت اگر ہم خدا اور اس کی قدرت پر ایمان ر کھتے ہیں اور انبیاء کی صداقت کا کلمہ پڑھتے ہیں تو حضرت ولی عصر کی طولانی عمر کے بارے میں ذرہ برابر تردد نہیں ہونا چاہئے۔

حضرت کی عمر مبارک کے بارے میں سینکڑوں روایات پائی جاتی ہیں اور مشیت الٰہی بھی یہی ہے، جو شخص بھی خدا کو قادر مطلق مانتا ہے وہ اس مسئلہ کا بھی معتقد ہوگا اور جو العیاذ باللہ خدا کو عاجز مانتا ہوگا اور عاجزی کو نقص وعیب اور خدا کے صفات سلبیہ میں شمار نہیں کرتا وہ کچھ بھی کہہ سکتا ہے لیکن ہمارا عقیدہ ہے کہ عجز نقص ہے اور ناقص محتاج ہوتا ہے اور محتاج خدا نہیں ہوسکتا۔

اس طویل عمر کے دوران صاحبان ایمان وتقویٰ اور صالحین نے بارہا آپ کی زیارت وملاقات کا شرف حاصل کیا ہے اور پاکیزہ قلب ونظر کے مالک افراد کی آنکھیں آپ کے جمال پر نور کی زیارت سے منور ہوئی ہےں۔

آپ کی حیات مبارک کے بارے میں طویل عمر کے ممکن ہونے یا نہ ہونے کی بحث بے محل ہے اور ہمارے خیال سے آپ کی طول عمر کے مسئلہ میں اس سوال کو بلاوجہ داخل کردیا گیا ہے۔

جو لوگ طول عمر کو عقلی طور پر محال جانتے ہیں اور قائل ہیں کہ عقلا طویل عمر ناممکن ہے یا طبیعی طورپر محال ہے انھیں دلیل پیش کرنا چاہئے نہ کہ ہمیں اس کے باوجود ہم نے ثابت کیا کہ بہت طویل عمر نہ تو عقلی طور پر محال ہے اور نہ ہی ذاتی طور پر محال ہے اور نہ ہی اس کے واقع ہونے سے کوئی محال لازم آتا ہے یعنی فلسفیانہ اصطلاح کے مطابق طول عمر نہ محال عقلی ہے نہ محال ذاتی اور نہ محال وقوعی

ہم پھر یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ہم نے مختلف دانشوروں اور مفکروں کے نظریات اور مغربی سائنسدانوں کی تحقیقات و تجربات کے جو نتائج پیش کئے ہیں ان کا مقصد سطحی ذہن رکھنے والے کم علم افراد کو مطمئن کرنا ہے کہ ان باتوں سے انھیں بھی یہ اطمینان حاصل ہوجائے کہ طبیعی طور پر طویل عمر کا امکان، مشرق ومغرب کے تمام دانشوروں اور سائنسدانوں کے درمیان متفق علیہ ہے۔

لیکن جہاں تک امام زمانہ ارواحنا فداہ کی طولانی عمر کا مسئلہ ہے ہم ان چیزوں کے بجائے قدرت خدا اور ارادہ الٰہی کو دلیل مانتے ہیں کہ اگر بالفرض طبیعی طور پر طویل عمر ممکن نہ ہو یا خارق العادة ثابت ہو تب بھی آپ کی طویل عمر پر کوئی اعتراض اور شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس لئے کہ نبوت ِا نبیاء کی تصدیق خارق العادہ امور اور معجزات کو تسلیم کرنے کے بعد ہی ممکن ہے۔

تمام انبیاء کے معجزات خارق العادہ امور ہیں جو حضرات بلا چوں وچرا انبیاء کے معجزات کو تسلیم کرتے ہیں انھیں آپ کی طویل عمر پر کیوں تعجب ہوتا ہے؟ آخر زندہ کو مردہ اور مردہ کو زندہ کرنے، عصا کے اژدہے میں تبدیل ہونے، پہاڑ سے اونٹ کے برآمد ہونے، آسمان سے مائدہ نازل ہونے، گہوارہ میں بچے کے گفتگو کرنے، بغیر باپ کے عیسیٰ کی پیدائش اور طویل عمر میں کیافرق ہے؟ علم وسائنس طویل عمر کے امکان کی تائید کرتی ہے لیکن یہی سائنس بہت سے معجزات کو ناممکن قرار دے کر ان کی تکذیب کرتی ہے تو آخر کیسے ممکن ہے کہ ہم تمام معجزات کو تسلیم کرلیں مگر طویل عمر کا انکار کردیں۔

