تفسير راہنما جلد ۲

 تفسير راہنما0%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 749

 تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 749
مشاہدے: 141172
ڈاؤنلوڈ: 3907


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 749 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 141172 / ڈاؤنلوڈ: 3907
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 2

مؤلف:
اردو

٥_ بعض يوميہ نمازوں (صلوة وسطي) كى خاص اہميت ہے_و الصلاة الوسطي

٦_ نماز كو خدا كى خاطر، خضوع و خشوع اور اس كى جانب پورى توجہ كے ساتھ پڑھنا ضرورى ہے_

حافظوا على الصلوات و قوموا لله قانتين ''قنوت''كے معنى اطاعت ميں خضوع و خشوع كرنے كے ہيں اور خضوع و خشوع كا لازمہ كامل توجہ ہے اور''قوموا لله ''ميں قيام سے مراد يا صرف نماز ہے يا قيام كا واضح ترين مصداق نماز ہے_

٧_ نماز كو خدا وند متعال كى اطاعت اور بندگى كے ليئے انجام دينا ضرورى ہے_حافظوا على الصلوات و قوموا لله قانتين ''قنوت''خضوع كے علاوہ اطاعت اور بندگى پر بھى دلالت كرتا ہے كيونكہ قنوت كے معنى اطاعت ميں خضوع كرنے كے ہيں _

٨_ خدا كى طرف اس طرح سے سفر و حركت كرنا ضرورى ہے جو خضوع اور اس كى اطاعت كے ساتھ ہو_

و قوموا لله قانتين كيونكہ بيان ہوچكا ہے كہ''قنوت''كے معنى خضوع و خشوع كے ساتھ اطاعت كے ہيں _

٩_ انسان كے اعمال اور اس كاچال چلن خدا كى خاطر اور اسى كى راہ ميں ہونا چاہيئے_و قوموا لله قانتين

١٠_ خدا كے سامنے اطاعت اور خضوع، انسانى روش و كردار كى قدر و قيمت كے جانچنے كا ايك معيار ہے_

و قوموا لله قانتين چونكہ خدا نے حكم ديا ہے كہ قيام ''قنوت''كے ہمراہ ہونا چاہئے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ اگر انسان كا عمل اور اس كے اقدامات خدا كے سامنے خضوع و خشوع سے خالى ہوں تو بے قيمت اور بے فائدہ ہيں _

١١_ نمازوں ميں سے نماز ظہر كو خاص اہميت حاصل ہے_حافظوا على الصلوات و الصلاة الوسطي

الامام الباقر(ع) :'' ...والصلوة الوسطي'' و هى صلوة الظهروهى اول صلوة صلاها رسول الله (ص) _ (١)'' صلوة وسطى سے مراد نماز ظہر ہے_ يہ پہلى نماز ہے جو رسول الله (ص) نے پڑھي''

١٢_ نماز كے قيام كى حالت ميں دعا بہت ہى مقام ومرتبہ ركھتى ہے_

____________________

١) كافى ج ٣ ص ٢٧١ ح ١ نور الثقلين ج ١ ، ص ٢٣٧ ح ٩٣٤_

۱۸۱

و قوموا لله قانتين

قال الباقر(ع) ''والقنوت''هو الدعاء فى الصلوة فى حال القيام _ (١) اور قنوت سے مراد نماز كے دوران ميں حالت قيام ميں دعا ہے _

اقدار: اقدار كا معيار ١٠

اطاعت: خدا كى اطاعت٧، ٨، ١٠

بندگي: بندگى ميں خضوع ٨، ١٠;بندگى ميں خلوص ٨

دعا: دعا كى فضيلت١٢

دينى نظام تعليم: ١

روايت: ١١، ١٢

شرعى فريضہ: شرعى فريضہ پر عمل كا پيش خيمہ١

عبادت: عبادت ميں خلوص ٦، ٧

عمل: عمل كے آداب ٨ ; عمل ميں خلوص ٩

عمومى نظارت: ٤

غفلت: غفلت كا پيش خيمہ٣

معاشرہ: معاشرہ كى ذمہ دارى ٤

نماز: نماز ظہر كى اہميت١١; نماز قائم كرنا ٦، ٧; نماز كى اہميت ٢، ٣، ٤، ٥; نماز كے آداب٢; نماز كے اثرات ١;نماز ميں خضوع ٦; نماز ميں دعا ٢ ١ ; نماز وسطي ٥

____________________

١) مجمع البيان ج ٢ص ٦٠٠ نورالثقلين ج ١ ص ٢٣٧ ح ٩٤٠ _

۱۸۲

فَإنْ خِفْتُمْ فَرِجَالاً أَوْ رُكْبَانًا فَإِذَا أَمِنتُمْ فَاذْكُرُواْ اللّهَ كَمَا عَلَّمَكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَ (٢٣٩)

پھر اگر خوف كى حالت ہو تو پيدل ، سوارجس طرح ممكن ہو نماز ادا كرو اور جب اطمينان ہو جائے تو اس طرح ذكر خدا كروجس طرح اس نے تمھارى لا علمى ميں تمھيں بتاياہے_

١_ خوف كى حالت ميں حركت كرتے ہوئے سوارى پر يا پيدل چلتے ہوئے نماز پڑھى جاسكتى ہے_