ہم قائل ہیں کہ چاہے جس چیز کو بنیاد قرار دیاجائے حضرت قائم آل محمد عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کی طولانی عمر پر تعجب یا اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور تمام عقلا مل کر بھی حضرت کی طولانی عمر پرا عتراض کے سلسلہ میں کوئی معقول اور قابل قبول دلیل پیش نہیں کرسکتے۔

خدا نے فرمایا ہے، پیغمبر اکرم نے خبر دی ہے، ائمہ معصومین نے بشارتیں دی ہیں کہ حجت عصر، ”امام حسن عسکری کا نور نظر جس کی ولادت باسعادت نیمہ شعبان ۲۵۵ ھء کی نورانی صبح میں ہوچکی ہے اور جس کے نور جمال سے پوری کائنات منور ہے“ ایک ایسی طویل غیبت کے بعد جس میں لوگ حیرت وتردد میں مبتلا ہوجائیں گے بلکہ اکثر لوگ شک وتردد میں گرفتا ر ہوں گے، ظلم و جور، آلام ومصائب اور گونا گوں مشکلات سے بھری ہوئی دنیا کو اپنے ظہور کے ذریعہ عدل وانصاف سے بھرد ے گا اور پوری دنیا پر اس کی حکومت ہوگی اور ہر جگہ اسلام کے قانون کی بالادستی ہوگی اور دنیا کے گوشہ گوشہ میں قرآنی تعلیمات کے مطابق عادلانہ نظام قائم ہوگا۔

جب یہ بشارتیں اور خبریں قطعی، مسلم الثبوت اور متواتر ہیں اور خداوندعالم بھی قادر مطلق ہے تو آخر شک وشبہ کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے؟ آپ کی طویل عمر اور غیبت کے اسباب کے بارے میں شکوک وشبہات شیطانی وسوسے ہیں ، ہم واضح کرچکے ہیں کہ چاہے جس معیار سے دیکھا جائے حضر ت صاحب الزمانعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی طویل عمر کے بارے میں تعجب کا کوئی مقام نہیں ہے، علم وسائنس، عقل ونقل، قرآن وحدیث، دیگر آسمانی کتب اور قدیم وجدید دانش مندوں کے نظریات سب کے سب ہمارے عقیدہ کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔

انسان اور دیگر مخلوقات کی عمر اور استثنائی موارد

عالم خلقت میں مجردات ومادیات کے مختلف انواع وافراد کے درمیان کبھی کبھی ایسے استثنائی افراد(۱) نظر آتے ہیں کہ جو اپنے ہم جنس یا اپنے خاندان کے افراد سے بہت زیادہ مختلف

ہوتے ہیں چوں کہ ہم عموماً ایک ہی طرح کی چیزوں کو دیکھنے کے عا دی ہیں لہٰذا ان استثنا ئی چیزوں کا فر ق خاص طو ر سے جبکہ وہ بہت زیا دہ ہو ہمیں بہت حیرت انگیز لگتا ہے۔ چاہے یہ فرق اور فاصلہ طول یا عرض یا حجم ووزن کے لحاظ سے ہو یا معنوی خصوصیات کے اعتبار سے یا کسی اور جہت یا قانون کے تحت پہچان لیں یا اسکا سبب ہمیں معلوم نہ ہو، بہرحال اس طرح کے استثنائی افراد کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

آسمانوں، ستاروں اور کرہ افلاک سے لے کر ایٹم کے ذرہ تک جہاں دیکھئے استثنائی کیفیات نظر آتے ہیں یعنی ایسے موجودات دکھائی دیتے ہیں کہ جن میں اپنے ہم نوع افراد کی بہ نسبت کوئی استثنائی خصوصیت ہے جس کی بنا پر وہ توجہ کو اپنی طرف مبذول کرلیتے ہیں۔

____________________

(۱) یہاں استثنائی موارد سے مراد یہ نہیں ہے کہ ایسے استثنائی افراد کسی قاعدہ وقانون کے تحت نہیں آتے کہ جیسے عوام الناس بغیر کسی سبب یا مصلحت کے کسی بھی فرق وامتیاز کو استثناء کہہ دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ استثنائی افراد بھی اپنے مخصوص قوانین اور سنن الٰہیہ کے تحت ظاہر ہوتے ہیں اور انھیں استثنائی اس لحاظ سے کہاجاتا ہے کہ وہ شاذونادر ہی دکھائی دیتے ہیں اوران سے بہت کم سابقہ پڑتا ہے۔ ہمارے لحاظ سے کسی ستارہ کا طلوع یا فضا کی تبدیلی ایک استثنائی اور عدیم النظیر چیز ہوسکتی ہے لیکن جو افراد علم افلاک کے ماہر ہیں اور ستاروں او رکہکشاؤں کی حرکت پر نظر رکھتے ہیں ان کے لئے یہ کوئی عجوبی چیز نہیں ہے بلکہ ان کے خیال میں ایسا ہوتا رہتا ہے اور دنیا کی لاکھوں سال عمر کے دوران بارہا ایسا ہوچکا ہے۔

کرات میں استثناء

آپ کبھی علم افلاک کے ماہرین علمائے علم ہیئت ( Astronomy )کہ جو اربوں ستاروں، شمسی نظاموں، کہکشاؤں، ستاروں کے درمیان فاصلوں، ان کی مسافت وحجم اور قطر کے بارے میں وسیع معلومات کے مالک ہیں ان سے دریافت کیجئے کہ کواکب وسیارات، افلاک وکرات کے بارے میں آپ حضرات کوجن حتمی نظریات کا علم ہے کیا ان میں بھی کوئی استثناء نظر آتا ہے؟کیا کبھی آپ ایسی صورت حال سے دوچار ہوئے ہیں جو آپ کے خزانہ علم میں موجودنظریات کے تحت نہیں آتی، ان حضرات سے ضرور دریافت کیجئے تاکہ آپ کو ”اثبات“ میں جواب ملے اور ایسے حضرات یہ اعتراف کرتے نظرآئیں کہ ہاں یہاں بھی استثنائی مواقع اور افراد پائے جاتے ہیں۔

خدواندعالم کی ان عظیم ترین مخلوقات کے درمیان حجم وقطر اور وزن کے لحاظ سے جو فرق پایا جاتا ہے کیا اس کی حد معین ہے؟ یقینی طور پر جواب ملے گا کہ کوئی حد معین نہیں ہے، مثلا ہماری زمین اور ”سدیم المراة المسلسلہ“ کے درمیان حجم وقطر اور وزن کا کتنا فرق ہے اس کا حساب خدا کے علاوہ کوئی نہیں لگا سکتا، اس فرق اور فاصلہ کو کسی حد تک سمجھنے کے لئے پہلے سورج اور ”سدیم المراة المسلسلہ“ کا فرق محسوس کرنے کی کوشش کیجئے، علماء ہیئت کے مطابق ”سدیم المراة المسلسلہ“کے حجم کے مقابل سورج کے حجم کی ایسی ہی ہیئت ہے کہ جیسے دریچہ کے ذریعہ کمرہ میں پہنچنے والی کرن کی ہوتی ہے، یعنی آفتاب کے مقابل جو حیثیت ذرہ کی ہوتی ہے،اپنی تمام تر عظمت کے باوجود وہی حیثیت ”سدیم المراة المسلسلہ“کے مقابل آفتاب کی ہے، اب ذرا زمین کا حساب لگائیے کہ زمین سدیم المراة المسلسلہ سے کتنی چھوٹی ہوگی کیوں کہ سورج زمین سے تیرہ لاکھ گنا بڑا ہے جب سورج کا قطر تیرہ لاکھ نوے ہزار کلومیٹر ہے تو سدیم المراة المسلسلہ کا قطر کیا ہوگا؟ اور اتنے عظیم قطر کے ساتھ بھلا اس کا زمین سے موازنہ ہوسکتا ہے؟

ہماری زمین اور سدیم المراة جیسے بلکہ اس سے بھی بڑے کروں (کرات) کے درمیان اختلاف کس بنیا د پر ہے؟ یا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہم دو کروں کے درمیان اتنے زیادہ فرق کو تسلیم نہیں کرتے؟

آخر کیا وجہ ہے کہ اس نظام شمسی میں استثنائی طور پر صرف ہماری زمین یاشائد مریخ پر ہی زندگی پائی جاتی ہے؟ دیگر سیارات پر زندگی کا امکان نہیں ہے،شائد مفقود الحیات سیاروں کی تعداد لاکھوں کروڑوں سے بھی زیادہ ہو۔

ایٹم کی دنیا اور اختلاف عمر

کہا جاتا ہے کہ ایٹم کے مرکز سے کچھ میزن ( Meson )جدا ہوتے ہیں انہیں میں سے کچھ ایسے ہیں جن کی عمر سکنڈ کا ہزارواں حصہ ہوتی ہے جب کہ کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کی عمر سکنڈ کے دس کروڑ حصوں میں سے ایک حصہ ہوتی ہے یعنی بہت ہی زیادہ کم اور مختصر کل جب اہل دنیا ایٹم کی حقیقت سے بے خبرتھے اگران کے سامنے یہ فرق بیان کیا جاتا تو کیاوہ لوگ اسے قبول کرلیتے؟ ہرگز نہیں لیکن آج یہ فزکس کا مسلمہ ہے(۱)