فان خفتم فرجالا او ركبانا يہاں پر''فان خفتم ...'' كاجملہ ايك محذوف شرط كى حكايت كرتا ہے جو پہلے والى آيت كے حكم كو مشروط كرتا ہے يعنى نما ز ميں تمام شرائط كى كامل رعايت ، امن كى صورت ميں ہے ليكن اگر خوف پيش آجائے تو جس قدر امكان ہو بجالائے اور باقى شرائط اور آداب ضرورى نہيں ہيں _ اسى طرح ''رجالا''راجلاً كى جمع ہے جو پيدل كے معنى ميں ہے اور ''ركباناً'' راكب كى جمع ہے جو سوار كے معنى ميں ہے اور دونوں ميں حركت كا پہلو مدنظر ہے_

٢_جتنے بھى مشكل حالات پيش آجائيں نماز كا چھوڑنا جائز نہيں ہے_فان خفتم فرجالا او ركبانا

٣_ خوف كے وقت نماز كى بعض شرائط ساقط ہوجاتى ہيں _فان خفتم فرجالا او ركبانا

٤_ خوف كے بعد جب امن و امان كى حالت پلٹ آئے تو نماز كو پورى شرائط كے ساتھ انجام دينا ضرورى ہے_

فاذا امنتم فاذكروا الله كما علمكم ما لم تكونوا تعلمون

٥_ نماز خدا كا ذكر ہے_فاذا امنتم فاذكروا الله جملہ ''فاذكروا اللہ '' ميں ذكر سے مراد نماز ہے_

٦_ نماز وہ فريضہ ہے جس كى تعليم خداوند عالم كى طرف سے دى گئي ہے اور ضرورى ہے كہ اسے

۱۸۳

عليم ديئے گئے طريقے كے مطابق انجام ديا جائے_فاذكروا الله كما علمكم

٧_ خدا كو اسى طرح ياد كرنا چاہيئے جيسے اس نے انسان كو تعليم دى ہے_فاذكروا الله كما علمكم

٨_ انسان تعليم خدا كے بغير الہى احكام كو سيكھنے كى استعداد و صلاحيت نہيں ركھتا_كما علمكم ما لم تكونوا تعلمون

٩_ نماز پڑھتے وقت حركت نہ كرنا نماز كى شرائط ميں سے ہے_فان خفتم فرجالا او ركبانا

خوف كى حالت ميں حركت كرتے ہوئے نماز پڑھنے كا جائز ہونا حكايت كرتا ہے كہ عام حالات ميں نماز كى شرط ہے عدم حركت _

احكام: ١، ٢، ٣، ٤، ٦، ٩ احكام ثانوى ١

اضطرار : اضطرار اور فريضہ كا اٹھ جانا ٣

انسان: انسان كى كمزورى ٨

ذكر: آداب ذكر ٧; ذكر خدا٧; ذكر كے موارد ٥

نماز: خوف كى نماز١، ٣ ;نماز كا توقيفى ہونا ٦ ;نماز كى اہميت ١، ٢، ٥; نماز كى شرائط ٩ ; نماز كے احكام ١، ٢، ٣، ٤، ٦، ٩

۱۸۴

وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِّأَزْوَاجِهِم مَّتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِيَ أَنفُسِهِنَّ مِن مَّعْرُوفٍ وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (٢٤٠)

اور جو لوگ مدت حيات پورى كر رہے ہوں اور ازواج كو چھوڑكرجارہے ہوں انھيں چاہئے كہ اپنى ازواج كے لئے ايك سال كے خرچ اور گھر سے نہ نكالنے كى وصيت كركے جائيں پھر اگر وہ خود سے نكل جائيں تو تمھارے لئے كوئي حرج نہيں ہے وہ اپنے بارے ميں جو بھى مناسب كام انجام ديں خدا صاحب عزت اور صاحب حكمت بھى ہے _

١_ موت سے انسان كى حقيقت فنا نہيں ہوتي_ *و الذين يتوفون منكم ''توفي''كے معنى دى ہوئي چيز كو مكمل طور پر واپس لينا ہے نہ اسے نابود كرنا_

٢_ موت انسان كے ارادہ اور اختيار سے نہيں ہے_*يتوفون منكم

''يتوفون''كا بصورت مجہول لانا اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ موت انسان كيلئے اختيارى نہيں ہے_

٣_ مردوں ر لازمى ہے كہ اپنى بيويوں كو ايك سال تك اخراجات دينے كى وصيت كريں _

و الذين يتوفون منكم و يذرون ازواجا وصية لازواجهم متاعا الى الحول

٤_ جن عورتوں كے شوہر فوت ہوجائيں انہيں شوہر كے گھر ميں ايك سال رہنے اوراس كے اموال سے استفادہ كرنے كا حق حاصل ہے_وصية لازواجهم متاعا الى الحول غير اخراج

۱۸۵

''غير اخراج''كا ظہور اس ميں ہے كہ جن عورتوں كے شوہر فوت ہوجائيں انہيں شوہر كے گھر سے ايك سال تك نہيں نكالا جاسكتا جس كا لازمہ يہ ہے وہ اس كے گھر ميں رہ سكتى ہيں _

٥_ جن عورتوں كے شوہر فوت ہوجائيں انہيں ايك سال تك شوہر كے گھر كے علاوہ كہيں اور نہيں رہنا چاہيئے _ *