علم نباتات کی دنیا میں اختلاف اور استثنائ

عالم نباتات میں بھی بے شمار عجیب وغریب استثناآت دکھائی دیتے ہیں، درختوں میں ایسے بہت سے درخت ہیں جو اپنی لمبائی، چوڑائی، سن یا قطر کے باعث لوگوں کی توجہ کا مرکز ہیں مثلا لبنان کا ”ارز“ اور امریکا کے ”ام الاجمہ“ (جنگلات کی ماں) نامی درخت، ”ام الاجمہ“(۲) امریکا کے سب سے بڑے درختوں میں شمار ہوتا ہے اس کی لمبائی ۳۰۰ سے ۴۰۰ فٹ کے قریب ہوتی ہے اور

____________________

(۱)رسالہ نور دانش،شمارہ۶،سال ۵۔

(۲)”ام الاجمہ“ اس درخت کا عربی نام ہے۔

زمین کے نزدیک اس کے تنے کا قطر تین سو فٹ اور اس کی چھال اٹھارہ انگل موٹی ہے۔

اسکاٹ لینڈ میں پائے جانے والے بعض درختوں کی عمر ایک اندازہ کے مطابق تین سو سال سے زیادہ ہے،ماحولیات کے ایک محقق نے ایک درخت کی عمر کا اندازہ تقریباً پانچ ہزار سال بیان کیا ہے جب کہ یہ درخت اپنی طرح کے درختوں میں سب سے چھوٹا ہے۔

کیلی فورنیا میں ”کاج“ (چیڑ)کا ایک درخت ہے جس کی لمبائی تین سو فٹ اور قطر تقریباً تیس فٹ ہے اس کی عمر چھ ہزار سال ہے۔

ان سب سے زیادہ تعجب خیز (بحر اوقیانوس) دریائے اٹلانٹک کے جزیرہ ”تنزیف“ میں واقع شہر ”اورتاوا“ کا ”عندم“ نامی درخت ہے،(۱) اس درخت کا قطر اتنا ہے کہ اگر دس افراد ہاتھ پھیلا کر انگلیوں سے انگلیاں ملاکر کھڑے ہوجائیں تب بھی اس کے تنے کا مکمل احاطہ نہیں کرسکتے ہیں، ”الآیات البینات“ کے مصنف فرماتے ہیں کہ مذکورہ جزیرہ کے انکشاف کو آج( ۱۸۸۲ ءء میں) ۴۸۲ سال گزر چکے ہیں اور عندم کا یہ عظیم تناور درخت اس وقت بھی ایسا ہی تھا اور اس میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں آئی، عندم کی قسم کے دوسرے چھوٹے درختوں کو دیکھ کر صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی نشوء نما کی رفتار بہت سست ہوتی ہے لہٰذا صرف خدا کو ہی معلوم ہے کہ یہ درخت کتنی صدیوں پرانا ہے۔

علم نباتات کا ایک ماہر اس درخت کی عمر کے بارے میں عاجزی کا اعلان کرتے ہوئے کہتاہے کہ : ”فکر بشری اس راز کو سمجھنے سے قاصر ہے اور اس درخت کی عمر کے بارے میں اندازہ بھی نہیں لگاسکتی میرے خیال میں اتنا طے شدہ اور مسلّم ہے کہ خلقت بشر کے پہلے سے اس درخت کی نشوء نما کا سلسلہ جاری تھا اور طویل عمر گزارنے کے بعد آج یہ درخت اس تن وتوش اور قدوقامت کا ہوا ہے۔“

”الآیات البینات“ کے مصنف فرماتے ہیں: ”اس سے زیادہ عجیب وغریب بات یہ ہے کہ

____________________

(۱)عندم کے درخت کو”دم الاخوین“اور”دم الثعبان“اور فارسی میں ”خون سیاوش“ یا ”خون شیاوشان“ بھی کہا جاتا ہے۔ بظاہر عربی میں صحیح تلفظ ”عُندُم“ ہے۔

علم نباتات کے ماہرین عندم کو درختوں میں شمار نہیں کرتے بلکہ اس کا شمار ایسے پودوں (گھاس پھوس) میں ہوتا ہے جن کی جڑ پیاز کی طرح ہوتی ہے جیسے کہ سنبل ونرگس کی جڑیں اب ذرا ان حقائق کے پیش نظر اس درخت کے خالق علیم وقدیر کی قدرت کا اندازہ لگائیے کہ ہر اگنے والی شئے کے اندر اس کے اسرار حکمت کا خزانہ پوشیدہ ہے(۱)