متاعا الى الحول غير اخراج بعض مفسرين كے نزديك ''غير اخراج'' كے الفاظ عورتوں كے فريضہ كا بيان ہے اس صورت ميں كہ''اخراج'' كافاعل ''ازواج'' ہوں يعنى عورتوں كو شوہروں كے گھر سے نہيں نكلنا چاہئے_ البتہ يہ بات قابل ذكر ہے كہ اخراج يا خروج كو ترك كرنے كا مطلب سكونت اختيار كرنا ہے نہ كہ گھر ميں بند ہوجانا_

٦_ بيوى كا شوہر كے گھر ميں رہنا اس كے ايك سال كے اخراجات ادا كيئے جانے كى شرط ہے _متاعا الى الحول غير اخراج يہ اس صورت ميں ہے كہ''غير اخراج'' عورت كے حق سكونت كے بيان كے علاوہ سابقہ حكم (سال كا خرچہ دينا) كى قيد بھى ہو يعنى عورت كو شوہر كے مال سے استفادہ كا حق اس وقت حاصل ہے كہ وہ اس كے گھر سے نہ نكلے_

٧_ جس عورت كا شوہر فوت ہوجائے اس پر اس كے گھر سے سال مكمل ہونے سے پہلے نكلنا جائز ہے_

غير اخراج فان خرجن فلاجناح عليكم

٨_ جن عورتوں كے شوہر فوت ہوجائيں ان كيلئے شوہر كے گھر سے نكلنے كے بعد ہر شائستہ اور مشروع كام(شادي) كرناجائز ہے_فان خرجن فلاجناح عليكم فى ما فعلن فى انفسهن من معروف بعض مفسرين كے نزديك ''من معروف'' سے مراد نكاح كرنا ہے لہذا ايمانى معاشرہ يا ميت كے وارث عورت كو شوہر كے گھر ميں رہائش كى صورت ميں ايك سال تك نكاح كرنے سے روك سكتے ہيں البتہ اس فرض كى بنا پر كہ عورت شوہر كے گھر سكونت اختيار كرے_

٩_ ايمانى معاشرہ كى ذمہ دارى ہے كہ بيوہ اور بے سرپرست عورتوں كے اخلاق و كردار پر نظر ركھے_

فان خرجن فلاجناح عليكم ...من معروف اگرچہ آيت ان عورتوں كے بارے ميں ہے جن كے شوہر فوت ہوچكے ہوں ليكن اس بنا پر كہ خطاب ايمانى معاشرہ سے ہو نہ صرف ولى

۱۸۶

سے معلوم ہوتا ہے كہ صرف بيوہ عورتيں مراد نہيں ہيں كيونكہ معاشرتى لحاظ سے بيوہ عورتوں اور ديگر خواتين ميں كوئي فرق نہيں ہے بلكہ زير نظر ركھنے كا معيار عورت كا بے سرپرست ہونا ہے_

١٠_ خدا وند متعال عزيز اور حكيم ہے_و الله عزيز حكيم

١١_ خداوندعالم الہى احكام كى مخالفت كرنے والوں كو سزا دينے پر قادر ہے_و الله عزيز حكيم

احكام كے بيان كے بعد''عزيز'' ايسا قادر جو (ناقابل شكست اور غلبے والاہے) جيسى صفت كا لانا الہى احكام كى مخالفت كرنے والوں كو ڈرانے كے ليے ہے_

١٢_ احكام كى تشريع خداوند متعال كى حكمت كى بنياد پر ہے_و الله عزيز حكيم

احكام: ٣، ٤، ٥، ٦، ٧، ٨ احكام كا فلسفہ ١٢ ;احكام كى تشريع ١٢

اسماء و صفات: حكيم ١٠; عزيز ١٠

انسان: انسان كا اختيار ٢; انسان كى حقيقت ١

تخلف كرنے والے: تخلف كرنے والوں كى سزا ١ ١

حقوق :٤،٥،٦

خدا تعالى: خدا تعالى كى حدود سے تجاوز ١١; خدا تعالى كى حكمت ١٢; خدا تعالى كى قدرت ١١

شادي: شادى كے احكام٨

شريك حيات: شريك حيات كے حقوق ٤،٥،٦

عدت: عدت وفات ٧

عورت: بيوہ عورت ٤، ٥، ٦، ٧، ٨، ٩ ;عورت كے حقوق ٣، ٤، ٦، ٧، ٨

مطلقہ: مطلقہ كو اخراجات دينا٤، ٦

معاشرہ: معاشرے كى ذمہ دارى ٩ معاشرے كى عمومى نظارت : ٩

موت: ١

۱۸۷

نفقہ: نفقہ كے احكام ٣، ٤، ٦

وصيت: نفقہ كى وصيت ٣;وصيت كے احكام ٣

وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ (٢٤١)

اور مطلقات كے لئے مناسب مال و متاع ضرورى ہے كہ يہ صاحبان تقوى پر ايك حق ہے _

١_ مطلقہ عورتوں كو مناسب اور معقول مال و اسباب دينا ضرورى ہے_و للمطلقات متاع بالمعروف

٢_ عورت اور مرد دونوں كے معاشرتى مقام و منزلت سے مال و اسباب كى مقدار اور خصوصيات معين ہوتى ہيں لہذا مطلقہ عورت كو اسى كے مطابق ديا جائے گا_*متاع بالمعروف

ايسا معلوم ہوتاہے كہ عورت اور مرد كى معاشرتى حيثيت كو مدنظر ركھے بغير اچھے اور مناسب مال و اسباب كى تعيين نہيں كى جاسكتي_