کیا آپ کو معلوم ہے کہ بعض درخت ”گوشت خور ہوتے ہیں، جو پرندوں، حیوانوں اور بسا اوقات انسان کو شکار کرلیتے ہیں؟

نباتات کی دنیا میں دریاؤں میں پائے جانے والے ان ”ژلاتین“ جیلن کا شمار بھی گھاس میں ہوتا ہے جو ”کلوروفل“ ( Chlorophyll ) کو جذب کرتے ہیں اور جن کی عمر ایک سکینڈ سے بھی کم ہوتی ہے۔

استوائی علاقہ میں ایسے درخت بھی پائے جاتے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر انھیں پانی میسر ہوتا رہے تو قیامت تک سرسبزوشاداب رہیں گے اور ان میں برگ و بار او رشاخیں نکلتی رہیں گی۔(۲)

”لامباردیا“ میں ایک درخت ہے جس کی اونچائی ۱۲۰ فٹ اور قطر ۲۳ فٹ ہے اور اس کی عمر دوہزار سال سے زیادہ ہے، ”بریبورن کینٹ“ میں ایک درخت ہے جس کی عمر کا اندازہ تقریباً تین ہزار سال لگایا جاتا ہے اسی طرح ”تکودیم“ اور ”شیشیوم“ نامی قسم کے درخت بھی ہیں جن کی عمر کا اندازہ چھ ہزار سال ہے۔(۳)

گیہوں کے ایک دانہ سے سات سو دانوں سے زیادہ کبھی نہیں سنا گیا لیکن اِدھر اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ”بوشہر“ کے گاؤں ”کرہ بند“ کے ایک کھیت میں ایک دانہ سے چار ہزار سے

____________________

(۱)پیک ایران شمارہ ۱۱۵۲۔

(۲)نوردانش، شمارہ۶، سال۵ ۔

(۳)اللهوالعلم الحدیث، ص۹۶۔

زائد دانوں کی پیداوار ہوئی جس کے باعث ماہرین زراعت بھی حیرت میں پڑگئے،جب کہ ایک دانہ سے اوسط پیداوار چالیس دانے ہے۔

حیوانات کی دنیا میں اختلاف

مختلف انواع کے حیوانات کی اوسط عمر کے بارے میں علم الحیوان کے ماہرین کی جانب سے جو اعداد وشمار پیش کئے جاتے ہیں ان سے حیوانات کی اوسط عمر کا علم بخوبی ہوجاتا ہے لیکن ان کے درمیان بھی کم و زیادہ فاصلہ کی صورت حال عجیب وغریب ہے، فرق اور اختلاف کے ساتھ ساتھ ہر نوع کے افراد کے درمیان استثنائی افراد بھی بہت نظر آتے ہیں، ایسی خبریں اکثر وبیشتر اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں اگر ان خبروں کو جمع کیا جائے تو ایک مفصل اور قابل توجہ کتاب تیار ہوجائے۔

روس کی جمہوریہ ”یا کوتسک“ میں قطب شمال کے نزدیک دانشوروں کو ایک گھونگا، ملا ہے جو کئی ہزار سال یعنی ماقبل تاریخ سے اب تک زندہ ہے۔(۱)

شمالی یورپ کے بحراعظم اطلس میں ایسی مچھلیاں دیکھی گئی ہیں جن کی عمر کے بارے میں تیس لاکھ سال کا اندازہ لگایا گیا ہے، اسی طرح سانپوں کی عمر کئی ہزار سال بتائی جاتی ہے جب کہ بعض ایسے رینگنے والے جانور بھی ہیں جن کی عمر چند لمحات سے زیادہ نہیں ہوتی(۲)

کیا آپ کو معلوم ہے کہ رانی مکھی کی عمر شہد کی مکھیوں کے مقابلہ میں چار سو گنا زیادہ ہوتی ہے؟

عالم انسان میں استثناء

انسانوں کے درمیان بھی فرق، امتیاز اور اختلاف کا قانون حاکم ہے، اگر یہ قانون نہ ہوتا تو

____________________

(۱)روزنامہ اطلاعات، شمارہ ۹۷۷۔

(۲) نوردانش، شمارہ۶ سال۵۔

افراد کا پہچاننا ممکن نہ ہوتا، خداوندعالم نے اس اختلاف کو اپنی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے اعلان ہوتا ہے:

( ومن آیاتهاختلاف السنتکم والوانکم ) (۱)