٣_ احكام الہى كے بعض موضوعات كى تشخيص كا معيار عرف ہے_متاع بالمعروف

٤_ مطلقہ عورتوں كو مناسب اور معقول مال و اسباب دينا با تقوي لوگوں كا فريضہ اور ان كے تقوي كى علامت ہے_

و للمطلقات حقا على المتقين

٥_ دوسروں كے حقوق كى رعايت اہل تقوي كا فريضہ اور انكے تقوي كى علامت ہے_و للمطلقات حقا على المتقين

٦_ معاشرہ ميں صاحبان تقوي، مطلقہ عورتوں كے حقوق كى رعايت كرنے والے ہيں _حقا على المتقين

اس بات كے پيش نظر كہ اصل حكم تو معاشرہ كے سب افراد كے ليئے ہے ليكن حكم ميں متقين كو مورد توجہ قرار ديا گيا ہے_

٧_ مطلقہ عورتوں كے حقوقى مسائل پر توجہ دينا بہت ہى قابل قدر اور اہميت كا حامل ہے_

حقاً على المحسنين و ان تعفوا اقرب للتقوى حقا على المتقين يہ مطلب مطلقہ عورتوں كے بارے ميں آنے والى آيات كے مجموعہ سے استفادہ ہوتا ہے بالخصوص مختلف تعبيروں كے ساتھ جيسے''حقاً على المتقين''،''حقاً على المحسنين'' اور ''ان تعفوا اقرب للتقوي''جيسے الفاظ كے ذريعہ_

۱۸۸

٨_ عدت مكمل ہونے كے بعد ضرورى ہے كہ مرد اپنى توان اور استطاعت كے مطابق مطلقہ عورت كو مناسب اور اچھا مال و اسباب دے_و للمطلقات متاع بالمعروف امام جعفر صادق(ع) آيت''و للمطلقات ...'' كے بارے ميں فرماتے ہيں :متاعها بعد ما تنقضى عدتها'' على الموسع قدره و على المقتر قدره'' (١) مطلقہ عورت كو مال دينے كا وقت اسكى عدت گزرنے كے بعد ہے اور'' اس كى مقدار وسيع رزق و الے اور تنگ دست كے اپنے اپنے حالات كے مطابق ہے_''

احكام: ١، ٢، ٤، ٨

تقوي: تقوي كے اثرات ٤، ٥، ٦

روايت: ٨

شخصيت: شخصيت كى حفاظت كرنا;٢

شر عى فريضہ: شرعى فريضہ كى شرائط ٨; شرعى ميں قدرت ٨

طلاق: طلاق كے احكام ١

عدت: طلاق كى عدت٨

عرفى معيارات: ١، ٣

عورت: عورت كے حقوق ١، ٢، ٤، ٦، ٧

لوگ: لوگوں كے حقوق ٥

متقين : متقين كى ذمہ دارى ٤، ٥ ; متقين كى صفات ٦

مطلقہ: مطلقہ كومال و اسباب دينا -١، ٢، ٤، ٨ ;مطلقہ كے حقوق ٧

معاشرتى حيثيتيں : ٢

موضوع شناسي: موضوع شناسى كے منابع ٣

____________________

١) كافى ج ٦ ص ١٠٥، ح ٣، نور الثقلين ج ١، ص ٢٤٠، ح ٩٥٦ ، ٩٥٧ _

۱۸۹

كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (٢٤٢)

اسى طرح پروردگار اپنى آيات كو بيان كرتا ہے كہ شايد تمھيں عقل آجائے_

١_ خداوند عالم اپنے احكام كو واضح و روشن انداز ميں بيان فرماتا ہے_كذلك يبين الله لكم آياته

٢_ خدا تعالى كى طرف سے آيات كا بيان غور و فكر كو بيدار كرنے كا باعث بنتاہے_كذلك يبين الله لكم آياته لعلكم تعقلون

٣_ خدا وند متعال كى طرف سے آيات اور احكام كے بيان كرنے كا مقصد غور و فكر كرنا ہے _كذلك يبين الله لكم آياته لعلكم تعقلون

٤_ لوگ عقل و فكر كے ذريعے آيات اور احكام كو سمجھنے كى قدرت ركھتے ہيں _يبين الله لكم آياته لعلكم تعقلون

''لعلكم تعقلون''كا جملہ الہى آيات كے فہم و ادراك كو ان كى تبيين كا ہدف قرار دينے كے ساتھ ساتھ ضمنى طور پر انہيں سمجھنے اور درك كرنے كا راستہ بھى بتلاتا ہے جو وہى غور و فكر ہے_

٥_ الہى احكام اس كى ذات اقدس كى شناخت كى نشانياں ہيں _يبين الله لكم آياته

''آيات''(نشانيوں ) سے مراد الہى احكام ہيں چونكہ''كذلك''گذشتہ احكام كى طرف اشارہ ہے لہذا ہر حكم اس كى نشانى ہوگا_

٦_ غور و فكر كرنا اسلام كى بنيادى اور اہم ترين اقدار ميں سے ہے_لعلكم تعقلون

كيونكہ تعقل اور تفكر كو آيات كى تبيين كا مقصد و ہدف قرار ديا گيا ہے_

٧_ احكام الہى كى شناخت; وحى الہى ، خدا تعالى كى تبيين اور غور و فكر كے ذريعے ہى ممكن ہے_

كذلك يبين الله لكم آياته لعلكم تعقلون

۱۹۰

آيات خدا: ٥ آيات خدا كا بيان كرنا ١، ٢، ٣، ٧

احكام: احكام كى تشريع ١٣

انسان: انسان كى زندگى كے مختلف پہلو ٤

تعقل: تعقل كا پيش خيمہ٢ ;تعقل كى اہميت ٣، ٤، ٦، ٧

خدا شناسي: خداشناسى كے طريقے ٥

دين: دينى كى تعليمات٥

شناخت: شناخت كے طريقے ٤، ٧

وحي: وحى كى تاثير ٧

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُواْ مِن دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللّهُ مُوتُواْ ثُمَّ أَحْيَاهُمْ إِنَّ اللّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَشْكُرُونَ (٢٤٣)

كيا تم نے ان لوگوں كو نہيں ديكھا جو ہزاروں كى تعداد ميں اپنے گھروں سے نكل پڑے موت كے خوف سے اور خدا نے انھيں موت كا حكم دے ديا او رپھر زندہ كرديا كہ خدا لوگوں پربہت فضل كرنے والا ہے ليكن اكثر لوگ شكريہ نہيں ادا كرتے ہيں _

١_ سابقہ امتوں كے ہزاروں لوگ اپنے گھروں كو موت كے ڈر سے چھوڑ كر بھاگ گئے اور خداوند عالم نے انہيں مار كر كچھ مدت كے بعد دوبارہ زندہ كيا_ا لم تر الى الذين ثم احياهم

٢_ اس قوم كا اپنے گھروں سے نكل جانے اور خدا كے حكم سے مر جانے اور پھر زندہ ہونے كا تاريخى

۱۹۱

واقعہ خداوند متعال كى نشانيوں ميں سے ہے_يبين الله لكم آياته ا لم تر الى الذين خرجوا

٣_ تاريخى واقعات كا جاننا اور ان سے عبرت حاصل كرنا مومنين كا فريضہ ہے_الم تر الى الذين

''الم تر''ميں رؤيت كا مطلب آنكھ سے ديكھنا نہيں ہے كيونكہ وہ واقعہ گذر چكا ہے اور مخاطب كيلئے اس كا ديكھنا ممكن نہيں ہے لہذا ''الم تر ...''ترغيب ہے سابقہ امتوں كے واقعات كو پہچاننے اور سمجھنے كى تاكہ سوچنے والوں كيلئے درس عبرت ہو_

٤_ مُردوں كا اس دنيا ميں زندہ ہونا ممكن ہے (رجعت) _فقال لهم الله موتوا ثم احياهم

٥_ موت و حيات اللہ تعالى كے قبضہ قدرت ميں ہے_فقال لهم الله موتوا ثم احياهم

٦_ موت نابودى اور فنا نہيں ہے_فقال لهم الله موتوا ثم احياهم كيونكہ موت اگر نابودى اور فنا ہوتى تو يہ كہنا صحيح نہ ہوتا كہ ہم نے انہيں مردوں كو زندہ كيا_

٧_ موت سے فرار ممكن نہيں ہے_ا لم تر الى الذين خرجوا من ديارهم و هم الوف حذر الموت فقال لهم الله موتوا

٨_ خدا وند متعال اس قوم كے واقعہ كے بارے ميں غور و فكر كى دعوت ديتاہے جو مر گئے اوردوبارہ زندہ كيئے گئے ( تاريخى واقعات )_ا لم تر الى الذين خرجوا من ديارهم و هم الوف حذر الموت

٩_ خدا كى راہ ميں جنگ سے بھاگنے والوں كو قبل از وقت موت آجانا انكے اعمال كى سزا كے طور پر ہے_

ا لم تر الى الذين فقال لهم الله موتوا ...و قاتلوا فى سبيل الله اس آيت اور بعد والى آيت كے باہمى رابطے كو ديكھتے ہوئے كہا جاسكتا ہے كہ مذكورہ قوم كا اپنے گھروں اور شہر كو چھوڑنا ميدان جنگ سے بھاگنے كى وجہ سے تھا خدا تعالى اس واقعہ كى يادآورى كرتے ہوئے مسلمانوں كو متنبہ فرما رہاہے كہ ان بھاگنے والوں كى طرح جنگ سے فرار نہ كريں ورنہ قبل از وقت موت ''موتوا''سے دوچار ہوجائيں گے_

١٠_ جنگ سے فرار خدا وند متعال كى طرف سے مقدرشدہ موت كو روك نہيں سكتا_

۱۹۲

فقال لهم الله موتوا ثم احياهم قاتلوا فى سبيل الله

يہ مطلب اس صورت ميں ممكن ہے كہ اس آيت ميں مذكور داستان بعد والى آيت كے لئے تمہيدہو _

١١_ خدا تعالى پورى انسانيت پر فضل كرنے والا ہے _ان الله لذو فضل على الناس

١٢_ موجودہ انسانوں كو گذشتہ امتوں كى تاريخ سے مطلع كرنا خدا وندمتعال كے ان پر فضل و كرم كى وجہ سے ہے_

ا لم تر الى الذين ان الله لذو فضل على الناس ممكن ہے ''ان الله ''اس داستان اور تاريخ كے نقل كرنے كى علت ہوجو اس آيت ميں بيان ہوئي ہے_

١٣_ لوگوں كى حيات، اللہ تعالى كا ان پر فضل و كرم ہے_ثم احياهم ان الله لذو فضل على الناس