اللہ کی نشانیوں میں سے تمہارے رنگوں اور زبانوں کا اختلاف بھی ہے۔

لوگوں کے درمیان اتنا زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ اپنی کثرت کے باعث یہ اختلاف اکثر افراد کی نگاہوں سے اوجھل ہے، عموماً لوگ شکل وقیافہ کے ذریعہ ہی افراد کو پہچانتے ہیں لیکن آج انسان نے ترقی کے باعث جو وسائل ایجاد کئے ہیں ان کے سہارے انسانوں کو خون، ہڈیوں،اور انگلیوں کے نشانات کے ذریعہ بھی پہچانا جاسکتا ہے(۲)

عمر، قد، رنگ، بدن کی ساخت، قوت عقل وفکر، احساسات وغیرہ کے لحاظ سے نادرالوجود افراد مل جاتے ہیں مثلا ایک شخص کا دل داہنی طرف تھا، کوئی شخص اپنے قدوقامت یا وزن کے لحاظ سے اربوں انسانوں کے درمیان اپنی مثال آپ ہوتاہے۔

اگر روحانی واخلاقی عادات واطوار اور صفات کے لحاظ سے دیکھیں تو کوئی سخاوت میں حاتم طائی نظر آتا ہے تو کوئی کنجوسی میں ضرب المثل بن جاتا ہے، فکر ودماغ کے لحاظ سے بھی کوئی نابغہ عصر ہوتا ہے تو کوئی اتنا ذہین کہ مشکل سے مشکل فلسفی وریاضی مسائل کا حل کرنا اس کے لئے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوتا، اور کوئی اتنا کندذہن اور غبی ہوتا ہے کہ سامنے کی بات بھی اس کی سمجھ میں نہیں آتی اور دو، دو چار جیسے جوڑ بھی اس کے لئے مشکل ہوتے ہیں، تاریخ میں جتنے بھی نابغہ اور نامور ہستیاں گزری ہیںوہ کوئی الگ مخلوق نہیں تھیں بلکہ ایسی فاتح عالم ہستیاں بھی انسان ہی تھے مگر عام انسانوں سے ان کا مرتبہ ذرا بلند تھا۔

____________________

(۱) سورہ روم، آیت۲۲۔

(۲)آج کل D.N.A بھی قطعی شناخت کا ذریعہ بن گیا ہے۔ (مترجم)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ عالم خلقت میں استثنائی صورت حال کا ہر جگہ مشاہدہ کیا جاسکتا ہے ہاں کبھی اس کا سبب ہمیں معلوم ہوجاتا ہے اور کبھی معلوم نہیں ہوپاتااور کبھی یہ صورت اچانک رونما ہوتی ہے۔

اب ہم ان لوگوں سے جو امام زمانہ کی طویل عمر کو بعید تصور کرتے ہیں، یا سرے سے اس کے منکر ہیں یہ دریافت کرتے ہیں:

آخر آپ انکار کیوں کررہے ہیں کیا مخلوقات کے درمیان آپ کو استثناآت نظر نہیں آتے؟ کیا طویل عمر انھیں استثناآت کا حصہ نہیں ہے؟

آخر کیوں ہم کروڑوں، ایٹم، نباتات وحیوانات کی دنیا میں عمر یا دیگر کسی اور لحاظ سے استثنائی صورت حال کوتو تسلیم کرلیتے ہیں لیکن امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کہ جوولی خدا بھی ہیں ان کے بارے میںطولانی عمر کے استثناء کو تسلیم نہیں کرتے؟

اگر کوئی شخص مومن وموحد نہ بھی ہو تب بھی اسے عالم طبیعت میں بکھرے ہوئے بے شمار نمونوں کو دیکھ کر کسی شخص کی طویل عمر کے انکار کا حق نہیں ہے، اور اگرہم معرفت خدا رکھتے ہیں اس کی قدرت اور انبیاء کرام کی خبروں پر ایمان لاتے ہیں تو پھر حضرت کے طول عمر کے انکار کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟۔

کیا خدا اس بات پر قادر نہیں ہے؟ کیا خدا کسی انسان کو ہزاروں سال تک زندہ نہیں رکھ سکتا؟آپ تو طویل عمر سے بھی زیادہ عجیب وغریب اور استثنائی باتوں کو تسلیم کرتے ہیں مثلا عصا کا اژدھے میں تبدیل ہونا، بغیر باپ کے جناب عیسیٰ کی ولادت تو آخر فرزند پیغمبر کی طویل عمر کو تسلیم کیوں نہیں کرتے؟

کیا کرات، ایٹم، نباتات، حیوانات کا خدا یا جناب عیسیٰ کو بغیر باپ کے پیدا کرنے والا خدا کوئی اور ہے اور امام زمانہ کا خدا کوئی اورہے؟ ہرگز نہیں آپ ہی نہیں کوئی بھی شخص اس سوال کا منفی جواب نہیں دے سکتا ہے کہ اس سے خدا کی قدرت پر حرف آتا ہے۔