''ان الله '' جس طرح داستان اور تاريخ كے نقل كرنے كى علت بن سكتاہے اسى طرح ''ثم احياھم'' كے جملے كى بھى علت بن سكتا ہے_

١٤_ خدا وند متعال كے فضل و كرم كے مقابلے ميں اكثر لوگ ناشكرے ہيں _لذو فضل و لكن اكثر الناس لايشكرون

١٥_ خدا وند متعال كے فضل و كرم كے مقابلے ميں انسانوں پر شكر كرنا فرض ہے_ان الله لذو فضل على الناس و لكن اكثر الناس لايشكرون

١٦_ لوگوں كى اكثريت كا كسى طرف ميلان ركھنا ، اس چيز كى قدر و قيمتكا معيار نہيں ہے _ولكن اكثر الناس لايشكرون

١٧_ جو مردے خدا كے حكم سے زندہ ہوئے وہ ايك عرصے تك اسى دنيا ميں زندگى گزارتے رہے_ثم احياهم ان الله لذو فضل على الناس زندہ ہونا تب فضل خدا شمار ہوگا كہ زندہ ہونے والا ايك مدت تك زندہ رہے لہذا اگر زندہ ہوتے ہى بلافاصلہ مر جائے تو بعيد ہے كہ اس كا زندہ ہونا اس پر خدا كے فضل و كرم كى علامت بن سكے_

١٨_ خدا وند عالم نے حضرت حزقيل (ع) كى دعا كو مورد استجابت قرار ديتے ہوئے كئي ہزار مردوں كو زندہ كرديا_

و هم الوف حذر الموت فقال لهم الله موتوا ثم احياهم

۱۹۳

قال الباقر(ع) : فمر بهم نبي ...يقال له حزقيل ...قال رب لو شئت لاحييتهم ...فاوحى الله تعالى اليه افتحب ذلك قال نعم يارب فعادوا احياء (١) امام باقر (ع) فرماتے ہيں ان كے قريب سے ايك نبى (ع) گزرے جن كا نام حزقيل (ع) تھا انہوں عرض كيا اے پروردگار اگر تو چاہے تو ان كو زندگى بخش دے پس اللہ تعالى نے اپنے اس نبى (ع) كى طرف وحى كى كيا تو ايسا چاہتاہے؟ عرض كيا ہاں اے پروردگار ...پس وہ لوگ زندہ ہوگئے

آيات خدا: ٢

اقدار: اقدار كا معيار ١٦

اكثريت: اكثريت كى ناشكرى ١٤ ;اكثريت كے ذريعہ قدر و قيمت كا جانچنا ١٦

انبياء (ع) : انبياء (ع) كى دعا ١٨

انسان: انسان كى حيات ١٣; انسان كى ذمہ دارى ١٥

تاريخ: تاريخ سے عبرت ٣ ; تاريخ كا فلسفہ٣، ٨ ; تاريخى واقعات كا ذكر ١، ٢، ٨، ١٢، ٧

جانچنا: قدر و قيمت كے جانچنے كا معيار ١٦

جہاد: جہاد ترك كرنے كى سزا ٩ ;جہاد كا ترك كرنا ١٠

حضرت حزقيل(ع) : حضرت حزقيل (ع) كى دعا ١٨

حيات: حيات كا سرچشمہ ٥

خدا تعالى: خدا تعالى كا فضل ١١، ١٢، ١٣، ١٤، ١٥; خدا تعالى كى قدرت٥ ;خدا تعالى كے احكام ١٧

خوف: موت سے خوف ١

دعا: قبوليت دعا ١٨

رجعت: دنيوى رجعت ١، ٤، ١٨

____________________

١) كافى ج٨، ص ١٩٨، ح٢٣٧ عيون اخبار الرضا (ع) ج١ ص ١٦٠ ،ح ١_

۱۹۴

روايت: ١٨

شكر: شكرخدا ١٥

شناخت : شناخت كے منابع ١٢

غور و فكر: غور و فكركى تشويق٨

قضا و قدر : ١٠

مردے: مردوں كو زندہ كرنا ١، ٢، ٤، ٨، ١٧، ١٨

معاشرہ: معاشرتى گروہ ١٤

مومنين: مومنين كى ذمہ دارى ٣

موت: موت سے فرار ٧; موت قبل از وقت ٩; موت كا سرچشمہ ٥ ;موت كى تقدير ١٠; موت كى حقيقت ٦

وَقَاتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (٢٤٤)

اور راہ خدا ميں جہاد كرو او ريادركھو كہ خدا سننے والا بھى ہے او رجاننے والابھى ہے_

١_ موت و حيات ميں اللہ تعالى كى حاكميت پر توجہ ، اس كى راہ ميں جنگ و جہاد كيلئے خوف و ہراس كو ختم كرديتى ہے_

ا لم تر الى الذين و قاتلوا فى سبيل الله

٢_ خدا كى راہ ميں جنگ ، زندگى كى نعمت كا شكرانہ ہے_ثم احياهم ...و لكن اكثر الناس لايشكرون_ و قاتلوا فى سبيل الله

زندگى كى نعمت پر لوگوں كى ناشكرى كے بيان كرنے كے بعد، جہاد كا حكم دينا ، درحقيقت زندگى كى نعمت پر خدا كا شكر ادا كرنے كى روش بتلانا ہے_