دا ئمی عمر

حیات ابدی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی طرف بشریت کی توجہ ہمیشہ سے مبذول رہی ہے اور اس سلسلہ میں زمانہ قدیم سے ہی تحقیق و جستجو اور تجربات کا سلسلہ جاری رہا ہے۔

جہاں تک دائمی عمر اور حیات ابدی کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ سبھی عقلی طو رپر اسے ممکن گردانتے ہیں اور شائد ہی کوئی انسان ہو جو حیات ابدی کو ممکن سمجھنے کے بجائے محال جانتا ہو۔

تحقیقات کا تعلق اس کے علمی امکان سے ہے یعنی علم حیات اور مفکرین اپنے تجربات اورآزمائشوں کے ذریعہ یہ ثابت کرنے کے درپے ہیں کہ حیات ابدی کبھی انسانی اختیار میں آسکتی ہے یا نہیں کہ اگر کوئی انسان اسے حاصل کرنا چاہے تو حاصل کرلے۔

اس سلسلہ میں اب تک جو تحقیقات اور تجربات ہوئے ہیں وہ کامیاب رہے ہیں؟

اس میدان کی تحقیقات ،ماہرین فن کے لئے امید افزا ہیں یا مایوس کرنے والی؟

کیا اس میدان میں تحقیق و جستجو کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے؟

جس طرح انسان نے چیچک، ملیریا، تپ دق اور دیگر بیماریوں کے جراثیم تلاش کرکے ان سے مقابلہ کیا ہے، کیا کسی دن عمر کے منقطع ہونے کا سلسلہ بھی ختم ہوجائے گا؟

علمی لحاظ سے ان سوالات کا جواب مثبت ہے یا منفی؟

انسانیت کے لئے سب سے اہم مسئلہ آج یہی ہے اور مادی زندگی میں اس سے بڑھ کر کوئی اور مسئلہ نہیں ہے۔

بیماری سے لڑنا، خطرناک کینسر جیسی مہلک بیماریوں کی دوا تلاش کرنایہ سب اسی اصل مسئلہ کی فروعات ہیں یعنی ان سب کوششوں کا راز یہ ہے کہ انسان ہمیشہ ہمیشہ نہ سہی تو زیادہ سے زیادہ زندگی بسر کرنا چاہتا ہے۔

ہماری معلومات کے مطابق علم الحیات، میڈیکل سائنس اور متعلقہ موضوعات کے ماہرین نے ان سوالات کا جواب مثبت انداز میں دیا ہے اور ان کی تحقیقات امیدافزا ہیں اسی لئے تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے، اگرچہ بعض حضرات ابھی احتیاط کے لہجہ میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عمر کو مزید طویل بنانا ممکن ہے، یہ محتاط حضرات ابدی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں کہتے لیکن اتنا ضرور مانتے ہیں کہ عمر کو طولانی بنانے کا مطلب ہے کہ ہم زندگی سے ایک قدم نزدیک ہورہے ہیں، بنیادی طور پر میڈیکل سائنس جتنے شعبوں پر کام کررہی ہے اور بیماریوں کا علاج جیسے جیسے میسر ہوتا جارہا ہے یہ چیز بذات خود ہمیں اس ہدف سے قریب تر کررہی ہے اس لئے کہ بیماری کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ بیماری کے باعث عمروزندگی کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے اور بیماری ابدی زندگی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے، جب یکے بعد دیگرے بیماریوں کا علاج فراہم ہوتا جائے گا توبتدریج حیات ابدی کا حصول بھی ممکن ہوتا جائے گا۔

اگرچہ محققین الگ الگ یونیورسٹیوں اور لیبورٹریز میں مختلف شعبوں پر کام کررہے ہیں او رہر ایک الگ بیماری کے بارے میں معلومات اور اس کا علاج تلاش کررہا ہے لیکن ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تحقیقات اور تجربات کتنے ہی کامیاب کیوں نہ ہوں جب تک انسانیت کے سرپر موت کی تلوار لٹکی ہوئی ہے ان کا سلسلہ رکنے والا نہیں ہے، لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ ایسی تمام کوششیں اسی ہدف ومقصد اور اسی نتیجہ تک رسائی کے لئے ہیں اور جیسے جیسے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں قافلہ بشریت اس ہدف سے نزدیک تر ہوتا جارہا ہے یہ کوئی مبالغہ آمیز بات نہیں ہے۔

حیات ابدی کے امکانی حصول کے لئے بظاہر دو راستوں سے مطالعات وتحقیقات وتجربات کا سلسلہ جاری ہے۔