٣_ خدا كى راہ ميں جنگ و پيكار كرنا واجب ہے_

۱۹۵

و قاتلوا فى سبيل الله

٤_ كسى عمل كى قدر و قيمت تب ہوتى ہے جب وہ خدا كى راہ ميں ہو_و قاتلوا فى سبيل الله

٥_ خدا سميع (سننے والا) اور عليم (جاننے والا) ہے _ان الله سميع عليم

٦_ جنگ كرنے يا اسے ترك كرنے ميں انسان كے ہدف اور اس كى اپنى گفتارو موقف سے اللہ تعالى آگاہ ہے_*

ان الله سميع عليم

٧_ انسان كا خدا كے لامحدود علم پر ايمان ركھنا اور اس كى طرف متوجہ رہنا اسے راہ خدا ميں جنگ كى ترغيب دلاتا ہے _وقاتلوا فى سبيل الله و اعلموا ان الله سميع عليم

٨_ميدان كارزار ميں سخت ترين حالات ميں خدا تعالى كے وسيع علم پر توجہ ركھنا ضرورى ہے_و قاتلوا فى سبيل الله و اعلموا ان الله سميع عليم ظاہر يہ ہے كہ آيت ميں خدا كے علم پر توجہ كا ضرورى ہونا جہاد كے ہمراہ بيان كيا گياہے ''قاتلوا واعلموا'' يعنى جب تم جنگ ميں مشغول ہو تو متوجہ رہو كہ خدا سميع اور عليم ہے_

٩_ خدا كى راہ ميں جہاد سے بھاگنے والوں اور جہاد كى خلاف ورزى كرنے والوں كو خدانے خبردار كيا اور ڈرايا دھمكاياہے_و قاتلوا فى سبيل الله و اعلموا ان الله سميع عليم گويا كہ '' واعلموا ...'' خلاف ورزى كرنے والوں كو ڈرانے دھمكانے كے لئے ہے_

احكام: ٣

اسماء و صفات: سميع ٥; عليم ٥

اقدار: اقدار كا معيار ٤

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا علم ٦، ٧، ٨; اللہ تعالى كى تنبيہات ٩; اللہ تعالى كى حاكميت ١ ;اللہ تعالى كى دھمكياں ٩

۱۹۶

ايمان: ايمان كے اثرات ٧ : ايمان كے انفرادى اثرات ١ ; ايمان اور عمل ٧

تحريك: تحريك كے عوامل ٧

تخلف كرنے والے : تخلف كرنے والوں كو تنبيہ ٩

جہاد: احكام جہاد ٣ جہاد كا ترك كرنا ٦، ٩; جہاد كا شوق دلانا ٧; جہاد ميں خوف ١; راہ خدا ميں جہاد ٢، ٣

حيات: حيات كا منبع ١ ; نعمت حيات ٢

خوف: خوف سے مقابلہ ١

ذكر: ذكر كى اہميت ٨

راہ خدا: راہ خدا ميں حركت٤

سختي: سختى ميں ذكر ٨

شرعى فريضہ: شرعى فريضہ پر عمل كا پيش خيمہ٧

شكر: شكر نعمت ٢

علم: علم اور عمل ٧ ; علم كے اثرات ٧

عمل: عمل كے آداب ٤

موت: موت كا سرچشمہ ١

واجبات: ٣

۱۹۷

مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً وَاللّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (٢٤٥)

كون ہے جو خدا كو قرض حسن دے او رپھر خدا اسے كئي گنا كر كے واپس كردے خدا كم بھى كرسكتاہے او رزيادہ بھى او رتم سب اسى كى بارگاہ ميں پلٹائے جاؤگے_

١_ خدا كى راہ ميں جہاد كرنا بندوں كى طرف سے خداوند متعال كى بارگاہ ميں بہترين قرض ہے_*وقاتلوا ...من ذا الذى يقرض الله قرضا حسنا

٢_ خدا كى راہ ميں جنگ كرنے كے ليئے اسلحہ اور ديگر ساز و سامان فراہم كرنا مسلمانوں كى طرف سے خداوند متعال كى بارگاہ ميں بہترين قرض ہے _وقاتلوا ...من ذا الذى يقرض الله قرضا حسنا

٣_ خدا كى راہ ميں خرچ كرنا بندوں كا خدا پر قرض حسنہ ہے_من ذا الذى يقرض الله قرضا حسنا

اس آيت ميں ''قرض''سے مراد خدا كى راہ ميں انفاق ہے_ لہذا خدا كى راہ ميں خرچ كرنا اسے قرض دينا ہے_

٤_ خرچ كئے جانے والے مال كا مناسب وپسنديدہ ہونا نيز خرچ كرنے والے كى نيت كا خالص ہونا انفاق كے دو اہم جز ہيں _من ذا الذى يقرض الله قرضاً حسناً قرض كا قابل تحسين ہونامنحصر ہے '' قرضاً حسناً'' حسن فاعلى ( خلوص نيت اور ...) اور حسن فعلى (مرغوب مال كا خرچ ) پر_

٥_ جو لوگ خدا كو اپنى جان و مال كا قرض ديتے ہيں انہيں خداوند متعال كئي گنا زيادہ اجر ديتاہے_

من ذا الذى يقرض الله فيضاعفه له اضعافا كثيرة

٦_ لوگوں كو نيك كاموں اور خدا كى راہ ميں خرچ كرنے كا شوق دلانے كيلئے لوگوں كى منافع طلبى

۱۹۸

كى خصلت سے فائدہ اٹھانا قرآنى روشوں ميں سے ہے_من ذا الذى يقرض الله ...فيضاعفه له اضعافا كثيرة

٧_ خدا كے راستے ميں خرچ كرنا بہت قابل قدر ہے_من ذا الذى يقرض الله فيضاعفه له اضعافا كثيرة

چونكہ انفاق كو قرض شمار كرتے ہوئے اس پر بہت زيادہ اجر كا وعدہ كيا گيا ہے اس سے اس كے بہت زيادہ قابل قدر ہونے كا پتہ چلتا ہے_

٨_ كار خير كے انجام كا پيش خيمہ فراہم كرنے كيلئے محرك پيدا كرنا اچھا عمل ہے_من ذا الذى يقرض الله قرضا حسنا فيضاعفه له اضعافا كثيرة خدا نے اجر كا ذكر كر كے محركپيدا كيا ہے اور يہ طريقہ كا ر تربيت كرنے والوں كيلئے بہترين درس ہے_

٩_انسانوں كى تنگ دستى يا وسعت رزق خداوند عالم كے اختيار ميں ہے_و الله يقبض و يبسط

١٠_ انسانوں كے مادى وسائل اور امكانات كے محدوديا وسيع ہونے پر خدا وند متعال كى حاكميت ہے_و الله يقبض و يبسط

١١_تنگ دستى اور وسعت رزق (قبض و بسط) كے خدا كى طرف سے ہونے پر ايمان ، قرض دينے يا راہ خدا ميں انفاق سے مال ميں كمى ہو جانے كے بے بنياد خيال كى نفى كرتاہے_والله يقبض و يبسط

انفاق كے ذكر كے بعد، تنگ دستى اور وسعت رزق (قبض و بسط) كے خدا كى طرف سے ہونے كى يا ددہانى اس معنى كو بيان كرنے كے ليے ہے_

١٢_ الہى قبض و بسط پر ايمان انسان كے اندر انفاق كا جذبہ پيداكرتا ہے_و الله يقبض و يبسط

١٣_ جو كچھ خدا كو قرض ديا جاتا ہے وہ باقى رہتا ہے اور انسان كو اس كا كئي گنا زيادہ واپس ملتا ہے _

من ذا الذى يقرض الله فيضاعفه له اضعافا كثيرة

''فيضاعفہ''كى ضمير اپنے مفعول يعنى قرض كى طرف لوٹتى ہے يعنى جو مال قرض ديا جاتا ہے وہ كئي گنا ہوجاتا ہے اور انسان كو واپس كيا جاتا ہے يہ اس صورت ميں ہوسكتا ہے كہ وہ مال باقى ہو_

۱۹۹

١٤_ سب لوگوں كى ابتدا خدا سے ہے اور ان كى بازگشت بھى صرف اسى كى طرف ہوگي_و اليه ترجعون

''رجوع''كے معنى وہيں پر لوٹنے كے ہيں كہ جہاں سے آيا تھا_

١٥_ خدا كى طرف بازگشت اور پلٹنے پر ايمان، لوگوں كو خدا كى راہ ميں جنگ كرنے اور انفاق كرنے پر ابھارتا اور ترغيب دلاتا ہے_و قاتلوا فى سبيل الله من ذا الذى يقرض الله و اليه ترجعون

١٦_ خدا انفاق (خرچ) كرنے والوں كو دنيا اور آخرت دونوں جگہ اجر ديتاہے_فيضاعفه له اضعافا و اليه ترجعون ''اليہ ترجعون''آخرت ميں خدا تعالى كے اجر كى طرف اشارہ ہے، لہذا''فيضاعفہ لہ''دنيا ميں خدا كے اجر كا بيان ہے_

١٧_ امام مسلمين كو صلہ دينا اور اس كى مالى مدد كرنا خداوند عالم كو قرض دينے كے مصاديق ميں سے ہے_

من ذا الذى يقرض الله قرضا اس آيت كے بارے ميں امام موسى كاظم (ع) نے فرمايا :من ذا الذى نزلت فى صلة الامام (١) ترجمہ: ''من ذالذى ...''كى آيت امام كى مالى مدد كرنے كے بارے ميں نازل ہوئي ہے_

١٨_ خدا كے راستے ميں خرچ كرنے كا اجر بے حساب اور ناقابل شمار ہے_فيضاعفه له اضعافا كثيرة

امام صادق(ع) نے فرمايا:ان الكثير من الله عزوجل لايحصى و ليس له منتهى (٢) ترجمہ: خداوند عزوجل كى طرف سے كثير وہ ہے كہ نہ اسے گنا جاسكے اور نہ ہى اس كى انتہا ہو_

اجر: كئي گنا اجر٥، ١٣

انسان: انسان كا انجام ١٤; انسان كا مبداء ١٤ ;انسان كى نفع طلبى ٦; انسانى صفات ٦

انفاق: انفاق كا اجر١٣، ١٨; انفاق كا اخروى اجر ١٦; انفاق كا پيش خيمہ١٥;انفاق كا دنياوى اجر ١٦ ; انفاق كى تشويق ٦; انفاق كى قدر و قيمت ٣،٧;

____________________

١) كافى ج١، ص ٥٣٧، ح ٤، تفسير عياشى ،ج ١ ص ١٣١، ح٤٣٥_

٢) معانى الاخبار، ص ٣٩٧، ح ٥٤;نور الثقلين ، ج١ ، ص ٢٤٣، ح ٩٦٥_

۲۰۰