۱ ۔ ایسے لوگوں کے حالات زندگی اوران کی جسمانی، ذہنی، اخلاقی، دینی اور اقتصادی صورت حال کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں جنھوں نے طویل زندگی بسر کی ہے۔

۲ ۔ بعض حیوانات، جینس( Genes )، خلیوں،یا اعضا کے اوپر تحقیقات کی جائیں۔

دونوں مرحلوں میں اب تک تحقیقات مثبت اور امیدافزا رہی ہیں اور ان سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ رشتہ حیات کا منقطع ہونا کسی جاندار کا طبیعی لازمہ نہیں ہے بلکہ بعض عوارض یا حوادث کے باعث ایسا ہوتا ہے۔

غیرمعمولی معمر حضرات کے حالات زندگی سے بھی یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ عمر کی کوئی حد معین نہیں ہے اور حیات وزندگی جیسی عظیم نعمت انسان کے حصہ میں اتنی محدود ومختصر بھی نہیں ہے جسکے ہم عادی ہوگئے ہیں، اوراگرکسی کو خصوصی شرائط اور حالات اتفاقاً میسر ہوجائیں تو انسان اوسط سے کئی گنا زیادہ زندہ رہ سکتا ہے۔

علمی ا ورسائنسی تحقیقات

ڈاکٹر ”ہنری اطیس“ کہتے ہیں کہ ”ابدی زندگی ممکن ہے اوریہ انسانی اعضائے بدن کی مصنوعی ساخت اور انسانی بدن میں ان کی پیوند کاری کے ذریعہ عملاً ممکن ہوجائے گا۔“(۱)

ایک اور مفکر کا قول ہے ”موت بیماری کے باعث آتی ہے نہ کہ ضعیفی کے باعث اور بیماری کے بہت سے اسباب ہیں جن میں سے بعض انسان کے اختیارسے باہر ہیں جیسے والدین کا جاہل ہونا یا ان کی جانب سے اپنے رشتہ کے انتخاب سے لے کر حمل ورضاعت کے مختلف مراحل پر حفظان صحت کے اصول وقواعد کی رعایت نہ کرنا، بچوں کی غلط تربیت، خراب ماحول وغیرہ ، کچھ اسباب ایسے ہیں جو انسان کے اختیار میں ہیں او رانسان انھیں دور کرسکتا ہے جیسے زیادہ کھانا، زیادہ سونا،

____________________

(۱)اطلاعات،شمارہ۱۱۸۰۵۔

غیرمنظم زندگی، غلط عادات، بداخلاقی اور باطل افکار ونظریات جن کے باعث انسان اضطراب و بے چینی میں مبتلا رہتا ہے اورآخر کار نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہوکر مایوسی وافسردگی کا شکار ہوجاتا ہے، اور انسانی زندگی سے سکون واطمینان ختم ہوجاتا ہے۔

اس طرح اگر انسان ان اسباب سے دوری اختیار کرکے لباس، غذا، مشاغل اور دیگر امور میں اعتدال سے کام لے تو اس کی عمر کی کوئی حد نہ ہوگی اورسائنٹفک اصولوں کے تحت اس کے لئے ابدی زندگی محال نہ ہوگی۔

لیکن آیات قرآنی اور انبیائے کرام کی زبانی موصولہ خبروں سے یہ ثابت ہے کہ ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔

کل مَن علیها فان “جو بھی روئے زمین پر ہے وہ فنا ہونے والا ہے۔

اینما تکونوا یدرککم الموت “تم جہاں بھی رہو گے موت تمہیں پا لے گی۔

البتہ یہی ذرائع ہزار سال یا اس سے زیادہ عمر کی نفی نہیں کرتے۔(۱) اور نہ ہی یہ ثابت کرتے ہیں کہ اس دنیا کی بقا ء تک عام افراد کی زندگی محال ہے۔

عربی زبان کے مشہور ومعروف علمی وسائنسی رسالہ ”المقتطف“نے ۱۳۵۹ ء ھ ش کے تیسرے شمارہ میں ایک مقالہ شائع کیا ہے جس کا عنوان ہے ”هل یخلد الانسان فی الدنیا “”کیا انسان ہمیشہ ہمیشہ دنیا میں زندہ رہے گا؟“

اس مقالہ میں موت و حیات، موت کی حقیقت او رکیا ہر جاندار کے لئے موت ضروری ہے؟ جیسے موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے۔

اس مقالہ میں علمی تحقیقات اورتشریحات کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ جن جراثیم اور Cells کے باعث نسل آگے چلتی ہے اور انسان، حیوانات، مچھلیاں، پرندے، درندے، گھوڑے، گائے،

____________________

(۱)منتخب الاثر،ص۲۸۰